32. خواب کا بیان

【1】

اس بارے میں کہ مومن خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب زمانہ قریب ہوجائے گا ١ ؎ تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، ان میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہوگا جس کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی، مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ٢ ؎ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں، بہتر اور اچھے خواب اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، کچھ خواب شیطان کی طرف سے تکلیف و رنج کا باعث ہوتے ہیں، اور کچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو کھڑا ہو کر تھوکے اور اسے لوگوں سے نہ بیان کرے ، آپ نے فرمایا : میں خواب میں قید (پیر میں بیڑی پہننا) پسند کرتا ہوں اور طوق کو ناپسند کرتا ہوں ٣ ؎، قید سے مراد دین پر ثابت قدمی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٢٦ (٧٠١٧) ، صحیح مسلم/الرؤیا ١ (٢٢٦٢) ، سنن ابی داود/ الأدب ٩٦ (٥٠١٩) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ٩ (٣٩١٧) (تحفة الأشراف : ١٤٤٤٤) ، سنن الدارمی/الرؤیا ٢ (٢١٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زمانہ قریب ہونے کا مطلب تین طرح سے بیان کیا جاتا ہے : پہلا مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد قرب قیامت ہے اور اس وقت کا خواب کثرت سے صحیح اور سچ ثابت ہوگا ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد دن اور رات کا برابر ہونا ہے ، تیسرا مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد زمانہ کا چھوٹا ہونا ہے یعنی ایک سال ایک ماہ کے برابر ، ایک ماہ ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک گھڑی کے برابر ہوگا۔ ٢ ؎ : اس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں : پہلا مفہوم یہ ہے کہ مومن کا خواب صحیح اور سچ ہوتا ہے ، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ابتدائی دور میں چھ ماہ تک آپ کے پاس وحی خواب کی شکل میں آتی تھی ، یہ مدت آپ کی نبوت کے کامل مدت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے اس طرح سچا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ بنتا ہے۔ ٣ ؎ : کیونکہ طوق پہننے سے اشارہ قرض دار رہنے ، کسی کے مظالم کا شکار بننے اور محکوم علیہ ہونے کی جانب ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2270

【2】

اس بارے میں کہ مومن خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبادہ کی حدیث صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، ابورزین عقیلی، ابو سعید خدری، عبداللہ بن عمرو، عوف بن مالک، ابن عمر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٤ (٦٩٨٧) ، صحیح مسلم/الرؤیا ١ (٢٦٦٤) ، سنن ابی داود/ الأدب ٩٦ (٥٠١٨) (تحفة الأشراف : ٥٠٦٩) ، وسنن الدارمی/الرؤیا ٢ (٢١٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2271

【3】

نبوت چلی گئی اور بشارتیں باقی ہیں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہوگا ، انس کہتے ہیں : یہ بات لوگوں پر گراں گزری تو آپ نے فرمایا : البتہ بشارتیں باقی ہیں ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بشارتیں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : مسلمان کا خواب اور یہ نبوت کا ایک حصہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے یعنی مختار بن فلفل کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، حذیفہ بن اسید، ابن عباس، ام کرز اور ابواسید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر صحیح البخاری/التعبیر ٢ (٦٩٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢) ، وط/الرؤیا ١ (١) ، و مسند احمد (٣/٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کی بعثت اس امت کے لیے سب سے عظیم بشارت تھی ، اللہ رب العالمین نے نبی اکرم ﷺ کو مبعوث فرما کر جو احسان اس امت پر کیا ہے ایسا احسان کسی دوسری امت پر نہیں کیا ، اسے اسلام جیسی نعمت سے سرفراز کیا ، رب العالمین اپنے اس احسان کا ذکر کچھ اس طرح فرما رہا ہے «لقد من اللہ علی المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم» (آل عمران : ١٦٤ ) ، آپ کی ذات گرامی اس امت کے لیے سراپا بشارت ہی بشارت تھی ، دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد آپ کے فرمان کے مطابق بشارتوں میں سے اچھے خواب کے علاوہ کوئی دوسری چیز باتی نہ رہ گئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2272

