3. وترکا بیان
وتر کی فضلیت
خارجہ بن حذافہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے ١ ؎، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر ہے، اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے نماز عشاء سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک رکھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف یزید بن ابی حبیب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- بعض محدثین کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، انہوں نے عبداللہ بن راشد زرقی کہا ہے، یہ وہم ہے (صحیح «زوفی» ہے) ٣- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، بریدہ، اور ابو بصرہ غفاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- ابو بصرہ غفاری کا نام حمیل بن بصرہ ہے، اور بعض لوگوں نے جمیل بن بصرہ کہا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اور ابو بصرہ غفاری ایک دوسرے شخص ہیں جو ابوذر (رض) سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوذر کے بھتیجے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٦ (١٤١٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٤ (١١٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٤٥٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٧) (صحیح) ” ہی خیر من حمر النعم “ ) کا فقرہ ثابت نہیں ہے (اس کے راوی ” عبداللہ بن راشد “ مجہول ہیں، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح متابعات وشواہد موجود ہیں، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی ٤٦٦) وضاحت : ١ ؎ : ایک روایت میں «زادکم» کا لفظ بھی آیا ہے ، حنفیہ نے اس لفظ سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑی ہے ، کیونکہ زیادہ کی ہوئی چیز بھی اصل چیز کی جنس ہی سے ہوتی ہے ، تو جب پانچ وقتوں کی نماز واجب ہے تو وتر بھی واجب ہوئی ، علماء نے اس کا رد کئی طریقے سے کیا ہے ، ان میں سے ایک یہ کہ فجر کی سنت کے بارے میں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے جب کہ کوئی بھی اس کو واجب نہیں مانتا ، اسی طرح بدوی کی وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ ان پانچ کے علاوہ بھی اللہ نے مجھ پر کوئی نماز فرض کی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ نہیں ، نیز مزید کا مزید فیہ کے جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے ، ( مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے : تحفۃ الأحوذی ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله : هى خير لکم من حمر النعم ، ابن ماجة (1168) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 452
وتر فرض نہیں ہے
علی (رض) کہتے ہیں : وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ١ ؎، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا : اللہ وتر (طاق) ٢ ؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن ! ٣ ؎ تم وتر پڑھا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٦ (١٤١٦) ، (الشطر الأخیر فحسب) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٧ (١٦٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٤ (١١٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠١٣٥) ، مسند احمد (١/٨٦، ٩٨، ١٠٠، ١٠٧، ١١٥، ١٤٤، ١٤٥، ١٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦٢١) (صحیح) (سند میں ” ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ ٢ ؎ : اللہ وتر ( طاق ) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔ ٣ ؎ : صحابہ کرام (رض) اجمعین کو نبی اکرم ﷺ نے اہل قرآن کہا ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے ، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے ، نہ کہ صرف قرآن کا ، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے ، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے ، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1169) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 453
None
وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اسے سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق «أبی اسحاق عن عاصم بن حمزة عن علی» روایت کیا ہے ۱؎ اور یہ روایت ابوبکر بن عیاش کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اسے منصور بن معتمر نے بھی ابواسحاق سے ابوبکر بن عیاش ہی کی طرح روایت کیا ہے۔
None
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں وتر سونے سے پہلے پڑھ لیا کروں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوذر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ آدمی جب تک وتر نہ پڑھ لے نہ سوئے۔
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری پہر میں نہیں اٹھ سکے گا، تو وہ رات کے شروع میں ہی وتر پڑھ لے۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کی امید رکھتا ہو تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصے میں قرآن پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہ افضل وقت ہے“۔
وتر رات کے اول اور آخر دونوں وقتوں میں جائز ہے
مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا وتر سحر تک پہنچ گیا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، جابر، ابومسعود انصاری اور ابوقتادہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- بعض اہل علم کے نزدیک یہی پسندیدہ ہے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٢ (٩٩٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٥) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٣ (١٤٣٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢١ (١١٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٥٣) ، مسند احمد (٦/٤٦، ١٠، ١٠٧، ١٢٩، ٢٠٤، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١١ (١٦٢٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں حدیثوں اور اس باب میں مروی دیگر حدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پر منحصر ہے ، وہ جب آخری پہر رات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتا ہو تو عشاء کے بعد یا سونے سے پہلے ہی وتر نہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے ، اور اگر اس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے ، اس مسئلہ میں ہر طرح کی گنجائش ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1185) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 456
