14. خرید وفروخت کا بیان
شبہات کو ترک کرنا
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ١ ؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑگیا یعنی انہیں اختیار کرلیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہوجائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہوجائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٩ (٥٢) ، والبیوع ٢ (٢٠٥١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٠ (البیوع ٤٠) ، (١٥٩٩) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣ (٣٣٢٩) ، سنن النسائی/البیوع ٢ (٤٤٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٤ (٢٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٤) ، مسند احمد (٤/٢٦٧، ٢٦٩، ٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٥) ، سنن الدارمی/البیوع ١ (٢٥٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مراد ایسے امور و معاملات ہیں جن کی حلت و حرمت سے اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں ، تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریز کرے ، اور جو شخص حلت و حرمت کی پرواہ کئے بغیر ان میں ملوث ہوگیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلا ہوگیا ، اس میں تجارت اور کاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیار کریں جو واضح طور پر حلال ہوں اور مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3984) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1205
None
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب ( اپنا جانور ) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں“۔ دوسری سند سے مؤلف نے شعبی سے اور انہوں نے نے نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے اسی طرح کی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے کئی رواۃ نے شعبی سے اور شعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔
سود کھانا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبداللہ بن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، علی، جابر اور ابوجحیفہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٤ (٣٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٨ (٢٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٦) ، مسند احمد (١/٣٩٩٣، ٤٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے سود کی حرمت سے شدت ظاہر ہوتی ہے کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ گواہوں اور معاہدہ لکھنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے ، حالانکہ مؤخرالذ کر دونوں حضرات کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ، لیکن صرف یک گو نہ تعاون کی وجہ سے ہی ان کو بھی ملعون قرار دے دیا گیا ، گویا سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اور غضب الٰہی کا باعث ہے کیونکہ سود کی بنیاد خود غرضی ، دوسروں کے استحصال اور ظلم پر قائم ہوتی ہے اور اسلام ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد بھائی چارہ ، اخوت ہمدردی ، ایثار اور قربانی پر ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1206
جھوٹ اور جھوٹی گواہی دینے کی مذمت
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کبیرہ گناہوں ١ ؎ سے متعلق فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا (کبائر میں سے ہیں ٢ ؎ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکرہ، ایمن بن خریم اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ١٠ (٢٦٥٣) ، والأدب ٦ (٦٨٧١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٨ (٨٨) ، سنن النسائی/المحاربہ (تحریم الدم) ٣ (٤٠١٥) ، والقسامة ٤٨ (٤٨٧١) ، (التحفہ : ١٠٧٧) مسند احمد ٣/١٣١، ١٣٤) والمؤلف في تفسیر النساء (٣٠١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے ارتکاب پر قرآن کریم یا حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہو۔ ٢ ؎ : کبیرہ گناہ اور بھی بہت سارے ہیں یہاں موقع کی مناسبت سے چند ایک کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ، یا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ چند مذکورہ گناہ کبیرہ گناہوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ یہاں مولف کے اس حدیث کو کتاب البیوع میں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خرید و فروخت میں بھی جھوٹ کی وہی قباحت ہے جو عام معاملات میں ہے ، مومن تاجر کو اس سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1207
اس بارے میں کہ تاجروں کو نبی کریم ﷺ کا تجار کا خطاب دینا
قیس بن ابی غرزہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم (اس وقت) «سماسرہ» ١ ؎ (دلال) کہلاتے تھے، آپ نے فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! خرید و فروخت کے وقت شیطان اور گناہ سے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے، لہٰذا تم اپنی خرید فروخت کو صدقہ کے ساتھ ملا لیا کرو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - قیس بن ابی غرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے منصور نے بسند «الأعمش وحبيب بن أبي ثابت» ، اور دیگر کئی لوگوں نے بسند «أبي وائل عن قيس بن أبي غرزة» سے روایت کیا ہے۔ ہم اس کے علاوہ قیس کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، ٣ - ٤ - اس باب میں براء بن عازب اور رفاعہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ١ (٣٣٢٦) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٢٢ (٣٨٣١) ، والبیوع ٧ (٤٤٧٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣ (٣١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٣) ، مسند احمد (٤/٦، ٢٨٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «سماسرہ» ، «سمسار» کی جمع ہے ، یہ عجمی لفظ ہے ، چونکہ عرب میں اس وقت عجم زیادہ تجارت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہی لفظ رائج تھا ، نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے «تجار» کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے ، «سمسار» اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع (بیچنے والے) اور مشتری (خریدار) کے درمیان دلالی کرتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کرلیا کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2145) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1208
اس بارے میں کہ تاجروں کو نبی کریم ﷺ کا تجار کا خطاب دینا
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے بروایت ثوری صرف اسی سند سے جانتے ہیں انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے، ٢ - اور ابوحمزہ کا نام عبداللہ بن جابر ہے اور وہ بصرہ کے شیخ ہیں - تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٩٩٤) (صحیح) (ابن ماجہ (٢١٣٩) اور مستدرک الحاکم (٢١٤٢) میں یہ حدیث ابن عمر سے آئی ہے جس میں نبيين اور صديقين کا ذکر نہیں ہے، اور اس میں ایک راوی کلثوم بن جو شن ہیں، جس کے بارے میں حاکم کہتے ہیں کہ وہ قلیل الحدیث ہیں، اور بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں کی ہے، اور اور حسن بصری کی مرسل روایت اس حدیث کی شاہد ہے، ابو حاتم الرازی نے ان کو ضعیف الحدیث کہا ہے، اور ابن معین نے لیس بہ بأس، اور امام بخاری نے توثیق کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن ان کی حدیث سے ابو سعید خدری کی حدیث جس میں حسن بصری ہیں، کو تقویت مل گئی، اسی وجہ سے البانی صاحب نے ابو سعید خدری کی حدیث کو صحیح لغیرہ کہا، اور ابن عمر کی حدیث کو حسن صحیح، نیز ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب والترہیب ١٧٨٢، وتراجع الألبانی ٥٢٥ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف غاية المرام (167) ، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2501) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1209
اس بارے میں کہ تاجروں کو نبی کریم ﷺ کا تجار کا خطاب دینا
رفاعہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ عید گاہ کی طرف نکلے، آپ نے لوگوں کو خرید و فروخت کرتے دیکھا تو فرمایا : اے تاجروں کی جماعت ! تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی بات سننے لگے اور انہوں نے آپ کی طرف اپنی گردنیں اور نگاہیں اونچی کرلیں، آپ نے فرمایا : تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو اللہ سے ڈرے نیک کام کرے اور سچ بولے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسماعیل بن عبید بن رفاعہ کو اسماعیل بن عبیداللہ بن رفاعہ بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٣ (٢١٤٦) (ضعیف) (اس کے راوی ” اسماعیل بن عبید بن رفاعہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2146) // ضعيف سنن ابن ماجة (467) ، المشکاة (2799) ، غاية المرام (138) ، ضعيف الجامع الصغير (6405) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1210
سود پر جھوٹی قسم کھانا
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ، ہم نے پوچھا : اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہیں ؟ یہ تو نقصان اور گھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا : احسان جتانے والا، اپنے تہبند (ٹخنے سے نیچے) لٹکانے والا ١ ؎ اور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنے سامان کو رواج دینے والا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوذر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، ابوامامہ بن ثعلبہ، عمران بن حصین اور معقل بن یسار (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٦) ، سنن ابی داود/ اللباس ٢٨ (٤٠٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٩ (٤٦٥٢) ، والبیوع ٥ (٤٤٦٤) ، والزینة ١٠٤ (٥٣٣٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٠ (٢٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٩) ، مسند احمد (٤/١٤٨، ١٥٨، ١٦٢، ١٦٨، ١٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکانا ، حرام ہے ، تہبند ہی کے حکم میں شلوار یا پاجامہ اور پتلون وغیرہ بھی ہے ، واضح رہے کہ یہ حکم مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے اس کے برعکس ٹخنے بلکہ پیر تک بھی ڈھکنے ضروری ہیں۔ ٢ ؎ : جھوٹی قسم کھانا مطلقاً حرام ہے لیکن سودا بیچنے کے لیے گاہک کو دھوکہ دینے کی نیت سے جھوٹی قسم کھانا اور زیادہ بڑا جرم ہے ، اس میں دو جرم اکٹھے ہوجاتے ہیں : ایک تو جھوٹی قسم کھانے کا جرم دوسرے دھوکہ دہی کا جرم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2208) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1211
صبح سویرے تجارت
صخر غامدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے ١ ؎ صخر کہتے ہیں کہ آپ جب کسی سریہ یا لشکر کو روانہ کرتے تو اسے دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔ اور صخر ایک تاجر آدمی تھے۔ جب وہ تجارت کا سامان لے کر (اپنے آدمیوں کو) روانہ کرتے تو انہیں دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔ تو وہ مالدار ہوگئے اور ان کی دولت بڑھ گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - صخر غامدی کی حدیث حسن ہے۔ ہم اس حدیث کے علاوہ صخر غامدی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، ٢ - اس باب میں علی، ابن مسعود، بریدہ، انس، ابن عمر، ابن عباس، اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٨٥ (٢٦٠٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤١ (٢٦٣٦) (تحفة الأشراف : ٤٨٥٢) ، مسند احمد (٣/٤١٦، ٤١٧، ٤٣٢) ، و (٤/٣٨٤، ٣٩٠، ٣٩١) ، سنن الدارمی/السیر ١ (٢٤٧٩) (صحیح) دون قولہ ” وکان إذا بعث سریة أو جیش، بعثہم أول النہار “ فإنہ ضعیف) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” عمارہ بن جدید “ مجہول ہں ٢، اور ان کے مذکورہ ” ضعیف “ جملے کا کوئی متابع وشاہد نہیں ہے، تراجع الالبانی ٢٧٧، وصحیح ابی داود ط ۔ غر اس ٢٣٤٥ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفر تجارت ہو یا اور کوئی کام ہو ان کا آغاز دن کے پہلے پہر سے کرنا زیادہ مفید اور بابرکت ہے ، اس وقت انسان تازہ دم ہوتا ہے اور قوت عمل وافر ہوتی ہے جو ترقی اور برکت کا باعث بنتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2236) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1212
کسی چیز کی قیمت معینہ مدت تک ادھار کرنا جائز ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہوجاتے، شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تو میں نے عرض کیا : کاش ! آپ اس کے پاس کسی کو بھیجتے اور اس سے دو کپڑے اس وعدے پر خرید لیتے کہ جب گنجائش ہوگی تو قیمت دے دیں گے، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا، تو اس نے کہا : جو وہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراہم ہڑپ کرلیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ جھوٹا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور امانت کو سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ (رض) کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - اسے شعبہ نے بھی عمارہ بن ابی حفصہ سے روایت کیا ہے، ٣ - ابوداؤد طیالسی کہتے ہیں : ایک دن شعبہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : میں تم سے اس وقت اسے نہیں بیان کرسکتا جب تک کہ تم کھڑے ہو کر حرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا سر نہیں چومتے اور حرمی (وہاں) لوگوں میں موجود تھے، انہوں نے اس حدیث سے حد درجہ خوش ہوتے ہوئے یہ بات کہی، ٤ - اس باب میں ابن عباس، انس اور اسماء بنت یزید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٧٠ (٤٦٣٢) ، مسند احمد (٦/١٤٧) (تحفة الأشراف : ١٧٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھار سودا کرنا درست ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا ، اسی سے باب پر استدلال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1213
کسی چیز کی قیمت معینہ مدت تک ادھار کرنا جائز ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ بیس صاع غلے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے لیا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٨٣ (٤٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٢٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٤ (٢٦٢٤) ، مسند احمد (١/٢٣٦، ٣٦١) ، وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/الرہون ١ (٢٤٣٩) ، مسند احمد (١/٣٠٠) من غیر ہذا الوجہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2239) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1214
کسی چیز کی قیمت معینہ مدت تک ادھار کرنا جائز ہے۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس جو کی روٹی اور پگھلی ہوئی چربی جس میں کچھ تبدیلی آچکی تھی لے کر چلا، آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع غلے کے عوض جسے آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے لے رکھا تھا گروی رکھی ہوئی تھی ١ ؎ قتادہ کہتے ہیں میں نے ایک دن انس (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ محمد ﷺ کے گھر والوں کے پاس ایک صاع کھجور یا ایک صاع غلہ شام کو نہیں ہوتا تھا جب کہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٤ (٢٠٦٩) ، والرہون ١ (٢٥٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١ (الأحکام ٦٢) ، (٢٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سے ادھار وغیرہ کا معاملہ کرنا جائز ہے ، نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام میں سے کسی سے ادھار لینے کے بجائے ایک یہودی سے اس لیے ادھار لیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اہل کتاب سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے ، یا اس لیے کہ صحابہ کرام آپ سے کوئی معاوضہ یا رقم واپس لینا پسند نہ فرماتے جبکہ آپ کی طبع غیور کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2437) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1215
بیع کی شرائط لکھنا
عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ھوذہ نے کہا : کیا میں تمہیں ایک تحریر نہ پڑھاؤں جو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے لکھی تھی ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور پڑھائیے، پھر انہوں نے ایک تحریر نکالی، (جس میں لکھا تھا) یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے محمد ﷺ سے خریدی ہے ، انہوں نے آپ سے غلام یا لونڈی کی خریداری اس شرط کے ساتھ کی کہ اس میں نہ کوئی بیماری ہو، نہ وہ بھگیوڑو ہو اور نہ حرام مال کا ہو، یہ مسلمان کی مسلمان سے بیع ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عباد بن لیث کی روایت سے جانتے ہیں۔ ان سے یہ حدیث محدثین میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٩ (تعلیقاً فی الترجمة) سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٧ (٢٢٥١) (تحفة الأشراف : ٩٨٤٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں تحریروں کا رواج عام تھا اور مختلف موضوعات پر احادیث لکھی جاتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2251) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1216
ناپ تول
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ناپ تول والوں سے فرمایا : تمہارے دو ایسے کام ١ ؎ کیے گئے ہیں جس میں تم سے پہلے کی امتیں ہلاک ہوگئیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف بروایت حسین بن قیس مرفوع جانتے ہیں، اور حسین بن قیس حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ نیز یہ صحیح سند سے ابن عباس سے موقوفاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٠٢٦) (ضعیف) (سند میں ” حسین بن قیس “ متروک الحدیث راوی ہے، لیکن موقوفا یعنی ابن عباس کے قول سے ثابت ہے جیسا کہ مرفوع روایت کی تضعیف کے بعد امام ترمذی نے خود واضح فرمایا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ناپ اور تول۔ اس حدیث کے آغاز میں امام ترمذی نے اپنے استاذ سعید بن یعقوب طالقانی سے اس روایت کی سند کا جو آغاز کیا ہے تو … یہ طالقان موجود افغانستان کے شمال میں واقع ہے ، اور آج بھی وہاں سلفی اہل حدیث لوگ بحمدللہ موجود ہیں اور اپنے اسلاف کے ورثہ حدیث کو تھامے ہوئے ہیں۔ ٢ ؎ : مثلاً شعیب (علیہ السلام) کی قوم جو لینا ہوتا تو پورا پورا لیتی تھی اور دینا ہوتا تو کم دیتی تھی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف - والصحيح موقوف -، المشکاة (2890 / التحقيق الثاني) ، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2040) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1217
