27. فرائض کے ابواب

【1】

جس نے مال چھوڑا وہ وارثوں کے لئے ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے (مرنے کے بعد) کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس نے ایسی اولاد چھوڑی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت میرے ذمہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - زہری نے یہ حدیث «عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے اور وہ حدیث اس سے طویل اور مکمل ہے، ٣ - اس باب میں جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - «ضياعا» کا معنی یہ ہے کہ ایسی اولاد جس کے پاس کچھ نہ ہو تو میں ان کی کفالت کروں گا اور ان پر خرچ کروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٠٧٠ (تحفة الأشراف : ١٥١٠٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایسے مسلمان یتیموں اور بیواؤں کی کفالت اس حدیث کی رُو سے مسلم حاکم کے ذمے ہے کہ جن کا مورث ان کے لیے کوئی وراثت چھوڑ کر نہ مرا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وهو طرف من حديث تقدم بتمامه (1082) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2090

【2】

فرائض کی تعلیم

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن اور علم فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ اس لیے کہ میں وفات پانے والا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث میں اضطراب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٨) (ضعیف) (سند میں شہر بن حوشب اور محمد بن قاسم اسدی دونوں ضعیف ہیں، اسدی کی بعض لوگوں نے تکذیب تک کی ہے، الإرواء : ١٦٦٤، ١٦٦٥) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (244) ، الإرواء (1664) // ضعيف الجامع الصغير (2450) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2091 ابواسامہ نے یہ حدیث «عن عوف عن رجل عن سليمان بن جابر عن ابن مسعود عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے۔ اور اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ محمد بن قاسم اسدی کو احمد بن حنبل وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٢٣٥) وأخرجہ النسائی من طرق (٦٣٠٥، ٦٣٠٦ من الکبری) (ضعیف) (سند میں اضطراب ہے، جس کی طرف مؤلف نے اشارہ کیا اور اس کی تفصیل نسائی میں ہے، حافظ ابن حجر کے نزدیک سند میں اختلاف کا سبب عوف ہیں، النکت الظراف، الإرواء : ١٦٦٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (244) ، الإرواء (1664) // ضعيف الجامع الصغير (2450) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2091

【3】

لڑکیوں کی میراث

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دو بیٹیوں کو جو سعد سے پیدا ہوئی تھیں لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں، ان کے باپ آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہوگئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے، اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا، اور بغیر مال کے ان کی شادی نہیں ہوگی۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا ، چناچہ اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان (لڑکیوں) کے چچا کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو مال کا دو تہائی حصہ دے دو اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ، اور جو بچے وہ تمہارا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - عبداللہ بن محمد بن عقیل سے شریک نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفرائض ٤ (٢٨٩١) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٢ (٢٧٢٠) (تحفة الأشراف : ٢٣٦٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کل ترکہ ٢٤ حصے فرض کریں گے جن میں سے : کل وراثت میں سے بیٹیوں کا ٢ /٣ (دو تہائی) = ١٦ حصے ، مرنے والے کی بیوی کا ١ /٨ (آٹھواں حصہ) = ٣ حصے اور باقی بھائی کا = ٥ حصے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2720) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2092

【4】

بیٹی کے ساتھ پوتیوں کی میراث

ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ان سے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا، ان دونوں نے جواب دیا : بیٹی کو آدھی میراث اور حقیقی بہن کو باقی حصہ ملے گا، انہوں نے اس آدمی سے یہ بھی کہا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، وہ بھی ہماری طرح جواب دیں گے، وہ آدمی عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آیا، ان سے مسئلہ بیان کیا اور ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ نے جو کہا تھا اسے بھی بتایا، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اگر میں بھی ویسا ہی جواب دوں تب تو میں گمراہ ہوگیا اور ہدایت یافتہ نہ رہا، میں اس سلسلے میں اسی طرح فیصلہ کروں گا جیسا رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا : بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا تاکہ (بیٹیوں کا مکمل حصہ) دو تہائی پورا ہوجائے اور باقی حصہ بہن کو ملے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعبہ نے بھی ابوقیس عبدالرحمٰن بن ثروان اودی کوفی سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٨ (٦٧٣٦) ، سنن ابی داود/ الفرائض ٤ (٢٨٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٢ (٢٧٢١) (تحفة الأشراف : ٩٥٩٤) ، ودي الفرائض ٧ (٢٩٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کل ترکہ کے ( ١٢ ) حصے فرض کریں گے جن میں سے : مرنے والے کی بیٹی کے لیے کل ترکہ کا آدھا = ٦ حصے ، پوتی کے لیے چھٹا حصہ = ٢ حصے اور مرنے والے کی بہن کے لیے باقی ترکہ = ٤ حصے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2721) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2093

