19. قربانی کا بیان

【1】

قربانی کی فضلیت۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہشام بن عروہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں عمران بن حصین اور زید بن ارقم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - راوی ابومثنی کا نام سلیمان بن یزید ہے، ان سے ابن ابی فدیک نے روایت کی ہے، ٤ - رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی ، ٥ - یہ بھی مروی ہے کہ جانور کی سینگ کے عوض نیکی ملے گی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٣ (٣١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٤٣) (ضعیف جداً ) (سند میں ” ابو المثنی سلیمان بن یزید “ سخت ضعیف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3126) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (671) ، المشکاة (1470) ، ضعيف الجامع الصغير (5112) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1493

【2】

دومینڈھوں کی قربانی۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور (ذبح کرتے وقت) اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، عائشہ، ابوہریرہ، ابوایوب، جابر، ابو الدرداء، ابورافع، ابن عمر اور ابوبکرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأضاحي ٧ (٥٥٥٤) ، و ٩ (٥٥٥٨) ، و ١٣ (٥٥٦٤) ، و ١٤ (٥٥٦٥) ، والتوحید ١٣ (٧٣٩٩) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٣ (١٩٦٦) ، سنن ابی داود/ الأضاحي ٤ (٢٧٩٤) ، سنن النسائی/الأضاحي ١٤، (٤٣٩١، ٤٣٩٢) ، و ٢٨ (٤٤٢٠) ، و ٢٩ (٤٤٢١) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي (٣١٢٠) (تحفة الأشراف : ١٤٢٧) ، و مسند احمد (٣/٩٩، ١١٥، ١٧٠، ١٧٨، ١٨٩، ٢١١، ٢١٤، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٥٨، ٢٧٢، ٢٧٩، ٢٨١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١ (١٩٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے یہ مسائل ثابت ہوتے ہیں : ( ١ ) قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیئے ، گو نیابت بھی جائز ہے ، ( ٢ ) ذبح سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیئے ( ٣ ) ذبح کرتے وقت اپنا پاؤں جانور کے گردن پر رکھنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3120) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1494

【3】

دومینڈھوں کی قربانی۔

علی (رض) سے روایت ہے کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم ﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم ﷺ نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : علی بن مدینی نے کہا : اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، میں نے ان سے دریافت کیا : راوی ابوالحسناء کا کیا نام ہے ؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے، مسلم کہتے ہیں : اس کا نام حسن ہے، ٣ - بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں : مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کردیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کردی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأضاحي ٢ (٢٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٢) (ضعیف) (سند میں ” شریک “ حافظے کے کمزور ہیں، اور ابو الحسنائ “ مجہول، نیز ” حنش “ کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس ضعیف حدیث ، اور قربانی کرتے وقت نبی اکرم ﷺ کی دعا : «اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کی جاسکتی ہے ، پھر اختلاف اس میں ہے کہ میت کی جانب سے قربانی افضل ہے یا صدقہ ؟ حنابلہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک قربانی افضل ہے ، جب کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قیمت صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی دراصل دیگر عبادات (صوم و صلاۃ) کی طرح زندوں کی عبادت ہے ، قربانی کے استثناء کی کوئی دلیل پختہ نہیں ہے ، علی (رض) کی حدیث سخت ضعیف ہے ، اور نبی اکرم ﷺ کی قربانی کے وقت کی دعا سے استدلال زبردستی کا استدلال ہے جیسے بدعتیوں کا قبرستان کی دعا سے غیر اللہ کو پکارنے پر استدلال کرنا ، جب کہ اس روایت کے بعض الفاظ یوں بھی ہیں «عمن لم يضح أمتي» (یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کرسکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے قربانی نہ کرسکا ہو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما ، نیز امت میں میت کی طرف سے قربانی کا تعامل بھی نہیں رہا ہے۔ «واللہ اعلم بالصواب » قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1495

