18. شکار کا بیان
کتے کے شکار میں سے کیا کھانا جائز ہے اور کیا ناجائز
ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ شکاری ہیں ؟ (شکار کے احکام بتائیے ؟ ) آپ نے فرمایا : جب تم (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لو پھر وہ تمہارے لیے شکار کو روک رکھے تو اسے کھاؤ؟ میں نے کہا : اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالے، آپ نے فرمایا : اگرچہ مار ڈالے، میں نے عرض کیا : ہم لوگ تیر انداز ہیں (تو اس کے بارے میں فرمائیے ؟ ) آپ نے فرمایا : تمہارا تیر جو شکار کرے اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا : ہم سفر کرنے والے لوگ ہیں، یہود و نصاریٰ اور مجوس کی بستیوں سے گزرتے ہیں اور ان کے برتنوں کے علاوہ ہمارے پاس کوئی برتن نہیں ہوتا (تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا لیں ؟ ) آپ نے فرمایا : اگر تم اس کے علاوہ کوئی برتن نہ پاس کو تو اسے پانی سے دھو لو پھر اس میں کھاؤ پیو ١ ؎۔ اس باب میں عدی بن حاتم سے بھی روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوثعلبہ خشنی کا نام جرثوم ہے، انہیں جرثم بن ناشب اور جرثم بن قیس بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٤ (٥٤٧٨) ، و ١٠ (٥٤٨٨) ، و ١٤ (٥٤٩٦) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٣٠) ، و ٢ (١٩٣١) ، سنن ابی داود/ الصید ٢ (٢٨٥٥) ، سنن النسائی/الصید ٤ (٤٢٧١) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٣ (٣٢٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٥) ، و مسند احمد (٤/١٩٣، ١٩٤، ١٩٥) ویأتي في السیر ١١ (١٥٦٠) ، وفي الأطعمة ٧ (٦٩٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3207) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1464
کتے کے شکار میں سے کیا کھانا جائز ہے اور کیا ناجائز
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ اپنے سدھائے ١ ؎ ہوئے کتے (شکار کے لیے) روانہ کرتے ہیں (یہ کیا ہے ؟ ) آپ نے فرمایا : وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں ؟ آپ نے فرمایا : اگرچہ وہ (شکار کو) مار ڈالیں (پھر بھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو ، عدی بن حاتم کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ «معراض» (ہتھیار کی چوڑان) سے شکار کرتے ہیں، (اس کا کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے فرمایا : جو (ہتھیار کی نوک سے) پھٹ جائے اسے کھاؤ اور جو اس کے عرض (بغیر دھاردار حصے یعنی چوڑان) سے مرجائے اسے مت کھاؤ۔
کتے کے شکار میں سے کیا کھانا جائز ہے اور کیا ناجائز
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے کتے کے شکار سے منع کیا گیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ مجوسی کے کتے کے شکار کی اجازت نہیں دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصید ٤ (٣٢٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧١) (ضعیف) (سند میں دو راوی ” شریک القاضی “ اور ” حجاج بن ارطاة “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3209) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1466
بازکا شکار
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے باز کے شکار کے متعلق پوچھا ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ تمہارے لیے جو روک رکھے اسے کھاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم اس حدیث کو صرف اسی سند «عن مجالد عن الشعبي» سے جانتے ہیں۔ ٢ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ باز اور شکرے کے شکار میں مضائقہ نہیں سمجھتے، ٣ - مجاہد کہتے ہیں : باز وہ پرندہ ہے جس سے شکار کیا جاتا ہے، یہ اس «جوارح» میں داخل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ «وما علمتم من الجوارح» میں کیا ہے انہوں نے «جوارح» کی تفسیر کتے اور اس پرندے سے کی ہے جن سے شکار کیا جاتا ہے، ٤ - بعض اہل علم نے باز کے شکار کی رخصت دی ہے اگرچہ وہ شکار میں سے کچھ کھالے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار کے لیے چھوڑا جائے تو وہ حکم قبول کرے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن اکثر فقہاء کہتے ہیں : باز کا شکار کھایا جائے گا چاہے وہ شکار کا کچھ حصہ کھالے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصید ٢ (٢٨٥١) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٥) (منکر) (سند میں ” مجالد “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : منكر، صحيح أبي داود (2541) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1467
تیر لگے شکار کا غائب ہوجانا