نیلام کے ذریعے خرید و فروخت کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ٹاٹ جو کجاوہ کے نیچے بچھایا جاتا ہے اور ایک پیالہ بیچا، آپ نے فرمایا : یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدے گا ؟ ایک آدمی نے عرض کیا : میں انہیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ تو ایک آدمی نے آپ کو دو درہم دیا، تو آپ نے اسی کے ہاتھ سے یہ دونوں چیزیں بیچ دیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے صرف اخضر بن عجلان کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اور عبداللہ حنفی ہی جنہوں نے انس سے روایت کی ہے ابوبکر حنفی ہیں ١ ؎، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ غنیمت اور میراث کے سامان کو زیادہ قیمت دینے والے سے بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، ٤ - یہ حدیث معتمر بن سلیمان اور دوسرے کئی بڑے لوگوں نے بھی اخضر بن عجلان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢٦ (١٦٤١) ، سنن النسائی/البیوع ٢٢ (٤٥١٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٥ (٢١٩٨) ، مسند احمد (٣/١٠٠) (صحیح) (اس کے راوی ” ابوبکر عبد اللہ حنفی “ مجہول ہیں، لیکن طرق وشواہد کی وجہ سے حدیث صحیح لغیرہ ہے، صحیح الترغیب ٨٣٤، وتراجع الألبانی ١٧٨٠) واضح رہے کہ ابن ماجہ کی تحقیق میں حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔ وضاحت : ١ ؎ : حنفی سے مراد ہے بنو حنیفہ کے ایک فرد ، نہ کہ حنفی المذہب۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2198) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (478) ، الإرواء (1289) ، المشکاة (2873) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1218
مدبر کی بیع
جابر (رض) سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے ١ ؎ اپنے غلام کو مدبر ٢ ؎ بنادیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو) ، پھر وہ مرگیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بیچ دیا ٣ ؎ اور نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خریدا۔ جابر کہتے ہیں : وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر (رض) کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ جابر بن عبداللہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔ ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ مدبر غلام کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤ - اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے مدبر کی بیع کو مکروہ جانا ہے۔ یہ سفیان ثوری، مالک اور اوزاعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ١١٠ (٢٢٣١) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ١٣ (٩٩٧) ، سنن ابن ماجہ/العتق ١ (الأحکام ٩٤) ، (٢٥١٣) (تحفة الأشراف : ٢٥٢٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/کفارات الأیمان ٧ (٦٧١٦) ، والا کراہ ٤ (٦٩٤٧) ، صحیح مسلم/الأیمان (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ ۔ وضاحت : ١ ؎ اس شخص کا نام ابومذکور انصاری تھا اور غلام کا نام یعقوب۔ ٢ ؎ : مدبر وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔ ٣ ؎ : بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچا تاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدبر غلام کو ضرورت کے وقت بیچنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1288) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1219
بیچنے والے کے استقبال کی ممانعت
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں علی، ابن عباس، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، ابن عمر، اور ایک اور صحابی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٤٩) ، و ٧١ (٢١٦٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٦ (٢١٨٠) ، مسند احمد (١/٤٣٠) (تحفة الأشراف : ٩٣٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2180) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1220
بیچنے والے کے استقبال کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا : اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے (چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ایوب کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے مل کر مال خریدنے کو ناجائز کہا ہے یہ دھوکے کی ایک قسم ہے ہمارے اصحاب میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٤٥ (٣٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٩) ، سنن النسائی/البیوع ١٨ (٤٥٠٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٦ (٢١٧٩) ، مسند احمد (٢/٢٨٤، ٤٠٣، ٤٨٨) من غیر ہذا الوجہ ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہر کی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جا ملے تاکہ بھاؤ کے متعلق بیان کر کے اس سے سامان سستے داموں خرید لے ، ایسا کرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے ، چونکہ بیچنے والے کو ابھی بازار کی قیمت کا علم نہیں ہو پایا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہوسکتا ہے ، اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2178) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1221
کوئی شہری گاؤں والے کی چیز فروخت نہ کرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ١ ؎ (بلکہ دیہاتی کو خود بیچنے دے ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں طلحہ، جابر، انس، ابن عباس، ابویزید کثیر بن عبداللہ کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور ایک اور صحابی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، والبیوع ٦ (١٥٢٠) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٥ (٢١٧٥) (تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٥٠) ، و ٧٠ (٢١٦٠) ، و ٧١ (٢١٦٢) ، والشروط ٨ (٢٧٢٣) ، و ١١ (٢٧٢٧) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٤٩٦) ، و ١٩ (٤٥٠٦) ، و ٢١ (٤٥١٠) ، مسند احمد (٢/٢٧٤، ٣٩٤، ٤٨٧) من غیر ہذا الوجہ (وانظر أیضا حدیث رقم ١١٣٤ و ١١٩٠) و ١٢٢٢، و ١٣٠٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا دلال نہ بنے ، کیونکہ ایسا کرنے میں بستی والوں کا خسارہ ہے ، اگر باہر سے آنے والا خود بیچتا ہے تو وہ مسافر ہونے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت میں اسے بیچ کر اپنے گھر چلا جائے گا اس سے خریداروں کو فائدہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2175) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1222
کوئی شہری گاؤں والے کی چیز فروخت نہ کرے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شہری کسی گاؤں والے کا سامان نہ فروخت کرے، تم لوگوں کو (ان کا سامان خود بیچنے کے لیے) چھوڑ دو ۔ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ٢ - اس باب میں جابر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ ٣ - صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا سامان بیچے، ٤ - اور بعض لوگوں نے رخصت دی ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان خرید سکتا ہے۔ ٥ - شافعی کہتے ہیں کہ شہری کا دیہاتی کے سامان کو بیچنا مکروہ ہے اور اگر وہ بیچ دے تو بیع جائز ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٥ (٢١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٦٤) ، مسند احمد (٣/٣٠٧) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ البیوع ٤٧ (٢٤٤٢) ، سنن النسائی/البیوع ١٧ (٤٥٠٠) ، مسند احمد ٣/٣١٢، ٣٨٦، ٣٩٢) من غیر ہذا الوجہ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2176) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1223
محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، زید بن ثابت، سعد، جابر، رافع بن خدیج اور ابوسعید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بالیوں میں کھڑی کھیتی کو گیہوں سے بیچنے کو محاقلہ کہتے ہیں، اور درخت پر لگے ہوئی کھجور توڑی گئی کھجور سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں، ٤ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ محاقلہ اور مزابنہ کو مکروہ سمجھتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٦٨) ، مسند احمد (٢/٤١٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩١٥) ، مسند احمد (٢/٣٩٢، ٤٨٤) من غیر ہذا الوجہ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع، الإرواء (2354) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1224
محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت
عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ابوعیاش زید نے سعد (رض) سے گیہوں کو چھلکا اتارے ہوئے جو سے بیچنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے پوچھا : ان دونوں میں کون افضل ہے ؟ انہوں نے کہا : گیہوں، تو انہوں نے اس سے منع فرمایا۔ اور سعد (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ سے تر کھجور سے خشک کھجور خریدنے کا مسئلہ پوچھا جا رہا تھا۔ تو آپ نے قریب بیٹھے لوگوں سے پوچھا : کیا تر کھجور خشک ہونے پر کم ہوجائے گا ؟ ١ ؎ لوگوں نے کہا ہاں (کم ہوجائے گا) ، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ مؤلف نے بسند «وكيع عن مالک» اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی شافعی اور ہمارے اصحاب کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ١٨ (٣٣٥٩) ، سنن النسائی/البیوع ٣٦ (٤٥٤٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٥ (٢٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٤) ، موطا امام مالک/البیوع ١٢ (٢٢) ، مسند احمد (١/١١٥، ١٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کے علم و تجربہ میں اگر کوئی بات پہلے سے نہ ہو تو فتوی دینے سے پہلے وہ مسئلہ کے بارے میں تحقیق کرلے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2264) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1225
پھل پکنے شروع ہونے سے پہلے بیچنا صحیح نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کھجور کے درخت کی بیع سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہوجائے (پختگی کو پہنچ جائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٥) ، سنن ابی داود/ البیوع ٢٣ (٣٣٦٨) ، سنن النسائی/البیوع ٤٠ (٤٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٥) ، مسند احمد (٢/٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الزکاة ٥٨ (١٤٨٦) ، والبیوع ٨٢ (٢١٨٣) ، و ٨٥ (٢١٩٤) ، و ٨٧ (٢١٩٩) ، والسلم ٤ (٢٢٤٧ و ٢٢٤٩) ، صحیح مسلم/البیوع ١٣ (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ البیوع ٢٣ (٣٣٦٧) ، سنن النسائی/البیوع ٢٨ (٤٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٢ (٢٢١٤) ، موطا امام مالک/البیوع ٨ (١٠) ، مسند احمد (٢/٧، ٤٦، ٥٦، ٦١، ٨٠، ١٢٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٢١ (٢٥٩٧) من غیر ہذا الوجہ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1226
پھل پکنے شروع ہونے سے پہلے بیچنا صحیح نہیں
اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (گیہوں اور جو وغیرہ کے) خوشے بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ پختہ ہوجائیں اور آفت سے مامون ہوجائیں، آپ نے بائع اور مشتری دونوں کو منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس، عائشہ، ابوہریرہ، ابن عباس، جابر، ابو سعید خدری اور زید بن ثابت (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ پھل کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے اس کے بیچنے کو مکروہ سمجھتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1227
پھل پکنے شروع ہونے سے پہلے بیچنا صحیح نہیں
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگور کو بیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ (پختہ) ہوجائے۔ اور دانے (غلے) کو بیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سخت ہوجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف بروایت حماد بن سلمہ ہی مرفوع جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٢٣ (٣٣٧١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٢ (٢٢١٧) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣) (صحیح) وأخرجہ : مسند احمد (٣/١١٥) ، من غیر ہذا الوجہ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح حه (2217) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1228
حاملہ کا حمل بیچنے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعبہ نے اس حدیث کو بطریق : «عن أيوب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس» روایت کیا ہے۔ اور عبدالوھاب ثقفی وغیرہ نے بطریق : «عن أيوب عن سعيد بن جبير ونافع عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ زیادہ صحیح ہے، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ «حبل الحبلة» (حمل کے حمل) سے مراد اونٹنی کے بچے کا بچہ ہے۔ اہل علم کے نزدیک یہ بیع منسوخ ہے اور یہ دھوکہ کی بیع میں سے ایک بیع ہے، ٤ - اس باب میں عبداللہ بن عباس اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ٧٥٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حمل کے حمل کو بیچنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ میں تم سے اس حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے اندر جو مادہ بچہ ہے اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے پیٹ سے جو بچہ ہوگا اس کو اتنے میں بیچتا ہوں ، تو یہ بیع جائز نہ ہوگی کیونکہ یہ معدوم اور مجہول کی بیع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2197) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1229
دھوکے کی بیع حرام ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع غرر ١ ؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، ابوسعید اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ بیع غرر کو مکروہ سمجھتے ہیں، ٤ - شافعی کہتے ہیں : مچھلی کی بیع جو پانی میں ہو، بھاگے ہوئے غلام کی بیع، آسمان میں اڑتے پرندوں کی بیع اور اسی طرح کی دوسری بیع، بیع غرر کی قبیل سے ہیں، ٥ - اور بیع حصاۃ سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کنکری پھینک دوں تو میرے اور تیرے درمیان میں بیع واجب ہوگئی۔ یہ بیع منابذہ کے مشابہ ہے۔ اور یہ جاہلیت کی بیع کی قسموں میں سے ایک قسم تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٢ (١٥١٣) ، سنن ابی داود/ البیوع ٢٥ (٣٣٧٦) ، سنن النسائی/البیوع ٢٧ (٤٥٢٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٣ (٢١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٤) ، مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦، ٤٣٩، ٤٩٦) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (٢/٣٧٦) من غیر ہذا الوجہ ۔ وضاحت : ١ ؎ : بیع غرر : معدوم و مجہول کی بیع ہے ، یا ایسی چیز کی بیع ہے جسے مشتری کے حوالہ کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2194) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1230
ایک بیع میں دو بیع کرنا منع ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤ - بعض اہل علم نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یوں کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع یہ ہے کہ مثلاً کہے : میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو، (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جدا ہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہوگئی ہو، ٥ - شافعی کہتے ہیں : ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے : میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو ۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہوجائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہوجائے گا، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ٢ ؎ اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٠٥٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن النسائی/البیوع ٧٣ (٤٦٣٦) ، موطا امام مالک/البیوع ٣٣ (٧٢) (بلاغا) مسند احمد (٢/٤٣٢، ٤٧٥، ٥٠٣) من غیر ہذا الوجہ ۔ وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی نے دو قول ذکر کئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیر بھی ذکر کی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینار کے عوض گیہوں خرید لے اور جب ایک ماہ گزر جائے تو جا کر اس سے گیہوں کا مطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دو مہینے کے وعدے پر دو بوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہوئی۔ ٢ ؎ : اور یہی جہالت بیع کے جائز نہ ہونے کی وجہ ہے گو ظاہر میں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2868) ، الإرواء (5 / 149) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1231
جو چیز بیچنے والے کے پاس نہ ہو اس کو بیچنا منع ہے
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کو بیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں ؟ آپ نے فرمایا : جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ حکم ١٢٣٤ میں آ رہا ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٧٠ (٣٥٠٣) ، سنن النسائی/البیوع ٦٠ (٤٦١٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٠ (٢١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٣٦) ، مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2187) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1232
جو چیز بیچنے والے کے پاس نہ ہو اس کو بیچنا منع ہے
