20. نذر اور قسموں کا بیان
اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی صورت میں نذر مانناصحیح نہیں۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت کے کاموں میں نذر جائز نہیں ہے، اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ زہری نے اس کو ابوسلمہ سے نہیں سنا ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس حدیث کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، انہیں میں موسیٰ بن عقبہ اور ابن ابی عتیق ہیں، ان دونوں نے زہری سے بطریق : «سليمان بن أرقم عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : وہ حدیث یہی ہے (اور آگے آرہی ہے) ، ٣ - اس باب میں ابن عمر، جابر اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأیمان ٢٣ (٣٢٩٠-٣٢٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٦ (٢١٢٥) ، سنن النسائی/الأیمان ٤١ (٣٨٦٥-٣٨٧٠) (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٠) ، و مسند احمد (٦/٢٤٧) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء رقم : ٢٥٩٠ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی ، البتہ اس میں قسم کا کفارہ دینا ہوگا ، نذر کی اصل انذار ہے جس کے معنی ڈرانے کے ہیں ، امام راغب فرماتے ہیں کہ نذر کے معنی کسی حادثہ کی وجہ سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں ، قسم کے کفارے کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے : «لا يؤاخذکم اللہ باللغو في أيمانکم ولکن يؤاخذکم بما عقدتم الأيمان فکفارته إطعام عشرة مساکين من أوسط ما تطعمون أهليكم أو کسوتهم أو تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام ذلک کفارة أيمانکم إذا حلفتم» اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو موکد کر دو ، اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجہ کا جو خود کھاتے ہیں وہ کھانا کھلا نا یا کپڑے پہنانا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے ، پس جو شخص یہ نہ پائے تو اسے تین روزے رکھنے ہوں گے ، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو میں ہے (المائدة : ٨٩ ) ، یہ حدیث معصیت کی نذر میں کفارہ کے واجب ہونے کا تقاضا کرتی ہے ، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کی یہی رائے ہے مگر جمہور علماء اس کے مخالف ہیں ، ان کے نزدیک وجوب سے متعلق احادیث ضعیف ہیں ، لیکن شارح ترمذی کہتے ہیں کہ باب کی اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں ، ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے۔ «واللہ اعلم » قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2125) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1524
اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی صورت میں نذر مانناصحیح نہیں۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی معصیت پر مبنی کوئی نذر جائز نہیں ہے، اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اور ابوصفوان کی اس حدیث سے جسے وہ یونس سے روایت کرتے ہیں، زیادہ صحیح ہے، ٣ - ابوصفوان مکی ہیں، ان کا نام عبداللہ بن سعید بن عبدالملک بن مروان ہے، ان سے حمیدی اور کئی بڑے بڑے محدثین نے روایت کی ہے، ٤ - اہل علم صحابہ کی ایک جماعت اور دوسرے لوگ کہتے ہیں : اللہ کی معصیت کے سلسلے میں کوئی نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے، ان دونوں نے زہری کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے وہ ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ عائشہ سے روایت کرتے ہیں، ٥ - بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگ کہتے ہیں : معصیت میں کوئی نذر جائز نہیں ہے، اور اس میں کوئی کفارہ بھی نہیں، مالک اور شافعی کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٧٧٨٢) (صحیح) (سند میں ” سلیمان بن ارقم “ ضعیف ہیں، مگر سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (1524) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1525
اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی صورت میں نذر مانناصحیح نہیں۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو وہ اللہ کی اطاعت کرے، اور جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے ۔ اس سند سے بھی عائشہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
