16. دیت کا بیان
دیت میں کتنے اونٹ دئے جائیں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا : قتل خطا ١ ؎ کی دیت ٢ ؎ بیس بنت مخاض ٣ ؎، بیس ابن مخاض، بیس بنت لبون ٤ ؎، بیس جذعہ ٥ ؎ اور بیس حقہ ٦ ؎ ہے ۔ ہم کو ابوہشام رفاعی نے ابن ابی زائدہ اور ابوخالد احمر سے اور انہوں نے حجاج بن ارطاۃ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن مسعود (رض) کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں اور عبداللہ بن مسعود سے یہ حدیث موقوف طریقہ سے بھی آئی ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٤ - اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی، ہر سال دیت کا تہائی حصہ لیا جائے گا، ٥ - اور ان کا خیال ہے کہ دیت خطا عصبہ پر ہے، ٦ - بعض لوگوں کے نزدیک عصبہ وہ ہیں جو باپ کی جانب سے آدمی کے قرابت دار ہوں، مالک اور شافعی کا یہی قول ہے، ٧ - بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عصبہ میں سے جو مرد ہیں انہی پر دیت ہے، عورتوں اور بچوں پر نہیں، ان میں سے ہر آدمی کو چوتھائی دینار کا مکلف بنایا جائے گا، ٨ - کچھ لوگ کہتے ہیں : آدھے دینار کا مکلف بنایا جائے گا، ٩ - اگر دیت مکمل ہوجائے گی تو ٹھیک ہے ورنہ سب سے قریبی قبیلہ کو دیکھا جائے گا اور ان کو اس کا مکلف بنایا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ١٨ (٤٥٤٥) ، سنن النسائی/القسامة ٣٤ (٤٨٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٦ (٢٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٩٨) ، و مسند احمد (١/٤٥٠) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة مدلس اور کثیر الوہم ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز خشف بن مالک کی ثقاہت میں بھی بہت کلام ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم : ٤٠٢٠ ) وضاحت : ١ ؎ : قتل کی تین قسمیں ہیں : ١ - قتل عمد : یعنی جان بوجھ کر ایسے ہتھیار کا استعمال کرنا جن سے عام طور سے قتل واقع ہوتا ہے ، اس میں قاتل سے قصاص لیا جاتا ہے ، ٢ - قتل خطا ، : یعنی غلطی سے قتل کا ہوجانا ، اوپر کی حدیث میں اسی قتل کی دیت بیان ہوئی ہے۔ ٣ - قتل شبہ عمد : یہ وہ قتل ہے جس میں ایسی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جن سے عام طور سے قتل واقع نہیں ہوتا جیسے لاٹھی اور کوڑا وغیرہ ، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے اور یہ سو اونٹ ہے ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔ ٢ ؎ : کسی نفس کے قتل یا جسم کے کسی عضو کے ضائع کرنے کے بدلے میں جو مال دیا جاتا ہے اسے دیت کہتے ہیں۔ ٣ ؎ : وہ اونٹنی جو ایک سال کی ہوچکی ہو ٤ ؎ ، وہ اونٹنی جو دو سال کی ہوچکی ہو۔ ٥ ؎؎ وہ اونٹ جو چار سال کی ہوچکا ہو ٦ ؎؎ ، وہ اونٹ جو تین سال کا ہوچکا ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2631) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1386
دیت میں کتنے اونٹ دئے جائیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اسے مقتول کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا، اگر وہ چاہیں تو اسے قتل کردیں اور چاہیں تو اس سے دیت لیں، دیت کی مقدار تیس حقہ، تیس جذعہ اور چالیس خلفہ ١ ؎ ہے اور جس چیز پر وارث مصالحت کرلیں وہ ان کے لیے ہے اور یہ دیت کے سلسلہ میں سختی کی وجہ سے ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ٤ (٤٥٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢١ (٢٦٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : حاملہ اونٹنی اس کی جمع خلفات و خلائف آتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2626) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1387
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت بارہ ہزار درہم مقرر کی۔
دیت کتنے دراہم سے ادا کی جائے
ہم سے سعید بن عبدالرحمٰن المخزومی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار کے واسطے سے بیان کیا، عمرو بن دینار نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا، ابن عیینہ کی روایت میں محمد بن مسلم طائفی کی روایت کی بنسبت کچھ زیادہ باتیں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہمارے علم میں محمد بن مسلم کے علاوہ کسی نے اس حدیث میں ابن عباس کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ٢ - بعض اہل علم کے نزدیک اسی حدیث پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٣ - اور بعض اہل اعلم کے نزدیک دیت دس ہزار (درہم) ہے، سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے، ٤ - امام شافعی کہتے ہیں : ہم اصل دیت صرف اونٹ کو سمجھتے ہیں اور وہ سو اونٹ یا اس کی قیمت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٩١٢٠) (ضعیف) (یہ مرسل روایت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2629) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1389
ایسے زخم کی دیت جن میں ہڈی ظاہر ہوجائے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «موضحہ» (ہڈی کھل جانے والے زخم) ١ ؎ میں پانچ اونٹ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول یہی ہے کہ «موضحہ» (ہڈی کھل جانے والے زخم) میں پانچ اونٹ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ٢٠ (٤٥٦٢) ، سنن النسائی/القسامة ٤٤ (٤٨٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٨ (٢٦٥٣) (تحفة الأشراف : ٨٦٨٠) ، و مسند احمد (٢/٢٠٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «موضحہ» وہ زخم ہے جس سے ہڈی کھل جائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2655) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1390
انگلیوں کی دیت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگلیوں کی دیت کے بارے میں فرمایا : دونوں ہاتھ اور دونوں پیر برابر ہیں، (دیت میں) ہر انگلی کے بدلے دس اونٹ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے ابن عباس کی حدیث حسن صحیح اور غریب ہے، ٢ - اہل علم کا عمل اسی پر ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ٢٠ (٤٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2271) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1391