【5】

سگے بھائیوں کی میراث

علی (رض) کہتے ہیں کہ تم لوگ یہ آیت پڑھتے ہو «من بعد وصية توصون بها أو دين» تم سے کی گئی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد (میراث تقسیم کی جائے گی ١ ؎ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔ (اگر حقیقی بھائی اور علاتی بھائی دونوں موجود ہوں تو) حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی بھائی (جن کے باپ ایک اور ماں دوسری ہو) وارث نہیں ہوں گے، آدمی اپنے حقیقی بھائی کو وارث بناتا ہے علاتی بھائی کو نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الوصایا ٧ (٢٧١٥) ، و یأتي برقم ٢١٢٢ (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٣) ، و أحمد (١/٧٩، ١٣١، ١٤٤) (حسن) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا راوی ” حارث اعور “ ضعیف ہے، دیکھیے : الإرواء رقم : ١٦٦٧ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : آیت کے سیاق سے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میت کی وصیت پوری کی جائے گی ، پھر اس کا قرض ادا کیا جائے گا ، لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق پہلے قرض ادا کیا جائے گا ، پھر وصیت کا نفاذ ہوگا ، یہی تمام علماء کا قول بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2715) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2094

【6】

سگے بھائیوں کی میراث

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا : حقیقی بھائی وارث ہوں گے نہ کہ علاتی بھائی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم اس حدیث کو صرف ابواسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ابواسحاق سبیعی روایت کرتے ہیں حارث سے اور حارث، علی (رض) سے، ٢ - بعض اہل علم نے حارث کے بارے میں کلام کیا ہے، ٣ - عام اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الوصایا ٧ (٢٧١٥) (زیادةً علی الحدیث المذکور) و في الفرائض ١٠ (٢٧٣٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما قبله (2094) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2095

【7】

بیٹوں اور بیٹیوں کی میراث کے متعلق

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میری عیادت کی غرض سے تشریف لائے اس وقت میں بنی سلمہ کے محلے میں بیمار تھا، میں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں اپنا مال اپنی اولاد ١ ؎ کے درمیان کیسے تقسیم کروں ؟ آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا : پھر یہ آیت نازل ہوئی : «يوصيكم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثيين» اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (النساء : ١١ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعبہ، سفیان بن عیینہ اور دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث محمد بن منکدر کے واسطہ سے جابر (رض) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف و أعادہ في تفسیر النساء (٣٠١٥) (تحفة الأشراف : ٣٠٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگلی روایت جو صحیحین کی ہے اس میں اولاد کی بجائے بہنوں کا تذکرہ ہے ، اور صحیح واقعہ بھی یہی ہے کہ جابر (رض) کی اس وقت تو اولاد تھی ہی نہیں ، اس لیے یہ روایت صحیح ہونے کے باوجود شاذ کی قبیل سے ہوئی (دیکھئیے اگلی روایت) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2096

【8】

بہنوں کی میراث

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ میری عیادت کرنے آئے، آپ نے مجھے بیہوش پایا، آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر (رض) بھی تھے، وہ پیدل چل کر آئے، آپ ﷺ نے وضو کیا اور اپنے وضو کا بچا ہوا پانی میرے اوپر ڈال دیا، میں ہوش میں آگیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں ؟ یا میں اپنے مال (کی تقسیم) کیسے کروں ؟ (یہ راوی کا شک ہے) آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا - جابر (رض) کے پاس نو بہنیں تھیں - یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی : «يستفتونک قل اللہ يفتيكم في الکلالة» لوگ آپ سے (کلالہ ١ ؎ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے : اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے (النساء : ١٧٦ ) ۔ جابر (رض) کہتے ہیں : یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر النساء ٤ (٤٥٧٧) ، والمرضی ٥ (٥٦٥١) ، والفرائض ١٣ (٦٧٤٣) ، صحیح مسلم/الفرائض ٢ (١٦١٦) ، سنن ابی داود/ الفرائض ٢ (٢٨٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٥ (٢٧٢٨) (تحفة الأشراف : ٣٠٢٨) ، وسنن الدارمی/الطھارة ٥٥ (٧٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «کلالہ» وہ میت ہے جس کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی والد ، صرف بھائی بہن وارث بن رہے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2728) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2097

