10. جنازوں کا بیان

【1】

بیماری کا ثواب

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کو کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے، یا اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند اور اس کے بدلے اس کا ایک گناہ معاف کردیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدہ بن جراح، ابوہریرہ، ابوامامہ، ابو سعید خدری، انس، عبداللہ بن عمرو بن العاص، اسد بن کرز، جابر بن عبداللہ، عبدالرحمٰن بن ازہر اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٤ (٢٥٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٩٥٣) ، موطا امام مالک/العین ٣ (٦) ، مسند احمد (٦/٣٩، ٤٢، ١٦٠، ١٧٣، ١٧٥، ١٨٥، ٢٠٢، ٢١٥، ٢١٥، ٢٥٥، ٢٥٧، ٢٧٨، ٢٧٩) (صحیح) وأخرجہ صحیح البخاری/المرضی ١ (٥٦٤٠) من غیر ہذا الوجہ بمعناہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (819) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 965

【2】

بیماری کا ثواب

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کو جو بھی تکان، غم، اور بیماری حتیٰ کہ فکر لاحق ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں یہ حدیث حسن ہے، ٢- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «عطاء بن يسار عن أبي هريرة رضي اللہ عنه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٣- وکیع کہتے ہیں : اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث میں «همّ» فکر کے بارے میں نہیں سنا گیا کہ وہ بھی گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ١ (٥٦٤١، ٥٦٤٢) ، صحیح مسلم/البروالصلة ١٤ (٢٥٧٣) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٦٥) ، مسند احمد (٣/٤، ٢٤، ٣٨) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ مومن کو دنیا میں جو بھی آلام و مصائب پہنچتے ہیں اللہ انہیں اپنے فضل سے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے ، لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب مومن صبر کرے ، اور اگر وہ صبر کے بجائے بےصبری کا مظاہرہ اور تقدیر کا رونا رونے لگے تو وہ اس اجر سے تو محروم ہو ہی جائے گا ، اور خطرہ ہے کہ اسے مزید گناہوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑجائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (2503) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 966

【3】

مریض کی عیادت

ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ برابر جنت میں پھل چنتا رہتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ثوبان کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابوغفار اور عاصم احول نے یہ حدیث بطریق : «عن أبي قلابة عن أبي الأشعث عن أبي أسماء عن ثوبان عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جس نے یہ حدیث بطریق : «عن أبي الأشعث عن أبي أسماء» روایت کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے، ٤- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابوقلابہ کی حدیثیں ابواسماء ہی سے مروی ہیں سوائے اس حدیث کے یہ میرے نزدیک بطریق : «عن أبي الأشعث عن أبي أسماء» مروی ہے، ٥- اس باب میں علی، ابوموسیٰ ، براء، ابوہریرہ، انس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البروالصلة ١٣ (٢٥٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢١٠٥) ، مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨١، ٢٨١، ٢٨٣، ٢٨٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 967

【4】

مریض کی عیادت

اس سند سے بھی ثوبان (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے : عرض کیا گیا : جنت کا خرفہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کے پھل توڑنا ۔ ایک دوسری سند سے ایوب سے اور ایوب نے ابوقلابہ سے، اور ابوقلابہ نے ابواسماء سے، اور ابواسماء نے ثوبان سے اور ثوبان نے نبی اکرم ﷺ سے خالد الحذاء کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، اور اس میں احمد بن عبدہ نے ابواشعث کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

【5】

مریض کی عیادت

ابوفاختہ سعید بن علاقہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا : ہمارے ساتھ حسن کے پاس چلو ہم ان کی عیادت کریں گے تو ہم نے ان کے پاس ابوموسیٰ کو پایا۔ تو علی (رض) نے پوچھا : ابوموسیٰ کیا آپ عیادت کے لیے آئے ہیں ؟ یا زیارت «شماتت» کے لیے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں، بلکہ عیادت کے لیے آیا ہوں۔ اس پر علی (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور جو شام کو عیادت کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- علی (رض) سے یہ حدیث کئی اور بھی طرق سے بھی مروی ہے، ان میں سے بعض نے موقوفاً اور بعض نے مرفوعاً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠١٠٨) (صحیح اس میں ” زائرا “ لفظ صحیح نہیں ہے، اس کی جگہ ” شامتا “ صحیح ہے ملاحظہ ہو ” الصحیحة “ رقم : ١٣٦٧) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1442) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 969

【6】

موت کی تمنا کرنے کی ممانعت

حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ میں خباب بن ارت (رض) کے پاس گیا، ان کے پیٹ میں آگ سے داغ کے نشانات تھے، تو انہوں نے کہا : نہیں جانتا کہ صحابہ میں کسی نے اتنی مصیبت جھیلی ہو جو میں نے جھیلی ہے، نبی اکرم ﷺ کے عہد میں میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہوتا تھا، جب کہ اس وقت میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں، اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں موت کی تمنا کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں موت کی تمنا ضرور کرتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- خباب (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، ابوہریرہ، اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٣ (٤١٦٣) ، ( تحفة الأشراف : ٣٥١١) ، مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٠، ١١١) ، والمؤلف فی القیامة ٤٠ (٢٤٨٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/المرضی ١٩ (٥٦٧٢) ، والدعوات ٣٠ (٦٣٤٩) ، والرقاق ٧ (٦٤٣٠) ، والتمنی ٦ (٧٢٣٤) ، صحیح مسلم/الذکر ٤ (٢٦٨١) ، سنن النسائی/الجنائز ٢ (١٨٢٤) ، مسند احمد (٥/١٠٩، ١١١، ١١٢) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحكام الجنائز (59) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 970 انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ہرگز کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا نہ کرے۔ بلکہ وہ یوں کہے : «اللهم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي» اے اللہ ! مجھے زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے جب میرے لیے موت بہتر ہو ۔

【7】

None

اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ہرگز کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا نہ کرے۔ بلکہ وہ یوں کہے: «اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي» ”اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے جب میرے لیے موت بہتر ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

【8】

مریض کے لئے تعوذ

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر جبرائیل نے پوچھا : اے محمد ! کیا آپ بیمار ہیں ؟ فرمایا : ہاں، جبرائیل نے کہا : «باسم اللہ أرقيك من کل شيء يؤذيك من شر کل نفس وعين حاسد باسم اللہ أرقيك والله يشفيك» میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو ایذاء پہنچا رہی ہے، ہر نفس کے شر سے اور ہر حاسد کی آنکھ سے، میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں، اللہ آپ کو شفاء عطا فرمائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١٦ (٢١٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٦ (٣٥٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٦٣) ، مسند احمد (٣/٢٨، ٥٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3523) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 972

【9】

مریض کے لئے تعوذ

عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں کہ میں اور ثابت بنانی دونوں انس بن مالک (رض) کے پاس گئے۔ ثابت نے کہا : ابوحمزہ ! میں بیمار ہوگیا ہوں، انس نے کہا : کیا میں تم پر رسول اللہ ﷺ کے منتر کے ذریعہ دم نہ کر دوں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ! انس نے کہا : «اللهم رب الناس مذهب الباس اشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت شفاء لا يغادر سقما» اے اللہ ! لوگوں کے رب ! مصیبت کو دور کرنے والے ! شفاء عطا فرما، تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شافی نہیں۔ ایسی شفاء دے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہ جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالعزیز بن صہیب کی روایت بسند «ابی نضرة عن ابی سعید الخدری» زیادہ صحیح ہے یا عبدالعزیز کی انس سے روایت ہے ؟ تو انہوں نے کہا : دونوں صحیح ہیں، ٣- عبدالصمد بن عبدالوارث نے بسند «عبدالوارث عن أبيه عن عبد العزيز بن صهيب عن أبي نضرة عن أبي سعيد» روایت کی ہے اور عبدالعزیز بن صھیب نے انس سے بھی روایت کی ہے، ٤- اس باب میں انس اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٣٨ (٥٧٤٢) ، سنن ابی داود/ الطب ١٩ (٣٨٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٣٤) ، مسند احمد (٣/١٥١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 973

【10】

وصیت کی ترغیب

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلمان، جس کی دو راتیں بھی اس حال میں گزریں کہ اس کے پاس وصیت کرنے کی کوئی چیز ہو، اس پر لازم ہے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن ابی اوفی (رض) سے بھی حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ١ (١٦٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٢ (٢٦٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ٧٩٤٤) (صحیح) مسند احمد (٢/٥٧، ٨٠) ، (ویأتي عند المؤلف فی الوصایا ٣ (٢١١٨) ، وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٣٨) ، صحیح مسلم/الوصایا (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦٤٥، ٣٦٤٦، ٣٦٤٨) ، موطا امام مالک/الوصایا ١ (١) ، مسند احمد (٢/٤، ١٠، ٣٤، ٥٠، ١١٣) ، سنن الدارمی/الوصایا ١ (٣٢٣٩) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2699) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 974

【11】

تہائی اور چوتھائی مال کی وصیت

سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت فرمائی، میں بیمار تھا۔ تو آپ نے پوچھا : کیا تم نے وصیت کردی ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں (کر دی ہے) ، آپ نے فرمایا : کتنے کی ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی۔ آپ نے پوچھا : اپنی اولاد کے لیے تم نے کیا چھوڑا ؟ میں نے عرض کیا : وہ مال سے بےنیاز ہیں، آپ نے فرمایا : دسویں حصے کی وصیت کرو ۔ تو میں برابر اسے زیادہ کراتا رہا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : تہائی مال کی وصیت کرو، اور تہائی بھی زیادہ ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ تہائی مال کی وصیت بھی زیادہ ہے مستحب یہی سمجھتے ہیں کہ تہائی سے بھی کم کی وصیت کی جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سعد (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- سعد (رض) سے یہ حدیث دوسرے اور طرق سے بھی مروی ہے، ٣- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ اور ان سے «والثلث کثير» کی جگہ «والثلث کبير» تہائی بڑی مقدار ہے بھی مروی ہے، ٤- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس بات کو صحیح قرار نہیں دیتے کہ آدمی تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے اور مستحب سمجھتے ہیں کہ تہائی سے کم کی وصیت کرے، ٥- سفیان ثوری کہتے ہیں : لوگ چوتھائی حصہ کے مقابل میں پانچویں حصہ کو اور تہائی کے مقابلے میں چوتھائی حصہ کو مستحب سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ جس نے تہائی کی وصیت کردی اس نے کچھ نہیں چھوڑا۔ اور اس کے لیے تہائی سے زیادہ جائز نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الوصایا ٣ (٣٦٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٣٨٩٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٣٦ (١٢٩٥) ، والوصایا ٢ (٢٧٤٢) ، ومناقب الأنصار ٤٩ (٣٩٣٦) ، والمغازي ٧٧ (٤٣٩٥) ، والنفقات ١ (٥٣٥٤) ، المرضی ١٣ (٥٦٥٩) ، والدعوات ٤٣ (٦٣٧٣) ، والفرائض ٦ (٦٧٣٣) ، صحیح مسلم/الوصایا ٢ (١٦٢٨) ، سنن ابی داود/ الوصایا ٢ (٢٨٦٤) ، سنن النسائی/الوصایا ٣ (٣٦٥٦، ٣٦٦٠، ٣٦٦١، ٣٦٦٢، ٣٦٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٥ (٢٧٠٨) ، موطا امام مالک/الوصایا ٣ (٤) ، مسند احمد (١/١٦٨، ١٧٢، ١٧٦، ١٧٩) ، سنن الدارمی/الوصایا ٧ (٣٢٣٨، ٣٢٣٩) والمؤلف/الوصایا ١ (٢١١٦) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2708) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 975

【12】

حالت نزع میں مریض کو تلقین اور دعا کرنا

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اپنے مرنے والے لوگوں کو جو بالکل مرنے کے قریب ہوں «لا إله إلا الله» کی تلقین ١ ؎ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ام سلمہ، عائشہ، جابر، سعدی مریہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- سعدی مریہ طلحہ بن عبیداللہ کی بیوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١ (٩١٦) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٢٠ (٣١١٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٠ (٣١١٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٤ (١٨٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣ (١٤٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ٤٤٠٣) ، مسند احمد (٣/٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی مرنے والے کے پاس «لا إله إلا الله» پڑھ کر اسے کلمہ شہادت کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی اسے پڑھنے لگے ، براہ راست اس سے پڑھنے کے لیے نہ کہا جائے کیونکہ وہ تکلیف کی شدت سے جھنجھلا کر انکار بھی کرسکتا ہے جس سے کفر لازم آئے گا ، لیکن شیخ ناصرالدین البانی نے اسے درست قرار نہیں دیا وہ کہتے ہیں کہ تلقین کا مطلب یہ ہے کہ اسے «لا إله إلا الله» پڑھنے کے لیے کہا جائے۔ افضل یہ ہے کہ مریض کی حالت دیکھ کر عمل کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1444 و 1445) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 976