انگلیوں کی دیت
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دیت میں یہ اور یہ برابر ہیں، یعنی چھنگلیا انگوٹھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٢٠ (٦٨٩٥) ، سنن ابی داود/ الدیات ٢٠ (٤٥٥٨) ، سنن النسائی/القسامة ٤٤ (٤٨٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٨ (٢٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٦١٨٧) ، و مسند احمد (١/٣٣٩) ، و سنن الدارمی/الدیات ١٥ (٢٤١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں کی دیت دس دس اونٹ ہے ، اگرچہ انگوٹھا چھنگلی سے جوڑ میں کم ہے ، اس طرح انگلی کے پوروں میں کوئی پور کاٹ دیا جائے تو اس کی دیت پوری انگلی کی دیت کی ایک تہائی ہوگی ، انگوٹھے کا ایک پور کاٹ دی جائے تو اس کی دیت انگوٹھے کی آدھی دیت ہوگی کیونکہ انگوٹھے میں دو ہی پور ہوتی ہے برخلاف باقی انگلیوں کے ان میں تین پور ہوتی ہیں ہاتھ اور پیر کی انگلی دونوں کا حکم ایک ہے ان میں فرق نہیں کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2652) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1392
دیت معاف کردینا
ابوسفر سعید بن احمد کہتے ہیں کہ ایک قریشی نے ایک انصاری کا دانت توڑ دیا، انصاری نے معاویہ (رض) سے فریاد کی، اور ان سے کہا : امیر المؤمنین ! اس (قریشی) نے میرا دانت توڑ دیا ہے، معاویہ (رض) نے کہا : ہم تمہیں ضرور راضی کریں گے، دوسرے (یعنی قریشی) نے معاویہ (رض) سے بڑا اصرار کیا اور (یہاں تک منت سماجت کی کہ) انہیں تنگ کردیا، معاویہ اس سے مطمئن نہ ہوئے، چناچہ معاویہ نے اس سے کہا : تمہارا معاملہ تمہارے ساتھی کے ہاتھ میں ہے، ابو الدرداء (رض) ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ابو الدرداء (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا ہے، میرے کانوں نے اسے سنا ہے اور دل نے اسے محفوظ رکھا ہے، آپ فرما رہے تھے : جس آدمی کے بھی جسم میں زخم لگے اور وہ اسے صدقہ کر دے (یعنی معاف کر دے) تو اللہ تعالیٰ اسے ایک درجہ بلندی عطا کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے، انصاری نے کہا : رسول اللہ ﷺ سے آپ نے سنا ہے ؟ ابو الدرداء نے کہا : میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا ہے، اس نے کہا : تو میں اس کی دیت معاف کردیتا ہوں، معاویہ (رض) نے کہا : لیکن میں تمہیں محروم نہیں کروں گا، چناچہ انہوں نے اسے کچھ مال دینے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہمیں یہ صرف اسی سند سے معلوم ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ابوسفر نے ابو الدرداء سے سنا ہے، ٢ - ابوسفر کا نام سعید بن احمد ہے، انہیں ابن یحمد ثوری بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٣٥ (٢٦٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٧١) ، و مسند احمد (٦/٤٤٨) (ضعیف) (ابوالسفر کا سماع ابو الدرداء (رض) سے نہیں ہے، اس لیے سند میں انقطاع ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2693) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (586) ، ضعيف الجامع الصغير (5175) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1393
جس کا سر پتھر سے کچل دیا گیا ہو
انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا اور اس کے پاس جو زیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، چناچہ اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے پوچھا : تمہیں کس نے مارا ہے، فلاں نے ؟ اس نے سر سے اشارہ کیا : نہیں، آپ نے پوچھا : فلاں نے ؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں ! تو یہودی پکڑا گیا، اور اس نے اعتراف جرم کرلیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا، اور اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں : قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٥ (٢٧٤٦) ، والطلاق ٢٤ (تعلیقاً ) والدیات ٤ (٦٨٧٦) ، و ٥ (٦٨٧٧) ، و ١٢ (٦٨٨٤) ، صحیح مسلم/القسامة ٣ (١٦٧٢) ، سنن ابی داود/ الدیات ١٠ (٤٥٢٧) ، سنن النسائی/المحاربة ٩ (٤٠٥٥) ، والقسامة ١٣ (٤٧٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٤ (٢٦٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩١) ، و مسند احمد (٣/١٦٣، ١٨٣، ٢٠٣، ٢٦٧) ، سنن الدارمی/الدیات ٤ (٢٤٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اہل کوفہ کا مذہب ہے جن میں امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب شامل ہیں ان کی دلیل نعمان بن بشیر کی روایت ہے جو ابن ماجہ میں «لا قود إلا بالسيف» کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے ، لیکن یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے بلکہ بقول ابوحاتم : منکر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2665 - 2666) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1394
دیت کتنے دراہم سے ادا کی جائے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دیت بارہ ہزار درہم مقرر کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ١٨ (٤٥٤٦) ، سنن النسائی/القسامة ٣٥ (٤٨٠٧، ٤٨٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٦ (٢٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦٥) وسنن الدارمی/الدیات ١١ (ضعیف) (اس روایت کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے، جیسا کہ امام ابوداود اور مولف نے صراحت کی ہے، اس کو ” عمروبن دینار “ سے سفیان بن عینیہ نے جو کہ محمد بن مسلم طائفی کے بالمقابل زیادہ ثقہ ہیں) نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے ابن عباس (رض) کا تذکرہ نہیں کیا ہے دیکھئے : الإرواء رقم ٢٢٤٥ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2629) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1388 عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دنیا کی بربادی اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل ہونے سے کہیں زیادہ کمتر و آسان ہے ۔
