12. رضاعت کا بیان

【1】

نسب سے حرام رشتے رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام کر دئیے ہیں جو نسب سے حرام ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، ابن عباس اور ام حبیبہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں جانتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠١١٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ سات رشتے ہیں ( ١) مائیں ( ٢) بیٹیاں ( ٣) بہنیں ( ٤) پھوپھیاں ( ٥) خالائیں ( ٦) بھتیجیاں ( ٧) بھانجیاں ، ماں میں دادی نانی داخل ہے اور بیٹی میں پوتی نواسی داخل ، اور بہنیں تین طرح کی ہیں : سگی ، سوتیلی اور اخیافی ، اسی طرح بھتیجیاں اور بھانجیاں اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں اور پھوپھیاں سگی ہوں خواہ سوتیلی خواہ اخیافی ، اسی طرح باپ دادا اور ماں اور نانی کی پھوپھیاں سب حرام ہیں اور «خالائیں علی ہذا القیاس»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (6 / 284) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1146

【2】

نسب سے حرام رشتے رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام قرار دے دیئے ہیں جو ولادت (نسب) سے حرام ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٧ (٢٠٥٥) ، سنن النسائی/النکاح ٤٩ (٣٣٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٣٤٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٨ (٢٢٩٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الشہادات ٧ وفرض الخمس ٤ (٣١٠٥) ، والنکاح ٢٠ (٥٠٩٩) و ٢٧ (٥١١١) ، صحیح مسلم/الرضاع ٢ (١٤٤٤) ، سنن النسائی/النکاح ٤٩ (٣٣٠٣، ٣٣٠٤، ٣٣٠٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٤ (١٩٣٧) ، موطا امام مالک/الرضاع ١ (٣) ، مسند احمد (٦/٦٦، ٧٢، ١٠٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٨ (٢٢٩١، ٢٢٩٢) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1937) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1147

【3】

دودھ مرد کی طرف منسوب ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ تیرے پاس آسکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچا ہیں ، اس پر انہوں نے عرض کیا : مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا : تیرے چچا ہیں، وہ تیرے پاس آسکتے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے انہوں نے «لبن فحل» (مرد کے دودھ) کو حرام کہا ہے۔ اس باب میں اصل عائشہ کی حدیث ہے، ٣- اور بعض اہل علم نے «لبن فحل» (مرد کے دودھ) کی رخصت دی ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٢ (١٤٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٨٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٤) وتفسیر سورة السجدة ٩ (٦٩٧٤ ) ، و النکاح ٢٢ (٥١٠٣) ، و ١١١٧ (٥٢٣٩) ، والأدب ٩٣ (٦١٥٦) ، صحیح مسلم/الرضاع ( المصدر المذکور ) سنن النسائی/النکاح ٤٩ (٣٣٠٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٨ (٢٢٩٤) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے دودھ پلانے سے جس مرد کا دودھ ہو ( یعنی اس عورت کا شوہر ) وہ بھی شیرخوار پر حرام ہوجاتا ہے اور اس سے بھی شیرخوار کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1948) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1148

【4】

دودھ مرد کی طرف منسوب ہے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس کے پاس دو لونڈیاں ہوں، ان میں سے ایک نے ایک لڑکی کو دودھ پلایا ہے اور دوسری نے ایک لڑکے کو۔ تو کیا اس لڑکے کے لیے جائز ہے کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرے۔ انہوں نے (ابن عباس (رض)) نے کہا : نہیں۔ اس لیے کہ «لقاح » ایک ہی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہی اس باب میں اصل ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٣١١) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں عورتوں کا دودھ ایک ہی شخص کے جماع اور منی سے پیدا ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1149