【13】

حالت نزع میں مریض کو تلقین اور دعا کرنا

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : جب تم مریض کے پاس یا کسی مرے ہوئے آدمی کے پاس آؤ تو اچھی بات کہو ١ ؎، اس لیے کہ جو تم کہتے ہو اس پر ملائکہ آمین کہتے ہیں ، جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا، تو میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابوسلمہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا : تو تم یہ دعا پڑھو : «اللهم اغفر لي وله وأعقبني منه عقبی حسنة» اے اللہ ! مجھے اور انہیں معاف فرما دے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما وہ کہتی ہیں کہ : جب میں نے یہ دعا پڑھی تو اللہ نے مجھے ایسی ہستی عطا کردی جو ان سے بہتر تھی یعنی رسول اللہ ﷺ کو عطا کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام سلمہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ مستحب سمجھا جاتا تھا کہ مریض کو اس کی موت کے وقت «لا إله إلا الله» کی تلقین کی جائے، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں : جب وہ (میت) اسے ایک بار کہہ دے اور اس کے بعد پھر نہ بولے تو مناسب نہیں کہ اس کے سامنے باربار یہ کلمہ دہرایا جائے، ٤- ابن مبارک کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان کی موت کا وقت آیا، تو ایک شخص انہیں «لا إله إلا الله» کی تلقین کرنے لگا اور باربار کرنے لگا، عبداللہ بن مبارک نے اس سے کہا : جب تم نے ایک بار کہہ دیا تو میں اب اسی پر قائم ہوں جب تک کوئی اور گفتگو نہ کروں، عبداللہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مراد اس سے وہی تھی جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ جس کا آخری قول «لا إله إلا الله» ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣ (٩١٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ١٩ (٣١١٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٧ (١٨٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤ (١٤٤٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٨١٦٢) ، مسند احمد (٦/٢٩١، ٣٠٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٥ (١٥٩٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٤ (٤٢) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : مثلاً مریض سے کہو اللہ تمہیں شفاء دے اور مرے ہوئے آدمی سے کہو اللہ تمہاری مغفرت فرمائے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1447) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 977

【14】

موت کی سختی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ سکرات کے عالم میں تھے، آپ کے پاس ایک پیالہ تھا، جس میں پانی تھا، آپ پیالے میں اپنا ہاتھ ڈالتے پھر اپنے چہرے پر ملتے اور فرماتے : «اللهم أعني علی غمرات الموت أو سکرات الموت» اے اللہ ! سکرات الموت میں میری مدد فرما ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٤ (١٦٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٥٦) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن سرجس مجہول الحال راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1623) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (357) ، المشکاة (1564) ، ضعيف الجامع الصغير (1176) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 978

【15】

موت کی سختی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی موت کی جو شدت میں نے دیکھی، اس کے بعد میں کسی کی جان آسانی سے نکلنے پر رشک نہیں کرتی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالرحمٰن بن علاء کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : وہ علاء بن اللجلاج ہیں، میں اسے اسی طریق سے جانتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٢٧٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ موت کی سختی برے ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ ترقی درجات اور گناہوں کی مغفرت کا بھی سبب ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل المحمدية (325) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 979

【16】

موت کی سختی

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : مومن کی جان تھوڑا تھوڑا کر کے نکلتی ہے جیسے جسم سے پسینہ نکلتا ہے اور مجھے گدھے جیسی موت پسند نہیں ۔ عرض کیا گیا : گدھے کی موت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اچانک موت ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٣) (ضعیف جداً ) (سند میں حسام متروک راوی ہے) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 980

【17】

موت کی سختی

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی دونوں لکھنے والے (فرشتے) دن و رات کسی کے عمل کو لکھ کر اللہ کے پاس لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ دفتر کے شروع اور اخیر میں خیر (نیک کام) لکھا ہوا پاتا ہے تو فرماتا ہے : میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے بندے کے سارے گناہ معاف کردینے جو اس دفتر کے دونوں کناروں شروع اور اخیر کے درمیان میں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (التحفہ : ٥٣٣) (ضعیف جداً ) (اس کے راوی تمام بن نجیح ضعیف ہیں) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 981

【18】

بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن پیشانی کے پسینہ کے ساتھ مرتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن بریدہ سے قتادہ کے سماع کا علم نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٥ (١٨٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥ (١٥٥٢) ، مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٧، ٣٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مومن موت کی شدت سے دو چار ہوتا ہے تاکہ یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن جائے ، ( شدت کے وقت آدمی کی پیشانی پر پسینہ آ جاتا ہے ) یا یہ مطلب ہے کہ موت اسے اچانک اس حال میں پا لیتی ہے کہ وہ رزق حلال اور ادائیگی فرائض میں اس قدر مشغول رہتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ سے تر رہتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1452) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 982

【19】

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک نوجوان کے پاس آئے اور وہ سکرات کے عالم میں تھا۔ آپ نے فرمایا : تم اپنے کو کیسا پا رہے ہو ؟ اس نے عرض کیا : اللہ کی قسم، اللہ کے رسول ! مجھے اللہ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں اس جیسے وقت میں جس بندے کے دل میں جمع ہوجاتی ہیں تو اللہ اسے وہ چیز عطا کردیتا ہے جس کی وہ اس سے امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن اور غریب ہے، ٢- اور بعض لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٣٠٨ (١٠٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣١ (٤٢٦١) (تحفة الأشراف : ٢٦٢) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4261) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 983

【20】

کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے۔

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «نعی» (موت کی خبر دینے) ١ ؎ سے بچو، کیونکہ «نعی» جاہلیت کا عمل ہے ۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : «نعی» کا مطلب میت کی موت کا اعلان ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں حذیفہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٤٦١) (ضعیف) (سند میں میمون ابو حمزہ اعور ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : کسی کی موت کی خبر دینے کو «نعی» کہتے ہیں ، «نعی» جائز ہے خود نبی اکرم ﷺ نے نجاشی کی وفات کی خبر دی ہے ، اسی طرح زید بن حارثہ ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رض) کی وفات کی خبریں بھی آپ نے لوگوں کو دی ہیں ، یہاں جس «نعی» سے بچنے کا ذکر ہے اس سے اہل جاہلیت کی «نعی» ہے ، زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرجاتا تھا تو وہ ایک شخص کو بھیجتے جو محلوں اور بازاروں میں پھر پھر کر اس کے مرنے کا اعلان کرتا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف تخريج إصلاح المساجد (108) // ضعيف الجامع الصغير (2211) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 984

【21】

کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے۔

اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح مروی ہے، اور راوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا ہے کہ «نعی» موت کے اعلان کا نام ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، ٣- ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں، یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں، ٤- بعض اہل علم نے «نعی» کو مکروہ قرار دیا ہے، ان کے نزدیک «نعی» یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ فلاں مرگیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں، ٥- بعض اہل علم کہتے ہیں : اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کو اس کے مرنے کی خبر دی جائے، ٦- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کو اس کے اپنے کسی قرابت دار کے مرنے کی خبر دی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 985

【22】

کسی کی موت کی خبر کا اعلان کرنا مکروہ ہے۔

حذیفہ بن الیمان (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جب میں مرجاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات «نعی» ہوگی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٤ (١٤٩٧) (تحفة الأشراف : ٣٣٠٣) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1476) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 986

【23】

صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٥ (١٥٩٦) (تحفة الأشراف : ٨٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ صدمے کا پہلا جھٹکا جب دل پر لگتا ہے اس وقت آدمی صبر کرے اور بےصبری کا مظاہرہ ، اپنے اعمال و حرکات سے نہ کرے تو یہی صبر کامل ہے جس پر اجر مترتب ہوتا ہے ، بعد میں تو ہر کسی کو چار و ناچار صبر آ ہی جاتا ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 987

【24】

صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧ (١٢٥٢) ، و ٣١ (١٢٨٣) ، و ٤٢ (١٣٠٢) ، والأحکام ١١ (٧١٥٤) ، صحیح مسلم/الجنائز ٨ (٩٢٦) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٢٧ (٣١٢٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٢ (١٨٧٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٩) ، مسند احمد (٣/١٣٠، ١٤٣، ٢١٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1596) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 988

【25】

میت کو بوسہ دینا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) کا بوسہ لیا - وہ انتقال کرچکے تھے - آپ رو رہے تھے۔ یا (راوی نے) کہا : آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم ﷺ کا بوسہ لیا ٢ ؎ اور آپ انتقال فرما چکے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٠ (٣١٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٧ (٢٤٥٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٥٩) ، مسند احمد (٦/٤٣، ٥٥) (صحیح) (ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی ٤٩٥) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمان میت کو بوسہ لینا اور اس پر رونا جائز ہے ، رہیں وہ احادیث جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تو وہ ایسے رونے پر محمول کی جائیں گی جس میں بین اور نوحہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1456) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 989

【26】

میت کو غسل دینا

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک بیٹی ١ ؎ کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا : اسے طاق بار غسل دو ، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو ، آخر میں کافور ملا لینا ، یا فرمایا : تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دینا ، چناچہ جب ہم (نہلا کر) فارغ ہوگئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا : اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو ۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں ٢ ؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں، یہ ہے کہ انہوں نے کہا : اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ ہشیم کہتے ہیں : میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھر ہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ٣ ؎ ہشیم کہتے ہیں : پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کر رہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ (رض) سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام عطیہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام سلیم (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے، ٥- مالک بن انس کہتے ہیں : ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اسے پاک کردیا جائے گا، ٦- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کا قول کہ اسے غسل دیا جائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یا کسی اور چیز کے پانی سے پاک کردیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیا جائے۔ تین بار سے کم غسل نہ دیا جائے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو ، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کردیں تو یہ بھی کافی ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا تین یا پانچ بار کا حکم دینا محض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں، ٧- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : ہر مرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہوگا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملا لیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٧) ، والجنائز ١٠ (١٢٥٥) ، و ١١ (١٢٥٦) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣٣ (٣١٤٤، ٣١٤٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٣١ (١٨٨٥) ، و ٣٢ (١٨٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٨١٠٢، و ١٨١٠٩، و ١٨١١١، و ١٨١٢٤، ١٨١٣٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٨ (١٢٥٣) ، و ٩ (١٢٥٤) ، و ١٢ (١٢٥٧) ، و ١٣ (١٢٥٨) ، و ١٤ (١٢٦٠) ، و ١٥ (١٢٦١) ، و ١٦ (١٢٦٢) ، و ١٧ (١٢٦٣) ، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣٣ (٣١٤٢، ٣١٤٦، ٣١٤٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٣ (٣١٤٢، ٣١٤٣، ٣١٤٦، ٣١٤٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٢٨ (١٨٨٢) ، و ٣٠ (١٨٨٤) ، و ٣٣ (١٨٨٧) ، و ٣٤ (١٨٨٨، ١٨٨٩، ١٨٩٠) ، و ٣٥ (١٨٩١، ١٨٩٢) ، و ٣٦ (١٨٩٤، ١٨٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٥٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ١ (٢) ، مسند احمد (٦/٤٠٧) ، من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : جمہور کے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب (رض) تھیں ، ایک قول یہ ہے کہ عثمان (رض) کی اہلیہ ام کلثوم (رض) تھیں ، صحیح پہلا قول ہی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی خالد ، منصور اور ہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔ ٣ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دینا چاہیئے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1458) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 990

【27】

میت کو مشک لگانا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہترین خوشبو مشک ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ٥ (٢٢٥٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٢ (١٩٠٦) ، والزینة ٣ (٥١٢٢) ، و ٧٤ (٥٢١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣١١) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/المصدرالمذکور، سنن ابی داود/ الجنائز ٣٧ (٣١٥٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٢ (١٩٠٧) ، مسند احمد (٣/٣٦، ٤٠، ٤٦، ٦٢) من غیر ہذا الوجہ۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 991 امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اسے مستمر بن ریان نے بھی بطریق : «أبي نضرة عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مستمر بن ریان ثقہ ہیں، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- اور بعض اہل علم نے میت کے لیے مشک کو مکروہ قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 992

【28】

میت کو مشک لگانا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے مشک کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ تمہاری خوشبوؤں میں سب سے بہتر خوشبو ہے ۔

【29】

میت کو غسل دے کر خود غسل کرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میت کو نہلانے سے غسل اور اسے اٹھانے سے وضو ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- ابوہریرہ (رض) سے یہ موقوفاً بھی مروی ہے، ٣- اس باب میں علی اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کو غسل دے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تو اس پر غسل ہے، ٥- بعض کہتے ہیں : اس پر وضو ہے۔ مالک بن انس کہتے ہیں : میت کو غسل دینے سے غسل کرنا میرے نزدیک مستحب ہے، میں اسے واجب نہیں سمجھتا ١ ؎ اسی طرح شافعی کا بھی قول ہے، ٦- احمد کہتے ہیں : جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں ہوگا۔ رہی وضو کی بات تو یہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہا گیا ہے، ٧- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : وضو ضروری ہے ٢ ؎، عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جس نے میت کو غسل دیا، وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٦٣) (تحفة الأشراف : ١٧٢٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جمہور نے باب کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے «ليس عليكم في غسل ميتكم غسل إذا اغسلتموه إن ميتكم يموت طاهرا وليس بنجس ، فحسبکم أن تغسلوا أيديكم» جب تم اپنے کسی مردے کو غسل دو تو تم پر غسل واجب نہیں ہے ، اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی ( یعنی عورتوں ، مردوں ، بچوں میں سے ہر ایک ) پاک ہی مرتا ہے ، وہ ناپاک نہیں ہوتا تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لیا کرو لہٰذا اس میں اور باب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا جائے ، یا یہ کہا جائے کہ غسل سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے ، اور صحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانا مستحب ہے۔ ٢ ؎ : انہوں نے باب کی حدیث کو غسل کے وجوب پر محمول کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1463) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 993

【30】

کفن کس طرح دینا مستحب ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو بھی کفناؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سمرہ، ابن عمر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اہل علم اسی کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں : میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ آدمی انہی کپڑوں میں کفنایا جائے جن میں وہ نماز پڑھتا تھا، ٤- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : کفنانے کے لیے میرے نزدیک سب سے پسندیدہ کپڑا سفید رنگ کا کپڑا ہے۔ اور اچھا کفن دینا مستحب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ١٦ (٤٠٦١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٢ (١٤٧٢) (تحفة الأشراف : ٥٥٣٤) ، مسند احمد (١/٣٥٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں امر استحباب کے لیے ہے اس امر پر اجماع ہے کہ کفن کے لیے بہتر سفید کپڑا ہی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1472) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 994