【4】

قربانی جس جانور کی مستحب ہے۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ والے ایک نر مینڈھے کی قربانی کی، وہ سیاہی میں کھاتا تھا، سیاہی میں چلتا تھا اور سیاہی میں دیکھتا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ہم اس کو صرف حفص بن غیاث ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأضاحي ٤ (٢٧٩٦) ، سنن النسائی/الضحایا ١٤ (٤٣٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحی ٤ (١٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا منہ ، اس کے پیر اور اس کی آنکھیں سب کالی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3128) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1496

【5】

جانور، جس کی قربانی درست نہیں۔

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جائے جس کا لنگڑا پن واضح ہو، نہ ایسے اندھے جانور کی جس کا اندھا پن واضح ہو، نہ ایسے بیمار جانور کی جس کی بیماری واضح ہو، اور نہ ایسے لاغر و کمزور جانور کی قربانی کی جائے جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو ١ ؎۔ اس سند سے بھی براء بن عازب (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

【6】

جانور، جس کی قربانی مکروہ ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی والے جانور کی) آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں، اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان آگے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، یا جس کا کان چیرا ہوا ہو (یعنی لمبائی میں کٹا ہوا ہو) ، یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔ اس سند سے بھی علی (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ «مقابلة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (آگے سے) کٹا ہو، «مدابرة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (پیچھے سے) کٹا ہو، «شرقاء» جس کا کان (لمبائی میں) چیرا ہوا ہو، اور «خرقاء» جس کے کان میں (گول) سوراخ ہو۔

【7】

چھ ماہ کی بھیڑکی قربانی

ابوکباش کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں تجارت کے لیے جذع یعنی دنبہ کے چھوٹے بچے لایا اور بازار مندا ہوگیا ١ ؎، لہٰذا میں نے ابوہریرہ (رض) سے ملاقات کی، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : بھیڑ کے جذع کی قربانی خوب ہے ! ابوکباش کہتے ہیں (یہ سنتے ہی) لوگ اس کی خریداری پر ٹوٹ پڑے۔ اس باب میں ابن عباس، ام بلال بنت ہلال کی ان کے والد سے اور جابر، عقبہ بن عامر (رض) اور ایک آدمی جو نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ ابوہریرہ (رض) سے موقوفاً بھی مروی ہے، ٣ - عثمان بن واقدیہ ابن محمد بن زیاد بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ہیں، ٤ - صحابہ کرام میں سے اہل علم اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ بھیڑ کا جذع قربانی کے لیے کفایت کر جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٦) وانظر مسند احمد (٢/٤٤٥) (ضعیف) (سند میں ” عثمان بن واقد “ حافظہ کے کمزور اور ” کدام “ و ” ابوکباش “ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بازار مندہ پڑگیا دوسری جانب جذع کی قربانی درست نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ انہیں خرید نہیں رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (64) ، المشکاة (1468) ، الإرواء (1143) // ضعيف الجامع الصغير (5971) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1499

【8】

چھ ماہ کی بھیڑکی قربانی

عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کردیں، ایک «عتود» (بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي» ١ ؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا : تم اس کی قربانی خود کرلو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - وکیع کہتے ہیں : بھیڑ کا جذع، چھ یا سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے۔ ٣ - عقبہ بن عامر سے دوسری سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے جانور تقسیم کیے، ایک جذعہ باقی بچ گیا، میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : تم اس کی قربانی خود کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ١ (٢٣٠٠) ، والشرکة ١٢ (٢٥٠٠) ، والأضاحي ٢ (٥٥٤٧) ، و ٧ (٥٥٥٥) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٢ (١٩٦٥) ، سنن النسائی/الضحایا ١٣ (٤٣٨٤- ٤٣٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٧ (٣١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٥) ، و مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٩، ١٥٢، ١٥٦) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٤ (١٩٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : راوی کو شک ہوگیا ہے کہ «عتود» کہا یا «جدی»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3138) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1500