【5】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بار یا دو بار چھاتی سے دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام فضل، ابوہریرہ، زبیر بن عوام اور ابن زبیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس حدیث کو دیگر کئی لوگوں نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ایک یا دو بار دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی“۔ اور محمد بن دینار نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، اس میں محمد بن دینار بصریٰ نے زبیر کے واسطے کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ غیر محفوظ ہے، ۳- محدثین کے نزدیک صحیح ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جسے انہوں نے بطریق: «عبد الله بن الزبير عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح ابن زبیر کی روایت ہے جسے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے اور محمد بن دینار کی روایت جس میں: زبیر کے واسطے کا اضافہ ہے وہ دراصل ہشام بن عروہ سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد عروہ سے اور انہوں نے زبیر سے روایت کی ہے، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ۶- عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قرآن میں ( پہلے ) دس رضعات والی آیت نازل کی گئی پھر اس میں سے پانچ منسوخ کر دی گئیں تو پانچ رضاعتیں باقی رہ گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو معاملہ انہیں پانچ پر قائم رہا ۲؎، ۷- اور عائشہ رضی اللہ عنہا اور بعض دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اسی کا فتویٰ دیتی تھیں، اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ ۸- امام احمد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ”ایک بار یا دو بار کے چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی“ کے قائل ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی عائشہ رضی الله عنہا کے پانچ رضعات والے قول کی طرف جائے تو یہ قوی مذہب ہے۔ لیکن انہیں اس کا فتویٰ دینے کی ہمت نہیں ہوئی، ۹- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ جب پیٹ تک پہنچ جائے تو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، وکیع اور اہل کوفہ کا قول ہے۔

【6】

رضاعت میں ایک عورت کی گواہی کافی ہے

عقبہ بن حارث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آ کر کہا : میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آ کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیرلیا تو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا، آپ نے (پھر) اپنا چہرہ پھیرلیا۔ میں نے عرض کیا : وہ جھوٹی ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ اپنی بیوی اپنے سے علاحدہ کر دو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عقبہ بن حارث (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس حدیث کو کئی اور بھی لوگوں نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے اور ابن ابی ملیکہ نے عقبہ بن حارث سے روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عبید بن ابی مریم کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، نیز اس میں «دعها عنك» اسے اپنے سے علاحدہ کر دو ، کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ انہوں نے رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت کو درست قرار دیا ہے، ٤- ابن عباس (رض) کہتے ہیں : رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت جائز ہے۔ لیکن اس سے قسم بھی لی جائے گی۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٥- اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایک عورت کی گواہی درست نہیں جب تک کہ وہ ایک سے زائد نہ ہوں۔ یہ شافعی کا قول ہے، ٦- وکیع کہتے ہیں : ایک عورت کی گواہی فیصلے میں درست نہیں۔ اور اگر ایک عورت کی گواہی سن کر وہ بیوی سے علاحدگی اختیار کرلے تو یہ عین تقویٰ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٦ (٨٨) ، والبیوع ٣ (٢٠٥٢) ، والشہادات ٤ (٢٦٤٠) ، و ١٣ (٢٦٥٩) ، و ١٤ (٢٦٦٠) ، والنکاح ٢٣ (٥١٠٣) ، سنن ابی داود/ الأقضیہ ١٨ (٣٦٠٣) ، سنن النسائی/النکاح ٥٧ (٣٣٣٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٠٥) ، مسند احمد (٤/٧، ٨، ٣٨٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٥١ (٢٣٠١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک «مرضعہ» کی گواہی کافی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2154 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1151

【7】

رضاعت کی حرمت صرف دو سال کی عمر تک ہی ثابت ہے۔

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ انتڑیوں کو پھاڑ دے ١ ؎، اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے ہو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ رضاعت کی حرمت اس وقت ہوتی ہے جب بچے کی عمر دو برس سے کم ہو، اور جو دو برس پورے ہونے کے بعد ہو تو اس سے کوئی چیز حرام نہیں ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٢٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آنتوں میں پہنچ کر غذا کا کام کرے۔ ٢ ؎ : یعنی جب بچہ دو برس سے کم کا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1946) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1152

