38. علم کا بیان

【1】

اس بارے میں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عمر، ابوہریرہ، اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (٥٦٦٧) ، وانظر مسند احمد (١/٣٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دین کی سمجھ سے مراد کتاب و سنت کا علم ، ذخیرہ احادیث میں صحیح ، ضعیف اور موضوع روایات کا علم ، اسلامی شریعت کے احکام و مسائل کا علم اور حلال و حرام میں تمیز پیدا کرنے کا ملکہ ہے ، اس نظر یہ سے اگر دیکھا جائے تو صحابہ کرام ، محدثین عظام سے بڑھ کر اس حدیث کا مصداق اور کون ہوسکتا ہے ، جنہوں نے بےانتہائی محنت کر کے احادیث کے منتشر ذخیرہ کو جمع کیا اور پھر انہیں مختلف کتب و ابواب کے تحت فقہی انداز میں مرتب کیا ، افسوس صد افسوس ایسے لوگوں پر جو محدثین کی ان خدمات جلیلہ کو نظر انداز کر کے ایسے لوگوں کو فقیہ گردانتے ہیں جن کی فقاہت میں کتاب و سنت کی بجائے ان کی اپنی آراء کا زیادہ دخل ہے جب کہ محدثین کرام نے اپنی آراء سے یکسر اجتناب کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (220) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2645

【2】

طلب علم کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان (و ہموار) کردیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٨ (٢٦٩٩) ، سنن ابی داود/ العلم ١ (٣٦٤٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٥) ، ویأتي في القراءت ١٢ (٢٩٤٥) (تحفة الأشراف : ١٢٤٨٦) ، و مسند احمد (٢/٢٥٢، ٣٢٥، ٤٠٧) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، معلوم ہوا کہ علم کے حصول کے لیے سفر کرنا مستحب ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کے ساتھ علم حاصل کرنے کے لیے سفر کیا ، اور عبداللہ بن قیس (رض) سے ایک حدیث کے علم کے لیے جابر بن عبداللہ (رض) نے ایک مہینہ کا سفر طے کیا ، علماء سلف حدیث کی طلب میں دور دراز کا سفر کرتے تھے ، اگر خلوص نیت کے ساتھ علم شرعی کے حصول کی کوشش کی جائے تو اللہ رب العالمین جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (225) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2646

【3】

طلب علم کی فضیلت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں (شمار) ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعض اہل علم نے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٣٠) (حسن) (اس کے تین رواة ” خالد بن یزید “ ابو جعفر رازی “ اور ” ربیع بن انس “ پر کلام ہے، اور حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے، نیز ابوہریرہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب ٨٧، ٨٨، السراج المنیر ٢٥٤، و الضعیفة رقم ٢٠٣٧، تراجع الألبانی ٣٥٤ ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (220) ، الضعيفة (2037) ، الروض النضير (109) // ضعيف الجامع الصغير (5570) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2647

【4】

طلب علم کی فضیلت

سخبرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو علم حاصل کرے گا تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ٢ - راوی ابوداود نفیع اعمی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ٣ - ہم عبداللہ بن سخبرہ سے مروی زیادہ حدیثیں نہیں جانتے اور نہ ان کے باپ کی (یعنی یہ دونوں باپ بیٹے غیر معروف قسم کے لوگ ہیں) ، ابوداؤد کا نام نفیع الاعمیٰ ہے۔ ان کے بارے میں قتادہ اور دوسرے بہت سے اہل علم نے کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨١٤) (موضوع) (سند میں ابوداود نفیع اعمی متروک الحدیث راوی ہے، دیکھئے : الضعیفة ٥٠١٧ ) قال الشيخ الألباني : موضوع، المشکاة (221) ، الضعيفة (5017) // ضعيف الجامع الصغير (5686) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2648

【5】

علم کو چھپانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العلم ٩ (٣٦٥٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٤ (٢٦١) (تحفة الأشراف : ١٤١٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہو کہ علم دین سے متعلق سوال کرنے والے کو دین کی صحیح بات نہ بتلانا یا دین کی معلومات حاصل کرنے سے متعلق و سائل (مثلاً کتابوں وغیرہ) کا انکار کردینا سخت وعید اور گناہ کا باعث ہے ، اسی طرح دین کے صحیح مسائل کو اس کی جانکاری کے باوجود چھپانا اور لوگوں کے سامنے واضح نہ کرنا باعث گناہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (264) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2649

