34. قیامت کا بیان

【1】

حساب وقصاص کے متعلق

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٩ (٦٥٣٩) ، والتوحید ٢٤ (٧٤٤٣) ، و ٣٦ (٧٥١٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨٥) ، والزکاة ٢٨ (١٨٤٣) (تحفة الأشراف : ٩٨٥٢) ، و مسند احمد (٤/٢٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے ، اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے ، اور نیک عمل کرتا رہے ، کیونکہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (185) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2415 ابوسائب کہتے ہیں کہ ایک دن اس حدیث کو ہم سے وکیع نے اعمش کے واسطہ سے بیان کیا پھر جب وکیع یہ حدیث بیان کر کے فارغ ہوئے تو کہا : اہل خراسان میں سے جو بھی یہاں موجود ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ اس حدیث کو خراسان میں بیان کر کے اور اسے پھیلا کر ثواب حاصل کریں۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کیونکہ جہمیہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ٢ ؎۔ ابوسائب کا نام سلمہ بن جنادہ بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرہ کوفی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح ) وضاحت : ٢ ؎ : جہمیہ اس حدیث کا انکار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس میں کلام الٰہی کا اثبات ہے اور جہمیہ اس کے منکر ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (185) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2415

【2】

حساب وقصاص کے متعلق

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے : اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اسے ہم «عن ابن مسعود عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے صرف حسین بن قیس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور حسین بن قیس اپنے حفظ کے قبیل سے ضعیف ہیں، ٣ - اس باب میں ابوبرزہ اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٣٤٦) (صحیح) (سند میں حسین بن قیس ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھیے : الصحیحة رقم : ٩٤٦ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کے مطابق جن چیزوں سے متعلق استفسار ہوگا ان میں سب سے پہلے اس زندگی کے بارے میں سوال ہوگا جس کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے ، اس لیے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں گزارنا چاہیئے ، کیونکہ اس کا حساب دینا ہے ، جوانی میں انسان اپنے آپ کو محرمات سے بچائے ، اس میں کوتاہی کرنے کی صورت میں اللہ کی گرفت سے بچنا مشکل ہوگا ، اسی طرح مال کے سلسلہ میں اسے کماتے اور خرچ کرتے وقت دونوں صورتوں میں اللہ کا ڈر دامن گیر رہے ، علم کے مطابق عمل کی بابت سوال ہوگا ، اس سے معلوم ہوا کہ دین و شریعت کا علم حاصل کرے ، کیونکہ یہی اس کے لیے مفید اور نفع بخش ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (946) ، التعليق الرغيب (1 / 76) ، الروض النضير (648) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2416

【3】

حساب وقصاص کے متعلق

ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے : اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سعید بن عبداللہ بن جریج بصریٰ ہیں اور وہ ابوبرزہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، ابوبرزہ کا نام نضلہ بن عبید ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٥٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (946) ، التعليق الرغيب (1 / 76) ، الروض النضير (648) ، تخريج اقتضاء العلم العمل (15 / 1) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2417

【4】

حساب وقصاص کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سوال کیا : کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ مفلس کسے کہتے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے یہاں مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور ضروری سامان زندگی نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہماری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن روزہ، نماز اور زکاۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پہ تہمت باندھی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، اور کسی کو مارا ہوگا، پھر اسے سب کے سامنے بٹھایا جائے گا اور بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی، پھر اگر اس کے ظلموں کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو مظلوموں کے گناہ لے کر اس پر رکھ دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٨١) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٣) ، و مسند احمد (٢/٣٠٣، ٣٣٤، ٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کی ساری نیکیاں آخرت میں چھین لی جائیں ، اس سے بدلہ لینے والے باقی رہ جائیں ، اور اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں ، یہی حقیقی مفلس ہے ، باقی وہ دنیاوی مفلس جو مال و دولت کی کمی کی وجہ سے مفلس و بےچارگی کی زندگی گزارتا ہے ، تو یہ ایسا ہے کہ اس کی زندگی کے سدھر نے کا امکان ہے ، اور اگر نہیں بھی سدھری تو اس کا یہ معاملہ اس کی موت تک ہے ، کیونکہ مرنے کے بعد اسے ایک نئی زندگی ملنے والی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (845) ، أحكام الجنائز (4) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2418

【5】

حساب وقصاص کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایسے بندے پر رحم کرے جس کے پاس اس کے بھائی کا عزت یا مال میں کوئی بدلہ ہو، پھر وہ مرنے سے پہلے ہی اس کے پاس آ کے دنیا ہی میں اس سے معاف کرا لے کیونکہ قیامت کے روز نہ تو اس کے پاس دینار ہوگا اور نہ ہی درہم، پھر اگر ظالم کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کی نیکیوں سے بدلہ لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہیں ہوں گی تو مظلوموں کے گناہ ظالم کے سر پر ڈال دیئے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث سعید مقبری کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - مالک بن انس نے «عن سعيد المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٩٥٨) (صحیح) (الصحیحة ٣٢٦٥ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف - بهذا اللفظ -، والصحيح بلفظ : من کانت عنده مظلمة لأخيه فليتحلله ... ، الضعيفة (3641) // ضعيف الجامع الصغير (3112) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2419

【6】

حساب وقصاص کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے دن) حقداروں کو ان کا پورا پورا حق دیا جائے گا، یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوذر اور عبداللہ بن انیس (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٨٢) (تحفة الأشراف : ١٤٠٧٤) ، و مسند احمد (٢/٢٣٥، ٣٠١، ٣٢٣، ٤١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1588) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2420

【7】

مقداد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن سورج کو بندوں سے قریب کردیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل یا دو میل کے فاصلے پر ہوگا ۔ راوی سلیم بن عامر کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے کون سی میل مراد لی ہے، (زمین کی مسافت یا آنکھ میں سرمہ لگانے کی سلائی) ، پھر سورج انہیں پگھلا دے گا اور لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، بعض ایڑیوں تک، بعض گھٹنے تک، بعض کمر تک اور بعض کا پسینہ منہ تک لگام کی مانند ہوگا ١ ؎، مقداد (رض) کا بیان ہے : میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پسینہ لوگوں کے منہ تک پہنچ جائے گا جیسے کہ لگام لگی ہوتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ١٥ (٢٨٦٤) (تحفة الأشراف : ١١٥٤٣) ، و مسند احمد (٦/٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سائنسی تحقیق کے مطابق سورج زمین سے نو کروڑ میل کے فاصلے پر ہے ، قیامت کے دن جب یہ صرف ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا تو اس کی حرارت کا کیا عالم ہوگا ؟ یہ اللہ کے علاوہ کون زیادہ جان سکتا ہے ، انسان کا حال پسینے میں یہ ہوگا ، اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم فرمائے آمین۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1382) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2421

【8】

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی : «يوم يقوم الناس لرب العالمين» جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (المطففین : ٦ ) ، اور کہا : اس دن لوگ اللہ کے سامنے اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ پسینہ ان کے آدھے کانوں تک ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٧ (٦٥٣١) ، وتفسیر المطففین (٤٩٣٨) ، صحیح مسلم/الجنة ١٥ (٢٨٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٣ (٤٢٧٨) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المطففین (٣٣٣٥) (تحفة الأشراف : ٧٥٤٢) ، و مسند احمد (٢/١٢، ١٩، ٣١، ٦٤، ٧٠، ١٠٥، ١١٢، ١٢٥، ١٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4278) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2422

【9】

کیفیت حشر کے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہوگا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی : «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا کنا فاعلين» جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے (الانبیاء : ١٠٤ ) ، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا : میرے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں، تو کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئی نئی باتیں نکالیں، اور جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہو یہ لوگ ہمیشہ دین سے پھرتے رہے ہیں ١ ؎، تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو (اللہ کے) نیک بندے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہی تھی : «إن تعذبهم فإنهم عبادک وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحکيم» اگر تو انہیں عذاب دے تو یقیناً یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقیناً تو غالب اور حکمت والا ہے (المائدہ : ١١٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٤٩) ، و ٤٨ (٣٤٤٧) ، وتفسیر المائدة ١٤ (٤٦٢٥) ، ١٥ (٤٦٢٦) ، تفسیر الأنبیاء ٢ (٤٢٨٤٠) ، والرقاق ٤٥ (٦٥٢٤-٦٥٢٦) ، صحیح مسلم/الجنة ١٤ (٢٨٦٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٨ (٢٠٨٣) ، و ١١٩ (٢٠٨٩) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر الأنبیاء (٣١٦٧) (تحفة الأشراف : ٥٦٢٢) ، و مسند احمد (١/٢٢٠، ٢٢٣، ٢٢٩، ٢٥٣، ٣٩٨) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٨٢ (٢٨٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابراہیم (علیہ السلام) کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے ، اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا ، اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر انسان کا ایمان و عمل درست نہ ہو تو وہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں رہا ہو ، کسی دوسری ہستی پر مغرور ہو کر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے ، بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتار ہیں ، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2423

【10】

کیفیت حشر کے متعلق

معاویہ بن حیدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم لوگ میدان حشر میں پیدل اور سوار لائے جاؤ گے اور اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جاؤ گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب کے میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح فضائل الشام (13) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2424

【11】

آخرت میں لوگوں کی پیشی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دو بار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے، اور تیسری بار ان لوگوں کے اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں اڑ رہے ہوں گے، تو کوئی اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑے ہوگا اور کوئی بائیں ہاتھ میں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ حسن کا سماع ابوہریرہ (رض) سے ثابت نہیں ہے، ٢ - بعض لوگوں نے اس حدیث کو «عن علي الرفاعي عن الحسن عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے، ٣ - یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ حسن کا سماع ابوموسیٰ اشعری سے بھی ثابت نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٠) (ضعیف) (حسن بصری کا سماع ابوہریرہ (رض) سے ثابت نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4277) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (932) عن أبي موسی، وانظر شرح العقيدة الطحاوية - طبع المکتب الإسلامي - (556) ، المشکاة (5557 و 5558) ، ضعيف الجامع الصغير (6432) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2425

【12】

اسی کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس سے حساب و کتاب میں سختی سے پوچھ تاچھ ہوگئی وہ ہلاک ہوجائے گا۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «فأما من أوتي کتابه بيمينه فسوف يحاسب حسابا يسيرا» : جس شخص کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا (الانشقاق : ٧ ) ۔ آپ نے فرمایا : اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح حسن ہے، ٢ - ایوب نے بھی ابن ابی ملیکہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٦ (١٠٣) ، وتفسیر سورة الانشقاق (٤٩٣٩) ، والرقاق ٤٩ (٦٥٣٦) ، صحیح مسلم/الجنة ١٨ (٢٨٧٦) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر الانشقاق (٣٣٣٧) (تحفة الأشراف : ١٦٢٥٤) ، و مسند احمد (٦/٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (885) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2426

