35. جنت کی صفات کا بیان
جنت کے درختوں کی صفات کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایسے درخت ہیں کہ سوار ان کے سایہ میں سو برس تک چلتا رہے (پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہوگا ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ١ (٢٧٢٦) (تحفة الأشراف : ١٤٣١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2525
جنت کے درختوں کی صفات کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایسے درخت ہیں کہ سوار ان کے سایہ میں سو برس تک چلتا رہے پھر بھی ان کا سایہ ختم نہ ہوگا ، نیز آپ نے فرمایا : یہی «ظل الممدود» ہے (یعنی جس کا ذکر قرآن میں ہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابو سعید خدری (رض) کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٢١) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح ويأتى من حديث أنس (3347) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2523
جنت کے درختوں کی صفات کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں کوئی درخت ایسا نہیں ہے جس کا تنا سونے کا نہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٤١٨) (صحیح) (تراجع الالبانی ٣٧٩ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (4 / 257) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2524
جنت اور اس کی نعمتوں کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آخر کیا وجہ ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دلوں پر رقت طاری رہتی ہے اور ہم دنیا سے بیزار ہوتے ہیں اور آخرت والوں میں سے ہوتے ہیں، لیکن جب ہم آپ سے جدا ہو کر اپنے بال بچوں میں چلے جاتے ہیں اور ان میں گھل مل جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں کو بدلا ہوا پاتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اسی حالت و کیفیت میں رہو جس حالت و کیفیت میں میرے پاس سے نکلتے ہو تو تم سے فرشتے تمہارے گھروں میں ملاقات کریں، اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق کو پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے ١ ؎، پھر اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرمائے گا ۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مخلوق کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا : پانی سے ، ہم نے عرض کیا : جنت کس چیز سے بنی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک سونے کی اور اس کا گارا مشک اذفر کا ہے اور اس کے کنکر موتی اور یاقوت کے ہیں، اور زعفران اس کی مٹی ہے، جو اس میں داخل ہوگا وہ عیش و آرام کرے گا، کبھی تکلیف نہیں پائے گا اور اس میں ہمیشہ رہے گا اسے کبھی موت نہیں آئے گی، ان کے کپڑے پرانے نہیں ہوں گے اور ان کی جوانی کبھی فنا نہیں ہوگی ، پھر آپ نے فرمایا : تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں : پہلا امام عادل ہے، دوسرا روزہ دار جب وہ افطار کرے، اور تیسرا مظلوم جب کہ وہ بد دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ (اس کی بد دعا کو) بادل کے اوپر اٹھا لیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے : قسم ہے میری عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر ہی سہی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے اور نہ ہی میرے نزدیک یہ متصل ہے، ٢ - یہ حدیث دوسری سند سے ابومدلہ کے واسطہ سے بھی آئی ہے جسے وہ ابوہریرہ (رض) سے اور ابوہریرہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٩٠٥) وانظر مسند احمد (٢/٣٠٤، ٣٠٥) (ضعیف) (مؤلف نے اس سند کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے، سند میں زیاد الطائی مجہول راوی ہے، جس نے ابوہریرہ سے مرسل روایت کی ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے، جیسا کہ مؤلف نے صراحت فرمائی، پھر ابو مدلہ کی روایت کا ذکر کیا، جو ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کے اکثر فقرے ثابت ہیں، حافظ ابن حجر نے ابو مدلہ مولی عائشہ کو مقبول کہا ہے، حدیث میں مما خلق الخلق کا فقرہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، نیز ثلاث لا ترد ... آخر حدیث تک بھی ضعیف ہے (ضعیف الجامع ٢٥٩٢، والضعیفة ١٣٥٩) ، لیکن حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، جو صحیح مسلم (التوبة ٢ /٢٧٤٩) ، ترمذی (٢٥١٤، ٢٤٥٢) ، ابن ماجہ (٤٢٣٦) اور مسند احمد (٤/١٨٧، ٣٤٦) میں حنظلہ الاسیدی سے مروی ہے اور دوسرے فقرہ ولو لم تذنبوا کی مختلف طرق سے البانی نے تخریج کر کے اس کی تصحیح کی ہے : الصحیحة رقم ٩٦٧، ٩٦٨، ٩٦٩، ٩٧٠ و ١٩٥٠، ١٩٥١، ١٩٦٥) اور الجنة بناؤها لبنة ... ولا يفنی شبابهم کا فقرہ بھی حسن ہے (السراج المنیر ٨٠٨٣ ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ گناہ تو ہر انسان سے ہوتا ہے ، لیکن وہ لوگ اللہ کو زیادہ پسند ہیں جو گناہ کر کے اس پر اڑتے نہیں بلکہ توبہ و استغفار کرتے ہیں ، اور اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کے ساتھ گڑگڑاتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اللہ کو گناہ کا ارتکاب کرنا پسند ہے ، بلکہ اس حدیث کا مقصد توبہ و استغفار کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح - دون قوله : مم خلق الخلق ... -، الصحيحة (2 / 692 - 693) ، غاية المرام في تخريج أحاديث الحلال والحرام (373) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2526
جنت کے بالاخانوں سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا ۔ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کن لوگوں کے لیے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : یہ اس کے لیے ہوں گے جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے، پابندی سے روزے رکھے اور جب لوگ سو رہے ہوں تو اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - بعض اہل علم نے عبدالرحمٰن بن اسحاق کے بارے میں ان کے حافظہ کے تعلق سے کلام کیا ہے، یہ کوفی ہیں اور عبدالرحمٰن بن اسحاق جو قریشی ہیں وہ مدینہ کے رہنے والے ہیں اور یہ عبدالرحمٰن کوفی سے اثبت ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٨٤ (حسن لغیرہ) (دیکھیے مذکورہ حدیث کے تحت اس پر بحث ) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 46) ، المشکاة (1233 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2527
جنت کے بالاخانوں سے متعلق
ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں دو ایسے باغ ہیں کہ جن کے برتن اور اس کی تمام چیزیں چاندی کی ہیں اور دو ایسے باغ ہیں جس کے برتن اور جس کی تمام چیزیں سونے کی ہیں، جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف وہ کبریائی چادر حائل ہوگی جو اس کے چہرے پر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الرحمن ١ (٤٨٧٨) ، و ٢ (٤٨٨٠) ، والتوحید ٢٤ (٧٤٤٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٠ (١٨٠) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨٦) (تحفة الأشراف : ٩١٣٥) ، و مسند احمد (٤/٤١١، ٤١٦) ، وسنن الدارمی/الرقاق ١٠١ (٢٨٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جب اللہ رب العالمین اپنی رحمت سے اس کبریائی والی چادر کو ہٹا دے گا تو اہل جنت اپنے رب کے دیدار سے فیضیاب ہوں گے ، اور جنت کی نعمتوں میں سے یہ ان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (186) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2528 ابوموسیٰ اشعری (رض) اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں موتی کا ایک لمبا چوڑا خیمہ ہے جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہے۔ اس کے ہر گوشے میں مومن کے گھر والے ہوں گے، مومن ان پر گھومے گا تو (اندرونی) ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (186) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2528
