21. جہاد کا بیان
لڑائی سے پہلے اسلام کی دعوت دینا۔
ابوالبختری سعید بن فیروز سے روایت ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکر نے جس کے امیر سلمان فارسی تھے، فارس کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا، لوگوں نے کہا : ابوعبداللہ ! کیا ہم ان پر حملہ نہ کردیں ؟ ، انہوں نے کہا : مجھے چھوڑ دو میں ان کافروں کو اسلام کی دعوت اسی طرح دوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو انہیں دعوت دیتے ہوئے سنا ہے ١ ؎، چناچہ سلمان فارسی (رض) ان کے پاس گئے، اور کافروں سے کہا : میں تمہاری ہی قوم فارس کا رہنے والا ایک آدمی ہوں، تم دیکھ رہے ہو عرب میری اطاعت کرتے ہیں، اگر تم اسلام قبول کرو گے تو تمہارے لیے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے لیے ہیں، اور تمہارے اوپر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو ہمارے اوپر ہیں، اور اگر تم اپنے دین ہی پر قائم رہنا چاہتے ہو تو ہم اسی پر تم کو چھوڑ دیں گے، اور تم ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کرو ٢ ؎، سلمان فارسی (رض) نے اس بات کو فارسی زبان میں بھی بیان کیا، اور یہ بھی کہا : تم قابل تعریف لوگ نہیں ہو، اور اگر تم نے انکار کیا تو ہم تم سے (حق پر) جنگ کریں گے، ان لوگوں نے جواب دیا : ہم وہ نہیں ہیں کہ جزیہ دیں، بلکہ تم سے جنگ کریں گے، مسلمانوں نے کہا : ابوعبداللہ ! کیا ہم ان پر حملہ نہ کردیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں، پھر انہوں نے تین دن تک اسی طرح ان کو اسلام کی دعوت دی، پھر مسلمانوں سے کہا : ان پر حملہ کرو، ہم لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور اس قلعہ کو فتح کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - سلمان فارسی (رض) کی حدیث حسن ہے، ہم اس کو صرف عطاء بن سائب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل (امام بخاری) کو کہتے ہوئے سنا : ابوالبختری نے سلمان کو نہیں پایا ہے، اس لیے کہ انہوں نے علی کو نہیں پایا ہے، اور سلمان کی وفات علی سے پہلے ہوئی ہے، ٢ - اس باب میں بریدہ، نعمان بن مقرن، ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ قتال سے پہلے کافروں کو دعوت دی جائے گی، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر ان کو پہلے اسلام کی دعوت دے دی جائے تو بہتر ہے، یہ ان کے لیے خوف کا باعث ہوگا، ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس دور میں دعوت کی ضرورت نہیں ہے، امام احمد کہتے ہیں : میں اس زمانے میں کسی کو دعوت دئیے جانے کے لائق نہیں سمجھتا، ٥ - امام شافعی کہتے ہیں : دعوت سے پہلے دشمنوں سے جنگ نہ شروع کی جائے، ہاں اگر کفار خود جنگ میں پہل کر بیٹھیں تو اس صورت میں اگر دعوت نہ دی گئی تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٤٩٠) (ضعیف) (سند میں ابوالبختری کا لقاء ” سلمان فارسی (رض) سے نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے، نیز ” عطاء بن السائب “ اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، لیکن قتال سے پہلے کفار کو مذکورہ تین باتوں کی پیشکش بریدہ (رض) کی حدیث سے ثابت ہے دیکھئے : الإرواء رقم ١٢٤٧ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کافروں کو پہلے اسلام کی دعوت دی جائے اگر انہیں یہ منظور نہ ہو تو ان سے جزیہ دینے کو کہا جائے اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر حملہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ ٢ ؎ : جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں ، اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (5 / 87) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (1247) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1548
لڑائی سے پہلے اسلام کی دعوت دینا۔
عصام مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی لشکر یا سریہ بھیجتے تو ان سے فرماتے : جب تم کوئی مسجد دیکھو یا مؤذن کی آواز سنو تو کسی کو نہ مارو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ ابن عیینہ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٠٠ (٢٦٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠١) (ضعیف) (سند میں ” عبد الملک بن نوفل “ لین الحدیث، اور ” ابن عصام “ مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب اسلام کی کوئی علامت اور نشانی نظر آ جائے تو اس وقت تک حملہ نہ کیا جائے جب تک مومن اور کافر کے درمیان فرق واضح نہ ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (454) // عندنا برقم (565 / 2635) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1549
شب خون مارنے اور حملہ کرنا۔
انس (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ خیبر روانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے، اور آپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہوجاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ١ ؎، پھر جب صبح ہوگئی تو یہود اپنے پھاوڑے اور ٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا : محمد ہیں، اللہ کی قسم، محمد لشکر کے ہمراہ آ گئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اکبر ! خیبر برباد ہوگیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠١ (٢٩٤٥) ، والمغازي ٣٨ (٤١٩٧) ، (وانظر أیضا : الصلاة ١٢ (٣٧١) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥/٨٤) ، والجہاد ٤٣ (١٢٠/١٣٦٥) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٦ (٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٤) ، و مسند احمد (٣/١٠٢، ١٨٦، ٢٠٦، ٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں ، چناچہ اگر اذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1550
شب خون مارنے اور حملہ کرنا۔
ابوطلحہ (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کسی قوم پر غالب آتے تو ان کے میدان میں تین دن تک قیام کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - حمید کی حدیث جو انس (رض) سے آئی ہے حسن صحیح ہے، ٣ - اہل علم کی ایک جماعت نے رات میں حملہ کرنے اور چھاپہ مارنے کی اجازت دی ہے، ٤ - بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، ٥ - احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ٦ - «وافق محمد الخميس» میں «الخميس» سے مراد لشکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٨٤ (٣٠٦٤) ، والمغازي ٨ (٣٩٧٦) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٣٢ (٢٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٧٠) ، و مسند احمد (٤/٢٩) ، وسنن الدارمی/السیر ٢٢ (٢٥٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2414 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1551
کفار کے گھروں کو آگ لگانا اور برباد کرنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ١ ؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو ترکتموها قائمة علی أصولها فبإذن اللہ وليخزي الفاسقين» (مسلمانو ! ) ، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر : ٥ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، وہ درخت کاٹنے اور قلعے ویران کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، ٤ - بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، اوزاعی کا یہی قول ہے، ٥ - اوزاعی کہتے ہیں : ابوبکر صدیق (رض) نے یزید کو پھل دار درخت کاٹنے اور مکان ویران کرنے سے منع کیا، ان کے بعد مسلمانوں نے اسی پر عمل کیا، ٦ - شافعی کہتے ہیں : دشمن کے ملک میں آگ لگانے، درخت اور پھل کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے ٢ ؎۔ ٧ - احمد کہتے ہیں : اسلامی لشکر کبھی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، لیکن بلا ضرورت آگ نہ لگائی جائے، ٨ - اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : آگ لگانا سنت ہے، جب یہ کافروں کی ہار و رسوائی کا باعث ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المزارعة ٤ (٢٣٥٦) ، والجہاد ١٥٤ (٣٠٢٠) ، والمغازي ١٤ (٣٩٦٠) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٠ (١٧٤٦) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٩١ (٢٦١٥) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد (٢٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٦٧) ، سنن الدارمی/السیر ٢٣ (٢٥٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے ، لیکن بلا ضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہیئے۔ ٢ ؎ : یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2844) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1552
مال غنیمت کے بارے میں
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے انبیاء و رسل پر فضیلت بخشی ہے (یا آپ نے یہ فرمایا : میری امت کو دوسری امتوں پر فضیلت بخشی ہے، اور ہمارے لیے مال غنیمت کو حلال کیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوامامہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، ابوذر، عبداللہ بن عمرو، ابوموسیٰ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٨٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4001 / التحقيق الثاني) ، الإرواء (152 - 285) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1553
گھوڑے کے حصے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت کی تقسیم میں گھوڑے کو دو حصے اور آدمی (سوار) کو ایک حصہ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥١ (٢٨٦٣) ، والمغازي ٣٨ (٤٢٢٨) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٧ (١٧٦٢) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٥٤ (٢٧٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٦ (٢٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٠٧) ، و مسند احمد (٢/٢، ٦٢، ٧٢، ٨٠) ، سنن الدارمی/السیر ٣٣ (٢٥١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی گھوڑ سوار کو تین حصے دئے گئے ، ایک حصہ اس کا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے ، گھوڑے کا حصہ اس لیے زیادہ رکھا گیا کہ اس کی خوراک اور اس کی دیکھ بھال پر کافی خرچ ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2854) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1554
لشکر کے متعلق۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہترین ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو، اور سب سے بہتر سریہ وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور سب سے بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو اور بارہ ہزار اسلامی فوج قلت تعداد کے باعث مغلوب نہیں ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - جریر بن حازم کے سوا کسی بڑے محدث سے یہ حدیث مسنداً مروی نہیں، زہری نے اسے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، ٤ - اس حدیث کو حبان بن علی عنزی بسند «عقيل عن الزهري عن عبيد اللہ بن عبد اللہ عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، نیز اسے لیث بن سعد نے بسند «عقيل عن الزهري عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٨٩ (٢٦١١) ، سنن ابن ماجہ/السرایا (٢٧٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٤٨) ، وسنن الدارمی/السیر ٤ (٢٤٨٢) (ضعیف) (اس حدیث کا ” عن الزہري عن النبي ﷺ “ مرسل ہونا ہی صحیح ہے، نیز یہ آیت ربانی { وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ } (الأنفال : 66) کے بھی مخالف ہے، دیکھئے : الصحیحة رقم ٩٨٦، تراجع الالبانی ١٥٢ ) وضاحت : ١ ؎ : «سرایا» جمع ہے سریہ کی ، «سریہ» اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ ذاتی طور پر شریک نہ رہے ہوں ، یہ بڑے لشکر کا ایک حصہ ہوتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ چار سو فوجی ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (986) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1555
مال غنیمت میں کس کس کو حصہ دیا جائے۔
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ بن عامر حروری نے ابن عباس (رض) کے پاس یہ سوال لکھ کر بھیجا کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے ؟ اور کیا آپ ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ بھی مقرر فرماتے تھے ؟ ابن عباس (رض) نے ان کو جواب میں لکھا : تم نے میرے پاس یہ سوال لکھا ہے : کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے ؟ ١ ؎ ہاں، آپ ان کے ہمراہ جہاد کرتے تھے، وہ بیماروں کا علاج کرتی تھیں اور مال غنیمت سے ان کو (بطور انعام) کچھ دیا جاتا تھا، رہ گئی حصہ کی بات تو آپ نے ان کے لیے حصہ نہیں مقرر کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس اور ام عطیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، بعض لوگ کہتے ہیں : عورت اور بچہ کو بھی حصہ دیا جائے گا، اوزاعی کا یہی قول ہے، ٤-
کیا غلام کو بھی حصہ دیا جائے گا۔
عمیر مولیٰ ابی اللحم (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے مالکان کے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک ہوا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے میرے سلسلے میں گفتگو کی اور آپ کو بتایا کہ میں غلام ہوں، چناچہ آپ نے حکم دیا اور میرے جسم پر تلوار لٹکا دی گئی، میں (کوتاہ قامت ہونے اور تلوار کے بڑی ہونے کے سبب) اسے گھسیٹتا تھا، آپ نے میرے لیے مال غنیمت سے کچھ سامان دینے کا حکم دیا، میں نے آپ کے سامنے وہ دم، جھاڑ پھونک پیش کیا جس سے میں دیوانوں کو جھاڑ پھونک کرتا تھا، آپ نے مجھے اس کا کچھ حصہ چھوڑ دینے اور کچھ یاد رکھنے کا حکم دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ غلام کو حصہ نہیں ملے گا البتہ عطیہ کے طور پر اسے کچھ دیا جائے گا، ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٥٢ (٢٧٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٧ (٢٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٨) ، وسنن الدارمی/السیر ٣٥ (٢٥١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو حصہ قرآن و حدیث کے خلاف تھا اسے چھوڑ دینے اور شرک سے خالی کلمات کو باقی رکھنے کو کہا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2440 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1557
جہاد میں شریک ذمی کے لئے حصہ۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بدر کے لیے نکلے، جب آپ حرۃ الوبرہ ١ ؎ پہنچے تو آپ کے ساتھ ایک مشرک ہو لیا جس کی جرات و دلیری مشہور تھی نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : نہیں، آپ نے فرمایا : لوٹ جاؤ، میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حدیث میں اس سے بھی زیادہ کچھ تفصیل ہے، ٢- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ذمی کو مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا اگرچہ وہ مسلمانوں کے ہمراہ دشمن سے جنگ کریں، ٤- کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ جب ذمی مسلمانوں کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوں تو ان کو حصہ دیا جائے گا، ٥-
جہاد میں شریک ذمی کے لئے حصہ۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس خیبر آیا، جن لوگوں نے خیبر فتح کیا تھا آپ نے ان کے ساتھ ہمارے لیے بھی حصہ مقرر کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی کہتے ہیں : گھوڑے کے لیے حصہ مقرر کرنے سے پہلے جو مسلمانوں کے ساتھ مل جائے، اس کو حصہ دیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١٥ (٣١٣٦) ، والمناقب ٣٧ (٣٨٧٦) ، والمغازي ٣٨ (٤٢٣٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤١ (٢٥٠٢) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٥١ (٢٧٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اور فتح حاصل ہونے کے بعد جو پہنچے اسے بھی حصہ دیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2436) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1559
مشرکین کے برتن استعمال کرنا۔
ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مجوس کی ہانڈیوں کے بارے میں سوال کیا گیا ١ ؎ تو آپ نے فرمایا : ان کو دھو کر صاف کرلو اور ان میں پکاؤ، اور آپ نے ہر درندے اور کچلی والے جانور کو کھانے سے منع فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابوثعلبہ (رض) سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ٢ - ابوادریس خولانی نے بھی اس کو ابوثعلبہ سے روایت کیا ہے، لیکن ابوقلابہ کا سماع ابوثعلبہ سے ثابت نہیں ہے، انہوں نے ابواسماء کے واسطے سے ابوثعلبہ سے اس کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٤٦٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کہ ان کا استعمال کرنا اور ان میں پکانا کھانا درست ہے یا نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3207 - 3232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1560
نفل کے متعلق۔
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سریہ کے شروع میں جانے پر چوتھائی حصہ اور لڑائی سے لوٹتے وقت دوبارہ جانے پر تہائی حصہ زائد بطور انعام (نفل) دیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبادہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - یہ حدیث ابوسلام سے مروی ہے، انہوں نے ایک صحابی سے اس کی روایت کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کی ہے، ٣ - اس باب میں ابن عباس، حبیب بن مسلمہ، معن بن یزید، ابن عمر اور سلمہ بن الاکوع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٥ (٢٨٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩١) (صحیح) (سند میں ” عبدالرحمن “ اور سلیمان اموی کے حافظہ میں کمزوری ہے، مگر حبیب بن مسلمہ (رض) کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، دیکھئے : صحیح أبی داود رقم ٢٤٥٥ ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ لڑائی سے واپس آنے کے بعد پھر واپس جہاد کے لیے جانا مشکل کام ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1561
جو شخص کسی کافر کو قتل کرے اس سامان اسی کے لئے ہے۔
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : حدیث میں ایک قصہ مذکور ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٧ (٢١٠٠) ، والخمس ١٨ (٣١٤٢) ، والمغازي ٥٤ (٤٣٢١) ، والأحکام ٢١ (٧١٧٠) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٣ (١٥٧١) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٤٧) ، (٢٧١٧) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٩ (٢٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٣٢) ، وط/الجہاد ١٠ (١٨) ، سنن الدارمی/السیر ٤٤ (٢٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث ٣١٤٣ ، ٤٣٢٢ اور صحیح مسلم کی حدیث ١٧٥١ میں دیکھا جاسکتا ہے ، واقعہ دلچسپ ہے ضرور مطالعہ کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (5 / 52 - 53) ، صحيح أبي داود (243) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1562
تقسیم سے پہلے مال غنیمت کی چیزیں فروخت کرنا مکروہ ہے۔
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم سے پہلے مال غنیمت کی خرید و فروخت سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٤ (٢١٩٦) ، (فی سیاق الحول من ذلک) (تحفة الأشراف : ٤٠٧٣) (ضعیف) (سند میں ” محمد بن ابراہیم الباہلی، اور ” محمد بن زید العبدی “ دونوں مجہول راوی ہیں، اور ” جہضم “ میں کلام ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4015 - 4016 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1563
قید ہونے والی حاملہ عورتوں سے پیدائش سے پہلے صحبت کرنے کی ممانعت۔
عرباض بن ساریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (حاملہ) قیدی عورتوں سے جماع کرنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اپنے پیٹ میں موجود بچوں کو جن نہ دیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عرباض (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢ - اس باب میں رویفع بن ثابت (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص قیدی عورتوں میں سے لونڈی خریدے اور وہ حاملہ ہو تو اس سلسلے میں عمر بن خطاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا : حاملہ جب تک بچہ نہ جنے اس سے وطی نہیں کی جائے گی، ٤ - اوزاعی کہتے ہیں : آزاد عورتوں کے سلسلے میں تو یہ سنت چلی آرہی ہے کہ ان کو عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وتقدم برقم ١٤٧٤ (تحفة الأشراف : ٩٨٩٣) (صحیح) (سند میں ” ام حبیبہ “ مجہول ہیں مگر شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگ میں جو عورتیں گرفتار ہوجائیں گرفتاری سے ہی ان کا پچھلا نکاح ٹوٹ جاتا ہے ، حمل سے ہوں تو وضع حمل کے بعد اور اگر غیر حاملہ ہوں تو ایک ماہواری کے بعد ان سے جماع کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ وہ تقسیم کے بعد اس کے حصہ میں آئی ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الحديث (1474) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا برقم (1191 - 1517) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1564
مشرکین کا کھانے کے حکم۔
ہلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے نصاریٰ کے کھانا کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : کوئی کھانا تمہارے دل میں شک نہ پیدا کرے کہ اس کے سلسلہ میں نصرانیت سے تمہاری مشابہت ہوجائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأطعمة ٢٤ (٣٧٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٦ (٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٤) ، و مسند احمد (٥/٢٢٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ ملت اسلامیہ ملت ابراہیمی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے کھانے سے متعلق زیادہ شک میں پڑنا اپنے آپ کو اس رہبانیت سے قریب کرنا ہے جو نصاریٰ کا دین ہے ، لہٰذا اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ امام ترمذی نے اس باب میں مشرکین کے کھانے کا ذکر کیا ہے ، جب کہ حدیث میں مشرکین کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے ، حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ترمذی نے مشرکین سے اہل کتاب کو مراد لیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2830) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1565 اس سند سے بھی ہلب (رض) سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2830) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1565 اس سند سے عدی بن حاتم (رض) سے بھی اس جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اہل کتاب کے کھانے کے سلسلے میں رخصت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٨٧٦) (حسن) (سند میں ” مری بن قطری “ لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی حسن لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2830) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1565
قیدیوں کے درمیان تفریق کرنا مکروہ ہے۔
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے ماں اور اس کے بچہ کے درمیان جدائی پیدا کی، اللہ قیامت کے دن اسے اس کے دوستوں سے جدا کر دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ قیدیوں میں ماں اور بچے کے درمیان، باپ اور بچے کے درمیان اور بھائیوں کے درمیان جدائی کو ناپسند سمجھتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٤٦٨) ، وانظر : مسند احمد (٥/٤١٣، ٤١٤) ، سنن الدارمی/السیر ٣٩ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (3361) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1566