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس چیز کے بیچنے سے منع فرمایا جو میرے پاس نہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اسحاق بن منصور کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا : بیع کے ساتھ قرض سے منع فرمانے کا کیا مفہوم ہے ؟ انہوں نے کہا : اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی کو قرض دے پھر اس سے بیع کرے اور سامان کی قیمت زیادہ لے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی کسی سے کسی چیز میں سلف کرے اور کہے : اگر تیرے پاس روپیہ فراہم نہیں ہوسکا تو تجھے یہ سامان میرے ہاتھ بیچ دینا ہوگا۔ اسحاق (ابن راھویہ) نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے، ٣ - اسحاق بن منصور نے کہا : میں نے احمد سے ایسی چیز کی بیع کے بارے میں پوچھا جس کا بائع ضامن نہیں تو انہوں نے جواب دیا، (یہ ممانعت) میرے نزدیک صرف طعام کی بیع کے ساتھ ہے جب تک قبضہ نہ ہو یعنی ضمان سے قبضہ مراد ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے لیکن یہ ممانعت ہر اس چیز میں ہے جو ناپی یا تولی جاتی ہو۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں : جب بائع یہ کہے : میں آپ سے یہ کپڑا اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہے۔ تو بیع کی یہ شکل ایک بیع میں دو شرط کے قبیل سے ہے۔ اور جب بائع یہ کہے : میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی سلائی میرے ذمہ ہے۔ یا بائع یہ کہے : میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی دھلائی میرے ذمہ ہے، تو اس بیع میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ ایک ہی شرط ہے۔ اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1233
جو چیز بیچنے والے کے پاس نہ ہو اس کو بیچنا منع ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیع کے ساتھ قرض جائز نہیں ہے ١ ؎، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں جائز ہیں ٢ ؎ اور نہ ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جس کا وہ ضامن نہ ہو ٣ ؎ اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تمہارے پاس نہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - حکیم بن حزام کی حدیث حسن ہے ( ١٢٣٢ ، ١٢٣٣ ) ، یہ ان سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔ اور ایوب سختیانی اور ابوبشر نے اسے یوسف بن ماہک سے اور یوسف نے حکیم بن حزام سے روایت کیا ہے۔ اور عوف اور ہشام بن حسان نے اس حدیث کو ابن سیرین سے اور ابن سیرین نے حکیم بن حزام سے اور حکیم بن حزام نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث (روایت) مرسل (منقطع) ہے۔ اسے (اصلاً ) ابن سیرین نے ایوب سختیانی سے اور ایوب نے یوسف بن ماہک سے اور یوسف بن ماہک نے حکیم بن حزام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٧٠ (٣٥٠٤) ، سنن النسائی/البیوع ٦٠ (٤٦١٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٠ (٢١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٦٤) ، مسند احمد (٢/١٧٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ فروخت کنندہ ، بائع کہے کہ میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ دس روپے میں فروخت کرتا ہوں بشرطیکہ مجھے دس روپے قرض دے دو یا یوں کہے کہ میں تمہیں دس روپے قرض دیتا ہوں بشرطیکہ تم اپنا یہ سامان میرے ہاتھ سے بیچ دو ۔ ٢ ؎ : اس کے متعلق ایک قول یہ ہے اس سے مراد ایک بیع میں دو فروختیں اور امام احمد کہتے ہیں اس کی شکل یہ ہے کہ بیچنے والا کہے میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ بیچ رہا ہوں اس شرط پر کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہوگی۔ ٣ ؎ : یعنی کسی سامان کا منافع حاصل کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ وہ اس کا مالک نہ ہوجائے اور اسے اپنے قبضہ میں نہ لے لے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2188) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1234
جو چیز بیچنے والے کے پاس نہ ہو اس کو بیچنا منع ہے
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس چیز کے بیچنے سے منع فرمایا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - وکیع نے اس حدیث کو بطریق : «عن يزيد بن إبراهيم عن ابن سيرين عن أيوب عن حكيم بن حزام» روایت کیا ہے اور اس میں یوسف بن ماہک کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ عبدالصمد کی روایت زیادہ صحیح ہے (جس میں ابن سیرین کا ذکر ہے) ۔ اور یحییٰ بن ابی کثیر نے یہ حدیث بطریق : «عن يعلی بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد اللہ بن عصمة عن حكيم بن حزام عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، ٢ - اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ اس چیز کی بیع کو مکروہ سمجھتے ہیں جو آدمی کے پاس نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٢٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الحديث (1255 و 1256) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1235
حق ولاء کا بیچنا اور ہبہ کرنا صحیح نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء ١ ؎ کو بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ہم اسے صرف بروایت عبداللہ بن دینار جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے، ٣ - یحییٰ بن سلیم نے یہ حدیث بطریق : «عبيد اللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے ولاء کو بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ اس سند میں وہم ہے۔ اس کے اندر یحییٰ بن سلیم سے وہم ہوا ہے، ٤ - عبدالوھاب ثقفی، اور عبداللہ بن نمیر اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق : «عن عبيد اللہ بن عمر عن عبد اللہ بن دينار عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے اور یہ یحییٰ بن سلیم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٥ - اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ١٠ (٢٥٣٥) ، و الفرائض ٢١ (٦٧٥٦) ، صحیح مسلم/ العتق ٣ (١٥٠٦) ، سنن ابی داود/ الفرائض ١٤ (٢٩١٩) ، سنن النسائی/البیوع ٨٧ (٤٦٦٦) ، سنن ابن ماجہ/ الفرائض ١٥ (٢٧٤٧) ، ویأتي برقم (٢١٢٦) ، (التحفہ : ٧١٥، و ٧١٨٩) ، و موطا امام مالک/العتق ١٠ (٢٠) ، و مسند احمد (٢/٩، ٧٩، ١٠٧) ، سنن الدارمی/ البیوع ٣٦ (٢٦١٤) ، والفرائض ٥٣ (٣٢٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ولاء اس حق وراثت کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام کی طرف سے ملتا ہے۔ ٢ ؎ : عرب آزاد ہونے والے کی موت سے پہلے ہی ولاء کو فروخت کردیتے یا ہبہ کردیتے تھے ، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ممنوع قرار دیا تاکہ ولاء آزاد کرنے والے کے وارثوں کو ملے یا اگر خود زندہ ہے تو وہ خود حاصل کرے ، لہٰذا ایسے غلام کا بیچنا یا اسے ہبہ کرنا جائز نہیں جمہور علماء سلف وخلف کا یہی مذہب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2747 و 2748) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1236
جانور کے عوض جانور بطور قرض فروخت کرنا صحیح نہیں
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جانور کو جانور سے ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - سمرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - حسن کا سماع سمرہ سے صحیح ہے۔ علی بن مدینی وغیرہ نے ایسا ہی کہا ہے، ٣ - اس باب میں ابن عباس، جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا جانور کو جانور سے ادھار بیچنے کے مسئلہ میں اسی حدیث پر عمل ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ احمد بھی اسی کے قائل ہیں، ٥ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور کے جانور سے ادھار بیچنے کی اجازت دی ہے۔ اور یہی شافعی، اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ١٥ (٣٣٥٦) ، سنن النسائی/البیوع ٦٥ (٤٦٢٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٦ (٢٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٣) ، مسند احمد (٥/١٢، ٢١، ٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2270) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1237
جانور کے عوض جانور بطور قرض فروخت کرنا صحیح نہیں
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو جانور کو ایک جانوروں سے ادھار بیچنا درست نہیں ہے، ہاتھوں ہاتھ (نقد) بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٦ (٢٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2271) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1238
دو غلاموں کے بدلے میں ایک غلام خریدنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا اور اس نے نبی اکرم ﷺ سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم ﷺ نہیں جان سکے کہ یہ غلام ہے۔ اتنے میں اس کا مالک آگیا وہ اس کا مطالبہ رہا تھا، نبی اکرم ﷺ نے اس سے کہا : تم اسے مجھ سے بیچ دو ، چناچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد آپ کسی سے اس وقت تک بیعت نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس سے دریافت نہ کرلیتے کہ کیا وہ غلام ہے ؟ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ ایک غلام کو دو غلام سے نقدا نقد خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جب ادھار ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٣ (البیوع ٤٤) ، (١٦٠٢) ، سنن ابی داود/ البیوع ١٧ (٣٣٥٨) ، سنن النسائی/البیعة ٢١ (٤١٨٩) ، و البیوع ٦٦ (٤٦٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤١ (٢٨٩٦) ، مسند احمد (٣/٣٧٢) ، ویأتي عند المؤلف في السیر ٣٦ (١٥٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1239
گیہوں کے بدلے گیہوں بیچنے کا جواز اور کمی بیشی کا عدم جواز
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سونے کو سونے سے، چاندی کو چاندی سے، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے، نمک کو نمک سے اور جو کو جو سے برابر برابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔ سونے کو چاندی سے نقداً نقد، جیسے چاہو بیچو، گیہوں کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو، اور جو کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبادہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ گیہوں کو جو سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو، ٣ - بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اور خالد نے ابوقلابہ سے اور ابوقلابہ نے ابوالاشعث سے اور ابوالاشعث نے عبادہ سے اور عبادہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے : خالد کہتے ہیں : ابوقلابہ نے کہا : گیہوں کو جو سے جیسے سے چاہو بیچو۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی، ٤ - اس باب میں ابوسعید، ابوہریرہ، بلال اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٥ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے صرف برابر برابر ہی بیچنے کو جائز سمجھتے ہیں اور جب اجناس مختلف ہوجائیں تو کمی، بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بیع نقداً نقد ہو۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں : اس کی دلیل نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ جو کو گیہوں سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو، ٦ - اہل علم کی ایک جماعت نے جو سے بھی گیہوں کے بیچنے کو مکروہ سمجھا ہے، الا یہ کہ وزن میں مساوی ہوں، پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (البیوع ٣٦) ، (١٥٨٧) ، سنن ابی داود/ البیوع ١٢ (٣٣٤٩، ٣٣٥٠) ، سنن النسائی/البیوع ٤٤ (٤٥٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٩) ، مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن النسائی/٤٣ (٤٥٦٤، ٤٥٦٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٨ (٢٢٥٤) ، من غیر ہذا الوجہ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2254) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1240
بیع صرف کے بارے میں
نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر دونوں ابو سعید خدری (رض) کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا) : سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچو اور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم و بیش نہ کیا جائے اور غیر موجود کو موجود سے نہ بیچو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - رباء کے سلسلہ میں ابو سعید خدری (رض) کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، ابوہریرہ، ہشام بن عامر، براء، زید بن ارقم، فضالہ بن عبید، ابوبکرہ، ابن عمر، ابودرداء اور بلال (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤ - مگر وہ جو ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ وہ سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، جب کہ بیع نقدا نقد ہو، اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سود تو ادھار بیچنے میں ہے اور ایسا ہی کچھ ان کے بعض اصحاب سے بھی مروی ہے، ٥ - اور ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ابو سعید خدری نے جب ان سے نبی اکرم ﷺ کی حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور ابن مبارک کہتے ہیں : صرف ١ ؎ میں اختلاف نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٨ (٢١٧٧) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٤ (البیوع ٣٥) ، (١٥٨٤) ، سنن النسائی/البیوع ٤٧ (٤٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨٥) ، موطا امام مالک/البیوع ١٦ (٣٠) ، مسند احمد (٣/٤، ٥١، ٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سونے چاندی کو بعوض سونے چاندی نقداً بیچنا بیع صرف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (5 / 189) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1241
بیع صرف کے بارے میں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں بقیع کے بازار میں اونٹ بیچا کرتا تھا، میں دیناروں سے بیچتا تھا، اس کے بدلے چاندی لیتا تھا، اور چاندی سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتا تھا، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ حفصہ (رض) کے گھر سے نکل رہے ہیں تو میں نے آپ سے اس کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا : قیمت کے ساتھ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم اس حدیث کو صرف سماک بن حرب ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، ٢ - سماک نے اسے سعید بن جبیر سے اور سعید نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور داود بن ابی ھند نے یہ حدیث سعید بن جبیر سے اور سعید نے ابن عمر سے موقوفاً روایت کی ہے، ٣ - بعض اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ اگر کوئی سونا کے بدلے چاندی لے یا چاندی کے بدلے سونا لے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی احمد اور اسحاق کا بھی قول ہے، ٤ - اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ جانا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ١٤ (٣٣٥٤) ، سنن النسائی/البیوع ٥٠ (٤٥٨٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥١ (٢٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٣) ، مسند احمد (٢/٣٣، ٥٩، ٩٩، ١٠١، ١٣٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” سماک “ اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے اور تلقین کو قبول کرتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر (رض) پر موقوف کیا ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2262) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (494) ، ضعيف أبي داود (727 / 3354) ، الإرواء (1326) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1242
بیع صرف کے بارے میں
مالک بن اوس بن حدثان (رض) کہتے ہیں کہ میں (بازار میں) یہ کہتے ہوئے آیا : درہموں کو (دینار وغیرہ سے) کون بدلے گا ؟ تو طلحہ بن عبیداللہ (رض) نے کہا اور وہ عمر بن خطاب (رض) کے پاس تھے : ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، اور جب ہمارا خادم آ جائے تو ہمارے پاس آ جاؤ ہم (اس کے بدلے) تمہیں چاندی دے دیں گے۔ (یہ سن کر) عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تم اسے چاندی ہی دو ورنہ اس کا سونا ہی لوٹا دو ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : سونے کے بدلے چاندی لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو ، دوسرے ہاتھ سے لو ١ ؎، گیہوں کے بدلے گیہوں لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو ، دوسرے ہاتھ سے لو، جو کے بدلے جو لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو ، دوسرے ہاتھ سے لو، اور کھجور کے بدلے کھجور لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو ، دوسرے ہاتھ سے لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ «إلاھاء وھاء» کا مفہوم ہے نقدا نقد۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٤) ، و ٧٤ (٢١٧٠) ، و ٧٦ (٢١٧٤) ، صحیح مسلم/المساقاة (البیوع ٣٧) ، (١٥٨٦) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣٣٤٨) ، سنن النسائی/البیوع ١٧ (٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٠) ، مسند احمد (١/٢٤، ٢٥، ٤٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤١ (٢٦٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چاندی کے بدلے سونا ، اور سونا کے بدلے چاندی کم و بیش کر کے بیچنا جائز تو ہے ، مگر نقدا نقد اس حدیث کا یہی مطلب ہے ، نہ یہ کہ سونا کے بدلے چاندی کم و بیش کر کے نہیں بیچ سکتے ، دیکھئیے حدیث (رقم ١٢٤٠ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2253) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1243
پیوندکاری کے بعد کھجوروں اور مالدار غلام کی بیع
