11. نکاح کا بیان
نکاح کے میں جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چار باتیں انبیاء و رسل کی سنت میں سے ہیں : حیاء کرنا، عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوایوب انصاری (رض) کی حدیث حسن غریب ہے - تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (٣٤٩٩) ، وانظر : مسند احمد (٥/٤٢١) (ضعیف) (سند میں ابو الشمال مجہول راوی ہیں، لیکن اس حدیث کے معنی کی تائید دیگر طرق سے موجود ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی رسولوں نے خود اسے کیا ہے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دی ہے ، رسولوں کی سنت اسے تغلیباً کہا گیا ہے کیونکہ ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں بعض رسولوں نے نہیں کیا ہے مثلاً نوح (علیہ السلام) نے ختنہ نہیں کرایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے شادی نہیں کی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (382) ، الإرواء (75) ، الرد علی الکتاني ص (12) // ضعيف الجامع الصغير (760) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1080
نکاح کے میں جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نکلے، ہم نوجوان تھے، ہمارے پاس (شادی وغیرہ امور میں سے) کسی چیز کی مقدرت نہ تھی۔ تو آپ نے فرمایا : اے نوجوانوں کی جماعت ! تمہارے اوپر ١ ؎ نکاح لازم ہے، کیونکہ یہ نگاہ کو نیچی کرنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اور جو تم میں سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر صوم کا اہتمام ضروری ہے، کیونکہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے ۔
ترک نکاح کی ممانعت
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بےشادی زندگی گزارنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- زید بن اخزم نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ قتادہ نے یہ آیت کریمہ : «ولقد أرسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لهم أزواجا وذرية» ٢ ؎ ہم آپ سے پہلے کئی رسول بھیج چکے ہیں، ہم نے انہیں بیویاں عطا کیں اور اولادیں پڑھی ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سمرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اشعث بن عبدالملک نے یہ حدیث بطریق : «الحسن عن سعد بن هشام عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، ٣- کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ہی حدیثیں صحیح ہیں، ٤- اس باب میں سعد، انس بن مالک، عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٤ (٣٢١٦) سنن ابن ماجہ/النکاح ٢ (١٨٤٩) (تحفة الأشراف : ٤٥٩٠) مسند احمد (٥/١٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «تبتل» کے معنی عورتوں سے الگ رہنے ، نکاح نہ کرنے اور ازدواجی تعلق سے کنارہ کش رہنے کے ہیں۔ ٢ ؎ : الرعد : ٣٨۔ ٣ ؎ : آیت میں «ازواجاً» سے رہبانیت اور «ذریّۃ» سے خاندانی منصوبہ بندی ( فیملی پلاننگ ) کی تردید ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (1081) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1082
ترک نکاح کی ممانعت
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون کو بغیر شادی کے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی، اگر آپ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٨ (٥٠٧٣) ، صحیح مسلم/النکاح ١ (١٤٠٢) ، سنن النسائی/النکاح ٤ (٣٢١٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢ (١٨٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٨٥٦) ، مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٦، ١٨٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٣ (٢٢١٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہم اپنے آپ کو ایسا کرلیتے کہ ہمیں عورتوں کی خواہش رہ ہی نہیں جاتی تاکہ شادی بیاہ کے مراسم سے الگ تھلگ رہ کر ہم صرف اللہ کی عبادت میں مشغول رہ سکیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1083
جس کی دینداری پسند کرو اس سے نکاح کرو۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی اس روایت میں عبدالحمید بن سلیمان کی مخالفت کی گئی ہے، اسے لیث بن سعد نے بطریق : «ابن عجلان عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً (من قطعاً ) روایت کی ہے (یعنی : ابن وشیمہ کا ذکر نہیں کیا ہے) ، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کا کہنا ہے کہ لیث کی حدیث اشبہ (قریب تر) ہے، انہوں (بخاری) نے عبدالحمید کی حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، ٣- اس باب میں ابوحاتم مزنی اور عائشہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٦ (١٩٦٧) (حسن صحیح) (سند میں عبدالحمید بن سلیمان میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے الإ رواء رقم : ١٨٦٨، الصحیحة ١٠٢٢) قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (1668) ، الصحيحة (1022) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1084
جس کی دینداری پسند کرو اس سے نکاح کرو۔
ابوحاتم مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کا پیغام لے کر) آئے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہوگا ١ ؎ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر اس میں کچھ ہو ؟ آپ نے تین بار یہی فرمایا : جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ابوحاتم مزنی کو شرف صحبت حاصل ہے، ہم اس کے علاوہ ان کی کوئی حدیث نہیں جانتے جو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ المراسل (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے رواة ” محمد “ اور ” سعید “ دونوں مجہول ہیں، دیکھئے : اوپر کی حدیث ابی ہریرہ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ اگر تم صرف مال یا جاہ والے شخص ہی سے شادی کرو گے تو بہت سے مرد بغیر بیوی کے اور بہت سی عورتیں بغیر شوہر کے رہ جائیں گی جس سے زنا اور حرام کاری عام ہوگی اور ولی کو عار و ندامت کا سامنا کرنا ہوگا جو فتنہ و فساد کے بھڑکنے کا باعث ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : حسن بما قبله (1084) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1085
لوگ تین چیزیں دیکھ کر نکاح کرتے ہیں
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت سے نکاح اس کی دین داری، اس کے مال اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے کیا جاتا ہے ١ ؎ لیکن تو دیندار (عورت) سے نکاح کو لازم پکڑ لو ٢ ؎ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عوف بن مالک، ام المؤمنین عائشہ (رض)، عبداللہ بن عمرو، اور ابو سعید خدری (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر : سنن الدارمی/النکاح ٤ (٢٢١٧) (تحفة الأشراف : ٢٤٤٤) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الرضاع ١٥ (٧١٥/٥٤) ، سنن النسائی/النکاح ١٠ (٣٢٢٨) ، مسند احمد (٣/٣٠٢) بتغیر یسیر فی السیاق۔ وضاحت : ١ ؎ : بخاری و مسلم کی روایت میں چار چیزوں کا ذکر ہے ، چوتھی چیز اس کا حسب نسب اور خاندانی شرافت ہے۔ ٢ ؎ : یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ دیندار عورت ہی صحیح معنوں میں نیک چلن ، شوہر کی اطاعت گزار اور وفادار ہوتی ہے جس سے انسان کی معاشرتی زندگی میں خوش گواری آتی ہے اور اس کی گود میں جو نسل پروان چڑھتی وہ بھی صالح اور دیندار ہوتی ہے ، اس کے برعکس باقی تین قسم کی عورتیں عموماً انسان کے لیے زحمت اور اولاد کے لیے بھی بگاڑ کا باعث ہوتی ہیں۔ ٣ ؎: یہاں بد دعا مراد نہیں بلکہ شادی کے لیے جدوجہد اور سعی و کوشش پر ابھارنا مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1858) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1086
جس عورت سے پیغام نکاح کرے اس کو دیکھ لینا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک عورت کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اسے دیکھ لو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں محمد بن مسلمہ، جابر، ابوحمید اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں : اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں جب وہ اس کی کوئی ایسی چیز نہ دیکھے جس کا دیکھنا حرام ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- اور «أحری أن يؤدم بينكما» کے معنی یہ ہیں کہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت پیدا کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ١٧ (٢٢٣٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٩ (١٨٦٦) ، (بزیادة في السیاق) ( تحفة الأشراف : ١١٤٨٩) ، مسند احمد (٤/٢٤٥، ٢٤٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٥ (٢٢١٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جمہور کے نزدیک یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں ، اگر کوئی کسی قابل اعتماد رشتہ دار عورت کو بھیج کر عورت کے رنگ و روپ اور عادات وخصائل کا پتہ لگالے تو یہ بھی ٹھیک ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلیم (رض) کو بھیج کر ایک عورت کے متعلق معلومات حاصل کی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1865) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1087
نکاح کا اعلان کرنا
محمد بن حاطب جمحی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حرام اور حلال (نکاح) کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- محمد بن حاطب کی حدیث حسن ہے، ٢- محمد بن حاطب نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے، لیکن وہ کم سن بچے تھے، ٣- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ (رض)، جابر اور ربیع بنت معوذ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٧٢ (٣٣٧٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٠ (١٨٩٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٢١) ، مسند احمد (٣/٤١٨) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح اعلانیہ کیا جانا چاہیئے ، خفیہ طور پر چوری چھپے نہیں ، اس لیے کہ اعلانیہ نکاح کرنے پر کسی کو میاں بیوی کے تعلقات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔ عموماً یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ غلط نکاح ہی چھپ کر کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1896) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1088
نکاح کا اعلان کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس پر دف بجاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں یہ حدیث غریب حسن ہے، ٢- عیسیٰ بن میمون انصاری حدیث میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں، ٣- عیسیٰ بن میمون جو ابن ابی نجیح سے تفسیر روایت کرتے ہیں، ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٤٧) (ضعیف) (سند میں عیسیٰ بن میمون ضعیف ہیں مگر اعلان والا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف إلا الإعلان، ابن ماجة (1895) // ضعيف ابن ماجة (416) ، صحيح ابن ماجة (1537) ، الإرواء (1993) ، آداب الزفاف الصفحة (111) الطبعة المزيدة والمهذبة، طبع المکتب الإسلامي، ضعيف الجامع الصغير (966) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1089
نکاح کا اعلان کرنا
ربیع بنت معوذ (رض) کہتی ہیں کہ جس رات میری شادی اس کی صبح رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے۔ آپ میرے بستر پر ایسے ہی بیٹھے، جیسے تم (خالد بن ذکوان) میرے پاس بیٹھے ہو۔ اور چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجا رہی تھیں اور جو ہمارے باپ دادا میں سے جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے ان کا مرثیہ گا رہی تھیں، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا : ہمارے درمیان ایک نبی ہے جو ان چیزوں کو جانتا ہے جو کل ہوں گی، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : یہ نہ کہہ۔ وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٢ (٤٠٠١١) ، سنن ابی داود/ الأدب ٥٩ (٤٩٢٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢١ (١٨٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٣٢) ، مسند احمد (٨/٣٥٩، ٣٦٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الآداب (94) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1090