قیدیوں کو قتل کرنا اور فدیہ لینا۔
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل نے میرے پاس آ کر کہا : اپنے ساتھیوں کو بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں اختیار دیں، وہ چاہیں تو انہیں قتل کریں، چاہیں تو فدیہ لیں، فدیہ کی صورت میں ان میں سے آئندہ سال اتنے ہی آدمی قتل کئے جائیں گے، ان لوگوں نے کہا : فدیہ لیں گے اور ہم میں سے قتل کئے جائیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف ابن ابی زائدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - ابواسامہ نے بسند «هشام عن ابن سيرين عن عبيدة عن علي عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٣ - ابن عون نے بسند «ابن سيرين عن عبيدة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے، ٤ - اس باب میں ابن مسعود، انس، ابوبرزہ، اور جبیر بن مطعم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صحابہ کی یہ دلی خواہش تھی کہ یہ قیدی مشرف بہ اسلام ہوجائیں اور مستقبل میں اپنی جان دے کر شہادت کا درجہ حاصل کرلیں (حدیث کی سند اور معنی دونوں پر کلام ہے ؟ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3973 / التحقيق الثاني) ، الإرواء (5 / 48 - 49) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1567
قیدیوں کو قتل کرنا اور فدیہ لینا۔
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوقلابہ کا نام عبداللہ بن زید جرمی ہے، ٣ - اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ قیدیوں میں سے جس پر چاہے احسان کرے اور جسے چاہے قتل کرے، اور جن سے چاہے فدیہ لے، ٤ - بعض اہل علم نے فدیہ کے بجائے قتل کو اختیار کیا ہے، ٥ - امام اوزاعی کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ آیت «فإما منا بعد وإما فداء» منسوخ ہے اور آیت : «واقتلوهم حيث ثقفتموهم» اس کے لیے ناسخ ہے، ٦ - اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سوال کیا : آپ کے نزدیک کیا بہتر ہے جب قیدی گرفتار ہو تو اسے قتل کیا جائے یا اس سے فدیہ لیا جائے، انہوں نے جواب دیا، اگر وہ فدیہ لے سکیں تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر انہیں قتل کردیا جائے تو بھی میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، ٧ - اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک خون بہانا زیادہ بہتر ہے جب یہ مشہور ہو اور اکثر لوگ اس کی خواہش رکھتے ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي فی الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ درست ہے ، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1568
عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی، تو آپ ﷺ نے اس کی مذمت کی اور عورتوں و بچوں کے قتل سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں بریدہ، رباح، ان کو رباح بن ربیع بھی کہتے ہیں، اسود بن سریع ابن عباس اور صعب بن جثامہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ عورتوں اور بچوں کے قتل کو حرام سمجھتے ہیں، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ٤ - کچھ اہل علم نے رات میں ان پر چھاپہ مارنے کی اور اس میں عورتوں اور بچوں کے قتل کی رخصت دی ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ان دونوں نے رات میں چھاپہ مارنے کی رخصت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٤٧ (٣٠١٤) ، و ١٤٨ (٣٠١٥) ، صحیح مسلم/الجہاد ٨ (١٧٤٤) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٢١ (٢٦٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٠ (٢٨٤١) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٦٨) ، وط/الجہاد ٣ (٩) ، سنن الدارمی/السیر ٢٥ (٢٥٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عورت کے قتل کرنے کی حرمت پر سب کا اتفاق ہے ، ہاں ! اگر وہ شریک جنگ ہو کر لڑے تو ایسی صورت میں عورت کا قتل جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2841) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1569
عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
صعب بن جثامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے گھوڑوں نے مشرکین کی عورتوں اور بچوں کو روند ڈالا ہے، آپ نے فرمایا : وہ بھی اپنے آبا و اجداد کی قسم سے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٤٦ (٣٠١٢) ، صحیح مسلم/الجہاد ٩ (١٧٨٥) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٢١ (٢٦٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٠ (٢٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٩) ، و مسند احمد (٤/٣٨، ٧١، ٧٢، ٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس حالت میں یہ سب اپنے بڑوں کے حکم میں تھے اور یہ مراد نہیں ہے کہ قصداً ان کا قتل کرنا مباح تھا ، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو پامال کئے بغیر ان کے بڑوں تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ بڑوں کے ساتھ مخلوط ہونے کی وجہ سے یہ سب مقتول ہوئے ، ایسی صورت میں ان کا قتل جائز ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2839) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1570
عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا اور فرمایا : اگر تم قریش کے فلاں فلاں دو آدمیوں کو پاؤ تو انہیں جلا دو ، پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا : میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو جلا دو حالانکہ آگ سے صرف اللہ ہی عذاب دے گا اس لیے اب اگر تم ان کو پاؤ تو قتل کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ٢ - محمد بن اسحاق نے اس حدیث میں سلیمان بن یسار اور ابوہریرہ (رض) کے درمیان ایک اور آدمی کا ذکر کیا ہے، کئی اور لوگوں نے لیث کی روایت کی طرح روایت کی ہے، لیث بن سعد کی حدیث زیادہ صحیح ہے، ٣ - اس باب میں ابن عباس اور حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٤ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٩ (٣٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1571
مال غنیمت میں خیانت
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مرگیا اور تین چیزوں یعنی تکبر (گھمنڈ) ، مال غنیمت میں خیانت اور قرض سے بری رہا، وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ما یأتي (تحفة الأشراف : ٢٠٨٥) ، و مسند احمد (٢٧٦٥، ٢٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2412) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1572
مال غنیمت میں خیانت
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے جسم سے روح نکلی اور وہ تین چیزوں یعنی کنز، غلول اور قرض سے بری رہا، وہ جنت میں داخل ہوگا ١ ؎۔ سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح اپنی روایت میں «الکنز» بیان کیا ہے اور ابو عوانہ نے اپنی روایت میں «الکبر» بیان کیا ہے، اور اس میں «عن معدان» کا ذکر نہیں کیا ہے، سعید کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٢ (٢٤١٢) ، و مسند احمد (٥/٢٨١ (تحفة الأشراف : ٢١١٤) ، (صحیح) (الکنز کا لفظ شاذ ہے، دیکھئے : الصحیحة رقم ٢٧٨٥ ) وضاحت : ١ ؎ : «کنز» : وہ خزانہ ہے جو زمین میں دفن ہو اور اس کی زکاۃ ادا نہ کی جاتی ہو۔ «غلول» : مال غنیمت میں خیانت کرنا۔ قال الشيخ الألباني : شاذ بهذه اللفظة، الصحيحة (2785) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1573
مال غنیمت میں خیانت
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! فلاں آدمی شہید ہوگیا، آپ نے فرمایا : ہرگز نہیں، میں نے اس عباء (کپڑے) کی وجہ سے اسے جہنم میں دیکھا ہے جو اس نے مال غنیمت سے چرایا تھا ، آپ نے فرمایا : عمر ! کھڑے ہوجاؤ اور تین مرتبہ اعلان کر دو ، جنت میں مومن ہی داخل ہوں گے (اور مومن آدمی خیانت نہیں کیا کرتے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٨ (١١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1574
عورتوں کی جنگ میں شرکت۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام سلیم اور ان کے ہمراہ رہنے والی انصار کی چند عورتوں کے ساتھ جہاد میں نکلتے تھے، وہ پانی پلاتی اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ربیع بنت معوذ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٤٧ (١٨١٠) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٣٤ (٢٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٢٦١) ، (وانظر المعنی عند : صحیح البخاری/الجہاد ٦٥ (٢٨٨٠) ، ومناقب الأنصار ١٨ (٣٨١١) ، والمغازي ١٨ (٤٠٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جہاد عورتوں پر واجب نہیں ہے ، لیکن حدیث میں مذکور مصالح اور ضرورتوں کی خاطر ان کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے ، حج مبرور ان کے لیے سب سے افضل جہاد ہے ، جہاد میں انسان کو سفری صعوبتیں ، مشقتیں ، تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں ، مال خرچ کرنا پڑتا ہے ، حج و عمرہ میں بھی ان سب مشقتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، اس لیے عورتوں کو حج و عمرہ کا ثواب جہاد کے برابر ملتا ہے ، اسی بنا پر حج و عمرہ کو عورتوں کے لیے جہاد قرار دیا گیا ہے گویا جہاد کا ثواب اسے حج و عمرہ ادا کرنے کی صورت میں مل جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2284) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1575
مشرکین کے تحائف قبول کرنا۔
علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے لیے فارس کے بادشاہ کسریٰ نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا تو آپ نے اسے قبول کرلیا، (کچھ) اور بادشاہوں نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا تو آپ نے ان کے تحفے قبول کئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - راوی ثویر ابوفاختہ کے بیٹے ہیں، ابوفاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے اور ثویر کی کنیت ابوجہم ہے، ٣ - اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠١٠٩) (ضعیف جدا) (سند میں ” ثویر بن علاقہ ابی فاختہ “ سخت ضعیف اور رافضی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا التعليق علی الروضة الندية (2 / 163 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1576
مشرکین کے تحائف قبول کرنا۔
عیاض بن حمار (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے (اسلام لانے سے قبل) نبی اکرم ﷺ کو ایک تحفہ دیا یا اونٹنی ہدیہ کی، نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : کیا تم اسلام لا چکے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : مجھے تو مشرکوں کے تحفہ سے منع کیا گیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - نبی اکرم ﷺ کے قول «إني نهيت عن زبد المشرکين» کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کے تحفوں سے منع کیا گیا ہے، نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ مشرکوں کے تحفے قبول فرماتے تھے، جب کہ اس حدیث میں کراہت کا بیان ہے، احتمال ہے کہ یہ بعد کا عمل ہے، آپ پہلے ان کے تحفے قبول فرماتے تھے، پھر آپ نے اس سے منع فرما دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخراج والإمارة ٣٥ (٣٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٥) ، و مسند احمد (٤/١٦٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا ہدیہ قبول نہ کرنا ہی اصل ہے ، لیکن کسی خاص یا عام مصلحت کی خاطر اسے قبول کیا جاسکتا ہے ، چناچہ بعض علماء نے قبول کرنے اور نہ کرنے کی حدیثوں کے مابین تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ جو لوگ دوستی اور موالاۃ کی خاطر ہدیہ دینا چاہتے تھے آپ نے ان کے ہدیہ کو قبول نہیں کیا اور جن کے دلوں میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق انسیت دیکھی گئی تو ان کے ہدایا قبول کیے گئے۔ «واللہ اعلم » قال الشيخ الألباني : حسن صحيح التعليق علی الروضة الندية (2 / 164) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1577
سجدہ شکر۔
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک خبر آئی، آپ اس سے خوش ہوئے اور اللہ کے سامنے سجدہ میں گرگئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اس کو صرف اسی سند سے بکار بن عبدالعزیز کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - بکار بن عبدالعزیز بن ابی بکرہ مقارب الحدیث ہیں، ٤ - اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ سجدہ شکر کو درست سمجھتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٧٤ (٢٧٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٢ (١٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کعب بن مالک (رض) کا سجدہ شکر بجا لانا صحیح روایات سے ثابت ہے ، اور مسیلمہ کذاب کے قتل کی خبر سن کر ابوبکر (رض) بھی سجدہ میں گرگئے تھے ، گویا ایسی خبر جس سے دل کو خوشی و مسرت حاصل ہو اس پر سجدہ شکر بجا لانا مشروع ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1394) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1578
عورت اور غلام کا کسی کو امان دینا۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے، ٣ - کثیر بن زید نے ولید بن رباح سے سنا ہے اور ولید بن رباح نے ابوہریرہ (رض) سے سنا ہے اور وہ مقارب الحدیث ہیں، ٤ - اس باب میں ام ہانی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے ، اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپ کا فرمان : «قد أجرنا من أجرت يا أم هاني» سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے ، اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔ ٢ ؎ : یعنی مسلمانوں میں سے کوئی ادنی شخص کسی کو پناہ دے تو اس کی دی ہوئی پناہ سارے مسلمانوں کے لیے قبول ہوگی کوئی اس پناہ کو توڑ نہیں سکتا۔ قال الشيخ الألباني : (حديث أبي هريرة) حسن، (حديث أم هانئ) صحيح (حديث أبي هريرة) ، المشکاة (3978 / التحقيق الثاني) ، (حديث أم هانئ) ، صحيح أبي داود (2468) ، الصحيحة (2049) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1579
عہد شکنی۔
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) اور اہل روم کے درمیان (کچھ مدت تک کے لیے) عہد و پیمان تھا، معاویہ (رض) ان کے شہروں میں جاتے تھے تاکہ جب عہد کی مدت تمام ہو تو ان پر حملہ کردیں، اچانک ایک آدمی کو اپنی سواری یا گھوڑے پر : اللہ اکبر ! تمہاری طرف سے ایفائے عہد ہونا چاہیئے نہ کہ بدعہدی ، کہتے ہوئے دیکھا وہ عمرو بن عبسہ (رض) تھے، تو معاویہ (رض) نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس آدمی کے اور کسی قوم کے درمیان عہد و پیمان ہو تو جب تک اس کی مدت ختم نہ ہوجائے یا اس عہد کو ان تک برابری کے ساتھ واپس نہ کر دے، ہرگز عہد نہ توڑے اور نہ نیا عہد کرے ، معاویہ (رض) لوگوں کو لے کر واپس لوٹ آئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٦٤ (٢٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٣) ، و مسند احمد (٤/١١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2464) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1580
قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہوگا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : بیشک بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - میں نے محمد سے سوید کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا جسے وہ ابواسحاق سبیعی سے، ابواسحاق نے عمارہ بن عمیر سے، عمارہ نے علی (رض) سے اور علی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا ، محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا : میرے علم میں یہ حدیث مرفوع نہیں ہے، ٣ - اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود، ابو سعید خدری اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ٢٢ (٣١٨٨) ، والأدب ٩٩ (٦١٧٧) ، والحیل ٩ (٦٩٦٦) ، والفتن ٢١ (٧١١١) ، صحیح مسلم/الجہاد ٤ (١٧٣٦) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٦٢ (٢٧٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٩٠) ، و مسند احمد ٢/١٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2461) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1581
کسی کے حکم پر پورا اترنا۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب میں سعد بن معاذ (رض) کو تیر لگا، کفار نے ان کی رگ اکحل یا رگ ابجل (بازو کی ایک رگ) کاٹ دی، رسول اللہ ﷺ نے اسے آگ سے داغا تو ان کا ہاتھ سوج گیا، لہٰذا آپ نے اسے چھوڑ دیا، پھر خون بہنے لگا، چناچہ آپ نے دوبارہ داغا پھر ان کا ہاتھ سوج گیا، جب سعد بن معاذ (رض) نے یہ دیکھا تو انہوں نے دعا کی : اے اللہ ! میری جان اس وقت تک نہ نکالنا جب تک بنو قریظہ (کی ہلاکت اور ذلت سے) میری آنکھ ٹھنڈی نہ ہوجائے، پس ان کی رگ رک گئی اور خون کا ایک قطرہ بھی اس سے نہ ٹپکا، یہاں تک کہ بنو قریظہ سعد بن معاذ (رض) کے حکم پر (قلعہ سے) نیچے اترے، رسول اللہ ﷺ نے سعد کو بلایا انہوں نے آ کر فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے اور عورتوں کو زندہ رکھا جائے جن سے مسلمان خدمت لیں ١ ؎، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے ان کے بارے میں اللہ کے فیصلہ کے موافق فیصلہ کیا ہے، ان کی تعداد چار سو تھی، جب آپ ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو سعد کی رگ کھل گئی اور وہ انتقال کر گئے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری اور عطیہ قرظی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ (تحفة الأشراف : ٢٩٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بنو قریظہ کی عورتیں مسلمانوں کی خدمت کے لیے ان میں تقسیم کردی جائیں۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں دلیل ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے فیصلہ پر دشمنوں کا راضی ہوجانا اور اس پر اترنا جائز ہے ، اور ان کی بابت جو بھی فیصلہ اس مسلمان کی طرف سے صادر ہوگا دشمنوں کے لیے اس کا ماننا ضروری ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (5 / 38 - 39) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1582
کسی کے حکم پر پورا اترنا۔
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرکین کے مردوں کو قتل کر دو اور ان کے لڑکوں میں سے جو بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں انہیں کو چھوڑ دو ، «شرخ» وہ لڑکے ہیں جن کے زیر ناف کے بال نہ نکلے ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - حجاج بن ارطاۃ نے قتادہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٢١ (٢٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٢) ، و مسند احمد (٥/١٢، ٢٠) (ضعیف) (سند میں قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3952 / التحقيق الثاني) ، ضعيف أبي داود (259) // (571 / 2670) ، ضعيف الجامع الصغير (1063) بلفظ : واستبقوا شرخهم // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1583
کسی کے حکم پر پورا اترنا۔
عطیہ قرظی (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں قریظہ کے دن نبی اکرم ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا، تو جس کے (زیر ناف کے) بال نکلے ہوئے تھے اسے قتل کردیا جاتا اور جس کے نہیں نکلے ہوتے اسے چھوڑ دیا جاتا، چناچہ میں ان لوگوں میں سے تھا جن کے بال نہیں نکلے تھے، لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اگر بلوغت اور عمر معلوم نہ ہو تو وہ لوگ (زیر ناف کے) بال نکلنے ہی کو بلوغت سمجھتے تھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحدود ١٧ (٤٤٠٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٠ (٣٤٦٠) ، وقطع السارق ١٧ (٤٩٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٤ (٢٥٤١) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٤) ، و مسند احمد (٤/٣١٠) ، و ٥/٣١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2541) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1584
حلف (یعنی قسم)۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا : جاہلیت کے حلف (معاہدہ تعاون) کو پورا کرو ١ ؎، اس لیے کہ اس سے اسلام کی مضبوطی میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اب اسلام میں کوئی نیا معاہدہ تعاون نہ کرو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ام سلمہ، جبیر بن مطعم، ابوہریرہ، ابن عباس اور قیس بن عاصم (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٦٩٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے متعلق جو عہد ہوا ہے اسے پورا کرو بشرطیکہ یہ عہد شریعت کے مخالف نہ ہو۔ ٢ ؎ : یعنی یہ عہد کرنا کہ ہم ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ، کیونکہ اسلام آ جانے کے بعد اس طرح کا عہد درست نہیں ہے ، بلکہ وراثت سے متعلق عہد کے لیے اسلام کافی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (3983 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1585
مجوسیوں سے جزیہ لینا۔
بجالہ بن عبدہ کہتے ہیں کہ میں مقام مناذر میں جزء بن معاویہ کا منشی تھا، ہمارے پاس عمر (رض) کا خط آیا کہ تمہاری طرف جو مجوس ہوں ان کو دیکھو اور ان سے جزیہ لو کیونکہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے مجھے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ١ (٣١٥٦) ، سنن ابی داود/ الخراج والإمارة ٣١ (٣٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٧١٧) ، و مسند احمد (١/١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجوسی مشرکوں سے جزیہ وصول کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1249) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1586
مجوسیوں سے جزیہ لینا۔
بجالہ بن عبدہ سے روایت ہے کہ عمر (رض) مجوس سے جزیہ نہیں لیتے تھے یہاں تک کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے ان کو خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ نے مقام ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا، اس حدیث میں اس سے زیادہ تفصیل ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1586) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1587
مجوسیوں سے جزیہ لینا۔
سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین کے مجوسیوں سے، اور عمر اور عثمان (رض) نے فارس کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مالک روایت کرتے ہیں زہری سے اور زہری نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وہو في بعض النسخ فحسب ولذا لم یذکرہ المزي في التحفة) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1588
ذمیوں کے مال میں سے کیا حلال ہے۔
