13. طلاق اور لعان کا بیان
طلاق سنت
طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو تو انہوں نے کہا : کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو ؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کرلیں ، یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی ؟ کہا : تو اور کیا ہوگی ؟ (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی) ، بھلا بتاؤ اگر وہ عاجز ہوجاتا یا دیوانہ ہوجاتا تو واقع ہوتی یا نہیں ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢ (٥٢٥٢) ، و ٤٥ (٥٣٣٣) ، صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٤ (٢١٨٣، ٢١٨٤) ، سنن النسائی/الطلاق ١ (٣٤١٨) ، و ٧٦ (٣٥٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢ (٢١٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ٨٥٧٣) ، مسند احمد (٢/٤٣، ٥١، ٧٩) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ١ (٤٩٠٨) ، والطلاق ١ (٥٢٥١) ، و ٤٤ (٥٣٣٢) ، والأحکام ١٣ (٧١٦٠) ، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) سنن ابی داود/ الطلاق ٤ (٢١٧٩-٢١٨٢) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢١ (٥٣) ، سنن الدارمی/الطلاق ١ (٢٣٠٨) ، من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب رجعت سے عاجز ہوجانے یا دیوانہ و پاگل ہوجانے کی صورت میں یہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہو تو آپ کا «مره فليراجعها» کہنا بےمعنی ہوگا ، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا ، لیکن ظاہر یہ کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوتی ، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی ، ابوداؤد کی ایک روایت ( رقم : ٢١٨٥) کے الفاظ ہیں «لم يرها شيئاً» ، محتاط یہی ہے کہ طلاق کے ضمن میں حالت حیض میں ظاہر یہ کے مسلک کو اختیار کیا جائے تاکہ طلاق کھیل نہ بن جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2022) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1175
طلاق سنت
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، ان کے والد عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرلے، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یونس بن جبیر کی حدیث جسے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔ اور اسی طرح سالم بن عبداللہ کی بھی جسے وہ ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں، ٢- یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی ابن عمر (رض) سے مروی ہے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ طلاق سنّی یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے، ٤- بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے طہر کی حالت میں تین طلاقیں دیں، تو یہ بھی طلاق سنّی ہوگی۔ یہ شافعی اور احمد بن حنبل کا قول ہے، ٥- اور بعض کہتے ہیں کہ تین طلاق طلاق سنی نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ وہ ایک ایک طلاق الگ الگ کر کے دے۔ یہ سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٦- اور یہ لوگ حاملہ کے طلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسے جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٧- اور بعض کہتے ہیں : اسے بھی وہ ہر ماہ ایک طلاق دے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٦٧٩٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2023) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1176
جو شخص اپنی بیوی کو البتہ کے لفظ سے طلاق دے
رکانہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتّہ) دی ہے۔ آپ نے فرمایا : تم نے اس سے کیا مراد لی تھی ؟ ، میں نے عرض کیا : ایک طلاق مراد لی تھی، آپ نے پوچھا : اللہ کی قسم ؟ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! آپ نے فرمایا : تو یہ اتنی ہی ہے جتنی کا تم نے ارادہ کیا تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اس میں اضطراب ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں، ٣- اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ کو ایک طلاق قرار دی ہے، ٤- اور علی (رض) سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قرار دی ہے، ٥- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہوگا۔ اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہوگی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہوگی۔ اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہوگی۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے، ٦- مالک بن انس قطعی طلاق (بتّہ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہوچکا ہے تو طلاق بتّہ تین طلاق شمار ہوگی، ٧- شافعی کہتے ہیں : اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہوگی اور اسے رجعت کا اختیار ہوگا۔ اگر دو کی نیت کی ہے تو دو ہوگی اور اگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ١٤ (٢٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٩ (٢٠٥١) سنن الدارمی/الطلاق ٨ (٢٣١٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦١٣) (ضعیف) (سند میں زبیر بن سعید اور عبد اللہ بن علی ضعیف ہیں، اور علی بن یزید بن رکانہ مجہول ہیں، نیز بروایتِ ترمذی بقول امام بخاری : اس حدیث میں سخت اضطراب ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے : الارواء (رقم ٢٠٦٣) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2051) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (444) ، ضعيف أبي داود (479 / 2206) ، الإرواء (2063) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1177
