15. فیصلوں کا بیان
قاضی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے منقول احادیث
عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ عثمان (رض) نے ابن عمر (رض) سے کہا : جاؤ (قاضی بن کر) لوگوں کے درمیان فیصلے کرو، انہوں نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ مجھے معاف رکھیں گے، عثمان (رض) نے کہا : تم اسے کیوں برا سمجھتے ہو، تمہارے باپ تو فیصلے کیا کرتے تھے ؟ اس پر انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو قاضی ہوا اور اس نے عدل انصاف کے ساتھ فیصلے کئے تو لائق ہے کہ وہ اس سے برابر سرابر چھوٹ جائے (یعنی نہ ثواب کا مستحق ہو نہ عقاب کا) ، اس کے بعد میں (بھلائی کی) کیا امید رکھوں، حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث غریب ہے، میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے۔ اور عبدالملک جس سے معتمر نے اسے روایت کیا ہے عبدالملک بن ابی جمیلہ ہیں، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٢٨٨) (ضعیف) (سند میں عبد الملک بن ابی جمیلہ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف تخريج المشکاة (3743 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (2 / 132) ، التعليق علی الأحاديث المختارة رقم (348 و 349) // ضعيف الجامع الصغير (5799) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1322
قاضی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے منقول احادیث
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو قضاء کا مطالبہ کرتا ہے وہ اپنی ذات کے حوالے کردیا جاتا ہے (اللہ کی مدد اس کے شامل حال نہیں ہوتی) اور جس کو جبراً قاضی بنایا جاتا ہے، اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اسے راہ راست پر رکھتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأقضیة ٣ (٣٥٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١ (٢٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٦) ، و مسند احمد (٣/١١٨) (ضعیف) (سند میں بلال لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2309) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (507) ، ضعيف الجامع الصغير (5614) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1323
قاضی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے منقول احادیث
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو قضاء کا طالب ہوتا ہے اور اس کے لیے سفارشی ڈھونڈتا ہے، وہ اپنی ذات کے سپرد کردیا جاتا ہے، اور جس کو جبراً قاضی بنایا گیا ہے، اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کو راہ راست پر رکھتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اور یہ اسرائیل کی (سابقہ) روایت سے جسے انہوں نے عبدالاعلیٰ سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٨٢٥) (ضعیف) (اس کی سند میں بھی وہی بلال ہیں جو لین الحدیث ہیں، نیز ” خیثمہ بصری “ بھی لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2309) // ضعيف الجامع الصغير (5320) ، الضعيفة (1154) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1324
قاضی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے منقول احادیث
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو منصب قضاء پر فائز کیا گیا یا جو لوگوں کا قاضی بنایا گیا، (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کیا گیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ٢ - اور یہ اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأقضیة ١ (٣٥٧١) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١ (٢٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٠٢) ، و مسند احمد ٢/٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک قول کے مطابق ذبح کا معنوی مفہوم مراد ہے کیونکہ اگر اس نے صحیح فیصلہ دیا تو دنیا والے اس کے پیچھے پڑجائیں گے اور اگر غلط فیصلہ دیا تو وہ آخرت کے عذاب کا مستحق ہوگا ، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ اسے خبردار اور متنبہ کیا جائے کہ اس ہلاکت سے مراد اس کے دین و آخرت کی تباہی و بربادی ہے ، بدن کی نہیں ، یا یہ کہ چھری سے ذبح کرنے میں مذبوح کے لیے راحت رسانی ہوتی ہے اور بغیر چھری کے گلا گھوٹنے یا کسی اور طرح سے زیادہ تکلیف کا باعث ہوتا ہے ، لہٰذا اس کے ذکر سے ڈرانے اور خوف دلانے میں مبالغہ کا بیان ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2308) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1325
قاضی کا فیصلہ صحیح بھی ہوتا ہے اور غلط بھی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے ١ ؎ اور جب فیصلہ کرے اور غلط ہوجائے تو (بھی) اس کے لیے ایک اجر ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس باب میں عمرو بن العاص اور عقبہ بن عامر سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢ - ابوہریرہ کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے۔ ہم اسے بسند «سفيان الثوري عن يحيى بن سعيد الأنصاري» إلا من حديث «عبدالرزاق عن معمر عن سفيان الثوري» روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢١ (٧٣٥٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٦ (١٧١٦) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ٢ (٣٥٧٤) ، سنن النسائی/القضاة ٣ (٥٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣ (٢٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٧) ، و مسند احمد (٤/١٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک غور وفکر کرنے اور حق تک پہنچنے کی کوشش کرنے کا اور دوسرا صحیح بات تک پہنچنے کا ٢ ؎ : اسے صرف اس کی جدوجہد اور سعی و کوشش کا اجر ملے گا جو حق کی تلاش میں اس نے صرف کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2314) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1326
قاضی کیسے فیصلے کرے
معاذ بن جبل (رض) کے شاگردوں میں سے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ کو (قاضی بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ نے پوچھا : تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟ ، انہوں نے کہا : میں اللہ کی کتاب سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا : اگر (اس کا حکم) اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہ ہو تو ؟ معاذ نے کہا : تو رسول اللہ ﷺ کی سنت سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا : اگر رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی (اس کا حکم) موجود نہ ہو تو ؟ ، معاذ نے کہا : (تب) میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آپ نے فرمایا : اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو (صواب کی) توفیق بخشی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأقضیة ١١ (٣٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٣) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٢٠ (١٧٠) (ضعیف) (سند میں ” الحارث بن عمرو “ اور ” رجال من اصحاب معاذ “ مجہول راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (881) //، ضعيف أبي داود (770 / 3592) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1327
قاضی کیسے فیصلے کرے
اس سند سے بھی معاذ سے اسی طرح کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢ - اور اس کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے، ٣ - ابو عون ثقفی کا نام محمد بن عبیداللہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1328
عادل امام
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بیٹھنے میں اس کے سب سے قریب عادل حکمراں ہوگا، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور اس سے سب سے دور بیٹھنے والا ظالم حکمراں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٢٨) (ضعیف) (سند میں ” عطیہ عوفی “ ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الروض النضير (2 / 356 - 357) ، الضعيفة (1156) ، المشکاة (3704 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1363) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1329
عادل امام
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے ١ ؎ جب تک وہ ظلم نہیں کرتا، اور جب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اسے چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے۔ اور اس سے شیطان چمٹ جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف عمران بن قطان کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢ (٢٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ٥١٦٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2312) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1330
قاضی اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک کہ فریقین کے بیانات نہ سن لے
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہارے پاس دو آدمی فیصلہ کے لیے آئیں تو تم پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو ١ ؎ عنقریب تم جان لو گے کہ تم کیسے فیصلہ کرو ۔ علی (رض) کہتے ہیں : اس کے بعد میں برابر فیصلے کرتا رہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأقضیة ٦ (٣٥٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨١) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” حنش “ ضعیف ہیں، دیکھئے : الإرواء رقم : ٢٦٠٠ ) وضاحت : ١ ؎ : اور اگر دوسرا فریق خاموش رہے ، عدالت کے سامنے کچھ نہ کہے ، نہ اقرار کرے نہ انکار یا دوسرا فریق عدالت کی طلبی کے باوجود عدالت میں بیان دینے کے لیے حاضر نہ ہو تو کیا دوسرے فریق کے خلاف فیصلہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ قرین صواب بات یہی ہے کہ اس صورت میں عدالت یک طرفہ فیصلہ دینے کی مجاز ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (2600) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1331
رعایا کی خبرگیری