【9】

عصبہ کی میراث

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی جانب سے متعین میراث کے حصوں کو حصہ داروں تک پہنچا دو ، پھر اس کے بعد جو بچے وہ میت کے قریبی مرد رشتہ دار کا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٥ (٦٧٣٢) ، صحیح مسلم/الفرائض ١ (١٦١٥) ، سنن ابی داود/ الفرائض ٧ (٢٨٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٠ (٢٧٤٠) (تحفة الأشراف : ٥٧٠٥) ، و مسند احمد (١/٢٩٨) ، وسنن الدارمی/الفرائض ٢٨ (٢٠٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «عصبہ» وہ رشتہ دار جو باپ کی جانب سے ہوں، شرعی اصطلاح میں «عصبہ» ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو میت کی میراث میں سے متعین حصہ کے بغیر وارث ہوں۔ یعنی : «ذوی الفروض» کو دینے کے بعد جو بچ جائے اس کے وہ وارث ہوتے ہیں، جیسے بیٹا، بیٹا نہ ہونے کی صورت میں کبھی باپ، کبھی پوتا، کبھی دادا، کبھی چچا اور بھتیجا وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2740) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2098

【10】

دادا کی میراث

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا : میرا پوتا مرگیا ہے، مجھے اس کی میراث میں سے کتنا حصہ ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : تمہیں چھٹا حصہ ملے گا، جب وہ مڑ کر جانے لگا تو آپ نے اسے بلا کر کہا : تمہیں ایک اور چھٹا حصہ ملے گا ، پھر جب وہ مڑ کر جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا کر فرمایا : دوسرا چھٹا حصہ بطور خوراک ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں معقل بن یسار (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفرائض ٦ (٢٨٩٦) (تحفة الأشراف : ١٠٨٠١) (ضعیف) (سند میں قتادة اور حسن بصری دونوں مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حسن بصری کے عمران بن حصین (رض) سے سماع میں بھی سخت اختلاف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (500) // (619 / 2896) ، المشکاة (3060) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2099

【11】

دادی، نانی کی میراث،

قبیصہ بن ذویب (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) کے پاس ایک دادی یا نانی نے آ کر کہا : میرا پوتا یا نواسہ مرگیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کی کتاب (قرآن) میں میرے لیے متعین حصہ ہے۔ ابوبکر (رض) نے کہا : میں اللہ کی کتاب (قرآن) میں تمہارے لیے کوئی حصہ نہیں پاتا ہوں اور نہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے تمہارے لیے کسی حصہ کا فیصلہ کیا، البتہ میں لوگوں سے اس بارے میں پوچھوں گا۔ ابوبکر (رض) نے اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے چھٹا حصہ دیا، ابوبکر (رض) نے کہا : تمہارے ساتھ اس کو کس نے سنا ہے ؟ مغیرہ (رض) نے کہا : محمد بن مسلمہ نے۔ چناچہ ابوبکر (رض) نے اسے چھٹا حصہ دے دیا، پھر عمر (رض) کے پاس اس کے علاوہ دوسری دادی آئی (اگر پہلے والی دادی تھی تو عمر کے پاس نانی آئی اور اگر پہلی والی نانی تھی تو عمر کے پاس دادی آئی) سفیان بن عیینہ کہتے ہیں : زہری کے واسطہ سے روایت کرتے ہوئے معمر نے اس حدیث میں مجھ سے کچھ زیادہ باتیں بیان کی ہیں، لیکن زہری کے واسطہ سے مروی روایت مجھے یاد نہیں، البتہ مجھے معمر کی روایت یاد ہے کہ عمر (رض) نے کہا : اگر تم دونوں (دادی اور نانی) وارث ہو تو چھٹے حصے میں دونوں شریک ہوں گی، اور جو منفرد ہو تو چھٹا حصہ اسے ملے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفرائض ٥ (٢٨٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٤ (٢٧٢٤) (تحفة الأشراف : ١١٢٣٢) (ضعیف) (سند میں قبیصہ اور مغیرہ و ابوبکر صدیق (رض) وغیرہ کے درمیان انقطاع ہے، اور زہری کے تلامذہ کے درمیان اس حدیث کو زہری سے نقل کرنے میں اضطراب ہے، دیکھیے : ضعیف أبي داود رقم : ٤٩٧، والإروائ : ١٦٨٠ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1680) ، ضعيف أبي داود (497) // (617 / 2894) ، ضعيف ابن ماجة (595 / 2724) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2100