نکاح کرنے والے کو کیا کہا جائے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ شادی کرنے پر جب کسی کو مبارک باد دیتے تو فرماتے : «بارک اللہ لک وبارک عليك وجمع بينكما في الخير» اللہ تجھے برکت عطا کرے، اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر پر جمع کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٣٧ (٢١٣٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٣ (١٩٠٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٦٩٨) ، مسند احمد (٢/٣٨١) ، سنن الدارمی/النکاح ٦ (٢٢١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2905) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1091
جب بیوی کے پاس جائے تو کیا کہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے یعنی اس سے صحبت کرنے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے : «بسم اللہ اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام سے، اے اللہ ! تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عطا کرے یعنی ہماری اولاد کو ، تو اگر اللہ نے ان کے درمیان اولاد دینے کا فیصلہ کیا ہوگا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٨ (١٤١) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٨٣) ، والنکاح ٦٦ (٥١٦١) ، والدعوات ٥٥ (٦٣٨٨) ، والتوحید ١٣ (٧٣٩٦) ، صحیح مسلم/النکاح ١٨ (١٤٣٤) ، سنن ابی داود/ النکاح ٤٦ (٢١٦١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٧ (١٩١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٦٣٤٩) ، مسند احمد ١ (٣٢٠، ٢٤٣، ٢٨٣، ٢٨٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٩ (٢٢٥٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1919) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1092
وہ اوقات جن میں نکاح کرنا مستحب ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شوال میں مجھ سے شادی کی اور شوال ہی میں میرے ساتھ آپ نے شب زفاف منائی، عائشہ (رض) اپنے خاندان کی عورتوں کی رخصتی شوال میں کی جانے کو مستحب سمجھتی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے ہم صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، اور ثوری اسماعیل بن امیہ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١١ (١٤٢٣) ، سنن النسائی/النکاح ١٨ (٣٢٣٨) ، و ٧٧ (٣٣٧٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٣ (١٩٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٣٥٥) ، مسند احمد (٦/٥٤، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٨ (٢٢٥٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1990) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1093
ولیمہ
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کرلی ہے، آپ نے فرمایا : اللہ تمہیں برکت عطا کرے، ولیمہ ١ ؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، جابر اور زہیر بن عثمان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- احمد بن حنبل کہتے ہیں : گٹھلی بھر سونے کا وزن تین درہم اور تہائی درہم وزن کے برابر ہوتا ہے، ٤- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : پانچ درہم اور تہائی درہم کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٥٦ (٥١٥٥) ، والدعوات ٥٣ (٦٣٨٦) ، صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٢٧) ، سنن النسائی/النکاح ٧٤ (٣٣٧٤، ٣٣٧٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٢ (٢٢٥٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ١ (٢٠٤٩) ، ومناقب الأنصار ٣ (٣٧٨١) ، والنکاح ٤٩ (٥١٣٨) ، و ٥٤ (٥١٥٣) ، و ٦٨ (٥١٦٨) ، والأدب ٦٧ (٦٠٨٢) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ النکاح ٣٠ (٢١٩٠) ، مسند احمد (٣/١٦٥، ١٩٠، ٢٠٥، ٢٧١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٨ (٢١٠٨) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : «أولم ولو بشأة» میں «لو» تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم از کم ایک بکری ذبح کرو ، لیکن نبی اکرم ﷺ نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستو اور کھجور پر اکتفا کیا ، اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو ، عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کی مالی حالت کے پیش نظر ایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپ نے ان سے «أولم ولو بشأة» فرمایا۔ ٢ ؎ : شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں ، یہ «ولم» (واؤ کے فتحہ اور لام کے سکون کے ساتھ ) سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھا اور جمع ہونے کے ہیں ، چونکہ میاں بیوی اکٹھا ہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں ، ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعد ہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اور بعض نے اسے واجب کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1907) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1094
ولیمہ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صفیہ بنت حیی کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأطعمة ٢ (٣٧٤٤) ، سنن النسائی/النکاح ٧٩ (٣٣٨٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٨٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/النکاح ١٤ والجہاد ٤٣ (١٣٦٥) ، من غیر ہذا الوجہ وفي سیاق طویل۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1909) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1095
ولیمہ
اس سند سے بھی سفیان سے اسی طرح مروی ہے، اور کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «ابن عيينة، عن الزهري، عن أنس» روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اس میں وائل بن داود اور ان کے بیٹے کے واسطوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔ کبھی انہوں نے اس میں «وائل بن داود عن ابنہ» کا ذکر نہیں کیا ہے اور کبھی اس کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1096
ولیمہ
ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلے روز کا کھانا حق ہے، دوسرے روز کا کھانا سنت ہے۔ اور تیسرے روز کا کھانا تو محض دکھاوا اور نمائش ہے اور جو ریاکاری کرے گا اللہ اسے اس کی ریاکاری کی سزا دے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود کی حدیث کو ہم صرف زیاد بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ اور زیاد بن عبداللہ بہت زیادہ غریب اور منکر احادیث بیان کرتے ہیں، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا کہ وہ محمد بن عقبہ سے نقل کر رہے تھے کہ وکیع کہتے ہیں : زیاد بن عبداللہ اس بات سے بہت بلند ہیں کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ الؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٣٢٩) (ضعیف) (اس کے راوی زیاد بن عبداللہ بکائی میں ضعف ہے، مؤلف نے اس کی صراحت کر سنن الدارمی/ ہے، لیکن آخری ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں جن میں سے بعض صحیحین میں ہیں) وضاحت : ١ ؎ : ترمذی کے نسخوں میں یہاں پر عبارت یوں ہے : «مع شرفه يكذب» جس کا مطلب یہ ہے کہ وکیع نے ان پر سخت جرح کی ہے ، اور ان کی شرافت کے اعتراف کے ساتھ ان کے بارے میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولتے ہیں ، اور یہ بالکل غلط اور وکیع کے قول کے برعکس ہے ، التاریخ الکبیر للبخاری ٣/الترجمۃ ١٢١٨ اور تہذیب الکمال میں عبارت یوں ہے : «هو أشرف من أن يكذب» نیز حافظ ابن حجر نے تقریب میں لکھا ہے کہ وکیع سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے زیاد کی تکذیب کی ہے ، ان کی عبارت یہ ہے : «صدوق ثبت في المغازي و في حديثه عن غير ابن إسحاق لين ، ولم يثبت أن وكيعا کذبه ، وله في البخاري موضع واحد متابعة» یعنی زیاد بن عبداللہ عامری بکائی کوفی فن مغازی و سیر میں صدوق اور ثقہ ہیں ، اور محمد بن اسحاق صاحب المغازی کے سوا دوسرے رواۃ سے ان کی حدیث میں کمزوری ہے ، وکیع سے ان کی تکذیب ثابت نہیں ہے ، اور صحیح بخاری میں ان کا ذکر متابعت میں ایک بار آیا ہے۔ ( الفریوائی ) ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ دو دن تک تو درست ہے اور تیسرے دن اس کا اہتمام کرنا دکھاوا اور نمائش کا ذریعہ ہے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تیسرے دن کی ممانعت اس صورت میں ہے جب کھانے والے وہی لوگ ہوں لیکن اگر ہر روز نئے لوگ مدعو ہوں ، تو کوئی حرج نہیں ، امام بخاری جیسے محدثین کرام تو سات دن تک ولیمہ کے قائل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1915) // ضعيف الجامع الصغير (3616) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1097
دعوت قبول کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہیں دعوت دی جائے تو تم دعوت میں آؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابوہریرہ، براء، انس اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٦ (١٤٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ٧٤٩٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/النکاح ٧١ (٥١٧٣) ، و ٧٤ (٥١٧٩) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ١ (٣٧٣٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٥ (١٩١٤) ، موطا امام مالک/النکاح ٢١ (٤٩) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٤٠ (٢١٢٧) ، (٢١٢٧) ، والنکاح ٢٣ (٢٢٥١) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1914) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1098
بن بلائے ولیمہ میں جانا
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ ابوشعیب نامی ایک شخص نے اپنے ایک گوشت فروش لڑکے کے پاس آ کر کہا : تم میرے لیے کھانا بنا جو پانچ آدمیوں کے لیے کافی ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر بھوک کا اثر دیکھا ہے، تو اس نے کھانا تیار کیا۔ پھر نبی اکرم ﷺ کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔ تو اس نے آپ کو اور آپ کے ساتھ جو لوگ بیٹھے تھے سب کو کھانے کے لیے بلایا، جب نبی اکرم ﷺ (چلنے کے لیے) اٹھے، تو آپ کے پیچھے ایک اور شخص بھی چلا آیا، جو آپ کے ساتھ اس وقت نہیں تھا جب آپ کو دعوت دی گئی تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ دروازے پر پہنچے تو آپ نے صاحب خانہ سے فرمایا : ہمارے ساتھ ایک اور شخص ہے جو ہمارے ساتھ اس وقت نہیں تھا، جب تم نے دعوت دی تھی، اگر تم اجازت دو تو وہ بھی اندر آ جائے ؟ ، اس نے کہا : ہم نے اسے بھی اجازت دے دی، وہ بھی اندر آ جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٢١ (٢٠٨١) ، والمظالم ١٤ (٢٤٥٦) ، والأطعمة ٣٤ (٥٤٣٤) ، و ٥٧ (٥٤٦١) ، صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ١٩ (٢٠٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٩٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ بغیر دعوت کے کسی کے ساتھ طفیلی بن کر دعوت میں شریک ہونا غیر اخلاقی حرکت ہے ، تاہم اگر صاحب دعوت سے اجازت لے لی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1099
