36. جہنم کا بیان
جہنم کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی اس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھیں گی، دو کان ہوں گے جو سنیں گے اور ایک زبان ہوگی جو بولے گی، وہ کہے گی : مجھے تین لوگوں پر مقرر کیا گیا ہے : ہر سرکش ظالم پر، ہر اس آدمی پر جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارتا ہو، اور مجسمہ بنانے والوں پر ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
جہنم کی گہرائی کے متعلق
حسن بصری کہتے ہیں کہ عتبہ بن غزوان (رض) نے ہمارے اس بصرہ کے منبر پر بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر ایک بڑا بھاری پتھر جہنم کے کنارہ سے ڈالا جائے تو وہ ستر برس تک اس میں گرتا جائے گا پھر بھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچے گا۔ عتبہ کہتے ہیں : عمر (رض) کہا کرتے تھے : جہنم کو کثرت یاد کرو، اس لیے کہ اس کی گرمی بہت سخت ہے۔ اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے اور اس کے آنکس (آنکڑے) لوہے کے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم عتبہ بن غزوان سے حسن بصری کا سماع نہیں جانتے ہیں، عمر (رض) کے عہد خلافت میں عتبہ بن غزوان (رض) بصرہ آئے تھے، اور حسن بصری کی ولادت اس وقت ہوئی جب عمر (رض) کے عہد خلافت کے دو سال باقی تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٢ (٤١٥٦) (مختصراً جداً ) (تحفة الأشراف : ٩٧٥٧) ، و مسند احمد (٤/١٧٤) ، (٥/٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1612) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2575
جہنم کی گہرائی کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «صعود» جہنم کا ایک پہاڑ ہے، اس پر کافر ستر سال میں چڑھے گا اور اتنے ہی سال میں نیچے گرے گا اور یہ عذاب اسے ہمیشہ ہوتا رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٦٣) (ضعیف) (سند میں دراج ابوالسمح ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5677) // ضعيف الجامع الصغير (3552) وسيأتي (657 / 3561) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2576
اس بارے میں کہ اہل جہنم کے اعضاء بڑے بڑے ہونگے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کافر کے چمڑے کی موٹائی بیالیس گز ہوگی، اس کی ڈاڑھ احد پہاڑ جیسی ہوگی اور جہنم میں اس کے بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جتنا مکہ اور مدینہ کے درمیان کا فاصلہ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اعمش کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٤١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5675) ، الصحيحة (1105) ، الظلال (610) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2577
اس بارے میں کہ اہل جہنم کے اعضاء بڑے بڑے ہونگے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن کافر کی ڈاڑھ احد پہاڑ جیسی ہوگی، اس کی ران بیضاء (پہاڑ) جیسی ہوگی اور جہنم کے اندر اس کے بیٹھنے کی جگہ تین میل کی مسافت کے برابر ہوگی جس طرح ربذہ کی دوری ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - «مثل الربذة» کا مطلب ہے کہ جس طرح ربذہ پہاڑ مدینہ سے دور ہے، ربذہ اور بیضاء احد کی طرح دو پہاڑ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ١٣ (٢٨٥١) (تحفة الأشراف : ١٣٥٠٥، و ١٤٥٩٦) ، و مسند احمد (٢/٣٢٨، ٥٣٧) (حسن) (الصحیحہ ١١٠٥ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (3 / 95) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2578
اس بارے میں کہ اہل جہنم کے اعضاء بڑے بڑے ہونگے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کافر کی ڈاڑھ احد جیسی ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٣٤٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (4 / 237) ، الصحيحة (3 / 96) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2579
اس بارے میں کہ اہل جہنم کے اعضاء بڑے بڑے ہونگے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کافر اپنی زبان کو ایک یا دو فرسخ تک گھسیٹے گا اور لوگ اسے روندیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - فضل بن یزید کوفی ہیں، ان سے کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے، ٣ - ابوالمخارق غیر معروف راوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٥٩٢) (ضعیف) (سند میں ابو المخارق مجہول راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5676) ، الضعيفة (1986) // ضعيف الجامع الصغير (1518) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2580
اس بارے میں کہ اہل جہنم کے اعضاء بڑے بڑے ہونگے