عمرو بن مرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے معاویہ (رض) سے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو بھی حاکم حاجت مندوں، محتاجوں اور مسکینوں کے لیے اپنے دروازے بند رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضرورت، حاجت اور مسکنت کے لیے اپنے دروازے بند رکھتا ہے ، جب معاویہ (رض) نے یہ سنا تو لوگوں کی ضرورت کے لیے ایک آدمی مقرر کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عمرو بن مرہ (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢ - یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی مروی ہے، ٣ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - عمرو بن مرہ جہنی کی کنیت ابومریم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر مسند احمد (٤/٢٣١) (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٩) (صحیح) (اگلی حدیث اور معاذ (رض) کی حدیث کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابوالحسن جزری “ مجہول اور ” اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر “ ضعیف ہیں ۔ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3728 / التحقيق الثانی) ، الصحيحة (629) ، صحيح أبي داود (2614) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1332
رعایا کی خبرگیری
ابومریم (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ یزید بن ابی مریم شام کے رہنے والے ہیں اور برید بن ابی مریم کوفہ کے رہنے والے ہیں اور ابومریم کا نام عمرو بن مرہ جہنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٢١٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1332
قاضی غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کو جو قاضی تھے خط لکھا کہ تم غصہ کی حالت میں فریقین کے بارے میں فیصلے نہ کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : حاکم غصہ کی حالت میں فریقین کے درمیان فیصلے نہ کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوبکرہ کا نام نفیع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ١٣ (٧١٥٨) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٧ (١٧١٧) ، سنن النسائی/آداب القضاة ١٨ (٤٥٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٤ (٢٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٦) ، و مسند احمد (٥/٣٦، ٣٧، ٤٦، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لیے کہ غصے کی حالت میں فریقین کے بیانات پر صحیح طور سے غور و فکر نہیں کیا جاسکتا ، اسی پر قیاس کرتے ہوئے ہر اس حالت میں جو فکر انسانی میں تشویش کا سبب ہو فیصلہ کرنا مناسب نہیں اس لیے کہ ذہنی تشویش کی حالت میں صحیح فیصلہ تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2316) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1334
امراء کو تحفے دینا
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے (قاضی بنا کر) یمن بھیجا، جب میں روانہ ہوا تو آپ نے میرے پیچھے (مجھے بلانے کے لیے) ایک آدمی کو بھیجا، میں آپ کے پاس واپس آیا تو آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں بلانے کے لیے آدمی کیوں بھیجا ہے ؟ (یہ کہنے کے لیے کہ) تم میری اجازت کے بغیر کوئی چیز نہ لینا، اس لیے کہ وہ خیانت ہے، اور جو شخص خیانت کرے گا قیامت کے دن خیانت کے مال کے ساتھ حاضر ہوگا، یہی بتانے کے لیے میں نے تمہیں بلایا تھا، اب تم اپنے کام پر جاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - معاذ (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے اس طریق سے بروایت ابواسامہ جانتے ہیں جسے انہوں نے داود اودی سے روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں عدی بن عمیرہ، بریدہ، مستور بن شداد، ابوحمید اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٥٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” داود بن یزید اودی “ ضعیف ہیں، لیکن دیگر احادیث سے اس کا معنی ثابت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1335
مقدمات میں رشوت لینے اور دینے والا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے بھی مروی ہے انہوں عبداللہ بن عمرو سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٣ - اور ابوسلمہ سے ان کے باپ کے واسطے سے بھی مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے، ٤ - میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کو کہتے سنا کہ ابوسلمہ (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اس باب میں سب سے زیادہ اچھی اور سب سے زیادہ صحیح ہے (جو آگے آرہی ہے) ۔ ٥ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابن حدیدہ اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٤) ، وانظر مسند احمد ٥ (٢/٣٨٧، ٣٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس سے حقوق العباد کی پامالی ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2313) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1336
مقدمات میں رشوت لینے اور دینے والا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأقضیة ٤ (٣٥٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢ (٢٣١٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٤) ، و مسند احمد (١٦٤، ١٩٠، ١٩٤، ٢١٢) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1337
تحفہ اور دعوت قبول کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے کھر بھی ہدیہ کی جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر مجھے اس کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، عائشہ، مغیرہ بن شعبہ، سلمان، معاویہ بن حیدہ اور عبدالرحمٰن بن علقمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ غریب آدمی کی دعوت اور معمولی ہدیہ کو بھی قبول کیا جائے ، اسے کم اور حقیر سمجھ کر رد نہ کیا جائے ، اس سے نبی اکرم ﷺ کی تواضع اور سادگی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنے سادہ اور متواضع تھے ، اپنے لیے آپ کسی تکلف اور اہتمام کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح الجامع (5257 و 5268) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1338
اگرغیرمستحق کے حق میں فیصلہ ہوجائے تو اسے وہ چیز لینا جائز نہیں
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ١ ؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٦ (٢٤٩٨) ، والشہادات ٢٧ (٢٦٨٠) ، والحیل ١٠ (٦٩٦٧) ، والأحکام ٢٠ (٧١٦٩) ، و ٢٩ (٧١٨١) ، و ٣ (٧١٨٥) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٣ (١٧١٣) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ٧ (٣٥٨٣) ، سنن النسائی/القضاة ١٣ (٥٤٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٥ (٢٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦١) ، وط/الأقضیة ١ (١) ، و مسند احمد (٦/٣٠٧، ٣٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔ ٢ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے ، حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا ، اور نفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام ، جمہور کی یہی رائے ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہوجاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجود یہ کہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہوجائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1339
مدعی کے لئے گواہ اور مدعی علیہ پر قسم ہے
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمی ایک حضر موت سے اور ایک کندہ سے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے۔ حضرمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس (کندی) نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے، اس پر کندی نے کہا : یہ میری زمین ہے اور میرے قبضہ میں ہے، اس پر اس (حضرمی) کا کوئی حق نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرمی سے پوچھا : تمہارے پاس کوئی گواہ ہے ؟ ، اس نے عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : پھر تو تم اس سے قسم ہی لے سکتے ہو ، اس آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ فاجر آدمی ہے اسے اس کی پرواہ نہیں کہ وہ کس بات پر قسم کھا رہا ہے۔ اور نہ وہ کسی چیز سے احتیاط برتتا ہے، آپ نے فرمایا : اس سے تم قسم ہی لے سکتے ہو ۔ آدمی قسم کھانے چلا تو رسول اللہ ﷺ نے جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا فرمایا : اگر اس نے ظلماً تمہارا مال کھانے کے لیے قسم کھائی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے رخ پھیرے ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - وائل بن حجر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، اور اشعث بن قیس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٦١ (٢٢٣) ، سنن ابی داود/ الأیمان والنذور ٢ (٣٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٨) ، و مسند احمد (٤/٣١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2632) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1340
مدعی کے لئے گواہ اور مدعی علیہ پر قسم ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا : گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کی سند میں کلام ہے۔ محمد بن عبیداللہ عرزمی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ ابن مبارک وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٩٤) (حسن) (شواہد اور متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” محمد بن عبیداللہ عزرمی “ ضعیف ہیں، دیکھئے الارواء رقم : ٢٦٤١ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (8 / 265 - 267) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1341
مدعی کے لئے گواہ اور مدعی علیہ پر قسم ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ قسم مدعی علیہ پر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ پر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرہن ٦ (٢٥١٤) ، والشہادات ٢٠ (٢٦٦٨) ، وتفسیر سورة آل عمران ٣ (٤٥٥٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة ١ (١٧١١) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ٢٣ (٣٦١٩) ، سنن النسائی/القضاة ٣٦ (٥٤٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٧ (٢٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٩٢) ، و مسند احمد (١/٢٠٣، ٢٨٨، ٣٤٣، ٣٥١، ٣٥٦، ٣٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2641) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1342
