24. پینے کے ابواب
شراب پینے والے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے، جس نے دنیا میں شراب پی اور وہ اس حال میں مرگیا کہ وہ اس کا عادی تھا، تو وہ آخرت میں اسے نہیں پیئے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے نافع سے آئی ہے، جسے نافع، ابن عمر سے، ابن عمر نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٣ - مالک بن انس نے اس حدیث کو نافع کے واسطہ سے ابن عمر سے موقوفا روایت کی ہے، اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٤ - اس باب میں ابوہریرہ، ابو سعید خدری، عبداللہ بن عمرو بن العاص، ابن عباس، عبادہ اور ابو مالک اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأشربة ١ (٥٥٧٥) ، (الشطر الأخیر) ، صحیح مسلم/الأشربة ٨ (٢٠٠٣) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٥ (٣٦٧٩) ، سنن النسائی/الأشربة ٢٢ (٥٥٨٥) ، ٥٥٨٧، ٥٥٨٩) ، (الشطر الأول) و ٤٥ (٥٦٧٤) ، (الشطر الأخیر) و ٤٦ (٥٦٧٦، ٥٦٧٧) ، (الشطر الأخیر) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢ (٣٣٧٣) ، (الشطر الأخیر و ٩ (٣٦٨٧) ، (الشطر الأول) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٦) ، و مسند احمد (٢/١٦، ١٩، ٢٢، ٢٨، ٢٩، ٣١، ٩١، ٤٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دنیا میں شراب پینے والا اگر توبہ کئے بغیر مرگیا تو وہ آخرت کی شراب سے محروم رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (8 / 41) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1861
شراب پینے والے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے شراب پی اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا، اگر وہ توبہ کرلے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا، اگر اس نے دوبارہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا، اگر وہ توبہ کرلے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا، اگر اس نے پھر شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا، اگر وہ توبہ کرلے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا، اگر اس نے چوتھی بار بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا اور اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ بھی قبول نہیں کرے گا، اور اس کو نہر خبال سے پلائے گا، پوچھا گیا، ابوعبدالرحمٰن ! نہر خبال کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : جہنمیوں کے پیپ کی ایک نہر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - عبداللہ بن عمرو بن العاص اور ابن عباس کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٣١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3377) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1862
ہرنشہ آور چیز حرام ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے شہد کی نبیذ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ہر شراب جو نشہ پیدا کر دے وہ حرام ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧١ (٢٤٢) ، والأشربة ٤ (٥٥٨٥) ، صحیح مسلم/الأشربة ٧ (٢٠٠١) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٥ (٣٦٨٢) ، سنن النسائی/الأشربة ٢٣ (٥٥٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٩ (٣٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٤) ، وط/الأشربة ٤ (٩) ، و مسند احمد (٦/٣٨، ٩٧، ١٩٠، ٢٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3386 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1863
ہرنشہ آور چیز حرام ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ابوسلمہ سے ابوہریرہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، دونوں حدیثیں صحیح ہیں، کئی لوگوں نے اسے اسی طرح «محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اور «عن أبي سلمة عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں عمر، علی، ابن مسعود، انس، ابو سعید خدری، ابوموسیٰ اشج عصری، دیلم، میمونہ، ابن عباس، قیس بن سعد، نعمان بن بشیر، معاویہ، وائل بن حجر، قرہ مزنی، عبداللہ بن مغفل، ام سلمہ، بریدہ، ابوہریرہ اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٨٦١ (تحفة الأشراف : ٨٥٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3387) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1864
جس چیز کی بہت سی مقدار نشہ دے اس کا تھوڑا سا استعمال بھی حرام ہے۔
