2. نماز کا بیان
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ابن عباس اور واثلہ بن اسقع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
نماز کے ابواب جو مروی ہیں رسول اللہ ﷺ سے نماز کے اوقات جو نبی ﷺ سے مروی ہیں
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو بار امامت کی، پہلی بار انہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیا اور) سایہ جوتے کے تسمہ کے برابر ہوگیا، پھر عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا ١ ؎، پھر مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اور روزے دار نے افطار کرلیا، پھر عشاء اس وقت پڑھی جب شفق ٢ ؎ غائب ہوگئی، پھر نماز فجر اس وقت پڑھی جب فجر روشن ہوگئی اور روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہوگیا، دوسری بار ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوگیا، پھر عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہوگیا، پھر مغرب اس کے اول وقت ہی میں پڑھی (جیسے پہلی بار میں پڑھی تھی) پھر عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزر گئی، پھر فجر اس وقت پڑھی جب اجالا ہوگیا، پھر جبرائیل نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا : اے محمد ! یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقات نماز تھے، آپ کی نمازوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ، بریدہ، ابوموسیٰ ، ابومسعود انصاری، ابوسعید، جابر، عمرو بن حرم، براء اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢ (٣٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٦٥١٩) ، مسند احمد (١/٣٣٣، ٣٥٤) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے جمہور کا یہی مسلک ہے اور عصر کے وقت سے متعلق امام ابوحنیفہ کا مشہور قول دو مثل کا ہے لیکن یہ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ بلکہ بعض علمائے احناف نے صحیح احادیث میں ان کے اس قول کو رد کردیا ہے ( تفصیل کے لیے دیکھئیے : التعلیق الممجد علی موطا الإمام محمد ، ص : ٤١ ، ط/قدیمی کتب خانہ کراچی ) ۔ ٢ ؎ : اس سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب ( پچھم ) میں باقی رہتی ہے۔ ٣ ؎ : پہلے دن جبرائیل (علیہ السلام) نے ساری نمازیں اول وقت میں پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر نماز کا اول اور آخر وقت معلوم ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (583) ، الإرواء (249) ، صحيح أبي داود (416) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 149
نماز کے ابواب جو مروی ہیں رسول اللہ ﷺ سے نماز کے اوقات جو نبی ﷺ سے مروی ہیں
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل نے میری امامت کی ، پھر انہوں نے ابن عباس (رض) کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ البتہ انہوں نے اس میں «لوقت العصر بالأمس» کا ٹکڑا ذکر نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ١ ؎، اور ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : اوقات نماز کے سلسلے میں سب سے صحیح جابر (رض) والی حدیث ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/مواقیت الصلاة ١٧ (٥٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٣١٢٨) ، مسند احمد (٣/٣٣٠، ٣٣١) (وذکرہ أبو داود تحت حدیث رقم : ٣٩٤ تعلیقاً ومقتصرا علی وقت المغرب فقط) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی یہ اصطلاح ( حسن صحیح غریب ) اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی حدیث کسی صحابی کی روایت سے معروف ہو اور اس کے مختلف طرق ہوں ، یا ایک ہی طریق ہو پھر اسی صحابی سے کسی اور طریق سے روایت آئے اور اسے غریب جانا جائے ، مطلب یہ ہے کہ لفظی طور پر غریب ہے اسنادی طور پر حسن صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (250) ، صحيح أبي داود (418) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 150
اسی سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخری وقت، ظہر کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب عصر کا وقت شروع ہوجائے، اور عصر کا اول وقت وہ ہے جب عصر کا وقت (ایک مثل سے) شروع ہوجائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہوجائے، اور مغرب کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈوب جائے اور آخری وقت وہ ہے جب شفق ١ ؎ غائب ہوجائے، اور عشاء کا اول وقت وہ ہے جب شفق غائب ہوجائے اور اس کا آخر وقت وہ ہے جب آدھی رات ہوجائے ٢ ؎، اور فجر کا اول وقت وہ ہے جب فجر (صادق) طلوع ہوجائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج نکل جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی روایت آئی ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ اوقات کے سلسلہ میں اعمش کی مجاہد سے روایت محمد بن فضیل کی اعمش سے روایت سے زیادہ صحیح ہے، محمد بن فضیل کی حدیث غلط ہے اس میں محمد بن فضیل سے چوک ہوئی ہے تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٤٦١) وانظر : مسند احمد (٢/٢٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں لفظ «افق» ہے جس سے مراد شفق ہے ، یعنی سورج کی سرخی اندھیرے میں گم ہوجائے۔ ٢ ؎ : یہ وقت اختیاری ہے رہا ، وقت جواز تو یہ صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے کیونکہ ابوقتادہ کی حدیث میں ہے «ليس في النوم تفريط إنما التفريط علی من لم يصل الصلاة حتی يجيء وقت الصلاة الأخری» ٣ ؎ : کیونکہ محمد بن فضیل نے یوں روایت کی ہے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة» جبکہ صحیح یوں ہے : «عن الأعمش عن مجاهد قوله» یعنی : اس روایت کا مجاہد کا قول ہونا زیادہ صحیح ہے ، نبی اکرم ﷺ کے مرفوع قول ہونے سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1696) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 151
اسی سے متعلق
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا، اس نے آپ سے اوقات نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : تم ہمارے ساتھ قیام کرو (تمہیں نماز کے اوقات معلوم ہوجائیں گے) ان شاء اللہ، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی جب فجر (صادق) طلوع ہوگئی پھر آپ نے حکم دیا تو انہوں نے سورج ڈھلنے کے بعد اقامت کہی تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی آپ نے عصر پڑھی اس وقت سورج روشن اور بلند تھا، پھر جب سورج ڈوب گیا تو آپ نے انہیں مغرب کا حکم دیا، پھر جب شفق غائب ہوگئی تو آپ نے انہیں عشاء کا حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی، پھر دوسرے دن انہیں حکم دیا تو انہوں نے فجر کو خوب اجالا کر کے پڑھا، پھر آپ نے انہیں ظہر کا حکم دیا تو انہوں نے ٹھنڈا کیا، اور خوب ٹھنڈا کیا، پھر آپ نے انہیں عصر کا حکم دیا اور انہوں نے اقامت کہی تو اس وقت سورج اس کے آخر وقت میں اس سے زیادہ تھا جتنا پہلے دن تھا (یعنی دوسرے دن عصر میں تاخیر ہوئی) ، پھر آپ نے انہیں مغرب میں دیر کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے مغرب کو شفق کے ڈوبنے سے کچھ پہلے تک مؤخر کیا، پھر آپ نے انہیں عشاء کا حکم دیا تو انہوں نے جب تہائی رات ختم ہوگئی تو اقامت کہی، پھر آپ نے فرمایا : نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے ؟ تو اس آدمی نے عرض کیا : میں ہوں، آپ نے فرمایا : نماز کے اوقات انہیں دونوں کے بیچ میں ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن، غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٣) ، سنن النسائی/المواقیت ١٢ (٥٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١ (٦٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٣١) ، مسند احمد (٥/٣٤٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (667) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 152
فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب فجر پڑھا لیتے تو پھر عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی لوٹتیں وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، انس، اور قیلہ بنت مخرمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اسی کو صحابہ کرام جن میں ابوبکر و عمر (رض) بھی شامل ہیں اور ان کے بعد کے تابعین میں سے بہت سے اہل علم نے پسند کیا ہے، اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ فجر «غلس» (اندھیرے) میں پڑھنا مستحب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٣ (٣٧٢) ، والمواقیت ٢٧ (٥٧٨) ، والأذان ١٦٣ (٨٦٧) ، و ١٦٥ (٨٧٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٨ (٤٢٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٥ (٥٤٧، ٥٤٦) ، والسہو ١٠١ (١٣٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٢ (٦٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ٣٥٨٢) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٤) ، مسند احمد (٦/٣٣، ٣٦، ١٧٩، ٢٤٨، ٢٥٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (669) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 153
فجر کی نماز روشنی میں پڑھنا
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : فجر خوب اجالا کر کے پڑھو، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوبرزہ اسلمی، جابر اور بلال (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کی رائے نماز فجر اجالا ہونے پر پڑھنے کی ہے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔ اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ «اسفار» اجالا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فجر واضح ہوجائے اور اس کے طلوع میں کوئی شک نہ رہے، «اسفار» کا یہ مطلب نہیں کہ نماز تاخیر (دیر) سے ادا کی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٨ (٤٢٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٧ (٥٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٢ (٦٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ٣٥٨٢) ، مسند احمد (٣/٤٦٠) و (٤/١٤٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١ (١٢٥٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ نیز صحابہ و تابعین و سلف صالحین کے تعامل کو دیکھتے ہوئے اس حدیث کا یہی صحیح مطلب ہے۔ باب ہذا اور گزشتہ باب کی احادیث میں علمائے حدیث نے جو بہترین تطبیق دی وہ یوں ہے کہ فجر کی نماز منہ اندھیرے اول وقت میں شروع کرو ، اور تطویل قرأت کے ساتھ اجالا کرلو ، دونوں طرح کی احادیث پر عمل ہوجائے گا۔ ( مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الأحوذی جلد اول ص ١٤٥ ، طبع المکتبۃ الفاروقیۃ /ملتان ، پاکستان ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (672) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 154
ظہر میں تعجیل کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ظہر کو رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر جلدی کرنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا، اور نہ ابوبکر اور عمر (رض) سے بڑھ کر جلدی کرنے والا کسی کو دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں جابر بن عبداللہ، خباب، ابوبرزہ، ابن مسعود، زید بن ثابت، انس اور جابر بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں اور عائشہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اور اسی کو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں اہل علم نے اختیار کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر : مسند احمد (٦/١٣٥، ٢١٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٣٤) (ضعیف الإسناد) (سند کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس کے راوی ” حکیم بن جبیر “ ضعیف ہیں، لیکن دوسری احادیث جیسا کہ مولف نے ذکر کیا ہے سے یہ حدیث ثابت ہے۔ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 155
ظہر میں تعجیل کے بارے میں
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر اس وقت پڑھی جس وقت سورج ڈھل گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے اور یہ اس باب میں سب سے اچھی حدیث ہے، ٢- اس باب میں جابر (رض) سے بھی حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ١٥٤٨) وانظر : مسند احمد (٣/١٢٩، ١٦٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 156
سخت گرمی میں ظہر کی نماز دیر سے پڑھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈا ہونے پر پڑھو ١ ؎ کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوسعید، ابوذر، ابن عمر، مغیرہ، اور قاسم بن صفوان کے باپ ابوموسیٰ ، ابن عباس اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اس سلسلے میں عمر (رض) سے بھی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، ٤- اہل علم میں کچھ لوگوں نے سخت گرمی میں ظہر تاخیر سے پڑھنے کو پسند کیا ہے۔ یہی ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں : ظہر ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی بات اس وقت کی ہے جب مسجد والے دور سے آتے ہوں، رہا اکیلے نماز پڑھنے والا اور وہ شخص جو اپنے ہی لوگوں کی مسجد میں نماز پڑھتا ہو تو میں اس کے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ وہ سخت گرمی میں بھی نماز کو دیر سے نہ پڑھے، ٥- جو لوگ گرمی کی شدت میں ظہر کو دیر سے پڑھنے کی طرف گئے ہیں ان کا مذہب زیادہ بہتر اور اتباع کے زیادہ لائق ہے، رہی وہ بات جس کی طرف شافعی کا رجحان ہے کہ یہ رخصت اس کے لیے ہے جو دور سے آتا ہوتا کہ لوگوں کو پریشانی نہ ہو تو ابوذر (رض) کی حدیث میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس چیز پر دلالت کرتی ہیں جو امام شافعی کے قول کے خلاف ہیں۔ ابوذر (رض) کہتے ہیں : ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، بلال (رض) نے نماز ظہر کے لیے اذان دی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلال ! ٹھنڈا ہوجانے دو ، ٹھنڈا ہوجانے دو (یہ حدیث آگے آرہی ہے) ، اب اگر بات ایسی ہوتی جس کی طرف شافعی گئے ہیں، تو اس وقت ٹھنڈا کرنے کا کوئی مطلب نہ ہوتا، اس لیے کہ سفر میں سب لوگ اکٹھا تھے، انہیں دور سے آنے کی ضرورت نہ تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٩ (٥٣٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٤ (٤٠٢) ، سنن النسائی/المواقیت ٥ (٥٠١) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٤ (٦٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٢٢٦، ١٢٣٧) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٧ (٩٨) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٣٨، ٢٥٦، ٢٦٦، ٣٤٨، ٣٧٧، ٣٩٣، ٤٠، ٤١١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤ (١٢٤٣) ، والرقاق ١١٩ (٢٨٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کچھ انتظار کرلو ٹھنڈا ہوجائے تب پڑھو ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں ظہر قدرے تاخیر کر کے پڑھنی چاہیئے اس تاخیر کی حد کے بارے میں ابوداؤد اور نسائی میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ موسم گرما میں ظہر میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک ہوجاتا ، مگر علامہ خطابی نے کہا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول البلد اور عرض البلد کے اعتبار سے اس کا حساب بھی مختلف ہوگا ، بہرحال موسم گرما میں نماز ظہر قدرے تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے ، یہی جمہور کی رائے ہے۔ ٢ ؎ : اسے حقیقی اور ظاہری معنی پر محمول کرنا زیادہ صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ جہنم کی آگ نے رب عزوجل سے شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء گرمی کی شدت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں تو رب عزوجل نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں اور ایک گرمی میں ، جاڑے میں سانس اندر کی طرف لیتی ہے اور گرمی میں باہر نکالتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (678) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 157
سخت گرمی میں ظہر کی نماز دیر سے پڑھنا
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے، ساتھ میں بلال (رض) بھی تھے۔ بلال (رض) نے اقامت کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا : ٹھنڈا ہوجانے دو ۔ انہوں نے پھر اقامت کہنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے پھر فرمایا : ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھ ۔ وہ کہتے ہیں (ظہر تاخیر سے پڑھی گئی) یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا تب انہوں نے اقامت کہی پھر آپ نے نماز پڑھی، پھر فرمایا : گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے۔ لہٰذا نماز ٹھنڈے میں پڑھا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٩ (٥٣٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٤ (٤٠١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩١٤) ، مسند احمد (٥/١٥٥، ١٦٢، ١٧٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (429) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 158
عصر کی نماز جلدی پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر پڑھی اس حال میں کہ دھوپ ان کے کمرے میں تھی، ان کے کمرے کے اندر کا سایہ پورب والی دیوار پر نہیں چڑھا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، ابوارویٰ ، جابر اور رافع بن خدیج (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، (اور رافع (رض) سے عصر کو مؤخر کرنے کی بھی روایت کی جاتی ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے، ٣- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم نے جن میں عمر، عبداللہ بن مسعود، عائشہ اور انس (رض) بھی شامل ہیں اور تابعین میں سے کئی لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ عصر جلدی پڑھی جائے اور اس میں تاخیر کرنے کو ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے اسی کے قائل عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١ (٥٢٢) ، و ١٣ (٥٤٥) ، والخمس ٤ (٣١٠٣) ، صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥ (٤٠٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٨ (٥٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٥ (٦٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٨٥) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (683) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 159
عصر کی نماز جلدی پڑھنا
علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ وہ بصرہ میں جس وقت ظہر پڑھ کر لوٹے تو وہ انس بن مالک (رض) کے پاس ان کے گھر آئے، ان کا گھر مسجد کے بغل ہی میں تھا۔ انس بن مالک نے کہا : اٹھو چلو عصر پڑھو، تو ہم نے اٹھ کر نماز پڑھی، جب پڑھ چکے تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان آ جائے تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مار لے، اور ان میں اللہ کو تھوڑا ہی یاد کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٤ (٦٢٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥ (٤١٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٩ (٥١٢) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٢) موطا امام مالک/القرآن ١٠ (٤٦) ، مسند احمد (٣/١٠٢، ١٠٣، ١٤٩، ١٨٥، ٢٤٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (420) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 160
عصر کی نماز میں تاخیر کے بارے میں
ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر میں تم لوگوں سے زیادہ جلدی کرتے تھے اور تم لوگ عصر میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ جلدی کرتے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ( تحفة الأشراف : ١٨١٨٤) ، وانظر مسند احمد (٦/٢٨٩، ٣١٠) (صحیح) (تراجع الألبانی ٦٠٦) وضاحت : ١ ؎ : بعض لوگوں نے اس روایت سے عصر دیر سے پڑھنے کے استحباب پر استدلال کیا ہے ، جب کہ اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے عصر کی تاخیر کے استحباب پر استدلال کیا جائے ، اس میں صرف اتنی بات ہے کہ ام سلمہ (رض) کے جو لوگ مخاطب تھے وہ عصر میں رسول اللہ ﷺ سے بھی زیادہ جلدی کرتے تھے ، تو ان سے ام سلمہ نے یہ حدیث بیان فرمائی ، اس میں اس بات پر قطعاً دلالت نہیں کہ نبی اکرم ﷺ عصر دیر سے پڑھتے تھے کہ عصر کی تاخیر پر اس سے استدلال کیا جائے ، علامہ عبدالحئی لکھنوی التعليق الممجد میں لکھتے ہیں «هذا الحديث إنما يدل علی أن التعجيل في الظهر أشد من التعجيل في العصر لا علی استحباب التأخير» بلاشبہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز ظہر میں ( اس کا وقت ہوتے ہی ) جلدی کرنا ، نماز عصر میں جلدی کرنے سے بھی زیادہ سخت حکم رکھتا ہے ، نہ کہ تاخیر سے نماز ادا کرنے کے مستحب ہونے پر۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6195 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 161 امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اسماعیل بن علیہ سے بطریق «ابن جريج عن ابن أبي مليكة عن أم سلمة» اسی طرح روایت کی گئی ہے۔ اور مجھے اپنی کتاب میں اس کی سند یوں ملی کہ مجھے علی بن حجر نے خبر دی انہوں نے اسماعیل بن ابراہیم سے اور اسماعیل نے ابن جریج سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 162 اسماعیل بن علیہ کی ابن جریج سے روایت زیادہ صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : اس حدیث کا ابن جریج کے طریق سے مروی ہونا زیادہ صحیح ہے بہ نسبت ایوب سختیانی کے طریق کے ، کیونکہ ابن جریج سے علی بن حجر کے علاوہ بشر بن معاذ نے بھی روایت کی ہے ، واللہ اعلم۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 163
None
یہ حدیث اسماعیل بن علیہ سے بطریق «ابن جريج عن ابن أبي مليكة عن أم سلمة» اسی طرح روایت کی گئی ہے۔ اور مجھے اپنی کتاب میں اس کی سند یوں ملی کہ مجھے علی بن حجر نے خبر دی انہوں نے اسماعیل بن ابراہیم سے اور اسماعیل نے ابن جریج سے روایت کی ہے۔
None
ابن جریج سے روایت زیادہ صحیح ہے ۱؎۔
مغرب کے وقت کے بارے میں
سلمہ بن الاکوع (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور پردے میں چھپ جاتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سلمہ بن الاکوع والی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر، صنابحی، زید بن خالد، انس، رافع بن خدیج، ابوایوب، ام حبیبہ، عباس بن عبدالمطلب اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- عباس (رض) کی حدیث ان سے موقوفاً روایت کی گئی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے، ٤- اور صنابحی نے نبی اکرم ﷺ سے نہیں سنا ہے، وہ تو ابوبکر (رض) کے دور کے ہیں، ٥- اور یہی قول صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا ہے، ان لوگوں نے نماز مغرب جلدی پڑھنے کو پسند کیا ہے اور اسے مؤخر کرنے کو مکروہ سمجھا ہے، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب کا ایک ہی وقت ہے ٢ ؎، یہ تمام حضرات نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث کی طرف گئے ہیں جس میں ہے کہ جبرائیل نے آپ کو نماز پڑھائی اور یہی ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٨ (٥٦١) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٨ (٦٣٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٦ (٤١٧) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٧ (٦٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کا وقت سورج ڈوبنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغرب میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے بلکہ اسے اول وقت ہی میں ادا کرنا چاہیئے۔ ٢ ؎ : سلف کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مغرب کا وقت «ممتد» پھیلا ہوا ہے یا غیر ممتد ، جمہور کے نزدیک سورج ڈوبنے سے لے کر شفق ڈوبنے تک پھیلا ہوا ہے ، اور شافعی اور ابن مبارک کی رائے ہے کہ مغرب کا صرف ایک ہی وقت ہے اور وہ اول وقت ہے ، ان لوگوں کی دلیل جبرائیل (علیہ السلام) والی روایت ہے جس میں ہے کہ دونوں دنوں میں آپ نے مغرب سورج ڈوبنے کے فوراً بعد پڑھائی اور جمہور کی دلیل صحیح مسلم میں موجود ابوموسیٰ کی روایت ہے ، اس میں ہے «ثم أخر المغرب حتی کان عند سقوط الشفق» جمہور کی رائے ہی زیادہ صحیح ہے ، جمہور نے جبرائیل والی روایت کا جواب تین طریقے سے دیا ہے : ١- اس میں صرف افضل وقت کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے ، وقت جواز کو بیان نہیں گیا ، ٢- جبرائیل کی روایت متقدم ہے مکی دور کی اور مغرب کا وقت شفق ڈوبنے تک ممتد ہونے کی روایت متاخر ہے مدنی دور کی ، ٣- یہ روایت جبرائیل والی روایت سے سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (688) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 164
عشاء کی نماز کا وقت
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ اس نماز عشاء کے وقت کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، رسول اللہ ﷺ اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٧ (٤١٩) ، سنن النسائی/المواقیت ١٩ (٥٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٦١٤) ، مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حدیث جبرائیل میں یہ بات آچکی ہے کہ عشاء کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے ، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ، رہی یہ بات کہ اس کا آخری وقت کیا ہے تو صحیح اور صریح احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ اس کا آخری وقت طلوع فجر تک ہے جن روایتوں میں آدھی رات تک کا ذکر ہے اس سے مراد اس کا افضل وقت ہے جو تیسری رات کے چاند ڈوبنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے ، اسی لیے رسول اللہ ﷺ عموماً اسی وقت نماز عشاء پڑھتے تھے ، لیکن مشقت کے پیش نظر امت کو اس سے پہلے پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔ ( دیکھئیے اگلی حدیث رقم ١٦٧) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (613) ، صحيح أبي داود (445) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 165
عشاء کی نماز کا وقت
اس طریق سے بھی ابو عوانہ سے اسی سند سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی نے پہلے ابو عوانہ کا طریق ذکر کیا پھر ہشیم کے طریق کا اور فرمایا : ابو عوانہ والی حدیث ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 166
عشاء کی نماز میں تاخیر
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں عشاء کو تہائی رات یا آدھی رات تک دیر کر کے پڑھنے کا حکم دیتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر بن سمرہ، جابر بن عبداللہ، ابوبرزہ، ابن عباس، ابو سعید خدری، زید بن خالد اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اسی کو صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم نے پسند کیا ہے، ان کی رائے ہے کہ عشاء تاخیر سے پڑھی جائے، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصلاة ٨ (٦٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٩٨٨) ، مسند احمد (٢/٢٤٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء مذکور وقت تک مؤخر کر کے پڑھنا افضل ہے ، صرف اسی نماز کے ساتھ خاص ہے ، باقی اور نمازیں اول وقت ہی پر پڑھنا افضل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (691) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 167
عشاء سے پہلے سونا اور بعد میں باتیں کرنا مکروہ ہے
ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوبرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن مسعود اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اکثر اہل علم نے نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہا ہے، اور بعض نے اس کی اجازت دی ہے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں : اکثر حدیثیں کراہت پر دلالت کرنے والی ہیں، اور بعض لوگوں نے رمضان میں عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١) ، و ١٣ (٥٤٧) ، و ٢٣ (٥٦٨) ، و ٣٨ (٥٩٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣ (٣٩٨) ، والأدب ٢٧ (٤٨٤٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٢ (٤٩٦) ، و ١٦ (٥٢٦) ، و ٢٠ (٥٣١) ، والافتتاح ٤٢ (٩٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٣ (٦٧٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١٦٠٦) ، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشاء فوت ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے ، اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہوجاتا ہے امام نووی نے علمی مذاکرہ وغیرہ کو جو جائز اور مستحب بتایا ہے تو یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ نماز فجر وقت پر ادا کی جائے ، اگر رات کو تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر میں اتنا وقت صرف کردیا جائے کہ فجر کے وقت اٹھا نہ جاسکے تو یہ جواز و استحباب بھی محل نظر ہوگا۔ ( دیکھئیے اگلی حدیث اور اس کا حاشیہ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (701) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 168
عشاء کے بعد گفتگو
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کے بعض معاملات میں سے ابوبکر (رض) کے ساتھ رات میں گفتگو کرتے اور میں ان دونوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمر (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، اوس بن حذیفہ اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم نے عشاء کے بعد بات کرنے کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے عشاء کے بعد بات کرنے کو مکروہ جانا ہے اور کچھ لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، بشرطیکہ یہ کوئی علمی گفتگو ہو یا کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو ١ ؎ اور اکثر احادیث رخصت کے بیان میں ہیں، نیز نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : بات صرف وہ کرسکتا ہے جو نماز عشاء کا منتظر ہو یا مسافر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٦١١) وانظر : (حم (١/٢٦، ٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : رہے ایسے کام جن میں کوئی دینی اور علمی فائدہ یا کوئی شرعی غرض نہ ہو مثلاً کھیل کود ، تاش بازی ، شطرنج کھیلنا ، ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ دیکھنا ، سننا تو یہ ویسے بھی حرام ، لغو اور مکروہ کام ہیں ، عشاء کے بعد ان میں مصروف رہنے سے ان کی حرمت یا کراہت اور بڑھ جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2781) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 169
وقت کی فضلیت
قاسم بن غنام کی پھوپھی ام فروہ (رض) (جنہوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اول وقت میں نماز پڑھنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٩ (٤٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٤١) (صحیح) (سند میں قاسم مضطرب الحدیث ہیں، اور عبداللہ العمری ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ابن مسعود (رض) کی اس معنی کی روایت صحیحین میں موجود ہے جو مؤلف کے یہاں رقم ١٧٣ پر آرہی ہے۔ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (452) ، المشکاة (607) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 170
وقت کی فضلیت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز اول وقت میں اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ابن عباس (رض) نے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣- اور اس باب میں علی، ابن عمر، عائشہ اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- ام فروہ کی (اوپر والی) حدیث (نمبر : ١٧٠) عبداللہ بن عمر عمری ہی سے روایت کی جاتی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، اس حدیث میں لوگ ان سے روایت کرنے میں اضطراب کا شکار ہیں اور وہ صدوق ہیں، یحییٰ بن سعید نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان پر کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٧٣١) (موضوع) (سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں اور یعقوب بن ولید مدنی کو ائمہ نے کذاب کہا ہے) قال الشيخ الألباني : موضوع، الإرواء (259) ، المشکاة (606) ، // ضعيف الجامع (6164) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 172
None
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز اول وقت میں اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ابن عباس رضی الله عنہ نے بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اور اس باب میں علی، ابن عمر، عائشہ اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ام فروہ کی ( اوپر والی ) حدیث ( نمبر: ۱۷۰ ) عبداللہ بن عمر عمری ہی سے روایت کی جاتی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، اس حدیث میں لوگ ان سے روایت کرنے میں اضطراب کا شکار ہیں اور وہ صدوق ہیں، یحییٰ بن سعید نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان پر کلام کیا ہے۔
وقت کی فضلیت
ابوعمرو شیبانی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود (رض) سے پوچھا : کون سا عمل سب سے اچھا ہے ؟ انہوں نے بتلایا کہ میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا ۔ میں نے عرض کیا : اور کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ، میں نے عرض کیا : (اس کے بعد) اور کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٥ (٥٢٧) ، والجہاد ١ (٢٧٨٢) ، والأدب ١ (٥٩٧٠) ، والتوحید ٤٨ (٧٥٣٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٦ (٨٥) ، سنن النسائی/المواقیت ٥١ (٦١١) ، ( تحفة الأشراف : ٩٢٣٢) ، مسند احمد (١/٤٠٩، ٤١٠، ٤١٨، ٤٢١، ٤٤٤، ٤٤٨، ٤٥١) ویأتی عند المؤلف برقم : ١٨٩٨ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 173
وقت کی فضلیت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں دو بار نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے، ٢- شافعی کہتے ہیں : نماز کا اول وقت افضل ہے اور جو چیزیں اول وقت کی ا فضیلت پر دلالت کرتی ہیں من جملہ انہیں میں سے نبی اکرم ﷺ، ابوبکر، اور عمر (رض) کا اسے پسند فرمانا ہے۔ یہ لوگ اسی چیز کو معمول بناتے تھے جو افضل ہو اور افضل چیز کو نہیں چھوڑتے تھے۔ اور یہ لوگ نماز کو اول وقت میں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٩٢٢) (حسن) (سند میں اسحاق بن عمر ضعیف ہیں، مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (608) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 174
عصر کی نماز بھول جانا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس سے عصر فوت ہوگئی گویا اس کا گھر اور مال لٹ گیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں بریدہ اور نوفل بن معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٤ (٥٥٢) ، والمناقب ٢٥ (٣٦٠٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥ (٤١٤) ، سنن النسائی/الصلاة ١٧ (٤٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦ (٦٨٥) ، ( تحفة الأشراف : ٨٣٠١) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٥ (٢١) ، مسند احمد (٢/١٣، ٢٧، ٤٨، ٦٤، ٧٥، ٧٦، ١٠٢، ١٣٤، ١٤٥، ١٤٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٧ (١٢٦٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (685) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 175
جلدی نماز پڑھنا جب امام تاخیر کرے
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! میرے بعد کچھ ایسے امراء (حکام) ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے ١ ؎، تو تم نماز کو اس کے وقت پر پڑھ لینا ٢ ؎ نماز اپنے وقت پر پڑھ لی گئی تو امامت والی نماز تمہارے لیے نفل ہوگی، ورنہ تم نے اپنی نماز محفوظ کر ہی لی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور عبادہ بن صامت (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابوذر (رض) کی حدیث حسن ہے، ٣- یہی اہل علم میں سے کئی لوگوں کا قول ہے، یہ لوگ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی نماز اپنے وقت پر پڑھ لے جب امام اسے مؤخر کرے، پھر وہ امام کے ساتھ بھی پڑھے اور پہلی نماز ہی اکثر اہل علم کے نزدیک فرض ہوگی ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤١ (٦٤٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٠ (٤٣١) ، سنن النسائی/الإمامة ٢ (٧٧٩) ، و ٥٥ (٨٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٠ (١٢٥٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٥٠) ، مسند احمد (٥/١٦٨، ١٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٦ (١٢٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے دیر کر کے پڑھیں گے۔ ٢ ؎ : یہی صحیح ہے اور باب کی حدیث اس بارے میں نص صریح ہے ، اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ ٣ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام جب نماز کو اس کے اول وقت سے دیر کر کے پڑھے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے کہ اسے اول وقت میں اکیلے پڑھ لے ، ابوداؤد کی روایت میں «صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصلها فإنها لک نافلة» تم نماز وقت پر پڑھ لو پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو دوبارہ پڑھ لیا کرو ، یہ تمہارے لیے نفل ہوگی ، ظاہر حدیث عام ہے ساری نمازیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجر کی ہو یا عصر کی یا مغرب کی ، بعضوں نے اسے ظہر اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے ، وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہوجائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1256) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 176
سونے کے سبب نماز چھوٹ جانا
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے نماز سے اپنے سو جانے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : سو جانے میں قصور اور کمی نہیں۔ قصور اور کمی تو جاگنے میں ہے، (کہ جاگتا رہے اور نہ پڑھے) لہٰذا تم میں سے کوئی جب نماز بھول جائے، یا نماز سے سو جائے، تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود، ابومریم، عمران بن حصین، جبیر بن مطعم، ابوجحیفہ، ابوسعید، عمرو بن امیہ ضمری اور ذومخمر (جنہیں ذومخبر بھی کہا جاتا ہے، اور یہ نجاشی کے بھتیجے ہیں) (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کے درمیان اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو نماز سے سو جائے یا اسے بھول جائے اور ایسے وقت میں جاگے یا اسے یاد آئے جو نماز کا وقت نہیں مثلاً سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے پڑھ لے جب جاگے یا یاد آئے گو سورج نکلنے کا یا ڈوبنے کا وقت ہو، یہی احمد، اسحاق بن راہویہ، شافعی اور مالک کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جب تک سورج نکل نہ جائے یا ڈوب نہ جائے نہ پڑھے۔ پہلا قول ہی راجح ہے، کیونکہ یہ نماز سبب والی (قضاء) ہے اور سبب والی میں وقت کی پابندی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨١) ، (في سیاق طویل) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١١ (٤٣٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٣ (٦١٦) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٠ (٦٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٠٨٥) ، مسند احمد (٥/٣٠٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (698) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 177
وہ شخص جو نماز بھول جائے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز بھول جائے تو چاہیئے کہ جب یاد آئے پڑھ لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سمرہ اور ابوقتادہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں جو نماز بھول جائے کہا کہ وہ پڑھ لے جب بھی اسے یاد آئے خواہ وقت ہو یا نہ ہو۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور ابوبکرہ (رض) سے مروی ہے کہ وہ عصر میں سو گئے اور سورج ڈوبنے کے وقت اٹھے، تو انہوں نے نماز نہیں پڑھی جب تک کہ سورج ڈوب نہیں گیا۔ اہل کوفہ کے کچھ لوگ اسی طرف گئے ہیں۔ رہے ہمارے اصحاب یعنی محدثین تو وہ علی بن ابی طالب (رض) ہی کے قول کی طرف گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٧ (٥٩٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١١ (٤٤٢) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٢ (٦١٤) سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٠ (٦٩٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٣٠، وکذا : ١٢٩٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (696) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 178
وہ شخص جس کی بہت سی نمازیں فوت ہوجائیں تو کس نماز سے ابتدا کرے
ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو خندق کے دن چار نمازوں سے روک دیا۔ یہاں تک کہ رات جتنی اللہ نے چاہی گزر گئی، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان کہی، پھر اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھی، پھر بلال (رض) نے اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھی، پھر بلال (رض) نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ ﷺ نے عشاء پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابوسعید اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث کی سند میں کوئی برائی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود (رض) سے نہیں سنا ہے، ٣- اور چھوٹی ہوئی نمازوں کے سلسلے میں بعض اہل علم نے اسی کو پسند کیا ہے کہ آدمی جب ان کی قضاء کرے تو ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کہے ١ ؎ اور اگر وہ الگ الگ اقامت نہ کہے تو بھی وہ اسے کافی ہوگا، اور یہی شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٥٥ (٦٢٣) ، والأذان ٢٢ (٦٦٣) ، و ٢٣ (٦٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ٩٦٣٣) (حسن) (سند میں ابو عبیدہ اور ان کے باپ ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہے، نیز ابو الزبیر مدلس ہیں اور ” عنعنہ “ سے روایت کیے ہوئے ہیں، مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن صحیح ہے/دیکھئے نسائی حدیث رقم ٤٨٣، ٥٣٦ اور ٦٢٢) وضاحت : ١ ؎ : ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت ہی راجح ہے کیونکہ ابن مسعود اور ابو سعید خدری (رض) کی حدیثوں سے اس کی تائید ہوتی ہے ، سب کے لیے ایک ہی اقامت محض قیاس ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (239) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 179
وہ شخص جس کی بہت سی نمازیں فوت ہوجائیں تو کس نماز سے ابتدا کرے
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے خندق کے روز کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ اللہ کے رسول ! میں عصر نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نے اسے (اب بھی) نہیں پڑھی ہے ، وہ کہتے ہیں : پھر ہم وادی بطحان میں اترے تو رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے سورج ڈوب جانے کے بعد پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٦ (٥٩٦) ، و ٣٨ (٥٩٨) ، والأذان ٢٦ (٦٤١) ، والخوف ٤ (٩٤٥) ، والمغازی ٢٩ (٤١١٢) ، صحیح مسلم/المساجد (٦٣٦) ، سنن النسائی/السہو ١٠٥ (١٣٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ٣١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عمر (رض) کی اس حدیث میں مذکور واقعہ ابن مسعود والے واقعہ کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے ، یہاں صرف عصر کی قضاء کا واقعہ ہے اور وہاں ظہر سے لے کر مغرب تک کی قضاء پھر عشاء کے وقت میں سب کی قضاء کا واقعہ ہے جو دوسرے دن کا ہے ، غزوہ خندق کئی دن تک ہوئی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 180
عصر کی نماز وسطی ہونا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «صلاة وسطیٰ» عصر کی صلاۃ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٦ (٦٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦ (٦٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩٥٤٨) ، مسند احمد (١/٤٠٤، ٤٥٦) ، (ویأتی عند المؤلف فی تفسیر البقرة (٢٩٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «وسطیٰ» یہ اس لیے ہے کہ یہ دن اور رات کی نمازوں کی بیچ میں واقع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (634) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 181 امام ترمذی کہتے ہیں : ١- «صلاة وسطیٰ» کے سلسلہ میں سمرہ کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، عائشہ، حفصہ، ابوہریرہ اور ابوہاشم بن عقبہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کا کہنا ہے : حسن بصری کی حدیث جسے انہوں نے سمرہ بن جندب سے روایت کیا ہے، صحیح حدیث ہے، جسے انہوں نے سمرۃ سے سنا ہے، ٤- صحابہ کرام اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، زید بن ثابت اور عائشہ (رض) کا کہنا ہے کہ «صلاة وسطیٰ» ظہر کی صلاۃ ہے، ابن عباس اور ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ «صلاة وسطیٰ» صبح کی صلاۃ (یعنی فجر) ہے تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ویأتی عندہ فی تفسیر البقرة (٢٩٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦٠٢) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے، حسن بصری کے سمرہ (رض) سے سماع میں اختلاف ہے، نیز قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے) وضاحت : ١ ؎ : «صلاۃ وسطیٰ» سے کون سی صلاۃ مراد ہے اس بارے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں صحیح قول یہی ہے کہ اس سے مراد صلاۃ عصر ہے یہی اکثر صحابہ اور تابعین کا مذہب ہے ، امام ابوحنیفہ ، امام احمد بھی اسی طرف گئے ہیں۔ ٢ ؎ : امام مالک اور امام شافعی کا مشہور مذہب یہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح (بما قبله) ، المشکاة (634) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 182
عصر کی نماز وسطی ہونا
سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «صلاة وسطیٰ» عصر کی صلاۃ ہے ١ ؎۔
عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام (رض) میں سے کئی لوگوں سے (جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے ١ ؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے نماز ٢ ؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث جسے انہوں نے عمر سے روایت کی ہے، حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابن مسعود، عقبہ بن عامر، ابوہریرہ، ابن عمر، سمرہ بن جندب، عبداللہ بن عمرو، معاذ بن عفراء، صنابحی (نبی اکرم ﷺ سے انہوں نے نہیں سنا ہے) سلمہ بن اکوع، زید بن ثابت، عائشہ، کعب بن مرہ، ابوامامہ، عمرو بن عبسہ، یعلیٰ ابن امیہ اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے کو مکروہ جانا ہے، رہیں فوت شدہ نمازیں تو انہیں عصر کے بعد یا فجر کے بعد قضاء کرنے میں کوئی حرج نہیں، ٤- شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف تین چیزیں سنی ہیں۔ ایک عمر (رض) کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ سورج نہ ڈوب جائے، اور فجر کے بعد بھی جب تک کہ سورج نکل نہ آئے، اور (دوسری) ابن عباس (رض) کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : تم میں سے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اور (تیسری) علی (رض) کی حدیث کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٠ (٥٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٦) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٢ (٥٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٧ (١٢٥٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٤٩٢) ، مسند احمد (١/٢١، ٣٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بخاری کی روایت میں «حتی ترتفع الشمس» ہے ، دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس حدیث میں طلوع سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے اور وہ سورج کا نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنا ہے۔ ٢ ؎ : مذکورہ دونوں اوقات میں صرف سبب والی نفلی نمازوں سے منع کیا گیا ہے ، فرض نمازوں کی قضاء ، تحیۃ المسجد ، تحیۃ الوضو ، طواف کی دو رکعتیں اور نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1250) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 183
عصر کے بعد نماز پڑھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، اس لیے کہ آپ کے پاس کچھ مال آیا تھا، جس کی وجہ سے آپ کو ظہر کے بعد کی دونوں رکعتیں پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا تو آپ نے انہیں عصر کے بعد پڑھا پھر آپ نے انہیں دوبارہ نہیں پڑھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، ام سلمہ، میمونہ اور ابوموسیٰ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- دیگر کئی لوگوں نے بھی نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے عصر بعد دو رکعتیں پڑھیں یہ اس چیز کے خلاف ہے جو آپ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، ٤- ابن عباس والی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے دوبارہ ایسا نہیں کیا، سب سے زیادہ صحیح ہے، ٥- زید بن ثابت سے بھی ابن عباس ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے، ٦- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی کئی حدیثیں مروی ہیں، نیز ان سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بھی ان کے یہاں عصر کے بعد آتے دو رکعتیں پڑھتے، ٧- نیز انہوں نے ام سلمہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اور فجر کے بعد جب تک نکل نہ آئے نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ ٨- اکثر اہل علم کا اتفاق بھی اسی پر ہے کہ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اور فجر کے بعد جب تک نکل نہ آئے نماز پڑھنا مکروہ ہے سوائے ان نمازوں کے جو اس سے مستثنیٰ ہیں مثلاً مکہ میں عصر کے بعد طواف کی دونوں رکعتیں پڑھنا یہاں تک سورج ڈوب جائے اور فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے رخصت مروی ہے، صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے یہی کہا ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم نے عصر اور فجر کے بعد مکہ میں بھی نماز پڑھنے کو مکروہ جانا ہے، سفیان ثوری، مالک بن انس اور بعض اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٥٧٣) (ضعیف الإسناد) (سند میں عطاء بن السائب اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، جریر بن عبدالحمید کی ان سے روایت اختلاط کے زمانہ کی ہے، لیکن صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے عصر کے بعد ان دو رکعتوں کو ہمیشہ پڑھا اسی لیے ” ثم لم يعد لهما “ ” ان کو پھر کبھی نہیں پڑھا “ کا ٹکڑا منکر ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ ام المؤمنین عائشہ (رض) سے مروی روایات «ما ترک النبي صلی اللہ عليه وسلم السجدتين بعد العصر عندي قط»، «ما تركهما حتی لقی الله» ، «وما کان النبي صلی اللہ عليه وسلم يأتيني في يوم بعد العصر إلا صلی رکعتين» کے معارض ہے ان میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے اولاً یہ کہ ابن عباس کی یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے ، یا کم از کم عائشہ کی حدیث سے کم تر ہے ، دوسرے یہ کہ ابن عباس نے یہ نفی اپنے علم کی بنیاد پر کی ہے کیونکہ آپ اسے گھر میں پڑھتے تھے اس لیے انہیں اس کا علم نہیں ہوسکا تھا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، وقوله : ثم لم يعد لهما منكر صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 184
مغرب سے پہلے نماز پڑھنا
عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو نفلی نماز پڑھنا چاہے اس کے لیے ہر دو اذان ١ ؎ کے درمیان نماز ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مغفل (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن زبیر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صحابہ کرام کے درمیان مغرب سے پہلے کی نماز کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے، ان میں سے بعض کے نزدیک مغرب سے پہلے نماز نہیں، اور صحابہ میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ مغرب سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے، ٤- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں پڑھے تو بہتر ہے، اور یہ ان دونوں کے نزدیک مستحب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤ (٦٢٤) ، و ١٦ (٦٢٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٦ (٨٣٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٠٠ (١٢٨٣) ، سنن النسائی/الأذان ٣٩ (٦٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٠ (١١٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٦٥٨) ، مسند احمد (٤/٨٦) ، و (٥/٥٤، ٥٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٥ (١٤٨٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہر دو اذان سے مراد اذان اور اقامت ہے ، یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے ، اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں ، اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہوجائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ نماز بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے ، مشکل سے دو تین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اول وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے نماز مؤخر نہیں ہوتی ( صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امر کا صیغہ ہے مغرب سے پہلے نماز پڑھو ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1162) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 185