【31】

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کوئی اپنے بھائی کا (کفن کے سلسلے میں) ولی (ذمہ دار) ہو تو اسے اچھا کفن دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- ابن مبارک کہتے ہیں کہ سلام بن ابی مطیع آپ کے قول «وليحسن أحدکم كفن أخيه» اپنے بھائی کو اچھا کفن دو کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے کی صفائی اور سفیدی ہے، اس سے قیمتی کپڑا مراد نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٢ (١٤٧٤) (تحفة الأشراف : ١٢١٢٥) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 995

【32】

نبی اکرم ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو تین سفید ١ ؎ یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا ٢ ؎ نہ ان میں قمیص ٣ ؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ (رض) سے کہا : لوگ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا ؟ تو ام المؤمنین عائشہ نے کہا : چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کردیا تھا، آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤١) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣٤ (٣١٥٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٩ (٩٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١١ (١٤٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٧٨٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ١٨ (١٢٦٤) ، و ٢٣ (١٢٧١) ، و ٢٤ (١٢٧٢) ، و ٩٤ (١٣٨٧) ، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور) ، الجنائز (٣١٥١) ، سنن النسائی/الجنائز ٣٩ (١٨٩٨ و ١٨٩٩) ، موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٥) ، مسند احمد (٦/٤٠، ٩٣، ١١٨، ١٣٢، ١٦٥، ٢٣١) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے نزدیک کفنی ، تہ بند اور بڑی چادر ہے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ ( پگڑی ) جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے «كفن رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم في ثلاثة أثواب بحرانية : الحلة ، ثوبان ، وقميصه الذي مات فيه» تو یہ منکر ہے اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں ، اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث «خير الکفن الحلة» بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔ ٣ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہور کا یہی قول ہے ، لیکن مالکیہ اور حنفیہ استحباب کے قائل ہیں ، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ شمار کی گئی چیز کی نفی ہو یعنی قمیص اور عمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1469) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 996

【33】

نبی اکرم ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمزہ بن عبدالمطلب (رض) کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اور ان سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے، ٣- اس باب میں علی ١ ؎، ابن عباس، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے، ٥- سفیان ثوری کہتے ہیں : آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اور دو کپڑے بھی کافی ہوجاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں : عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایا جائے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٣٦٩) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ ، احمد اور بزار نے «كفن النبي صلی اللہ عليه وسلم في سبعة أثواب» کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جو سئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔ ٢ ؎ : اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ (رض) کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اور ابوداؤد نے کی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں ، لیلیٰ کہتی ہیں : «کنت فیمن غسل أم کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم عندو فاتہا ، فکان أوّل ما أعطانا رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم الحقاء ، ثم الدرع ثم الخمار ، ثم الملحفۃ ، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر ، قالت : و رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم جالس عندالباب معہ کفنہا یناولناہا ثوباً ثوباً» لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن الأحكام (59 - 60) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 997

【34】

اہل میت کے لئے کھانا پکانا

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ جب جعفر طیار کے مرنے کی خبر آئی ١ ؎ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاؤ، اس لیے کہ آج ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس میں وہ مشغول ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم میت کے گھر والوں کے مصیبت میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کچھ بھیجنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے، ٣- جعفر بن خالد کے والد خالد سارہ کے بیٹے ہیں اور ثقہ ہیں۔ ان سے ابن جریج نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٣٠ (٣١٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٩ (١٦١٠) (تحفة الأشراف : ٥٢١٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : جعفر بن ابی طالب (رض) کی شہادت ٨ ھ میں غزوہ موتہ میں ہوئی تھی ، ان کی موت یقیناً سب کے لیے خاص کر اہل خانہ کے لیے رنج و غم لے کر آئی۔ ٢ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اہل میت کے لیے کھانا بھیج دیں۔ مگر آج کے مبتدعین نے معاملہ الٹ دیا ، تیجا ، قل ، ساتویں اور چالیسویں جیسی ہندوانہ رسمیں ایجاد کر کے میت کے ورثاء کو خوب لوٹا جاتا ہے ، «العیاذ باللہ من ہذہ الخرافات»۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1610) ، المشکاة (1739) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 998

【35】

مصیبت کے وقت چہرہ پیٹنا اور گریبان پھاڑنا منع ہے۔

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو گریبان پھاڑے، چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی ہانک پکارے ١ ؎ ہم میں سے نہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٥ (١٢٩٤) ، والمناقب ٨ (٣٥١٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١٩ (١٨٦٣) ، و ٢١ (١٨٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٢ (١٥٨٤) (تحفة الأشراف : ٩٥٥٩) ، مسند احمد (١/٣٨٦، ٤٤٢) (صحیح) ووأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٣٨ (١٢٩٧) ، و ٣٩ (١٢٩٨) ، والمناقب ٨ (٣٥١٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٣) ، سنن النسائی/الجنائز ١٧ (١٨٦١) ، مسند احمد (١/٤٦٥) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : جاہلیت کی ہانک پکارنے سے مراد بین کرنا ہے ، جیسے ، ہائے میرے شیر ! میرے چاند ، ہائے میرے بچوں کو یتیم کر جانے والے عورتوں کے سہاگ اجاڑ دینے والے ! وغیرہ وغیرہ کہہ کر رونا۔ ٢ ؎ : یعنی ہم مسلمانوں کے طریقے پر نہیں۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کے غیر مسلموں جیسے جزع و فزع کے طور طریقے دیکھ کر اس حدیث کی صداقت کس قدر واضح ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1584) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 999

【36】

نوحہ حرام ہے

علی بن ربیعہ اسدی کہتے ہیں کہ انصار کا قرظہ بن کعب نامی ایک شخص مرگیا، اس پر نوحہ ١ ؎ کیا گیا تو مغیرہ بن شعبہ (رض) آئے اور منبر پر چڑھے۔ اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا : کیا بات ہے ؟ اسلام میں نوحہ ہو رہا ہے۔ سنو ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس پر نوحہ کیا گیا اس پر نوحہ کیے جانے کا عذاب ہوگا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مغیرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، علی، ابوموسیٰ ، قیس بن عاصم، ابوہریرہ، جنادہ بن مالک، انس، ام عطیہ، سمرہ اور ابو مالک اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٣ (١٢٩١) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ١١٥٢٠) ، مسند احمد (٤/٢٤٥، ٢٥٢) ، (بزیادة في السیاق) (صحیح) وانظر : مسند احمد (٢/٢٩١، ٤١٤، ٤١٥، ٤٥٥، ٥٢٦، ٥٣١) وضاحت : ١ ؎ : میت پر اس کی خوبیوں اور کمالات بیان کر کے چلاّ چلاّ کر رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : یہ عذاب اس شخص پر ہوگا جو اپنے ورثاء کو اس کی وصیت کر کے گیا ہو ، یا اس کا اپنا عمل بھی زندگی میں ایسا ہی رہا ہو اور اس کی پیروی میں اس کے گھر والے بھی اس پر نوحہ کر رہے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (28 - 29) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1000

【37】

نوحہ حرام ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی ہیں، لوگ انہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے : نوحہ کرنا، حسب و نسب میں طعنہ زنی، اور بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانے کا عقیدہ رکھنا مثلاً یوں کہنا کہ ایک اونٹ کو کھجلی ہوئی اور اس نے سو اونٹ میں کھجلی پھیلا دی تو آخر پہلے اونٹ کو کھجلی کیسے لگی ؟ اور نچھتروں کا عقیدہ رکھنا۔ مثلاً فلاں اور فلاں نچھتر (ستارے) کے سبب ہم پر بارش ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٨٤) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (735) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1001

【38】

نوحہ حرام ہے

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمر (رض) کی حدیث صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کی ایک جماعت نے میت پر رونے کو مکروہ (تحریمی) قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ اور وہ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، ٤- اور ابن مبارک کہتے ہیں : مجھے امید ہے کہ اگر وہ (میت) اپنی زندگی میں لوگوں کو اس سے روکتا رہا ہو تو اس پر اس میں سے کچھ نہیں ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١٤ (١٨٥١) (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٧) ، و ٣٣ (١٢٩٠، ١٢٩١) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٢٧) ، سنن النسائی/الجنائز ١٤ (١٨٤٩) ، و ١٥ (١٨٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٤ (١٥٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٩٠٣١) ، مسند احمد (١/٢٦، ٣٦، ٤٧، ٥٠، ٥١، ٥٤) ، من غیر ہذا الوجہ۔ و راجع أیضا مسند احمد (٦/٢٨١) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1593) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1002

【39】

نوحہ حرام ہے

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی بھی مرجائے پھر اس پر رونے والا کھڑا ہو کر کہے : ہائے میرے پہاڑ، ہائے میرے سردار یا اس جیسے الفاظ کہے تو اسے دو فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے، وہ اسے گھونسے مارتے ہیں (اور کہتے جاتے ہیں) کیا تو ایسا ہی تھا ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٤ (١٥٩٤) (تحفة الأشراف : ٩٠٣١) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1594) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1003

【40】

میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میت کو اپنے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جاتا ہے ، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : اللہ (ابن عمر) پر رحم کرے، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا، انہیں وہم ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو یہ بات اس یہودی کے لیے فرمائی تھی جو مرگیا تھا : میت کو عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عائشہ (رض) سے مروی ہے، ٣- اس باب میں ابن عباس، قرظہ بن کعب، ابوہریرہ، ابن مسعود اور اسامہ بن زید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- بعض اہل علم اسی جانب گئے ہیں اور ان لوگوں نے آیت : «ولا تزر وازرة وزر أخری» کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، کا مطلب بھی یہی بیان کیا ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٥٦٤ و ١٧٦٨٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/المغازي ٨ (٣٩٧٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٢٨-٩٢٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٢٩ (٣١٢٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١٥ (١٨٥٦) ، مسند احمد (٢/٣٨) ، و (٦/٣٩، ٥٧، ٩٥، ٢٠٩) ، من غیر ہذا الطریق، وانظر أیضا (رقم : ١٠٠٦) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1004

【41】

میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس لے گئے تو دیکھا کہ ابراہیم کا آخری وقت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ابراہیم کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور رو دیا۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا : کیا آپ رو رہے ہیں ؟ کیا آپ نے رونے منع نہیں کیا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا : نہیں، میں تو دو احمق فاجر آوازوں سے روکتا تھا : ایک تو مصیبت کے وقت آواز نکالنے، چہرہ زخمی کرنے سے اور گریبان پھاڑنے سے، دوسرے شیطان کے نغمے سے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٤٨٣) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : شیطان کے نغمے سے مراد غناء مزامیر ہیں ، یعنی گانا بجانا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1005

【42】

میت پر چلائے بغیر رونا جائز ہے

عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے سنا اور ان سے ذکر کیا گیا تھا کہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میت پر لوگوں کے رونے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے (عائشہ (رض) نے کہا) اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے۔ سنو، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا۔ بلکہ ان سے بھول ہوئی ہے یا وہ چوک گئے ہیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک یہودی عورت کے پاس سے ہوا جس پر لوگ رو رہے تھے۔ تو آپ نے فرمایا : یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٩) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٧ (١٨٥) (تحفة الأشراف : ١٧٩٤٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/المغازي ٨ (٣٩٧٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣١) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٢٩ (٣١٣٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١٥ (١٨٥٦، ١٨٥٨، ١٨٥٩) ، مسند احمد (٢/٣٨) ، و (٦/٣٩، ٥٧، ٩٥، ٢٠٩) من غیر ہذا الوجہ والسیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (28) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1006

【43】

جنازہ کے آگے چلنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر سب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٩ (٣١٧٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٦ (١٩٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٢) ، مسند احمد (٢/٨، ١٢٢) (تحفة الأشراف : ٦٨٢) (صحیح) وأخرجہ ما لک في المؤطا/الجنائز ٢ (٨) عن الزہري مرسلاً ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1482) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1007

【44】

جنازہ کے آگے چلنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) سب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٦٨٠٨ و ٦٨١٢ و ٦٩٧٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1008

【45】

جنازہ کے آگے چلنا

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے، اور زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ معمر، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اور بھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے، ٢- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٣- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے، ٤- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیاد بن سعد، منصور، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے، ٥- اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ١ ؎، ٦- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : و موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٨) ، انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٩٣٩٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ملاحظہ ہو اگلی حدیث ( ١٠١٠) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آرہی ہے «الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها» تو یہ روایت صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آرہی ہے۔ ( ملاحظہ ہو : ١٠١١) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1009

【46】

جنازہ کے آگے چلنا

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) جنازے کے آگے چلتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : یہ حدیث غلط ہے اس میں محمد بن بکر نے غلطی کی ہے۔ یہ حدیث یونس سے روایت کی جاتی ہے، اور یونس زہری سے (مرسلاً ) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں : مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے آگے چلتے تھے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : یہ زیادہ صحیح ہے۔ (دیکھئیے سابقہ حدیث ١٠٠٩) تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٣) (تحفة الأشراف : ١٥٦٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1483) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1010

【47】

جنازے کے پیچھے چلنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے جنازے کے پیچھے چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : ایسی چال چلے جو دلکی چال سے دھیمی ہو۔ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے جلدی قبر میں پہنچا دو گے اور اگر برا ہے تو جہنمیوں ہی کو دور ہٹایا جاتا ہے۔ جنازہ کے پیچھے چلنا چاہیئے، اس سے آگے نہیں ہونا چاہیئے، جو جنازہ کے آگے چلے وہ اس کے ساتھ جانے والوں میں سے نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابو حامد کی اس حدیث کو ضعیف بتاتے سنا ہے، ٣- محمد بن اسماعیل بخاری کا بیان ہے کہ حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا : ابوماجد کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ایک اڑتی چڑیا ہے جس سے ہم نے روایت کی ہے، یعنی مجہول راوی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٥٠ (٣٠٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٤) (ضعیف) (سند میں یحییٰ الجابر لین الحدیث، اور ابو ماجد مجہول ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1484) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (324) ، ضعيف الجامع الصغير (5066) ، المشکاة (1669) ، ضعيف أبي داود (698 / 3184) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1011