جنت کے درجات کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں سو درجے ہیں، ہر ایک درجہ سے دوسرے درجہ کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٢٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (922) ، المشکاة (5632) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2529
جنت کے درجات کے متعلق
معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے، نمازیں پڑھیں اور حج کیا (- عطاء بن یسار کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ معاذ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں -) تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق بنتا ہے کہ اس کو بخش دے اگرچہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اپنی پیدائشی سر زمین میں ٹھہرا رہے ۔ معاذ نے کہا : کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو چھوڑ دو ، وہ عمل کرتے رہیں، اس لیے کہ جنت میں سو درجے ہیں اور ایک درجہ سے دوسرے درجہ کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ زمین و آسمان کے درمیان کا، فردوس جنت کا اعلیٰ اور سب سے اچھا درجہ ہے، اسی کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں بہتی ہیں، لہٰذا جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اسی طرح یہ حدیث «عن هشام بن سعد عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن معاذ بن جبل» کی سند سے مروی ہے، اور یہ میرے نزدیک ہمام کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے، جسے انہوں نے «عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن عبادة بن الصامت» کی سند سے روایت کی ہے (جو آگے آرہی ہے) ، عطاء نے معاذ بن جبل کو نہیں پایا ہے (یعنی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے) اور معاذ بن جبل کی وفات (عبادہ بن صامت سے پہلے) عمر (رض) کے عہد خلافت میں ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٢٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (921) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2530
جنت کے درجات کے متعلق
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں سو درجے ہیں اور ہر دو درجہ کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، درجہ کے اعتبار سے فردوس اعلیٰ جنت ہے، اسی سے جنت کی چاروں نہریں بہتی ہیں اور اسی کے اوپر عرش ہے، لہٰذا جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس مانگو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥١٠٤) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے حدیث نمبر (٢٥٣٠ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (921) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2531 اس سند سے بھی عبادہ بن صامت (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے حدیث نمبر (٢٥٣٠ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (921) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2531
جنت کے درجات کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں سو درجے ہیں، اگر سارے جہاں کے لوگ ایک ہی درجہ میں اکٹھے ہوجائیں تو یہ ان سب کے لیے کافی ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٥٣) (ضعیف) (سند میں ابن لھیعہ اور دراج ابو السمح ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5633) ، الضعيفة (1886) // ضعيف الجامع الصغير (1901) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2532
جنت کی عورتوں کے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنتیوں کی عورتوں میں سے ہر عورت کے پنڈلی کی سفیدی ستر جوڑے کپڑوں کے باہر سے نظر آئے گی، حتیٰ کہ اس کا گودا بھی نظر آئے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «كأنهن الياقوت والمرجان» گویا وہ یاقوت اور مونگے موتی ہیں ، یاقوت ایک ایسا پتھر ہے کہ اگر تم اس میں دھاگا ڈال دو پھر اسے صاف کرو تو وہ دھاگا تمہیں باہر سے نظر آ جائے گا ۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٤٨٨) (ضعیف) (اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، جیسا کہ مؤلف نے صراحت کی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 263) // ضعيف الجامع الصغير (1776) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2533 اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور اسے (ابوالاحوص نے) مرفوع نہیں کیا، یہ عبیدہ بن حمید کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح جریر اور کئی لوگوں نے عطاء بن سائب سے اسے غیر مرفوع روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2534
None
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور اسے ( ابوالاحوص نے ) مرفوع نہیں کیا، یہ عبیدہ بن حمید کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح جریر اور کئی لوگوں نے عطاء بن سائب سے اسے غیر مرفوع روایت کی ہے۔
جنت کی عورتوں کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کے چہرے کی روشنی چودہویں کے چاند کی روشنی کی طرح ہوگی اور دوسرا گروہ آسمان کے روشن اور سب سے خوبصورت ستارے کی طرح ہوگا، ان میں سے ہر آدمی کے لیے دو دو بیویاں ہوں گی اور ہر بیوی کے جسم پر ستر جوڑے کپڑے ہوں گے اور ان کے پنڈلی کا گودا ان کے کپڑوں کے باہر سے نظر آئے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٥٢٢ (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے : الصحیحة رقم : ١٧٣٦ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1736) ، المشکاة (5635 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (261) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2535 ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں داخل ہونے والا پہلا گروہ چودہویں رات کی چاند کی طرح ہوگا، دوسرا گروہ آسمان میں چمکنے والے سب سے بہتر ستارہ کی طرح ہوگا، ہر جنتی کے لیے دو بیویاں ہوں گی، ہر بیوی کے جسم پر ستر جوڑے کپڑے ہوں گے، اس کے پنڈلی کا گودا ان کپڑوں کے باہر سے نظر آئے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٥٢٢ (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے : الصحیحة رقم : ١٧٣٦ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1736) ، المشکاة (5635 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (261) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2535
اہل جنت کے جماع کے بارے میں
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں مومن کو جماع کی اتنی اتنی طاقت دی جائے گی ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا وہ اس کی طاقت رکھے گا ؟ آپ نے فرمایا : اسے سو آدمی کی طاقت دی جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح غریب ہے، ٢ - قتادہ کی یہ حدیث جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں اسے ہم صرف عمران القطان کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں زید بن ارقم (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٢٢) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (5636) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2536