【8】

دودھ پلانے والی کے حق کی ادائیگی

حجاج اسلمی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے رسول ! مجھ سے حق رضاعت کس چیز سے ادا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ایک جان : غلام یا لونڈی کے ذریعہ سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی طرح اسے یحییٰ بن سعید قطان، حاتم بن اسماعیل اور کئی لوگوں نے بطریق : «هشام بن عروة عن أبيه عن حجاج بن حجاج عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بطریق : «هشام بن عروة عن أبيه عن حجاج بن أبي حجاج عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے اور ابن عیینہ کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ صحیح وہی ہے جسے ان لوگوں نے ہشام بن عروۃ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔ (یعنی : «حجاج بن حجاج» والی نہ کہ «حجاج بن أبي حجاج» والی) ٣- اور «مايذهب عني مذمة الرضاعة» سے مراد رضاعت کا حق اور اس کا ذمہ ہے۔ وہ کہتے ہیں : جب تم دودھ پلانے والی کو ایک غلام دے دو ، یا ایک لونڈی تو تم نے اس کا حق ادا کردیا، ٤- ابوالطفیل (رض) سے روایت کی گئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک عورت آئی تو نبی اکرم ﷺ نے اپنی چادر بچھا دی، یہاں تک کہ وہ اس پر بیٹھ گئی، جب وہ چلی گئی تو کہا گیا : یہی وہ عورت تھی جس نے نبی اکرم ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ١٢ (٢٠٦٤) ، سنن النسائی/النکاح ٥٦ (٣٣٣١) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٩٥) ، مسند احمد (٣/٤٥٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٠ (٢٣٠٠) (ضعیف) (اس کے راوی ” حجاج بن حجاح تابعی ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (351) // عندنا برقم (445 / 2064) ، ضعيف سنن النسائي (213 / 3329) ، المشکاة (3174) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1153

【9】

شادی شدہ لونڈی کو آزاد کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے، رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو اختیار دیا، تو انہوں نے خود کو اختیار کیا، (عروہ کہتے ہیں) اگر بریرہ کے شوہر آزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤/٩) ، سنن ابی داود/ الطلاق ١٩ (٢٢٣٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٣١ (٣٤٨١) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٧٧٠) (صحیح) وأخرجہ مطولا ومختصرا کل من : صحیح البخاری/العتق ١٠ (٢٥٣٦) ، والفرائض ٢٢ (٦٧٥٨) ، صحیح مسلم/العتق (المصدر المذکور) (٥٠٤/١٠) ، مسند احمد (٦/٤٦، ١٧٨) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٧) من غیر ھذا الوجہ، وانظر أیضا مایأتي برقم ١٢٥٦ و ٢١٢٤ و ٢١٢٥ وضاحت : ١ ؎ : نسائی نے سنن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ آخری فقرہ حدیث میں مدرج ہے ، یہ عروہ کا قول ہے ، اور ابوداؤد نے بھی اس کی وضاحت کردی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، لکن قوله : ولو کان .... مدرج من قول عروة، الإرواء (1873) ، صحيح أبي داود (1935) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1154

【10】

شادی شدہ لونڈی کو آزاد کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر آزاد تھے، پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے انہیں اختیار دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی طرح ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں کہ بریرہ کا شوہر غلام تھا، ٣- عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : میں نے بریرہ کے شوہر کو دیکھا ہے، وہ غلام تھے اور انہیں مغیث کہا جاتا تھا، ٤- اسی طرح کی ابن عمر (رض) سے روایت کی گئی ہے، ٥- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب لونڈی آزاد مرد کے نکاح میں ہو اور وہ آزاد کردی جائے تو اسے اختیار نہیں ہوگا۔ اسے اختیار صرف اس صورت میں ہوگا، جب وہ آزاد کی جائے اور وہ کسی غلام کی زوجیت میں ہو۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٦- لیکن اعمش نے بطریق : «إبراهيم عن الأسود عن عائشة» روایت کی ہے کہ بریرہ کے شوہر آزاد تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اختیار دیا۔ اور ابو عوانہ نے بھی اس حدیث کو بطریق : «الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة» بریرہ کے قصہ کے سلسلہ میں روایت کیا ہے، اسود کہتے ہیں : بریرہ کے شوہر آزاد تھے، ٧- تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٩٩ (٢٦١٥) ، والطلاق ٣٠ (٣٤٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٩ (٢٠٧٤) (تحفة الأشراف : ١٥٩٥٩) ، مسند احمد (٦/٤٢) (المحفوظ : ” کان زوجھا عبداً “ ” حراً “ کا لفظ بقول بخاری ” وہم “ ہے) (صحیح) (حدیث میں بریرہ کے شوہر کو ” حرا “ کہا گیا ہے، یعنی وہ غلام نہیں بلکہ آزاد تھے، اس لیے یہ ایک کلمہ شاذ ہے، اور محفوظ اور ثابت روایت ” عبداً “ کی ہے یعنی بریرہ کے شوہر ” مغیث “ غلام تھے) ۔ وضاحت : ١ ؎ : راجح روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا «حراً» کا لفظ وہم ہے کما تقدم۔ قال الشيخ الألباني : شاذ - بلفظ : حرا ، والمحفوظ : عبدا -، ابن ماجة (2074) // ضعيف ابن ماجة برقم (450) ، وصحيح سنن ابن ماجة - باختصار السند - برقم (1687) ، الإرواء (6 / 276) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1155