خون کے فیصلے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (آخرت میں) بندوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اسی طرح کئی لوگوں نے اعمش سے مرفوعاً روایت کی ہے، ٢ - اور بعض نے اعمش سے روایت کی ہے ان لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٨ (٦٥٣٣) ، والدیات ١ (٦٨٦٤) ، صحیح مسلم/القسامة ٨ (١٦٧٨) ، سنن النسائی/المحاربة ٢ (٣٩٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١ (٢٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٦) ، و مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤١، ٤٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث «أول ما يحاسب به العبد صلاته» کے منافی نہیں ہے ، کیونکہ خون کے فیصلہ کا تعلق لوگوں کے آپسی حقوق سے ہے جب کہ صلاۃ والی حدیث کا تعلق خالق کائنات کے حقوق سے ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے حقوق میں سے سب سے بڑی اور اہم چیز جس کے بارے میں سوال ہوگا وہ خون ہے ، اسی طرح حقوق اللہ میں سے سب سے بڑی چیز جس کے بارے میں سب سے پہلے سوال ہوگا وہ صلاۃ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2615) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1396
خون کے فیصلے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (آخرت میں) بندوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1396) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1397
خون کے فیصلے
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر آسمان اور زمین والے (سارے کے سارے) ایک مومن کے خون میں ملوث ہوجائیں تو اللہ ان (سب) کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٤١١ و ١٤٨٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (925) ، التعليق الرغيب (3 / 202) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1398
اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو قتل کردے تو قصاص لیا جائے یا نہیں
سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، (تو دیکھا) کہ آپ باپ کو بیٹے سے قصاص دلواتے تھے اور بیٹے کو باپ سے قصاص نہیں دلواتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - سراقہ (رض) کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اس کی سند صحیح نہیں ہے، اسے اسماعیل بن عیاش نے مثنیٰ بن صباح سے روایت کی ہے اور مثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، ٢ - اس حدیث کو ابوخالد احمر نے بطریق : «عن الحجاج بن أرطاة عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، ٤ - یہ حدیث عمرو بن شعیب سے مرسلاً بھی مروی ہے، اس حدیث میں اضطراب ہے، ٤ - اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو بدلے میں (قصاصاً ) اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور جب باپ اپنے بیٹے پر (زنا کی) تہمت لگائے تو اس پر حد قذف نافذ نہیں ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨١٨) (ضعیف) (سند میں ” المثنی بن صباح “ ضعیف ہیں، اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، نیز حدیث میں بہت اضطراب ہے ) وضاحت : ١ ؎ : علماء کہتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے مابین تفریق کا سبب یہ ہے کہ باپ کے دل میں اولاد کی محبت کسی دنیوی منفعت کی لالچ کے بغیر ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ باپ کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باقی زندہ اور خوش رہے ، جب کہ اولاد کے دل میں پائی جانے والی محبت کا تعلق «الاما شاء اللہ» صرف دنیاوی منفعت سے ہے (یہ حدیث گرچہ سنداً ضعیف ہے مگر دیگر طرق سے مسئلہ ثابت ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (7 / 272) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (2214) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1399
اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو قتل کردے تو قصاص لیا جائے یا نہیں
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٢ (٢٦٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٢) ، و مسند احمد (١/١٦، ٢٣) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ ” حجاج بن ارطاة متکلم فیہ راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ بیٹے کے وجود کا سبب ہے ، لہٰذا یہ جائز نہیں کہ بیٹا باپ کے خاتمے کا سبب بنے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2662) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1400
اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو قتل کردے تو قصاص لیا جائے یا نہیں
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسجدوں میں حدود نہیں قائم کی جائیں گی اور بیٹے کے بدلے باپ کو (قصاص میں) قتل نہیں کیا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس سند سے اس حدیث کو ہم صرف اسماعیل بن مسلم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور اسماعیل بن مسلم مکی کے حفظ کے سلسلے میں بعض اہل علم نے کلام کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ٣١ (٢٥٩٩) ، والدیات ٢٢ (٢٦٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : لیکن شواہد کی بنا پر حدیث حسن ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2599 و 2661) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1401