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرتے ہیں جو نہ ہماری مہمانی کرتے ہیں، نہ ان پر جو ہمارا حق ہے اسے ادا کرتے ہیں، اور ہم ان سے کچھ نہیں لیتے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ نہ دیں سوائے اس کے کہ تم زبردستی ان سے لو، تو زبردستی لے لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اسے لیث بن سعد نے بھی یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے (جیسا کہ بخاری کی سند میں ہے) ، ٣ - اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ صحابہ جہاد کے لیے نکلتے تھے تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے، جہاں کھانا نہیں پاتے تھے، کہ قیمت سے خریدیں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر وہ (کھانا) فروخت کرنے سے انکار کریں سوائے اس کے کہ تم زبردستی لو تو زبردستی لے لو، ٤ - ایک حدیث میں اسی طرح کی وضاحت آئی ہے، عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے، وہ بھی اسی طرح کا حکم دیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٨ (٢٤٦١) ، والأدب ٨٥ (٦١٣٧) ، صحیح مسلم/اللقطة ٣ (١٧٢٧) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ٥ (٣٧٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥ (٣٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٤) ، و مسند احمد (٤/١٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام احمد ، شوکانی اور صاحب تحفہ الاحوذی کے مطابق یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے ، اس کی کوئی تاویل بلا دلیل ہے ، جیسے : یہ زمن نبوت کے ساتھ خاص تھا ، یا یہ کہ یہ ان اہل ذمہ کے ساتھ خاص تھا جن سے مسلمان لشکریوں کی ضیافت کرنے کی شرط لی گئی تھی ، وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3676) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1589
ہجرت کے بارے میں۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا : فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے، اور جب تم کو جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو نکل پڑو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سفیان ثوری نے بھی منصور بن معتمر سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں ابوسعید، عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن حبشی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٠ (١٨٣٤) ، والجہاد ١ (٢٧٨٣) ، و ٢٧ (٢٨٢٥) ، و ١٩٤ (٣٠٧٧) ، والجزیة ٢٢ (٣١٨٩) ، صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٣) ، والإمارة ٢٠ (١٣٥٣/٨٥) ، سنن ابی داود/ المناسک ٩٠ (٢٠١٨) ، (إشارة) والجہاد ٢ (٢٤٨٠) ، سنن النسائی/البیعة ١٥ (٤١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٩ (٢٧٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٨) ، و مسند احمد (١/٢٢٦، ٢٢٦، ٣١٦، ٣٥٥) ، وسنن الدارمی/السیر ٦٩ (٢٥٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے خاص طور پر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہے کیونکہ مکہ اب دارالسلام بن گیا ہے ، البتہ دارالکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت تاقیامت باقی رہے گی جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے سبب جس خیر و بھلائی سے لوگ محروم ہوگئے اس کا حصول جہاد اور صالح نیت کے ذریعہ ممکن ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2773) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1590
بیعت نبی اکرم ﷺ۔
جابر بن عبداللہ (رض) سے آیت کریمہ : «لقد رضي اللہ عن المؤمنين إذ يبايعونک تحت الشجرة» اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ۔ (الفتح : ١٨ ) کے بارے میں روایت ہے، جابر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے فرار نہ ہونے کی بیعت کی تھی، ہم نے آپ سے موت کے اوپر بیعت نہیں کی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث بسند «عيسى بن يونس عن الأوزاعي عن يحيى بن أبي كثير عن جابر بن عبد الله» مروی ہے، اس میں یحییٰ بن ابی کثیر اور جابر بن عبداللہ (رض) کے درمیان ابوسلمہ کے واسطے کا ذکر نہیں ہے، ٢ - اس باب میں سلمہ بن الاکوع، ابن عمر، عبادہ اور جریر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٨ (١٨٥٦) ، سنن النسائی/البیعة ٧ (٤١٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣١٦٣) ، و مسند احمد (٣/٣٥٥، ٣٨١، ٣٩٦) ، وسنن الدارمی/السیر ١٨ (٢٤٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1591
بیعت نبی اکرم ﷺ۔
یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع (رض) سے پوچھا : حدیبیہ کے دن آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کس بات پر بیعت کی تھی ؟ انہوں نے کہا : موت پر ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١١٠ (٢٩٦٠) ، والمغازي ٣٥ (٤١٦٩) ، والأحکام ٤٣ (٧٢٠٦) ، و ٤٤ (٧٢٠٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ١٨ (١٨٦٠) ، سنن النسائی/البیعة ٨ (٤١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٦) ، و مسند احمد (٤/٤٧، ٥١، ٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے ، کیونکہ اس حدیث کا بھی مفہوم یہ ہے کہ ہم نے میدان سے نہ بھاگنے کی بیعت کی تھی ، بھلے ہم اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھو بیٹھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1592
بیعت نبی اکرم ﷺ۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ سے سمع و طاعت (یعنی آپ کے حکم سننے اور آپ کی اطاعت کرنے) پر بیعت کرتے تھے، پھر آپ ہم سے فرماتے : جتنا تم سے ہو سکے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - حدیث جابر اور حدیث سلمہ بن الاکوع (رض) دونوں حدیثوں کا معنی صحیح ہے، (ان میں تعارض نہیں ہے) بعض صحابہ نے آپ ﷺ سے موت پر بیعت کی تھی، ان لوگوں نے کہا تھا : ہم آپ کے سامنے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ قتل کردیئے جائیں، اور دوسرے لوگوں نے آپ سے بیعت کرتے ہوئے کہا تھا : ہم نہیں بھاگیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٤٣ (٧٢٠٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٢ (١٨٦٧) ، سنن النسائی/البیعة ٢٤ (٤١٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٧١٢٧) ، وط/البیعة ١ (١) ، و مسند احمد (٢/٦٢، ٨١، ١٠١، ١٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2606) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1593
بیعت نبی اکرم ﷺ۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے موت پر بیعت نہیں کی تھی، ہم نے تو آپ سے بیعت کی تھی کہ نہیں بھاگیں گے (چاہے اس کا انجام کبھی موت ہی کیوں نہ ہوجائے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٥٩١، (تحفة الأشراف : ٢٧٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1594
بیعت توڑنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : ایک وہ آدمی جس نے کسی امام سے بیعت کی پھر اگر امام نے اسے (اس کی مرضی کے مطابق) دیا تو اس نے بیعت پوری کی اور اگر نہیں دیا تو بیعت پوری نہیں کی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور بلا اختلاف اسی کے موافق حکم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المساقاة ١٠ (٢٣٦٩) ، والشہادات ٢٢ (٢٦٧٢) ، والأحکام ٤٨ (٧٢١٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٧٣) ، سنن ابی داود/ البیوع ٦٢ (٣٤٧٤) ، سنن النسائی/البیوع ٦ (٤٤٧٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٠ (٢٢٠٧) ، والجہاد ٤٢ (٢٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٢) ، و مسند احمد (٢/٢٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : باقی دو آدمی جن کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہیں : ایک وہ آدمی جس کے پاس لمبے چوڑے صحراء میں اس کی ضرورتوں سے زائد پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے ، دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے ، پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کرلیا حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2207) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1595
غلام کی بیعت۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اس نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم ﷺ نہیں جانتے تھے کہ وہ غلام ہے، اتنے میں اس کا مالک آگیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے اسے بیچ دو ، پھر آپ نے اس کو دو کالے غلام دے کر خرید لیا، اس کے بعد آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیا وہ غلام ہے ؟ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ہم اس کو صرف ابوالزبیر کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تقدم في البیوع برقم ١٥٩١ (تحفة الأشراف : ٢٧٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز ہے ، اس شرط کے ساتھ کہ یہ خرید و فروخت بصورت نقد ہو ، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیعت کے لیے آئے ہوئے شخص سے اس کی غلامی و آزادی سے متعلق پوچھ لینا ضروری ہے ، کیونکہ غلام ہونے کی صورت میں اس سے بیعت لینی صحیح نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1596
عورتوں کی بیعت۔
امیمہ بنت رقیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کئی عورتوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، آپ نے ہم سے فرمایا : اطاعت اس میں لازم ہے جو تم سے ہو سکے اور جس کی تمہیں طاقت ہو ، میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہم پر خود ہم سے زیادہ مہربان ہیں، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم سے بیعت لیجئے (سفیان بن عیینہ کہتے ہیں : ان کا مطلب تھا مصافحہ کیجئے) ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سو عورتوں کے لیے میرا قول میرے اس قول جیسا ہے جو ایک عورت کے لیے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف محمد بن منکدر ہی کی روایت سے جانتے ہیں، سفیان ثوری، مالک بن انس اور کئی لوگوں نے محمد بن منکدر سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : میں امیمہ بنت رقیقہ کی اس کے علاوہ دوسری کوئی حدیث نہیں جانتا ہوں، ٣ - امیمہ نام کی ایک دوسری عورت بھی ہیں جن کی رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث آئی ہے۔ ٤ - اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن عمر اور اسماء بنت یزید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیعة ١٨ (٤١٨٦) ، و ٢٤ (٤١٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤٣ (٢٨٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨١) ، وط/البیعة ١ (٢) ، و مسند احمد (٦/٣٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زبان ہی سے بیعت لینا عورتوں کے لیے کافی ہے مصافحہ کی ضرورت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2874) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1597
اصحاب بدر کی تعداد۔
براء (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ غزوہ بدر کے دن بدری لوگ تعداد میں طالوت کے ساتھیوں کے برابر تین سو تیرہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ثوری اور دوسرے لوگوں نے بھی ابواسحاق سبیعی سے اس کی روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٦ (٣٩٥٧، ٣٩٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٥ (٢٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٩٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1598
خمس (پانچواں حصہ)۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وفد عبدالقیس سے فرمایا : میں تم لوگوں کو حکم دیتا ہوں کہ مال غنیمت سے خمس (یعنی پانچواں حصہ) ادا کرو، امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث میں ایک قصہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٠ (٥٣) ، والعلم ٢٥ (٨٧) ، والمواقیت ٢ (٥٢٣) ، والزکاة ١ (١٣٩٨) ، والمناقب ٥ (٣٥١٠) ، والمغازي ٦٩ (٤٣٦٩) ، والأدب ٩٨ (٦١٧٦) ، وخبر الواحد ٥ (٧٢٦٦) ، والتوحید ٥٦ (٧٥٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦ (١٧) ، والأشربة ٦ (١٩٩٥) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٢) ، والسنة ١٥ (٤٦٧٧) ، سنن النسائی/الإیمان ٢٥، (٥٠٣٤) ، والأشربہة (٥٥٦٤) ، و ٤٨ (٥٧٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٢٤) ، و مسند احمد ١/١٢٨، ٢٧٤، ٢٩١، ٣٠٤، ٣٣٤، ٣٤٠، ٣٥٢، ٣٦١) ، سنن الدارمی/الأشربة ١٤ (٢٧١٥٧) ، ویأتي عندع المؤلف في الإیمان برقم ٢٦١١ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : تفصیل کے لیے دیکھئیے صحیح بخاری وصحیح مسلم کتاب الایمان۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر البخاري (40) ، الإيمان لأبي عبيد (59 / 1) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1599 اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر البخاري (40) ، الإيمان لأبي عبيد (59 / 1) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1599
اس بارے میں کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کچھ لینا مکروہ ہے۔
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، جلد باز لوگ آگے بڑھے اور غنیمت سے (کھانے پکانے کی چیزیں) جلدی لیا اور (تقسیم سے پہلے اسے) پکانے لگے، رسول اللہ ﷺ ان سے پیچھے آنے والے لوگوں کے ساتھ تھے، آپ ہانڈیوں کے قریب سے گزرے تو آپ نے حکم دیا اور وہ الٹ دی گئیں، پھر آپ نے ان کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا، آپ نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - سفیان ثوری نے یہ حدیث بطریق : «عن أبيه سعيد، عن عباية، عن جده رافع بن خديج» روایت کی ہے، اس سند میں عبایہ نے اپنے باپ کے واسطے کا نہیں ذکر کیا ہے۔
اس بارے میں کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کچھ لینا مکروہ ہے۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوٹ پاٹ مچائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٧٩) ، وانظر مسند احمد (٣/١٤٠، ١٩٧، ٣١٢، ٣٢٣، ٣٨٠، ٣٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کسی معصوم کے مال کو اس کی اجازت و رضا مندی کے بغیر ڈاکہ زنی کر کے لینا حرام ہے ، اور اگر کوئی یہ کام حلال سمجھ کر کر رہا ہے تو وہ کافر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2947 / التخريج الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1601
اہل کتاب کو سلام کرنا۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور ان میں سے جب کسی سے تمہارا آمنا سامنا ہوجائے تو اسے تنگ راستے کی جانب جانے پر مجبور کر دو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، انس (رض) اور ابو بصرہ غفاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تم خود ان سے سلام نہ کرو (بلکہ ان کے سلام کرنے پر صرف جواب دو ) ، ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں : یہ اس لیے ناپسند ہے کہ پہلے سلام کرنے سے ان کی تعظیم ہوگی جب کہ مسلمانوں کو انہیں تذلیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح راستے میں آمنا سامنا ہوجانے پر ان کے لیے راستہ نہ چھوڑے کیونکہ اس سے بھی ان کی تعظیم ہوگی (جو صحیح نہیں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٤٩ (٥٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٠) ، ویأتي في الاستئذان برقم ٢٧٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کی رو سے مسلمان کا یہود و نصاریٰ اور مجوس وغیرہ کو پہلے سلام کہنا حرام ہے ، جمہور کی یہی رائے ہے۔ راستے میں آمنا سامنا ہونے پر انہیں تنگ راستے کی جانب مجبور کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ چھوٹے لوگ ہیں۔ اور یہ غیر اسلامی حکومتوں میں ممکن نہیں اس لیے بقول ائمہ شر وفتنہ سے بچنے کے لیے جو محتاط طریقہ ہو اسے اپنانا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (704) ، الإرواء (1271) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1602
اہل کتاب کو سلام کرنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود میں سے کوئی جب تم لوگوں کو سلام کرتا ہے تو وہ کہتا ہے : «السام عليک» (یعنی تم پر موت ہو) ، اس لیے تم جواب میں صرف «عليک» کہو (یعنی تم پر موت ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٢٢ (٦٦٥٧) ، والمرتدین ٤ (٦٩٢٨) ، صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٤) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٤٩ (٥٢٠٦) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٣٤ (١٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٧١٢٨) ، وط/السلام ٢ (٣) ، و مسند احمد (٢/١٩) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٧ (٢٦٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (5 / 112 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1603
مشرکین میں رہنے کی کراہت۔
جریر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا، (کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے) کچھ لوگوں نے سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی، پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور فرمایا : میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آخر کیوں ؟ آپ نے فرمایا : (مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیئے کہ) وہ دونوں ایک دوسرے (کے کھانا پکانے) کی آگ نہ دیکھ سکیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٠٥ (٢٦٤٥) ، سنن النسائی/القسامة ٢٦ (٤٧٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٢٧) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، دیکھئے : الارواء : رقم ١٢٠٧ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب مسلمان کفار کے درمیان مقیم ہوں اور مجاہدین کے ہاتھوں ان کا قتل ہوجائے تو مجاہدین پر اس کا کوئی گناہ نہیں ، اور دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق مشرکین کے گھروں اور علاقوں سے ہجرت کرنا ضروری ہے کیونکہ اسلام اور کفر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آدھی دیت کا حکم اس لیے دیا کیونکہ باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بطور سزا ساقط ہوگئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون الأمر بنصف العقل، الإرواء (1207) ، صحيح أبي داود (2377) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1604
مشرکین میں رہنے کی کراہت۔
عبدہ نے یہ حدیث بطریق : «إسمعيل بن أبي خالد عن قيس ابن أبي عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» (مرسلاً ) ابومعاویہ کے مثل حدیث روایت کی ہے، اس میں انہوں (عبدہ) نے جریر کے واسطے کا ذکر نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ روایت زیادہ صحیح ہے، ٢ - اسماعیل بن ابی خالد کے اکثر شاگرد اسماعیل کے واسطہ سے قیس بن ابی حازم سے (مرسلاً ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ روانہ کیا، ان لوگوں نے اس میں جریر کے واسطے کا ذکر نہیں کیا، اور حماد بن سلمہ نے بطریق : «الحجاج بن أرطاة عن إسمعيل بن أبي خالد عن قيس عن جرير» (مرفوعاً ) ابومعاویہ کے مثل اس کی روایت کی ہے، ٣ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : صحیح یہ ہے کہ قیس کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرسل ہے، نیز سمرہ بن جندب نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا : مشرکوں کے ساتھ نہ رہو اور نہ ان کی ہم نشینی اختیار کرو، جو ان کے ساتھ رہے گا یا ان کی ہم نشینی اختیار کرے گا وہ بھی انہیں میں سے مانا جائے گا، ٣ - اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٢٦ (٤٧٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1605
یہود نصاریٰ کو جزیرہ عرب سے نکال دینا۔
عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میں جزیرہ عرب سے یہود و نصاریٰ کو ضرور نکالوں گا اور اس میں صرف مسلمان کو باقی رکھوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1134) ، صحيح أبي داود صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1607
یہود نصاریٰ کو جزیرہ عرب سے نکال دینا۔
عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ جزیرہ عرب سے یہود و نصاریٰ کو نکال باہر کر دوں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٢١ (١٧٦٧) ، سنن ابی داود/ الخراج والإمارة ٢٨ (٣٠٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤١٩) ، و مسند احمد (١/٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جزیرہ عرب وہ حصہ ہے جسے بحر ہند ، بحر احمر ، بحر شام و دجلہ اور فرات نے احاطہٰ کر رکھا ہے ، یا طول کے لحاظ سے عدن ابین کے درمیان سے لے کر اطراف شام تک کا علاقہ اور عرض کے اعتبار سے جدہ سے لے کر آبادی عراق کے اطراف تک کا علاقہ ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی خواہش تھی کہ جزیرہ عرب سے کافروں اور یہود و نصاری کو باہر نکال دیں ، آپ کی زندگی میں اس پر پوری طرح عمل نہ کیا جاسکا ، لیکن عمر (رض) نے اپنے دور خلافت میں آپ ﷺ کی اس خواہش کو کہ عرب میں دو دین نہ رہیں یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے جلا وطن کردیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1605) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1606
نبی اکرم ﷺ کا ترکہ۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ فاطمہ (رض) نے ابوبکر (رض) کے پاس آ کر کہا : آپ کی وفات کے بعد آپ کا وارث کون ہوگا ؟ انہوں نے کہا : میرے گھر والے اور میری اولاد، فاطمہ (رض) نے کہا : پھر کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں ؟ ابوبکر (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا (پھر ابوبکر (رض) نے کہا) لیکن رسول اللہ ﷺ جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ ﷺ جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اسے حماد بن سلمہ اور عبدالوہاب بن عطاء نے مسنداً روایت کیا ہے یہ دونوں اور محمد بن عمر سے اور محمد ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں کہا : میں حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا ہوں جس نے اس حدیث کو محمد بن عمرو سے محمد نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے (مرفوعاً ) روایت کی ہو۔ (ترمذی کہتے ہیں : ہاں) عبدالوہاب بن عطاء نے بھی محمد بن عمرو سے اور محمد نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے حماد بن سلمہ کی روایت کی طرح روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں عمر، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف، سعد اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٦٦٢٥) وانظر : صحیح البخاری/الخمس ١ (٣٠٩٢، ٣٠٩٣) ، والنفقات ٣ (٦٧٢٥ و ٦٧٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل المحمدية (337) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1608
نبی اکرم ﷺ کا ترکہ۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فاطمہ (رض) ابوبکر اور عمر (رض) کے پاس رسول اللہ ﷺ کی میراث سے اپنا حصہ طلب کرنے آئیں، ان دونوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : میرا کوئی وارث نہیں ہوگا ، فاطمہ (رض) بولیں : اللہ کی قسم ! میں تم دونوں سے کبھی بات نہیں کروں گی، چناچہ وہ انتقال کر گئیں، لیکن ان دونوں سے بات نہیں کی۔ راوی علی بن عیسیٰ کہتے ہیں : «لا أكلمکما» کا مفہوم یہ ہے کہ میں اس میراث کے سلسلے میں کبھی بھی آپ دونوں سے بات نہیں کروں گی، آپ دونوں سچے ہیں۔ ( امام ترمذی کہتے ہیں) یہ حدیث کئی سندوں سے ابوبکر (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1609
نبی اکرم ﷺ کا ترکہ۔