【4】

نبوت چلی گئی اور بشارتیں باقی ہیں

عطاء بن یسار مصر کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو الدرداء (رض) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «لهم البشری في الحياة الدنيا» ان کے لیے دنیاوی زندگی میں بشارت ہے (یونس : ٦٤ ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا ہے، تمہارے سوا صرف ایک آدمی نے مجھ سے پوچھا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے اس کے بارے میں تمہارے سوا کسی نے نہیں پوچھا، اس سے مراد نیک اور اچھے خواب ہیں جسے مسلمان دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں عبادہ بن صامت (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر یونس (٣١٠٦) (تحفة الأشراف : ١٠٩٧٧) (صحیح) (سند میں ایک مبہم راوی ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھیے الصحیحہ رقم : ١٧٨٦ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1786) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2273

【5】

نبوت چلی گئی اور بشارتیں باقی ہیں

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سچے خواب وہ ہیں جو سحری (صبح) کے وقت آتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٥٢) ، وانظر سنن الدارمی/الرؤیا ٩ (٢١٩٢) (ضعیف) (سند میں دراج بن سمعان ابو السمح کی ابوالہیثم سے روایت ضعیف ہے، اور ابو لہیعہ میں بھی حافظہ میں اختلاط (گڑبڑی) کی وجہ سے ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1732) // ضعيف الجامع الصغير (887) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2274

【6】

نبوت چلی گئی اور بشارتیں باقی ہیں

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے آیت کریمہ : «لهم البشری في الحياة الدنيا» کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اس سے مراد اچھے اور نیک خواب ہیں جسے مومن دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - حرب نے اپنی حدیث میں یحییٰ بن ابی کثیر سے «عنعنہ» کے بجائے صیغہ تحدیث «حدثني» کے صیغے کے ساتھ روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الرؤیا ١ (٣٨٩٨) (تحفة الأشراف : ٥١٢٣) (صحیح) (ابن ماجہ کی سند متصل ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1786) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2275

【7】

نبی ﷺ کے اس قول کے بارے میں کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا بے شک اس نے مجھے ہی دیکھا

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا، اس لیے کہ شیطان میری شکل اختیار نہیں کرسکتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، ابوقتادہ، ابن عباس، ابو سعید خدری، جابر، انس، ابو مالک اشجعی کے والد، ابوبکرہ اور ابوحجیفہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الرؤیا ٢ (٣٩٠٠) (تحفة الأشراف : ٩٥٠٩) ، و مسند احمد (١/٣٧٥، ٤٠٠، ٤٤٠) ، وسنن الدارمی/الرؤیا ٤ (٢١٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3900) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2276

【8】

اس بارے میں کہ اگر خواب میں کوئی مکروہ چیز دیکھے تو کیا کرے

ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں، اور برے خواب شیطان کی طرف سے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو تین بار اپنے بائیں طرف تھوکے اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے، ایسا کرنے پر وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابوسعید، جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٩٢) ، والتعبیر ٤ (٦٩٨٦) ، صحیح مسلم/الرؤیا ١ (٢٢٦١) ، سنن ابی داود/ الأدب ٩٦ (٥٠٢١) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ٣ (٣٩٠٩) (تحفة الأشراف : ١٢١٣٥) ، وط/الرؤیا ١ (٤) ، وسنن الدارمی/الرؤیا ٥ (٢١٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2277

【9】

اس بارے میں کہ اگر خواب میں کوئی مکروہ چیز دیکھے تو کیا کرے

ابورزین عقیلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کا خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہے اور خواب کی جب تک تعبیر نہ بیان کی جائے وہ ایک پرندے کے پنجہ میں ہوتا ہے، پھر جب تعبیر بیان کردی جاتی ہے تو وہ واقع ہوجاتا ہے ١ ؎، ابورزین کہتے ہیں : میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا : خواب صرف اس سے بیان کرو جو عقلمند ہو یا جس سے تمہاری دوستی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٦ (٥٠٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ٦ (٣٩١٤) (تحفة الأشراف : ١١١٧٤) ، و سنن الدارمی/الرؤیا ١١ (٢١٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس خواب کی تعبیر جب تک بیان نہیں کی جاتی یہ خواب معلق رہتا ہے ، اس کے لیے ٹھہراؤ نہیں ہوتا ، تعبیر آ جانے کے بعد ہی اسے قرار حاصل ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (120) ، المشکاة (4622 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2278