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے قول «کالمهل» کے بارے میں فرمایا : وہ پانی تلچھٹ کی طرح ہوگا جب اسے (کافر) اپنے منہ کے قریب کرے گا تو اس کے چہرے کی کھال اس میں گرجائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ہم صرف رشدین بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں، اور رشدین کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٥٨) (ضعیف) (سند میں ” دراج ابو السمح “ اور ” رشدین بن سعد “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5678) ، التعليق الرغيب (4 / 234) // وسيأتي (478 / 2723 و 656 / 3556) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2581
دوزخیوں کے مشروبات کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہنمیوں کے سر پر «ماء حمیم» (گرم پانی) انڈیلا جائے گا تو وہ (بدن میں) سرایت کر جائے گا یہاں تک کہ اس کے پیٹ تک جا پہنچے گا اور اس کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے اسے کاٹے گا یہاں تک کہ اس کے پیروں (یعنی سرین) سے نکل جائے گا۔ یہی وہ «صہر» ہے (جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے) پھر اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح تھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٥٩١) (حسن) (سند میں دراج ابو السمح ضعیف راوی ہیں، لیکن امام ابوداود نے یہ فرق کیا ہے کہ ابو سمح کی ابوالہیثم سے ضعیف ہے، اور ابن حجیرہ سے روایت درست ہے، اور یہاں ابو السمح کے شیخ ابن حجیرہ ہیں، تراجع الالبانی ٩٥، والصحیحہ ٣٤٧٠ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5679) ، التعليق أيضا // ضعيف الجامع الصغير (1433) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2582
دوزخیوں کے مشروبات کے متعلق
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ويسقی من ماء صديد يتجرعه» (ابراہیم : ١٦ ) کے بارے میں فرمایا : «صديد» (پیپ) اس کے منہ کے قریب کی جائے گی تو اسے ناپسند کرے گا جب اسے اور قریب کیا جائے گا تو اس کا چہرہ بھن جائے گا اور اس کے سر کی کھال گرجائے گی اور جب اسے پیئے گا تو اس کی آنت کٹ جائے گی یہاں تک کہ اس کے سرین سے نکل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وسقوا ماء حميما فقطع أمعاء هم» وہ «ماء حمیم» (گرم پانی) پلائے جائیں گے تو وہ ان کی آنتوں کو کاٹ دے گا (سورۃ محمد : ١٥ ) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وإن يستغيثوا يغاثوا بماء کالمهل يشوي الوجوه بئس الشراب» اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو تلچھٹ کی طرح ہوگا چہرے کو بھون دے گا اور وہ نہایت برا مشروب ہے (الکہف : ٢٩ ) امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اسی طرح محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی سند میں «عن عبيد اللہ بن بسر» کہا ہے اور ہم عبیداللہ بن بسر کو صرف اسی حدیث میں جانتے ہیں، ٣ - صفوان بن عمر نے عبداللہ بن بسر سے جو نبی اکرم ﷺ کے صحابی ہیں، ایک دوسری حدیث روایت کی ہے، عبداللہ بن بسر کے ایک بھائی ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سنی ہے اور ان کی ایک بہن نے بھی نبی اکرم ﷺ سے حدیث سنی ہے۔ جس عبیداللہ بن بسر سے صفوان بن عمرو نے یہ حدیث روایت کی ہے، یہ صحابی نہیں ہیں کوئی دوسرے آدمی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٤٨٩٤) (سند میں عبید اللہ بن بسر مجہول راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5680) ، التعليق أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2583
دوزخیوں کے مشروبات کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : «کالمهل» یعنی تلچھٹ کی طرح ہوگا جب اسے (جہنمی) اپنے قریب کرے گا تو اس کے چہرے کی کھال اس میں گرجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٥٨١ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، وهو مکرر الحديث (2707) // (475 - 2720) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2584
دوزخیوں کے مشروبات کے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی «اتقوا اللہ حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون» تم اللہ سے ڈرنے کی طرح ڈرو اور مسلمان ہی رہتے ہوئے مرو (آل عمران : ١٠٢ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر «زقوم» تھوہڑ کا ایک قطرہ بھی دنیا کی زمین میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی معیشت بگڑ جائے، بھلا اس آدمی کا کیا ہوگا جس کی غذا ہی «زقوم» ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٤ (٤٣٢٥) (تحفة الأشراف : ٦٣٩٨) (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4325) // ضعيف ابن ماجة برقم (944) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2585
دوزخیوں کے مشروبات کے متعلق