اہل جنت کی صفت کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہوگا ان کی شکل چودہویں رات کے چاند کی طرح ہوگی، نہ وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک صاف کریں گے اور نہ پاخانہ کریں گے، جنت میں ان کے برتن سونے کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیاں عود کی ہوں گی اور ان کا پسینہ مشک کا ہوگا۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے (کم از کم) دو دو بیویاں ہوں گی، خوبصورتی کے سبب ان کی پنڈلی کا گودا گوشت کے اندر سے نظر آئے گا۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوگا، اور نہ ان کے درمیان کوئی عداوت و دشمنی ہوگی۔ ان کے دل ایک آدمی کے دل کے مانند ہوں گے، وہ صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کریں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - «الألوة» عود کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٨ (٣٢٤٥، ٢٤٦، ٣٢٥٤) و أحادیث الأنبیاء ١ (٣٣٢٧) ، صحیح مسلم/الجنة ٦ و ٧ (٢٨٣٤/١٤، ١٧) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٩ (٤٣٣٣) (تحفة الأشراف : ١٤٦٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2537
اہل جنت کی صفت کے متعلق
سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر ناخن کے برابر جنت کی کوئی چیز ظاہر ہوجائے تو وہ آسمان و زمین کے کناروں کو چمکا دے، اور اگر جنت کا کوئی آدمی جھانکے اور اس کے کنگن ظاہر ہوجائیں تو وہ سورج کی روشنی کو ایسے ہی مٹا دیں، جیسے سورج ستاروں کی روشنی کو مٹا دیتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں ١ ؎۔ ٢ - یحییٰ بن ایوب نے یہ حدیث یزید بن ابی حبیب سے روایت کی ہے اور سند یوں بیان کی ہے : «عن عمر بن سعد بن أبي وقاص عن النبي صلی اللہ عليه وسلم»۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سند میں ابن لہیعہ سے روایت کرنے والے چونکہ عبداللہ بن مبارک ہیں اس لیے یہ حدیث صحیح ہے ، جیسا کہ علماء جرح و تعدیل نے صراحت کی ہے ، ان کے علاوہ عبداللہ بن وہب عبداللہ بن مسلمہ اور عبداللہ بن یزید المقری کی ان سے روایت صحیح مانی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5637 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2538
اہل جنت کے لباس کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنتی بغیر بال کے، امرد اور سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے، نہ ان کی جوانی ختم ہوگی اور نہ ان کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5638 و 5639 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (4 / 245) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2539
اہل جنت کے لباس کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے قول «وفرش مرفوعة» (الواقعۃ : ٣٤ ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں : جنت کے فرش کی بلندی اتنی ہوگی جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔ یعنی پانچ سو سال کی مسافت ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف رشدین بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کے بارے میں کہا ہے : اس کا مفہوم یہ ہے کہ فرش جنت کے درجات میں ہوں گے، اور ان درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٥٧) (ضعیف) (سند میں دراج ابو السمح اور رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5634) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2540
جنت کے پھلوں کے متعلق
اسماء بنت ابوبکر (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، اس وقت آپ کے سامنے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر آیا تھا۔ آپ نے فرمایا : اس کی شاخوں کے سائے میں سوار سو سال تک چلے گا، یا اس کے سائے میں سو سوار رہیں گے، (یہ شک حدیث کے راوی یحییٰ کی طرف سے ہے۔ ) اس پر سونے کے بسترے ہیں اور اس کے پھل مٹکے جیسے (بڑے) ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٧١٦) (ضعیف) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور یونس بن بکیر روایت میں غلطیاں کر جایا کرتے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5640 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (4 / 256) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2541
جنت کے پرندوں کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کوثر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ ایک نہر ہے اللہ نے ہمیں جنت کے اندر دی ہے، یہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے، اس میں ایسے پرندے ہیں جن کی گردنیں اونٹ کی گردنوں کی طرح ہیں ، عمر (رض) نے کہا : وہ تو واقعی نعمت میں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہیں کھانے والے ان سے زیادہ نعمت میں ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - محمد بن عبداللہ بن مسلم، یہ ابن شہاب زہری کے بھتیجے ہیں، ٣ - عبداللہ بن مسلم نے ابن عمر اور انس بن مالک (رض) سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٧٥) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (5641) ، الصحيحة (2514) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2542
جنت کے گھوڑوں کے متعلق
بریدہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھتے ہوئے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا جنت میں گھوڑے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر اللہ نے تم کو جنت میں داخل کیا تو تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار کیا جائے گا، تم جہاں چاہو گے وہ تمہیں جنت میں لے کر اڑے گا ، آپ سے ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا جنت میں اونٹ ہیں ؟ بریدہ کہتے ہیں : آپ نے اس کو پہلے آدمی کی طرح جواب نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا : اگر اللہ نے تمہیں جنت میں داخل کیا تو اس میں تمہارے لیے ہر وہ چیز موجود ہوگی جس کی تم چاہت کرو گے اور جس سے تمہاری آنکھیں لطف اٹھائیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩٣٩) (حسن) (تراجع الالبانی ٢٤٥، الصحیحہ ٣٠٠١، صحیح الترغیب ٣٧٥٦، و ٣٧٥٧ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5642) ، الضعيفة (1980) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2543
جنت کے گھوڑوں کے متعلق
ابوایوب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک اعرابی نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے گھوڑا پسند ہے، کیا جنت میں گھوڑے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم جنت میں داخل کئے گئے تو تمہیں یاقوت کا گھوڑا دیا جائے گا، اس کے دو پر ہوں گے تم اس پر سوار کئے جاؤ گے پھر جہاں چاہو گے وہ تمہیں لے کر اڑے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔ ہم اسے ابوایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - ابوسورۃ، ابوایوب کے بھتیجے ہیں۔ یہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔ انہیں یحییٰ بن معین نے بہت زیادہ ضعیف قرار دیا ہے، ٣ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا : ابوسورۃ منکر حدیث ہیں، یہ ابوایوب (رض) سے ایسی کئی منکر احادیث روایت کرتے ہیں، جن کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٤٩٦) (حسن) (تراجع الالبانی ٢٤٥، الصحیحہ ٣٠٠١، صحیح الترغیب ٣٧٥٦، و ٣٧٥٧ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5643) ، الضعيفة أيضا // ضعيف الجامع الصغير (1287) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2544