【10】

اس بارے میں کہ اگر خواب میں کوئی مکروہ چیز دیکھے تو کیا کرے

ابورزین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتا ہے اور خواب کی جب تک تعبیر نہ بیان کی جائے وہ ایک پرندے کے پنجہ میں ہوتا ہے پھر جب تعبیر بیان کردی جاتی ہے تو وہ واقع ہوجاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابورزین عقیلی کا نام لقیط بن عامر ہے، ٣ - حماد بن سلمہ نے اسے یعلیٰ بن عطاء سے روایت کرتے ہوئے وكيع بن حدس کہا ہے جب کہ شعبہ، ابو عوانہ اور ہشیم نے اسے یعلیٰ بن عطاء سے روایت کرتے ہوئے وكيع بن عدس کہا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2278) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2279

【11】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خواب تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک خواب وہ ہے جو سچا ہوتا ہے، ایک خواب وہ ہے کہ آدمی جو کچھ سوچتا رہتا ہے، اسی کو خواب میں دیکھتا ہے، اور ایک خواب ایسا ہے جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور غم و صدمہ کا سبب ہوتا ہے، لہٰذا جو شخص خواب میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو اسے چاہیئے کہ وہ اٹھ کر نماز پڑھے، آپ ﷺ کہا کرتے تھے : مجھے خواب میں بیڑی کا دیکھنا اچھا لگتا ہے اور طوق دیکھنے کو میں ناپسند کرتا ہوں، بیڑی کی تعبیر دین پر ثابت قدمی (جمے رہنا) ہے ، آپ ﷺ کہا کرتے تھے : جس نے خواب میں مجھے دیکھا تو وہ میں ہی ہوں، اس لیے کہ شیطان میری شکل نہیں اپنا سکتا ہے ، آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے : خواب کسی عالم یا خیرخواہ سے ہی بیان کیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس، ابوبکرہ، ام العلاء، ابن عمر، عائشہ، ابوموسیٰ ، جابر، ابو سعید خدری، ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وھو طرف من الحدیث الأول في الکتاب رقم ٢٢٧٠) (تحفة الأشراف : ١٤٤٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (119 و 120 و 1341) ، الروض النضير (1162) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2280

【12】

جھوٹا خواب بیان کرنا

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص جھوٹا خواب بیان کرے، قیامت کے دن اسے جو کے درمیان گرہ لگانے پر مکلف کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠١٧٢) ، وانظر مسند احمد (١/٧٦، ٩٠، ١٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2359) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2281

【13】

جھوٹا خواب بیان کرنا

اس سند سے بھی علی (رض) نبی اکرم ﷺ کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٣ - اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، ابوشریح اور واثلہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2282

【14】

جھوٹا خواب بیان کرنا

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص جھوٹا خواب بیان کرے تو قیامت کے دن دو جو کے درمیان گرہ لگانے پر مکلف کیا جائے گا اور وہ ان دونوں کے درمیان گرہ ہرگز نہیں لگا سکے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٤٥ (٧٠٤٢) ، سنن ابی داود/ الأدب ٩٦ (٥٠٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ٨ (٣٩١٦) (تحفة الأشراف : ٩٥٨٦) ، و مسند احمد (١/٢١٦، ٦٤٦، ٣٥٩) (وانظر تخریج حدیث رقم ١٧٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3916) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2283

【15】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میں سویا ہوا تھا کہ اس دوران میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس سے پیا پھر اپنا جو ٹھا عمر بن خطاب کو دے دیا، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ؟ فرمایا : علم سے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عمر کی حدیث صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ، ابن عباس، عبداللہ بن سلام، خزیمہ، طفیل بن سخبرہ، ابوامامہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٢ (٨٢) ، وفضائل الصحابة ٦ (٣٦٨١) ، والتعبیر ١٥ (٧٠٠٦) ، و ١٦ (٧٠٠٧) ، و ٣٤ (٧٠٢٧) ، و ٣٧ (٧٠٣٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٣٩١) ، ویأتي عند المؤلف في المناقب ١٨ (٣٦٨٧) (تحفة الأشراف : ٦٧٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علم سے اس کی تعبیر بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دودھ میں بکثرت فائدے ہیں اور رب العالمین اسے گوبر اور خون کے درمیان سے نکالتا ہے اسی طرح علم کے فوائد بےانتہا ہیں ، اسے بھی رب العالمین شک اور جہالت کے درمیان سے نکالتا ہے پھر اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2284