وتر کی سات رکعات
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہوگئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام سلمہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- نبی اکرم ﷺ سے وتر تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک سب مروی ہیں، ٤- اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) کہتے ہیں : یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد (قیام اللیل) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے، تو اس میں قیام اللیل (تہجد) کو بھی وتر کا نام دے دیا گیا ہے، انہوں نے اس سلسلے میں عائشہ (رض) سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے اور نبی اکرم ﷺ کے فرمان اے اہل قرآن ! وتر پڑھا کرو سے بھی دلیل لی ہے۔ ابن راہویہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس سے قیام اللیل مراد لی ہے، اور قیام اللیل صرف قرآن کے ماننے والوں پر ہے (نہ کہ دوسرے مذاہب والوں پر) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٣٩ (١٧٠٩) ، و ٤٥ (١٧٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٢٢) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : ہمارے اس نسخے اور ایسے ہی سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں علامہ احمد شاکر کے سنن ترمذی کے نمبرات کا لحاظ کیا گیا ہے ، احمد شاکر کے نسخے میں غلطی سے ( ٤٥٨) نمبر نہیں ہے ، اس لیے ہم نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، لیکن اوپر ( ٤٥٥) مکرر آیا ہے اس لیے آگے نمبرات کا تسلسل صحیح ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 457
وتر کی پانچ رکعات
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ کی قیام اللیل (تہجد) تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ ان میں پانچ رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں، ان (پانچ) میں آپ صرف آخری رکعت ہی میں قعدہ کرتے تھے، پھر جب مؤذن اذان دیتا تو آپ کھڑے ہوجاتے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوایوب (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ (جس) وتر کی پانچ رکعتیں ہیں، ان میں وہ صرف آخری رکعت میں قعدہ کرے گا، ٤- میں نے اس حدیث کے بارے میں کہ نبی اکرم ﷺ نو اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے ابومصعب مدینی سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ نو اور سات رکعتیں کیسے پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ دو دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے جاتے، پھر ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٩٨١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1209 و 1210) ، صلاة التراويح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 459
وتر میں تین رکعتیں ہیں
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ان میں مفصل میں سے نو سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے، اور سب سے آخر میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عمران بن حصین، ام المؤمنین عائشہ (رض)، ابن عباس، ابوایوب انصاری اور عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اسے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے (براہ راست) روایت کی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «ابی» کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور بعض نے «ابی» کے واسطے کا ذکر کیا ہے۔ ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ آدمی وتر تین رکعت پڑھے، ٣- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو پانچ رکعت وتر پڑھو، اور چاہو تو تین رکعت پڑھو، اور چاہو تو صرف ایک رکعت پڑھو۔ اور میں تین رکعت ہی پڑھنے کو مستحب سمجھتا ہوں۔ ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے، ٤- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ لوگ وتر کبھی پانچ رکعت پڑھتے تھے، کبھی تین اور کبھی ایک، وہ ہر ایک کو مستحسن سمجھتے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٩٣٠١) (ضعیف جداً ) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث حارث اعور کی وجہ سے ضعیف ہے ، مگر اس کیفیت کے ساتھ ضعیف ہے ، نہ کہ تین رکعت وتر پڑھنے کی بات ضعیف ہے ، کئی ایک صحیح حدیثیں مروی ہیں کہ آپ ﷺ تین رکعت وتر پڑتے تھے ، پہلی میں «سبح اسم ربک الاعلی» دوسری میں «قل يا ايها الکافرون» اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔ ٢ ؎ : سارے ائمہ کرام و علماء امت اس بات کے قائل ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے پانچ رکعت پڑھے ، چاہے تین ، یا ایک ، سب کے سلسلے میں صحیح احادیث وارد ہیں ، اور یہ بات کہ نہ تین سے زیادہ وتر جائز ہے نہ تین سے کم ( ایک ) تو اس بات کے قائل صرف ائمہ احناف ہیں ، وہ بھی دو رکعت کے بعد قعدہ کے ساتھ جس سے وتر کی مغرب سے مشابہت ہوجاتی ہے ، جبکہ اس بات سے منع کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، المشکاة (1281) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 460
وتر میں ایک رکعت پڑھنا
انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا : کیا میں فجر کی دو رکعت سنت لمبی پڑھوں ؟ تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور وتر ایک رکعت، اور فجر کی دو رکعت سنت پڑھتے (گویا کہ) تکبیر آپ کے کانوں میں ہو رہی ہوتی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، جابر، فضل بن عباس، ابوایوب انصاری اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ و تابعین میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ آدمی دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان (سلام کے ذریعہ) فصل کرے، ایک رکعت سے وتر کرے۔ مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٢ (٩٩٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (١٥٧/٧٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠١ (١١٤٤) ، (مختصرا) ( تحفة الأشراف : ٦٦٥٢) ، مسند احمد (٢/٣١، ٤٩، ٧٨، ٨٨، ١٢٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : گویا تکبیر آپ ﷺ کے دونوں کانوں میں ہو رہی ہوتی کا مطلب ہے کہ فجر کی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادا فرماتے گویا تکبیر کی آواز آپ کے کانوں میں آرہی ہے اور آپ تکبیر تحریمہ فوت ہوجانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں۔ ٢ ؎ : نبی اکرم ﷺ کی وتر کے بارے میں وارد احادیث میں یہ صورت بھی ہے ، اور بغیر سلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے ، اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے ، اس کو تنگی میں محصور کردینا مناسب نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا اس ضمن میں زیادہ عمل ، وتر ایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث و آثار تین ، پانچ اور ان سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1144 و 1318) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 461
وتر کی نماز میں کیا پڑھے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ وتر میں «سبح اسم ربک الأعلی» ، «قل يا أيها الکافرون» اور «قل هو اللہ أحد» تینوں کو ایک ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی، عائشہ اور عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رضی اللہ عنہم) جنہوں نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے، بھی احادیث آئی ہیں، اور اسے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے بغیر ابی کے واسطے کے براہ راست نبی اکرم ﷺ سے بھی روایت کیا جاتا ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ وتر میں تیسری رکعت میں معوذتین اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم نے جس بات کو پسند کیا ہے، وہ یہ ہے کہ «سبح اسم ربک الأعلی» ، «قل يا أيها الکافرون» اور «قل هو اللہ أحد» تینوں میں سے ایک ایک ہر رکعت میں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٥ (١١٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٥٨٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1172) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 462
وتر کی نماز میں کیا پڑھے
عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ وتر میں کیا پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : پہلی رکعت میں «سبح اسم ربک الأعلی» ، دوسری میں «قل يا أيها الکافرون» ، اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» اور معوذتین ١ ؎ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- یہ عبدالعزیز راوی اثر عطاء کے شاگرد ابن جریج کے والد ہیں، اور ابن جریج کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے، ٣- یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بطریق : «عمرة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٣٩ (١٤٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٥ (١١٧٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٣٠٦) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ عبد العزیز کی ملاقات عائشہ (رض) سے نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1173) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 463
وتر میں قنوت پڑھنا
حسن بن علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں، وہ کلمات یہ ہیں : «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارک لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنک تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت تبارکت ربنا وتعاليت» اے اللہ ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت سے نوازا ہے، مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، میری سرپرستی فرما کر، ان لوگوں میں شامل فرما جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور جس شر کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ، یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا، اور جس کا تو والی ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہوسکتا، اے ہمارے رب ! تو بہت برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اسے ہم صرف اسی سند سے یعنی ابوالحوراء سعدی کی روایت سے جانتے ہیں، ان کا نام ربیعہ بن شیبان ہے، ٣- میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرم ﷺ سے مروی ہو معلوم نہیں، ٤- اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے، ٥- اہل علم کا وتر کے قنوت میں اختلاف ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کا خیال ہے کہ وتر میں قنوت پورے سال ہے، اور انہوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا پسند کیا ہے، اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے سفیان ثوری، ابن مبارک، اسحاق اور اہل کوفہ بھی یہی کہتے ہیں، ٦- علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے کہ وہ صرف رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد پڑھتے تھے، ٧- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٠ (١٤٢٥) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥١ (١٧٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٧ (١١٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٤٤٠٤) ، مسند احمد (١/١٩٩، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٤ (١٦٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : وتر کی اہمیت ، اور اس کی مشروعیت کے سبب اس کے وقت ، اور طریقہ نیز نبی اکرم ﷺ کی وتر کے بارے میں جو روایات وارد ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے ، کہ صلاۃ وتر پورا سال اور ہر روز ہے ، اور قنوت وتر کے بارے میں تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ رکوع سے پہلے افضل ہے ، اور قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 464