عورت سے کہنا کہ تمہارا معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔
حماد بن زید کا بیان ہے کہ میں نے ایوب (سختیانی) سے پوچھا : کیا آپ حسن بصری کے علاوہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں، جس نے «أمرک بيدك» کے سلسلہ میں کہا ہو کہ یہ تین طلاق ہے ؟ انہوں نے کہا : حسن بصری کے۔ علاوہ مجھے کسی اور کا علم نہیں، پھر انہوں نے کہا : اللہ ! معاف فرمائے۔ ہاں وہ روایت ہے جو مجھ سے قتادہ نے بسند «كثير مولی بني سمرة عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ آپ نے فرمایا : یہ تین طلاقیں ہیں ۔ ایوب کہتے ہیں : پھر میں کثیر مولی بنی سمرہ سے ملا تو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا مگر وہ اسے نہیں جان سکے۔ پھر میں قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا : وہ بھول گئے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف سلیمان بن حرب ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے، ٣- میں نے اس حدیث کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے اور یہ ابوہریرہ سے موقوفاً مروی ہے، اور وہ ابوہریرہ کی حدیث کو مرفوع نہیں جان سکے، ٤- اہل علم کا «أمرک بيدك» کے سلسلے میں اختلاف ہے، بعض صحابہ کرام وغیرہم جن میں عمر بن خطاب، عبداللہ بن مسعود (رض) بھی ہیں کہتے ہیں کہ یہ ایک (طلاق) ہوگی۔ اور یہی تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا بھی قول ہے، ٥- عثمان بن عفان اور زید بن ثابت کہتے ہیں کہ فیصلہ وہ ہوگا جو عورت کہے گی، ٦- ابن عمر (رض) کہتے ہیں : جب شوہر کہے کہ اس کا معاملہ اس (عورت) کے ہاتھ میں ہے ، اور عورت خود سے تین طلاق قرار دے لے۔ اور شوہر انکار کرے اور کہے : میں نے صرف ایک طلاق کے سلسلہ میں کہا تھا کہ اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو شوہر سے قسم لی جائے گی اور شوہر کا قول اس کی قسم کے ساتھ معتبر ہوگا، ٧- سفیان اور اہل کوفہ عمر اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے قول کی طرف گئے ہیں، ٨- اور مالک بن انس کا کہنا ہے کہ فیصلہ وہ ہوگا جو عورت کہے گی، یہی احمد کا بھی قول ہے، ٩- اور رہے اسحاق بن راہویہ تو وہ ابن عمر (رض) کے قول کی طرف گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ١٣ (٢٢٠٤) ، سنن النسائی/الطلاق ١١ (٣٤٣٩) (ضعیف) (سند میں کثیر لین الحدیث ہیں مگر حسن کا قول صحیح ہے، جس کی روایت ابوداود (برقم ٢٢٠٥) نے بھی کی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لكنه عن الحسن قوله : صحيح، ضعيف أبي داود (379) ، صحيح أبي داود (1914) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1178
بیوی کو طلاق کا اختیار دینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی ؟ ١ ؎۔
جس عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں اس کانان نفقہ اور گھر شوہر کے ذمہ نہیں
عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ١ ؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہیں نہ «سکنی» (رہائش) ملے گا اور نہ «نفقہ» (اخراجات) ۔ مغیرہ کہتے ہیں : پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ عمر (رض) کا کہنا ہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو ترک نہیں کرسکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یا بھول گئی۔
نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، اور نہ اسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے جس کا وہ مالک نہ ہو، اور نہ اسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے جس کا وہ مالک نہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، معاذ بن جبل، جابر، ابن عباس اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور یہ سب سے بہتر حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے، ٣- یہی صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا قول ہے۔ اور علی بن ابی طالب، ابن عباس، جابر بن عبداللہ، سعید بن المسیب، حسن، سعید بن جبیر، علی بن حسین، شریح، جابر بن زید (رض) ، اور فقہاء تابعین میں سے بھی کئی لوگوں سے یہی مروی ہے۔ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے، ٤- اور ابن مسعود سے مروی ہے انہوں نے منصوبہ ١ ؎ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ طلاق ہوجائے گی، ٥- اور اہل علم میں سے ابراہیم نخعی اور شعبی وغیرہ سے مروی ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ کسی وقت کی تحدید کرے ٢ ؎ تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اور یہی سفیان ثوری اور مالک بن انس کا بھی قول ہے کہ جب اس نے کسی متعین عورت کا نام لیا، یا کسی وقت کی تحدید کی یا یوں کہا : اگر میں نے فلاں محلے کی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق ہے۔ تو اگر اس نے شادی کرلی تو اسے طلاق واقع ہوجائے گی، ٦- البتہ ابن مبارک نے اس باب میں شدت سے کام لیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اس پر حرام ہوگی، ٧- اور احمد کہتے ہیں : اگر اس نے شادی کی تو میں اسے یہ حکم نہیں دوں گا کہ وہ اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کرلے، ٨- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعود کی حدیث کی رو سے منسوبہ عورت سے نکاح کی اجازت دیتا ہوں، اگر اس نے اس سے شادی کرلی، تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی عورت اس پر حرام ہوگی۔ اور غیر منسوبہ عورت کے سلسلے میں اسحاق بن راہویہ نے وسعت دی ہے، ٩- اور عبداللہ بن مبارک سے منقول ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس نے طلاق کی قسم کھائی ہو کہ وہ شادی نہیں کرے گا، پھر اسے سمجھ میں آیا کہ وہ شادی کرلے۔ تو کیا اس کے لیے رخصت ہے کہ ان فقہاء کا قول اختیار کرے جنہوں نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے ؟ تو عبداللہ بن مبارک نے کہا : اگر وہ اس معاملے میں پڑنے سے پہلے ان کے رخصت کے قول کو درست سمجھتا ہو تو اس کے لیے ان کے قول پر عمل درست ہے اور اگر وہ پہلے اس قول سے مطمئن نہ رہا ہو، اب آزمائش میں پڑجانے پر ان کے قول پر عمل کرنا چاہے تو میں اس کے لیے ایسا کرنا درست نہیں سمجھتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٧ (٢٠٤٧) (تحفة الأشراف : ٨٧٢١) ، مسند احمد (٢/١٩٠) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الطلاق ٧ (٢١٩٠) ، سنن النسائی/البیوع ٦٠ (٤٦١٦) ، مسند احمد (٢/١٨٩) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : بعض نسخوں میں منصوبہ سین سے ہے یعنی «منسوبہ» ، اور یہی صحیح ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جو کسی قبیلے یا شہر کی طرف منسوب ہو یا «منصوبہ» سے مراد متعین عورت ہے۔ مثلاً کوئی خاص عورت جس سے ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے یہ کہے کہ اگر میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق تو نکاح کے بعد اس پر طلاق پڑجائے گی ، حالانکہ فی الوقت یہ طلاق اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔ ٢ ؎ : مثلاً یوں کہے «إن نکحت اليوم أو غداً» اگر میں نے آج نکاح کیا یا کل نکاح کروں گا ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2047) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1181
لونڈی کی طلاق دو طلاقیں ہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لونڈی کے لیے دو ہی طلاق ہے اور اس کی عدت دو حیض ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مظاہر بن اسلم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور مظاہر بن اسلم کی اس کے علاوہ کوئی اور روایت میرے علم میں نہیں، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ١٧ (٢٣٤٠) (تحفة الأشراف : ١٨٥٥٥) (ضعیف) (سند میں مظاہر ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2080) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (452) ، ضعيف أبي داود (475 / 2189) ، المشکاة (3289) ، الإرواء (2066) ، ضعيف الجامع الصغير (3650) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1182
کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے دل میں طلاق دے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنے دل میں طلاق کا خیال کرلے تو کچھ نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ منہ سے نہ کہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٦ (٢٥٢٨) ، والطلاق ١١ (٥٢٦٥) ، والأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥٨ (٢٠١) ، سنن ابی داود/ الطلاق ١٥ (٢٢٠٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٢ (٣٤٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٤ (٢٠٤٠) ، مسند احمد ( ٢/٣٩٢، ٤٢٥، ٤٧٤، ٤٨١، ٤٩١) (تحفة الأشراف : ١٢٨٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور گزرنے والے وسوسے مواخذہ کے قابل گرفت نہیں ، مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا خیال آئے تو محض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2040) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1183
ہنسی اور مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں سنجیدگی سے کرنا بھی سنجیدگی ہے اور ہنسی مذاق میں کرنا بھی سنجیدگی ہے نکاح، طلاق اور رجعت ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٣- عبدالرحمٰن، حبیب بن اردک مدنی کے بیٹے ہیں اور ابن ماہک میرے نزدیک یوسف بن ماہک ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ٩ (٢١٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٣ (٢٠٣٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٨٥٤) (حسن) (آثار صحابہ سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ عبدالرحمن بن اردک ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : سنجیدگی اور ہنسی مذاق دونوں صورتوں میں ان کا اعتبار ہوگا۔ اور اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہنسی مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق جب وہ صراحت کے ساتھ لفظ طلاق کہہ کر طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے بطور کھلواڑ مذاق میں ایسا کہا تھا اس کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا کیونکہ اگر اس کی یہ بات مان لی جائے تو احکام شریعت معطل ہو کر رہ جائیں گے اور ہر طلاق دینے والا یا نکاح کرنے والا یہ کہہ کر کہ میں نے ہنسی مذاق میں یہ کہا تھا اپنا دامن بچا لے گا ، اس طرح اس سلسلے کے احکام معطل ہو کر رہ جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2039) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1184
