29. ولاء اور ہبہ کے متعلق ابواب
ولاء آزاد کرنے والے کا حق ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو خریدنے (اور آزاد کرنے) کا ارادہ کیا تو بریرہ کے گھر والوں نے ولاء (میراث) کی شرط رکھی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ولاء (میراث) کا حق اسی کو حاصل ہے جو قیمت ادا کرے یا آزاد کرنے کی نعمت کا مالک ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، وکذا رقم : ١٢٥٦ (تحفة الأشراف : ١٥٩٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ولاء سے مراد وہ حقوق ہیں جو آزاد کرنے والے کو آزاد کئے ہوئے کی نسبت سے حاصل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2589) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2125
ولاء کو بیچنے اور ہبہ کرنے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء کے بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ہم اسے صرف عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے ابن عمر کی روایت سے جانتے ہیں، اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے ولاء بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ شعبہ، سفیان ثوری اور مالک بن انس نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن دینار سے روایت ہے۔ شعبہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا : میری خواہش تھی کہ عبداللہ بن دینار اس حدیث کو بیان کرتے وقت مجھے اجازت دے دیتے اور میں کھڑا ہو کر ان کا سر چوم لیتا، ٣ - یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کی روایت کرتے وقت سند یوں بیان کی ہے «عن عبيد اللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» لیکن اس سند میں وہم ہے اور یہ وہم یحییٰ بن سلیم کی جانب سے ہوا ہے، صحیح سند یوں ہے «عن عبيد اللہ بن عمر عن عبد اللہ بن دينار عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ١ ؎ عبیداللہ بن عمر سے اسی طرح کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبیداللہ بن دینار اس حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٢٣٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نافع کی جگہ عبداللہ بن دینار کا واسطہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2747 و 2748) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2126
باپ اور آزاد کرنے والے کے علاوہ کسی کو باپ یا آزاد کرنے والا کہنا
یزید بن شریک تیمی کہتے ہیں کہ علی (رض) نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور کہا : جو کہتا ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ - جس کے اندر اونٹوں کی عمر اور جراحات (زخموں) کے احکام ہیں - کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹ کہتا ہے ١ ؎ علی (رض) نے کہا : اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عیر سے لے کر ثور تک مدینہ حرم ہے ٢ ؎ جو شخص اس کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے، اس پر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس آدمی کی نہ کوئی فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل اور جو شخص دوسرے کے باپ کی طرف اپنی نسبت کرے یا اپنے آزاد کرنے والے کے علاوہ کو اپنا مالک بنائے اس کے اوپر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اس کی نہ فرض عبادت قبول ہوگی اور نہ نفل، مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی پناہ ایک ہے ان کا معمولی شخص بھی اس پناہ کا مالک ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض لوگوں نے «عن الأعمش عن إبراهيم التيمي عن الحارث بن سويد عن علي» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ٣ - یہ حدیث کئی سندوں سے علی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١١١) ، وفضائل المدینة ١ (١٨٦٧) ، والجہاد ١٧١ (٣٠٤٧) ، والجزیة ١٠ (٣١٧٢) ، والفرائض ٢١ (٦٧٥٥) ، والدیات ٢٤ (٦٩٠٣) ، والإعتصام ٥ (٧٣٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ٨٥ (١٣٧٠) ، سنن ابی داود/ المناسک ٩٩ (٢٠٣٤) ، سنن النسائی/القسامة ٩، ١٠ (٤٧٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢١ (٢٦٥٨) (تحفة الأشراف : ١٠٣١٧) ، و مسند احمد (١/١٢٢، ١٢٦، ١٥١) ، وسنن الدارمی/الدیات ٥ (٢٤٠١) ، وانظر أیضا ماتقدم برقم : ١٤١٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علی (رض) کی اس تصریح سے روافض اور شیعہ کے اس قول کی واضح طور پر تردید ہو رہی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے علی (رض) کو کچھ ایسی خاص باتوں کی وصیت کی تھی جن کا تعلق دین و شریعت کے اسرار و رموز سے ہے ، کیونکہ صحیح حدیث میں یہ صراحت ہے کہ علی (رض) نے فرمایا :«ما عندنا شئ إلا کتاب اللہ وهذه الصحيفة عن النبي»۔ ٢ ؎ : عیر اور ثور دو پہاڑ ہیں : ثور جبل احد کے پیچھے ایک چھوٹا پہاڑ ہے۔ جب کہ عیر ذوالحلیفہ (ابیار علی) کے پاس ہے ، اور یہ دونوں پہاڑ مدینہ کے شمالاً جنوباً ہیں ، اور مدینہ کے شرقاً غرباً کالے پتھروں والے دو میدان ہیں ، مملکت سعودیہ نے پوری نشان دہی کر کے مدینہ منورہ کے حرم کی حد بندی محراب نما برجیوں کے ذریعے کردی ہے ، «جزاهم اللہ خيراً» ٣ ؎ : یعنی اس کی دی ہوئی پناہ بھی قابل احترام ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1058) ، نقد الکتانی (42) ، صحيح أبي داود (1773 و 1774) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2127