جو چیز آدمی کی ملکیت نہیں اس کی نذر ماننا صحیح نہیں۔
ثابت بن ضحاک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندہ کے اختیار میں جو چیز نہیں ہے اس میں نذر صحیح نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٤٤ (٦٠٤٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٧ (١١٠) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٩ (٣٢٥٧) ، سنن النسائی/الأیمان ٧ (٣٨٠١) ، و ٣١ (٣٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٢) ، و مسند احمد (٤/٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نذر مانتے وقت جو چیز بندے کے اختیار میں نہیں ہے اس میں نذر صحیح نہیں ہے ، یہاں تک کہ اگر اس چیز پر اختیار حاصل ہوجائے تو بھی وہ نذر پوری نہیں کی جائے گی ، اور نہ ہی اس پر کفارہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2575) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1527
نذرغیر معین کے کفارے کے متعلق۔
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غیر متعین نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النذور ٥ (١٦٤٥) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٣١ (٣٣٢٣) ، سنن النسائی/الأیمان ٤١ (٣٨٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٧ (٢١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٦٠) ، و مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٦، ١٤٧) (صحیح) (لیکن ” لم یسم “ کا لفظ صحیح نہیں ہے، اور یہ مؤلف کے سوا کسی کے یہاں ہے بھی نہیں (جبکہ ابوداود نے اسی کا لحاظ رکھ کر ” من نذر نذراً لم یسم “ کا باب باندھا ہے) یہ مؤلف کے راوی ” محمد مولیٰ المغیرہ “ کا اضافہ ہے جو خود مجہول راوی ہیں، یہ دیگر کی سندوں میں نہیں ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس نے کوئی نذر مانی اور اس کا نام نہیں لیا یعنی صرف اتنا کہا کہ اگر میری مراد پوری ہوجائے تو مجھ پر نذر ہے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، وهو صحيح دون قوله : إذا لم يسم ، الإرواء (2586) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1528
اگر کوئی شخص کسی کام کے کرنے کی قسم کھائے اور اس قسم کو توڑنے میں ہی بھلائی ہو تو اس کو توڑ دے۔
عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عبدالرحمٰن ! منصب امارت کا مطالبہ نہ کرو، اس لیے کہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اسی کے سپرد کردیئے جاؤ گے ١ ؎، اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی مدد و توفیق تمہارے شامل ہوگی، اور جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر دوسرے کام کو اس سے بہتر سمجھو تو جسے تم بہتر سمجھتے ہو اسے ہی کرو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبدالرحمٰن بن سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، جابر، عدی بن حاتم، ابو الدرداء، انس، عائشہ، عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ، ام سلمہ اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ١ (٦٦٢٢) ، والکفارات ١٠ (٦٧٢٢) ، والأحکام ٥ (٤١٤٦) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٥٢) ، سنن ابی داود/ الخراج ٢ (٢ (٢٩٢٩) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٥ (٥٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٥) ، و مسند احمد (٥/٦٦) وسنن الدارمی/النذور ٩ (٢٣٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ کی نصرت و تائید تمہیں حاصل نہیں ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (7 / 166 - 8 / 228 / 2601) ، صحيح أبي داود (2601) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1529
کفارہ قسم توڑنے سے پہلے دے۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو آدمی کسی امر پر قسم کھائے، اور اس کے علاوہ کام کو اس سے بہتر سمجھے تو وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور وہ کام کرے (جسے وہ بہتر سمجھتا ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ام سلمہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - اکثر اہل علم صحابہ اور دیگر لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا صحیح ہے، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں :«حانث» ہونے (یعنی قسم توڑنے) کے بعد ہی کفارہ ادا کیا جائے گا، ٥ - سفیان ثوری کہتے ہیں : اگر کوئی «حانث» ہونے (یعنی قسم توڑنے) کے بعد کفارہ ادا کرے تو میرے نزدیک زیادہ اچھا ہے اور اگر «حانث» ہونے سے پہلے کفارہ ادا کرے تو بھی درست ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٣ (٦٥٠/١٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٣٨) ، و مسند احمد (٢/٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عبدالرحمٰن بن سمرہ کی حدیث جو اس سے پہلے مذکور ہے اور باب کی اس حدیث کے الفاظ مجموعی طور پر قسم توڑنے کی صورت میں کفارہ کی ادائیگی کو پہلے بھی اسی طرح جائز بتاتے ہیں جس طرح اس کے بعد جائز بتاتے ہیں ، جمہور کا یہی مسلک ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا کسی حالت میں صحیح نہیں ہے تو ابوداؤد کی حدیث «فكفر عن يمينک ثم ائت الذي هو خير» ان کے خلاف حجت ہے اس میں کفارہ کے بعد «ثم» کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2084) ، الروض النضير (1029) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1530
قسم میں (اسثنائ) انشاء اللہ کہنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی امر پر قسم کھائی اور ساتھ ہی ان شاء اللہ کہا، تو اس قسم کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - اس حدیث کو عبیداللہ بن عمرو وغیرہ نے نافع سے، نافع نے ابن عمر سے موقوفا روایت کیا ہے، اسی طرح اس حدیث کو سالم بن علیہ نے ابن عمر (رض) سے موقوفاً روایت کی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ایوب سختیانی کے سوا کسی اور نے بھی اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، اسماعیل بن ابراہیم کہتے ہیں : ایوب اس کو کبھی مرفوعاً روایت کرتے تھے اور کبھی مرفوعاً نہیں روایت کرتے تھے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٤ - اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جب قسم کے ساتھ «إن شاء اللہ» کا جملہ ملا ہو تو اس قسم کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہے، سفیان ثوری، اوزاعی، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأیمان ١١ (٣٢٦١) ، سنن النسائی/الأیمان ١٨ (٣٨٠٢) ، و ٣٩ (٣٨٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٦ (٢١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٧) ، و مسند احمد (٢/٦، ١٠، ٤٨، ١٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کی رو سے قسم کھانے والا ساتھ ہی اگر «إن شاء اللہ» کہہ دے تو ایسی قسم توڑنے پر کفارہ نہیں ہوگا ، کیونکہ قسم کو جب اللہ کی مشیئت پر معلق کردیا جائے تو وہ قسم منعقد نہیں ہوئی ، اور جب قسم منعقد نہیں ہوئی تو توڑنے پر اس کے کفارہ کا کیا سوال ؟۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2105) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1531
قسم میں (اسثنائ) انشاء اللہ کہنا۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قسم کھائی اور ان شاء اللہ کہا، وہ «حانث» نہیں ہوا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : اس حدیث میں غلطی ہے، اس میں عبدالرزاق سے غلطی ہوئی ہے، انہوں نے اس کو معمر کی حدیث سے اختصار کردیا ہے، معمر اس کو بسند «ابن طاؤس عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سلیمان بن داود (علیہما السلام) نے کہا : (اللہ کی قسم ! ) آج رات میں ستر بیویوں کے پاس ضرور جاؤں گا، ہر عورت سے ایک لڑکا پیدا ہوگا، وہ ستر بیویوں کے پاس گئے، ان میں سے کسی عورت نے بچہ نہیں جنا، صرف ایک عورت نے آدھے (ناقص) بچے کو جنم دیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر انہوں (سلیمان علیہ السلام) نے «إن شاء اللہ» کہہ دیا ہوتا تو ویسے ہی ہوتا جیسا انہوں نے کہا تھا ، اسی طرح یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ عبدالرزاق سے آئی ہے، عبدالرزاق نے بسند «معمر عن ابن طاؤس عن أبيه» روایت کی ہے اس میں «علی سبعين امرأة» کے بجائے «سبعين امرأة» ہے، یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے دیگر سندوں سے آئی ہے، (اس میں یہ ہے کہ) وہ نبی کرم ﷺ سے (یوں) روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سلیمان بن داود نے کہا : آج رات میں سو بیویوں کے پاس ضرور جاؤں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأیمان ٤٣ (٣٨٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٦ (٢١٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس نے قسم نہیں توڑی ، اور ایسی قسم توڑنے سے اس پر کفارہ نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2104) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1532
غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عمر (رض) کو کہتے سنا : میرے باپ کی قسم ! میرے باپ کی قسم ! آپ نے (انہیں بلا کر) فرمایا : سنو ! اللہ نے تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے ، عمر (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم اس کے بعد میں نے (باپ دادا کی) قسم نہیں کھائی، نہ جان بوجھ کر اور نہ ہی کسی کی بات نقل کرتے ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ثابت بن ضحاک، ابن عباس، ابوہریرہ، قتیلہ اور عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - ابو عبید کہتے ہیں کہ عمر کے قول «ولا آثرا» کے یہ معنی ہیں «لم آثره عن غيري» (میں نے دوسرے کی طرف سے بھی نقل نہیں کیا) عرب اس جملہ کو «لم أذكره عن غيري» کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٧٤ (٦١٠٨) ، و الأیمان ٤ (٦٦٤٦، وتعلیقاً بعد حدیث ٦٦٤٧) صحیح مسلم/الأیمان ١ (١٦٤٦/٣) ، سنن النسائی/الأیمان ٤ (٣٧٩٦) ، و ٥ (٣٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٨) ، وط/النذور ٩ (١٤) ، و مسند احمد (٢/١١، ٣٤، ٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2094) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1533
غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عمر (رض) کو ایک قافلہ میں پایا، وہ اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تم لوگوں کو باپ، دادا کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، قسم کھانے والا اللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ چاپ رہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٨٠٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2094) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1534
غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے۔
سعد بن عبیدہ سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) نے ایک آدمی کو کہتے سنا : ایسا نہیں قسم ہے کعبہ کی، تو اس سے کہا : غیر اللہ کی قسم نہ کھائی جائے، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس حدیث کی تفسیر بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان «فقد کفر أو أشرك» تنبیہ و تغلیظ کے طور پر ہے، اس کی دلیل ابن عمر (رض) کی حدیث ہے، نبی اکرم ﷺ نے عمر کو کہتے سنا : میرے باپ کی قسم، میرے باپ کی قسم ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ باپ، دادا کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے ، نیز ابوہریرہ (رض) کی (روایت) کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی وہ «لا إله إلا الله» کہے، امام ترمذی کہتے ہیں : ٣ - یہ نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کی طرح ہے بیشک ریا، شرک ہے، ٤ - بعض اہل علم نے آیت کریمہ «فمن کان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا» (الکہف : ١١٠ ) کی یہ تفسیر کی ہے کہ وہ ریا نہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأیمان ٥ (٣٢٥١) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٤٥) ، و مسند احمد ٢/٨٧، ١٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2561) ، الصحيحة (2042) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1535
جو شخص چلنے کی استطاعت نہ ہونے کے باوجود چلنے کی قسم کھالے۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک (پیدل) چل کر جائے گی، نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کے (پیدل) چلنے سے بےنیاز ہے، اسے حکم دو کہ وہ سوار ہو کر جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - انس کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب عورت (حج کو پیدل) چل کر جانے کی نذر مان لے تو وہ سوار ہوجائے اور ایک بکری دم میں دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٣٢) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1536
جو شخص چلنے کی استطاعت نہ ہونے کے باوجود چلنے کی قسم کھالے۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے (حج کے لیے) چل رہا تھا، آپ نے پوچھا : کیا معاملہ ہے ان کا ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! انہوں نے (پیدل) چلنے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بےنیاز ہے ، پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا۔