【11】

شادی شدہ لونڈی کو آزاد کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بریرہ کے شوہر بنی مغیرہ کے ایک کالے کلوٹے غلام تھے، جس دن بریرہ آزاد کی گئیں، اللہ کی قسم، گویا میں انہیں مدینے کے گلی کوچوں اور کناروں میں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں کہ ان کے آنسو ان کی داڑھی پر بہہ رہے ہیں، وہ انہیں منا رہے ہیں کہ وہ انہیں ساتھ میں رہنے کے لیے چن لیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١٥ (٥٢٨٢) ، ١٦ (٥٢٨٣) ، سنن ابی داود/ الطلاق ١٩ (٢٢٣٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩٩٨) و ٦١٨٩) (صحیح) و أخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الطلاق (٢٢٣١) ، و مسند احمد (١/٢١٥) ، وسنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٨) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2075) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1156

【12】

لڑکا صاحب فراش کے لئے ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بچہ صاحب فراش (یعنی شوہر یا مالک) کا ہوگا ١ ؎ اور زانی کے لیے پتھر ہوں گے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، عثمان، عائشہ، ابوامامہ، عمرو بن خارجہ، عبداللہ بن عمر، براء بن عازب اور زید بن ارقم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٨) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٨ (٣٥١٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٩ (٢٠٠٦) مسند احمد (٢/٢٣٩) (تحفة الأشراف : ١٣١٣٤) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الفرائض ١٧ (٦٧٥٠) ، والحدود ٢٣ (٦٨١٨) ، مسند احمد (٢/٢٨٠، ٣٨٦، ٤٠٩، ٤٩٢) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : فراش سے صاحب فراش یعنی شوہر یا مالک مراد ہے کیونکہ یہی دونوں عورت کو بستر پر لٹاتے اور اس کے ساتھ سوتے ہیں۔ ٢ ؎ : زانی کے لیے پتھر ہے ، یعنی ناکامی و نامرادی ہے ، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں ، ایک قول یہ بھی ہے کہ «حجر» سے مراد یہ ہے کہ اسے رجم کیا جائے گا ، یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کیا جائے گا ، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ رجم صرف شادی شدہ کو کیا جائے گا ، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تو وہ جس کی بیوی یا لونڈی ہوگی اسی کی طرف بچے کی نسبت ہوگی اور وہ اسی کا بچہ شمار کیا جائے گا ، میراث اور ولادت کے دیگر احکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرنے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی دعویٰ کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے اس کے ساتھ اس بچے کی مشابہت بھی ہو اور صاحب فراش کے ساتھ نہ ہو اس ساری صورتحال کے باوجود بچہ کو صاحب فراش کی طرف منسوب کیا جائے گا ، اس میں زانی کا کوئی حق نہ ہوگا اور اگر اس نے اس کی نفی کردی تو پھر بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس بچہ کا نسب ماں کے ساتھ جوڑا جائے گا زانی کے ساتھ نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1157

【13】

مرد کسی عورت کو دیکھ اور وہ اسے پسند آجائے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا تو آپ زینب (رض) کے پاس تشریف لائے اور آپ نے اپنی ضرورت پوری کی اور باہر تشریف لا کر فرمایا : عورت جب سامنے آتی ہے تو وہ شیطان کی شکل میں آتی ہے ١ ؎، لہٰذا جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے بھلی لگے تو اپنی بیوی کے پاس آئے اس لیے کہ اس کے پاس بھی اسی جیسی چیز ہے جو اس کے پاس ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث صحیح حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- ہشام دستوائی دراصل ہشام بن سنبر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢ (١٤٠٣) ، سنن ابی داود/ النکاح ٤٤ (٢١٥١) ، مسند احمد (٣/٣٣٠) (تحفة الأشراف : ٢٩٧٥) ، (صحیح) وأخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٠، ٣٤١، ٣٤٨، ٣٩٥) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : عورت کو شیطان کی شکل میں اس لیے کہا کہ جیسے شیطان آدمی کو بہکاتا ہے ایسے بےپردہ عورت بھی مرد کو بہکاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1158