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور یہ عذاب کے برابر ہوجائے گی جس سے وہ دوچار ہوں گے، لہٰذا وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی «ضريع» (خاردار پودا) کے کھانے سے کی جائے گی جو نہ انہیں موٹا کرے گا اور نہ ان کی بھوک ختم کرے گا، پھر وہ دوبارہ کھانے کی فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی گلے میں اٹکنے والے کھانے سے کی جائے گی، پھر وہ یاد کریں گے کہ دنیا میں اٹکے ہوئے نوالے کو پانی کے ذریعہ نگلتے تھے، چناچہ وہ پانی کی فریاد کریں گے اور ان کی فریاد رسی «حميم» (جہنمیوں کے مواد) سے کی جائے گی جو لوہے کے برتنوں میں دیا جائے گا جب مواد ان کے چہروں سے قریب ہوگا تو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اور جب ان کے پیٹ میں جائے گا تو ان کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے اسے کاٹ ڈالے گا، وہ کہیں گے : جہنم کے داروغہ کو بلاؤ، داروغہ کہیں گے : کیا تمہارے پاس رسول روشن دلائل کے ساتھ نہیں گئے تھے ؟ وہ کہیں گے : کیوں نہیں، داروغہ کہیں گے : پکارتے رہو، کافروں کی پکار بیکار ہی جائے گی ۔ آپ نے فرمایا : جہنمی کہیں گے : مالک کو بلاؤ اور کہیں گے : اے مالک !چاہیے کہ تیرا رب ہمارا فیصلہ کر دے (ہمیں موت دیدے) ، آپ نے فرمایا : ان کو مالک جواب دے گا : تم لوگ (ہمیشہ کے لیے) اسی میں رہنے والے ہو ۔ اعمش کہتے ہیں : مجھ سے بیان کیا گیا کہ ان کی پکار اور مالک کے جواب میں ایک ہزار سال کا وقفہ ہوگا، آپ نے فرمایا : جہنمی کہیں گے : اپنے رب کو پکارو اس لیے کہ تمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں ہے، وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! ہمارے اوپر شقاوت غالب آ گئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے، اے ہمارے رب ! ہمیں اس سے نکال دے اگر ہم پھر ویسا ہی کریں گے تو ظالم ہوں گے۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ انہیں جواب دے گا : پھٹکار ہو تم پر اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو ، آپ نے فرمایا : اس وقت وہ ہر خیر سے محروم ہوجائیں گے اور اس وقت گدھے کی طرح رینکنے لگیں گے اور حسرت و ہلاکت میں گرفتار ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی) کہتے ہیں : لوگ اس حدیث کو مرفوعاً نہیں روایت کرتے ہیں، ٢ - ہم اس حدیث کو صرف «عن الأعمش عن شمر بن عطية عن شهر بن حوشب عن أم الدرداء عن أبي الدرداء» کی سند سے جانتے ہیں جو ابودرداء کا اپنا قول ہے، مرفوع حدیث نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٩٨٤) (ضعیف) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5686) ، التعليق الرغيب (4 / 236) // ضعيف الجامع الصغير (6444) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2586
دوزخیوں کے مشروبات کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس آیت کریمہ «وهم فيها کالحون» کافر جہنم کے اندر بد شکل ہوں گے (المؤمنون : ١٠٤ ) کے بارے میں فرمایا : ان کے چہروں کو آگ جھلس دے گی تو ان کے اوپر کا ہونٹ سکڑ کر بیچ سر تک پہنچ جائے گا اور نیچے کا ہونٹ لٹک کر ناف سے جا لگے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٦١) ، ویأتي في تفسیر المؤمنون (٣١٧٦) (ضعیف) (سند میں دراج ابو السمح ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5684) // سيأتي (621 - 3402) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2587
دوزخیوں کے مشروبات کے متعلق
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس کے برابر ایک ٹکڑا (اور آپ نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا) آسمان سے زمین کی طرف جو پانچ سو سال کی مسافت ہے، چھوڑا جائے تو زمین پر رات سے پہلے پہنچ جائے گا اور اگر وہی ٹکڑا زنجیر (جس کا ذکر) قرآن میں آیا ہے :«ثم في سلسلة ذرعها سبعون ذراعا فاسلکوه» (الحاقة : ٣٢ ) کے سر سے چھوڑا جائے تو اس زنجیر کی جڑ یا اس کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے چالیس سال رات اور دن کے گزر جائیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند حسن صحیح ہے، ٢ - سعید بن یزید مصری ہیں۔ ان سے لیث بن سعد اور کئی ائمہ نے حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٩١٠) (ضعیف) (سند میں دراج ابو السمح ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5688) ، التعليق الرغيب (4 / 232) // ضعيف الجامع الصغير (4805) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2588
اس بارے میں کہ دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہاری (دنیا کی) آگ جسے تم جلاتے ہو جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک ٹکڑا (حصہ) ہے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر یہی آگ رہتی تو کافی ہوتی، آپ نے فرمایا : وہ اس سے انہتر حصہ بڑھی ہوئی ہے، ہر حصے کی گرمی اسی آگ کی طرح ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٦٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (4 / 226) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2589