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں شکار کو تیر مارتا ہوں پھر اگلے دن اس میں اپنا تیر پاتا ہوں (اس شکار کا کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے فرمایا : جب تمہیں معلوم ہوجائے کہ تمہارے ہی تیر نے شکار کو مارا ہے اور تم اس میں کسی اور درندے کا اثر نہ دیکھو تو اسے کھاؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعبہ نے یہ حدیث ابوبشر سے اور عبدالملک بن میسرہ نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے عدی بن حاتم سے روایت کی ہے، دونوں روایتیں صحیح ہیں، ٣ - اس باب میں ابوثعلبہ خشنی سے بھی روایت ہے، ٤ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٤٦٥ (تحفة الأشراف : ٩٨٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اس شکار پر تیر کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز کا بھی اثر ہے جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی موت اس دوسرے اثر سے ہوئی ہو تو ایسا شکار حلال نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2539) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1468
جو شخص تیر لگنے کے بعد شکار کو پانی میں پائے۔
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : تم اپنا تیر پھینکتے وقت اس پر اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھو، پھر اگر اسے مرا ہوا پاؤ تو بھی کھالو، سوائے اس کے کہ اسے پانی میں گرا ہوا پاؤ تو نہ کھاؤ اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ پانی نے اسے مارا ہے یا تمہارے تیر نے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٤٦٥ (تحفة الأشراف : ٩٨٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر تیر کی مار کھانے کے بعد یہ شکار تیر کے سبب پانی میں گرا ہو پھر شکاری نے اسے پکڑ لیا ہو تو یہ حلال ہے ، کیونکہ اب اس کا شبہ نہیں رہا کہ وہ پانی میں ڈوب کر مرا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2540) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1469
جو شخص تیر لگنے کے بعد شکار کو پانی میں پائے۔
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سدھائے ہوئے کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا روانہ کرو، اور (بھیجتے وقت اس پر) اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھ لو تو تمہارے لیے جو کچھ وہ روک رکھے اسے کھاؤ اور اگر وہ شکار سے کچھ کھالے تو مت کھاؤ، اس لیے کہ اس نے شکار اپنے لیے روکا ہے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے اگر ہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے شریک ہوجائیں ؟ آپ نے فرمایا : تم نے اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) اپنے ہی کتے پر پڑھا ہے دوسرے کتے پر نہیں ۔ سفیان (ثوری) کہتے ہیں : آپ نے اس کے لیے اس کا کھانا درست نہیں سمجھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ذبیحہ اور شکار کے سلسلے میں صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جب وہ پانی میں گرجائیں تو انہیں کوئی نہ کھائے اور بعض لوگ ذبیحہ کے بارے میں کہتے ہیں : جب اس کا گلا کاٹ دیا جائے، پھر پانی میں گرے اور مرجائے تو اسے کھایا جائے گا، عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے، ٢ - اہل علم کا اس مسئلہ میں کہ جب کتا شکار کا کچھ حصہ کھالے اختلاف ہے، اکثر اہل علم کہتے ہیں : جب کتا شکار سے کھالے تو اسے مت کھاؤ، سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٣ - جب کہ صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں نے کھانے کی رخصت دی ہے، اگرچہ اس میں سے کتے نے کھالیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٤٦٥ (تحفة الأشراف : ٩٨٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ بسم اللہ تم نے صرف اپنے کتے پر پڑھا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ایسے کتے کا شکار جس کے ساتھ دوسرے کتے شریک رہے ہوں کھانا درست نہیں سمجھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2538 و 2543) ، الإرواء (2546) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1470
معراض سے شکار
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے بغیر پر کے تیر کے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : جسے تم نے دھار سے مارا ہے اسے کھاؤ اور جسے عرض (بغیر دھاردار حصہ یعنی چوڑان) سے مارا ہے تو وہ «وقيذ» ہے ١ ؎۔