【12】

دادی، نانی کی میراث،

قبیصہ بن ذویب (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) کے پاس ایک دادی یا نانی میراث سے اپنا حصہ پوچھنے آئی، ابوبکر (رض) نے اس سے کہا : تمہارے لیے اللہ کی کتاب (قرآن) میں کچھ نہیں ہے اور تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی کچھ نہیں ہے، تم لوٹ جاؤ یہاں تک کہ میں لوگوں سے اس بارے میں پوچھ لوں، انہوں نے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، آپ نے دادی یا نانی کو چھٹا حصہ دیا، ابوبکر (رض) نے کہا : تمہارے ساتھ کوئی اور بھی تھا ؟ محمد بن مسلمہ انصاری (رض) کھڑے ہوئے اور اسی طرح کی بات کہی جیسی مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہی تھی۔ چناچہ ابوبکر (رض) نے اس کے لیے حکم جاری کردیا، پھر عمر (رض) کے پاس دوسری دادی (اگر پہلی دادی تھی تو دوسری نانی تھی اور اگر پہلی نانی تھی تو دوسری دادی تھی) میراث سے اپنا حصہ پوچھنے آئی۔ انہوں نے کہا : تمہارے لیے اللہ کی کتاب (قرآن) میں کچھ نہیں ہے البتہ وہی چھٹا حصہ ہے، اگر تم دونوں (دادی اور نانی) اجتماعی طور پر وارث ہو تو چھٹا حصہ تم دونوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، اور تم میں سے جو منفرد اور اکیلی ہو تو وہ اسی کو ملے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور یہ (مالک کی) روایت سفیان بن عیینہ کی روایت کی بنسبت زیادہ صحیح ہے، ٣ - اس باب میں بریدہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف انظر ما قبله (2100) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2101

【13】

باپ کی موجودگی میں دادی کی میراث

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ وہ (پوتے کے ترکہ میں) دادی اور اس کے بیٹے کے حصہ کے بارے میں کہتے ہیں : وہ پہلی دادی تھی جسے رسول اللہ ﷺ نے اس کے بیٹے کی موجودگی میں چھٹا حصہ دیا، اس وقت اس کا بیٹا زندہ تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم اسے صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ٢ - بعض صحابہ نے بیٹے کی موجودگی میں دادی کو وارث ٹھہرایا ہے اور بعض نے وارث نہیں ٹھہرایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٥٦٥) (ضعیف) (سند میں ” محمد بن سالم “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1687) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2102

【14】

ماموں کی میراث

ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے ابوعبیدہ (رض) کو لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اللہ اور اس کے رسول ولی (سرپرست) ہیں جس کا کوئی ولی (سرپرست) نہیں ہے اور ماموں اس آدمی کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ام المؤمنین عائشہ اور مقدام بن معدیکرب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفرائض ٩ (٢٧٣٧) (تحفة الأشراف : ١٠٣٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2737) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2103

【15】

ماموں کی میراث

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ماموں اس آدمی کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعض لوگوں نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ (رض) کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، ٣ - اس مسئلہ میں صحابہ کرام کا اختلاف ہے، بعض لوگوں نے ماموں، خالہ اور پھوپھی کو وارث ٹھہرایا ہے۔ ذوی الارحام (قرابت داروں) کو وارث بنانے کے بارے میں اکثر اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، ٤ - لیکن زید بن ثابت (رض) نے بھی انہیں وارث نہیں ٹھہرایا ہے یہ میراث کو بیت المال میں رکھنے کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١٦١٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2103) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2104

【16】

جو آدمی اس حالت میں فوت ہو کہ اس کا کوئی وارث نہ ہو

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک آزاد کردہ غلام کھجور کی ٹہنی سے گرا اور مرگیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دیکھو، کیا اس کا کوئی وارث ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : اس کا مال اس کے گاؤں کے کچھ لوگوں کو دے دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفرائض ٨ (٢٩٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٧ (٢٧٣٣) (تحفة الأشراف : ١٦٣٨١) ، و مسند احمد (٦/١٣٧، ١٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2733) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2105