نذر کی کراہت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر مت مانو، اس لیے کہ نذر تقدیر کے سامنے کچھ کام نہیں آتی، صرف بخیل اور کنجوس کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ نذر کو مکروہ سمجھتے ہیں، ٤ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں : نذر کے اندر کراہیت کا مفہوم طاعت اور معصیت دونوں سے متعلق ہے، اگر کسی نے اطاعت کی نذر مانی اور اسے پورا کیا تو اسے اس نذر کے پورا کرنے کا اجر ملے گا، لیکن یہ نذر مکروہ ہوگی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٢٦ (٦٦٩٢) ، صحیح مسلم/النذور ٢ (١٦٤٠) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٢١ (٣٢٨٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٢٥ (٣٨٣٥) ، و ٢٦ (٣٨٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٥ (٢١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٠٠) ، و مسند احمد (٢/٢٣٥، ٣٠١، ٣١٤، ٤١٢، ٤٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نذر سے منع کرنا دراصل بہتر کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے ، صدقہ و خیرات کو مقصود کے حصول سے معلق کرنا کسی بھی صاحب عظمت و مروت کے شایان شان نہیں ، یہ عمل اس بخیل کا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا اور کرنے پر بہتر چیز کی خواہش رکھتا ہے اور ایسا وہی شخص کرتا ہے جس کا دل صدقہ و خیرات کرنا نہیں چاہتا صرف کسی تنگی کے پیش نظر اصلاح حال کے لیے صدقہ و خیرات کی نذر مانتا ہے ، نذر سے منع کرنے کی یہی وجہ ہے «واللہ اعلم»۔ ٢ ؎ : اور اگر معصیت کی نذر ہو تو اس کا پورا کرنا صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2123 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1538
نذر کو پورا کرنا۔
عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا، (تو اس کا حکم بتائیں ؟ ) آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی اسلام لائے، اور اس کے اوپر جاہلیت کی نذر طاعت واجب ہو تو اسے پوری کرے، ٤ - بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہے اور دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ معتکف پر روزہ واجب نہیں ہے الا یہ کہ وہ خود اپنے اوپر (نذر مانتے وقت) روزہ واجب کرلے، ان لوگوں نے عمر (رض) کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے ان کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا (اور روزے کا کوئی ذکر نہیں کیا) ، احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٥ (٣٠٣٢) ، و ١٥ (٣٠٤٢) ، و ١٦ (٢٠٤٣) ، والخمس ١٩ (٣١٤٤) ، والمغازي ٥٤ (٤٣٢٠) ، والأیمان ٢٩ (٦٦٩٧) ، صحیح مسلم/الأیمان ٦ (١٦٥٦) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٣٢ (٣٣٢٥) ، سنن النسائی/الأیمان ٣٦ (٣٨٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦٠ (١٧٧٢) ، والکفارات ١٨ (٢١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٠) ، و مسند احمد (١/٣٧) وأیضا (٢/٢٠، ٨٢، ١٥٣) وسنن الدارمی/النذور ١ (٢٣٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چناچہ عمر (رض) نے ایک رات کے لیے مسجد الحرام میں اعتکاف کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1539
نبی اکرم ﷺ کیسے قسم کھاتے تھے۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قسم کھاتے تھے تو اکثر «لا ومقلب القلوب» کہتے تھے نہیں، دلوں کے بدلنے والے کی قسم ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/القدر ١٤ (٦٦١٧) ، والأیمان ٣ (٦٦٢٨) ، والتوحید ١١ (٧٣٩١) ، سنن ابی داود/ الأیمان ١٢ (٣٢٦٣) ، سنن النسائی/الأیمان ١ (٣٧٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١ (٢٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٢٤) ، و مسند احمد (٢/٢٦، ٦٧، ٦٨، ١٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے قسم کھانے کا انداز و طریقہ بیان ہوا ہے کہ پہلے سے جو بات چل رہی تھی اگر صحیح نہ ہوتی تو آپ پہلے لفظ «لا» سے اس کی نفی اور تردید فرماتے ، پھر اللہ کے صفاتی نام سے اس کی قسم کھاتے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء سے قسم کھانی جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2092) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1540