اگر ایک گواہ ہو تو مدعی قسم کھائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا۔ ربیعہ کہتے ہیں : مجھے سعد بن عبادہ کے بیٹے نے خبر دی کہ ہم نے سعد (رض) کی کتاب میں لکھا پایا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس باب میں علی، جابر، ابن عباس اور سرق (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأقضیة ٢١ (٣٦١٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣١ (٢٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہو تو دوسرے گواہ کے بدلے مدعی سے قسم لے کر قاضی اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا ، جمہور کا یہی مذہب ہے کہ مالی معاملات میں ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ درست ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2368 - 2671) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1343
اگر ایک گواہ ہو تو مدعی قسم کھائے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک گواہ اور مدی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣١ (٢٣٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1343) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1344
اگر ایک گواہ ہو تو مدعی قسم کھائے
ابو جعفر صادق سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا، راوی کہتے ہیں : اور علی نے بھی اسی سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، ٢ - اسی طرح سفیان ثوری نے بھی بطریق : «عن جعفر بن محمد عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے۔ اور عبدالعزیز بن ابوسلمہ اور یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کو بطریق : «عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» (مرفوعاً ) روایت کیا ہے، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ حقوق اور اموال کے سلسلے میں ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم کھلانا جائز ہے۔ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے صرف حقوق اور اموال کے سلسلے ہی میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ٤ - اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٩٣٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : باب کی یہ احادیث اہل کوفہ کے خلاف حجت ہیں ، ان کا استدلال «وأشهدوا ذوي عدل منکم إذا استشهدوا شهدين من رجالکم» سے استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل نہیں۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1345
مشترکہ غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا ، اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو غلام کی واجبی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو وہ اس مال سے باقی شریکوں کا حصہ ادا کرے گا اور غلام (پورا) آزاد ہوجائے گا ورنہ جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی آزاد ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے سالم بن عبداللہ نے بھی بطریق : «عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٥ (٢٤٩١) ، و ١٤ (٢٥٠٣) ، والعتق ٤ (٢٥٢٢) ، صحیح مسلم/العتق ١ (١٥٠١) ، الأیمان والنذور ١٢ (١٥٠١/٤٧-٥٠) ، سنن ابی داود/ العتق ٦ (٣٩٤٠) ، سنن النسائی/البیوع ١٠٥ (٤٧١٢) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٧ (٢٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥) ، وط/العتق ١ (١) و مسند احمد (٢/٢، ١٥، ٣٤، ٧٧، ١٠٥، ١١٢، ١٤٢، ١٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2528) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1346
مشترکہ غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی قیمت کو پہنچ رہا ہو (تو وہ باقی شریکوں کا حصہ بھی ادا کرے گا) اور وہ اس کے مال سے آزاد ہوجائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٦٩٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2528) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1347
مشترکہ غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا تو باقی حصے کی آزادی بھی اسی کے مال سے ہوگی اگر اس کے پاس مال ہے، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی، پھر غلام کو پریشانی میں ڈالے بغیر اسے موقع دیا جائے گا کہ وہ کمائی کر کے اس شخص کا حصہ ادا کر دے جس نے اپنا حصہ آزاد نہیں کیا ہے ۔
عمر بھر کے لئے کوئی چیز ھبہ کرنا
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمریٰ ١ ؎ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہوجاتا ہے ، یا فرمایا : عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کی میراث ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں زید بن ثابت، جابر، ابوہریرہ، عائشہ، عبداللہ بن زبیر اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٨٧ (٣٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کسی کو عمر بھر کے لیے کوئی چیز ہبہ کرنے کو عمریٰ کہتے ہیں ، مثلاً یوں کہے کہ میں نے تمہیں یہ گھر تمہاری عمر بھر کے لیے دے دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1349
عمر بھر کے لئے کوئی چیز ھبہ کرنا
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس آدمی کو عمریٰ دیا گیا وہ اس کا ہے اور اس کے گھر والوں یعنی ورثاء کا ہے کیونکہ وہ اسی کا ہوجاتا ہے جس کو دیا جاتا ہے، عمری دینے والے کی طرف نہیں لوٹتا ہے اس لیے کہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں میراث ثابت ہوگئی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور اسی طرح معمر اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے مالک کی روایت ہی کی طرح روایت کی ہے اور بعض نے زہری سے روایت کی ہے، مگر اس نے اس میں «ولعقبه» کا ذکر نہیں کیا ہے، ٣ - اور یہ حدیث اس کے علاوہ اور بھی سندوں سے جابر سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمریٰ جس کو دیا جاتا ہے اس کے گھر والوں کا ہوجاتا ہے اور اس میں «لعقبه» کا ذکر نہیں ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٤ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب دینے والا یہ کہے کہ یہ تیری عمر تک تیرا ہے اور تیرے بعد تیری اولاد کا ہے تو یہ اسی کا ہوگا جس کو دیا گیا ہے۔ اور دینے والے کے پاس لوٹ کر نہیں جائے گا اور جب وہ یہ نہ کہے کہ (تیری اولاد) کا بھی ہے تو جسے دیا گیا ہے اس کے مرنے کے بعد دینے والے کا ہوجائے گا۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے ١ ؎، ٥ - اور دیگر کئی سندوں سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمریٰ جسے دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہوجائے گا ، ٦ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں : جس کو گھر دیا گیا ہے اس کے مرنے کے بعد وہ گھر اس کے وارثوں کا ہوجائے گا اگرچہ اس کے وارثوں کو نہ دیا گیا ہو۔ سفیان ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٣٢ (٢٦٢٥) ، صحیح مسلم/الہبات ٤ (١٦٢٦) ، سنن ابی داود/ البیوع ٨٧ (٣٥٥٠-٣٥٥٢) ، و ٨٨ (٣٥٥٣- ٣٥٥٧) و ٨٩ (٣٥٥٨) ، سنن النسائی/العمری ٢ (٣٧٥٨، ٣٧٦٠-٣٧٦٢، و ٣٧٦٦-٣٧٧٠) ، و ٣ (٧٧١-٣٧٧٣، ٣٧٨٢) ، ٤ (٣٧٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الہبات ٣ (٢٣٨٠) ، و ٤ (٢٣٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان کا کہنا ہے کہ اس نے اس آدمی کو اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا اختیار دیا تھا نہ کہ اس چیز کا اسے مالک بنادیا تھا۔ ٢ ؎ : عمرہ کی تین قسمیں ہیں : ایک ہمیشہ ہمیش کے لیے دینا ، مثلاً یوں کہے کہ یہ مکان ہمیشہ کے لیے تمہارا ہے یا یوں کہے کہ یہ چیز تیرے اور تیرے وارثوں کے لیے ہے ، تو یہ اس کی ملکیت میں دینا اور ہبہ کرنا ہوگا جو دینے والے کی طرف لوٹ کر نہیں آئے گا ، دوسری قسم وہ ہے جو وقت کے ساتھ مقید ہو ، مثلاً یوں کہے کہ یہ چیز تمہاری زندگی تک تمہاری ہے اس صورت میں نہ یہ ہبہ شمار ہوگی نہ تملیک بلکہ یہ عارضی طور پر ایک مخصوص مدت تک کے لیے عاریۃً دینا شمار ہوگا ، مدت ختم ہونے کے ساتھ یہ چیز پہلے کی طرف لوٹ جائے گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس شرط کے ساتھ عمریٰ صحیح نہیں ، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ اس طرح مشروط طور پر عمریٰ کرنا صحیح ہے مگر شرط فاسد ہے ، پہلے کی طرف نہیں لوٹے گی ، لیکن راجح قول پہلا ہی ہے ، آخری دونوں قول مرجوح ہیں ، اور تیسری قسم بغیر کسی شرط کے دینا ہے ، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے اپنا مکان تمہارے لیے عمریٰ کیا ، جمہور نے اس صورت کو بھی تملیک پر محمول کیا ہے ، اس صورت میں بھی وہ چیز پہلے کی طرف واپس نہیں ہوگی ، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ منافع کی ملکیت کی صورت ہے ، رقبہ کی ملکیت کی نہیں ، لہٰذا جسے یہ چیز عمریٰ کی گئی ہے اس کی موت کے بعد وہ پہلے کی طرف لوٹ آئے گی ، لیکن راجح جمہو رہی کا قول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2380) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1350
رقبیٰ