【13】

اسی سے متعلق

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابن آدم کو قیامت کے روز بھیڑ کے بچے کی شکل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : میں نے تجھے مال و اسباب سے نواز دے، اور تجھ پر انعام کیا اس میں تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا اے میرے رب ! میں نے بہت سارا مال جمع کیا اور اسے بڑھایا اور دنیا میں اسے پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کر آیا، سو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج ! تاکہ میں ان سب کو لے آؤں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جو کچھ تو نے عمل خیر کیا ہے اسے دکھا، وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے بہت سارا مال جمع کیا، اسے بڑھایا اور دنیا میں پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کر آیا، مجھے دوبارہ بھیج تاکہ میں اسے لے آؤں، یہ اس بندے کا حال ہوگا جس نے خیر اور بھلائی کی راہ میں کوئی مال خرچ نہیں کیا ہوگا، چناچہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی روایت کئی لوگوں نے حسن بصری سے کی ہے، اور کہا ہے کہ یہ ان کا قول ہے، اسے مرفوع نہیں کیا، ٢ - اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں، ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٣١، و ١١٤١) (ضعیف) (سند میں اسماعیل بن مسلم بصری ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (3 / 11) // ضعيف الجامع الصغير (6413) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2427

【14】

اسی سے متعلق

ابوہریرہ اور ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ایک بندے کو لایا جائے گا، باری تعالیٰ اس سے فرمائے گا : کیا میں نے تجھے کان، آنکھ مال اور اولاد سے نہیں نوازا تھا ؟ اور چوپایوں اور کھیتی کو تیرے تابع کردیا تھا، اور قوم کا تجھے سردار بنادیا تھا جن سے بھرپور خدمت لیا کرتا تھا، پھر کیا تجھے یہ خیال بھی تھا کہ تو آج کے دن مجھ سے ملاقات کرے گا ؟ وہ عرض کرے گا : نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج میں بھی تجھے بھول جاتا ہوں جیسے تو مجھے دنیا میں بھول گیا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح غریب ہے، ٢ - اللہ تعالیٰ کے فرمان : «اليوم أنساک» کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دن میں تجھے عذاب میں ویسے ہی چھوڑ دوں گا جیسے بھولی چیز پڑی رہتی ہے۔ بعض اہل علم نے اسی طرح سے اس کی تفسیر کی ہے، ٣ - بعض اہل علم آیت کریمہ «فاليوم ننساهم» کی یہ تفسیر کی ہے کہ آج کے دن ہم تمہیں عذاب میں بھولی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠١٣، ١٢٤٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد یہ ہے جب تجھے دنیا میں میری یاد نہ رہی تو میں تجھے کیسے یاد رکھوں گا ، اس لیے تو آج سے ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی عذاب میں پڑا رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (632) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2428

【15】

اسی کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ : «يومئذ تحدث أخبارها» کی تلاوت کی اور فرمایا : کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کی خبریں کیا ہوں گی ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر مرد اور عورت کے خلاف گواہی دے گی، جو کام بھی انہوں نے زمین پر کیا ہوگا، وہ کہے گی کہ اس نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام کیا ، آپ نے فرمایا : یہی اس کی خبریں ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف و أعادہ في تفسیر إذا زلزلت (٣٣٥٣) (تحفة الأشراف : ١٣٠٧٦) (ضعیف الإسناد) (سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان لین الحدیث راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد // وسيأتي (664 / 3591) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2429

【16】

صور کے متعلق

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا : «صور» کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک سنکھ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - کئی لوگوں نے سلیمان تیمی سے اس حدیث کی روایت کی ہے، اسے ہم صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٢٤ (٤٧٤٢) (تحفة الأشراف : ٨٦٠٨) ، و مسند احمد (٢/١٦٢، ١٩٢) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٧٩ (٢٨٤٠) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر سورة القیامة (٣٣٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1080) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2430

【17】

صور کے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں کیسے آرام کروں جب کہ صور والے اسرافیل (علیہ السلام) «صور» کو منہ میں لیے ہوئے اس حکم پر کان لگائے ہوئے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم صادر ہو اور اس میں پھونک ماری جائے، گویا یہ امر صحابہ کرام (رض) پر سخت گزرا، تو آپ نے فرمایا : کہو : «حسبنا اللہ ونعم الوکيل علی اللہ توکلنا» یعنی اللہ ہمارے لیے کافی ہے کیا ہی اچھا کار ساز ہے وہ اللہ ہی پر ہم نے توکل کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - یہ حدیث عطیہ سے کئی سندوں سے ابو سعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر سورة الزمر (٣٢٤٣) (تحفة الأشراف : ٤١٩٥) ، و مسند احمد (٣/٧، ٧٣) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحہ رقم : ١٠٧٩ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2079) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2431

【18】

پل صراط کے متعلق

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پل صراط پر مومن کا شعار یہ ہوگا : «رب سلم سلم» میرے رب ! مجھے سلامت رکھ، مجھے سلامت رکھ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق (واسطی ہی) کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٥٣٣) (ضعیف) (سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں اور عبد الرحمن بن اسحاق واسطی ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1973) // ضعيف الجامع الصغير (3398) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2432

【19】

پل صراط کے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ قیامت کے دن میرے لیے شفاعت فرمائیں، آپ نے فرمایا : ضرور کروں گا ۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا ؟ آپ نے فرمایا : سب سے پہلے مجھے پل صراط پر ڈھونڈنا ، میں نے عرض کیا : اگر پل صراط پر آپ سے ملاقات نہ ہو سکے، تو فرمایا : تو اس کے بعد میزان کے پاس ڈھونڈنا ، میں نے کہا : اگر میزان کے پاس بھی ملاقات نہ ہو سکے تو ؟ فرمایا : اس کے بعد حوض کوثر پر ڈھونڈنا، اس لیے کہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی جگہ پر ضرور ملوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5595) ، التعليق الرغيب (4 / 211) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2433

【20】

شفاعت کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا : قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے ؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہوگا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کرسکیں گے، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے : کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم (علیہ السلام) کے پاس چلیں، لہٰذا لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کے اندر اپنی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے ؟ آدم (علیہ السلام) ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، یقیناً اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پاس جاؤ، چناچہ وہ لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے، اے نوح ! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے، پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح (علیہ السلام) ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کرلیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، چناچہ وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے : اے ابراہیم ! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل (یعنی گہرے دوست) ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکا ہوں (ابوحیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے) آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ، چناچہ وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، عیسیٰ کے پاس جاؤ، چناچہ وہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آ کر عرض کریں گے : اے عیسیٰ ! آپ اللہ کے رسول، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گود ہی میں کلام کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے : آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہا کہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، محمد ﷺ کے پاس جاؤ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : چناچہ وہ لوگ محمد ﷺ کے پاس آ کر عرض کریں گے : اے محمد ! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں، (آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں) پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتنا کسی پر نہیں کھولا ہوگا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد ! اپنے سر کو اٹھاؤ اور سوال کرو، اسے پورا کیا جائے گا، اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، چناچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا : اے میرے رب ! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب ! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد ! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کرلیں، جن پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے، اور یہ سب (امت محمد) دیگر دروازوں میں بھی (داخل ہونے میں) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جنت کے پٹوں میں سے دو پٹ کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان فاصلہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکر صدیق، انس، عقبہ بن عامر اور ابو سعید خدری (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٣ (٣٣٤٠) ، و ٩ (٣٣٦١) ، وتفسیر سورة الإسراء ٥ (٤٧١٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٤ (١٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٢٨ (٣٣٠٧) (وتقدیم مفصلا برقم ١٨٣٧) (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کی اس شفاعت کا بیان ہے جب سارے انبیاء اپنی اپنی بعض لغزشوں کے حوالے سے شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے ، چونکہ انبیاء (علیہم السلام) ایمان و تقویٰ کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں ، اس لیے ان کی معمولی غلطی بھی انہیں بڑی غلطی محسوس ہوتی ہے ، اسی وجہ سے وہ بارگاہ الٰہی میں پیش ہونے سے معذرت کریں گے ، لیکن نبی اکرم ﷺ اللہ کے حکم سے سفارش فرمائیں گے ، اس سے آپ ﷺ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، آپ کی شفاعت مختلف مرحلوں میں ہوگی ، آپ اپنی امت کے حق میں شفاعت فرمائیں گے ، جو مختلف مرحلوں میں ہوگی ، اس حدیث میں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے ، جس میں آپ کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں لے جانے کی اجازت دے گا جن پر حساب نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج الطحاوية (198) ، ظلال الجنة (811) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2434

【21】

اسی کے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہوگی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میری امت کے جو اہل کبائر ہوں گے اور جو اپنے گناہوں کی سزا جہنم میں بھگت رہے ہوں گے ، ایسے لوگوں کی بخشش کے لیے میری مخصوص شفاعت ہوگی ، باقی رفع درجات کے لیے انبیاء ، اولیاء ، اور دیگر متقی و پرہیزگار لوگوں کی شفاعت بھی ہوگی جو سنی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5599) ، الظلال (831 - 832) ، الروض النضير (65) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2435

【22】

اسی کے متعلق

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہوگی ۔ محمد بن علی الباقر کہتے ہیں : مجھ سے جابر (رض) نے کہا : محمد ! جو اہل کبائر میں سے نہ ہوں گے انہیں شفاعت سے کیا تعلق ؟ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث جعفر الصادق بن محمد الباقر کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٧ (٤٣١٠) (تحفة الأشراف : ٢٦٠٨) ، و مسند احمد (٣/٢١٣) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2436

【23】

اسی کے متعلق

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا، نہ ان کا حساب ہوگا اور نہ ان پر کوئی عذاب، (پھر) ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے، اور ان کے سوا میرے رب کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٤ (٤٢٨٦) (تحفة الأشراف : ٤٩٢٤) ، و مسند احمد (٥/٢٥٠، ٢٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4286) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2437

【24】

اسی کے متعلق

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں ایلیاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا، ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میری امت کے ایک فرد کی شفاعت سے قبیلہ بنی تمیم کی تعداد سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، کسی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا وہ شخص آپ کے علاوہ ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میرے علاوہ ہوگا ، پھر جب وہ (راوی حدیث) کھڑے ہوئے تو میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا یہ ابن ابی جذعاء (رض) ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ابن ابی جذعاء (رض) کا نام عبداللہ ہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث مشہور ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٧ (٤٣١٦) (تحفة الأشراف : ٥٢١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4316) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2438

【25】

اسی کے متعلق

حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عثمان بن عفان (رض) قیامت کے دن قبیلہ ربیعہ اور مضر کے برابر، لوگوں کے لیے شفاعت کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي ولایوجد في اکثر نسخ السنن) (ضعیف مرسل) (حسن بصری تابعی اور مدلس ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مرسل صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2439

【26】

اسی کے متعلق

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کا کوئی شخص کئی جماعت کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک قبیلہ کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک گروہ کے لیے شفاعت کرے گا، اور کوئی ایک آدمی کے لیے شفاعت کرے گا، یہاں تک کہ سب جنت میں داخل ہوں جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤١٩٧) (ضعیف) (سند میں ” عطیہ عوفی “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5602) // ضعيف الجامع الصغير (2002) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2440

【27】

اسی کے متعلق

عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السلام) میرے پاس آیا اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چناچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابوملیح نے ایک اور صحابی سے روایت کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، (لیکن) اس میں عوف بن مالک کا ذکر نہیں کیا، اس حدیث میں ایک طویل قصہ مذکور ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2441 اس سند سے بھی عوف بن مالک (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے (اسی میں قصہ ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2441