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب (رض) کے پاس گیا، اسی دوران ان کے پاس عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص (رض) بھی پہنچے، پھر علی اور عباس (رض) جھگڑتے ہوئے آئے، عمر (رض) نے ان سے کہا : میں تم لوگوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہے، تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ، لوگوں نے کہا : ہاں ! عمر (رض) نے کہا : جب رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے، ابوبکر (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کا جانشین ہوں، پھر تم اپنے بھتیجے کی میراث میں سے اپنا حصہ طلب کرنے اور یہ اپنی بیوی کے باپ کی میراث طلب کرنے کے لیے ابوبکر (رض) کے پاس آئے، ابوبکر (رض) نے کہا : بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ، (عمر (رض) نے کہا) اللہ خوب جانتا ہے ابوبکر سچے، نیک، بھلے اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث میں تفصیل ہے، یہ حدیث مالک بن اوس ١ ؎ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١ (٣٠٩٤) ، والمغازي ١٤ (٤٠٣٣) ، والنفقات ٣ (٥٣٥٧) ، والفرائض ٣ (٦٧٢٨) ، والاعتصام ٥ (٧٣٠٥) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٥ (١٧٥٧/٤٩) ، سنن ابی داود/ الخراج والإمارة ١٩ (٢٩٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٢) ، و مسند احمد (١/٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ترمذی کے نسخوں میں «مالک بن أنس» ظاہر ہے کہ یہاں تفرد «مالک بن أوس» کا عمر بن خطاب سے ، جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے اس لیے صواب «مالک بن أوس» ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (341) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1610
فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ کا فرمان کہ آج کے بعد مکہ میں جہاد نہ کیا جائے گا۔
حارث بن مالک بن برصاء (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : مکہ میں آج کے بعد قیامت تک (کافروں سے) جہاد نہیں کیا جائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ یعنی زکریا بن ابی زائدہ کی حدیث جو شعبی کے واسطہ سے آئی ہے، ٢ - ہم اس حدیث کو صرف ان ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں ابن عباس، سلیمان بن صرد اور مطیع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٢٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مکہ اب دارالحرب اور کفار کا مسکن نہیں ہوگا کہ یہاں جہاد کی پھر ضرورت پیش آئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2427) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1611
قتال کے مستحب اوقات۔
نعمان بن مقرن (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد کیا، جب فجر طلوع ہوتی تو آپ (قتال سے) ٹھہر جاتے یہاں تک کہ سورج نکل جاتا، جب سورج نکل جاتا تو آپ جہاد میں لگ جاتے، پھر جب دوپہر ہوتی آپ رک جاتے یہاں تک کہ سورج ڈھل جاتا، جب سورج ڈھل جاتا تو آپ عصر تک جہاد کرتے، پھر ٹھہر جاتے یہاں تک کہ عصر پڑھ لیتے، پھر جہاد (شروع) کرتے۔ کہا جاتا تھا کہ اس وقت نصرت الٰہی کی ہوا چلتی ہے اور مومن اپنے مجاہدین کے لیے نماز میں دعائیں کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : نعمان بن مقرن (رض) سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے جو موصول ہے، قتادہ کی ملاقات نعمان سے نہیں ہے، نعمان بن مقرن کی وفات عمر بن خطاب (رض) کے دور خلافت میں ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر الحدیث الآتي (تحفة الأشراف : ١١٦٤٩) ، (ضعیف الإسناد) (قتادہ کی نعمان بن مقرن (رض) سے لقاء نہیں اس لیے اس سند میں انقطاع ہے، اگلی سند سے یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3934 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1612
قتال کے مستحب اوقات۔
معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے نعمان بن مقرن (رض) کو ہرمز ان کے پاس بھیجا، پھر انہوں نے مکمل حدیث بیان کی، نعمان بن مقرن (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (کسی غزوہ میں) حاضر ہوا، جب آپ دن کے شروع حصہ میں نہیں لڑتے تو انتظار کرتے یہاں تک کہ سورج ڈھل جاتا، ہوا چلنے لگتی اور نصرت الٰہی کا نزول ہوتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ١ (٣١٦٠) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١١١ (٢٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2385) ، المشکاة (3933 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1613
طیرہ کے بارے میں۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بدفالی شرک ہے ١ ؎۔ (ابن مسعود کہتے ہیں) ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کے دل میں اس کا وہم و خیال نہ پیدا ہو، لیکن اللہ تعالیٰ اس وہم و خیال کو توکل کی وجہ سے زائل کردیتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - شعبہ نے بھی سلمہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے، امام ترمذی کہتے ہیں : ٣ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : سلیمان بن حرب اس حدیث میں «وما منا ولکن اللہ يذهبه بالتوکل» کی بابت کہتے تھے کہ «وما منا» میرے نزدیک عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے، ٤ - اس باب میں ابوہریرہ، حابس تمیمی، عائشہ، ابن عمر اور سعد (رض) سے بھی روایتیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ٢٤ (٣٩١٠) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٤٣ (٣٥٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اعتقاد رکھنا کہ «طیرہ» یعنی بدفالی نفع یا نقصان پہنچانے میں موثر ہے شرک ہے ، اور اس عقیدے کے ساتھ اس پر عمل کرنا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے ، اس لیے اس طرح کا خیال آنے پر «لا إله إلا الله» پڑھنا بہتر ہوگا ، کیونکہ جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اسے پڑھنے اور اللہ پر توکل کرنے کی وجہ سے اللہ یہ خیال اس سے دور فرما دے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3538) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1614
طیرہ کے بارے میں۔
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جانے اور بدفالی و بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ١ ؎ اور مجھ کو فال نیک پسند ہے ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! فال نیک کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : اچھی بات ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٤٤ (٥٧٥٦) ، و ٥٤ (٥٧٧٦) ، صحیح مسلم/السلام ٣٤٢ (٢٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٨) ، و مسند احمد (٣/١١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چھوت چھات یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی ، بلکہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر پر ہوتا ہے ، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3537) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1615
طیرہ کے بارے میں۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو یہ سننا اچھا لگتا تھا کہ جب کسی ضرورت سے نکلیں تو کوئی یا راشد یا نجیح کہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : راشد کا مطلب ہے صحیح راستہ اپنانے والا ، اور نجیح کا مفہوم ہے جس کی ضرورت پوری کردی گئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (86) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1616
جنگ کے متعلق نبی اکرم ﷺ کی وصیت۔
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر پر امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اپنے نفس کے بارے میں سے اللہ سے ڈرنے اور جو مسلمان ان کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتے تھے، اس کے بعد آپ فرماتے : اللہ کے نام سے اور اس کے راستے میں جہاد کرو، ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرنے والے ہیں، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، عہد نہ توڑو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے جاؤ تو ان کو تین میں سے کسی ایک بات کی دعوت دو ان میں سے جسے وہ مان لیں قبول کرلو اور ان کے ساتھ لڑائی سے باز رہو : ان کو اسلام لانے اور اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دو ، اور ان کو بتادو کہ اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان کے اوپر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مہاجرین پر ہیں، اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو ان کو بتادو کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان کے اوپر وہی احکام جاری ہوں گے جو بدوی مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں : مال غنیمت اور فئی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں، پھر اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کریں تو ان پر فتح یاب ہونے کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے جہاد شروع کر دو ، جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ اور اس کے نبی کی پناہ دو تو تم ان کو اللہ اور اس کے نبی کی پناہ نہ دو ، بلکہ تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی پناہ دو ، (اس کے خلاف نہ کرنا) اس لیے کہ اگر تم اپنا اور اپنے ساتھیوں کا عہد توڑتے ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑو، اور جب تم کسی قلعے والے کا محاصرہ کرو اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے فیصلہ پر اتارو تو ان کو اللہ کے فیصلہ پر مت اتارو بلکہ اپنے فیصلہ پر اتارو، اس لیے کہ تم نہیں جانتے کہ ان کے سلسلے میں اللہ کے فیصلہ پر پہنچ سکو گے یا نہیں ، آپ نے اسی طرح کچھ اور بھی فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں نعمان بن مقرن (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٢ (١٧٣١) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٩٠ (٢٦١٢) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٨ (٢٨٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩) ، و مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/السیر ٥ (٣٤٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر کفار و مشرکین غیر مشروط طور پر بغیر کسی معین شرط اور پختہ عہد کے اپنے آپ کو امیر لشکر کے حوالہ کرنے پر تیار ہوں تو بہتر ، ورنہ صرف اللہ کے حکم کے مطابق امیر سے معاملہ کرنا چاہیں تو امیر کو ایسا نہیں کرنا ہے ، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اللہ نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے ، یہ حدیث اصول جہاد کے بڑے معتبر اصولوں پر مشتمل ہے جو معمولی سے غور وتامل سے واضح ہوجاتے ہیں۔ حدیث میں موجود نصوص کو مطلق طور پر اپنانا بحث و مباحثہ میں جانے سے کہیں بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2858) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1617
جنگ کے متعلق نبی اکرم ﷺ کی وصیت۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز فجر کے وقت ہی حملہ کرتے تھے، اگر آپ اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کردیتے، ایک دن آپ نے کان لگایا تو ایک آدمی کو کہتے سنا : «الله أكبر اللہ أكبر» ، آپ نے فرمایا : فطرت (دین اسلام) پر ہے، جب اس نے «أشهد أن لا إله إلا الله» کہا، تو آپ نے فرمایا : تو جہنم سے نکل گیا ۔ حسن کہتے ہیں : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : ہم سے حماد بن سلمہ نے اسی سند سے اسی کے مثل بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٦ (٣٨٢) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٠٠ (٢٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2368) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1618
جہاد کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ کہا گیا : اللہ کے رسول ! کون سا عمل (اجر و ثواب میں) جہاد کے برابر ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے ، صحابہ نے دو یا تین مرتبہ آپ کے سامنے یہی سوال دہرایا، آپ ہر مرتبہ کہتے : تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے ، تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس نمازی اور روزہ دار کی ہے جو نماز اور روزے سے نہیں رکتا (یہ دونوں عمل مسلسل کرتا ہی چلا جاتا) ہے یہاں تک کہ اللہ کی راہ کا مجاہد واپس آ جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں شفاء، عبداللہ بن حبشی، ابوموسیٰ ، ابوسعید، ام مالک بہز یہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٩ (١٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٩١) ، و مسند احمد (٢/٤٢٤، ٤٣٨، ٤٦٥) (صحیح) (وانظر أیضا : صحیح البخاری/الجہاد ٢ ٢٧٨٧) ، و سنن النسائی/الجہاد ١٤ (٣١٢٦ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس طرح اللہ کی عبادت میں ہر آن اور ہر گھڑی مشغول رہنے والے روزہ دار اور نمازی کا ثواب برابر جاری رہتا ہے ، اسی طرح اللہ کی راہ کے مجاہد کا کوئی وقت ثواب سے خالی نہیں جاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1619
جہاد کی فضیلت۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کا ضامن میں ہوں، اگر میں اس کی روح قبض کروں تو اس کو جنت کا وارث بناؤں گا، اور اگر میں اسے (اس کے گھر) واپس بھیجوں تو اجر یا غنیمت کے ساتھ واپس بھیجوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 178 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1620
مجاہد کی موت کی فضیلت۔
فضالہ بن عبید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر میت کے عمل کا سلسلہ بند کردیا جاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں سرحد کی پاسبانی کرتے ہوئے مرے، تو اس کا عمل قیامت کے دن تک بڑھایا جاتا رہے گا اور وہ قبر کے فتنہ سے مامون رہے گا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - فضالہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عقبہ بن عامر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٦ (٢٥٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے ، وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے ، خواہشات نفس کا تابع نہیں ہوتا اور اطاعت الٰہی میں جو مشکلات اور رکاوٹیں آتی ہیں ، ان پر صبر کرتا ہے ، یہی جہاد اکبر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (34 / التحقيق الثانی و 3823) ، التعليق الرغيب (2 / 150) ، الصحيحة (549) ، صحيح أبي داود (1258) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1621
جہاد کے دوران روزہ رکھنے کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص جہاد کرتے وقت ایک دن کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسے ستر سال کی مسافت تک جہنم سے دور کرے گا ١ ؎۔ عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار میں سے ایک نے ستر برس کہا ہے اور دوسرے نے چالیس برس ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - راوی ابوالاسود کا نام محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل اسدی مدنی ہے، ٣ - اس باب میں ابوسعید، انس، عقبہ بن عامر اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٤٤ (٢٢٤٦، ٢٢٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٤ (١٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨٦) ، و مسند احمد (٢/٣٠٠، ٣٥٧) (صحیح) (اگلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ” ابن لہیعہ “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : جہاد کرتے وقت روزہ رکھنے کی فضیلت کے حامل وہ مجاہدین ہیں جنہیں روزہ رکھ کر کمزوری کا احساس نہ ہو ، اور جنہیں کمزوری لاحق ہونے کا خدشہ ہو وہ اس فضیلت کے حامل نہیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح باللفظ الأول، التعليق الرغيب (2 / 62) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1622
جہاد کے دوران روزہ رکھنے کی فضیلت۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راہ جہاد میں کوئی بندہ ایک دن بھی روزہ رکھتا ہے تو وہ دن اس کے چہرے سے ستر سال کی مسافت تک جہنم کی آگ کو دور کر دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣٦ (٢٨٤٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٣١ (١١٥٣) ، سنن النسائی/الصیام ٤٤ (٢٢٤٧) ، ٢٢٤٩-٢٢٥٢) ، و ٤٥ ٢٢٥٣-٢٢٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٣٤ (١٧١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨٨) ، و مسند احمد (٣/٢٦، ٤٥، ٥٩، ٨٣) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٠ (٢٤٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1717) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1623
جہاد کے دوران روزہ رکھنے کی فضیلت۔
ابوامامہ باہلی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہاد میں جو شخص ایک دن روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اور آگ کے درمیان اسی طرح کی ایک خندق بنا دے گا جیسی زمین و آسمان کے درمیان ہے ۔ یہ حدیث ابوامامہ کی روایت سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٤٩٠٤) (حسن صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے، ورنہ ” ولید “ اور ان کے شیخ میں قدرے کلام ہے، دیکھیے الصحیحة رقم ٥٦٣ ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (563) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1624
جہاد میں مال خرچ کرنے کی فضیلت۔
خریم بن فاتک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کے راستے (جہاد) میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے سات سو گنا (ثواب) لکھ لیا گیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، اس حدیث کو ہم رکین بن ربیع ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد ٤٥ (٣١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٦) ، و مسند احمد (٤/٣٥٢٢، ٣٤٥، ٣٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3826) ، التعليق الرغيب (2 / 156) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1625
جہاد میں خدمت گاری کی فضیلت۔
عدی بن حاتم طائی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں (کسی مجاہد کو) غلام کا عطیہ دینا یا (مجاہدین کے لیے) خیمہ کا سایہ کرنا، یا اللہ کے راستے میں جوان اونٹنی دینا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - معاویہ بن صالح سے یہ حدیث مرسل طریقہ سے بھی آئی ہے، ٢ - بعض اسناد (طرق) میں زید (بن حباب) کی مخالفت کی گئی ہے، اس حدیث کو ولید بن جمیل نے قاسم ابوعبدالرحمٰن سے، قاسم نے ابوامامہ سے، اور ابوامامہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ہم سے اس حدیث کو زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٩٨٧٣) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 158 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1626
جہاد میں خدمت گاری کی فضیلت۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد میں (مجاہدین کے لیے) خیمہ کا سایہ کرنا، خادم کا عطیہ دینا اور جوان اونٹنی دینا سب سے افضل و بہتر صدقہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - میرے نزدیک یہ معاویہ بن صالح کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩٠٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما قبله (1626) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1627
غازی کو سامان جنگ دینا۔
زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا سامان سفر تیار کیا حقیقت میں اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے اہل و عیال میں اس کی جانشینی کی (اس کے اہل و عیال کی خبرگیری کی) حقیقت میں اس نے جہاد کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ دوسری سند سے بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣٨ (٢٨٤٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٣) ، سنن ابی داود/ الجہاد (٢٥٠٩) ، سنن النسائی/الجہاد ٤٤ (٣١٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣ (٢٧٥٩) (تحفة الأشراف : ٣٧٤٧) ، و مسند احمد (٤/١١٥، ١١٦، ١١٧) ، و (١٩٢٥، ١٩٣) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢٧ (٢٤٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2759) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1628
غازی کو سامان جنگ دینا۔
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مجاہد کا سامان سفر تیار کیا، یا اس کے گھر والے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہاد کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٣٧٦١) (صحیح بما قبلہ) (سند میں ” محمد بن ابی لیلیٰ “ ضعیف ہیں، مگر پچھلی سند صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (1628) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1629
غازی کو سامان جنگ دینا۔
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مجاہد کا سامان سفر تیار کیا حقیقت میں اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھر والے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہاد کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٦٢٨) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1631
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مجاہد کا سامان سفر تیار کیا حقیقت میں اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھر والے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہاد کیا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
فضیلت، جس کے قدم اللہ کے راستے میں غبارآلود ہوں۔
یزید بن ابی مریم کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے عبایہ بن رفاعہ بن رافع ملے، انہوں نے کہا : خوش ہوجاؤ، تمہارے یہ قدم اللہ کے راستے میں ہیں، میں نے ابوعبس (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوں، انہیں جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - ابوعبس کا نام عبدالرحمٰن بن جبر ہے، ٣ - اس باب میں ابوبکر اور ایک دوسرے صحابی سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٨ (٩٠٧) ، والجہاد ١٦ (٢٨١١) ، سنن النسائی/الجہاد ٩ (٣١١٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٢) ، و مسند احمد (٣/٤٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1183) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1632
جہاد کے غبار کی فضلیت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے ڈر سے رونے والا جہنم میں داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ دودھ تھن میں واپس لوٹ جائے، (اور یہ محال ہے) اور جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد (٣١٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٩ (٢٧٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٣) ، و مسند احمد (٢/٥٠٥) ، ویأتي في الزہد برقم ٢٣١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس طرح دنیا و آخرت ایک دوسرے کی ضد ہیں کہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ، اسی طرح راہ جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3828) ، التعليق الرغيب (2 / 166) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1633
جو شخص جہاد کرتے ہوئے بوڑھا ہوجائے۔
سالم بن ابی جعد سے روایت ہے، شرحبیل بن سمط نے کہا : کعب بن مرہ (رض) ! ہم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کیجئے اور کمی زیادتی سے محتاط رہئیے، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو اسلام میں بوڑھا ہوجائے، تو قیامت کے دن یہ اس کے لیے نور بن کر آئے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس باب میں فضالہ بن عبید اور عبداللہ بن عمرو سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢ - کعب بن مرہ (رض) کی حدیث کو اعمش نے اسی طرح عمرو بن مرہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث منصور سے بھی آئی ہے، انہوں نے سالم بن ابی جعد سے روایت کی ہے، انہوں نے سالم اور کعب بن مرہ کے درمیان سند میں ایک آدمی کو داخل کیا ہے، ٣ - کعب بن مرہ کو کبھی کعب بن بن مرہ اور مرہ بن کعب بہزی بھی کہا گیا ہے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد ٢٦ (٣١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٤) ، و مسند احمد (٤/٢٣٥-٢٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1244) ، المشکاة (4459 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1634