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے «تأبیر» ١ ؎ (پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا ٢ ؎ الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت پھل کی) شرط لگالے۔ اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت مال کی) شرط لگالے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسی طرح اور بھی طرق سے بسند «عن الزهري عن سالم عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» سے روایت ہے آپ نے فرمایا : جس نے پیوند کاری کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خریدنے والا (درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگالے اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے کا ہوگا الا یہ کہ خریدنے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگالے ، ٣ - یہ نافع سے بھی مروی ہے انہوں نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : جس نے کھجور کا کوئی درخت خریدا جس کی پیوند کاری کی جا چکی ہو تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خریدنے والا (درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگالے ، ٤ - نافع سے مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جس نے کوئی غلام بیچا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خریدنے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگالے، ٥ - اسی طرح عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے نافع سے دونوں حدیثیں روایت کی ہیں، ٦ - نیز بعض لوگوں نے یہ حدیث نافع سے، نافع نے ابن عمر سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٧ - عکرمہ بن خالد نے ابن عمر سے ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے سالم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔ ٨ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق : «عن سالم عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے، ٩ - بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ١٠ - اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ١٧ (٢٣٧٩) ، صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣١ (٢٢١١) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٠٧) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ٩٠ (٢٢٠٣) ، و ٩٢ (٢٢٠٦) ، والشروط ٢ (٢٧١٦) ، صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکو ر) ، سنن ابی داود/ البیوع ٤٤ (٣٤٣٣) ، سنن النسائی/البیوع ٧٥ (٤٦٣٩) ، و ٧٦ (٤٦٤٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣١ (٢٢١٠) ، موطا امام مالک/البیوع ٧ (٩) ، مسند احمد (٢/٦، ٩، ٥٤، ٦٣، ٧٨) ، من غیر ہذا الوجہ ۔ وضاحت : ١ ؎ : «تأبیر» : پیوند کاری کرنے کو کہتے ہیں ، اس کی صورت یہ ہے کہ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ کھجور کے خوشے میں رکھ دیتے ہیں ، جب وہ گابھا کھلتا اور پھٹتا ہے تو باذن الٰہی وہ پھل زیادہ دیتا ہے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر پیوند کاری نہ کی گئی ہو تو پھل کھجور کے درخت کی بیع میں شامل ہوگا اور وہ خریدار کا ہوگا ، جمہور کی یہی رائے ہے ، جب کہ امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ دونوں صورتوں میں بائع کا حق ہے ، اور ابن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں خریدار کا حق ہے ، مگر یہ دونوں اقوال احادیث کے خلاف ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2210 - 2212) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1244
بائع اور مشتری کو افتراق سے پہلے اختیار ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ١ ؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کرلیں ٢ ؎۔ نافع کہتے ہیں : جب ابن عمر (رض) کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہوجاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہوجائے (اور اختیار باقی نہ رہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبرزہ، حکیم بن حزام، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو، سمرہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تفرق سے مراد جسمانی جدائی ہے نہ کہ قولی جدائی، یعنی مجلس سے جدائی مراد ہے گفتگو کا موضوع بدلنا مراد نہیں، ٤ - اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے قول «مالم يتفرقا» سے مراد قولی جدائی ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ ابن عمر (رض) نے ہی اس کو نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور وہ اپنی روایت کردہ حدیث کا معنی زیادہ جانتے ہیں اور ان سے مروی ہے کہ جب وہ بیع واجب (پکی) کرنے کا ارادہ کرتے تو (مجلس سے اٹھ کر) چل دیتے تاکہ بیع واجب ہوجائے، ٥ - ابوبرزہ (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٢ (٢١٠٧) ، صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١) ، سنن النسائی/البیوع ٩ (٤٤٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٢٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ٤٣ (٢١٠٩) ، و ٤٤ (٢١١١) ، و ٤٥ (٢١١٢) ، و ٤٦ (٢١١٣) ، صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ البیوع ٥٣ (٣٤٥٤) ، سنن النسائی/البیوع ٩ (٤٤٧٠-٤٤٧٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٧ (٢١٨١) ، موطا امام مالک/البیوع ٣٨ (٧٩) ، مسند احمد (٢/٤، ٩، ٥٢، ٥٤، ٧٣، ١١٩، ١٣٥) من غیر ہذا الوجہ ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی عقد کو فسخ کرنے سے پہلے مجلس عقد سے اگر بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طور پر جدا ہوگئے تو بیع پکی ہوجائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ ٢ ؎ : اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا ، یعنی خیار کی شرط کرلی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیار باقی رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2181) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1245
بائع اور مشتری کو افتراق سے پہلے اختیار ہے
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ١ ؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کردینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کردیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اسی طرح ابوبرزہ اسلمی سے بھی مروی ہے کہ دو آدمی ایک گھوڑے کی بیع کرنے کے بعد اس کا مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے، وہ لوگ ایک کشتی میں تھے۔ ابوبرزہ نے کہا : میں نہیں سمجھتا کہ تم دونوں جدا ہوئے ہو اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : بائع اور مشتری کو جب تک (مجلس سے) جدا نہ ہوں اختیار ہے ، ٣ - اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ جدائی قول سے ہوگی، یہی سفیان ثوری کا قول ہے، اور اسی طرح مالک بن انس سے بھی مروی ہے، ٤ - اور ابن مبارک کا کہنا ہے کہ میں اس مسلک کو کیسے رد کر دوں ؟ جب کہ نبی اکرم ﷺ سے وارد حدیث صحیح ہے، ٥ - اور انہوں نے اس کو قوی کہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے قول «إلا بيع الخيار» کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بیع کے واجب کرنے کے بعد اختیار دیدے، پھر جب مشتری بیع کو اختیار کرلے تو اس کے بعد اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا، اگرچہ وہ دونوں جدا نہ ہوئے ہوں۔ اسی طرح شافعی وغیرہ نے اس کی تفسیر کی ہے، ٦ - اور جو لوگ جسمانی جدائی (تفرق بالابدان) کے قائل ہیں ان کے قول کو عبداللہ بن عمرو کی حدیث تقویت دے رہی ہے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں (آگے ہی آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٩ (٢٠٧٩) ، و ٢٢ (٢٠٨٢) ، و ٤٢ (٢١٠٨) ، و ٤٤ (٢١١٠) ، و ٤٦ (٢١١٤) ، صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥٣٢) ، سنن ابی داود/ البیوع ٥٣ (٣٤٥٩) ، سنن النسائی/البیوع ٥ (٤٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٧) و مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٠٣، ٤٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جدا نہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھر ادھر چلے جانا ہے ، خود راوی حدیث ابن عمر (رض) سے بھی یہی تفسیر مروی ہے ، بعض نے بات چیت ختم کردینا مراد لیا ہے جو ظاہر کے خلاف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1281) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1246
بائع اور مشتری کو افتراق سے پہلے اختیار ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں ان کو اختیار ہے الا یہ کہ بیع خیار ہو (تب جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے) ، اور بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے ساتھی (مشتری) سے اس ڈر سے جدا ہوجائے کہ وہ بیع کو فسخ کر دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اور اس کا معنی یہی ہے کہ بیع کے بعد وہ مشتری سے جدا ہوجائے اس ڈر سے کہ وہ اسے فسخ کر دے گا اور اگر جدائی صرف کلام سے ہوجاتی، اور بیع کے بعد مشتری کو اختیار نہ ہوتا تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہوگا جو کہ آپ نے فرمایا ہے : بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مشتری سے اس ڈر سے جدا ہوجائے کہ وہ اس کی بیع کو فسخ کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٥٣ (٣٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٧) ، و مسند احمد (٢/١٨٣) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (1311) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1247
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بائع اور مشتری بیع (کی مجلس) سے رضا مندی کے ساتھ ہی جدا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٥٣ (٣٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٤) ، و مسند احمد (٢/٥٣٦) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (5 / 125 - 126) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1248
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع کے بعد ایک اعرابی کو اختیار دیا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ١٨ (٢١٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٣٤) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1249
جو آدمی بیع میں دھوکہ کھا جائے
انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ١ ؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کرسکوں گا، آپ نے فرمایا : (اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ آزاد شخص کو خرید و فروخت سے اس وقت روکا جاسکتا ہے جب وہ ضعیف العقل ہو، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤ - اور بعض لوگ آزاد بالغ کو بیع سے روکنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٦٨ (٣٥٠١) ، سنن النسائی/البیوع ١٢ (٤٤٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٤ (٢٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥) ، و مسند احمد ٣/٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حبان بن منقذ بن عمرو انصاری تھے اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سر میں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ لڑا تھا پتھر سے شدید زخم آگیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اور عقل میں کمزوری آ گئی تھی اور زبان میں بھی تغیر آگیا تھا لیکن ابھی تمیز کے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔ ٢ ؎ : مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ و فریب نہیں کیونکہ دین تو نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے۔ ٣ ؎ : ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2354) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1250
دودھ روکے ہوئے جانور کی بیع
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں (کئی دنوں سے) روک دیا گیا ہو، تو جب وہ اس کا دودھ دو ہے تو اسے اختیار ہے اگر وہ چاہے تو ایک صاع کھجور کے ساتھ اس کو واپس کر دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں انس اور ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٣٦٥) ، ولہ طریق آخر انظر الحدیث الآتی (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک صاع کھجور کی واپسی کا جو حکم دیا گیا ہے اس لیے ہے کہ اس جانور سے حاصل کردہ دودھ کا معاوضہ ہوجائے کیونکہ کچھ دودھ تو خریدار کی ملکیت میں نئی چیز ہے اور کچھ دودھ اس نے خریدا ہے اب چونکہ خریدار کو یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ کتنا دودھ خریدا ہوا ہے اور کتنا نیا داخل ہے چناچہ عدم تمیز کی بنا پر اسے واپس کرنا یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے شارع نے ایک صاع مقرر فرما دیا کہ فروخت کرنے والے اور خریدار کے مابین تنازع اور جھگڑا پیدا نہ ہو خریدار نے جو دودھ حاصل کیا ہے اس کا معاوضہ ہوجائے قطع نظر اس سے کہ دودھ کی مقدار کم تھی یا زیادہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2239) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1251
دودھ روکے ہوئے جانور کی بیع
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں روک دیا گیا ہو تو اسے تین دن تک اختیار ہے۔ اگر وہ اسے واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کوئی غلہ بھی واپس کرے جو گیہوں نہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ہمارے اصحاب کا اسی پر عمل ہے۔ ان ہی میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ آپ کے قول «لا سمراء» کا مطلب «لابُرّ» ہے یعنی گیہوں نہ ہو (کھانے کی کوئی اور چیز ہو، پچھلی حدیث میں کھجور کا تذکرہ ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٤٨) ، صحیح مسلم/البیوع ٤ (١٥١٥) ، سنن النسائی/البیوع ١٤ (٤٤٩٣، ٤٤٩٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٢ (٢٢٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2239) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1252
جانور بیچتے وقت سواری کی شرط لگانا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم ﷺ سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ اور بھی سندوں سے جابر سے مروی ہے، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ بیع میں شرط کو جائز سمجھتے ہیں جب شرط ایک ہو۔ یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے، ٤ - اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بیع میں شرط جائز نہیں ہے اور جب اس میں شرط ہو تو بیع تام نہیں ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٣ (٢٠٩٧) ، والاستقراض ١ (٢٣٨٥) ، و ١٨ (٢٤٠٦) ، والمظالم ٢٦ (٢٤٧٠) ، والشروط ٤ (٢٧١٨) ، والجہاد ٤٩ (٢٨٦١) ، و ١١٣ (٢٩٦٧) ، صحیح مسلم/البیوع ٤٢ (المساقاة ٢١) ، (٢١٥) ، والرضاع ١٦ ٥٧ و ٥٨) ، سنن ابی داود/ البیوع ٧٧ (٤٦٤١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٩ (٢٢٠٥) ، (تحفہ الأشراف : ٢٣٤١) ، و مسند احمد (٣/٢٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگر جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں درست ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2205) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1253
رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سواری کا جانور جب رہن رکھا ہو تو اس پر سواری کی جائے اور دودھ والا جانور جب گروی رکھا ہو تو اس کا دودھ پیا جائے، اور جو سواری کرے اور دودھ پیے جانور کا خرچ اسی کے ذمہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ہم اسے بروایت عامر شعبی ہی مرفوع جانتے ہیں، انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے اور اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ (رض) سے موقوفا روایت کی ہے، ٣ - بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے، ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رہن سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرہن ٤ (٢٥١١) ، سنن ابی داود/ البیوع ٧٨ (٣٥٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٢ (٢٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤٠) ، و مسند احمد ٢/٢٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «مرہون» گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا «مرتہن» رہن رکھنے والے کے لیے درست نہیں البتہ اگر «مرہون» جانور ہو تو اس حدیث کی رو سے اس پر اس کے چارے کے عوض سواری کی جاسکتی ہے اور اس کا دودھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2440) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1254
ایسا ہار خریدنا جس میں سونے اور ہیرے ہوں
فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، جس میں سونے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے، میں نے انہیں (توڑ کر) جدا جدا کیا تو مجھے اس میں بارہ دینار سے زیادہ ملے۔ میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : (سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار) نہ بیچے جائیں جب تک انہیں جدا جدا نہ کرلیا جائے ۔
غلام یا باندی آزاد کرتے ہوئے ولاء کی شرط کی ممانعت
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ (لونڈی) کو خریدنا چاہا، تو بریرہ کے مالکوں نے ولاء ١ ؎ کی شرط لگائی تو نبی اکرم ﷺ نے عائشہ سے فرمایا : تم اسے خرید لو، (اور آزاد کر دو ) اس لیے کہ ولاء تو اسی کا ہوگا جو قیمت ادا کرے، یا جو نعمت (آزاد کرنے) کا مالک ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی حدیث مروی ہے، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/کفارات الأیمان ٨ (٦٧١٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٠ (٣٤٧٩) ، (وانظر أیضا ما یقدم برقم : ١١٥٤، وما یأتي برقم : ٢١٢٤ و ٢١٢٥) (تحفة الأشراف : ١٥٩٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ولاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑ کر مرے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بائع کے لیے ولاء کی شرط لگانا صحیح نہیں ، ولاء اسی کا ہوگا جو خرید کر آزاد کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2521) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1256
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک دینار میں قربانی کا جانور خریدنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے قربانی کا ایک جانور خریدا (پھر اسے دو دینار میں بیچ دیا) ، اس میں انہیں ایک دینار کا فائدہ ہوا، پھر انہوں نے اس کی جگہ ایک دینار میں دوسرا جانور خریدا، قربانی کا جانور اور ایک دینار لے کر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، تو آپ نے فرمایا : بکری کی قربانی کر دو اور دینار کو صدقہ کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : حکیم بن حزام کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور میرے نزدیک جبیب بن ابی ثابت کا سماع حکیم بن حزام سے ثابت نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٤٢٣) (ضعیف) (مولف نے ضعف کی وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے، یعنی حبیب کا سماع حکیم بن حزام سے آپ کے نزدیک ثابت نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1257
عروہ بارقی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری خریدنے کے لیے مجھے ایک دینار دیا، تو میں نے اس سے دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے تمام معاملہ بیان کیا اور آپ نے فرمایا : اللہ تمہیں تمہارے ہاتھ کے سودے میں برکت دے ، پھر اس کے بعد وہ کوفہ کے کناسہ کی طرف جاتے اور بہت زیادہ منافع کماتے تھے۔ چناچہ وہ کوفہ کے سب سے زیادہ مالدار آدمی بن گئے۔