【28】

حوض کوثر کے بارے میں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک میرے حوض پر آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر پیالے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥٣ (٦٥٨٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٩ (٢٣٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٦ (٤٣٠٥) (تحفة الأشراف : ١٥٠٣) ، و مسند احمد (٣/٢٢٥، ٢٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4304) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2442

【29】

حوض کوثر کے بارے میں

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز ہر نبی کے لیے ایک حوض ہوگا، اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر پانی پینے والے زیادہ جمع ہوتے ہیں، اور مجھے امید ہے کہ میرے حوض پر (اللہ کے فضل سے) سب سے زیادہ لوگ جمع ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اشعث بن عبدالملک نے اس حدیث کو حسن بصری کے واسطے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں سمرہ کا ذکر نہیں کیا ہے، یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٦٠٣) (صحیح) (سند میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں، اور حسن بصری مدلس، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحة رقم : ١٥٨٩ ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج الطحاية (197) ، المشکاة (5594) ، الصحيحة (1589) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2443

【30】

حوض کوثر کے برتن کے متعلق

ابو سلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے میرے پاس بلاوے کا پیغام بھیجا، چناچہ میں ڈاک سواری خچر پر سوار ہو کر آپ کے پاس پہنچا، میں نے کہا : اے امیر المؤمنین ! ڈاک سواری خچر کی سواری مجھ پر شاق گزری تو انہوں نے کہا : ابو سلام ! میں تمہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا، لیکن میں نے تمہارے بارے میں یہ سنا ہے کہ تم ثوبان (رض) کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے حوض کوثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہو، چناچہ میری یہ خواہش ہوئی کہ وہ حدیث تم سے براہ راست سن لوں، ابو سلام نے کہا : ثوبان (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے اردن والے عمان تک کا فاصلہ ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے پیالے آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا، سب سے پہلے اس پر فقراء مہاجرین پہنچیں گے، جن کے سر دھول سے اٹے ہوں گے اور ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوں گے، جو ناز و نعم عورتوں سے نکاح نہیں کرسکتے اور نہ ان کے لیے جاہ و منزلت کے دروازے کھولے جاتے ۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا : لیکن میں نے تو ناز و نعم میں پلی عورتوں سے نکاح کیا اور میرے لیے جاہ و منزلت کے دروازے بھی کھولے گئے، میں نے فاطمہ بنت عبدالملک سے نکاح کیا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے سر کو نہیں دھوتا یہاں تک کہ وہ غبار آلود نہ ہوجائے اور اپنے بدن کے کپڑے اس وقت تک نہیں دھوتا جب تک کہ میلے نہ ہوجائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢ - یہ حدیث معدان بن ابی طلحہ کے واسطے سے «عن ثوبان عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے، ٣ - ابو سلام حبشی کا نام ممطور ہے، یہ شامی ہیں اور ثقہ راوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٦ (٤٣٠٣) (تحفة الأشراف : ٢١٢٩) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر اس کا مرفوع حصہ صحیح ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحہ رقم : ١٠٨٢ ) قال الشيخ الألباني : صحيح المرفوع منه، ابن ماجة (4303) // صحيح سنن ابن ماجة برقم (3472) ، ضعيف سنن ابن ماجة برقم (937) ، الصحيحة (1082) ، السنة لابن أبي عاصم (707 و 708) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2444

【31】

حوض کوثر کے برتن کے متعلق

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! حوض کوثر کے برتن کیسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یقیناً اس کے برتن تاروں سے بھی زیادہ ہیں اس تاریک رات میں جس میں آسمان سے بادل چھٹ گیا ہو، اور اس کے پیالے جنت کے برتنوں میں سے ہوں گے، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا، اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے، اس کا فاصلہ اتنا ہے جتنا عمان سے ایلہ تک کا فاصلہ ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں حذیفہ بن یمان، عبداللہ بن عمرو، ابوبرزہ اسلمی، ابن عمر، حارثہ بن وہب اور مستورد بن شداد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے حوض کا فاصلہ اتنا ہے جتنا کوفہ سے حجر اسود تک کا فاصلہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٩ (٢٣٠٠) (تحفة الأشراف : ١١٩٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الظلال (721) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2445

【32】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ معراج کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں آپ کا ایک نبی اور کئی نبیوں کے پاس سے گزر ہوا، ان میں سے کسی نبی کے ساتھ ان کی پوری امت تھی، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی، کسی کے ساتھ کوئی نہ تھا، یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک بڑے گروہ سے ہوا، تو آپ نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ کہا گیا : یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے، آپ اپنے سر کو بلند کیجئے اور دیکھئیے : تو یکایک میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو اس جانب سے اس جانب تک گھیر رکھا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس کے سوا آپ کی امت میں ستر ہزار اور ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے، پھر آپ ﷺ گھر میں تشریف لے گئے اور لوگ آپ سے اس کی بابت نہیں پوچھ سکے اور نہ ہی آپ نے ان کے سامنے اس کی تفسیر بیان کی، چناچہ ان میں سے بعض صحابہ نے کہا : شاید وہ ہم ہی لوگ ہوں اور بعض نے کہا : شاید ہماری وہ اولاد ہیں جو فطرت اسلام پر پیدا ہوئیں۔ لوگ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺ باہر نکل آئے اور فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدن پر داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑ پھونک اور منتر کرواتے ہیں اور نہ ہی بدفالی لیتے ہیں، وہ صرف اپنے رب پر توکل و اعتماد کرتے ہیں ، اسی اثناء میں عکاشہ بن محصن (رض) نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، (تم بھی انہی میں سے ہو) پھر ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا : کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا : عکاشہ نے تم پر سبقت حاصل کرلی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٣١ (٣٤١٠) ، والطب ١٧ (٥٧٠٥) ، و ٤٢ (٥٧٥٢) ، والرقاق ٢١ (٦٤٧٢) ، و ٥٠ (٦٥٤١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٩٤ (٢٢٠) (تحفة الأشراف : ٥٤٩٣) ، و مسند احمد (١/٢٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے ان لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جو اللہ پر اعتماد ، بھروسہ اور توکل کرتے ہیں ، جھاڑ پھونک اور بدشگونی وغیرہ سے بھی بچتے ہیں باوجود یکہ مسنون دعاؤں کے ساتھ دم کرنا اور علاج معالجہ کرنا جائز ہے یہ اللہ رب العالمین پر اعتماد و توکل کی اعلی مثال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2446

【33】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں وہ چیزیں نہیں دیکھتا جن پر ہم نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عمل کرتے تھے، راوی حدیث ابوعمران جونی نے کہا : کیا آپ نماز نہیں دیکھتے ؟ انس (رض) نے کہا : کیا تم لوگوں نے نماز میں وہ سب نہیں کیا جو تم جانتے ہو ؟ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابوعمران جونی کی روایت سے غریب حسن ہے، ٢ - یہ حدیث انس کے واسطے سے اس کے علاوہ اور کئی سندوں سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٧ (٥٢٩، ٥٣٠) (تحفة الأشراف : ١٠٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نماز کی پابندی اور اس کے اوقات میں اسے ادا کرنا اس سلسلہ میں تم لوگوں نے سستی اور کاہلی نہیں برتی ؟۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2447

【34】

اسماء بنت عمیس خثعمیہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : برا ہے وہ بندہ جو تکبر کرے اور اترائے اور اللہ بزرگ و برتر کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو مظلوموں پر قہر ڈھائے اور ظلم و زیادتی کرے اور اللہ جبار برتر کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو لہو و لعب میں مشغول ہو اور قبروں اور ہڈیوں کے سڑ گل جانے کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو حد سے آگے بڑھ جائے اور سرکشی کا راستہ اپنائے اور اپنی پیدائش اور موت کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو دین کے بدلے دنیا کو طلب کرے، اور برا ہے وہ بندہ جو اپنے دین کو شبہات سے ملائے، اور برا ہے وہ بندہ جسے لالچ اپنی طرف کھینچ لے، اور برا ہے وہ بندہ جسے اس کا ہوائے نفسانی گمراہ کر دے اور برا ہے وہ بندہ جسے حرص ذلیل و رسوا کر دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٧٥٥) (ضعیف) (سند میں ہاشم بن سعید الکوفی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5115 / التحقيق الثاني) ، الضعيفة (2026) ، الظلال (9 و 10) // ضعيف الجامع الصغير (2350) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2448

【35】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مومن بندہ کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلائے گا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز جنت کے پھل کھلائے گا، اور جو مومن بندہ کسی پیاسے مومن کو پانی پلائے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے «الرحيق المختوم» (مہر بند شراب) پلائے گا، اور جو مومن بندہ کسی ننگے بدن والے مومن کو کپڑا پہنائے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبز جوڑے پہنائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - یہ حدیث عطیہ کے واسطے سے ابو سعید خدری سے موقوفا مروی ہے، اور ہمارے نزدیک یہی سند سب سے زیادہ اقرب اور صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٤١ (١٦٨٢) (تحفة الأشراف : ٤٢٠١) ، و مسند احمد (٣/١٣) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف ہیں، نیز زیاد بن منذر بقول ابن معین : کذاب ہے، اور ابوداود کی سند میں نبی ح لین الحدیث اور ابو خالد دالانی مدلس کثیر الخطأ ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1913) ، ضعيف أبي داود (300) // (371 / 1682) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2449

【36】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو دشمن کے حملہ سے ڈرا اور شروع رات ہی میں سفر میں نکل پڑا وہ منزل کو پہنچ گیا ١ ؎، آگاہ رہو ! اللہ تعالیٰ کا سامان بڑی قیمت والا ہے، آگاہ رہو ! اللہ تعالیٰ کا سامان جنت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن، غریب ہے، اسے ہم صرف ابونضر ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٢٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ایک مثل ہے جو ان لوگوں کے لیے بیان کی گئی ہے جنہوں نے آخرت کے راستہ کو اپنا رکھا ہے ، اور اس پر گامزن ہیں ، کیونکہ شیطان ایسے لوگوں کے بہکانے کے لیے اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ، اس لیے اس راہ پر چلنے والے اگر شروع ہی سے بیدار رہے اور پورے اخلاص کے ساتھ عمل پر قائم رہے تو ایسے لوگ شیطان کے مکر اور اس کی چال سے محفوظ رہیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (954 و 2335) ، المشکاة (5348 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2450

【37】

عطیہ سعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ متقیوں کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو جس میں کوئی حرج نہ ہو، اس چیز سے بچنے کے لیے نہ چھوڑ دے، جس میں برائی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٤ (٤٢١٥) (تحفة الأشراف : ٩٩٠٢) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن یزید دمشقی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4215) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (924) ، غاية المرام (178) ، ضعيف الجامع الصغير (6320) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2451

【38】

حنظلہ اسیدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہاری وہی کیفیت رہے، جیسی میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے پروں سے تم پر سایہ کریں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث حنظلہ اسیدی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اس سند کے علاوہ دیگر سندوں سے بھی مروی ہے، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/التوبة ٤ (٢٧٥٠) (نحوہ في سیاق طویل وکذا) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٨ (٤٢٣٩) (تحفة الأشراف : ٣٤٤٨) ، و مسند احمد (٤/٣٤٦) ، ویأتي برقم ٢٥١٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کی مجلس میں رہنے سے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے ، آخرت یاد آتی ہے ، اور دنیا کی چاہت کم ہوجاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (1976) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2452