خلع کے بارے میں
ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں خلع لیا تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا (یا انہیں حکم دیا گیا) کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ربیع کی حدیث کہ انہیں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٨٣٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2058) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1185
خلع لینے والی عورتیں
ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے، اس کی سند قوی نہیں ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے آپ نے فرمایا : جس عورت نے بلا کسی سبب کے اپنے شوہر سے خلع لیا، تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٠٩٢) (صحیح) (متابعت اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” لیث بن ابی سلیم “ ضعیف، اور ” ابو الخطاب “ مجہول ہیں، ملاحظہ : صحیحہ رقم : ٦٣٢) وضاحت : ١ ؎ : یہ بطور زجر و توبیخ کہا ہے یعنی یہ عورتیں ایسی ہیں جو جنت میں دخول اوّلی کی مستحق نہیں قرار پائیں گی کیونکہ بظاہر یہ اطاعت گزار ہیں لیکن باطن میں نافرمان ہیں۔ اور یہ ارشاد بغیر کسی معقول وجہ کے خلع لینے والی عورتوں کے بارے میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (633) ، المشکاة (3290 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1186
خلع لینے والی عورتیں
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے بغیر کسی بات کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور یہ «عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي أسماء عن ثوبان» کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے، ٣- بعض نے ایوب سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ١٨ (٢٢٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢١ (٢٠٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ٢١٠٣) ، مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨٣) ، سنن الدارمی/الطلاق ٦ (٢٣١٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2055) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1187
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت کی مثال پسلی کی ہے ١ ؎ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ دو گے اور اگر اسے یوں ہی چھوڑے رکھا تو ٹیڑھ کے باوجود تم اس سے لطف اندوز ہو گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے اور اس کی سند جید ہے، ٢- اس باب میں ابوذر، سمرہ، اور ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٨ (١٤٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٢٤٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/النکاح ٧٩ (٥١٨٤) ، صحیح مسلم/الرضاع (المصدر المذکور) ، مسند احمد (٢/٤٢٨، ٤٤٩، ٥٣٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٥ (٢٢٦٨) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی عورتوں کی خلقت ہی میں کچھ ایسی بات ہے ، لہٰذا جس فطرت پر وہ پیدا کی گئیں ہیں اس سے انہیں بدلا نہیں جاسکتا۔ اس لیے ان باتوں کا لحاظ کر کے ان کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہئیں تاکہ معاشرتی زندگی سکون اور آرام و چین کی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 72 - 73) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1188
None
میرے نکاح میں ایک عورت تھی، میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”عبداللہ بن عمر! تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے کہ جو اس کے برتن میں ہے اسے اپنے میں انڈیل لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام سلمہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣/٥٢) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، والبیوع ١٦ (٤٤٩٦) ، و ١٩ (٤٥٠٦) ، و ٢١ (٤٥١٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، والنکاح ٥٣ (٥١٥٢) ، و القدر ٤ (٦٦٠١) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، مسند احمد (٢/٢٧٤، ٣١١، ٣٩٤، ٤١٠، ٤٨٧، ٤٨٩، ٥٠٨، ٥١٦) من غیر ہذا الوجہ و بزیادة في السیاق۔ وانظر أیضا حدیث رقم ١١٣٤، وکذا مایأتي برقم : ١٢٢٢، و ١٣٠ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1891) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1190
پاگل کی طلاق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر طلاق واقع ہوتی ہے سوائے پاگل اور دیوانے کی طلاق کے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کو ہم صرف عطاء بن عجلان کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور عطاء بن عجلان ضعیف اور «ذاہب الحدیث» (حدیث بھول جانے والے) ہیں، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ ایسا دیوانہ ہو جس کی دیوانگی کبھی کبھی ٹھیک ہوجاتی ہو اور وہ افاقہ کی حالت میں طلاق دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٢٤٤) (ضعیف جدا) (سند میں عطاء بن عجلان متروک الحدیث راوی ہے، صحیح ابوہریرہ کے قول سے ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، والصحيح موقوف، الإرواء (2042) // ضعيف الجامع الصغير (4240) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1191