کنواری لڑکیوں سے نکاح کرنے کے بیان میں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی پھر میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے پوچھا : جابر ! کیا تم نے شادی کی ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں کی ہے، آپ نے فرمایا : کسی کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے کہا : نہیں، غیر کنواری سے۔ آپ نے فرمایا : کسی (کنواری) لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی، تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! (میرے والد) عبداللہ کا انتقال ہوگیا ہے، اور انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں، میں ایسی عورت کو بیاہ کر لایا ہوں جو ان کی دیکھ بھال کرسکے۔ چناچہ آپ نے میرے لیے دعا فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر بن عبداللہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابی بن کعب اور کعب بن عجرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النفقات ١٢ (٥٣٨٧) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٧) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٦ (٧١٥) سنن النسائی/النکاح ٦ (٣٢٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥١٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ٤٣ (٢٠٩٧) ، والوکالة ٨ (٢٣٠٩) ، والجہاد ١١٣ (٢٩٦٧) ، والمغازي ١٨ (٤٠٥٢) ، والنکاح ١٠ (٥٠٧٩) و ١٢١ (٥٢٤٥) ، و ١٢٢ (٥٢٤٧) ، صحیح مسلم/الرضاع (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ النکاح ٣ (٢٠٤٨) ، مسند احمد (٣/٢٩٤، ٣٠٢، ٣٢٤، ٣٦٢، ٣٧٤، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٢ (٢٢٦٢) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (178) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1100
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عائشہ، ابن عباس، ابوہریرہ، عمران بن حصین اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ (ابوموسیٰ اشعری کی حدیث پر مولف کا مفصل کلام اگلے باب میں آ رہا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٢٠ (٢٠٨٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٥ (١٨٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩١١٥) ، مسند احمد (٤/٤١٣، ٤١٨) ، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٢٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ، جمہور کے نزدیک نکاح کے لیے ولی اور دو گواہ ضروری ہیں ، ولی سے مراد باپ ہے ، باپ کی غیر موجودگی میں دادا پھر بھائی پھر چچا ہے ، اگر کسی کے پاس دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف ہوجائے تو ترجیح قریبی ولی کو حاصل ہوگی اور جس کا کوئی ولی نہ ہو تو ( مسلم ) حاکم اس کا ولی ہوگا ، اور جہاں مسلم حاکم نہ ہو وہاں گاؤں کے باحیثیت مسلمان ولی ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1881) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1101
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اگر اس نے اس سے دخول کرلیا ہے تو اس کی شرمگاہ حلال کرلینے کے عوض اس کے لیے مہر ہے، اور اگر اولیاء میں جھگڑا ہوجائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حاکم ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یحییٰ بن سعید انصاری، یحییٰ بن ایوب، سفیان ثوری، اور کئی حفاظ حدیث نے اسی طرح ابن جریج سے روایت کی ہے، ٣- ابوموسیٰ اشعری (رض) کی (پچھلی) حدیث میں اختلاف ہے، اسے اسرائیل، شریک بن عبداللہ، ابو عوانہ، زہیر بن معاویہ اور قیس بن ربیع نے بسند «أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٤- اور اسباط بن محمد اور زید بن حباب نے بسند «يونس بن أبي إسحق عن أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٥- اور ابوعبیدہ حداد نے بسند «يونس بن أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، اس میں انہوں نے ابواسحاق کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ٦- نیز یہ حدیث یونس بن ابی اسحاق سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے بسند «أبي إسحق عن أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٧- اور شعبہ اور سفیان ثوری بسند «أبي إسحق عن أبي بردة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ، اور سفیان ثوری کے بعض تلامذہ نے بسند «سفيان عن أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسی» روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ان لوگوں کی روایت، جنہوں نے بطریق : «أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے ان لوگوں کا سماع مختلف اوقات میں ہے اگرچہ شعبہ اور ثوری ابواسحاق سے روایت کرنے والے تمام لوگوں سے زیادہ پختہ اور مضبوط حافظہ والے ہیں پھر بھی ان لوگوں (یعنی شعبہ و ثوری کے علاوہ دوسرے رواۃ) کی روایت اشبہ (قریب تر) ہے۔ اس لیے کہ شعبہ اور ثوری دونوں نے یہ حدیث ابواسحاق سے ایک ہی مجلس میں سنی ہے، (اور ان کے علاوہ رواۃ نے مختلف اوقات میں) اس کی دلیل شعبہ کا یہ بیان ہے کہ میں نے سفیان ثوری کو ابواسحاق سے پوچھتے سنا کہ کیا آپ نے ابوبردہ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح نہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں (سنا ہے) ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شعبہ اور ثوری کا مکحول سے اس حدیث کا سماع ایک ہی وقت میں ہے۔ اور ابواسحاق سبیعی سے روایت کرنے میں اسرائیل بہت ہی ثقہ راوی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ مجھ سے ثوری کی روایتوں میں سے جنہیں وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں، کوئی روایت نہیں چھوٹی، مگر جو چھوٹی ہیں وہ صرف اس لیے چھوٹی ہیں کہ میں نے اس سلسلے میں اسرائیل پر بھروسہ کرلیا تھا، اس لیے کہ وہ ابواسحاق کی حدیثوں کو بطریق اتم بیان کرتے تھے۔ اور اس باب میں عائشہ (رض) کی نبی اکرم ﷺ سے حدیث : بغیر ولی کے نکاح نہیں میرے نزدیک حسن ہے۔ یہ حدیث ابن جریج نے بطریق : «سليمان بن موسی، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ، نیز اسے حجاج بن ارطاۃ اور جعفر بن ربیعہ نے بھی بطریق : «الزهري، عن عروة، عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ نیز زہری نے بطریق : «هشام بن عروة، عن أبيه عروة، عن عائشة، عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی کے مثل روایت کی ہے۔ بعض محدثین نے زہری کی روایت میں (جسے انہوں نے بطریق : «عروة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے) کلام کیا ہے، ابن جریج کہتے ہیں : پھر میں زہری سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اس کی وجہ سے ان لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ ابن جریج سے اس بات کو اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کے علاوہ کسی اور نے نہیں نقل کیا ہے، یحییٰ بن معین کہتے ہیں : اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کا سماع ابن جریج سے نہیں ہے، انہوں نے اپنی کتابوں کی تصحیح عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد کی ان کتابوں سے کی ہے جنہیں عبدالمجید نے ابن جریج سے سنی ہیں۔ یحییٰ بن معین نے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کی روایت کو جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے ضعیف قرار دیا ہے۔ ٨- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل اس باب میں نبی اکرم ﷺ کی حدیث «لا نکاح إلا بولي» ولی کے بغیر نکاح نہیں پر ہے جن میں عمر، علی، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رض) وغیرہ بھی شامل ہیں، اسی طرح بعض فقہائے تابعین سے مروی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں۔ ان میں سعید بن مسیب، حسن بصری، شریح، ابراہیم نخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ ہیں۔ یہی سفیان ثوری، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٢٠ (٢٠٨٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٥ (١٨٧٩) ، مسند احمد (٦/٦٦، ١٦٦) ، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٣٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً عورت کے دو ولی ہیں ایک کسی کے ساتھ اس کا نکاح کرنا چاہے اور دوسرا کسی دوسرے کے ساتھ اور عورت نابالغ ہو اور یہ اختلاف نکاح ہونے میں اڑے آئے تو ایسی صورت میں یہ فرض کر کے کہ گویا اس کا کوئی ولی نہیں ہے سلطان اس کا ولی ہوگا ، ورنہ ولی کی موجودگی میں سلطان کو ولایت کا حق حاصل نہیں۔ چونکہ ہندوستان میں مسلمان سلطان ( اور اس کے مسلمان نائب ) کا وجود نہیں ہے اس لیے گاؤں کے مسلمان پنچ ولی ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1102
بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زنا کار ہیں وہ عورتیں جو گواہوں کے بغیر خود نکاح کرلیتی ہیں ۔ یوسف بن حماد کہتے ہیں کہ عبدالاعلی نے اس حدیث کو کتاب التفسیر میں مرفوع بیان کیا ہے اور کتاب الطلاق میں اسے انہوں نے موقوفاً بیان کیا ہے، مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٨٧) (ضعیف) (مؤلف نے سبب کی وضاحت کر سنن الدارمی/ ہے، مگر دوسرے نصوص سے گواہ کا واجب ہونا ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1862) // ضعيف الجامع الصغير (2375) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1103
بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا
اس سند سے بھی سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غیر محفوظ ہے، ٢- ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو سوائے اس کے جو عبدالاعلیٰ سے مروی ہے انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے اور سعید نے قتادہ سے مرفوعاً روایت کی ہے، ٣- اور عبدالاعلیٰ سے سعید بن ابی عروبہ کے واسطے سے یہ موقوفا بھی مروی ہے۔ اور صحیح وہ ہے جو ابن عباس کے قول سے مروی ہے کہ بغیر گواہ کے نکاح نہیں، خود ابن عباس کا قول ہے، ٤- اسی طرح سے اور کئی لوگوں نے بھی سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح کی روایت موقوفاً کی ہے، ٥- اس باب میں عمران بن حصین، انس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٦- صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں۔ پہلے کے لوگوں میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن متاخرین اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے، ٧- اہل علم میں اس سلسلے میں اختلاف ہے جب ایک دوسرے کے بعد گواہی دے یعنی دونوں بیک وقت مجلس نکاح میں حاضر نہ ہوں تو کوفہ کے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ نکاح اسی وقت درست ہوگا جب عقد نکاح کے وقت دونوں گواہ ایک ساتھ موجود ہوں، ٨- اور بعض اہل مدینہ کا خیال ہے کہ جب ایک کے بعد دوسرے کو گواہ بنایا گیا ہو تو بھی جائز ہے جب وہ اس کا اعلان کردیں۔ یہ مالک بن انس وغیرہ کا قول ہے۔ اسی طرح کی بات اسحاق بن راہویہ نے بھی کہی ہے جو اہل مدینہ نے کہی ہے، ٩- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نکاح میں ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت جائز ہے، یہ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ ہے) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1104
بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز کے تشہد اور حاجت کے تشہد کو (الگ الگ) سکھایا، وہ کہتے ہیں صلاۃ کا تشہد یہ ہے : «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلی عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اے نبی : سلامتی ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اور حاجت کا تشہد یہ ہے : «إن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا فمن يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، ہم اپنے دلوں کی شرارتوں اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور پھر آپ تین آیتیں پڑھتے۔ عبثر (راوی حدیث) کہتے ہیں : تو ہمیں سفیان ثوری نے بتایا کہ وہ تینوں آیتیں یہ تھی : «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون» اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے اور حالت اسلام ہی میں مرو (آل عمران : ١٠٢) ، «واتقوا اللہ الذي تساءلون به والأرحام إن اللہ کان عليكم رقيبا» اللہ سے ڈرو، جس کے نام سے تم سوال کرتے ہو اور جس کے واسطے سے ناطے جوڑتے ہو، بلاشبہ اللہ تمہارا نگہبان ہے (النساء : ١) ، «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سديدا» اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اور راست اور پکی بات کہو (الأحزاب : ٧٠) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اسے اعمش نے بطریق : «أبي إسحق عن أبي الأحوص عن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے۔ نیز اسے شعبہ نے بطریق : «أبي إسحق عن أبي عبيدة عن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور یہ دونوں طریق صحیح ہیں، اس لیے کہ اسرائیل نے دونوں کو جمع کردیا ہے، یعنی «عن أبي إسحق عن أبي الأحوص وأبي عبيدة عن عبد اللہ بن مسعود عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ، ٣- اس باب میں عدی بن حاتم (رض) سے بھی روایت ہے، ٤- اہل علم نے کہا ہے کہ نکاح بغیر خطبے کے بھی جائز ہے۔ اہل علم میں سے سفیان ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٣٣ (٣١١٨) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٤ (١٤٠٥) ، والنکاح ٣٩ (٣٢٧٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٩ (١٨٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٥٠٦) مسند احمد (١/٣٩٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٠ (٢٢٤٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1892) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1105
بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسے سبھی خطبے جس میں تشہد نہ ہو اس ہاتھ کی طرح ہیں جس میں کوڑھ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٢٢ (٤٨٤١) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٩٧) ، مسند احمد (٢/٣٤٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الأجوبة الناقصة (48) ، تمام المنة - التحقيق الثاني - صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1106
کنواری اور بیوہ کی اجازت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «ثیبہ» (شوہر دیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضا مندی ١ ؎ حاصل نہ کرلی جائے، اور کنواری ٢ ؎ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، ابن عباس، عائشہ اور عرس بن عمیرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ «ثیبہ» (شوہر دیدہ) کا نکاح اس کی رضا مندی حاصل کیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضا مندی کے بغیر کردی اور اسے وہ ناپسند ہو تو تمام اہل علم کے نزدیک وہ نکاح منسوخ ہوجائے گا، ٤- کنواری لڑکیوں کے باپ ان کی شادی ان کی اجازت کے بغیر کردیں تو اہل علم کا اختلاف ہے۔ کوفہ وغیرہ کے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ باپ اگر کنواری لڑکی کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کر دے اور وہ بالغ ہو اور پھر وہ اپنے والد کی شادی پر راضی نہ ہو تو نکاح منسوخ ہوجائے گا ٤ ؎، ٥- اور بعض اہل مدینہ کہتے ہیں کہ کنواری کی شادی اگر باپ نے کردی ہو تو درست ہے گو وہ اسے ناپسند ہو، یہ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ٥ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤١٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١١ (١٨٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٣٨٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : رضا مندی کا مطلب اذن صریح ہے۔ ٢ ؎ : کنواری سے مراد بالغہ کنواری ہے۔ ٣ ؎ : اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے ، عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے۔ ٤ ؎ : ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت «أن جارية بکراً أتت النبي صلی اللہ عليه وسلم فذکرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي صلی اللہ عليه وسلم» ہے۔ ٥ ؎ : ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جو آگے آرہی ہے «الایم احق بنفسہا من ولیہا» کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے ، اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ ( کنواری ) کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1871) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1107
کنواری اور بیوہ کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ «ثیبہ» (شوہر دیدہ) عورت اپنے آپ پر اپنے ولی سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے ١ ؎ اور کنواری سے بھی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ اور ثوری نے اسے مالک بن انس سے روایت کیا ہے، ٣- بعض لوگوں نے بغیر ولی کے نکاح کے جواز پر اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔ حالانکہ اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس کی دلیل بنے۔ اس لیے کہ ابن عباس سے کئی اور طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد ابن عباس نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں، ٤- اور «الأيم أحق بنفسها من وليها» کا مطلب اکثر اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ ولی ثیبہ کا نکاح اس کی رضا مندی اور اس سے مشورہ کے بغیر نہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو خنساء بنت خدام کی حدیث کی رو سے نکاح فسح ہوجائے گا۔ ان کے والد نے ان کی شادی کردی، اور وہ شوہر دیدہ عورت تھیں، انہیں یہ شادی ناپسند ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے ان کے نکاح کو فسخ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤٢١) ، سنن ابی داود/ النکاح ٢٦ (٢٠٩٨، ٢١٠٠) ، سنن النسائی/النکاح ٣١ (٣٢٦٢، ٣٢٦٥) ، و ٣٢ (٣٢٦٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١١ (١٨٧٠) ، موطا امام مالک/النکاح ٢ (٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦٥١٧) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٤٣، ٢٧٤، ٢٥٤، ٣٥٥، ٣٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : لفظ «أحق» مشارکت کا متقاضی ہے ، گویا غیر کنواری عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدار ہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدار ہے یہ اور بات ہے کہ ولی کی نسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا جب کہ خود اس کی وجہ سے ولی پر جبر کیا جاسکتا ہے ، چناچہ ولی اگر شادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکر ہے تو بواسطہ قاضی ( حاکم ) اس کا نکاح ہوگا ، اس توضیح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ حدیث «لا نکاح إلا بولي» کے منافی نہیں ہے۔ ٢ ؎ : اور اگر منظور نہ ہو تو کھل کر بتادینا چاہیئے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تاکہ والدین اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1870) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1108
یتیم لڑکی پر نکاح کے لئے زبردستی صحیح نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یتیم لڑکی سے اس کی رضا مندی حاصل کی جائے گی، اگر وہ خاموش رہی تو یہی اس کی رضا مندی ہے، اور اگر اس نے انکار کیا تو اس پر (زبردستی کرنے کا) کوئی جواز نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابوموسیٰ ، ابن عمر، اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- یتیم لڑکی کی شادی کے سلسلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے : یتیم لڑکی کی جب شادی کردی جائے تو نکاح موقوف رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے۔ جب وہ بالغ ہوجائے گی، تو اسے نکاح کو باقی رکھنے یا اسے فسخ کردینے کا اختیار ہوگا۔ یہی بعض تابعین اور دیگر علماء کا بھی قول ہے، ٤- اور بعض کہتے ہیں : یتیم لڑکی کا نکاح جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے، درست نہیں اور نکاح میں «خیار» جائز نہیں، اور اہل علم میں سے سفیان ثوری، شافعی وغیرہم کا یہی قول ہے، ٥- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی نو سال کی ہوجائے اور اس کا نکاح کردیا جائے، اور وہ اس پر راضی ہو تو نکاح درست ہے اور بالغ ہونے کے بعد اسے اختیار نہیں ہوگا۔ ان دونوں نے عائشہ کی اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب ان کے ساتھ شب زفاف منائی، تو وہ نو برس کی تھیں۔ اور عائشہ (رض) کا قول ہے کہ لڑکی جب نو برس کی ہوجائے تو وہ عورت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٤٥) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ النکاح ٢٤ (٢٠٩٣) ، سنن النسائی/النکاح ٣٦ (٣٢٧٠) ، مسند احمد (٢/٢٥٩، ٤٧٥) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی بالغ ہونے کے بعد انکار کرنے پر۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (1834) ، صحيح أبي داود (1825) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1109
اگر دو ولی دو مختلف جگہ نکاح کردیں تو کیا کیا جائے
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت کی شادی دو ولی الگ الگ جگہ کردیں تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہوگی، اور جو شخص کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچ دے تو وہ بھی ان میں سے پہلے کی ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ دو ولی میں سے ایک ولی جب دوسرے سے پہلے شادی کر دے تو پہلے کا نکاح جائز ہوگا، اور دوسرے کا نکاح فسخ قرار دیا جائے گا، اور جب دونوں نے ایک ساتھ نکاح (دو الگ الگ شخصوں سے) کیا ہو تو دونوں کا نکاح فسخ ہوجائے گا۔ یہی ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٢٢ (٢٠٨٨) ، سنن النسائی/البیوع ٩٦ (٤٦٨٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢١ (٢١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٨٢) ، مسند احمد (٥/٨، ١١) ، سنن الدارمی/النکاح ١٥ (٢٢٣٩) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز حسن کے سمرہ (رض) سے حدیث عقیقہ کے علاوہ دیگر احادیث کے سماع میں اختلاف ہے، مگر دیگر نصوص سے مسئلہ ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1853) ، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2224) ، ضعيف أبي داود (449 / 2088) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1110
اگر دو ولی دو مختلف جگہ نکاح کردیں تو کیا کیا جائے
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کرلے، وہ زانی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث حسن ہے، ٢- بعض نے اس حدیث کو بسند «عبد اللہ بن محمد بن عقيل عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور یہ صحیح نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل نے جابر سے روایت کی ہے، ٣- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کا نکاح کرنا جائز نہیں۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ١٧ (٢٠٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٢٦) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٧٧، ٣٨٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٠ (٢٢٧٩) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1959) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1111
اگر دو ولی دو مختلف جگہ نکاح کردیں تو کیا کیا جائے
اس سند سے بھی جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما قبله (1111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1112
عورتوں کا مہر
عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتی مہر پر نکاح کرلیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا تو اپنی جان و مال سے دو جوتی مہر پر راضی ہے ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں راضی ہوں۔ وہ کہتے ہیں : تو آپ نے اس نکاح کو درست قرار دے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عامر بن ربیعہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، ابوہریرہ، سہل بن سعد، ابو سعید خدری، انس، عائشہ، جابر اور ابوحدرد اسلمی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا مہر کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں : مہر اس قدر ہو کہ جس پر میاں بیوی راضی ہوں۔ یہ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٤- مالک بن انس کہتے ہیں : مہر ایک چوتھائی دینار سے کم نہیں ہونا چاہیئے، ٥- بعض اہل کوفہ کہتے ہیں : مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہیئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٨) ، ( تحفة الأشراف :؟ ؟) ، مسند احمد (٣/٤٤٥) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1888) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (413) ، الإرواء (1926) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1113