【39】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر چیز کی ایک حرص و نشاط ہوتی ہے، اور ہر حرص و نشاط کی ایک کمزوری ہوتی ہے، تو اگر اس کا اپنانے والا معتدل مناسب رفتار چلا اور حق کے قریب ہوتا رہا تو اس کی بہتری کی امید رکھو، اور اگر اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے تو اسے کچھ شمار میں نہ لاؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کے بگاڑ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے دین یا دنیا کے بارے میں اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں، مگر جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٨٧٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ ہر کام میں شروع میں جوش و خروش ہوتا ہے ، اور عبادت و ریاضت کا بھی یہی حال ہے ، لہٰذا عابد و زاہد اگر اپنے عمل میں معتدل رہا اور افراط و تفریط سے بچ کر حق سے قریب رہا تو اس کے لیے خیر کی امید ہے ، اور اس کی عبادت کا چرچا ہوا تو شہرت کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہے ، معلوم ہوا کہ اعتدال کی راہ سلامتی کی راہ ہے اور شہرت کا انجام حسرت و ندامت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5325 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (1 / 46) ، الظلال (1 / 28) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2453

【40】

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مربع خط (یعنی چوکور) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا : یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤ (٦٤١٧) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢١٣) (تحفة الأشراف : ٩٢٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آرزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں ، وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتا ہے ، لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ، اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتا ہے ، گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے ، اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2454

【41】

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن اس کی دو خواہشیں جوان رہتی ہیں : ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٣٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4234) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2455

【42】

عبداللہ بن شخیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں، اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہوجائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٥٠ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن ومضی (2151) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا برقم (1747 - 2255 ) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2456

【43】

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ ﷺ اٹھتے اور فرماتے : لوگو ! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ پر بہت صلاۃ (درود) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : جتنا تم چاہو ، میں نے عرض کیا چوتھائی ؟ آپ نے فرمایا : جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے ، میں نے عرض کیا : آدھا ؟ آپ نے فرمایا : جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی ؟ آپ نے فرمایا : جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا : وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں ؟۔ آپ نے فرمایا : اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہوگا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٠) ، وانظر مسند احمد (٥/١٣٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (954) ، فضل الصلاة علی النبی صلی اللہ عليه وسلم رقم (13 و 14) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2457

【44】

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے ١ ؎، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ٢ ؎، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ٣ ؎، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے۔ ٢ - اس حدیث کو اس سند سے ہم صرف ابان بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اور انہوں نے صباح بن محمد سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٥٥٣) (حسن) (صحیح الترغیب ٣٣٣٧، ١٦٣٨، ١٧٢٥، ١٧٢٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ سے پورا پورا ڈرو ، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ ٢ ؎ : یعنی اپنا سر غیر اللہ کے سامنے مت جھکانا ، نہ ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنا ، اور نہ ہی اپنی زبان ، آنکھ اور کان کا غلط استعمال کرنا۔ ٣ ؎ : یعنی حرام کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو ، اسی طرح شرمگاہ ، ہاتھ ، پاؤں اور دل کی اس طرح حفاظت کرو ، کہ ان سے غلط کام نہ ہونے پائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الروض النضير (601) ، المشکاة (1608 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2458

【45】

شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کرلے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اور «من دان نفسه» کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرلے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیا جائے، ٣ - عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں : اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور «عرض الأكبر» (آخرت کی پیشی) کے لیے تدبیر کرو، اور جو شخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے قیامت کے روز اس پر حساب و کتاب آسان ہوگا، ٤ - میمون بن مہران کہتے ہیں : بندہ متقی و پرہیزگار نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے جیسا کہ اپنے شریک سے محاسبہ کرتا ہے اور یہ خیال کرے کہ میرا کھانا اور لباس کہاں سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣١ (٤٢٦٠) (تحفة الأشراف : ٤٨٢٠) (ضعیف) (سند میں ابوبکر بن ابی مریم ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4260) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (930) ، المشکاة (5289) ، ضعيف الجامع الصغير (4305) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2459

【46】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مصلی پر تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں، آپ نے فرمایا : آگاہ رہو ! اگر تم لوگ لذتوں کو ختم کردینے والی چیز کو یاد رکھتے تو تم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے، سو لذتوں کو ختم کردینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو، اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے : میں غربت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں، اور میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، پھر جب مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے مرحبا (خوش آمدید) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے : بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب تھا جو میرے پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوگئی اور تو میری طرف آگیا تو اب دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا حسن سلوک کروں گی، پھر اس کی نظر پہنچنے تک قبر کشادہ کردی جائے گی اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا، اور جب فاجر یا کافر دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے نہ ہی مرحبا کہتی ہے اور نہ ہی مبارک باد دیتی ہے بلکہ کہتی ہے : بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا جو میری پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوں اور تو میری طرف آگیا سو آج تو اپنے ساتھ میری بدسلوکیاں دیکھ لے گا، پھر وہ اس کو دباتی ہے، اور ہر طرف سے اس پر زور ڈالتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف مل جاتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور ایک دوسرے کو آپس میں داخل کر کے فرمایا : اللہ اس پر ستر اژد ہے مقرر کر دے گا، اگر ان میں سے کوئی ایک بار بھی زمین پر پھونک مار دے تو اس پر رہتی دنیا تک کبھی گھاس نہ اگے، پھر وہ اژد ہے اسے حساب و کتاب لیے جانے تک دانتوں سے کاٹیں گے اور نوچیں گے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢١٣) (ضعیف جداً ) (سند میں عبید اللہ وصافی اور عطیہ عوفی دونوں ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، لکن جملة هاذم اللذات صحيحة، فانظر الحديث (2409) ، الضعيفة (4990) ، (2409) // ضعيف الجامع الصغير (1231) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2460

【47】

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ چٹائی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے سو میں نے دیکھا کہ چٹائی کا نشان آپ کے پہلو پر اثر کر گیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، (وہی آپ کا ازواج مطہرات سے ایلاء کرنے کا قصہ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٥ (٢٤٦٨) ، والنکاح ٨٣ (٥١٩١) ، واللباس ٣١ (٥٨٤٣) ، صحیح مسلم/الطلاق ٥ (١٤٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١١ (٤١٥٣) (کلہم في سیاق طویل في سیاق إیلاء النبی ﷺ نسائہ) (ویأتي برقم ٢٣١٨) (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٧) ، و مسند احمد (١/٣٠١، ٣٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2461

【48】

مسور بن مخرمہ (رض) نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف (رض) (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ ﷺ نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ ﷺ نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا : شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں ، لوگوں نے کہا جی ہاں، اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے، اللہ کی قسم ! میں تم پر فقر و محتاجی سے نہیں ڈرتا ہوں، البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کشادہ کردی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی، پھر تم اس میں حرص و رغبت کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے حرص و رغبت کی، پھر دنیا تمہیں تباہ و برباد کر دے جیسا کہ اس نے ان کو تباہ و برباد کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیہ ١ (٣١٥٨) ، والمغازي ١٢ (٤٠١٥) ، والرقاق ٧ (٦٤٢٥) ، صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٦١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٨ (٣٩٩٧) (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال و اسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقر و تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا ، تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں ، لیکن افسوس صد افسوس مال و اسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کردیا ، اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپ کو اندیشہ تھا ، حالانکہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھر سکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3997) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2462

【49】

حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا : حکیم ! بیشک یہ مال ہرا بھرا میٹھا ہے، جو اسے خوش دلی سے لے لے گا تو اسے اس میں برکت نصیب ہوگی، اور جو اسے حریص بن کرلے گا اسے اس میں برکت حاصل نہ ہوگی، اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے ، حکیم کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں، پھر ابوبکر (رض)، حکیم (رض) کو کچھ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے، ان کے بعد عمر (رض) نے بھی انہیں کچھ دینے کے لیے بلایا تو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا، چناچہ عمر (رض) نے کہا : اے مسلمانوں کی جماعت ! میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتا ہوں کہ اس مال غنیمت میں سے میں ان کا حق پیش کرتا ہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں، چناچہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حکیم (رض) نے کسی شخص کے مال سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٤٧٢) ، والوصایا ٩ (٢٧٥٠) ، وفرض الخمس ١٩ (٣١٤٣) ، والرقاق ١١ (٦٤٤١) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٢ (١٠٣٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٥٠ (٢٥٣٢) ، و ٩٣ (٢٦٠٢-٢٦٠٤) (تحفة الأشراف : ٣٤٢٦) ، وحإ (٣/٤٠٢، ٤٣٤) ، وسنن الدارمی/الزکاة ٢٢ (١٦٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حکیم بن حزام (رض) کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر لوگوں سے ان کے لیے ہوئے کو قبول کرنے لگا تو کہیں یہ عادت اس حد سے بڑھ نہ جائے جس کے لینے کی انہیں خواہش نہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کا بھی انکار کردیا جو ان کا حق بنتا تھا ، یہ دنیا سے بےرغبتی کی اعلی مثال ہے ، عمر (رض) نے لوگوں کو گواہ اس لیے بنایا تاکہ لوگ ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں کہ حکیم (رض) کے انکار کی حقیقت کو عمر (رض) نہ جان سکے ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2463

【50】

عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تکلیف اور تنگی میں آزمائے گئے تو اس پر ہم نے صبر کیا، پھر آپ کے بعد کی حالت میں کشادگی اور خوشی میں آزمائے گئے تو ہم صبر نہ کرسکے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٧١٩) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کے زمانہ میں جب ہم بےانتہا مشقت و پریشانی کی زندگی گزار رہے تھے تو اس وقت ہم نے صبر سے کام لیا ، لیکن آپ کے بعد جب ہمارے لیے مال و اسباب کی کثرت ہوگئی تو ہم گھمنڈ و تکبر میں مبتلا ہوگئے اور اترا گئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2464

【51】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کا مقصود زندگی آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں استغناء و بےنیازی پیدا کردیتا ہے، اور اسے دل جمعی عطا کرتا ہے ١ ؎، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس کا مقصود طلب دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کی جمع خاطر کو پریشان کردیتا ہے اور دنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس کی نیت طلب آخرت ہوگی اللہ رب العالمین اسے معمولی زندگی پر بھی صابر و قانع بنا دے گا تاکہ وہ دنیا کا حریص اور اس کا طالب بن کر نہ رہے ، اس کے پراگندہ دنیاوی خیالات کو جمع کر دے گا ، اسے دل جمعی نصیب ہوگی ، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح (947 - 948) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2465

【52】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم ! تو میری عبادت کے لیے یکسو ہوجا، میں تیرا سینہ استغناء و بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢ (٤١٠٧) (تحفة الأشراف : ١٤٨٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4107) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2466