پتھر سے شکار کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کی قوم کے ایک آدمی نے ایک یا دو خرگوش کا شکار کان اور ان کو پتھر سے ذبح کیا ١ ؎، پھر ان کو لٹکائے رکھا یہاں تک کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور اس کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی روایت میں شعبی کے شاگردوں کا اختلاف ہے، داود بن أبی ہند بسند الشعبی عن محمد بن صفوان (رض) روایت کرتے ہیں، اور عاصم الأحول بسند الشعبی عن صفوان بن محمد یا محمد بن صفوان روایت کرتے ہیں، (صفوان بن محمد کے بجائے محمد بن صفوان زیادہ صحیح ہے) جابر جعفی بھی بسند «شعبي عن جابر بن عبد الله» قتادہ کی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں، اس بات کا احتمال ہے کہ شعبی کی روایت دونوں سے ہو ٣ ؎، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : جابر کی شعبی سے روایت غیر محفوظ ہے، ٣ - اس باب میں محمد بن صفوان، رافع اور عدی بن حاتم سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - بعض اہل علم نے پتھر سے ذبح کرنے کی رخصت دی ہے ٢ ؎، ٥ - یہ لوگ خرگوش کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، ٦ - بعض لوگ خرگوش کھانے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس شرط کے ساتھ کہ پتھر نوکیلا ہو اور اس سے خون بہہ جائے «ما أنهر الدم» کا یہی مفہوم ہے کہ جس سے خون بہہ جائے اسے کھاؤ۔ ٢ ؎ : علماء کی یہ رائے درست ہے ، کیونکہ باب کی حدیث سے ان کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ ٣ ؎ : یعنی شعبی نے محمد بن صفوان اور جابر بن عبداللہ دونوں سے روایت کی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3175) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1472
بندھے ہوئے جانور پر تیر چلا کر ہلاک کرنے کے بعد اسے کھانا منع ہے۔
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے «مجثمة» کے کھانے سے منع فرمایا۔ «مجثمة» اس جانور یا پرندہ کو کہتے ہیں، جسے باندھ کر تیر سے مارا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابو الدرداء کی حدیث غریب ہے، ٢ - اس باب میں عرباض بن ساریہ، انس، ابن عمر، ابن عباس، جابر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «مصبورہ» : وہ جانور ہے جسے باندھ کر اس پر تیر اندازی کی جاتی ہو یہاں تک کہ وہ مرجاتا ہو ، ایسے جانور کے کھانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ، کیونکہ یہ غیر مذبوح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2391) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1473
بندھے ہوئے جانور پر تیر چلا کر ہلاک کرنے کے بعد اسے کھانا منع ہے۔
عرباض بن ساریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے دن ہر کچلی والے درندے ١ ؎ پنجے والے پرندے ٢ ؎، پالتو گدھے کے گوشت، «مجثمة» اور «خليسة» سے منع فرمایا، آپ نے حاملہ (لونڈی جو نئی نئی مسلمانوں کی قید میں آئے) کے ساتھ جب تک وہ بچہ نہ جنے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا۔ راوی محمد بن یحییٰ قطعی کہتے ہیں : ابوعاصم سے «مجثمة» کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : پرندے یا کسی دوسرے جانور کو باندھ کر اس پر تیر اندازی کی جائے (یہاں تک کہ وہ مرجائے) اور ان سے «خليسة» کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : «خليسة» وہ جانور ہے، جس کو بھیڑیا یا درندہ پکڑے اور اس سے کوئی آدمی اسے چھین لے پھر وہ جانور ذبح کئے جانے سے پہلے اس کے ہاتھ میں مرجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ویأتي عندہ برقم ١٥٦٤ (تحفة الأشراف : ٩٨٩٢) ، وانظر مسند احمد (٤/١٢٧) (صحیح) (سند میں ” ام حبیبہ “ مجہول ہیں، ” خلیسہ “ کے سوا تمام ٹکڑے شواہد کی بنا پر صحیح ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً بھیڑیا ، شیر اور چیتا وغیرہ۔ ٢ ؎ : گدھ اور باز وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح - صحيح مفرقا إلا الخليسة -، الصحيحة (4 / 238 - 239 و 1673 و 2358 و 2391) ، الإرواء (2488) ، صحيح أبي داود (1883 و 2507) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1474
بندھے ہوئے جانور پر تیر چلا کر ہلاک کرنے کے بعد اسے کھانا منع ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی جاندار کو نشانہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٢ (١٩٥٧) ، سنن النسائی/الضحایا ٤١ (٤٤٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٠ (٣١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٦١١٢) ، و مسند احمد (١/٢١٦، ٢٧٣، ٢٨٠، ٢٨٥، ٣٤٠، ٣٤٥) (صحیح) (مؤلف اور ابن ماجہ کی سند میں سماک و عکرمہ کی وجہ سے کلام ہے، دیگر کی سندیں صحیح ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3187) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1475
(جنین) جانور کے پیٹ کے بچے کو ذبح کرنا