عورتوں کا مہر
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا کہ میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردیا۔ پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ کو اس کی حاجت نہ ہو تو اس سے میرا نکاح کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز ہے ؟ ، اس نے عرض کیا : میرے پاس میرے اس تہبند کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اپنا تہبند اسے دے دو گے تو تو بغیر تہبند کے رہ جاؤ گے، تو تم کوئی اور چیز تلاش کرو ، اس نے عرض کیا : میں کوئی چیز نہیں پا رہا ہوں۔ آپ نے (پھر) فرمایا : تم تلاش کرو، بھلے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو ۔ اس نے تلاش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے ؟ ، اس نے کہا : جی ہاں، فلاں، فلاں سورة یاد ہے اور اس نے چند سورتوں کے نام لیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہاری شادی اس عورت سے ان سورتوں کے بدلے کردی جو تمہیں یاد ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شافعی اسی حدیث کی طرف گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو اور وہ قرآن کی کسی سورة کو مہر بنا کر کسی عورت سے نکاح کرے تو نکاح درست ہے اور وہ اسے قرآن کی وہ سورة سکھائے گا، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں : نکاح جائز ہوگا لیکن اسے مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ یہ اہل کوفہ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٩ (٢٣١٠) ، والنکاح ٤٠ (٥١٣٥) ، والتوحید ٢١ (٧٤١٧) ، سنن ابی داود/ النکاح ٣١ (٢١١١) ، سنن النسائی/النکاح ٦٩ (٣٣٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٤٧٤٢) ، موطا امام مالک/النکاح ٣ (٨) ، مسند احمد (٥/٣٣٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢١ (٥٠٢٩) ، والنکاح ١٤ (٥٠٨٧) ، و ٣٢ (٥١٢١) ، و ٣٥ (٥١٢٦) ، و ٣٧ (٥١٣٢) ، و ٤٤ (٥١٤١) ، و ٥٠ (٥١٤٩) ، و ٥١ (٥١٥٠) ، واللباس ٤٩ (٥٨٧١) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٥) ، سنن النسائی/النکاح ١ (٣٢٠٢) ، و ٤١ (٣٢٨٢) ، و ٦٢ (٣٣٤١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٩) ، سنن الدارمی/النکاح ١٩ (٢٢٤٧) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1889) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1114
آزاد کردہ لونڈی سے نکاح کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں صفیہ (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٤- اور بعض اہل علم نے اس کی آزادی کو اس کا مہر قرار دینے کو مکروہ کہا ہے، یہاں تک کہ اس کا مہر آزادی کے علاوہ کسی اور چیز کو مقرر کیا جائے۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، سنن ابی داود/ النکاح ٦ (٢٠٥٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦٤ (٣٣٤٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٥ (٢٢٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦٧ و ١٤٢٩) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصلاة ١٢ (٣٧١) ، و صلاة الخوف ٦ (٩٤٧) ، والجہاد والمغازي ٣٨ (٤٢٠٠) ، والنکاح ١٣ (٥٠٨٦) و ٦٨ (٥١٦٩) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٢ (١٩٥٧) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١٣٨، ١٦٥، ١٧٠، ١٨١، ١٨٦، ٢٠٣، ٢٣٩، ٢٤٢) من غیر ہذا الوجہ وبعضہم بتغیر یسیر في السیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1957) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1115
(آزاد کردہ لونڈی سے) نکاح فضیلت
ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں جنہیں دہرا اجر دیا جاتا ہے : ایک وہ بندہ جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا حق بھی، اسے دہرا اجر دیا جاتا ہے، اور دوسرا وہ شخص جس کی ملکیت میں کوئی خوبصورت لونڈی ہو، وہ اس کی تربیت کرے اور اچھی تربیت کرے پھر اسے آزاد کر دے، پھر اس سے نکاح کرلے اور یہ سب اللہ کی رضا کی طلب میں کرے، تو اسے دہرا اجر دیا جاتا ہے۔ اور تیسرا وہ شخص جو پہلے کتاب (تورات و انجیل) پر ایمان لایا ہو پھر جب دوسری کتاب (قرآن مجید) آئی تو اس پر بھی ایمان لایا تو اسے بھی دہرا اجر دیا جاتا ہے ۔
جو کسی شخص عورت سے نکاح کرنے کے بعد اس سے صحبت سے پہلے طلاق دے دے تو کیا وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے کہ نہیں۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے ساتھ دخول کیا تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح کرنا درست نہیں ہے، اور اگر اس نے اس کے ساتھ دخول نہیں کیا ہے تو وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے، اور جس مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا تو اس نے اس سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح کرنا حلال نہیں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے، اسے صرف ابن لہیعہ اور مثنی بن صالح نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا ہے۔ اور مثنی بن صالح اور ابن لہیعہ حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں۔ ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی کی ماں سے شادی کرلے اور پھر اسے دخول سے پہلے طلاق دیدے تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح جائز ہے، اور جب آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح کرے اور اسے دخول سے پہلے طلاق دیدے تو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «وأمهات نسائكم» (النساء : ٢٣) ، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٧٣٣) (ضعیف) (مؤلف نے وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1879) // ضعيف الجامع الصغير (2242) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1117
جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور اس کے بعد وہ عورت کسی اور سے شادی کرلے لیکن یہ شخص صحبت سے پہلے اسے طلاق دیدے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کرلی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے ١ ؎، آپ نے فرمایا : تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو ؟ ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، انس، رمیصاء، یا غمیصاء اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر وہ کسی اور سے شادی کرلے اور وہ دوسرا شخص دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے لیے پہلے شوہر سے نکاح درست نہیں جب تک کہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہ کرلیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٣ (٢٦٣٩) ، صحیح مسلم/النکاح ١٧ (١٤٣٣) ، سنن النسائی/النکاح ٤٣ (٣٢٨٥) ، والطلاق ١٢ (٣٤٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٤٣٦) ، مسند احمد ٦/٣٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ٤ (٢٣١٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الطلاق ٤ (٥٢٦) ، و ٧ (٥٢٦٥) ، و ٣٧ (٥٣١٧) واللباس ٦ ٥٧٩٢) ، والأدب ٦٨ (٦٠٨٤) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/الطلاق ٩ (٣٤٣٧) ، و ١٠ (٢٤٣٨) ، من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ یعنی انہیں جماع کی قدرت نہیں ہے۔ ٢ ؎ «حتیٰ تذوقی عسیلتہ ویذوق عسیلتک» سے کنایہ جماع کی طرف ہے اور جماع کو شہد سے تشبیہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح شہد کے استعمال سے لذت و حلاوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح جماع سے بھی لذت و حلاوت حاصل ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1934) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1118
حلالہ کرنے اور کرانے والا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت بھیجی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی اور جابر (رض) کی حدیث معلول ہے، ٢- اسی طرح اشعث بن عبدالرحمٰن نے بسند «مجالد عن عامر هو الشعبي عن الحارث عن علي» روایت کی ہے۔ اور عامر الشعبی نے بسند «جابر بن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٣- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مجالد بن سعید کو بعض اہل علم نے ضعیف گردانا ہے۔ انہی میں سے احمد بن حنبل ہیں، ٤- نیز عبداللہ بن نمیر نے اس حدیث کو بسند «مجالد عن عامر عن جابر بن عبد اللہ عن علي» روایت کی ہے، اس میں ابن نمیر کو وہم ہوا ہے۔ پہلی حدیث زیادہ صحیح ہے، ٥- اور اسے مغیرہ، ابن ابی خالد اور کئی اور لوگوں نے بسند «الشعبی عن الحارث عن علی» روایت کی ہے، ٦- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف من حدیث جابر، ومن حدیث علی أخرجہ کل من : سنن ابی داود/ النکاح ١٦ (٢٠٧٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٣ (١٩٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٤٨ و ١٠٠٣٤) ، مسند احمد (١/٨٧) (صحیح) شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ جابر کی حدیث میں ” مجاہد “ اور علی (رض) کی حدیث میں ” حارث اعور “ ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : «محلل» وہ شخص ہے جو طلاق دینے کی نیت سے مطلقہ ثلاثہ سے نکاح و مباشرت کرے ، اور «محلل لہ» سے پہلا شوہر مراد ہے جس نے تین طلاقیں دی ہیں ، اور طریقہ سے اپنی عورت سے دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہے یہ حدیث دلیل ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح باطل اور حرام ہے کیونکہ لعنت حرام فعل ہی پر کی جاتی ہے ، جمہور اس کی حرمت کے قائل ہیں ، حنفیہ اسے جائز کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1119
حلالہ کرنے اور کرانے والا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے (دونوں) پر لعنت بھیجی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے کئی اور طرق سے بھی روایت کی گئی ہے، ٣- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ جن میں عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، عبداللہ بن عمر وغیرہم (رض) بھی شامل ہیں۔ یہی تابعین میں سے فقہاء کا بھی قول ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، وکیع نے بھی یہی کہا ہے، ٤- نیز وکیع کہتے ہیں : اصحاب رائے کے قول کو پھینک دینا ہی مناسب ہوگا ١ ؎، ٥- سفیان ثوری کہتے ہیں : آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلوم ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ١٣ (٣٤٤٥) ، (في سیاق طویل) ( تحفة الأشراف : ٩٥٩٥) ، مسند احمد (١/٤٤٨، ٤٥٠، ٤٥١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٣ (٢٣٠٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اصحاب الرائے سے مراد امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں ، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح حلالہ صحیح ہے گو حلال کرنے کی ہی نیت سے ہو۔ ان کی رائے کو چھوڑ دینا اس لیے مناسب ہے کہ ان کا یہ قول حدیث کے مخالف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1119) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1120
نکاح متعہ