【48】

جنازہ کے پیچھے سوار ہو کر چلنا مکروہ ہے۔

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، آپ نے کچھ لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا : کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھوں پر بیٹھے ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ثوبان کی حدیث، ان سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ان کی موقوف روایت زیادہ صحیح ہے، ٢- اس باب میں مغیرہ بن شعبہ اور جابر بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٨٠) (ضعیف) (سند میں ابوبکر بن ابی مریم ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث جنازہ کے پیچھے سوار ہو کر چلنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی روایت اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا «الراکب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها عن يمينها ويسارها قريبا منها» سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلتا ہے جب کہ پیدل چلنے والا اس کے پیچھے ، آگے ، دائیں ، بائیں قریب ہو کر چلتا ہے ۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق کئی طرح سے دی جاتی ہے ایک یہ کہ ثوبان کی روایت ضعیف ہے ، دوسرے یہ کہ یہ غیر معذور کے سلسلہ میں ہے اور مغیرہ بن شعبہ کی روایت معذور شخص کے سلسلہ میں ہے ، تیسرے یہ کہ ثوبان کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ وہ سوار جنازے کے پیچھے تھے ، ہوسکتا ہے کہ وہ جنازے کے آگے رہے ہوں یا جنازہ کے بغل میں رہے ہوں اس صورت میں یہ مغیرہ کی حدیث کے منافی نہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1480) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (323) ، الأحكام ص (75) الملحق، المشکاة (1672) ، ضعيف الجامع الصغير (2177) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1012

【49】

جنازے کے پیچھے سواری پر سوار ہو کر جانے کی اجازت

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ابودحداح کے جنازے میں تھے، آپ لوٹتے وقت ایک گھوڑے پر سوار تھے جو تیز چل رہا تھا، ہم اس کے اردگرد تھے اور وہ آپ کو لے کر اچھلتے ہوئے چل رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٨ (٩٦٥) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٤٨ (٣١٧٨) ، مسند احمد (٥/٩٠) (تحفة الأشراف : ٢١٨٠) (صحیح) وأخرجہ : سنن النسائی/الجنائز ٩٥ (٢٠٢٨) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (75) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1013

【50】

جنازے کے پیچھے سواری پر سوار ہو کر جانے کی اجازت

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ابودحداح کے جنازہ کے پیچھے پیدل گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر لوٹے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢١٤٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جنازے سے واپسی میں سوار ہو کر واپس آنا جائز ہے ، علماء اسے بلا کراہت جائز قرار دیتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1013) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1014

【51】

جنازہ کو جلدی لے جانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جنازہ تیزی سے لے کر چلو ١ ؎، اگر وہ نیک ہوگا تو اسے خیر کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر وہ برا ہوگا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر (جلد) رکھ دو گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥١ (١٣١٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٦ (٩٤٤) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٠ (٣١٨١) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٤ (١٩١١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٧٧) (تحفة الأشراف : ١٣١٢٤) (صحیح) وأخرجہ مالک/الجنائز ١٦ (٥٦) ، موقوفا علی أبي ہریرة۔ وضاحت : ١ ؎ : جمہور کے نزدیک امر استحباب کے لیے ہے ، ابن حزم کہتے ہیں کہ وجوب کے لیے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1477) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1015

【52】

شہدائے احد اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ احد کے دن حمزہ (کی لاش) کے پاس آئے۔ آپ اس کے پاس رکے، آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ ١ ؎ کردیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا : اگر صفیہ (حمزہ کی بہن) اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی (دفن کیے بغیر) چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے ، پھر آپ ﷺ نے «نمر» (ایک پرانی چادر) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے تو ان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے دونوں پیروں کی طرف کھینچتے تو سر کھل جاتا۔ مقتولین کی تعداد بڑھ گئی اور کپڑے کم پڑگئے تھے، چناچہ ایک ایک دو دو اور تین تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفنایا جاتا، پھر وہ سب ایک قبر میں دفن کردیئے جاتے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے بارے میں پوچھتے کہ ان میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا تو آپ اسے آگے قبلہ کی طرف کردیتے، رسول اللہ ﷺ نے ان مقتولین کو دفن کیا اور ان پر نماز نہیں پڑھی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے انس کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- اس حدیث کی روایت میں اسامہ بن زید کی مخالفت کی گئی ہے۔ لیث بن سعد بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک عن جابر بن عبد اللہ بن زيد» ٣ ؎ روایت کی ہے اور معمر نے بسند «عن الزهري عن عبد اللہ بن ثعلبة عن جابر» روایت کی ہے۔ ہمارے علم میں سوائے اسامہ بن زید کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے زہری کے واسطے سے انس سے روایت کی ہو، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : لیث کی حدیث بسند «عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک عن جابر» زیادہ صحیح ہے، ٤- نمرہ : پرانی چادر کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٣١ (٣١٣٦) (تحفة الأشراف : ١٤٧٧) (صحیح) (وقال في حدیث أبي داود : حسن) وہو الصواب، لأن ” أسامة اللیثي صدوق بہم) وضاحت : ١ ؎ : ناک کان اور شرمگاہ وغیرہ کاٹ ڈالنے کو مثلہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شہید پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جائیگی ان کا استدلال اسی حدیث سے ہے ، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شہید پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پر اس طرح نماز نہیں پڑھی جیسے حمزہ (رض) پر کئی بار پڑھی۔ ٣ ؎ : تمام نسخوں میں اسی طرح جابر بن عبداللہ بن زید ہے جب کہ اس نام کے کسی صحابی کا تذکرہ کسی مصدر میں نہیں ملا ، اور کتب تراجم میں سب نے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کے اساتذہ میں معروف صحابی جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام ہی کا لکھا ہے ، نیز جابر بن عبداللہ بن عمرو ہی کے تلامذہ میں عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کا نام آیا ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (59 - 60) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1016

【53】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مریض کی عیادت کرتے، جنازے میں شریک ہوتے، گدھے کی سواری کرتے اور غلام کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ بنو قریظہ ١ ؎ والے دن آپ ایک ایسے گدھے پر سوار تھے، جس کی لگام کھجور کی چھال کی رسی کی تھی، اس پر زین بھی چھال ہی کی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف مسلم کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں۔ اور مسلم اعور ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ یہی مسلم بن کیسان ملائی ہیں، جس پر کلام کیا گیا ہے، ان سے شعبہ اور سفیان نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ التجارات ٦٦ (٢٢٩٦) ، والزہد ١٦ (٤١٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٨) (ضعیف) (سند میں مسلم بن کیسان الاعور ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : خیبر کے یہودیوں کا ایک قبیلہ ہے یہ واقعہ ذی قعدہ ٥ ھ کا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4178) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (915) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1017

【54】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوا ١ ؎ ابوبکر (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو میں بھولا نہیں ہوں، آپ نے فرمایا : جتنے بھی نبی ہوئے ہیں اللہ نے ان کی روح وہیں قبض کی ہے جہاں وہ دفن کیا جانا پسند کرتے تھے (اس لیے) تم لوگ انہیں ان کے بستر ہی کے مقام پر دفن کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، عبدالرحمٰن بن ابی بکر ملی کی اپنے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانے جاتے ہیں، ٢- یہ حدیث اس کے علاوہ طریق سے بھی مروی ہے۔ ابن عباس نے ابوبکر صدیق سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٦٣٧ و ١٦٢٤٥) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن ابی ملیکہ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : بعض کی رائے تھی کہ مکہ میں دفن کیا جائے بعض کی مدینہ میں اور بعض کی بیت المقدس میں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (137 - 138) ، مختصر الشمائل (326) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1018

【55】

دوسرا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے مردوں کی اچھائیوں کو ذکر کیا کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمران بن انس مکی منکر الحدیث ہیں، ٢- بعض نے عطا سے اور عطا نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، ٣- عمران بن ابی انس مصری عمران بن انس مکی سے پہلے کے ہیں اور ان سے زیادہ ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٥٠ (٤٩٠٠) (تحفة الأشراف : ٧٣٢٨) (ضعیف) (سند میں عمران بن انس مکی ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1678) ، الروض النضير (482) // ضعيف الجامع الصغير (739) ، ضعيف أبي داود (1047 / 4900) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1019

【56】

جنازے رکھنے سے پہلے بیٹھنا

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو جب تک جنازہ لحد (بغلی قبر) میں رکھ نہ دیا جاتا، نہیں بیٹھتے۔ ایک یہودی عالم نے آپ کے پاس آ کر کہا : محمد ! ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھنے لگ گئے اور فرمایا : تم ان کی مخالفت کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- بشر بن رافع حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٧ (٣١٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٥) (تحفة الأشراف : ٥٠٧٦) (حسن) (سند میں بشر بن رافع ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، /دیکھیے الأرواء ٣/١٩٣) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1545) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1020

【57】

مصیبت پر صبر کی فضیلت

ابوسنان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے سنان کو دفن کیا اور ابوطلحہ خولانی قبر کی منڈیر پر بیٹھے تھے، جب میں نے (قبر سے) نکلنے کا ارادہ کیا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہا : ابوسنان ! کیا میں تمہیں بشارت نہ دوں ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ضرور دیجئیے، تو انہوں نے کہا : مجھ سے ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزب نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بندے کا بچہ ١ ؎ فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی ؟ تو وہ کہتے ہیں : ہاں، پھر فرماتا ہے : تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا ؟ وہ کہتے ہیں : ہاں۔ تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : میرے بندے نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں : اس نے تیری حمد بیان کی اور «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر : مسند احمد (٤/٤١٥) (تحفة الأشراف : ٩٠٠٥) (حسن) (دیکھئے : الصحیحة ١٤٠٨) وضاحت : ١ ؎ : بچہ سے مراد مطلق اولاد ہے خواہ مذکر ہو یا مؤنث۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (1408) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1021

【58】

تکبیرات جنازہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے چار تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، ابن ابی اوفی، جابر، یزید بن ثابت اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں ٣- یزید بن ثابت : زید بن ثابت کے بھائی ہیں۔ یہ ان سے بڑے ہیں۔ یہ بدر میں شریک تھے اور زید بدر میں شریک نہیں تھے، ٤- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥٤ (١٣١٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٤) (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٤ (١٢٤٥) ، و ٦٤ (١٣٣٣) ، والمناقب ٣٨ (٣٨٨٠، ٣٨٨١) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥١) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٦٢ (٣٢٠٤) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٣) ، و ٧٦ (١٩٨٢) ، موطا امام مالک/الجنائز ٥ (١٤) ، مسند احمد (٢/٢٨٩، ٤٣٨، ٥٢٩) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1534) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1022

【59】

تکبیرات جنازہ

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا بھی کہتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- زید بن ارقم کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنازے میں پانچ تکبیریں ہیں، ٣- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : جب امام جنازے میں پانچ تکبیریں کہے تو امام کی پیروی کی جائے (یعنی مقتدی بھی پانچ کہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٧) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٨ (٣١٩٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٦ (١٩٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٥ (١٥٠٥) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦٧١) ، مسند احمد (٤/٣٦٧، ٣٦٨، ٣٧٠، ٣٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس روایت سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں بھی جائز ہیں ، نبی کریم ﷺ سے اور صحابہ کرام سے پانچ ، چھ ، سات اور آٹھ تکبیریں بھی منقول ہیں ، لیکن اکثر روایات میں چار تکبیروں ہی کا ذکر ہے ، بیہقی وغیرہ میں ہے کہ عمر (رض) نے صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے چار تکبیروں کا حکم صادر فرمایا ، بعض نے اسے اجماع قرار دیا ہے ، لیکن یہ صحیح نہیں ، علی (رض) وغیرہ سے چار سے زائد تکبیریں بھی ثابت ہیں ، چوتھی تکبیر کے بعد کی تکبیرات میں میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1505) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1023

【60】

نماز جنازہ میں کیا پڑھا جائے۔

ابوابراہیم اشہلی کے والد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے : «اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذکرنا وأنثانا» اے اللہ ! بخش دے ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر کو اور ہمارے غائب کو، ہمارے چھوٹے کو اور ہمارے بڑے کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو ۔ یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں : ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے مجھ سے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے : «اللهم من أحييته منا فأحيه علی الإسلام ومن توفيته منا فتوفه علی الإيمان» اے اللہ ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ، اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوابراہیم کے والد کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ہشام دستوائی اور علی بن مبارک نے یہ حدیث بطریق : «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة بن عبدالرحمٰن عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے، اور عکرمہ بن عمار نے بطریق : «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ عکرمہ بن عمار کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ عکرمہ کو بسا اوقات یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث میں وہم ہوجاتا ہے۔

【61】

نماز جنازہ میں کیا پڑھا جائے۔

عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو میت پر نماز جنازہ پڑھتے سنا تو میں نے اس پر آپ کی نماز سے یہ کلمات یاد کیے : «اللهم اغفر له وارحمه واغسله بالبرد واغسله كما يغسل الثوب» اے اللہ ! اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، اسے برف سے دھو دے، اور اسے (گناہوں سے) ایسے دھو دے جیسے کپڑے دھوئے جاتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب کی سب سے صحیح یہی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٦ (٩٦٣) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٠ (٦٢) ، والجنائز ٧٧ (١٩٨٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٩٠١) ، مسند احمد (٦/٢٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٣ (١٥٠٠) ، مسند احمد (٦/٢٣) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1500) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1025

【62】

نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جنازے میں سورة فاتحہ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ٢- ابراہیم بن عثمان ہی ابوشیبہ واسطی ہیں اور وہ منکر الحدیث ہیں۔ صحیح چیز جو ابن عباس سے مروی ہے کہ ـجنازے کی نماز میں سورۃ فاتحہپڑھناسنت میں سے ہے، ٣- اس باب میں ام شریک سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٢ (١٤٩٥) ، انظر الحدیث الآتي ( تحفة الأشراف : ٦٤٦٨) (صحیح) (اگلی اثر کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابراہیم بن عثمان “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1495) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1026