【14】

بیوی پر شوہر کے حقوق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں معاذ بن جبل، سراقہ بن مالک بن جعشم، عائشہ، ابن عباس، عبداللہ بن ابی اوفی، طلق بن علی، ام سلمہ، انس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥١٠٤) (صحیح) (اس سند سے حدیث حسن ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس سے شوہر کے مقام و مرتبہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1853) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1159

【15】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بلائے تو اسے فوراً آنا چاہیئے اگرچہ وہ تنور پر ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

【16】

بیوی پر شوہر کے حقوق

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عورت مرجائے اور اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٤ (١٨٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٩٤) (ضعیف) (مساور اور ان کی والدہ دونوں مجہول ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1854) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (407) ، ضعيف الجامع الصغير (2227) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1161

【17】

عورت کے حقوق خاوند پر

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٥٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (284) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1162

【18】

عورت کے حقوق خاوند پر

سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ اور (لوگوں کو) نصیحت کی اور انہیں سمجھایا۔ پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا : سنو ! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس (ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بیحیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا ہے) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علاحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، اس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ نہ تلاش کرو، سنو ! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو ! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہنے میں اچھا سلوک کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- «عوان عندکم» کا معنی ہے تمہارے ہاتھوں میں قیدی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : *تخريج : سنن ابن ماجہ/النکاح ٣ (١٨٥١) ، والمؤلف في تفسیر التوبة (٣٠٨٧) (تحفة الأشراف : ١٠٦٩١) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی طاقت کے مطابق یہ چیزیں احسن طریقے سے مہیا کرو۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1851) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1163

【19】

عورتوں کے پیچھے سے صحبت کرناحرام ہے

علی بن طلق (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! ہم میں ایک شخص صحرا (بیابان) میں ہوتا ہے، اور اس کو ہوا خارج ہوجاتی ہے (اور وضو ٹوٹ جاتا ہے) اور پانی کی قلت بھی ہوتی ہے (تو وہ کیا کرے ؟ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کی جب ہوا خارج ہوجائے تو چاہیئے کہ وہ وضو کرے، اور عورتوں کی دبر میں صحبت نہ کرو، اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی بن طلق کی حدیث حسن ہے، ٢- اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ سوائے اس ایک حدیث کے علی بن طلق کی کوئی اور حدیث مجھے نہیں معلوم، جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، اور طلق بن علی سحیمی کی روایت سے میں یہ حدیث نہیں جانتا۔ گویا ان کی رائے یہ ہے کہ یہ صحابہ میں سے کوئی اور آدمی ہیں، ٣- اس باب میں عمر، خزیمہ بن ثابت، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٨٢ (٢٠٥) ، والصلاة ١٩٣ (١٠٠٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٤ (١١٨١) (ضعیف) (اس کے دو راوی عیسیٰ بن حطان اور ان کے شیخ مسلم بن سلام الحنفی دونوں کے بارے میں ابن حجر نے کہا ہے کہ مقبول ہیں، یعنی جب ان کا کوئی متابع یا شاہد ہو، لیکن یہاں کوئی چیز ان کو تقویت پہنچانے والی نہیں ہے اس واسطے دونوں لین الحدیث ہیں، اس لیے حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الالبانی ٣٥٣) قال الشيخ الألباني : // ضعيف الجامع الصغير (607) ، المشکاة (314 و 1006) ، ضعيف أبي داود (35 / 205) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1164

【20】

عورتوں کے پیچھے سے صحبت کرناحرام ہے

علی بن طلق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی ہوا خارج کرے تو چاہیئے کہ وضو کرے اور تم عورتوں کی دبر میں صحبت نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : علی سے مراد علی بن طلق ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ١١٦٤ (ضعیف) (اس میں مسلم بن سلام ضعیف راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (26) // عندنا برقم (35 / 205) ولفظه أتم ; لکن الشطر الثاني صحيح بما بعده (1166)