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہے اور رقبیٰ ١ ؎ بھی جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اور بعض نے اسی سند سے ابوزبیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسے جابر سے موقوفاً نقل کیا ہے، اسے نبی اکرم ﷺ تک مرفوع نہیں کیا ہے، ٣ - رقبیٰ کی تفسیر یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے کہ یہ چیز جب تک تم زندہ رہو گے تمہاری ہے اور اگر تم مجھ سے پہلے مرگئے تو یہ پھر میری طرف لوٹ آئے گی، ٤ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ کی طرح رقبیٰ بھی جسے دیا گیا ہے اس کے گھر والوں ہی کا ہوگا۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے عمریٰ اور رقبیٰ کے درمیان فرق کیا ہے، ان لوگوں نے عمریٰ کو تو معمر (جس کے نام چیز دی گئی تھی) کی موت کے بعد اس کے ورثاء کا حق بتایا ہے اور رقبیٰ کو کہا ہے کہ ورثاء کا حق نہیں ہوگا بلکہ وہ دینے والی کی طرف لوٹ جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٢٧٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «رقبیٰ» ، «رقب» سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔ اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔ موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔ واہب کو بھی نہیں لوٹے گی ، جیسے عمریٰ میں ہے۔ رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی ، تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی ، اور اگر میں مرگیا تو تمہاری ہی رہے گی ، پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔ اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2383) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1351
لوگوں کے درمیان صلح کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث
عمرو بن عوف مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٣ (٢٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٥) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ ” کثیر بن عبداللہ “ ضعیف راوی ہیں، دیکھئے : الارواء رقم ١٣٠٣ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2353) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1352
پڑوسی کی دیوار پر لکڑی رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم میں سے کسی کا پڑوسی اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اس سے اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے ۔ ابوہریرہ (رض) نے جب یہ حدیث بیان کی تو لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے تو انہوں نے کہا : کیا بات ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ اس سے اعراض کر رہے ہو ؟ اللہ کی قسم میں اسے تمہارے شانوں پر مار کر ہی رہوں گا یعنی تم سے اسے بیان کر کے ہی رہوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس اور مجمع بن جاریہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ شافعی بھی اسی کے قائل ہیں، ٤ - بعض اہل علم سے مروی ہے : جن میں مالک بن انس بھی شامل ہیں کہ اس کے لیے درست ہے کہ اپنے پڑوسی کو دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع کر دے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٠ (٢٤٦٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٩ (البیوع ٥٠) ، (١٦٠٩) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ٣١ (٣٦٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٥ (٢٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٤) ، وط/الأقضیة ٢٦ (٣٢) ، و مسند احمد (٢/٣٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2335) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1353
قسم دلانے والے کی تصدیق پر ہی قسم صحیح ہوتی ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم اسی چیز پر واقع ہوگی جس پر تمہارا ساتھی (فریق مخالف) قسم لے رہا ہے (توریہ کا اعتبار نہیں ہوگا) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے ہشیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے عبداللہ بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔ اور عبداللہ بن ابی صالح، سہیل بن ابی صالح کے بھائی ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ٤ - ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب قسم لینے والا ظالم ہو تو قسم کھانے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا، اور جب قسم لینے والا مظلوم ہو تو قسم لینے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان والنذور ٤ (١٦٥٣) ، سنن ابی داود/ الأیمان والنذور ٨ (٣٢٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٤ (٢١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٢٦) ، و مسند احمد (٢/٢٢٨) ، و سنن الدارمی/النذور ١١ (٢٣٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2121) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1354
اختلاف کی صورت میں راستہ کتنا بڑا بنایا جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راستہ سات ہاتھ (چوڑا) رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢١٨) ، وانظر ما یأتي (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2338) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1355
اختلاف کی صورت میں راستہ کتنا بڑا بنایا جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب راستے کے سلسلے میں تم میں اختلاف ہو تو اسے سات ہاتھ (چوڑا) رکھو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ (سابقہ) وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٢ - بشیر بن کعب کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، اور بعض نے اسے قتادہ سے اور قتادہ نے بشیر بن نہیک سے اور بشیر نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور یہ غیر محفوظ ہے، ٣ - اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٩ (٢٤٧٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٣١ (البیوع ٥٢) ، (١٦١٣) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ٣١ (٣٦٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٦ (٢٣٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٢٣) ، و مسند احمد (٢/٤٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سات ہاتھ راستہ آدمیوں اور جانوروں کے آنے جانے کے لیے کافی ہے ، جسے دونوں فریق کو مل کر چھوڑنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1356
والدین کی جدائی کے وقت بچے کو اختیار دیا جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بچے کو اختیار دیا کہ چاہے وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے اور چاہے اپنی ماں کے ساتھ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عبدالحمید بن جعفر کے دادا (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ماں باپ کے درمیان بچے کے سلسلے میں اختلاف ہوجائے تو بچے کو اختیار دیا جائے گا چاہے وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے اور چاہے وہ اپنی ماں کے ساتھ رہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بچہ کم سن ہو تو اس کی ماں زیادہ مستحق ہے۔ اور جب وہ سات سال کا ہوجائے تو اس کو اختیار دیا جائے، چاہے تو باپ کے ساتھ رہے یا چاہے تو ماں کے ساتھ رہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ٣٥ (٢٢٧٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٢ (٣٥٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٢ (٢٣٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٣) ، و مسند احمد (٢/٤٤٧) ، وسنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2351) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1357
باپ اپنے بیٹے کے مال میں سے جو چاہے لے سکتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض لوگوں نے عمارہ بن عمیر سے اور عمارہ نے اپنی ماں سے اور ان کی ماں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، لیکن اکثر راویوں نے «عن أمّه» کے بجائے «عن عمته» کہا ہے یعنی عمارہ بن عمیر نے اپنی پھوپھی سے اور انہوں نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باپ کو بیٹے کے مال میں کلی اختیار ہے وہ جتنا چاہے لے سکتا ہے، ٥ - اور بعض کہتے ہیں کہ باپ اپنے بیٹے کے مال سے بوقت ضرورت ہی لے سکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٧٩ (٣٥٢٨) ، سنن النسائی/البیوع ١ (٤٤٥٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١ (٢١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩٢) ، و مسند احمد (٦/٣١، ٤٢، ١٢٧، ١٦٢، ١٩٣، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٦ (٢٥٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی معنی کی ایک حدیث مروی ہے ، «أَنْتَ وَ مَالُكَ لأَبِيْكَ» یعنی تم اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے (سنن ابی داود رقم : ٣٥٣٠ /صحیح) اس میں بھی عموم ہے ، ضرورت کی قید نہیں ہے ، اور عائشہ (رض) کی اس حدیث میں سنن أبی داود میں (برقم : ٣٥٢٩ ) جو «إذا احتجتم» جب تم ضرورت مند ہو کی زیادتی ہے وہ بقول ابوداؤد منکر ہے ، لیکن لڑکے کی وفات پر (پوتے کی موجودگی میں) باپ کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے ، اس سے حدیث کی تخصیص ہوجاتی ہے۔ یعنی بیٹے کا کل مال باپ کی ملکیت نہیں ، صرف بقدر ضرورت ہی لے سکتا ہے۔ «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2137) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1358
کسی شخص کی کوئی چیز توڑی جائے تو؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی کسی بیوی نے آپ کے پاس پیالے میں کھانے کی کوئی چیز ہدیہ کی، عائشہ (رض) نے (غصے میں) اپنے ہاتھ سے پیالے کو مار کر اس کے اندر کی چیز گرا دیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کھانے کے بدلے کھانا اور پیالے کے بدلے پیالہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٧٧) ، وراجع : صحیح البخاری/المظالم ٣٤ (٢٤٨١) ، والنکاح ١٠٧ (٥٢٢٥) ، سنن ابی داود/ البیوع ٩١ (٣٥٦٧) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٤ (٣٤٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٤ (٢٣٣٤) ، مسند احمد (٣/١٠٥، ٢٦٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٨ (٢٦٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی کوئی چیز کسی سے تلف ہوجائے تو وہ ویسی ہی چیز تاوان میں دے اور جب اس جیسی چیز دستیاب نہ ہو تو اس صورت میں اس کی قیمت ادا کرنا اس کے ذمہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2334) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1359