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤١ (١٤٣١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٢ (١١٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٩٨) ، مسند احمد (٣/٣١) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم متکلم فیہ راوی ہیں لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1188) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 465
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
زید بن اسلم (مرسلاً ) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، اور جب صبح کو اٹھے تو پڑھ لے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎، ٢- میں نے ابوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں، ٣- میں نے محمد (محمد بن اسماعیل بخاری) کو ذکر کرتے سنا، وہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) سے روایت کر رہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ (ان کے بھائی) عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں، ٤- کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آ جائے، گو سورج نکلنے کے بعد یاد آئے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح) (شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگر عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے طریق سے ہے ، اور وہ متکلم فیہ ہیں ، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں ، یعنی اس حدیث کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے وتر کی قضاء ثابت ہوتی ہے ، اس کے قائل بہت سے صحابہ اور ائمہ ہیں ، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگر احتیاط کی بات یہی ہے کہ وتر اگر کسی وجہ سے رہ جائے تو قضاء کرلے ، چاہے جب بھی کرے ، کیونکہ وتر سنن و نوافل نمازوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے ، اور اگر کوئی مسافر ہو اور دن بھر میں کسی وقت بھی دو رکعت بھی سنت نہ پڑھ سکا ہو تو ایسے آدمی کو وتر کی ضرورت ہی نہیں ، پھر عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھ لے تب وتر پڑھے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 466
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٣ (١٤٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ٨١٣٢) ، مسند احمد (٢/٣٧، ٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کا وقت طلوع فجر سے پہلے تک ہے جب فجر طلوع ہوگئی تو ادائیگی وتر کا وقت نکل گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2 / 154) ، صحيح أبي داود (1290) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 467
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣١ (١٦٨٤، ١٦٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٢ (١١٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٨٤) ، مسند احمد (٣/١٣، ٣٥، ٣٧، ٧١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١١ (١٦٢٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1189) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 468
جو شخص وتر پڑھنا بھول جائے یا وتر پڑھے بغیر سو جائے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب فجر طلوع ہوگئی تو تہجد (قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہوگیا، لہٰذا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سلیمان بن موسیٰ ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں، ٢- نیز نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : فجر کے بعد وتر نہیں ، ٣- بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں : یہ لوگ نماز فجر کے بعد وتر پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٦٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پچھلی حدیث کے حاشیہ میں گزرا کہ بہت سے صحابہ کرام وائمہ عظام وتر کی قضاء کے قائل ہیں ، اور یہی راجح مسلک ہے ، کیونکہ اگر وتر نہیں پڑھی تو سنن و نوافل کی جفت رکعتیں طاق نہیں ہو پائیں گی ، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2 / 154) ، صحيح أبي داود (1290) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 469
ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں
طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ایک رات میں دو بار وتر نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس شخص کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے جو رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لیتا ہو پھر رات کے آخری حصہ میں قیام اللیل (تہجد) کے لیے اٹھتا ہو، تو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کی رائے وتر کو توڑ دینے کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اس میں ایک رکعت اور ملا لے تاکہ (وہ جفت ہوجائے) پھر جتنا چاہے پڑھے اور نماز کے آخر میں وتر پڑھ لے۔ اس لیے کہ ایک رات میں دو بار وتر نہیں، اسحاق بن راہویہ اسی طرف گئے ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب اس نے رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لی پھر سو گیا، پھر رات کے آخری میں بیدار ہوا تو وہ جتنی نماز چاہے پڑھے، وتر کو نہ توڑے بلکہ وتر کو اس کے اپنے حال ہی پر رہنے دے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی اور اہل کوفہ اور احمد کا یہی قول ہے۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ کئی دوسری روایتوں میں مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٤٤ (١٤٣٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٩ (١٦٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٢٤) ، مسند احمد (٤/٢٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1293) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 470
ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوامامہ، عائشہ (رض) اور دیگر کئی لوگوں سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٥ ( ١١٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٥٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نووی کے بقول نبی اکرم ﷺ کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا ، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے ، نہ کرسکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا : وتر کو رات کی نماز ( تہجد ) میں سب سے اخیر میں کر دو تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے ، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا ، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1195) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 471
سواری پر وتر پڑھنا
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر (رض) کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا : تم کہاں رہ گئے تھے ؟ میں نے کہا : میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتا ہے۔ اور یہی شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٤- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے، جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اسے اتر کر زمین پر پڑھے۔ یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٥ (٩٩٩) ، وتقصیر الصلاة ٧ (١٠٩٥) ، و ٨ (١٠٩٨) ، و ١٢ (١١٠٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٣ (١٦٨٧-١٦٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٧ (١٢٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٨٥) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٣ (١٥) ، مسند احمد (٢/٥٧، ١٣٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سواری پر بھی وتر پڑھا کرتے تھے ، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو ناپسند کرے اور یہ صرف جائز ہے نہ کہ فرض و واجب ہے ، کبھی کبھی آپ ﷺ سواری سے اتر کر بھی پڑھا کرتے تھے ، ہر دونوں صورتیں جائز ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 472
چاشت کی نماز
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر فرمائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں ام ہانی، ابوہریرہ، نعیم بن ہمار، ابوذر، عائشہ، ابوامامہ، عتبہ بن عبد سلمی، ابن ابی اوفی، ابو سعید خدری، زید بن ارقم اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٧ (١٣٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٥) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن فلان بن انس مجہول راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس سیاق و لفظ کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے نہ کہ نفس چاشت کی صلاۃ ، آگے والی حدیث صحیح ہے جس سے آٹھ رکعت چاشت کی صلاۃ کا ثبوت ملتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1380) // عندنا برقم (291) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 473
چاشت کی نماز
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھے صرف ام ہانی (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے، ام ہانی (رض) بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ ان کے گھر میں داخل ہوئے تو غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں، میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے اس سے بھی ہلکی نماز کبھی پڑھی ہو، البتہ آپ رکوع اور سجدے پورے پورے کر رہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- احمد بن حنبل کی نظر میں اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ام ہانی (رض) کی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٢ (١١٠٣) ، والتہجد ٣١ (١١٧٦) ، والمغازی ٥٠ (٤٢٩٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٨٠/٣٣٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٠١ (١٢٩١) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٠٧) ، مسند احمد (٦/٣٤٢-٣٤٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٣) ، وانظر أیضا : صحیح البخاری/الغسل ٢١ (٢٨٠) ، والصلاة ٤ (٣٥٧) ، الجزیة ٩ (٣١٧١) ، والأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، وسنن النسائی/الطہارة ١٤٣ (٢٢٦) ، والغسل ١١ (٤١٥) ، وسنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٩ (٤٦٥) ، والإقامة ١٨٧ (١٣٢٣) ، وط/قصر الصلاة ٨ (٢٨) ، و مسند احمد (٦/٣٤١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1379) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 474
چاشت کی نماز
ابو الدرداء (رض) یا ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم ! تو دن کے شروع میں میری رضا کے لیے چار رکعتیں پڑھا کر، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٩٢٧) و ١١٩٠٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 475
چاشت کی نماز
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے چاشت کی دو رکعتوں کی محافظت کی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : وکیع، نضر بن شمیل اور دوسرے کئی ائمہ نے یہ حدیث نہ اس بن قہم سے روایت کی ہے۔ اور ہم نہ اس کو صرف ان کی اسی حدیث سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٧ (١٣٨٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٤٩١) (ضعیف) (سند میں نہ اس بن قہم ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1318) // ضعيف ابن ماجة (292 / 1382) ، ضعيف الجامع (5549) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 476