مسلمان کا قتل تین باتوں کے علاوہ جائز نہیں۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان شخص کا خون جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، حلال نہیں سوائے تین باتوں میں سے کسی ایک کے : یا تو وہ شادی شدہ زانی ہو، یا جان کو جان کے بدلے مارا جائے، یا وہ اپنا دین چھوڑ کر جماعت مسلمین سے الگ ہوگیا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عثمان، عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٦ (٦٨٧٨) ، صحیح مسلم/القسامة ٦ (١٦٧٦) ، سنن ابی داود/ الحدود ١ (٤٣٥١) ، سنن النسائی/المحاربة ٥ (٤٠٢١) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١ (٢٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٧) ، و مسند احمد (١/٣٨٢، ٤٢٨، ٤٤٤، ٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام نے انسانی جانوں کی حفاظت نیز ان کی بقا اور امن و امان کا سب سے زیادہ پاس و لحاظ رکھا ہے ، یہی وجہ ہے کہ شرک کے بعد کسی نفس کا قتل اسلام میں عظیم تر گناہ ہے ، اسی لیے شارع حکیم نے کسی مسلمان کا قتل تین چیزوں میں سے کسی ایک کے پائے جانے ہی کی صورت میں حلال کیا ہے : ( ١ ) کسی آزاد شخص کا شادی شدہ ہو کر زنا کرنا ، ( ٢ ) جان بوجھ کر کسی معصوم انسان کو ظلم و زیادتی کے ساتھ قتل کرنا ( ٣ ) اسلام سے پھرجانا کیونکہ ایسے شخص کا دل خیر سے اس طرح خالی ہوجاتا ہے کہ حق بات قبول کرنے کی اس میں صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2534) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1402
معاہد کو قتل کرنے کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خبردار ! جس نے کسی ایسے ذمی ١ ؎ کو قتل کیا جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پناہ حاصل تھی تو اس نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا، لہٰذا وہ جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت (دوری) سے آئے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - نبی اکرم ﷺ سے ابوہریرہ کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، ٣ - اس باب میں ابوبکرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٣٢ (٢٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایسا کافر جو کسی اسلامی مملکت میں مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد و پیمان کے مطابق رہ رہا ہو خواہ جزیہ دے کر معاہدہ کر کے رہ رہا ہو یا دارالحرب سے معاہدہ یا امان پر دارالسلام میں آیا ہو ، اسے مسلمانوں کی پناہ اس وقت تک حاصل ہوگی جب تک وہ بھی اپنے معاہدہ پر قائم رہے ، یا اپنے وطن دارالحرب لوٹ جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2687) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1403
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قبیلہ عامر کے دو آدمیوں کو مسلمانوں کے برابر دیت دی، (کیونکہ) ان دونوں کا رسول اللہ ﷺ سے عہد و پیمان تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - حدیث کے راوی ابوسعد بقال کا نام سعید بن مرزبان ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٠٩٣) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” ابو سعد البقال “ ضعیف اور مدلس ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1404
مقتول کے ولی کو اختیار ہے چاہے تو قصاص لے ورنہ معاف کردے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب اللہ نے اپنے رسول کے لیے مکہ کو فتح کردیا تو آپ ﷺ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : جس کا کوئی شخص مارا گیا ہو اسے دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے : یا تو معاف کر دے یا (قصاص میں) اسے قتل کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے (کماسیأتی) ، ٢ - اس باب میں وائل بن حجر، انس، ابوشریح اور خویلد بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١١٢) ، واللقطة ٧ (٢٤٣٤) ، والدیات ٨ (٦٨٨٠) ، صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٥) ، سنن ابی داود/ الدیات ٤ (٤٥٠٥) ، سنن النسائی/القسامة ٣٠ (٤٧٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٣ (٢٦٢٤) ، ویأتي في العلم برقم ٢٦٦٧، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٣) ، و مسند احمد (٢/٢٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2624) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1405
مقتول کے ولی کو اختیار ہے چاہے تو قصاص لے ورنہ معاف کردے
ابوشریح کعبی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مکہ کو اللہ نے حرمت والا (محترم) بنایا ہے، لوگوں نے اسے نہیں بنایا، پس جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس میں خونریزی نہ کرے، نہ اس کا درخت کاٹے، (اب) اگر کوئی (خونریزی کے لیے) اس دلیل سے رخصت نکالے کہ مکہ رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال کیا گیا تھا (تو اس کا یہ استدلال باطل ہے) اس لیے کہ اللہ نے اسے میرے لیے حلال کیا تھا لوگوں کے لیے نہیں، اور میرے لیے بھی دن کے ایک خاص وقت میں حلال کیا گیا تھا، پھر وہ تاقیامت حرام ہے ؟ اے خزاعہ والو ! تم نے ہذیل کے اس آدمی کو قتل کیا ہے، میں اس کی دیت ادا کرنے والا ہوں، (سن لو) آج کے بعد جس کا بھی کوئی آدمی مارا جائے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہوگا : یا تو وہ (اس کے بدلے) اسے قتل کردیں، یا اس سے دیت لے لیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابوہریرہ (رض) کی حدیث بھی حسن صحیح ہے، ٢ - اسے شیبان نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی کے مثل روایت کیا ہے، ٣ - اور یہ (حدیث بنام ابوشریح کعبی کی جگہ بنام) ابوشریح خزاعی بھی روایت کی گئی ہے۔ (اور یہ دونوں ایک ہی ہیں) اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا : جس کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے اختیار ہے یا تو وہ اس کے بدلے اسے قتل کر دے، یا معاف کر دے، یا دیت وصول کرے ، ٤ - بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٨٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2220) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1406