【17】

آزاد کردہ غلام کو میراث دینا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی مرگیا اور اپنے پیچھے کوئی وارث نہیں چھوڑا سوائے ایک غلام کے جس کو اس نے آزاد کیا تھا، نبی اکرم ﷺ نے اسی غلام کو اس کی میراث دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں اہل علم کا عمل ہے کہ جب کوئی آدمی مرجائے اور اپنے پیچھے کوئی عصبہ نہ چھوڑے تو اس کا مال مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفرائض ٨ (٢٩٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١١ (٢٧٤١) (تحفة الأشراف : ٦٣٢٦) (ضعیف) (سند میں عوسجہ مجہول راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2741) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (599) ، الإرواء (1669) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2106

【18】

مسلمان اور کافر کے درمیان کوئی میراث نہیں

اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوگا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٤٨ (٤٢٨٣) ، والفرائض ٢٦ (٦٧٦٤) ، صحیح مسلم/الفرائض ١ (١٦١٤) ، سنن ابی داود/ الفرائض ١٠ (٢٩٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٦ (٢٧٣٠) (تحفة الأشراف : ١١٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کسی مرنے والے کافر رشتہ دار کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کافر اپنے مسلمان رشتہ دار کا وارث ہوگا ، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2729) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2107 اس سند سے بھی اسامہ (رض) سے ایسی ہی روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - معمر اور کئی لوگوں نے زہری سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، مالک نے اسے «عن الزهري عن علي بن حسين عن عمر بن عثمان عن أسامة بن زيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، مالک کی روایت میں وہم ہے اور یہ وہم مالک سے سرزد ہوا ہے، بعض لوگوں نے اس حدیث کی مالک سے روایت کرتے ہوئے «عن عمرو بن عثمان» کہا ہے، جب کہ مالک کے اکثر شاگردوں نے «مالک عن عمر بن عثمان» کہا ہے، ٣ - اور عمرو بن عثمان بن عفان مشہور ہیں، عثمان کے لڑکوں میں سے ہیں اور عمر بن عثمان معروف آدمی نہیں ہیں، ٤ - اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥ - اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، ٦ - بعض اہل علم نے مرتد کی میراث کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اس کا مال اس کے مسلمان وارثوں کا ہوگا، ٧ - بعض لوگوں نے کہا ہے : اس کے مسلمان وارث اس کے مال کا وارث نہیں ہوں گے، ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ (کی اسی حدیث) «لا يرث المسلم الکافر» یعنی مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا ہے سے استدلال کیا ہے شافعی کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2729) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2107

【19】

مسلمان اور کافر کے درمیان کوئی میراث نہیں

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دو مختلف مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف ابن ابی لیلیٰ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٩٣٨) (صحیح) (سند میں محمد بن أبی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : دو مختلف ملت و مذہب سے مراد بعض لوگوں نے کفر و اسلام کو لیا ہے ، اور بعض نے اسے عام رکھا ہے ، ایسی صورت میں عیسائی یہودی کا اور یہودی عیسائی کا وارث نہیں ہوگا ، پہلا ہی قول راجح ہے کیونکہ کفر کی ساری ملتیں «ملة واحدة» ایک ہی ملت ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2731 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2108

【20】

قاتل کی میراث باطل ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قاتل (مقتول کا) وارث نہیں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح نہیں ہے، یہ صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، ٢ - اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ (کی روایت) کو بعض محدثین نے ترک کردیا ہے، احمد بن حنبل انہیں لوگوں میں سے ہیں، ٣ - اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے کہ قاتل وارث نہیں ہوگا، خواہ قتل قتل عمد ہو یا قتل خطا، ٤ - بعض اہل علم کہتے ہیں : جب قتل قتل خطا ہو تو وہ وارث ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ١٤ (٢٦٤٥) ، والفرائض ٨ (٢٧٣٥) (تحفة الأشراف : ١٢٢٨٦) (صحیح) (سند میں اسحاق بن ابی فروہ ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث عمر، عبداللہ بن عمرو بن العاص، اور ابن عباس کے شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے، الإرواء : ١٦٧٠، ١٦٧١، ١٦٧٢ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2735) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2109

【21】

شوہر کی وراثت سے بیوی کو حصہ دینا

عمر (رض) کہتے ہیں کہ دیت عاقلہ ١ ؎ پر واجب ہے، اور بیوی اپنے شوہر کی دیت میں سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگی، (یہ سن کر) ضحاک بن سفیان کلابی (رض) نے عمر (رض) کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو لکھا : اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت میں سے حصہ دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٤١٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وہ رشتہ دار جو باپ کی طرف سے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2642) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2110