چاشت کی نماز
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ چاشت کی نماز پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے، اور آپ اسے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب اسے نہیں پڑھیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٢٢٧) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1379) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 477
زوال کے وقت نماز پڑھنا
عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، اور فرماتے : یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرا نیک عمل اس میں اوپر چڑھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن سائب (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں علی اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣١٨) ، وانظر : مسند احمد (٣/٤١١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہوسکتا ہے کہ یہ ظہر سے پہلے والی چار رکعت سنت مؤکدہ ہی ہوں ، کسی نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں یا دونوں ایک ہی ہیں۔ ٢ ؎ : یہ حدیث ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور اس میں آخر میں سلام پھیرنے ولا ٹکڑا ضعیف ہے ( دیکھئیے صحیح ابوداود ١١٥٣) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1157) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 478
نماز حاجت
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ (درود) و سلام بھیجے، پھر کہے : «لا إله إلا اللہ الحليم الكريم سبحان اللہ رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألک موجبات رحمتک وعزائم مغفرتک والغنيمة من کل بر والسلامة من کل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لک رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ حلیم (بردبار) ہے، کریم (بزرگی والا) ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین (سارے جہانوں کا پالنہار) ہے، میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتا ہوں، اور ہر نیکی میں سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین ! تو میرا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ مگر تو اسے بخش دے اور نہ کوئی غم چھوڑ، مگر تو اسے دور فرما دے اور نہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑ جس میں تیری خوشنودی ہو مگر تو اسے پوری فرما دے امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اس کی سند میں کلام ہے، فائد بن عبدالرحمٰن کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیا جاتا ہے، اور فائد ہی ابوالورقاء ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقازہ ١٨٩ (١٣٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ٥١٧٨) (ضعیف جداً ) (سند میں فائد بن عبدالرحمن سخت ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (1384) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (293) ، ضعيف الجامع الصغير (5809) ، المشکاة (1327) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 479
استخارے کی نماز
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ١ ؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے : تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے : «اللهم إني أستخيرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک وأسألک من فضلک العظيم فإنک تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارک لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» یا کہے «في عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث کان ثم أرضني به» اے اللہ ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتا ہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو علم والا ہے اور میں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے، اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے (یا آپ نے فرمایا : یا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے) بہتر ہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنا دے اور مجھے اس میں برکت عطا فرما، اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے یا فرمایا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے برا ہے تو اسے تو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔ آپ نے فرمایا : اور اپنی حاجت کا نام لے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں، ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن سے دیگر کئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے، یہی عبدالرحمٰن بن زید بن ابی الموالی ہیں، ٢- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور ابوایوب انصاری (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢٥ (١١٦٢) ، والدعوات ٤٨ (٨٣٦٢) ، التوحید ١٠ (٧٣٩٠) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦٦ (١٥٣٨) ، سنن النسائی/النکاح ٢٧ (٣٢٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٨ (١٣٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٣٠٥٥) ، مسند احمد (٣/٣٤٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں ، چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے دعا استخارہ کہا جاتا ہے ، اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے ، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے ، فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہات شرعیہ سے اجتناب ہر حال میں ضروری ہے ، ان میں استخارہ نہیں ہے۔ ٢ ؎ : یعنی : لفظ «هذا الأمر» ( یہ کام ) کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔ اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ، ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود ب اسلوب احسن بیان کرسکے اور اسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے ، یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہوچکا ہے یہ نری بدعت ہے ، استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک ، تین پانچ یا سات بار کیا جائے ، دل کا اطمینان ، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہوجائے اسے آدمی اختیار کرلے ، خواب میں بھی اس کی وضاحت ہوسکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے ، عورتیں بھی استخارہ خود کرسکتی ہیں ، کہیں پر ممانعت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1383) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 480