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنین ١ ؎ کی ماں کا ذبح ہی جنین کے ذبح کے لیے کافی ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور یہ اس سند کے علاوہ سے بھی ابو سعید خدری سے ہے، ٣ - اس باب میں جابر، ابوامامہ، ابو الدرداء، اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - صحابہ کرام اور ان کے علاوہ لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الضحایا ١٨ (٢٨٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٥ (٣١٩٩) ، و مسند احمد (٣/٣١، ٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٦) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” مجالد “ ضعیف ہیں، دیکھئے : الارواء رقم ٢٥٣٩ ) وضاحت : ١ ؎ : بچہ جب تک ماں کی پیٹ میں رہے اسے جنین کہا جاتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی جب کسی جانور کو ذبح کیا جائے پھر اس کے پیٹ سے بچہ (مردہ) نکلے تو اس بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ بچہ مادہ جانور کے جسم کا ایک حصہ ہے ، لہٰذا اسے ذبح نہیں کیا جائے گا ، البتہ زندہ نکلنے کی صورت میں وہ بچہ ذبح کے بعد ہی حلال ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3199) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1476
ذی ناب (کچلی والا درندہ) اور ذی مخلب (پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ) کی حرمت کے بارے میں۔
ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی دانت والے درندے سے منع فرمایا ١ ؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ /الصید ٢٩ (٥٥٣٠) ، والطب ٥٧ (٥٧٨٠) ، صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٢) ، والأطعمة ٣٣ (١٩٣٢) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ٣٣ (٢٨٠٢) ، سنن النسائی/الصید ٢٨ (٤٣٣٥) ، و ٣٠ (٤٣٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٣ (٣٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٤) ، و مسند احمد (٤/١٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دانت (یعنی کچلیوں) سے شکار اور چیر پھاڑ کرنے والے جانور مثلاً شیر ، چیتا ، بھیڑیا ، ہاتھی ، اور بندر وغیرہ یہ سب حرام ہیں ، اسی طرح ان کے کیے ہوئے شکار اگر مرگئے ہوں تو ان کا کھانا جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1477
ذی ناب (کچلی والا درندہ) اور ذی مخلب (پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ) کی حرمت کے بارے میں۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ فتح خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ نے پالتو گدھے، خچر کے گوشت، ہر کچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے کو حرام کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - جابر کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، عرباض بن ساریہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣١٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (8 / 138) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1478
ذی ناب (کچلی والا درندہ) اور ذی مخلب (پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ) کی حرمت کے بارے میں۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی دانت والے درندے کو حرام قرار دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - صحابہ کرام اور دیگر لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر : سنن ابن ماجہ/الصید ١٣ (٣٢٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٤٦) ، و مسند احمد (٢/٣٣٦، ٣٦٦، ٤٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سورة الانعام کی آیت «قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما علی طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير اللہ به» (الأنعام : ١٤٥ ) کے عام مفہوم سے یہ استدلال کرنا کہ ہر کچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے حلال ہیں درست نہیں کیونکہ باب کی یہ حدیث اور سورة المائدہ کی آیت «وما أكل السبع إلا ما ذكيتم» (المائدة : ٣ ) سورة الانعام کی مذکورہ آیت کے لیے مخص ہے نیز سورة المائدہ کی آیت مدنی ہے جب کہ سورة الانعام کی آیت مکی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3233) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1479
زندہ جانور سے جو عضو کاٹا جائے وہ مردار ہے۔
ابو واقد حارث بن عوف لیثی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے، وہاں کے لوگ (زندہ) اونٹوں کے کوہان اور (زندہ) بکریوں کی پٹھ کاٹتے تھے، آپ نے فرمایا : زندہ جانور کا کاٹا ہوا گوشت مردار ہے ١ ؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