مکاتب کے پاس ادائیگی کے لئے مال ہو تو ؟
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب مکاتب غلام کسی دیت یا میراث کا مستحق ہو تو اسی کے مطابق وہ حصہ پائے گا جتنا وہ آزاد کیا جا چکا ہے ، نیز آپ نے فرمایا : مکاتب جتنا زر کتابت ادا کرچکا ہے اتنی آزادی کے مطابق دیت دیا جائے گا اور جو باقی ہے اس کے مطابق غلام کی دیت دیا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - اسی طرح یحییٰ بن ابی کثیر نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں ام سلمہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٤ - لیکن خالد الحذاء نے بھی عکرمہ سے (روایت کی ہے مگر ان کے مطابق) عکرمہ نے علی (رض) کے قول سے روایت کی ہے، ٥ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ جب تک مکاتب پر ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ٢٢ (٤٥٨١) ، سنن النسائی/القسامة ٣٨، ٣٩ (٤٨١٢-٤٨١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩٣) ، و مسند احمد (١/٢٢٢، ٢٢٦، ٢٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1726) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1259
مکاتب کے پاس ادائیگی کے لئے مال ہو تو ؟
عبداللہ بن عمر و (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ کے دوران کہتے سنا : جو اپنے غلام سے سو اوقیہ (بارہ سو درہم) پر مکاتبت کرے اور وہ دس اوقیہ کے علاوہ تمام ادا کر دے پھر باقی کی ادائیگی سے وہ عاجز رہے تو وہ غلام ہی رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - حجاج بن ارطاۃ نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب تک مکاتب پر کچھ بھی زر کتابت باقی ہے وہ غلام ہی رہے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العتق ١ (٣٩٢٦) ، ٣٩٢٧ سنن ابن ماجہ/العتق ٣ (٢٥١٩) (تحفة الأشراف : ٨٨١٤) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2519) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1260
مکاتب کے پاس ادائیگی کے لئے مال ہو تو ؟
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے مکاتب غلام کے پاس اتنی رقم ہو کہ وہ زر کتابت ادا کرسکے تو اسے اس سے پردہ کرنا چاہیئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم کا اس حدیث پر عمل ازراہ ورع و تقویٰ اور احتیاط ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ مکاتب غلام جب تک زر کتابت نہ ادا کر دے آزاد نہیں ہوگا اگرچہ اس کے پاس زر کتابت ادا کرنے کے لیے رقم موجود ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العتق ١ (٣٩٢٨) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٣ (٢٥٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢١) (ضعیف) (سند میں ” نبہان “ لین الحدیث ہیں نیز ام المومنین عائشہ (رض) کی روایت کے مطابق امہات المومنین کا عمل اس کے برعکس تھا، ملاحظہ ہو : الإرواء رقم ١٧٦٩ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2520) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (549) ، ضعيف أبي داود (848 / 3928) ، المشکاة (3400) ، الإرواء (1769) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1261
کوئی شخص مقروض کے پاس اپنا مال پائے تو کیا حکم ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو (قرض دار) آدمی مفلس ہوجائے اور (قرض دینے والا) آدمی اپنا سامان اس کے پاس بعینہ پائے تو وہ اس سامان کا دوسرے سے زیادہ مستحق ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں سمرہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور بعض اہل علم کہتے ہیں : وہ بھی دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہوگا، یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستقراض ١٤ (٢٤٠٢) ، صحیح مسلم/المساقاة ٥ (البیوع ٢٦) ، (١٥٥٩) ، سنن ابی داود/ البیوع ٧٦ (٣٥١٩) ، سنن النسائی/البیوع ٩٥ (٤٦٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٦ (٤٣٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦١) ، وط/البیوع ٤٢ (٨٨) ، و مسند احمد (٢/٢٢٨) ، ٢٥٨، ٤١٠، ٤٦٨، ٤٨٤، ٥٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2358) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1262
مسلمان کسی ذمی کو شراب بیچنے کے لئے نہ دے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک یتیم کی شراب تھی، جب سورة المائدہ نازل ہوئی (جس میں شراب کی حرمت مذکور ہے) تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا اور عرض کیا کہ وہ ایک یتیم کی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اسے بہا دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور بھی سندوں سے یہ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے، ٣ - اس باب میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے، ٤ - بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں، یہ لوگ شراب کا سرکہ بنانے کو مکروہ سمجھتے ہیں، اس وجہ سے اسے مکروہ قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان کے گھر میں شراب رہے یہاں تک کہ وہ سرکہ بن جائے۔ «واللہ اعلم» ، ٥ - بعض لوگوں نے شراب کے سرکہ کی اجازت دی ہے جب وہ خود سرکہ بن جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٩٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح يشهد له الحديث الآتی (1316) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1263
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے امانت لوٹاؤ ١ ؎ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ (بھی) خیانت نہ کرو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کا کسی دوسرے کے ذمہ کوئی چیز ہو اور وہ اسے لے کر چلا جائے پھر اس جانے والے کی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں آئے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس میں سے اتنا روک لے جتنا وہ اس کالے کر گیا ہے، ٣ - تابعین میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے، اور یہی ثوری کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں : اگر اس کے ذمہ درہم ہو اور (بطور امانت) اس کے پاس اس کے دینار آ گئے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دراہم کے بدلے اسے روک لے، البتہ اس کے پاس اس کے دراہم آ جائیں تو اس وقت اس کے لیے درست ہوگا کہ اس کے دراہم میں سے اتنا روک لے جتنا اس کے ذمہ اس کا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٨١ (٣٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٣٦) ، وسنن الدارمی/البیوع ٥٧ (٢٦٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم واجب ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے : «إن اللہ يأمرکم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها» (النساء : ٥٨ ) ۔ ٢ ؎ : یہ حکم استحبابی ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے : «وجزاء سيئة سيئة مثلها» (الشوری : ٤٠ ) برائی کی جزاء اسی کے مثل برائی ہے نیز ارشاد ہے : «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به» (النحل : ١٢٦ ) یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ اپنا حق وصول کرلینا چاہیئے ، ابن حزم کا قول ہے کہ جس نے خیانت کی ہے اس کے مال پر قابو پانے کی صورت میں اپنا حق وصول لینا واجب ہے ، اور یہ خیانت میں شمار نہیں ہوگی بلکہ خیانت اس صورت میں ہوگی جب وہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2934) ، الصحيحة (4230) ، الروض النضير (16) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1264
مستعار چیز کا واپس کرنا ضروری ہے۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں فرماتے سنا : عاریت لی ہوئی چیز لوٹائی جائے گی، ضامن کو تاوان دینا ہوگا اور قرض واجب الاداء ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوامامہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اور یہ ابوامامہ کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے اور بھی طریق سے مروی ہے، ٣ - اس باب میں سمرہ، صفوان بن امیہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصدقات ٥ (٢٣٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2398) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1265
مستعار چیز کا واپس کرنا ضروری ہے۔
سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے ١ ؎، قتادہ کہتے ہیں : پھر حسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے جس نے عاریت لی ہے وہ تیرا امین ہے، اس پر تاوان نہیں ہے، یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں : عاریۃً لینے والا ضامن ہوتا ہے۔ اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عاریت لینے والے پر تاوان نہیں ہے، الا یہ کہ وہ سامان والے کی مخالفت کرے۔ ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٩٠ (٣٥٦١) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٥ (٢٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٤) ، و مسند احمد (٥/١٢، ١٣) ، وسنن الدارمی/البیوع ٥٦ (٢٦٣٨) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عاریت لی ہوئی چیز جب تک واپس نہ کر دے عاریت لینے والے پر واجب الاداء رہتی ہے ، عاریت لی ہوئی چیز کی ضمانت عاریت لینے والے پر ہے یا نہیں ، اس بارے میں تین اقوال ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ ہر صورت میں وہ اس کا ضامن ہے خواہ اس نے ضمانت کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو ، ابن عباس ، زید بن علی ، عطاء ، احمد ، اسحاق اور امام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت کی شرط نہ کی ہوگی تو اس کی ذمہ داری اس پر عائد نہ ہوگی ، تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی ضمانت کی شرط نہیں بشرطیکہ خیانت نہ کرے اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2400) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1266
غلے کی ذخیرہ اندوزی
معمر بن عبداللہ بن نضلہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتا ہے ١ ؎۔ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں : میں نے سعید بن المسیب سے کہا : ابو محمد ! آپ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : معمر بھی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - معمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سعید بن مسیب سے مروی ہے، وہ تیل، گیہوں اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے، ٣ - اس باب میں عمر، علی، ابوامامہ، اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کھانے کی ذخیرہ اندوزی ناجائز کہا ہے، ٥ - بعض اہل علم نے کھانے کے علاوہ دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کی اجازت دی ہے، ٦ - ابن مبارک کہتے ہیں : روئی، دباغت دی ہوئی بکری کی کھال، اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٦ (البیوع ٤٧) ، (١٦٠٥) ، سنن ابی داود/ البیوع ٤٩ (٣٤٤٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦ (٢١٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨١) ، و مسند احمد (٦/٤٠٠) وسنن الدارمی/البیوع ١٢ (٢٥٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «احتکار» : ذخیرہ اندوزی کو کہتے ہیں ، یہ اس وقت منع ہے جب لوگوں کو غلے کی ضرورت ہو تو مزید مہنگائی کے انتظار میں اسے بازار میں نہ لایا جائے ، اگر بازار میں غلہ دستیاب ہے تو ذخیرہ اندوزی منع نہیں۔ کھانے کے سوا دیگر غیر ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2154) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1267
دودھ کے ہوئے جانور کو فروخت کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (بازار میں آنے والے قافلہ تجارت کا بازار سے پہلے) استقبال نہ کرو، جانور کے تھن میں دودھ نہ روکو (تاکہ خریدار دھوکہ کھاجائے) اور (جھوٹا خریدار بن کر) ایک دوسرے کا سامان نہ فروخت کراؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ ایسے جانور کی بیع کو جس کا دودھ تھن میں روک لیا گیا ہو جائز نہیں سمجھتے، ٤ - محفلۃ ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کا دودھ تھن میں چھوڑے رکھا گیا ہو، اس کا مالک کچھ دن سے اسے نہ دوہتا ہوتا کہ اس کی تھن میں دودھ جمع ہوجائے اور خریدار اس سے دھوکہ کھاجائے۔ یہ فریب اور دھوکہ ہی کی ایک شکل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦١١٦) (حسن) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ عکرمہ سے سماک کی روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1268
جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال غصب کر
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جھوٹی قسم کھائی تاکہ اس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا ۔ اشعث بن قیس (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! آپ نے میرے سلسلے میں یہ حدیث بیان فرمائی تھی۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی، اس نے میرے حصے کا انکار کیا تو میں اسے نبی اکرم ﷺ سے پاس لے گیا، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا : کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے ؟ میں نے عرض کیا : نہیں، تو آپ نے یہودی سے فرمایا : تم قسم کھاؤ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ تو قسم کھالے گا اور میرا مال ہضم کرلے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «إن الذين يشترون بعهد اللہ وأيمانهم ثمنا قليلا» اور جو لوگ اللہ کے قرار اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑا سا مول حاصل کرتے ہیں ... (آل عمران : ٧٧ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں وائل بن حجر، ابوموسیٰ ، ابوامامہ بن ثعلبہ انصاری اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ٤ (٢٣٥٦) ، والخصومات ٤ (٢٤١٦) ، والرہن ٦ (٢٥١٥) ، والشہادات ١٩ (٢٦٦٦) ، و ٢٠ (٢٦٦٩) ، و ٢٣ (٢٦٧٣) ، و ٢٥ (٢٦٧٦) ، وتفسیر آل عمران ٣ (٤٥٤٩) ، والایمان والنذور ١١ (٦٦٥٩) ، و ١٧ (٦٦٧٦) ، والأحکام ٣٠ (٧١٨٣) ، والتوحید ٢٤ (٧٤٤٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦١ (٢٢٠) ، سنن ابی داود/ الأیمان والنذور ٢ (٣٢٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٨ (٢٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨ و ٩٢٤٤) ، و مسند احمد (١/٣٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2323 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1269
اگر خریدنے اور فروخت کرنے والے میں اختلاف ہوجائے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے تو بات بائع کی مانی جائے گی، اور مشتری کو اختیار ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث مرسل ہے، عون بن عبداللہ نے ابن مسعود کو نہیں پایا، ٢ - اور قاسم بن عبدالرحمٰن سے بھی یہ حدیث مروی ہے، انہوں نے ابن مسعود سے اور ابن مسعود نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ اور یہ روایت بھی مرسل ہے، ٣ - اسحاق بن منصور کہتے ہیں : میں نے احمد سے پوچھا : جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور کوئی گواہ نہ ہو تو کس کی بات تسلیم کی جائے گی ؟ انہوں نے کہا : بات وہی معتبر ہوگی جو سامان کا مالک کہے گا، یا پھر دونوں اپنی اپنی چیز واپس لے لیں یعنی بائع سامان واپس لے لے اور مشتری قیمت۔ اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی کہا ہے جو احمد نے کہا ہے، ٤ - اور بات جس کی بھی مانی جائے اس کے ذمہ قسم کھانا ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : تابعین میں سے بعض اہل علم سے اسی طرح مروی ہے، انہیں میں شریح بھی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٥٣١) (صحیح) وانظر أیضا : سنن ابی داود/ البیوع ٧٤ (٣٥١١) ، سنن النسائی/البیوع ٨٢ (٤٦٥٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٩ (٢١٨٦) ، مسند احمد (١/٤٤٦ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1322 - 1324) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1270
ضرورت سے زائد پانی کو فروخت کرنا
ایاس بن عبد مزنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے پانی بیچنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ایاس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر، بہیسہ، بہیسہ کے باپ، ابوہریرہ، عائشہ، انس اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے پانی بیچنے کو ناجائز کہا ہے، یہی ابن مبارک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤ - اور بعض اہل علم نے پانی بیچنے کی اجازت دی ہے، جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٦٣ (٣٤٧٨) ، سنن النسائی/البیوع ٨٨ (٤٦٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٨ (الأحکام ٧٩ (٢٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٧) ، و مسند احمد (٣/٣١٧) ، وسنن الدارمی/البیوع ٦٩ (٢٦٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد نہر و چشمے وغیرہ کا پانی ہے جو کسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو اور اگر پانی پر کسی طرح کا خرچ آیا ہو تو ایسے پانی کا بیچنا منع نہیں ہے مثلاً راستوں میں ٹھنڈا پانی یا مینرل واٹر وغیرہ بیچنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2476) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1271
ضرورت سے زائد پانی کو فروخت کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ضرورت سے زائد پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے سبب گھاس سے روک دیا جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ٢ (٢٣٥٣) ، صحیح مسلم/البیوع ٢٩ (المساقاة ٨) (١٥٦٦) ، سنن ابی داود/ البیوع ٦٢ (٣٤٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٩ (٢٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٨) ، وط/الأقضیة ٢٥ (٢٩) و مسند احمد (٢/٢٤٤، ٢٧٣، ٣٠٩) ، ٤٨٢، ٤٩٤، ٥٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ سوچ کر دوسروں کے جانوروں کو فاضل پانی پلانے سے نہ روکا جائے کہ جب جانوروں کو پانی پلانے کو لوگ نہ پائیں گے تو جانور ادھر نہ لائیں گے ، اس طرح گھاس ان کے جانوروں کے لیے بچی رہے گی ، یہ کھلی ہوئی خود غرضی ہے جو اسلام کو پسند نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2478) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1272
نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، انس اور ابوسعید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ بعض علماء نے اس کام پر بخشش قبول کرنے کی اجازت دی ہے، جمہور کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ٢١ (٢٢٨٤) ، سنن ابی داود/ البیوع ٤٢ (٣٤٢٩) ، سنن النسائی/البیوع ٩٤ (٤٦٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٣٣) ، و مسند احمد (٢/٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ مادہ کا حاملہ ہونا قطعی نہیں ہے ، حمل قرار پانے اور نہ پانے دونوں کا شبہ ہے اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے اس کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1273
نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کی ممانعت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ کلاب کے ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اسے منع کردیا، پھر اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم مادہ پر نر چھوڑتے ہیں تو ہمیں بخشش دی جاتی ہے (تو اس کا حکم کیا ہے ؟ ) آپ نے اسے بخشش لینے کی اجازت دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف ابراہیم بن حمید ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٩٤ (٤٦٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2866 / التحقيق الثانی) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1274
کتے کی قیمت
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١١٣٣ (تحفة الأشراف : ١٠٠١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علم غیب رب العالمین کے لیے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا گناہ عظیم ہے ، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2159) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1276
کتے کی قیمت
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پچھنا لگانے والے کی کمائی خبیث (گھٹیا) ہے ١ ؎ زانیہ کی اجرت ناپاک ٢ ؎ ہے اور کتے کی قیمت ناپاک ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - رافع (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، علی، ابن مسعود، ابومسعود، جابر، ابوہریرہ، ابن عباس، ابن عمر اور عبداللہ ابن جعفر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کتے کی قیمت کو ناجائز جانا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ اور بعض اہل علم نے شکاری کتے کی قیمت کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٩ (البیوع ٣٠) ، (١٥٦٨) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣٩ (٣٤٢١) ، سنن النسائی/الذبائح ١٥ (٤٢٩٩) ، تحفة الأشراف : ٣٥٥٥) ، و مسند احمد (٣/٤٦٤، ٤٦٥) ، و ٤/١٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «كسب الحجام خبيث» میں «خبيث» کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیرشریفانہ ہونے کے معنی میں ہے رسول اللہ ﷺ نے محیصہ (رض) کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ ، نیز آپ نے خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی ، لہذا پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق خبیث کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے لہسن اور پیاز کو خبیث کہا باوجود یہ کہ ان دونوں کا استعمال حرام نہیں ہے ، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیرشریفانہ ہے۔ یہاں «خبيث» بمعنی حرام ہے۔ ٢ ؎ : چونکہ زنا فحش امور اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد ہو۔ ٣ ؎ : کتا چونکہ نجس اور ناپاک جانور ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی ، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے ، اسی سبب کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے ، الا یہ کہ کسی شدید ضرورت سے ہو مثلاً گھر جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ پھر بھی قیمت لینا گھٹیا کام ہے ، ہدیہ کردینا چاہیے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1275
پچھنے لگانے والے کی اجرت
محیصہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پچھنا لگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ١ ؎ لیکن وہ باربار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : اسے اپنے اونٹ کے چارہ پر خرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلا دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - محیصہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں رافع بن خدیج، جحیفہ، جابر اور سائب بن یزید سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤ - احمد کہتے ہیں : اگر مجھ سے کوئی پچھنا لگانے والا مزدوری طلب کرے تو میں نہیں دوں گا اور دلیل میں یہی حدیث پیش کروں گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٣٩ (٣٤٢٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٠ (٢١٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٨) ، و موطا امام مالک/الاستئذان ١٠ (٢٨ مرسلا) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیا اور غیر شریفانہ عمل ہے ، جہاں تک اس کے جواز کا معاملہ ہے تو آپ نے خود ابوطیبہ کو پچھنا لگانے کی اجرت دی ہے جیسا کہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے ، جمہور اسی کے قائل ہیں اور ممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2166) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1277
پچھنے لگانے والے کی اجرت کے جواز کے بارے میں
حمید کہتے ہیں کہ انس (رض) سے پچھنا لگانے والے کی کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انس (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور آپ کو پچھنا لگانے والے ابوطیبہ تھے، تو آپ نے انہیں دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا اور ان کے مالکوں سے بات کی، تو انہوں نے ابوطیبہ کے خراج میں کمی کردی اور آپ نے فرمایا : جن چیزوں سے تم دوا کرتے ہو ان میں سب سے افضل پچھنا ہے یا فرمایا : تمہاری بہتر دواؤں میں سے پچھنا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، ابن عباس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے پچھنا لگانے والے کی اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١١ (البیوع ٣٢) (١٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (309) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1278
کتے اور بلی کی قمت لینا حرام ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔ بلی کی قیمت کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے، ٢ - یہ حدیث اعمش سے مروی ہے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور اس نے جابر سے، یہ لوگ اعمش سے اس حدیث کی روایت میں اضطراب کا شکار ہیں، ٣ - اور ابن فضل نے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بطریق : «الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٤ - اہل علم کی ایک جماعت نے بلی کی قیمت کو ناجائز کہا ہے، ٥ - اور بعض لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٦٤ (٣٤٧٩) (تحفة الأشراف : ٢٣٠٩) و انظر أیضا ما عند صحیح مسلم/المساقاة ٩ (١٥٦٩) ، وسنن النسائی/الذبائح ٦١ (٤٣٠٠) ، وسنن ابن ماجہ/التجارات ٩ (٢١٦١) ، و مسند احمد (٣/٣٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2161) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1279
کتے اور بلی کی قمت لینا حرام ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اور ہم عبدالرزاق کے علاوہ کسی بڑے محدث کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن زید سے روایت کی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٦٤ (٣٤٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢٠ (٣٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٩٤) ، و مسند احمد (٣/٢٩٧) (ضعیف) (سند میں عمر بن زید صنعانی ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3250) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (700) ، ضعيف أبي داود (816 / 3807) ، الإرواء (2487) ، ضعيف الجامع الصغير (6033) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1280
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ کتے کی قیمت سے (رسول اللہ ﷺ نے) منع فرمایا ہے سوائے شکاری کتے کی قیمت کے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس طریق سے صحیح نہیں ہے، ٢ - ابومہزم کا نام یزید بن سفیان ہے، ان کے سلسلہ میں شعبہ بن حجاج نے کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے، ٣ - اور جابر سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اور اس کی سند بھی صحیح نہیں ہے (دیکھئیے الصحیحۃ رقم : ٢٩٧١ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٨٣٤) (حسن) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابو المہزم “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : حسن التعليق علی الروضة الندية (2 / 94) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1281
گانے والی لونڈیوں کی فروخت حرام ہے۔
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گانے والی لونڈیوں کو نہ بیچو اور نہ انہیں خریدو، اور نہ انہیں (گانا) سکھاؤ ١ ؎، ان کی تجارت میں خیر و برکت نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔ اور اسی جیسی چیزوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے : «ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله» اور بعض لوگ ایسے ہیں جو لغو باتوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں (لقمان : ٦ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوامامہ کی حدیث کو ہم اس طرح صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اور بعض اہل علم نے علی بن یزید کے بارے میں کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے۔ اور یہ شام کے رہنے والے ہیں، ٢ - اس باب میں عمر بن خطاب (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ١١ (٢١٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٩٨) (ضعیف) (سند میں عبیداللہ بن زحر اور علی بن یزید بن جدعان دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن ماجہ کی سند حسن درجے کی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ فسق اور گناہ کے کاموں کی طرف لے جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2168) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1282
None
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو شخص ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
ماں اور اس کے بچوں یا بھائیوں کو الگ الگ بیچنا منع ہے۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو غلام دیئے جو آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا : علی ! تمہارا غلام کیا ہوا ؟ ، میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے ایک کو بیچ دیا ہے) تو آپ نے فرمایا : اسے واپس لوٹا لو، اسے واپس لوٹا لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم بیچتے وقت (رشتہ دار) قیدیوں کے درمیان جدائی ڈالنے کو ناجائز کہا ہے، ٣ - اور بعض اہل علم نے ان لڑکوں کے درمیان جدائی کو جائز قرار دیا ہے جو سر زمین اسلام میں پیدا ہوئے ہیں۔ پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، ٤ - ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بیچتے وقت ماں اور اس کے لڑکے کے درمیان تفریق، چناچہ ان پر یہ اعتراض کیا گیا تو انہوں نے کہا : میں نے اس کی ماں سے اس کی اجازت مانگی تو وہ اس پر راضی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٦ (٢٢٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٥) ، و مسند احمد (١/١٠٢) (ضعیف) (میمون کی ملاقات علی (رض) سے نہیں ہے، لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن ثبت مختصرا بلفظ آخر في صحيح أبي داود (2415) ، ابن ماجة (2249) ، صحيح أبي داود (2415) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1284
غلام خریدنا پھر نفع کے بعد عیب پر مطلع ہونا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ فائدے کا استحقاق ضامن ہونے کی بنیاد پر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ اور بھی سندوں سے مروی ہے، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٧٣ (٣٥٠٨) ، سنن النسائی/البیوع ١٥ (٤٤٩٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٣ (٢٢٤٢ و ٢٢٤٣) ، التحفة : ١٦٥٥) ، و مسند احمد (٦/٤٩، ٢٠٨، ٢٣٧) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2242 - 2243) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1285
غلام خریدنا پھر نفع کے بعد عیب پر مطلع ہونا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فیصلہ کیا کہ فائدہ کا استحقاق ضامن ہونے کی بنیاد پر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - امام ترمذی کہتے ہیں : محمد بن اسماعیل نے اس حدیث کو عمر بن علی کی روایت سے غریب جانا ہے۔ میں نے پوچھا : کیا آپ کی نظر میں اس میں تدلیس ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، ٣ - مسلم بن خالد زنجی نے اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے۔ ٤ - جریر نے بھی اسے ہشام سے روایت کیا ہے، ٥ - اور کہا جاتا ہے کہ جریر کی حدیث میں تدلیس ہے، اس میں جریر نے تدلیس کی ہے، انہوں نے اسے ہشام بن عروہ سے نہیں سنا ہے، ٦ - «الخراج بالضمان» کی تفسیر یہ ہے کہ آدمی غلام خریدے اور اس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب دیکھے اور اس کو بیچنے والے کے پاس لوٹا دے، تو غلام کی جو مزدوری اور فائدہ ہے وہ خریدنے والے کا ہوگا۔ اس لیے کہ اگر غلام ہلاک ہوجاتا تو مشتری (خریدار) کا مال ہلاک ہوتا۔ یہ اور اس طرح کے مسائل میں فائدہ کا استحقاق ضامن ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٧١٢٦) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما قبله (1287) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1286
راہ گزرنے والے کے لئے راستے کے پھل کھانے کی اجازت
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی باغ میں داخل ہو تو (پھل) کھائے، کپڑوں میں باندھ کر نہ لے جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث غریب ہے۔ ہم اسے اس طریق سے صرف یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عباد بن شرحبیل، رافع بن عمرو، عمیر مولی آبی اللحم اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم نے راہ گیر کے لیے پھل کھانے کی رخصت دی ہے۔ اور بعض نے اسے ناجائز کہا ہے، الا یہ کہ قیمت ادا کر کے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٧ (٢٣٠١) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2301) ، وانظر الذي بعده (1288) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1287
راہ گزرنے والے کے لئے راستے کے پھل کھانے کی اجازت
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے لٹکے ہوئے پھل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : جو ضرورت مند اس میں سے (ضرورت کے مطابق) لے لے اور کپڑے میں جمع کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللقطة ح رقم ١٠ (١٧١٠) و الحدود ١٢ (٤٣٩٠) ، سنن النسائی/قطع السارق ١١ (٤٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٨) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (2413) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1289
راہ گزرنے والے کے لئے راستے کے پھل کھانے کی اجازت
رافع بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر مارتا تھا، ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور نبی اکرم ﷺ کے پاس لے گئے آپ نے پوچھا : رافع ! تم ان کے کھجور کے درختوں پر پتھر کیوں مارتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بھوک کی وجہ سے، آپ نے فرمایا : پتھر مت مارو، جو خودبخود گرجائے اسے کھاؤ اللہ تمہیں آسودہ اور سیراب کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٩٤ (٢٦٢٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٧ (٢٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٥) (ضعیف) (سند میں ” صالح “ اور ان کے باپ ” ابو جبیر “ دونوں مجہول ہیں، اور ابوداود وابن ماجہ کی سند میں ” ابن ابی الحکم “ مجہول ہیں نیز ان کی دادی مبہم ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2299) // ضعيف سنن ابن ماجة (504) ، ضعيف الجامع الصغير (6210) ، ضعيف أبي داود (564 / 2622) مع اختلاف باللفظ // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1288
خریدوفروخت میں استثناء کی ممانعت
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ، مزابنہ ١ ؎ مخابرہ ٢ ؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کو مستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ٣ ؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس طریق سے بروایت یونس بن عبید جسے یونس نے عطاء سے اور عطاء نے جابر سے روایت کی ہے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ١٧ (٢٣٨١) ، صحیح مسلم/البیوع ١٦ (١٥٣٦) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣٤ (٣٤٠٥) ، سنن النسائی/الأیمان (والمزارعة) ، ٤٥ (٣٩١٠) ، والبیوع ٧٤ (٤٦٤٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٤ (٢٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٥) ، و مسند احمد (٣/٣١٣، ٣٥٦، ٣٦٠، ٣٦٤، ٣٩١، ٣٩٢) ، وانظر ما یأتي برقم ١٣١٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : محاقلہ اور مزابنہ کی تفسیر گزر چکی ہے دیکھئیے حدیث نمبر ( ١٢٢٤ ) ۔ ٢ ؎ : مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یا ربع پیداوار پر زمین بٹائی پر لینا ، یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں ، بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوار مزارع کے لیے اور کسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے ، ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے ، کیونکہ بسا اوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اور مالک والا تباہ ہوجاتا ہے ، اور کبھی اس کے برعکس ہوجاتا ہے ، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے ، اس لیے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ٣ ؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا باغ بیچتا ہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیونکہ مستثنیٰ کئے ہوئے درخت مجہول ہیں۔ اور اگر تعیین کر دے تو جائز ہے جیسا کہ اوپر حدیث میں اس کی اجازت موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1290