【9】

قربانی میں شریک ہونا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آگیا، چناچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف فضل بن موسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں «ابوالأ سد سلمی عن أبیہ عن جدہ» اور ابوایوب سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٠٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سات افراد کی طرف سے گائے اور دس افراد کی طرف سے اونٹ ذبح کرنے کا یہ ضابطہٰ و اصول قربانی کے جانوروں کے لیے ہے ، جب کہ ہدی کے جانور اونٹ ہوں یا گائے سب میں سات سات افراد شریک ہوں گے ، آگے جابر (رض) کی روایت سے یہی ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وقد مضی برقم (907) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1501

【10】

قربانی میں شریک ہونا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر (ذبح) کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - صحابہ کرام میں سے اہل علم اور ان کے علاوہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٣ - اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : اونٹ دس آدمی کی طرف سے بھی کفایت کر جائے گا، انہوں نے ابن عباس (رض) کی حدیث سے استدلال کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابن عباس (رض) کی حدیث کے لیے دیکھئیے حدیث رقم ( ١٥٠١ ) ۔ ان کی حدیث کا تعلق قربانی سے ہے ، جب کہ جابر کی حدیث کا تعلق حج و عمرہ کے ہدی سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3132) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1502

【11】

قربانی میں شریک ہونا

حجیہ بن عدی سے روایت ہے کہ علی (رض) نے کہا : گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جائے گی، حجیہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا : اگر وہ بچہ جنے ؟ انہوں نے کہا : اسی کے ساتھ اس کو بھی ذبح کر دو ١ ؎، میں نے کہا اگر وہ لنگڑی ہو ؟ انہوں نے کہا : جب قربان گاہ تک پہنچ جائے تو اسے ذبح کر دو ، میں نے کہا : اگر اس کے سینگ ٹوٹے ہوں ؟ انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں ٢ ؎، ہمیں حکم دیا گیا ہے، یا ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہم ان کی آنکھوں اور کانوں کو خوب دیکھ بھال لیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث کو سفیان نے سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الضحایا ١١ (٤٣٨١) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٨ (٣١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٦٢) ، و مسند احمد (١/٩٥، ١٠٥، ١٢٥، ١٣٢، ١٥٢) ، وسنن الدارمی/الأضاحي ٣ (١٩٩٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی قربانی کے لیے گائے خریدی پھر اس نے بچہ جنا تو بچہ کو گائے کے ساتھ ذبح کر دے۔ ٢ ؎ : ظاہری مفہوم سے معلوم ہوا کہ ایسے جانور کی قربانی علی (رض) کے نزدیک جائز ہے ، لیکن آگے آنے والی علی (رض) کی مرفوع روایت ان کے اس قول کے مخالف ہے (لیکن وہ ضعیف ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3143) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1503

【12】

قربانی میں شریک ہونا

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔ قتادہ کہتے ہیں : میں نے سعید بن مسیب سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا : «عضب» (سینگ ٹوٹنے) سے مراد یہ ہے کہ سینگ آدھی یا اس سے زیادہ ٹوٹی ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الضحایا ٦ (٢٨٠٥) ، سنن النسائی/الضحایا ١٢ (٤٣٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٨ (٣١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣١) ، و مسند احمد (١/٨٣، ١٠١، ١٠٩، ١٢٧، ١٢٩، ١٥٠) (ضعیف) (اس کے راوی ” جری “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3145) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1504

【13】

ایک بکری ایک گھر کے لئے کافی ہے۔

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی ؟ انہوں نے کہا : ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر) فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہوگئی جو دیکھ رہے ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - راوی عمارہ بن عبداللہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ان دونوں نے نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا : یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے ، ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں : ایک بکری ایک ہی آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی، عبداللہ بن مبارک اور دوسرے اہل علم کا یہی قول ہے (لیکن راجح پہلا قول ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأضاحی ١٠ (٣١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی لوگ قربانی کرنے میں فخر و مباہات سے کام لینے لگے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3147) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1505