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کر دے تو اس کی تھوڑی سی مقدار بھی حرام ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث جابر کی روایت سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں سعد، عائشہ، عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور خوات بن جبیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأشربة ٥ (٣٦٨١) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ١٠ (٣٣٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٠١٤) ، و مسند احمد (٣/٣٤٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہو تو اس کی تھوڑی سی مقدار بھی حرام ہے ، اس سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خمر تھوڑی ہو یا زیادہ حرام ہے ، اس کے علاوہ دیگر نشہ آور اشیاء کی صرف وہ مقدار حرام ہے جس سے نشہ پیدا ہو اور جس مقدار میں نشہ نہ پیدا ہو وہ حرام نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3393) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1865
جس چیز کی بہت سی مقدار نشہ دے اس کا تھوڑا سا استعمال بھی حرام ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نشہ آور چیز حرام ہے، جس چیز کا ایک فرق (سولہ رطل) کی مقدار بھر نشہ پیدا کر دے تو اس کی مٹھی بھر مقدار بھی حرام ہے ١ ؎، ان میں (یعنی محمد بن بشار اور عبداللہ بن معاویہ جمحی) میں سے ایک نے اپنی روایت میں کہا : یعنی اس کا ایک گھونٹ بھی حرام ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اسے لیث بن ابی سلیم اور ربیع بن صبیح نے ابوعثمان انصاری سے مہدی بن میمون کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأشربة ٥ (٣٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٦٥) ، و مسند احمد (٦/٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں «فرق» (سولہ رطل) اور مٹھی بھر کا مفہوم بھی کثیر و قلیل ہی ہے ، یعنی جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہو تو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2376) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1866
مٹکوں میں نبیذ بنانا
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک آدمی ابن عمر (رض) کے پاس آیا اور پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے مٹکے کی نبیذ سے منع فرمایا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ١ ؎، طاؤس کہتے ہیں : اللہ کی قسم میں نے ان سے یہ بات سنی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن ابی اوفی، ابو سعید خدری، سوید، عائشہ، ابن زبیر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٦ (١٩٩٧/٥٠) ، سنن النسائی/الأشربة ٢٨ (٥٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٩٨) ، و مسند احمد (٢/٢٩، ٣٥، ٤٧، ٥٦، ١٠١، ١٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لیکن شرط یہ ہے کہ وہ نشہ آور ہوجائے ، نبیذ اگر نشہ آور نہیں ہے تو حلال ہے ، نبیذ وہ شراب ہے جو کھجور ، کشمش ، انگور ، شہد ، گیہوں اور جو وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1867
کدوکے خول، سبز روغنی گھڑے اور لکڑی (کھجور کی) کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے ان برتنوں کے متعلق پوچھا جن سے آپ نے منع فرمایا ہے اور کہا : اس کو اپنی زبان میں بیان کیجئے اور ہماری زبان میں اس کی تشریح کیجئے، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے «حنتمة» سے منع فرمایا ہے اور وہ مٹکا ہے، آپ نے «دباء» سے منع فرمایا ہے اور وہ کدو کی تو نبی ہے۔ آپ نے «نقير» سے منع فرمایا اور وہ کھجور کی جڑ ہے جس کو اندر سے گہرا کر کے یا خراد کر برتن بنا لیتے ہیں، آپ نے «مزفت» سے منع فرمایا اور وہ روغن قیر ملا ہوا (لاکھی) برتن ہے، اور آپ نے حکم دیا کہ نبیذ مشکوں میں بنائی جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، علی، ابن عباس، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، عبدالرحمٰن بن یعمر، سمرہ، انس، عائشہ، عمران بن حصین، عائذ بن عمرو، حکم غفاری اور میمونہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٦ (١٩٩٧/٥٧) ، سنن النسائی/الأشربة ٣٧ (٥٦٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٧١٦) ، و مسند احمد (٢/٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کے الفاظ «حنتم» ، «دباء» ، «نقیر» اور «مزفت» یہ مختلف قسم کے برتنوں کے نام ہیں ، ان میں زمانہ جاہلیت میں شراب بنائی اور رکھی جاتی تھی ، شراب کی حرمت کے وقت ان برتنوں کے استعمال سے منع کردیا گیا ، پھر بعد میں بریدہ اسلمی کی اگلی روایت «كنت نهيتكم عن الأوعية فاشربوا في كل وعاء» یعنی میں نے تمہیں مختلف برتنوں کے استعمال سے منع کردیا تھا ، لیکن اب انہیں اپنے پینے کے لیے استعمال کرسکتے ہو سے ان برتنوں کی ممانعت منسوخ ہوگئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1868
برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں (اس سے پہلے باب کی حدیث میں مذکور) برتنوں سے منع کیا تھا، درحقیقت برتن کسی چیز کو نہ تو حلال کرتے ہیں نہ حرام (بلکہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٦ (٩٧٧/٦٤) ، و (انظر أیضا : الجنائز ٣٦ (٩٧٧/١٠٦) والأضاحي ٥ (٩٧٧/٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح التعليق علی ابن ماجة صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1869
برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ان) برتنوں (کے استعمال) سے منع فرمایا تو انصار نے آپ سے شکایت کی، اور کہا : ہمارے پاس دوسرے برتن نہیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تب میں منع نہیں کرتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، ابو سعید خدری، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأشربة ٨ (٥٥٩٢) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٩) ، سنن النسائی/الأشربة ٤٠ (٥٦٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1870
مشک میں نبیذ بنانا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے لیے مشک میں نبیذ بناتے تھے، اس کے اوپر کا منہ بند کردیا جاتا تھا، اس کے نیچے ایک سوراخ ہوتا تھا، ہم صبح میں نبیذ کو بھگوتے تھے تو آپ شام کو پیتے تھے اور شام کو بھگوتے تھے تو آپ صبح کو پیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے یونس بن عبید کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - عائشہ (رض) سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ٣ - اس باب میں جابر، ابوسعید اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٩ (١٠٠٥) ، سنن ابی داود/ الأشربة ١٠ (٣٧١١) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ١٢ (٣٣٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : غرضیکہ نبیذ کو اس کے برتن میں زیادہ وقت نہیں دیا جاتا تھا مبادا اس میں کہیں نشہ نہ پیدا ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3398) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1871
دانے جن سے شراب بنتی ہے
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گیہوں، جو، کھجور، کشمش، اور شہد سے شراب بنائی جاتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ سے بھی حدیث مروی ہے۔ فائدہ ١ ؎: یعنی اگر ان چیزوں میں نشہ پیدا ہوجائے تو وہ شراب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأشربة ٤ (٣٦٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٥ (٣٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3379) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1872
دانے جن سے شراب بنتی ہے
اس سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما یأتي (صحیح ) قال الشيخ الألباني : * صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1873
دانے جن سے شراب بنتی ہے
عمر (رض) کہتے ہیں کہ شراب گیہوں سے بنائی جاتی ہے، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ گیہوں سے شراب بنائی جاتی ہے، یہ ابراہیم بن مہاجر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎، ٢ - علی بن مدینی کہتے ہیں : یحییٰ بن سعید نے کہا : ابراہیم بن مہاجر حدیث بیان کرنے میں قوی نہیں ہیں، ٣ - یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی نعمان بن بشیر سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة المائدة ١٠ (٤٦١٩) ، والأشربة ٢ (٥٥٨١) ، و ٥ (٥٥٨٨) ، صحیح مسلم/التفسیر ٦ (٣٠٣٢) ، سنن ابی داود/ الأشربة ١ (٣٦٦٩) ، سنن النسائی/الأشربة ٢٠ (٥٥٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سابقہ حدیث نمبر ( ١٨٧٢ ) سے زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1874
دانے جن سے شراب بنتی ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شراب ان دو درختوں : کھجور اور انگور سے بنتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعبہ نے عکرمہ بن عمار سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٤ (١٩٨٥) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٤ (٣٦٧٨) ، سنن النسائی/الأشربة ١٩ (٥٥٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٥ (٣٣٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٤١) ، و مسند احمد (٢/٢٧٩، ٤٠٨، ٤٠٩، ٤٩٦، ٥١٨، ٥٢٦) ، سنن الدارمی/الأشربة ٧ (٢١٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3378 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1875