【6】

طالب علم کے ساتھ خیر خواہی کرنا

ابوہارون کہتے ہیں کہ ہم ابو سعید خدری (رض) کے پاس (علم دین حاصل کرنے کے لیے) آتے، تو وہ کہتے : اللہ کے رسول ﷺ کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ تمہارے پیچھے ہیں ١ ؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - علی بن عبداللہ بن المدینی نے کہا : یحییٰ بن سعید کہتے تھے : شعبہ ابوہارون عبدی کو ضعیف قرار دیتے تھے، ٢ - یحییٰ بن سعید کہتے ہیں : ابن عون جب تک زندہ رہے ہمیشہ ابوہارون عبدی سے روایت کرتے رہے، ٣ - ابوہارون کا نام عمارہ بن جو ین ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢٢ (٢٤٩) (تحفة الأشراف : ٤٢٦٢) (ضعیف) (سند میں ابو ہارون العیدی عمارة بن جو ین مشہور کذابین میں سے ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی لوگ تمہارے افعال و اقوال کے تابع ہیں ، چونکہ تم نے مجھ سے مکارم اخلاق کی تعلیم حاصل کی ہے ، اس لیے تمہارے بعد آنے والے تمہارے مطیع و پیروکار ہوں گے اس لیے ان کی دلجوئی کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (249) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (50) ، المشکاة (215) ، ضعيف الجامع الصغير (1797) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2650

【7】

طالب علم کے ساتھ خیر خواہی کرنا

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس پورب سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کرنا ۔ راوی حدیث کہتے ہیں : ابو سعید خدری (رض) کا حال یہ تھا کہ جب وہ ہمیں (طالبان علم دین کو) دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق ہمیں خوش آمدید کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ ابو سعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (249) // ضعيف سنن ابن ماجة الصفحة (19) ، ضعيف الجامع الصغير (6411 ) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2651

【8】

دنیا سے علم کے اٹھ جانے کے متعلق

عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے، لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعہ سے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ اپنا سردار جاہلوں کو بنالیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے، اور زہری نے (ایک دوسری سند سے) عروہ سے اور عروہ نے عائشہ (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں عائشہ اور زیاد بن لبید سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٤ (١٠٠) ، والإعتصام ٨ (٧٣٠٧) ، صحیح مسلم/العلم ٥ (٢٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٨ (٥٢) (تحفة الأشراف : ٨٨٨٣) ، و مسند احمد (٢/١٦٢، ١٩٠) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٢٦ (٢٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علمائے دین ختم ہوجائیں گے ، جاہل پیشوا ، امام اور سردار بن جائیں گے ، انہیں قرآن و حدیث کا کچھ بھی علم نہیں ہوگا ، پھر بھی یہ مجتہد و مفتی بن کر دینی مسائل کو بیان کریں گے ، اپنے فتووں اور من گھڑت مسئلوں کے ساتھ یہ دوسروں کی گمراہی کا باعث بنیں گے۔ اے رب العالمین ! اس امت کو ایسے جاہل پیشوا اور امام سے محفوظ رکھ ، آمین۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (52) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2652

【9】

دنیا سے علم کے اٹھ جانے کے متعلق

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا : ایسا وقت (آ گیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہوگا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا : (اللہ کے رسول ! ) علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی ! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا : اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے ! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود و نصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے ؟ ١ ؎ (کیا فائدہ پہنچایا تورات اور انجیل نے ان کو ؟ ) ۔ جبیر (راوی) کہتے ہیں : میری ملاقات عبادہ بن صامت (رض) سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا : کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء (رض) کیا کہتے ہیں ؟ پھر ابوالدرداء (رض) نے جو کہا تھا وہ میں نے انہیں بتادیا۔ انہوں نے کہا : ابوالدرداء (رض) نے سچ کہا۔ اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تو میں تمہیں بتاسکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اور یحییٰ بن سعید قطان کے سوا ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو، ٣ - معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے، ٤ - بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر سے، عبدالرحمٰن نے اپنے والد جبیر سے، جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کتابوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا ؟ جس طرح یہود و نصاریٰ تورات و انجیل کو پا کر اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے ، قرب قیامت میں یہی حال تم مسلمانوں کا بھی ہوگا ، کیونکہ تمہارے اچھے علماء ختم ہوجائیں گے ، اور قرآن تمہارے پاس ہوگا ، پھر بھی تم اس کے فیض سے محروم رہو گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج اقتضاء العلم العمل (89) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2653