【16】

ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رض) بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا دیکھا : لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ قمیص پہنے ہوئے ہیں، بعض کی قمیص چھاتی تک پہنچ رہی تھی اور بعض کی اس سے نیچے تک پہنچ رہی تھی، پھر میرے سامنے عمر کو پیش کیا گیا ان کے جسم پر جو قمیص تھی وہ اسے گھسیٹ رہے تھے ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ؟ آپ نے فرمایا : دین سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر مابعدہ (تحفة الأشراف : ١٥٥٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عمر (رض) اپنے دین میں اس طرح کامل ہیں اور اسے اس طرح مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے کہ عمر (رض) کا دین ان کے لیے اٹھتے ، بیٹھتے ، سوتے جاگتے ایک محافظ کی طرح ہے ، جس طرح قمیص جسم کی حفاظت کرتی ہے گویا عمر (رض) دینی اعتبار سے اور لوگوں کی بنسبت بہت آگے ہیں اور ان کے دین سے جس طرح فائدہ پہنچ رہا ہے اسی طرح ان کے مرنے کے بعد لوگ ان کے دینی کاموں اور ان کے چھوڑے ہوئے اچھے آثار سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2285

【17】

اس سند سے ابو سعید خدری (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی اور اسی معنی کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٥ (٢٣) ، ومناقب الصحابة ٦ (٣٦٩١) ، والتعبیر ١٧ (٧٠٠٨) ، و ١٨ (٧٠٠٩) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٣٩٠) ، سنن النسائی/الإیمان ١٨ (٥٠١٤) (تحفة الأشراف : ٣٩٦١) ، و مسند احمد (٣/٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2286

【18】

نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک دن فرمایا : تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا : میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو اترا، آپ اور ابوبکر تولے گئے تو آپ ابوبکر سے بھاری نکلے، ابوبکر اور عمر تولے گئے، تو ابوبکر بھاری نکلے، عمر اور عثمان تولے گئے تو عمر بھاری نکلے پھر ترازو اٹھا لیا گیا، ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٩ (٤٦٣٤) (تحفة الأشراف : ١١٦٦٢) ، و مسند احمد (٥/٤٤، ٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ناگواری کا سبب یہ تھا کہ میزان کے اٹھا لیے جانے کا مفہوم یہ نکلا کہ عمر (رض) کے بعد فتنوں کا آغاز ہوجائے گا ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (6057 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2287

【19】

نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ورقہ (ورقہ بن نوفل) کے بارے میں پوچھا گیا تو خدیجہ نے کہا : انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کی تھی مگر وہ آپ کی نبوت کے ظہور سے پہلے وفات پا گئے، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے خواب میں انہیں دکھایا گیا ہے، اس وقت ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے، اگر وہ جہنمی ہوتے تو ان کے جسم پر کوئی دوسرا لباس ہوتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - محدثین کے نزدیک عثمان بن عبدالرحمٰن قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٥٣٦) (ضعیف) (سند میں عثمان بن عبد الرحمن متروک الحدیث راوی ہے، خود متن سے بھی اس حدیث کا منکر ہونا واضح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں دلیل ہے کہ اگر کوئی مسلمان خواب میں اپنے کسی مرے ہوئے مسلمان بھائی کے جسم پر سفید کپڑا دیکھے تو یہ اس کے حسن حال کی پیشین گوئی ہے کہ وہ جنتی ہے ، ورقہ بن نوفل خدیجہ (رض) کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے آپ ﷺ کا حال سن کر آپ کی رسالت کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ جو فرشتہ تمہارے پاس آتا ہے وہ ناموس اکبر ہے ، اپنے بڑھاپے پر افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو اس وقت آپ کا ساتھ ضرور دوں گا جس وقت آپ کی قوم آپ کو گھر سے نکال دے گی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4623) // ضعيف الجامع الصغير (792) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2288