اسی کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، اس کے ہر حصے کی گرمی اسی طرح ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابوسعید کی روایت سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢٢٣) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2589) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2590
اسی کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہنم کی آگ ایک ہزار سال دہکائی گئی یہاں تک کہ سرخ ہوگئی، پھر ایک ہزار سال دہکائی گئی یہاں تک کہ سفید ہوگئی، پھر ایک ہزار سال دہکائی گئی یہاں تک کہ سیاہ ہوگئی، اب وہ سیاہ ہے اور تاریک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٨ (٤٣٢٠) (تحفة الأشراف : ١٢٨٠٧) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی حافظہ کے کمزور راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4320) // ضعيف سنن ابن ماجة (941) ، ضعيف الجامع الصغير نحوه برقم (2125) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2591
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی کہ میرا بعض حصہ بعض حصے کو کھائے جا رہا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دو سانسیں مقرر کردیں : ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس جاڑے میں، جہنم کے جاڑے کی سانس سے سخت سردی پڑتی ہے۔ اور اس کی گرمی کی سانس سے لو چلتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے دوسری سند سے بھی مروی ہے، ٣ - مفضل بن صالح محدثین کے نزدیک کوئی قوی حافظے والے نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٩ (٥٣٧) ، وبدء الخلق ١٠ (٣٢٦٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٧) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٨ (٤٢١٩) (تحفة الأشراف : ١٢٤٦٣) ، وط/وقوت ٨ (٢٨) ، و مسند احمد (٢/٢٣٨، ٢٧٧، ٤٦٢، ٥٠٣) ، وسنن الدارمی/الرقاق ١١٩ (٢٨٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4319) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2592
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم سے نکلے گا (شعبہ نے اپنی روایت میں کہا ہے : (اللہ تعالیٰ کہے گا، اسے جہنم سے نکال لو) جس نے «لا إلٰہ إلا اللہ» کہا اور اس کے دل میں ایک جو کے دانہ کے برابر بھلائی تھی، اسے جہنم سے نکالو جس نے «لا إلٰہ إلا اللہ» کہا، اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ کے برابر بھلائی تھی، اسے جہنم سے نکالو جس نے «لا إلٰہ إلا اللہ» کہا اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھلائی تھی۔ (شعبہ نے کہا ہے : جوار کے برابر بھلائی تھی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر، ابو سعید خدری اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٣ (٤٤) ، والتوحید ١٩ (٧٤١٠) (في سیاق حدیث الشفاعة الکبری) و ٣٦ (٧٥٠٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٣ (١٩٣/٣٢٥) (تحفة الأشراف : ١٢٧٢، و ١٣٥٦) ، و مسند احمد (٣/١١٦، ١٧٣، ٢٤٨، ٢٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4312) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2593
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کہے گا : اسے جہنم سے نکال لو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا ایک مقام پر بھی مجھ سے ڈرا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٨٦) (ضعیف) (سند میں مبارک بن فضالہ تدلیس تسویہ کیا کرتے ہیں اور یہاں روایت عنعنہ سے ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الظلال (833) ، التعليق الرغيب (4 / 138) ، المشکاة (5349 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6436) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2594
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم سے سب سے آخر میں نکلنے والے آدمی کو میں جانتا ہوں، وہ ایسا آدمی ہوگا جو سرین کے بل چلتے ہوئے نکلے گا اور عرض کرے گا : اے میرے رب ! لوگ جنت کی تمام جگہ لے چکے ہوں گے ، آپ نے فرمایا : اس سے کہا جائے گا : چلو جنت میں داخل ہو جاؤ، آپ نے فرمایا : وہ داخل ہونے کے لیے جائے گا (جنت کو اس حال میں) پائے گا کہ لوگ تمام جگہ لے چکے ہیں، وہ واپس آ کر عرض کرے گا : اے میرے رب ! لوگ تمام جگہ لے چکے ہیں ؟ !، آپ نے فرمایا : اس سے کہا جائے گا : کیا وہ دن یاد ہیں جن میں (دنیا کے اندر) تھے ؟ وہ کہے گا : ہاں، اس سے کہا جائے گا : آرزو کرو ، آپ نے فرمایا : وہ آرزو کرے گا، اس سے کہا جائے گا : تمہارے لیے وہ تمام چیزیں جس کی تم نے آرزو کی ہے اور دنیا کے دس گنا ہے ۔ آپ نے فرمایا : وہ کہے گا : (اے باری تعالیٰ ! ) آپ مذاق کر رہے ہیں حالانکہ آپ مالک ہیں ، ابن مسعود کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہنستے دیکھا حتیٰ کہ آپ کے اندرونی کے دانت نظر آنے لگے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥١ (٦٥٧١) ، والتوحید ٣٦ (٧٥١١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٣ (١٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٩ (٤٣٣٩) (تحفة الأشراف : ٩٤٠٥) ، و مسند احمد (١/٤٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ادنیٰ ترین جنتی کا حال ہے کہ اسے جنت کی نعمتیں اور دیگر چیزیں اتنی تعداد میں ملیں گی کہ وہ دنیا کی دس گناہوں گی ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ مقام و مراتب پر فائز ہونے والے جنتیوں پر رب العالمین کا کس قدر انعام و اکرام ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4339) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2595
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم سے سب سے آخر میں نکلنے اور جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والے آدمی کو میں جانتا ہوں، ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) کہے گا : اس سے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کے بارے میں پوچھو اور اس کے بڑے گناہوں کو چھپا دو ، اس سے کہا جائے گا : تم نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے گناہ کئے تھے، تم نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے گناہ کیے تھے ؟ ، آپ نے فرمایا : اس سے کہا جائے گا : تمہارے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی ہے ۔ آپ نے فرمایا : وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں نے کچھ ایسے بھی گناہ کیے تھے جسے یہاں نہیں دیکھ رہا ہوں ۔ ابوذر (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہنستے ہوئے دیکھا حتیٰ کہ آپ کے اندرونی دانت نظر آنے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٤ (١٩٠) (تحفة الأشراف : ١١٩٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2596
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : موحدین میں سے کچھ لوگ جہنم میں عذاب دئیے جائیں گے، یہاں تک کہ کوئلہ ہوجائیں گے، پھر ان پر رحمت الٰہی سایہ فگن ہوگی تو وہ نکالے جائیں گے اور جنت کے دروازے پر ڈال دئیے جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا : جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے تو وہ ویسے ہی اگیں گے جیسے سیلاب کی مٹیوں میں دانہ اگتا ہے، پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ دوسری سند سے بھی جابر سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٣٣٢) ، وانظر مسند احمد (٣/٣٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2451) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2597
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہنم سے وہ آدمی نکلے گا جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا، ابو سعید خدری (رض) نے کہا : جس کو شک ہو وہ یہ آیت پڑھے «إن اللہ لا يظلم مثقال ذرة» اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے (النساء : ٤٠ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف و راجع : صحیح البخاری/التوحید ٢٤ (٧٤٣٩) ، و صحیح مسلم/الإیمان ٨١ (١٨٣) (تحفة الأشراف : ٤١٨١) ، وانظر مسند احمد (٣/٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2598
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم میں داخل ہونے والوں میں سے دو آدمیوں کی چیخ بلند ہوگی ۔ رب عزوجل کہے گا : ان دونوں کو نکالو، جب انہیں نکالا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا : تمہاری چیخ کیوں بلند ہو رہی ہے ؟ وہ دونوں عرض کریں گے : ہم نے ایسا اس وجہ سے کیا تاکہ تو ہم پر رحم کر۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم دونوں کے لیے ہماری رحمت یہی ہے کہ تم جاؤ اور اپنے آپ کو اسی جگہ جہنم میں ڈال دو جہاں پہلے تھے۔ وہ دونوں چلیں گے ان میں سے ایک اپنے آپ کو جہنم میں ڈال دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم کو ٹھنڈا اور سلامتی والی بنا دے گا اور دوسرا کھڑا رہے گا اور اپنے آپ کو نہیں ڈالے گا۔ اس سے رب عزوجل پوچھے گا : تمہیں جہنم میں اپنے آپ کو ڈالنے سے کس چیز نے روکا ؟ جیسے تمہارے ساتھی نے اپنے آپ کو ڈالا ؟ وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! مجھے امید ہے کہ تو جہنم سے نکالنے کے بعد اس میں دوبارہ نہیں داخل کرے گا، اس سے رب تعالیٰ کہے گا : تمہارے لیے تیری تمنا پوری کی جا رہی ہے، پھر وہ دونوں اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کی سند ضعیف ہے، اس لیے کہ یہ رشدین بن سعد کے واسطہ سے مروی ہے، اور رشدین بن سعد محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، اور رشدین عبدالرحمٰن بن انعم سے روایت کرتے ہیں، یہ ابن انعم افریقی ہیں اور افریقی بھی محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٨) (ضعیف) (سند میں ابو عثمان لین الحدیث، مجہول ہیں اور رشد ین بن سعد اور افریقی ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5605) ، الضعيفة (1977) // ضعيف الجامع الصغير (1859) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2599