【10】

اس شخص کے متعلق جو اپنے علم سے دنیا طلب کرے۔

کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے ١ ؎، کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣ - اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ محدثین کے نزدیک کچھ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں، ان کے حافظہ کے سلسلے میں کلام کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١١٤٠) (حسن) (سند میں اسحاق ضعیف ہیں شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کرے ان پر اپنی علمیت و قابلیت کا سکہ جمائے۔ ٢ ؎ : معلوم ہوا کہ علم دین حاصل کرنے والے کی نیت صالح ہونی چاہیئے ، وہ کسی دنیاوی حرص و طمع کے بغیر اس کے حصول کی کوشش کرے ، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (223 - 225) ، التعليق الرغيب (1 / 68) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2654

【11】

اس شخص کے متعلق جو اپنے علم سے دنیا طلب کرے۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا یا وہ اس علم کے ذریعہ اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے ایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٣٣ (٢٥٨) (تحفة الأشراف : ٦٧١٢) (ضعیف) (سند میں خالد اور ابن عمر (رض) کے درمیان انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : علم دین اس لیے سیکھا جاتا ہے ہے کہ اس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کی جائے ، لیکن اگر اس علم سے اللہ کی رضا و خوشنودی مقصود نہیں بلکہ اس سے جاہ و منصب یا حصول دنیا مقصود ہے تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (258) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (54) ، ضعيف الجامع (5530 و 5687) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2655

【12】

لوگوں کے سامنے احادیث بیان کرنے کی فضیلت

ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) دوپہر کے وقت مروان کے پاس سے نکلے (لوٹے) ، ہم نے کہا : مروان کو ان سے کوئی چیز پوچھنا ہوگی تبھی ان کو اس وقت بلا بھیجا ہوگا، پھر ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : ہاں، انہوں نے ہم سے کئی چیزیں پوچھیں جسے ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچا دے، کیونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اور عقلمند ہوتے ہیں۔ اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تو رکھتے ہیں، لیکن فقیہہ نہیں ہوتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، جبیر بن مطعم، ابو الدرداء اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العلم ١٠ (٣٦٦٠) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة : ١٨ (٢٣٠) (تحفة الأشراف : ٣٦٩٤) ، و مسند احمد (١/٤٣٧) ، و (٥/١٨٣) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٢٤ (٢٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں یہ ترغیب ہے کہ علم کو حاصل کر کے اسے اچھی طرح محفوظ رکھا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے کیونکہ بسا اوقات پہنچانے والے سے کہیں زیادہ ذی علم اور عقلمند وہ شخص ہوسکتا ہے جس تک علم دین پہنچایا جا رہا ہے ، گویا دعوت و تبلیغ کا فریضہ برابر جاری رہنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (230) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2656

【13】

لوگوں کے سامنے احادیث بیان کرنے کی فضیلت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ اس شخص کو تروتازہ (اور خوش) رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی پھر اس نے اسے جیسا کچھ مجھ سے سنا تھا ہوبہو دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں بات (حدیث) پہنچائی جائے پہنچانے والے سے کہیں زیادہ بات کو توجہ سے سننے اور محفوظ رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث کو عبدالملک بن عمیر نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٨ (٢٣٢) (تحفة الأشراف : ٩٣٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2657