【53】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، اس وقت ہمارے پاس تھوڑی سی جو تھی، پھر جتنی مدت تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم نے اسی سے کھایا، پھر ہم نے لونڈی کو جو تولنے کے لیے کہا، تو اس نے تولا، پھر بقیہ جو بھی جلد ہی ختم ہوگئے، لیکن اگر ہم اسے چھوڑ دیتے اور نہ تولتے تو اس میں سے اس سے زیادہ مدت تک کھاتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہاں عائشہ (رض) کے قول «شطر» کا معنی قدرے اور تھوڑا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار نے والوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اہل دنیا اور ان کو میسر آسائشوں کی طرف نہ دیکھیں ، بلکہ رسول اور ازواج مطہرات کی زندگیوں کو سامنے رکھیں ، اور فقر و فاقہ کی زندگی کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھیں ، یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے پینے کی چیزوں کو بلا تولے ناپے استعمال کیا جائے تو اس میں برکت ہوتی ہے ، اور جس حدیث میں طعام کے تولنے کے بارے میں ہے کہ تولنے سے برکت ہوتی ہے وہ طعام بیچنے کے موقع سے ہے ، کیونکہ اس وقت دو آدمیوں کے اپنے اپنے حقوق کی جانکاری کی بات ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2467

【54】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک باریک پردہ تھا جس پر تصویریں بنی تھیں، پردہ میرے دروازے پر لٹک رہا تھا، جب اسے رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو فرمایا : اس کو یہاں سے دور کر دو اس لیے کہ یہ مجھے دینا کی یاد دلاتا ہے ، عائشہ (رض) کہتی ہیں : ہمارے پاس ایک روئیں دار پرانی چادر تھی جس پر ریشم کے نشانات بنے ہوئے تھے اور اسے ہم اوڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٧/٨٨) ، سنن النسائی/الزینة ١١١ (٥٣٥٥) ، انظر أیضا : صحیح البخاری/المظالم ٣٢ (٢٤٧٩) ، واللباس ٩١ (٥٩٥٤) ، والأدب ٧٥ (٦١٠٩) ، وسنن النسائی/القبلة ١٢ (٧٦٢) (تحفة الأشراف : ١٦١٠١) ، و مسند احمد (٦/٤٩، ٢٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (136) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2468

【55】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چمڑے کا ایک تکیہ (بستر) تھا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس میں کھجور کی پتلی چھال بھری ہوئی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٦ (٢٠٨٢) (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس ذات گرامی کی سادہ زندگی کا حال تھا جو سید المرسلین تھے ، آج کی پرتکلف زندگی آپ ﷺ کی اس سادہ زندگی سے کس قدر مختلف ہے ، کاش ہم مسلمان آپ کی اس سادگی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں ، اور اسے اختیار کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (282) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2469

【56】

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک بکری ذبح کی، نبی اکرم ﷺ نے پوچھا اس میں سے کچھ باقی ہے ؟ عائشہ (رض) نے کہا : دستی کے سوا اور کچھ نہیں باقی ہے، آپ نے فرمایا : دستی کے سوا سب کچھ باقی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٤١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ ذبح کی گئی بکری کا جتنا حصہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ یہی صدقہ کیا ہوا مال درحقیقت باقی ہے ، رہا وہ حصہ جو تمہارے پاس ہے وہ باقی نہیں ہے ، اس سے آپ ﷺ کا اشارہ رب العالمین کے اس فرمان کی طرف ہے ، «ماعندکم ينفد وما عند اللہ باق» جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے ، اور رب العالمین کے پاس جو کچھ ہے وہ باقی رہنے والا ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2544) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2470

【57】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم آل محمد ( ﷺ ) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلاتے تھے، ہمارا گزر بسر صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٠ (٤١٤٤) (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٥) ، وراجع أیضا صحیح البخاری/الھبة ١ (٢٥٦٧) ، والرقاق ١٧ (٦٤٥٨، ٦٥٤٥٩) (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٥) ، و مسند احمد (٦/٥٠، ٧١، ٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2471

【58】

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے اللہ کی راہ میں ایسا ڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں، مجھ پر مسلسل تیس دن و رات گزر جاتے اور میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوتا کہ جسے کوئی جان والا کھائے سوائے تھوڑی سی چیز کے جسے بلال اپنی بغل میں چھپالیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ـ اسحدیث میں وہدنمراد ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہوسلم اہلم کہ سے بیزارہوکرم کہ سے نکلگئے تھے اور ساتھ میں بلالرضیاللهعنہ تھے، انکے پاسکچھکھاناتھاج سے وہبغل میں دبائے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٥١) (تحفة الأشراف : ٣٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور اس کے دین کے اظہار کے لیے آپ نے کس قدر جسمانی تکالیف برداشت کی ہیں ، اور اس پر مستزاد یہ کہ مسلسل کئی کئی دن گزر جاتے اور آپ بھوکے رہتے ، ظاہر ہے بلال نے اپنی بغل میں جو کچھ چھپا رکھا تھا وہ کب تک ساتھ دیتا ، اس حدیث میں داعیان حق کے لیے عبرت و نصیحت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (151) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2472

【59】

علی بن ابی طالب کہتے ہیں کہ ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ ﷺ کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی، اگر رسول اللہ ﷺ کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھا لیتا، چناچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہا تھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا : اعرابی ! کیا بات ہے ؟ کیا تو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا ؟ میں نے کہا : ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندر آ جاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہوگیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تو وہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہا کہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چناچہ میں نے اسے کھایا اور دو تین گھونٹ پانی پیا، پھر میں مسجد میں آیا اور وہیں رسول اللہ ﷺ کو موجود پایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٨) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقر و تنگ دستی سے دو چار تھی ، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کی بھی یہی حالت تھی ، اس فقر و فاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپناتے تھے ، اور جو کچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (3 / 109 - 110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2473

【60】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ کو ایک مرتبہ بھوک لگی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو صرف ایک ایک کھجور دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٢ (٤١٥٧) (تحفة الأشراف : ١٣٦١٧) (شاذ) (مؤلف اور ابن ماجہ کے یہاں جو متن ہے وہ صحیح بخاری میں اسی سند سے مروی متن سے مختلف ہے، صحیح بخاری میں فی نفر سات سات کھجوریں ملنے کا تذکرہ ہے، دیکھیے : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٣ (٥٤١١) ، و ٣٩ (٥٤٤٠ ) قال الشيخ الألباني : شاذ، ابن ماجة (4157) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2474

【61】

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تین سو کی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زاد سفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہوگیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہا گیا : ابوعبداللہ ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہوگا ؟ جب وہ بھی ختم ہوگئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، انہوں نے فرمایا : ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، چناچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہو کر کھاتے رہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث جابر کے واسطے سے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے، ٣ - اس حدیث کو مالک بن انس نے وہب بن کیسان سے اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ١ (٢٤٨٣) ، والجھاد ١٢٤ (٢٩٨٣) ، والمغازي ٦٥ (٤٣٦٠-٤٣٦٢) ، والأطعمة ١٢ (٥٤٩٤) ، صحیح مسلم/الصید ٤ (١٩٣٥) ، سنن النسائی/الصید ٣٥ (٤٣٥٦، ٤٣٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ١٢ (٤١٥٩) (تحفة الأشراف : ٣١٢٥) ، موطا امام مالک/صفة النبی ١٠ (٢٤) ، وسنن الدارمی/الصید ٦ (٢٠٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ صحابہ کرام دنیا سے کس قدر بےرغبت تھے ، فقر و تنگدستی کی وجہ سے ان کی زندگی کس طرح پریشانی کے عالم میں گزرتی تھی ، اس کے باوجود بھوک کی حالت میں بھی ان کا جذبہ جہاد بلند ہوتا تھا ، کیونکہ وہ صبر و ضبط سے کام لیتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4159) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2475

【62】

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ١ ؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز و نعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا حال ہوگا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا، اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیسا کہ کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے ؟ ٢ ؎، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور محنت و مشقت سے بچ جائیں گے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یزید بن زیاد سے مراد یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس اور دیگر اہل علم نے روایت کی ہے اور (دوسرے) یزید بن زیاد دمشقی وہ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان سے (یعنی دمشقی سے) وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کیا ہے، اور (تیسرے) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ٠ التحفة : ١٠٣٣٩) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی سے استاذ راوی مبہم ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مصعب بن عمیر (رض) جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں ، یہ اپنا سارا مال و متاع مکہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے ، عقبہ ثانیہ کے بعد آپ نے ان کو قرآن کی تعلیم دینے اور دین کی باتیں سکھانے کے لیے مدینہ بھیجا ، مدینہ میں ہجرت سے پہلے جمعہ کے لیے لوگوں کو سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف انہی کو حاصل ہے ، زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ ناز و نعمت کی زندگی گزار نے والے تھے ، لیکن اسلام لانے کے بعد ان سب سے انہیں بےرغبتی ہوگئی۔ ٢ ؎ : یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ مال ومتاع کی ایسی کثرت ہوجائے گی کہ صبح و شام کپڑے بدلے جائیں گے ، قسم قسم کے کھانے لوگوں کے سامنے ہوں گے ، لوگ اپنے مکانوں کی تزئین کریں گے ، گھروں میں عمدہ اور قیمتی کپڑوں کے پردے لٹکائیں گے ، جیسا کہ آج کل ہے۔ ٣ ؎ : امام ترمذی ان تین لوگوں کے درمیان فرق بیان کر رہے ہیں جو یزید کے نام سے موسوم ہیں : ( ١ ) یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں ، جو اس حدیث کی سند میں مذکور ہیں ( ٢ ) یزید بن زیاد مشقی ہیں ، ( ٣ ) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5366 / التحقيق الثاني) ، وانظر الحديث (2591) // ضعيف الجامع الصغير (4293) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2476

【63】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ مال اور اہل و عیال والے نہ تھے، قسم ہے اس معبود کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بھوک کی شدت سے میں اپنا پیٹ زمین پر رکھ دیتا تھا اور بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا، ایک دن میں لوگوں کی گزرگاہ پر بیٹھ گیا، اس طرف سے ابوبکر (رض) گزرے تو میں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت اس وجہ سے پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن وہ چلے گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لیا، پھر عمر (رض) گزرے، ان سے بھی میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مگر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ پھر ابوالقاسم ﷺ کا گزر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا : ابوہریرہ ! میں نے کہا : حاضر ہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : ساتھ چلو اور آپ چل پڑے، میں بھی ساتھ میں ہو لیا، آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر میں نے بھی اجازت چاہی، چناچہ مجھے اجازت دے دی گئی، وہاں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا، دریافت فرمایا : یہ دودھ کہاں سے ملا ؟ عرض کیا گیا : فلاں نے اسے ہدیہ بھیجا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ابوہریرہ ! میں نے کہا : حاضر ہوں، آپ نے فرمایا : جاؤ اہل صفہ کو بلا لاؤ، یہ مسلمانوں کے مہمان تھے ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گھربار تھا نہ کوئی مال، آپ ﷺ کے پاس جب کوئی صدقہ آتا تھا تو اسے ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اس میں سے آپ کچھ نہیں لیتے تھے، اور جب کوئی ہدیہ آتا تو ان کو بلا بھیجتے، اس میں سے آپ بھی کچھ لے لیتے، اور ان کو بھی اس میں شریک فرماتے، لیکن اس ذرا سے دودھ کے لیے آپ کا مجھے بھیجنا ناگوار گزرا اور میں نے (دل میں) کہا : اہل صفہ کا کیا بنے گا ؟ اور میں انہیں بلانے جاؤں گا، پھر آپ ﷺ مجھے ہی حکم دیں گے کہ اس پیالے میں جو کچھ ہے انہیں دوں، مجھے یقین ہے کہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں ملے گا، حالانکہ مجھے امید تھی کہ اس میں سے مجھے اتنا ضرور ملے گا جو میرے لیے کافی ہوجائے گا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، چناچہ میں ان سب کو بلا لایا، جب وہ سب آپ کے پاس آئے اور اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا : ابوہریرہ ! یہ پیالہ ان لوگوں کو دے دو ، چناچہ میں وہ پیالہ ایک ایک کو دینے لگا، جب ایک شخص پی کر سیر ہوجاتا تو میں دوسرے شخص کو دیتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گیا، ساری قوم سیر ہوچکی تھی (یا سب لوگ سیر ہوچکے تھے) پھر آپ ﷺ نے وہ پیالہ لے کر اسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر اپنا سر اٹھایا اور مسکرا کر فرمایا : ابوہریرہ ! یہ دودھ پیو ، چناچہ میں نے پیا، پھر آپ نے فرمایا : اسے پیو میں پیتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق لے کر بھیجا ہے اب میں پینے کی گنجائش نہیں پاتا، پھر آپ نے پیالہ لیا، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر دودھ پیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٤ (٦٢٤٦) (مختصرا) والرقاق ١٧ (٦٤٥٢) (تحفة الأشراف : ١٤٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اہل و عیال اور مال والے نہ ہوں ان کا خاص خیال رکھا جائے ، اصحاب صفہ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کی محبت اسی خاص خیال کا نتیجہ ہے ، آپ کے پاس جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے ، دودھ کی کثرت یہ آپ کے معجزہ کی دلیل ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کو مزید کھانے پینے کے لیے کہنا چاہیئے ، اور کھانے کی مقدار اگر کافی ہے تو خوب سیر ہو کر کھانا پینا بھی جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2477