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتا دے دینا رجوع کرلینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی، اگرچہ اس نے سویا اس سے زائد بار اسے طلاق دی ہو، یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم ! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوجائے اور نہ تجھے کبھی پناہ ہی دوں گا۔ اس نے کہا : یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس نے کہا : میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہوگی تو رجعت کرلوں گا۔ اس عورت نے عائشہ (رض) کے پاس آ کر انہیں یہ بات بتائی تو عائشہ (رض) خاموش رہیں، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ آئے تو عائشہ (رض) نے آپ کو اس کی خبر دی۔ نبی اکرم ﷺ بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا «الطلاق مرتان فإمساک بمعروف أو تسريح بإحسان» طلاق (رجعی) دو ہیں، پھر یا تو معروف اور بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی سے رخصت کردینا ہے (البقرہ : ٢٢٩) ۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں : تو لوگوں نے طلاق کو آئندہ نئے سرے سے شمار کرنا شروع کیا، جس نے طلاق دے رکھی تھی اس نے بھی، اور جس نے نہیں دی تھی اس نے بھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٣٣٧) (ضعیف) (سند میں ” یعلی “ لین الحدیث ہیں) لیکن ابن عباس (رض) کی روایت سے اس کا معنی صحیح ہے (دیکھئے ارواء رقم : ٢٠٨٠) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (7 / 162) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1192 دوسری سند سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد ہشام سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے اور اس میں ابوکریب نے عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ یعلیٰ بن شبیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (یعنی : مرفوع ہونا زیادہ صحیح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٠٣٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (7 / 162) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1192
وہ حاملہ جو خاوند کی وفات کے بعد جنے
طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ سبیعہ نے اپنے شوہر کی موت کے تئیس یا پچیس دن بعد بچہ جنا، اور جب وہ نفاس سے پاک ہوگئی تو نکاح کے لیے زینت کرنے لگی، اس پر اعتراض کیا گیا، اور نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اگر وہ ایسا کرتی ہے (تو حرج کی بات نہیں) اس کی عدت پوری ہوچکی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٧ (٢٠٢٧) ، مسند احمد (٤/٣٠٥) (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٣) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ سند میں انقطاع ہے جسے مولف نے بیان کردیا ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2027) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1193
وہ حاملہ جو خاوند کی وفات کے بعد جنے
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن (رض) نے آپس میں اس حاملہ عورت کا ذکر کیا جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو اور اس نے شوہر کی وفات کے بعد بچہ جنا ہو، ابن عباس (رض) کا کہنا تھا کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہوگی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، اور ابوسلمہ کا کہنا تھا کہ جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کی عدت پوری ہوگئی، اس پر ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔ پھر ان لوگوں نے (ایک شخص کو) ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے) بھیجا، تو انہوں نے کہا : سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھر اس نے رسول اللہ ﷺ سے (شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے (دم نفاس ختم ہوتے ہی) شادی کرنے کی اجازت دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ٢ (٤٩٠٩) ، صحیح مسلم/الطلاق ٨ (١٤٨٥) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٤٢) ، ٣٥٤٤) ، مسند احمد (٦/٢٨٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ١١ (٢٣٢٥) (تحفة الأشراف : ١٨١٥٧ و ١٨٢٠٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الطلاق ٣٩ (٥٣١٨) ، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٣٩، ٣٥٤٠، ٣٥٤١، ٣٥٤٣، ٣٥٤٥، ٣٥٤٦، ٣٥٤٧) ، مسند احمد (٦/٣١٢، ٣١٩) من غیر ہذا الوجہ، ولہ أیضا طرق أخری بسیاق آخر، انظر حدیث رقم (٢٣٠٦) ، عند أبي داود و ٣٥٤٨) عند النسائي۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2113) ، صحيح أبي داود تحت الحديث (1196) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1194
جس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت
حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے انہیں یہ تینوں حدیثیں بتائیں (ان میں سے ایک یہ ہے) زینب کہتی ہیں : میں ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کے پاس آئی جس وقت ان کے والد ابوسفیان صخر بن حرب کا انتقال ہوا، تو انہوں نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یا کسی دوسری چیز کی زردی تھی، پھر انہوں نے اسے ایک لڑکی کو لگایا پھر اپنے دونوں رخساروں پر لگایا، پھر کہا : اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے اس پر وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٠ (١٢٨١) ، والطلاق ٤٦ (٥٣٣٤) ، و ٤٧ (٥٣٣٩) ، و ٥٠ (٥٣٤٥) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٨٦) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٤٣ (٢٢٩٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٥ (٣٥٣٠، ٣٥٣٢) و ٦٣ (٣٥٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٤ (٢٠٨٤) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠١) مسند احمد (٦/٣٢٥، ٣٢٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٢ (٢٣٣٠) (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1195
جس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت
(دوسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں : پھر میں زینب بنت جحش (رض) کے پاس آئی جس وقت ان کے بھائی کا انتقال ہوا تو انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے لگایا پھر کہا : اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے شوہر کے، وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٥٨٧٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1196
جس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت
(تیسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں : میں نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری بیٹی کا شوہر مرگیا ہے، اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اس کو سرمہ لگا دیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں ۔ دو یا تین مرتبہ اس عورت نے آپ سے پوچھا اور آپ نے ہر بار فرمایا : نہیں ، پھر آپ نے فرمایا : (اب تو اسلام میں) عدت چار ماہ دس دن ہے، حالانکہ جاہلیت میں تم میں سے (فوت شدہ شوہر والی بیوہ) عورت سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- زینب کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک، اور حفصہ بنت عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم کا اسی پر عمل ہے کہ جس عورت کا شوہر مرگیا ہو وہ اپنی عدت کے دوران خوشبو اور زینت سے پرہیز کرے گی۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٨٢٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سال بھرکے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کا شوہر جب انتقال کرجاتا تو وہ ایک معمولی جھونپڑی میں جا رہتی اور خراب سے خراب کپڑا پہن لیتی تھی اور سال پورا ہونے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی اور چیز کو ہاتھ لگاتی پھر کوئی جانور ، گدھا ، بکری ، یا پرندہ اس کے پاس لایا جاتا اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرمگاہ کو رگڑتی اور جس جانور سے وہ رگڑتی عام طور سے وہ مر ہی جاتا ، پھر وہ اس تنگ و تاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی اس طرح گویا وہ اپنی نحوست دور کرتی اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ استعمال کرنے اجازت ملتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1197
جس آدمی نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے صحبت کرلی۔
سلمہ بن صخر بیاضی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس ظہار ١ ؎ کرنے والے کے بارے میں جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے مجامعت کرلیتا ہے فرمایا : اس کے اوپر ایک ہی کفارہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، مالک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٣- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر بیٹھے تو اس پر دو کفارہ ہے۔ یہ عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ١٧ (٢٢١٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٥ (٢٠٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٥٥) ، مسند احمد (٥/٤٣٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ٩ (٢٣١٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ظہار کا مطلب بیوی سے «أنت علي کظہرامي» (تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے ) کہنا ہے ، زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا ، امت محمدیہ میں ایسا کہنے والے پر صرف کفارہ لازم آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو پے در پے بلا ناغہ دو مہینے کے روزے رکھے اگر درمیان میں بغیر عذر شرعی کے روزہ چھوڑ دیا تو نئے سرے سے پورے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے ، عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے ، اور اگر پے در پے دو مہینہ کے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2064) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1198