حلق اور لبہ میں ذبح کرنا چاہیے۔
ابوالعشراء کے والد اسامہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا ذبح (شرعی) صرف حلق اور لبہ ہی میں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : اگر اس کی ران میں بھی تیر مار دو تو کافی ہوگا ، یزید بن ہارون کہتے ہیں : یہ حکم ضرورت کے ساتھ خاص ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس حدیث کے علاوہ ابو العشراء کی کوئی اور حدیث ان کے باپ سے ہم نہیں جانتے ہیں، ابوالعشراء کے نام کے سلسلے میں اختلاف ہے : بعض لوگ کہتے ہیں : ان کا نام اسامہ بن قھطم ہے، اور کہا جاتا ہے ان کا نام یسار بن برز ہے اور ابن بلز بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام عطارد ہے دادا کی طرف ان کی نسبت کی گئی ہے، ٣ - اس باب میں رافع بن خدیج سے بھی روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الضحایا ١٦ (٢٨٢٥) ، سنن النسائی/الضحایا ٢٥ (٤٤١٣) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٩ (٣١٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٩٤) و مسند احمد (٤/٣٣٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٢ (٢٠١٥) (ضعیف) (سند میں ” ابوالعشراء “ مجہول ہیں، ان کے والد بھی مجہول ہیں مگر صحابی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3184) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1481
چھپکلی کو مارنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو چھپکلی ١ ؎ کو پہلی چوٹ میں مارے گا اس کو اتنا ثواب ہوگا، اگر اس کو دوسری چوٹ میں مارے گا تو اس کو اتنا ثواب ہوگا اور اگر اس کو تیسری چوٹ میں مارے گا تو اس کو اتنا ثواب ہوگا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، سعد، عائشہ اور ام شریک سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٨ (الحیؤن ٢) (٢٢٤٠) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٧٥ (٥٢٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٢ (٣٢٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٦١) ، و مسند احمد (٢/٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہندوستان میں لوگ گرگٹ کو غلط طور پر وزع سمجھ کر اس کو مانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں جب کہ وہ عام طور پر جنگل جھاڑی میں رہتا ہے اور چھپکلی اپنی ضرر رسانیوں کے ساتھ گھروں میں پائی جاتی ہے ، اس لیے اس کا مارنا موذی کو مارنا ہے جس کے مارنے کا ثواب بھی ہے۔ ٢ ؎ : صحیح مسلم میں ہے کہ پہلی چوٹ میں مارنے پر سو اور دوسری میں اس سے کم اور تیسری میں اس سے بھی کم نیکیاں ملیں گی ، امام نووی کہتے ہی : پہلی چوٹ میں نیکیوں کی کثرت کا سبب یہ ہے تاکہ لوگ اسے مارنے میں پہل کریں اور اسے مار کر مذکورہ ثواب کے مستحق ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1482
سانپ کو مانا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سانپوں کو مارو، خاص طور سے اس سانپ کو مارو جس کی پیٹھ پہ دو (کالی) لکیریں ہوتی ہیں اور اس سانپ کو جس کی دم چھوٹی ہوتی ہے اس لیے کہ یہ دونوں بینائی کو زائل کردیتے ہیں اور حمل کو گرا دیتے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابن عمر (رض) سے مروی ہے وہ ابولبابہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس کے بعد گھروں میں رہنے والے سانپوں کو جنہیں «عوامر» (بستیوں میں رہنے والے سانپ) کہا جاتا ہے، مارنے سے منع فرمایا ٢ ؎: ابن عمر اس حدیث کو زید بن خطاب ٣ ؎ سے بھی روایت کرتے ہیں، ٣ - اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ اور سہل بن سعد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں : سانپوں کے اقسام میں سے اس سانپ کو بھی مارنا مکروہ ہے جو پتلا (اور سفید) ہوتا ہے گویا کہ وہ چاندی ہو، وہ چلنے میں بل نہیں کھاتا بلکہ سیدھا چلتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٤ (٣٢٩٧) ، صحیح مسلم/السلام ٣٧ (الحیؤن ١) (٢٢٣٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٧٤ (٥٢٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٤٢ (٣٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان دونوں میں ایسا زہر ہوتا ہے کہ انہیں دیکھنے والا نابینا ہوجاتا ہے اور حاملہ کا حمل گر جاتا ہے۔ ٢ ؎ : یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ جن و شیاطین بھی ہوسکتے ہیں ، انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہوجانے یا اپنی شکل تبدیل کرلینے کی تین بار آگاہی دے دینی چاہیئے ، اگر وہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تو وہ ابو سعید خدری سے مروی حدیث کی روشنی میں انہیں مار سکتے ہیں۔ ٣ ؎ : زید بن خطاب عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہما) کے بڑے بھائی ہیں ، یہ عمر (رض) سے پہلے اسلام لائے ، بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے ، ان سے صرف ایک حدیث گھروں میں رہنے والے سانپوں کو نہ مارنے سے متعلق آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1483