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری امت کی ایک جماعت میری شفاعت کے سبب جہنم سے نکلے گی ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥٠ (٦٥٥٩) ، سنن ابی داود/ السنة ٢٣ (٤٧٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٧ (٤٣١٥) (تحفة الأشراف : ١٠٨٧١) ، و مسند احمد (٤/٤٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4315) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2600
دوزخ کے لئے دو سانس اور اہل توحید کا اس سے نکالے جانے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے جہنم جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس سے بھاگنے والے سو رہے ہیں اور جنت جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس کے طلب کرنے والے سو رہے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس کو ہم صرف یحییٰ بن عبیداللہ کی سند سے جانتے ہیں اور یحییٰ بن عبیداللہ اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ان کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے۔ یحییٰ بن عبیداللہ کے دادا کا نام موہب ہے اور وہ مدنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٢٤) (حسن) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحة : ٩٥٣ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (951) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2601
اس بارے میں کہ جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہوگی
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے جنت میں جھانکا تو دیکھا کہ اکثر جنتی فقیر ہیں اور جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اکثر جہنمی عورتیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٦ (تعلیقا عقب حدیث ٦٤٤٩) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٦ (٢٧٣٧) (تحفة الأشراف : ٦٣١٧) ، و مسند احمد (١/٢٩٤، ٣٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الضعيفة تحت الحديث (2800) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2602
اس بارے میں کہ جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہوگی
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اکثر جہنمی عورتیں ہیں اور جنت میں جھانکا تو دیکھا کہ اکثر جنتی فقیر ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - عوف نے سند بیان کرتے ہوئے اس طرح کہا ہے : «عن أبي رجاء عن عمران بن حصين» اور ایوب نے کہا : «عن أبي رجاء عن ابن عباس» ، دونوں سندوں میں کوئی کلام نہیں ہے۔ اس بات کا احتمال ہے کہ ابورجاء نے عمران بن حصین اور ابن عباس دونوں سے سنا ہو، عوف کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث ابورجاء کے واسطہ سے عمران بن حصین سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٨ (٣٢٤١) ، والنکاح ٨٨ (٥١٩٨) ، والرقاق ١٦ (٦٤٤٩) ، و ٥١ (٦٥٤٦) (تحفة الأشراف : ١٠٨٧٣) ، و مسند احمد (٤/٤٢٩، ٤٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2602) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2603
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے ہلکا عذاب والا وہ جہنمی ہوگا جس کے تلوے میں دو انگارے ہوں گے جن سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عباس بن عبدالمطلب، ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٥ (٦٥٦١، ٦٥٦٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٩١ (٢١٣) (تحفة الأشراف : ١١٦٣٦) ، و مسند احمد (٤/٢٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اغلب یہی ہے کہ اس سے ابوطالب مراد ہیں کیونکہ مسلم اور دیگر لوگوں کی دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1680) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2604
حارثہ بن وہب خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : کیا میں تمہیں جنتیوں کے بارے میں نہ بتادوں ؟ ہر کمزور حال آدمی جسے لوگ حقیر سمجھیں اگر وہ اللہ کی قسم کھائے تو اللہ اسے پوری کر دے۔ کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتادوں ؟ ہر سرکش، بخیل اور متکبر ، (جہنم میں جائے گا۔ ) امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة القلم ١ (٤٩١٨) ، والأدب ٦١ (٦٠٧١) ، والأیمان والنذور ٩ (٦٦٥٧) ، صحیح مسلم/الجنة ١٣ (٢٨٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٤ (٤١١٦) (تحفة الأشراف : ٣٢٨٥) ، و مسند احمد (٤/٣٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4116) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2605