مقتول کے ولی کو اختیار ہے چاہے تو قصاص لے ورنہ معاف کردے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی قتل کردیا گیا، تو قاتل مقتول کے ولی (وارث) کے سپرد کردیا گیا، قاتل نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں نے اسے قصداً قتل نہیں کیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار ! اگر وہ (قاتل) اپنے قول میں سچا ہے پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا تو تم جہنم میں جاؤ گے ١ ؎، چناچہ مقتول کے ولی نے اسے چھوڑ دیا، وہ آدمی رسی سے بندھا ہوا تھا، تو وہ رسی گھسیٹتا ہوا باہر نکلا، اس لیے اس کا نام ذوالنسعہ (رسی یا تسمے والا) رکھ دیا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور «نسعہ» : رسی کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ٣ (٤٤٩٨) ، سنن النسائی/القسامة ٥ (٤٧٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٣٤ (٢٦٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ قاتل اپنے دعویٰ میں اگر سچا ہے تو اسے قتل کردینے کی صورت میں ولی کے گناہ گار ہونے کا خدشہ ہے ، اس لیے اس کا نہ قتل کرنا زیادہ مناسب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2690) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1407
مثلہ کی ممانعت
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی لشکر پر امیر مقرر کر کے بھیجتے تو خاص طور سے اسے اپنے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی وصیت فرماتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے انہیں بھلائی کی وصیت کرتے، چناچہ آپ نے فرمایا : اللہ کے نام سے اس کے راستے میں جہاد کرو، جو کفر کرے اس سے لڑو، جہاد کرو، مگر مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، بدعہدی نہ کرو، مثلہ ١ ؎ نہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو ، حدیث میں کچھ تفصیل ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن مسعود، شداد بن اوس، عمران بن حصین، انس، سمرہ، مغیرہ، یعلیٰ بن مرہ اور ابوایوب سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم نے مثلہ کو حرام کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٢ (١٧٢١) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٩٠ (٢٦١٢) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٨ (٢٨٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩) ، و مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٨) ، وسنن الدارمی/السیر (٢٤٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مردہ کے ناک ، کان وغیرہ کاٹ کر صورت بگاڑ دینے کو مثلہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎؎ : پوری حدیث صحیح مسلم میں مذکورہ باب میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2858) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1408
مثلہ کی ممانعت
شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ نے ہر کام کو اچھے طریقے سے کرنا ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا جب تم قتل ١ ؎ کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تمہارے ہر آدمی کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ١١ (١٩٥٥) ، سنن ابی داود/ الضحایا ١٢ (٢٨١٥) ، سنن النسائی/الضحایا ٢٢ (٤٤١٠) ، و ٢٧ (٤٤١٩) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٣ (٣١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٤١٧) ، و مسند احمد (٤/١٢٣، ١٢٤، ١٢٥) ، و سنن الدارمی/الأضاحي ١٠ (٢٠١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انسان کو ہر چیز کے ساتھ رحم دل ہونا چاہیئے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف انسانوں کے ساتھ بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی احسان اور رحم دلی کی تعلیم دی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ تم جب کسی شخص کو بطور قصاص قتل کرو تو قتل کے لیے ایسا طریقہ اپناؤ جو آسان ہو اور سب سے کم تکلیف کا باعث ہو ، اسی طرح جب کوئی جانور ذبح کرو تو اس کے ساتھ بھی احسان کرو یعنی ذبح سے پہلے چھری خوب تیز کرلو ، بہتر ہوگا کہ چھری تیز کرنے کا عمل جانور کے سامنے نہ ہو اور نہ ہی ایک جانور دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے ، اسی طرح اس کی کھال اس وقت اتاری جائے جب وہ ٹھنڈا پڑجائے۔ ٢ ؎ : حدیث میں قتل سے مراد موذی جانور کا قتل ہے یا بطور قصاص کسی قاتل کو قتل کرنا اور میدان جنگ میں دشمن کو قتل کرنا ہے ، ان تمام صورتوں میں قتل کی اجازت ہے ، لیکن دشمنی کے جذبات میں ایذا دیدے کر مارنے کی اجازت نہیں ہے ، جیسے اسلام سے پہلے مثلہ کیا جاتا تھا ، پہلے ہاتھ کاٹتے پھر پیر پھر ناک پھر کان وغیرہ ، اسلام نے اس سے منع فرما دیا اور کہا کہ تلوار کے ایک وار سے سر تن سے جدا کرو تاکہ کم سے کم تکلیف ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3170) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1409
حمل ضائع کردینے کی دیت
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ دو عورتیں سوکن تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر یا خیمے کی میخ (گھونٹی) سے مارا، تو اس کا حمل ساقط ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے اس حمل کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا اور دیت کی ادائیگی اس عورت کے عصبہ کے ذمہ ٹھہرائی ١ ؎۔ حسن بصری کہتے ہیں : زید بن حباب نے سفیان ثوری سے روایت کی، اور سفیان ثوری نے منصور سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٢٥ (٦٩٠٤ - ٦٩٠٨) ، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ، ١١ (١٦٨٢) ، سنن ابی داود/ الدیات ٢١ (٤٥٦٨) ، سنن النسائی/القسامة ٣٩ (٤٨٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٧ (٢٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٠) ، و مسند احمد (٤/٢٢٤، ٢٤٥، ٢٤٦، ٢٤٩) ، و سنن الدارمی/الدیات ٢٠ (٢٤٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث قتل کی دوسری قسم شبہ عمد کے سلسلہ میں اصل ہے ، شبہ عمد : وہ قتل ہے جس میں قتل کے لیے ایسی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جن سے عموماً قتل واقع نہیں ہوتا جیسے : لاٹھی اور اسی جیسی دوسری چیزیں ، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے ، یہ سو اونٹ ہے ، ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی ، اس دیت کی ذمہ داری قاتل کے عصبہ پر ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو باپ کی جہت سے قاتل کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہیں ، خواہ اس کے وارثین میں سے نہ ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2206) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1411