جو شخص جہاد کرتے ہوئے بوڑھا ہوجائے۔
عمرو بن عبسہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہوجائے قیامت کے دن اس کے لیے ایک نور ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 171) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1635
جہاد کی نیت سے گھوڑا رکھنے کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر بندھی ہوئی ہے، گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں : ایک گھوڑا وہ ہے جو آدمی کے لیے باعث اجر ہے، ایک وہ گھوڑا ہے جو آدمی کی (عزت و وقار) کے لیے پردہ پوشی کا باعث ہے، اور ایک گھوڑا وہ ہے جو آدمی کے لیے باعث گناہ ہے، وہ آدمی جس کے لیے گھوڑا باعث اجر ہے وہ ایسا شخص ہے جو اس کو جہاد کے لیے رکھتا ہے، اور اسی کے لیے تیار کرتا ہے، یہ گھوڑا اس شخص کے لیے باعث اجر ہے، اس کے پیٹ میں جو چیز (خوراک) بھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر و ثواب لکھ دیتا ہے ، اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - مالک بن انس نے بطریق : «زيد بن أسلم عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ١٢ (٢٣٧١) ، والجہاد ٤٨ (٢٨٦٠) ، والمناقب ٢٨ (٣٦٤٦) ، وتفسیر الزلزلة ١ (٤٩٦٣) ، والاعتصام ٢٤ (٧٣٥٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٦ (٩٨٧) ، سنن النسائی/الخیل ١ (٣٥٩٢، ٣٥٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٤ (٢٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٢١) ، و مسند احمد (٢/٢٦٢، ٢٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1636
اللہ کے راستے میں تیر اندازی کی فضیلت کے بارے میں۔
عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابی الحسین (رح) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا : تیر بنانے والے کو جو بناتے وقت ثواب کی نیت رکھتا ہو، تیر انداز کو اور تیر دینے والے کو ، آپ نے فرمایا : تیر اندازی کرو اور سواری سیکھو، تمہارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، ہر وہ چیز جس سے مسلمان کھیلتا ہے باطل ہے سوائے کمان سے اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑے کو تربیت دینا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں چیزیں اس کے لیے درست ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٩١٤) (ضعیف) (اس کی سند میں دو راوی تبع تابعی اور تابعی ساقط ہیں، لیکن ” كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ أَهْلَهُ “ والا ٹکڑا اگلی سند سے تقویت پا کر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2811) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (618) ، وفي صحيح ابن ماجة برقم (2267) ، ضعيف أبي داود (540 / 2513) ، الصحيحة (315) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1637
اللہ کے راستے میں تیر اندازی کی فضیلت کے بارے میں۔
ابونجیح عمرو بن عبسہ سلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے اللہ کی راہ میں ایک تیر مارا، وہ (ثواب میں) ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - ابونجیح کا نام عمرو بن عبسہ سلمی ہے، ٣ - عبداللہ بن ازرق سے مراد عبداللہ بن زید ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العتق ١٤ (٣٩٦٥) ، سنن النسائی/الجہاد ٢٦ (٣١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٨) ، و مسند احمد (٤/١٣، ٣٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2812) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1638
جہاد میں پہرہ دینے کی فضیلت۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی : ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عباس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شعیب بن رزیق ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں عثمان اور ابوریحانہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٩٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3829) ، التعليق الرغيب (2 / 153) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1639
جہاد میں پہرہ دینے کی فضیلت۔
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : سوائے قرض کے ، نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمایا : سوائے قرض کے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اس حدیث کو ابی بکر کی روایت سے صرف اسی شیخ (یعنی یحییٰ بن طلحہ) کے واسطے سے جانتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا : میرا خیال ہے یحییٰ بن طلحہ نے حمید کی حدیث بیان کرنا چاہی جس کو انہوں نے انس سے، انس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : شہید کے علاوہ کوئی ایسا جنتی نہیں ہے جو دنیا کی طرف لوٹنا چاہے ، ٣ - اس باب میں کعب بن عجرہ، جابر، ابوہریرہ اور ابوقتادہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨١٨) (صحیح) (عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث (عند مسلم) سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں کلام ہے جس کی صراحت مؤلف نے کر سنن الدارمی/ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1196) ، غاية المرام (351) ، تخريج مشكلة الفقر (67) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1640
جہاد میں پہرہ دینے کی فضیلت۔
کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہداء کی روحیں (جنت میں) سبز پرندوں کی شکل میں ہیں، جو جنت کے پھلوں یا درختوں سے کھاتی چرتی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ١١٧ (٢٠٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤ ( (١٤٤٩) ، والزہد ٣٢ (٤٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٤٨) ، وط/الجنائز ١٦ (٤٩) ، و مسند احمد (٣/٤٥٥، ٤٥٦، ٤٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4271) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1641
جہاد میں پہرہ دینے کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اوپر ان تین اشخاص کو پیش کیا گیا جو جنت میں سب سے پہلے جائیں گے : ایک شہید، دوسرا حرام سے دور رہنے والا اور نامناسب امور سے بچنے والا، تیسرا وہ غلام جو اچھی طرح اللہ کی عبادت بجا لائے اور اپنے مالکان کے لیے خیر چاہے یا ان کے حقوق بجا لائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي) وانظر : مسند احمد (٢/٤٢٥) (ضعیف) (سند میں عامر العقیلی مجہول ہیں اور ان کے والد عقبہ العقیلی مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کے وقت، اور یہاں کوئی متابع نہیں ہے، نیز یحییٰ بن ابی کثیر مدلس اور ارسال کرنے والے راوی ہیں، اور یہاں پر ان کی روایت عنعنہ سے ہے، اور ان سے روایت کرنے والے علی بن المبارک الہنائی کی یحییٰ بن ابی کثیر سے دو کتابیں تھیں ایک کتاب کا انہیں سماع حاصل تھا، اور دوسری روایت مرسل اور کوفی رواة جب علی بن المبارک سے روایت کرتے ہیں تو ان میں بعض ضعف ہوتا ہے، اور یہاں پر علی بن المبارک کے شاگرد عثمان بن عمر بصری راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 268) ، // ضعيف الجامع الصغير (3702) ، المشکاة (3832) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1642
جہاد میں پہرہ دینے کی فضیلت۔
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مرنے والا کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کے لیے اللہ کے پاس ثواب ہو اور وہ دنیا کی طرف دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس کی خاطر لوٹنا چاہتا ہو۔ سوائے شہید کے، اس لیے کہ وہ شہادت کا مقام و مرتبہ دیکھ چکا ہے، چناچہ وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور دوبارہ شہید ہو (کر آئے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٦ (٢٧٩٥) ، و ٢١ (٢٨١٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٩ (١٨٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨) ، و مسند احمد (٣/١٠٣، ١٣٦، ١٥٣، ١٧٣، ٢٥١، ٢٧٦، ٢٧٨، ٢٨٤، ٢٨٩) ویأتي برقم ١٦٦١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1643
اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہداء کی فضلیت
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : شہید چار طرح کے ہیں : پہلا وہ اچھے ایمان والا مومن جو دشمن سے مقابلہ اور اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھائے یہاں تک کہ شہید ہوجائے، یہی وہ شخص ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ اس طرح آنکھیں اٹھا کر دیکھیں گے اور (راوی فضالہ بن عبید نے اس کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے کہا) اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ ٹوپی (سر سے) گرگئی ، راوی ابویزید خولانی کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم فضالہ نے عمر (رض) کی ٹوپی مراد لی یا نبی اکرم ﷺ کی، آپ نے فرمایا : دوسرا وہ اچھے ایمان والا مومن جو دشمن کا مقابلہ اس طرح کرے تو ان بزدلی کی وجہ سے اس کی جلد (کھال) «طلح» (ایک بڑا خاردار درخت) کے کاٹے سے زخمی ہوگئی ہو، پیچھے سے (ایک انجان) تیر آ کر اسے لگے اور مار ڈالے، یہ دوسرے درجہ میں ہے، تیسرا وہ مومن جو نیک عمل کے ساتھ برا عمل بھی کرے، جب دشمن سے مقابلہ کرے تو اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھائے (یعنی بہادری سے لڑتا رہے) یہاں تک کہ شہید ہوجائے، یہ تیسرے درجہ میں ہے، چوتھا وہ مومن شخص جو اپنے نفس پر ظلم کرے (یعنی کثرت گناہ کی وجہ سے، اور بہادری سے لڑتا رہے) یہاں تک کہ شہید ہوجائے، یہ چوتھے درجہ میں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عطاء بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : یہ حدیث سعید بن ابی ایوب نے عطاء بن دینار سے روایت کی ہے اور انہوں نے خولان کے مشائخ سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابویزید کا ذکر نہیں کیا، اور عطاء بن دینار نے کہا : (کہ اس حدیث میں) کچھ حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٦٢٣) (ضعیف) (سند میں ” ابویزید الخولانی “ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3858 / التحقيق الثاني) ، الضعيفة (2004) // ضعيف الجامع الصغير (3446) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1644
سمندر کے راستے جہاد کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام حرام بنت ملحان کے گھر جب بھی جاتے، وہ آپ کو کھانا کھلاتیں، ام حرام (رض) عبادہ بن صامت (رض) کے عقد میں تھیں، ایک دن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں، آپ سو گئے، پھر آپ ﷺ بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، ام حرام (رض) کہتی ہیں : میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کو کیا چیز ہنسا رہی ہے ؟ آپ نے (جواب میں) فرمایا : میرے سامنے میری امت کے کچھ مجاہدین پیش کئے گئے، وہ اس سمندر کے سینہ پر سوار تھے، تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ لگتے تھے ۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے «ملوک علی الأسرة» کہا، یا «مثل الملوک علی الأسرة» میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے، چناچہ آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی، آپ پھر اپنا سر رکھ کر سو گئے، پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو کیا چیز ہنسا رہی ہے ؟ فرمایا : میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے پیش کئے گئے ، آپ نے اسی طرح فرمایا جیسے اس سے پہلے فرمایا تھا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ مجھے ان لوگوں میں کر دے، آپ نے فرمایا : تم (سمندر میں) پہلے (جہاد کرنے) والے لوگوں میں سے ہو ۔ انس (رض) کہتے ہیں : معاویہ بن ابی سفیان (رض) کے زمانہ میں ام حرام (رض) سمندری سفر پر (ایک جہاد میں) نکلیں تو وہ سمندر سے نکلتے وقت اپنی سواری سے گرگئیں اور ہلاک ہوگئیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ام حرام بنت ملحان، ام سلیم کی بہن اور انس بن مالک کی خالہ ہیں، (اور نبی اکرم ﷺ کے ننہال میں سے قریبی رشتہ دار تھیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣ (٢٧٨٨) ، و ٨ (٢٧٩٩) ، و ٦٣ (٢٨٧٧) ، و ٧٥ (٢٨٩٤) ، والاستئذان ٤١ (٦٦٢٨٢) ، والتعبیر ١٢ (٧٠٠١) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٩ (٢٩١٢) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٠ (٢٤٩٠) ، سنن النسائی/الجہاد ٤٠ (٣١٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٠ (٢٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩٩) و موطا امام مالک/الجہاد ١٨ (٣٩) ، و مسند احمد (٣/٢٦٤) ، و انظر أیضا : ٦/٣٦١، ٤٢٣، ٤٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2776) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1645
جو ریاکاری یا دنیا کیلئے جہاد کرے
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : ایک آدمی اظہار شجاعت (بہادری) کے لیے لڑتا ہے، دوسرا حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے، تیسرا ریاکاری کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جو شخص اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے جہاد کرے، وہ اللہ کے راستے میں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٥ (١٢٣) ، والجہاد ١٥ (٢٨١٠) ، والخمس ١٠ (٣١٢٦) ، والتوحید ٢٨ (٤٧٢٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٢ (١٩٠٤) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٢٦ (٢٥١٧) ، سنن النسائی/الجہاد ٣١ (٣١٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٣ (٢٧٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٩) ، و مسند احمد (٤/٣٩٢، ٣٩٧، ٤٠٢، ٤٠٥، ٤١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2783) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1646
جو ریاکاری یا دنیا کیلئے جہاد کرے
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چناچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اسی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے مانی جائے گی اور جس نے حصول دنیا یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کی ہوگی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - مالک بن انس، سفیان ثوری اور کئی ائمہ حدیث نے اسے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن سعید انصاری ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں : ہمیں اس حدیث کو ہر باب میں رکھنا چاہیئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ١ (١) ، والإیمان ٤١ (٤٥) ، والعتق ٦ (٢٥٢٩) ، ومناقب الأنصار ٤٥ (٣٨٩٨) ، والنکاح ٥ (٥٠٧٠) ، والنذور ٢٣ (٦٦٨٩) ، والحیل ١ (٦٩٥٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٥ (٩٠٧) ، سنن ابی داود/ الطلاق ١١ (٢٢٠١) ، سنن النسائی/الطہارة ٦٠ (٧٥) ، والطلاق ٢٤ (٣٤٦٧) ، والأیمان والنذور ١٨ (٣٨٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢١ (٤٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٢) ، و مسند احمد (١/٢٥، ٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4227) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1647
جہاد میں صبح و شام چلنے کی فضیلت
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راہ جہاد کی ایک صبح دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے اور جنت کی ایک کوڑے ١ ؎ کی جگہ دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس، ابوایوب اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥ (٢٧٩٤) ، و ٧٣ (٢٨٩٢) ، وبدء الخلق ٨ (٣٢٥) ، والرقاق ٢ (٦٤١٥) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٠ (١٨٨١) ، سنن النسائی/الجہاد ١١ (٣١٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢ (٢٧٥٦) ، والزہد ٣٩ (٤٣٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٣٤) ، و مسند احمد (٣/٤٣٣) ، و (٥/٣٣٠، ٣٣٧، ٣٣٩) ، سنن الدارمی/الجہاد ٩ (٢٤٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کوڑے کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ، کیونکہ شہسوار کی عادت میں سے ہے کہ سواری سے اتر نے سے پہلے زمین پر کوڑا پھینک کر اپنے لیے جگہ خاص کرلیتا ہے ، گویا اس سے وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ جگہ اب میرے لیے خاص ہوگئی ہے ، کوئی دوسرا اس کی جانب سبقت نہ لے جائے۔ اور دوسرے یہاں کوڑے جتنی مقدار ومسافت بتلا کر جنت کی فضیلت اور اس کی قیمت بتلانا مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2756) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1648
جہاد میں صبح و شام چلنے کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) اور عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہاد کی ایک صبح یا ایک شام دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - جس ابوحازم نے سہل بن سعد سے روایت کی ہے وہ ابوحازم زاہد ہیں، مدینہ کے رہنے والے ہیں اور ان کا نام سلمہ بن دینار ہے، اور یہ ابوحازم جنہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے یہ ابوحازم اشجعی ہیں، کوفہ کے رہنے والے ان کا نام سلمان ہے اور یہ عزۃ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٦٤٧٤) ، وانظر : مسند احمد (١/٢٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (5 / 3 و 4) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1649
جہاد میں صبح و شام چلنے کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے ایک آدمی کسی پہاڑی کی گھاٹی سے گزرا جس میں میٹھے پانی کا ایک چھوٹا سا چشمہ تھا، وہ جگہ اور چشمہ اپنی لطافت کی وجہ سے اسے بہت پسند آیا، اس نے کہا (سوچا) : کاش میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اس گھاٹی میں قیام پذیر ہوجاتا، لیکن میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کرلوں اس نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا : ایسا نہ کرو، اس لیے کہ تم میں سے کسی کا اللہ کے راستے میں کھڑا رہنا اپنے گھر میں ستر سال نماز پڑھتے رہنے سے بہتر ہے، کیا تم لوگ نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تم کو جنت میں داخل کر دے ؟ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جس نے اللہ کی راہ میں دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیان کے وقفہ کے برابر جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٩) ، وانظر : مسند احمد (٢/٤٤٢، ٥٢٤) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 174) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1650
جہاد میں صبح و شام چلنے کی فضیلت
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راہ جہاد کی ایک صبح یا ایک شام ساری دنیا سے بہتر ہے، اور تم میں سے کسی کی کمان یا ہاتھ کے برابر جنت کی جگہ دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ١ ؎، اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف نکل آئے تو زمین و آسمان کے درمیان کی ساری چیزیں روشن ہوجائیں اور خوشبو سے بھر جائیں اور اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥ (٢٧٩٢) ، و ٦ (٢٧٩٦) ، والرقاق ٥١ (٦٥٥٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٠ (١٧٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢ (٢٧٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٧) ، و مسند احمد (٣/١٢٢، ١٤١، ١٥٣، ١٥٧، ٢٠٧، ٢٦٣، ٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر کسی کو دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں حاصل ہوجائیں ، پھر وہ انہیں اطاعت الٰہی میں رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے خرچ کر دے ، اس خرچ کے نتیجہ میں اسے جو ثواب حاصل ہوگا اس سے مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب کہیں زیادہ بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2757) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1651
بہترین لوگ کون ہیں
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو سب سے بہتر آدمی کے بارے میں نہ بتادوں ؟ یہ وہ آدمی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے رہے، کیا میں تم لوگوں کو اس آدمی کے بارے میں نہ بتادوں جو مرتبہ میں اس کے بعد ہے ؟ یہ وہ آدمی ہے جو لوگوں سے الگ ہو کر اپنی بکریوں کے درمیان رہ کر اللہ کا حق ادا کرتا رہے، کیا میں تم کو بدترین آدمی کے بارے میں نہ بتادوں ؟ یہ وہ آدمی ہے جس سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جائے اور وہ نہ دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس (رض) کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٧٤ (٢٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٠) ، و مسند احمد (١/٢٣٧، ٣١٩، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/الجہاد ٦ (٢٤٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (255) ، التعليق الرغيب (2 / 173) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1652
شہادت کی دعا مانگنا
معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص سچے دل سے اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا ثواب دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٤٢ (٢٥٤١) ، سنن النسائی/الجہاد ٢٥ (٢١٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٥ (٣٧٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٥٩) ، و مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٧٥، ٢٤٤) ، سنن الدارمی/الجہاد ٥ (٢٤٣٩) ، ویأتي برقم ١٦٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2792) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1654
شہادت کی دعا مانگنا
سہل بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص سچے دل سے شہادت کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے مرتبے تک پہنچا دے گا اگرچہ وہ اپنے بستر ہی پر کیوں نہ مرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - سہل بن حنیف کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن شریح کی ہی روایت سے جانتے ہیں، اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن شریح سے عبداللہ بن صالح نے بھی روایت کیا ہے، عبدالرحمٰن بن شریح کی کنیت ابوشریح ہے اور وہ اسکندرانی (اسکندریہ کے رہنے والے) ہیں، ٢ - اس باب میں معاذ بن جبل (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٦ (١٩٠٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥٢٠) ، سنن النسائی/الجہاد ٣٦ (٣١٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٥ (٢٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٥) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٦ (٢٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر وہ شہید ہو کر نہ مرے تو بھی وہ شہداء کے حکم میں ہوگا اور شہیدوں کا ثواب اسے حاصل ہوگا گویا شہادت کے لیے صدق دلی سے دعا کرنے کی وجہ سے اسے یہ مرتبہ حاصل ہوا۔ اللہ کی راہ میں شہادت کی دعا اہل ایمان کو کرتے ہی رہنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2797) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1653