اس شخص کے بارے میں جو غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھ سکتا ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ہمارے اصحاب، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ حدیث ان کے نزدیک صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً ایسے شخص کے لیے جو نماز سے سو گیا اور سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت بیدار ہوا ہو یا اسے بھول گیا ہو اور وہ سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت اسے نماز یاد آئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٨ (٥٧٩) ، و ٢٩ (٥٨٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥ (٤١٢) ، سنن النسائی/المواقیت ١١ (٥١٦، ٥١٨) ، و ٢٨ (٥٥١) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١١ (١١٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٢٠٦، و ١٣٦٤٦، و ١٤٢١٦) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٥) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٣٤٨، ٢٥٤، ٢٦٠، ٢٨٢، ٣٩٩، ٤٦٢، ٤٧٤، ٤٨٩، ٤٩٠، ٥٢١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوگیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضاء نہیں ، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہوگی ، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی وہ اس روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہوگیا اور وہ نماز اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا ہو یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی ہو یا کافر اسلام لایا ہو کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہوگی ، لیکن نسائی کی روایت جس میں «فليتم صلاته» کے الفاظ وارد ہیں اس تاویل کی نفی کرتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (699 و 670) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 186
دو نمازوں کا ایک وقت میں جمع کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بغیر خوف اور بارش ١ ؎ کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ٢ ؎۔ ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم ﷺ کا اس سے کیا منشأ تھی ؟ کہا : آپ ﷺ کا منشأ یہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- ابن عباس (رض) کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، ابن عباس (رض) سے اس کے خلاف بھی مرفوعاً مروی ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٢ (٥٤٣) ، (بدون قولہ ” فی غیر خوف ولا مطر “ ) ، صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٥، ٧٠٦) ، (وعندہ في روایة ” ولاسفر “ ) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٤ (١٢١٠، ١٢١١) ، سنن النسائی/المواقیت ٤٤ (٥٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥٤٧٤) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ١ (٤) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٢٣، ٢٨٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ابوداؤد کی روایت میں «في غير خوف ولا سفر» ہے ، نیز مسلم کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی ہے ، خوف ، سفر اور مطر ( بارش ) تینوں کا ذکر ایک ساتھ کسی روایت میں نہیں ہے مشہور «من غير خوف ولا سفر» ہے۔ ٢ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا بوقت ضرورت حالت قیام میں بھی جائز ہے ، لیکن اسے عادت نہیں بنا لینی چاہیئے۔ ٣ ؎ : جسے امام ترمذی آگے نقل کر رہے ہیں ، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے ، اس لیے دونوں حدیثوں میں تعارض ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اور نہ اس حدیث سے استدلال جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (579 / 1) ، صحيح أبي داود (1096) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 187
دو نمازوں کا ایک وقت میں جمع کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے بغیر عذر کے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ہوا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حنش ہی ابوعلی رحبی ہیں اور وہی حسین بن قیس بھی ہے۔ یہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہے، احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے، ٢- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سفر یا عرفہ کے سوا دو نمازیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں، ٣- تابعین میں سے بعض اہل علم نے مریض کو دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرنے کی رخصت دی ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بارش کے سبب بھی دو نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں۔ شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ البتہ شافعی مریض کے لیے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرنے کو درست قرار نہیں دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٠٢٥) (ضعیف جداً ) (سند میں حسین بن قیس المعروف بہ حنش ضعیف بلکہ متروک ہے) وضاحت : ١ ؎ : سفر میں دو نمازوں کے درمیان جمع کرنے کو ناجائز ہونے پر احناف نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے ، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے قطعاً استدلال کے قابل نہیں ، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین کی جو احادیث دلالت کرتی ہیں ، وہ صحیح ہیں ان کی تخریج مسلم وغیرہ نے کی ہے اور اگر بالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو عذر سے مراد سفر ہی تو ہے ، نیز دوسرے عذر بھی ہوسکتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، التعليق الرغيب (1 / 198) ، الضعيفة (4581) ، // ضعيف الجامع - بترتيبى - برقم (5546) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 188
اذان کی ابتداء
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم نے (مدینہ منورہ میں ایک رات) صبح کی تو ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اپنا خواب بتایا ١ ؎ تو آپ نے فرمایا : یہ ایک سچا خواب ہے، تم اٹھو بلال کے ساتھ جاؤ وہ تم سے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں۔ اور جو تمہیں بتایا گیا ہے، وہ ان پر پیش کرو، وہ اسے زور سے پکار کر کہیں ، جب عمر بن خطاب (رض) نے بلال (رض) کی اذان سنی تو اپنا تہ بند کھینچتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے، میں نے (بھی) اسی طرح دیکھا ہے جو انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا شکر ہے، یہ بات اور پکی ہوگئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن زید (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اور ابراہیم بن سعد نے یہ حدیث محمد بن اسحاق سے اس سے بھی زیادہ کامل اور زیادہ لمبی روایت کی ہے۔ اور اس میں انہوں نے اذان کے کلمات کو دو دو بار اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک بار کہنے کا واقعہ ذکر کیا ہے، ٤- عبداللہ بن زید ہی ابن عبدربہ ہیں اور انہیں ابن عبدرب بھی کہا جاتا ہے، سوائے اذان کے سلسلے کی اس ایک حدیث کے ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی نبی اکرم ﷺ سے کوئی اور بھی حدیث صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی کی کئی حدیثیں ہیں جنہیں وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، اور یہ عباد بن تمیم کے چچا ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٨ (٤٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ١ (٧٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٠٩) ، مسند احمد (٤/٤٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣ (١٢٢٤) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے درمیان ایک رات نماز کے لیے لوگوں کو بلانے کی تدابیر پر گفتگو ہوئی ، اسی رات عبداللہ بن زید (رض) نے خواب دیکھا اور آ کر آپ ﷺ سے بیان کیا ( دیکھئیے اگلی حدیث ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (706) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 189
اذان کی ابتداء
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہو کر اوقات نماز کا اندازہ لگاتے تھے، کوئی نماز کے لیے پکار نہ لگاتا تھا، ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ١ ؎ چناچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا : نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنا لو، بعض نے کہا کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن (یعنی کسی جانور کا سینگ) بنا لو۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں : اس پر عمر بن خطاب (رض) نے کہا : کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو نماز کے لیے پکارے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلال اٹھو جاؤ نماز کے لیے پکارو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث ابن عمر (رض) کی (اس) روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ (جسے بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١ (٦٠٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١ (٣٧٧) ، سنن النسائی/الأذان ١ (٦٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٧٧٧٥) ، مسند احمد (٢/١٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ گفتگو مدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی ، اس میں بعض لوگوں نے نماز کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کرنے کا اور بعض نے «بوق» بگل استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا ، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو نماز کے لیے پکارنے پر مامور کردیا جائے ، چناچہ نبی اکرم ﷺ کو یہ رائے پسند آئی اور آپ نے بلال کو باواز بلند «الصلاة جامعة» کہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن زید (رض) نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اور جا کر خواب بیان کیا ، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔ ٢ ؎ : دیکھئیے صحیح البخاری حدیث ٦٠٤ وصحیح مسلم حدیث ٨٣٧۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 190
اذان میں ترجیع
ابو محذورہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بٹھا کر اذان کا ایک ایک لفظ سکھایا۔ ابراہیم بن عبدالعزیز بن عبدالملک بن ابی محذورہ کہتے ہیں : اس طرح جیسے ہماری اذان ہے۔ بشر کہتے ہیں تو میں نے ان سے یعنی ابراہیم سے کہا : اسے مجھ پر دہرائیے تو انہوں نے ترجیع ١ ؎ کے ساتھ اذان کا ذکر کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اذان کے سلسلے میں ابو محذورہ والی حدیث صحیح ہے، کئی سندوں سے مروی ہے، ٢- اور اسی پر مکہ میں عمل ہے اور یہی شافعی کا قول ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأذان ٣ (٦٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) (صحیح) (ابو محذورہ (رض) کی اس روایت میں الفاظ اذان کا ذکر نہیں ہے، لیکن مجملاً یہ ذکر ہے کہ اذان کو ترجیع کے ساتھ بیان کیا، جب کہ اسی سند سے نسائی میں وارد حدیث میں اذان کے صرف سترہ کلمات کا ذکر ہے، اور اس میں ترجیع کی صراحت نہیں ہے، اس لیے نسائی والا سیاق منکر ہے، کیونکہ صحیح مسلم، سنن نسائی اور ابن ماجہ (٧٠٨) میں اذان کے کلمات انیس آئے ہیں، دیکھیں مؤلف کی اگلی روایت (١٩٢) اور نسائی کی روایت رقم ٣٠ ٦، ٦٣١، ٦٣٢، ٦٣٣) وضاحت : ١ ؎ : اذان میں شہادتین کے کلمات کو پہلے دو مرتبہ دھیمی آواز سے کہنے پھر دوبارہ دو مرتبہ بلند آواز سے کہنے کو ترجیع کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : اذان میں ترجیع مسنون ہے یا نہیں اس بارے میں ائمہ میں اختلاف ہے ، صحیح قول یہ ہے کہ اذان ترجیع کے ساتھ اور بغیر ترجیع کے دونوں طرح سے جائز ہے اور ترجیع والی روایات صحیحین کی ہیں اس لیے راجح ہیں ، اور یہ کہنا کہ جس صحابی سے ترجیع کی روایات آئی ہیں انہیں تعلیم دینا مقصود تھا اس لیے کہ ابو محذورہ (رض) جنہیں آپ نے یہ تعلیم دی پہلی مرتبہ اسے دھیمی آواز میں ادا کیا تھا پھر دوبارہ اسے بلند آواز سے ادا کیا تھا ، درست نہیں ، کیونکہ ابو محذورہ مکہ میں برابر ترجیع کے ساتھ اذان دیتے رہے اور ان کے بعد بھی برابر ترجیع سے اذان ہوتی رہی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (708) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 191
اذان میں ترجیع
ابو محذورہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں اذان کے انیس کلمات ١ ؎ اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم اذان کے سلسلے میں اسی طرف گئے ہیں، ٣- ابو محذورہ سے یہ بھی روایت ہے کہ وہ اقامت اکہری کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣ (٣٧٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٨ (٥٠٢) ، سنن النسائی/الأذان ٤ (٦٣١) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٢ (٧٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ انیس کلمات ترجیع کے ساتھ ہوتے ہیں ، یہ حدیث اذان میں ترجیع کے مسنون ہونے پر نص صریح ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (709) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 192
تکبیر ایک ایک بارکہنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی قول ہے، اور مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١ (٦٠٣) ، و ٢ (٦٠٥) ، و ٣ (٦٠٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢ (٣٧٨) ، سنن النسائی/الصلاة ٢٩ (٥٠٨) ، سنن النسائی/الأذان ٢ (٦٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٦ (٧٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤٣) ، مسند احمد (٣/١٠٣، ١٨٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦ (١٢٣٠، ١٢٣١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (729 و 730) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 193
اقامت دو دو بار کہے
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان اور اقامت دونوں دہری ہوتی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن زید کی حدیث کو وکیع نے بطریق «الأعمش عن عمرو بن مرة عن عبدالرحمٰن بن أبي ليلى» روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان (کا واقعہ) دیکھا، اور شعبہ نے بطریق «عمرو بن مرة عن عبدالرحمٰن بن أبي ليلى» یہ روایت کی ہے کہ محمد رسول ﷺ کے اصحاب نے ہم سے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان (کا واقعہ) دیکھا، ٢- یہ ابن ابی لیلیٰ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎، عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے عبداللہ بن زید سے نہیں سنا ہے، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اذان اور اقامت دونوں دہری ہیں یہی سفیان ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا قول ہے، ٤- ابن ابی لیلیٰ سے مراد محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ ہیں۔ وہ کوفہ کے قاضی تھے، انہوں نے اپنے والد سے نہیں سنا ہے البتہ وہ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں اور وہ ان کے والد سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣١١) (ضعیف الإسناد) (عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ کا سماع عبداللہ بن زید سے نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : مولف کا مقصد یہ ہے کہ : عبداللہ بن زید (رض) کی یہ حدیث تین طرق سے آئی ہے ، ایک یہی بطریق «ابن ابی لیلیٰ ، عن عمرو بن مرۃ ، عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ عن عبداللہ» دوسرے بطریق «الاعمش عن عمرو بن مرۃ ، عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ ، عن عبداللہ» تیسرے بطریق : «شعبۃ عن عمرو بن مرۃ عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ عن اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم» اور بقول مؤلف آخرالذکر تیسرا طریق زیادہ صحیح ہے ، ( کیونکہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کا عبداللہ بن زید سے سماع نہیں ہے ) اور اس کا مضمون ( نیز دوسرے کا مضمون بھی ) پہلے سے الگ ہے ، یعنی صرف خواب دیکھنے کا بیان ہے اور بس۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 194
اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کر ادا کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال (رض) سے فرمایا : بلال ! جب تم اذان دو تو ٹھہر ٹھہر کر دو اور جب اقامت کہو تو جلدی جلدی کہو، اور اپنی اذان و اقامت کے درمیان اس قدر وقفہ رکھو کہ کھانے پینے والا اپنے کھانے پینے سے اور پاخانہ پیشاب کی حاجت محسوس کرنے والا اپنی حاجت سے فارغ ہوجائے اور اس وقت تک (اقامت کہنے کے لیے) کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٢٢٢ و ٢٤٩٣) (ضعیف جداً ) (سند میں عبدالمنعم متروک ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، لکن قوله : ولا تقوموا .. صحيح ويأتى (517) ، الإرواء (228) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 195
اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کر ادا کرنا
اس سند سے بھی عبدالمنعم سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : جابر (رض) کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے یعنی عبدالمنعم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور یہ مجہول سند ہے، عبدالمنعم بصرہ کے شیخ ہیں (یعنی ضعیف راوی ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف جداً ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 196
اذان دیتے ہوئے کان میں انگلی ڈالنا
ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) (رض) کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ١ ؎ اپنا چہرہ ادھر اور ادھر پھیر رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں، رسول اللہ ﷺ اپنے سرخ خیمے میں تھے، وہ چمڑے کا تھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ٢ ؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔ آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ سفیان کہتے ہیں : ہمارا خیال ہے وہ چادر یمنی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوجحیفہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس چیز کو مستحب سمجھتے ہیں کہ مؤذن اذان میں اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کرے، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اقامت میں بھی اپنی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرے گا، یہی اوزاعی کا قول ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤ (٥٢٠) ، سنن النسائی/الأذان ١٣ (٦٤٤) ، والزینة ٢٣ (٥٣٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٧١١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٦) ، مسند احمد (٤/٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨ (١٢٣٤) ، (وراجع أیضا ماعند صحیح البخاری/الأذان ١٥ (٦٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے «فلما بلغ حي علی الصلاة حي علی الفلاح لوّي عنقه يمينا وشمالاً ولم يستدر» یعنی : بلال جب «حي الصلاة حي علی الفلاح» پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور خود نہیں گھومے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مراد سر کا گھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیزے کے درمیان سے کیونکہ عمر بن ابی زائدہ کی روایت میں «ورأيت الناس والدواب يمرون بين يدي العنزة» ہے ، میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانورنیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے ۔ ٣ ؎ : اس پر سنت سے کوئی دلیل نہیں ، رہا اسے اذان پر قیاس کرنا تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (711) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 197
فجر کی اذان میں تثویب کے بارے میں
بلال (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فجر کے سوا کسی بھی نماز میں تثویب ١ ؎ نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابو محذورہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- بلال (رض) کی حدیث کو ہم صرف ابواسرائیل ملائی کی سند سے جانتے ہیں۔ اور ابواسرائیل نے یہ حدیث حکم بن عتیبہ سے نہیں سنی۔ بلکہ انہوں نے اسے حسن بن عمارہ سے اور حسن نے حکم بن عتیبہ سے روایت کیا ہے، ٣- ابواسرائیل کا نام اسماعیل بن ابی اسحاق ہے، اور وہ اہل الحدیث کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں، ٤- اہل علم کا تثویب کی تفسیر کے سلسلے میں اختلاف ہے ؛ بعض کہتے ہیں : تثویب فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» نماز نیند سے بہتر ہے کہنے کا نام ہے ابن مبارک اور احمد کا یہی قول ہے، اسحاق کہتے ہیں : تثویب اس کے علاوہ ہے، تثویب مکروہ ہے، یہ ایسی چیز ہے جسے لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کے بعد ایجاد کی ہے، جب مؤذن اذان دیتا اور لوگ تاخیر کرتے تو وہ اذان اور اقامت کے درمیان : «قد قامت الصلاة، حي علی الصلاة، حي علی الفلاح» کہتا، ٥- اور جو اسحاق بن راہویہ نے کہا ہے دراصل یہی وہ تثویب ہے جسے اہل علم نے ناپسند کیا ہے اور اسی کو لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کے بعد ایجاد کیا ہے، ابن مبارک اور احمد کی جو تفسیر ہے کہ تثویب یہ ہے کہ مؤذن فجر کی اذان میں :«الصلاة خير من النوم» کہے تو یہ کہنا صحیح ہے، اسے بھی تثویب کہا جاتا ہے اور یہ وہ تثویب ہے جسے اہل علم نے پسند کیا اور درست جانا ہے، عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ وہ فجر میں «الصلاة خير من النوم» کہتے تھے، اور مجاہد سے مروی ہے کہ میں عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ ایک مسجد میں داخل ہوا جس میں اذان دی جا چکی تھی۔ ہم اس میں نماز پڑھنا چاہ رہے تھے۔ اتنے میں مؤذن نے تثویب کی، تو عبداللہ بن عمر مسجد سے باہر نکلے اور کہا : اس بدعتی کے پاس سے ہمارے ساتھ نکل چلو، اور اس مسجد میں انہوں نے نماز نہیں پڑھی، عبداللہ بن عمر (رض) نے اس تثویب کو جسے لوگوں نے بعد میں ایجاد کرلیا تھا ناپسند کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٧١٥) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٤٢) ، مسند احمد (٦/١٤، ١٥) (ضعیف) (عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا سماع بلال (رض) سے نہیں ہے، نیز ابو اسرائیل ملائی کو وہم ہوجایا کرتا تھا اس لیے کبھی کہتے ہیں کہ حدیث میں نے حکم بن عتیبہ سے سنی ہے، اور کبھی کہتے ہیں کہ حسن بن عمارة کے واسطہ سے حکم سے سنی ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہاں تثویب سے مراد فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» کہنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (715) ، // ضعيف سنن ابن ماجة (151) ، الإرواء (235) ، المشکاة (646) ، ضعيف الجامع - الطبعة الثانية المرتبة - برقم (6191) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 198
اذان کہنے والا ہی تکبیر کہے
زیاد بن حارث صدائی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فجر کی اذان دینے کا حکم دیا تو میں نے اذان دی، پھر بلال (رض) نے اقامت کہنی چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبیلہ صداء کے ایک شخص نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی اقامت کہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- زیاد (رض) کی روایت کو ہم صرف افریقی کی سند سے جانتے ہیں اور افریقی محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔ احمد کہتے ہیں : میں افریقی کی حدیث نہیں لکھتا، لیکن میں نے محمد بن اسماعیل کو دیکھا وہ ان کے معاملے کو قوی قرار دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ مقارب الحدیث ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٠ (٥١٤) سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٧١٧) (تحفة الأشراف : ٣٦٥٣) مسند احمد (٤/١٦٩) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن انعم افریقی ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث ضعیف ہے ، اس لیے اس کی بنا پر مساجد میں جھگڑے مناسب نہیں ، اگر صحیح بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ مستحب کہہ سکتے ہیں ، اور مستحب کے لیے مسلمانوں میں جھگڑے زیبا نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (717) // ضعيف سنن ابن ماجة (152) ، ضعيف أبي داود (102 / 514) ، الإرواء (237) ، المشکاة (648) ، الضعيفة (35) ، ضعيف الجامع الصغير (1377) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 199
بغیر بے وضو اذان دنیا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اذان وہی دے جو باوضو ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٦٠٣) (ضعیف) (سند میں معاویہ بن یحییٰ صدفی ضعیف ہیں، نیز سند میں زہری اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے) وضاحت : ١ ؎ : بہتر یہی ہے کہ اذان باوضو ہی دی جائے اور باب کی حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن وائل اور ابن عباس کی احادیث اس کی شاہد ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (222) // ضعيف الجامع الصغير (6317) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 200
None
ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: نماز کے لیے وہی اذان دے جو باوضو ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو ابن وہب نے مرفوع روایت نہیں کیا، یہ ۱؎ ولید بن مسلم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۳- زہری نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے، ۴- بغیر وضو کے اذان دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے مکروہ کہا ہے اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اور بعض اہل علم نے اس سلسلہ میں رخصت دی ہے، اور اسی کے قائل سفیان ثوری، ابن مبارک اور احمد ہیں۔
امام اقامت کا زیادہ حق رکھتا ہے
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا مؤذن دیر کرتا اور اقامت نہیں کہتا تھا یہاں تک کہ جب وہ رسول اللہ ﷺ کو دیکھ لیتا کہ آپ نکل چکے ہیں تب وہ اقامت کہتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر بن سمرہ (رض) والی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور ہم اسرائیل کی حدیث کو جسے انہوں نے سماک سے روایت کی ہے، صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣- اسی طرح بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مؤذن کو اذان کا زیادہ اختیار ہے ١ ؎ اور امام کو اقامت کا زیادہ اختیار ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٤٤ (٥٣٧) ، ( تحفة الأشراف : ٢١٣٧) ، مسند احمد (٥/٧٦، ٨٧، ٩١، ٩٥، ١٠٤، ١٠٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ مؤذن کو اذان کے وقت کا محافظ بنایا گیا ہے اس لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اذان کو مؤخر کرنے یا اسے مقدم کرنے پر اسے مجبور کرے۔ ٢ ؎ : اس لیے اس کے اشارہ یا اجازت کے بغیر تکبیر نہیں کہنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، صحيح أبي داود (548) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 202
رات کو اذان دینا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، انیسہ، انس، ابوذر اور سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٣- رات ہی میں اذان کہہ دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر رات باقی ہو تبھی مؤذن اذان کہہ دے تو کافی ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں، مالک، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ رات میں اذان دیدے تو اسے دہرائے ١ ؎، یہی سفیان ثوری کہتے ہیں، ٤- حماد بن سلمہ نے بطریق «ایوب عن نافع عن ابن عمر» روایت کی ہے کہ بلال (رض) نے رات ہی میں اذان دے دی، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔ یہ حدیث غیر محفوظ ہے، صحیح وہ روایت ہے جسے عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے بطریق نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں، اور عبدالعزیز بن ابی رواد نے نافع سے روایت کی ہے کہ عمر (رض) کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے اسے حکم دیا کہ وہ اذان دہرائے، یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ نافع اور عمر (رض) کے درمیان انقطاع ہے، اور شاید حماد بن سلمہ، کی مراد یہی حدیث ٢ ؎ ہو، صحیح عبیداللہ بن عمر دوسرے رواۃ کی روایت ہے جسے ان لوگوں نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور زہری نے سالم سے اور سالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، ٥- اگر حماد کی حدیث صحیح ہوتی تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہوتا، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں، آپ نے لوگوں کو آنے والے زمانے کے بارے میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں اور اگر آپ طلوع فجر سے پہلے اذان دے دینے پر انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں ، علی بن مدینی کہتے ہیں : حماد بن سلمہ والی حدیث جسے انہوں نے ایوب سے، اور ایوب نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے غیر محفوظ ہے، حماد بن سلمہ سے اس میں چوک ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦٢٠) ، والصوم ١٧ (١٩١٨) ، والشہادات ١١ (٢٦٥٦) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٤٨) ، صحیح مسلم/الصوم ٨ (١٠٩٢) ، سنن النسائی/الأذان ٩ (٨٣٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٩٠٩) ، موطا امام مالک/الصلاة ٣ (١٤) ، مسند احمد (٢/٩، ٥٧، ١٢٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤ (١٢٢٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی راجح ہے ، کیونکہ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان سحری کے غرض سے تھی ، نیز آپ ﷺ نے اس پر اکتفاء بھی نہیں کیا ، بلکہ نماز فجر کے لیے بلال اذان دیا کرتے۔ ٢ ؎ : شاید حماد بن سلمہ کے پیش نظر عمر والا یہی اثر رہا ہو یعنی انہیں اس کے مرفوع ہونے کا وہم ہوگیا ہو ، گویا انہیں یوں کہنا چاہیئے کہ عمر کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیا ، لیکن وہ وہم کے شکار ہوگئے اور اس کے بجائے انہوں نے یوں کہہ دیا کہ بلال نے رات میں اذان دے دی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (219) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 203
اذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنا مکروہ ہے
ابوالشعثاء سلیم بن اسود کہتے ہیں کہ ایک شخص عصر کی اذان ہو چکنے کے بعد مسجد سے نکلا تو ابوہریرہ (رض) نے کہا : رہا یہ تو اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی روایت حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عثمان (رض) سے بھی حدیث ہے، ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اذان ہوجانے کے بعد بغیر کسی عذر کے مثلاً بےوضو ہو یا کوئی ناگزیر ضرورت آ پڑی ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو کوئی مسجد سے نہ نکلے ١ ؎، ٤- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ جب تک مؤذن اقامت شروع نہیں کرتا وہ باہر نکل سکتا ہے، ٥- ہمارے نزدیک یہ اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس نکلنے کے لیے کوئی عذر موجود ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٥٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٤٣ (٥٣٦) ، سنن النسائی/الأذان ٤٠ (٦٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٧ (٧٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٤٧٧) ، مسند احمد (٢/٤١٠، ٤١٦، ٤١٧، ٥٠٦، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢ (١٢٤١) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی کسی دوسری مسجد کا امام ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (733) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 204
سفر میں اذان
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرے چچا زاد بھائی دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ہم سے فرمایا : جب تم دونوں سفر میں ہو تو اذان دو اور اقامت کہو۔ اور امامت وہ کرے جو تم دونوں میں بڑا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ان لوگوں نے سفر میں اذان کو پسند کیا ہے، اور بعض کہتے ہیں : اقامت کافی ہے، اذان تو اس کے لیے ہے جس کا ارادہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ہو۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٧ (٦٢٨) ، و ٣٥ (٦٥٨) ، و ٤٩ (٦٨٥) ، و ١٤٠ (٨١٩) ، والجہاد ٤٢ (٢٨٤٨) ، وألادب ٢٧ (٢٠٠٨) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٤٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٦١ (٥٨٩) ، سنن النسائی/الأذان ٧ (٦٣٥) ، و ٨ (٦٣٦) ، و ٢٩ (٦٧٠) ، والإمامة ٤ (٧٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٦ (تحفة الأشراف : ١١١٨٢) ، مسند احمد (٣/٤٣٦) ، و (٥/٥٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٢ (١٢٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (979) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 205
اذان کی فضیلت
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے سات سال تک ثواب کی نیت سے اذان دی اس کے لیے جہنم کی آگ سے نجات لکھ دی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ثوبان، معاویہ، انس، ابوہریرہ اور ابوسعید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اور جابر بن یزید جعفی کی لوگوں نے تضعیف کی ہے، یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے انہیں متروک قرار دیا ہے، ٤- اگر جابر جعفی نہ ہوتے ١ ؎ تو اہل کوفہ بغیر حدیث کے ہوتے، اور اگر حماد نہ ہوتے تو اہل کوفہ بغیر فقہ کے ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأذان ٥ (٧٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٦٣٨١) (ضعیف) (سند میں ” جابر جعفی “ ضعیف متروک الحدیث راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس کے باوجود ب اعتراف امام ابوحنیفہ جابر جعفی جھوٹا راوی ہے ، امام ابوحنیفہ کی ہر رائے پر ایک حدیث گھڑ لیا کرتا تھا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (727) // ضعيف سنن ابن ماجة (155) ، المشکاة (664) ، الضعيفة (850) ، ضعيف الجامع الصغير (5378) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 206
امام ضامن ہے اور موذن امانت دار ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام ضامن ہے ١ ؎ اور مؤذن امین ٢ ؎ ہے، اے اللہ ! تو اماموں کو راہ راست پر رکھ ٣ ؎ اور مؤذنوں کی مغفرت فرما ٤ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عائشہ، سہل بن سعد اور عقبہ بن عامر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٢- مولف نے حدیث کے طرق اور پہلی سند کی متابعت ذکر کرنے اور ابوصالح کی عائشہ سے روایت کے بعد فرمایا : میں نے ابوزرعہ کو کہتے سنا کہ ابوصالح کی ابوہریرہ سے مروی حدیث ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ نیز میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے اور بخاری، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ ابوصالح کی حدیث ابوہریرہ سے مروی حدیث ثابت نہیں ہے اور نہ ہی ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٢ (٥١٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٤٨٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٨٤، ٣٧٨، ٣٨٤، ٤١٩، ٤٢٤، ٤٦١، ٤٧٢، ٥١٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی امام مقتدیوں کی نماز کا نگراں اور محافظ ہے ، کیونکہ مقتدیوں کی نماز کی صحت امام کی نماز کی صحت پر موقوف ہے ، اس لیے اسے آداب طہارت اور آداب نماز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ٢ ؎ : یعنی لوگ اس کی اذان پر اعتماد کر کے نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں ، اس لیے اسے وقت کا خیال رکھنا چاہیئے ، نہ پہلے اذان دے اور نہ دیر کرے۔ ٣ ؎ : یعنی جو ذمہ داری انہوں نے اٹھا رکھی ہے اس کا شعور رکھنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے۔ ٤ ؎ : یعنی اس امانت کی ادائیگی میں ان سے جو کوتاہی ہو اسے بخش دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (663) ، الإرواء (217) ، صحيح أبي داود (530) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 207
جب موذن اذان دے تو سننے والا کیا کہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوسعید (رض) والی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابورافع، ابوہریرہ، ام حبیبہ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن ربیعہ، عائشہ، معاذ بن انس اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- معمر اور کئی رواۃ نے زہری سے مالک کی حدیث کے مثل روایت کی ہے، عبدالرحمٰن بن اسحاق نے اس حدیث کو بطریق : «الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، مالک والی روایت سب سے صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٧ (٦١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦ (٥٢٢) ، سنن النسائی/الأذان ٣٣ (٦٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٥٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٢) ، مسند احمد (٣/٦، ٥٣، ٧٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠ (١٢٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عمر (رض) کی روایت میں جس کی تخریج مسلم نے کی ہے «سوی الحيعلتين فيقول لا حول ولا قوة إلا بالله» یعنی : «حي علی الصلاة اور حي علی الفلاح» کے علاوہ ، ان پر «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہے کے الفاظ وارد ہیں جس سے معلوم ہوا کہ «حي علی الصلاة اور حي علی الفلاح» کے کلمات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ، ان دونوں کلموں کے جواب میں سننے والا «لاحول ولا قوۃ الا باللہ» کہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (720) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 208
موذن کا اذان پر اجرت لینا مکروہ ہے
عثمان (رض) کہتے ہیں کہ سب سے آخری وصیت رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ کی کہ مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عثمان (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے، انہوں نے مکروہ جانا ہے کہ مؤذن اذان پر اجرت لے اور مستحب قرار دیا ہے کہ مؤذن اذان اجر و ثواب کی نیت سے دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٤٠ (٥٣١) ، سنن النسائی/الأذان ٣٢ (٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٧١٤) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٦٣، وکذا ٩٧٧٠) ، مسند احمد (٤/٢١٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (714) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 209
جب موذن اذان دے تو سننے والا کیا دعا پڑھے
سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مؤذن کی اذان سن کر کہا : «وأنا أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا» اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہوں تو اس کے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اسے ہم صرف لیث بن سعد کی سند سے جانتے ہیں جسے وہ حکیم بن عبداللہ بن قیس سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦ (٥٢٥) ، سنن النسائی/الأذان ٣٨ (٦٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٣٨٧٧) ، مسند احمد (١/١٨١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (721) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 210
اسی سے متعلق
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اذان سن کر «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته إلا حلت له الشفاعة يوم القيامة» اے اللہ ! اس کامل دعوت ١ ؎ اور قائم ہونے والی صلاۃ کے رب ! (ہمارے نبی) محمد ( ﷺ) کو وسیلہ ٢ ؎ اور فضیلت ٣ ؎ عطا کر، اور انہیں مقام محمود ٤ ؎ میں پہنچا جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے کہا تو اس کے لیے قیامت کے روز شفاعت حلال ہوجائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : جابر (رض) کی حدیث محمد بن منکدر کے طریق سے حسن غریب ہے، ہم نہیں جانتے کہ شعیب بن ابی حمزہ کے علاوہ کسی اور نے بھی محمد بن منکدر سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨ (٦١٤) ، وتفسیر الإسراء ١ (٤٧١٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٨ (٥٢٩) ، سنن النسائی/الأذان ٣٨ (٦٨١) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ٣٠٤٦) ، مسند احمد (٣/٣٥٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس کامل دعوت سے مراد توحید کی دعوت ہے اس کے مکمل ہونے کی وجہ سے اسے «تامّہ» کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے۔ ٢ ؎ : «وسیلہ» جنت میں ایک مقام ہے۔ ٣ ؎ : «فضیلہ» اس مرتبہ کو کہتے ہیں جو ساری مخلوق سے برتر ہو۔ ٤ ؎ : «مقام محمود» یہ وہ مقام ہے جہاں رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی ان کلمات کے ساتھ حمد و ستائش کریں گے جو اس موقع پر آپ کو الہام کئے جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (722) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 211
اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں جاتی
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : انس کی حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥ (٥٢١) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٤) ، مسند احمد (٣/١١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (671) ، الإرواء (244) ، صحيح أبي داود (534) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 212
اللہ نے اپنے بندوں پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پر معراج کی رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر کم کی گئیں یہاں تک کہ (کم کرتے کرتے) پانچ کردی گئیں۔ پھر پکار کر کہا گیا : اے محمد ! میری بات اٹل ہے، تمہیں ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس کے برابر ملے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ٢- اس باب میں عبادہ بن صامت، طلحہ بن عبیداللہ، ابوذر، ابوقتادہ، مالک بن صعصہ اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٩٨٠) ، وانظر مسند احمد (٣/١٦١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : پہلے جو پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئی تھیں ، کم کر کے ان کو اگرچہ پانچ وقت کی کردیا گیا ہے مگر ثواب وہی پچاس وقت کا رکھا گیا ہے ، ویسے بھی اللہ کے یہاں ہر نیکی کا ثواب شروع سے دس گنا سے ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 213
پانچ نمازوں کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزانہ پانچ وقت کی نماز اور ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ بیچ کے گناہوں کا کفارہ ہیں، جب تک کہ کبیرہ گناہ سرزد نہ ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر، انس اور حنظلہ اسیدی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٥ (٢٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٩٨٠) ، مسند احمد (٢/٤١٤، ٤٨٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 214
جماعت کی فضیلت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باجماعت نماز تنہا نماز پر ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، ابوسعید، ابوہریرہ اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نافع نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صلاۃ باجماعت آدمی کی تنہا نماز پر ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہے۔ ٤- عام رواۃ نے (صحابہ) نبی اکرم ﷺ سے پچیس درجے نقل کیا ہے، صرف ابن عمر نے ستائیس درجے کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٠ (٦٤٥) ، و ٣١ (٦٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٥٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٢ (٨٣٨) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٦ (٧٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٨٠٥٥) ، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ١ (١) ، مسند احمد (٢/١٧، ٦٥، ١٠٢، ١١٢) ، سنن الدارمی/الصلاة (٥٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (789) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 215
None
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی باجماعت نماز اس کی تنہا نماز سے پچیس گنا بڑھ کر ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جو شخص اذان سنے اور اس کا جواب نہ دے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے ارادہ کیا کہ اپنے کچھ نوجوانوں کو میں لکڑی کے گٹھر اکٹھا کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں تو کھڑی کی جائے، پھر میں ان لوگوں (کے گھروں) کو آگ لگا دوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ابو الدرداء، ابن عباس، معاذ بن انس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ جو اذان سنے اور نماز میں نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، ٤- بعض اہل علم نے کہا ہے کہ یہ برسبیل تغلیظ ہے (لیکن) ، کسی کو بغیر عذر کے جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الأذان ٢٩ (٦٤٤) ، و ٣٤ (٦٥٧) ، والخصومات ٥ (٢٤٢) ، والأحکام ٥٢ (٧٢٢٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٥١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٤٧ (٥٤٨، ٥٤٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٩ (٨٤٩) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٧ (٧٩١) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٨١٩) ، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ١ (٣) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٣٧٦، ٤٨٩، ٥٣١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٤ (١٣١٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (791) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 217
جو شخص اذان سنے اور اس کا جواب نہ دے
مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو دن کو روزہ رکھتا ہو اور رات کو قیام کرتا ہو۔ اور جمعہ میں حاضر نہ ہوتا ہو، تو انہوں نے کہا : وہ جہنم میں ہوگا۔ مجاہد کہتے ہیں : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جماعت اور جمعہ میں ان سے بےرغبتی کرتے ہوئے، انہیں حقیر جانتے ہوئے اور ان میں سستی کرتے ہوئے حاضر نہ ہوتا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٤٢١) (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 218
وہ شخص جو اکیلا نماز پڑھ چکا ہو پھر جماعت پائے
یزید بن اسود عامری (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک رہا۔ میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں فجر پڑھی، جب آپ نے نماز پوری کرلی اور ہماری طرف مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے آخر میں (سب سے پیچھے) دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ نے فرمایا : انہیں میرے پاس لاؤ ، وہ لائے گئے، ان کے مونڈھے ڈر سے پھڑک رہے تھے۔ آپ نے پوچھا : تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم نے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لی تھی۔ آپ نے فرمایا : ایسا نہ کیا کرو، جب تم اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو پھر مسجد آؤ جس میں جماعت ہو رہی ہو تو لوگوں کے ساتھ بھی پڑھ لو ١ ؎ یہ تمہارے لیے نفل ہوجائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یزید بن اسود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں محجن دیلی اور یزید بن عامر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم میں سے کئی لوگوں کا یہی قول ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب آدمی تنہا نماز پڑھ چکا ہو پھر اسے جماعت مل جائے تو وہ جماعت کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لے۔ اور جب آدمی تنہا مغرب پڑھ چکا ہو پھر جماعت پائے تو وہ ان کے ساتھ نماز پڑھے اور ایک رکعت اور پڑھ کر اسے جفت بنا دے، اور جو نماز اس نے تنہا پڑھی ہے وہی ان کے نزدیک فرض ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٥٧ (٥٧٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٥٤ (تحفة الأشراف : ١١٨٢٢) ، مسند احمد (٤/١٦٠، ١٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٧ (١٤٠٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بعض لوگوں نے اسے ظہر ، اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہوجائے گی ، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ حکم عام ہے ساری نمازیں اس میں داخل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1152) ، صحيح أبي داود (590) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 219
اس مسجد میں دوسری جماعت جس میں ایک مرتبہ جماعت ہوچکی ہو
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد) آیا رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے فرمایا : تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا ؟ ١ ؎ ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابوامامہ، ابوموسیٰ اور حکم بن عمیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس مسجد میں لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے ہوں اس میں (دوسری) جماعت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٤- اور بعض دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ وہ تنہا تنہا نماز پڑھیں، یہی سفیان، ابن مبارک، مالک، شافعی کا قول ہے، یہ لوگ تنہا تنہا نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٥٦ (٥٧٤) ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٥٦) ، مسند احمد (٣/٦٤، ٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٨ (١٤٠٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک روایت میں ہے «ألا رجل يتصدق علی هذا فيصلي معه» کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے کے الفاظ آئے ہیں۔ ٢ ؎ : لیکن اس حدیث میں صراحۃً یہ بات موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جماعت سے نماز پسند فرمائی ، اس کے لیے جماعت سے نماز پڑھ چکے آدمی کو ترغیب دی کہ جا کر ساتھ پڑھ لے تاکہ پیچھے آنے والے کی نماز جماعت سے ہوجائے ، تو جب پیچھے رہ جانے والے ہی کئی ہوں تو کیوں نہ جماعت کر کے پڑھیں ، «فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ» (سورة الحشر : 2 ) فرض نماز کی طبیعت ہی اصلاً جماعت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1146) ، الإرواء (535) ، الروض النضير (979) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 220
عشاء اور فجر کی نماز با جماعت پڑھنے کی فضلیت
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عشاء کی جماعت میں حاضر رہے گا تو اسے آدھی رات کے قیام کا ثواب ملے گا اور جو عشاء اور فجر دونوں نمازیں جماعت سے ادا کرے گا، اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عثمان کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، انس، عمارہ بن رویبہ، جندب بن عبداللہ بن سفیان بجلی، ابی ابن کعب، ابوموسیٰ اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کے طریق سے عثمان (رض) سے موقوفاً روایت کی گئی ہے، اور کئی دوسری سندوں سے بھی یہ عثمان (رض) سے مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٦ (٦٥٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٤٨ (٥٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ٩٨٢٣) ، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ٢ (٧) ، مسند احمد (١/٥٨، ٦٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (564) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 221
عشاء اور فجر کی نماز با جماعت پڑھنے کی فضلیت
جندب بن سفیان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے فجر پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں ہے تو تم اللہ کی پناہ ہاتھ سے جانے نہ دو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٦ (٦٥٧) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٥٥) ، مسند احمد (٤/٣١٢، ٣١٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : بھرپور کوشش کرو کہ اللہ کی یہ پناہ حاصل کرلو ، یعنی فجر جماعت سے پڑھنے کی کوشش کرو تو اللہ کی یہ پناہ ہاتھ سے نہیں جائے گی ، ان شاء اللہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 141 و 163) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 222
عشاء اور فجر کی نماز با جماعت پڑھنے کی فضلیت
بریدہ اسلمی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور (بھرپور اجالے) کی بشارت دے دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٥٠ (٥٦١) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٤٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (779 - 781) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 223