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر کی فتح کے وقت عورتوں سے متعہ ١ ؎ کرنے سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سبرہ جہنی اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، البتہ ابن عباس سے کسی قدر متعہ کی اجازت بھی روایت کی گئی ہے، پھر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا جب انہیں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں اس کی خبر دی گئی۔ اکثر اہل علم کا معاملہ متعہ کی حرمت کا ہے، یہی ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢١٦) ، والنکاح ٣١ (٥١١٥) ، والذبائح ٢٨ (٥٥٣٣) ، والحیل ٤ (٦٩٦١) ، صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٠٧) ، الصید والذبائح ٥ (١٤٠٧) ، سنن النسائی/النکاح ٧١ (٣٣٦٧) ، والصید ٣١ (٤٣٣٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٤ (١٩٦١) ، موطا امام مالک/النکاح ٧١ (٤١) ، مسند احمد (١/٧٩) ، سنن الدارمی/النکاح ١٦ (٢٢٤٣) ویأتي عند المؤلف في الأطعمة ٦ (١٧٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عورتوں سے مخصوص مدت کے لیے نکاح کرنے کو نکاح متعہ کہتے ہیں ، پھر علی (رض) نے خیبر کے موقع سے گھریلو گدھوں کی حرمت کے ساتھ متعہ کی حرمت کا ذکر کیا ہے یہاں مقصد متعہ کی حرمت کی تاریخ نہیں بلکہ ان دو حرام چیزوں کا تذکرہ ہے متعہ کی اجازت واقعہ اوطاس میں دی گئی تھی۔ حرام ہوگیا ، اور اب اس کی حرمت قیامت تک کے لیے ہے ، ائمہ اسلام اور علماء سلف کا یہی مذہب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1961) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1121
نکاح متعہ
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں تھا۔ آدمی جب کسی ایسے شہر میں جاتا جہاں اس کی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ اپنے قیام کی مدت تک کے لیے کسی عورت سے شادی کرلیتا۔ وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی۔ اس کی چیزیں درست کر کے رکھتی۔ یہاں تک کہ جب آیت کریمہ «إلا علی أزواجهم أو ما ملکت أيمانهم» لوگ اپنی شرمگاہوں کو صرف دو ہی جگہ کھول سکتے ہیں، ایک اپنی بیویوں پر، دوسرے اپنی ماتحت لونڈیوں پر ، نازل ہوئی تو ابن عباس (رض) کہتے ہیں : ان دو کے علاوہ باقی تمام شرمگاہیں حرام ہوگئیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٤٤٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” موسیٰ بن عبیدہ “ ضعیف ہیں، نیز یہ شاذ بھی ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہں ی : اس کی سند ضعیف ہے، اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے، فتح الباری ٩/١٤٨، حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں ابو جمرہ کہتے ہیں : ” میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت سنن الدارمی/ تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بنا پر تھا یا اس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا : ہاں، ایسا ہی ہے “ بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہوگئے تھے، اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے) ۔ قال الشيخ الألباني : منكر، الإرواء (1903) ، المشکاة (3158 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1122
نکاح شغار کی ممانعت کے متعلق
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسلام میں نہ «جلب» ہے، نہ «جنب» ١ ؎ اور نہ ہی «شغار» ، اور جو کسی کی کوئی چیز اچک لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، ابوریحانہ، ابن عمر، جابر، معاویہ، ابوہریرہ، اور وائل بن حجر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٧٠ (٢٥٨١) ، مقتصرا علی قولہ ” لا جلب ولا جنب “ سنن ابی داود/ النکاح ٦٠ (٣٣٣٧) ، والخیل ١٥ (٣٦٢٠) ، و ١٦ (٣٦٢١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣ (٣٩٣٥) ، مقتصرا علی قولہ ” من انتہب… “ ( تحفة الأشراف : ١٠٧٩٣) مسند احمد (٤/٤٢٩، ٤٣٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «جلب» اور «جنب» کے دو مفہوم ہیں : ایک مفہوم کا تعلق زکاۃ سے ہے اور دوسرے کا گھوڑ دوڑ کے مقابلے سے۔ زکاۃ میں «جلب» یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا کافی دور قیام کرے اور صاحب زکاۃ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اپنے جانور لے کر آئیں اور زکاۃ ادا کریں ، یہ ممنوع ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو خود ان کی چراگاہوں یا پنگھٹوں پر جا کر زکاۃ کے جانور لینے چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں جنب یہ ہے کہ صاحب زکاۃ اپنے اپنے جانور لے کر دور چلے جائیں تاکہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کے ساتھ دوڑتا پھرے اور پریشان ہو۔ پہلی صورت یعنی «جلب» میں زکاۃ دینے والوں کو زحمت ہے اور دوسری صورت «جنب» میں زکاۃ وصول کرنے کو۔ لہٰذا یہ دونوں درست نہیں۔ گھوڑ دوڑ میں «جلب» اور «جنب» ایک دوسرے کے مترادف ہیں ، مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے اور دوسرا تازہ دم گھوڑا ساتھ رکھے تاکہ درمیان میں جب یہ تھک جائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوجائے اور مقابلہ بہ آسانی جیت سکے۔ اس میں چونکہ ناانصافی اور دھوکہ ہے ، لہٰذا اس معنی میں بھی «جلب» اور «جنب» درست نہیں ہے ( اور «شغار» کی تشریح خود مؤلف کے الفاظ میں اگلی حدیث کے ضمن میں آرہی ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2947 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1123
نکاح شغار کی ممانعت کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ نکاح شغار کو درست نہیں سمجھتے، ٣- شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس سے کر دے گا اور ان کے درمیان کوئی مہر مقرر نہ ہو، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں : نکاح شغار فسخ کردیا جائے گا اور وہ حلال نہیں، اگرچہ بعد میں ان کے درمیان مہر مقرر کرلیا جائے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٥- لیکن عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ وہ اپنے نکاح پر قائم رہیں گے البتہ ان کے درمیان مہر مثل مقرر کردیا جائے گا، اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٨ (٥١١٢) ، صحیح مسلم/النکاح ٧ (١٤١٥) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٥ (٢٠٧٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦١ (٣٣٣٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٦ (١٨٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٨٣٢٣) موطا امام مالک/النکاح ١١ (٢٤) ، مسند احمد (٢/، ٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٩ (٢٢٢٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحیل ٤ (٦٩٦٠) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) سنن النسائی/النکاح ٦٠ (٣٣٣٦) ، مسند احمد (٢/١٩) من ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1883) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1124
پھوپھی اور بھتیجی، خالہ اور بھانجی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہ ہوں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا کہ کسی عورت سے شادی کی جائے اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوحریز کا نام عبداللہ بن حسین ہے - تخریج دارالدعوہ : حدیث ابن عباس : سنن ابی داود/ النکاح ١٣ (٢٠٦٧) (تحفة الأشراف : ٦٠٧٠) ، مسند احمد (١/٢١٧، ٣٧٢) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابو حریز “ حافظہ کے کمزور ہیں) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2882) ، ضعيف أبي داود (352) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1125
پھوپھی اور بھتیجی، خالہ اور بھانجی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہ ہوں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ عورت سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی پھوپھی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کیا جائے جبکہ اس کی بھتیجی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا بھانجی سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو یا خالہ سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی بھانجی پہلے سے نکاح میں ہو۔ اور نہ نکاح کیا جائے کسی چھوٹی سے جب کہ اس کی بڑی نکاح میں ہو اور نہ بڑی سے نکاح کیا جائے جب کہ چھوٹی نکاح میں ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ہمیں ان کے درمیان اس بات میں کسی اختلاف کا علم نہیں کہ آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیک وقت کسی عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں رکھے۔ اگر اس نے کسی عورت سے نکاح کرلیا جب کہ اس کی پھوپھی یا خالہ بھی اس کے نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کرلیا جب کہ اس کی بھتیجی نکاح میں ہو تو ان میں سے جو نکاح بعد میں ہوا ہے، وہ فسخ ہوگا، یہی تمام اہل علم کا قول ہے، ٣- شعبی نے ابوہریرہ کو پایا ہے اور ان سے (براہ راست) روایت بھی کی ہے۔ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : صحیح ہے، ٤- شعبی نے ابوہریرہ سے ایک شخص کے واسطے سے بھی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ تعلیقا عقب حدیث جابر (٥١٠٨) ، صحیح مسلم/النکاح ٤ (٤٠٨/٣٩) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٣ (٢٠٦٥) ، سنن النسائی/النکاح ٤٧ (٣٢٨٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ (٥١٠٩، ٥١١٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٣ (٢٠٦٦) ، سنن النسائی/النکاح ٤٧ (٣٢٩٠-٣٢٩٦) ، و ٤٨ (٣٢٩٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣١ (١٩٢٩) ، موطا امام مالک/النکاح ٨ (٢٠) ، مسند احمد (٢/٤٢٦) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی خالہ پھوپھی نکاح میں ہو تو اس کی بھانجی یا بھتیجی سے اور بھانجی یا بھتیجی نکاح میں ہو تو اس کی خالہ یا پھوپھی سے نکاح نہ کیا جائے ، ہاں اگر ایک مرجائے یا اس کو طلاق دیدے تو دوسری سے شادی کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (6 / 289 - 290) ، صحيح أبي داود (1802) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1126
عقد نکاح کے وقت شرائط
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ پوری کیے جانے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے تم نے شرمگاہیں حلال کی ہوں ۔
اسلام لاتے وقت دس بیویاں ہوں تو کیا حکم ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ١ ؎ ثقفی نے اسلام قبول کیا، جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں، وہ سب بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی چار کو منتخب کرلیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اسی طرح اسے معمر نے بسند «الزهري عن سالم بن عبدالله عن ابن عمر» روایت کیا ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔ اور صحیح وہ ہے جو شعیب بن ابی حمزہ وغیرہ نے بسند «الزهري عن محمد بن سويد الثقفي» روایت کی ہے کہ غیلان بن سلمہ نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس دس بیویاں تھیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ ثقیف کے ایک شخص نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو عمر نے اس سے کہا : تم اپنی بیویوں سے رجوع کرلو ورنہ میں تمہاری قبر کو پتھر ماروں گا جیسے ابورغال ٣ ؎ کی قبر کو پتھر مارے گئے تھے۔ ٤- ہمارے اصحاب جن میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی شامل ہیں کے نزدیک غیلان بن سلمہ کی حدیث پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٠ (١٩٥٣) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٤٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : غیلان بن سلمہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے ، فتح طائف کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا جائز نہیں ، لیکن اس حکم سے نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی مستثنیٰ ہے ، آپ کے حرم میں بیک وقت نو بیویاں تھیں ، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی اور اس میں بہت سی دینی ، سیاسی ، مصلحتیں کار فرما تھیں آپ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ ٣ ؎ : ابورغال کے بارے میں دو مختلف روایتیں ہیں ، پہلی روایت یہ ہے کہ یہ طائف کے قبیلہ ثقیف کا یک شخص تھا جس نے ابرہہ کی مکہ کی جانب رہبری کی تھی وہ مغمس کے مقام پر مرا اور وہیں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر پتھراؤ کرنا عام رسم بن گئی ، دوسری روایت ہے کہ ابورغال قوم ثمود کا وہ واحد شخص تھا جو ہلاکت سے بچ گیا تھا ، ثمود کی تباہی کے وقت وہ مکیّ میں مقیم تھا اور اس جگہ کی حرمت کے باعث محفوظ رہا تاہم مکیّ سے نکلنے کے فوراً بعد مرگیا ، رسول اللہ ﷺ جب اپنی فوج کے ساتھ الحجر کے مقام سے گزر رہے تھے تو آپ نے یہ بات بیان فرمائی تھی ، الأغانی کی ایک حکایت میں ابورغال کو طائف کا بادشاہ اور بنو ثقیف کا جدا مجد بھی بیان کیا گیا ہے ، اس کے معاملے میں حافظ ابن قتیبہ اور مسعودی ایسے مصنف ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ بنو ثقیف ہی نے ابورغال کو جو ایک ظالم اور بےانصاف شخص تھا قتل کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1953) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1128