مجاہد، مکاتب اور نکاح کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین آدمیوں کی مدد اللہ کے نزدیک ثابت ہے ١ ؎ ایک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، دوسرا وہ مکاتب غلام جو زر کتابت ادا کرنا چاہتا ہو، اور تیسرا وہ شادی کرنے والا جو پاکدامنی حاصل کرنا چاہتا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد ١٢ (٣١٢٢) ، والنکاح ٥ (٣٢٢٠) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٣ (٢٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ تعالیٰ نے ان تینوں مدد کا وعدہ کر رکھا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2518) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1655
مجاہد، مکاتب اور نکاح کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت
معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان اللہ کی راہ میں اونٹنی کے دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیانی وقفہ کے برابر جہاد کرے اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور جس شخص کو اللہ کی راہ میں کوئی زخم لگے یا چوٹ آئے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا زخم دنیا کے زخم سے کہیں بڑا ہوگا، رنگ اس کا زعفران کا ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٦٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2792) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1657
جہاد میں زخمی ہونے کی فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جو بھی زخمی ہوگا - اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ١ ؎- قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خون کے رنگ میں رنگا ہوا ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠ (٢٨٠٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، سنن النسائی/الجہاد ٢٧ (٣١٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٥ (٢٧٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٢٠) ، و مسند احمد (٢/٢٤٢، ٣٩٨، ٤٠٠، ٥١٢، ٥٣١، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٥ (٢٤٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی راہ جہاد میں زخمی ہونے والا کس نیت سے جہاد میں شریک ہوا تھا ، اللہ کو اس کا بخوبی علم ہے کیونکہ اللہ کے کلمہ کی بلندی کے سوا اگر وہ کسی اور نیت سے شریک جہاد ہوا ہے تو وہ اس حدیث میں مذکور ثواب سے محروم رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2795) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1656
کون سا عمل افضل ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا عمل افضل ہے، یا کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ، پوچھا گیا : پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : جہاد، وہ نیکی کا کوہان ہے ۔ پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : حج مبرور (مقبول) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٠٦٠) (حسن صحیح) (وراجع : صحیح البخاری/الإیمان ١٨ (٢٦) ، والحج ٤ (١٥١٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٦ (٨٣) ، سنن النسائی/الحج ٤ (٢٦٢٥) ، والجھاد ١٧ (٣١٣٢) ، و مسند احمد (٢/٢٨٧ ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1658
کون سا عمل افضل ہے
ابوبکر بن ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں نے دشمنوں کی موجودگی میں اپنے باپ کو کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک جنت کے دروازے تلواروں کی چھاؤں میں ہیں ١ ؎، قوم میں سے ایک پراگندہ ہیئت والے شخص نے پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، چناچہ وہ آدمی لوٹ کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور بولا : میں تم سب کو سلام کرتا ہوں، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑ دیا اور اس سے لڑائی کرتا رہا یہاں تک کہ وہ شہید ہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان ضبعی کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤١ (١٩٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩١٣٩) ، و مسند احمد (٤/٣٩٦، ٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جہاد اور اس میں شریک ہونا جنت کی راہ پر چلنے اور اس میں داخل ہونے کا سبب ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (5 / 7) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1659
کون سا آدمی افضل ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون آدمی افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے ، صحابہ نے پوچھا : پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : پھر وہ مومن جو کسی گھاٹی میں اکیلا ہو اور اپنے رب سے ڈرے اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٢ (٢٧٨٦) ، والرقاق ٣٤ (٦٤٩٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٤ (١٨٨٨) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٥ (٢٤٨٥) ، سنن النسائی/الجہاد ٧ (٣١٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٣ (٣٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥١) ، و مسند احمد (٣/١٦، ٣٧، ٥٦، ٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے قطعاً یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اس حدیث میں رہبانیت کی دلیل ہے ، کیونکہ بعض احادیث میں «ويؤتی الزکاة» کی بھی صراحت ہے ، اور رہبانیت کی زندگی گزارنے والا جب مال کمائے گا ہی نہیں تو زکاۃ کہاں سے ادا کرے گا ، علما کا کہنا ہے کہ گھاٹیوں میں جانے کا وقت وہ ہوگا جب دنیا فتنوں سے بھر جائے گی اور وہ دور شاید بہت قریب ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 173) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1660
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہید کے علاوہ کوئی جنتی ایسا نہیں ہے جو دنیا کی طرف لوٹنا چاہتا ہو وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہتا ہے، کہتا ہے : (دل چاہتا ہے کہ) اللہ کی راہ میں دس مرتبہ قتل کیا جاؤں، یہ اس وجہ سے کہ وہ اس مقام کو دیکھ چکا ہے جس سے اللہ نے اس کو نوازا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٦٤٣ (تحفة الأشراف : ١٣٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1661
اس سند سے بھی انس (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٦٤٣ (تحفة الأشراف : ١٢٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1662
مقدام بن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک شہید کے لیے چھ انعامات ہیں، ( ١ ) خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے، ( ٢ ) وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے، ( ٣ ) عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے، ( ٤ ) «فزع الأكبر» (عظیم گھبراہٹ والے دن) سے مامون رہے گا، ( ٥ ) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے، ( ٦ ) بہتر ( ٧٢ ) جنتی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی، اور اس کے ستر رشتہ داروں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٦ (٢٧٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٥٦) ، و مسند احمد (٤/١٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ چھ خصلتیں ایسی ہیں کہ شہید کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں ہوں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح أحكام الجنائز (35 - 36) ، التعليق الرغيب (2 / 194) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1663
سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں سرحد کی ایک دن کی پاسبانی کرنا دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے، تم میں سے کسی کے کوڑے کے برابر جنت کی جگہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے اور بندے کا اللہ کی راہ میں صبح یا شام کے وقت چلنا دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٦٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1664
محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ سلمان فارسی (رض) شرحبیل بن سمط کے پاس سے گزرے، وہ اپنے «مرابط» (سرحد پر پاسبانی کی جگہ) میں تھے، ان پر اور ان کے ساتھیوں پر وہاں رہنا گراں گزر رہا تھا، سلمان فارسی (رض) نے کہا : ابن سمط ؟ کیا میں تم سے وہ حدیث بیان نہ کروں جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، سلمان (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ کی راہ میں ایک دن کی پاسبانی ایک ماہ روزہ رکھنے اور تہجد پڑھنے سے افضل ہے، آپ نے «أفضل» کی بجائے کبھی «خير» (بہتر ہے) کا لفظ کہا : اور جو شخص اس حالت میں وفات پا گیا، وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا اور قیامت تک اس کا عمل بڑھایا جائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٠ (١٩١٣) ، سنن النسائی/الجہاد ٣٩ (٣١٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٠) ، و مسند احمد (٥/٤٤٠، ٤٤١) (صحیح) (مؤلف کی سند میں محمد بن المنکدر اور سلمان فارسی (رض) کے درمیان انقطاع ہے، مگر مسلم اور نسائی کی سند جو بطریق شرحبیل بن سمط ہے متصل ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مرنے سے اس کے ثواب کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا ، بلکہ تاقیامت جاری رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1200) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1665
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص جہاد کے کسی اثر کے بغیر اللہ تعالیٰ سے ملے ١ ؎ تو وہ اس حال میں اللہ سے ملے گا کہ اس کے اندر خلل (نقص و عیب) ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ولید بن مسلم کے واسطے سے اسماعیل بن رافع کی روایت سے ضعیف ہے، بعض محدثین نے اسماعیل بن رافع کی تضعیف کی ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : اسماعیل ثقہ ہیں، مقارب الحدیث ہیں، ٢ - یہ حدیث دوسری سند سے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے، ٣ - سلمان کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن منکدر نے سلمان کو نہیں پایا ہے، یہ حدیث «عن أيوب بن موسیٰ عن مکحول عن شرحبيل بن السمط عن سلمان عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ٥ (٢٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٤) (ضعیف) (اس کے راوی اسماعیل بن رافع کا حافظہ کمزور تھا ) وضاحت : ١ ؎ : جہاد کی نشانیاں مثلاً زخم ، اس کی راہ کا گرد و غبار ، تھکان ، جہاد کے لیے مال و اسباب کی فراہمی اور مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنا ، ان میں سے اس شخص کے ساتھ اگر کوئی چیز نہیں ہے تو رب العالمین سے اس کی ملاقات کامل نہیں سمجھی جائے گی ، بلکہ اس میں نقص و عیب ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2763) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (605) ، المشکاة (3835) ، ضعيف الجامع الصغير (5833) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1666
ابوصالح مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ میں نے منبر پر عثمان (رض) کو کہتے سنا : میں نے تم لوگوں سے ایک حدیث چھپالی تھی جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اس ڈر کی وجہ سے کہ تم مجھ سے جدا ہوجاؤ گے ١ ؎ پھر میری سمجھ میں آیا کہ میں تم لوگوں سے اسے بیان کر دوں تاکہ ہر آدمی اپنے لیے وہی چیز اختیار کرے جو اس کی سمجھ میں آئے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی پاسبانی کرنا دوسری جگہوں کے ایک ہزار دن کی پاسبانی سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد ٣٩ (٣١٧١) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٤٤) ، و مسند احمد (١/٦٢، ٦٥، ٦٦، ٧٥) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٢ (٢٤٦٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس حدیث میں جہاد سے متعلق جو فضیلت آئی ہے اسے سن کر تم لوگ سرحدوں کی پاسبانی اور اس کی حفاظت کی خاطر ہم سے جدا ہوجاؤ گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 152 / التحقيق الثانی) ، التعليق علی الأحاديث المختارة (305 - 310) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1667
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہید کو قتل سے صرف اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تکلیف تم میں سے کسی کو چٹکی لینے سے ہوتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد ٣٥ (٣١٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٦ (٢٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦١) ، و مسند احمد (٢/٢٩٧) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2802) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1668
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو دو قطروں اور دو نشانیوں سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے : آنسو کا ایک قطرہ جو اللہ کے خوف کی وجہ سے نکلے اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں بہے، دو نشانیوں میں سے ایک نشانی وہ ہے جو اللہ کی راہ میں لگے اور دوسری نشانی وہ ہے جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضہ کی ادائیگی کی حالت میں لگے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩٠٦) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (3837) ، التعليق الرغيب (2 / 180) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1669
اہل عذر کو جہاد میں عدم شرکت کی اجازت
براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس «شانہ» (کی ہڈی) یا تختی لاؤ، پھر آپ نے لکھوایا ١ ؎: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» یعنی جہاد سے بیٹھے رہنے والے مومن (مجاہدین کے) برابر نہیں ہوسکتے ہیں نابینا صحابی ، عمرو ابن ام مکتوم (رض) آپ کے پیچھے تھے، انہوں نے پوچھا : کیا میرے لیے اجازت ہے ؟ چناچہ (آیت کا) یہ ٹکڑا نازل ہوا : «غير أول الضرر» ، (معذورین کے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث بروایت «سليمان التيمي عن أبي إسحق» غریب ہے، اس حدیث کو شعبہ اور ثوری نے بھی ابواسحاق سے روایت کیا ہے، ٣ - اس باب میں ابن عباس، جابر اور زید بن ثابت (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣١ (٢٨٣١) ، وتفسیر سورة النساء ١٨ (٤٥٩٣) ، وفضائل القرآن ٤ (٤٩٩٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٠ (١٨٩٨) ، سنن النسائی/الجہاد ٤ (٣١٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٥٩) ، و مسند احمد (٤/٢٨٣، ٢٩٠، ٣٣٠) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢٨ (٢٤٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تختیوں اور ذبح شدہ جانوروں کی ہڈیوں پر گرانی آیات و سورة کا لکھنا جائز ہے اور مذبوح جانوروں کی ہڈیوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1670
جو والدین کو چھوڑ کر جہاد میں جائے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا : کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٣٨ (٣٠٠٤) ، والأدب ٣ (٥٩٧٢) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١ (٢٥٤٩) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٣٣ (٢٥٢٩) ، سنن النسائی/الجہاد ٥ (٣١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٤) ، و مسند احمد (٢/١٦٥، ١٧٢، ١٨٨، ١٩٣، ١٩٧، ٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ماں باپ کی پوری پوری خدمت کرو ، کیونکہ وہ تمہاری خدمت کے محتاج ہیں ، اسی سے تمہیں جہاد کا ثواب حاصل ہوگا ، بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر رضاکارانہ طور پر جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے ، لیکن اگر حالات و ظروف کے لحاظ سے جہاد فرض عین ہے تو ایسی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں ، بلکہ روکنے کے باوجود وہ جہاد میں شریک ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2782) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1671
ایک شخص کو بطور لشکر بھیجنا
ابن عباس (رض) آیت کریمہ : «أطيعوا اللہ وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منکم» کی تفسیر میں کہتے ہیں : عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی سہمی کو رسول اللہ ﷺ نے (اکیلا) سریہ بنا کر بھیجا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النساء ١١ (٤٥٨٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٤) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٩٦ (٢٦٢٤) ، سنن النسائی/البیعة ٢٨ (٤٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں «أولو الأمر» کے سلسلہ میں کئی اقوال ہیں ، مفسرین اور فقہاء کے نزدیک اس سے مراد وہ «ولا ۃ و أمراء» ہیں جن کی اطاعت واجب کی ہے ، بعض لوگ اس سے علماء کو مراد لیتے ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ علما اور امرا دونوں مراد ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2359) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1672
اکیلے سفر کرنے کی کراہت کے بارے میں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر لوگ تنہائی کا وہ نقصان جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو کوئی سوار رات میں تنہا نہ چلے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٣ (٢٩٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٥ (٣٧٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر حالات ایسے ہیں کہ راستے غیر مامون ہیں ، جان و مال کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں بلا ضرورت تنہا سفر کرنا ممنوع ہے ، اور اگر کوئی مجبوری درپیش ہے تو کوئی حرج نہیں ، نبی اکرم ﷺ نے بعض صحابہ کو بوقت ضرورت تنہا سفر پر بھیجا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3768) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1673
اکیلے سفر کرنے کی کراہت کے بارے میں
عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اکیلا سوار شیطان ہے، دو سوار بھی شیطان ہیں اور تین سوار قافلہ والے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٨٦ (٢٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٠) ، وط/الاستئذان ١٤ (٣٥) ، و مسند احمد (٢/١٨٦، ٢١٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اکیلا یا دو آدمیوں کا سفر کرنا صحیح نہیں ہے ، تنہا ہونے میں کسی حادثہ کے وقت کوئی اس کا معاون و مددگار نہیں رہے گا ، اسی طرح دو ہونے کی صورت میں ایک کو کسی ضرورت کے لیے جانا پڑا تو ایسی صورت میں پھر دونوں تنہا ہوجائیں گے ، اور اگر ایک دوسرے کو وصیت کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی گواہ نہیں ہوگا جب کہ دو گواہ کی ضرورت پڑے گی۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (64) ، المشکاة (3910) ، صحيح أبي داود (2346) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1674
جنگ میں جھوٹ اور فریب کی اجازت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لڑائی دھوکہ و فریب کا نام ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، زید بن ثابت، عائشہ ابن عباس، اسماء بنت یزید بن سکن، کعب بن مالک اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٥٧ (٣٠٣٠) ، صحیح مسلم/الجہاد ٥ (١٧٤٠) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٠١ (٢٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جنگ ان تین مقامات میں سے ایک ہے جہاں جھوٹ ، دھوکہ اور فریب کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ لڑائی کے ایام میں جہاں تک ممکن ہو کفار کو دھوکہ دینا جائز ہے ، لیکن یہ ان سے کیے گئے کسی عہد و پیمان کے توڑنے کا سبب نہ بنے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2833 و 2834 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1675
عزوات نبوی کی تعداد۔
ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں زید بن ارقم (رض) کے بغل میں تھا کہ ان سے پوچھا گیا : نبی اکرم ﷺ نے کتنے غزوات کیے ؟ کہا : انیس ١ ؎، میں نے پوچھا : آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کتنے غزوات میں شریک رہے ؟ کہا : سترہ میں، میں نے پوچھا : کون سا غزوہ پہلے ہوا تھا ؟ کہا : ذات العشیر یا ذات العشیرہ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١ (٣٩٤٩) ، و ٧٧ (٤٤٠٤) ، و ٨٩ (٤٤٧١) ، صحیح مسلم/الحج ٣٥ (١٢٥٤) ، والجہاد ٤٩ (١٢٥٤/١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد وہ غزوات ہیں جن میں نبی اکرم ﷺ خود شریک رہے ، خواہ قتال کیا ہو یا نہ کیا ہو ، صحیح مسلم میں جابر (رض) سے مروی ہے کہ غزوات کی تعداد اکیس ( ٢١ ) ہے ، ایسی صورت میں ممکن ہے زید بن ارقم نے دوکا تذکرہ جنہیں غزوہ ابوا اور غزوہ بواط کہا جاتا ہے اس لیے نہ کیا ہو کہ ان کا معاملہ ان دونوں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے ان سے مخفی رہ گیا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1676
جنگ میں صف بندی اور ترتیب
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مقام بدر میں رات کے وقت ہمیں مناسب جگہوں پر متعین کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس باب میں ابوایوب سے بھی روایت ہے، یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا : محمد بن اسحاق کا سماع عکرمہ سے ثابت ہے، اور جب میں نے بخاری سے ملاقات کی تھی تو وہ محمد بن حمید الرازی کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے، پھر بعد میں ان کو ضعیف قرار دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٧٢٤) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی محمد بن حمید رازی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمنوں سے مقابلہ آرائی سے پہلے مجاہدین کی صف بندی کرنا اور مناسب جگہوں پر انہیں متعین کرنا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1677
لڑائی کے وقت دعا کرنا
ابن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو (غزوہ احزاب میں) کفار کے لشکروں پر بد دعا کرتے ہوئے سنا، آپ نے ان الفاظ میں بد دعا کی «اللهم منزل الکتاب سريع الحساب اهزم الأحزاب اللهم اهزمهم وزلزلهم» کتاب نازل کرنے اور جلد حساب کرنے والے اللہ ! کفار کے لشکروں کو شکست سے دوچار کر، ان کو شکست دے اور ان کے قدم اکھاڑ دے ۔ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود (رض) سے بھی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٨ (٢٩٣٣) ، و ١١٢ (٢٩٦٥) ، و ١٥٦ (٣٠٢٥) ، والمغازي ٢٩ (٤١١٥) ، والدعوات ٥٨ (٦٣٩٢) ، والتوحید ٣٤ (٧٤٨٩) ، صحیح مسلم/الجہاد ٦ ٧٠ (١٧٤٢) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٩٨ (٢٦٣١) ، سنن النسائی/عمل الیوم و اللیلة (٦٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٥ (٢٧٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٥٤) ، و مسند احمد (٤/٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس ضمن میں اور بھی بہت ساری دعائیں احادیث کی کتب میں موجود ہیں ، بعض دعائیں امام نووی نے اپنی کتاب الأذکار میں جمع کردی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2365) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1678
لشکر کے چھوٹے جھنڈے