پہلی صف کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی صف ہے ١ ؎ اور سب سے بری آخری صف اور عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری صف ٢ ؎ ہے اور سب سے بری پہلی صف ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر، ابن عباس، ابوسعید، ابی بن کعب، عائشہ، عرباض بن ساریہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ پہلی صف والوں کے لیے تین بار استغفار کرتے تھے اور دوسری کے لیے ایک بار۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٤٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٩٨ (٦٧٨) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٢ (٨٢١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٢ (١٠٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٧٠١) ، مسند احمد (٢/٢٤٧، ٣٣٦، ٣٤٠، ٣٦٦، ٤٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٢ (١٣٠٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پہلی صف سے مراد وہ صف ہے جو امام سے متصل ہو سب سے بہتر صف پہلی صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ دوسری صفوں کی بہ نسبت اس میں خیر و بھلائی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو صف امام سے قریب ہوتی ہے اس میں جو لوگ ہوتے ہیں وہ امام سے براہ راست فائدہ اٹھاتے ہیں ، تلاوت قرآن اور تکبیرات سنتے ہیں ، اور عورتوں سے دور رہنے کی وجہ سے نماز میں خلل انداز ہونے والے وسوسوں اور برے خیالات سے محفوظ رہتے ہیں ، اور آخری صف سب سے بری صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خیر و بھلائی دوسری صفوں کی بہ نسبت کم ہے ، یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو لوگ ہوں گے وہ برے ہوں گے۔ ٢ ؎ : عورتوں کی سب سے آخری صف اس لیے بہتر ہے کہ یہ مردوں سے دور ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس صف میں شریک عورتیں شیطان کے وسوسوں اور فتنوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ ٣ ؎ : یہ حکم اس صورت میں ہے جب مردوں ، عورتوں کی صفیں آگے پیچھے ہوں ، اگر عورتیں مردوں سے الگ نماز پڑھ رہی ہوں تو ان کی پہلی صف ہی بہتر ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1000 و 1001) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 224
پہلی صف کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ثواب ہے، اور وہ اسے قرعہ اندازی کے بغیر نہ پاسکتے تو اس کے لیے قرعہ اندازی کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩ (٦١٥) ، و ٣٢ (٦٥٤) ، و ٧٢ (٧٢١) ، والشہادات ٣٠ (٢٦٨٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٧) ، سنن النسائی/المراقبة ٢٢ (٥٤١) ، و ٣١ (٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥١ (٩٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٥٧٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٢) ، و صلاة الجماعة ٢ (٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٨، ٣٠٣، ٣٧٥، ٣٧٦، ٤٢٤، ٤٦٦، ٤٧٢، ٤٧٩، ٥٣١، ٥٣٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (998) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 225 نیز قتیبہ نے مالک سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 226
None
مالک سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔
صفوں کو سیدھا کرنا
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں سیدھی کرتے تھے۔ چناچہ ایک دن آپ نکلے تو دیکھا کہ ایک شخص کا سینہ لوگوں سے آگے نکلا ہوا ہے، آپ نے فرمایا : تم اپنی صفیں سیدھی رکھو ١ ؎ اور نہ اللہ تمہارے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- نعمان بن بشیر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر بن سمرہ، براء، جابر بن عبداللہ، انس، ابوہریرہ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : صفیں سیدھی کرنا نماز کی تکمیل ہے، ٤- عمر (رض) سے مروی ہے کہ وہ صفیں سیدھی کرنے کا کام کچھ لوگوں کے سپرد کردیتے تھے تو مؤذن اس وقت تک اقامت نہیں کہتا جب تک اسے یہ نہ بتادیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہوچکی ہیں، ٥- علی اور عثمان (رض) سے بھی مروی ہے کہ یہ دونوں بھی اس کی پابندی کرتے تھے اور کہتے تھے : «استو وا» صف میں سیدھے ہوجاؤ اور علی (رض) کہتے تھے : فلاں ! آگے بڑھو، فلاں ! پیچھے ہٹو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٧١ (٧١٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٩٤ (٦٦٢، ٦٦٥) ، سنن النسائی/الإقامة ٢٥ (٨١١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٠ (٩٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ١١٦٢٠) ، مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٢، ٢٧٦، ٢٧٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صفیں سیدھی رکھو کا مطلب یہ ہے صف میں ایک مصلی کا کندھا دوسرے مصلی کے کندھے سے اور اس کا پیر دوسرے کے پیر سے ملا ہونا چاہیئے۔ ٢ ؎ : لفظی ترجمہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا کر دے گا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا ، تمہاری وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی اور تمہاری شان و شوکت ختم ہوجائے گی ، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے چہروں کو گُدّی کی طرف پھیر کر انہیں بگاڑ دے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (994) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 227
نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے عقلمند اور ہو شیار میرے قریب رہا کریں
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو صاحب فہم و ذکا اور سمجھدار ہوں ان کو مجھ سے قریب رہنا چاہیئے، پھر وہ جو (عقل و دانش میں) ان کے قریب ہوں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں، تم آگے پیچھے نہ ہونا کہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑجائے گی، اور اپنے آپ کو بازار کے شور و غوغا سے بچائے رکھنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں ابی بن کعب، ابومسعود، ابوسعید، براء، اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ اس بات سے خوش ہوتے کہ مہاجرین اور انصار آپس میں قریب قریب رہیں تاکہ وہ آپ سے (سیکھے ہوئے مسائل) محفوظ رکھ سکیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٩٦ (٦٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤١٥) ، مسند احمد (١/٤٥٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥١ (١٣٠٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (679) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 228
ستونوں کے درمیان صف بنانا مکروہ ہے
عبدالحمید بن محمود کہتے ہیں کہ ہم نے امراء میں سے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی، لوگوں نے ہمیں دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے پر مجبور کردیا ١ ؎ جب ہم نماز پڑھ چکے تو انس بن مالک (رض) نے کہا : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس سے بچتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں قرۃ بن ایاس مزنی (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- علماء میں سے کچھ لوگوں نے ستونوں کے درمیان صف لگانے کو مکروہ جانا ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، اور علماء کچھ نے اس کی اجازت دی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٩٥ (٦٧٣) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٣ (٨٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٨٠) ، مسند احمد (٣/١٣١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اتنی بھیڑ ہوگئی کہ مسجد میں جگہ نہیں رہ گئی مجبوراً ہمیں دونوں ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا پڑا۔ ٢ ؎ : اگر مجبوری ہو تب ستونوں کے درمیان صف لگائی جائے ، ورنہ عام حالات میں اس سے پرہیز کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1002) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 229
صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا، (ہم لوگ رقہ میں تھے) پھر انہوں نے مجھے لے جا کر بنی اسد کے وابصہ بن معبد نامی ایک شیخ کے پاس کھڑا کیا اور کہا : مجھ سے اس شیخ نے بیان کیا اور شیخ ان کی بات سن رہے تھے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- وابصہ بن معبد (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں علی بن شیبان اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ آدمی صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے اور کہا ہے کہ اگر اس نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی ہے تو وہ نماز دہرائے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، ٤- اہل علم میں سے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے کافی ہوگا جب وہ صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے، سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ٥- اہل کوفہ میں سے کچھ لوگ وابصہ بن معبد کی حدیث کی طرف گئے ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جو صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے، وہ اسے دہرائے۔ انہیں میں سے حماد بن ابی سلیمان، ابن ابی لیلیٰ اور وکیع ہیں، ٦- مولف نے اس حدیث کے طرق کے ذکر کے بعد فرمایا کہ عمرو بن مرہ کی حدیث جسے انہوں نے بطریق «هلال بن يساف، عن عمرو بن راشد، عن وابصة» روایت کی ہے، زیادہ صحیح ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ حصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق «هلال بن يساف، عن زياد بن أبي الجعد عن وابصة» روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔ اور میرے نزدیک یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ یہ ہلال بن یساف کے علاوہ طریق سے بھی زیاد بن ابی الجعد کے واسطے سے وابصہ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٠٠ (٦٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٤ (١٠٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١٧٣٨) ، مسند احمد (٤/٢٢٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦١ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صف کے پیچھے اگر کوئی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کی نماز درست ہے یا نہیں ، اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے : امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز درست نہیں ، ان کی دلیل یہی روایت ہے نیز علی بن شیبان اور ابن عباس (رض) کی احادیث بھی ہیں جو اس معنی میں بالکل واضح ہیں ، اس لیے ان کی خواہ مخواہ تاویل کی ضرورت نہیں ، ( جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کا یہ فرمان بطور تنبیہ تھا ) بنابریں جماعت کی مصلحت کی خاطر بعد میں آنے والے کے لیے بالکل جائز ہے کہ اگلی صف سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے ، اس معنی میں کچھ روایات بھی وارد ہیں گرچہ وہ ضعیف ہیں ، لیکن ان تینوں صحیح احادیث سے ان کے معنی کی تائید ہوجاتی ہے۔ ہاں ! بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ اگر صف میں جگہ نہ ہو تب اکیلے پڑھنے سے کوئی حرج نہیں ، اس حدیث میں وعید اس اکیلے مصلی کے لیے ہے جس نے صف میں جگہ ہوتے ہوئے بھی پیچھے اکیلے پڑھی ہو ، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1004) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 230
صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا
اس سند سے بھی وابصہ بن معبد (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے نماز دہرانے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : وکیع کہتے ہیں کہ جب آدمی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھے تو وہ نماز کو دہرائے (اس کی نماز نہیں ہوئی) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الذی قبله (230) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 231
وہ شخص جس کے ساتھ نماز پڑھنے والا ایک ہی آدمی ہو
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، میں جا کر آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے پیچھے سے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنے دائیں طرف کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد والے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب ایک آدمی امام کے ساتھ ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤١ (١١٧) ، والوضوء ٥ (١٣٨) ، والأذان ٥٧ (٦٩٧) ، و (٦٩٨) ، ٥٩ (٦٩٩) ، و ٧٧ (٧٢٦) ، و ٧٩ (٧٢٨) ، و ١٦١ (٨٥٩) ، والوتر ١ (٩٩٢) ، والعمل فی الصلاة ١ (١١٩٨) ، وتفسیر آل عمران ١٩ (٤٥٧١) ، و ٢٠ (٤٥٧٢) ، واللباس ٧١ (٥٩١٩) ، والدعوات ١٠ (٦٣١٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٧٠ (٦١٠) ، و ٣١٦ (١٣٦٤) ، سنن النسائی/الغسل ٢٩ (٤٤٣) ، الإمامة ٢٢ (٨٠٧) ، وقیام اللیل ٩ (١٦٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٦٣٥٦) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٥٢، ٢٨٥، ٢٨٧، ٣٤١، ٣٤٧، ٣٥٤، ٣٥٧، ٣٦٠، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٣ (١٢٩٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1237) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 232
وہ شخص جس کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے دو آدمی ہوں
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم تین ہوں تو ہم میں سے ایک آگے بڑھ جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سمرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود، جابر اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ جب تین آدمی ہوں تو دو آدمی امام کے پیچھے کھڑے ہوں، ابن مسعود (رض) نے علقمہ اور اسود کو نماز پڑھائی تو ان دونوں میں سے ایک کو اپنے دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف کھڑا کیا اور ابن مسعود (رض) اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا، ٤- بعض لوگوں نے اسماعیل بن مسلم مکی پر ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٥٧٥) (ضیعف الإسناد) (سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہیں، مگر اصل حدیث شواہد سے ثابت ہے) وضاحت : ١ ؎ : سند کے لحاظ سے اگرچہ یہ حدیث ضعیف الاسناد ہے مگر سارے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر دو آدمی ہوں اور جگہ میں گنجائش ہو تو دونوں مقتدی پیچھے کھڑے ہوں گے اور ایک جو امام ہوگا وہ آگے کھڑا ہوگا ، رہا ابن مسعود (رض) کا دونوں کو اپنے دائیں بائیں ساتھ میں کھڑا کرلینے کا معاملہ تو ہوسکتا ہے کہ وہاں جگہ ایسی نہ ہو ، ویسے اسی واقعہ میں ہے کہ انہوں نے رکوع میں تطبیق کی اور دونوں سے کرائی۔ تطبیق کا مطلب ہوتا ہے : رکوع یا تشہد میں مصلی کا اپنے دونوں ہاتھوں یا ہتھیلیوں کو رانوں یا گھٹنوں کے درمیان رکھنا ، اور یہ منسوخ و ممنوع ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 233
وہ شخص جو مردو اور عورتوں کی امامت کرے
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ (رض) نے کھانا پکایا اور اس کو کھانے کے لیے رسول اللہ ﷺ کو مدعو کیا، آپ نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا : اٹھو چلو ہم تمہیں نماز پڑھائیں ، انس کہتے ہیں ـ: تو میں اٹھکراپنیایکچٹائی کے پاسآیاجوزیادہاستعمالکیوجہ سے کالیہوگئی تھی، میں نے اسے پانی سے دھویا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم اسپرکھڑے ہوئے، میں نے اور یتیمنے آپکے پیچھے اسپرصفلگائی اوردادی ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں، تو آپ نے ہمیں دو رکعات پڑھائیں، پھر آپ ﷺ ہماری طرف پلٹے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب امام کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت ہو تو مرد امام کے دائیں طرف کھڑا ہو اور عورت ان دونوں کے پیچھے۔ ٣- بعض لوگوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ جب آدمی صف کے پیچھے تنہا ہو تو اس کی نماز جائز ہے، وہ کہتے ہیں کہ بچے پر نماز تو تھی ہی نہیں گویا عملاً انس (رض) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تنہا ہی تھے، لیکن ان کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے انس کو اپنے پیچھے یتیم کے ساتھ کھڑا کیا تھا، اور اگر نبی اکرم ﷺ یتیم کی نماز کو نماز نہ مانتے تو یتیم کو ان کے ساتھ کھڑا نہ کرتے بلکہ انس کو اپنے دائیں طرف کھڑا کرتے، انس (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے انہیں اپنی دائیں طرف کھڑا کیا، اس حدیث میں دلیل ہے کہ آپ نے نفل نماز پڑھی تھی اور انہیں برکت پہنچانے کا ارادہ کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٠ (٣٨٠) ، والأذان ٧٨ (٧٢٧) ، و ١٦١ (٨٦٠) ، و ١٦٤ (٨٧١) ، و ١٦٧ (٨٧٤) ، صحیح مسلم/المساجد (٦٥٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٧١ (٦١٢) ، سنن النسائی/المساجد ٤٣ (٧٣٨) ، والإمامة ١٩ (٨٠٢) ، و ٦٢ (٨٧٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٧) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٩ (٣١) ، مسند احمد (٣/١٣١، ١٤٥، ١٤٩، ١٦٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦١ (١٣٢٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 234
امامت کا کون زیادہ حقدار ہے
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو، اگر لوگ قرآن کے علم میں برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ سنت کا جاننے والا ہو وہ امامت کرے، اور اگر وہ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ کسی آدمی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابومسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوسعید، انس بن مالک، مالک بن حویرث اور عمرو بن سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا کہنا ہے کہ لوگوں میں امامت کا حقدار وہ ہے جو اللہ کی کتاب (قرآن) اور سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ گھر کا مالک خود امامت کا زیادہ مستحق ہے، اور بعض نے کہا ہے : جب گھر کا مالک کسی دوسرے کو اجازت دیدے تو اس کے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بعض لوگوں نے اسے بھی مکروہ جانا ہے، وہ کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ گھر کا مالک خود پڑھائے ١ ؎، ٤- احمد بن حنبل نبی اکرم ﷺ کے فرمان : آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ اس کے گھر میں اس کی مخصوص نشست پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب وہ اجازت دیدے تو میں امید رکھتا ہوں کہ یہ اجازت مسند پر بیٹھنے اور امامت کرنے دونوں سے متعلق ہوگی، انہوں نے اس کے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں جانا کہ جب وہ اجازت دیدے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٦١ (٥٨٢) ، سنن النسائی/الإمامة ٣ (٧٨١) ، و ٦ (٧٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٦ (٩٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٧٦) ، مسند احمد (٤/١١٨، ١٢١، ١٢٢) ، ویأتي في الأدب ٢٤ (برقم : ٢٧٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کی دلیل مالک بن حویرث (رض) کی روایت «من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم» ہے «إلا بإذنه» کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق صرف «لايجلس علی تکرمته» سے ہے «لايؤم الرجل في سلطانه» سے نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (980) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 235
اس اگر کوئی امامت کرے تو قرأت میں تخفیف کرے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے تو چاہیئے کہ ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ ان میں چھوٹے، بڑے، کمزور اور بیمار سبھی ہوتے ہیں اور جب وہ تنہا نماز پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عدی بن حاتم، انس، جابر بن سمرہ، مالک بن عبداللہ، ابو واقد، عثمان، ابومسعود، جابر بن عبداللہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- یہی اکثر اہل علم کا قول ہے، ان لوگوں نے اسی کو پسند کیا کہ امام نماز لمبی نہ پڑھائے تاکہ کمزور، بوڑھے اور بیمار لوگوں کو پریشانی نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٢ (٧٠٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٢٧ (٧٩٤) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٥ (٨٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٨٨٤) ، مسند احمد (٢/٢٥٦، ٢٧١، ٣١٧، ٣٩٣، ٤٨٦، ٥٠٢، ٥٣٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہلکی نماز پڑھائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں اطمینان و سکون اور خشوع و خضوع اور اعتدال نہ ہو ، تعدیل ارکان فرض ہے ، نیز اگلی حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہلکی نماز پڑھاتے تھے تب بھی کامل نماز پڑھاتے حتیٰ کہ مغرب میں بھی سورة الطور یا سورة المرسلات پڑھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (759) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 236
اس اگر کوئی امامت کرے تو قرأت میں تخفیف کرے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ ہلکی اور سب زیادہ مکمل نماز پڑھنے والے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٥ (٨٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٣٢) ، مسند احمد (٣/١٧٠، ١٧٣، ١٧٩، ٢٣١، ٢٣٤، ٢٧٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٦ (١٢٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سب سے ہلکی نماز ہوتی تھی سے مراد یہ ہے کہ آپ لمبی قرأت نہیں کرتے تھے ، اسی طرح لمبی دعاؤں سے بھی بچتے تھے ، اور سب سے زیادہ مکمل نماز کا مطلب یہ ہے کہ آپ نماز کے جملہ ارکان و سنن اور مستحبات کو بحسن خوبی اطمینان سے ادا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 237
نماز کی تحریم وتحلیل
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز کی کنجی وضو (طہارت) ہے، اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے، اور اس آدمی کی نماز ہی نہیں جو «الحمدللہ» (سورۃ فاتحہ) اور اس کے ساتھ کوئی اور سورة نہ پڑھے خواہ فرض نماز ہو یا کوئی اور نماز ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں علی اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٣- علی بن ابی طالب (رض) کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور ابو سعید خدری کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ہم اسے کتاب الوضو کے شروع میں ذکر کرچکے ہیں (حدیث نمبر : ٣) ، ٤- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ نماز کی تحریم تکبیر ہے، آدمی نماز میں تکبیر کے (یعنی اللہ اکبر کہے) بغیر داخل نہیں ہوسکتا، ٥- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں : اگر آدمی اللہ کے ناموں میں سے ستر نام لے کر نماز شروع کرے اور اللہ اکبر نہ کہے تو بھی یہ اسے کافی نہ ہوگا۔ اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے اسے حدث لاحق ہوجائے تو میں اسے حکم دیتا ہوں کہ وضو کرے پھر اپنی (نماز کی) جگہ آ کر بیٹھے اور سلام پھیرے، اور حکم (رسول) اپنے حال (ظاہر) پر (باقی) رہے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣ (٢٧٦) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٥٧) ، مسند احمد ( ٣/٣٤٠) (صحیح) (سند میں سفیان بن وکیع ساقط الحدیث ہیں، اور طریف بن شہاب ابوسفیان سعدی “ ضعیف، لیکن علی (رض) کی حدیث (رقم : ٣) سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی : آپ ﷺ نے جو «تحليها التسليم» فرمایا ہے۔ اس کی تاویل کسی اور معنی میں نہیں کی جائیگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (275 و 276) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 238
تکبیر کے وقت انگلیوں کا کھلا رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے تو اپنی انگلیاں کھلی رکھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن ہے، ٢- دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق «ابن أبي ذئب عن سعيد بن سمعان عن أبي هريرة» روایت کی ہے (ان کے الفاظ ہیں) کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز میں داخل ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح اٹھاتے تھے۔ یہ روایت یحییٰ بن یمان کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، یحییٰ بن یمان کی روایت غلط ہے ان سے اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے، (اس کی وضاحت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٠٨٢) (ضعیف) (سند میں ” یحییٰ بن الیمان “ اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، اس لیے انہیں وہم زیادہ ہوتا تھا، اس لیے انہوں نے ” رفع يديه مداً “ (اگلی روایت کے الفاظ) کی بجائے ” نشر أصابعه “ کہہ دیا) قال الشيخ الألباني : ضعيف صفة الصلاة / الأصل، التعليق علی ابن خزيمة (458) // ضعيف الجامع الصغير وزيادته الغتح الکبير، الطبعة المرتبة برقم (4447) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 239
تکبیر کے وقت انگلیوں کا کھلا رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح اٹھاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی) کا کہنا ہے کہ یہ یحییٰ بن یمان کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور یحییٰ بن یمان کی حدیث غلط ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١١٩ (٧٥٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦ (٨٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٠٨١) ، مسند احمد (٢/٣٧٥، ٤٣٤، ٥٠٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٢ (١٢٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد ( ابوحاتم رازی ) کہتے ہیں کہ یحییٰ کو اس میں وہم ہوا ہے ، وہ «إذا قام إلى الصلاة رفع إليه مداً» کہنا چاہ رہے تھے لیکن ان سے چوک ہوگئی انہوں نے غلطی سے «إذا کبّر للصلاة نشر أصابعه» کی روایت کردی ، ابن ابی ذئب کے تلامذہ میں سے ثقات نے «إذا قام إلى الصلاة مدّاً» ہی کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة (67) ، التعليق علی ابن خزيمة (459) ، صحيح أبي داود (735) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 240
تکبیر کی فضلیت کے بارے میں
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی رضا کے لیے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی تو اس کے لیے دو قسم کی برات لکھی جائے گی : ایک آگ سے برات، دوسری نفاق سے برات ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : انس سے یہ حدیث موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ ابوقتیبہ سلمہ بن قتیبہ کے سوا کسی نے اسے مرفوع روایت کیا ہو یہ حدیث حبیب بن ابی حبیب بجلی سے بھی روایت کی جاتی ہے انہوں نے اسے انس بن مالک سے روایت کیا ہے اور اسے انس ہی کا قول قرار دیا ہے، اسے مرفوع نہیں کیا، نیز اسماعیل بن عیاش نے یہ حدیث بطریق «عمارة بن غزية عن أنس بن مالک عن عمر بن الخطاب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، اور یہ حدیث غیر محفوظ اور مرسل ١ ؎ ہے، عمارہ بن غزیہ نے انس بن مالک کا زمانہ نہیں پایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٢١) (حسن) (الصحیحة ٢٥٦٢، و ١٩٧٩، وتراجع الألبانی ٤٥٠) وضاحت : ١ ؎ : مرسل یہاں منقطع کے معنی میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (1 / 151) ، الصحيحة (2652) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 241
نماز شروع کرتے وقت کیا پڑھے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «اللہ اکبر» کہتے، پھر «سبحانک اللهم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالی جدک ولا إله غيرك» اے اللہ ! پاک ہے تو ہر عیب اور ہر نقص سے، سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، بابرکت ہے تیرا نام اور بلند ہے تیری شان، اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پڑھتے پھر «الله أكبر کبيرا» اللہ بہت بڑا ہے کہتے پھر «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» میں اللہ سمیع و علیم کی شیطان مردود سے، پناہ چاہتا ہوں، اس کے وسوسوں سے، اس کے کبر و نخوت سے اور اس کے اشعار اور جادو سے کہتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی، عائشہ، عبداللہ بن مسعود، جابر، جبیر بن مطعم اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- اس باب میں ابوسعید کی حدیث سب سے زیادہ مشہور ہے، ٣- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کو اختیار کیا ہے، رہے اکثر اہل علم تو ان لوگوں نے وہی کہا ہے جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ «سبحانک اللهم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالی جدک ولا إله غيرك» کہتے تھے ٢ ؎ اور اسی طرح عمر بن خطاب اور عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے۔ تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ٤- ابوسعید (رض) کی حدیث کی سند میں کلام کیا گیا ہے۔ یحییٰ بن سعید راوی حدیث علی بن علی رفاعی کے بارے میں کلام کرتے تھے۔ اور احمد کہتے تھے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٢٢ (٧٧٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٨ (٩٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١ (٨٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٥٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٥) (صحیح) (یہ اور عائشہ (رض) کی اگلی حدیث دونوں کی سندوں میں کچھ کلام ہے اس لیے یہ دونوں حدیثیں متابعات وشواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہیں) وضاحت : ١ ؎ : دعا استفتاح کے سلسلہ میں سب سے زیادہ صحیح ابوہریرہ (رض) کی روایت «اللهم باعد بيني وبين خطاي» الخ ہے کیونکہ اس کی تخریج بخاری اور مسلم دونوں نے کی ہے ، پھر اس کے بعد علی (رض) کی روایت «إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض» الخ ہے اس لیے کہ اس کی تخریج مسلم نے کی ہے ، بعض لوگوں نے اس روایت کے سلسلہ میں یہ کہا ہے کہ امام مسلم نے اس کی تخریج صلاۃ اللیل میں کی جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ دعا نماز تہجد کے لیے مخصوص ہے اور فرض نماز میں یہ مشروع نہیں ، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مسلم میں صلاۃ اللیل میں دو طریق سے منقول ہے لیکن کسی میں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ یہ دعا آپ صرف تہجد میں پڑھتے تھے ، اور امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں تین طرق سے اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن کسی میں بھی نہیں ہے کہ آپ تہجد میں اسے پڑھتے تھے ، اس کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے تھے ، ابوداؤد نے بھی اپنی سنن میں کتاب الصلاۃ میں اسے دو طریق سے نقل کیا ہے ، ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ تہجد میں پڑھتے تھے ، بلکہ اس کے برعکس ایک میں یہ ہے کہ آپ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس وقت یہ دعا پڑھتے ، اسی طرح دارقطنی کی ایک روایت میں ہے کہ جب فرض نماز شروع کرتے تو «إني وجهت وجهي » پڑھتے ، ان احادیث کی روشنی میں یہ قول کہ یہ نفلی نماز کے ساتھ مخصوص ہے صحیح نہیں ہے۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں ابو سعید خدری (رض) والی مذکور دعا اور عمر بن الخطاب وابن مسعود (رض) والی دعا میں فرق یہ ہے کہ ابوسعید والی میں ذرا اضافہ ہے جیسے «الله أكبر کبيراً» اور «أعوذ بالله…من همزه ونفخه» جبکہ عمر (رض) والی میں یہ اضافہ نہیں ہے اور سند اور تعامل کے لحاظ سے یہی زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (804) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 242
نماز شروع کرتے وقت کیا پڑھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو «سبحانک اللهم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالی جدک ولا إله غيرك» کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- حارثہ کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٢٢ (٧٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١ (٨٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٨٥) ، وکذا : ١٦٠٤١) (صحیح) (حارثہ بن ابی الرجال ضعیف ہیں، جیسا کہ خود مؤلف نے کلام کیا ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (806) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 243
بسم اللہ کو زور سے نہ پڑھنا
عبداللہ بن مغفل (رض) کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے نماز میں «بسم اللہ الرحمن الرحیم» کہتے سنا تو انہوں نے مجھ سے کہا : بیٹے ! یہ بدعت ہے، اور بدعت سے بچو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ اسلام میں بدعت کا مخالف ہو، میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ، ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان (رض) کے ساتھ نماز پڑھی ہے لیکن میں نے ان میں سے کسی کو اسے (اونچی آواز سے) کہتے نہیں سنا، تو تم بھی اسے نہ کہو ١ ؎، جب تم نماز پڑھو تو قرأت «الحمد لله رب العالمين» سے شروع کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مغفل (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- صحابہ جن میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی (رض) وغیرہ شامل ہیں اور ان کے بعد کے تابعین میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، یہ لوگ «بسم اللہ الرحمن الرحیم» زور سے کہنے کو درست نہیں سمجھتے (بلکہ) ان کا کہنا ہے کہ آدمی اسے اپنے دل میں کہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإفتتاح ٢٢ (٩٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤ (٨١٥) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٦٧) ، مسند احمد (٤/٥٨) ، و (٥/٥٤، ٥٥) (ضعیف) (بعض ائمہ نے ” ابن عبداللہ بن مغفل “ کو مجہول قرار دے کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ حافظ مزی نے ان کا نام ” یزید “ بتایا ہے، اور حافظ ابن حجر نے ان کو ” صدوق “ قرار دیا ہے) وضاحت : ١ ؎ : تم بھی اسے نہ کہو سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے سرے سے «بسم اللہ» پڑھنے ہی سے منع کیا ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے جہر ( بلند آواز ) سے پڑھنے سے روکنے پر محمول کیا جائے ، اس لیے کہ اس سے پہلے جو یہ جملہ ہے کہ ان میں سے کسی کو میں نے اسے کہتے نہیں سنا ، اس جملے کا تعلق بلند آواز سے ہے کیونکہ وہی چیز سنی جاتی ہے جو جہر ( زور ) سے کہی جائے ، مصنف کا ترجمۃ الباب میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ ٢ ؎ : «بسم اللہ» کے زور سے پڑھنے کے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں ، ان میں سب سے عمدہ روایت نعیم المحجر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «صليت وراء أبي هريرة فقرأ بسم اللہ الرحمن الرحيم ثم قرأ بأم القرآن حتی إذا بلغ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال آمين وقال الناس آمين» الحدیث ، اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس روایت کو نعیم المحجر کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے لیکن اس میں «بسم اللہ» کا ذکر نہیں ہے ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ نعیم المحجر ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اس لیے اس سے جہر پر دلیل پکڑی جاسکتی ہے ، خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرّاً اور جہراً دونوں طرح سے جائز ہے لیکن اکثر اور زیادہ تر صحیح احادیث آہستہ ہی پڑھنے کی آئی ہیں ( دیکھئیے حدیث رقم : ٢٤٦) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (815) // ضعيف سنن ابن ماجة (174) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 244
بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی نماز «بسم اللہ الرحمن الرحيم» سے شروع کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس کی سند قوی نہیں ہے، ٢- صحابہ کرام میں سے جن میں ابوہریرہ، ابن عمر، ابن عباس اور ابن زبیر (رض) شامل ہیں اور ان کے بعد تابعین میں سے کئی اہل علم «بسم اللہ الرحمن الرحيم» زور سے کہنے کے قائل ہیں، اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٥٣٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو خالد الوالبی لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 245
الحمد للہ رب العالمین سے قرأت شروع کی جائے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) «الحمد لله رب العالمين» سے قرأت شروع کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ «الحمد لله رب العالمين» سے قرأت شروع کرتے تھے۔ شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) «الحمد لله رب العالمين» سے قرأت شروع کرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ سورت سے پہلے سورة فاتحہ پڑھتے تھے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ «بسم اللہ الرحمن الرحيم» نہیں پڑھتے تھے، شافعی کی رائے ہے کہ قرأت «بسم اللہ الرحمن الرحيم» سے شروع کی جائے اور اسے بلند آواز سے پڑھا جائے جب قرأت جہر سے کی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٩ (٧٤٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٣ (٣٩٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٢٤ (٧٨٢) ، سنن النسائی/الإفتتاح ٢٠ (٩٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤ (٨١٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٣٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ٦ (٣٠) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١١١، ١١٤، ١٨٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٤ (١٢٧٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جو لوگ «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کے جہر کے قائل نہیں ہیں وہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر ، عمر اور عثمان (رض) سبھی قرأت «الحمد لله رب العالمين» سے شروع کرتے تھے ، اور جہر کے قائلین اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں «الحمد لله رب العالمين» سے مراد سورة فاتحہ ہے نہ کہ خاص یہ الفاظ ، حدیث کا مطلب ہے کہ یہ لوگ قرأت کی ابتداء سورة فاتحہ سے کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (813) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 246
سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہو تی
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کی نماز نہیں جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، انس، ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم جن میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، جابر بن عبداللہ اور عمران بن حصین وغیرہم (رض) شامل ہیں کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورة فاتحہ پڑھے بغیر نماز کفایت نہیں کرتی، علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں : جس نماز میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ ناقص اور ناتمام ہے۔ یہی ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٥ (٧٥٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٣٦ (٨٢٢) ، (بزیادة ” فصاعدا “ ) ، سنن النسائی/الإفتتاح ٢٤ (٩١١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١ (٨٣٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥١١٠) ، مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٦ (١٢٧٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے ، فرض ہو یا نفل ہو ، خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے ہو امام ہو یا مقتدی ، ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی ، اس لیے کہ «لا» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے ، یہ صفات کی نفی کے معنی میں اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ ازروئے شرع نماز مخصوص اقوال اور افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے ، لہٰذا بعض یا کل کی نفی سے اس کی نفی ہوجائے گی اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہوسکتی تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو اور وہ صحت ہے نہ کہ کمال اس لیے کہ صحت اور کمال دونوں مجاز میں سے ہیں ، صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے ، نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلہ میں ذات سے ابعد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (837) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 247
None
میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پڑھ کر، آمین کہتے سنا، اور اس کے ساتھ آپ نے اپنی آواز کھینچی ( یعنی بلند کی ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وائل بن حجر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں علی اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی آمین کہنے میں اپنی آواز بلند کرے اسے پست نہ رکھے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ ( شاذ ) ۴- شعبہ نے یہ حدیث بطریق «سلمة بن كهيل، عن حُجر أبي العنبس، عن علقمة بن وائل، عن أبيه وائل» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پڑھا تو آپ نے آمین کہی اور اپنی آواز پست کی، ۵- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ شعبہ نے اس حدیث میں کئی مقامات پر غلطیاں کی ہیں ۱؎ انہوں نے حجر ابی عنبس کہا ہے، جب کہ وہ حجر بن عنبس ہیں اور ان کی کنیت ابوالسکن ہے اور اس میں انہوں نے «عن علقمة بن وائل» کا واسطہ بڑھا دیا ہے جب کہ اس میں علقمہ کا واسطہ نہیں ہے، حجر بن عنبس براہ راست حجر سے روایت کر رہے ہیں، اور «وخفض بها صوته» ( آواز پست کی ) کہا ہے، جب کہ یہ «ومدّ بها صوته» ( اپنی آواز کھینچی ) ہے، ۶- میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ اور علاء بن صالح اسدی نے بھی سلمہ بن کہیل سے سفیان ہی کی حدیث کی طرح روایت کی ہے ۲؎۔
None
وائل حجر رضی الله عنہ سے سفیان کی ( پچھلی ) روایت جیسی روایت ہے۔
آمین کی فضلیت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم لوگ بھی آمین کہو۔ اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١١ (٧٨٠) ، و ١١٣ (٧٨٢) ، وتفسیر (٤٤٧٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٨ (٤١٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٢ (٩٣٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٣ (٩٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤ (٨٥١) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٢٣٠، ١٥٢٤٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (٤٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٨، ٤٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٨ (١٢٨١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (851) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 250
نماز میں دو مرتبہ خاموشی اختیار کرنا
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ (نماز میں) دو سکتے ہیں جنہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے یاد کیا ہے، اس پر عمران بن حصین (رض) نے اس کا انکار کیا اور کہا : ہمیں تو ایک ہی سکتہ یاد ہے۔ چناچہ (سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں) ہم نے مدینے میں ابی بن کعب (رض) کو لکھا، تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ نے (ٹھیک) یاد رکھا ہے۔ سعید بن ابی عروبہ کہتے ہیں : تو ہم نے قتادہ سے پوچھا : یہ دو سکتے کون کون سے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جب نماز میں داخل ہوتے (پہلا اس وقت) اور جب آپ قرأت سے فارغ ہوتے، پھر اس کے بعد کہا اور جب «ولا الضالين» کہتے ١ ؎ اور آپ کو یہ بات اچھی لگتی تھی کہ جب آپ قرأت سے فارغ ہوں تو تھوڑی دیر چپ رہیں یہاں تک کہ سانس ٹھہر جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سمرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ وہ امام کے لیے نماز شروع کرنے کے بعد اور قرأت سے فارغ ہونے کے بعد (تھوڑی دیر) چپ رہنے کو مستحب جانتے ہیں۔ اور یہی احمد، اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٢٣ (٧٧٧، ٧٧٨، ٧٧٩، ٧٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢ (٨٤٤، ٨٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٨٩) ، وکذا (٤٥٧٦، و ٤٦٠٩) ، مسند احمد (٥/٢١) (ضعیف) (حسن بصری کے سمرہ سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع میں اختلاف ہے، نیز ” حسن “ ” مدلس “ ہیں، اور یہاں پر نہ تو ” سماع “ کی صراحت ہے، نہ ہی تحدیث کی، اس پر مستزاد یہ کہ ” قتادہ “ بھی مدلس ہیں، اور ” عنعنہ “ سے روایت ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : پہلے تو قتادہ نے دوسرے سکتے کے بارے میں یہ کہا کہ وہ پوری قراءت سے فراغت کے بعد ہے ، اور بعد میں کہا کہ وہ «ولا الضالين» کے بعد اور سورة کی قراءت سے پہلے ہے ، یہ قتادہ کا اضطراب ہے ، اس کی وجہ سے بھی یہ روایت ضعیف مانی جاتی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ دوسرا سکتہ پوری قراءت سے فراغت کے بعد اور رکوع سے پہلے اس روایت کی تائید کئی طرق سے ہوتی ہے ، ( دیکھئیے ضعیف ابی داود رقم ١٣٥-١٣٨) امام شوکانی نے : «حصل من مجموع الروايات ثلاث سکتات» کہہ کر تین سکتے بیان کیے ہیں اور تیسرے کے متعلق کہ جو سورة الفاتحہ ، اس کے بعد والی قرأت اور رکوع سے پہلے ہوگا - «وهي أخف من الأولی والثانية۔» یہ تیسرا سکتہ افتتاح صلاۃ کے فوراً بعد سورة الفاتحہ سے قبل والے پہلے سکتہ اور «ولا الضالين» کے بعد اگلی قرأت سے قبل والے دوسرے سکتہ سے بہت ہلکا ہوگا ، یعنی مام کی سانس درست ہونے کے لیے بس ( دیکھئیے : تحفۃ الأحوذی ١/٢١٣ طبع المکتبۃ الفاروقیۃ ، ملتان ، پاکستان ) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (844 و 845) // ضعيف سنن ابن ماجة (180 و 181) ، ضعيف أبي داود (163 /777) ، الإرواء (505) ، المشکاة (818) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 251
نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جائے
ہلب طائی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ہلب (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں وائل بن حجر، غطیف بن حارث، ابن عباس، ابن مسعود اور سہیل بن سعد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ١ ؎، اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة (٨٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٧٣٥) ، مسند احمد (٥/٢٢٦، ٢٢٧) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس کے برعکس امام مالک سے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے وہ شاذ ہے صحیح نہیں ، مؤطا امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے شوافع ، احناف اور حنابلہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے ، اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہاں جائیں سینے پر یا زیر ناف ؟ تو بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل ہیں مگر زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے ، بعض لوگ سینے پر باندھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل وائل بن حجر (رض) کی روایت «صلیت مع النبی ﷺ فوضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی صدرہ» ہے ، اس روایت کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کی ہے اور یہ ابن خزیمہ کی شرط کے مطابق ہے اور اس کی تائید ہلب الطائی کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «رأیت رسول اللہ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل» (یزید بن قنافہ ہلب الطائی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ( سلام پھیرتے وقت ) دیکھا کہ آپ ( پہلے ) دائیں جانب مڑتے اور پھر بائیں جانب ، اور میں نے آپ ﷺ کو یوں بھی دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے ، امام احمد بن حنبل کے استاذ یحییٰ بن سعید نے ہلب (رض) کے اس بیان کی عملی وضاحت اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے اوپر باندھ کر کی ) ۔ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے ( مسند احمد ٥/٢٢٦) اور وائل بن حجر کی روایت پر جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں اضطراب ہے ، ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» ہے ، بزار کی روایت میں «عند صدرہ» ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے ، کیونکہ مجرد اختلاف سے اضطراب لازم نہیں آتا بلکہ اضطراب کے لیے شرط ہے کہ تمام وجوہ اختلاف برابر ہوں اور یہاں ایسا نہیں ہے ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» کا جو لفظ ہے وہ مدرج ہے ، اسے جان بوجھ کر بعض مطبع جات کی طرف سے اس روایت میں داخل کردیا گیا ہے اور ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» اور بزار کی روایت «عند صدرہ» جو آیا ہے تو ان دونوں میں ابن خزیمہ والی روایت راجح ہے ، کیونکہ ہلب طائی (رض) کی روایت اس کے لیے شاہد ہے ، اور طاؤس کی ایک مرسل روایت بھی اس کی تائید میں ہے اس کے برعکس بزار کی حدیث کی کوئی شاہد روایت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (809) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 252
رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے تکبیر کہنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر جھکنے، اٹھنے، کھڑے ہونے اور بیٹھنے کے وقت اللہ اکبر کہتے ١ ؎ اور ابوبکر اور عمر (رض) بھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، انس، ابن عمر، ابو مالک اشعری، ابوموسیٰ ، عمران بن حصین، وائل بن حجر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام کا جن میں ابوبکر، عمر، عثمان علی (رض) وغیرہ شامل ہیں اور ان کے بعد کے تابعین کا عمل اسی پر ہے اور اسی پر اکثر فقہاء و علماء کا عمل بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٣٤ (١٠٨٤) ، و ٨٣ (١١٤٣) ، و ٩٠ (١١٥٠) ، وفی السہو ٧٠ (١٣٢٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩١٧٤) وکذا (٩٤٧٠) ، مسند احمد (١/٤٨٦، ٤٤٢، ٤٤٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٠ (١٢٨٣ م) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس طرح دو رکعت والی نماز میں کل گیارہ تکبیریں اور چار رکعت والی نماز میں ٢٢ تکبیریں ہوئیں اور پانچوں فرض نمازوں میں کل ٩٤ تکبیریں ہوئیں ، واضح رہے کہ رکوع سے اٹھتے وقت آپ «سمع اللہ لمن حمده» کہتے تھے ، اس لیے اس حدیث کے عموم سے یہ مستثنیٰ ہے ، ان تکبیرات میں سے صرف تکبیر تحریمہ فرض ہے باقی سب سنت ہیں اگر وہ کسی سے چھوٹ جائیں تو نماز ہوجائے گی البتہ فضیلت اور سنت کی موافقت اس سے فوت ہوجائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (330) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 253
رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے تکبیر کہنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جھکتے وقت «الله أكبر» کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے تابعین میں سے اہل علم کا قول یہی ہے کہ رکوع اور سجدہ کے لیے جھکتے ہوئے آدمی «الله أكبر» کہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٦٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (331) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 254
رکوع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھانا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے) ١ ؎۔ ابن ابی عمر (ترمذی کے دوسرے استاذ) نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٣ (٧٣٥) ، و ٨٤ (٧٣٦) ، و ٨٥ (٧٣٨) ، و ٨٦ (٧٣٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٩ (٣٩٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١١٦ (٧٧١) ، سنن النسائی/الافتتاح ١ (٨٧٧، ٨٧٨، ٨٧٩) ، و ٨٦ (١٠٢٦) ، والتطبیق ١٩ (١٠٥٨) ، و ٢١ (١٠٦٠) ، و ٣٧ (١٠٨٩) ، و ٨٥ (١١٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥ (٨٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٨١٦) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٦) ، مسند احمد (٢/٨، ١٨، ٤٤، ٤٥، ٤٧، ٦٣، ١٠٠، ١٤٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٤٨٥) ، و ٧١ (١٣٤٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ، رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے اور بعض حدیثوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرنا ثابت ہے ، صحابہ کرام اور تابعین عظام میں زیادہ تر لوگوں کا اسی پر عمل ہے ، خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرہ سے بھی رفع یدین ثابت ہے ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ رفع یدین کی حدیثیں ایسے صحابہ سے بھی مروی ہیں جو آخر میں اسلام لائے تھے مثلاً وائل بن حجر ہیں جو غزوہ تبوک کے بعد ٩ ھ میں داخل اسلام ہوئے ہیں ، اور یہ اپنے اسلام لانے کے دوسرے سال جب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے تو وہ سخت سردی کا زمانہ تھا انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع یدین کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (858) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 255 امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، علی، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابوہریرہ، ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابوقتادۃ، ابوموسیٰ اشعری، جابر اور عمیر لیثی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- یہی صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر، جابر بن عبداللہ، ابوہریرہ، انس، ابن عباس، عبداللہ بن زبیر (رض) وغیرہ شامل ہیں اور تابعین میں سے حسن بصری، عطاء، طاؤس، مجاہد، نافع، سالم بن عبداللہ، سعید بن جبیر وغیرہ کہتے ہیں، اور یہی مالک، معمر، اوزاعی، ابن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٤
None