【14】

لوگوں کے سامنے احادیث بیان کرنے کی فضیلت

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور توجہ سے سنے، اسے محفوظ رکھے اور دوسروں تک پہنچائے، کیونکہ بہت سے علم کی سمجھ رکھنے والے علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان کا دل دھوکہ نہیں کھا سکتا، ( ١ ) عمل خالص اللہ کے لیے ( ٢ ) مسلمانوں کے ائمہ کے ساتھ خیر خواہی ( ٣ ) اور مسلمانوں کی جماعت سے جڑ کر رہنا، کیونکہ دعوت ان کا چاروں طرف سے احاطہٰ کرتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2658

【15】

اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٤ (٣٠) ، وانظر أیضا ماتقدم برقم ٢٢٥٧ (تحفة الأشراف : ٩٢١٢) ، و مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٠١، ٤٠٢، ٤٠٥، ٤٣٦، ٤٥٣) (صحیح متواتر ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا گناہ عظیم ہے ، اسی لیے ضعیف اور موضوع روایات کا علم ہوجانے کے بعد انہیں بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے ، یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت آپ پر جھوٹ باندھتے ہوئے کی جائے یا آپ کے لیے کی جائے دونوں صورتیں گناہ عظیم کا باعث ہیں ، اس سے ان لوگوں کے باطل افکار کی تردید ہوجاتی ہے جو عبادت کی ترغیب کے لیے فضائل کے سلسلہ میں وضع احادیث کے جواز کے قائل ہیں ، اللہ رب العالمین ایسے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے ، آمین۔ قال الشيخ الألباني : صحيح متواتر، ابن ماجة (30) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2659

【16】

اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، زبیر، سعید بن زید، عبداللہ بن عمرو، انس، جابر، ابن عباس، ابوسعید، عمرو بن عبسہ، عقبہ بن عامر، معاویہ، بریدہ، ابوموسیٰ ، ابوامامہ، عبداللہ بن عمر، مقنع اور اوس ثقفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٨ (١٠٦) ، صحیح مسلم/المقدمة ٢ (١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٤ (٣١) (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٧) ، و مسند احمد (١/٨٣، ١٢٣، ١٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2660

【17】

اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی ، (انس کہتے ہیں) میرا خیال ہے کہ آپ نے «من کذب علي» کے بعد «متعمدا» کا لفظ بھی کہا یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ یعنی زہری کی اس روایت سے جسے وہ انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں، ٢ - یہ حدیث متعدد سندوں سے انس (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٨ (١٠٨) ، صحیح مسلم/المقدمة ٢ (٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٤ (٣٢) (تحفة الأشراف : ١٥٢٥) (صحیح متواتر ) قال الشيخ الألباني : صحيح متواتر انظر ما قبله (2660) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2661

【18】

موضوع احادیث بیان کرنا

مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری طرف منسوب کر کے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ دو جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شعبہ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے سمرہ سے، اور سمرہ نے نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث روایت کی ہے، ٣ - اعمش اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے علی (رض) سے اور علی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی حدیث جسے وہ سمرہ سے روایت کرتے ہیں، محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ٤ - اس باب میں علی ابن ابی طالب اور سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥ - میں نے ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی سے نبی اکرم ﷺ کی حدیث «من حدث عني حديثا وهو يرى أنه كذب فهو أحد الکاذبين» کے متعلق پوچھا کہ اس سے مراد کیا ہے، میں نے ان سے کہا کیا یہ کہ جس نے کوئی حدیث بیان کی اور وہ جانتا ہے کہ اس کی اسناد میں کچھ خطا (غلطی اور کمی) ہے تو کیا یہ خوف و خطرہ محسوس کیا جائے کہ ایسا شخص نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث کی زد اور وعید میں آگیا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں نے حدیث مرسل بیان کی تو انہیں میں سے کچھ لوگوں نے اس مرسل کو مرفوع کردیا یا اس کی اسناد کو ہی الٹ پلٹ دیا تو یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی زد میں آئیں گے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں۔ اس کا معنی (و مطلب) یہ ہے کہ جب کوئی شخص حدیث روایت کرے اور رسول اللہ ﷺ تک اس حدیث کے مرفوع ہونے کی کوئی اصل (وجہ و سبب) نہ جانی جاتی ہو، اور وہ شخص اسے مرفوع کر کے بیان کر دے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا یا ایسا کیا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ ایسا ہی شخص اس حدیث کا مصداق ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المقدمة ١ (بدون رقم) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٥ (٤١) (تحفة الأشراف : ١١٥٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقدمة الضعيفة (1 / 12) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2662