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا پرچم سفید تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن آدم کی روایت سے جانتے ہیں اور یحییٰ شریک سے روایت کرتے ہیں، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے کہا : یحییٰ بن آدم شریک سے روایت کرتے ہیں، اور کہا : ہم سے کئی لوگوں نے «شريك عن عمار عن أبي الزبير عن جابر» کی سند سے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور اس وقت آپ کے سر پر کالا عمامہ تھا، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : اور (محفوظ) حدیث یہی ہے، ٣ - «الدهن» قبیلہ بجیلہ کی ایک شاخ ہے، عمار دہنی معاویہ دہنی کے بیٹے ہیں، ان کی کنیت ابومعاویہ ہے، وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں اور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٧٦ (٢٥٩٢) ، سنن النسائی/الحج ١٠٦ (٢٨٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٠ (٢٨١٧) (تحفة الأشراف : ٢٨٨٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3817) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1679
بڑے جھنڈے
یونس بن عبید مولیٰ محمد بن قاسم کہتے ہیں کہ مجھ کو محمد بن قاسم نے براء بن عازب (رض) کے پاس رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے کے بارے میں سوال کرنے کے لیے بھیجا، براء نے کہا : آپ کا جھنڈا دھاری دار چوکور اور کالا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف ابن ابی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں علی، حارث بن حسان اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - ابویعقوب ثقفی کا نام اسحاق بن ابراہیم ہے، ان سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بھی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٧٦ (٢٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٢) (صحیح) (لیکن ” چوکور “ کا لفظ صحیح نہیں ہے، اس کے راوی ابو یعقوب الثقفی ضعیف ہیں اور اس لفظ میں ان کا متابع یا شاہد نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : بعض روایات سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے جھنڈے پر «لا إله إلا اللہ محمد رسول الله» لکھا ہوا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله مربعة ، صحيح أبي داود (2333) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1680
بڑے جھنڈے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا کالا اور پرچم سفید تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن عباس کی یہ روایت اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٠ (٢٨١٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٤٢) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2818) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1681
شعار
مہلب بن ابی صفرۃ ان لوگوں سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے : اگر رات میں تم پر دشمن حملہ کریں تو تم «حم لا ينصرون» کہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - بعض لوگوں نے اسی طرح ثوری کی روایت کے مثل ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے، اور ابواسحاق سے یہ حدیث بواسطہ «عن المهلب بن أبي صفرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» سے مرسل طریقہ سے بھی آئی ہے، ٢ - اس باب میں سلمہ بن الاکوع (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٧٨ (٢٥٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٧٩) ، و مسند احمد (٤/٢٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «شعار» اس مخصوص لفظ کو کہتے ہیں : جس کو لشکر والے خفیہ کوڈ کے طور پر آپس میں استعمال کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3948 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1682
رسول اللہ ﷺ کی تلوار
ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے اپنی تلوار سمرہ بن جندب (رض) کی تلوار کی طرح بنائی، اور سمرہ (رض) کا خیال تھا کہ انہوں نے اپنی تلوار رسول اللہ ﷺ کے تلوار کی طرح بنائی تھی اور آپ کی تلوار قبیلہ بنو حنیفہ کے طرز پر بنائی گئی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - یحییٰ بن سعید قطان نے عثمان بن سعد کاتب کے سلسلے میں کلام کیا ہے اور حافظہ میں انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٦٣٢) (ضعیف) (اس کے راوی عثمان بن سعد الکاتب ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف مختصر الشمائل المحمدية (88) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1683
جنگ کے وقت روزہ افطار کرنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال جب نبی اکرم ﷺ مرالظہران ١ ؎ پہنچے اور ہم کو دشمن سے مقابلہ کی خبر دی تو آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا، لہٰذا ہم سب لوگوں نے روزہ توڑ دیا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٤٢٨٤) (صحیح) وأخرجہ : صحیح مسلم/الصیام ١٦ (١١٢٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ٤٢ (٢٤٠٦) ، سنن النسائی/الصیام ٥٩ (٢٣١١ ) وضاحت : ١ ؎ : مکہ اور عسفان کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ ٢ ؎ : اگر مجاہدین ایسے مقام تک پہنچ چکے ہیں جس سے آگے دشمن سے ملاقات کا ڈر ہے تو ایسی صورت میں روزہ توڑ دینا بہتر ہے ، اور اگر یہ امر یقینی ہے کہ دشمن آگے مقابلہ کے لیے موجود ہے تو روزہ توڑ دینا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2081) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1684
گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہوگئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا : کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٣٣ (٢٦٢٧) ، والجہاد ٥٥ (٢٨٦٧) ، صحیح مسلم/الفضائل ١١ (٢٣٠٧/٤٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ٨٧ (٤٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بےانتہا تیز رفتار تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2772) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1685
گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ میں گھبراہٹ کا ماحول تھا، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے «مندوب» نامی گھوڑے کو ہم سے عاریۃ لیا ہم نے کوئی گھبراہٹ نہیں دیکھی اور گھوڑے کو چال میں ہم نے سمندر پایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1685) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1686
لڑائی کے وقت ثابت قدم رہنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سب سے جری (نڈر) ، سب سے سخی، اور سب سے بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا گئے، ان لوگوں نے کوئی آواز سنی، چناچہ نبی اکرم ﷺ نے تلوار لٹکائے ابوطلحہ کے ایک ننگی پیٹھ والے گھوڑے پر سوار ہو کر لوگوں کے پاس پہنچے اور فرمایا : تم لوگ فکر نہ کرو، تم لوگ فکر نہ کرو ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے چال میں گھوڑے کو سمندر پایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤ ٢ (٢٨٢٠) ، و ٨٢ (٢٩٠٨) ، و ١٦٥ (٣٠٤٠) ، والأدب ٣٩ (٦٠٣٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ١١ (٢٣٠٧/٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٩ (٢٧٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٩) ، (وانظر ما تقدم برقم ١٦٨٥) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1687
لڑائی کے وقت ثابت قدم رہنا
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا : ابوعمارہ ! ١ ؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے فرار ہوگئے تھے ؟ کہا : نہیں، اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کردیا تھا، رسول اللہ ﷺ اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ٢ ؎، اور رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٦١ (٢٨٨٤) ، و ٩٧ (٢٩٣٠) ، والمغازي ٥٤ (٤٣١٥-٤٣١٧) ، صحیح مسلم/الجہاد ٢٨ (١٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٤٨) ، و مسند احمد (٤/٢٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ براء بن عازب (رض) کی کنیت ہے۔ ٢ ؎ : ابوسفیان بن حارث نبی اکرم ﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں ، مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے ، نبی اکرم ﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے ، اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرم ﷺ سے راستہ ہی میں جا ملے ، اور اسلام قبول کرلیا ، پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔ ٣ ؎ : اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد و ارادہ نکلے تھے ، اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں ، اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں ، عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہور شخصیت تھی ، یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی ، چناچہ ضمام بن ثعلبہ (رض) نے جب آپ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا :«أيكم ابن عبدالمطلب ؟»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (209) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1688
لڑائی کے وقت ثابت قدم رہنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن ہماری صورت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کی دونوں جماعت پیٹھ پھیرے ہوئی تھی، اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سو آدمی بھی نہیں تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اسے ہم عبیداللہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٨٩٤) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1689
تلوار اور اس کی زینت
مزیدہ (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ مکہ داخل ہوئے اور آپ کی تلوار سونا اور چاندی سے مزین تھی، راوی طالب کہتے ہیں : میں نے ہود بن عبداللہ سے چاندی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہود کے دادا کا نام مزیدہ عصری ہے، ٣ - اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ما یأتي (تحفة الأشراف : ١١٢٥٤) (ضعیف) (سند میں ” ہود “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : تلوار میں سونے یا چاندی کا استعمال دشمنوں پر رعب قائم کرنے کے لیے ہوا ہوگا ، ورنہ صحابہ کرام جو اپنے ایمان میں اعلی مقام پر فائز تھے ، ان کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سونے یا چاندی کا استعمال بطور زیب و زینت کریں ، یہ لوگ اپنی ایمانی قوت کے سبب ان سب چیزوں سے بےنیاز تھے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف مختصر الشمائل المحمدية (87) ، الإرواء (3 / 306) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (822) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1690
تلوار اور اس کی زینت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار کے قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اسی طرح اس حدیث کو ہمام، قتادہ سے اور قتادہ، انس سے روایت کرتے ہیں، بعض لوگوں نے قتادہ کے واسطہ سے، سعید بن ابی الحسن سے بھی روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کی تلوار کے قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٧١ (٢٥٨٣، ٢٥٨٤) ، سنن النسائی/الزینة ١٢٠ (٥٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦) ، سنن الدارمی/السیر ٢١ (٢٥٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2326 - 2328) ، الإرواء (822) ، مختصر الشمائل (85 و 86) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1691
زرّہ
زبیر بن عوام (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم ﷺ کے جسم پر دو زرہیں تھیں ١ ؎، آپ چٹان پر چڑھنے لگے، لیکن نہیں چڑھ سکے، آپ نے طلحہ بن عبیداللہ کو اپنے نیچے بٹھایا، پھر آپ ان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ چٹان پر سیدھے کھڑے ہوگئے، زبیر کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : طلحہ نے (اپنے عمل سے جنت) واجب کرلی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں صفوان بن امیہ اور سائب بن یزید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وأعادہ في المناقب برقم ٣٧٣٨ (تحفة الأشراف : ٣٦٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کا دو زرہیں پہننا توکل اور تسلیم و رضا کے منافی نہیں ہے ، بلکہ اسباب و وسائل کو اپنانا توکل ورضاء الٰہی کے عین مطابق ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (6112) ، مختصر الشمائل (89) ، صحيح أبي داود (2332) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1692
خود پہننا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے سال مکہ داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا، آپ سے کہا گیا : ابن خطل ١ ؎ کعبہ کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اسے قتل کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ہم میں سے اکثر لوگوں کے نزدیک زہری سے مالک کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٨ (١٨٤٦) ، والجہاد ١٦٩ (٣٠٤٤) ، والمغازي ٤٨ (٤٢٨٦) ، واللباس ١٧ (٥٨٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٧) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٢٧ (٢٦٨٥) ، سنن النسائی/الحج ١٠٧ (٢٧٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٨ (١٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧) ، وط/الحج ٨١ (٢٤٧) ، و مسند احمد (٣/١٠٩، ١٦٤، ١٨٠، ١٨٦، ٢٢٤، ٢٣١، ٢٣٢، ٢٤٠) سنن الدارمی/المناسک ٨٨ (١٩٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابن خطل کا نام عبداللہ یا عبدالعزی تھا ، نبی اکرم ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا : جو ہم سے قتال کرے اسے قتل کردیا جائے ، اس کے بعد کچھ لوگوں کا نام لیا ، ان میں ابن خطل کا نام بھی تھا ، آپ نے ان سب کے بارے میں فرمایا کہ یہ جہاں کہیں ملیں انہیں قتل کردیا جائے خواہ خانہ کعبہ کے پردے ہی میں کیوں نہ چھپے ہوں ، ابن خطل مسلمان ہوا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے اسے زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ، ایک انصاری مسلمان کو بھی اس کے ساتھ کردیا ، ابن خطل کا ایک غلام جو مسلمان تھا ، اس کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ تھا ، اس نے اپنے مسلمان غلام کو ایک مینڈھا ذبح کر کے کھانا تیار کرنے کے لیے کہا ، اتفاق سے وہ غلام سو گیا ، اور جب بیدار ہوا تو کھانا تیار نہیں تھا ، چناچہ ابن خطل نے اپنے اس مسلمان غلام کو قتل کردیا ، اور مرتد ہو کر مشرک ہوگیا ، اس کے پاس دو گانے بجانے والی لونڈیاں تھیں ، یہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیا کرتی تھیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2805) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1693
گھوڑوں کی فضلیت
عروہ بارقی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر (بھلائی) بندھی ہوئی ہے، خیر سے مراد اجر اور غنیمت ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر، ابو سعید خدری، جریر، ابوہریرہ، اسماء بنت یزید، مغیرہ بن شعبہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - امام احمد بن حنبل کہتے ہیں، اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جہاد کا حکم ہر امام کے ساتھ قیامت تک باقی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٣ (٢٧٥٠) ، و ٤٤ (٢٧٥٢) ، والخمس ٨ (٣١١٩) ، والمناقب ٢٨ (٣٦٤٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٦ (١٨٧٣) ، سنن النسائی/الخیل ٧ (٤٦٠٤، ٣٦٠٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٩ (٢٣٠٥) ، والجہاد ١٤ (٢٧٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٧) ، و مسند احمد (٤/٣٧٥، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢٤ (٣١١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ وہ گھوڑے ہیں جو جہاد کے لیے استعمال یا جہاد کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1694
پسندیدہ گھوڑے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سرخ رنگ کے گھوڑوں میں برکت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف شیبان کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٤٤ (٢٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٩٠) ، و مسند احمد (١/٢٧٢) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (3879) ، التعليق الرغيب (2 / 162) ، صحيح أبي داود (2293) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1695
پسندیدہ گھوڑے
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بہتر گھوڑے وہ ہیں جو کالے رنگ کے ہوں، جن کی پیشانی اور اوپر کا ہونٹ سفید ہو، پھر ان کے بعد وہ گھوڑے ہیں جن کے چاروں پیر اور پیشانی سفید ہو، اگر گھوڑا کالے رنگ کا نہ ہو تو انہیں صفات کا سرخ سیاہی مائل عمدہ گھوڑا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٤ (٢٧٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢١) ، و مسند احمد (٥/٣٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2789) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1696
پسندیدہ گھوڑے
یزید بن ابی حبیب سے اسی سند سے اسی معنی کی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1697
ناپسندیدہ گھوڑے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو گھوڑوں میں سے «شکال» گھوڑا ناپسند تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعبہ نے عبداللہ بن یزید خثعمی سے، بسند «أبي زرعة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے، ابوزرعہ عمرو بن جریر کا نام ہرم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٧ (١٨٧٥) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٤٦ (٢٥٤٧) ، سنن النسائی/الخیل ٤ (٣٥٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٤ (٢٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٠) ، و مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦، ٤٦١، ٤٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «شکال» اس گھوڑے کو کہتے ہیں : جس کے تین پیر سفید ہوں اور ایک دوسرے رنگ کا ہو یا جس کا ایک پیر سفید ہو اور باقی دوسرے رنگ کے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (7290) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1698
گھڑ دوڑ
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے «تضمیر» کیے ہوئے گھوڑوں کی مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے، اور جو «تضمیر» کیے ہوئے نہیں تھے ان کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک گھڑ دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان ایک میل کا فاصلہ ہے، گھڑ دوڑ کے مقابلہ میں میں بھی شامل تھا، چناچہ میرا گھوڑا مجھے لے کر ایک دیوار کود گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ثوری کی روایت سے یہ حدیث صحیح حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، جابر، عائشہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥٦ (٢٨٦٨) ، و ٥٧ (٢٨٦٩) ، و ٥٨ (٢٨٧٠) ، والاعتصام ٦ (٧٣٣٦) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٥ (١٨٧٠) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٦٧ (٢٥٧٥) ، سنن النسائی/الخیل ١٢ (٣٦١٣) ، و ١٣ (٣٦١٤) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤٤ (٢٨٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٩٥) ، وط/الجہاد ١٩ (٤٥) ، و مسند احمد (٢/٥، ٥٥-٥٦) سنن الدارمی/الجہاد ٣٦ (٢٤٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھڑ دوڑ ، تیر اندازی ، اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے ، نبی اکرم ﷺ کے دور میں عموماً یہی چیزیں جنگ میں کام آتی تھیں ، حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ آج کے دور میں راکٹ ، میزائل ، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کا تجربہ حاصل کیا جائے ، ساتھ ہی بندوق توپ اور ہر قسم کے جدید جنگی آلات کی تربیت حاصل کی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2877) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1699
گھڑ دوڑ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا : مقابلہ صرف تیر، اونٹ اور گھوڑوں میں جائز ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٦٧ (٢٥٧٤) ، سنن النسائی/الخیل ١٤ (٣٦١٥، ٣٦١٦، ٣٦١٩) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤٤ (٢٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٣٨) ، و مسند احمد (٢/٢٥٦، ٣٥٨، ٤٢٥، ٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بشرطیکہ یہ انعام کا مال مقابلے میں حصہ لینے والوں کی طرف سے نہ ہو ، اگر ان کی طرف سے ہے تو یہ قمار و جوا ہے جو جائز نہیں ہے ، معلوم ہوا کہ مقررہ انعام کی صورت میں مقابلے کرانا درست ہے ، لیکن یہ مقابلے صرف انہی کھیلوں میں جائز ہیں ، جن کے ذریعہ نوجوانوں میں جنگی و دفاعی ٹریننگ ہو ، کبوتر بازی ، غلیل بازی ، پتنگ بازی وغیرہ کے مقابلے تو سراسر ذہنی عیاشی کے سامان ہیں ، موجودہ دور کے کھیل بھی بیکار ہی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2878) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1700
گھوڑی پر گدھا چھوڑنے کی کراہت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع اور مامور بندے تھے، آپ نے ہم کو دوسروں کی بنسبت تین چیزوں کا خصوصی حکم دیا : ہم کو حکم دیا ١ ؎ کہ پوری طرح وضو کریں، صدقہ نہ کھائیں اور گھوڑی پر گدھا نہ چھوڑیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سفیان ثوری نے ابوجہضم سے روایت کرتے ہوئے اس حدیث کی سند یوں بیان کی، «عن عبيد اللہ بن عبد اللہ بن عباس عن ابن عباس» ، ٣ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ثوری کی حدیث غیر محفوظ ہے، اس میں ثوری سے وہم ہوا ہے، صحیح وہ روایت ہے جسے اسماعیل بن علیہ اور عبدالوارث بن سعید نے ابوجہضم سے، ابوجہضم عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس سے، اور عبیداللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، ٤ - اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٣١ (٨٠٨) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٦ (١٤١) ، والخیل ١٠ (٣٦١١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٩ (٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٩١) ، و مسند احمد (١/٢٢٥، ٢٣٥، ٢٤٩) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم ایجابی تھا ، ورنہ اتمام وضوء سب کے لیے مستحب ہے ، اور گدھے کو گھوڑی پر چھوڑنا سب کے لیے مکروہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1701
فقراء مساکین سے دعائے خیر کرانا
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : مجھے اپنے ضعیفوں اور کمزوروں میں تلاش کرو، اس لیے کہ تم اپنے ضعیفوں اور کمزوروں کی (دعاؤں کی برکت کی) وجہ سے رزق دیئے جاتے ہو اور تمہاری مدد کی جاتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٧٧ (٢٥٩٤) ، سنن النسائی/الجہاد ٤٣ (٣١٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٣) ، و مسند احمد (٥/١٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں مالدار لوگوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اپنے سے کمتر درجے کے لوگوں کو حقیر نہ سمجھیں ، کیونکہ انہیں دنیاوی اعتبار سے جو آسانیاں حاصل ہیں یہ کمزوروں کے باعث ہی ہیں ، یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کمزور مسلمانوں کی دعائیں بہت کام آتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول نے ان کمزور مسلمانوں کی دعا سے مدد طلب کرنے کو کہا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (779) ، صحيح أبي داود (2335) ، التعليق الرغيب (1 / 24) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1702