جنتیوں کی عمر کے متعلق
معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنتی جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم پر بال نہیں ہوں گے، وہ امرد ہوں گے، سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے اور تیس یا تینتیس سال کے ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - قتادہ کے بعض شاگردوں نے اسے قتادہ سے مرسلا روایت کیا ہے۔ اور اسے مسند نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٣٦) ، و مسند احمد (٥/٢٣٢، ٢٤٠، ٢٤٣) ، وانظر أیضا حدیث رقم ٢٥٣٩ (حسن) (سند میں کئی علتیں ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن انظر الحديث (2675) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2545
جنت کی کی کتنی صفیں ہوں گی؟
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنتیوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جس میں سے اسّی صفیں اس امت کی اور چالیس دوسری امتوں کی ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - یہ حدیث «عن علقمة بن مرثد عن سليمان بن بريدة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً مروی ہے، ٣ - بعض لوگوں نے سند یوں بیان کی ہے : «عن سليمان بن بريدة عن أبيه» ، ٤ - ابوسنان کی حدیث جو محارب بن دثار کے واسطہ سے مروی ہے، حسن ہے، ٥ - ابوسنان کا نام ضرار بن مرۃ ہے اور ابوسنان شیبانی کا نام سعید بن سنان ہے، یہ بصریٰ ہیں، ٦ - اور ابوسنان شامی کا نام عیسیٰ بن سنان ہے، اور یہ قسم لی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٤ (٤٢٨٩) (تحفة الأشراف : ١٩٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4289) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2546
جنت کی کی کتنی صفیں ہوں گی؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک خیمہ میں ہم تقریباً چالیس آدمی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، آپ نے ہم سے فرمایا : کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ تم جنتیوں کی چوتھائی رہو ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ تم جنتیوں کی تہائی رہو ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ تم جنتیوں کے آدھا رہو ؟ جنت میں صرف مسلمان ہی جائے گا اور مشرکین کے مقابلے میں تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کالے بیل کے چمڑے پر سفید بال یا سرخ بیل کے چمڑے پر کالا بال ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمران بن حصین اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٥ (٦٥٢٨) ، والأیمان والنذور ٣ (٦٦٤٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٩٥ (٢٢١) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٤ (٤٢٨٣) (تحفة الأشراف : ٩٤٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4283) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2547
جنت کے دروازوں کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ دروازہ جس سے میری امت جنت میں داخل ہوگی اس کی چوڑائی تیز رفتار گھوڑ سوار کے تین دن کی مسافت کے برابر ہوگی، پھر بھی دروازے پر ایسی بھیڑ بھاڑ ہوگی کہ ان کے کندھے اترنے کے قریب ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے نہیں جان سکے اور کہا : سالم بن عبداللہ کے واسطہ سے خالد بن ابی بکر کی کئی منکر احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٧٦٠) (ضعیف) (سند میں خالد بن ابی بکر ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5654 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2548
جنت کے بازار کے متعلق
سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ ابوہریرہ (رض) سے ملے تو ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تم کو جنت کے بازار میں اکٹھا کرے۔ سعید بن مسیب نے کہا : کیا اس میں بازار بھی ہے ؟ ابوہریرہ (رض) نے کہا : ہاں، مجھے رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو وہ اس میں اپنے اعمال کے مطابق اتریں گے، پھر دنیا کے دنوں میں سے جمعہ کے دن کے برابر انہیں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رب کی زیارت کریں گے، ان کے لیے عرش ظاہر ہوگا اور جنت کے ایک باغ میں نظر آئے گا، پھر ان کے لیے نور کے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زمرد کے منبر، سونے کے منبر، اور چاندی کے منبر رکھے جائیں گے، ان کے ادنیٰ درجہ والے حالانکہ ان میں کوئی بھی ادنیٰ نہیں ہوگا مشک اور کافور کے ٹیلے پر بیٹھیں گے اور دوسرے منبر والوں کے بارے میں یہ نہیں خیال کریں گے کہ وہ ان سے اچھی جگہ بیٹھے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، کیا تم سورج اور چودہویں رات کے چاند دیکھنے میں دھکم پیل کیے جاتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اسی طرح تم اپنے رب کا دیدار کرنے میں دھکم پیل نہیں کرو گے، اور اس مجلس میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہوگا جس کے روبرو اللہ تعالیٰ گفتگو نہ کرے، حتیٰ کہ ان میں سے ایک آدمی سے کہے گا : اے فلاں بن فلاں ! کیا تمہیں وہ دن یاد ہے جب تم نے ایسا ایسا کیا تھا ؟ پھر اسے اس کے بعض گناہ یاد دلائے گا جو دنیا میں اس نے کیے تھے تو وہ آدمی کہے گا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے معاف نہیں کردیا ؟ اللہ تعالیٰ کہے گا : کیوں نہیں ؟ میری مغفرت کے سبب ہی تم اس مقام پر ہو۔ وہ سب اسی حال میں ہوں گے کہ اوپر سے انہیں ایک بدلی ڈھانپ لے گی اور ان پر ایسی خوشبو برسائے گی کہ اس طرح کی خوشبو انہیں کبھی نہیں ملی ہوگی اور ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کہے گا : اس کرامت اور انعام کی طرف جاؤ جو ہم نے تمہارے لیے تیار کر رکھی ہے، اور اس میں سے جو چاہو لو، چناچہ ہم ایک ایسے بازار میں آئیں گے جسے فرشتے گھیرے ہوں گے اس میں ایسی چیزیں ہوں گی کہ اس طرح نہ کبھی آنکھوں نے دیکھی ہوگی نہ کانوں نے سنا ہوگا اور نہ کبھی دلوں میں اس کا خیال آیا ہوگا، ہم جو چاہیں گے ہمارے پاس لایا جائے گا، اس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی اور اسی بازار میں جنتی ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ، آپ نے فرمایا : ایک بلند مرتبہ والا آدمی اپنے سے کم رتبہ والے کی طرف متوجہ ہوگا اور اس سے ملاقات کرے گا (حالانکہ حقیقت میں اس میں سے کوئی بھی کم مرتبے والا نہیں ہوگا) تو اسے (ادنیٰ مرتبے والے کو) اس کا لباس دیکھ کر عجیب سا لگے گا پھر اس کی آخری گفتگو ختم بھی نہیں ہوگی کہ اسے محسوس ہوگا کہ اس کا لباس اس سے بھی اچھا ہے اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ جنت میں کسی کا مغموم ہونا مناسب نہیں ہے۔ پھر ہم (جنتی) اپنے گھروں کی طرف واپس جائیں گے اور اپنی بیویوں سے ملیں گے تو وہ کہیں گی : خوش آمدید ! آپ ایسا حسن و جمال لے کر آئے ہیں جو اس سے کہیں بہتر ہے جب آپ ہم سے جدا ہوئے تھے، تو وہ آدمی کہے گا : آج ہم اپنے رب جبار کے ساتھ بیٹھے تھے اور ہمارا حق ہے کہ ہم اسی طرح لوٹیں جس طرح لوٹے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - ـ سویدبنعمرونے بھیاوزاعی سے اسحدیثکابعضحصہروایتکیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٩ (٤٣٣٦) (تحفة الأشراف : ١٣٠٩١) (ضعیف) (سند میں عبدالحمید کبھی کبھی روایت میں غلطی کر جاتے تھے، اور ہشام بن عمار میں بھی کلام ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے الضعیفة رقم : ١٧٢٢ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4336) // ضعيف ابن ماجة برقم (947) ، المشکاة (5647) // ضعيف الجامع الصغير (1831) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2549