کسی شخص کی کوئی چیز توڑی جائے تو؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک پیالہ منگنی لیا وہ ٹوٹ گیا، تو آپ نے جن سے پیالہ لیا تھا انہیں اس کا تاوان ادا کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث محفوظ نہیں ہے، ٢ - سوید نے مجھ سے وہی حدیث بیان کرنی چاہی تھی جسے ثوری نے روایت کی ہے ١ ؎، ٣ - ثوری کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٨٨) (ضعیف جداً ) (سند میں ” سوید بن عبد العزیز “ سخت ضعیف ہے، صحیح واقعہ وہ جو اگلی حدیث میں مذکور ہے ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ سوید بن عبدالعزیز کو مذکورہ حدیث کی روایت میں وہم ہوا ہے انہوں نے اسے حمید کے واسطے سے انس سے «أن النبي صلی اللہ عليه وسلم استعار قصعة» کے الفاظ کے ساتھ روایت کردیا جو محفوظ نہیں ہے بلکہ محفوظ وہ روایت ہے جسے سفیان ثوری نے حمید کے واسطے سے انس سے «أهدت بعض أزواج النبي صلی اللہ عليه وسلم» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد جدا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1360
مردو عورت کب بالغ ہوتے ہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک لشکر میں پیش کیا گیا، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول نہیں کیا، پھر آئندہ سال مجھے آپ کے سامنے ایک اور لشکر میں پیش کیا گیا اور اس وقت میری عمر پندرہ سال کی تھی تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کرلیا۔ نافع کہتے ہیں : میں نے عمر بن عبدالعزیز سے اس حدیث کو بیان کیا تو انہوں نے کہا : بالغ اور نابالغ کے درمیان یہی حد ہے۔ انہوں نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ جو پندرہ سال کے ہوجائیں (مال غنیمت سے) ان کو حصہ دیا جائے۔
جو شخص اپنے والد کی بیوی سے نکاح کرے
براء (رض) کہتے ہیں کہ میرے ماموں ابوبردہ بن نیار (رض) میرے پاس سے گزرے اور ان کے ہاتھ میں ایک جھنڈا تھا، میں نے پوچھا : آپ کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی (دوسری) بیوی سے شادی کر رکھی ہے تاکہ میں اس کا سر لے کر آؤں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - براء کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عدی بن ثابت سے اور عدی نے عبداللہ بن یزید سے اور عبداللہ نے براء (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - یہ حدیث اشعث سے بھی مروی ہے انہوں نے عدی سے اور عدی نے یزید بن براء سے اور یزید نے براء (رض) سے روایت کی ہے، ٤ - نیز یہ اشعث سے مروی ہے انہوں نے عدی سے اور عدی نے یزید بن البراء سے اور یزید نے اپنے ماموں سے اور ان کے ماموں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٥ - اس باب میں قرہ مزنی سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ٢٧ (٤٤٥٦) ، ٤٤٥٧) ، سنن النسائی/النکاح ٥٨ (٣٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٥ (٢٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٤) ، و مسند احمد (٤/٢٩٢، ٢٩٥، ٢٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2607) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1362
دو آدمیوں کا اپنے کھیتوں کو پانی دینے سے متعلق جن میں سے ایک کا کھیت اونچا اور دوسرے کا کھیت پست ہو۔
عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے رسول اللہ ﷺ کے پاس زبیر سے حرہ کی نالیوں کے بارے میں جس سے لوگ اپنے کھجور کے درخت سینچتے تھے جھگڑا کیا، انصاری نے زبیر سے کہا : پانی چھوڑ دو تاکہ بہتا رہے، زبیر نے اس کی بات نہیں مانی، تو دونوں نے رسول اللہ کی خدمت میں اپنا قضیہ پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے زبیر سے فرمایا : زبیر ! (تم اپنے کھیت کو) سیراب کرلو، پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو ، (یہ سن کر) انصاری غصہ ہوگیا اور کہا : اللہ کے رسول ! (ایسا فیصلہ) اس وجہ سے کہ وہ آپ کی پھوپھی کا لڑکا ہے ؟ (یہ سنتے ہی) رسول اللہ ﷺ کے چہرہ کا رنگ بدل گیا، آپ نے فرمایا : زبیر ! تم اپنے کھیت سیراب کرلو، پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیر تک پہنچ جائے ١ ؎، زبیر کہتے ہیں : اللہ کی قسم، میرا گمان ہے کہ اسی سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی : «فلا وربک لا يؤمنون حتی يحكموک فيما شجر بينهم» آپ کے رب کی قسم، وہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں (اے نبی) وہ آپ کو حکم نہ مان لیں (النساء : ٦٥ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے اور زہری نے عروہ بن زبیر سے اور عروہ نے زبیر سے روایت کی ہے اور شعیب نے اس میں عبداللہ بن زبیر کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور عبداللہ بن وہب نے اسے پہلی حدیث کی طرح ہی لیث اور یونس سے روایت کیا ہے اور ان دونوں نے زہری سے اور زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عبداللہ بن زبیر سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ٦ (٢٣٦٠) ، و ٨ (٢٣٦٢) ، والعلم ١٢ (٢٧٠٨) ، وتفسیر سورة النساء ١٢ (٥٣٨٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٦ (٢٣٥٧) ، سنن ابی داود/ الأقضیة ٣١ (٣٦٣٧) ، سنن النسائی/القضاة ١٩ (٥٣٢٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٥) ، والرہون ٢٠ (٢٤٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٧٥) ، و مسند احمد (١/١٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان اور اگلے فرمان میں فرق یہ ہے کہ آپ نے زبیر سے اپنے پورے حق سے کم ہی پانی لے کر چھوڑ دینے کا حکم فرمایا ، اور بعد میں غصہ میں زبیر کو پورا پورا حق لینے کے بعد ہی پانی چھوڑ نے کا حکم دیا۔ اور اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی اور مال نہ ہو تو کیا کیا جائے ؟ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1363
جو شخص موت کے وقت اپنے غلام اور لونڈیوں کو آزاد کردے اور ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال نہ ہو۔
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص نے مرتے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کردیا جبکہ اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا، نبی اکرم ﷺ کو یہ خبر ملی تو آپ نے اس آدمی کو سخت بات کہی، پھر ان غلاموں کو بلایا اور دو دو کر کے ان کے تین حصے کئے، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور جن (دو غلاموں) کے نام قرعہ نکلا ان کو آزاد کردیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عمران بن حصین (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور یہ اور بھی سندوں سے عمران بن حصین سے مروی ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٤ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ یہ اور اس طرح کے دوسرے مواقع پر قرعہ اندازی کو درست کہتے ہیں، ٥ - اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم قرعہ اندازی کو جائز نہیں سمجھتے، اس موقع پر لوگ کہتے ہیں کہ ہر غلام سے ایک تہائی آزاد کیا جائے گا اور دو تہائی قیمت کی آزادی کے لیے کسب (کمائی) کرایا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان والنذور ١٧ (١٦٦٨) ، سنن ابی داود/ الفتن ١٠ (٣٩٥٨) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٥ (١٩٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٠ (٢٣٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٠) ، و مسند احمد (٤/٤٢٦، ٤٣١، ٤٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2345) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1364
اگر کسی کا کوئی رشتہ دار غلام میں آجائے
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تو وہ (رشتہ دار) آزاد ہوجائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو ہم صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے مسنداً (مرفوعاً ) جانتے ہیں، ٢ - اور بعض لوگوں نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو قتادہ سے اور قتادہ نے حسن سے اور حسن نے عمر (رض) سے (موقوفاً ) روایت کیا ہے۔
کسی کی زمین میں بغیر اجازت کھیتی باڑی کرنا
رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص دوسرے کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر فصل بوئے، اس کو فصل سے کچھ نہیں ملے گا وہ صرف خرچ لے سکتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے بروایت ابواسحاق صرف شریک بن عبداللہ ہی کے طریق سے جانتے ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ١ ؎ ٤ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ حدیث حسن ہے، انہوں نے کہا : میں اسے بروایت ابواسحاق صرف شریک ہی کے طریق سے جانتا ہوں، ٥ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ہم سے معقل بن مالک بصریٰ نے بسند «عقبة بن الأصم عن عطاء عن رافع بن خديج عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٣٣ (٣٤٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٣ (الأحکام ٧٤) ، (٢٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٧٠) ، و مسند احمد (٣/٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی قول راجح ہے اس کے برخلاف کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ فصل تو غاصب کی ہوگی اور زمین کا مالک اس سے زمین کا کرایہ وصول کرے گا ، مگر اس قول پر کوئی دلیل ایسی نہیں جسے اس حدیث کے مقابلہ میں پیش کیا جاسکے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2466) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1366
اولاد کو ہبہ کرتے وقت برابری قائم رکھنا
نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا، وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو آپ نے ان سے پوچھا : کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو ایسا ہی غلام عطیہ میں دیا ہے ١ ؎ جیسا اس کو دیا ہے ؟ کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو اسے واپس لے لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ٢ - یہ اور بھی سندوں سے نعمان بن بشیر (رض) سے مروی ہے۔ ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ اولاد کے درمیان (عطیہ دینے میں) برابری کو ملحوظ رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے تو کہا ہے کہ بوسہ لینے میں بھی اپنی اولاد کے درمیان برابری برقرار رکھے، ٤ - اور بعض اہل علم کہتے ہیں : بخشش اور عطیہ میں اپنی اولاد یعنی بیٹا اور بیٹی کے درمیان بھی برابری برقرار رکھے۔ یہی سفیان ثوری کا قول ہے، ٥ - اور بعض اہل علم کہتے ہیں : اولاد کے درمیان برابری یہی ہے کہ میراث کی طرح لڑکے کو لڑکی کے دوگنا دیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ١٢ (٢٥٨٦) ، والشہادات ٩ (٢٦٥٠) ، صحیح مسلم/الہبات ٣ (١٦٢٣) ، سنن ابی داود/ البیوع ٨٥ (٣٥٤٢) ، سنن النسائی/النخل ١ (٣٧٠٢) ، ٣٧٠٣) ، ، ٣٧٠٤، ٣٧٠٩-٣٧١٢) سنن ابن ماجہ/الہبات ١ (الأحکام) (٢٣٧٥-٢٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٧ و ١١٦٣٨) ، و موطا امام مالک/الأقضیة ٣٣ (٣٩) ، و مسند احمد (٤/٢٦٨، ٢٦٩، ٢٧٠، ٢٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اولاد کو ہبہ کرنے میں مساوات کا یہ حکم جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے ، موطا میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے مرض الموت میں عائشہ (رض) سے فرمایا تھا «إني كنت نحلت نحلا فلو کنت اخترتيه لکان لک وإنما هو اليوم للوارث» میں نے تم کو کچھ ہبہ کے طور پر دینا چاہا تھا اگر وہ تم لے لیتی تو وہ تمہارا ہوجاتا ، اور اب تو وہ وارثوں ہی کا ہے ، اسی طرح عمر (رض) کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ ہبہ کے طور پر دیا تھا ، امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے ، یہ لوگ شیخین (ابوبکر و عمر (رض)) کے ان اقدامات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے راضی تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2375 - 2376) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1367
شفعہ کے بارے میں
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھر کا پڑوسی گھر (خریدنے) کا زیادہ حقدار ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور عیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے اور قتادہ نے انس سے اور انس نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ نیز سعید بن ابی عروبہ سے مروی ہے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے سمرہ سے اور سمرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں شرید، ابورافع اور انس سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - اور اہل علم کے نزدیک صحیح حسن کی حدیث ہے جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے۔ اور ہم قتادہ کی حدیث کو جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہے، صرف عیسیٰ بن یونس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن الطائفی کی حدیث جسے انہوں نے عمرو بن شرید سے اور عمرو نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اس باب میں حسن حدیث ہے۔ اور ابراہیم بن میسرہ نے عمرو بن شرید سے اور عمرو نے ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٧٥ (٣٥٧١) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٨) ، و مسند احمد (٥/١٢، ١٣، ١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «شفعہ» اس استحقاق کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ شریک (ساجھے دار) سے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہو قیمت ادا کر کے حاصل کرسکے۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے پڑوسی کے لیے حق شفعہ کے قائلین نے ثبوت شفعہ پر استدلال کیا ہے ، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس جگہ پڑوسی سے مراد ساجھے دار ہے پڑوسی نہیں ، کیونکہ اس حدیث میں اور حدیث «إذا وقعت الحدود وصرفت الطريق فلا شفعة» یعنی جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو شفعہ نہیں ، جو آگے آرہی ہے میں تطبیق کا یہی معنی لینا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1539) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1368
غائب کے لئے شفعہ
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ١ ؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم عبدالملک بن سلیمان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے اس حدیث کو عطاء سے اور عطاء نے جابر سے روایت کی ہو، ٢ - شعبہ نے عبدالملک بن سلیمان پر اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ محدثین کے نزدیک عبدالملک ثقہ اور مامون ہیں، شعبہ کے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے عبدالملک پر کلام کیا ہو، شعبہ نے بھی صرف اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ اور وکیع نے بھی یہ حدیث شعبہ سے اور شعبہ نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی ہے۔ اور ابن مبارک نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : عبدالملک بن سفیان میزان ہیں یعنی علم میں، ٢ - اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ آدمی اپنے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے اگرچہ وہ غائب ہی کیوں نہ ہو، جب وہ (سفر وغیرہ) سے واپس آئے گا تو اس کو شفعہ ملے گا گرچہ اس پر لمبی مدت گزر چکی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٧٥ (٣٥١٨) ، سنن ابن ماجہ/الشفعة ٢ (٢٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٣٤) ، و مسند احمد (٣/٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ غیر حاضر شخص کا شفعہ باطل نہیں ہوتا ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے ، اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ جب حد بندی ہوجائے اور راستے جدا جدا ہوجائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2494) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1369
جب حدود مقرر ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو حق شفعہ نہیں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ کردیے جائیں تو شفعہ نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے بعض لوگوں نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، ٣ - صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا جن میں عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان بھی شامل ہیں اسی پر عمل ہے اور بعض تابعین فقہاء جیسے عمر بن عبدالعزیز وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور یہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے، جن میں یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن اور مالک بن انس شامل ہیں، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، یہ لوگ صرف ساجھی دار کے لیے ہی حق شفعہ کے قائل ہیں۔ اور جب پڑوسی ساجھی دار نہ ہو تو اس کے لیے حق شفعہ کے قائل نہیں۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ پڑوسی کے لیے بھی شفعہ ہے اور ان لوگوں نے مرفوع حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں : گھر کا پڑوسی گھر کا زیادہ حقدار ہے ٢ ؎، نیز فرماتے ہیں : پڑوسی اپنے سے لگی ہوئی زمین یا مکان کا زیادہ حقدار ہے اور یہی ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٦ (٢٢١٣) ، و ٩٧ (٢٢١٤) ، والشفعة ١ (٢٢٥٧) ، والشرکة ٨ (٢٤٩٥) ، والحیل ١٤ (٦٩٧٦) ، سنن ابی داود/ البیوع ٧٥ (٣٥١٤) ، سنن ابن ماجہ/الشفعة ٣ (٢٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٣١٥٣) ، و مسند احمد (٣/٢٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ شفعہ صرف اس جائیداد میں ہے جو مشترک ملکیت میں ہو ، محض پڑوسی ہونا حق شفعہ کے اثبات کے لیے کافی نہیں ، یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی حجت و صواب سے قریب تر بھی ہے ، حنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ شفعہ جس طرح مشترک جائیداد میں ہے اسی طرح پڑوس کی بنیاد پر بھی شفعہ جائز ہے ، ان کی دلیل حدیث نبوی «جار الدار أحق بالدار» ہے۔ ٢ ؎ : جمہور اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس حدیث میں مراد شریک (ساجھی) ہے ، مطلق پڑوسی کا تو کبھی راستہ الگ بھی ہوتا ہے ، جب کہ راستہ الگ ہوجانے پر حق شفعہ نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3499) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1370
ہرشریک شفعہ کا حق رکھتا ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ساجھی دار کو حق شفعہ حاصل ہے اور شفعہ ہر چیز میں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم اس حدیث کو اس طرح (مرفوعاً ) صرف ابوحمزہ سکری ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ ٢ - اس حدیث کو کئی لوگوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے اور عبدالعزیز نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلا روایت کیا ہے۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
گری پڑی چیز اور گم شدہ اونٹ یا بکری
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا : سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کا سر بند، اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو، پھر اسے خرچ کرلو اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے ادا کر دو ، اس آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! گمشدہ بکری کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : اسے پکڑ کر باندھ لو، کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے ۔ اس آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے ؟ اس پر نبی اکرم ﷺ ناراض ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے گال لال پیلا ہوگئے۔ یا آپ کا چہرہ لال پیلا ہوگیا اور آپ نے فرمایا : تم کو اس سے کیا سروکار ؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا اور اس کی مشک ہے ١ ؎ (وہ پانی پر جاسکتا ہے اور درخت سے کھا سکتا ہے) یہاں تک کہ اپنے مالک سے جا ملے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - زید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ان سے اور بھی طرق سے یہ حدیث مروی ہے۔ منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث جسے انہوں نے زید بن خالد سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، ٣ - اور ان سے یہ اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٨ (٩١) ، والشرب والمساقاة ١٢ (٢٣٧٢) ، واللقطہ ٢ (٢٤٢٧) ، صحیح مسلم/اللقطة ١ (١٧٢٢) ، سنن ابی داود/ اللقطة ١ (١٧٠٤-١٧٠٨) ، سنن ابن ماجہ/اللقطة ١ (٢٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٦٣) ، وط/الأقضیة ٣٨ (٤٦) ، و مسند احمد (٤/١١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اور مشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھر لیتا ہے اور باربار پانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ، اسے بکری کی طرح بھیڑیئے وغیرہ کا خوف نہیں وہ خود اپنا دفاع کرلیتا ہے اس لیے اسے پکڑ کر باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2504) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1372