【21】

عورتوں کے پیچھے سے صحبت کرناحرام ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس شخص کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یا کسی عورت کی دبر میں صحبت کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبریٰ ) ( تحفة الأشراف : ٦٣٦٣) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (3195) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1165

【22】

عورتوں کا بناؤ سنگھار کرکے نکلنا منع ہے

میمونہ بنت سعد (رض) کہ جو نبی اکرم ﷺ کی خادمہ تھیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے شوہر کے علاوہ غیروں کے سامنے بناؤ سنگار کر کے اترا کر چلنے والی عورت کی مثال قیامت کے دن کی تاریکی کی طرح ہے، اس کے پاس کوئی نور نہیں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کو ہم صرف موسیٰ بن عبیدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- موسیٰ بن عبیدہ اپنے حفظ کے تعلق سے ضعیف قرار دیے جاتے ہیں، وہ صدوق ہیں، ان سے شعبہ اور ثوری نے بھی روایت کی ہے۔ ٣- اور بعض نے اسے موسیٰ بن عبیدہ سے روایت کیا ہے، اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٠٨٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” موسیٰ بن عبیدہ “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1800) // ضعيف الجامع الصغير (5236) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1167

【23】

غیرت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کو غیرت آتی ہے اور مومن کو بھی غیرت آتی ہے، اللہ کی غیرت اس پر ہے کہ مومن کوئی ایسا کام کرے جسے اللہ نے اس پر حرام کیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اور یہ حدیث یحییٰ بن ابی کثیر (اس طریق سے بھی) سے مروی ہے «عن أبي سلمة عن عروة عن أسماء بنت أبي بکر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں، ٣- حجاج صواف ہی حجاج بن ابی عثمان ہیں۔ ابوعثمان کا نام میسرہ ہے اور حجاج کی کنیت ابوصلت ہے۔ یحییٰ بن سعید نے ان کی توثیق کی ہے۔

【24】

عورت کا اکیلے سفر کرنا صحیح نہیں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ تین دن ١ ؎ یا اس سے زائد کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کا باپ یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کا کوئی محرم نہ ہو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عورت ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر کسی محرم کے بغیر نہ کرے۔ اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے کہ محرم کے بغیر سفر کرے۔ اہل علم کا اس عورت کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو حج کی استطاعت رکھتی ہو لیکن اس کا کوئی محرم نہ ہو تو وہ حج کرے یا نہیں ؟ بعض اہل علم کہتے ہیں : اس پر حج نہیں ہے، اس لیے کہ محرم بھی اللہ تعالیٰ کے ارشاد «من استطاع إليه سبيلا» میں استطاعت سبیل میں داخل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس کا کوئی محرم نہ ہو تو وہ استطاعت سبیل نہیں رکھتی۔ یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب راستہ مامون ہو، تو وہ لوگوں کے ساتھ حج میں جاسکتی ہے۔ یہی مالک اور شافعی کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٤ (١٣٤٠) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢ (١٧٢٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢ (١٧٢٣) ، مسند احمد (٢/٣٤٠، ٤٩٣) (تحفة الأشراف : ١٤٣١٦) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٦ (٢٧٢٠) (صحیح) وأخرجہ : صحیح البخاری/فضل الصلاة في مسجد مکة والمدینة ٦ (١١٩٧) ، وجزاء الصید ٢٦ (١٨٦٤) ، والصوم ٦٧ (١٩٩٥) ، من غیر ہذا الوجہ وبلفظ ” سفر یومین “ وضاحت : ١ ؎ : اس میں تین دن کا ذکر ہے ، بعض روایتوں میں دو اور بعض میں ایک دن کا ذکر ہے ، اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایک یا دو یا تین دن کا اعتبار نہیں اصل اعتبار سفر کا ہے کہ اتنی مسافت ہو جس کو سفر کہا جاسکے اس میں تنہا عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں۔ ٢ ؎ : محرم سے مراد شوہر کے علاوہ عورت کے وہ قریبی رشتہ دار ہیں جن سے اس کا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا ، جیسے باپ ، بیٹا ، بھائی ، بھتیجا اور بھانجا اور اسی طرح رضاعی باپ ، بیٹا ، بھائی ، بھتیجا اور بھانجا ہیں ، داماد بھی انہیں میں ہے ، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اس کا سفر کرنا جائز ہے ، ان کے علاوہ کسی کے ساتھ سفر پر نہیں جاسکتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2898) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1169