جنت کے بازار کے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک ایسا بازار ہے جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، البتہ اس میں مرد اور عورتوں کی صورتیں ہیں، جب آدمی کسی صورت کو پسند کرے گا تو وہ اس میں داخل ہوجائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ الموٌلف (ضعیف) (سند میں عبد الرحمن بن اسحاق بن الحارث واسطی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5646) ، الضعيفة (1982) // ضعيف الجامع الصغير (1896) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2550
روئیتِ باری تعالیٰ
جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا : تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں ہوگی۔ اگر تم سے ہو سکے کہ سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعد کی نماز (فجر اور مغرب) میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : «سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٦ (٥٥٤) ، والتوحید ٢٤ (٧٤٣٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٧ (٦٣٣) ، سنن ابی داود/ السنة ٢٠ (٤٧٢٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٧٧) (تحفة الأشراف : ٣٢٢٣) ، و مسند احمد (٤/٣٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (177) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2551
روئیتِ باری تعالیٰ
صہیب (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ : «للذين أحسنوا الحسنی وزيادة» (یونس : ٢٦ ) کے بارے میں فرمایا : جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا : اللہ سے تمہیں ایک اور چیز ملنے والی ہے، وہ کہیں گے : کیا اللہ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا، ہمیں جہنم سے نجات نہیں دی، اور ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا ؟ وہ کہیں گے : کیوں نہیں، پھر حجاب اٹھ جائے گا ، آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے انہیں کوئی ایسی چیز نہیں دی جو ان کے نزدیک اللہ کے دیدار سے زیادہ محبوب ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ نے مسند اور مرفوع کیا ہے، ٢ - سلیمان بن مغیرہ اور حماد بن زید نے اس حدیث کو ثابت بنانی کے واسطہ سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے ان کے اپنے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٠ (١٨١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٨) ، و مسند احمد (٤/٣٣٢، ٣٣٣) ، ویأتي برقم : ٣١٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (187) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2552
روئیتِ باری تعالیٰ
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے کم تر درجے کا جنتی وہ ہوگا جو اپنے باغات، بیویوں، نعمتوں، خادموں اور تختوں کی طرف دیکھے گا جو ایک ہزار سال کی مسافت پر مشتمل ہوں گے، اور اللہ کے پاس سب سے مکرم وہ ہوگا جو اللہ کے چہرے کی طرف صبح و شام دیکھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی «وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة» اس دن بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے (القیامۃ : ٢٢ ، ٢٣ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث کئی سندوں سے اسرائیل کے واسطہ سے جسے وہ ثویر سے، اور ثویر ابن عمر سے روایت کرتے ہیں مرفوعاً آئی ہے۔ جب کہ اسے عبدالملک بن جبر نے ثویر کے واسطہ سے ابن عمر سے موقوفاً روایت کیا ہے، اور عبیداللہ بن اشجعی نے سفیان سے، سفیان نے ثویر سے، ثویر نے مجاہد سے اور مجاہد نے ابن عمر سے ان کے اپنے قول کی حیثیت سے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر القیامة (٣٣٣٠) (تحفة الأشراف : ٦٦٦٦) ، وانظرحم (٢/١٣، ٦٤) (ضعیف) (سند میں ثویر ضعیف اور رافضی راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1985) // ضعيف الجامع الصغير (1382) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2553
روئیتِ باری تعالیٰ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم چودہویں رات کا چاند دیکھنے میں مزاحمت اور دھکم پیل کرتے ہو ؟ کیا تم سورج کو دیکھنے میں مزاحمت اور دھکم پیل کرتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح چودہویں رات کے چاند کو دیکھتے ہو، اس کو دیکھنے میں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں کرو گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یحییٰ بن عیسیٰ رملی اور کئی لوگوں نے اسے اسی طرح «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، عبداللہ بن ادریس نے اسے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ٣ - ابن ادریس کی حدیث جو اعمش کے واسطہ سے مروی ہے غیر محفوظ ہے، اور ابوصالح کی حدیث جو ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے، ٤ - سہیل بن ابی صالح نے اسے اسی طرح اپنے والد سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے اور ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ یہ حدیث ابو سعید خدری (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے دوسری سند سے اسی کے مثل مروی ہے، اور وہ صحیح حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٩ (٨٠٦) ، والرقاق ٥٢ (٦٥٧٣) ، والتوحید (٧٤٣٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨١ (١٨٢) ، والزہد ١ (٢٩٦٨) ، سنن ابی داود/ السنة ٢٠ (٤٧٣٠) (تحفة الأشراف : ١٢٣٣٦) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٨١ (٢٨٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (178) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2554
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جنت والوں سے کہے گا : اے جنت والو ! وہ کہیں گے : لبیک اور سعدیک اے ہمارے رب ! اللہ تعالیٰ پوچھے گا : کیا تم راضی ہوگئے ؟ وہ کہیں گے : ہم کیوں نہیں راضی ہوں گے جب کہ تو نے ہمیں ان نعمتوں سے نوازا ہے جو تو نے اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہیں، اللہ تعالیٰ کہے گا : میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بہتر چیز دوں گا۔ وہ پوچھیں گے : اس سے بہتر کون سی چیز ہوسکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تمہارے اوپر اپنی رضا مندی نازل کروں گا اور تم سے کبھی نہیں ناراض ہوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥١ (٦٥٤٩) ، والتوحید ٣٨ (٧٥١٨) ، صحیح مسلم/الجنة ٣ (٢٨٣١) (تحفة الأشراف : ٤١٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2555