صلوة التسبیح
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ام سلیم (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا کہ مجھے کچھ ایسے کلمات سکھا دیجئیے جنہیں میں نماز ١ ؎ میں کہا کروں، آپ نے فرمایا : دس بار «الله أكبر» کہو، دس بار «سبحان الله» کہو، دس بار «الحمد لله» کہو، پھر جو چاہو مانگو، وہ (اللہ) ہر چیز پر ہاں، ہاں کہتا ہے ، (یعنی قبول کرتا ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، فضل بن عباس اور ابورافع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صلاۃ التسبیح کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے اور بھی کئی حدیثیں مروی ہیں لیکن کوئی زیادہ صحیح نہیں ہیں، ٤- ابن مبارک اور دیگر کئی اہل علم صلاۃ التسبیح کے قائل ہیں اور انہوں نے اس کی فضیلت کا ذکر کیا ہے، ٥- ابو وہب محمد بن مزاحم العامری نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے صلاۃ التسبیح کے بارے میں پوچھا کہ جس میں تسبیح پڑھی جاتی ہے، تو انہوں نے کہا : پہلے تکبیر تحریمہ کہے، پھر «سبحانک اللهم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالی جدک ولا إله غيرك» اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے، اے اللہ تو ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، بابرکت ہے تیرا نام، بلند ہے تیری شان اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہے، پھر پندرہ مرتبہ «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر» کہے، پھر «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» اور «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کہے، پھر سورة فاتحہ اور کوئی سورة پڑھے، پھر دس مرتبہ «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر » کہے، پھر رکوع میں جائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے، پھر سر اٹھائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے، پھر سجدہ کرے دس بار یہی کلمات کہے پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائے اور دس بار یہی کلمات کہے، پھر دوسرا سجدہ کرے اور دس بار یہی کلمات کہے، اس طرح سے وہ چاروں رکعتیں پڑھے، تو ہر رکعت میں یہ کل ٧٥ تسبیحات ہوں گی۔ ہر رکعت کے شروع میں پندرہ تسبیحیں کہے گا، پھر دس دس کہے گا، اور اگر وہ رات کو نماز پڑھ رہا ہو تو میرے نزدیک مستحب ہے کہ وہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے اور اگر دن میں پڑھے تو چاہے تو (دو رکعت کے بعد) سلام پھیرے اور چاہے تو نہ پھیرے۔ ابو وہب وہب بن زمعہ سے روایت ہے کہ عبدالعزیز بن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا : رکوع میں پہلے «سبحان ربي العظيم» اور سجدہ میں پہلے «سبحان ربي الأعلی» تین تین بار کہے، پھر تسبیحات پڑھے۔ عبدالعزیز ہی ابن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا : اگر اس نماز میں سہو ہوجائے تو کیا وہ سجدہ سہو میں دس دس تسبیحیں کہے گا ؟ انہوں نے کہا : نہیں یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٥٧ (١٣٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٥) ، مسند احمد (٣/١٢٠) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر اس حدیث کا تعلق صلاۃ التسبیح سے نہیں عام نمازوں سے ہے ، بلکہ مسند ابی یعلیٰ میں فرض صلاۃ کا لفظ وارد ہے ؟ نیز اس حدیث میں وارد طریقہ تسبیح صلاۃ التسبیح میں ہے بھی نہیں ہے ؟۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 481
صلوة التسبیح
ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے چچا) عباس (رض) سے فرمایا : اے چچا ! کیا میں آپ کے ساتھ صلہ رحمی نہ کروں، کیا میں آپ کو نہ دوں ؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہنچاؤں ؟ وہ بولے : کیوں نہیں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : آپ چار رکعت نماز پڑھیں، ہر رکعت میں سورة فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیں، جب قرأت پوری ہوجائے تو «اللہ اکبر» ، «الحمد للہ» ، «سبحان اللہ» ، «لا إلہ إلا اللہ» پندرہ مرتبہ رکوع کرنے سے پہلے کہیں، پھر رکوع میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات رکوع میں کہیں، پھر اپنا سر اٹھائیں اور یہی کلمات دس مرتبہ رکوع سے کھڑے ہو کر کہیں۔ پھر سجدے میں جائیں تو یہی کلمات دس مرتبہ کہیں، پھر سر اٹھائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ پھر دوسرے سجدے میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو کھڑے ہونے سے پہلے دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ اسی طرح ہر رکعت میں کہیں، یہ کل ٧٥ کلمات ہوئے اور چاروں رکعتوں میں تین سو کلمات ہوئے۔ تو اگر آپ کے گناہ بہت زیادہ ریت والے بادلوں کے برابر بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا ۔ تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! روزانہ یہ کلمات کہنے کی قدرت کس میں ہے ؟ آپ نے فرمایا : آپ روزانہ یہ کلمات نہیں کہہ سکتے تو ہر جمعہ کو کہیں اور اگر ہر جمعہ کو بھی نہیں کہہ سکتے تو ہر ماہ میں کہیں ، وہ برابر یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : تو ایک سال میں آپ اسے کہہ لیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابورافع (رض) کی روایت سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٠ (١٣٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٠١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ اگر آپ سال بھر میں بھی ایک بار صلاۃ التسبیح نہ پڑھ سکتے ہوں تو پھر زندگی میں ایک بار ہی سہی ، عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے مروی بعض احادیث میں ذکر ہے کہ یہ صلاۃ التسبیح سورج ڈھلنے کے بعد پڑھی جائے ، اولیٰ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1386) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 482