【64】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپ نے فرمایا : تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوجحیفہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٥٠ (٣٣٥٠، ٣٣٥١) (تحفة الأشراف : ٨٥٦٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ڈکار عموماً زیادہ کھانے سے آتی ہے ، اس لیے آپ نے اس آدمی سے یہ فرمایا اور اگر ڈکار گیس کی بیماری کی وجہ سے آئے تو اس ڈکار پر یہ حدیث صادق نہیں آئے گی ، کیونکہ یہ تو مجبوری کی حالت میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3350 - 3351) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2478

【65】

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا : اے میرے بیٹے ! اگر تم ہمیں اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور ہمیں بارش نصیب ہوتی تھی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بو بھیڑ کی بو جیسی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے کپڑے اون کے ہوتے تھے، جب اس پر بارش کا پانی پڑتا تو اس سے بھیڑ کی جیسی بو آنے لگتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٦ (٤٠٣٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤ (٣٥٦٢) (تحفة الأشراف : ٩١٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس وقت اون کا کپڑا موٹا جھوٹا ہوتا تھا ، جیسا گڈریوں کا ہوتا ہے ، آج کل کا قیمتی اونی کپڑا مراد نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3562) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2479

【66】

معاذ بن انس جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص زینت کا لباس خالص اللہ کی رضا مندی اور اس کی تواضع کی خاطر چھوڑ دے باوجود یہ کہ وہ اسے میسر ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے بلائے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے، اور پہنے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - «حلل الإيمان» سے جنت کے وہ لباس مراد ہیں جو اہل ایمان کو دیئے جائیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٠٢) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (717) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2481

【67】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نفقہ سب کا سب اللہ کی راہ میں ہے سوائے اس نفقہ کے جو گھر بنانے میں صرف ہوتا ہے کیونکہ اس میں کوئی خیر نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٠١) (ضعیف) (سند میں زافر سخت وہم کے شکار ہوجاتے تھے، اور شبیب روایت میں غلطیاں کر جاتے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1061) ، التعليق الرغيب (2 / 113) // ضعيف الجامع الصغير (5994) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2482

【68】

حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ ہم خباب (رض) کے پاس عیادت کرنے کے لیے آئے، انہوں نے اپنے بدن میں سات داغ لگوا رکھے تھے، انہوں نے کہا : یقیناً میرا مرض بہت لمبا ہوگیا ہے، اگر میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ موت کی تمنا نہ کرو ، تو میں ضرور اس کی تمنا کرتا، اور آپ نے فرمایا : آدمی کو ہر خرچ میں ثواب ملتا ہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے ، یا فرمایا : گھر بنانے میں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٩٧٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو اپنی ضرورت سے زائد عمارت پر خرچ ہوتا ہے اس پر کچھ بھی ثواب نہیں ملتا ، ویسے انسان کو سر چھپانے ، گرمی ، سردی کی شدت اور بارش وغیرہ سے بچاؤ کے لیے ایک مکان کی ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ یہ انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے ، حدیث میں مذکورہ وعید ایسی تعمیرات سے متعلق ہے جو ضرورت سے زائد ہوں یا جن پر اسراف سے خرچ کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (970) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا برقم (776 - 984) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2483

【69】

ابوحمزہ سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں : گھر مکان سب کا سب ہر عمارت باعث وبال ہے، میں نے کہا : اس مکان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جسے بنائے بغیر چارہ نہیں انہوں نے کہا : نہ اس میں کوئی اجر ہے اور نہ کوئی گناہ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٤١٤) (ضعیف الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2480

【70】

حصین کہتے ہیں کہ ایک سائل نے آ کر ابن عباس (رض) سے کچھ مانگا تو ابن عباس نے سائل سے کہا : کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ نے کہا : کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ نے کہا : کیا تم رمضان کے روزے رکھتے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ نے کہا : تم نے سوال کیا اور سائل کا حق ہوتا ہے، بیشک ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں، چناچہ انہوں نے اسے ایک کپڑا دیا اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جو کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کو کوئی کپڑا پہناتا ہے تو وہ اللہ کی امان میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی اس پر باقی رہتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٤٠٩) (ضعیف) (سند میں خالد بن طہمان مختلط ہوگئے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1920) ، التعليق الرغيب (3 / 112) // ضعيف الجامع الصغير (5217) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2484

【71】

عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے : اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، چناچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں، پھر جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی لوگو ! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٤ (١٣٣٤) ، والأطعمة ١ (٣٢٥١) (تحفة الأشراف : ٥٣٣١) ، و مسند احمد (٥/٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ وہ مومنانہ خصائل و عادات ہیں کہ ان میں سے ہر خصلت جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1334 و 3251) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2485

【72】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا (اجر و ثواب میں) صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ٥٥ (١٧٦٤، ١٧٦٥) (تحفة الأشراف : ١٣٠٧٢) ، و مسند احمد (٢/٢٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1764 و 1765) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2486

【73】

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس مہاجرین نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! جس قوم کے پاس ہم آئے ہیں ان سے بڑھ کر ہم نے کوئی قوم ایسی نہیں دیکھی جو اپنے مال بہت زیادہ خرچ کرنے والی ہے اور تھوڑے مال ہونے کی صورت میں بھی دوسروں کے ساتھ غم خواری کرنے والی ہے۔ چناچہ انہوں نے ہم کو محنت و مشقت سے باز رکھا اور ہم کو آرام و راحت میں شریک کیا یہاں تک کہ ہمیں خوف ہے کہ ہماری ساری نیکیوں کا ثواب کہیں انہیں کو نہ مل جائے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بات ایسی نہیں ہے جیسا تم نے سمجھا ہے جب تک تم لوگ اللہ سے ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہو گے اور ان کا شکریہ ادا کرتے رہو گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب تک تم ان کے حق میں خیر کی دعا کرتے رہو گے تو تمہاری یہ دعائیں ان کی نیکیوں کے بالمقابل ہوں گی ، اور اس کا ثواب تمہیں ملے گا ، اور تمہاری یہی دعائیں ان کی اس محنت و مشقت کا بدل ہوں گی جو انہوں نے تمہاری خاطر کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3206) ، التعليق الرغيب (2 / 56 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2487

【74】

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے ؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٣٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو اپنے حسن اخلاق اور حسن معاملہ سے لوگوں کے دلوں میں اور دنیاوی معاملات میں دوسروں کے ساتھ آسانی ، نرمی ، تواضع اور مشفقانہ طرز اپنانے والا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (935) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2488

【75】

اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کیا : رسول اللہ ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے ؟ کہا : آپ ﷺ اپنے گھر والوں کے کام کاج میں مشغول ہوجاتے تھے، پھر جب نماز کا وقت ہوجاتا تو کھڑے ہوتے اور نماز پڑھنے لگتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٤ (٦٧٦) ، النفقات ٨ (٥٣٦٣) ، والأدب ٤٠ (٦٠٣٩) (تحفة الأشراف : ١٥٩٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں تواضع کے اپنانے ، غرور و تکبر چھوڑنے اور اپنے اہل و عیال کی خدمت کرنے کی ترغیب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (293) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2489

【76】

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے جب کوئی شخص آتا اور آپ سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں نکالتے جب تک وہ شخص خود اپنا ہاتھ نہ نکال لیتا، اور آپ اپنا رخ اس کی طرف سے نہیں پھیرتے، جب تک کہ وہ خود اپنا رخ نہ پھیر لیتا، اور آپ نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٢١ (٣٧١٦) (تحفة الأشراف : ٨٤١) (ضعیف) (سند میں زید العمی ضعیف راوی ہیں، مگر مصافحہ والا ٹکڑا دیگر احادیث سے ثابت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف إلا جملة المصافحة فهي ثابتة، ابن ماجة (3716) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2490

【77】

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سے اگلی امتوں میں سے ایک شخص ایک جوڑا پہن کر اس میں اتراتا ہوا نکلا چناچہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا اور زمین نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا، پس وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٦٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کا شکر گزار ہونا چاہیئے ، خود پسندی اور تکبر میں مبتلا ہو کر اپنی حیثیت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح الجامع (3217) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2491

【78】

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : متکبر (گھمنڈ کرنے والے) لوگوں کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایا جائے گا، انہیں ہر جگہ ذلت ڈھانپے رہے گی، پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام «بولس» ہے۔ اس میں انہیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی، وہ اس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے جسے «طينة الخبال» کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٨٨٠٠) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5112 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (4 / 18) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2492

【79】

معاذ بن انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے غصہ پر قابو پا لیا اس حال میں کہ اس کے کر گزرنے پر قادر تھا، تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اختیار دے گا کہ وہ جنت کی حوروں میں سے جسے چاہے پسند کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٠٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2493

【80】

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین خصلتیں ایسی ہیں کہ یہ جس کے اندر پائی جائیں تو قیامت کے روز اللہ اپنی رحمت کے سایہ تلے رکھے گا، اور اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا۔ ( ١ ) ضعیفوں کے ساتھ نرم برتاؤ کرے ( ٢ ) ماں باپ کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کرے، ( ٣ ) لونڈیوں اور غلاموں پر احسان کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣١٤٦) (موضوع) (سند میں عبد اللہ بن ابراہیم کذاب، اور اس کا باپ مجہول راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (92) // ضعيف الجامع الصغير (2556) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2494