【19】

اس بارے میں کہ حدیث سن کر کیا الفاظ نہ کہے جائیں

ابورافع (رض) وغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو اور اس کے پاس میرے امر یا نہی کی قسم کا کوئی حکم پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - بعض راویوں نے سفیان سے، سفیان نے ابن منکدر سے اور ابن منکدر نے نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور بعض نے یہ حدیث سالم ابوالنضر سے، سالم نے عبیداللہ بن ابورافع سے، عبیداللہ نے اپنے والد ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ ٣ - ابن عیینہ جب اس حدیث کو علیحدہ بیان کرتے تھے تو محمد بن منکدر کی حدیث کو سالم بن نضر کی حدیث سے جدا جدا بیان کرتے تھے اور جب دونوں حدیثوں کو جمع کردیتے تو اسی طرح روایت کرتے (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) ۔ ٤ - ابورافع نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام اسلم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٦ (٤٦٠٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٣) (تحفة الأشراف : ١٢٠١٩) ، و مسند احمد (٦/٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (13) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2663

【20】

اس بارے میں کہ حدیث سن کر کیا الفاظ نہ کہے جائیں

مقدام بن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار رہو ! قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور وہ کہے : ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصلے کی چیز) بس اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں جو چیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے، اور اس میں جو چیز حرام پائیں گے بس اسی کو ہم حرام جانیں گے، یاد رکھو ! بلا شک و شبہ رسول اللہ ﷺ نے جو چیز حرام قرار دے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٢) (تحفة الأشراف : ١١٥٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (12) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2664

【21】

کتابت علم کی کراہت کے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے (ابتداء اسلام میں) نبی اکرم ﷺ سے علم (حدیث) لکھ لینے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ہمیں لکھنے کی اجازت نہ دی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی زید بن اسلم کے واسطہ سے آئی ہے، اور اسے ہمام نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١٦ (٣٠٠٤) (بلفظ ” لاتکتبوا عني، ومن کتب عني غیر القرآن فلیمحہ “ )(تحفة الأشراف : ٤١٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں یہ حکم تھا : «لا تکتبوا عني ومن کتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج» (صحیح مسلم) یعنی قرآن کے علاوہ میری کوئی بات نہ لکھو ، اور اگر کسی نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھ لیا ہے تو اسے مٹا دے ، البتہ میری حدیثوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، پھر بعد میں آپ ﷺ نے اپنے فرمان : «بلغوا عني ولو آية» کے ذریعہ اس کی اجازت بھی دے دی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2665

【22】

کتابت علم کی اجازت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہ آپ کی حدیثیں سنتا اور یہ حدیثیں اسے بہت پسند آتی تھیں، لیکن وہ انہیں یاد نہیں رکھ پاتا تھا تو اس نے اپنے یاد نہ رکھ پانے کی رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ کی حدیثیں سنتا ہوں اور وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں (مگر) میں انہیں یاد نہیں رکھ پاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے داہنے ہاتھ کا سہارا لو (اور یہ کہتے ہوئے) آپ نے ہاتھ سے لکھ لینے کا اشارہ فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند قوی و مستحکم نہیں ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل کو کہتے ہوئے سنا : خلیل بن مرہ منکر الحدیث ہے، ٣ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٨١٤) (ضعیف) (سند میں خلیل بن مرہ ضعیف راوی ہیں، اور یحییٰ بن ابی صالح مجہول راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2761) // ضعيف الجامع الصغير (813) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2666