【63】

نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا

طلحہ بن عوف کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے ایک نماز جنازہ پڑھایا تو انہوں نے سورة فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ سنت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- طلحہ بن عبداللہ بن عوف، عبدالرحمٰن بن عوف کے بھتیجے ہیں۔ ان سے زہری نے روایت کی ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے یہ لوگ تکبیر اولیٰ کے بعد سورة فاتحہ پڑھنے کو پسند کرتے ہیں یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی ١ ؎ اس میں تو صرف اللہ کی ثنا، نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ (درود) اور میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔ اہل کوفہ میں سے ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٥ (١٣٣٥) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٩ (٣١٩٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٧ (١٩٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جن روایتوں سے پہلی تکبیر کے بعد سورة فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے ان کی تاویل یہ کی جائیگی کہ یہ قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھی گئی تھی لیکن یہ محض تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ مبتدعین کی حرکات بھی عجیب وغریب ہوا کرتی ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں ثابت سورة فاتحہ نماز جنازہ میں نہیں پڑھیں گے اور رسم قُل ، تیجا ، ساتویں وغیرہ میں فاتحہ کا رٹہ لگائیں گے اور وہ بھی معلوم نہیں کون سی فاتحہ پڑھتے ہیں حقہ کے بغیر ان کے ہاں قبول ہی نہیں ہوتی۔ «فيا عجبا لهذه الخرافات» قال الشيخ الألباني : صحيح أنظر ما قبله (1026) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1027

【64】

نماز جنازہ کی کیفیت اور میت کے لئے شفاعت کرنا

مرثد بن عبداللہ یزنی کہتے ہیں کہ مالک بن ہبیرہ (رض) جب نماز جنازہ پڑھتے اور لوگ کم ہوتے تو ان کی تین صفیں ١ ؎ بنا دیتے، پھر کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس کی نماز جنازہ تین صفوں نے پڑھی تو اس نے (جنت) واجب کرلی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مالک بن ہبیرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اسی طرح کئی لوگوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ ابراہیم بن سعد نے بھی یہ حدیث محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ اور انہوں نے سند میں مرثد اور مالک بن ہبیرہ کے درمیان ایک شخص کو داخل کردیا ہے۔ ہمارے نزدیک ان لوگوں کی روایت زیادہ صحیح ہے، ٣- اس باب میں عائشہ، ام حبیبہ، ابوہریرہ اور ام المؤمنین میمونہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ١٤٣ (٣١٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٩ (١٤٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٠٨) ، مسند احمد (٤/٧٩) (حسن) (سند میں ” محمد بن اسحاق “ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، البتہ مالک بن ہبیرہ (رض) کا فعل شواہد اور متابعات کی بنا پر صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : صف کم سے کم دو آدمیوں پر مشتمل ہوتی ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1490) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (327) مع اختلاف في اللفظ، ضعيف الجامع (5087 و 5668) ، أحكام الجنائز (100) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1028

【65】

نماز جنازہ کی کیفیت اور میت کے لئے شفاعت کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان مرجائے اور مسلمانوں کی ایک جماعت جس کی تعداد سو کو پہنچتی ہو اس کی نماز جنازہ پڑھے اور اس کے لیے شفاعت کرے تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ١ ؎۔ علی بن حجر نے اپنی حدیث میں کہا : «مائة فما فوقها» سویا اس سے زائد لوگ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے، مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٨ (٩٤٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٨ (١٩٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٩١) ، مسند احمد (٦/٣٢، ٤٠، ٩٧، ٢٣١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے نماز جنازہ میں کثرت تعداد کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، مسلم کی ایک روایت میں چالیس مسلمان مردوں کا ذکر ہے ، اور بعض روایتوں میں تین صفوں کا ذکر ہے ، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ یہ احادیث مختلف موقعوں پر سائلین کے سوالات کے جواب میں بیان کی گئیں ہیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے آپ کو سو آدمیوں کی شفاعت قبول کئے جانے کی خبر دی گئی ہو پھر چالیس کی پھر تین صفوں کی گو وہ چالیس سے بھی کم ہوں ، یہ اللہ کی اپنے بندوں پر نوازش و انعام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (98) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1029

【66】

طلوع وغروب آفتاب کے وقت نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے۔

عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ تین ساعتیں ایسی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھنے سے یا اپنے مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے : جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے، اور جس وقت ٹھیک دوپہر ہو رہی ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور جس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ لوگ ان اوقات میں نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں، ٣- ابن مبارک کہتے ہیں : اس حدیث میں ان اوقات میں مردے دفنانے سے مراد ان کی نماز جنازہ پڑھنا ہے ١ ؎ انہوں نے سورج نکلتے وقت ڈوبتے وقت اور دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج ڈھل نہ جائے نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ٤- شافعی کہتے ہیں کہ ان اوقات میں جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، ان میں نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٣١) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٥ (٣١٩٢) ، سنن النسائی/المواقیت ٣١ (٥٦١) ، و ٣٣ (٥٦٦) ، والجنائز ٨٩، (٢٠١٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٠ (١٥١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٣٩) ، مسند احمد (٤/١٥٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی نے بھی اسے اسی معنی پر محمول کیا ہے جیسا کہ ترجمۃ الباب سے واضح ہے ، اس کے برخلاف امام ابوداؤد (رح) نے اسے دفن حقیقی ہی پر محمول کیا اور انہوں نے «باب الدفن عند طلوع الشمش وعند غروبها» کے تحت اس کو ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1519) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1030

【67】

بچوں کی نماز جنازہ

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سواری والے جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والے جہاں چاہے رہے، اور بچوں کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسرائیل اور دیگر کئی لوگوں نے اسے سعید بن عبداللہ سے روایت کیا ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ یہ جان لینے کے بعد کہ اس میں جان ڈال دی گئی تھی پڑھی جائے گی گو (ولادت کے وقت) وہ رویا نہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٩ (٣١٨٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٥ (١٩٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٨١) ، و ٢٦ (١٥٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٩٠) ، مسند احمد (٤/٢٤٧، ٢٥٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی راجح قول ہے ، کیونکہ ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے ، گویا نومولود ایک ذی روح مسلمان ہے۔ پڑھنے کا بیان جب تک کہ وہ ولادت کے وقت نہ روئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1507) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1031

【68】

اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد نہ روئے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بچے کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی۔ نہ وہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ کوئی اس کا وارث ہوگا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث میں لوگ اضطراب کے شکار ہوئے ہیں۔ بعض نے اسے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے اور جابر نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور اشعث بن سوار اور دیگر کئی لوگوں نے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے، اور محمد بن اسحاق نے عطاء بن ابی رباح سے اور عطاء نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے گویا موقوف روایت مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت نہ روئے یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٦٦٠) (صحیح) وأخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٦ (١٥٠٨) ، والفرائض ١٧ (٢٧٥٠) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1508) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1032

【69】

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء ١ ؎ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٣- شافعی کا بیان ہے کہ مالک کہتے ہیں : میت پر نماز جنازہ مسجد میں نہیں پڑھی جائے گی، ٤- شافعی کہتے ہیں : میت پر نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے، اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٤ (٩٧٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٧٠ (١٩٦٩) ، مسند احمد (٦/٧٩، ١٣٣، ١٦٩) (تحفة الأشراف : ١٦١٧٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٤ (٣١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٩ (١٥١٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ٨ (٢٢) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام : سہل ، سہیل اور صفوان تھے اور ان کی ماں کا نام رعد تھا ، بیضاء ان کا وصفی نام ہے ، اور ان کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔ ٢ ؎ : اس سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے ، اگرچہ نبی اکرم ﷺ کا معمول مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا ، یہی جمہور کا مذہب ہے جو لوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت «من صلی علی جنازة في المسجد فلا شيء له» ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے ، جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں ، دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہور اور محقق نسخے میں «فلا شيء له» کی جگہ «فلا شيء عليه» ہے اس کے علاوہ اس کے اور بھی متعدد جوابات دیئے گئے ہیں دیکھئیے ( تحفۃ الاحوذی ج ٢ ص ١٤٦) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1518) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1033

【70】

مرد اور عورت کی نماز جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو۔

ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔ پھر لوگ قریش کی ایک عورت کا جنازہ لے کر آئے اور کہا : ابوحمزہ ! اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے، تو وہ چارپائی کے بیچ میں یعنی عورت کی کمر کے سامنے کھڑے ہوئے، تو ان سے علاء بن زیاد نے پوچھا : آپ نے نبی اکرم ﷺ کو عورت اور مرد کے جنازے میں اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔ جیسے آپ کھڑے ہوئے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ١ ؎۔ اور جب جنازہ سے فارغ ہوئے تو کہا : اس طریقہ کو یاد کرلو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور کئی لوگوں نے بھی ہمام سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ وکیع نے بھی یہ حدیث ہمام سے روایت کی ہے، لیکن انہیں وہم ہوا ہے۔ انہوں نے «عن غالب عن أنس» کہا ہے اور صحیح «عن ابی غالب» ہے، عبدالوارث بن سعید اور دیگر کئی لوگوں نے ابوغالب سے روایت کی ہے جیسے ہمام کی روایت ہے، ٣- اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے، ٤- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ فائدہ ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کی نماز جنازہ ہو تو امام اس کی کمر کے پاس کھڑا ہوگا، اور امام کو مرد کے سر کے بالمقابل کھڑا ہونا چاہیئے کیونکہ انس بن مالک نے عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ان کے سر کے پاس ہی کھڑے ہو کر پڑھایا تھا اور علاء بن زیاد کے پوچھنے پر انہوں نے کہا تھا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٥٧ (٣١٩٤) ، (بزیادة في السیاق) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢١ (١٤٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢١) ، مسند احمد (٣/١٥١) (بزیادة فی السیاق) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1494) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1034

【71】

مرد اور عورت کی نماز جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو۔

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک عورت ١ ؎ کی نماز جنازہ پڑھائی، تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ نے بھی اسے حسین المعلم سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٩ (٣٣٢) ، والجنائز ٦٢ (١٣٣١) ، و ٦٣ (١٣٣٢) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٧ (٩٦٤) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٥٧ (٣١٩٥) ، سنن النسائی/الحیض ٢٥ (٣٩١) ، والجنائز ٧٣ (١٩٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢١ (١٤٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦٢٥) ، مسند احمد (٥/١٤، ١٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس عورت کا نام ام کعب ہے جیسا کہ نسائی کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1493) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1035

【72】

شہید پر نماز جنازہ نہ پڑھنا

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں ایک ساتھ کفناتے، پھر پوچھتے : ان میں قرآن کسے زیادہ یاد تھا ؟ تو جب آپ کو ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو آپ اسے لحد میں مقدم رکھتے اور فرماتے : قیامت کے روز میں ان لوگوں پر گواہ رہوں گا ۔ اور آپ نے انہیں ان کے خون ہی میں دفنانے کا حکم دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی انہیں غسل ہی دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث زہری سے مروی ہے انہوں نے اسے انس سے اور انس نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے نیز یہ زہری سے عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیر کے واسطے سے بھی مروی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور ان میں سے بعض نے اسے جابر کی روایت سے ذکر کیا، ٢- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا شہید کی نماز جنازہ کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شہید کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ یہی اہل مدینہ کا قول ہے۔ شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں، ٤- اور بعض کہتے ہیں کہ شہید کی نماز پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ آپ نے حمزہ (رض) کی نماز پڑھی تھی۔ ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں اور یہی اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٢ (١٣٤٣) ، و ٧٣ (١٣٤٥) ، و ٧٥ (١٣٤٦) ، و ٧٨ (١٣٤٨) ، والمغازي ٢٦ (٤٠٧٩) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٣١ (٣١٣٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٢ (١٩٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٨ (١٥١٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٨٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس موضوع پر مفصل بحث لکھنے کے بعد صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں : میرے نزدیک ظاہر مسئلہ یہی ہے کہ شہید پر نماز جنازہ واجب نہیں ہے ، البتہ اگر پڑھ لی جائے تو جائز ہے ، اور ماوردی نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ شہید پر نماز جنازہ زیادہ بہتر ہے اور اس پر نماز جنازہ نہ پڑھیں گے تو بھی ( اس کی شہادت اسے ) کفایت کرے گی ، ( فانظر فتح الباری عند الموضوع ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1514) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1036

【73】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا : ابن عباس (رض) نے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، بریدہ، یزید بن ثابت، ابوہریرہ، عامر بن ربیعہ، ابوقتادہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبر پر نماز پڑھی جائے گی ١ ؎ یہ مالک بن انس کا قول ہے، ٥ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میت کو دفن کردیا جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس کی نماز جنازہ قبر پر پڑھی جائے گی، ٦- ابن مبارک قبر پر نماز (جنازہ) پڑھنے کے قائل ہیں، ٧- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : قبر پر نماز ایک ماہ تک پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر سنا ہے سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سعد بن عبادہ کی والدہ کی نماز جنازہ ایک ماہ کے بعد قبر پر پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦١ (٨٥٧) والجنائز ٥ (١٢٤٧) و ٥٤ (١٤١٩) و ٥٥ (١٣٢٤) ٥٩ (١٣٢٦) و ٦٦ (١٣٣٦) و ٦٩ (١٣٤٠) صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٤) سنن ابی داود/ الجنائز ٥٨ (٣١٩٦) سنن النسائی/الجنائز ٩٤ (٢٠٢٥) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٢ (١٥٣٠) (تحفة الأشراف : ٥٧٦٦) مسند احمد (١/٣٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ لوگ باب کی حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے «إن هذه القبور مملوؤة مظالم علی أهلها وأن اللہ ينورها لهم بصلاة عليهم» ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نماز قبر کو منور کرنے کے لیے تھی اور یہ دوسروں کی نماز میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبر پر نماز جنازہ پڑھی آپ نے انہیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائز ہے اور اگر یہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتا دوسروں کے لیے جائز نہ ہوتا تو آپ انہیں ضرور منع فرما دیتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1530) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1037