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابوہریرہ، ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابوقتادۃ، ابوموسیٰ اشعری، جابر اور عمیر لیثی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر، جابر بن عبداللہ، ابوہریرہ، انس، ابن عباس، عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم وغیرہ شامل ہیں اور تابعین میں سے حسن بصری، عطاء، طاؤس، مجاہد، نافع، سالم بن عبداللہ، سعید بن جبیر وغیرہ کہتے ہیں، اور یہی مالک، معمر، اوزاعی، ابن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: جو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث ( دلیل ) صحیح ہے، پھر انہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے، ۵- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے“ والی ثابت نہیں ہے، ۶- مالک بن انس نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے، ۷- عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمر بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے، ۸- اور میں نے جارود بن معاذ کو کہتے سنا کہ ”سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون اور نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے“۔
رکوع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھانا
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز نہ پڑھاؤں ؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں براء بن عازب (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١١٩ (٧٤٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٧ (١٠٢٧) ، والتطبیق ٢٠ (١٠٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤٦٨) ، مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جو لوگ رفع یدین کی مشروعیت کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے ، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، امام احمد اور امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ، اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ان روایتوں کے معارض نہیں جن سے رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے ، اس لیے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یا واجب نہیں ، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے اسے نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اوروں کی روایت غلط ہو ، عبداللہ بن مسعود (رض) سے بہت سے مسائل مخفی رہ گئے تھے ، ہوسکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا ( رکوع کے درمیان دونوں ہاتھوں کی ) تطبیق کی منسوخی کا معاملہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صفة الصلاة - الأصل، المشکاة (809) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 257
رکوع میں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنا
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ ہم سے عمر بن خطاب (رض) نے کہا : گھٹنوں کو پکڑنا تمہارے لیے مسنون کیا گیا ہے، لہٰذا تم (رکوع میں) گھٹنے پکڑے رکھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سعد، انس، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ اور ابومسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ سوائے اس کے جو ابن مسعود اور ان کے بعض شاگردوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ تطبیق ١ ؎ کرتے تھے، اور تطبیق اہل علم کے نزدیک منسوخ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٢ (١٠٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٤٨٢) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر انہیں دونوں رانوں کے درمیان کرلینے کو تطبیق کہتے ہیں ، یہ حکم شروع اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا اور عبداللہ بن مسعود کو اس کی منسوخی کا علم نہیں ہوسکا تھا ، اس لیے وہ تاحیات تطبیق کرتے کراتے رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 258
رکوع میں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنا
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایسا کرتے تھے (یعنی تطبیق کرتے تھے) پھر ہمیں اس سے روک دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ہم ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٨ (٧٩٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٥٠ (٨٦٧) ، سنن النسائی/التطبیق ١ (١٠٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧ (٨٧٣) ، ( تحفة الأشراف : ٣٩٢٩) ، مسند احمد (١/١٨١، ٨٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٦٨ (١٣٤١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (873) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 259
رکوع میں دونوں ہاتھوں کو پسلیوں سے دور رکھنا
عباس بن سہل بن سعد کا بیان ہے کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، اور محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہم) چاروں اکٹھا ہوئے تو ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کا ذکر کیا، ابوحمید (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں : آپ ﷺ نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہیں، اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کمان کی تانت کی طرح (ٹائٹ) بنایا اور انہیں اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا رکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوحمید کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اسی کو اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ آدمی رکوع اور سجدے میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٥ (٨٢٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١١٧ (٧٣٠) ، سنن النسائی/التطبیق ٦ (١٠٤٠) ، والسہو ٢ (١١٨٢) ، و ٢٩ (١٠٦١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٩٢) ، وکذا (١١٨٩٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٠ (١٣٤٦) ، (کلہم مختصرا، ولین عند ذکرخ ذکر رفع الیدین إلا عند التحریمة) ، ویأتي عند المؤلف بارقام : ٢٧٠، و ٢٩٣، و ٣٠٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (723) ، المشکاة (801) ، صفة الصلاة (110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 260
رکوع اور سجود میں تسبیح
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو رکوع میں «سبحان ربي العظيم» تین مرتبہ کہے تو اس کا رکوع پورا ہوگیا اور یہ سب سے کم تعداد ہے۔ اور جب سجدہ کرے تو اپنے سجدے میں تین مرتبہ «سبحان ربي العظيم» کہے تو اس کا سجدہ پورا ہوگیا اور یہ سب سے کم تعداد ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ عون بن عبداللہ بن عتبہ کی ملاقات ابن مسعود سے نہیں ہے ١ ؎، ٢- اس باب میں حذیفہ اور عقبہ بن عامر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ اس بات کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی رکوع اور سجدے میں تین تسبیحات سے کم نہ پڑھے، ٤- عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں امام کے لیے مستحب سمجھتا ہوں کہ وہ پانچ تسبیحات پڑھے تاکہ پیچھے والے لوگوں کو تین تسبیحات مل جائیں اور اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٥٤ (٨٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠ (٨٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ٩٥٣٠) (ضعیف) (عون کا سماع ابن مسعود (رض) سے نہیں ہے، جیسا کہ مولف نے خود بیان کردیا ہے) وضاحت : ١ ؎ : لیکن ابوبکرہ ، جبیر بن مطعم ، اور ابو مالک اشعری (رض) کی حدیثوں سے اس حدیث کو تقویت مل جاتی ہے ، ان سب میں اگرچہ قدرے کلام ہے لیکن مجموعہ طرق سے یہ بات درجہ احتجاج کو پہنچ جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (890) // ضعيف سنن ابن ماجة (187) ، المشکاة (880) ، ضعيف الجامع الصغير (525) ، ضعيف أبي داود (187 / 886) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 261
رکوع اور سجود میں تسبیح
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلی» پڑھ رہے تھے۔ اور جب بھی رحمت کی کسی آیت پر پہنچتے تو ٹھہرتے اور سوال کرتے اور جب عذاب کی کسی آیت پر آتے تو ٹھہرتے اور (عذاب سے) پناہ مانگتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٧ (٧٧٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٥١ (٨٧١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٧ (١٠٠٩) ، والتطبیق ٩ (١٠٤٧) ، و ٧٤ (١١٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠ (٨٩٧) ، و ١٧٩ (١٣٥١) ، ( تحفة الأشراف : ٣٣٥١) ، مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٨٤، ٣٩٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٩ (١٣٤٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ نفل نمازوں کے ساتھ خاص ہے ، شیخ عبدالحق لمعات التنقيح شرح مشکاة المصابيح میں فرماتے ہیں «االظاهر أنه کان في الصلاة محمول عندنا علی النوافل» یعنی ظاہر یہی ہے کہ آپ نماز میں تھے اور یہ ہمارے نزدیک نوافل پر محمول ہوگا ( اگلی حدیث میں اس کے تہجد میں ہونے کی صراحت آ گئی ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (881) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 262 اس سند سے بھی شعبہ سے اسی طرح مروی ہے۔ حذیفہ (رض) سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز تہجد پڑھی، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (262) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 263
None
شعبہ سے اسی طرح مروی ہے۔ حذیفہ رضی الله عنہ سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد پڑھی، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
رکوع اور سجدے میں تلاوت قرآن ممنوع ہے
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ریشمی اور کسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہننے، سونے کی انگوٹھی پہننے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا یہی قول ہے، ان لوگوں نے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤١ (٤٨٠) ، واللباس ٤ (٢٠٧٨) ، سنن ابی داود/ اللباس ١١ (٤٠٤٤) ، سنن النسائی/التطبیق ٧ (١٠٤١) ، و ٦١ (١١٩، ١١٢٠) ، الزینة ٤٣ (٥١٧٢، ٥١٧٦، ٥١٧٨، ٥١٨٣) ، و ٧٧ (٥٢٦٦-٥٢٧٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢١ (٣٦٠٢) ، و ٤٠ (٣٦٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٧٩) ، موطا امام مالک/الصلاة ٦ (٢٨) ، مسند احمد (١/٨٠، ٨١، ٩٢، ١٠٤، ١١٤، ١١٩، ١٢١، ١٢٣، ١٢٦، ١٣٢، ١٣٣، ١٣٤، ١٣٧، ١٣٨، ١٤٦) ، ویأتي عند المؤلف في اللباس ٥ (١٧٢٥) ، و ١٣ (١٧٣٧) والأدب ٤٥ (٢٨٠٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 264
وہ شخص جو رکوع اور سجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کرے
ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز کافی نہ ہوگی جو رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابومسعود انصاری کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی بن شیبان، انس، ابوہریرہ اور رفاعہ زرقی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی رکھے، ٤- شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جس نے رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہیں رکھی تو اس کی نماز فاسد ہے، اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ کی حدیث ہے : اس شخص کی نماز کافی نہ ہوگی جو رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٤٨ (٨٥٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٨ (١٠٢٨) ، والتطبیق ٥٤ (١١١٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٦ (٨٧٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٩٥) ، مسند احمد (٤/١٩٩، ١٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٨ (١٣٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں طمانینت اور تعدیل ارکان واجب ہے ، اور جو لوگ اس کے وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں اس سے نص پر زیادتی لازم آئے گی اس لیے کہ قرآن مجید میں مطلق سجدہ کا حکم ہے اس میں طمانینت داخل نہیں یہ زیادتی جائز نہیں ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ زیادتی نہیں بلکہ سجدہ کے معنی کی وضاحت ہے کہ اس سے مراد سجدہ لغوی نہیں بلکہ سجدہ شرعی ہے جس کے مفہوم میں طمانینت بھی داخل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (870) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 265
رکوع اور سجود میں تسبیح
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو «سمع اللہ لمن حمده ربنا ولک الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شيء بعد» اللہ نے اس شخص کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اے ہمارے رب ! تعریف تیرے ہی لیے ہے آسمان بھر، زمین بھر، زمین و آسمان کی تمام چیزوں بھر، اور اس کے بعد ہر اس چیز بھر جو تو چاہے کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، ابن ابی اوفی، ابوحجیفہ اور ابوسعید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں کہ فرض ہو یا نفل دونوں میں یہ کلمات کہے گا ١ ؎ اور بعض اہل کوفہ کہتے ہیں : یہ صرف نفل نماز میں کہے گا۔ فرض نماز میں اسے نہیں کہے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، مسند احمد (١/٩٥، ١٠٢) ، ویأتی عند المؤلف في الدعوات (٣٤٢١، ٣٤٢٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس روایت کے بعض طرق میں فرض نماز کے الفاظ بھی آئے ہیں جو اس بارے میں نص صریح ہے کہ نفل یا فرض سب میں اس دعا کے یہ الفاظ پڑھے جاسکتے ہیں ، ویسے صرف «ربنا ولک الحمد» پر بھی اکتفا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (738) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 266
اسی سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام «سمع اللہ لمن حمده» اللہ نے اس کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی کہے تو تم «ربنا ولک الحمد» ہمارے رب ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہوگیا تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ امام «سمع اللہ لمن حمده ربنا ولک الحمد» کہے ١ ؎ اور مقتدی «ربنا ولک الحمد» کہیں، یہی احمد کہتے ہیں، ٣- اور ابن سیرین وغیرہ کا کہنا ہے جو امام کے پیچھے (یعنی مقتدی) ہو وہ بھی «سمع اللہ لمن حمده ربنا ولک الحمد» اسی طرح کہے گا ٢ ؎ جس طرح امام کہے گا اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٤ (٧٩٥) ، و ١٢٥ (٧٩٦) ، وبدء الخلق ٧ (٣٢٢٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٨ (٤٠٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٤٤ (٨٤٨) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٣ (١٠٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨ (٨٧٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٥٦٨) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (٤٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٠، ٣٠٠، ٣١٩، ٤٥٢، ٤٩٧، ٥٠٢، ٥٢٧، ٥٣٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : متعدد احادیث سے ( جن میں بخاری کی بھی ایک روایت ابوہریرہ (رض) ہی سے ہے ) یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ امامت کی حالت میں «سمع اللہ لمن حمدہ» کے بعد «ربنا لک الحمد» کہا کرتے تھے ، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ امام «ربنا لک الحمد» نہ کہے۔ ٢ ؎ : لیکن حافظ ابن حجر کہتے ہیں ( اور صاحب تحفہ ان کی موافقت کرتے ہیں ) کہ مقتدی کے لیے دونوں کو جمع کرنے کے بارے میں کوئی واضح حدیث وارد نہیں ہے اور جو لوگ اس کے قائل ہیں وہ «صلوا کما رأيتموني أصلي» جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ویسے تم بھی صلاۃ پڑھو سے استدلال کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (794) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 267
سجدے میں گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھے جائیں
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا : جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے دونوں گھٹنے اپنے دونوں ہاتھ سے پہلے رکھتے، اور جب اٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے شریک سے اس طرح روایت کیا ہو، ٢- اکثر ہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، ان کی رائے ہے کہ آدمی اپنے دونوں گھٹنے اپنے دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھے اور جب اٹھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اٹھائے، ٣- ہمام نے عاصم ٢ ؎ سے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔ اس میں انہوں نے وائل بن حجر کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٤١ (٨٣٨) ، سنن النسائی/التطبیق ٣٨ (١٠٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨٢) ، و ٩٣ (١١٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٧٨) (ضعیف) (شریک جب متفرد ہوں تو ان کی روایت مقبول نہیں ہوتی) وضاحت : ١ ؎ : جو لوگ دونوں ہاتھوں سے پہلے دونوں گھٹنوں کے رکھنے کے قائل ہیں انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے ، شریک عاصم بن کلیب سے روایت کرنے میں منفرد ہیں جب کہ شریک خود ضعیف ہیں ، اگرچہ اس روایت کو ہمام بن یحییٰ نے بھی دو طریق سے ایک محمد بن حجاوہ کے طریق سے اور دوسرے شقیق کے طریق سے روایت کی ہے لیکن محمد بن حجادہ والی سند منقطع ہے کیونکہ عبدالجبار کا سماع اپنے باپ سے نہیں ہے اور شقیق کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ وہ خود مجہول ہیں۔ ٢ ؎ : ہمام نے اسے عاصم سے نہیں بلکہ شقیق سے روایت کیا ہے اور شقیق نے عاصم سے مرسلاً روایت کیا ہے گویا شقیق والی سند میں دو عیب ہیں : ایک شقیق خود مجہول ہیں اور دوسرا عیب یہ ہے کہ یہ مرسل ہے اس میں وائل بن حجر (رض) کا ذکر نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (882) // ضعيف سنن ابن ماجة (185) ، ضعيف أبي داود (181 / 838) ، الإرواء (357) ، المشکاة (898) ، ابن خزيمة (626 و 629) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 268
اسی سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی یہ قصد کرتا ہے کہ وہ اپنی نماز میں اونٹ کے بیٹھنے کی طرح بیٹھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث غریب ہے ہم اسے ابوالزناد کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- یہ حدیث عبداللہ بن سعید مقبری سے بھی روایت کی گئی ہے، انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ عبداللہ بن سعید مقبری کو یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٤١ (٨٤٠) ، سنن النسائی/التطبیق ٣٨ (١٠٩١) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٨٦٦) ، مسند احمد (٢/٣٩١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٤ (١٣٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس طرح اونٹ بیٹھنے میں پہلے اپنے دونوں گھٹنے رکھتا ہے اسی طرح یہ بھی چاہتا ہے کہ رکوع سے اٹھ کر جب سجدہ میں جانے لگے تو پہلے اپنے دونوں گھٹنے زمین پر رکھے ، یہ استفہام انکاری ہے ، مطلب یہ ہے کہ ایسا نہ کرے ، بلکہ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ رکھے مسند احمد ، سنن ابی داود اور سنن نسائی میں یہ حدیث اس طرح ہے «إذا سجد أحدکم فلايبرك كما يبرک البعير وليضع يديه قبل رکبتيه» یعنی جب تم میں سے کوئی سجدے میں جائے تو وہ اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے رکھے ، یہ اونٹ کی بیٹھک کے مخالف بیٹھک ہے ، کیونکہ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو اپنے گھٹنے زمین پر پہلے رکھتا ہے اور اس کے گھٹنے اس کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جیسا کہ لسان العرب اور دیگر کتب لغات میں مرقوم ہے ، حافظ ابن حجر نے سند کے اعتبار سے اس روایت کو وائل بن حجر کی روایت جو اس سے پہلے گزری صحیح تر بتایا ہے کیونکہ ابن عمر (رض) کی ایک روایت جسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے اور بخاری نے اسے معلقاً موقوفاً ذکر کیا ہے اس کی شاہد ہے ، اکثر فقہاء عموماً محدثین اور اسی کے قائل ہیں کہ دونوں گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھے جائیں ، ان لوگوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے ، شوافع اور احناف نے جو پہلے گھٹنوں کے رکھنے کے قائل ہیں اس حدیث کے کئی جوابات دیئے ہیں لیکن سب مخدوش ہیں ، تفصیل کے لیے دیکھئیے تحفۃ الاحوذی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (899) ، الإرواء (2 / 78) ، صفة الصلاة // (122) بلفظ قريب //، صحيح أبي داود (789) ، ولفظه أتم صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 269
سجدہ پیشانی اور ناک پر کیا جاتا ہے
ابو حمید ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنی ناک اور پیشانی خوب اچھی طرح زمین پر جماتے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے دور رکھتے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دونوں شانوں کے بالمقابل رکھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوحمید کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، وائل بن حجر اور ابوسعید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی اپنی پیشانی اور ناک دونوں پر سجدہ کرے، اور اگر صرف پیشانی پر سجدہ کرے ناک پر نہ کرے تو اہل علم میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اسے کافی ہوگا، اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کافی نہیں ہوگا جب تک کہ وہ پیشانی اور ناک دونوں پر سجدہ نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٠ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سجدے میں پیشانی اور ناک کے زمین پر رکھنے کے سلسلے میں تین اقوال ہیں ١- دونوں کو رکھنا واجب ہے ، ٢- صرف پیشانی رکھنا واجب ہے ، ناک رکھنا مستحب ہے ، ٣- دونوں میں سے کوئی بھی ایک رکھ دے تو کافی ہے دونوں رکھنا مستحب ہے ، دلائل کی روشنی میں احتیاط پہلے قول میں ہے ، ایک متبع سنت کو خواہ مخواہ پخ نکالنے کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (723) ، المشکاة (801) ، صفة الصلاة // 123 // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 270
سجدہ کیا جائے تو چہرہ کہاں رکھا جائے
ابواسحاق سبیعی سے روایت ہے کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنا چہرہ کہاں رکھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- براء (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں وائل بن حجر اور ابوحمید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اسی کو بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ اس کے دونوں کانوں کے قریب ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٢٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ابوحمید (رض) کی پچھلی حدیث میں گزرا کہ نبی اکرم ﷺ نے سجدے میں اپنی ہتھیلیاں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل رکھے یعنی دونوں صورتیں جائز ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 271
سجدہ سات اعضاء پر ہوتا ہے
عباس بن عبدالمطلب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات جوڑ بھی سجدہ کرتے ہیں : اس کا چہرہ ١ ؎ اس کی دونوں ہتھیلیاں، اس کے دونوں گھٹنے اور اس کے دونوں قدم ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، جابر اور ابوسعید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩١) سنن ابی داود/ الصلاة ١٥٥ (٨٩١) سنن النسائی/التطبیق ٤١ (١٠٩٥) و ٤٦ (١٠٩٨) سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨٥) (تحفة الأشراف : ٥١٢٦) ، مسند احمد (١/٢٠٦، ٢٠٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور چہرے میں پیشانی اور ناک دونوں داخل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (885) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 272
سجدہ سات اعضاء پر ہوتا ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ سات اعضاء پر سجدہ کریں اور اپنے بال اور کپڑے نہ سمیٹیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣٣ (٨٠٩) ، و ٣٤ (٨١٠) ، و ١٣٧ (٨١٥) ، و ١٣٨ (٨١٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٥٥ (٨٨٩) ، سنن النسائی/التطبیق ٤٠ (١٠٩٤) ، و ٤٣ (١٠٩٧) ، و ٤٥ (١٠٩٩) ، و ٥٦ (١١١٢) ، و ٥٨ (١١١٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٣٤) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٧٠، ٢٧٩، ٢٨٠، ٢٨٥، ٢٨٦، ٢٩٠، ٣٠٥، ٣٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٣ (١٣٥٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (884) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 273
سجدے میں اعضا کو الگ الگ رکھنا
عبداللہ بن اقرم خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ میں مقام نمرہ کے «قاع» مسطح زمین میں اپنے والد کے ساتھ تھا، تو (وہاں سے) ایک قافلہ گزرا، کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، میں آپ ﷺ کے دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھ رہا تھا جب آپ سجدہ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن اقرم (رض) کی حدیث حسن ہے، اسے ہم صرف داود بن قیس کی سند سے جانتے ہیں۔ عبداللہ بن اقرم خزاعی کی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو ہم نہیں جانتے، ٢- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ اور عبداللہ بن ارقم زہری نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں اور وہ ابوبکر صدیق کے منشی تھے، ٣- اس باب میں ابن عباس، ابن بحینہ، جابر، احمر بن جزئ، میمونہ، ابوحمید، ابومسعود، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، براء بن عازب، عدی بن عمیرہ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- احمر بن جزء نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی ہیں اور ان کی صرف ایک حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٥١ (١١٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨١) ، ( تحفة الأشراف : ٥١٤٢) ، مسند احمد (٤/٣٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (881) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 274
سجدے میں اعتدال
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اعتدال کرے ١ ؎ اور اپنے ہاتھ کو کتے کی طرح نہ بچھائے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبدالرحمٰن بن شبل، انس، براء، ابوحمید اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ سجدے میں اعتدال کو پسند کرتے ہیں اور ہاتھ کو درندے کی طرح بچھانے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢١ (٨٩١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣١١) ، مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣١٥، ٣٨٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہیئت درمیانی رکھے اس طرح کہ پیٹ ہموار ہو دونوں کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی اور پہلوؤں سے جدا ہوں اور پیٹ بھی رانوں سے جدا ہو۔ گویا زمین اور بدن کے اوپر والے آدھے حصے کے درمیان فاصلہ نظر آئے۔ ٢ ؎ : کتے کی طرح سے مراد ہے کہ وہ دونوں کہنیاں زمین پر بچھا کر بیٹھتا ہے ، اس طرح تم سجدہ میں نہ کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (891) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 275
سجدے میں اعتدال
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سجدے میں اپنی ہیئت درمیانی رکھو، تم میں سے کوئی نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٨ (٥٣٢) ، والأذان ١٤١ (٨٢٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٥ (٤٩٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٥٨ (٨٩٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٩ (١٠٢٩) ، والتطبیق ٥٠ (١١٠٤) ، و ٥٣ (١١١١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢١ (٨٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٣٧) ، مسند احمد (٣/١٠٩، ١١٥، ١٧٧، ١٧٩، ١٩١، ٢٠٢، ٢١٤، ٢٣١، ٢٧٤، ٢٧٩، ٢٩١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥ ٧ (١٣٦١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (892) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 276
سجدے میں دونوں ہاتھ زمین پر رکھنا اور پاؤں کھڑے رکھنا
سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو (زمین پر) رکھنے اور دونوں پاؤں کو کھڑے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٨٨٧) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، صفة الصلاة // 126 // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 277 عامر بن سعد سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو (زمین پر) رکھنے کا حکم دیا ہے، آگے راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، البتہ انہوں نے اس میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں کیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عامر بن سعد سے مرسلاً روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں ہاتھوں (زمین پر) رکھنے اور دونوں قدموں کو کھڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ٢ ؎، ٢- یہ مرسل روایت وہیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ٣ ؎، اور اسی پر اہل علم کا اجماع ہے، اور لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (حسن) (اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ روایت عامر کی اپنی ہے ، ان کے باپ سعد (رض) کی نہیں ، اس لیے یہ مرسل روایت ہوئی۔ ٢ ؎ : دونوں ہاتھوں سے مراد دونوں ہتھیلیاں ہیں اور انہیں زمین پر رکھنے سے مراد انہیں دونوں کندھوں یا چہرے کے بالمقابل رکھنا ہے اور دونوں قدموں کے کھڑے رکھنے سے مراد انہیں ان کی انگلیوں کے پیٹوں پر کھڑا رکھنا اور انگلیوں کے سروں سے قبلہ کا استقبال کرنا ہے۔ ٣ ؎ : ان دونوں روایتوں کا ماحصل یہ ہے کہ معلی بن اسد نے یہ حدیث وہیب اور حماد بن مسعدہ دونوں سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے محمد بن عجلان سے اور محمد بن عجلان نے محمد بن ابراہیم سے اور محمد بن ابراہیم نے عامر بن سعد سے روایت کی ہے ، لیکن وہیب نے اسے مسند کردیا ہے اور عامر بن سعد کے بعد ان کے باپ سعد بن ابی وقاص کے واسطے کا اضافہ کیا ہے ، جب کہ حماد بن مسعدۃ نے بغیر سعد بن ابی وقاص کے واسطے کے اسے مرسلاً روایت کیا ہے ، حماد بن مسعدہ کی مرسل روایت وہیب کی مسند روایت سے زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ اور بھی کئی لوگوں نے اسے حماد بن مسعدہ کی طرح مرسلاً ہی روایت کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن بما قبله (277) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 278
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کو ( زمین پر ) رکھنے کا حکم دیا ہے، آگے راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، البتہ انہوں نے اس میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عامر بن سعد سے مرسلاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں ( زمین پر ) رکھنے اور دونوں قدموں کو کھڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ۲؎، ۲- یہ مرسل روایت وہیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۳؎، اور اسی پر اہل علم کا اجماع ہے، اور لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
جب رکوع یا سجدے سے اٹھے تو کمر سیدھی کرے
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع کرتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے، جب سجدہ کرتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو آپ کی نماز تقریباً برابر برابر ہوتی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں انس (رض) سے بھی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢١ (٧٩٢) ، و ١٢٧ (٨٠١) ، و ١٤٠ (٨٢٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٨ (٤٧١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٤٧ (٨٥٢) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٤ (١٠٦٦) ، و ٨٩ (١١٤٧) ، والسہو ٧٧ (١٣٣١) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٨١) ، مسند احمد (٤/٢٨٠، ٢٨٥، ٢٨٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٠ (١٣٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر صریحاً دلالت کرتی ہے کہ رکوع کے بعد سیدھے کھڑا ہونا اور دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا ایک ایسا رکن ہے جسے کسی بھی حال میں چھوڑنا صحیح نہیں ، بعض لوگ سیدھے کھڑے ہوئے بغیر سجدے کے لیے جھک جاتے ہیں ، اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان بغیر سیدھے بیٹھے دوسرے سجدے میں چلے جاتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ رکوع اور سجدے کی طرح ان میں تسبیحات کا اعادہ اور ان کا تکرار مسنون نہیں ہے تو یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ نص کے مقابلہ میں قیاس ہے جو درست نہیں ، نیز رکوع کے بعد جو ذکر مشروع ہے وہ رکوع اور سجدے میں مشروع ذکر سے لمبا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (798) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 279 اس سند سے بھی حکم سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- براء (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 280
None
حکم سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- براء رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔
رکوع وسجود امام سے پہلے کرنا مکروہ ہے
براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے اور جب آپ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو ہم میں سے کوئی بھی شخص اپنی پیٹھ (سجدے کے لیے) اس وقت تک نہیں جھکاتا تھا جب تک کہ آپ ﷺ سجدے میں نہ چلے جاتے، آپ سجدے میں چلے جاتے تو ہم سجدہ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- براء (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، معاویہ، ابن مسعدہ صاحب جیوش، اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور یہی اہل علم کہتے ہیں یعنی : جو امام کے پیچھے ہو وہ ان تمام امور میں جنہیں امام کر رہا ہو امام کی پیروی کرے، یعنی اسے امام کے بعد کرے، امام کے رکوع میں جانے کے بعد ہی رکوع میں جائے اور اس کے سر اٹھانے کے بعد ہی اپنا سر اٹھائے، ہمیں اس مسئلہ میں ان کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٢ (٦٩٠) ، و ٩١ (٧٤٧) ، و ١٣٣ (٨١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٩ (٤٧٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٧٥ (٦٢٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٨ (٨٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٧٢) ، مسند احمد (٤/٢٩٢، ٣٠٠، ٣٠٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (631 - 633) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 281
سجدوں کے درمیان اقعاء مکروہ ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے علی ! میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے کرتا ہوں، اور وہی چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں۔ تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ١ ؎ نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ہم اسے علی کی حدیث سے صرف ابواسحاق سبیعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے حارث سے اور حارث نے علی سے روایت کی ہے، ٢- بعض اہل علم نے حارث الاعور کو ضعیف قرار دیا ہے ٢ ؎، ٣- اس باب میں عائشہ، انس اور ابوہریرہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اکثر اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ وہ اقعاء کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٢ (٨٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٤١) (ضعیف) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے) وضاحت : ١ ؎ : اقعاء کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم یہ ہے کہ دونوں سرین زمین سے چپکے ہوں اور دونوں رانیں کھڑی ہوں اور دونوں ہاتھ زمین پر ہوں یہی اقعاء کلب ہے اور یہی وہ اقعاء ہے جس کی ممانعت آئی ہے ، دوسری قسم یہ ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان قدموں کو کھڑا کر کے سرین کو دونوں ایڑیوں پر رکھ کر بیٹھے ، اس صورت کا ذکر ابن عباس کی حدیث میں ہے جس کی تخریج مسلم اور ابوداؤد نے بھی کی ہے ، اور یہ صورت جائز ہے ، بعض نے اسے بھی منسوخ شمار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ابن عباس کو اس نسخ کا علم نہ ہوسکا ہو ، لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ممکن ہے ، صحیح قول یہ ہے کہ اقعاء کی یہ صورت جائز ہے اور افضل سرین پر بیٹھنا ہے اس لیے کہ زیادہ تر آپ کا عمل اسی پر رہا ہے اور کبھی کبھی آپ نے جو اقعاء کیا وہ یا تو کسی عذر کی وجہ سے کیا ہوگا یا بیان جواز کے لیے کیا ہوگا۔ ٢ ؎ : حارث اعور کی وجہ سے یہ روایت تو ضعیف ہے مگر اس باب کی دیگر احادیث صحیح ہیں جن کا ذکر مولف نے «وفی الباب» کر کے کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (894 و 895) // ضعيف الجامع الصغير (6400) ، المشکاة (903) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 282
اقعاء کی اجازت
طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس (رض) سے دونوں قدموں پر اقعاء کرنے کے سلسلے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : یہ سنت ہے، تو ہم نے کہا کہ ہم تو اسے آدمی کا پھوہڑپن سمجھتے ہیں، انہوں نے کہا : نہیں یہ پھوہڑپن نہیں ہے بلکہ یہ تمہارے نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام میں بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ اقعاء میں کوئی حرج نہیں جانتے، مکہ کے بعض اہل علم کا یہی قول ہے، لیکن اکثر اہل علم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء کو ناپسند کرتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٦ (٥٣٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٤٣ (٨٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٥٣) ، مسند احمد (١/٣١٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دیکھئیے پچھلی حدیث کا حاشیہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (791) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 283
اس بارے میں کہ دونوں سجدوں کے درمیان کیا پڑھے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان «اللهم اغفر لي وارحمني واجبرني واهدني وارزقني» اے اللہ ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، میرے نقصان کی تلافی فرما، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما کہتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٤٥ (٨٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٨٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ٥٤٧٥) ، مسند احمد (١/٣١٥، ٣٧١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھنا مسنون ہے ، بعض روایات میں «وأرفعني» کا اضافہ ہے اور بعض میں مختصراً «رب اغفرلي» کے الفاظ آئے ہیں ، دوسری روایات میں الفاظ کچھ کمی بیشی ہے ، اس لیے حسب حال جو بھی دعا پڑھ لی جائے درست ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (898) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 284
اس بارے میں کہ دونوں سجدوں کے درمیان کیا پڑھے
اس سند سے بھی کامل ابو العلاء سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اسی طرح علی (رض) سے بھی مروی ہے۔ اور بعض لوگوں نے کامل ابو العلاء سے یہ حدیث مرسلاً روایت کی ہے، ٣- شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ان کی رائے ہے کہ یہ فرض اور نفل دونوں میں جائز ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 285
سجدے میں سہارا لینا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے نبی اکرم ﷺ سے سجدے میں دونوں ہاتھوں کو دونوں پہلوؤں سے اور پیٹ کو ران سے جدا رکھنے کی صورت میں (تکلیف کی) شکایت کی، تو آپ نے فرمایا : گھٹنوں سے (ان پر ٹیک لگا کر) مدد لے لیا کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم سے ابوصالح کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے صرف اسی طریق سے (یعنی لیث عن ابن عجلان کے طریق سے) جانتے ہیں اور سفیان بن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «سمی عن النعمان بن أبي عياش عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» (اسی طرح) روایت کی ہے، ان لوگوں کی روایت لیث کی روایت کے مقابلے میں شاید زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٥٩ (٩٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٥٨٠) ، مسند احمد (٢/٣٤٠) (ضعیف) (محمد بن عجلان کی اس روایت کو ان سے زیادہ ثقہ اور معتبر رواة نے مرسلاً ذکر کیا ہے، اور ابوہریرہ کا تذکرہ نہیں کیا، اس لیے ان کی یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے : ضعیف سنن ابی داود : ج ٩/رقم : ٨٣٢) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کہنیاں گھٹنوں پر رکھ لیا کرو تاکہ تکلیف کم ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (160) // عندنا في ضعيف أبي داود برقم (192 / 902) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 286
سجدے سے کیسے اٹھا جائے
ابواسحاق مالک بن حویرث لیثی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا، آپ کی نماز اس طرح سے تھی کہ جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک کہ آپ اچھی طرح بیٹھ نہ جاتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مالک بن حویرث کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی اسحاق بن راہویہ اور ہمارے بعض اصحاب بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٥ (٦٧٧) ، و ١٢٧ (٨٠٣) ، و ١٤٢ (٨٢٣) ، و ١٤٣ (٨٢٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٨٢ (٨٤٢، ٨٤٣، ٨٤٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١١٨٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس بیٹھک کا نام جلسہ استراحت ہے ، یہ حدیث جلسہ استراحت کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے ، جو لوگ جلسہ استراحت کی سنت کے قائل نہیں ہیں انہوں نے اس حدیث کی مختلف تاویلیں کی ہیں ، لیکن یہ ایسی تاویلات ہیں جو قطعاً لائق التفات نہیں ، نیز قدموں کے سہارے بغیر بیٹھے اٹھنے کی حدیث ضعیف ہے جو آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2 / 82 - 83) ، صفة الصلاة // 136 // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 287
اسی سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز میں اپنے دونوں قدموں کے سروں یعنی دونوں پیروں کی انگلیوں پر زور دے کر اٹھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اہل علم کے نزدیک ابوہریرہ (رض) ہی کی حدیث پر عمل ہے۔ خالد بن الیاس محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ انہیں خالد بن ایاس بھی کہا جاتا ہے، لوگ اسی کو پسند کرتے ہیں کہ آدمی نماز میں اپنے دونوں قدموں کے سروں پر زور دے کر (بغیر بیٹھے) کھڑا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٥٠٤) (ضعیف) (سند میں دو راوی خالد اور صالح مولیٰ التوامہ ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : جو لوگ جلسہ استراحت کے قائل نہیں ہیں اور دونوں قدموں کے سروں پر زور دے کر بغیر بیٹھے کھڑے ہوجانے کو پسند کرتے ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے ، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے استدلال کے قابل نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (362) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 288
تشہد کے بارے میں
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ جب ہم دو رکعتوں کے بعد بیٹھیں تو یہ دعا پڑھیں : «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلی عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں، سلام ہو آپ پر اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود (رض) کی حدیث ان سے کئی سندوں سے مروی ہے، اور یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے جو تشہد میں نبی اکرم ﷺ سے مروی ہیں، ٢- اس باب میں ابن عمر، جابر، ابوموسیٰ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- ہم سے احمد بن محمد بن موسیٰ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، اور وہ معمر سے اور وہ خصیف سے روایت کرتے ہیں، خصیف کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں تشہد کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : تم پر ابن مسعود کا تشہد لازم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٨ (٨٣١) ، و ١٥٠ (٨٣٥) ، والعمل فی الصلاة ٤ (١٢٠٢) ، والاستئذان ٣ (٦٢٣٠) ، و ٢٨ (٦٣٦٥) ، والدعوات ١٧ (٦٣٢٨) ، والتوحید ٥ (٧٣٨١) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٨٢ (٩٦٨) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٠ (١١٦٣ - ١١٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٨٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ٩١٨١) ، مسند احمد (١/٣٧٦، ٣٨٢، ٤٠٨، ٤١٣، ٤١٤، ٤٢٢، ٤٢٣، ٤٢٨، ٤٣١، ٤٣٧، ٤٣٩، ٤٤٠، ٤٥٠، ٤٥٩، ٤٦٤) ، وراجع ما عند النسائی فی السہو ٤١، ٤٣٠، ٥٦ (الأرقام : ١٢٧٨، ١٢٨٠، ١٢٩٩) ، وابن ماجہ في النکاح ١٩ (١٨٩٢) ، والمؤلف في النکاح ١٧ (١١٠٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : لیکن خصیف حافظہ کے کمزور اور مرجئی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (336) ، وانظر ابن ماجه (899 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 289
اسی کے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن سکھاتے تھے اور فرماتے : «التحيات المبارکات الصلوات الطيبات لله سلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته سلام علينا وعلی عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا رسول الله»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢- اور عبدالرحمٰن بن حمید رواسی نے بھی یہ حدیث ابوالزبیر سے لیث بن سعد کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٣- اور ایمن بن نابل مکی نے یہ حدیث ابو الزبیر سے جابر (رض) کی حدیث سے روایت کی ہے اور یہ غیر محفوظ ہے، ٤- امام شافعی تشہد کے سلسلے میں ابن عباس (رض) کی حدیث کی طرف گئے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٨٢ (٩٧٤) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٣ (١١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٩٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٥٠) ، مسند احمد (١/٢٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دونوں طرح کا تشہد ثابت ہے ، دونوں میں سے چاہے جو بھی پڑھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (900) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 290
تشہد آہستہ پڑھنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : سنت سے یہ ہے ١ ؎ کہ تشہد آہستہ پڑھا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٨٥ (٩٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩١٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جب صحابی «من السنة كذا أو السنة كذا» کہے تو یہ جمہور کے نزدیک مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (906) ، صفة الصلاة // 142 // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 291
تشہد میں کیسے بیٹھا جائے
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں : میں مدینے آیا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز ضرور دیکھوں گا۔ (چنانچہ میں نے دیکھا) جب آپ ﷺ تشہد کے لیے بیٹھے تو آپ نے اپنا بایاں پیر بچھایا اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنا دایاں پیر کھڑا رکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی سفیان ثوری، اہل کوفہ اور ابن مبارک کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ١١ (٨٩٠) ، والتطبیق ٩٧ (١١٦٠) ، والسہو ٢٩ (١٢٦٣، ١٢٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥ (٨٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ١١٧٨٤) ، مسند احمد (٤/٣١٦، ٣١٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (716) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 292
اسی سے متعلق
عباس بن سہل ساعدی کہتے ہیں کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ (رض) اکٹھے ہوئے، تو ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کا ذکر کیا۔ اس پر ابوحمید کہنے لگے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ ﷺ تشہد کے لیے بیٹھتے تو آپ اپنا بایاں پیر بچھاتے ١ ؎ اور اپنے دائیں پیر کی انگلیوں کے سروں کو قبلہ کی طرف متوجہ کرتے، اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پر اور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر رکھتے، اور اپنی انگلی (انگشت شہادت) سے اشارہ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہی بعض اہل علم کہتے ہیں اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اخیر تشہد میں اپنے سرین پر بیٹھے، ان لوگوں نے ابوحمید کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے تشہد میں بائیں پیر پر بیٹھے اور دایاں پیر کھڑا رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٠ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : افتراش والی یہ روایت مطلق ہے اس میں یہ وضاحت نہیں کہ یہ دونوں تشہد کے لیے ہے یا پہلے تشہد کے لیے ، ابو حمید ساعدی کی دوسری روایت میں اس اطلاق کی تبیین موجود ہے ، اس میں اس بات کو واضح کردیا گیا ہے کہ افتراش پہلے تشہد میں ہے اور تورک آخری تشہد میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (723) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 293
تشہد میں اشارہ
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے (دائیں) گھٹنے پر رکھتے اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے یعنی اشارہ کرتے، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنے (بائیں) گھٹنے پر پھیلائے رکھتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عبداللہ بن زبیر، نمیر خزاعی، ابوہریرہ، ابوحمید اور وائل بن حجر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابن عمر کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے عبیداللہ بن عمر کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اہل علم کا اسی پر عمل تھا، یہ لوگ تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کو پسند کرتے اور یہی ہمارے اصحاب کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تخريج : صحیح مسلم/المساجد ٢١ (٥٨٠) ، سنن النسائی/السہو ٣٥ (١٢٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٧ (٩١٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٨) ، مسند احمد ( ٢/١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : احادیث میں تشہد کی حالت میں داہنے ہاتھ کے ران پر رکھنے کی مختلف ہیئتوں کا ذکر ہے ، انہیں ہیئتوں میں سے ایک ہیئت یہ بھی ہے اس میں انگلیوں کے بند رکھنے کا ذکر نہیں ہے ، دوسری یہ ہے کہ خنصر بنصر اور وسطیٰ ( یعنی سب سے چھوٹی انگلی چھنگلیا ، اور اس کے بعد والی اور درمیانی تینوں ) کو بند رکھے اور شہادت کی انگلی ( انگوٹھے سے ملی ہوئی ) کو کھلی چھوڑ دے اور انگوٹھے کو شہادت کی انگلی کی جڑ سے ملا لے ، یہی ترپن کی گرہ ہے ، تیسری ہیئت یہ ہے کہ خنصر ، بنصر ( سب سے چھوٹی یعنی چھنگلیا اور اس کے بعد والی انگلی ) کو بند کرلے اور شہادت کی انگلی کو چھوڑ دے اور انگوٹھے اور بیچ والی انگلی سے حلقہ بنا لے ، چوتھی صورت یہ ہے کہ ساری انگلیاں بند رکھے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے ، ان ساری صورتوں سے متعلق احادیث وارد ہیں ، جس طرح چاہے کرے ، سب جائز ہے ، لیکن یہ واضح رہے کہ یہ ساری صورتیں شروع تشہد ہی سے ہیں نہ کہ «أشهد أن لا إله إلا الله» کہنے پر ، یا یہ کلمہ کہنے سے لے کر بعد تک ، کسی بھی حدیث میں یہ تحدید ثابت نہیں ہے ، یہ بعد کے لوگوں کا گھڑا ہوا عمل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (913) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 294
نماز میں سلام پھیرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے دائیں اور بائیں «السلام عليكم ورحمة اللہ السلام عليكم ورحمة الله» کہہ کر سلام پھیرتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سعد بن ابی وقاص، ابن عمر، جابر بن سمرہ، براء، ابوسعید، عمار، وائل بن حجر، عدی بن عمیرہ اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٨٩ (٩٩٦) ، سنن النسائی/السہو ٧١ (١٣٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٨ (٩١٤) ، ( تحفة الأشراف : ٩٥٠٤) ، مسند احمد (١/٣٩٠، ٤٠٦، ٤٠٩، ٤١٤، ٤٤٤، ٤٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٧ (١٣٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے دونوں طرف دائیں اور بائیں سلام پھیرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ، ابوداؤد کی روایت میں «حتی يرى بياض خده» کا اضافہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (914) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 295
اسی سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں اپنے چہرے کے سامنے داہنی طرف تھوڑا سا مائل ہو کر ایک سلام پھیرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : زہیر بن محمد سے اہل شام منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ البتہ ان سے مروی اہل عراق کی روایتیں زیادہ قرین صواب اور زیادہ صحیح ہیں، ٣- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ شاید زہیر بن محمد جو اہل شام کے یہاں گئے تھے، وہ نہیں جن سے عراق میں روایت کی جاتی ہے، کوئی دوسرے آدمی ہیں جن کا نام ان لوگوں نے بدل دیا ہے، ٤- اس باب میں سہل بن سعد (رض) سے بھی روایت ہے، ٥- نماز میں سلام پھیرنے کے سلسلے میں بعض اہل علم نے یہی کہا ہے، لیکن نبی اکرم ﷺ سے مروی سب سے صحیح روایت دو سلاموں والی ہے ١ ؎، صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ البتہ صحابہ کرام اور ان کے علاوہ میں سے کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ فرض نماز میں صرف ایک سلام ہے، شافعی کہتے ہیں : چاہے تو صرف ایک سلام پھیرے اور چاہے تو دو سلام پھیرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٩ (٩١٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٨٩٥) مسند احمد (٦/٢٣٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور اسی پر امت کی اکثریت کا تعامل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (919) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 296