نبی ﷺ پر درود کس طرح بھیجا جائے
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! آپ پر سلام بھیجنا تو ہم نے جان لیا ہے ١ ؎ لیکن آپ پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟۔ آپ نے فرمایا : کہو : «اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صليت علی إبراهيم إنک حميد مجيد وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراهيم إنک حميد مجيد» ٢ ؎ اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی ہے، یقیناً تو حمید (تعریف کے قابل) اور مجید (بزرگی والا) ہے، اور محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر برکت نازل فرمائی ہے، یقیناً تو حمید (تعریف کے قابل) اور مجید (بزرگی والا) ہے ۔ زائدہ نے بطریق اعمش عن الحکم عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ ایک زائد لفظ کی روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : اور ہم (درود میں) «وعلينا معهم» یعنی اور ہمارے اوپر بھی رحمت و برکت بھیج بھی کہتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- کعب بن عجرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابوحمید، ابومسعود، طلحہ، ابوسعید، بریدہ، زید بن خارجہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٧) ، وتفسیر الأحزاب ١٠ (٤٧٩٧) ، والدعوات ٣٢ (٦٣٥٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ١٨٣ (٩٧٦) ، سنن النسائی/السہو ٥١ (١٢٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٥ (٩٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١١١٣) ، مسند احمد (٤/٢٤١، ٢٤٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٥ (١٣٨١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد وہ سلام ہے جو التحیات میں پڑھا جاتا ہے۔ ٢ ؎ : مولف نے درود ابراہیمی کے سلسلے میں مروی صرف ایک روایت کا ذکر کیا ہے ، اس باب میں کئی ایک روایات میں متعدد الفاظ وارد ہوئے ہیں ، عام طور پر جو درود ابراہیمی پڑھا جاتا ہے وہ صحیح طرق سے مروی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (704) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 483
درود کی فضلیت کے بارے میں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ١ ؎ وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ (درود) بھیجے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے، اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے ٢ ؎، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں (یہی حدیث آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٣٤) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن یعقوب صدوق لیکن سیٔ الحفظ راوی ہیں، اور محمد بن خالد بھی صدوق ہیں لیکن روایت میں خطا کرتے ہیں (التقریب) وضاحت : ١ ؎ : سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہونے کا مطلب ہے : میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ ٢ ؎ : یعنی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 280) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 484
درود کی فضلیت کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجے گا، اللہ اس کے بدلے اس پر دس بار صلاۃ (درود) بھیجے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، عامر بن ربیعہ، عمار، ابوطلحہ، انس اور ابی بن کعب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- سفیان ثوری اور دیگر کئی اہل علم سے مروی ہے کہ رب کے صلاۃ (درود) سے مراد اس کی رحمت ہے اور فرشتوں کے صلاۃ (درود) سے مراد استغفار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣٦١ (١٥٣) ، سنن النسائی/السہو ٥٥ (١٢٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٩٧٤) ، مسند احمد (٢/٣٧٣، ٣٧٥، ٤٨٥) ، سنن الدارمی/الرقاق ٥٨ (٢٨١٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1369) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 485
درود کی فضلیت کے بارے میں
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی کریم ﷺ پر صلاۃ (درود) نہیں بھیج لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٤٤٩) (حسن) (الصحیحة ٢٠٣٥) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (2035) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 486
درود کی فضلیت کے بارے میں
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں : ہمارے بازار میں کوئی خرید و فروخت نہ کرے جب تک کہ وہ دین میں خوب سمجھ نہ پیدا کرلے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب یہ باپ بیٹے اور دادا تینوں تابعی ہیں، علاء کے دادا اور یعقوب کبار تابعین میں سے ہیں، انہوں نے عمر بن خطاب (رض) کو پایا ہے اور ان سے روایت بھی کی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٦٥٨) (حسن الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : یعنی معاملات کے مسائل نہ سمجھ لے۔ ٢ ؎ : اور اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے مولف اس اثر کو اس باب میں لائے ہیں ، ورنہ اس اثر کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اوپر حدیث نمبر ( ٤٨٥) میں علاء بن عبدالرحمٰن کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کی ہے یہاں انہیں سب کا تعارف مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 487