کچی پکی کھجوروں کو ملا کر نبیذ بنانا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے «گدر» (ادھ پکی) کھجور اور تازہ کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأشربة (٥٦٠١) ، صحیح مسلم/الأشربة ٥ (١٩٨٦) ، سنن ابی داود/ الأشربة ٨ (٣٧٠٣) ، سنن النسائی/الأشربة ٨ (٥٥٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ١١ (٣٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٧٨) ، و مسند احمد (٣/٢٩٤، ٣٠٠، ٣٠٢، ٣١٧، ٣٦٣، ٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ «خلیط» ہونے (دونوں کے مل جانے) سے اس میں تیزی سے نشہ پیدا ہوتا ہے ، باوجود یہ کہ اس کا رنگ نہیں بدلتا ہے ، اس لیے پینے والا یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ابھی یہ نشہ آور نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3395) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1876
کچی پکی کھجوروں کو ملا کر نبیذ بنانا
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے «گدر» (ادھ پکی) کھجور اور پختہ کھجور ایک ساتھ ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا : اور آپ نے مٹکوں میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر، انس، ابوقتادہ، ابن عباس، ام سلمہ اور «معبد بن کعب عن أمہ» (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٥ (١٩٨٧) ، سنن النسائی/الأشربة ١٦ (٥٥٧١) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٥١) ، و مسند احمد (٣/٣، ٩، ٤٩، ٦٢، ٧١، ٩٠) سنن الدارمی/الأشربة ١٤ (١٢٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1877
سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت
ابن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ حذیفہ (رض) نے ایک آدمی سے پانی طلب کیا تو اس نے انہیں چاندی کے برتن میں پانی دیا، انہوں نے پانی کو اس کے منہ پر پھینک دیا، اور کہا : میں اس سے منع کرچکا تھا، پھر بھی اس نے باز رہنے سے انکار کیا ١ ؎، بیشک رسول اللہ ﷺ نے سونے اور چاندی کے برتن میں پانی پینے سے منع فرمایا ہے، اور ریشم پہننے سے اور دیباج سے اور فرمایا : یہ ان (کافروں) کے لیے دنیا میں ہے اور تمہارے لیے آخرت میں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ام سلمہ، براء، اور عائشہ (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٩ (٥٤٢٦) ، والأشربة ٢٧ (٥٦٣٢) ، و ٢٨ (٥٦٣٣) ، واللباس ٢٥ (٥٨٣١) ، و ٢٧ (٥٨٣٧) ، صحیح مسلم/اللباس ١ (٢٠٦٧) ، سنن ابی داود/ الأشربة ١٧ (٣٧٢٣) ، سنن النسائی/الزینة ٣٣ (٥٣٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ١٧ (٣٤١٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٧٣) ، و مسند احمد (٥/٣٨٥، ٣٩٠، ٣٩٦، ٣٩٨، ٤٠٠، ٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میں نے اسے پہلے ہی ان برتنوں کے استعمال سے منع کردیا تھا ، لیکن منع کرنے کے باوجود جب یہ باز نہ آیا تبھی میں نے اس کے چہرہ پر یہ پانی پھینکا تاکہ آئندہ اس کا خیال رکھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3414) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1878
کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا، پوچھا گیا : کھڑے ہو کر کھانا کیسا ہے ؟ کہا : یہ اور برا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٤ (٢٠٢٤) ، سنن ابی داود/ الأشربة ١٣ (٣٧١٧) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢١ (٣٤٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٠) ، و مسند احمد (٣/١١٨، ١٨٢، ٢٧٧) سنن الدارمی/الأشربة ٢٤ (٢١٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3424) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1879
کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت
جارود بن معلی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب حسن ہے، ٢ - اسی طرح کئی لوگوں نے اس حدیث کو «عن سعيد عن قتادة عن أبي مسلم عن الجارود عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے، اور یہ حدیث بطریق : «عن قتادة عن يزيد بن عبد اللہ ابن الشخير عن أبي مسلم عن الجارود أن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : مسلمان کی گری ہوئی چیز (یعنی اس پر قبضہ کرنے کی نیت سے) اٹھانا آگ میں جلنے کا سبب ہے ، ٣ - اس باب میں ابو سعید خدری، ابوہریرہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣١٧٧) (صحیح) (سند میں ابو مسلم جذمی مقبول عند المتابعہ ہیں، ورنہ لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث رقم ١٨٧٩ سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (1879) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1880