نومسلم کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو کیا حکم ہے
فیروز دیلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ان دونوں میں سے جسے چاہو منتخب کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ٢٥ (٢٢٤٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٩ (١٩٥١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٠٦١) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1951) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1129
وہ شخص جو حاملہ لونڈی خریدے
فیروز دیلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسلام قبول کیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں میں سے جسے چاہو، منتخب کرلو ۔ (اور دوسرے کو طلاق دے دو ) امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1130
وہ شخص جو حاملہ لونڈی خریدے
رویفع بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی (منی) کسی غیر کے بچے کو نہ پلائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یہ اور بھی کئی طرق سے رویفع بن ثابت (رض) سے روایت کی گئی ہے، ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ یہ لوگ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں سمجھتے کہ وہ جب کوئی حاملہ لونڈی خریدے تو وہ اس سے صحبت کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہوجائے، ٤- اس باب میں ابو الدرداء، ابن عباس، عرباض بن ساریہ اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٤٥ (٢١٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦١٥) ، مسند احمد (٤/١٠٨) ، سنن الدارمی/السیر ٣٧ (٢٥٢٠) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو لونڈی کسی اور سے حاملہ ہو پھر وہ اسے خریدے تو اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (2137) ، صحيح أبي داود (1874) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1131
اگر شادی شدہ لونڈی قیدی بن کر آئے تو اس سے جماع کیا جائے یا نہیں
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے جنگ اوطاس کے دن کچھ عورتیں قید کیں۔ اور ان کی قوم میں ان عورتوں کے شوہر موجود تھے، لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو یہ آیت نازل ہوئی «والمحصنات من النساء إلا ما ملکت أيمانکم» تم پر شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں الا یہ کہ وہ تمہاری ملکیت میں آ گئی ہوں (النساء : ٢٤) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اسی طرح سے اسے ثوری نے بطریق : «عثمان البتي عن أبي الخليل عن أبي سعيد» روایت کیا ہے - تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٩ (١٤٥٦) ، والمؤلف في تفسیر النساء (٣٠١٧) ، وانظر الحدیث الآتي ( تحفة الأشراف : ٤٠٧٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1871) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1132
زنا کی اجرت حرام ہے
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت ١ ؎، زانیہ کی کمائی ٢ ؎ اور کاہن کی مٹھائی ٣ ؎ سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابومسعود انصاری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں رافع بن خدیج، ابوجحیفہ، ابوہریرہ، اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٣ (٢٢٣٧) ، والاجارة ٢٠ (٢٢٨٢) ، والطلاق ٥١ (٥٣٤٦) ، والطب ٤٦ (٥٧٦١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٩ (البیوع ٣٠) ، (١٥٦٧) ، سنن ابی داود/ البیوع ٤١ (٣٤٢٨) ، و ٦٥ (٣٤٨١) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١٥ (٤٢٩٧) ، البیوع ٩١ (٤٦٧٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٩ (٢١٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠١٠ و موطا امام مالک/البیوع ٢٩ (٦٨) ، مسند احمد (١/١١٨، ١٢٠، ١٤٠، ١٤١) ویأتي عند المؤلف في البیوع ٤٦ (١٢٧٦) ، والطب ٢٤ (٢٠٧١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کتا نجس ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی ، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے ، اسی سبب سے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے ، الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ ٢ ؎ : چونکہ زنا کبیرہ گناہ اور فحش امور میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔ ٣ ؎ : علم غیب اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے ، اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے ، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2590) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1133
کسی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجا جائے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سمرہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- مالک بن انس کہتے ہیں : آدمی کے اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے کسی عورت کو پیغام دیا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہوگئی ہو، تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے، ٤- شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کہ آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب آدمی نے کسی عورت کو پیغام بھیجا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہوگئی ہو اور اس کی طرف مائل ہوگئی ہو تو ایسی صورت میں کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ اس کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے، لیکن اس کی رضا مندی اور اس کا میلان معلوم ہونے سے پہلے اگر وہ اسے پیغام دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی دلیل فاطمہ بنت قیس (رض) کی یہ حدیث ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر ذکر کیا کہ ابوجہم بن حذیفہ اور معاویہ بن ابی سفیان نے انہیں نکاح کا پیغام دیا ہے تو آپ نے فرمایا : ابوجہم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا ڈنڈا عورتوں سے نہیں اٹھاتے (یعنی عورتوں کو بہت مارتے ہیں ) رہے معاویہ تو وہ غریب آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو ۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کا مفہوم (اور اللہ بہتر جانتا ہے) یہ ہے کہ فاطمہ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کیا تھا اور اگر وہ اس کا اظہار کر دیتیں تو اسے چھوڑ کر آپ انہیں اسامہ (رض) سے نکاح کا مشورہ نہ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٨ (٢٠٨٠) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٧) ، والتجارات ١٣ (٢١٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، والنکاح ٤٥ (٥١٤٤) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٤٩٦) ، و ٢١ (٤٥١٠) ، مسند احمد (٢/٢٧٤، ٣١١، ٣١٨، ٣٩٤، ٤١١، ٤٢٧، ٤٥٧، ٤٨٧، ٤٨٩، ٥٠٨، ٥١٦، ٥٢٩) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢١) ، (وانظر إیضا الارقام : ١١٩٠ و ١٢٢٢ و ١٣٠٤) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2172) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1134
کسی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجا جائے
ابوبکر بن ابی جہم کہتے ہیں کہ میں اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن دونوں فاطمہ بنت قیس (رض) کے پاس آئے انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی اور نہ ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا اور نہ کھانے پینے کا۔ اور انہوں نے میرے لیے دس بوری غلہ، پانچ بوری جو کے اور پانچ گیہوں کے اپنے چچا زاد بھائی کے پاس رکھ دیں، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : انہوں نے ٹھیک کیا، اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ام شریک کے گھر میں عدت گزاروں ، پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ام شریک کے گھر مہاجرین آتے جاتے رہتے ہیں۔ تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو ۔ وہاں یہ بھی سہولت رہے گی کہ تم (سر وغیرہ سے) کپڑے اتارو گی تو تمہیں وہ نہیں دیکھ پائیں گے، پھر جب تمہاری عدت پوری ہوجائے اور کوئی تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے تو مجھے بتانا، چناچہ جب میری عدت پوری ہوگئی تو ابوجہم اور معاویہ نے مجھے پیغام بھیجا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : معاویہ تو ایسے آدمی ہیں کہ ان کے پاس مال نہیں، اور ابوجہم عورتوں کے لیے سخت واقع ہوئے ہیں ۔ پھر مجھے اسامہ بن زید (رض) نے پیغام بھیجا اور مجھ سے شادی کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے اسامہ میں مجھے برکت عطا فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- اسے سفیان ثوری نے بھی ابوبکر بن ابی جہم سے اسی حدیث کی طرح روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اسامہ سے نکاح کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن النسائی/الطلاق ١٥ (٣٤٤٧) ، و ٧٢ (٣٥٨١) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٠ (٢٠٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٣٧) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٣٩ (٢٢٨٤) ، سنن النسائی/النکاح ٨ (٣٢٢٤) ، و ٢١ (٣٢٤٦) ، والطلاق ٤ (٢٠٢٤) ، و ٩ ٢٠٣٢) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢٣ (٦٧) ، مسند احمد (٦/٤١٤، ٤١٥) سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢٣) ، والطلاق ١٠ (٢٣٢٠) من غیر ہذا الوجہ وانظر ما یأتي عند المؤلف برقم : ١١٨٠ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء // 1804 // (6 / 209) ، صحيح أبي داود (1976) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1135
عزل کے بارے میں
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ عزل ١ ؎ کرتے تھے، تو یہودیوں نے کہا : قبر میں زندہ دفن کرنے کی یہ ایک چھوٹی صورت ہے۔ آپ نے فرمایا : یہودیوں نے جھوٹ کہا۔ اللہ جب اسے پیدا کرنا چاہے گا تو اسے کوئی روک نہیں سکے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عمر، براء اور ابوہریرہ، ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عشرة النساء (في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٢٥٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ عزل یہ ہے کہ جماع کے وقت انزال قریب ہو تو آدمی اپنا عضو تناسل شرمگاہ سے باہر نکال کر منی باہر نکال دے تاکہ عورت حاملہ نہ ہو۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں صرف اس بات کا بیان ہے کہ یہودیوں کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ عزل کے باوجود جس نفس کی اس مرد و عورت سے تخلیق اللہ کو مقصود ہوتی ہے اس کی تخلیق ہو ہی جاتی ہے ، جیسا کہ ایک صحابی نے لونڈی سے عزل کیا اس کے باوجود حمل ٹھہر گیا۔ اس لیے یہ «مودودۃ صغریٰ» نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الآداب (52) ، صحيح أبي داود (1887) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1136