غلام آزاد کرنے کے ثواب۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا، اللہ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کے ایک ایک عضو کو آگ سے آزاد کرے گا، یہاں تک کہ اس (غلام) کی شرمگاہ کے بدلے اس کی شرمگاہ کو آزاد کرے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح، غریب ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ، عمرو بن عبسہ، ابن عباس، واثلہ بن اسقع، ابوامامہ، عقبہ بن عامر اور کعب بن مرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ١ (٢٥١٧) ، والکفارات ٦ (٦٧١٥) ، صحیح مسلم/العتق ٥ (١٥٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٨٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس باب اور اگلے باب میں مذکور احادیث کا تعلق کتاب الأيمان سے یہ ہے کہ قسم کے کفارہ میں پہلے غلام آزاد کرنا ہی ہے ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1742) ، الروض النضير (353) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1541
جو شخص اپنے غلام کو تمانچہ مارے
سوید بن مقرن مزنی (رض) کہتے ہیں کہ صورت حال یہ تھی کہ ہم سات بھائی تھے، ہمارے پاس ایک ہی خادمہ تھی، ہم میں سے کسی نے اس کو طمانچہ مار دیا، تو نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ ہم اس کو آزاد کردیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے حصین بن عبدالرحمٰن سے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ سوید بن مقرن مزنی نے «لطمها علی وجهها» کہا یعنی اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا ۔ ٣ - اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٨ (١٦٥٨) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣٣ (٥١٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١١) ، و مسند احمد (٣/٤٤٨) ، و (٥/٤٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1542
جو شخص اپنے غلام کو تمانچہ مارے
ثابت بن ضحاک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہوگیا جیسے اس نے کہا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جب کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی قسم کھائے اور یہ کہے : اگر اس نے ایسا ایسا کیا تو یہودی یا نصرانی ہوگا، پھر اس نے وہ کام کرلیا، تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس نے بہت بڑا گناہ کیا لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، مالک بن انس بھی اسی کے قائل ہیں اور ابو عبید نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ٣ - اور صحابہ و تابعین وغیرہ میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس صورت میں اس پر کفارہ واجب ہے، سفیان، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٣ (١٣٦٣) ، والأدب ٤٤ (٦٠٤٧) ، و ٧٣ (٦١٠٥) ، والأیمان ٧ (٦٦٥٢) ، صحیح مسلم/الأیمان ٤٧ (١١٠) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٩ (٣٢٥٧) ، سنن النسائی/الأیمان ٧ (٣٨٠١) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٣ (٢٠٩٨) ، و ٣١ (٣٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٢) ، و مسند احمد (٤/٣٣، ٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2098) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1543
جو شخص اپنے غلام کو تمانچہ مارے
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری بہن نے نذر مانی ہے کہ وہ چادر اوڑھے بغیر ننگے پاؤں چل کر خانہ کعبہ تک جائے گی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کی سخت کوشی پر کچھ نہیں کرے گا ! ١ ؎ اسے چاہیئے کہ وہ سوار ہوجائے، چادر اوڑھ لے اور تین دن کے روزے رکھے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأیمان ٢٣ (٣٢٩٣، ٣٢٩٩٤) ، سنن النسائی/الأیمان ٣٣ (٣٨٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢٠ (٢١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٠) ، و مسند احمد (٤/١٤٣، ١٤٥، ١٤٩، ١٥١) ، سنن الدارمی/النذور ٢ (٢٣٧٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” عبیداللہ بن زحر “ سخت ضعیف ہیں، اس میں ” روزہ والی بات “ ضعیف ہے، باقی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس مشقت کا کوئی ثواب اسے نہیں دے گا۔ ٢ ؎ : اس حدیث کی رو سے اگر کسی نے بیت اللہ شریف کی طرف پیدل یا ننگے پاؤں چل کر جانے کی نذر مانی ہو تو ایسی نذر کا پورا کرنا ضروری اور لازم نہیں ، اور اگر کسی عورت نے ننگے سر جانے کی نذر مانی ہو تو اس کو تو پوری ہی نہیں کرنی ہے کیونکہ یہ معصیت اور گناہ کا کام ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2134) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1544