کھڑے ہو کر پینے کی اجازت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چلتے ہوئے کھاتے تھے اور کھڑے ہو کر پیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث «عبيد اللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر» کی سند سے صحیح غریب ہے، ٢ - عمران بن حدیر نے اس حدیث کو ابوالبزری کے واسطہ سے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، ٣ - ابوالبزری کا نام یزید بن عطارد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٢٥ (٣٣٠١) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٢١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے پہلے والی حدیث سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہو کر کھانا پینا منع ہے ، اس حدیث سے اس کے جواز کا پتہ چلتا ہے ، دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ انس (رض) کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا (یعنی نہ پینا بہتر اور اچھا ہے) جب کہ اس حدیث کو کراہت کے ساتھ جواز پر محمول کیا جائے گا۔ یعنی جہاں مجبوری ہو وہاں ایسا کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4275) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1881
کھڑے ہو کر پینے کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر زمزم کا پانی پیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، سعد، عبداللہ بن عمرو اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧٦ (١٦٣٧) ، والأشربة ٦ (٥٦١٧) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٥ (٢٠٢٧) ، سنن النسائی/الحج ٦٥ (٢٩٦٧) ، و ٦٦ (٢٩٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢١ (٣٤٢٢) ، والمؤلف في الشمائل ٣١ (١٩٧، ١٩٨، ١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٧) ، و مسند احمد (١/٢١٤، ٢٢٠، ٣٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ممکن ہے ایسا نبی اکرم ﷺ نے بیان جواز کے لیے کیا ہو ، اس کا بھی امکان ہے کہ بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی ہو ، یا وہاں خشک جگہ نہ رہی ہو ، اس لیے آپ نہ بیٹھے ہوں ، یہ عام خیال بالکل غلط ہے کہ زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینا سنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3422 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1882
کھڑے ہو کر پینے کی اجازت
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پانی پیتے دیکھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٦٨٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ کا عام معمول بیٹھ کر پانی پینے کا تھا ، لیکن بوقت مجبوری یا بیان جواز کے لیے کبھی کھڑے ہو کر بھی پیا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (4276) ، مختصر الشمائل (177) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1883
برتن میں سانس لینا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ برتن سے تین سانس میں پانی پیتے تھے اور فرماتے تھے : (پانی پینے کا یہ طریقہ) زیادہ خوشگوار اور سیراب کن ہوتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اسے ہشام دستوائی نے بھی ابوعصام کے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے، اور عزرہ بن ثابت نے ثمامہ سے، ثمامہ نے انس سے روایت کی ہے، نبی اکرم ﷺ برتن سے تین سانس میں پانی پیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٦ (٢٠٢٨/١٢٣) ، سنن ابی داود/ الأشربة ١٩ (٣٧٢٧) (تحفة الأشراف : ١٧٢٣) ، و مسند احمد (٣/١١٩، ١٨٥، ٢١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ پینے والی چیز تین سانس میں پی جائے ، اور سانس لیتے وقت برتن سے منہ ہٹا کر سانس لی جائے ، اس سے معدہ پر یکبارگی بوجھ نہیں پڑتا ، اور اس میں حیوانوں سے مشابہت بھی نہیں پائی جاتی ، دوسری بات یہ ہے کہ پانی کے برتن میں سانس لینے سے تھوک اور جراثیم وغیرہ جانے کا جو خطرہ ہے اس سے حفاظت ہوجاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3416) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1884
برتن میں سانس لینا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اونٹ کی طرح ایک سانس میں نہ پیو، بلکہ دو یا تین سانس میں پیو، جب پیو تو «بسم اللہ» کہو اور جب منہ سے برتن ہٹاؤ تو «الحمدللہ» کہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٩٧١) (ضعیف) (سند میں ابن عطاء بن ابی رباح مبہم راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4278 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6233) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1885