غلے کو اپنی ملکیت میں لینے سے پہلے فروخت کرنا منع ہے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص غلہ خریدے تو اسے نہ بیچے جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کرلے ١ ؎، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : میں ہر چیز کو غلے ہی کے مثل سمجھتا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر، ابن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے غلہ کی بیع کو ناجائز کہا ہے۔ جب تک مشتری اس پر قبضہ نہ کرلے، ٤ - اور بعض اہل علم نے قبضہ سے پہلے اس شخص کو بیچنے کی رخصت دی ہے جو کوئی ایسی چیز خریدے جو ناپی اور تولی نہ جاتی ہو اور نہ کھائی اور پی جاتی ہو، ٥ - اہل علم کے نزدیک سختی غلے کے سلسلے میں ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تخريج : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٢) ، صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٥) ، سنن ابی داود/ البیوع ٦٧ (٣٤٩٦) ، سنن النسائی/البیوع ٥٥ (٤٦٠٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٧ (٢٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٦) ، و مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٥١، ٢٧٠، ٢٨٥، ٣٥٦، ٣٦٨، ٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خرید و فروخت میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز پر خریدار جب تک مکمل قبضہ نہ کرلے اسے دوسرے کے ہاتھ نہ بیچے ، اور یہ قبضہ ہر چیز پر اسی چیز کے حساب سے ہوگا ، نیز اس سلسلہ میں علاقے کے عرف (رسم و رواج) کا اعتبار بھی ہوگا کہ وہاں کسی چیز پر کیسے قبضہ مانا جاتا ہے مثلاً منقولہ چیزوں میں شریعت نے ایک عام اصول برائے مکمل قبضہ یہ بتایا ہے کہ اس چیز کو مشتری بائع کی جگہ سے اپنی جگہ میں منتقل کرلے یا ناپنے والی چیز کو ناپ لے اور تولنے والی چیز کو تول لے اور اندازہ کی جانے والی چیز کی جگہ بدل لے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2227) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1291
اس بارے میں کہ اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے ١ ؎ اور نہ کوئی کسی کے شادی کے پیغام پر پیغام دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا آدمی اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ کرے۔ ٤ - اور بعض اہل علم کے نزدیک نبی اکرم ﷺ سے مروی اس حدیث میں بیع سے مراد بھاؤ تاؤ اور مول تول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٥ (٥١٤٢) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٢) ، والبیوع ١٤١٢) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٨ (٢٠٨١) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤٠) ، و ٢١ (٣٢٤٥) ، والبیوع ٢٠ (٤٥٠٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٤) ، و مسند احمد (٢/١٢٢، ١٢٤، ١٢٦، ١٣٠، ١٤٢، ١٥٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢٢) ، والبیوع ٣٣ (٢٦٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دوسرے کی بیع پر بیع کی صورت یہ ہے ، بیع ہوجانے کے بعد مدت خیار کے اندر کوئی آ کر یہ کہے کہ تو یہ بیع فسخ کر دے تو میں تجھ کو اس سے عمدہ چیز اس سے کم قیمت پر دیتا ہوں کہ اس طرح کہنا جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1868 - 2171) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1292
شراب بیچنے کی ممانعت
ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں نے ان یتیموں کے لیے شراب خریدی تھی جو میری پرورش میں ہیں۔ (اس کا کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے فرمایا : شراب بہا دو اور مٹکے توڑ دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوطلحہ (رض) کی اس حدیث کو ثوری نے بطریق : «السدي، عن يحيى بن عباد، عن أنس» روایت کیا ہے کہ ابوطلحہ آپ کے پاس تھے ١ ؎، اور یہ لیث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر، عائشہ، ابوسعید، ابن مسعود، ابن عمر، اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٧٧٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس اعتبار سے یہ حدیث انس کی مسانید میں سے ہوگی نہ کہ ابوطلحہ کی۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (3659 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1293
شراب بیچنے کی ممانعت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کیا شراب کا سرکہ بنایا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٢ (١٩٨٣) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٣ (٣٦٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٨) ، وسنن الدارمی/الأشربة ١٧ (٢١٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1294
شراب بیچنے کی ممانعت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کی وجہ سے دس آدمیوں پر لعنت بھیجی : اس کے نچوڑوانے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے لے جانے والے پر، اس کے منگوانے والے پر، اور جس کے لیے لے جائی جائے اس پر، اس کے پلانے والے پر، اور اس کے بیچنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، اس کو خریدنے والے پر اور جس کے لیے خریدی گئی ہو اس پر ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث انس (رض) کی روایت سے غریب ہے، ٢ - اور اسی حدیث کی طرح ابن عباس، ابن مسعود اور ابن عمر (رض) سے بھی مروی ہے جسے یہ لوگ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأشربة ٦ (٣٣٨١) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٠) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3381) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1295
جانوروں کا ان کے مالکوں کی اجازت کے بغیر دودھ نکالنا
سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی ریوڑ کے پاس (دودھ پینے) آئے تو اگر ان میں ان کا مالک موجود ہو تو اس سے اجازت لے، اگر وہ اجازت دیدے تو دودھ پی لے۔ اگر ان میں کوئی نہ ہو تو تین بار آواز لگائے، اگر کوئی جواب دے تو اس سے اجازت لے لے، اور اگر کوئی جواب نہ دے تو دودھ پی لے لیکن ساتھ نہ لے جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - سمرہ کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں عمر اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٤ - علی بن مدینی کہتے ہیں کہ سمرہ سے حسن کا سماع ثابت ہے، ٥ - بعض محدثین نے حسن کی روایت میں جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے کلام کیا ہے، وہ لوگ کہتے ہیں کہ حسن سمرہ کے صحیفہ سے حدیث روایت کرتے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٩٣ (٢٦١٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم اس پریشان حال اور مضطر و مجبور مسافر کے لیے ہے جسے کھانا نہ ملنے کی صورت میں اپنی جان کے ہلاک ہوجانے کا خطرہ لاحق ہو یہ تاویل اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ حدیث ایک دوسری حدیث «للايحلبنّ أحد ماشية أحدٍ بغير إذنه» کے معارض ہے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سمرہ بن جندب (رض) کے پاس بھی لکھی ہوئی احادیث کا صحیفہ تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2300) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1296
جانوروں کی کھال اور بتوں کو فروخت کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ کے اندر رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے ، عرض کیا گیا، اللہ کے رسول ! مجھے مردار کی چربی کے بارے میں بتائیے، اسے کشتیوں پہ ملا جاتا ہے، چمڑوں پہ لگایا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، یہ جائز نہیں، یہ حرام ہے ، پھر آپ نے اسی وقت فرمایا : یہود پر اللہ کی مار ہو، اللہ نے ان کے لیے چربی حرام قرار دے دی، تو انہوں نے اس کو پگھلایا پھر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٢ (٢٢٣٦) ، والمغازي ٥١ (٤٢٩٦) ، وتفسیر سورة الأنعام ٦ (٤٦٣٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٣ (١٥٨١) ، سنن ابی داود/ البیوع ٦٦ (٢٤٨٦) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٨ (٤٢٦٧) ، والبیوع ٩٣ (٤٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١١ (٢١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٤) ، و مسند احمد (٣/٣٢٤) ، ٣٢٦، ٣٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2167) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1297
کوئی چیز ہبہ کرکے واپس لینا ممنوع ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بری مثال ہمارے لیے مناسب نہیں، ہدیہ دے کر واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٣٠ (٢٦٢٢) ، والحیل ١٤ (٦٩٧٥) ، سنن النسائی/الہبة ٣ (٣٧٢٨، ٣٧٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩٢) ، و مسند احمد (١/٢١٧) وانظر الحدیث الآتي، مایأتي برقم : ٢١٣١ و ٢١٣٢ (صحیح) وانظر أیضا : صحیح البخاری/الہبة ١٤ (٢٥٨٩) ، صحیح مسلم/الہبات ٢ (١٦٢٢) ، سنن النسائی/الہبة ٢ (٣٧٢١-٣٧٢٢) ، و ٣ (٣٧٢٣، ٣٧٢٥-٣٧٢٧، ٣٧٣٠) ، و ٤ (٣٧٣١-٣٧٣٣ ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے ہبہ کو واپس لینے کی شناعت و قباحت واضح ہوتی ہے ، ایک تو ایسے شخص کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے ، دوسرے ہبہ کی گئی چیز کو قے سے تعبیر کیا جس سے انسان انتہائی کراہت محسوس کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2385) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1298
کوئی چیز ہبہ کرکے واپس لینا ممنوع ہے۔
عبداللہ بن عمر اور ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عطیہ دے کر اسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کسی ذی محرم کو کوئی چیز بطور ہبہ دے تو پھر اسے واپس لینے کا اختیار نہیں، اور جو کسی غیر ذی محرم کو کوئی چیز بطور ہبہ دے تو اس کے لیے اسے واپس لینا جائز ہے جب اسے اس کا بدلہ نہ دیا گیا ہو، یہی ثوری کا قول ہے، ٣ - اور شافعی کہتے ہیں : کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کو کوئی عطیہ دے پھر اسے واپس لے، سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے، شافعی نے عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عطیہ دے کر اسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٨٣ (٣٥٣٩) ، سنن النسائی/الہبة ٢ (٣٧٢٠) ، و ٤ (٣٧٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الہبات ١ (٢٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٣ و ٧٠٩٧) ، و مسند احمد (٢/٢٧، ٧٨) (ویأتي برقم ٢١٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2386) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1299
بیع عرایا اور اس کی اجازت
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگا کر اسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - زید بن ثابت (رض) کی حدیث کو محمد بن اسحاق نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور ایوب، عبیداللہ بن عمر اور مالک بن انس نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور اسی سند سے ابن عمر نے زید بن ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ اور یہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٥ (٢١٧٢، ٢١٧٣) ، و ٨٢ (٢١٨٤) ، و ٨٤ (٢١٩٢) ، والشرب والمساقاة ١٧ (٢٣٨٠) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٣٩) ، سنن ابی داود/ البیوع ٢٠ (٣٣٦٢) ، سنن النسائی/البیوع ٣٢ (٤٥٣٦، ٤٥٤٠) ، و ٣٤ (٤٥٤٣، ٤٥٤٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٥ (٢٢٦٨، ٢٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٢٣) ، وط/البیوع ٩ (١٤) ، و مسند احمد (٥/١٨١، ١٨٢، ١٨٨، ١٩٢) ویأتي برقم ١٣٠٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عرایا کی صورت یہ ہے مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دو ایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دیدے لیکن دینے کے بعد باربار اس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے تو کہے : بھائی اندازہ لگا کر خشک یا تر کھجور ہم سے لے لو اور اس درخت کا پھل ہمارے لیے چھوڑ دو ہرچند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن چونکہ یہ ایک ضرورت ہے ، اور وہ بھی مسکینوں کو مل رہا ہے اس لیے اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ ٢ ؎ : مطلب یہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے «عن نافع ، عن ابن عمر ، عن زيد بن ثابت» کے طریق سے : محاقلہ اور مزابنہ سے ممانعت کو عرایا والے جملے کے ساتھ روایت کیا ہے ، جب کہ ایوب وغیرہ نے «عن نافع ، عن ابن عمر» کے طریق سے (یعنی مسند ابن عمر سے) صرف محاقلہ و مزابنہ کی ممانعت والی بات ہی روایت کی ہے ، نیز «عن أيوب ، عن ابن عمر ، عن زيد بن ثابت» کے طریق سے بھی ایک روایت ہے مگر اس میں محمد بن اسحاق والے حدیث کے دونوں ٹکڑے ایک ساتھ نہیں ہیں ، بلکہ صرف «عرایا» والا ٹکڑا ہی ہے ، اور بقول مؤلف یہ روایت زیادہ صحیح ہے (یہ روایت آگے آرہی ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2268 - 2269) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1300
بیع عرایا اور اس کی اجازت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ وسق سے کم میں عرایا کے بیچنے کی اجازت دی ہے یا ایسے ہی کچھ آپ نے فرمایا۔ راوی کو شک ہے کہ حدیث کے یہی الفاظ ہیں یا کچھ فرق ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٩٠) ، والشرب والمساقاة ١٧ (٢٣٨٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤١) ، سنن ابی داود/ البیوع ٢١ (٣٣٦٤) ، سنن النسائی/البیوع ٣٥ (٤٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٣) ، و مسند احمد (٢/٢٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1301
بیع عرایا اور اس کی اجازت
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اندازہ لگا کر عرایا کو بیچنے کی اجازت دی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ جس میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی میں شامل ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے من جملہ جن چیزوں سے منع فرمایا ہے اس سے عرایا مستثنیٰ ہے، اس لیے کہ آپ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ان لوگوں نے زید بن ثابت اور ابوہریرہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پانچ وسق سے کم خریدنا جائز ہے، ٣ - بعض اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پیش نظر اس سلسلہ میں توسع اور گنجائش دینا ہے، اس لیے کہ عرایا والوں نے آپ سے شکایت کی اور عرض کیا کہ خشک کھجور کے سوا ہمیں کوئی اور چیز میسر نہیں جس سے ہم تازہ کھجور خرید سکیں۔ تو آپ نے انہیں پانچ وسق سے کم میں خریدنے کی اجازت دے دی تاکہ وہ تازہ کھجور کھا سکیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٣٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1302
بیع عرایا اور اس کی اجازت
رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مزابنہ یعنی سوکھی کھجوروں کے عوض درخت پر لگی کھجور بیچنے سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اجازت دی، اور خشک انگور کے عوض تر انگور بیچنے سے اور اندازہ لگا کر کوئی بھی پھل بیچنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٩١) ، والشرب والمساقاة ١٧ (٢٣٨٤) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤٠) ، سنن ابی داود/ البیوع ٢٠ (٢٣٦٣) ، سنن النسائی/البیوع ٣٥ (٤٥٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٢ و ٤٦٤٦) و مسند احمد (٤/٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1303
دلالی میں قیمت زیادہ لگانا حرام ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نجش نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے «نجش» کو ناجائز کہا ہے، ٤ - «نجش» یہ ہے کہ ایسا آدمی جو سامان کے اچھے برے کی تمیز رکھتا ہو سامان والے کے پاس آئے اور اصل قیمت سے بڑھا کر سامان کی قیمت لگائے اور یہ ایسے وقت ہو جب خریدار اس کے پاس موجود ہو، مقصد صرف یہ ہو کہ اس سے خریدار دھوکہ کھاجائے اور وہ (دام بڑھا چڑھا کر لگانے والا) خریدنے کا خیال نہ رکھتا ہو بلکہ صرف یہ چاہتا ہو کہ اس کی قیمت لگانے کی وجہ سے خریدار دھوکہ کھاجائے۔ یہ دھوکہ ہی کی ایک قسم ہے، ٥ - شافعی کہتے ہیں : اگر کوئی آدمی «نجش» کرتا ہے تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ یعنی «نجش» کرنے والا گنہگار ہوگا اور بیع جائز ہوگی، اس لیے کہ بیچنے والا تو «نجش» نہیں کر رہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، و ٦٤ (٢١٥٠) ، و ٧٠ (٢١٦٠) ، والشروط ٨ (٢٧٢٣) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣/٥٢) ، سنن ابی داود/ البیوع ٤٦ (٣٤٣٨) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٥١٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٣ (٢١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، و موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٦) ، و مسند احمد (٢/٢٣٨، ٤٧٤، ٤٨٧) ، وانظر ما تقدم بأرقام : ١١٣٤، ١١٩٠، ١٢٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2174) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1304
تولتے وقت جھکاؤ
سوید بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عبدی دونوں مقام ہجر سے ایک کپڑا لے آئے، نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے ہم سے ایک پائجامے کا مول بھاؤ کیا۔ میرے پاس ایک تولنے ولا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا تو نبی اکرم ﷺ نے تولنے والے سے فرمایا : جھکا کر تول ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - سوید (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم جھکا کر تولنے کو مستحب سمجھتے ہیں، ٣ - اس باب میں جابر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو سماک سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے «عن سوید بن قیس» کی جگہ «عن ابی صفوان» کہا ہے پھر آگے حدیث ذکر کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٧ (٣٣٣٦) ، سنن النسائی/البیوع ٥٤ (٤٥٩٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٤ (٢٢٢٠) ، واللباس ١٢ (٣٥٧٩) (تحفة الأشراف : ٤٨١٠) ، و مسند احمد ٤/٣٥٢) ، وسنن الدارمی/البیوع ٤٧ (٢٦٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2220) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1305