【23】

کتابت علم کی اجازت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور دوران خطبہ آپ نے کوئی قصہ (کوئی واقعہ) بیان کیا تو ابو شاہ نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے لیے لکھوا دیجئیے (یعنی کسی سے لکھا دیجئیے) تو رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) کہا ابو شاہ کے لیے لکھ دو ۔ حدیث میں پورا واقعہ مذکور ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی جیسی روایت بیان کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر تخریج حدیث رقم ١٤٠٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث نہ لکھنے کا حکم بعد میں منسوخ ہوگیا گویا یہ حدیث اللہ کے رسول کی احادیث لکھ لینے کے جواز پر صریح دلیل ہے۔ اسی طرح درج ذیل حدیث اور احادیث کی کتب میں درج بیسویں احادیث مبارکہ منکرین حدیث پر روز روشن کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کتابت حدیث کا مبارک عمل نبی ختم الرسل محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی ہوگیا تھا اور یہ کہ ہماری تحقیق کے مطابق ساداتنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ، وائل بن حجر ، سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن ابی اوفی ، عبداللہ بن عباس ، انس بن مالک اور رافع بن خدیج (رض) سمیت بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین ایسے اصحاب واجبات تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارک کو لکھا ، ان اصحاب کی لکھی ہوئی احادیث کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے ، اور پھر ابوہریرہ (رض) جیسے جو اصحاب لکھ نہیں سکتے تھے اپنے ہاتھوں بلکہ انہوں نے احادیث مبارکہ کو لفظ بلفظ یاد رکھا اور پھر یہی احادیث اپنے شاگردوں کو لکھوا دیں ان کی تعداد مزید کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے ، اور ہمارے اندازے کے مطابق کتب احادیث میں موجود تمام احادیث کا ایک بڑا حصہ عہد صحابہ میں لکھا جا چکا تھا ، (مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب مقدمۃ الحدیث کی پہلی جلد میں پہلے باب اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ خاں کی «الوثائق السیاسیة فی عہد…» کا مطالعہ کریں ، ابویحییٰ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2667

【24】

کتابت علم کی اجازت کے متعلق

ہمام بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سوائے عبداللہ بن عمرو (رض) کے رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرنے والا مجھ سے زیادہ کوئی نہیں ہے اور میرے اور عبداللہ بن عمرو (رض) کے درمیان یہ فرق تھا کہ وہ (احادیث) لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور روایت میں «وهب بن منبه، عن أخيه» جو آیا، تو «أخيه» سے مراد ہمام بن منبہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١١٣) (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوہریرہ بن عبدالرحمٰن بن صخر (رض) کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی تھی کہ آپ کے لیے نبی اکرم ﷺ کی آپ کے علم میں خیر و برکت کی دعا تھی جس سے آپ (رض) کا سینہ بذات خود حفظ و تحفیظ کا دفتر بنا گیا تھا ، امام ذہبی (رح) نے سیرأعلام النبلاء (الجزء الثانی ص ٥٩٤ اور ٥٩٥ ) میں ابوہریرہ (رض) کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے درج کیا ہے : «كان حفظ أبي هريرة رضي اللہ عنه الخارق من معجزات النبوة ...» ابوہریرہ (رض) کا حافظ … احادیث کے بہت بڑے ذخیرہ اور قرآن کو یاد کرلینے کا ملکہ … نبوت کے معجزات میں سے خرق عادت ایک معجزہ تھا ، اور پھر اس عبارت کو بطور عنوان اختیار کر کے امام ذہبی (رح) نے ابونعیم کی «الحلیة» میں درج احادیث کو نقل کیا ہے ، اور اس پر حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے «رجالہ ثقات» ان احادیث میں سے ایک یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوہریرہ سے پوچھا : ابوہریرہ ! غنیمتوں کے اموال میں سے تم مجھ سے کچھ نہیں مانگتے جن میں سے تیرے ساتھی مانگتے رہتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : «أسألك أن تعلمني مما علمک الله» میں تو آپ ﷺ سے صرف اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ جو کچھ اللہ نے آپ ﷺ کو قرآن و سنت والا علم سکھایا ہے اس میں سے آپ مجھے (جتنا زیادہ ممکن ہو) سکھا دیجئیے ، تو میری اس درخواست پر نبی اکرم ﷺ نے میرے اوپر والی سفید اور کالی دھار یوں والی چادر کو مجھ سے اتار لیا اور اسے ہمارے دونوں کے درمیان پھیلا دیا ، اس قدر خوب تن کر اس چادر کو پھیلایا گویا میں اس پر چلنے والی چیونٹی کو بھی صاف دیکھ رہا تھا ، پس آپ ﷺ نے مجھ سے احادیث بیان کرنا شروع فرما دیں حتیٰ کہ جب میں نے آپ ﷺ کی پوری حدیث مبارکہ حاصل کرلی تو آپ نے فرمایا : «إجمحها فصرها إليك» اس چادر کو اکٹھی کر کے اپنی طرف پلٹا لو ، (یعنی اپنے اوپر اوڑھ لو۔ ) چناچہ میں نے ایسا کرلیا اور پھر تو میں حافظے کے اعتبار سے ایسا ہوگیا کہ نبی اکرم ﷺ جو بھی اپنی حدیث مبارک مجھ سے بیان فرماتے اس سے ایک حرف بھی مجھ سے ساقط نہیں ہوتا تھا ، ابوہریرہ (رض) کے الفاظ «فاصبحت لا أسقط حرفا حدثنی» (دیکھئیے : الحلۃ : ١ /٣٨١) بالکل اسی معنی کی احادیث صحیح البخاری / کتاب البیوع اور کتاب الحرث والمزرعۃ حدیث ٢٣٥٠ اور صحیح مسلم / کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل ابی ہریرۃ (رض) الدوسی حدیث ٢٤٩٢ میں بھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے «مجموعة الوقائق السیاسیة للعہدالنبوی والخلافة الراشدة» میں ثابت کیا ہے کہ جناب ہمام بن منبہ (رح) کے ہاتھ کا مخطوطہٰ احادیث آج بھی دنیا کی ایک معروف لائبریری میں موجود ہے ، اور پھر اس مخطوطہٰ کو حیدرآباد دکن سے شائع بھی کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2668