دوبار سانس لیکر پانی پینا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب پیتے تھے تو دو سانس میں پیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف رشدین بن کریب کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - میں نے ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی سے رشدین بن کریب کے بارے میں پوچھتے ہوئے کہا : وہ زیادہ قوی ہیں یا محمد بن کریب ؟ انہوں نے کہا : دونوں (رتبہ میں) بہت ہی قریب ہیں، اور میرے نزدیک رشدین بن کریب زیادہ راجح ہیں، ٤ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : محمد بن کریب، رشدین بن کریب سے زیادہ راجح ہیں، ٥ - میرے نزدیک ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کی بات زیادہ صحیح ہے کہ رشدین بن کریب زیادہ راجح اور بڑے ہیں، انہوں نے ابن عباس کو پایا ہے اور انہیں دیکھا ہے، یہ دونوں بھائی ہیں ان دونوں سے منکر احادیث بھی مروی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأشربة ١٨ (٣٤١٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٤٧) (ضعیف) (سند میں رشدین بن کریب ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3417) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (743) ، ضعيف الجامع الصغير (4424) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1886
پینے کی چیز میں پھونکیں مارنا منع ہے
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پینے کی چیز میں پھونکنے سے منع فرمایا، ایک آدمی نے عرض کیا : برتن میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھوں تو کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا : اسے بہا دو ، اس نے عرض کیا : میں ایک سانس میں سیراب نہیں ہو پاتا ہوں، آپ نے فرمایا : تب (سانس لیتے وقت) پیالہ اپنے منہ سے ہٹا لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٤٣٦) (حسن) (الصحیحة ٣٨٥ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (385) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1887
پینے کی چیز میں پھونکیں مارنا منع ہے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے برتن میں سانس لینے اور پھونکنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأشربة ٢٠ (٣٧٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢٣ (٣٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١٤٩) ، سنن الدارمی/الأشربة ٢٧ (٢١٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3429) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1888
برتن میں سانس لینا مکروہ ہے
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ چھوڑے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٨ (١٥٣) ، و ١٩ (١٥٤) ، والأشربة ٢٥ (٥٦٣٠) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٨ (٢٦٧) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٨ (٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٥) ، و مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٠، ٣٠٩، ٣١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث بظاہر انس (رض) کی اس حدیث کے معارض ہے «أن النبي صلی اللہ عليه وسلم کان يتنفس في الإناء ثلاثا» یعنی نبی اکرم ﷺ برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے ، ابوقتادہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی برتن سے پانی پیتے وقت برتن کو منہ سے ہٹائے بغیر برتن میں سانس لیتا ہے تو یہ مکروہ ہے ، اور انس (رض) کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے ، اور سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے جدا رکھتے تھے ، اس توجیہ سے دونوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (23) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1889
مشکیزہ اوندھا کرکے پانی پینا منع ہے
ابو سعید خدری (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے) مشکیزوں سے منہ لگا کر پینے سے منع کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأشربة ٢٣ (٥٦٢٤) ، صحیح مسلم/الأشربة (٢٠٢٣) ، سنن ابی داود/ الأشربة ١٥ (٣٧٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ١٩ (٣٤١٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٣٨) ، و مسند احمد (٣/٦، ٦٧، ٦٩، ٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں : ( ١ ) مشکیزہ سے برابر منہ لگا کر پانی پینے سے پانی کا ذائقہ بدل سکتا ہے ، ( ٢ ) اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں اس میں کوئی زہریلا کیڑا مکوڑا نہ ہو ، ( ٣ ) مشکیزہ کا منہ اگر کشادہ اور بڑا ہے تو اس کے منہ سے پانی پینے کی صورت میں پینے والا گرنے والے پانی کے چھینٹوں سے نہیں بچ سکتا ، اور اس کے حلق میں ضرورت سے زیادہ پانی جاسکتا ہے کہ جس میں اچھو آنے کا خطرہ ہوتا ہے جو نقصان دہ ہوسکتا ہے ، ( ٤ ) ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ممانعت بڑے اور کشادہ منہ والے مشکیزہ سے متعلق ہے ، ( ٥ ) کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ رخصت والی روایت اس کے لیے ناسخ ہے ، ( ٦ ) عذر کی صورت میں جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3418) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1890
اس کی اجازت