اس بارے میں کہ اہل جنت بالاخانوں سے ایک دوسرے کا نظارہ کریں گے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرق مراتب کے باوجود ایک دوسرے کو جنتی اسی طرح نظر آئیں گے جیسے مشرقی یا مغربی ستارہ نظر آتا ہے، جو افق میں نکلنے اور ڈوبنے والا ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا وہ انبیاء ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جنہوں نے رسولوں کی تصدیق کی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٢٤٠) ، وانظر مسند احمد (٢/٣٣٥، ٣٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (2 / 360 - 361) ، التعليق الرغيب (4 / 251) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2556
اس بارے میں کہ جنتی اور دوزخی ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہیں گے۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو ایک وسیع اور ہموار زمین میں جمع کرے گا، پھر اللہ رب العالمین ان کے سامنے اچانک آئے گا اور کہے گا : کیوں نہیں ہر آدمی اس چیز کے پیچھے چلا جاتا ہے جس کی وہ عبادت کرتا تھا ؟ چناچہ صلیب پوجنے والوں کے سامنے ان کی صلیب کی صورت بن جائے گی، بت پوجنے والوں کے سامنے بتوں کی صورت بن جائے گی اور آگ پوجنے والوں کے سامنے آگ کی صورت بن جائے گی، پھر وہ لوگ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے لگ جائیں گے اور مسلمان ٹھہرے رہیں گے، پھر رب العالمین ان کے پاس آئے گا اور کہے گا : تم بھی لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں چلے جاتے ؟ وہ کہیں گے : ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے، ہم یہیں رہیں گے یہاں تک کہ ہم اپنے رب کو دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے گا اور ان کو ثابت قدم رکھے گا اور چھپ جائے گا، پھر آئے گا اور کہے گا : تم بھی لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں چلے جاتے ؟ وہ کہیں گے : ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہمارا رب اللہ ہے اور ہماری جگہ یہی ہے یہاں تک کہ ہم اپنے رب کو دیکھ لیں، اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے گا اور انہیں ثابت قدم رکھے گا، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا : کیا چودہویں رات کے چاند دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : نہیں، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے دیکھنے میں اس وقت کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں کرو گے۔ پھر اللہ تعالیٰ چھپ جائے گا پھر جھانکے گا اور ان سے اپنی شناخت کرائے گا، پھر کہے گا : میں تمہارا رب ہوں، میرے پیچھے آؤ، چناچہ مسلمان کھڑے ہوں گے اور پل صراط قائم کیا جائے گا، اس پر سے مسلمان تیز رفتار گھوڑے اور سوار کی طرح گزریں گے اور گزرتے ہوئے ان سے یہ کلمات ادا ہوں گے «سلم سلم» سلامت رکھ، سلامت رکھ ، صرف جہنمی باقی رہ جائیں گے تو ان میں سے ایک گروہ کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا، پھر پوچھا جائے گا : کیا تو بھر گئی ؟ جہنم کہے گی : «هل من مزيد» اور زیادہ، پھر اس میں دوسرا گروہ پھینکا جائے گا اور پوچھا جائے گا : کیا تو بھر گئی ؟ وہ کہے گی : «هل من مزيد» اور زیادہ، یہاں تک کہ جب تمام لوگ پھینک دیے جائیں گے تو رحمن اس میں اپنا پیر ڈالے گا اور جہنم کا ایک حصہ دوسرے میں سمٹ جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ کہے گا : بس۔ جہنم کہے گی : «قط قط» بس، بس۔ جب اللہ تعالیٰ جنتیوں کو جنت میں اور جہنمیوں کو جہنم میں داخل کر دے گا، تو موت کو کھینچتے ہوئے اس دیوار تک لایا جائے گا جو جنت اور جہنم کے درمیان ہے، پھر کہا جائے گا : اے جنتیو ! تو وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے، پھر کہا جائے گا : اے جہنمیو ! تو وہ شفاعت کی امید میں خوش ہو کر جھانکیں گے، پھر جنتیوں اور جہنمیوں سے کہا جائے گا : کیا تم اسے جانتے ہو ؟ تو یہ بھی کہیں گے اور وہ بھی کہیں گے : ہم نے اسے پہچان لیا، یہ وہی موت ہے جو ہمارے اوپر وکیل تھی، پھر وہ جنت اور جہنم کی بیچ والی دیوار پر لٹا کر یکبارگی ذبح کردی جائے گی، پھر کہا جائے گا : اے جنتیو ! ہمیشہ (جنت میں) رہنا ہے موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو ! ہمیشہ (جہنم میں) رہنا ہے موت نہیں آئے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٥) ، وانظر مسند احمد (٢/٣٦٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج الطحاوية (576) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2557
اس بارے میں کہ جنتی اور دوزخی ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہیں گے۔
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ( ﷺ ) نے فرمایا : قیامت کے دن موت کو چتکبرے مینڈھے کی طرح لایا جائے گا اور جنت و جہنم کے درمیان کھڑی کی جائے گی پھر وہ ذبح کی جائے گی، اور جنتی و جہنمی دیکھ رہے ہوں گے، سو اگر کوئی خوشی سے مرنے والا ہوتا تو جنتی مرجاتے اور اگر کوئی غم سے مرنے والا ہوتا تو جہنمی مرجاتے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٣٠) (صحیح) (” فلو أن أحدًا “ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ عطیہ عوفی ضعیف ہیں، اور اس ٹکڑے میں ان کا کوئی متابع نہیں، اور نہ اس کا کوئی شاہد ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح - دون قوله : فلو أن أحدا ... - الضعيفة (2669) // ضعيف الجامع الصغير (659) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2558 نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی بہت سی احادیث مروی ہیں جس میں دیدار الٰہی کا ذکر ہے کہ لوگ اپنے رب کو دیکھیں گے، قدم اور اسی طرح کی چیزوں کا بھی ذکر ہے، ٣ - اس سلسلے میں ائمہ اہل علم جیسے سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، ابن عیینہ اور وکیع وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کی روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ حدیثیں آئی ہیں اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں، لیکن صفات باری تعالیٰ کی کیفیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جائے گا، محدثین کا مسلک یہ یہی کہ یہ چیزیں ویسی ہی روایت کی جائیں گی جیسی وارد ہوئی ہیں، ان کی نہ (باطل) تفسیر کی جائے گی نہ اس میں کوئی وہم پیدا کیا جائے گا، اور نہ ان کی کیفیت وکنہ کے بارے میں پوچھا جائے گا، اہل علم نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اور لوگ اسی کی طرف گئے ہیں، ٤ - حدیث کے اندر «فيعرفهم نفسه» کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے تجلی فرمائے گا۔
اس بارے میں کہ جنت شدائد سے جبکہ جہنم خواہشات سے پر ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی ہے اور جہنم شہوتوں سے گھری ہوئی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ١ (٢٨٢٢) (تحفة الأشراف : ٣٢٩، و ٦١٥) ، و مسند احمد (٣/١٥٣، ٢٥٤، ٢٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جنت ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی ہے جیسے ایک مثال : سخت سردیوں میں نماز فجر وہ بھی جماعت سے کتنی تکلیف دہ ہے ، مگر جنت ایسے ہی لوگوں کو ملے گی ، اور آنکھ یا شرمگاہ سے حرام لذت کوشی میں کتنی لذت ہے ، مگر اس عمل پر اگر توبہ نہ ہو تو جہنم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2559