【81】

ابوذر غفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے میرے بندو ! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا، اور تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جسے میں غنی (مالدار) کر دوں، اس لیے تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں رزق دوں گا، اور تم سب گنہگار ہو، سوائے اس کے جسے میں عافیت دوں سو جسے یہ معلوم ہے کہ میں بخشنے پر قادر ہوں پھر وہ مجھ سے مغفرت چاہتا ہے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں، اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک و تر سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار بندے کی طرح ہوجائیں تو بھی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر برابر اضافہ نہ ہوگا، اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک و تر سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ شقی و بدبخت کی طرح ہوجائیں تو بھی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر برابر کمی نہ ہوگی، اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک و تر سب ایک ہی زمین پر جمع ہوجائیں اور تم میں سے ہر انسان مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی آرزوئیں پہنچیں اور میں تم میں سے ہر سائل کو دے دوں تو بھی میری سلطنت میں کچھ بھی فرق واقع نہ ہوگا مگر اتنا ہی کہ تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے سے گزرے اور اس میں ایک سوئی ڈبو کر نکال لے، اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ میں سخی، بزرگ ہوں، جو چاہتا ہوں کرتا ہوں، میرا دینا صرف کہہ دینا، اور میرا عذاب صرف کہہ دینا ہے، کسی چیز کے لیے جب میں چاہتا ہوں تو میرا حکم یہی ہے کہ میں کہتا ہوں ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - بعض لوگوں نے اسی طرح اس حدیث کو بطریق : «عن شهر بن حوشب عن معدي كرب عن أبي ذر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٠ ٤٢٥٧٠) (تحفة الأشراف : ١١٩٦٤) (ضعیف) (اس سیاق سے یہ حدیث ضعیف ہے، سند میں لیث بن ابی سلیم اور شہر بن حوشب دونوں راوی ضعیف ہیں، لیکن اس کے اکثر حصے صحیح مسلم میں موجود ہیں ۔ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف بهذا السياق، ابن ماجة (4257) // ضعيف ابن ماجة (929) ، المشکاة (2350) ، ضعيف الجامع الصغير (6437) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2495

【82】

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے اگر میں نے اسے ایک یا دو بار سنا ہوتا یہاں تک کہ سات مرتبہ گنا تو میں اسے تم سے بیان نہ کرتا، لیکن میں نے اسے اس سے زیادہ مرتبہ سنا ہے، آپ ﷺ فرما رہے تھے : بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ کے کرنے سے پرہیز نہیں کرتا تھا، چناچہ اس کے پاس ایک عورت آئی، اس نے اسے ساٹھ دینار اس لیے دیے کہ وہ اس سے بدکاری کرے گا، لیکن جب وہ اس کے آگے بیٹھا جیسا کہ مرد اپنی بیوی کے آگے بیٹھتا ہے تو وہ کانپ اٹھی اور رونے لگی، اس شخص نے پوچھا : تم کیوں روتی ہو کیا میں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے ؟ وہ بولی : نہیں، لیکن آج میں وہ کام کر رہی ہوں جو میں نے کبھی نہیں کیا اور اس کام کے کرنے پر مجھے سخت ضرورت نے مجبور کیا ہے، چناچہ اس نے کہا : تم ایسا غلط کام کرنے جا رہی ہے جسے تم نے کبھی نہیں کیا، اس لیے تم جاؤ، وہ سب دینار بھی تمہارے لیے ہیں، پھر اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم ! اب اس کے بعد میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا، پھر اسی رات میں اس کا انتقال ہوگیا، چناچہ صبح کو اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا بیشک اللہ تعالیٰ نے کفل کو بخش دیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اسے شیبان اور دیگر لوگوں نے اعمش سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا ہے، اور بعض لوگوں نے اسے اعمش سے غیر مرفوع روایت کیا ہے، ابوبکر بن عیاش نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے لیکن اس میں غلطی کی ہے، اور «عن عبد اللہ بن عبد اللہ عن سعيد بن جبير عن ابن عمر» کہا ہے جو کہ غیر محفوظ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٠٤٩) ، وانظر مسند احمد (٣/٢٣) (ضعیف) (سند میں سعد مولی طلحہ مجہول ہے، نیز اس کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الضعیفة رقم : ٤٠٨٣ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4083) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2496

【83】

حارث بن سوید کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے دو حدیثیں بیان کیں، ایک اپنی طرف سے اور دوسری نبی اکرم ﷺ کی طرف سے (یعنی ایک موقوف اور دوسری مرفوع) عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : مومن اپنے گناہ کو ایسا دیکھتا ہے گویا وہ پہاڑ کی جڑ میں ہے۔ ڈرتا ہے کہ اس پر وہ گر نہ پڑے ١ ؎، اور فاجر اپنے گناہ کو ایک مکھی کے مانند دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر بیٹھی ہوئی ہے، اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ اڑ گئی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٤ (٦٣٠٨) ، صحیح مسلم/التوبة ١ (٢٧٤٤) (تحفة الأشراف : ٩١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے عذاب الٰہی کا پہاڑ اپنے سامنے نظر آتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی ایک فاجر شخص اپنے گناہ کے سلسلہ میں بےخوف ہوتا ہے اور اس کی نگاہ میں اس گناہ کی کوئی اہمیت نہیں ، نہ ہی اسے اس پر کوئی افسوس ہوتا ہے بلکہ اس کی حیثیت اس مکھی کی طرح ہے جو ناک پر بیٹھی ہو اور ہاتھ کے اشارہ سے بھاگ جائے ، اسی طرح اس کے عقل و فہم میں اس گناہ کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا یہ ابن مسعود کی موقوف روایت ہے ، (مرفوع کا ذکر آگے ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2497

【84】

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یقیناً اللہ تم میں سے ایک شخص کی توبہ پر اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی بےآب و گیاہ چٹیل میدان میں ہے اور اس کے ساتھ اس کی اونٹنی ہے جس پر اس کا توشہ، کھانا پانی اور دیگر ضرورتوں کی چیز رکھی ہوئی ہے، پھر اس کی اونٹنی کھو جاتی ہے اور وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے : میں اسی جگہ لوٹ جاؤں جہاں سے میری اونٹنی کھو گئی تھی، اور وہیں مرجاؤں چناچہ وہ لوٹ کر اسی جگہ پہنچتا ہے، اور اس پر نیند طاری ہوجاتی ہے، پھر جب بیدار ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی اونٹنی اس کے سر کے پاس موجود ہے اس پر اس کا کھانا پانی اور حاجت کی چیز بھی موجود ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، نعمان بن بشیر اور انس بن مالک (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2498

【85】

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سارے انسان خطاکار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اسے ہم صرف علی بن مسعدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٩ (٤٢٥١) (تحفة الأشراف : ١٣١٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4251) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2499

【86】

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ، انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣١ (٦٠١٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٩ (١٤) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٦) (تحفة الأشراف : ١٥٢٧٢) ، و مسند احمد (٢/٢٦٧، ٢٦٩، ٤٣٣، ٤٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے ، یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2525) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2500

【87】

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو خاموش رہا اس نے نجات پائی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اسے ہم صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٨٦١) ، وانظر : مسند احمد (٢/١٥٩، ١٧٧) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٥ (٣٧٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خاموشی آدمی کے لیے سکون اور آخرت کے لیے نجات کا ذریعہ ہے ، کیونکہ لوگوں سے زیادہ میل جول اور ان سے گپ شپ کرنا یہ دین کے لیے باعث خطرہ ہے ، اس لیے اپنے فاضل اوقات کو ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن میں صرف کرنا زیادہ بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2501

【88】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا : مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے ۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بیشک صفیہ ایک عورت ہیں، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، گویا یہ مراد لے رہی تھیں کہ صفیہ پستہ قد ہیں۔ آپ نے فرمایا : بیشک تم نے اپنی باتوں میں ایسی بات ملائی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا رنگ بدل جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٤٠ (٤٨٧٥) (تحفة الأشراف : ١٦١٣٢) ، و مسند احمد (٦/١٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کی نقل بھی غیبت میں شامل ہے ، اس لیے بطور تحقیر کسی کے جسمانی عیب کی نقل اتارنا یا تنقیص کے لیے اسے بیان کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4853 و 4857 / التحقيق الثانی) ، غاية المرام (427) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2502

【89】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4857 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2503

【90】

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا گیا کہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ افضل کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابوموسیٰ کی روایت سے اس سند سے صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٥ (١١) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٤ (٤٢) ، سنن النسائی/الإیمان ١١ (٥٠٠٢) (تحفة الأشراف : ٩٠٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زبان سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے کسی مسلمان کی طعن و تشنیع ، غیبت چغل خوری ، بہتان تراشی نہ کرے ، نہ ہی اسے گالی گلوج دے ، اور ہاتھ سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے نہ کسی کو مارے ، نہ قتل کرے ، نہ ناحق کسی کی کوئی چیز توڑے ، اور نہ ہی باطل افکار پر مشتمل کوئی تحریر لکھے جس سے کہ لوگ گمراہ ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2504

【91】

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے کسی دینی بھائی کو کسی گناہ پر عار دلایا تو اس کی موت نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس سے وہ گناہ صادر ہوجائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس کی سند متصل نہیں ہے، اور خالد بن معدان کی ملاقات معاذ بن جبل سے ثابت نہیں ہے، خالد بن معدان سے مروی ہے کہ انہوں نے ستر صحابہ سے ملاقات کی ہے، اور معاذ بن جبل کی وفات عمر بن خطاب کی خلافت میں ہوئی، اور خالد بن معدان نے معاذ کے کئی شاگردوں کے واسطہ سے معاذ سے کئی حدیثیں روایت کی ہے، ٣ - احمد بن منیع نے کہا : اس سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ شخص توبہ کرچکا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣١٠) (موضوع) (خالد بن معدان کا سماع معاذ (رض) سے نہیں ہے، اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محمد بن حسن کذاب راوی ہے، اسی نے یہ حدیث گھڑی ہوگی مگر سند متصل نہ کرسکا ) قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (178) // ضعيف الجامع الصغير (5710) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2505

【92】

واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کے ساتھ شماتت اعداء نہ کرو، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور تمہیں آزمائش میں ڈال دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - مکحول کا سماع واثلہ بن اسقع، انس بن مالک اور ابوھند داری سے ثابت ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا سماع ان تینوں صحابہ کے علاوہ کسی سے ثابت نہیں ہے، ٣ - یہ مکحول شامی ہیں ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے، یہ ایک غلام تھے بعد میں انہیں آزاد کردیا گیا تھا، ٤ - اور ایک مکحول ازدی بصریٰ بھی ہیں ان کا سماع عبداللہ بن عمر سے ثابت ہے ان سے عمارہ بن زاذان روایت کرتے ہیں۔ اس سند سے مکحول شامی کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ «ندانم» (میں نہیں جانتا) کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٧٤٩) (ضعیف) (سند میں حفص بن غیاث اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4856 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6245) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2506

【93】

یحییٰ بن وثاب نے ایک بزرگ صحابی سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن ابی عدی نے کہا : شعبہ کا خیال ہے کہ شیخ صحابی (بزرگ صحابی) سے مراد ابن عمر (رض) ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٣ (٤٠٣٢) (تحفة الأشراف : ٨٥٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا لوگوں کے درمیان رہ کر جمعہ ، جماعت ، نیکی و بھلائی کے کام اور مجالس خیر میں شریک رہنا ، ضرورت مندوں کی خبرگیری ، مریضوں کی عیادت اور لوگوں کے دیگر مصالح کے لیے ان سے رابطہٰ و ضبط رکھنا ، اس شرط کے ساتھ کہ انہیں بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے ، اور ان سے پہنچنے والی تکالیف و ایذاء پر صبر کرے تو اس سے بہتر مسلمان کوئی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4032) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2507