【20】

نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا

عبداللہ بن عمر (رض) سے نبی اکرم ﷺ کے اس خواب کے بارے میں مروی ہے جس میں آپ نے ابوبکر اور عمر کو دیکھا، آپ نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ لوگ (ایک کنویں پر) جمع ہوگئے ہیں، پھر ابوبکر نے ایک یا دو ڈول کھینچے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ ان کی مغفرت کرے، پھر عمر (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے ڈول کھینچا تو وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا، میں نے کسی مضبوط اور طاقتور شخص کو نہیں دیکھا جس نے ایسا کام کیا ہو، یہاں تک کہ لوگوں نے اپنی آرام گاہوں میں جگہ پکڑی (یعنی سب آسودہ ہوگئے ١ ؎ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ ابن عمر (رض) کی روایت سے صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٣٣) ، وفضائل الصحابة ٥ (٣٦٧٦) ، و ٦ (٣٦٨٢) ، والتعبیر ٢٨ (٧٠١٩) ، و ٢٩ (٧٠٢٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٣٩٣) (تحفة الأشراف : ٧٠٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد عمر بن خطاب (رض) کی مضبوط خلافت وامارت کا دور ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2289

【21】

نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا

عبداللہ بن عمر (رض) سے نبی اکرم ﷺ کے خواب کے بارے میں روایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے پراگندہ بالوں والی ایک کالی عورت کو دیکھا جو مدینہ سے نکلی اور مہیعہ میں ٹھہر گئی (مهيعه، جحفه کا دوسرا نام ہے) ، میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ وہ مدینہ کی (بخار والی) وبا ہے جو جحفہ چلی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٤١ (٧٠٣٨) ، و ٤٢ (٧٠٣٩) ، ٤٣ (٧٠٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ١٠ (٣٩٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٢٣) ، وسنن الدارمی/الرؤیا ١٣ (٢٢٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3924) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2290

【22】

نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آخر وقت میں مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، اور خواب ان لوگوں کا سچا ہوگا جن کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی، خواب تین قسم کے ہوتے ہیں : اچھے خواب جو اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، وہ خواب جسے انسان دل میں سوچتا رہتا ہے، اور وہ خواب جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور غم کا سبب ہوتا ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خوب دیکھے تو اسے کسی سے بیان نہ کرے، اسے چاہیئے کہ اٹھ کر نماز پڑھے ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : میں خواب میں قید دیکھنا اچھا سمجھتا ہوں اور بیڑی دیکھنا برا سمجھتا ہوں، قید کی تعبیر ثابت قدمی ہے، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سے یہ حدیث مرفوعاً روایت کی ہے اور حماد بن زید نے ایوب سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٢٧٠ و ٢٢٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الحديث (2396 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2291

【23】

نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں، ان کے حال نے مجھے غم میں ڈال دیا، پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونکوں، لہٰذا میں نے پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے، میں نے ان دونوں کنگنوں کی تعبیر (نبوت کا دعویٰ کرنے والے) دو جھوٹوں سے کی جو میرے بعد نکلیں گے : ایک کا نام مسیلمہ ہوگا جو یمامہ کا رہنے والا ہوگا اور دوسرے کا نام عنسی ہوگا، جو صنعاء کا رہنے والا ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٢١) ، والمغازي ٧٠ (٤٣٧٤، ٤٣٧٥) ، و ٧١ (٤٣٧٩) ، والتعبیر ٣٨ (٧٠٣٤) ، و ٤٠ (٧٠٣٧) ، صحیح مسلم/الرؤیا ٤ (٢٢٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ١٠ (٣٩٢٢) (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٤) ، و مسند احمد (٢/٣١٩، ٣٢٨، ٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کا خواب میں یہ دیکھنا کہ آپ سونے کا دو کنگن پہنے ہوئے ہیں ، جب کہ یہ عورتوں کا زیور ہے اس طرف اشارہ تھا کہ دو جھوٹے دعویدار ایسی بات کا دعویٰ کریں گے جس کے وہ حقدار نہ ہوں گے یعنی نبوت کا دعویٰ ، اور پھونک مارنے سے ان کا اڑ جانا اس سے اشارہ تھا کہ آپ کے کام کے سامنے ان کی باتوں کا کوئی وزن نہ ہوگا وہ «لاشیٔ» کے مثل ہوں گے اور انہیں ختم کردیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2292