【25】

بنی اسرائیل سے روایت کرنے کے متعلق

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری طرف سے لوگوں کو (احکام الٰہی) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے بیان کرو، ان سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹ کی نسبت کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٠ (٣٤٦١) (تحفة الأشراف : ٨٩٦٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے علم کی حد تک ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ قرآن و حدیث کا جو بھی علم اسے حاصل ہو اسے لوگوں تک پہنچائے ، یہاں تک کہ اگر کسی ایک حکم الٰہی سے ہی آگاہ ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو بھی اس سے آگاہ کرے ، بنی اسرائیل سے متعلق صرف وہ باتیں بیان کی جائیں جو آپ ﷺ سے صحیح سندوں سے ثابت ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (582) ، تخريج العلم لأبي خيثمة (119 / 45) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2669 اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (582) ، تخريج العلم لأبي خيثمة (119 / 45) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2669

【26】

اس بارے میں کہ نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس سواری مانگنے آیا، تو آپ کے پاس اسے کوئی سواری نہ ملی جو اسے منزل مقصود تک پہنچا دیتی۔ آپ نے اسے ایک دوسرے شخص کے پاس بھیج دیا، اس نے اسے سواری فراہم کردی۔ پھر اس نے آ کر آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا : بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے یعنی انس (رض) کی روایت سے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابومسعود بدری اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٠٢) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (1160) ، التعليق الرغيب (1 / 72) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2670

【27】

اس بارے میں کہ نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے

ابومسعود بدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سواری مانگنے آیا، اور کہا : میں بےسواری کے ہوگیا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا : تم فلاں شخص کے پاس جاؤ، چناچہ وہ اس شخص کے پاس گیا اور اس نے اسے سواری دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور ابومسعود بدری کا نام عقبہ بن عمرو ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٢٤ (٥١٢٩) (تحفة الأشراف : ٩٩٨٦) ، و مسند احمد (٤/١٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2671