گری پڑی چیز اور گم شدہ اونٹ یا بکری
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : سال بھر اس کی پہچان کراؤ ١ ؎، اگر کوئی پہچان بتادے تو اسے دے دو ، ورنہ اس کے ڈاٹ اور سربند کو پہچان لو، پھر اسے کھا جاؤ۔ پھر جب اس کا مالک آئے تو اسے ادا کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ٢ - احمد بن حنبل کہتے ہیں : اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے، ٣ - یہ ان سے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ٤ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں، جب ایک سال تک اس کا اعلان ہوجائے اور کوئی پہچاننے والا نہ ملے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٥ - اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہٰ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کر دے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔ اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے، ٦ - لقطہٰ اٹھانے والا جب مالدار ہو تو یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں، ٧ - شافعی کہتے ہیں : وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مالدار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اور بہت مالدار تھے، پھر بھی نبی اکرم ﷺ نے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپ ﷺ نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا۔ (دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہٰ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے تو علی (رض) کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی (رض) کو نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں ایک دینار ملا، انہوں نے (سال بھر تک) اس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالانکہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا، ٨ - بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہٰ معمولی ہو تو لقطہٰ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کا پہچان کروانا ضروری نہیں ٢ ؎، ٩ - بعض اہل علم کہتے ہیں : جب وہ ایک دینار سے کم ہو تو وہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے، ١٠ - اس باب میں ابی بن کعب، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٣٧٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : باب کی ان دونوں روایتوں میں ایک سال پہچان کرانے کا ذکر ہے اور باب کی آخری حدیث میں تین سال کا ذکر ہے ، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے ، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب وورع ہے ان روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قرار دیا جائے ، پہچان کرانے کی صورت یہ ہوگی کہ بازار اور اجتماعات میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اعلان کیا جائے کہ گمشدہ چیز کی نشانی بتا کر حاصل کی جاسکتی ہے ، اگر کوئی اس کی نشانی بتادے تو مزید شناخت اور گواہوں کی ضرورت نہیں بلا تأمل وہ چیز اس کے حوالے کردی جائے۔ ٢ ؎ : اس کی دلیل ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة علی فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشی أن تکون صدقة فألقيها» یعنی میں کبھی گھر میں جاتا ہوں تو کھجور کا کوئی دانہ ملتا ہے ، اس کو کھا لینا چاہتا ہوں ، پھر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ و زکاۃ کا نہ ہو ، تو اسے پھینک دیتا ہوں ، اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اس کو پہچان کروانے کا کام کیے بغیر کھا لینے کا ارادہ کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2507) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1373
گری پڑی چیز اور گم شدہ اونٹ یا بکری
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا تو مجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑا ملا - ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا - تو میں نے اسے اٹھا لیا تو ان دونوں نے کہا : اسے رہنے دو ، (نہ اٹھاؤ) میں نے کہا : میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کہ اسے درندے کھا جائیں، میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا، اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا : تم نے اچھا کیا، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پائی جس میں سو دینار تھے، اسے لے کر میں آپ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے مجھ سے فرمایا : ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، میں نے ایک سال تک اس کی پہچان کرائی لیکن مجھے کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا، پھر میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا : ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ، میں نے اس کی پہچان کرائی، پھر اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ تو آپ نے فرمایا : ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ ١ ؎، اور فرمایا : اس کی گنتی کرلو، اس کی تھیلی اور اس کے سربند کو خوب اچھی طرح پہچان لو اگر اسے تلاش کرنے والا آئے اور اس کی تعداد، اس کی تھیلی اور اس کے سربند کے بارے میں بتائے تو اسے دے دو ورنہ تم اسے اپنے کام میں لاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللقطة ١ (٢٤٢٦) ، صحیح مسلم/اللقطة ١ (١٧٢٣) ، سنن ابی داود/ اللقطة ١ (١٧٠١) ، سنن ابن ماجہ/اللقطة ٢ (٢٥٠٦) ، و مسند احمد (٥/١٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا ، اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشیہ میں دیکھئیے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2506) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1374
وقف کے بارے میں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو ، تو عمر (رض) نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ١ ؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خرچ کیا جائے۔ اور جو اس کا والی (نگراں) ہو اس کے لیے اس میں سے معروف طریقے سے کھانے اور دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ وہ اس میں سے ذخیرہ اندوزی کرنے والا نہ ہو۔ ابن عون کہتے ہیں : میں نے اسے محمد بن سیرین سے بیان کیا تو انہوں نے «غير متمول فيه» کے بجائے «غير متأثل مالا» کہا۔ ابن عون کہتے ہیں : مجھ سے اسے ایک اور آدمی نے بیان کیا ہے کہ اس نے اس وقف نامے کو پڑھا تھا جو ایک لال چمڑے پر تحریر تھا اور اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔ اسماعیل کہتے ہیں : میں نے اس وقف نامے کو عبیداللہ بن عمر کے بیٹے کے پاس پڑھا، اس میں بھی «غير متأثل مالا» کے الفاظ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ متقدمین میں سے ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں اختلاف کیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ١٩ (٢٧٣٧) ، والوصایا ٢٢ (٢٧٦٤) ، و ٢٨ (٢٧٧٢) ، و ٢٩ (٢٧٧٣) ، و ٣٢ (٢٧٧٧) ، صحیح مسلم/الوصایا ٤ (١٦٣٢) ، سنن ابی داود/ الوصایا ١٣ (٢٨٧٨) ، سنن النسائی/الإحب اس ٢ (٣٦٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٤ (٢٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٤٢) ، و مسند احمد (٢/٥٥، ١٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز وقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اور نہ اسے ہبہ اور وراثت میں دیا جاسکتا ہے ، امام ابوحنیفہ (رح) وقف کے فروخت کو جائز سمجھتے ہیں ، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگر یہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے (دیکھئیے : فتح الباری کتاب الوصایا ، باب ٢٩ ( ٢٧٧٣ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2396) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1375
وقف کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے : ایک صدقہ جاریہ ١ ؎ ہے، دوسرا ایسا علم ہے ٢ ؎ جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے ٣ ؎ جو اس کے لیے دعا کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ٣ (١٦٣١) ، سنن ابی داود/ الوصایا ١٤ (٢٨٨٠) ، سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٥) ، و مسند احمد (٢/٣١٦، ٣٥٠، ٣٧٢) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٤٦ (٥٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صدقہ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کردیا جائے ، مثلاً سرائے کی تعمیر ، کنواں کھدوانا ، نل لگوانا ، مساجد و مدارس اور یتیم خانوں کی تعمیر کروانا ، اسپتال کی تعمیر ، پل اور سڑک وغیرہ بنوانا ، ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کر جائے یا اس کے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ سب صدقہ جاریہ میں شمار ہوں گے۔ ٢ ؎ : علم میں لوگوں کو تعلیم دینا ، طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا ، تصنیف و تالیف اور درس و تدریس دعوت و تبلیغ کا سلسلہ قائم کرنا ، مدارس کی تعمیر کرنا ، دینی کتب کی طباعت اور ان کی نشر و اشاعت کا بندوبست کرنا وغیرہ امور سبھی داخل ہیں۔ ٣ ؎ : نیک اولاد میں بیٹا ، بیٹی پوتا ، پوتی ، نواسا نواسی وغیرہ کے علاوہ روحانی اولاد بھی شامل ہے جنہیں علم دین سکھایا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1376