گھوڑوں کے گھلے میں گھنٹیاں لٹکانا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرشتے مسافروں کی اس جماعت کے ساتھ نہیں رہتے ہیں جس میں کتا یا گھنٹی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، عائشہ، ام حبیبہ اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٧ (٢١١٣) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٥١ (٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٠٣) ، و مسند احمد (٢/٢٦٣، ٣١١، ٣٢٧، ٣٤٣، ٣٨٥، ٣٩٢، ٤١٤، ٤٤٤، ٤٧٦) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٤ (٢٧١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایسے کتے جو شکار یا نگرانی کے لیے ہوں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں ، گھوڑے کے گلے میں گھنٹی لٹکانے سے دشمن کو گھوڑے کے مالک کی بابت اطلاع ہوجاتی ہے ، اس لیے اسے ناپسند کیا گیا ، اور گھنٹی سے مراد ہر وہ چیز ہے جو جانور کی گردن میں لٹکا دی جائے تو حرکت کے ساتھ آواز ہوتی رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (4 / 494) ، صحيح أبي داود (2303) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1703
جنگ کا امیر مقرر کرنا
براء (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو لشکر روانہ کیا ١ ؎، ایک پر علی بن ابی طالب (رض) کو اور دوسرے پر خالد بن ولید (رض) کو امیر مقرر کیا اور فرمایا : جب جنگ ہو تو علی امیر ہوں گے ٢ ؎، علی (رض) نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس میں سے ایک لونڈی لے لی، خالد بن ولید (رض) نے مجھ کو خط کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس روانہ کیا، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا : اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : میں اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں میں تو صرف قاصد ہوں، لہٰذا آپ خاموش ہوگئے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف احوص بن جواب کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں ابن عمر سے بھی حدیث مروی ہے، ٣ - «يشي به» کا معنی چغل خوری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف واعادہ في المناقب برقم ٣٧٢٥، (تحفة الأشراف : ١٩٠١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابواسحاق مدلس ومختلط ہیں، لیکن عمران بن حصین (عند المؤلف برقم ٣٧١٢) کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہ دونوں لشکر یمن کی طرف روانہ کئے گئے تھے۔ ٢ ؎ : یعنی پہنچتے ہی اگر دشمن سے مقابلہ شروع ہوجائے تو علی (رض) اس کے امیر ہوں گے ، اور اگر دونوں لشکر علیحدہ علیحدہ رہیں تو ایک کے علی (رض) اور دوسرے کے خالد (رض) امیر ہوں گے۔ ٣ ؎ : یعنی ایک آدمی کی ماتحتی میں نبی اکرم ﷺ نے مجھے بھیجا ، اس کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی اور اس کے قلم سے یہ خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اب اس میں میرا کیا قصور ہے یہ سن کر آپ خاموش رہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // وسيأتي (776 / 3991) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1704
جنگ کا امیر مقرر کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، چناچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، اسی طرح مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، انس اور ابوموسیٰ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - ابوموسیٰ کی حدیث غیر محفوظ ہے، اور انس کی حدیث بھی غیر محفوظ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اسے ابراہیم بن بشار رمادی نے بسند «سفيان بن عيينة عن بريد بن عبد اللہ بن أبي بردة عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، اس حدیث کو کئی لوگوں نے بسند «سفيان عن بريد عن أبي بردة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسل طریقہ سے روایت کی ہے، مگر یہ مرسل روایت زیادہ صحیح ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : اسحاق بن ابراہیم نے بسند «معاذ بن هشام عن أبيه عن قتادة عن أنس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے : بیشک اللہ تعالیٰ ہر نگہبان سے پوچھے گا اس چیز کے بارے میں جس کی نگہبانی کے لیے اس کو رکھا ہے، امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : یہ روایت غیر محفوظ ہے، صحیح وہی ہے جو «عن معاذ بن هشام عن أبيه عن قتادة عن الحسن عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١١ (٨٩٣) ، والاستقراض ٢٠ (٢٤٠٩) ، والعتق ١٧ (٢٥٥٤) ، والوصایا ٩ (٢٧٥١) ، والنکاح ٨١ (٥٢٠٠) ، والأحکام ١ (٧١٣٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥ (١٨٢٩) ، سنن ابی داود/ الخراج ١ (٢٩٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٥) ، و مسند احمد (٢/٥، ٤٥، ١١١، ١٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو جس چیز کا ذمہ دار ہے اس سے اس چیز کے متعلق باز پرس بھی ہوگی ، اب یہ ذمہ دار کا کام ہے کہ اپنے متعلق یہ احساس و خیال رکھے کہ اسے اس ذمہ داری کا حساب و کتاب بھی دینا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2600) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1705
امام کی اطاعت
ام حصین احمسیہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ کے جسم پر ایک چادر تھی جسے اپنی بغل کے نیچے سے لپیٹے ہوئے تھے، (گویا میں) آپ کے بازو کا پھڑکتا ہوا گوشت دیکھ رہی ہوں، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا : لوگو ! اللہ سے ڈرو، اور اگر کان کٹا ہوا حبشی غلام بھی تمہارا حاکم بنادیا جائے تو اس کی بات مانو اور اس کی اطاعت کرو، جب تک وہ تمہارے لیے کتاب اللہ کو قائم کرے (یعنی کتاب اللہ کے موافق حکم دے) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - (یہ حدیث) دوسری سندوں سے بھی ام حصین سے مروی ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ اور عرباض بن ساریہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥١ (١٢٩٨/٣١١) ، والإمارة (١٨٣٨/٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣١٣) ، و مسند احمد (٦/٤٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں امیر کی اطاعت اور اس کی ماتحتی میں رہنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ، اور ہر ایسے عمل سے دور رہنے کا حکم دیا جا رہا ہے جس سے فتنہ کے سر اٹھانے اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں انتشار پید ہونے کا اندیشہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2861) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1706
اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے، اور اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ اس کے لیے سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، عمران بن حصین اور حکم بن عمر و غفاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠٨ (٢٩٥٥) ، والأحکام ٤ (٧١٤٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٩) ، سنن ابی داود/ الجہاد ٩٦ (٢٦٢٦) ، سنن النسائی/البیعة ٣٤ (٤٢١١) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤٠ (٢٨٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٨٨) ، و مسند احمد (٢/١٧، ٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی امام کا حکم پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ اسے بجا لانا ضروری ہے ، بشرطیکہ معصیت سے اس کا تعلق نہ ہو ، اگر معصیت سے متعلق ہے تو اس سے گریز کیا جائے گا ، لیکن ایسی صورت سے بچنا ہے جس سے امام کی مخالفت سے فتنہ و فساد کے رونما ہونے کا خدشہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1707
جانوروں کو لڑانا اور چہرہ داغنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٥٦ (٢٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٣١) (ضعیف) (اس کے راوی ابو یحییٰ قتات ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : منع کرنے کا سبب یہ ہے کہ اس سے جانوروں کو تکلیف اور تکان لاحق ہوگی ، نیز اس کام سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ، بلکہ یہ عبث اور لایعنی کاموں میں سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف غاية المرام (383) ، ضعيف أبي داود (443) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1708
جانوروں کو لڑانا اور چہرہ داغنا
مجاہد سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند میں راوی نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے، ٢ - کہا جاتا ہے، قطبہ کی (اگلی) حدیث سے یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، اس حدیث کو شریک نے بطریق «مجاهد عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے اور اس میں ابویحییٰ کا ذکر نہیں کیا ہے، ٣ - اور ابومعاویہ نے اس کو بطریق «الأعمش عن مجاهد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے، ابویحییٰ سے مراد ابویحییٰ قتات کوفی ہیں، کہا جاتا ہے ان کا نام زاذان ہے، ٤ - اس باب میں طلحہ، جابر، ابوسعید اور عکراش بن ذؤیب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩٢٨٠) (ضعیف) (ابو یحییٰ قتات ضعیف ہیں، نیز یہ روایت مرسل ہے ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1709
جانوروں کو لڑانا اور چہرہ داغنا
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چہرے پر مارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٩ (٢١١٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٨١٦) ، و مسند احمد (٣/٣١٨، ٣٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چہرہ جسم کے اعضاء میں سب سے افضل و اشرف ہے ، چہرہ پر مارنے سے بعض حواس ناکام ہوسکتے ہیں ، ساتھ ہی چہرہ کے عیب دار ہونے کا بھی خطرہ ہے ، اسی لیے مارنے کے ساتھ اس پر کسی طرح کا داغ لگانا بھی ناپسند سمجھا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2185) ، صحيح أبي داود (2310) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1710
بلوغت کی حد اور مال غنیمت میں حصہ دینا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہاد میں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکر میں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کرلیا، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہوجائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٣٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لڑکا یا لڑکی کی عمر سن ہجری سے جب پندرہ سال کی ہوجائے تو وہ بلوغت کی حد کو پہنچ جاتا ہے ، اسی طرح سے زیر ناف بال نکل آنا اور احتلام کا ہونا بھی بلوغت کی علامات میں سے ہے ، اور لڑکی کو حیض آ جائے تو یہ بھی بلوغت کی نشانی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2543) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1711
شہید کا قرض
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے بیچ کھڑے ہو کر ان سے بیان کیا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے افضل عمل ہے ١ ؎، (یہ سن کر) ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں، تو کیا میرے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں اگر تم اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے اس حال میں کہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو، آگے بڑھنے والے ہو، پیچھے مڑنے والے نہ ہو ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے کیسے کہا ہے ؟ عرض کیا : آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں اگر تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو اور آگے بڑھنے والے ہو پیچھے مڑنے والے نہ ہو، سوائے قرض کے ٢ ؎، یہ مجھ سے جبرائیل نے (ابھی) کہا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض لوگوں نے یہ حدیث بسند «سعيد المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، یحییٰ بن سعید انصاری اور کئی لوگوں نے اس کو بسند «سعيد المقبري عن عبد اللہ ابن أبي قتادة عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» سے روایت کی ہے، یہ روایت سعید مقبری کی روایت سے جو بواسطہ ابوہریرہ آئی ہے، زیادہ صحیح ہے، ٤ - اس باب میں انس، محمد بن جحش اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٢ (١٨٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٩٨) ، وط/الجہاد ١٤ (٣١) ، و مسند احمد (٥/٢٩٧، ٣٠٤، ٣٠٨) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢١ (٢٤٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : افضل اعمال کے سلسلہ میں مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل بتایا گیا ہے ، اس کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں ، ان احادیث میں «أفضل الأعمال» سے پہلے «من» پوشیدہ مانا جائے ، مفہوم یہ ہوگا کہ یہ اعمال افضل ہیں ، یا ان کا تذکرہ احوال واوقات اور جگہوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہے ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مخاطب کی رو سے مختلف اعمال کی ا فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی وہ قرض جس کی ادائیگی کی نیت نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1197) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1712
شہداء کی تدفین
ہشام بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ سے زخموں کی شکایت کی گئی ١ ؎، آپ نے فرمایا : قبر کھودو اور اسے کشادہ اور اچھی بناؤ، ایک قبر میں دو یا تین آدمیوں کو دفن کرو، اور جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے (قبلہ کی طرف) آگے کرو ، ہشام بن عامر کہتے ہیں : میرے والد بھی وفات پائے تھے، چناچہ ان کو ان کے دو ساتھیوں پر مقدم (یعنی قبلہ کی طرف آگے) کیا گیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سفیان ثوری اور دوسرے لوگوں نے اس حدیث کو بسند «أيوب عن حميد بن هلال عن هشام بن عامر» روایت کیا ہے، ٣ - اس باب میں خباب، جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ١ ٧ (٣٢١٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٦ (٢٠١٢) ، و ٩٠ (٢٠١٧) ، و ٩١ (٢٠٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤١ (١٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣١) ، و مسند احمد (٤/١٩، ٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی صحابہ کرام نے یہ شکایت کی ، اللہ کے رسول ہم زخموں سے چور ہیں ، اس لائق نہیں ہیں کہ شہداء کی الگ الگ قبریں تیار کرسکیں ، ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ، کیونکہ الگ الگ قبر کھودنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1560) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1713
مشورے کے بارے میں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو ، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ہے، ٣ - ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتا ہو ٢ ؎، ٤ - اس حدیث میں عمر، ابوایوب، انس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وأعادہ في تفسیر الأنفال (٣٠٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٢٨) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : قصہ (اختصار کے ساتھ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا ، ابوبکر (رض) کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے ، عمر (رض) نے کہا : یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں ، انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے ، بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سر قلم کرے ، جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سوکھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلا دیا جائے ، نبی اکرم ﷺ سب کی باتیں سن کر خاموش رہے ، اندر گئے پھر باہر آ کر فرمایا : اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کردیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کردیتا ہے ، ابوبکر (رض) کی مثال ابراہیم و عیسیٰ سے دی ، عمر (رض) کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ (رض) کی موسیٰ (علیہ السلام) سے ، پھر آپ نے ابوبکر (رض) کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا ، دوسرے دن جب عمر (رض) آئے تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کو روتا دیکھ کر عرض کیا ، اللہ کے رسول ! رونے کا کیا سبب ہے ؟ اگر مجھے معلوم ہوجاتا تو میں بھی شامل ہوجاتا ، یا روہانسی صورت بنا لیتا ، آپ ﷺ نے فرمایا : بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہوگیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں ، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «ما کان لنبي أن يكون له أسری حتی يثخن في الأرض» (الأنفال : ٦٧ ) ۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے ، اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہوگی ، اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (5 / 47 - 48) ، وسيأتي (5080 // 598 / 3293 // بزيادة في المتن) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1714
کافر قیدی کی لاش فدیہ لے کر نہ دی جائے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مشرک کی لاش کو خریدنا چاہا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بیچنے سے انکار کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف حکم کی روایت سے جانتے ہیں، اس کو حجاج بن ارطاۃ نے بھی حکم سے روایت کیا ہے، ٣ - احمد بن حنبل کہتے ہیں : ابن ابی لیلیٰ کی حدیث قابل حجت نہیں ہے، ٤ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں لیکن ہم کو ان کی صحیح حدیثیں ان کی ضعیف حدیثوں سے پہچان نہیں پاتے، میں ان سے کچھ نہیں روایت کرتا ہوں، ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں فقیہ ہیں، لیکن بسا اوقات ان سے سندوں میں وہم ہوجاتا ہے، ٥ - سفیان ثوری کہتے ہیں : ہمارے فقہاء ابن ابی لیلیٰ اور عبداللہ بن شبرمہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٦٤٧٥) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1715
جہاد سے فرار
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک سریہ میں روانہ کیا، (پھر ہم) لوگ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوئے، مدینہ آئے تو شرم کی وجہ سے چھپ گئے اور ہم نے کہا : ہلاک ہوگئے، پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم بھگوڑے ہیں، آپ نے فرمایا : بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف یزید بن ابی زیاد کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - «فحاص الناس حيصة» کا معنی یہ ہے کہ لوگ لڑائی سے فرار ہوگئے، ٣ - اور «بل أنتم العکارون» اس کو کہتے ہیں : جو فرار ہو کر اپنے امام (کمانڈر) کے پاس آ جائے تاکہ وہ اس کی مدد کرے نہ کہ لڑائی سے فرار ہونے کا ارادہ رکھتا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٠٦ (٢٦٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٩٨) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1203) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1716
جہاد سے فرار
جابر (رض) کہتے ہیں کہ احد کے دن میری پھوپھی میرے باپ کو لے کر آئیں تاکہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کریں، تو رسول اللہ ﷺ کے ایک منادی نے پکارا : مقتولوں کو ان کی قتل گاہوں میں لوٹا دو (دفن کرو) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور نبی ح ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجنائز ٤٢ (٣١٦٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٨٣ (٢٠٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٨ (١٥١٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١١٧) ، سنن الدارمی/المقدمة ٧ (٤٦) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کے راوی نبی ح عنزی لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم شہداء کے لیے خاص ہے ، حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ شہداء موت و حیات اور بعث و حشر میں بھی ایک ساتھ رہیں ، عام میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اشد ضرورت کے تحت منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، شرط یہ ہے کہ نعش کی بےحرمتی نہ ہو اور آب و ہوا کے اثر سے اس میں کوئی تغیر نہ ہو ، سعید ابن ابی وقاص کو صحابہ کی موجودگی میں مدینہ منتقل کیا گیا تھا ، کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2516) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1717
سفر سے واپس آنے والے کا استقبال کرنا
سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس آئے تو لوگ آپ کے استقبال کے لیے ثنیۃ الوداع تک نکلے : میں بھی لوگوں کے ساتھ نکلا حالانکہ میں کم عمر تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٩٦ (٣٠٨٢) ، والمغازي ٨٢ (٤٤٢٦) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٧٦ (٢٧٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1718
مال فئی
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ اسود کے قبیلہ بنی نضیر کے اموال ان میں سے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطور «فے» ١ ؎ عطا کیا تھا، اس کے لیے مسلمانوں نے نہ تو گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ ہی اونٹ، یہ پورے کا پورا مال خالص اللہ کے رسول ﷺ کے لیے تھا، رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کے لیے اس میں سے ایک سال کا خرچ الگ کرلیتے، پھر جو باقی بچتا اسے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑوں اور ہتھیاروں میں خرچ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو معمر کے واسطہ سے ابن شہاب سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٨٠ (٢٩٠٤) ، وتفسیر الحشر ٣ (٤٨٨٥) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٥ (١٧٥٧) ، سنن ابی داود/ الخراج والإمارة ١٩ (٢٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣١) ، و مسند احمد (١/٢٥) (وانظر أیضا حدیث رقم ١٦١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «فئی» : وہ مال ہے جو کافروں سے جنگ کیے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے ، یہ مال آپ کے لیے خاص تھا ، مال غنیمت نہ تھا کہ مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (341) ، صحيح أبي داود (2624 - 2626) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1719
مشرکین کے برتن استعمال کرنا۔
ابوثعلبہ خشنی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے سوال کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ اہل کتاب کی سر زمین میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کی ہانڈیوں میں کھانا پکائیں اور ان کے برتنوں میں پانی پئیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں اس کے علاوہ کوئی برتن نہ مل سکے تو اسے پانی سے دھو لو ، پھر انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہم شکار والی سر زمین میں رہتے ہیں کیسے کریں ؟ آپ نے فرمایا : جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا روانہ کرو اور اس پر «بسم اللہ» پڑھ لو پھر وہ شکار مار ڈالے تو اسے کھاؤ، اور اگر کتا سدھایا ہوا نہ ہو اور شکار ذبح کردیا جائے تو اسے کھاؤ اور جب تم تیر مارو اور اس پر «بسم اللہ» پڑھ لو پھر اس سے شکار ہوجائے تو اسے کھاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٤٦٤ و ١٥٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3207) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1797