【94】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آپسی پھوٹ اور بغض و عداوت کی برائی سے اجتناب کرو کیونکہ یہ (دین کو) مونڈنے والی ہے ١ ؎، آپسی پھوٹ کی برائی سے مراد آپس کی عداوت اور بغض و حسد ہے اور «الحالقة» مونڈنے والی سے مراد دین کو مونڈنے والی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٩٩٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپسی بغض و عداوت اور انتشار و افتراق سے اجتناب کرنا چاہیئے ، کیونکہ اس سے نہ یہ کہ صرف دنیا تباہ ہوتی ہے بلکہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5041 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2508

【95】

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جو درجہ میں صلاۃ، صوم اور صدقہ سے بھی افضل ہے، صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ ضرور بتائیے ، آپ نے فرمایا : وہ آپس میں میل جول کرا دینا ہے ١ ؎ اس لیے کہ آپس کی پھوٹ دین کو مونڈنے والی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : یہی چیز مونڈنے والی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ سر کا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین کو مونڈ نے والی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٥٨ (٤٩١٩) (تحفة الأشراف : ١٠٩٨١) ، و مسند احمد (٦/٤٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ آپس میں میل جول کرا دینا یہ نفلی عبادت سے افضل ہے ، کیونکہ یہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار کے نہ ہونے کا ذریعہ ہے ، جب کہ آپسی رنجش و عداوت دینی بگاڑ کی جڑ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (414) ، المشکاة (5038 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2509

【96】

زبیر بن عوام (رض) کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارے اندر اگلی امتوں کا ایک مرض گھس آیا ہے اور یہ حسد اور بغض کی بیماری ہے، یہ مونڈنے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سر کا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین مونڈنے والی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ جنت میں نہیں داخل ہو گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، اور کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتادوں جس سے تمہارے درمیان محبت قائم ہو : تم سلام کو آپس میں پھیلاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یحییٰ بن ابی کثیر سے اس حدیث کے روایت کرنے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض لوگوں نے یہ حدیث : «عن يحيى بن أبي كثير عن يعيش بن الوليد عن مولی الزبير عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے ان لوگوں نے اس میں زبیر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٦٤٨) (حسن) (سند میں مولی الزبیر مبہم راوی ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، صحیح الترغیب والترہیب ٢٦٩٥ ) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (3 / 12) ، الإرواء (238) ، تخريج مشكلة الفقر (20) ، غاية المرام (414) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2510

【97】

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لیے بھی اسے باقی رکھا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٥١ (٤٩٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٣ (٤٢١١) (تحفة الأشراف : ١١٦٩٣) ، و مسند احمد (٥/٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4211) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2511

【98】

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر وہ موجود ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر لکھے گا اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر اور شاکر نہیں لکھے گا، پہلی خصلت یہ ہے کہ جس شخص نے دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے کو دیکھا اور اس کی پیروی کی اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھا پھر اس فضل و احسان کا شکر ادا کیا جو اللہ نے اس پر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھے گا۔ اور دوسری خصلت یہ ہے کہ جس نے دین کے اعتبار سے اپنے سے کم اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ پر نظر کی پھر جس سے وہ محروم رہ گیا ہے اس پر اس نے افسوس کیا، تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر نہیں لکھے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٧٨) (ضعیف) (سند میں مثنی بن صباح ضعیف راوی ہیں، ان کی تضعیف خود امام ترمذی نے کی ہے، اور عمرو بن شعیب بن محمد اور ان کے پردادا عبداللہ بن عمرو (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن اگلی سند میں عن أبیہ کا ذکر ہے، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفة ٦٣٣، ١٩٢٤ ) وضاحت : ١ ؎ : گویا دینی معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے بہتر اور سب سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے شخص کو دیکھنا چاہیئے ، تاکہ اپنے اندر اسی جیسا دینی جذبہ پیدا ہو ، اور دنیا کے اعتبار سے ہمیشہ اپنے سے کم تر پر نگاہ رہے تاکہ رب العالمین کی جانب سے ہمیں جو کچھ میسر ہے اس پر ہم اس کا شکر گزار بندہ بن سکیں ، اور ہمارے اندر نعمت شناسی کی صفت پیدا ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (633 و 1924) // ضعيف الجامع الصغير (2832) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2512 اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - سوید بن نصر نے اپنی سند میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) (تحفة الأشراف میں ترمذی کا قول ” حسن غریب “ موجود نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (633 و 1924) // ضعيف الجامع الصغير (2832) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2512

【99】

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں کی طرف دیکھو جو دنیاوی اعتبار سے تم سے کم تر ہوں اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہوں، اس طرح زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری نہ کرو، جو اس کی طرف سے تم پر ہوئی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٦٣/٩) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٩ (٤١٤٢) ، وراجع أیضا : صحیح البخاری/الرقاق ٣٠ (٦٤٩٠) ، وصحیح مسلم/الزہد (٢٩٦٣/٨) (تحفة الأشراف : ١٢٤٦٧، و ١٢٥١٤) ، و مسند احمد (٢/٢٥٤، ٤٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4142 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2513

【100】

حنظلہ اسیدی (رض) سے روایت ہے (یہ نبی اکرم ﷺ کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے) ، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر (رض) کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا : حنظلہ ! تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ میں نے کہا : ابوبکر ! حنظلہ تو منافق ہوگیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس، چناچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا : حنظلہ ! تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! حنظلہ منافق ہوگیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو ان وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ ! وقت وقت کی بات ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٤٥٢، ٢٥١٤ (صحیح) (اور اس کے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو : ٢٥٢٦ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں صحابہ کرام کے زہد و ورع اور تقویٰ کا ذکر ہے ، معلوم ہوا کہ انسان کی حالت و کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی ، بلکہ اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے ، اس لیے انسان جب بھی غفلت کا شکار ہو تو اسے بکثرت ذکر الٰہی کرنا چاہیئے ، اور اس حالت کو جس میں غفلت طاری ہو نفاق پر نہیں محمول کرنا چاہیئے ، کیونکہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت و کیفیت کا اپنے آپ کو مکلف بنا کر رکھے یہ ممکن نہیں ہے ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود ایک ہی آدمی کی ایمانی کیفیت وقتاً فوقتا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4236 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2514

【101】

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص مومن کامل نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٧ (١٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٧ (٤٥) ، سنن النسائی/الإیمان ١٩ (٥٠١٩) ، ٣٣ (٥٠٤٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٦) (تحفة الأشراف : ١٢٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے ، اگر مسلمان اپنے معاشرہ کو خود غرضی رشوت ، بددیانتی ، جعل سازی ، لوٹ کھسوٹ وغیرہ سے پاک صاف رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس حدیث کو اپنے لیے نمونہ بنا کر اس پر عمل کرنا ہوگا ، إن شاء اللہ جو بھی اخلاقی بیماریاں عام ہیں وہ ختم ہوجائیں گی ، ورنہ ذلت اور بداخلاقی سے ہمیشہ دو چار رہیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (66) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2515

【102】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا : اے لڑکے ! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں : تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہوگئے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥٤١٥) ، وانظر : مسند احمد ١/٢٩٣، ٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ اللہ کے فیصلہ کو کوئی نہیں بدل سکتا ، اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے ، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے ، بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ رہے تو اللہ اپنے اس بندے کا خیال رکھتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5302) ، ظلال الجنة (316 - 318) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2516

【103】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں ؟ آپ نے فرمایا : اسے باندھ دو ، پھر توکل کرو ۔ عمرو بن علی الفلاس کہتے ہیں : یحییٰ بن سعید القطان نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث انس کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ ٢ - اسی طرح سے یہ حدیث عمرو بن امیہ ضمری کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٠٢) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن تخريج المشکلة (22) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2517

【104】

ابوالحوراء شیبان سعدی کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن علی (رض) سے پوچھا : آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیا چیز یاد کی ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یاد کیا ہے کہ اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے، سچائی دل کو مطمئن کرتی ہے، اور جھوٹ دل کو بےقرار کرتا اور شک میں مبتلا کرتا ہے ١ ؎، اور اس حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوالحوراء سعدی کا نام ربیعہ بن شیبان ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأشربة ٥٠ (٥٧١٤) (تحفة الأشراف : ٣٤٠٥) ، و مسند احمد (١/٢٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ شک و شبہ والی چیزوں سے اجتناب کرو ، اور جس پر قلبی اطمینان ہو ، اس پر عمل کرو ، سچائی کو اپنا شعار بناؤ کیونکہ اس سے قلبی اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے ، جب کہ جھوٹ سے دل بےقرار اور پریشان رہتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (12 و 2074) ، الظلال (179) ، الروض النضير (152) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2518 اس سند سے بھی حسن بن علی (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (12 و 2074) ، الظلال (179) ، الروض النضير (152) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2518

【105】

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو عبادت و ریاضت میں مشہور تھا اور ایک دوسرے شخص کا ذکر کیا گیا جو ورع و پرہیزگاری میں مشہور تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی بھی عبادت ورع و پرہیزگاری کے برابر نہیں ہوسکتی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٠٧٨) (ضعیف) (سند میں محمد بن عبد الرحمن بن نبیہ مجہول راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4817) // ضعيف الجامع الصغير (6355) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2519

【106】

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص حلال کھائے، سنت پر عمل کرے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں، وہ جنت میں داخل ہوگا ، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایسے لوگ تو اس زمانے میں بہت پائے جاتے ہیں ؟ ، آپ نے فرمایا : ایسے لوگ میرے بعد کے زمانوں میں بھی ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اس حدیث کو اسرائیل کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٧٢) (ضعیف) (سند میں ابو بشر مجہول راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (178) ، التعليق الرغيب (1 / 41) // ضعيف الجامع الصغير (5476) ما عدا الجزء الأخير // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2520

【107】

معاذ بن انس جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی رضا کے لیے دیا اور اللہ کی رضا کے لیے روکا اور جس نے اللہ کی رضا کے لیے محبت کی، اور اللہ کی رضا کے لیے عداوت و دشمنی کی اور اللہ کی رضا کے لیے نکاح کیا تو یقیناً اس کا ایمان مکمل ہوگیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٠١) ، وانظر مسند احمد (٣/٣٣٨، ٤٤٠) (حسن) (امام ترمذی نے اسے منکر کہا ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة رقم : ٣٨٠ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (1 / 113) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2521

【108】

None

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں جو پہلا گروہ داخل ہو گا ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی صورت ہوں گے اور دوسرے گروہ کے چہرے اس بہتر روشن اور چمکدار ستارے کی طرح ہوں گے جو آسمان میں ہے، ان میں سے ہر شخص کو دو دو بیویاں ملیں گی، ہر بیوی کے بدن پر لباس کے ستر جوڑے ہوں گے، پھر بھی اس کی پنڈلی کا گودا باہر سے ( گوشت کے پیچھے سے ) دکھائی دے گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