【14】

ایک بکری ایک گھر کے لئے کافی ہے۔

جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے قربانی کے بارے میں پوچھا : کیا یہ واجب ہے ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا : سمجھتے نہیں ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، اور اس پر عمل کرنا مستحب ہے، سفیان ثوری اور ابن مبارک کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٢ (٣١٢٤، ٣١٢٤/م) (تحفة الأشراف : ٦٦٧١) (ضعیف) (سند میں ” حجاج بن ارطاة “ ضعیف اور مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی سند بھی ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں اسماعیل بن عیاش ہیں جن کی روایت غیر شامی رواة سے ضعیف ہے، اور اس حدیث کی ایک سند میں ان کے شیخ عبداللہ بن عون بصری ہیں، اور دوسری سند میں حجاج بن ارطاة کوفی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : بعض نے «من کان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا» جس کے ہاں مالی استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے ، مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ (رض) کا قول ہے ، نیز اس میں وجوب کی صراحت نہیں ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے ، اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے ، اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے وہ صریح نہیں ہیں ، صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1475 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1506

【15】

ایک بکری ایک گھر کے لئے کافی ہے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور آپ (ہر سال) قربانی کرتے رہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٦٤٥) (ضعیف) (سند میں ” حجاج بن ارطاة “ مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1475 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1507

【16】

نماز عید کے بعد قربانی کرنا

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا : جب تک نماز عید ادا نہ کرلے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے ۔ براء کہتے ہیں : میرے ماموں کھڑے ہوئے ١ ؎، اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہوجاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کردی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں ؟ آپ نے فرمایا : پھر دوسری قربانی کرو ، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا میں اس کو ذبح کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! وہ تمہاری دونوں قربانیوں سے بہتر ہے، لیکن تمہارے بعد کسی کے لیے جذعہ (بچے) کی قربانی کافی نہ ہوگی ٢ ؎۔ اس باب میں جابر، جندب، انس، عویمر بن اشقر، ابن عمر اور ابوزید انصاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب تک امام نماز عید نہ ادا کرلے شہر میں قربانی نہ کی جائے، ٣ - اہل علم کی ایک جماعت نے جب فجر طلوع ہوجائے تو گاؤں والوں کے لیے قربانی کی رخصت دی ہے، ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، ٤ - اہل علم کا اجماع ہے کہ بکری کے جذع (چھ ماہ کے بچے) کی قربانی درست نہیں ہے، وہ کہتے ہیں البتہ بھیڑ کے جذع کی قربانی درست ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٣ (٩٥١) ، و ٥ (٩٥٥) ، و ٨ (٩٥٧) ، و ١٠ (٩٦٨) ، و ١٧ (٩٧٦) ، و ٢٣ (٩٨٣) ، والأضاحي ١ (٥٥٤٥) ، و ٨ (٥٥٥٦-٥٥٥٧) و ١١ (٥٥٦٠) و ١٢ (٥٥٦٣) ، والأیمان والندور ١٥ (٦٦٧٣) ، صحیح مسلم/الأضاحي ١ (١٩٦١) ، سنن ابی داود/ الأضاحي ٥ (٢٨٠٠) ، سنن النسائی/العیدین ٨ (١٥٦٤) ، والضحایا ١٧ (٤٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩) ، و مسند احمد (٤/٢٨٠، ٢٩٧، ٣٠٢، ٣٠٣) وسنن الدارمی/الأضاحي ٧ (٢٠٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔ ٢ ؎ : یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیونکہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں «مسنہ» (دانتا یعنی دو دانت والا) ہی جائز ہے ، بکری کا «جذعہ» وہ ہے جو سال پورا کر کے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہو اس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ (رض) کے لیے جائز کی گئی تھی ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے ، اگر کسی نے نماز عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی ، اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیئے۔ ٣ ؎ : بھیڑ کے «جذعہ» (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے ، جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ (رض) کے لیے جائز کی گئی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2495) ، صحيح أبي داود (2495 - 2496) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1508

【17】

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا مکروہ ہے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت نہ کھائے ١ ؎۔ اس باب میں عائشہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - نبی اکرم ﷺ کی طرف سے یہ ممانعت پہلے تھی، اس کے بعد آپ نے اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٥ (١٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ فرمان خاص وقت کے لیے تھا جو اگلی حدیث سے منسوخ ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1155) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1509