اس سلام کو حذف کرنا سنت ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : «حذف سلام» سنت ہے۔ علی بن حجر بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں : «حذف سلام» کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے یعنی سلام کو زیادہ نہ کھینچے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہی ہے جسے اہل علم مستحب جانتے ہیں، ٣- ابراہیم نخعی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں تکبیر جزم ہے اور سلام جزم ہے (یعنی ان دونوں میں مد نہ کھینچے بلکہ وقف کرے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٩٢ (١٠٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٢٣٣) ، مسند احمد (٢/٥٣٢) (ضعیف) (سند میں قرة کی ثقاہت میں کلام ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (179) // عندنا برقم (213 / 1004) بزيادة : يرفعه للرسول صلی اللہ عليه وسلم // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 297
سلام پھیرنے کے بعد کیا کہے ؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام پھیرتے تو «اللهم أنت السلام ومنک السلام تبارکت ذا الجلال والإکرام» اے اللہ تو سلام ہے، تجھ سے سلامتی ہے، بزرگی اور عزت والے ! تو بڑی برکت والا ہے کہنے کے بقدر ہی بیٹھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦٠ (١٥١٢) ، سنن النسائی/السہو ٨٢ (١٣٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٢ (٩٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٦١٨٧) ، مسند احمد (٦/٦٢، ١٨٤، ٢٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (924) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 298
سلام پھیرنے کے بعد کیا کہے ؟
اس سند سے بھی عاصم الاحول سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے اور اس میں «تبارکت يا ذا الجلال والإکرام» («یا» کے ساتھ) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، خالد الحذاء نے یہ حدیث بروایت عائشہ عبداللہ بن حارث سے عاصم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ سلام پھیرنے کے بعد «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو علی كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منک الجد» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں، وہی زندگی اور موت دیتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو نہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں، اور تیرے آگے کسی نصیب والے کا کوئی نصیب کام نہیں آتا کہتے تھے، یہ بھی مروی ہے کہ آپ «سبحان ربک رب العزة عما يصفون وسلام علی المرسلين والحمد لله رب العالمين» پاک ہے تیرا رب جو عزت والا ہے ہر اس برائی سے جو یہ بیان کرتے ہیں اور سلامتی ہو رسولوں پر اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہاں کا رب ہے بھی کہتے تھے ١ ؎، ٣- اس باب میں ثوبان، ابن عمر، ابن عباس، ابوسعید، ابوہریرہ اور مغیرہ بن شعبہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ سے سلام کے بعد مختلف حالات میں مختلف اذکار مروی ہیں اور سب صحیح ہیں ، ان میں کوئی تعارض نہیں ، آپ کبھی کوئی ذکر کرتے اور کبھی کوئی ذکر ، اس طرح آپ سے سلام کے بعد قولاً بھی کئی اذکار کا ثبوت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (298) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 299
سلام پھیرنے کے بعد کیا کہے ؟
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے (مقتدیوں کی طرف) پلٹنے کا ارادہ کرتے تو تین بار «استغفر الله» میں اللہ کی مغفرت چاہتا ہوں کہتے، پھر «اللهم أنت السلام ومنک السلام تبارکت يا ذا الجلال والإکرام» کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦٠ (١٥١٣) ، سنن النسائی/السہو ٨١ (١٣٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٢ (٩٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٩٩) ، مسند احمد (٥/٢٧٥، ٢٧٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (928) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 300
نماز کے بعد دونوں جانب گھومنا
ہلب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری امامت فرماتے (تو سلام پھیرنے کے بعد) اپنے دونوں طرف پلٹتے تھے (کبھی) دائیں اور (کبھی) بائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ہلب (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، انس، عبداللہ بن عمرو، اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ امام اپنے جس جانب چاہے پلٹ کر بیٹھے چاہے تو دائیں طرف اور چاہے تو بائیں طرف، نبی اکرم ﷺ سے دونوں ہی باتیں ثابت ہیں ١ ؎ اور علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں اگر آپ کی ضرورت دائیں طرف ہوتی تو دائیں طرف پلٹتے اور بائیں طرف ہوتی تو بائیں طرف پلٹتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٤ (١٠٤١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٣ (٩٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٧٣٣) ، مسند احمد (٥/٢٢٦) (حسن صحیح) (سند میں قبیصة بن ہلب لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں اس باب میں مروی ابن مسعود (رض) کی حدیث ( سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٤ حدیث رقم : ١٠٤٢) سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن صحیح ہے وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت میں ہے «لقد رأيت رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم کثيراً ينصرف عن يساره» اور انس (رض) کی روایت میں ہے «أكثر ما رأيت رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم ينصرف عن يمينه» بظاہر ان دونوں روایتوں میں تعارض ہے ، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے علم اور مشاہدات کے مطابق یہ بات کہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (929) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 301
پوری نماز کی ترکیب
رفاعہ بن رافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، اسی دوران ایک شخص آپ کے پاس آیا جو بدوی لگ رہا تھا، اس نے آ کر نماز پڑھی اور بہت جلدی جلدی پڑھی، پھر پلٹ کر آیا اور نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اور تم پر بھی سلام ہو، واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، تو اس شخص نے واپس جا کر پھر سے نماز پڑھی، پھر واپس آیا اور آ کر اس نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے پھر فرمایا : اور تمہیں بھی سلام ہو، واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، اس طرح اس نے دو بار یا تین بار کیا ہر بار وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ کو سلام کرتا اور آپ فرماتے : تم پر بھی سلام ہو، واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، تو لوگ ڈرے اور ان پر یہ بات گراں گزری کہ جس نے ہلکی نماز پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی، آخر اس آدمی نے عرض کیا، آپ ہمیں (پڑھ کر) دکھا دیجئیے اور مجھے سکھا دیجئیے، میں انسان ہی تو ہوں، میں صحیح بھی کرتا ہوں اور مجھ سے غلطی بھی ہوجاتی ہے، تو آپ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو کرو جیسے اللہ نے تمہیں وضو کرنے کا حکم دیا ہے، پھر اذان دو اور تکبیر کہو اور اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو ورنہ «الحمد لله» ، «الله أكبر» اور «لا إله إلا الله» کہو، پھر رکوع میں جاؤ اور خوب اطمینان سے رکوع کرو، اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدہ کرو، اور خوب اعتدال سے سجدہ کرو، پھر بیٹھو اور خوب اطمینان سے بیٹھو، پھر اٹھو، جب تم نے ایسا کرلیا تو تمہاری نماز پوری ہوگئی اور اگر تم نے اس میں کچھ کمی کی تو تم نے اتنی ہی اپنی نماز میں سے کمی کی ، راوی (رفاعہ) کہتے ہیں : تو یہ بات انہیں پہلے سے آسان لگی کہ جس نے اس میں سے کچھ کمی کی تو اس نے اتنی ہی اپنی نماز سے کمی کی، پوری نماز نہیں گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- رفاعہ بن رافع کی حدیث حسن ہے، رفاعہ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ اور عمار بن یاسر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٤٨ (٨٥٧ - ٨٦١) ، سنن النسائی/الأذان ٢٨ (٦٦٨) ، والتطبیق ٧٧ (١١٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٧ (٤٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦٠٤) ، مسند احمد (٤/٣٤٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٨ (١٣٦٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (804) ، صفة الصلاة / الأصل، صحيح أبي داود (803 - 807) ، الإرواء (1 / 321 - 322) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 302
پوری نماز کی ترکیب
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے اتنے میں ایک اور شخص بھی داخل ہوا، اس نے نماز پڑھی پھر آ کر نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : تم واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، چناچہ آدمی نے واپس جا کر نماز پڑھی، جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، یہاں تک اس نے تین بار ایسا کیا، پھر اس آدمی نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ لہٰذا آپ مجھے نماز پڑھنا سکھا دیجئیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم جب نماز کا ارادہ کرو تو «اللہ اکبر» کہو پھر جو تمہیں قرآن میں سے یاد ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع کی حالت میں تمہیں خوب اطمینان ہوجائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اچھی طرح کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ خوب اطمینان سے سجدہ کرلو، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اسی طرح سے اپنی پوری نماز میں کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابن نمیر نے عبیداللہ بن عمر سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن «عن أبیہ» نہیں ذکر کیا ہے، ٣- یحییٰ القطان کی روایت میں «عبداللہ بن عمر عن سعید بن أبی المقبری عن أبیہ عن أبی ہریرہ» ہے، اور یہ زیادہ صحیح۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٥ (٧٥٧) ، و ١٢٢ (٧٩٣) ، والأیمان والنذور ١٥ (٦٢٥١) ، صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٤٨ (٨٥٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧ (٨٨٥) ، والتطبیق ١٥ (١٠٥٢) ، والسہو ٦٧ (١٣١٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٢ (١٠٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٣٠٤) ، مسند احمد (٢/٤٣٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1060) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 303
پوری نماز کی ترکیب
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو حمید ساعدی (رض) کو کہتے ہیں سنا (جب) صحابہ کرام میں سے دس لوگوں کے ساتھ تھے، ان میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے، ابوحمید (رض) کہہ رہے تھے کہ میں تم میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کا سب سے زیادہ جانکار ہوں، تو لوگوں نے کہا کہ تمہیں نہ تو ہم سے پہلے صحبت رسول میسر ہوئی اور نہ ہی تم ہم سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آتے جاتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ نماز زیادہ یاد ہے) اس پر لوگوں نے کہا (اگر تم زیادہ جانتے ہو) تو پیش کرو، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو بالکل سیدھے کھڑے ہوجاتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر «الله أكبر» کہتے اور رکوع کرتے اور بالکل سیدھے ہوجاتے، نہ اپنا سر بالکل نیچے جھکاتے اور نہ اوپر ہی اٹھائے رکھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، پھر «سمع اللہ لمن حمده» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور سیدھے کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ جسم کی ہر ایک ہڈی سیدھی ہو کر اپنی جگہ پر لوٹ آتی پھر سجدہ کرنے کے لیے زمین کی طرف جھکتے، پھر «الله أكبر» کہتے اور اپنے بازوؤں کو اپنی دونوں بغل سے جدا رکھتے، اور اپنے پیروں کی انگلیاں کھلی رکھتے، پھر اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور سیدھے ہوجاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آتی، اور آپ اٹھتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ دوسری رکعت سے جب (تیسری رکعت کے لیے) اٹھتے تو «الله أكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں کرتے جیسے اس وقت کیا تھا جب آپ نے نماز شروع کی تھی، پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب وہ رکعت ہوتی جس میں نماز ختم ہو رہی ہو تو اپنا بایاں پیر مؤخر کرتے یعنی اسے داہنی طرف دائیں پیر کے نیچے سے نکال لیتے اور سرین پر بیٹھتے، پھر سلام پھیرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور ان کے قول «رفع يديه إذا قام من السجدتين» دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے کا مطلب ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٠ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1061) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 304
پوری نماز کی ترکیب
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید ساعدی (رض) کو دس صحابہ کرام کی موجودگی میں جن میں ابوقتادہ بن ربعی بھی تھے، کہتے سنا، پھر انہوں نے یحییٰ بن سعید کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث میں ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے عبدالحمید بن جعفر کے واسطے سے اس لفظ کا اضافہ کیا ہے کہ (نبی اکرم ﷺ کی نماز والی اس صفت و کیفیت کو سننے والے) صحابہ کرام (رض) اجمعین نے کہا کہ آپ نے صحیح کہا، نبی اکرم ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٠ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (304) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 305
فجر کی نماز میں قرات
قطبہ بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فجر میں پہلی رکعت میں «والنخل باسقات» پڑھتے سنا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- قطبہ بن مالک کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمرو بن حریث، جابر بن سمرہ، عبداللہ بن سائب، ابوبرزہ اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فجر میں سورة الواقعہ پڑھی، ٤- یہ بھی مروی ہے کہ آپ فجر میں ساٹھ سے لے کر سو آیتیں پڑھا کرتے تھے، ٥- اور یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے «إذا الشمس کورت» پڑھی، ٦- اور عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کو لکھا کہ فجر میں طوال مفصل پڑھا کرو ١ ؎، ٧- اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٣ (١٥١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة (٨١٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١٠٨٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد سورة ق ہے۔ ٢ ؎ : مفصل : قرآن کا آخری ساتواں حصہ ہے جو صحیح قول کے مطابق سورة ق ؔ سے شروع ہوتا ہے اور سورة البروج پر ختم ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (816) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 306
ظہر اور عصر میں قرات
جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں «وسماء ذات البروج» ، «والسماء والطارق» اور ان جیسی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر بن سمرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں خباب، ابوسعید، ابوقتادہ، زید بن ثابت اور براء بن عازب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ظہر میں «الم تنزیل» یعنی سورة السجدہ کے بقدر قرأت کی، ٤- یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺ ظہر کی پہلی رکعت میں تیس آیتوں کے بقدر اور دوسری رکعت میں پندرہ آیتوں کے بقدر قرأت کرتے تھے، عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ (رض) کو لکھا کہ تم ظہر میں «وساط مفصل» پڑھا کرو ١ ؎، ٦- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ عصر کی قرأت مغرب کی قرأت کی طرح ہوگی، ان میں (امام) «قصار مفصل» پڑھے گا ٢ ؎، ٧- اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ظہر کی قرأت عصر کی قرأت سے چار گنا ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٣١ (٨٠٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٠ (٩٨٠، ٩٨١) ، ( تحفة الأشراف : ٢١٤٧) ، مسند احمد (٥/١٠١، ١٠٣، ١٠٦، ١٠٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سورة البروج سے سورة لم یکن تک وساط مفصل ہے۔ ٢ ؎ : اور لم یکن سے اخیر تک قصار مفصل ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صفة الصلاة // 94 //، صحيح أبي داود (767) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 307
مغرب میں قرات
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے : ان کی ماں ام الفضل (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف اس حال میں نکلے کہ آپ بیماری میں اپنے سر پر پٹی باندھے ہوئے تھے، مغرب پڑھائی تو سورة مرسلات پڑھی، پھر اس کے بعد آپ نے یہ سورت نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام الفضل کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جبیر بن مطعم، ابن عمر، ابوایوب اور زید بن ثابت (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں دونوں رکعتوں میں سورة الاعراف پڑھی، اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں سورة الطور پڑھی، ٥- عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ (رض) کو لکھا کہ تم مغرب میں «قصار مفصل» پڑھا کرو، ٦- اور ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ وہ مغرب میں «قصار مفصل» پڑھتے تھے، ٧- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ٨- امام شافعی کہتے ہیں کہ امام مالک کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے مغرب میں طور اور مرسلات جیسی لمبی سورتیں پڑھنے کو مکروہ جانا ہے۔ شافعی کہتے ہیں : لیکن میں مکروہ نہیں سمجھتا، بلکہ مغرب میں ان سورتوں کے پڑھے جانے کو مستحب سمجھتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٨ (٧٦٣) ، والمغازی ٨٣ (٤٤٢٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٦٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٣٢ (٨١٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٤ (٩٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩ (٨٣١) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٥٢) ، مسند احمد (٦/٣٣٨، ٣٤٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٤ (١٣٣١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری میں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے مروی ہے «إن آخر صلاة صلاّها النبي صلی اللہ عليه وسلم في مرض موته الظهر» بظاہر ان دونوں روایتوں میں تعارض ہے ، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ جو نماز آپ نے مسجد میں پڑھی اس میں سب سے آخری نماز ظہر کی تھی ، اور آپ نے جو نمازیں گھر میں پڑھیں ان میں آخری نماز مغرب تھی ، لیکن اس توجیہ پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ام الفضل کی روایت میں ہے «خرج إلينا رسول اللہ وهو عاصب رأسه» رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے آپ سر پر پٹی باندھے ہوئے تھے جس سے لگتا ہے کہ یہ نماز بھی آپ نے مسجد میں پڑھی تھی ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہاں نکلنے سے مراد مسجد میں جانا نہیں ہے بلکہ جس جگہ آپ سوئے ہوئے تھے وہاں سے اٹھ کر گھر والوں کے پاس آنا مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (831) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 308
عشاء میں قرات
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء میں «والشمس وضحاها» اور اس جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بریدہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں براء بن عازب اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٣- نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے عشاء میں سورة «والتين والزيتون» پڑھی۔ ٤- عثمان بن عفان سے مروی ہے کہ وہ عشاء میں «وساط مفصل» کی سورتیں جیسے سورة المنافقون اور اس جیسی دوسری سورتیں پڑھا کرتے تھے، ٥- صحابہ کرام اور تابعین سے یہ بھی مروی ہے کہ ان لوگوں نے اس سے زیادہ اور اس سے کم بھی پڑھی ہے۔ گویا ان کے نزدیک معاملے میں وسعت ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے بہتر چیز جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے وہ یہ کہ آپ نے سورة «والشمس وضحاها» اور سورة «والتين والزيتون» پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٧١ (١٠٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٦٢) ، مسند احمد (٥/٣٥٤، ٣٥٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة // 97 // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 309
عشاء میں قرات
براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عشاء میں سورة «والتين والزيتون» پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠ (٧٦٦) ، و ١٠٢ (٧٦٩) ، وتفسیر التین ١ (٤٩٥٢) ، والتوحید ٥٢ (٧٥٤٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥ ٢٧ (١٢٢١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٢ (١٠٠١) ، و ٧٣ (١٠٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠ (٨٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٩١) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٥ (٢٧) ، مسند احمد (٤/٢٨٦، ٣٠٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (834) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 310
امام کے پیچھے قرآن پڑھنا
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر پڑھی، آپ پر قرأت دشوار ہوگئی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا : مجھے لگ رہا ہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو ؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں، اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : تم ایسا نہ کیا کرو سوائے سورة فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبادہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- یہ حدیث زہری نے بھی محمود بن ربیع سے اور محمود نے عبادہ بن صامت سے اور عبادہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی، یہ سب سے صحیح روایت ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، انس، ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا امام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ ائمہ کرام میں سے مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے، یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٣٦ (٨٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٥١١١) ، مسند احمد (٥/٣١٣، ٣١٦، ٣٢٢) (حسن) (البانی نے اس حدیث کو ” ضعیف “ کہا ہے، لیکن ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا ہے (٣/٣٦-٣٧) ترمذی، دارقطنی اور بیہقی نے حسن کہا ہے، ابن حجر نے بھی اس کو نتائج الافکار میں حسن کہا ہے، ملاحظہ ہو : امام الکلام مولفہ مولانا عبدالحیٔ لکھنوی ص ٧٧-٢٧٨، تراجع الالبانی ٣٤٨) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی کے اس قول میں اجمال ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ان میں سے کچھ لوگ سری اور جہری سبھی نمازوں میں قراءت کے قائل ہیں ، اور ان میں سے کچھ لوگ قرأت کے وجوب کے قائل ہیں اور کچھ لوگ اس کو مستحب کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : (حديث : .... فلا تفعلوا إلا بأم القرآن .... ) ضعيف، (حديث : لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الکتاب ) صحيح (حديث : لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الکتاب ) ، ابن ماجة (837) ، (حديث : .... فلا تفعلوا إلا بأم القرآن .... ) ، ضعيف أبي داود (146) // عندنا في ضعيف أبي داود برقم (176 / 823) ، ضعيف الجامع الصغير (2082 و 4681) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 311
اگر امام با آواز بلند پڑھے تو مقتدی قرأت نہ کرے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس نماز سے فارغ ہونے کے بعد جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا : کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے ؟ ایک شخص نے عرض کیا : جی ہاں اللہ کے رسول ! (میں نے کی ہے) آپ نے فرمایا : تبھی تو میں یہ کہہ رہا تھا : آخر کیا بات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جا رہی ہے اور مجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے ، وہ (زہری) کہتے ہیں : تو جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کے ان نمازوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں آپ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے انہیں عمرو بن اکیمہ بھی کہا جاتا ہے، زہری کے دیگر تلامذہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے «قال الزهري فانتهى الناس عن القراءة حين سمعوا ذلک من رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم» زہری نے کہا کہ لوگ قرأت سے رک گئے جس وقت ان لوگوں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ٣- اس باب میں ابن مسعود، عمران بن حصین اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے لیے رکاوٹ کا سبب بنے جن کی رائے امام کے پیچھے بھی قرأت کی ہے، اس لیے کہ ابوہریرہ (رض) ہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اور انہوں نے ہی نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناتمام ہے تو ان سے ایک شخص نے جس نے ان سے یہ حدیث اخذ کی تھی پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں ؟ ) تو انہوں نے کہا : تم اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے یہ حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، ٥- اکثر محدثین نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ جب امام بلند آواز سے قرأت کرے تو مقتدی قرأت نہ کرے، اور کہا ہے کہ وہ امام کے سکتوں کا «تتبع» کرتا رہے، یعنی وہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لیا کرے ، ٦- امام کے پیچھے قرأت کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرأت کرتا ہوں اور لوگ بھی کرتے ہیں سوائے کو فیوں میں سے چند لوگوں کے، اور میرا خیال ہے کہ جو نہ پڑھے اس کی بھی نماز درست ہے، ٧- اور اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس سلسلہ میں سختی برتی ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورة فاتحہ کا چھوڑنا جائز نہیں اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہو، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر سورة فاتحہ کے نماز کفایت نہیں کرتی، یہ لوگ اس حدیث کی طرف گئے ہیں جسے عبادہ بن صامت نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ اور خود عبادہ بن صامت (رض) نے بھی نبی اکرم ﷺ کے بعد امام کے پیچھے قرأت کی ہے، ان کا عمل نبی اکرم ﷺ کے اسی قول پر رہا ہے کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے، ٨- رہے احمد بن حنبل تو وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے فرمان سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلے نماز پڑھ رہا ہو تب سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) کی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جس نے کوئی رکعت پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ١ ؎۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں ایک شخص ہیں اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے فرمان سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکیلے پڑھ رہا ہو۔ ان سب کے باوجود احمد بن حنبل نے امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنے ہی کو پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ آدمی سورة فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٣٧ (٨٢٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٨ (٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣ (٨٤٨، ٨٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٢٦٤) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٠ (٤٤) ، مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٨٤، ٢٨٥، ٤٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ جابر (رض) کا اپنا خیال ہے ، اعتبار مرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجود ہیں وہ آراء حدیث کے ظاہر معنی کے مطابق بھی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة // 79 //، صحيح أبي داود (781) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 312
None
جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے نماز ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اس بارے میں کہ جب مسجد میں داخل ہو تو کیا کہے
فاطمہ بنت حسین اپنی دادی فاطمہ کبریٰ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو محمد ( ﷺ ) پر درود و سلام بھیجتے اور یہ دعا پڑھتے : «رب اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب رحمتک» اے میرے رب ! میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے اور جب نکلتے تو محمد ( ﷺ ) پر صلاۃ (درود) و سلام بھیجتے اور یہ کہتے : «رب اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب فضلک» اے میرے رب ! میرے گناہ بخش دے اور اپنے فضل کے دروازے میرے لیے کھول دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٣ (٧٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٤١) (صحیح) (فاطمہ بنت حسین نے فاطمہ کبری کو نہیں پایا ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ، شیخ البانی کہتے ہیں : مغفرت کے جملے کو چھوڑ کر بقیہ حدیث صحیح ہے، تراجع الألبانی ٥١٠) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (771) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 314 اسماعیل بن ابراہیم بن راہویہ کا بیان ہے کہ میں عبداللہ بن حسن سے مکہ میں ملا تو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسے بیان کیا اور کہا کہ جب آپ ﷺ داخل ہوتے تو یہ کہتے «رب افتح لي باب رحمتک» اے میرے رب ! اپنی رحمت کے دروازہ میرے لیے کھول دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- فاطمہ (رض) کی حدیث (شواہد کی بنا پر) حسن ہے، ورنہ اس کی سند متصل نہیں ہے، ٢- فاطمہ بنت حسین نے فاطمہ کبریٰ کو نہیں پایا ہے، وہ تو نبی اکرم ﷺ کے بعد چند ماہ ہی تک زندہ رہیں، ٣- اس باب میں ابوحمید، ابواسید اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الذي قبله (314) ولفظه أصح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 315
None
میں عبداللہ بن حسن سے مکہ میں ملا تو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسے بیان کیا اور کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوتے تو یہ کہتے «رب افتح لي باب رحمتك» ”اے میرے رب! اپنی رحمت کے دروازہ میرے لیے کھول دے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فاطمہ رضی الله عنہا کی حدیث ( شواہد کی بنا پر ) حسن ہے، ورنہ اس کی سند متصل نہیں ہے، ۲- فاطمہ بنت حسین نے فاطمہ کبریٰ کو نہیں پایا ہے، وہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چند ماہ ہی تک زندہ رہیں، ۳- اس باب میں ابوحمید، ابواسید اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
اس بارے میں کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہوت ودو رکعت نماز پڑھے
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن عجلان اور دیگر کئی لوگوں نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے بھی یہ حدیث روایت کی ہے جیسے مالک بن انس کی روایت ہے، ٣- سہیل بن ابی صالح ٢ ؎ نے یہ حدیث بطریق : «عامر بن عبد اللہ بن الزبير عن عمرو بن سليم الزرقي عن جابر بن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» سے روایت کی ہے، ٤ - یہ حدیث غیر محفوظ ہے اور صحیح ابوقتادہ کی حدیث ہے، اس باب میں جابر، ابوامامہ، ابوہریرہ، ابوذر اور کعب بن مالک سے بھی احادیث آئی ہیں، ہمارے اصحاب کا عمل اسی حدیث پر ہے : انہوں نے مستحب قرار دیا ہے کہ جب آدمی مسجد میں داخل ہو تو جب تک دو رکعتیں نہ پڑھ لے، نہ بیٹھے الا یہ کہ اس کے پاس کوئی عذر ہو، ٥- علی بن مدینی کہتے ہیں : سہیل بن ابی صالح کی حدیث میں غلطی ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٠ (٤٤٤) ، والتہجد ٢٥ (١١٦٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ١١ (٧١٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٩ (٤٦٧) ، سنن النسائی/المساجد ٣٧ (٧٣١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٧ (١٠١٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٢١٢٣) ، موطا امام مالک/السفر ١٨ (٥٧) ، مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اسے تحیۃ المسجد کہتے ہیں ، جمہور کے نزدیک یہ مستحب ہے اور شوافع کے نزدیک واجب۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس کی بہت تاکید ہے لیکن فرض نہیں ہے۔ ٢ ؎ : سہیل بن ابی صالح کی روایت میں «عن أبی قتادۃ» کے بجائے «عن جابر بن عبداللہ» ہے اور یہ غلط ہے کیونکہ عامر بن عبداللہ کے دیگر تلامذہ نے سہیل کی مخالفت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1013) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 316
مقبرے اور حمام کے علاوہ پوری زمین مسجد ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سوائے قبرستان اور حمام (غسل خانہ) کے ساری زمین مسجد ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ، جابر، ابن عباس، حذیفہ، انس، ابوامامہ اور ابوذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ان لوگوں نے کہا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے پوری زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور طہارت و پاکیزگی کا ذریعہ بنائی گئی ہے، ٢- ابوسعید (رض) کی حدیث عبدالعزیز بن محمد سے دو طریق سے مروی ہے، بعض لوگوں نے ابوسعید کے واسطے کا ذکر کیا ہے اور بعض نے نہیں کیا ہے، اس حدیث میں اضطراب ہے، سفیان ثوری نے بطریق : «عمرو بن يحيى عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے۔ اور حماد بن سلمہ نے یہ حدیث بطریق :«عمرو بن يحيى عن أبيه عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرفوعاً روایت کی ہے۔ اور محمد بن اسحاق نے بھی یہ حدیث بطریق :«عمرو بن يحيى عن أبيه» اور ان کا کہنا ہے کہ یحییٰ کی اکثر احادیث آئی نبی اکرم ﷺ سے ابوسعید ہی کے واسطہ سے مروی ہیں، لیکن اس میں انہوں نے ابوسعید کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، گویا ثوری کی روایت «عمرو بن يحيى عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤ (٤٩٢) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٤ (٧٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ٤٤٠٦) ، مسند احمد (٣/٨، ٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جہاں چاہو نماز پڑھو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان اور حمام میں نماز پڑھنی درست نہیں ، حمام میں اس لیے کہ یہاں نجاست ناپاکی کا شک رہتا ہے اور قبرستان میں ممانعت کا سبب شرک سے بچنے کے لیے سد باب کے طور پر ہے۔ بعض احادیث میں کچھ دیگر مقامات پر نماز ادا کرنے سے متعلق بھی ممانعت آئی ہے ، ان کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (745) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 317
مسجد بنانے کی فضلیت
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی، تو اللہ اس کے لیے اسی جیسا گھر بنائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عثمان (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوبکر، عمر، علی، عبداللہ بن عمرو، انس، ابن عباس، عائشہ، ام حبیبہ، ابوذر، عمرو بن عبسہ، واثلہ بن اسقع، ابوہریرہ اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤ (٥٣٣) ، والزہد ٣ (٤٤/٥٣٣) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١ (٧٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩٨٣٧) ، مسند احمد (١/٦٠، ٧٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ مثلیت کمیت کے اعتبار سے ہوگی ، کیفیت کے اعتبار سے یہ گھر اس سے بہت بڑھا ہوا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (736) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 318
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کے لیے کوئی مسجد بنائی، چھوٹی ہو یا بڑی، اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا“۔
قبر کے پاس مسجد بنانا مکروہ ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مساجد بنانے والے اور چراغ جلانے والے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٨٢ (٣٢٣٦) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠٤ (٢٠٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٩ (١٥٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٧) ، مسند احمد (١/٢٢٩، ٢٨٧، ٣٢٤، ٣٣٧) (ضعیف) (سند میں ” ابو صالح باذام مولیٰ ام ہانی ضعیف ہیں، مسجد میں صرف چراغ جلانے والی بات ضعیف ہے، بقیہ دو باتوں کے صحیح شواہد موجود ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، و، الصحيحة بلفظ : زوارات دون السرج ، ابن ماجة (1575) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 320
مسجد میں سونا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجد میں سوتے تھے اور ہم نوجوان تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم میں کی ایک جماعت نے مسجد میں سونے کی اجازت دی ہے، ابن عباس کہتے ہیں : کوئی اسے سونے اور قیلولے کی جگہ نہ بنائے ١ ؎ اور بعض اہل علم ابن عباس کے قول کی طرف گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن ابن ماجہ/المساجد ٦ (٧٥١) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٦) ، و مسند احمد (١/١٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحابہ کرام اور سلف صالحین مسجد میں سویا کرتے تھے ، اس لیے جواز میں کوئی شبہ نہیں ابن عباس (رض) کا یہ کہنا ٹھیک ہی ہے کہ جس کا گھر اسی محلے میں ہو وہ مسجد میں رات نہ گزارے اسی کے قائل امام مالک بھی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (751) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 321
مسجد میں خرید و فروخت گم شدہ چیزوں پوچھ گچھ اور شعر پڑھنا مکروہ ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اشعار پڑھنے، خرید و فروخت کرنے، اور جمعہ کے دن نماز (جمعہ) سے پہلے حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- عمرو کے باپ شعیب : محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کے بیٹے ہیں ١ ؎، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ میں نے احمد اور اسحاق بن راہویہ کو (اور ان دونوں کے علاوہ انہوں نے کچھ اور لوگوں کا ذکر کیا ہے) دیکھا کہ یہ لوگ عمرو بن شعیب کی حدیث سے استدلال کرتے تھے، محمد بن اسماعیل کہتے ہیں کہ شعیب بن محمد نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے سنا ہے، ٣ - جن لوگوں نے عمرو بن شعیب کی حدیث میں کلام کرنے والوں نے انہیں صرف اس لیے ضعیف قرار دیا ہے کہ وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو (رض) ) کے صحیفے (صحیفہ الصادقہ) سے روایت کرتے ہیں، گویا ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ احادیث انہوں نے اپنے دادا سے نہیں سنی ہیں ٢ ؎ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید (قطان) سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : عمرو بن شعیب کی حدیث ہمارے نزدیک ضعیف ہے، ٤- اس باب میں بریدہ، جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مسجد میں خرید و فروخت کو مکروہ قرار دیا ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں ٣ ؎، ٦- اور تابعین میں سے بعض اہل علم سے مسجد میں خرید و فروخت کرنے کی رخصت مروی ہے، ٧- نیز نبی اکرم ﷺ سے حدیثوں میں مسجد میں شعر پڑھنے کی رخصت مروی ہے ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٢٠ (١٠٧٩) ، سنن النسائی/المساجد ٢٣ (٧١٤) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٥ (٧٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٩٦) ، مسند احمد (٢/١٧٩) (حسن) (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس طرح شعیب کے والد محمد بن عبداللہ ہوئے جو عمرو کے دادا ہیں ، اور شعیب کے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص ہوئے۔ ٢ ؎ : صحیح قول یہ ہے کہ شعیب بن محمد کا سماع اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ثابت ہے ، اور «عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ» کے طریق سے جو احادیث آئی ہیں وہ صحیح اور مطلقاً حجت ہیں ، بشرطیکہ ان تک جو سند پہنچتی ہو وہ صحیح ہو۔ ٣ ؎ : یہی جمہور کا قول ہے اور یہی حق ہے اور جن لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے ان کا قول کسی صحیح دلیل پر مبنی نہیں بلکہ صحیح احادیث اس کی تردید کرتی ہیں۔ ٤ ؎ : مسجد میں شعر پڑھنے کی رخصت سے متعلق بہت سی احادیث وارد ہیں ، ان دونوں قسم کی روایتوں میں دو طرح سے تطبیق دی جاتی ہے : ایک تو یہ کہ ممانعت والی روایت کو نہی تنزیہی پر یعنی مسجد میں نہ پڑھنا بہتر ہے ، اور رخصت والی روایتوں کو بیان جواز پر محمول کیا جائے ، دوسرے یہ کہ مسجد میں فحش اور مخرب اخلاق اشعار پڑھنا ممنوع ہے ، رہے ایسے اشعار جو توحید ، اتباع سنت اور اصلاح معاشرہ وغیرہ اصلاحی مضامین پر مشتمل ہوں تو ان کے پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ حسان بن ثابت (رض) سے خود رسول اللہ ﷺ پڑھوایا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (749) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 322
وہ مسجد جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہو
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ بنی خدرہ کے ایک شخص اور بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص کے درمیان بحث ہوگئی کہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ١ ؎ تو خدری نے کہا : وہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد (یعنی مسجد نبوی) ہے، دوسرے نے کہا : وہ مسجد قباء ہے، چناچہ وہ دونوں اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : وہ یہ مسجد ہے، یعنی مسجد نبوی اور اس میں (یعنی مسجد قباء میں) بھی بہت خیر و برکت ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- علی بن عبداللہ بن المدینی نے یحییٰ بن سعید القطان سے (سند میں موجود راوی) محمد بن ابی یحییٰ اسلمی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : ان میں کوئی قابل گرفت بات نہیں ہے، اور ان کے بھائی انیس بن ابی یحییٰ ان سے زیادہ ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٤٤٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سورة التوبہ میں ارشاد الٰہی «لمسجد أسس علی التقوی من أول يوم» سے کون سی مسجد مراد ہے ؟ ٢ ؎ : یہ حدیث صرف اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہے کہ «لمسجد أسس علی التقوی» سے مراد مسجد نبوی ہی ہے ، بلکہ آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ اس مسجد نبوی کی بھی تقویٰ پر ہی بنیاد ہے ، یہ مطلب لوگوں نے اس لیے لیا ہے کہ قرآن میں سیاق و سباق سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ ارشاد ربانی مسجد قباء کے بارے میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 323
مسجد قباء میں نماز پڑھنا
اسید بن ظہیر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسجد قباء میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اسید کی حدیث حسن، غریب ہے، ٢- اس باب میں سہل بن حنیف (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- ہم اسید بن ظہیر کی کوئی ایسی چیز نہیں جانتے جو صحیح ہو سوائے اس حدیث کے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٧ (١٤١١) (تحفة الأشراف : ١٥٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مسجد قباء میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے ثواب کے برابر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1411) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 324
کونسی مسجد افضل ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری اس مسجد کی ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے زیادہ بہتر ہے، سوائے مسجد الحرام کے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- کئی سندوں سے مروی ہے، ٣- اس باب میں علی، میمونہ، ابوسعید، جبیر بن مطعم، ابن عمر، عبداللہ بن زبیر اور ابوذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة فی مسجد مکة والمدینة ١ (١١٩٠) ، صحیح مسلم/الحج ٩٤ (١٣٩٤) ، سنن النسائی/المساجد ٧ (٦٩٥) ، والحج ١٢٤ (٢٩٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٥ (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٤) ، وکذا (١٣٥٥١ و ٤٩٦٠) ، موطا امام مالک/القبلة ٥ (٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٤١، ٢٥٦، ٢٧٧، ٢٧٨، ٣٨٦، ٤٦٦، ٤٦٨، ٤٧٣، ٤٨٤، ٤٨٥، ٤٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣١ (١٤٥٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1404 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 325
کونسی مسجد افضل ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین مساجد کے سوا کسی اور جگہ کے لیے سفر نہ کیا جائے، ١- مسجد الحرام کے لیے، ٢- میری اس مسجد (مسجد نبوی) کے لیے، ٣- مسجد الاقصیٰ کے لیے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة في مسجد مکة والمدینة ١ (١١٨٨) ، و ٦ (١١٩٧) ، وجزاء الصید ٢٦ (١٨٦٤) ، والصوم ٨٧ (١٩٩٥) ، صحیح مسلم/المناسک ٧٤ (٤١٥/٨٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٦ (١٤١٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٧٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ثواب کی نیت سے سفر نہ کیا جائے ، مگر صرف انہی تین مساجد کی طرف ، اس سے کوئی بھی چوتھی مسجد اور تمام مساجد و مقابر خارج ہوگئے ، حتیٰ کہ قبر نبوی کی زیارت کی نیت سے بھی سفر جائز نہیں ، ہاں مسجد نبوی کی نیت سے مدینہ جانے پر قبر نبوی کی مشروع زیارت جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1409) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 326
مسجد کی طرف جانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز کی تکبیر (اقامت) کہہ دی جائے تو (نماز میں سے) اس کی طرف دوڑ کر مت آؤ، بلکہ چلتے ہوئے اس حال میں آؤ کہ تم پر سکینت طاری ہو، تو جو پاؤ اسے پڑھو اور جو چھوٹ جائے، اسے پوری کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابوقتادہ، ابی بن کعب، ابوسعید، زید بن ثابت، جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- اہل علم کا مسجد کی طرف چل کر جانے میں اختلاف ہے : ان میں سے بعض کی رائے ہے کہ جب تکبیر تحریمہ کے فوت ہونے کا ڈر ہو، وہ دوڑے یہاں تک کہ بعض لوگوں کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ نماز کے لیے قدرے دوڑ کر جاتے تھے اور بعض لوگوں نے دوڑ کر جانے کو مکروہ قرار دیا ہے اور آہستگی و وقار سے جانے کو پسند کیا ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، ان دونوں کا کہنا ہے کہ عمل ابوہریرہ (رض) کی حدیث پر ہے۔ اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر تکبیر تحریمہ کے چھوٹ جانے کا ڈر ہو تو دوڑ کر جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٨ (٩٠٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٨ (٦٠٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥٧ (٥٧٢) ، سنن النسائی/الإمامة ٥٧ (٨٦٢) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٤ (٧٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٢٨٩) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٤) ، مسند احمد (٢/٢٣٧، ٢٣٨، ٢٣٩، ٢٧٠، ٢٧٢، ٢٨٢، ٣١٨، ٣٨٢، ٣٨٧، ٤٢٧، ٤٥٢، ٤٦٠، ٤٧٣، ٤٨٩، ٥٢٩، ٥٣٢، ٥٣٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٩ (١٣١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (775) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 327
مسجد کی طرف جانا
اس سند سے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کے ساتھ مروی ہے جیسے ابوسلمہ کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ اسی طرح کہا ہے عبدالرزاق نے وہ روایت کرتے ہیں کہ سعید بن المسیب سے اور سعید بن مسیب نے بواسطہ ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور یہ یزید بن زریع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٣٣٠٥) ، وأخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عبدالرزاق کا اپنی روایت میں «عن سعید بن المسیب عن ابی ہریرہ» کہنا یزید بن زریع کی روایت میں «عن ابی سلمہ عن ابی ہریرہ» کہنے سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ سفیان نے عبدالرزاق کی متابعت کی ہے ، ان کی روایت میں بھی «عن سعید بن المسیب عن ابی ہریرہ» ہی ہے ، جیسا کہ اگلی روایت میں ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 328
مسجد کی طرف جانا
اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٧ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 329
نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنے کی فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ اس کا انتظار کرتا ہے اور فرشتے اس کے لیے برابر دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں رہتا ہے، کہتے ہیں «اللهم اغفر له» اللہ ! اسے بخش دے «اللهم ارحمه» اے اللہ ! اس پر رحم فرما جب تک وہ «حدث» نہیں کرتا ، تو حضر موت کے ایک شخص نے پوچھا : «حدث» کیا ہے ابوہریرہ ؟ تو ابوہریرہ (رض) نے کہا : آہستہ سے یا زور سے ہوا خارج کرنا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابوسعید، انس، عبداللہ بن مسعود اور سہل بن سعد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٤ (١٧٦) ، والصلاة ١٦١ (٤٤٥) ، و ٨٧ (٤٧٧) ، والأذان ٣٠ (٦٤٧) ، و ٣٦ والبیوع ٤٩ (٢٠١٣) ، وبدء الخلق ٧ (٣٢٢٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٩ (٦٤٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠ (٤٦٩) ، سنن النسائی/المساجد ٤٠ (٧٣٤) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٩ (٧٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٧٢٣) ، مسند احمد (٢/٢٦٦، ٢٨٩، ٣١٢، ٣١٩، ٣٩٤، ٤١٥، ٤٢١، ٤٨٦، ٥٠٢) ، موطا امام مالک/الصلاة ٢٧ (٥١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے مسجد میں بیٹھ کر نماز کے انتظار کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد میں «حدث» کرنا فرشتوں کے استغفار سے محرومی کا باعث ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (799) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 330
چٹائی پر نماز پڑھنے کے بارے میں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ «خمرہ» چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام حبیبہ، ابن عمر، ام سلیم، عائشہ، میمونہ، ام کلثوم بنت ابی سلمہ بن عبدالاسد (ام کلثوم بنت ابی سلمہ نے نبی اکرم ﷺ سے نہیں سنا ہے) اور ام سلمہ (رض) سے احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کا یہی خیال ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے «خمرہ» پر نماز ثابت ہے، ٤- «خمرہ» چھوٹی چٹائی کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦١١٥) ، وانظر : مسند احمد (١/٢٦٩، ٣٠٩، ٣٢، ٣٥٨) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 331
چٹائی پر نماز پڑھنے کے بارے میں
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چٹائی پر نماز پڑھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں انس اور مغیرہ بن شعبہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، البتہ اہل علم کی ایک جماعت نے زمین پر نماز پڑھنے کو استحباباً پسند کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٩) ، والصلاة ٤٨ (٦٦١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٣ (١٠٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ٣٩٨٢) ، مسند احمد (٣/١٠، ٥٢، ٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں «حصیر» اور اوپر والی میں « خمرہ» کا لفظ آیا ہے ، فرق یہ ہے کہ «خمرہ» چھوٹی ہوتی ہے اس پر ایک آدمی ہی نماز پڑھ سکتا ہے اور حصیر بڑی اور لمبی ہوتی ہے جس پر ایک سے زیادہ آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں ، دونوں ہی کھجور کے پتوں سے بنی جاتی تھیں ، اور اس زمانہ میں ٹاٹ ، پلاسٹک ، اون اور کاٹن سے مختلف سائز کے مصلے تیار ہوتے ہیں ، عمدہ اور نفیس قالین بھی بنائے جاتے ہیں ، جو مساجد اور گھروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مذکور بالا حدیث میں ان کے جواز کی دلیل پائی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1029) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 332