جو شخص اپنے غلام کو تمانچہ مارے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس نے قسم کھائی اور اپنی قسم میں کہا : لات اور عزیٰ کی قسم ہے ! وہ «لا إله إلا الله» کہے اور جس شخص نے کہا : آؤ جوا کھیلیں وہ صدقہ کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم ٢ (٤٨٦٠) ، والأدب ٧٤ (٦١٠٧) ، والاستئذان ٥٢ (٦٣٠١) ، والأیمان ٥ (٦٦٥٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ٢ (١٦٤٨) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٤ (٣٢٤٧) ، سنن النسائی/الأیمان ١١ (٣٧٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢ (٢٠٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٦) ، و مسند احمد (٢/٣٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2096) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1545
میت کی طرف سے نذر پوری کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے بارے جو ان کی ماں پر واجب تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے وہ مرگئیں، فتویٰ پوچھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ان کی طرف سے نذر تم پوری کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٩ (٢٧٦١) ، والأیمان ٣٠ (٦٦٩٨) ، والحیل ٣ (٦٩٥٩) ، صحیح مسلم/النذور ١ (١٦٣٨) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٢٥ (٣٣٠٧) ، سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٨٨) ، والأیمان ٣٥ (٣٨٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٩ (٢١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٥) ، وط/النذور ١ (١) ، و مسند احمد (١/٢١٩، ٢٢٩، ٣٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : میت کے واجب حقوق کو پورا کرنا اس کے وارثوں کے ذمہ واجب ہے ، اس کے لیے میت کی طرف سے اسے پوری کرنے کی وصیت ضروری نہیں ، ورثاء کو اپنی ذمہ داری کا خود احساس ہونا چاہیئے ، اور ورثاء میں سے اسے پورا کرنے کی زیادہ ذمہ داری اولاد پر ہے ، اگر نذر کا تعلق مال سے ہے تو اسے پوری کرنا مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1546
گردنیں آزاد کرنے کی فضلیت۔
ابوامامہ (رض) اور دوسرے صحابہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو مسلمان کسی مسلمان کو آزاد کرے گا، تو یہ آزاد کرنا اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگا، اس آزاد کیے گئے مرد کا ہر عضو اس آزاد کرنے والے کے عضو کی طرف سے کفایت کرے گا، جو مسلمان دو مسلمان عورتوں کو آزاد کرے گا، تو یہ دونوں اس کے لیے جہنم سے خلاصی کا باعث ہوں گی، ان دونوں آزاد عورتوں کا ہر عضو اس کے عضو کی طرف سے کفایت کرے گا، جو مسلمان عورت کسی مسلمان عورت کو آزاد کرے گی، تو یہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگی، اس آزاد کی گئی عورت کا ہر عضو اس آزاد کرنے والے کے عضو کی طرف سے کفایت کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یہ حدیث دلیل ہے کہ مردوں کے لیے مرد آزاد کرنا عورت کے آزاد کرنے سے افضل ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان مرد کو آزاد کیا وہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگا، اس آزاد کئے گئے مرد کا ہر عضو اس کے عضو کی طرف سے کفایت کرے گا ۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی جو اپنی سندوں کے اعتبار سے صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٨٦٤) (صحیح) وأما حدیث غیرہ من أصحاب النبی ﷺ فأخرجہ من حدیث أبي نجیح السلمي (عمرو بن عبیسة) ، سنن ابی داود/ العتق ١٤ (٣٩٦٥، ٣٩٦٦) ، و مسند احمد (٤/١١٣، ٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٥ و ١٠٧٧٢) ومن حدیث کعب بن مرة : د (برقم ٣٩٦٧) ، و ن (رقم ٣١٤٢) و سنن ابن ماجہ/العتق ٤ (٢٥٢٢) ، و مسند احمد (٤/٢٣٤، ٢٣٥، ٣٢١) (تحفة الأشراف : ١١١٦٣ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2522) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1547