【18】

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے۔

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم لوگوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا تھا تاکہ مالدار لوگ ان لوگوں کے لیے کشادگی کردیں جنہیں قربانی کی طاقت نہیں ہے، سو اب جتنا چاہو خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ اور (گوشت) جمع کر کے رکھو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، ٣ - اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، نبیشہ، ابوسعید، قتادہ بن نعمان، انس اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧/١٠٦) ، والأضاحي ٥ (٩٧٧/٣٧) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٨) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤) ، سنن ابی داود/ الأضاحي ٣٦ (٤٤٣٤، ٤٤٣٥) ، والأشربة ٤٠ (٥٦٥٤- ٥٦٥٦) (تحفة الأشراف : ١٩٣٢) ، و مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اب اللہ نے عام مسلمانوں کے لیے بھی کشادگی پیدا کردی ہے اور اب اکثر کو قربانی میسر ہوگئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (4 / 368 - 369) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1510

【19】

تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے۔

عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین سے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرماتے تھے ؟ وہ بولیں : نہیں، لیکن اس وقت بہت کم لوگ قربانی کرتے تھے، اس لیے آپ چاہتے تھے کہ جو لوگ قربانی نہیں کرسکے ہیں انہیں کھلایا جائے، ہم لوگ قربانی کے جانور کے پائے رکھ دیتے پھر ان کو دس دن بعد کھاتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، ام المؤمنین (جن سے حدیث مذکور مروی ہے) وہ نبی اکرم ﷺ کی بیوی عائشہ (رض) ہیں، ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٧ (٥٤٢٣) ، و ٣٧ (٥٤٣٨) ، والأضاحي ١٦ (٥٥٧٠) ، سنن النسائی/الضحایا ٣٧ (٤٤٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ١٦ (١٥١١) ، والأطعمة ٣٠ (٣١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٥) ، و مسند احمد (٦/١٠٢، ٢٠٩) (صحیح) (وعند صحیح مسلم/الأضاحي ٥ (١٩٧١) ، و سنن ابی داود/ الضحایا ١٠ (٢٨١٢) ، و موطا امام مالک/الضحایا ٤ (٧) و مسند احمد (٦/٥١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٦ ( ) نحوہ ) وضاحت : ١ ؎ : مقصود یہ ہے کہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کر کے رکھتے اور قربانی کے بعد اسے کئی دنوں تک کھاتے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف بهذا السياق، وأصله في صحيح مسلم ، الإرواء (4 / 370) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1511

【20】

فرع اور عتیرہ۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اسلام میں) نہ «فرع» ہے نہ «عتيرة» ، «فرع» جانور کا وہ پہلا بچہ ہے جو کافروں کے یہاں پیدا ہوتا تو وہ اسے (بتوں کے نام پر) ذبح کردیتے تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں نبیشہ، مخنف بن سلیم اور ابوالعشراء سے بھی احادیث آئی ہیں، ابوالعشراء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، ٣ - «عتيرة» وہ ذبیحہ ہے جسے اہل مکہ رجب کے مہینہ میں اس ماہ کی تعظیم کے لیے ذبح کرتے تھے اس لیے کہ حرمت کے مہینوں میں رجب پہلا مہینہ ہے، اور حرمت کے مہینے رجب ذی قعدہ، ذی الحجہ، اور محرم ہیں، اور حج کے مہینے شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دن ہیں۔ حج کے مہینوں کے سلسلہ میں بعض صحابہ اور دوسرے لوگوں سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٣ (٥٤٧٣) ، و ٤ (٥٤٧٤) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٦ (١٩٧٦) ، سنن ابی داود/ الضحایا ٢٠ (٢٨٣١) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ١ (٤٢٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٢ (٢٨٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٩) ، و مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٣٩، ٢٧٩، ٤٩٠) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٨ (٢٠٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3168) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1512