【24】

نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے تھے : ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : میں نے رات کو خواب میں بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، اور لوگوں کو میں نے دیکھا وہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے پی رہے ہیں، کسی نے زیادہ پیا اور کسی نے کم، اور میں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین تک لٹک رہی تھی، اللہ کے رسول ! اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ وہ رسی پکڑ کر اوپر چلے گئے، پھر آپ کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑ کر اوپر چلا گیا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑ اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور آدمی نے پکڑا تو رسی ٹوٹ گئی، پھر وہ جوڑ دی گئی تو وہ بھی اوپر چلا گیا، ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! - میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں - اللہ کی قسم ! مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا : بیان کرو ، ابوبکر نے کہا : ابر کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے اور اس سے جو گھی اور شہد ٹپک رہا تھا وہ قرآن ہے اور اس کی شیرینی اور نرمی مراد ہے، زیادہ اور کم پینے والوں سے مراد قرآن حاصل کرنے والے ہیں، اور آسمان سے زمین تک لٹکنے والی اس رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ قائم ہیں، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اوپر اٹھا لے گا، پھر اس کے بعد ایک اور آدمی پکڑے گا اور وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، اس کے بعد ایک اور آدمی پکڑے گا، تو وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، پھر اس کے بعد ایک تیسرا آدمی پکڑے گا تو رسی ٹوٹ جائے گی، پھر اس کے لیے جوڑ دی جائے گی اور وہ بھی چڑھ جائے گا، اللہ کے رسول ! بتائیے میں نے صحیح بیان کیا یا غلط ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نے کچھ صحیح بیان کیا اور کچھ غلط، ابوبکر (رض) نے کہا : میرے باپ ماں آپ پر قربان ! میں قسم دیتا ہوں آپ بتائیے میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم نہ دلاؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأیمان والنذور ١٣ (٣٢٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ١٠ (٣٩١٨) ، وانظر أیضا : صحیح البخاری/التعبیر ١١ (٧٠٠٠) ، و ٤٧ (٧٠٤٦) ، وصحیح مسلم/الرؤیا ٣ (٢٢٦٩) (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمانا کہ تم نے صحیح بیان کرنے کے ساتھ کچھ غلط بیان کیا تو ابوبکر (رض) سے تعبیر بیان کرنے میں کیا غلطی ہوئی تھی اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں : بعض کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی اجازت کے بغیر انہوں نے تعبیر بیان کی یہ ان کی غلطی ہے ، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺ نے انہیں بیان کرنے کی اجازت اپنے اس قول «أعبرها» سے دے دی تھی ، بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے آپ کے پوچھنے سے پہلے ہی تعبیر بیان کرنے کی خواہش ظاہر کردی یہ ان کی غلطی تھی ، بعض کا کہنا ہے تعبیر بیان کرنے میں غلطی واقع ہوئی تھی ، صحیح بات یہ ہے کہ اگر ابوبکر (رض) اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے آپ کو پیش نہ کرتے تو شاید آپ ﷺ اس کی تعبیر خود بیان کرتے اور ظاہر ہے کہ آپ کی بیان کردہ تعبیر اس امت کے لیے ایک بشارت ثابت ہوتی اور اس سے جو علم حاصل ہوتا وہ یقینی ہوتا نہ کہ ظنی و اجتہادی ، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کو پورا کرنا اسی وقت ضروری ہے جب اس سے کسی شر و فساد کا خطرہ نہ ہو اور اگر بات ایسی ہے تو پھر قسم کو پورا کرنا ضروری نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3918) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2293

【25】

نبی اکرم کا میزاب اور ڈول کی تعبیر بتانا

سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ہمیں فجر پڑھا کر فارغ ہوتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے : کیا تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ایک طویل قصے کے ضمن میں عوف اور جریر بن حازم سے مروی ہے، جسے یہ دونوں رجاء سے، رجاء، سمرہ سے اور سمرہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ٣ - محمد بن بشار نے اسی طرح یہ حدیث وہب بن جریر سے اختصار کے ساتھ روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩٣ (١٣٨٦) ، والتعبیر ٤٨ (٧٠٤٧) ، صحیح مسلم/الرؤیا ٤ (٢٢٧٥) (تحفة الأشراف : ٤٦٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 198 - 199) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2294