اس بارے میں کہ جنت شدائد سے جبکہ جہنم خواہشات سے پر ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ جنت اور جہنم کو پیدا کرچکا تو جبرائیل کو جنت کی طرف بھیجا اور کہا : جنت اور اس میں جنتیوں کے لیے جو کچھ ہم نے تیار کر رکھا ہے، اسے جا کر دیکھو ، آپ نے فرمایا : وہ آئے اور جنت کو اور جنتیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو تیار کر رکھا ہے اسے دیکھا : آپ نے فرمایا : پھر اللہ کے پاس واپس گئے اور عرض کیا : تیری عزت کی قسم ! جو بھی اس کے بارے میں سن لے اس میں ضرور داخل ہوگا، پھر اللہ نے حکم دیا تو وہ ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھیر دی گئی، اور اللہ نے کہا : اس کی طرف دوبارہ جاؤ اور اس میں جنتیوں کے لیے ہم نے جو تیار کیا ہے اسے دیکھو ۔ آپ نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) جنت کی طرف دوبارہ گئے تو وہ ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی تھی چناچہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لوٹ کر آئے اور عرض کیا : مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی داخل ہی نہیں ہوگا، اللہ نے کہا : جہنم کی طرف جاؤ اور جہنم کو اور جو کچھ جہنمیوں کے لیے میں نے تیار کیا ہے اسے جا کر دیکھو، (انہوں نے دیکھا کہ) اس کا ایک حصہ دوسرے پر چڑھ رہا ہے، وہ اللہ کے پاس آئے اور عرض کیا : تیری عزت کی قسم ! اس کے بارے میں جو بھی سن لے اس میں داخل نہیں ہوگا۔ پھر اللہ نے حکم دیا تو وہ شہوات سے گھیر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا : اس کی طرف دوبارہ جاؤ، وہ اس کی طرف دوبارہ گئے اور (واپس آ کر) عرض کیا : تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اس سے کوئی نجات نہیں پائے گا بلکہ اس میں داخل ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٢٥ (٤٧٤٤) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٣ (٣٧٩٤) (تحفة الأشراف : ١٥٠٦٤) ، و مسند احمد (٢/٣٣٣، ٣٥٤، ٢٧٣) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح تخريج التنکيل (2 / 177) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2560
جنت اور دوزخ کے درمیان تکرار کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت اور جہنم کے درمیان بحث و تکرار ہوئی، جنت نے کہا : میرے اندر کمزور اور مسکین داخل ہوں گے، جہنم نے کہا : میرے اندر ظالم اور متکبر داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے (فیصلہ کرتے ہوئے) جہنم سے کہا : تو میرا عذاب ہے اور میں تیرے ذریعہ جس سے چاہوں گا انتقام لوں گا اور جنت سے کہا : تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعہ جس پر چاہوں گا رحم کروں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة ق ١ (٤٨٥٠) ، صحیح مسلم/الجنة ١٣ (٢٨٤٦) (تحفة الأشراف : ١٥٠٦٣) ، و مسند احمد (٢/٢٧٦، ٣١٤، ٣٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح ظلال الجنة (528) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2561
ادنیٰ درجے کے جنتی کے لئے انعامات کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کم درجے کا جتنی وہ ہے جس کے لیے اسی ہزار خادم اور بہتر بیویاں ہوں گی۔ اس کے لیے موتی، زمرد اور یاقوت کا خیمہ نصب کیا جائے گا جو مقام جابیہ سے صنعاء (یمن) تک کے برابر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٥٠٥٩) (ضعیف) (سند میں دراج ابو السمح اور رشدین ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5648) // ضعيف الجامع الصغير (266) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2562
ادنیٰ درجے کے جنتی کے لئے انعامات کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مومن جنت میں لڑکے کی خواہش کرے گا تو حمل ٹھہرنا، ولادت ہونا اور اس کی عمر بڑھنا یہ سب کچھ اس کی خواہش کے مطابق ایک ساعت میں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض لوگ کہتے ہیں : جنت میں جماع تو ہوگا مگر بچہ نہیں پیدا ہوگا۔ طاؤس، مجاہد اور ابراہیم نخعی سے اسی طرح مروی ہے، ٣ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں : جب جنت میں مومن بچے کی خواہش کرے گا تو یہ ایک ساعت میں ہوجائے گا، جیسے ہی وہ خواہش کرے گا لیکن وہ ایسی خواہش نہیں کرے گا، ٤ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابورزین عقیلی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنتی کے لیے جنت میں کوئی بچہ نہیں ہوگا، ٥ - ابوصدیق ناجی کا نام بکر بن عمرو ہے، انہیں بکر بن قیس بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٩ (٤٣٣٨) (تحفة الأشراف : ٣٩٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ظلال الجنة (528) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2563
حوروں کی گفتگوں کے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں حورعین کے لیے ایک محفل ہوگی اس میں وہ اپنا نغمہ ایسا بلند کرے گا کہ مخلوق نے کبھی اس جیسی آواز نہیں سنی ہوگی ، آپ نے فرمایا : وہ کہیں گی : ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی فنا نہیں ہوں گی، ہم ناز و نعمت والی ہیں کبھی محتاج نہیں ہوں گی، ہم خوش رہنے والی ہیں کبھی ناراض نہیں ہوں گی، اس کے لیے خوشخبری اور مبارک ہو اس کے لیے جو ہمارے لیے ہے اور ہم اس کے لیے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - علی (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، ابو سعید خدری اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٢٩٨) (ضعیف) (سند میں عبد الرحمن بن اسحاق بن الحارث واسطی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1982) // ضعيف الجامع الصغير (1898) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2564
جنت کی نہروں کے متعلق
یحییٰ بن ابی کثیر آیت کریمہ : «فهم في روضة يحبرون» وہ جنت میں خوش کردیئے جائیں گے کے بارے میں کہتے ہیں : اس سے مراد سماع ہے اور سماع کا مفہوم وہی ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ حورعین اپنے نغمے کی آواز بلند کریں گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : لم یذکرہ المزي) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2565
جنت کی نہروں کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین قسم کے لوگ مشک کے ٹیلے پر ہوں گے ، راوی کہتے ہیں : میرا خیال ہے آپ نے فرمایا : قیامت کے دن، ان پر اگلے اور پچھلے رشک کریں گے : ایک وہ آدمی جو رات دن میں پانچ وقت نماز کے لیے اذان دے، دوسرا وہ آدمی جو کسی قوم کی امامت کرتا ہو اور وہ اس سے راضی ہوں اور تیسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف سفیان ثوری کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٩٨٦ (ضعیف) (سند میں ابوالیقظان ضعیف مدلس اور مختلط راوی ہے، تشیع میں بھی غالی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (666) ، نقد التاج (184) ، التعليق الرغيب (1 / 110) // ضعيف الجامع الصغير (2579) وتقدم برقم (339 / 2069) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2566