【22】

میراث وارثوں کے لئے اور دیت عصبہ کے ذمہ ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی ایک عورت کے بارے میں جس کا حمل ساقط ہو کر بچہ مرگیا تھا ایک «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا، (حمل گرانے والی مجرمہ ایک عورت تھی) پھر جس عورت کے بارے میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ وہ (بطور دیت) غرہ (غلام) دے، مرگئی، تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اس کی میراث اس کے لڑکوں اور شوہر میں تقسیم ہوگی، اور اس پر عائد ہونے والی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یونس نے یہ حدیث «عن الزهري عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی روایت کی ہے، ٢ - مالک نے یہ حدیث «عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة» کی سند سے روایت کی ہے، اور مالک نے «عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے جو حدیث روایت کی ہے وہ مرسل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ١١ (٦٧٤٠) ، والدیات ٢٦ (٦٩٠٩، ٦٩١٠) ، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ١١ (١٦٨١) ، سنن ابی داود/ الدیات ٢١ (٤٥٧٧) ، سنن النسائی/القسامة ٣٩ (٤٨٢١) (تحفة الأشراف : ١٣٢٢٥) ، و مسند احمد (٢/٢٣٦، ٥٣٩) (وانظر ماتقدم برقم ١٤١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2205) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2111

【23】

وہ شخص جو کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہو

تمیم داری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا : اس مشرک کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ (مسلمان) اس (نو مسلم) کی زندگی اور موت کا میں تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم اس حدیث کو صرف عبداللہ بن وہب کی روایت سے جانتے ہیں، ان کو ابن موہب بھی کہا جاتا ہے، یہ تمیم داری سے روایت کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے عبداللہ بن وہب اور تمیم داری کے درمیان قبیصہ بن ذویب کو داخل کیا ہے جو صحیح نہیں، یحییٰ بن حمزہ نے عبدالعزیز بن عمر سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی سند میں قبیصہ بن ذویب کا اضافہ کیا ہے، ٢ - بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے، ٣ - بعض لوگوں نے کہا ہے : اس کی میراث بیت المال میں رکھی جائے گی، شافعی کا یہی قول ہے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی (اس) حدیث سے استدلال کیا ہے «أن الولاء لمن أعتق» حق ولاء (میراث) اس شخص کو حاصل ہے جو آزاد کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٢٢ (تعلیقات في ترجمة الباب) سنن ابی داود/ الفرائض ١٣ (٢٩١٨) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٨ (٢٧٥٢) (تحفة الأشراف : ٢٠٥٢) ، و مسند احمد (٤/١٠٢، ١٠٣) ، وسنن الدارمی/الفرائض ٣٤ (٢٠٧٦) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2752) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2112

【24】

وہ شخص جو کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہو

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی آزاد عورت یا کسی لونڈی کے ساتھ زنا کرے تو (اس سے پیدا ہونے والا) لڑکا ولد الزنا ہوگا، نہ وہ (اس زانی کا) وارث ہوگا۔ نہ زانی (اس کا) وارث ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن لہیعہ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی اس حدیث کو عمرو بن شعیب سے روایت کیا ہے، ٢ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ولد الزنا اپنے باپ کا وارث نہیں ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٣١) (حسن صحیح) (سند میں عبداللہ بن لھیعہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3054 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2113

【25】

ولاء کا کون وارث ہوگا۔

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولاء کا وارث وہی ہوگا جو مال کا وارث ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٣٢) (ضعیف) (سند میں ابن لھیعة ضعیف ہیں، اور کوئی شاہد نہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3066 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6426) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2114

【26】

ولاء کا کون وارث ہوگا۔

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت تین قسم کی میراث اکٹھا کرتی ہے : اپنے آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث، اس لڑکے کی میراث جسے راستے سے اٹھا کر اس کی پرورش کی ہو، اور اس لڑکے کی میراث جس کو لعان کر کے اپنے ساتھ لے گئی ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث اس سند سے صرف محمد بن حرب کی روایت سے معروف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الفرائض ٩ (٢٩٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٢ (٢٧٤٢) (تحفة الأشراف : ١١٧٤٤) (ضعیف) (سند میں ” عمر بن رؤبہ “ ضعیف ہںْ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2742) // ضعيف سنن ابن ماجة (600) ، ضعيف أبي داود (623 / 3906) ، إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل (1576) ، ضعيف الجامع الصغير وزيادته الفتح الکبير (5925) ، المشکاة (3053) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2115