【74】

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ام سعد کا انتقال ہوگیا اور نبی اکرم ﷺ موجود نہیں تھے، جب آپ تشریف لائے تو ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس واقعہ کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٧٢٢) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے، سعید بن المسیب تابعی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (3 / 183 و 186) ، // برقم (736 / 1 و 737) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1038

【75】

نبی کریم ﷺ کا نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنا

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا : تمہارے بھائی نجاشی ١ ؎ کا انتقال ہوگیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو ۔ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- یہ حدیث ابوقلابہ نے بھی اپنے چچا ابومہلب سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے، ٣- ابومہلب کا نام عبدالرحمٰن بن عمرو ہے۔ انہیں معاویہ بن عمرو بھی کہا جاتا ہے، ٤- اس باب میں ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، ابوسعید، حذیفہ بن اسید اور جریر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٧٢ (١٩٧٧) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٥) (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٩) مسند احمد (٤/٤٣٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥٣) سنن النسائی/الجنائز ٥٧ (١٩٤٨) مسند احمد (٤/٤٣٣، ٤٤١، ٤٤٦) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھا جیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصر اور ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا ، نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجر تھا اسی بادشاہ کے دور میں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی ، نبی اکرم ﷺ نے ٦ ھ کے آخر یا محرم ٧ ھ میں نجاشی کو عمرو بن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا ، اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور جعفر بن ابی طالب (رض) کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوہ تبوک ٩ ھ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔ ٢ ؎ : اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے ، نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول امام احمد بن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی تعامل امت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1039

【76】

نماز جنازہ کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی نماز جنازہ پڑھی، اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے۔ اور جو اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کی تدفین مکمل کرلی جائے تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے، ان میں سے ایک قیراط یا ان میں سے چھوٹا قیراط احد کے برابر ہوگا ۔ تو میں نے ابن عمر سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس بھیجا اور ان سے اس بارے میں پوچھوایا تو انہوں نے کہا : ابوہریرہ سچ کہتے ہیں۔ تو ابن عمر نے کہا : ہم نے بہت سے قیراط گنوا دیئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ان سے کئی سندوں سے یہ مروی ہے، ٣- اس باب میں براء، عبداللہ بن مغفل، عبداللہ بن مسعود، ابو سعید خدری، ابی بن کعب، ابن عمر اور ثوبان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٥٨) وانظر : مسند احمد (٢/٤٩٨، ٥٠٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الإیمان ٣٥ (٤٧) والجنائز ٥٨ (١٣٢٥) صحیح مسلم/الجنائز ١٧ (٩٤٥) سنن النسائی/الجنائز ٧٩ (١٩٩٦) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٤ (١٥٣٩) مسند احمد (٢/٢٣٣، ٢٤٦، ٢٨٠، ٣٢١، ٣٨٧، ٤٠١، ٤٣٠، ٤٥٨، ٤٧٥، ٤٩٣، ٥٢١) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1539) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1040

【77】

دوسرا

عباد بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے ابوالمہزم کو کہتے سنا کہ میں دس سال ابوہریرہ کے ساتھ رہا۔ میں نے انہیں سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو کسی جنازے کے ساتھ گیا اور اسے تین بار کندھا دیا تو، اس نے اپنا حق پورا کردیا جو اس پر تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اسے بعض نے اسی سند سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٣- ابوالمہزم کا نام یزید بن سفیان ہے۔ شعبہ نے انہیں ضعیف کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٣٣) (ضعیف) (سند میں ابو المہزم ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1670) // ضعيف الجامع الصغير (5513) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1041

【78】

جنازہ کے لئے کھڑا ہونا

عامر بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو یہاں تک کہ وہ تمہیں چھوڑ کر آگے نکل جائے یا رکھ دیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عامر بن ربیعہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، جابر، سہیل بن حنیف، قیس بن سعد اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٦ (١٣٠٧) و ٤٧ (١٣٠٨) صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٨) سنن ابی داود/ الجنائز ٤٧ (٣١٧٢) سنن النسائی/الجنائز ٤٥ (١٩١٦) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٢) (تحفة الأشراف : ٥٠٤١) مسند احمد (٣/٤٤٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1542) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1042

【79】

جنازہ کے لئے کھڑا ہونا

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے لیے کھڑے ہوجایا کرو۔ اور جو اس کے ساتھ جائے وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے، ٢- یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ جو کسی جنازے کے ساتھ جائے، وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ لوگوں کی گردنوں سے اتار کر رکھ نہ دیا جائے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ وہ جنازے کے آگے جاتے تھے اور جنازہ پہنچنے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔ اور یہی شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : *تخريج : صحیح البخاری/الجنائز ٤٨ (١٣١٠) صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٩) سنن النسائی/الجنائز ٤٤ (١٩١٥) و ٤٥ (١٩١٨) و ٨٠ (٢٠٠٠) مسند احمد (٣/٢٥، ٤١، ٥١) (تحفة الأشراف : ٤٤٢٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٧ (٣١٧٣) مسند احمد (٣/٨٥، ٩٧) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1043

【80】

جنازہ کے لئے کھڑا نہ ہونا

. علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ ان سے جنازے کے لیے جب تک کہ وہ رکھ نہ دیا جائے کھڑے رہنے کا ذکر کیا گیا تو علی نے کہا : رسول اللہ ﷺ کھڑے رہتے تھے پھر آپ بیٹھنے لگے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس میں چار تابعین کی روایت ہے جو ایک دوسرے سے روایت کر رہے ہیں، ٣- شافعی کہتے ہیں : اس باب میں یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔ یہ حدیث پہلی حدیث جب تم جنازہ دیکھو، تو کھڑے ہو جاؤ کی ناسخ ہے، ٤- اس باب میں حسن بن علی اور ابن عباس سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٦- احمد کہتے ہیں کہ چاہے تو کھڑا ہوجائے اور چاہے تو کھڑا نہ ہو۔ انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ کھڑے ہوجایا کرتے تھے پھر بیٹھے رہنے لگے۔ اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٧- علی (رض) کے قول (رسول اللہ ﷺ جنازے کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے تھے پھر آپ بیٹھے رہنے لگے کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنازہ دیکھتے تو کھڑے ہوجاتے پھر بعد میں آپ اس سے رک گئے۔ جب کوئی جنازہ دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٥ (٩٦٢) سنن ابی داود/ الجنائز ٤٧ (٣١٧٥) سنن النسائی/الجنائز ٨١ (٢٠٠١، ٢٠٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٤) (تحفة الأشراف : ١٠٢٧٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1544) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1044

【81】

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لحد ہمارے لئے ہیں اور شق دوسروں کے لئے ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بغلی قبر ہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لیے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں جریر بن عبداللہ، عائشہ، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٥ (٣٢٠٨) سنن النسائی/الجنائز ٨٥ (٢٠١١) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٩ (١٥٥٤) (تحفة الأشراف : ٥٥٤٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اہل کتاب کے لیے ہے ، مقصود یہ ہے کہ بغلی قبر افضل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ «اللحد لنا» کا مطلب ہے «اللحد لي» یعنی بغلی قبر میرے لیے ہے جمع کا صیغہ تعظیم کے لیے ہے یا «اللحد لنا» کا مطلب «اللحد اختيارنا» ہے یعنی بغلی قبر ہماری پسندیدہ قبر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صندوقی قبر مسلمانوں کے لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مدینہ میں قبر کھودنے والے دو شخص تھے ایک بغلی بنانے والا دوسرا شخص صندوقی بنانے والا اگر صندوقی ناجائز ہوتی تو انہیں اس سے روک دیا جاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1554) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1045

【82】

میت کو قبر میں اتارتے وقت کیا کہا جائے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب میت قبر میں داخل کردی جاتی (اور کبھی راوی حدیث ابوخالد کہتے) جب میت اپنی قبر میں رکھ دی جاتی تو آپ کبھی : «بسم اللہ وبالله وعلی ملة رسول الله» ، پڑھتے اور کبھی «بسم اللہ وبالله وعلی سنة رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» اللہ کے نام سے، اللہ کی مدد سے اور رسول اللہ ﷺ کے طریقہ پر میں اسے قبر میں رکھتا ہوں پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور اسے ابوالصدیق ناجی نے بھی ابن عمر سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے، ٣- نیز یہ صدیق الناجی کے واسطہ سے ابن عمر سے بھی موقوفاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٨ (١٥٥٠) (تحفة الأشراف : ٧٦٤٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1550) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1046

【83】

قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانا

عثمان بن فرقد کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سنا وہ اپنے باپ سے روایت کر رہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی قبر بغلی بنائی، وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ ﷺ کے مولی ٰ شقران ہیں، جعفر کہتے ہیں : اور مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا : اللہ کی قسم ! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر ١ ؎ بچھائی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- شقران کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٨٤٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ چادر جھالردار تھی جسے شقران نے قبر میں نبی اکرم ﷺ کے نیچے بچھایا تھا تاکہ اسے آپ کے بعد کوئی استعمال نہ کرسکے خود شقران کا بیان ہے کہ «كرهت أن يلبسها أحد بعد رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» امام شافعی اور ان کے اصحاب اور دیگر بہت سے علماء نے قبر میں کوئی چادر یا تکیہ وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے اور یہی جمہور کا قول ہے اور اس حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ ایسا کرنے میں شقران منفرد تھے صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی تھی اور صحابہ کرام کو یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا اور واقدی نے علی بن حسین سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے نکلوا دیا تھا ، ابن عبدالبر نے قطعیت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ مٹی ڈال کر قبر برابر کرنے سے پہلے یہ چادر نکال دی گئی تھی اور ابن سعد نے طبقات ٢/٢٩٩ میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے لیے خاص ہے اور حسن بصری سے ایک روایت میں ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے یہ سرخ چادر بچھائی گئی تھی جسے آپ ﷺ اوڑھتے تھے اور حسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ «قال رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم فرشوا لي قطيفتي في لحدي فإن الأرض لم تسلط علی أجساد الأنبياء» ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ چادر نکال دی گئی تھی اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نہیں نکالی گئی تھی تو اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص مانا جائے گا دوسروں کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1047

【84】

قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی قبر میں ایک لال چادر رکھی گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے بھی روایت کی ہے، ان کا نام عمران بن ابی عطا ہے، اور ابوجمرہ ضبعی سے بھی روایت کی گئی ہے، ان کا نام نصر بن عمران ہے۔ یہ دونوں ابن عباس کے شاگرد ہیں، ٣- ابن عباس سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قبر میں میت کے نیچے کسی چیز کے بچھانے کو مکروہ جانا ہے۔ بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٠ (٩٦٧) سنن النسائی/الجنائز ٨٨ (٢٠١٤) (تحفة الأشراف : ٦٥٢٦) مسند احمد ( ١/٢٢٨، ٣٥٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1048

【85】

قبروں کو زمین کے برابر کردینا

ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے ابوالہیاج اسدی سے کہا : میں تمہیں ایک ایسے کام کے لیے بھیج رہا ہوں جس کے لیے نبی اکرم ﷺ نے مجھے بھیجا تھا : تم جو بھی ابھری قبر ہو، اسے برابر کئے بغیر اور جو بھی مجسمہ ہو ١ ؎، اسے مسمار کئے بغیر نہ چھوڑنا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبر کو زمین سے بلند رکھنے کو مکروہ (تحریمی) قرار دیتے ہیں، ٤- شافعی کہتے ہیں کہ قبر کے اونچی کئے جانے کو میں مکروہ (تحریمی) سوائے اتنی مقدار کے جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ قبر ہے تاکہ وہ نہ روندی جائے اور نہ اس پر بیٹھا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢١ (٩٦٩) سنن ابی داود/ الجنائز ٧٢ (٣٢١٨) سنن النسائی/الجنائز ٩٩ (٢٠٣٣) (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٣) مسند احمد (١/٩٦، ١٢٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مراد کسی ذی روح کا مجسمہ ہے۔ ٢ ؎ : اس سے قبر کو اونچی کرنے یا اس پر عمارت بنانے کی ممانعت نکلتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (207) ، الإرواء (759) ، تحذير الساجد (130) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1049

【86】

قبروں پر چلنا اور بیٹھنا منع ہے۔

ابومرثد غنوی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قبروں پر نہ بیٹھو ١ ؎ اور نہ انہیں سامنے کر کے نماز پڑھو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ، عمرو بن حزم اور بشیر بن خصاصیہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٣ (٩٧٢) سنن ابی داود/ الجنائز ٧٧ (٣٢٢٩) سنن النسائی/القبلة ١١ (٧٦١) (تحفة الأشراف : ١١١٦٩) مسند احمد (٤/١٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں قبر پر بیٹھنے کی حرمت کی دلیل ہے ، یہی جمہور کا مسلک ہے اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کی تذلیل ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے توقیر و تکریم سے نوازا ہے۔ ٢ ؎ : اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مشرکین کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے اور غیر اللہ کی تعظیم کا پہلو بھی نکلتا ہے جو شرک تک پہنچانے والا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (209 - 210) ، تحذير الساجد (33) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1050