بچھونوں پر نماز پڑھنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے گھل مل جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ میرے چھوٹے بھائی سے کہتے : ابوعمیر ! «ما فعل النغير» بلبل کا کیا ہوا ؟ ہماری چٹائی ١ ؎ پر چھڑکاؤ کیا گیا پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ وہ چادر اور قالین پر نماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٨١ (٦١٢٩) ، و ١١٢ (٦٢٠٣) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٦٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٤ (٣٧٢٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٩٢) ، مسند احمد (٣/٢١٢) ، ویأتي عند المؤلف في البر والصلة برقم : (١٩٨٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «بساط» یعنی بچھاون سے مراد چٹائی ہے کیونکہ یہ زمین پر بچھائی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3720 - 3740) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 333
باغوں میں نماز پڑھنا
معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ باغات میں نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حیطان سے مراد «بساتین» باغات ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : معاذ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم حسن بن ابی جعفر ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور حسن بن ابی جعفر کو یحییٰ بن سعید وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٣٢٣) (ضعیف) (سند میں حسن بن ابی جعفر ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4270) // ضعيف الجامع الصغير (4554) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 334
نمازی کا سترہ
طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم سے کوئی اپنے آگے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھے اور اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے آگے سے کون گزرا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- طلحہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، سہل بن ابی حثمہ، ابن عمر، سبرہ بن معبد جہنی، ابوجحیفہ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٤٩٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٠٢ (٦٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٦ (٩٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠١١) ، مسند احمد (١/١٦١، ١٦٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎: سترہ ایسی چیز ہے جسے نمازی اپنے آگے نصب کرے یا کھڑا کرے، خواہ وہ دیوار ہو یاس تون، نیزہ ہو یا لکڑی وغیرہ تاکہ یہ گزرنے والے اور نمازی کے درمیان آڑ رہے، اس کی سخت تاکید ہے، نیز میدان یا مسجد میں اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں ہے، اور خانہ کعبہ میں سترہ کے آگے سے گزرنے والی حدیثیں ضعیف ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (940) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 335
نمازی کے آگے سے گذرنا مکروہ ہے
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد جہنی نے انہیں ابوجہیم (رض) کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے یہ پوچھیں کہ انہوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کیا سنا ہے ؟ تو ابوجہیم (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اگر مصلی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر کیا (گناہ) ہے تو اس کے لیے مصلی کے آگے سے گزرنے سے چالیس … تک کھڑا رہنا بہتر ہوگا۔ ابونضر سالم کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے چالیس دن کہا، یا چالیس مہینے کہا یا چالیس سال۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوجہیم (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : تم میں سے کسی کا سو سال کھڑے رہنا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کے سامنے سے گزرے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو ، ٤- اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے، ان لوگوں نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو مکروہ جانا ہے، لیکن ان کی یہ رائے نہیں کہ آدمی کی نماز کو باطل کر دے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠١ (٥١٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٠٩ (٧٠١) ، سنن النسائی/القبلة ٨ (٧٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٧ (٩٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٨٤) ، موطا امام مالک/قصرالصلاة ١٠ (٣٤) ، مسند احمد (٤/١٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٠ (١٤٥٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (945) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 336
نمازی کے آگے سے گذرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر (اپنے بھائی) فضل (رض) کے پیچھے سوار تھا، ہم آئے اور نبی اکرم ﷺ منیٰ میں صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے، ہم گدھی سے اترے اور صف میں مل گئے۔ اور وہ (گدھی) ان لوگوں کے سامنے پھرنے لگی، تو اس نے ان کی نماز باطل نہیں کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، فضل بن عباس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ نماز کو کوئی چیز باطل نہیں کرتی، سفیان ثوری اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١٨ (٧٦) والصلاة ٩٠ (٤٩٣) ، والأذان ١٦١ (٨٦١) ، وجزاء الصید ٢٥ (١٨٥٧) ، والمغازي ٧٧ (٤٤١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١١٣ (٧١٥) ، سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٨ (٩٤٧) (تحفة الأشراف : ٥٨٣٤) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٦٤، ٢٦٥، ٣٣٧، ٣٤٢، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٩ (١٤٥٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں ہے کہ کوئی بھی چیز نماز کو باطل نہیں کرتی ، جبکہ اگلی حدیث میں ہے کہ کتا ، گدھا اور عورت کے مصلی کے آگے سے گزرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے ، ان دونوں حدیثوں میں اس طرح جمع کیا گیا ہے ، ١- صحیح بخاری میں وہ گدھی ان لوگوں کے سامنے سے گزری تو اس سے ان کی نماز باطل نہیں ہوئی کا جملہ نہیں ہے اصل واقعہ صرف یہ ہے کہ گدھی یا وہ دونوں صرف صف کے بعض حصوں سے گزرے تھے جبکہ امام ( آپ ﷺ ) کا سترہ صف کے ان حصوں کا سترہ بھی ہوگیا تھا ( آپ خصوصا میدان میں بغیر سترہ کے نماز پڑھتے ہی نہیں تھے ) ٢- پہلی حدیث یا اس معنی کی دوسری حدیثوں سے اس بات پر استدلال کسی طرح واضح نہیں ہے ، ٣- جبکہ اگلی حدیث قولی میں امت کے لیے خاص حکم ہے ، اور زیادہ صحیح حدیث ہے ، اس لیے مذکورہ تینوں چیزوں کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے ( باطل کا معنی اگلی حدیث کے حاشیہ میں ملاحظہ کریں ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (947) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 337
نماز کتے گدھے اور عورت کے گزرنے کے علاوہ کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی نماز پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی آخری (لکڑی یا کہا : کجاوے کی بیچ کی لکڑی کی طرح) کوئی چیز نہ ہو تو : کالے کتے، عورت اور گدھے کے گزرنے سے اس کی نماز باطل ہوجائے گی ١ ؎ میں نے ابوذر سے کہا : لال، اور سفید کے مقابلے میں کالے کی کیا خصوصیت ہے ؟ انہوں نے کہا : میرے بھتیجے ! تم نے مجھ سے ایسے ہی پوچھا ہے جیسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا : کالا کتا شیطان ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوذر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، حکم بن عمرو بن غفاری، ابوہریرہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گدھا، عورت اور کالا کتا نماز کو باطل کردیتا ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں : مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا کتا نماز باطل کردیتا ہے لیکن گدھے اور عورت کے سلسلے میں مجھے کچھ تذبذب ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : کالے کتے کے سوا کوئی اور چیز نماز باطل نہیں کرتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٠ (٥١٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١١٠ (٧٠٢) ، سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٨ (٩٥٢) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٣٩) ، مسند احمد (٥/١٤٩، ٥٥١، ١٦٠، ١٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٨ (١٤٥٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کے ثواب اور اس کی برکت میں کمی واقع ہونا ہے ، سرے سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں ، بعض علماء بالکل باطل ہوجانے کے بھی قائل ہیں کیونکہ ظاہری الفاظ سے یہی ثابت ہوتا ہے ، اس لیے مصلے کو سترہ کی طرف نماز پڑھنے کی از حد خیال کرنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (952) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 338
ایک کپڑے میں نماز پڑھنا
عمر بن ابی سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے گھر میں اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا، کہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمر بن ابی سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، جابر، سلمہ بن الاکوع، انس، عمرو بن ابی اسید، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، کیسان، ابن عباس، عائشہ، ام ہانی، عمار بن یاسر، طلق بن علی، اور عبادہ بن صامت انصاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین وغیرہم سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ آدمی دو کپڑوں میں نماز پڑھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤ (٣٥٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٧٨ (٦٢٨) ، سنن النسائی/القبلة ١٤ (٧٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٩ (١٠٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦٨٤) ، وکذا (١٠٦٨٢) ، موطا امام مالک/الجماعة ٩ (٢٩) ، مسند احمد (٤/٢٦، ٢٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : شیخین کی روایت میں «واضعاً طرفيه علی عاتقيه» کا اضافہ ہے یعنی آپ اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے ، اس سے ثابت ہوا کہ اگر ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھے تو دونوں کندھوں کو ضرور ڈھانکے رہے ، ورنہ نماز نہیں ہوگی ، اس بابت بعض واضح روایات مروی ہیں ، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ نے اس وقت سر کو نہیں ڈھانکا تھا ، ایک کپڑے میں سر کو ڈھانکا ہی نہیں جاسکتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1049) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 339
قبلے کی ابتدائ
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینے آئے تو سولہ یا سترہ ماہ تک آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور رسول اللہ ﷺ کعبہ کی طرف رخ کرنا پسند فرماتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے «قد نری تقلب وجهك في السماء فلنولينک قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام» ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں، اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیجئے نازل فرمائی، تو آپ نے اپنا چہرہ کعبہ کی طرف پھیرلیا اور آپ یہی چاہتے بھی تھے، ایک شخص نے آپ کے ساتھ عصر پڑھی، پھر وہ انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا اور وہ لوگ عصر میں بیت المقدس کی طرف چہرہ کئے رکوع کی حالت میں تھے، اس نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس حال میں نماز پڑھی ہے کہ آپ اپنا رخ کعبہ کی طرف کئے ہوئے تھے، تو وہ لوگ بھی رکوع کی حالت ہی میں (خانہ کعبہ کی طرف) پھرگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- براء کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، عمارہ بن اوس، عمرو بن عوف مزنی اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٠ (٤٠) ، والصلاة ٣١ (٣٩٩) ، وتفسیر البقرة ١٢ (٤٤٨٦) ، و ١٨ (٤٤٩٢) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٥٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢ (٥٢٥) ، سنن النسائی/الصلاة ٢٢ (٤٨٩، ٤٩٠) ، والقبلة ١ (٧٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٦ (١٠١٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٤) ، وکذا (١٨٤٩) ، مسند احمد (٤/٢٨٣، ٣٠٤) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرة (٢٩٦٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة (56) ، الإرواء (290) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 340 عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں وہ لوگ نماز فجر میں رکوع میں تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٢ (٤٠٣) ، وتفسیر البقرة ١٤ (٤٤٨٨) ، و ١٦ (٤٤٩٠) ، و ١٧ (٤٤٩١) ، و ٨ (٤٤٩٢) ، و ١٩ (٤٤٩٣) ، و ٢٠ (٤٤٩٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٢ (٥٢٦) ، سنن النسائی/الصلاة ٢٤ (٤٩٤) ، والقبلة ٣ (٧٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ٧١٥٤) ، وکذا (٧٢٢٨) ، موطا امام مالک/القبلة ٤ (٦) ، مسند احمد (٢/١١٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ قباء کا واقعہ ہے اس میں اور اس سے پہلے والی روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے ، کیونکہ جو لوگ مدینہ میں تھے انہیں یہ خبر عصر کے وقت ہی پہنچ گئی تھی ( جیسے بنو حارثہ کے لوگ ) اور قباء کے لوگوں کو یہ خبر دیر سے دوسرے دن نماز فجر میں پہنچی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة // 57 //، الإرواء (290) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 341
None
وہ لوگ نماز فجر میں رکوع میں تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔
مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٦ (١٠١١) ، ( تحفة الأشراف : ١٥١٢٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ ان ملکوں کے لیے ہے جو قبلے کے شمال ( اُتر ) یا جنوب ( دکھن ) میں واقع ہیں ، جیسے مدینہ ( شمال میں ) اور یمن ( جنوب میں ) اور بر صغیر ہندو پاک یا مصر وغیرہ کے لوگوں کے لیے اسی کو یوں کہا جائیگا شمال اور جنوب کے درمیان جو فضا کا حصہ ہے وہ سب قبلہ ہے یعنی اپنے ملک کے قبلے کی سمت میں ذرا سا ٹیڑھا کھڑا ہونے میں ( جو جان بوجھ کر نہ ہو ) کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1011) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 342
مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے
یحییٰ بن موسیٰ کا بیان ہے کہ ہم سے محمد بن ابی معشر نے بھی اسی کے مثل بیان کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث ان سے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ٢- بعض اہل علم نے ابومعشر کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔ ان کا نام نجیح ہے، وہ بنی ہاشم کے مولیٰ ہیں، ٣- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : میں ان سے کوئی روایت نہیں کرتا حالانکہ لوگوں نے ان سے روایت کی ہے نیز بخاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر مخرمی کی حدیث جسے انہوں نے بسند «عثمان بن محمد اخنسی عن سعید المقبری عن أبی ہریرہ» روایت کی ہے، ابومعشر کی حدیث سے زیادہ قوی اور زیادہ صحیح ہے (یہ حدیث آگے آرہی ہے جو اسی معنی کی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 343
مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے وہ سب قبلہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- کئی صحابہ سے مروی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے۔ ان میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، اور ابن عباس (رض) بھی شامل ہیں، ابن عمر (رض) کہتے ہیں : جب آپ مغرب کو دائیں طرف اور مشرق کو بائیں طرف رکھ کر قبلہ رخ کھڑے ہوں گے تو ان دونوں سمتوں کے درمیان جو ہوگا وہ قبلہ ہوگا، ابن مبارک کہتے ہیں : مشرق و مغرب کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے، یہ اہل مشرق ١ ؎ کے لیے ہے۔ اور عبداللہ بن مبارک نے اہل مرو ٢ ؎ کے لیے بائیں طرف جھکنے کو پسند کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٢ (تحفة الأشراف : ٢٩٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں مشرق سے مراد وہ ممالک ہیں جن پر مشرق کا اطلاق ہوتا ہے جیسے عراق۔ ٢ ؎ : قاموس میں ہے کہ مرو ایران کا ایک شہر ہے اور علامہ محمد طاہر مغنی میں کہتے ہیں کہ یہ خراسان کا ایک شہر ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 344
کہ جو شخص اندھیرے میں قبلہ کی طرف منہ کئے بغیر نماز پڑھ لے
عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک تاریک رات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ تو ہم نہیں جان سکے کہ قبلہ کس طرف ہے، ہم میں سے ہر شخص نے اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لی جس طرف پہلے سے اس کا رخ تھا۔ جب ہم نے صبح کی اور نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا چناچہ اس وقت آیت کریمہ «فأينما تولوا فثم وجه الله» تم جس طرف رخ کرلو اللہ کا منہ اسی طرف ہے نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ہم اسے صرف اشعث بن سمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور اشعث بن سعید ابوالربیع سمان حدیث کے معاملے میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، ٢- اکثر اہل علم اسی کی طرف گئے ہیں کہ جب کوئی بدلی میں غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ لے پھر نماز پڑھ لینے کے بعد پتہ چلے اس نے غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے تو اس کی نماز درست ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٠ (١٠٢٠) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرة (٢٩٥٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٣٥) (حسن صحیح) (سند میں اشعث بن سعید السمان متکلم فیہ راوی ہیں، حتی کہ بعض علماء نے بڑی شدید جرح کی ہے، اور انہیں غیر ثقہ اور منکر الحدیث بلکہ متروک الحدیث قرار دیا ہے، لیکن امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ نہ تو متروک ہے اور نہ محدثین کے یہاں حافظ حدیث ہے، ابو احمد الحاکم کہتے ہیں : ليس بالقوي عندهم یعنی محدثین کے یہاں اشعث زیادہ قوی راوی نہیں ہے، ابن عدی کہتے ہیں : اس کی احادیث میں سے بعض غیر محفوظ ہیں، اور ضعف کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جائیں گی (تہذیب الکمال ٥٢٣) خلاصہ یہ کہ ان کی احادیث کو شواہد ومتابعات کے باب میں جانچا اور پرکھا جائے گا اسی کو اعتبار کہتے ہیں، اور ترمذی نے سند پر کلام کر کے اشعث کے بارے لکھا ہے کہ حدیث میں ان کی تضعیف کی گئی ہے، اور اکثر علماء کا فتویٰ بھی اسی حدیث کے مطابق ہے، اس شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1020) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 345
اس چیز کے متعلق جس کی طرف یا جس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سات مقامات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے : کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ میں، مذبح میں، قبرستان میں، عام راستوں پر، حمام (غسل خانہ) میں اونٹ باندھنے کی جگہ میں اور بیت اللہ کی چھت پر۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ٤ (٧٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ٧٦٦٠) (ضعیف) (سند میں زید بن جبیرہ متروک الحدیث ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (746) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (161) نحوه، الإرواء (287) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 346
اس چیز کے متعلق جس کی طرف یا جس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے
اس سند سے بھی اس مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث کی سند کوئی زیادہ قوی نہیں ہے، زید بن جبیرۃ کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے، ٢- زید بن جبیر کوفی ان سے زیادہ قوی اور ان سے پہلے کے ہیں انہوں نے ابن عمر (رض) سے سنا ہے، ٣- اس باب میں ابو مرثد کناز بن حصین، جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- لیث بن سعد نے یہ حدیث بطریق : «عبد اللہ بن عمر العمري عن نافع عن ابن عمر عن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔ داود کی حدیث جسے انہوں نے بطریق : «عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» سے روایت کی ہے۔ لیث بن سعد کی حدیث سے زیادہ قرین صواب اور زیادہ صحیح ہے، عبداللہ بن عمر عمری کو بعض اہل حدیث نے ان کے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانا ہے، انہیں میں سے یحییٰ بن سعیدالقطان بھی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 347
بکریوں اور اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو ١ ؎ اور اونٹ باندھنے کی جگہ میں نہ پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ١٤٥٦٧) ، وانظر مسند احمد (٢/٤٥١، ٤٩١، ٥٠٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «صلوا في مرابض الغنم» میں امر اباحت کے لیے ہے یعنی بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنا جائز اور مباح ہے تم اس میں نماز پڑھ سکتے ہو اور «ولا تصلوا في أعطان الإبل» میں نہی تحریمی ہے ، یعنی حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (768) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 348
بکریوں اور اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
اس سند سے بھی اسی کے مثل یا اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ہمارے اصحاب کے نزدیک عمل اسی پر ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٢- ابوحصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق : «أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے غریب ہے، ٣- اسے اسرائیل نے بطریق : «أبي حصين عن أبي صالح عن أبي هريرة» موقوفاً روایت کیا ہے، اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٤- اس باب میں جابر بن سمرہ، براء، سبرہ بن معبد جہنی، عبداللہ بن مغفل، ابن عمر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٢٨٤٩) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 349
بکریوں اور اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٦ (٢٣٤) ، والصلاة ٤٩ (٤٢٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١ (٥٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٩٣) ، مسند احمد (٣/١٢٣، ١٣١، ١٩٤، ٢١٢، ٢٤٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 350
سواری پر نماز پڑھنا خواہ اس کا رخ جدھر بھی ہو
جابر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے ایک ضرورت سے بھیجا تو میں ضرورت پوری کر کے آیا تو (دیکھا کہ) آپ اپنی سواری پر مشرق (پورب) کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، اور سجدہ رکوع سے زیادہ پست تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث دیگر اور سندوں سے بھی جابر سے مروی ہے، ٢- اس باب میں انس، ابن عمر، ابوسعید، عامر بن ربیعہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اسی پر بیشتر اہل علم کے نزدیک عمل ہے، ہم ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتے، یہ لوگ آدمی کے اپنی سواری پر نفل نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، خواہ اس کا رخ قبلہ کی طرف ہو یا کسی اور طرف ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٧٧ (١٢٢٧) ، وراجع أیضا : صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٤٠) ، سنن النسائی/السہو ٦ (١١٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٩ (١٠١٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢٧٥٠) ، مسند احمد (٣/٣٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : واضح رہے کہ یہ جواز صرف سنن و نوافل کے لیے ہے ، نہ کہ فرائض کے لیے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1112) دون السجود صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 351
سواری کی طرف نماز پڑھنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے اونٹ یا اپنی سواری کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی، نیز اپنی سواری پر نماز پڑھتے رہتے چاہے وہ جس طرف متوجہ ہوتی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہی بعض اہل علم کا قول ہے کہ اونٹ کو سترہ بنا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٠٤ (٦٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ٧٩٠٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٦ (١٤٥٢) ، وراجع إیضا : صحیح البخاری/الصلاة ٥٠ (٤٣٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پچھلی حدیث کے حاشیہ میں امام ترمذی نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ، ایسے میں شرط صرف یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت منہ قبلہ کی طرف کر کے اس کے بعد سواری چاہے جدھر جائے ، لیکن یہ صرف نفل نمازوں میں تھا ، فرض نماز میں سواری سے اتر کر قبلہ رخ ہو کر ہی پڑھتے تھے۔ ٢ ؎ : اور وہ جو گزرا کہ آپ اونٹوں کے باڑے میں نماز نہیں پڑھتے تھے اور اس سے منع فرمایا ، تو باڑے کے اندر معاملہ دوسرا ہے ، اور کہیں راستے میں صرف اونٹ کو بیٹھا کر اس کے سامنے پڑھنے کا معاملہ دوسرا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة // 55 //، صحيح أبي داود (691 - 1109) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 352
نماز کے لئے جماعت کھڑی ہوجائے اور کھانا حاضر ہو تو کھانا پہلے کھایا جائے
انس (رض) سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز کھڑی کردی جائے ١ ؎ تو پہلے کھالو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، ابن عمر، سلمہ بن اکوع، اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ انہیں میں سے ابوبکر، عمر اور ابن عمر (رض) بھی ہیں، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کھانا کھائے اگرچہ جماعت چھوٹ جائے۔ ٤- اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پہلے کھانا کھائے گا جب اسے کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہو، لیکن جس کی طرف صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم گئے ہیں، وہ اتباع کے زیادہ لائق ہے، ان لوگوں کا مقصود یہ ہے کہ آدمی ایسی حالت میں نماز میں نہ کھڑا ہو کہ اس کا دل کسی چیز کے سبب مشغول ہو، اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ہم نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگا ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٢ (٦٧٢) ، الأطعمة ٥٨ (٥٤٦٣) ، صحیح مسلم/المساجد ٦ (٥٥٧) ، سنن النسائی/الإمامة ٥١ (٨٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٤ (٩٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٨٦) ، مسند احمد ( ٣/١٠٠، ١١٠، ١٦١، ٢٣١، ٢٣٨، ٢٤٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٨ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بعض لوگوں نے نماز سے مغرب کی نماز مراد لی ہے اور اس میں وارد حکم کو صائم کے لیے خاص مانا ہے ، لیکن مناسب یہی ہے کہ اس حکم کی علّت کے پیش نظر اسے عموم پر محمول کیا جائے ، خواہ دوپہر کا کھانا ہو یا شام کا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (933) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 353
نماز کے لئے جماعت کھڑی ہوجائے اور کھانا حاضر ہو تو کھانا پہلے کھایا جائے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب شام کا کھانا (تمہارے سامنے) رکھ دیا جائے اور نماز کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا کھاؤ، ابن عمر (رض) شام کا کھانا کھا رہے تھے اور امام کی قرأت سن رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٢ (٦٧٣، ٦٧٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٦ (٥٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٤ (٩٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ٧٨٢٥) ، کذا (٨٢١٢) ، مسند احمد (٢/١٠٣) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 354
اونگھتے وقت نماز پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اونگھے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو سو جائے یہاں تک کہ اس سے نیند چلی جائے، اس لیے کہ تم میں سے کوئی جب نماز پڑھے اور اونگھ رہا ہو تو شاید وہ استغفار کرنا چاہتا ہو لیکن اپنے آپ کو گالیاں دے بیٹھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٣ (٢١٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣١ (٧٨٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٠٨ (١٣١٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٧ (١٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٤ (١٣٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٠٨٧) ، مسند احمد (٦/٥٦، ٢٠٢، ٢٠٥، ٢٥٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٧ (١٤٢٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1370) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 355
جو آدمی کسی کی ملاقات کے لئے جائے وہ ان کی امامت نہ کرے
ابوعطیہ عقیلی کہتے ہیں کہ مالک بن حویرث (رض) ہماری نماز پڑھنے کی جگہ میں آتے اور حدیث بیان کرتے تھے تو ایک دن نماز کا وقت ہوا تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ آگے بڑھئیے (اور نماز پڑھائیے) ۔ انہوں نے کہا : تمہیں میں سے کوئی آگے بڑھ کر نماز پڑھائے یہاں تک کہ میں تمہیں بتاؤں کہ میں کیوں نہیں آگے بڑھتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو کسی قوم کی زیارت کو جائے تو ان کی امامت نہ کرے بلکہ ان کی امامت ان ہی میں سے کسی آدمی کو کرنی چاہیئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ صاحب خانہ زیارت کرنے والے سے زیادہ امامت کا حقدار ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب اسے اجازت دے دی جائے تو اس کے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسحاق بن راہویہ نے مالک بن حویرث (رض) کی حدیث کے مطابق کہا ہے اور انہوں نے اس مسئلہ میں سختی برتی ہے کہ صاحب خانہ کو کوئی اور نماز نہ پڑھائے اگرچہ صاحب خانہ اسے اجازت دیدے، نیز وہ کہتے ہیں : اسی طرح کا حکم مسجد کے بارے میں بھی ہے کہ وہ جب ان کی زیارت کے لیے آیا ہو انہیں میں سے کسی آدمی کو ان کی نماز پڑھانی چاہیئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٦٦ (٥٩٦) ، سنن النسائی/الإمامة ٩ (٧٨٨) ، مسند احمد (٣/٤٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١١٨٦) (صحیح) (مالک بن حویرث کا مذکورہ قصہ صحیح نہیں ہے، صرف متن حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی ٤٨١) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قصة مالک، صحيح أبي داود (609) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 356
امام کا دعا کے لئے اپنے آپ کو مخصوص کرنا مکروہ ہے
ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھے جب تک کہ گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ لے لے۔ اگر اس نے (جھانک کر) دیکھا تو گویا وہ اندر داخل ہوگیا۔ اور کوئی لوگوں کی امامت اس طرح نہ کرے کہ ان کو چھوڑ کر دعا کو صرف اپنے لیے خاص کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، اور نہ کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو اور حال یہ ہو کہ وہ پاخانہ اور پیشاب کو روکے ہوئے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ثوبان (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- یہ حدیث معاویہ بن صالح سے بھی مروی ہے، معاویہ نے اس کو بطریق : «سفر بن نسير عن يزيد بن شريح عن أبي أمامة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، نیز یہ حدیث یزید بن شریح ہی کے واسطے سے بطریق : «أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی گئی ہے۔ یزید بن شریح کی حدیث بطریق : «أبي حی المؤذن عن ثوبان» سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور مشہور ہے، ٣- اس باب میں ابوہریرہ اور ابوامامہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : الطہارة ٤٣ (٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الإمامة ٣١ (٩٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٨٩) ، مسند احمد (٥/٢٨٠) (ضعیف) (سند میں ” یزید بن شریح “ ضعیف ہیں، مگر اس کے ” ولا يقوم إلى الصلاة و هو حقن “ پیشاب… “ والے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن الجملة الأخيرة منه صحيحة، ابن ماجة (617) ، ضعيف أبي داود (11 و 12) // عندنا برقم (15 / 90 و 16 / 91) ، صحيح سنن ابن ماجة برقم (500) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 357
وہ امام جس کو مقتدی ناپسند کریں
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین لوگوں پر لعنت فرمائی ہے : ایک وہ شخص جو لوگوں کی امامت کرے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔ دوسری وہ عورت جو رات گزارے اور اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، تیسرا وہ جو «حي علی الفلاح» سنے اور اس کا جواب نہ دے (یعنی جماعت میں حاضر نہ ہو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ حقیقت میں یہ حدیث حسن (بصریٰ ) سے بغیر کسی واسطے کے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً مروی ہے، ٢- محمد بن قاسم کے سلسلہ میں احمد بن حنبل نے کلام کیا ہے، انہوں نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ اور یہ کہ وہ حافظ نہیں ہیں ١ ؎، ٣- اس باب میں ابن عباس، طلحہ، عبداللہ بن عمرو اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- بعض اہل علم کے یہاں یہ مکروہ ہے کہ آدمی لوگوں کی امامت کرے اور وہ اسے ناپسند کرتے ہوں اور جب امام ظالم (قصوروار) نہ ہو تو گناہ اسی پر ہوگا جو ناپسند کرے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا اس سلسلہ میں یہ کہنا ہے کہ جب ایک یا دو یا تین لوگ ناپسند کریں تو اس کے انہیں نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، الا یہ کہ لوگوں کی اکثریت اسے ناپسند کرتی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٢٨) (ضعیف جدا) (سند میں محمد بن القاسم کی علماء نے تکذیب کی ہے، اس لیے اس کی سند سخت ضعیف ہے، لیکن اس کے پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے اگلی دونوں حدیثیں) وضاحت : ١ ؎ : اس عبارت کا ماحصل یہ ہے کہ اس کا موصول ہونا صحیح نہیں ہے اس لیے محمد بن قاسم اسے موصول روایت کرنے میں منفرد ہیں اور وہ ضعیف ہیں اس لیے صحیح یہی ہے کہ یہ مرسل ہے ، اور مرسل ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد جدا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 358
وہ امام جس کو مقتدی ناپسند کریں
عمرو بن حارث بن مصطلق کہتے ہیں : کہا جاتا تھا کہ قیامت کے روز سب سے سخت عذاب دو طرح کے لوگوں کو ہوگا : ایک اس عورت کو جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے، دوسرے اس امام کو جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ منصور کہتے ہیں کہ ہم نے امام کے معاملے میں پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ اس سے مراد ظالم ائمہ ہیں، لیکن جو امام سنت قائم کرے تو گناہ اس پر ہوگا جو اسے ناپسند کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٧١٤) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 359
وہ امام جس کو مقتدی ناپسند کریں
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ( ﷺ ) نے فرمایا : تین لوگوں کی نماز ان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی : ایک بھگوڑے غلام کی جب تک کہ وہ (اپنے مالک کے پاس) لوٹ نہ آئے، دوسرے عورت کی جو رات گزارے اور اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، تیسرے اس امام کی جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٩٣٧) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (1122) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 360
اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پرھو
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گرپڑے، آپ کو خراش آ گئی ١ ؎ تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر آپ نے ہماری طرف پلٹ کر فرمایا : امام ہوتا ہی اس لیے ہے یا امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ «الله أكبر» کہے تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب وہ رکوع کرے، تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لک الحمد» کہو، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، جابر، ابن عمر اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض صحابہ کرام جن میں میں جابر بن عبداللہ، اسید بن حضیر اور ابوہریرہ (رض) وغیرہ ہیں اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے، ٤- بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب امام بیٹھ کر پڑھے تو مقتدی کھڑے ہو کر ہی پڑھیں، اگر انہوں نے بیٹھ کر پڑھی تو یہ نماز انہیں کافی نہ ہوگی، یہ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٨) ، والأذان ٥١ (٦٨٩) ، و ٨٢ (٨٣٢) ، و ١٢٨ (٨٠٥) ، وتقصیر الصلاة ١٧ (١١١٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٦٩ (٦٠١) ، سنن النسائی/الإمامة ١٦ (٧٩٥) ، و ٤٠ (٨٣٣) ، والتطبیق ٢٢ (١٠٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٤ (١٢٣٨) ، ( تحفة الأشراف : ٥١٢٣) ، وکذا (١٥٢٩) ، موطا امام مالک/الجماعة ٥ (١٦) ، مسند احمد (٣/١١٠، ١٦٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دائیں پہلو کی جلد چھل گئی جس کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل اور دشوار ہوگیا۔ ٢ ؎ : اور یہی راجح قول ہے ، اس حدیث میں مذکور واقعہ پہلے کا ہے ، اس کے بعد مرض الموت میں آپ ﷺ نے بیٹھ کر امامت کی تو ابوبکر اور صحابہ (رض) نے کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھی ، اس لیے بیٹھ کر اقتداء کرنے کی بات منسوخ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1238) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 361
اسی سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اور عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو ، اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بیماری میں نکلے اور ابوبکر (رض) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے تو آپ نے ابوبکر (رض) کے پہلو میں نماز پڑھی، لوگ ابوبکر (رض) کی اقتداء کر رہے تھے اور ابوبکر (رض) نبی اکرم ﷺ کی اقتداء کر رہے تھے۔ اور انہی سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر (رض) کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ اور انس بن مالک سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر (رض) کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٨ (٧٨٧) ، ولیس عندہ ” قاعداً “ ( تحفة الأشراف : ١٧٦١٢) ، مسند احمد (٦/١٥٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 362
اسی سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری میں ابوبکر (رض) کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی اور آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی طرح اسے یحییٰ بن ایوب نے بھی حمید سے، اور حمید نے ثابت سے اور ثابت نے انس (رض) سے روایت کیا ہے، ٣- نیز اسے اور بھی کئی لوگوں نے حمید سے اور حمید نے انس (رض) سے روایت کیا ہے، اور ان لوگوں نے اس میں ثابت کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن جس نے ثابت کے واسطے کا ذکر کیا ہے، وہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٩٧) ، وانظر مسند احمد (٣/١٥٩، ٢١٦، ٢٤٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 363
دو رکعتوں کے بعد امام کا بھول کر کھڑے ہو جانا
عامر بن شراخیل شعبی کہتے ہیں : ہمیں مغیرہ بن شعبہ (رض) نے نماز پڑھائی، دو رکعت کے بعد (بیٹھنے کے بجائے) وہ کھڑے ہوگئے، تو لوگوں نے انہیں «سبحان الله» کہہ کر یاد دلایا کہ وہ بیٹھ جائیں تو انہوں نے «سبحان الله» کہہ کر انہیں اشارہ کیا کہ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں، پھر جب انہوں نے اپنی بقیہ نماز پڑھ لی تو سلام پھیرا پھر بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کئے۔ پھر لوگوں سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا جیسے انہوں نے (مغیرہ نے) کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیث ان سے کئی اور بھی سندوں سے مروی ہے، ٢- بعض اہل علم نے ابن ابی لیلیٰ کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔ احمد کہتے ہیں : ابن ابی لیلیٰ کی حدیث لائق استدلال ہیں، ٣۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابن ابی لیلیٰ صدوق (سچے) ہیں لیکن میں ان سے روایت نہیں کرتا اس لیے کہ یہ نہیں معلوم کہ ان کی حدیثیں کون سی صحیح ہیں اور کون سی ضعیف ہیں، اور جو بھی ایسا ہو میں اس سے روایت نہیں کرتا، ٤- یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ (رض) سے اور بھی سندوں سے مروی ہے، ٥- اسے سفیان نے بطریق : «جابر عن المغيرة بن شبيل عن قيس بن أبي حازم عن المغيرة بن شعبة» روایت کیا ہے۔ اور جابر جعفی کو بعض اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے، یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ نے ان سے حدیثیں نہیں لی ہیں، ٦- اس باب میں عقبہ بن عامر، سعد اور عبداللہ بن بحینہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٧- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ آدمی جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑا ہوجائے تو اپنی نماز جاری رکھے اور (اخیر میں) دو سجدے کرلے، ٨- ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرے اور بعض کا خیال ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد کرے۔ ٩- جس کا خیال ہے کہ سلام پھیر نے سے پہلے کرے اس کی حدیث زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ اسے زہری اور یحییٰ بن سعید انصاری نے عبدالرحمٰن بن اعرج سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ ابن بحینہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة (١٠٣٧) ، ( تحفة الأشراف : ١١٥٠٤) ، مسند احمد (٤/٢٤٧، ٢٥٣، ٢٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦ (١٥٤٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح جه (1208) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 364
دو رکعتوں کے بعد امام کا بھول کر کھڑے ہو جانا
زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ ہمیں مغیرہ بن شعبہ (رض) نے نماز پڑھائی، جب دو رکعتیں پڑھ چکے تو (تشہد میں) بغیر بیٹھے کھڑے ہوگئے۔ تو جو لوگ ان کے پیچھے تھے انہوں نے سبحان اللہ کہا، تو انہوں نے انہیں اشارہ کیا کہ تم بھی کھڑے ہوجاؤ پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے سلام پھیرا اور سہو کے دو سجدے کئے اور سلام پھیرا، اور کہا : ایسے ہی رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ (رض) کے واسطے سے اور بھی سندوں سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١١٥٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الذي قبله (364) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 365
قعدہ اولی کی مقدار
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پہلی دونوں رکعتوں میں بیٹھتے تو ایسا لگتا گویا آپ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں ١ ؎، شعبہ (راوی) کہتے ہیں : پھر سعد نے اپنے دونوں ہونٹوں کو کسی چیز کے ساتھ حرکت دی ٢ ؎ تو میں نے کہا : یہاں تک کہ آپ کھڑے ہوجاتے ؟ تو انہوں نے کہا : یہاں تک کہ آپ کھڑے ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، مگر ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے، ٢- اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ اسی کو پسند کرتے ہیں کہ آدمی پہلی دونوں رکعتوں میں قعدہ کو لمبا نہ کرے اور تشہد سے زیادہ کچھ نہ پڑھے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس نے تشہد سے زیادہ کوئی چیز پڑھی تو اس پر سہو کے دو سجدے لازم ہوجائیں گے، شعبی وغیرہ سے اسی طرح مروی ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٨٨ (٩٩٥) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٥ (١١٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ٩٦٠٩) ، مسند احمد (١/٣٨٦، ٤١٠، ٤٢٨، ٤٦٠) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بہت جلد اٹھ جاتے۔ ٢ ؎ : یعنی چپکے سے کوئی بات کہی جسے میں سن نہیں سکا۔ ٣ ؎ : ابن مسعود (رض) کا یہ اثر تو سنداً ضعیف ہے ، مگر ابوبکر (رض) سے مروی اثر جو اسی معنی میں ہے صحیح ہے ، اور اسی پر امت کا تعامل ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (915) ، ضعيف أبي داود (177) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 366
نماز میں اشارہ کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ صہیب (رض) کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے سلام کیا تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، راوی (ابن عمر) کہتے ہیں کہ میرا یہی خیال ہے کہ صہیب نے کہا : آپ نے اپنی انگلی کے اشارے سے جواب دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- صہیب کی حدیث حسن ہے ٢ ؎، ٢- اس باب میں بلال، ابوہریرہ، انس، ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٠ (٩٢٥) ، سنن النسائی/السہو ٦ (١١٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ٤٩٦٦) ، مسند احمد (٤/٣٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٤ (١٤٠١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا مشروع ہے ، یہی جمہور کی رائے ہے ، بعض لوگ اسے ممنوع کہتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ پہلے جائز تھا بعد میں منسوخ ہوگیا ، لیکن یہ صحیح نہیں ، بلکہ صحیح یہ ہے کہ پہلے نماز میں کلام کرنا جائز تھا تو لوگ سلام کا جواب بھی وعلیکم السلام کہہ کردیتے تھے ، پھر جب نماز میں کلام کرنا ناجائز قرار دے دیا گیا تو وعلیکم السلام کہہ کر سلام کا جواب دینا بھی ناجائز ہوگیا اور اس کے بدلے اشارے سے سلام کا جواب دینا مشروع ہوا ، اس اشارے کی نوعیت کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں ، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ ہاتھ کی پشت اوپر تھی اور ہتھیلی نیچے تھی ، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے سر سے اشارہ کیا ان سب سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔ ٢ ؎ : اگلی حدیث نمبر ٣٦٨ کے تحت مولف نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (858) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 367
نماز میں اشارہ کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے بلال (رض) سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کو جب وہ سلام کرتے اور آپ نماز میں ہوتے تو کیسے جواب دیتے تھے ؟ تو بلال نے کہا : آپ اپنے ہاتھ کے اشارہ سے جواب دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور صہیب کی حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف لیث ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے بکیر سے روایت کی ہے اور یہ زید ابن اسلم سے بھی مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال سے پوچھا : نبی اکرم ﷺ کس طرح جواب دیتے تھے جب لوگ مسجد بنی عمرو بن عوف میں آپ کو سلام کرتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ اشارے سے جواب دیتے تھے۔ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اس لیے کہ صہیب (رض) کا قصہ بلال (رض) کے قصے کے علاوہ ہے، اگرچہ ابن عمر (رض) نے ان دونوں سے روایت کی ہے، تو اس بات کا احتمال ہے کہ انہوں نے دونوں سے سنا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٠ (٩٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٣٨) ، مسند احمد (٦/١٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1017) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 368
مردوں کے لئے تسبیح اور عورتوں کے لئے تصفیق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز میں مردوں کے لیے سبحان اللہ کہہ کر امام کو اس کے سہو پر متنبہ کرنا اور عورتوں کے لیے دستک دینا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، سہل بن سعد، جابر، ابوسعید، ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- علی (رض) کہتے ہیں کہ جب میں نبی اکرم ﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگتا اور آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو آپ سبحان اللہ کہتے، ٤- اہل علم کا اسی پر عمل ہے احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ٥ (١٢٠٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٣ (٤٢٢) ، والصلاة ١٧٣ (٩٣٩) ، سنن النسائی/السہو ١٥ (١٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٥ (١٠٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٥١٧) ، مسند احمد (٢/٢٦١، ٣١٧، ٣٧٦، ٤٣٢، ٤٤٠، ٤٧٣، ٤٧٩، ٤٩٢، ٥٠٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام نماز میں بھول جائے تو مرد سبحان اللہ کہہ کر اسے متنبہ کریں اور عورتیں زبان سے کچھ کہنے کے بجائے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر مار کر اسے متنبہ کریں ، کچھ لوگ سبحان اللہ کہنے کے بجائے اللہ اکبر کہہ کر امام کو متنبہ کرتے ہیں یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1034 - 1036) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 369
نماز میں جمائی لینا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز میں جمائی آنا شیطان کی طرف سے ہے، جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری اور عدی بن ثابت کے دادا (عبید بن عازب) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے نماز میں جمائی لینے کو مکروہ کہا ہے، ابراہیم کہتے ہیں کہ میں جمائی کو کھنکھار سے لوٹا دیتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٨٩) ، والأدب ١٢٥ (٦٢٢٣) ، و ١٢٨ (٦٢٢٦) ، صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٩٦٢) ، وکذا (١٣٠١٩) ، مسند احمد (٢/٢٦٥، ٣٩٧، ٤٢٨، ٥١٧) ، ویأتي عند المؤلف في الأدب برقم : ٢٧٤٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور اگر روکنا ممکن نہ ہو تو منہ پر ہاتھ رکھے ، کہتے ہیں : ہاتھ رکھنا بھی اسے روکنے کی کوشش ہے ، جس کا حکم حدیث میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 370
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے آدھا ثواب ہے
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آدمی کی نماز کے بارے میں پوچھا جسے وہ بیٹھ کر پڑھ رہا ہو ؟ تو آپ نے فرمایا : جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے وہ بیٹھ کر پڑھنے والے کے بالمقابل افضل ہے، کیونکہ اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا، اور جو لیٹ کر پڑھے اسے بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ملے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمران بن حصین کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، انس، سائب اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٧ (١١١٥) ، و ١٨ (١١١٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٩ (٩٥١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢١ (١٦٦١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤١ (١٢٣١) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٨٣١) ، مسند احمد (٤/٤٣٣، ٤٣٥، ٤٤٢، ٤٤٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہ فرمان نفل نماز کے بارے میں ہے ، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1231) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 371
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے آدھا ثواب ہے
یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے بھی اسی سند سے مروی ہے، مگر اس میں یوں ہے : عمران بن حصین کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مریض کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : کھڑے ہو کر پڑھو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پہلو کے بل پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٩ (١١١٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٩ (٩٥٢) ، وانظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٠٨٣١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1231) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 371 امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اہل علم کے نزدیک اس حدیث میں جس نماز کا ذکر ہے اس سے مراد نفلی نماز ہے۔
نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا
ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی بیٹھ کر نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یہاں تک کہ جب وفات میں ایک سال رہ گیا تو آپ بیٹھ کر نفلی نماز پڑھنے لگے۔ اور سورت پڑھتے تو اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ لمبی سے لمبی ہوجاتی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حفصہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام سلمہ اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہے، ٣- نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ رات کو بیٹھ کر نماز پڑھتے اور جب تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ کھڑے ہوجاتے اور قرأت کرتے پھر رکوع میں جاتے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔ اور جب کھڑے ہو کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ ہی کر کرتے۔ ٤- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دونوں حدیثیں صحیح اور معمول بہ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٩ (١٦٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨١٢) ، موطا امام مالک/الجماعة ٧ (٢١) ، مسند احمد (٦/٢٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : لیکن نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے سے آپ ﷺ کا اجر امتیوں کی طرح آدھا نہیں ہے ، یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة // 60 // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 373
نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے تو قرأت بھی بیٹھ ہی کر کرتے، پھر جب تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ کھڑے ہوجاتے اور انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے پھر رکوع اور سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٢٠ (١١١٨، ١١١٩) ، والتہجد ١٦ (١١٤٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٩ (٩٥٣، ٩٥٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٨ (١٦٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٠ (١٢٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٧٠٩) ، موطا امام مالک/الجماعة ٧ (٢٣) ، مسند احمد (٦/١٧٨٤٦، ٢٣١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1226) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 374
نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نفل نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ رات تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور دیر تک بیٹھ کر پڑھتے جب آپ کھڑے ہو کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے کھڑے کرتے اور جب بیٹھ کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کر ہی کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٠ (١٢٥١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٨ (١٦٤٧، ١٦٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٠٧) ، مسند احمد (٦/٣٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1228) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 375
نبی ﷺ نے فرمایا جب میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز ہلکی کرتا ہوں
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اللہ کی ! جب نماز میں ہوتا ہوں اور اس وقت بچے کا رونا سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز کو ہلکی کردیتا ہوں کہ اس کی ماں کہیں فتنے میں نہ مبتلا ہوجائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوقتادہ ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وراجع : صحیح البخاری/الأذان ٦٥ (٧٠٩، ٧١٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٩ (٩٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٧٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو ایسی صورت میں یا اسی طرح کی صورتوں میں بروقت نماز ہلکی کر دینی چاہیئے ، تاکہ بچوں کی مائیں ان کے رونے اور چلانے سے گھبرا نہ جائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (989) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 376
جوان عورت کی نماز بغیر چادر کے قبول نہیں ہوتی
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کی جاتی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب عورت بالغ ہوجائے اور نماز پڑھے اور اس کے بال کا کچھ حصہ کھلا ہو تو اس کی نماز جائز نہیں، یہی شافعی کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ عورت اس حال میں نماز پڑھے کہ اس کے جسم کا کچھ حصہ کھلا ہو جائز نہیں، نیز شافعی یہ بھی کہتے ہیں کہ کہا گیا ہے : اگر اس کے دونوں پاؤں کی پشت کھلی ہو تو نماز درست ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٨٥ (٦٤١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٣٢ (٦٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٤٦) ، مسند احمد (٦/١٥٠، ٢١٨، ٢٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے سر کے بال ستر میں داخل ہیں ، اور ستر کو ڈھکے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ ٢ ؎ : اس مسئلہ میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے مگر تحقیقی بات یہی ہے کہ عورت کے قدم ستر میں داخل نہیں ہیں ، اس لیے کھلے قدم نماز ہوجائے گی جیسے ہتھیلیوں کے کھلے ہونے کی صورت میں عورت کی نماز جائز ہے ، عورتوں کے پاؤں ڈھکنے کی حدیث جو ام سلمہ (رض) سے مروی ہے ، جو موقوفاً و مرفوعاً دونوں حالتوں میں ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (655) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 377
نماز میں سدل مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ہم ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو عطا کی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کی ہے عسل بن سفیان ہی کے طریق سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں ابوجحیفہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- سدل کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے : بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں سدل کرنا مکروہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس طرح یہود کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ نماز میں سدل اس وقت مکروہ ہوگا جب جسم پر ایک ہی کپڑا ہو، رہی یہ بات کہ جب کوئی کرتے کے اوپر سدل کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ٢ ؎ یہی احمد کا قول ہے لیکن ابن مبارک نے نماز میں سدل کو (مطلقاً ) مکروہ قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٨٦ (٦٤٣) ، (تعلیقا من طریق عسل عن عطائ، ومتصلاً من طریق سلیمان الأحول عن عطائ) ( تحفة الأشراف : ١٤١٩٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٤ (١٤١٩) (حسن) (عسل بن سفیان بصری ضعیف راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، لیکن ابو جحیفہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے) وضاحت : ١ ؎ : سدل کی صورت یہ ہے کہ چادر یا رومال وغیرہ کو اپنے سر یا دونوں کندھوں پر ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو لٹکتا چھوڑ دیا جائے اور سدل کی ایک تفسیر یہ بھی کی جاتی ہے کہ کرتا یا جبہ اس طرح پہنا جائے کہ دونوں ہاتھ آستین میں ڈالنے کے بجائے اندر ہی رکھے جائیں اور اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا جائے۔ ٢ ؎ : اس تقیید پر کوئی دلیل نہیں ہے ، حدیث مطلق ہے اس لیے کہ سدل مطلقاً جائز نہیں ، کرتے کے اوپر سے سدل میں اگرچہ ستر کھلنے کا خطرہ نہیں ہے لیکن اس سے نماز میں خلل تو پڑتا ہی ہے ، چاہے سدل کی جو بھی تفسیر کی جائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (764) ، التعليق علی ابن خزيمة (918) ، صحيح أبي داود (650) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 378
نماز میں کنکریاں ہٹانا مکروہ ہے
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو اپنے سامنے سے کنکریاں نہ ہٹائے ١ ؎ کیونکہ اللہ کی رحمت اس کا سامنا کر رہی ہوتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوذر کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں معیقیب، علی بن ابی طالب، حذیفہ، جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے نماز میں کنکری ہٹانے کو ناپسند کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ہٹانا ضروری ہو تو ایک بار ہٹا دے، گویا آپ سے ایک بار کی رخصت مروی ہے، ٤- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٥ (٩٤٥) ، سنن النسائی/السہو ٧ (١١٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٣ (١٠٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٩٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٨) (ضعیف) (ابو الأحوص لین الحدیث ہیں) وضاحت : ١ ؎ : اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نمازی نماز میں نماز کے علاوہ دوسری چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہو ، اس لیے کہ اللہ کی رحمت اس کی جانب متوجہ ہوتی ہے ، اگر وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ کرتا ہے تو اندیشہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس سے روٹھ جائے اور وہ اس سے محروم رہ جائے اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1027) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 379
نماز میں کنکریاں ہٹانا مکروہ ہے
معیقیب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نماز میں کنکری ہٹانے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : اگر ہٹانا ضروری ہی ہو تو ایک بار ہٹا لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ٨ (١٢٠٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٢ (٥٤٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٥ (٦٤٦) ، سنن النسائی/السہو ٨ (١١٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٢ (١٠٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٨٥) ، مسند احمد (٣/٤٢٦) ، و (٥/٤٢٥، ٤٢٦) سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1026) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 380
نماز میں پھونکیں مارنا مکروہ ہے
ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمارے (گھر کے) ایک لڑکے کو دیکھا جسے افلح کہا جاتا تھا کہ جب وہ سجدہ کرتا تو پھونک مارتا ہے، تو آپ نے فرمایا : افلح ! اپنے چہرے کو گرد آلودہ کر ١ ؎۔ احمد بن منیع کہتے ہیں کہ عباد بن العوام نے نماز میں پھونک مارنے کو مکروہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسی نے پھونک مار ہی دی تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی۔ احمد بن منیع کہتے ہیں کہ اسی کو ہم بھی اختیار کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کو بعض دیگر لوگوں نے ابوحمزہ کے واسطہ سے روایت کی ہے۔ اور «غلاما لنا يقال له أفلح» کے بجائے «مولی لنا يقال له رباح» (ہمارے مولیٰ کو جسے رباح کہا جاتا تھا) کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٢٤٤) (ضعیف) (سند میں میمون ابو حمزہ القصاب ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ تواضع سے یہی زیادہ قریب تر ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 193) ، المشکاة (1002) ، الضعيفة (5485) // ضعيف الجامع الصغير (6378) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 381
None
میمون ابی حمزہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اور اس میں «غلام لنا يقال له رباح» ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں، میمون ابوحمزہ کو بعض اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے، ۲- اور نماز میں پھونک مارنے کے سلسلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں پھونک مارے تو وہ نماز دوبارہ پڑھے، یہی قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نماز میں پھونک مارنا مکروہ ہے، اور اگر کسی نے اپنی نماز میں پھونک مار ہی دی تو اس کی نماز فاسد نہ ہو گی، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا قول ہے۔
نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنا منع ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کوکھ پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- بعض اہل علم نے نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، اور بعض نے آدمی کے کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چلنے کو مکروہ کہا ہے، اور اختصار یہ ہے کہ آدمی نماز میں اپنا ہاتھ اپنی کوکھ پر رکھے، یا اپنے دونوں ہاتھ اپنی کوکھوں پر رکھے۔ اور روایت کی جاتی ہے کہ شیطان جب چلتا ہے تو کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چلتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ١٧ (١٢٢٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١١ (٥٤٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٦ (٩٤٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٢ (٨٩١) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٥٦٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٩٠، ٢٩٥، ٣٣١، ٣٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٨ (١٤٦٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ تکبر کی علامت ہے جب کہ نماز اللہ کے حضور عجز و نیاز مندی کے اظہار کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صفة الصلاة (69) ، صحيح أبي داود (873) ، الروض النضير (1152) ، الإرواء (374) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 383
بال باندھ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے
ابورافع (رض) سے روایت ہے کہ وہ حسن بن علی (رض) کے پاس سے گزرے، وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنی گدی پر جوڑا باندھ رکھا تھا، ابورافع (رض) نے اسے کھول دیا، حسن (رض) نے ان کی طرف غصہ سے دیکھا تو انہوں نے کہا : اپنی نماز پر توجہ دو اور غصہ نہ کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ شیطان کا حصہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابورافع (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ام سلمہ اور عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ ان لوگوں نے اس بات کو مکروہ کہا کہ نماز پڑھے اور وہ اپنے بالوں کا جوڑا باندھے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٨٨ (٦٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٦٧ (١٠٤٢) ، (٦/٨، ٣٩١) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٠٣٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٥ (١٤٢٠) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : لیکن یہ مردوں کے لیے ہے ، عورتوں کو جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، عورتوں کو تو نبی اکرم ﷺ نے غسل جنابت تک میں جوڑا کھولنے سے معاف کردیا ہے ، نماز میں عورت کے جوڑا کھولنے سے اس کے بال اوڑھنی سے باہر نکل سکتے ہیں جب کہ عورت کے بال نماز کی حالت میں اوڑھنی سے باہر نکلنے سے نماز باطل ہوجائے گی ، نیز ہر نماز کے وقت جوڑا کھول دینے اور نماز کے بعد باندھ لینے میں پریشانی بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، صحيح أبي داود (653) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 384
نماز میں خشوع
فضل بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، نماز خشوع و خضوع، مسکنت اور گریہ وزاری کا اظہار ہے، اور تم اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ۔ یعنی تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کے سامنے اٹھاؤ اس حال میں کہ ہتھیلیاں تمہارے منہ کی طرف ہوں اور کہہ : اے رب ! اے رب ! اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ایسا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مبارک کے علاوہ اور لوگوں نے اس حدیث میں «من لم يفعل ذلک فهي خداج» جس نے ایسا نہیں کیا اس کی نماز ناقص ہے کہا ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ شعبہ نے یہ حدیث عبدربہ بن سعید سے روایت کی ہے اور ان سے کئی مقامات پر غلطیاں ہوئی ہیں : ایک تو یہ کہ انہوں نے انس بن ابی انس سے روایت کی حالانکہ وہ عمران بن ابی انس ہیں، دوسرے یہ کہ انہوں نے «عن عبدالله بن حارث» کہا ہے حالانکہ وہ «عبدالله بن نافع بن العمياء عن ربيعة بن الحارث» ہے، تیسرے یہ کہ شعبہ نے «عن عبدالله بن الحارث عن المطلب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کہا ہے حالانکہ صحیح «عن ربيعة بن الحارث بن عبدالمطلب عن الفضل بن عباس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ہے۔ محمد بن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں : لیث بن سعد کی حدیث صحیح ہے یعنی شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (ورنہ اصلاً تو ضعیف ہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ورواہ النسائی في الکبری فی الصلاة (١١٩) (تحفة الأشراف : ١١٠٤٣) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن نافع ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1325) // ضعيف سنن ابن ماجة (277) ، ضعيف الجامع الصغير (3512) ، ضعيف أبي داود (282 / 1296) نحوه // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 385
نماز میں پنجے میں پنجہ ڈالنا مکروہ ہے
کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح سے وضو کرے اور پھر مسجد کے ارادے سے نکلے تو وہ «تشبیک» نہ کرے (یعنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست نہ کرے) کیونکہ وہ نماز میں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- کعب بن عجرہ کی حدیث کو ابن عجلان سے کئی لوگوں نے لیث والی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٢- اور شریک نے بطریق : «محمد بن عجلان عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے اور شریک کی روایت غیر محفوظ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : ( تحفة الأشراف : ١١١٢١) ، وأخرجہ مسند احمد (٤/٢٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٢ (٩٦٧) (ضعیف) (پہلی سند میں ایک راوی مبہم ہے، نیز اس سند میں سخت اضطراب بھی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، اور دوسری سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، جن کی حدیث کے بارے میں ترمذی کہتے ہیں کہ یہ غیر محفوظ ہے، لیکن اس حدیث کی اصل بسند اسماعیل بن امیہ عن سعید المقبری عن ابی ہریرہ مرفوعا صحیح ہے (سنن الدارمی : ١٤١٣) و صححہ ابن خزیمة وقال الحاکم : صحیح علی شرطہما وقال المنذری : وفیما قالہ نظر) تفصیل کے لیے دیکھئے : الار واء رقم : ٣٧٩) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ شریک نے لیث اور دیگر کئی لوگوں کی مخالفت کی ہے ، نیز شریک کا حافظہ کمزور ہوگیا تھا اور وہ روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے ، اس کے برخلاف لیث بن سعد حد درجہ ثقہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (967) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 386
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”جس میں قیام لمبا ہو“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور یہ دیگر سندوں سے بھی جابر بن عبداللہ سے مروی ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن حبشی اور انس بن مالک رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
رکوع اور سجدہ کی کثرت
معدان بن طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام ثوبان (رض) سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے اور مجھے جنت میں داخل کرے، تو وہ کافی دیر تک خاموش رہے پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ تم کثرت سے سجدے کیا کرو ١ ؎ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بھی بندہ اللہ کے واسطے کوئی سجدہ کرے گا اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٨) ، سنن النسائی/التطبیق ٨٠ (١١٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠١ (١٤٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢١١٢) ، مسند احمد (٢٧٦٥، ٢٨٠، ٢٨٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : زیادہ سے زیادہ نفل نمازیں پڑھا کرو ، اور ظاہر بات ہے کہ زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھے گا تو ان میں زیادہ سے زیادہ رکوع اور سجدے ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1423) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 388 معدان کہتے ہیں کہ پھر میری ملاقات ابو الدرداء (رض) سے ہوئی تو میں نے ان سے بھی اسی چیز کا سوال کیا جو میں نے ثوبان (رض) سے کیا تھا تو انہوں نے بھی کہا کہ تم سجدے کو لازم پکڑو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جو بندہ اللہ کے واسطے کوئی سجدہ کرے گا تو اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور ایک گناہ مٹا دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- رکوع اور سجدے کثرت سے کرنے کے سلسلے کی ثوبان اور ابوالدرداء (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابوامامہ اور ابوفاطمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اس باب میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز میں دیر تک قیام کرنا کثرت سے رکوع اور سجدہ کرنے سے افضل ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ کثرت سے رکوع اور سجدے کرنا دیر تک قیام کرنے سے افضل ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلے میں دونوں طرح کی حدیثیں مروی ہیں، لیکن اس میں (کون راجح ہے اس سلسلہ میں) انہوں نے کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی ہے۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دن میں کثرت سے رکوع اور سجدے کرنا افضل ہے اور رات میں دیر تک قیام کرنا، الا یہ کہ کوئی شخص ایسا ہو جس کا رات کے حصہ میں قرآن پڑھنے کا کوئی حصہ متعین ہو تو اس کے حق میں رات میں بھی رکوع اور سجدے کثرت سے کرنا بہتر ہے۔ کیونکہ وہ قرآن کا اتنا حصہ تو پڑھے گا ہی جسے اس نے خاص کر رکھا ہے اور کثرت سے رکوع اور سجدے کا نفع اسے الگ سے حاصل ہوگا، ٤- اسحاق بن راہویہ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے قیام اللیل (تہجد) کا حال بیان کیا گیا ہے کہ آپ اس میں دیر تک قیام کیا کرتے تھے، رہی دن کی نماز تو اس کے سلسلہ میں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ آپ ان میں رات کی نمازوں کی طرح دیر تک قیام کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٨) ، سنن النسائی/التطبیق ٨٠ (١١٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠١ (١٤٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢١١٢) ، مسند احمد (٢٧٦٥، ٢٨٠، ٢٨٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1423) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 389
سانپ اور بچھو کو نماز میں مارنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں کالوں کو یعنی سانپ اور بچھو کو نماز میں مارنے کا حکم دیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس اور ابورافع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٤- اور بعض اہل علم نے نماز میں سانپ اور بچھو کے مارنے کو مکروہ کہا ہے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ نماز خود ایک شغل ہے (اور یہ چیز اس میں مخل ہوگی) پہلا قول (ہی) راجح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٦٩ (٩٢١) ، سنن النسائی/السہو ١٢ (١٢٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٦ (١٢٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٥١٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٨ (١٥٤٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1245) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 390
سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا
عبداللہ ابن بحینہ اسدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز ظہر میں کھڑے ہوگئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا، چناچہ جب نماز پوری کرچکے تو سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے، آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ سہو کیے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ اور عبداللہ بن سائب قاری (رض) دونوں سہو کے دونوں سجدے سلام سے پہلے کرتے تھے، ٤- اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ان کی رائے ہے کہ سجدہ سہو ہر صورت میں سلام سے پہلے ہے، اور یہ حدیث دوسری حدیثوں کی ناسخ ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا عمل آخر میں اسی پر رہا ہے، ٥- اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب آدمی دو رکعت کے بعد کھڑا ہوجائے تو وہ ابن بحینہ (رض) کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے، ٦- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن بحینہ ہی عبداللہ بن مالک ہیں، ابن بحینہ کے باپ مالک ہیں اور بحینہ ان کی ماں ہیں، ٧- سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ اسے آدمی سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، ٨- اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے یہی قول اکثر فقہاء مدینہ کا ہے، مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ وغیرہ کا اور یہی قول شافعی کا بھی ہے، ٩- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہی قول مالک بن انس کا ہے، ١٠- اور احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہوجائے تو ابن بحینہ (رض) کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر اور عصر میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس جس صورت میں جیسے جیسے رسول اللہ ﷺ کا فعل موجود ہے، اس پر اسی طرح عمل کرے، اور سہو کی جس صورت میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔ ١ ١- اسحاق بن راہویہ بھی احمد کے موافق کہتے ہیں۔ مگر فرق اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سہو کی جس صورت میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی فعل موجود نہ ہو تو اس میں اگر نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اور اگر کمی ہوئی ہو تو سلام سے پہلے کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٦ (٨٢٩) ، و ١٤٧ (٨٣٠) ، والسہو ١ (١٢٢٥) ، و ٥ (١٢٣٠) ، والأیمان والنذور ١٥ (٦٦٧٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٠ (١٠٣٤) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٦ (١١٧٨) ، والسہو ٢٨ (١٢٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣١ (١٢٠٦، ١٢٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ٩١٥٤) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٧ (٦٥) ، مسند احمد (٣٤٥٥، ٣٤٦) سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦ (١٥٤٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : (حديث عبد اللہ ابن بحينة) صحيح، (حديث محمد بن إبراهيم) صحيح الإسناد، إن کان ابن إبراهيم - وهو التيمي المدني - لقي أبا هريرة والسائب وهو ابن عمير .، ابن ماجة (1206 و 1207) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 391
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں کھڑے ہو گئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا، چنانچہ جب نماز پوری کر چکے تو سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے، آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ سہو کیے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ اور عبداللہ بن سائب قاری رضی الله عنہما دونوں سہو کے دونوں سجدے سلام سے پہلے کرتے تھے، ۴- اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ان کی رائے ہے کہ سجدہ سہو ہر صورت میں سلام سے پہلے ہے، اور یہ حدیث دوسری حدیثوں کی ناسخ ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آخر میں اسی پر رہا ہے، ۵- اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب آدمی دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو وہ ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے، ۶- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن بحینہ ہی عبداللہ بن مالک ہیں، ابن بحینہ کے باپ مالک ہیں اور بحینہ ان کی ماں ہیں، ۷- سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ اسے آدمی سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، ۸- اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے یہی قول اکثر فقہاء مدینہ کا ہے، مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ وغیرہ کا اور یہی قول شافعی کا بھی ہے، ۹- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہی قول مالک بن انس کا ہے، ۱۰- اور احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر اور عصر میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس جس صورت میں جیسے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے، اس پر اسی طرح عمل کرے، اور سہو کی جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔ ۱۱- اسحاق بن راہویہ بھی احمد کے موافق کہتے ہیں۔ مگر فرق اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سہو کی جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل موجود نہ ہو تو اس میں اگر نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اور اگر کمی ہوئی ہو تو سلام سے پہلے کرے۔
سلام اور کلام کے بعد سجدہ سہو کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر پانچ رکعت پڑھی تو آپ سے پوچھا گیا : کیا نماز بڑھا دی گئی ہے ؟ (یعنی چار کے بجائے پانچ رکعت کردی گئی ہے) تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣١ (٤٠١) ، و ٣٢ (٤٠٤) ، والسہو ٢ (١٢٢٦) ، والأیمان ١٥ (٦٦٧١) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٩٦ (١٠١٩) ، سنن النسائی/السہو ٢٥ (١٢٤٢) ، و ٢٦ (١٢٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٩ (١٢٠٣) ، و ٣٠ (١٢٠٥) ، و ١٣٣ (١٢١١) ، و ١٣٦ (١٢١٨) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤١١) ، مسند احمد (١/٣٧٩، ٤٢٩، ٤٣٨، ٤٥٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٥ (١٥٣٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1205 و 1211 و 1212 و 1218) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 392
سلام اور کلام کے بعد سجدہ سہو کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سہو کے دونوں سجدے بات کرنے کے بعد کئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے ١ ؎، ٢- اس باب میں معاویہ، عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٩٤٢٤) (صحیح ) وضاحت : ا ؎ : یہ حکم نیچے والی حدیث میں موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1212) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 393
سلام اور کلام کے بعد سجدہ سہو کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سہو کے دونوں سجدے سلام کے بعد کئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ( ابوہریرہ (رض) کی) یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے ایوب اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابن سیرین سے روایت کیا ہے، ٣- ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٤- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ظہر بھول کر پانچ رکعت پڑھ لے تو اس کی نماز درست ہے وہ سہو کے دو سجدے کرلے اگرچہ وہ چوتھی (رکعت) میں نہ بیٹھا ہو، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٥- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے اور چوتھی رکعت میں نہ بیٹھا ہو تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ یہ قول سفیان ثوری اور بعض کو فیوں کا ہے ا ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم : ٣٩٩ (تحفة الأشراف : ١٥٤٨) (صحیح) وضاحت : ا ؎ : سفیان ثوری ، اہل کوفہ اور ابوحنیفہ کا قول محض رائے پر مبنی ہے ، جب کہ ائمہ کرام مالک بن انس ، شافعی ، احمد بن حنبل اور بقول امام نووی سلف وخلف کے تمام جمہور علماء مذکور بالا عبداللہ بن مسعود (رض) والی صحیح حدیث کی بنیاد پر یہی فتویٰ دیتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں ، کہ اگر کوئی بھول کر اپنی نماز میں ایک رکعت اضافہ کر بیٹھے تو اس کی نماز نہ باطل ہوگی اور نہ ہی فاسد ، بلکہ سلام سے پہلے اگر یاد آ جائے تو سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کرلے اور اگر سلام کے بعد یاد آئے تو بھی سہو کے دو سجدے کرلے ، یہی اس کے لیے کافی ہے ، اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا اور آپ نے کوئی اور رکعت پڑھ کر اس نماز کو جفت نہیں بنایا تھا۔ ( دیکھئیے : تحفۃ الأحوذی : ١/٣٠٤ طبع ملتا ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1214) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 394
سجدہ سہو میں تشہد پڑھنا
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی آپ سے سہو ہوگیا، تو آپ نے دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا، پھر سلام پھیرا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- عبد الوھاب ثقفی، ھشیم اور ان کے علاوہ کئی اور لوگوں نے بطریق : «خالد الحذاء عن أبي قلابة» یہ حدیث ذرا لمبے سیاق کے ساتھ روایت کی ہے، اور وہ یہی عمران بن حصین (رض) کی حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عصر میں صرف تین ہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ایک آدمی اٹھا جسے «خرباق» کہا جاتا تھا (اور اس نے پوچھا : کیا نماز میں کمی کردی گئی ہے، یا آپ بھول گئے ہیں) ٣- سجدہ سہو کے تشہد کے سلسلہ میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھے گا اور سلام پھیرے گا۔ اور بعض کہتے کہ سجدہ سہو میں تشہد اور سلام نہیں ہے اور جب سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے تو تشہد نہ پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جب سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے تو تشہد نہ پڑھے (اختلاف تو سلام کے بعد میں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٢ (١٠٣٩) ، سنن النسائی/السہو ٢٣ (١٢٣٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٨٨٥) (شاذ) (حدیث میں تشہد کا تذکرہ شاذ ہے) قال الشيخ الألباني : شاذ بذکر التشهد، الإرواء (403) ، ضعيف أبي داود (193) // هذا رقم الشيخ ناصر الخاص به وعندنا برقم (227 / 1039) //، المشکاة (1019) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 395
جسے نماز میں کمی یا زیادتی کا شک ہو
عیاض یعنی ابن ہلال کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے کہا : ہم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں (یا وہ کیا کرے ؟ ) تو ابو سعید خدری (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ کتنی پڑھی ہے ؟ تو وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرلے ۔ (یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد) امام ترمذی کہتے ہیں : ا۔ ابوسعید (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عثمان، ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ وغیرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- یہ حدیث ابوسعید سے دیگر کئی سندوں سے بھی مروی ہے، ٤- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : جب تم سے کسی کو ایک اور دو میں شک ہوجائے تو اسے ایک ہی مانے اور جب دو اور تین میں شک ہو تو اسے دو مانے اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے ۔ اسی پر ہمارے اصحاب (محدثین) کا عمل ہے ١ ؎ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب کسی کو اپنی نماز میں شبہ ہوجائے اور وہ نہ جان سکے کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں ؟ تو وہ پھر سے لوٹائے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٩٨ (١٠٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٩ (١٢٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٩٦) ، مسند احمد (٣/١٢، ٣٧، ٥٠، ٥١، ٥٤) (صحیح) (ہلال بن عیاض یا عیاض بن ہلال مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی راجح مسئلہ ہے۔ ٢ ؎ : یہ مرجوح قول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1204) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 396
جسے نماز میں کمی یا زیادتی کا شک ہو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کے پاس شیطان اس کی نماز میں آتا ہے اور اسے شبہ میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک آدمی نہیں جان پاتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں ؟ چناچہ تم میں سے کسی کو اگر اس قسم کا شبہ محسوس ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرلے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤ (٦٠٨) ، والعمل في الصلاة ١٨ (١٢٢٢) ، والسہو ٦ (١٢٣١) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٨٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ٨ (٣٩) ، والمساجد ١٩ (٥٧٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٩٨ (١٠٣٠) ، سنن النسائی/الأذان ٣٠ (٦٧١) ، والسہو ٢٥ (١٢٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣٥ (١٢١٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٢٣٩) ، مسند احمد (٢/٣١٣، ٣٥٨، ٤١١، ٤٦٠، ٥٠٣، ٥٢٢، ٥٣١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (943 - 345) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 397
جسے نماز میں کمی یا زیادتی کا شک ہو
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جب کوئی شخص نماز بھول جائے اور یہ نہ جان سکے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو ؟ تو ایسی صورت میں اسے ایک مانے، اور اگر وہ یہ نہ جاسکے کہ اس نے دو پڑھی ہے یا تین تو ایسی صورت میں دو پر بنا کرے، اور اگر وہ یہ نہ جان سکے کہ اس نے تین پڑھی ہے یا چار تو تین پر بنا کرے، اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٢ (١٢٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٢٢) ، مسند احمد (١/١٩٠، ١٩٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1209) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 398
ظہر وعصر میں دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (ظہر یا عصر کی) دو رکعت پڑھ کر (مقتدیوں کی طرف) پلٹے تو ذوالیدین نے آپ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے پوچھا : کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : ہاں (آپ نے دو ہی رکعت پڑھی ہیں) تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور آخری دونوں رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا، پھر اپنے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر اللہ اکبر کہا اور سر اٹھایا، پھر اپنے اسی سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔ (یعنی سجدہ سہو کیا) امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمران بن حصین، ابن عمر، ذوالیدین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اس حدیث کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ جب کوئی نماز میں بھول کر یا لاعلمی میں یا کسی بھی وجہ سے بات کر بیٹھے تو اسے نئے سرے سے نماز دہرانی ہوگی۔ وہ اس حدیث میں مذکور واقعہ کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے ١ ؎، ٤- رہے امام شافعی تو انہوں نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے فتویٰ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو روزہ دار کے سلسلے میں مروی ہے کہ جب وہ بھول کر کھالے تو اس پر روزہ کی قضاء نہیں، کیونکہ وہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے۔ شافعی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے روزہ دار کے قصداً اور بھول کر کھانے میں جو تفریق کی ہے وہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث کی وجہ سے ہے، ٥- امام احمد ابوہریرہ (رض) کی حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر امام یہ سمجھ کر کہ اس کی نماز پوری ہوچکی ہے کوئی بات کرلے پھر اسے معلوم ہو کہ اس کی نماز پوری نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنی نماز پوری کرلے، اور جو امام کے پیچھے مقتدی ہو اور بات کرلے اور یہ جانتا ہو کہ ابھی کچھ نماز اس کے ذمہ باقی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے دوبارہ پڑھے، انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں فرائض کم یا زیادہ کئے جاسکتے تھے۔ اور ذوالیدین (رض) نے جو بات کی تھی تو وہ محض اس وجہ سے کہ انہیں یقین تھا کہ نماز کامل ہوچکی ہے اور اب کسی کے لیے اس طرح بات کرنا جائز نہیں جو ذوالیدین کے لیے جائز ہوگیا تھا، کیونکہ اب فرائض میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ١ ؎، ٦- احمد کا قول بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی اس باب میں احمد جیسی بات کہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٨ (٤٨٢) ، والأذان ٦٩ (٧١٤) ، والسہو ٣ (١٢٢٧) ، و ٤ (١٢٢٨) ، و ٨٥ (١٣٦٧) ، والأدب ٤٥ (٦٠٥١) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٥٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٩٥ (١٠٠٨) ، سنن النسائی/السہو ٢٢ (١٢٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣٤ (١٢١٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٤٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٥، ٤٣٣، ٤٦٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٥ (١٥٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس پر ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ، صرف یہ کمزور دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے سے پہلے کا ہے ، کیونکہ ذوالیدین (رض) کا انتقال غزوہ بدر میں ہوگیا تھا ، اور ابوہریرہ (رض) نے یہ واقعہ کسی صحابی سے سن کر بیان کیا ، حالانکہ بدر میں ذوالشمالین (رض) کی شہادت ہوئی تھی نہ کہ ذوالیدین کی ، نیز ابوہریرہ (رض) نے صاف صاف بیان کیا ہے کہ میں اس واقعہ میں تھا ( جیسا کہ مسلم اور احمد کی روایت میں ہے ) پس یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے کے بعد کا ہے۔ ٢ ؎ : یہ بات مبنی بر دلیل نہیں ہے اگر بات ایسی ہی تھی تو آپ ﷺ نے اس وقت اس کی وضاحت کیوں نہیں فرما دی ، اصولیین کے یہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ شارع (علیہ السلام) ( نبی اکرم ﷺ ) کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ کسی بات کو بتانے کی ضرورت ہو اور آپ نہ بتائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1214) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 399
جوتیاں پہن کر نماز پڑھنا
سعید بن یزید (ابو مسلمہ) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن ابی حبیبۃ، عبداللہ بن عمرو، عمرو بن حریث، شداد بن اوسثقفی، ابوہریرہ (رض) اور عطاء سے بھی جو بنی شیبہ کے ایک فرد تھے احادیث آئی ہیں، ٣- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٤ (٣٨٦) ، واللباس ٣٧ (٥٨٥٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١٤ (٥٥٥) ، سنن النسائی/القبلة ٢٤ (٧٧٦) ، ( تحفة الأشراف : ٨٦٦) ، مسند احمد (٣/١٠٠، ١٦٦، ١٨٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٣ (١٤١٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتوں میں نماز نہیں پڑھتے ، علماء کہتے ہیں کہ اگر جوتوں میں نجاست نہ لگی ہو تو ان میں نماز یہودیوں کی مخالفت کے پیش نظر مستحب ہوگی ورنہ اسے رخصت پر محمول کیا جائے گا ، مساجد کی تحسین و طہارت کے پیش نظر جہاں دریاں ، قالین وغیرہ بچھے ہوں وہاں جوتے اتار کر نماز پڑھنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صفة الصلاة / الأصل صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 400
فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنا
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فجر اور مغرب میں قنوت پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- براء کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، انس، ابوہریرہ، ابن عباس، اور خفاف بن ایماء بن رحضہ غفاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- فجر میں قنوت پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے فجر میں قنوت پڑھنے کی ہے، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے، ٤- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ فجر میں قنوت نہ پڑھے، الا یہ کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوئی ہو تو ایسی صورت میں امام کو چاہیئے کہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے دعا کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٥ (١٤٤١) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٩ (١٠٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٢) ، مسند احمد (٤/٢٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے شوافع نے فجر میں قنوت پڑھنا ثابت کیا ہے اور برابر پڑھتے ہیں ، لیکن اس میں تو مغرب کا تذکرہ بھی ہے ، اس میں کیوں نہیں پڑھتے ؟ دراصل یہاں قنوت سے مراد قنوت نازلہ ہے جو بوقت مصیبت پڑھی جاتی ہے ( اس سے مراد وتر والی قنوت نہیں ہے ) رسول اکرم ﷺ بوقت مصیبت خاص طور پر فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے تھے ، بلکہ بقیہ نمازوں میں بھی پڑھتے تھے ، اور جب ضرورت ختم ہوجاتی تھی تو چھوڑ دیتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 401
قنوت کو ترک کرنا
ابو مالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (طارق بن اشیم (رض) ) سے عرض کیا : ابا جان ! آپ نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور علی (رض) کے پیچھے بھی یہاں کوفہ میں تقریباً پانچ برس تک پڑھی ہے، کیا یہ لوگ (برابر) قنوت (قنوت نازلہ) پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : میرے بیٹے ! یہ بدعت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٣٢ (١٠٨١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤ (١٢٤١) ، ( تحفة الأشراف : ٤٩٧٦) ، مسند احمد (٣/٤٧٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : اس میں برابر پڑھنا مراد ہے نہ کہ مطلق پڑھنا بدعت مقصود ہے ، کیونکہ بوقت ضرورت قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ گزرا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1241) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 402
None
اسی سند سے اسی مفہوم کی اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
جو چھینکے نماز میں
رفاعہ بن رافع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، مجھے چھینک آئی تو میں نے «الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه مبارکا عليه كما يحب ربنا ويرضی» کہا جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ کر پلٹے تو آپ نے پوچھا : نماز میں کون بول رہا تھا ؟ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات دوبارہ پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا ؟ اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات تیسری بار پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا ؟ رفاعہ بن رافع (رض) نے عرض کیا : میں تھا اللہ کے رسول ! آپ نے پوچھا : تم نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا : یوں کہا تھا «الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه مبارکا عليه كما يحب ربنا ويرضی» تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے کون لے کر آسمان پر چڑھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- رفاعہ کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں انس، وائل بن حجر اور عامر بن ربیعہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کے نزدیک یہ واقعہ نفل کا ہے ١ ؎ اس لیے کہ تابعین میں سے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب آدمی فرض نماز میں چھینکے تو الحمدللہ اپنے جی میں کہے اس سے زیادہ کی ان لوگوں نے اجازت نہیں دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٧٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٦ (٩٣٢) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦٠٦) ، وراجع أیضا : صحیح البخاری/الأذان ١٢٦ (٧٩٩) ، و سنن ابی داود/ الصلاة ١٢١ (٧٧٠) ، وسنن النسائی/التطبیق ٢٢ (١٠٦٣) ، وما/القرآن ٧ (٢٥) ، و مسند احمد (٤/٣٤٠) (صحیح) (سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں : «وأفاد بشر بن عمر الزهراي في روايته عن رفاعة بن يحيى أن تلک الصلاة کانت المغرب» (یہ مغرب تھی ) یہ روایت ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جنہوں نے اسے نفل پر محمول کیا ہے۔ مگر دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابی نے یہ الفاظ رکوع سے اٹھتے وقت کہے تھے اور اسی دوران انہیں چھینک بھی آئی تھی ، تمام روایات صحیحہ اور اس ضمن میں علماء کے اقوال کی جمع و تطبیق یہ ہے کہ اگر نماز میں چھینک آئے تو اونچی آواز سے الحمد للہ کہنے کی بجائے جی میں کہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، صحيح أبي داود (747) ، المشکاة (992) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 404
نماز میں کلام کا منسوخ ہونا
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز میں بات چیت کرلیا کرتے تھے، آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ : «وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- زید بن ارقم (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود اور معاویہ بن حکم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں قصداً یا بھول کر گفتگو کرلے تو نماز دہرائے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ جب نماز میں قصداً گفتگو کرے تو نماز دہرائے اور اگر بھول سے یا لاعلمی میں گفتگو ہوجائے تو نماز کافی ہوگی، ٤- شافعی اسی کے قائل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ٢ (١٢٠٠) ، وتفسیر البقرة ٤٢ (٤٥٣٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٣٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٧٨ (٩٤٩) ، سنن النسائی/السہو ٢٠ (١٢٢٠) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦٦١) ، مسند احمد (٤/٣٦٨) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرة برقم : ٢٩٨٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : رسول اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق مومن سے بھول چوک معاف ہے ، بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ بشرطیکہ تھوڑی ہو ہم کہتے ہیں ایسی حالت میں آدمی تھوڑی بات ہی کر پاتا ہے کہ اسے یاد آ جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (875) ، الإرواء (393) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 405
توبہ کی نماز
اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو کہتے سنا : میں جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ اس سے مجھے نفع پہنچاتا، جتنا وہ پہنچانا چاہتا۔ اور جب آپ کے اصحاب میں سے کوئی آدمی مجھ سے بیان کرتا تو میں اس سے قسم لیتا۔ (کیا واقعی تم نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے خود سنی ہے ؟ ) جب وہ میرے سامنے قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا، مجھ سے ابوبکر (رض) نے بیان کیا اور ابوبکر (رض) نے سچ بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو شخص گناہ کرتا ہے، پھر جا کر وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے، پھر اللہ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ اسے معاف کردیتا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبهم ومن يغفر الذنوب إلا اللہ ولم يصروا علی ما فعلوا وهم يعلمون» اور جب ان سے کوئی ناشائستہ حرکت یا کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو وہ اللہ کو یاد کر کے فوراً استغفار کرتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کون گناہ بخش سکتا ہے، اور وہ جان بوجھ کر کسی گناہ پر اڑے نہیں رہتے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے یعنی عثمان بن مغیرہ ہی کی سند سے جانتے ہیں، ٢- اور ان سے شعبہ اور دوسرے اور لوگوں نے بھی روایت کی ہے ان لوگوں نے اسے ابوعوانہ کی حدیث کی طرح مرفوعاً روایت کیا ہے، اور اسے سفیان ثوری اور مسعر نے بھی روایت کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت موقوف ہے مرفوع نہیں اور مسعر سے یہ حدیث مرفوعاً بھی مروی ہے اور سوائے اس حدیث کے اسماء بن حکم کی کسی اور مرفوع حدیث کا ہمیں علم نہیں، ٣- اس باب میں ابن مسعود، ابو الدردائ، انس، ابوامامہ، معاذ، واثلہ، اور ابوالیسر کعب بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥٢١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٣ (١٣٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ٦٦١٠) ، مسند احمد (١/٢ ویأتي عند المؤلف في تفسیر آل عمران برقم : ٣٠٠٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1395) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 406
بچے کو نماز کا حکم کب دیا جائے
سبرہ بن معبد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سات برس کے بچے کو نماز سکھاؤ، اور دس برس کے بچے کو نماز نہ پڑھنے پر مارو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سبرہ بن معبد جہنی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جو لڑکا دس برس کے ہوجانے کے بعد نماز چھوڑے وہ اس کی قضاء کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٦ (٤٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ٣٨١٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤١ (١٤٧١) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (572 - 573) ، صحيح أبي داود (247) ، الإرواء (247) ، التعليق علی ابن خزيمة (1002) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 407