باپ کا اولاد سے انکار کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کے ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری بیوی سے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ نے پوچھا : وہ کس رنگ کے ہیں ؟ اس نے کہا : سرخ۔ آپ نے پوچھا : کیا اس میں کوئی مٹمیلے رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، اس میں ایک خاکستری رنگ کا بھی ہے۔ آپ نے پوچھا : وہ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا : شاید وہ کوئی خاندانی رگ کھینچ لایا ہوگا ١ ؎، آپ نے فرمایا : اس لڑکے نے بھی شاید کوئی خاندانی رگ کھینچ لائی ہو اور کالے رنگ کا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٦ (٥٣٠٥) ، والحدود ٤١ (٦٨٤٧) ، والإعتصام ١٢ (٧٣١٤) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٥٠٠) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٢٨ (٢٢٦٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٦ (٣٥٠٩٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٨ (٢٢٠٠) (تحفة الأشراف : ١٣١٢٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٢٣٩، ٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2102) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2128
قیافہ شناسی
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خوشی خوشی ان کے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے دیکھا نہیں، ابھی ابھی مجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ قدم (یعنی ان کا رشتہ) ایک دوسرے سے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابن عیینہ نے یہ حدیث «عن الزهري عن عروة عن عائشة» کی سند سے روایت کی ہے۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے، آپ نے فرمایا : کیا تم نے نہیں دیکھا کہ مجزز، زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید (رض) کے پاس سے گزرا، اس وقت وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا : ان قدموں (کا رشتہ) ایک دوسرے سے ہیں، ٣ - اسی طرح ہم سے سعید بن عبدالرحمٰن اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن سفيان بن عيينة هذا الحديث عن الزهري عن عروة عن عائشة» کی سند سے بیان کی ہے، یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٤ - بعض اہل علم نے اس حدیث سے قیافہ کے معتبر ہونے پر استدلال کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٥) ، وفضائل الصحابة ١٧ (٣٧٣١) ، والفرائض ٣١ (٦٧٧٠) ، صحیح مسلم/الرضاع ١١ (١٤٥٩) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٣١ (٢٢٦٧، ٢٢٦٨) ، سنن النسائی/الطلاق ٥١ (٣٥٢٣، ٣٥٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢١ (٢٣٤٩) (تحفة الأشراف : ١٦٥٨١) ، مسند احمد (٦/٢٢٦٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اہل جاہلیت زید اور ان کے بیٹے اسامہ کے نسب میں طعنہ زنی کرتے تھے کیونکہ زید گورے تھے جب کہ اسامہ کالے اور سیاہ رنگ کے تھے ، جب مجزز جیسے قیافہ شناس نے دونوں کے پیر دیکھ کر کہہ دیا کہ ان کا آپس میں نسب ثابت ہے تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے ، کیونکہ طعنہ زنی کرنے والوں کی جن کے نزدیک قیافہ شناسی معتبر تھی اس قیافہ شناس کی بات سے تکذیب ہوگئی ، اور ان دونوں کے نسب کی تصدیق ہوگئی ، یہ صرف مشرکین کے عرف سے اس طعنہ کی تردید کی وجہ سے تھا ، ورنہ آپ ﷺ بذریعہ وحی اس حقیقت سے واقف تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2349) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2129
آنحضرت ﷺ کا ہدیہ دینے پر رغبت دلانا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس لیے کہ ہدیہ دل کی کدورت کو دور کرتا ہے، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - ابومعشر کا نام نجیح ہے وہ بنی ہاشم کے (آزاد کردہ) غلام ہیں، ان کے حافظے کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٠٧٢) (ضعیف) (سند میں ابو معشر سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا، ابوہریرہ (رض) ہی سے صحیحین میں مروی ہے، دیکھیے : صحیح البخاری/الأدب ٣٠ (٦٠١٧) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٠ (١٠٣٠ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجنا چاہیئے کیوں اس سے آپس میں دلی محبت اور قلبی لگاؤ میں اضافہ ہوتا ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ ہدیہ خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے ، اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ ، بلکہ وہ ہدیہ جو مقدار میں کم ہو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں ہدیہ بھیجنے والے کو زیادہ تکلف نہیں کرنا پڑتا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن الشطر الثاني منه صحيح، المشکاة (3028) // ضعيف الجامع الصغير (2489) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2130
ہدیہ یا ہبہ دینے کے عبد واپس لینے کی کراہت کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ہدیہ دے کر پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتا رہے یہاں تک کہ جب وہ آسودہ ہوجائے تو قے کرے، پھر اسے چاٹ لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٢٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (6 / 63) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2131
ہدیہ یا ہبہ دینے کے عبد واپس لینے کی کراہت کے متعلق
عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی ہدیہ دے، پھر اسے واپس لے لے، سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دیتا ہے (وہ اسے واپس لے سکتا ہے) اور جو شخص کوئی عطیہ دے پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتا رہے یہاں تک کہ جب آسودہ ہوجائے تو قے کرے، پھر اپنا قے کھالے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شافعی کہتے ہیں : کسی ہدیہ دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ ہدیہ واپس لے لے سوائے باپ کے، کیونکہ اس کے لیے جائز ہے کہ جو ہدیہ اپنے بیٹے کو دیا ہے اسے واپس لے لے، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٢٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2131) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2132