【87】

قبروں پر چلنا اور بیٹھنا منع ہے۔

اس طریق سے بھی ابومرشد غنوی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ اس سند میں ابوادریس کا واسطہ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ابن مبارک کی روایت غلط ہے، اس میں ابن مبارک سے غلطی ہوئی ہے انہوں نے اس میں ابوادریس خولانی کا واسطہ بڑھا دیا ہے، صحیح یہ ہے کہ بسر بن عبداللہ نے بغیر واسطے کے براہ راست واثلہ سے روایت کی ہے، اسی طرح کئی اور لوگوں نے عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے روایت کی ہے اور اس میں ابوادریس کے واسطے کا ذکر نہیں ہے۔ اور بسر بن عبداللہ نے واثلہ بن اسقع سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1050) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1051

【88】

قبروں کو پختہ کرنا، ان کے اردگرد اوپر لکھنا حرام ہے۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ١ ؎، ان پر لکھا جائے ٢ ؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ٣ ؎ اور انہیں روندا جائے ٤ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ اور بھی طرق سے جابر سے مروی ہے، ٣- بعض اہل علم نے قبروں پر مٹی ڈالنے کی اجازت دی ہے، انہیں میں سے حسن بصری بھی ہیں، ٤- شافعی کہتے ہیں : قبروں پر مٹی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٢ (٩٧٠) سنن ابی داود/ الجنائز ٧٦ (٣٢٢٥) سنن النسائی/الجنائز ٩٦ (٢٠٢٩) (تحفة الأشراف : ٢٧٩٦) مسند احمد (٣/٢٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس ممانعت کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچا دیتی ہے۔ ٢ ؎ : یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اور تبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اور اسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔ ٣ ؎ : مثلاً قبّہ وغیرہ۔ ٤ ؎ : یہ ممانعت میت کی توقیر و تکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل و توہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (204) ، تحذير الساجد (40) ، الإرواء (757) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1052

【89】

قبرستان جانے کی دعا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے، تو ان کی طرف رخ کر کے آپ نے فرمایا :«السلام عليكم يا أهل القبور يغفر اللہ لنا ولکم أنتم سلفنا ونحن بالأثر» سلامتی ہو تم پر اے قبر والو ! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے تم ہمارے پیش روہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- اس باب میں بریدہ (رض) اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٤٠٣) (ضعیف) (اس کے راوی ” قابوس “ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے صحابہ کی روایت سے یہ حدیث ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1765) // ضعيف الجامع الصغير (3372) ، أحكام الجنائز (197) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1053

【90】

قبروں کی زیارت کی اجازت

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، ابن مسعود، انس، ابوہریرہ اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧) (بزیادة فی السیاق) ( تحفة الأشراف : ١٩٣٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الأضاحی ٥ (٩٧٧) سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٨) سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤) والأضاحی ٣٥ (٤٤٣٤، ٤٤٣٥) مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس میں قبروں کی زیارت کا استحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اور تاکید ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانہ جاہلیت کے اثر سے وہاں کوئی غلط کام نہ کر بیٹھیں پھر جب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدہ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دے دی گئی بلکہ اس کی تاکید کی گئی تاکہ موت کا تصور انسان کے دل و دماغ میں ہر وقت رچا بسا رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (178 و 188) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1054

【91】

عورتوں کو قبروں کی زیارت کرنا ممنوع ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس اور حسان بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے قبروں کی زیارت کی اجازت دینے سے پہلے کی بات ہے۔ جب آپ نے اس کی اجازت دے دی تو اب اس اجازت میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں، ٤- بعض کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت ان کی قلت صبر اور کثرت جزع فزع کی وجہ سے مکروہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٩ (١٥٧٦) (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٠) مسند احمد (٢/٣٣٧، ٣٥٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1576) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1056

【92】

عورتوں کا قبر کی زیارت کرنا

عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر حبشہ میں وفات پا گئے تو انہیں مکہ لا کر دفن کیا گیا، جب ام المؤمنین عائشہ (رض) (مکہ) آئیں تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) کی قبر پر آ کر انہوں نے یہ اشعار پڑھے۔ «وكنا کندماني جذيمة حقبة من الدهر حتی قيل لن يتصدعا فلما تفرقنا كأني ومالکا لطول اجتماع لم نبت ليلة معا» ہم دونوں ایک عرصے تک ایک ساتھ ایسے رہے تھے جیسے بادشاہ جزیمہ کے دو ہم نشین، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ پھر جب ہم جدا ہوئے تو مدت دراز تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایسا لگنے لگا گویا میں اور مالک ایک رات بھی کبھی ایک ساتھ نہ رہے ہوں ۔ پھر کہا : اللہ کی قسم ! اگر میں تمہارے پاس موجود ہوتی تو تجھے وہیں دفن کیا جاتا جہاں تیرا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر رہی ہوتی تو تیری زیارت کو نہ آتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج ثقہ راوی ہیں، لیکن تدلیس اور ارسال کرتے تھے اور یہاں پر روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1718) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1055

【93】

رات کو دفن کرنا

آپ نے میت کو قبلے کی طرف سے لیا۔ اور فرمایا : اللہ تم پر رحم کرے ! تم بہت نرم دل رونے والے، اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں جابر اور یزید بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں اور یزید بن ثابت، زید بن ثابت کے بھائی ہیں، اور ان سے بڑے ہیں، ٣- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میت کو قبر میں قبلے کی طرف سے اتارا جائے گا ١ ؎، ٤- بعض کہتے ہیں : پائتانے کی طرف سے رکھ کر کھینچ لیں گے ٢ ؎، ٥- اور اکثر اہل علم نے رات کو دفن کرنے کی اجازت دی ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٠ (١٥٢٠) (ولفظہ ” أدخل رجلاً قبرہ لیلا، وأسرج قبرہ “ وسقط من سندہ الحجا) ( تحفة الأشراف : ٥٨٨٩) (ضعیف) (سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، قابل استدلال نہیں ہے۔ ٢ ؎ : یہی مذہب امام شافعی ، امام احمد اور اکثر لوگوں کا ہے اور دلیل کے اعتبار سے قوی اور راجح بھی یہی ہے ، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید (رض) نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبر میں اتارا اور کہا : سنت طریقہ یہی ہے ، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے اور ساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اور ابواسحاق سبیعی کی جو روایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ «معنعن» ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔ ٣ ؎ : حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اور جابر کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے «ان النبي صلی اللہ عليه وسلم زجرأن یقبرالرجل لیلاً حتیٰ یصلیٰ علیہ» (رواہ مسلم ) اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ زجر نماز جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی ، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے ، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیا کفن دینے کے لیے کرتے تھے لہٰذا اگر ان چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تو رات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں ، نبی اکرم ﷺ کی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیسا کہ احمد نے عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکر و عمر کی تدفین بھی رات میں ہوئی اور فاطمہ (رض) کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن موضع الشاهد منه حسن، المشکاة (2706) ، الأحكام (142) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1057

【94】

میت کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی تعریف کی ١ ؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (جنت) واجب ہوگئی پھر فرمایا : تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، کعب بن عجرہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨١٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٨٥ (١٣٦٧) والشہادات ٦ (٢٦٤٢) صحیح مسلم/الجنائز ٢٠ (٩٤٩) سنن النسائی/الجنائز ٥٠ (١٩٣٤) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٠ (١٤٩١) مسند احمد (٣/١٧٩، ١٨٦، ١٩٧، ٢٤٥، ٢٨١) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے کہا : یہ فلاں کا جنازہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا تھا اور اللہ کی اطاعت کرتا تھا اور اس میں کوشاں رہتا تھا۔ ٢ ؎ : یہ خطاب صحابہ کرام (رض) اور ان کے طریقے پر چلنے والوں سے ہے ، ابن القیم نے بیان کیا ہے کہ یہ صحابہ کے ساتھ خاص ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1491)

【95】

میت کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا

ابوالاسود الدیلی کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا، تو عمر بن خطاب (رض) کے پاس آ کر بیٹھا اتنے میں کچھ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی تعریف کی عمر (رض) نے کہا : واجب ہوگئی، میں نے عمر (رض) سے پوچھا : کیا چیز واجب ہوگئی ؟ تو انہوں نے کہا : میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے کہی ہے۔ آپ نے فرمایا : جس کسی بھی مسلمان کے (نیک ہونے کی) تین آدمی گواہی دیں، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ ہم نے عرض کیا : اگر دو آدمی گواہی دیں ؟ آپ نے فرمایا : دو آدمی بھی ہم نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کی گواہی کے بارے میں نہیں پوچھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٥ (١٣٦٨) والشہادات ٦ (٢٦٤٣) سنن النسائی/الجنائز ٥٠ (١٩٣٦) (تحفة الأشراف : ١٠٤٧٢) مسند احمد (١/٢٢، ٣٠، ٤٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (45) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1059

【96】

جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس مسلمان کے تین بچے فوت ہوجائیں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر قسم پوری کرنے کے لیے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، معاذ، کعب بن مالک، عتبہ بن عبد، ام سلیم، جابر، انس، ابوذر، ابن مسعود، ابوثعلبہ اشجعی، ابن عباس، عقبہ بن عامر، ابو سعید خدری اور قرہ بن ایاس مزنی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ابوثعلبہ اشجعی کی نبی اکرم ﷺ سے صرف ایک ہی حدیث ہے، اور وہ یہی حدیث ہے، اور یہ خشنی نہیں ہیں (ابوثعلبہ خشنی دوسرے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ٩ (٦٦٥٦) صحیح مسلم/البروالصلة ٤٧ (٢٦٣٢) سنن النسائی/الجنائز ٢٥ (١٨٧٦) (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٤) مسند احمد (٢/٤٧٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٦ (١٢٥١) صحیح مسلم/الجنائز (المصدر المذکور) سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٧ (١٦٠٣) مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٧٦، ٤٧٩) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : «تحلۃ القسم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا فرمان «وإن منکم إلا واردها» تم میں سے ہر شخص اس جہنم میں وارد ہوگا ، ہے اور وارد سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1603) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1060

【97】

جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تین بچوں کو (لڑکے ہوں یا لڑکیاں) بطور ذخیرہ آخرت کے آگے بھیج دیا ہو، اور وہ سن بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچانے کا ایک مضبوط قلعہ ہوں گے ۔ اس پر ابوذر (رض) نے عرض کیا : میں نے دو بچے بھیجے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : دو بھی کافی ہیں ۔ تو ابی بن کعب سید القراء ١ ؎ (رض) نے عرض کیا : میں نے ایک ہی بھیجا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ایک بھی کافی ہے۔ البتہ یہ قلعہ اس وقت ہوں گے جب وہ پہلے صدمے کے وقت یعنی مرنے کے ساتھ ہی صبر کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ابوعبیدہ عبیدہ نے اپنے والد عبداللہ بن مسعود (رض) سے نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٧ (١٦٠٦) (تحفة الأشراف : ٩٦٣٤) مسند احمد (١/٣٧٥، ٤٢٩، ٤٥١) (ضعیف) (سند میں ” ابو محمد مجہول ہیں، اور ” ابو عبیدہ “ کا اپنے باپ ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : انہیں سیدالقراء اس لیے کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا ہے : «أقرؤكم أبي» تم میں سب سے بڑے قاری ابی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1606) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (351) ، المشکاة (1755) ، ضعيف الجامع الصغير (5754) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1061

【98】

جس کا بیٹا فوت ہوجائے اس کا ثواب

عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میری امت میں سے جس کے دو پیش رو ہوں، اللہ اسے ان کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا اس پر عائشہ (رض) نے عرض کیا : آپ کی امت میں سے جس کے ایک ہی پیش رو ہو تو ؟ آپ نے فرمایا : جس کے ایک ہی پیش رو ہو اسے بھی، اے توفیق یافتہ خاتون ! (پھر) انہوں نے پوچھا : آپ کی امت میں جس کا کوئی پیش رو ہی نہ ہو اس کا کیا ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا : میں اپنی امت کا پیش رو ہوں کسی کی جدائی سے انہیں ایسی تکلیف نہیں ہوگی جیسی میری جدائی سے انہیں ہوگی ۔

【99】

شہداء کون ہیں ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہید پانچ لوگ ہیں : جو طاعون میں مرا ہو، جو پیٹ کے مرض سے مرا ہو، جو ڈوب کر مرا ہو، جو دیوار وغیرہ گر جانے سے مرا ہو، اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، صفوان بن امیہ، جابر بن عتیک، خالد بن عرفطہٰ ، سلیمان بن صرد، ابوموسیٰ اشعری اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٢ (٦٥٢) و ٧٣ (٧٢٠) (بزیادة فی السیاق) والجہاد ٣٠ (٢٨٢٩) والطب ٣٠ (٥٧٣٣) صحیح مسلم/الإمارة ٥١ (١٩١٤) (بزیادة في السیاق) موطا امام مالک/الجماعة ٢ (٦) (بزیادة فی السیاق) مسند احمد (٢/٣٢٥، ٥٣٣) (بزیادة فی السیاق) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الإمارة (المصدر المذکور) سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٧ (٢٨٠٤) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : یہ پانچ قسم کے افراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز شہیدوں کا ثواب عطا فرمائے گا بعض روایات میں کچھ اور لوگوں کا بھی ذکر ہے ان احادیث میں تضاد نہیں اس لیے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ کو اتنے ہی لوگوں کے بارے میں بتایا گیا بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس فہرست میں کچھ مزید لوگوں کا بھی اضافہ فرما دیا ان میں «شہید فی سبیل اللہ» کا درجہ سب سے بلند ہے کیونکہ حقیقی شہید وہی ہے بشرطیکہ وہ صدق دلی سے اللہ کی راہ میں لڑا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (38) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1063

【100】

شہداء کون ہیں ؟

ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ سلیمان بن صرد نے خالد بن عرفطہٰ سے (یا خالد نے سلیمان سے) پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے نہیں سنا ؟ جسے اس کا پیٹ مار دے ١ ؎ اسے قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا تو ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا : ہاں (سنا ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس کے علاوہ یہ اور بھی طریق سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١١١ (٢٠٥٤) (تحفة الأشراف : ٣٥٠٣ و ٤٥٦٧) مسند احمد (٤/٢٦٢) و (٥/٢٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہیضہ اور اسہال وغیرہ سے مرجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (38) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1064