جس آدمی نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے صحبت کرلی۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا تھا اور پھر اس کے ساتھ جماع کرلیا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا ہے اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں نے اس سے جماع کرلیا تو کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اللہ تم پر رحم کرے کس چیز نے تجھ کو اس پر آمادہ کیا ؟ اس نے کہا : میں نے چاند کی روشنی میں اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے صبر نہ ہوسکا) آپ نے فرمایا : اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ اسے کر نہ لینا جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ١٧ (٢٢٢١، ٢٢٢٢) (مرسلا بدون ذکر ابن عباس و موصولا بذکرہ (برقم : ٢٢٢٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٣ (٣٤٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٦ (٢٠٦٥) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٣٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2065) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1199
کفارہ ظہار کے بارے میں
ابوسلمہ اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان کا بیان ہے کہ سلمان بن صخر انصاری (رض) نے جو بنی بیاضہ کے ایک فرد ہیں اپنی بیوی کو اپنے اوپر مکمل ماہ رمضان تک اپنی ماں کی پشت کی طرح (حرام) قرار دے لیا۔ تو جب آدھا رمضان گزر گیا تو ایک رات وہ اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھے، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم ایک غلام آزاد کرو ، انہوں نے کہا : مجھے یہ میسر نہیں۔ آپ نے فرمایا : پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو ، انہوں نے کہا : میں اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو آپ نے فرمایا : ساٹھ مسکین کو کھانا کھلاؤ، انہوں نے کہا : میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، تو آپ ﷺ نے فروۃ بن عمرو سے فرمایا : اسے یہ کھجوروں کا ٹوکرا دے دو تاکہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے ، «عرق» ایک پیمانہ ہے جس میں پندرہ صاع یا سولہ صاع غلہ آتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- سلمان بن صخر کو سلمہ بن صخر بیاضی بھی کہا جاتا ہے۔ ٣- ظہار کے کفارے کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١١٩٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2062) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1200
ایلاء عورت کے پاس نہ جانے کی قسم کھانا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایلاء ١ ؎ کیا اور (ان سے صحبت کرنا اپنے اوپر) حرام کرلیا۔ پھر آپ نے حرام کو حلال کرلیا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مسلمہ بن علقمہ کی حدیث کو جسے انہوں نے داود سے روایت کی ہے : علی بن مسہر وغیرہ نے بھی داود سے (روایت کی ہے مگر) داود نے شعبی سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایلاء کیا۔ اس میں مسروق اور عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں ہے، اور یہ مسلمہ بن علقمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس اور ابوموسیٰ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ایلاء یہ ہے کہ آدمی چار ماہ یا اس سے زیادہ دنوں تک اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھالے، ٣- جب چار ماہ گزر جائیں تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے کھڑا کیا جائے گا، یا تو رجوع کرلے یا طلاق دیدے۔ ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو ایک طلاق بائن خودبخود پڑجاتی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٨ (٢٠٨٢) (تحفة الأشراف : ٧٦٢١) (ضعیف) (سند میں مسلمہ بن علقمہ صدوق تو ہیں مگر ان کا حافظہ کبھی خطا کرجاتا تھا، ان کے بالمقابل ” علی بن مسہر “ زیادہ یاد داشت والے ہیں اور ان کی روایت میں ارسال “ ہے جسے مؤلف نے بیان کردیا ہے) وضاحت : ١ ؎ : ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں ، اور شرع میں ایلاء یہ ہے کہ شوہر جو جماع کی طاقت رکھتا ہو اللہ کے نام کی یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے جدا رکھے گا ، اور اس سے جماع نہیں کرے گا ، اس تعریف کی روشنی سے نبی اکرم ﷺ کا یہ ایلاء لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا ، اور اس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا ، ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ لے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہوگا اور کفارہ یمین دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے ، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (2574) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1201
لعان