جنت کی نہروں کے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے : ایک وہ آدمی جو رات میں اٹھ کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرے، دوسرا وہ آدمی جو اپنے داہنے ہاتھ سے صدقہ کرے اور اسے چھپائے اور تیسرا وہ آدمی جو کسی سریہ میں ہو اور ہار جانے کے بعد پھر بھی دشمنوں کا مقابلہ کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، اور یہ محفوظ نہیں ہے۔ صحیح وہ روایت ہے جسے شعبہ وغیرہ نے «عن منصور عن ربعي بن حراش عن زيد بن ظبيان عن أبي ذر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ابوبکر بن عیاش بہت غلطیاں کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩١٩٩) (ضعیف) (سند میں ابوبکر بن عیاش سے بہت غلطیاں ہوجایا کرتی تھیں، یہاں انہوں نے ابو ذر (رض) کی روایت کو ابن مسعود “ (رض) کی روایت بنا ڈالی ہے، جیسا کہ مؤلف نے صراحت کی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1921 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (2609) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2567
جنت کی نہروں کے متعلق
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، اور تین قسم کے لوگوں سے نفرت، جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے وہ یہ ہیں : ایک وہ آدمی جو کسی قوم کے پاس جائے اور ان سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگے وہ اپنے اور اس قوم کے درمیان پائے جانے والے کسی رشتے کا واسطہ دے کر نہ مانگے اور وہ لوگ اسے کچھ نہ دیں، پھر ان میں سے ایک آدمی پیچھے پھرے اور اسے چپکے سے لا کر کچھ دے، اس کے عطیہ کو اللہ تعالیٰ اور جس کو دیا ہے اس کے سوا کوئی نہ جانے۔ دوسرے وہ لوگ جو رات کو چلیں یہاں تک کہ جب ان کو نیند ان چیزوں سے پیاری ہوجائے جو نیند کے برابر ہیں تو سواری سے اتریں اور سر رکھ کر سو جائیں اور ان میں کا ایک آدمی کھڑا ہو کر میری خوشامد کرنے اور میری آیتوں کی تلاوت کرنے لگے، تیسرا وہ آدمی جو کسی سریہ میں ہو اور دشمن سے مقابلہ ہو تو اس کے ساتھی ہار جائیں پھر بھی وہ سینہ سپر ہو کر آگے بڑھے یہاں تک کہ مارا جائے یا فتح حاصل ہوجائے۔ جن تین لوگوں سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے وہ یہ ہیں : وہ بوڑھا جو زنا کار ہو، وہ فقیر جو تکبر کرنے والا ہو اور مالدار جو دوسروں پر ظلم ڈھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٧ (١٦١٦) ، والزکاة ٧٥ (٢٥٧١) (تحفة الأشراف : ١٩١٣) ، و مسند احمد (٥/١٥٣) (سند میں ” زید بن ظبیان “ لین الحدیث ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1922) // ضعيف الجامع الصغير (2610) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2568 اس سند سے بھی ابوذر (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اسی طرح شیبان نے منصور کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، یہ ابوبکر بن عیاش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1922) // ضعيف الجامع الصغير (2610) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2568
جنت کی نہروں کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کا خزانہ اگلے، لہٰذا (اس وقت) جو موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٤ (٧١١٩) ، صحیح مسلم/الفتن ٨ (٢٨٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٥ (٤٠٤٥) (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٣) ، و مسند احمد (٢/٢٦١، ٣٣٢، ٣٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس لیے کہ یہ جھگڑا اور فتنہ و فساد کا ذریعہ بن جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2569 ابوہریرہ (رض) سے اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، مگر اس میں یہ فرق ہے کہ آپ نے فرمایا : سونے کا پہاڑ اگلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2570 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کا خزانہ اگلے، لہٰذا (اس وقت) جو موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٤ (٧١١٩) ، صحیح مسلم/الفتن ٨ (٢٨٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٥ (٤٠٤٥) (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٣) ، و مسند احمد (٢/٢٦١، ٣٣٢، ٣٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس لیے کہ یہ جھگڑا اور فتنہ و فساد کا ذریعہ بن جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2569 ابوہریرہ (رض) سے اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، مگر اس میں یہ فرق ہے کہ آپ نے فرمایا : سونے کا پہاڑ اگلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2570
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، مگر اس میں یہ فرق ہے کہ آپ نے فرمایا: ”سونے کا پہاڑ اگلے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جنت کی نہروں کے متعلق
معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں پانی کا سمندر ہے، شہد کا سمندر ہے، دودھ کا سمندر ہے اور شراب کا سمندر ہے، پھر اس کے بعد چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٣٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5650 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2571
جنت کی نہروں کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے تو جنت کہتی ہے : اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کر دے، اور جو تین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنم کہتی ہے : اے اللہ اس کو جہنم سے نجات دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اسی طرح «يونس بن أبي إسحق عن أبي إسحق عن بريد بن أبي مريم عن أنس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مروی ہے، ٢ - یہ حدیث «عن أبي إسحق عن بريد بن أبي مريم عن أنس بن مالک» کی سند سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستعاذة ٥٦ (٥٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٩ (٤٣٤٠) (تحفة الأشراف : ٢٤٣) ، و مسند احمد (٣/٢٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2478 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (4 / 222) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2572 انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے تو جنت کہتی ہے : اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کر دے، اور جو تین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنم کہتی ہے : اے اللہ اس کو جہنم سے نجات دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اسی طرح «يونس بن أبي إسحق عن أبي إسحق عن بريد بن أبي مريم عن أنس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مروی ہے، ٢ - یہ حدیث «عن أبي إسحق عن بريد بن أبي مريم عن أنس بن مالک» کی سند سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستعاذة ٥٦ (٥٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٩ (٤٣٤٠) (تحفة الأشراف : ٢٤٣) ، و مسند احمد (٣/٢٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2478 / التحقيق الثانی) ، التعليق الرغيب (4 / 222) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2572
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن جہنم اس طرح لائی جائے گی کہ اس کی ستر ہزار لگام ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے اسے کھینچ رہے ہوں گے“۔ عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کہتے ہیں: ثوری نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