عبداللہ بن انیس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، آپ ایک لٹکی ہوئی مشکیزہ کے پاس گئے، اسے جھکایا، پھر اس کے منہ سے پانی پیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس باب میں ام سلیم سے بھی روایت ہے (جو آگے آرہی ہے) ، ٢ - اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے، عبداللہ بن عمر حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، میں نہیں جانتا ہوں کہ انہوں نے عیسیٰ سے حدیث سنی ہے یا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأشربة ١٥ (٣٧٢١) ، (تحفة الأشراف : ٥١٤٩) (منکر) (سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہیں، اور یہ حدیث پچھلی صحیح حدیث کے برخلاف ہے ) قال الشيخ الألباني : منكر، ضعيف أبي داود // 797 / 3721 // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1891
اس کی اجازت
کبشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے، آپ نے ایک لٹکی ہوئی مشکیزہ کے منہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا، پھر میں مشکیزہ کے منہ کے پاس گئی اور اس کو کاٹ لیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢١ (٣٤٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٩) ، و مسند احمد (٦/٤٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اپنے پاس تبرکاً رکھنے کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4281) ، مختصر الشمائل (182) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1892
داہنے ہاتھ والے پہلے پینے کے زیادہ مستحق ہیں
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں دودھ پیش کیا گیا جس میں پانی ملا ہوا تھا، آپ کے دائیں طرف ایک اعرابی تھا اور بائیں ابوبکر (رض)، آپ نے دودھ پیا، پھر (بچا ہوا دودھ) اعرابی کو دیا اور فرمایا : دائیں طرف والا زیادہ مستحق ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس، سہل بن سعد، ابن عمر اور عبداللہ بن بسر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأشربة ١٤ (٥٦١٣) ، و ١٨ (٥٧١٩) والشرب ١ (٢٣٥٢) ، والہبة ٤ (٢٥٧١) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٧ (٢٠٢٩) ، سنن ابی داود/ الأشربة ١٩ (٣٧٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢٢ (٣٤٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤) ، و موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ ٩ (١٧) ، و مسند احمد (٣/١١٠، ١١٣، ١٩٧) ، سنن الدارمی/الأشربة ١٨ (٢١٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3425) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1893
پلانے والا آخر میں پئیے۔
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پلانے والے کو سب سے آخر میں پینا چاہیئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن ابی اوفی سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨١) ، (في سیاق طویل) سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢٦ (٣٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٦) ، و مسند احمد (٥/٣٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3434) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1894
مشروبات میں سے کون سامشروب نبی اکرم ﷺ کو زیادہ پسند تھا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میٹھا اور ٹھنڈا مشروب سب سے زیادہ پسند تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن عیینہ سے کئی لوگوں نے اسی طرح «عن معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة» روایت کی ہے، لیکن صحیح وہی ہے جو زہری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً مروی ہے (جو آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخربہ النسائي في الکبریٰ ) (تحفة الأشراف : ١٦٦٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4282 / التحقيق الثاني) ، الصحيحة (3006) ، مختصر الشمائل (175) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1895
مشروبات میں سے کون سامشروب نبی اکرم ﷺ کو زیادہ پسند تھا۔
زہری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا مشروب بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : میٹھا اور ٹھنڈا مشروب ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اسی طرح عبدالرزاق نے بھی معمر سے، معمر نے زہری سے اور زہری نے نبی اکرم ﷺ مرسلاً روایت کی ہے، ٢ - یہ ابن عیینہ (رح) کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩٣٩٤ و ١٩٤١٤) (صحیح الإسناد مرسل) (زہری تابعی ہے ان کی روایت نبی اکرم ﷺ سے مرسل ہے، اور زہری کی مراسیل کو سب سے خراب مرسل کا درجہ علماء نے دیا ہے، لیکن اس سے پہلے کی حدیث میں زہری نے بسند عروہ ام المومنین عائشہ سے یہ حدیث روایت کی ہے، اس لیے صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1895) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1896