اگر حیوان کسی کو زخمی کردے تو اس کا قصاص نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بےزبان (جانور) کا زخم رائیگاں ہے، کنویں اور کان میں گر کر کوئی مرجائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ١ ؎، اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے ۔
بنجر زمین کو آباد کرنا
سعید بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی بنجر زمین (جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو) آباد کی تو وہ اسی کی ہے کسی ظالم شخص کی رگ کا حق نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعض لوگوں نے اسے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ حاکم کی اجازت کے بغیر غیر آباد زمین کو آباد کرنا جائز ہے، ٤ - بعض علماء کہتے ہیں : حاکم کی اجازت کے بغیر غیر آباد زمین کو آباد کرنا جائز نہیں ہے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، ٥ - اس باب میں جابر، کثیر کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور سمرہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٦ - ہم سے ابوموسیٰ محمد بن مثنی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو ولید طیالسی سے نبی اکرم ﷺ کے قول «وليس لعرق ظالم حق» کا مطلب پوچھا، انہوں نے کہا : «العرق الظالم» سے مراد وہ غاصب ہے جو دوسروں کی چیز زبردستی لے۔ میں نے کہا : اس سے مراد وہ شخص ہے جو دوسرے کی زمین میں درخت لگائے ؟ انہوں نے کہا : وہی شخص مراد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الإمارة ٣٧ (٣٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٦٣) ، وط/الأقضیة ٢٤ (٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1520) ، الضعيفة تحت الحديث (88) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1378
بنجر زمین کو آباد کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص غیر آباد زمین (جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو) آباد کرے تو وہ اسی کی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وأخرجہ النسائي في الکبریٰ (تحفة الأشراف : ٣١٢٩) ، و مسند احمد (٣/٣٣٨، ٣٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1550) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1379
جاگیر دینے کے بارے میں
ابیض بن حمال (رض) کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے جاگیر میں نمک کی کان مانگی تو آپ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ پیٹھ پھیر کر واپس جانے لگے تو مجلس میں موجود ایک آدمی نے عرض کیا : جانتے ہیں کہ آپ نے جاگیر میں اسے کیا دیا ہے ؟ آپ نے اسے جاگیر میں ایسا پانی دیا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔ (اس سے برابر نمک نکلتا رہے گا) تو آپ نے اس سے اسے واپس لے لیا، اس نے آپ سے پوچھا : پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ (بطور رمنہ) گھیری جائے ؟ آپ نے فرمایا : جس زمین تک اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچے (جو آبادی اور چراگاہ سے کافی دور ہوں) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابیض کی حدیث غریب ہے، ٢ - میں نے قتیبہ سے پوچھا کیا آپ سے محمد بن یحییٰ بن قیس ماربی نے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اقرار کیا اور کہا : ہاں - تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخراج ٣٦ (٣٠٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٧ (٢٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١) (حسن) (یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے : ” ثمامہ “ لین الحدیث، اور ” سمیر “ مجہول ہیں، لیکن ابوداود کی دوسری روایت (رقم ٣٠٦٥) سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، اس کی تصحیح ابن حبان اور تحسین البانی نے کی ہے (مالم تنلہ خفاف کے استثناء کے ساتھ) دیکھئے : صحیح ابی داود رقم ٢٦٩٤ ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2475) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1380
جاگیر دینے کے بارے میں
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حضر موت میں ایک زمین بطور جاگیر دی۔ آپ ﷺ نے معاویہ (رض) کو بھیجا تاکہ وہ زمین انہیں بطور جاگیر دے دیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخراج ٣٦ (٣٠٥٨، ٣٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٣) ، و مسند احمد (٣٩٩٦) ، و سنن الدارمی/البیوع ٦٦ (٢٦٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح التعليق علی الروضة الندية (2 / 137) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1381
درخت لگانے کی فضیلت
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو بھی مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا فصل بوتا ہے اور اس میں سے انسان یا پرند یا چرند کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوایوب، جابر، ام مبشر اور زید بن خالد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث المزارعة ١ (٢٣٢٠) ، والأدب ٢٧ (٦٠١٢) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢ (البیوع ٢٣) (١٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣١) ، و مسند احمد (٣/١٤٧، ١٩٢، ٢٢٩، ٢٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : **، الصحيحة (7 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1382
کھیتی باڑی کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہوگا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس، ابن عباس، زید بن ثابت اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ آدھے، تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ٤ - اور بعض اہل علم نے یہ اختیار کیا ہے کہ بیج زمین والا دے گا، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٥ - بعض اہل علم نے تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کو مکروہ سمجھا ہے، لیکن وہ تہائی یا چوتھائی کی شرط پر کھجور کے درختوں کی سینچائی کرانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے، ٦ - بعض لوگ مطلقًا مزارعت کو درست نہیں سمجھتے البتہ سونے یا چاندی (نقدی) کے عوض کرایہ پر زمین لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٨ (٢٣٢٨) ، ٩ (٢٣٢٩) ، صحیح مسلم/المساقاة ١ (البیوع ٢٢) ، (١٥٥١) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣٥ (٣٤٠٨) ، سنن النسائی/الأیمان والمزارعة ٤٦ (٣٩٦١، ٣٩٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٤ (٣٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٨١٣٨) ، و مسند احمد (٢/١٧، ٢٢، ٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا جواز ثابت ہوتا ہے ، ائمہ ثلاثہ اور دیگر علمائے سلف و خلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں ، احناف نے خیبر کے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپ کے غلام تھے ، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے «نقرکم ما أقرکم الله» ہم تمہیں اس وقت تک برقرار رکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقرار رکھے گا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے ، نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں ، اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اور وہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے ، اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا ، رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں تو جمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں ، یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کرلے «واللہ اعلم» حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اور بٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہونے والے غلہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امر کے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اور مزارعت کی وہ شکل جو شرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے ، وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوار میں لوں گا اور باقی حصے کی تم لینا ، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2467) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1383
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرما دیا جو ہمارے لیے مفید تھا، وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تو وہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔ آپ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہو تو وہ اپنے بھائی کو (مفت) دیدے۔ یا خود زراعت کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٧٨) ، (وانظر أیضا : أحادیث النسائي من الأرقام : ٣٨٩٣- إلی -٣٩٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دیکھئیے پچھلی حدیث اور اس کا حاشیہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح - لکن ذکر الدراهم شاذ -، الإرواء (5 / 298 - 300) ، غاية المرام (355) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1384
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزارعت کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - رافع کی حدیث میں (جو اوپر مذکور ہوئی) اضطراب ہے۔ کبھی یہ حدیث بواسطہ رافع بن خدیج ان کے چچاؤں سے روایت کی جاتی ہے اور کبھی بواسطہ رافع بن خدیج ظہیر بن رافع سے روایت کی جاتی ہے، یہ بھی ان کے ایک چچا ہیں، ٣ - اور ان سے یہ حدیث مختلف طریقے پر روایت کی گئی ہے، ٤ - اس باب میں زید بن ثابت اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٠ (٢٣٣٠) ، و ١٨ (٢٣٤٢) ، والہبة ٣٥ (٢٦٣٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٢١ (١٥٤٧) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣ (٣٣٨٩) ، سنن النسائی/المزارعة ٤٥ (٣٩٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١١ (٢٤٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1385