【101】

طاعون سے بھاگنا منع ہے

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے طاعون کا ذکر کیا، تو فرمایا : یہ اس عذاب کا بچا ہوا حصہ ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ ١ ؎ پر بھیجا گیا تھا جب کسی زمین (ملک یا شہر) میں طاعون ہو جہاں پر تم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو ٢ ؎ اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلا ہو جہاں تم نہ رہتے ہو تو وہاں نہ جاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اسامہ بن زید کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سعد، خزیمہ بن ثابت، عبدالرحمٰن بن عوف، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٣) والحیل ١٣ (٦٩٧٤) صحیح مسلم/السلام ٣٢ (٢٢١٨) (تحفة الأشراف : ٩٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الطب ٣٠ (٥٧٢٨) صحیح مسلم/السلام (المصدرالمذکور) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کا حکم دیا تھا لیکن انہوں نے مخالفت کی ، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا «فأرسلنا عليهم رجزاً من السماء» آیت میں «رجزاً من السماء» سے مراد طاعون ہے چناچہ ایک گھنٹہ میں ان کے بڑے بوڑھوں میں سے ٢٤ ہزار لوگ مرگئے۔ ٢ ؎ : کیونکہ وہاں سے بھاگ کر تم نہیں بچ سکتے اس سے بچاؤ کا راستہ توبہ و استغفار ہے نہ کہ وہاں سے چلے جانا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1065

【102】

جو اللہ کی ملاقات کو محبوب رکھے اللہ بھی اس سے ملنا پسند فرماتا ہے۔

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہو اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوموسیٰ اشعری، ابوہریرہ، اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤١ (٦٥٠٧) صحیح مسلم/الذکر ٥ (٢٦٨٣) سنن النسائی/الجنائز ١٠ (١٨٣٦) مسند احمد (٥/٣١٦، ٣٢١) سنن الدارمی/الرقاق ٤٣ (٢٧٩٨) ویأتي عند المؤلف في الزہد ٦ (٢٣٠٩) (تحفة الأشراف : ٥٠٧٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1066

【103】

جو اللہ کی ملاقات کو محبوب رکھے اللہ بھی اس سے ملنا پسند فرماتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے، اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ۔ تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم سبھی کو موت ناپسند ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : یہ مراد نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی خوشنودی اور اس کے جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ اس سے ملنا چاہتا ہے، اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کی غصے کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤١ (تعلیقا بعد حدیث عبادة) صحیح مسلم/الذکر ٥ (٢٦٨٤) سنن النسائی/الجنائز ١٠ (١٨٣٩) سنن ابن ماجہ/الزہد ٣١ (٤٢٦٤) (تحفة الأشراف : ١٦١٠٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الذکر (المصدر المذکور) مسند احمد (٦/٤٤، ٥٥، ٢٠٧) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ جان نکلنے کے وقت اور موت کے فرشتوں کے آ جانے کے وقت آدمی میں اللہ سے ملنے کی جو چاہت ہوتی ہے وہ مراد ہے نہ کہ عام حالات میں کیونکہ عام حالات میں کوئی بھی مرنے کو پسند نہیں کرتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4264) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1067

【104】

خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خودکشی کرلی، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر شخص کی نماز پڑھی جائے گی جو قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہو اور خودکشی کرنے والے کی بھی پڑھی جائے گی۔ ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٣- اور احمد کہتے ہیں : امام خودکشی کرنے والے کی نماز نہیں پڑھے گا، البتہ (مسلمانوں کے مسلمان حاکم) امام کے علاوہ لوگ پڑھیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣١ (١٥٢٦) (تحفة الأشراف : ٢١٤٠، ٢١٧٤) (٥/٨٧، ٩٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1526) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1068

【105】

قرض دار کی نماز جنازہ

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص لایا گیا تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو کیونکہ اس پر قرض ہے ۔ (میں نہیں پڑھوں گا) اس پر ابوقتادہ نے عرض کیا : اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : پورا پورا ادا کرو گے ؟ تو انہوں نے کہا : (ہاں) پورا پورا ادا کریں گے تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر، سلمہ بن الاکوع، اسماء بنت یزید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٦٧ (١٩٦٢) سنن ابن ماجہ/الصدقات ٩ (٢٤٠٧) سنن الدارمی/البیوع ٥٣ (٢٦٣٥) (تحفة الأشراف : ١٢١٠٣) مسند احمد (٥/٣٠٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2407) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1069

【106】

قرض دار کی نماز جنازہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی فوت شدہ شخص جس پر قرض ہو لایا جاتا تو آپ پوچھتے : کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے ؟ اگر آپ کو بتایا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے جس سے اس کے قرض کی مکمل ادائیگی ہوجائے گی تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھاتے، ورنہ مسلمانوں سے فرماتے : تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھ سکتا) ، پھر جب اللہ نے آپ کے لیے فتوحات کا دروازہ کھولا تو آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا : میں مسلمانوں کا ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حقدار ہوں۔ تو مسلمانوں میں سے جس کی موت ہوجائے اور وہ قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کر جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے یحییٰ بن بکیر اور دیگر کئی لوگوں نے لیث بن سعد سے عبداللہ بن صالح کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکفارة ٥ (٢٢٩٨) والنفقات ١٥ (٥٣٧١) صحیح مسلم/الفرائض ٤ (١٦١٩) (تحفة الأشراف : ١٥٢١١٦) مسند احمد (٢/٤٥٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن النسائی/الجنائز ٦٧ (١٩٦٥) سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٣ (٢٤١٥) مسند احمد (٢/٢٩٠) من غیر ہذا الوجہ، وأخرجہ : صحیح البخاری/الاستقراض ١١ (٢٣٩٨، ٢٣٩٩) وتفسیر الاقراب ١ (٤٧٩١) والفرائض ٤ (٦٧٣١) و ١٥ (٦٧٤٥) و ٢٥ (٦٧٦٣) صحیح مسلم/الفرائض (المصدرالمذکور) مسند احمد (٢/٤٥٦) مغتصرا ومن غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2415) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1070

【107】

عذاب قبر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنا دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دو فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں : تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ وہ (میت) کہتا ہے : وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں : ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول و عرض میں ستر ستر گز کشادہ کردی جاتی ہے، پھر اس میں روشنی کردی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے : سو جا، وہ کہتا ہے : مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچا دو کہ میں انہیں یہ بتاسکوں، تو وہ دونوں کہتے ہیں : تو سو جا اس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگاتا ہے جو اس کے گھر والوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے، اور اگر وہ منافق ہے، تو کہتا ہے : میں لوگوں کو جو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتا تھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں : ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہا جاتا ہے : تو اسے دبوچ لے تو وہ اسے دبوچ لیتی ہے اور پھر اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں علی، زید بن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب، انس، جابر، ام المؤمنین عائشہ اور ابوسفیان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ان سبھوں نے نبی اکرم ﷺ سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٩٧٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (130) ، الصحيحة (1391) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1071

【108】

عذاب قبر

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی آدمی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتیوں میں سے ہے تو جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے اور اگر وہ جہنمیوں میں سے ہے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے، پھر اس سے کہا جاتا ہے : یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ اللہ تجھے قیامت کے دن اٹھائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٠٥٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ٨٩ (١٣٧٩) وبدء الخلق ٨ (٣٢٤) والرقاق ٤٢ (٦٥١٥) صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٦٦) سنن النسائی/الجنائز ١١٦) (٢٠٧٢، ٢٠٧٣، ٢٠٧٤ الزہد ٣٢ (٤٢٧٠) موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٧) مسند احمد (٢/١٦، ٥١، ١١٣، ١٢٣) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس طرح کی مزید صحیح احادیث میں منکرین عذاب قبر کا پورا پورا رد پایا جاتا ہے ، اگر ایسے لوگ عالم برزخ کے احوال کو اپنی عقل پر پرکھیں اور اپنی عقلوں کو ہی دین کا معیار بنائیں تو پھر شریعت مطہرہ میں ایمانیات کے تعلق سے کتنے ہی ایسے بیسیوں مسائل ہیں کہ جن کا ادراک انسانی عقل کر ہی نہیں سکتی تو پھر کیا قرآن وسنت اور سلف صالحین کی وہی راہ تھی جو اس طرح کی عقل والوں نے اختیار کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1072

【109】

مصیبت زدہ کو تسلی دینے پر اجر

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مصیبت زدہ کی (تعزیت) ماتم پرسی کی، اسے بھی اس کے برابر اجر ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف علی بن عاصم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، بعض لوگوں نے محمد بن سوقہ سے اسی جیسی حدیث اسی سند سے موقوفاً روایت کی ہے۔ اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٣- کہا جاتا ہے کہ علی بن عاصم پر جو زیادہ طعن ہوا، اور لوگوں نے ان پر نکیر کی ہے وہ اسی حدیث کے سبب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٦ (١٦٠٢) (تحفة الأشراف : ٩١٦٦) (ضعیف) (سند میں علی بن عاصم بہت غلطی کرتے تھے اور اپنی غلطی پر اصرار بھی کرتے تھے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1602) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (350) ، وانظر تعليقي عليه في الصفحة (121) ، المشکاة (1737) ، ضعيف الجامع الصغير (5696) ، الإرواء (765) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1073

【110】

جمعہ کے دن مرنے والے کی فضیلت

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ربیعہ بن سیف ابوعبدالرحمٰن حبلی سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن عمرو سے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ ربیعہ بن سیف کی عبداللہ بن عمرو (رض) سے سماع ہے یا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر : مسند احمد (٢/١٦٩) (تحفة الأشراف : ٨٦٢٥) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (1367) ، الأحكام (35) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1074

【111】

جنازہ میں جلدی کرنا

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : علی ! تین چیزوں میں دیر نہ کرو : نماز کو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کو جب آ جائے، اور بیوہ (کے نکاح) کو جب تم اس کا کفو (مناسب ہمسر) پالو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- میں اس کی سند متصل نہیں جانتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٨ (١٤٨٦) (تحفة الأشراف : ١٠٢٥١) (ضعیف) (سند میں سعید بن عبداللہ جہنی لین الحدیث ہیں لیکن دیگر دلائل سے حدیث کا معنی صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1486) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (326) ، المشکاة (605) ، ضعيف الجامع الصغير (2563 و 6181) ، وتقدم برقم (25 / 172) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1075

【112】

تعزیت کی فضیلت

ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی ایسی عورت کی تعزیت (ماتم پرسی) کی جس کا لڑکا مرگیا ہو، تو اسے جنت میں اس کے بدلہ ایک عمدہ کپڑا پہنایا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اس کی سند قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٦٠٩) (ضعیف) (اس کی راویہ ” منیہ “ مجہول الحال ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1738) // ضعيف الجامع الصغير (5695) ، الإرواء (764) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1076

【113】

نماز جنازہ میں ہاتھ اٹھانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازے میں اللہ اکبر کہا تو پہلی تکبیر پر آپ نے رفع یدین کیا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٣- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ آدمی جنازے میں ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے گا، یہ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ١ ؎، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں : صرف پہلی بار اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ٢ ؎، ٥- ابن مبارک کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو نہیں پکڑے گا، ٦- اور بعض اہل علم کہتے ہیں : وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑے گا جیسے وہ دوسری نماز میں کرتا ہے، ٧- امام ترمذی کہتے ہیں : ہاتھ باندھنا مجھے زیادہ پسند ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣١١٧) (حسن) (سند میں ابو فردہ یزید بن سناز ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، دیکھئے احکام الجنائز : ١١٥، ١١٦) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کا استدلال عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث سے ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز جنازہ پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ ہر تکبیر میں اٹھاتے اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی علل میں «عن عمر بن شبہ حدثنا یزید بن ہارون انبأنا یحییٰ بن سعید عن نافع عن ابن عمروقال ہکذا … رفعہ عمر بن شبة» کے طریق سے کی ہے لیکن ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے اور یزید بن ہارون سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے اور یہی صحیح ہے اس باب میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔ ٢ ؎ : ان لوگوں کا استدلال باب کی اس حدیث سے ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے نیز ان کی دوسری دلیل ابن عباس کی روایت ہے اس کی تخریج دارقطنی نے کی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنازہ میں اپنے دونوں ہاتھ پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے پھر ایسا نہیں کرتے تھے لیکن اس میں ایک راوی فضل بن سکن ہے جسے علماء نے ضعیف کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الأحكام (115 - 116) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1077

【114】

مومن کا جی قرض کی طرف لگا رہتا ہے جب تک کوئی اس کی طرف سے ادا نہ کردے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ١٤٩٥٩) وانظر : مسند احمد (٢/٤٤٠) (صحیح) وأخرجہ سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٢ و مسند احمد (٢/٤٧٥) من غیر ہذا الوجہ، انظر الحدیث الآتي۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2413) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1078

【115】

مومن کا جی قرض کی طرف لگا رہتا ہے جب تک کوئی اس کی طرف سے ادا نہ کردے۔

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ١ ؎ ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٤٩٨١) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا معاملہ موقوف رہتا ہے اس کی نجات یا ہلاکت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔ ٢ ؎ : یہ خاص ہے اس شخص کے ساتھ جس کے پاس اتنا مال ہو جس سے وہ قرض ادا کرسکے رہا وہ شخص جس کے پاس مال نہ ہو اور وہ اس حال میں مرا ہوا کہ قرض کی ادائیگی کا اس کا پختہ ارادہ رہا ہو تو ایسے شخص کے بارے میں حدیث میں وارد ہے کہ اس کا قرض اللہ تعالیٰ ادا کر دے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (1078) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1079