حمل ضائع کردینے کی دیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے «جنين» (حمل) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی (دینے) کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا : کیا ایسے کی دیت دی جائے گی، جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، نہ آواز نکالی، اس طرح کا خون تو ضائع اور باطل ہوجاتا ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ شاعروں والی بات کر رہا ہے ١ ؎، «جنين» (حمل گرا دینے) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں حمل بن مالک بن نابغہ اور مغیرہ بن شعبہ سے احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤ - غرہ کی تفسیر بعض اہل علم نے، غلام، لونڈی یا پانچ سو درہم سے کی ہے، ٥ - اور بعض اہل علم کہتے ہیں : «غرة» سے مراد گھوڑا یا خچر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٤٦ (٥٧٥٨) ، والفرائض ١١ (٥٧٥٩) ، والدیات ٢٥ (٦٩٠٤) ، و ١٠ ٦٩٠٩، ٦٩١٠) ، صحیح مسلم/القسامة ١١ (١٦٨١) ، سنن ابی داود/ الدیات ٢١ (٤٥٧٦) ، القسامة ٣٩ (٤٨٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١١ (٢٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٥١٠٦) ، و موطا امام مالک/العقول ٧ (٥) ، و مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٤، ٤٣٨، ٤٩٨، ٥٣٥، ٥٣٩) ، وانظر ما یأتي برقم : ٢١١١ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کو رد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی ، اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے اس کی مذمت کی ، اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ، رسول اللہ ﷺ کا بعض کلام مسجع ملتا ہے ، یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلا ہے۔ ٢ ؎ : یہ اس صورت میں ہوگا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہو پھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مرجائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2639) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1410
مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) سے پوچھا کیا ١ ؎: امیر المؤمنین ! کیا آپ کے پاس کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی ایسی تحریر ہے جو قرآن میں نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا ! میں سوائے اس فہم و بصیرت کے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کے سلسلہ میں آدمی کو نوازتا ہے اور اس صحیفہ میں موجود چیز کے کچھ نہیں جانتا، میں نے پوچھا : صحیفہ میں کیا ہے ؟ کہا : اس میں دیت، قید یوں کے آزاد کرنے کا ذکر اور آپ کا یہ فرمان ہے : مومن کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں : مومن کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے گا، ٤ - اور بعض اہل علم کہتے ہیں : ذمی کے بدلے بطور قصاص مسلمان کو قتل کیا جائے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١١١) ، والجہاد ١٧١ (٣٠٤٧) ، والدیات ٢٤ (٦٩٠٣) ، و ٣١ (٦٩١٥) ، سنن النسائی/القسامة ١٣، ١٤ (٤٧٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢١ (٢٦٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١١) ، و مسند احمد (١/٧٩) ، وسنن الدارمی/الدیات ٥ (٢٤٠١) (وانظر ما یأتي برقم ٢١٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علی (رض) سے ابوجحیفہ کے سوال کرنے کی وجہ سے بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اہل بیت بالخصوص علی (رض) کے پاس نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی کچھ ایسی باتیں ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ، کچھ اسی طرح کا سوال علی (رض) سے قیس بن عبادہ اور اشتر نخعی نے بھی کیا تھا ، اس کا ذکر سنن نسائی میں ہے۔ ٢ ؎ : رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم عام ہے ہر کافر کے لیے خواہ حربی ہو یا ذمی ، لہٰذا مومن کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہیں کیا جائے گا ، ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذمی کے بدلے ایک مسلمان کے قتل کا حکم دیا ، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، اس کا صحیح ہونا اگر ثابت بھی ہوجائے تو یہ منسوخ ہوگی اور «لايقتل مسلم بکافر» والی روایت اس کے لیے ناسخ ہوگی ، کیونکہ آپ کا یہ فرمان فتح مکہ کے سال کا ہے جب کہ ذمی والی روایت اس سے پہلے کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2658) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1412
مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کافر کے بدلے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا ، اور اسی سند سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کافر کی دیت مومن کی دیت کا نصف ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - یہودی اور نصرانی کی دیت میں اہل علم کا اختلاف ہے، یہودی اور نصرانی کی دیت کی بابت بعض اہل علم کا مسلک نبی اکرم ﷺ سے مروی حدیث کے موافق ہے، ٣ - عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں : یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے، احمد بن حنبل اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٦٦١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2659) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1413 عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ یہودی اور نصرانی کی دیت چار ہزار درہم اور مجوسی کی آٹھ سو درہم ہے۔ ( امام ترمذی کہتے ہیں :) ١ - مالک بن انس، شافعی اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٢ - بعض اہل علم کہتے ہیں : یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمانوں کی دیت کے برابر ہے، سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٧ (٤٨١٠) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٣ (٢٦٤٤) ، (تحفة الأشراف :) ، و مسند احمد (٢/١٨٣، ٢٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2659) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1413
جو اپنے غلام کو قتل کردے
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم بھی اسے قتل کردیں گے اور جو اپنے غلام کا کان، ناک کاٹے گا ہم بھی اس کا کان، ناک کاٹیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، ابراہیم نخعی اسی کے قائل ہیں، ٣ - بعض اہل علم مثلاً حسن بصری اور عطا بن ابی رباح وغیرہ کہتے ہیں : آزاد اور غلام کے درمیان قصاص نہیں ہے، (نہ قتل کرنے میں، نہ ہی قتل سے کم زخم پہنچانے) میں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں : اگر کوئی اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جائے گا، اور جب دوسرے کے غلام کو قتل کرے گا تو اسے اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا، سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الدیات ٧ (٤٥١٥) ، سنن النسائی/القسامة ١٠ (٤٧٥١) ، و ١١ (٤٧٥٢) ، و ١٧ (٤٧٦٧) ، و ١٧ (٤٧٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٣ (٢٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٦) ، و مسند احمد (٥/١٠، ١١، ١٢، ١٨) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حدیث عقیقہ کے سوا دیگر احادیث کے حسن کے سمرہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2663) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1414
بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے ترکہ ملے گا
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر (رض) کہتے تھے : دیت کی ادائیگی عاقلہ ١ ؎ پر ہے، اور بیوی اپنے شوہر کی دیت سے میراث میں کچھ نہیں پائے گی، یہاں تک کہ ان کو ضحاک بن سفیان کلابی نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک فرمان لکھا تھا : اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے میراث دو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفرائض ١٨ (٢٩٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٢ (٢٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٧٣) ، و مسند احمد (٣/٤٥٢) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ سعید بن المسیب کے عمر (رض) سے سماع میں اختلاف ہے، ملاحظہ ہو صحیح ابی داود رقم : ٢٥٩٩ ) وضاحت : ١ ؎ : دیت کے باب میں «عقل» ، «عقول» اور «عاقلہ» کا ذکر اکثر آتا ہے اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے : عقل دیت کا ہم معنی ہے ، اس کی اصل یہ ہے کہ قاتل جب کسی کو قتل کرتا تو دیت کی ادائیگی کے لیے اونٹوں کو جمع کرتا ، پھر انہیں مقتول کے اولیاء کے گھر کے سامنے رسیوں میں باندھ دیتا ، اسی لیے دیت کا نام «عقل» پڑگیا ، اس کی جمع «عقول» آتی ہے ، اور «عاقلہ» باپ کی جہت سے قاتل کے وہ قریبی لوگ ہیں جو قتل خطا کی صورت میں دیت کی ادائیگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ٢ ؎ : سنن ابوداؤد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ پھر عمر (رض) نے اپنے اس قول بیوی شوہر کی دیت سے میراث نہیں پائے گی سے رجوع کرلیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2642 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1415
قصاص کے بارے میں
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ کھایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو دانت کاٹنے والے کے دونوں اگلے دانت ٹوٹ گئے، وہ دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنا معاملہ لے گئے تو آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اونٹ کے کاٹنے کی طرح کاٹ کھاتا ہے، تمہارے لیے کوئی دیت نہیں، پھر اللہ نے یہ آیت نازل کی : «والجروح قصاص» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عمران بن حصین (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں یعلیٰ بن امیہ اور سلمہ بن امیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں اور یہ دونوں بھائی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ١٨ (٦٨٩٢) ، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ٤ (١٦٧٣) ، سنن النسائی/القسامة ١٨ (٤٧٦٢-٤٧٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٠ (٢٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٣) ، و مسند احمد (٤/٤٢٧، ٤٣٠، ٤٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ (المائدہ : ٤٥ ) ، لہٰذا جن میں قصاص لینا ممکن ہے ان میں قصاص لیا جائے گا اور جن میں ممکن نہیں ان میں قاضی اپنے اجتہاد سے کام لے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1416
تہمت میں قید کرنا
معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو تہمت ١ ؎ کی بنا پر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر) اس کو رہا کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٢ - بہز بن حکیم بن معاویہ بن حیدۃ قشیری کی حدیث جسے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، حسن ہے، ٣ - اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ نے بہز بن حکیم سے یہ حدیث اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأقضیة ٢٩ (٣٦٣٠) ، سنن النسائی/قطع السارق ٢ (٤٨٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس تہمت اور الزام کے کئی سبب ہوسکتے ہیں : اس نے جھوٹی گواہی دی ہوگی ، یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعویٰ پیش کیا ہوگا ، یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہوگا ، پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کردیا گیا ہوگا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید و بند کرنا ایک شرعی امر ہے۔ ٢ ؎ : پوری حدیث کے لیے دیکھئیے سنن ابی داود حوالہ مذکور۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (3785) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1417
اپنے مال کی حفاظت میں مرنے والا شہید ہے۔
سعید بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے ١ ؎ اور جس نے ایک بالشت بھی زمین چرائی قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث میں حاتم بن سیاہ مروزی نے اضافہ کیا ہے، معمر کہتے ہیں : زہری سے مجھے حدیث پہنچی ہے، لیکن میں نے ان سے نہیں سنا کہ انہوں نے اس حدیث یعنی «من قتل دون ماله فهو شهيد» جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے میں کچھ اضافہ کیا ہو، اسی طرح شعیب بن ابوحمزہ نے یہ حدیث بطریق : «الزهري عن طلحة بن عبد اللہ عن عبدالرحمٰن بن عمرو بن سهل عن سعيد بن زيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، نیز سفیان بن عیینہ نے بطریق : «الزهري عن طلحة بن عبد اللہ عن سعيد بن زيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، اس میں سفیان نے عبدالرحمٰن بن عمرو بن سہل کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٣٢ (٤٧٧٢) ، سنن النسائی/المحاربة ٢٢ (٤٠٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢١ (٢٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٦١) ، و مسند احمد (١/١٨٧، ١٨٨، ١٨٩، ١٩٠) ویأتي برقم : ١٤٢١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اپنی جان ، مال ، اہل و عیال اور عزت و ناموس کی حفاظت اور دفاع ایک شرعی امر ہے ، ایسا کرتے ہوئے اگر کسی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تو اسے شہادت کا درجہ نصیب ہوگا ، لیکن یہ شہید میدان جہاد کے شہید کے مثل نہیں ہے ، اسے غسل دیا جائے گا ، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے کفن بھی دیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4580) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1418
اپنے مال کی حفاظت میں مرنے والا شہید ہے۔
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث حسن ہے، یہ دوسری سندوں سے بھی ان سے مروی ہے ٢ - بعض اہل علم نے آدمی کو اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے دفاع کی اجازت دی ہے، ٣ - اس باب میں علی، سعید بن زید، ابوہریرہ، ابن عمر، ابن عباس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں : آدمی اپنے مال کی حفاظت کے لیے دفاع کرے خواہ اس کا مال دو درہم ہی کیوں نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٣ (٢٤٨٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٢ (٢٢٥) ، سنن ابی داود/ السنة ٣٢ (٤٧٧١) ، سنن النسائی/المحاربة ٢٢ (٤٠٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٠٣) ، و مسند احمد (٢/١٦٣، ١٩٣، ١٩٤، ٢٠٥، ٢٠٦، ٢١٠، ٢١٥، ٢١٧، ٢٢١، ٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی کسی دوسرے شخص کا ناحق مال لینا چاہتا ہے تو یہ دیکھے بغیر کہ مال کم ہے یا زیادہ مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے اس کا دفاع کرے ، دفاع کرتے وقت غاصب اگر مارا جائے تو دفاع کرنے والے پر قصاص اور دیت میں سے کچھ بھی نہیں ہے اور اگر دفاع کرنے والا مارا جائے تو وہ شہید ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (41) ، الإرواء (1528) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1419
اپنے مال کی حفاظت میں مرنے والا شہید ہے۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی کا مال ناحق چھینا جائے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے دفاع کرتا ہوا مارا جائے تو وہ شہید ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اپنے مال کی حفاظت میں مرنے والا شہید ہے۔
سعید بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابراہیم بن سعد سے کئی راویوں نے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الأحكام (42) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1421
قسامت کے بارے میں
سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید (رض) کہیں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، جب وہ خیبر پہنچے تو الگ الگ راستوں پر ہوگئے، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا، کسی نے ان کو قتل کردیا تھا، آپ نے انہیں دفنا دیا، پھر وہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگو کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : بڑے کا لحاظ کرو، لہٰذا وہ خاموش ہوگئے اور ان کے دونوں ساتھیوں نے گفتگو کی، پھر وہ بھی ان دونوں کے ساتھ شریک گفتگو ہوگئے، ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا واقعہ بیان کیا، آپ نے ان سے فرمایا : کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاؤ گے (کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے) تاکہ تم اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہوجاؤ (یا کہا) قاتل کے خون کے مستحق ہوجاؤ؟ ان لوگوں نے عرض کیا : ہم قسم کیسے کھائیں جب کہ ہم حاضر نہیں تھے ؟ آپ نے فرمایا : تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تم سے بری ہوجائیں گے ، ان لوگوں نے کہا : ہم کافر قوم کی قسم کیسے قبول کرلیں ؟ پھر رسول اللہ ﷺ نے جب یہ معاملہ دیکھا تو ان کی دیت ١ ؎ خود ادا کردی۔ اس سند سے بھی سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج سے اسی طرح اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