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ١ ؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کردی جائے ؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں ؟ چناچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر (رض) کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا : ابن جبیر ! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہوگی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں : میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی ؟ کہا : سبحان اللہ ! ہاں، سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو برائی کرتے دیکھے تو کیا کرے ؟ اگر کچھ کہتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے، اور اگر خاموش رہتا ہے تو وہ سنگین معاملہ پر خاموش رہتا ہے۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ خاموش رہے اور آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب کچھ دن گزرے تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس (دوبارہ ) آیا اور اس نے عرض کیا : میں نے آپ سے جو مسئلہ پوچھا تھا میں اس میں خود مبتلا کردیا گیا ہوں۔ تب اللہ تعالیٰ نے سورة النور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» یعنی جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت زنا لگاتے ہیں اور ان کے پاس خود اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہیں (سورۃ النور : 6) ۔ یہاں تک کہ یہ آیتیں ختم کیں، پھر آپ نے اس آدمی کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں، اور اسے نصیحت کی اور اس کی تذکیر کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس نے کہا : نہیں، اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے اس پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے۔ پھر آپ نے وہ آیتیں عورت کے سامنے دہرائیں، اس کو نصیحت کی، اور اس کی تذکیر کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا : نہیں، اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، وہ سچ نہیں بول رہا ہے۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں : آپ نے مرد سے ابتداء کی، اس نے اللہ کا نام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ گواہی دی کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوبارہ آپ نے عورت سے یہی باتیں کہلوائیں، اس نے اللہ کا نام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، اور پانچویں مرتبہ اس نے گواہی دی کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں میں تفریق کردی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سہل بن سعد، ابن عباس، ابن مسعود اور حذیفہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٤١ (٣٥٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٥٨) ، مسند احمد (٢/١٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٩ (٢٢٧٥) (صحیح) وأحرجہ کل من : صحیح البخاری/الطلاق ٢٧ (٥٣٠٦) ، و ٣٢ (٥٣١١) ، و ٣٣ (٥٣١٢) ، و ٣٤ (٥٣١٣، ٥٣١٤) ، و ٣٥ (٥٣١٥) ، و ٥٢ (٥٣٤٩) ، و ٥٣ (٥٣٥٠) ، والفرائض ١٧ (٦٧٤٨) ، صحیح مسلم/اللعان (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٢٧ (٢٢٥٧، ٢٢٥٨، ٢٢٥٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٢ (٣٥٠٤) ، و ٤٣ (٣٥٠٥) ، و ٤٣ (٣٥٠٥) ، و ٤٤ (٣٥٠٦) ، و ٤٥ (٣٥٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٧ (٢٠٦٦) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٣ (٣٥) ، من غیر ہذا الوجہ۔ وبسیاق آخر، انظر الحدیث الآتي۔ وضاحت : ١ ؎ : لعان کا حکم آیت کریمہ «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» (النور : ٦) ، میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجاز کے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دے کہ میں سچا ہوں اور پانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو ، اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو ، ایسا کہنے سے شوہر حد قذف ( زنا کی تہمت لگانے پر عائد سزا ) سے بچ جائے گا اور بیوی زنا کی سزا سے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1955) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1202
لعان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، تو نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی اور لڑکے کو ماں کے ساتھ کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٨٣٢٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2069) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1203
شوہر فوت ہوجائے تو عورت عدت کہاں گزارے
زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان (رض) جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں (ہوا یہ تھا کہ) ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پر ان سے ملے، تو ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا۔ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں ؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کا نہ تو کوئی مکان چھوڑا ہے اور نہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، چناچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی۔ (یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے) پھر آپ نے پوچھا : تم نے کیسے کہا ؟ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں ذکر کیا تھا، آپ نے فرمایا : تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہوجائے ، چناچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان (رض) خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا۔ چناچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