【21】

عقیقہ

یوسف بن ماہک سے روایت ہے کہ لوگ حفصہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس گئے اور ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ (ان کی پھوپھی) ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - حفصہ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق (رض) کی بیٹی ہیں، ٣ - اس باب میں علی، ام کرز، بریدہ، سمرہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، انس، سلمان بن عامر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٣) ، و مسند احمد (٦/٣١، ١٥٨، ٢٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں ، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں ، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ «عق» سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں ، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہا گیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیئے ، «شاة» کے لفظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرائط نہیں ہیں ، لیکن بہتر ہے کہ قربانی کے جانور میں شارع نے جن نقائص اور عیوب سے بچنے اور پرہیز کرنے کی ہدایت دی ہے ان کا لحاظ رکھا جائے ، عقیقہ کے جانور کا دو دانتا ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ، البتہ «شاة» کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ «شاة» کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں ، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرم ﷺ صرف «شاة» کا تذکرہ نہ فرماتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3163) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1513

【22】

بچے کے کان میں اذان دینا۔

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃ الزہراء (رض) سے پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرم ﷺ سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے، ٣ - نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی، بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١١٦ (٥١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٠) و مسند احمد (٦/٩، ٣٩١، ٣٩٢) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہیں، اور اس معنی کی ابن عباس کی حدیث میں ایک کذاب راوی ہے ۔ دیکھیے الضعیفة رقم ٣٢١ و ٦١٢١ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (1173) ، مختصر تحفة المودود صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1514

【23】

عقیقہ

سلمان بن عامر ضبی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ لازم ہے، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (جانور ذبح کرو) اور اس سے گندگی دور کرو ۔

【24】

عقیقہ

ام کرز (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانور نر یا ہو مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الضحایا ٢١ (٢٨٨٣٤-٢٨٣٥) ، سنن النسائی/العقیقة ٢ (٤٢٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٥١) ، و مسند احمد (٦/٣٨١، ٤٢٢) سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (4 / 391) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1516

【25】

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قربانی کے جانوروں میں سب سے بہتر مینڈھا ہے اور سب سے بہتر کفن «حلة» (تہبند اور چادر) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - عفیر بن معدان حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٤ (٣١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٦٦) (ضعیف) (سند میں ” عفیر بن معدان “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3164) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1517

【26】

مخنف بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے آپ کو فرماتے سنا : لوگو ! ہر گھر والے پر ہر سال ایک قربانی اور «عتيرة» ہے، تم لوگ جانتے ہو «عتيرة» کیا ہے ؟ «عتيرة» وہ ہے جسے تم لوگ «رجبية» کہتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو ابن عون ہی کی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأضاحي ١ (٢٧٨٨) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ١ (٤٢٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٢ (٣١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٤) ، و مسند احمد (٤/٢١٥) و (٥/٧٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3125) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1518

【27】

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا، اور فرمایا : فاطمہ ! اس کا سر مونڈ دو اور اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرو ، فاطمہ (رض) نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابر یا اس سے کچھ کم ہوا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس کی سند متصل نہیں ہے، اور راوی ابوجعفر الصادق محمد بن علی بن حسین نے علی بن ابی طالب کو نہیں پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٢٦١) (حسن) (سند مں ل ” محمد بن علی ابو جعفرالصادق “ اور ” علی (رض) “ کے درمیان انقطاع ہے، مگر حاکم کی روایت (٤/٢٣٧) متصل ہے، نیز اس کے شواہد بھی ہیں جسے تقویت پا کر حدیث حسن لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں دلیل ہے کہ نومولود کے سر کا بال وزن کر کے اسی کے برابر چاندی صدقہ کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (1175) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1519

【28】

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا، پھر (منبر سے) اترے پھر آپ نے دو مینڈھے منگائے اور ان کو ذبح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (یہ عید الاضحی کی نماز کے بعد کیا تھا، دیکھئیے اگلی حدیث) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ٩ (١٦٧٩) ، سنن النسائی/الضحایا ١٤ (٤٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1520