【25】

عورت کا اکیلے سفر کرنا صحیح نہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی عورت ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر محرم کے بغیر نہ کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج (١٣٣٩) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢ (١٧٢٣) ، مسند احمد (٢/٣٤٠، ( تحفة الأشراف : ١٤٣١٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٤ (١٠٨٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧ (٢٨٩٩) ، موطا امام مالک/الاستئذان ١٤ (٣٧) ، مسند احمد ٢/٢٣٦، ٣٤٧، ٤٢٣، ٤٤٥) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2899) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1170

【26】

غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت منع ہے

عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں کے پاس خلوت (تنہائی) میں آنے سے بچو ، اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! دیور (شوہر کے بھائی) کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا : دیور موت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عقبہ بن عامر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، جابر اور عمرو بن العاص (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- عورتوں کے پاس خلوت (تنہائی) میں آنے کی حرمت کا مطلب وہی ہے جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت (تنہائی) میں ہوتا ہے تو اس کا تیسرا شیطان ہوتا ہے ، ٤- «حمو» شوہر کے بھائی یعنی دیور کو کہتے ہیں، گویا آپ نے دیور کے بھاوج کے ساتھ تنہائی میں ہونے کو حرام قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١١١ (٥٢٣٢) ، صحیح مسلم/السلام ٨ (٢١٧٢) (تحفة الأشراف : ٩٩٥٨) مسند احمد (٤/١٤٩، ١٥٣) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٤ (٢٦٨٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (181) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1171

【27】

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ایسی عورتوں کے گھروں میں داخل نہ ہو، جن کے شوہر گھروں پر نہ ہوں، اس لیے کہ شیطان تم میں سے ہر ایک کے اندر ایسے ہی دوڑتا ہے جیسے خون جسم میں دوڑتا ہے ، ہم نے عرض کیا : آپ کے بھی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں میرے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد کی ہے، اس لیے میں (اس کے شر سے) محفوظ رہتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ بعض لوگوں نے مجالد بن سعید کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے، ٢- سفیان بن عیینہ نبی اکرم ﷺ کے قول «ولکن اللہ اعانني عليه فاسلم» لیکن اللہ نے میری مدد کی ہے اس لیے میں محفوظ رہتا ہوں کی تشریح میں کہتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ میں اس شیطان سے محفوظ رہتا ہوں ، نہ یہ کہ وہ اسلام لے آیا ہے (کیونکہ) : شیطان مسلمان نہیں ہوتا، ٣- «ولاتلجوا علی المغيبات» میں «مغیبة» سے مراد وہ عورت ہے، جس کا شوہر موجود نہ ہو، «مغيبات» ، «مغيبة» کی جمع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٣٤٩) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” مجالد بن سعید “ کے اندر کچھ کلام ہے، صحیح سنن ابی داود ١١٣٣، ١١٣٤، تخریج فقہ السیرة ٦٥) قال الشيخ الألباني : صحيح - الطرف الأول يشهد له ما قبله وسائره فی الصحيح -، ابن ماجة (1779) ، تخريج فقه السيرة (6) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1172

【28】

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد المؤلف بہذا الشق بہذا السند، وأخرج أبوداود الصلاة (٥٤/٥٧٠) بہذا السند الشق الأول، لہذا الحدیث فقط ” صلاة المرأة في بیتہا…الخ ( تحفة الأشراف : ٩٥٢٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3109) ، الإرواء (273) ، التعليق علی ابن خزيمة (1685) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1173

【29】

معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو عورت بھی اپنے شوہر کو دنیا میں تکلیف پہنچاتی ہے تو (جنت کی) بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے اس کی بیوی کہتی ہے : تو اسے تکلیف نہ دے۔ اللہ تجھے ہلاک کرے، یہ تو ویسے بھی تیرے پاس بس مسافر ہے، قریب ہے کہ یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آ جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- اسماعیل بن عیاش کی روایتیں جنہیں انہوں نے اہل شام سے روایت کی ہیں بہتر ہے، لیکن اہل حجاز اور اہل عراق سے ان کی روایتیں منکر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٦٢ (٢٠٤١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٥٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2014) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1174