سانپ کو مانا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے گھروں میں گھریلو سانپ رہتے ہیں، تم انہیں تین بار آگاہ کر دو تم تنگی میں ہو (یعنی دیکھو دوبارہ نظر نہ آنا ورنہ تنگی و پریشانی سے دوچار ہوگا) پھر اگر اس تنبیہ کے بعد کوئی سانپ نظر آئے تو اسے مار ڈالو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کو عبیداللہ بن عمر نے بسند «صيفي عن أبي سعيد الخدري» روایت کیا ہے جب کہ مالک بن انس نے اس حدیث کو بسند «صيفي عن أبي السائب مولی هشام بن زهرة عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا،
سانپ کو مانا
ابولیلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب گھر میں سانپ نکلے تو اس سے کہو : ہم نوح اور سلیمان بن داود کے عہد و اقرار کی رو سے یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں نہ ستاؤ پھر اگر وہ دوبارہ نکلے تو اسے مار دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو ثابت بنانی کی روایت سے صرف ابن ابی لیلیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٧٤ (٥٢٦٠) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٨٠ (٩٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٢) (ضعیف) (سند میں ” محمد بن أبی لیلیٰ “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1508) // ضعيف الجامع الصغير (590) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1485
کتوں کو ہلاک کرنا
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیتا، سو اب تم ان میں سے ہر کالے سیاہ کتے کو مار ڈالو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبداللہ بن مغفل کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، جابر، ابورافع، اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض احادیث میں مروی ہے کہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے ٢ ؎، ٤ - «الأسود البهيم» اس کتے کو کہتے ہیں جس میں سفیدی بالکل نہ ہو، ٥ - بعض اہل علم نے کالے کتے کے کئے شکار کو مکروہ سمجھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصید ١ (٢٨٤٥) ، سنن النسائی/الصید ١٠ (٤٢٨٥) ، و ١٤ (٤٢٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢ (٣٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٤٩) ، و مسند احمد (٤/٨٥، ٨٦) ، و (٥/٥٤، ٥٦، ٥٧) سنن الدارمی/الصید ٣ (٢٠٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابتداء میں سارے کتوں کے مارنے کا حکم ہوا پھر کالے سیاہ کتوں کو چھوڑ کر یہ حکم منسوخ ہوگیا ، بعد میں کسی بھی کتے کو جب تک وہ موذی نہ ہو مارنے سے منع کردیا گیا ، حتیٰ کہ شکار ، زمین ، جائیداد ، مکان اور جانوروں کی حفاظت و نگہبانی کے لیے انہیں پالنے کی اجازت بھی دی گئی۔ ٢ ؎ : یہ حدیث صحیح مسلم (رقم ١٥٧٢ ) میں جابر (رض) سے مروی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4102 / التحقيق الثانی) ، غاية المرام (148) ، صحيح أبي داود (2535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1486
کتوں کو ہلاک کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایسا کتا پالا یا رکھا جو سدھایا ہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہر دن دو قیراط کے برابر کم ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا : «أو كلب زرع» یا وہ کتا کھیتی کی نگرانی کرنے والا نہ ہو ، ٣ - اس باب میں عبداللہ بن مغفل، ابوہریرہ، اور سفیان بن أبی زہیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید والذبائح ٦ (٥٤٨٢) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (البیوع ٣١) ، (١٥٧٤) ، سنن النسائی/الصید ١٢ (٤٢٨٩) و ١٣ (٤٢٩١-٤٢٩٢) (تحفة الأشراف : ٧٥٤٩) ، وط/الاستئذان ٥ (١٣) ، و مسند احمد (٢/٤، ٨، ٣٧، ٤٧، ٦٠) ، وسنن الدارمی/الصید ٢ (٢٠٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قیراط ایک وزن ہے جو اختلاف زمانہ کے ساتھ بدلتا رہا ہے ، یہ کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے ، کتا پالنے سے ثواب میں کمی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں : ایسے گھروں میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا ، گھر والے کی غفلت کی صورت میں برتن میں کتے کا منہ ڈالنا ، پھر پانی اور مٹی سے دھوئے بغیر اس کا استعمال کرنا ، ممانعت کے باوجود کتے کا پالنا ، گھر میں آنے والے دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچنا وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2534) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1487