عزل کے بارے میں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اتر رہا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث اور بھی کئی طرق سے ان سے مروی ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کی اجازت دی ہے۔ مالک بن انس کا قول ہے کہ آزاد عورت سے عزل کی اجازت لی جائے گی اور لونڈی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٩٦ (٥٢٠٨، ٥٢٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٤٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٠ (١٩٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٢٤٦٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/النکاح ٩٦ (٥٢٠٧) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر عزل منع ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کی ممانعت نازل کردیتا ، البتہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل درست نہیں ہے ، جیسا کہ امام مالک نے کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1927) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1137
عزل کی کراہت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے ؟ ۔ ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے : اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے ، اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہ جس جان کو بھی اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ اس کے علاوہ اور بھی طرق سے ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے، ٣- اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کو مکروہ قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ١٨ (تعلیقا عقب الحدیث رقم : ٧٤٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٣٨) ، سنن ابی داود/ النکاح ٤٩ (٢١٧٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ١٠٩ (٢٢٢٩) ، و العتق ١٣ (٢٥٤٢) ، والمغازي ٣٢ (٤١٣٨) ، والنکاح ٩٦ (٥٢١٠) ، و القدر ٦ (٦٦٠٣) ، والتوحید ١٨ (٧٤٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٤ (٩٥) ، مسند احمد (٣/٢٢، ٢٦، ٤٧، ٤٩، ٥١، ٥٣، ٥٩، ٨٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٦ (٢٢٦٩) من غیر ہذا الوجہ وبعضہم بتغیر یسیر في السیاق۔ وضاحت : ١ ؎ : عزل کے جواز اور عدم جواز کی بابت حتمی بات یہ ہے کہ یہ ہے تو جائز مگر نامناسب کام ہے ، خصوصا جب عزل کے باوجود کبھی نطفہ رحم کے اندر چلا ہی جاتا ہے ، اور حمل ٹھہر جاتا ہے۔ تو کیوں خواہ مخواہ یہ عمل کیا جائے۔ «واللہ اعلم» قال الشيخ الألباني : صحيح الآداب (54 - 55) ، صحيح أبي داود (1886) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1138
کنواری اور بیوہ کے لئے رات کی تقسیم
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو کہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا : سنت ١ ؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے، اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے محمد بن اسحاق نے مرفوع کیا ہے، انہوں نے بسند «ایوب عن ابی قلابہ عن انس» روایت کی ہے اور بعض نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٣- اس باب میں ام سلمہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٤- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور کنواری سے شادی کرے، تو اس کے پاس سات رات ٹھہرے، پھر اس کے بعد ان کے درمیان باری تقسیم کرے، اور پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے جب کسی غیر کنواری (بیوہ یا مطلقہ) سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات ٹھہرے۔ مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٥- تابعین میں سے بعض اہل علم نے کہا کہ جب کوئی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو وہ اس کے پاس تین رات ٹھہرے اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں دو رات ٹھہرے۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٠٠ (٥٢١٣) ، و ١٠١ (٥٢١٤) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٢ (١٤٦١) سنن ابی داود/ النکاح ٣٥ (٢١٢٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٦ (١٩١٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٧ (٢٢٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحابی کا سنت یہ ہے کہنا بھی حدیث کے مرفوع ہونے کا اشارہ ہے ، تمام ائمہ کا یہی قول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1916) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1139
سوکنوں کے درمیان باری مقرر کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے : اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتا ہوں، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عائشہ (رض) کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بسند «حماد بن سلمة عن أيوب عن أبي قلابة عن عبد اللہ بن يزيد عن عائشة» روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ باری تقسیم کرتے تھے جب کہ اسے حماد بن زید اور دوسرے کئی ثقات نے بسند «أيوب عن أبي قلابة» روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ باری تقسیم کرتے تھے اور یہ حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور جس کی قدرت تو رکھتا ہے میں نہیں رکھتا سے مراد محبت و مؤدّۃ ہے، اسی طرح بعض اہل علم نے اس کی تفسیر کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٣٩ (٢١٣٤) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٢ (٣٩٥٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٧ (١٩٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٩) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٥ (٢٢٥٣) (ضعیف) (حماد بن زید اور دیگر زیادہ ثقہ رواة نے اس کو ایوب سے ” عن أبي قلابة عن النبي ﷺ “ مرسلاً بیان کیا ہے، لیکن حدیث کا پہلا جزء اللهم هذا قسمي فيما أملک حسن ہے، تراجع الالبانی ٣٤٦) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1971) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1140
سوکنوں کے درمیان باری مقرر کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کسی شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کو ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے مسنداً ١ ؎ روایت کیا ہے، ٢- اور اسے ہشام دستوائی نے بھی قتادہ سے روایت کیا ہے لیکن اس روایت میں ہے کہ ایسا کہا جاتا تھا … ٣- ہم اس حدیث کو صرف ہمام ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور ہمام ثقہ حافظ ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٣٩ (٢١٣٣) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٢ (٣٩٥٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٧ (١٩٦٩) (تحفة الأشراف : ١٢٢١٣) ، مسند احمد (٢/٣٤٧، ٣٧١) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٤ (٢٢٥٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی رسول اللہ ﷺ کے اپنے قول سے ، نہ کہ عام مقولہ کے طور پر ، جیسے کہا جاتا تھا جیسا کہ ہشام دستوائی کی روایت میں ہے۔ ٢ ؎: اس لیے ان کی روایت مقبول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1969) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1141
مشرک میاں بیوی میں سے ایک مسلمان ہوجائے تو؟
عبداللہ بن عمرو (رض) سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی لڑکی زینب کو ابوالعاص بن ربیع (رض) کے پاس نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹا دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی سند میں کچھ کلام ہے اور دوسری حدیث میں بھی کلام ہے، ٢- اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ عورت جب شوہر سے پہلے اسلام قبول کرلے، پھر اس کا شوہر عدت کے دوران اسلام لے آئے تو اس کا شوہر ہی اس کا زیادہ حقدار ہے جب وہ عدت میں ہو۔ یہی مالک بن انس، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٦٠ (٢٠١٠) ، ( تحفة الأشراف : ٨٦٧٢) ، مسند احمد (٢/٢٠٧) (ضعیف) (اس کے راوی ” حجاج بن ارطاة “ ایک تو ضعیف ہیں، دوسرے سند میں ان کے اور ” عمروبن شعیب “ کے درمیان انقطاع ہے، اس کے بالمقابل اگلی حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث ابن عباس کی حدیث کے جو آگے آرہی ہے مخالف ہے اس میں ہے کہ پہلے ہی نکاح پر آپ نے انہیں لوٹا دیا نیا نکاح نہیں پڑھایا اور یہی صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2010) // ضعيف ابن ماجة برقم (436) ، الإرواء (1992) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1142
مشرک میاں بیوی میں سے ایک مسلمان ہوجائے تو؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع (رض) کے پاس چھ سال بعد ١ ؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔ شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ٢٤ (٢٢٤٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٦٠ (٢٠٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٧٣) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : احمد ، ابوداؤد اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دو سال بعد انہیں واپس کیا ، اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد ، حافظ ابن حجر نے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مراد زینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع (رض) کے اسلام لانے کے درمیان کا واقعہ ہے ، اور دو اور تین سے مراد آیت کریمہ «لاهن حل لهم» کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع (رض) کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جو دو سال اور چند مہینوں پر مشتمل۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2009) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1143
مشرک میاں بیوی میں سے ایک مسلمان ہوجائے تو؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں مسلمان ہو کر آیا پھر اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی تو اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس نے میرے ساتھ اسلام قبول کیا تھا۔ تو آپ اسے مجھے واپس دے دیجئیے۔ تو آپ نے اسے اسی کو واپس دے دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- حجاج نے یہ حدیث بطریق «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص کے ہاں نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹایا، ٣- یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے لیکن عمل «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» کی حدیث پر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ٢٣ (٢٢٣٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٦٠ (٢٠٠٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٠٦) (ضعیف) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب ہے، الإرواء ١٩١٨، ضعیف سنن ابی داود، ط۔ غر اس رقم ٣٨٧، سنن ترمذی مطبوعہ مکتبة المعارف میں پہلی سند بروایت یوسف بن عیسیٰ پر صحیح لکھا ہے، اور دوسری سند سمعت عبد بن حميد پر ضعیف لکھا ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لے آئے تو وہ اس کے نکاح میں باقی رہے گی ، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1918) ، ضعيف أبي داود (387) // عندنا برقم (490 / 2238) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1144
وہ شخص جو نکاح کے بعد مہر مقرر کرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو؟
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے شادی کی لیکن اس نے نہ اس کا مہر مقرر کیا اور نہ اس سے صحبت کی یہاں تک کہ وہ مرگیا، تو ابن مسعود (رض) نے کہا : اس عورت کے لیے اپنے خاندان کی عورتوں کے جیسا مہر ہوگا۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ اسے عدت بھی گزارنی ہوگی اور میراث میں بھی اس کا حق ہوگا۔ تو معقل بن سنان اشجعی نے کھڑے ہو کر کہا : بروع بنت واشق جو ہمارے قبیلے کی عورت تھی، کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا جیسا آپ نے کیا ہے۔ تو اس سے ابن مسعود (رض) خوش ہوئے ١ ؎۔