اگر تشہد کے بعد حدث ہو جائے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی کو سلام پھیرنے سے پہلے «حدث» لاحق ہوجائے اور وہ اپنی نماز کے بالکل آخر میں یعنی قعدہ اخیرہ میں بیٹھ چکا ہو تو اس کی نماز درست ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں، اس کی سند میں اضطراب ہے، ٢- عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم، جو افریقی ہیں کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ان میں یحییٰ بن سعید قطان اور احمد بن حنبل بھی شامل ہیں، ٣- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی تشہد کی مقدار کے برابر بیٹھ چکا ہو اور سلام پھیرنے سے پہلے اسے «حدث» لاحق ہوجائے تو پھر اس کی نماز پوری ہوگئی، ٤- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب «حدث» تشہد پڑھنے سے یا سلام پھیرنے سے پہلے لاحق ہوجائے تو نماز دہرائے۔ شافعی کا یہی قول ہے، ٥- اور احمد کہتے ہیں : جب وہ تشہد نہ پڑھے اور سلام پھیر دے تو اس کی نماز اسے کافی ہوجائے گی، اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : «وتحليلها التسليم» یعنی نماز میں جو چیزیں حرام ہوئی تھیں سلام پھیرنے ہی سے حلال ہوتی ہیں، بغیر سلام کے نماز سے نہیں نکلا جاسکتا اور تشہد اتنا اہم نہیں جتنا سلام ہے کہ اس کے ترک سے نماز درست نہ ہوگی، ایک بار نبی اکرم ﷺ دو رکعت کے بعد کھڑے ہوگئے اپنی نماز جاری رکھی اور تشہد نہیں کیا، ٦- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں : جب تشہد کرلے اور سلام نہ پھیرا ہو تو نماز ہوگئی، انہوں نے ابن مسعود (رض) کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس وقت نبی اکرم ﷺ نے انہیں تشہد سکھایا تو فرمایا : جب تم اس سے فارغ ہوگئے تو تم نے اپنا فریضہ پورا کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٧٤ (٦١٧) ، ( تحفة الأشراف : ٨٦١٠، و ٨٨٧٥) (ضعیف) (سند میں ” عبدالرحمن بن انعم افریقی ضعیف ہیں، نیز یہ حدیث علی (رض) کی صحیح حدیث ” تحريمها التکبير وتحليلها التسليم “ کے خلاف ہے) وضاحت : ١ ؎ : امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے کہ آدمی جب تشہد کے بعد بیٹھ چکا ہو اور اسے نماز کے آخر میں «حدث» ہوگیا یعنی اس کا وضو ٹوٹ گیا تو اس کی نماز ہوجائے گی ، لیکن یہ روایت ضعیف ہے استدلال کے قابل نہیں اور اگر صحیح ہو تو اسے سلام کی فرضیت سے پہلے پر محمول کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (26 و 181) // عندنا برقم (35 / 205 و 214 / 1005) نحوه // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 408
جب بارش ہو رہی ہو تو گھروں میں نماز پڑھنا جائز ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ بارش ہونے لگی تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو چاہے اپنے ڈیرے میں ہی نماز پڑھ لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، سمرہ، ابولملیح عامر (جنہوں نے اپنے باپ اسامہ بن عمر ہذل سے روایت کی ہے) اور عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم نے بارش اور کیچڑ میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢١٤ (١٠٦٥) ، ( تحفة الأشراف : ٢٧١٦) ، مسند احمد (٣/٣١٢، ٣٢٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2 / 340 - 341) ، صحيح أبي داود (976) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 409
نماز کے بعد تسبیح
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ فقیر و محتاج لوگ آئے اور کہا : اللہ کے رسول ! مالدار نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں وہ روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں۔ ان کے پاس مال بھی ہے، اس سے وہ غلام آزاد کرتے اور صدقہ دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جب تم نماز پڑھ چکو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ ، تینتیس مرتبہ الحمد لله اور تینتیس مرتبہ الله أكبر اور دس مرتبہ لا إله إلا الله کہہ لیا کرو، تو تم ان لوگوں کو پالو گے جو تم پر سبقت لے گئے ہیں، اور جو تم سے پیچھے ہیں وہ تم پر سبقت نہ لے جاسکیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں کعب بن عجرہ، انس، عبداللہ بن عمرو، زید بن ثابت، ابو الدرداء، ابن عمر اور ابوذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، نیز اس باب میں ابوہریرہ اور مغیرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : دو عادتیں ہیں جنہیں جو بھی مسلمان آدمی بجا لائے گا جنت میں داخل ہوگا۔ ایک یہ کہ وہ ہر نماز کے بعد دس بار سبحان الله ، دس بار الحمد لله ، دس بار الله أكبر کہے، دوسرے یہ کہ وہ اپنے سوتے وقت تینتیس مرتبہ سبحان الله ، تینتیس مرتبہ الحمد لله اور چونتیس مرتبہ الله أكبر کہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٩٥ (١٣٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٦٨ و ٦٣٩٣) (ضعیف منکر) (دس بار ” لا إله إلا اللہ “ کا ذکر منکر ہے، منکر ہونے کا سبب خصیف ہیں جو حافظے کے کمزور اور مختلط راوی ہیں، آخر میں ایک بار ” لا إله إلا اللہ “ کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کی روایت سے صحیح بخاری میں مروی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، والتهليل عشرا فيه منكر، التعليق الرغيب (2 / 260) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 410
کیچڑ اور بارش میں سواری پر نماز پڑھنے کے بارے میں
یعلیٰ بن مرہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، وہ ایک تنگ جگہ پہنچے تھے کہ نماز کا وقت آگیا، اوپر سے بارش ہونے لگی، اور نیچے کیچڑ ہوگئی، رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری ہی پر اذان دی اور اقامت کہی اور سواری ہی پر آگے بڑھے اور انہیں نماز پڑھائی، آپ اشارہ سے نماز پڑھتے تھے، سجدہ میں رکوع سے قدرے زیادہ جھکتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، عمر بن رماح بلخی اس کے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ یہ صرف انہیں کی سند سے جانی جاتی ہے۔ اور ان سے یہ حدیث اہل علم میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے، ٢- انس بن مالک سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے پانی اور کیچڑ میں اپنی سواری پر نماز پڑھی، ٣- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٨٥١) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” عمروبن عثمان “ مجہول الحال اور عثمان بن یعلی “ مجہول العین ہیں) وضاحت : ١ ؎ : جب ایسی صورت حال پیش آ جائے اور دوسری جگہ وقت کے اندر ملنے کا امکان نہ ہو تو نماز کا قضاء کرنے سے بہتر اس طرح سے نماز ادا کرلینا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 411
نماز میں بہت کوشش اور تکلیف اٹھانا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیر سوج گئے تو آپ سے عرض کیا گیا : کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٦، وتفسیر الفتح ٢ (٤٨٣٦) ، والرقاق ٢٠ (٦٤٧١) ، صحیح مسلم/المنافقین ١٨ (٢٨٢٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٧ (١٦٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠٠ (١٤١٩، ١٤٢٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٩٨) ، مسند احمد (٤/٢٥١، ٢٥٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھنے کا بیان۔ ٢ ؎ : تو جب بخشے بخشائے نبی اکرم ﷺ بطور شکرانے کے زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھا کرتے تھے یعنی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت لگاتے تھے تو ہم گنہگار امتیوں کو تو اپنے کو بخشوانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف مسنون اعمال کے ذریعے اور زیادہ دھیان دینا چاہیئے۔ البتہ بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1419 - 1420) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 412
قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا
حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا : میں نے کہا : اے اللہ مجھے نیک اور صالح ساتھی نصیب فرما، چناچہ ابوہریرہ (رض) کے پاس بیٹھنا میسر ہوگیا، میں نے ان سے کہا : میں نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے نیک ساتھی عطا فرما، تو آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، شاید اللہ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہوگا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہوگیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامراد رہا، اور اگر اس کی فرض نمازوں میں کوئی کمی ١ ؎ ہوگی تو رب تعالیٰ (فرشتوں سے) فرمائے گا : دیکھو، میرے اس بندے کے پاس کوئی نفل نماز ہے ؟ چناچہ فرض نماز کی کمی کی تلافی اس نفل سے کردی جائے گی، پھر اسی انداز سے سارے اعمال کا محاسبہ ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- یہ حدیث دیگر اور سندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے، ٣- حسن کے بعض تلامذہ نے حسن سے اور انہوں نے قبیصہ بن حریث سے اس حدیث کے علاوہ دوسری اور حدیثیں بھی روایت کی ہیں اور مشہور قبیصہ بن حریث ہی ہے ٢ ؎، یہ حدیث بطریق : «أنس بن حكيم عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» بھی روایت کی گئی ہے، ٤- اس باب میں تمیم داری (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصلاة ٩ (٤٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠٢ (١٤٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٩٣) ، مسند احمد (٢/٤٢٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ کمی خشوع خضوع اور اعتدال کی کمی بھی ہوسکتی ہے ، اور تعداد کی کمی بھی ہوسکتی ہے ، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے دیگر سارے اعمال کا معاملہ بھی یہی ہوگا تو زکاۃ میں کہاں خشوع خضوع کا معاملہ ہے ؟ وہاں تعداد ہی میں کمی ہوسکتی ہے ، اللہ کا فضل بڑا وسیع ہے ، عام طور پر نماز پڑھتے رہنے والے سے اگر کوئی نماز رہ گئی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ معاملہ فرما دے گا ، ان شاء اللہ۔ ٢ ؎ : یعنی : ان کے نام میں اختلاف ہے ، قبیصہ بن حریث بھی کہا گیا ہے ، اور حریث بن قبیصہ بھی کہا گیا ہے ، تو زیادہ مشہور قبیصہ بن حریث ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1425 - 1426) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 413
جو شخص دن اور رات میں دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھنے کی فضلیت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بارہ رکعت سنت ١ ؎ پر مداومت کرے گا اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا : چار رکعتیں ظہر سے پہلے ٢ ؎، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- سند میں مغیرہ بن زیاد پر بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے، ٣- اس باب میں ام حبیبہ، ابوہریرہ، ابوموسیٰ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٦٦ (١٧٩٥، ١٧٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٠ (١١٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٩٣) (صحیح) (تراجع الألبانی ٦٢١) وضاحت : ١ ؎ : فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز کے ساتھ اس سے پہلے یا بعد میں جو سنت پڑھی جاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم وہ ہے جس پر رسول اللہ ﷺ نے مداومت فرمائی ہے ، انہیں سنت موکدہ یا سنن رواتب کہا جاتا ہے ، دوسری قسم وہ ہے جس پر آپ نے مداومت نہیں فرمائی ہے انہیں سنن غیر موکدہ کہا جاتا ہے ، سنن موکدہ کل ١٢ رکعتیں ہیں ، جس کی تفصیل اس روایت میں ہے ، ان سنتوں کو گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ لیکن اگر گھر میں پڑھنا مشکل ہوجائے ، جیسے گھر کے لیے اٹھا رکھنے میں سرے سے بھول جانے کا خطرہ ہو تو مسجد ہی ادا کر لینی چاہیئے۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں ظہر کے فرض سے پہلے چار رکعت کا ذکر ہے اور عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت میں دو رکعت کا ذکر ہے ، تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ دونوں طرح سے جائز ہے ، رسول اللہ ﷺ کا عمل دونوں طرح سے تھا کبھی ایسا کرتے اور کبھی ویسا ، یا یہ بھی ممکن ہے کہ گھر میں دو رکعتیں پڑھ کر نکلتے اور مسجد میں پھر دو پڑھتے ، یا یہ بھی ہوتا ہوگا کہ گھر میں چار پڑھتے اور مسجد جا کر تحیۃ المسجد کے طور پر دو پڑھتے تو ابن عمر نے اس کو سنت مؤکدہ والی دو سمجھا ، ایک تطبیق یہ بھی ہے کہ ابن عمر (رض) کا بیان کردہ واقعہ آپ ﷺ کا اپنا فعل ہے ( جو کبھی چار کا بھی ہوتا تھا ) مگر عائشہ (رض) اور ام حبیبہ (رض) کی یہ حدیث قولی ہے جو امت کے لیے ہے ، اور بہرحال چار میں ثواب زیادہ ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1140) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 414
جو شخص دن اور رات میں دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھنے کی فضلیت
ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص رات اور دن میں بارہ رکعت سنت پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا : چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عنبسہ کی حدیث جو ام حبیبہ (رض) سے مروی ہے اس باب میں حسن صحیح ہے۔ اور وہ عنبسہ سے دیگر اور سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٠ (١٢٥٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٦٦ (١٧٩٧، ١٧٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٠ (١١٤١) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٦٢) ، مسند احمد (٦/٣٢٦، ٣٢٧، ٤٢٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٤ (١٤٧٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 415
فجر کی دو سنتوں کی فضلیت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فجر کی دونوں رکعتیں دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے ان سب سے بہتر ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابن عمر، اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ جنہیں رسول اللہ ﷺ ان میں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٥) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٦ (١٧٦٠، ٢٦٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٦١٠٦) ، مسند احمد (٦/١٤٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (437) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 416
فجر کی سنتوں میں تخفیف کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کو ایک مہینے تک دیکھتا رہا، فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں آپ «قل يا أيها الکافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اور ہم ثوری کی روایت کو جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے صرف ابواحمد زبیری ہی کے طریق سے جانتے ہیں، (جب کہ) لوگوں (محدثین) کے نزدیک معروف «عن إسرائيل عن أبي إسحاق» ہے بجائے «سفیان ابی اسحاق» کے، ٣- اور ابواحمد زبیری کے واسطہ سے بھی اسرائیل سے روایت کی گئی ہے، ٤- ابواحمد زبیری ثقہ اور حافظ ہیں، میں نے بندار کو کہتے سنا ہے کہ میں نے ابواحمد زبیری سے زیادہ اچھے حافظے والا نہیں دیکھا، ابواحمد کا نام محمد بن عبداللہ بن زبیر کوفی اسدی ہے، ٥- اس باب میں ابن مسعود، انس، ابوہریرہ، ابن عباس، حفصہ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٦٨ (٩٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٢ (١١٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٨٨) ، مسند احمد (٢/٩٤، ٩٥، ٩٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1149) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 417
فجر کی سنتوں کے بعد گفتگو کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو (اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرما لیتے، ورنہ نماز کے لیے نکل جاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے فجر کے طلوع ہونے بعد سے لے کر فجر پڑھنے تک گفتگو کرنا مکروہ قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ گفتگو ذکر الٰہی سے متعلق ہو یا بہت ضروری ہو، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢٤ (١١٦١) ، و ٢٥ (١١٦٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٧٣) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٣ (١٢٦٢، ١٢٦٣) ، (کلہم بذکر الاضطجاع علی الشق الأیمن) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٧١١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : رسول اکرم ﷺ کے فعل کے بعد اب کسی کے قول اور رائے کی کیا ضرورت ؟ ہاں ابن مسعود (رض) نے جو لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا ؟ تو یہ لایعنی گفتگو کا معاملہ ہوگا ، بہرحال اجتماعی طور پر لایعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر ، نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1147 و 1148) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 418
اس بارے میں کہ طلوع فجر کے بعد دو سنتوں کے علاوہ کوئی نماز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی نماز نہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی نماز نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف قدامہ بن موسیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں اور ان سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور حفصہ (رض) سے احادیث آئی ہیں، ٣- اور یہی قول ہے جس پر اہل علم کا اجماع ہے : انہوں نے طلوع فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے فجر کی دونوں سنتوں کے کوئی اور نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٨ (٢٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ٨٥٧٠) ، مسند احمد (٢/٢٣، ٥٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : مستقل طور پر کوئی سنت نفل اس درمیان ثابت نہیں ، ہاں اگر کوئی گھر سے فجر کی سنتیں پڑھ کر مسجد آتا ہے ، اور جماعت میں ابھی وقت باقی ہے تو دو رکعت بطور تحیۃ المسجد کے پڑھ سکتا ہے ، بلکہ پڑھنا ہی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (478) ، صحيح أبي داود (1159) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 419
فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنے کے بارے میں۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی فجر کی دو رکعت (سنت) پڑھے تو دائیں کروٹ پر لیٹے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- عائشہ (رض) سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب فجر کی دونوں رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹتے، ٤- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ایسا استحباباً کیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٣ (١٢٦١) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٤٣٥) ، مسند احمد (٢/٤١٥) (صحیح) (بعض اہل علم کی تحقیق میں نبی اکرم ﷺ سے لیٹنے کی بات صحیح ہے، اور قول نبوی والی حدیث معلول ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : إعلام أہل العصر بأحکام رکعتی الفجر : تالیف : محدث شمس الحق عظیم آبادی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ، تالیف : عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے فجر کی سنت کے بعد تھوڑی دیر دائیں پہلو پر لیٹنا مسنون ہے ، بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے ، لیکن یہ رائے صحیح نہیں ، قولی اور فعلی دونوں قسم کی حدیثوں سے اس کی مشروعیت ثابت ہے ، بعض لوگوں نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اعمش مدلس راوی ہیں انہوں نے ابوصالح سے عن کے ذریعہ روایت کی ہے اور مدلس کا عنعنہ مقبول نہیں ہوتا ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ابوصالح سے اعمش کا عنعنہ اتصال پر محمول ہوتا ہے ، حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں «ھو مدلس ربما دلّس عن ضعیف ولا یدری بہ فمتی قال نا فلان فلا کلام ، ومتی قال عن تطرق إلیہ احتمال التدلیس إلافی شیوخ لہ أکثر عنہم کا براہیم وأبي وائل وابی صالح السمّان ، فإن روایتہ عن ہذا الصنف محمولۃ علی الاتصال» ہاں ، یہ لیٹنا محض خانہ پری کے لیے نہ ہو ، جیسا کہ بعض علاقوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ صرف پہلو زمین سے لگا کر فوراً اٹھ بیٹھتے ہیں ، نبی اکرم ﷺ اس وقت تک لیٹے رہتے تھے جب تک کہ بلال (رض) آ کر اقامت کے وقت کی خبر نہیں دیتے تھے۔ مگر خیال ہے کہ اس دوران اگر نیند آنے لگے تو اٹھ جانا چاہیئے ، اور واقعتاً نیند آ جانے کی صورت میں جا کر وضو کرنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (1206) ، صحيح أبي داود (1146) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 420
جب نماز کھڑی ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب جماعت کھڑی ہوجائے ١ ؎ تو فرض نماز ٢ ؎ کے سوا کوئی نماز (جائز) نہیں ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اسی طرح ایک دوسری سند سے بھی ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٣- اس باب میں ابن بحینہ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن سرجس، ابن عباس اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اور حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ نے بھی عمرو بن دینار سے روایت کی ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور مرفوع حدیث ہی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ٥- سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٦- اس کے علاوہ اور (ایک تیسری) سند سے بھی یہ حدیث بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے - (جیسے) عیاش بن عباس قتبانی مصری ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧٢٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٤ (١٢٦٦) ، سنن النسائی/الإمامة ٦٠ (٨٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٣ (١١٥١) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٢٢٨) ، مسند احمد (٢/٣٥٢، ٤٥٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٩ (١١٨٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اقامت شروع ہوجائے۔ ٢ ؎ : یعنی جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔ ٣ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرض نماز کے لیے تکبیر ہوجائے تو نفل پڑھنا جائز نہیں ، خواہ وہ رواتب ہی کیوں نہ ہوں ، بعض لوگوں نے فجر کی سنت کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے ، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں ، اس لیے کہ مسلم بن خالد کی روایت میں کہ جسے انہوں نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے مزید وارد ہے ، «قيل يا رسول اللہ ولا رکعتي الفجر قال ولا رکعتي الفجر» اس کی تخریج ابن عدی نے کامل میں یحییٰ بن نصر بن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے ، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے ، اور ابوہریرہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے اور جس میں «إلا رکعتي الصبح» کا اضافہ ہے : کا جواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خود فرماتے ہیں «هذه الزيادة لا أصل لها» یعنی یہ اضافہ بےبنیاد ہے اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں ، اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1151) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 421
جس کی فجر کی سنتیں چھوٹ جائیں وہ فجر کے بعد انہیں پڑھ لے
قیس (قیس بن عمرو بن سہل) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم ﷺ پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا : قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ١ ؎ (پڑھنے جا رہے ہو ؟ ) میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا : تب کوئی حرج نہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کو اس کے مثل صرف سعد بن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں، ٢- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے، ٣- یہ حدیث مرسلاً بھی روایت کی جاتی ہے، ٤- اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہا ہے کہ آدمی کے فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ٥- سعد بن سعید یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، اور قیس یحییٰ بن سعید انصاری کے دادا ہیں۔ انہیں قیس بن عمرو بھی کہا جاتا ہے اور قیس بن قہد بھی، ٦- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سنا ہے، بعض لوگوں نے یہ حدیث سعد بن سعید سے اور سعد نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نکلے تو قیس کو دیکھا ، اور یہ عبدالعزیز کی حدیث سے جسے انہوں نے سعد بن سعید سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٥ (١٢٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٤ (١١٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١١٠٢) ، مسند احمد (٥/٤٤٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ : فجر کی فرض کے بعد کوئی سنت نفل تو ہے نہیں ، تو یہی سمجھا جائے گا کہ تم فجر کے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جا رہے ہو۔ ٢ ؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھنا جائز ہے ، اور امام ترمذی نے جو اس روایت کو مرسل اور منقطع کہا ہے وہ صحیح نہیں ، کیونکہ یحییٰ بن سعید کے طریق سے یہ روایت متصلاً بھی مروی ہے ، جس کی تخریج ابن خزیمہ نے کی ہے اور ابن خزیمہ کے واسطے سے ابن حبان نے بھی کی ہے ، نیز انہوں نے اس کے علاوہ طریق سے بھی کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1151) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 422
کہ فجر کی سنتین اگر چھوٹ جائیں تو طلوع آفتاب کے بعد پڑھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو فجر کی دونوں سنتیں نہ پڑھ سکے تو انہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- ابن عمر سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے ایسا کیا ہے، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ٤- ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے ھمام سے یہ حدیث اس سند سے اس طرح روایت کی ہو سوائے عمرو بن عاصم کلابی کے۔ اور بطریق : «قتادة عن النضر بن أنس عن بشير بن نهيك عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مشہور یہ ہے کہ آپ نے فرمایا : جس نے فجر کی ایک رکعت بھی سورج طلوع ہونے سے پہلے پالی تو اس نے فجر پالی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٢١٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کی سند میں ایک راوی قتادہ ہیں جو مدلس ہیں ، انہوں نے نصر بن انس سے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے ، نیز یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ غیر محفوظ ہے ، عمرو بن عاصم جو ہمام سے روایت کر رہے ہیں ، ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں ، ہمام کے دیگر تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے ان لفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں «من أدرک ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرک الصبحَ» جس آدمی نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے صبح کی نماز پا لی ( یعنی صبح کے وقت اور اس کے ثواب کو ) نیز یہ حدیث اس بات پر بصراحت دلالت نہیں کرتی ہے کہ جو اسے صبح کی نماز سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد ہی لازماً پڑھے ، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ جو اسے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو اسے وقت ادا میں نہ پڑھ سکا ہو یعنی سورج نکلنے سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو تو وہ اسے وقت قضاء میں یعنی سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے ، اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے صبح کی نماز کے بعد ان دو رکعت کو پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اس کی تائید دارقطنی ، حاکم اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «من لم يصل رکعتي الفجرحتی تطلع الشمس فليصلهما» جو آدمی سورج طلوع ہونے تک فجر کی دو رکعت سنت نہ پڑھ سکے وہ ان کو ( سورج نکلنے کے بعد ) پڑھ لے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2361) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 423
ظہر سے پہلے چار سنتیں پڑھنا
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) اور ام حبیبہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ہم سے ابوبکر عطار نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ نے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ نے سفیان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ہم جانتے تھے کہ عاصم بن ضمرہ کی حدیث حارث (اعور) کی حدیث سے افضل ہے، ٤- صحابہ کرام اور بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل کا عمل اسی پر ہے۔ وہ پسند کرتے ہیں کہ آدمی ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، اسحاق بن راہویہ اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ دن اور رات (دونوں) کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں، وہ ہر دو رکعت کے بعد فصل کرنے کے قائل ہیں شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وأخرجہ في الشمائل (٤٢) أیضا، وانظر ما یأتي برقم : ٤٢٩ و ٥٩٨ (تحفة الأشراف : ١٠١٣٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث اور اس قول میں کوئی فرق نہیں ، مطلب یہ ہے کہ چار رکعتیں بھی دو دو سلاموں سے پڑھے ، اور یہی زیادہ بہتر ہے ، ایک سلام سے بھی جائز ہے۔ مگر دو سلاموں کے ساتھ سنت پر عمل ، درود اور دعاؤں کی مزید فضیلت حاصل ہوجاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1161) ، ومن تمامه الحديث الآتی برقم (430) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 424
ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعتیں ١ ؎ اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی (رض) اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ویأتي برقم : ٤٣٢ (تحفة الأشراف : ٧٥٩١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے پہلے والی روایت میں ظہر سے پہلے چار رکعتوں کا ذکر ہے اور اس میں دو ہی رکعت کا ذکر ہے دونوں صحیح ہیں ، حالات و ظروف کے لحاظ سے ان دونوں میں سے کسی پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔ البتہ دونوں پر عمل زیادہ افضل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1138) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 425
اسی سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھ پاتے تو انہیں آپ اس کے بعد پڑھتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم اسے ابن مبارک کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اور اسے قیس بن ربیع نے شعبہ سے اور شعبہ نے خالد الحذاء سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور ہم قیس بن ربیع کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے جس نے شعبہ سے روایت کی ہو، ٣- بطریق : «عبدالرحمٰن بن أبي ليلى عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» بھی اسی طرح (مرسلاً ) مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٦ (١١٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٠٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے نبی اکرم ﷺ کا ان سنتوں کے اہتمام کا پتہ چلتا ہے ، اس لیے ہمیں بھی ان سنتوں کے ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیئے ، اگر ہم پہلے ادا نہ کرسکیں تو فرض نماز کے بعد انہیں ادا کرلیا کریں ، لیکن یہ قضاء فرض نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1158) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 426
اسی سے متعلق
ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اللہ اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اور یہ اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٦ (١٢٦٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل (١٨١٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٨ (١١٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٥٨) ، مسند احمد (٦/٣٢٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس قسم کی احادیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کی موت اسلام پر آئے گی اور وہ کافروں کی طرح جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ اس پر جہنم میں ہمیشہ رہنے کو حرام فرما دے گا ، اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ، اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہمیشگی کی آگ نہیں چھوئے گی ، مسلمان اگر گناہ گار اور سزا کا مستحق ہو تو بقدر جرم جہنم میں اس کا جانا ان احادیث کے منافی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1160) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 427
اسی سے متعلق
عنبسہ بن ابی سفیان (رض) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں اور اس کے بعد کی چار رکعتوں پر محافظت کی تو اللہ اس کو جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢- قاسم دراصل عبدالرحمٰن کے بیٹے ہیں۔ ان کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے، وہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے مولیٰ اور ثقہ ہیں، شام کے رہنے والے اور ابوامامہ کے شاگرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٥٨٦١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1160) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 428
عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھنا
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے، اور ان کے درمیان : مقرب فرشتوں اور ان مسلمانوں اور مومنوں پر کہ جنہوں نے ان کی تابعداری کی ان پر سلام کے ذریعہ فصل کرتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن ہے۔ ٢- اس باب میں ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) نے عصر سے پہلے کی چار رکعتوں میں فصل نہ کرنے کو ترجیح دی ہے، اور انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اسحاق کہتے ہیں : ان کے (علی کے) قول سلام کے ذریعے ان کے درمیان فصل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ دو رکعت کے بعد تشہد پڑھتے تھے، اور شافعی اور احمد کی رائے ہے کہ رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے اور وہ دونوں عصر سے پہلے کی چار رکعتوں میں سلام کے ذریعہ فصل کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر ما تقدم برقم ٤٢٤، وما یأتی برقم ٥٩٨ (تحفة الأشراف : ١٠١٤٢) (حسن) (سند میں ابواسحاق سبیعی مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : سلام کے ذریعہ فصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ چاروں رکعتیں دو دو رکعت کر کے ادا کرتے تھے ، اہل ایمان کو ملائکہ مقربین کا تابعدار اس لیے کہا گیا ہے کہ اہل ایمان بھی فرشتوں کی طرح اللہ کی توحید اور اس کی عظمت پر ایمان رکھتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1161) ، وهو من تمام الحديث المتقدم (425) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 429
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب حسن ہے۔
مغرب کے بعد دو رکعت اور قرات
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں شمار نہیں کرسکتا کہ میں نے کتنی بار رسول اللہ ﷺ کو مغرب کے بعد کی دونوں رکعتوں میں اور فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں «قل يا أيها الکافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے سنا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- ابن مسعود (رض) کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف «عبدالله بن معدان عن عاصم» ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٢ (١١٦٦) (تحفة الأشراف : ٩٢٧٨) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کی دونوں سنتوں میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1166) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 431
مغرب کی سنتیں گھر پر پڑھنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے مغرب کے بعد دونوں رکعتیں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کے گھر میں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں رافع بن خدیج اور کعب بن عجرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٤٢٥ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1158) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 432
مغرب کی سنتیں گھر پر پڑھنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے دس رکعتیں یاد ہیں جنہیں آپ رات اور دن میں پڑھا کرتے تھے : دو رکعتیں ظہر سے پہلے ١ ؎، دو اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، اور دو رکعتیں عشاء کے بعد، اور مجھ سے حفصہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ آپ فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٣٤ (١١٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٧٥٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کی ظہر کے فرضوں سے پہلے چار رکعت پڑھنا ثابت ہے ، مگر یہاں دو کا ذکر ہے ، حافظ ابن حجر نے دونوں میں تطبیق یوں دی ہے کہ آپ کبھی ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور کبھی چار۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (440) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 433
مغرب کی سنتیں گھر پر پڑھنا
اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی کے مثل روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٦٩٥٩) (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 434
مغرب کے بعد چھ رکعت نفل کے ثواب کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی، تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) سے مروی ہے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس نے مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھیں اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ، ٢- ابوہریرہ (رض) کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف «زيد بن حباب عن عمر بن أبي خثعم» کی سند سے جانتے ہیں، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکرالحدیث ہیں۔ اور انہوں نے انہیں سخت ضعیف کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٣ (١١٦٧) (تحفة الأشراف : ١٥٤١٢) (ضعیف جداً ) (سند میں عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم نہایت ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (1167) // ضعيف سنن ابن ماجة (244) ، الضعيفة (469) ، الروض النضير (719) ، التعليق الرغيب (1 / 204) ، ضعيف الجامع الصغير (5661) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 435
عشاء کے بعد دو رکعت پڑھنا
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے، اور اس کے بعد دو رکعتیں، مغرب کے بعد دو رکعتیں، عشاء کے بعد دو رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- عبداللہ بن شقیق کی حدیث جسے وہ عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ المسافرین ١٦ (٧٣٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٠ (١٢٥١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٨ (١٦٤٧، ١٦٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٠٧) ، مسند احمد (٦/٣٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 436
رات کی نماز دو دو رکعت ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے، جب تمہیں نماز فجر کا وقت ہوجانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا لو، اور اپنی آخری نماز وتر رکھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمرو بن عبسہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٤ (٤٧٢، ٤٧٣) ، والوتر ١ (٩٩٠، ٩٩١، ٩٩٣) ، والتہجد ١٠ (١١٣٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٤ (١٣٢٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٦ (١٦٦٨-١٦٧٥) ، و ٣٥ (١٦٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧١ (١٣٢٠) ، ( تحفة الأشراف : ٨٢٨٨) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٣ (١٣) ، مسند احمد (٢/٥، ٩، ١٠، ٤٩، ٥٤، ٦٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : رات کی نماز کا دو رکعت ہونا اس کے منافی نہیں کہ دن کی نفل نماز بھی دو دو رکعت ہو ، جبکہ ایک حدیث میں رات اور دن کی نماز دو دو رکعت بھی آیا ہے ، دراصل سوال کے جواب میں کہ رات کی نماز کتنی کتنی پڑھی جائے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ خود رات میں کبھی پانچ رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے ، اصل بات یہ ہے کہ نفل نماز عام طور سے دو دو رکعت پڑھنی افضل ہے خاص طور پر رات کی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1319 و 1320) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 437
رات کی نماز کی فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٨ (١١٦٣) ، سنن ابی داود/ الصوم ٥٥ (٢٤٢٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٦ (١٦١٤) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٤٣ (١٧٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٢٩٢) ، مسند احمد (٣٤٢، ٣٤٤، ٥٣٥) ، (ویأتي عند المؤلف في الصوم ٤٠ برقم ٧٤٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1742) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 438
نبی ﷺ کی رات کی نماز کی کیفیت
ابوسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد کیسی ہوتی تھی ؟ کہا : رسول اللہ ﷺ تہجد رمضان میں اور غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ١ ؎، آپ (دو دو کر کے) چار رکعتیں اس حسن خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کو نہ پوچھو، پھر مزید چار رکعتیں (دو ، دو کر کے) پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کو بھی نہ پوچھو ٢ ؎، پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ فرمایا : عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں، دل نہیں سوتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٦ (١١٤٧) ، والتراویح ١ (٢٠١٣) ، والمناقب ٢٤ (٣٥٦٩) ، صحیح مسلم/المسافر ١٧ (٧٣٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٦ (١٣٤١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٩ (٤٣٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٦ (١٦٩٨) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٢ (٩) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٧٣، ١٠٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہے ، اور تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی چیز ہے۔ ٢ ؎ : یہاں «نہی» ممانعت مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔ ٣ ؎ : دل نہیں سوتا کا مطلب ہے کہ آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا ، کیونکہ دل بیدار رہتا تھا ، یہ نبی اکرم ﷺ کے خصائص میں سے ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں اپنے اٹھ جانے کا یقین ہو اسے چاہیئے کہ وتر عشاء کے ساتھ نہ پڑھے ، تہجد کے آخر میں پڑھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صلاة التراويح، صحيح أبي داود (1212) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 439
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر ہوتی۔ تو جب آپ اس سے فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹتے ۱؎۔
کتاب:نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
ابن شہاب سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اسی سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابوحمزہ ضبعی کا نام نصر بن عمران ضبعی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٠ (١١٣٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦٥٢٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پیچھے حدیث رقم ٤٣٩ میں گزرا کہ آپ رمضان یا غیر رمضان میں تہجد گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ، اور اس حدیث میں تیرہ پڑھنے کا تذکرہ ہے ، تو کسی نے ان تیرہ میں عشاء کی دو سنتوں کو شمار کیا ہے کہ کبھی تاخیر کر کے ان کو تہجد کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے ، اور کسی نے یہ کہا ہے کہ اس میں فجر کی دو سنتیں شامل ہیں ، کسی کسی روایت میں ایسا تذکرہ بھی ہے ، یا ممکن ہے کہ کبھی گیارہ پڑھتے ہوں اور کبھی تیرہ بھی ، جس نے جیسا دیکھا بیان کردیا ، لیکن تیرہ سے زیادہ کی کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1205) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 442
اسی سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، زید بن خالد اور فضل بن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨١ (١٣٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٥١) ، مسند احمد (٦/٣٠، ١٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایسا کبھی کبھی کرتے تھے ، یہ سب نشاط اور چستی پر منحصر تھا ، اس بابت یہ نہیں کہہ سکتے کہ حدیثوں میں تعارض ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1213) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 443 سفیان ثوری نے بھی یہ حدیث اسی طرح اعمش سے روایت کی ہے،
اسی سے متعلق
ہم سے اسے محمود بن غیلان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا اور انہوں نے سفیان سے اور سفیان نے اعمش سے روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : رات کی نماز کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے زیادہ سے زیادہ وتر کے ساتھ تیرہ رکعتیں مروی ہیں، اور کم سے کم نو رکعتیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 444
اسی سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب رات میں تہجد نہیں پڑھ پاتے تھے اور نیند اس میں رکاوٹ بن جاتی یا آپ پر نیند کا غلبہ ہوجاتا تو دن میں (اس کے بدلہ میں) بارہ رکعتیں پڑھتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢-
اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر رات کو جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے ١ ؎ آسمان دنیا پر اترتا ہے ٢ ؎ اور کہتا ہے : میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی پکار سنوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تاکہ میں اسے معاف کر دوں۔ وہ برابر اسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہوجاتی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی بن ابی طالب، ابوسعید، رفاعہ جہنی، جبیر بن مطعم، ابن مسعود، ابو درداء اور عثمان بن ابی العاص (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٣- ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث کئی سندوں سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، ٤- نیز آپ سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب وقت رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اترتا ہے ، اور یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٤ (١١٤٥) ، والدعوات ١٤ (٦٣٢١) ، والتوحید ٣٥ (٧٤٩٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٤ (٧٥٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١١ (١٣١٥) ، والسنة ٢١ (٤٧٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٢ (١٣٦٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٦٧) ، موطا امام مالک/القرآن ١٨ (٣٠) ، مسند احمد (٢/٢٦٤، ٢٦٧، ٢٨٢، ٤١٩، ٤٨٧) (عند الأکثر ” الآخیر “ ) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : آگے مولف بیان کر رہے ہیں : صحیح بات یہ ہے کہ ایک تہائی رات گزرنے پر نہیں ، بلکہ ایک تہائی رات باقی رہ جانے پر اللہ نزول فرماتے ہیں ۔ ( مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک «الآخر» ہی ہے ) ٢ ؎ : اس سے اللہ عزوجل کا جیسے اس کی ذات اقدس کو لائق ہے آسمان دنیا پر ہر رات کو نزول فرمانا ثابت ہوتا ہے ، اور حقیقی اہل السنہ والجماعہ ، سلف صالحین اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات میں تاویل نہیں کیا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1366) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 446
رات کو قرآن پڑھنا
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر (رض) سے فرمایا : میں (تہجد کے وقت) تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، تمہاری آواز کچھ دھیمی تھی ؟ کہا : میں تو صرف اسے سنا رہا تھا جس سے میں مناجات کر رہا تھا۔ (یعنی اللہ کو) آپ نے فرمایا : اپنی آواز کچھ بلند کرلیا کرو ، اور عمر (رض) سے فرمایا : میں تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، تمہاری آواز بہت اونچی تھی ؟ ، کہا : میں سوتوں کو جگاتا اور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا : تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کرلیا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، ام ہانی، انس، ام سلمہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اسے یحییٰ بن اسحاق نے حماد بن سلمہ سے مسند کیا ہے اور زیادہ تر لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور ثابت نے عبداللہ بن رباح سے مرسلاً روایت کی ہے۔ (یعنی : ابوقتادہ (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے) تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٥ (١٣٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٠٨٨) ، مسند احمد (١/١٠٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1200) ، المشکاة (1204) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 447
رات کو قرآن پڑھنا
عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رات میں نبی اکرم ﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی کیا آپ قرآن دھیرے سے پڑھتے تھے یا زور سے ؟ کہا : آپ ہر طرح سے پڑھتے تھے، کبھی سری پڑھتے تھے اور کبھی جہری، تو میں نے کہا : اللہ کا شکر ہے جس نے دین کے معاملے میں کشادگی رکھی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٣ (١٤٣٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٣ (١٦٦٣) ، (التحفہ : ١٦٢٩٧) ، مسند احمد (٦/١٤٩) ، ویاتي عند المؤلف في ثواب القرآن ٢٣ (برقم : ٢٩٢٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1291) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 449
رات کو قرآن پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک رات قرآن کی صرف ایک ہی آیت کھڑے پڑھتے رہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٨٠٢) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : تہجد کی ساری رکعتوں میں صرف یہی ایک آیت دھرا دھرا کر پڑھتے رہے۔ اور وہ آیت کریمہ یہ تھی : «إن تعذبهم فإنهم عبادک وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحکيم» (سورة المائدة : ) ، ( رواہ النسائی وابن ماجہ ) ، اے رب کریم ! اگر تو ان ( میری امت کے اہل ایمان ، مسلمانوں ) کو عذاب دے گا تو وہ تیرے بندے ہیں ، ( سزا دیتے وقت بھی ان پر رحم فرما دینا ) اور اگر تو ان کو بخش دے گا تو بلاشبہ تو نہایت غلبے والا اور دانائی والا ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 448
نفل گھر میں پڑھنے کی فضلیت
زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہاری نماز میں سب سے افضل نماز وہ ہے جسے تم اپنے گھر میں پڑھتے ہو، سوائے فرض کے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- زید بن ثابت (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عمر بن خطاب، جابر بن عبداللہ، ابوسعید، ابوہریرہ، ابن عمر، عائشہ، عبداللہ بن سعد، اور زید بن خالد جہنی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم میں اس حدیث کی روایت میں اختلاف ہے، موسیٰ بن عقبہ اور ابراہیم بن ابی نضر دونوں نے اسے ابونضر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ نیز اسے مالک بن انس نے بھی ابونضر سے روایت کیا، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، اور بعض اہل علم نے اسے موقوف قرار دیا ہے جب کہ حدیث مرفوع زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨١ (٧٣١) ، والأدب ٧٥ (٦١١٣) ، والاعتصام ٣ (٧٢٩٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٩ (٧٨١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٥ (١٠٤٤) ، و ٣٤٦ (١٤٤٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١ (١٦٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦٩٨) ، موطا امام مالک/الجماعة ١ (٤) ، مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٤، ١٨٦، ١٨٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٦ (١٤٠٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1301) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 450
نفل گھر میں پڑھنے کی فضلیت
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو ١ ؎ اور انہیں قبرستان نہ بناؤ ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٢ (٤٣٢) ، والتہجد ٣٧ (١١٨٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٩ (٧٧٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٥ (١٠٤٣) ، و ٣٤٦ (٤٨ ١٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١ (١٥٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٦ (١٣٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ٨٠١٠) ، وکذا (٨١٤٢) ، مسند احمد (٢/٦، ١٦، ١٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد نوافل اور سنن ہیں۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں نوافل کی ادائیگی کا اہتمام ہوتا ہے وہ قبرستان کی طرح نہیں ہیں ، اور جن گھروں میں نوافل وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا وہ قبرستان کے مثل ہیں ، جس طرح قبریں عمل اور عبادت سے خالی ہوتی ہیں ایسے گھر بھی عمل و عبادت سے محروم قبرستان کے ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (958 و 1302) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 451