【29】

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عید الاضحی کے دن عید گاہ گیا، جب آپ خطبہ ختم کرچکے تو منبر سے نیچے اترے، پھر ایک مینڈھا لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، اور (ذبح کرتے وقت) یہ کلمات کہے : «بسم اللہ والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي» ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - اہل علم صحابہ اور دیگر لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت آدمی یہ کہے «بسم اللہ والله أكبر» ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، کہا جاتا ہے، ٣ - راوی مطلب بن عبداللہ بن حنطب کا سماع جابر سے ثابت نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الضحایا ٨ (٢٨١٠) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١ (٣١٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٩٩) ، و مسند احمد (٣/٣٥٦، ٣٦٢) ، وسنن الدارمی/الأضاحي ١ (١٩٨٩) (صحیح) (” مطلب “ کے ” جابر “ (رض) سے سماع میں اختلاف ہے، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، الإرواء ١١٣٨، وتراجع الألبانی ٥٨٠ ) وضاحت : ١ ؎ : میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ سب سے بڑا ہے ، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے ، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے۔ (یہ آخری جملہ اس بابت واضح اور صریح ہے کہ آپ ﷺ نے امت کے ان افراد کی طرف سے قربانی کی جو زندہ تھے اور مجبوری کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکے تھے ، اس میں مردہ کو شامل کرنا زبردستی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1138) ، صحيح أبي داود (2501) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1521

【30】

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بچہ عقیقہ کے بدلے گروی رکھا ہوا ہے ١ ؎، پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کے سر کے بال منڈائے جائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٢ (٥٤٧٢) ، (اشارة بعد حدیث سلمان الضبي) سنن ابی داود/ الضحایا ٢١ (٢٨٣٧) ، سنن النسائی/العقیقة ٥ (٤٢٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨١) ، و مسند احمد (٥/٧، ٨، ١٢، ١٧، ١٨، ٢٢) وسنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «مرتهن» کے مفہوم میں اختلاف ہے : سب سے عمدہ بات وہ ہے جو امام احمد بن حنبل (رح) نے فرمائی ہے کہ یہ شفاعت کے متعلق ہے ، یعنی جب بچہ مرجائے اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو قیامت کے دن وہ اپنے والدین کے حق میں شفاعت نہیں کرسکے گا ، ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ ضروری اور لازمی ہے اس کے بغیر چارہ کار نہیں ، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بالوں کی گندگی و ناپاکی میں مرہون ہے ، اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ اس سے گندگی کو دور کرو۔ ٢ ؎ : اس سلسلہ میں صحیح حدیث تو درکنار کوئی ضعیف حدیث بھی نہیں ملتی جس سے اس شرط کے قائلین کی تائید ہوتی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3165) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1522

【31】

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو وہ (جب تک قربانی نہ کرلے) اپنا بال اور ناخن نہ کاٹے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - (عمرو اور عمر میں کے بارے میں) صحیح عمرو بن مسلم ہے، ان سے محمد بن عمرو بن علقمہ اور کئی لوگوں نے حدیث روایت کی ہے، دوسری سند سے اسی جیسی حدیث سعید بن مسیب سے آئی ہے، سعید بن مسیب ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا یہی قول ہے، سعید بن مسیب بھی اسی کے قائل ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے موافق ہے، ٤ - بعض اہل علم نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے، وہ لوگ کہتے ہیں : بال اور ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شافعی کا یہی قول ہے، وہ عائشہ (رض) کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، نبی اکرم ﷺ قربانی کا جانور مدینہ روانہ کرتے تھے اور محرم جن چیزوں سے اجتناب کرتا ہے، آپ ان میں سے کسی چیز سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٧ (١٩٧٧) ، سنن ابی داود/ الضحایا ٣ (٢٧٩١) ، سنن النسائی/الضحایا ١ (٤٣٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ١١ (٣١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٢) ، و مسند احمد (٦/٢٨٩، ٣٠١) ، ٣١١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢ (١٩٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عائشہ (رض) اور ام سلمہ کی حدیث میں تطبیق کی صورت علماء نے یہ نکالی ہے کہ ام سلمہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا۔ «واللہ اعلم » قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3149 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1523