کتوں کو ہلاک کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری یا جانوروں کی نگرانی کرنے والے کتے کے علاوہ دیگر کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا ابن عمر (رض) سے کہا گیا : ابوہریرہ (رض) یہ بھی کہتے تھے : «أو كلب زرع» یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے (یعنی یہ بھی مستثنیٰ ہیں) ، تو ابن عمر (رض) نے کہا : ابوہریرہ (رض) کے پاس کھیتی تھی (اس لیے انہوں نے اس کے بارے میں پوچھا ہوگا) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٧ (٣٣٢٣) ، (دون ما استشنیٰ منہا) صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (البیوع ٣١) (١٥٧١) ، سنن النسائی/الصید ٩ (٤٣٨٢- ٤٢٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١ (٣٢٠٢) ، (دون ماستثنی منھا) (تحفة الأشراف : ٧٣٥٣) ، وط/الاستئذان ٥ (١٤) ، و مسند احمد (٢/٢٢-٢٣، ١١٣، ١٣٢، ١٣٦) ، سنن الدارمی/الصید ٣ (٢٠٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2549) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1488
کتوں کو ہلاک کرنا
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے مبارک چہرے سے درخت کی شاخوں کو ہٹا رہے تھے اور آپ خطبہ دے رہے تھے، آپ نے فرمایا : اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں انہیں مارنے کا حکم دیتا ١ ؎، سو اب تم ان میں سے ہر سیاہ کالے کتے کو مار ڈالو، جو گھر والے بھی شکاری، یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے یا بکریوں کی نگرانی کرنے والے کتوں کے سوا کوئی دوسرا کتا باندھے رکھتے ہیں ہر دن ان کے عمل (ثواب) سے ایک قیراط کم ہوگا ۔
کتوں کو ہلاک کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص بھی جانوروں کی نگرانی کرنے والے یا شکاری یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے کے سوا کوئی دوسرا کتا پالے گا تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کم ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - عطا بن ابی رباح نے کتا پالنے کی رخصت دی ہے اگرچہ کسی کے پاس ایک ہی بکری کیوں نہ ہو۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٣ (٣٣٢٢) وبدء الخلق ١٧ (٣٣٢٤) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (البیوع ٣١) ، (١٩) ، سنن ابی داود/ الصید ١ (٢٨٤٤) ، سنن النسائی/الصید ١٤ (٤٢٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢ (٣٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧١) ، و مسند احمد (٢/٢٦٧، ٣٤٥) (صحیح) (لیس عند (خ) ” أو صید “ إلا معلقا بعد الحدیث ٢٣٢٣) ۔ وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی حدیث رقم : ١٤٨٧ میں دو قیراط کا ذکر ہے ، اس کی مختلف توجیہ کی گئی ہیں : ( ١ ) آپ ﷺ نے پہلے ایک قیراط کی خبر دی جسے ابوہریرہ (رض) نے روایت کی ، بعد میں دو قیراط کی خبر دی جسے ابن عمر (رض) نے روایت کی۔ ( ٢ ) ایک قیراط اور دو قیراط کا فرق کتے کے موذی ہونے کے اعتبار سے ہوسکتا ہے ، ( ٣ ) یہ ممکن ہے کہ دو قیراط کی کمی کا تعلق مدینہ منورہ سے ہو ، اور ایک قیراط کا تعلق اس کے علاوہ سے ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3205) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1490
بانس وغیرہ سے ذبح کرنا
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کل ہم دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس (جانور ذبح کرنے کے لیے) چھری نہیں ہے (تو کیا حکم ہے ؟ ) ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو خون بہا دے ١ ؎ اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھا گیا ہو تو اسے کھاؤ، بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، اور میں تم سے دانت اور ناخن کی ٢ ؎ تفسیر بیان کرتا ہوں : دانت، ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ٣ ؎۔
جب اونٹ بھاگ جائے۔
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، لوگوں کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ان کے پاس گھوڑے بھی نہ تھے، ایک آدمی نے اس کو تیر مارا سو اللہ نے اس کو روک دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان چوپایوں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں، اس لیے اگر ان میں سے کوئی ایسا کرے (یعنی بدک جائے) تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو ١ ؎۔