تنگ دست کے لئے قرض کی ادائیگی میں مہلت اور اس سے نرمی کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی تنگ دست (قرض دار) کو مہلت دے یا اس کا کچھ قرض معاف کر دے، تو اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابویسر (کعب بن عمرو) ، ابوقتادہ، حذیفہ، ابن مسعود، عبادہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر مسند احمد (٢/٣٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 37) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1306
تنگ دست کے لئے قرض کی ادائیگی میں مہلت اور اس سے نرمی کرنا
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں سے ایک آدمی کا حساب (اس کی موت کے بعد) لیا گیا، تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ملی، سوائے اس کے کہ وہ ایک مالدار آدمی تھا، لوگوں سے لین دین کرتا تھا اور اپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ (تقاضے کے وقت) تنگ دست سے درگزر کریں، تو اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا : ہم اس سے زیادہ اس کے (درگزر کے) حقدار ہیں، تم لوگ اسے معاف کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٦ (البیوع ٢٧) ، (١٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٢) ، و مسند احمد (٤/١٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1307
مال دار کی قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرناظلم ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا : مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ١ ؎ اور جب تم میں سے کوئی کسی مالدار کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی اسے قبول کرے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابن عمر اور شرید بن سوید ثقفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحوالة ٢ (٢٢٨٨) ، والاستقراض ١٢ (٢٤٠٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ٧ (البیوع ٢٨) (١٥٦٤) ، سنن ابی داود/ البیوع ١٠ (٣٣٤٥) ، سنن النسائی/البیوع ١٠٠ (٤٦٩٢) ، و ١٠١ (٤٦٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٨ (الأحکام ٤٨) ، (٢٤٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٦٢) ، وط/البیوع ٤٠ (٨٤) ، و مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٤، ٢٦٠، ٣١٥، ٣٧٧، ٣٨٠، ٤٦٣، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٨ (٢٦٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قرض کی ادائیگی کے باوجود قرض ادا نہ کرنا ٹال مٹول ہے ، بلا وجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا کبیرہ گناہ ہے۔ ٢ ؎ : اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کردینا یہی حوالہ ہے ، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید مقابلہ بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کرلے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کرنی چاہیئے ، اس میں گویا حسن معاملہ کی ترغیب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2403) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1308
مال دار کی قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرناظلم ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور جب تم کسی مالدار کے حوالے کئے جاؤ تو اسے قبول کرلو، اور ایک بیع میں دو بیع نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی قرض وصول کرنے میں کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو اسے قبول کرنا چاہیئے، ٣ - بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کو کسی مالدار کے حوالے کیا جائے اور وہ حوالہ قبول کرلے تو حوالے کرنے والا بری ہوجائے گا اور قرض خواہ کے لیے درست نہیں کہ پھر حوالے کرنے والے کی طرف پلٹے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ ٤ - اور بعض اہل علم کہتے ہیں : کہ «محتال علیہ» جس آدمی کی طرف تحویل کیا گیا ہے ، کے مفلس ہوجانے کی وجہ سے اس کے مال کے ڈوب جانے کا خطرہ ہو تو قرض خواہ کے لیے جائز ہوگا کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ جائے، ان لوگوں نے اس بات پر عثمان (رض) وغیرہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے، ٥ - اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : اس حدیث «ليس علی مال مسلم توي» مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے ، کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قرض خواہ کسی کے حوالے کیا گیا اور اسے مالدار سمجھ رہا ہو لیکن درحقیقت وہ غریب ہو تو ایسی صورت میں مسلمان کا مال ضائع نہ ہوگا (اور وہ اصل قرض دار سے اپنا مال طلب کرسکتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصدقات ٨ (الأحکام ٤٨) ، (٢٤٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٣٥) ، و مسند احمد (٢/٧١) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1309
بیع منابذہ اور ملامسہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع منابذہ اور بیع ملامسہ سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوسعید اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے : جب میں تمہاری طرف یہ چیز پھینک دوں تو میرے اور تمہارے درمیان بیع واجب ہوجائے گی۔ (یہ منابذہ کی صورت ہے) اور ملامسہ یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے : جب میں یہ چیز چھولوں تو بیع واجب ہوجائے گی اگرچہ وہ سامان کو بالکل نہ دیکھ رہا ہو۔ مثلاً تھیلے وغیرہ میں ہو۔ یہ دونوں جاہلیت کی مروج بیعوں میں سے تھیں لہٰذا آپ نے اس سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠ (٣٦٨) ، ومواقیت الصلاة ٣٠ (٥٨٤) ، والبیوع ٦٣ (٢١٤٦) ، واللباس ٢٠ (٥٨١٩) ، و ٢١ (٥٨٢١) ، صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥١١) ، سنن النسائی/البیوع ٢٣ (٤٥١٣) ، و ٢٦ (٤٥١٧ و ٤٥٢١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٢ (٢١٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٦١) ، وط/البیوع ٣٥ (٧٦) ، واللباس ٨ (١٧) ، و مسند احمد (٢/٣٧٩، ٤١٩، ٤٦٤) ، ٤٧٦، ٤٨٠) ، ٤٩١) ، ٤٩٦، ٥٢١) ، ٥٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس میں دھوکہ ہے ، «مبیع» (سودا) مجہول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1310
غلہ اور کھجور میں بیع سلم (یعنی پیشگی قیمت ادا کرنا)
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے اور اہل مدینہ پھلوں میں سلف کیا کرتے تھے یعنی قیمت پہلے ادا کردیتے تھے، آپ نے فرمایا : جو سلف کرے وہ متعین ناپ تول اور متعین مدت میں سلف کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن ابی اوفی اور عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ غلہ، کپڑا، اور جن چیزوں کی حد اور صفت معلوم ہو اس کی خریداری کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں، ٤ - جانور خریدنے کے لیے پیشگی رقم دینے میں اختلاف ہے، ٥ - بعض اہل علم جانور خریدنے کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور خریدنے کے لیے پیشگی دینے کو مکروہ سمجھا ہے۔ سفیان اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السلم ١ (٢٢٣٩) ، و ٢ (٢٢٤٠) ، و ٧ (٢٢٥٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٥ (١٦٠٤) ، سنن ابی داود/ البیوع ٥٧ (٣٤٦٣) ، سنن النسائی/البیوع ٦٣ (٤٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٩ (٤٤٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٠) ، و مسند احمد (١/٢١٧، ٢٢٢، ٢٨٢، ٣٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2280) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1311
مشترکہ زمین سے کوئی اپنا حصہ بیچنا چاہے؟
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس آدمی کے باغ میں کوئی ساجھی دار ہو تو وہ اپنا حصہ اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے اپنے ساجھی دار پر پیش نہ کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : سلیمان یشکری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں مرگئے تھے، ان سے قتادہ اور ابوبشر کا سماع نہیں ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : میں نہیں جانتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے سلیمان یشکری سے کچھ سنا ہو سوائے عمرو بن دینار کے، شاید انہوں نے جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں سلیمان یشکری سے حدیث سنی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ قتادہ، سلیمان یشکری کی کتاب سے حدیث روایت کرتے تھے، سلیمان کے پاس ایک کتاب تھی تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ مؤلف، وانظر مسند احمد (٣/٣٥٧) (صحیح لغیرہ) و أخرجہ کل من : صحیح مسلم/المساقاة ٢٨ (البیوع ٤٩) ، (١٦٠٨) ، سنن ابی داود/ البیوع ٧٥ (٣٥١٣) ، سنن النسائی/البیوع ٨٠ (٤٦٥٠) ، و ١٠٧ (٤٧٠٤، ٤٧٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٢) ، و مسند احمد (٣/٣١٢، ٣١٦، ٣٩٧) ، وسنن الدارمی/البیوع ٨٣ (٢٦٧٠) معناہ في سیاق حدیث ” الشفعة “ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (5 / 373) ، أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1312
بیع مخابرہ اور معاومہ
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع محاقلہ، مزابنہ ١ ؎، مخابرہ ٢ ؎ اور معاومہ ٣ ؎ سے منع فرمایا، اور آپ نے عرایا ٤ ؎ کی اجازت دی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٦ (١٥٣٦/٨٥) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣٤ (٣٤٠٤) ، سنن النسائی/الأیمان والمزارعة ٤٥ (٣٩١٠) ، والبیوع ٧٤ (٤٦٣٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٤ (٢٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٦) ، و مسند احمد (٣/٣١٣، ٣٥٦، ٣٦٠، ٣٦٤، ٣٩١، ٣٩٢) وانظر ما تقدم برقم ١٢٩٠، وما عند صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢٣٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : محاقلہ اور مزابنہ کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حدیث رقم ( ١٢٢٤ ) ۔ ٢ ؎ : مخابرہ کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حدیث رقم ( ١٢٩٠ ) ۔ ٣ ؎ : عرایا کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حاشیہ حدیث رقم ( ١٣٠٠ ) ۔ ٤ ؎ : «بیع سنین» کو بیع معاومہ بھی کہتے ہیں ، اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کو کئی سالوں کے لیے بیچ دے ، یہ بیع جائز نہیں ہے کیونکہ یہ معدوم کی بیع کی قبیل سے ہے ، اس میں دھوکہ ہے ، ممکن ہے کہ درخت میں پھل ہی نہ آئے ، یا آئے مگر جتنی قیمت دی ہے اس سے زیادہ پھل آئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1313
انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (غلہ وغیرہ کا) نرخ بڑھ گیا، تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ہمارے لیے نرخ مقرر کر دیجئیے، آپ نے فرمایا : نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، وہی روزی تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا اور کھولنے والا اور بہت روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جان و مال کے سلسلے میں کسی ظلم (کے بدلے) کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٥١ (٣٤٥١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٧ (٢٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨ و ٦١٤ و ١١٥٨) ، و مسند احمد (٣/٢٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2200) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1314
بیع میں دھوکہ دینا حرام ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کردیا، آپ کی انگلیاں تر ہوگئیں تو آپ نے فرمایا : غلہ والے ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ نے فرمایا : اسے اوپر کیوں نہیں کردیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں ، پھر آپ نے فرمایا : جو دھوکہ دے ١ ؎، ہم میں سے نہیں ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، ابوحمراء، ابن عباس، بریدہ، ابوبردہ بن دینار اور حذیفہ بن یمان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ دھوکہ دھڑی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٣ (١٠٢) ، سنن ابی داود/ البیوع ٥٢ (٣٤٥٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٦ (٢٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٩) ، و مسند احمد (٢/٢٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ بیع میں دھوکہ دہی کی مختلف صورتیں ہیں ، مثلاً سودے میں کوئی عیب ہو اسے ظاہر نہ کرنا ، اچھے مال میں ردی اور گھٹیا مال کی ملاوٹ کردینا ، سودے میں کسی اور چیز کی ملاوٹ کردینا تاکہ اس کا وزن زیادہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ ٢ ؎ : ہم میں سے نہیں ، کا مطلب ہے مسلمانوں کے طریقے پر نہیں ، اس کا یہ فعل مسلمان کے فعل کے منافی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2224) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1315
اونٹ یا کوئی جانور قرض لینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض لیا اور آپ نے اسے اس سے بہتر اونٹ دیا اور فرمایا : تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے شعبہ اور سفیان نے بھی سلمہ سے روایت کیا ہے، ٣ - اس باب میں ابورافع (رض) سے بھی روایت ہے، ٤ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کسی بھی عمر کا اونٹ قرض لینے کو مکروہ نہیں سمجھتے ہیں، ٥ - اور بعض لوگوں نے اسے مکروہ جانا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٥ (٢٣٠٥) ، و ٦ (٢٣٠٦) ، والاستقراض ٤ (٢٣٩٠) ، و ٦ (٢٣٩٢) ، و ٧ (٢٣٩٣) ، والہبة ٢٣ (٢٦٠٦) ، و ٢٥ (٢٦٠٩) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٢ (البیوع ٤٣) (١٦٠١) ، سنن النسائی/البیوع ٦٤ (٤٦٢٢) ، و ١٠٣ (٤٦٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٦ (الأحکام ٥٦) ، (٢٣٢٢) ، (مقتصراً علی قولہ المرفوع) (تحفة الأشراف : ١٤٩٦٣) ، و مسند احمد (٢/٣٧٤، ٣٩٣، ٤١٦، ٤٣١) ، ٤٥٦، ٤٧٦، ٥٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1316
اونٹ یا کوئی جانور قرض لینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے (قرض کا) تقاضہ کیا اور سختی کی، صحابہ نے اسے دفع کرنے کا قصد کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو ، کیونکہ حقدار کو کہنے کا حق ہے ، پھر آپ نے فرمایا : اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو ، لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایسا ہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، آپ نے فرمایا : اسی کو خرید کر دے دو ، کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أحاديث البيوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1317
اونٹ یا کوئی جانور قرض لینا
ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض لیا، پھر آپ کے پاس صدقے کا اونٹ آیا تو آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آدمی کا اونٹ ادا کر دوں، میں نے آپ سے عرض کیا : مجھے چار دانتوں والے ایک عمدہ اونٹ کے علاوہ کوئی اور اونٹ نہیں مل رہا ہے، تو آپ نے فرمایا : اسے اسی کو دے دو ، کیونکہ لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں سب سے اچھے ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٢ (البیوع ٤٣) (١٦٠٠) ، سنن ابی داود/ البیوع ١١ (٣٣٤٦) ، سنن النسائی/البیوع ٦٤ (٤٦٢١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٢ (٢٢٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٥) ، وط/البیوع ٤٣ (٨٩) ، و مسند احمد (٦/٣٩٠) ، وسنن الدارمی/البیوع ٣١ (٢٥٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض اگر خود بخود اپنی رضا مندی سے ادائیگی قرض کے وقت واجب الادا قرض سے مقدار میں زیادہ یا بہتر اور عمدہ ادا کرے تو یہ جائز ہے ، اور اگر قرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط کرلے تو یہ سود ہوگا جو بہر صورت حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2285) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1318
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - بعض لوگوں نے اس حدیث کو بسند «عن يونس عن سعيد المقبري عن أبي هريرة» روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٦) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ حسن بصری کا سماع ابی ہریرہ (رض) سے نہیں ہے، انہوں نے تدلیساً ان سے یہ روایت کر سنن الدارمی/ ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة : ٨٩٠٩ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (8909) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1319
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو تم سے پہلے تھا بخش دیا، جو نرمی کرنے والا تھا جب بیچتا اور جب خریدتا اور جب قرض کا مطالبہ کرتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس طریق سے حسن، صحیح، غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٠١٨) وہو عند صحیح البخاری/البیوع ١٦ (٢٠٧٦) ، وق في التجارات ٢٨ (٢٢٠٣) ، بسیاق آخر و مسند احمد (٣/٣٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2203) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1320
مسجد میں خرید و فروخت کی ممانعت کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہو تو کہو : اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اسے) تلاش کرتا ہو تو کہو : اللہ تمہاری چیز تمہیں نہ لوٹائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ مسجد میں خرید و فروخت ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٣ - بعض اہل علم نے اس میں خرید و فروخت کی رخصت دی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٦٨ (١٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں ، یعنی نہ بیچنا بہتر ہے ، مگر یہ نری تاویل ہے ، جب صحیح حدیث میں بالصراحت ممانعت موجود ہے تو پھر مساجد میں خرید و فروخت سے باز رہتے ہوئے بازار اور مساجد میں فرق کو قائم رکھنا چاہیئے ، پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے احکام کی نافرمانیوں اور غلط تاویلوں کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔ «اللهم أحفظنا بما تحفظ به عبادک الصالحين » قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (733) ، الإرواء (1495) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1321