【28】

اس بارے میں کہ نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شفاعت (سفارش) کرو تاکہ اجر پاؤ، اللہ اپنے نبی کی زبان سے نکلی ہوئی جس بات (جس سفارش) کو بھی چاہتا ہے پورا کردیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢١ (١٤٣٢) ، والأدب ٣٦ (٦٠٢٧) ، و ٣٧ (٦٠٢٨) ، والتوحید ٣١ (٧٤٧٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٤ (٢٦٢٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٢٦ (٥١٣١) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٥ (٢٥٥٧) (تحفة الأشراف : ٩٠٣٦) ، و مسند احمد (٤/٤٠٠، ٤٠٩، ٤١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر کوئی رسول اللہ ﷺ سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چیز مانگتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ حقیقت میں یہ شخص ضرورت مند ہے تو تم اس کے حق میں سفارش کے طور پر دو کلمہ خیر کہہ دو ، تو تمہیں بھی اس کلمہ خیر کہہ دینے کا ثواب ملے گا ، لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس میں جس سفارش کی ترغیب دی گئی ہے ، وہ ایسے امور کے لیے ہے جو حلال اور مباح ہیں ، حرام یا شرعی حد کو ساقط کرنے کے لیے سفارش کی اجازت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1446) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2672

【29】

اس بارے میں کہ نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ظلم سے جو بھی خون ہوتا ہے اس خون کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے (پہلے) بیٹے پر جاتا ہے، کیونکہ اسی نے سب سے پہلے خون کرنے کی سبیل نکالی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١ (٣٣٣٥) ، والدیات ٢ (٦٨٦٧) ، والاعتصام ١٥ (٧٣٢١) ، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ٧ (١٦٧٧) ، سنن النسائی/المحاربة ١ (٣٩٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٦ (٢٦) (تحفة الأشراف : ٩٥٦٨) ، و مسند احمد (١/٣٨٣، ٤٣٠، ٤٣٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ خلاف شریعت اور برے کاموں کو پہلے پہل کرنا جس کی بعد میں لوگ تقلید کریں کتنا بڑا جرم ہے ، قیامت تک اس برے کام کے کرنے کا گناہ اسے بھی ملتا رہے گا ، اس لیے امن و سلامتی کی زندگی گزار نے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کریں اور بدعات و خرافات سے اجتناب کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2616) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2673 اس سند سے بھی ابن مسعود سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2616) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2673

【30】

اس شخص کے بارے میں جس نے ہدایت کی طرف بلایا اور لوگوں نے اس کی تابعداری کی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر کے برابر ہدایت کی طرف بلانے والے کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کچھ بھی کمی ہو، اور جس نے ضلالت (و گمراہی) کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر گمراہی کی طرف بلانے والے کو بھی گناہ ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العلم ٦ (٢٦٧٤) ، سنن ابی داود/ السنة ٧ (٤٧٠٩) (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٦) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٥٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (206) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2674

【31】

اس شخص کے بارے میں جس نے ہدایت کی طرف بلایا اور لوگوں نے اس کی تابعداری کی

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہوگا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہوگا، بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے جریر بن عبداللہ سے آئی ہے، اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣ - یہ حدیث منذر بن جریر بن عبداللہ سے بھی آئی ہے، جسے وہ اپنے والد جریر بن عبداللہ سے اور جریر نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٤ - یہ حدیث عبیداللہ بن جریر سے بھی آئی ہے، اور عبیداللہ اپنے والد جریر سے اور جریر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٥ - اس باب میں حذیفہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٧) ، والعلم ٦ (١٠١٧/١٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٤ (٢٠٣) (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٦) و مسند احمد (٤/٣٥٧، ٣٥٨، ٣٦١، ٣٦٢) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٥١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدایت یعنی ایمان ، توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر و ثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا ، اسی طرح شر و فساد اور قتل و غارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (203 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2675

【32】

سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں

عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ہمیں نماز فجر کے بعد ایک موثر نصیحت فرمائی جس سے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور دل لرز گئے، ایک شخص نے کہا : یہ نصیحت ایسی ہے جیسی نصیحت دنیا سے (آخری بار) رخصت ہو کر جانے والے کیا کرتے ہیں، تو اللہ کے رسول ! آپ ہمیں کس بات کی وصیت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے، امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی نصیحت کرتا ہوں، اگرچہ تمہارا حاکم اور امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ (امت کے اندر) بہت سارے اختلافات دیکھے گا تو تم (باقی رہنے والوں) کو میری وصیت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چناچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیئے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمار ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے ۔ (اور اس پر عمل پیرا رہے ) امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ثور بن یزید نے بسند «خالد بن معدان عن عبدالرحمٰن بن عمرو السلمي عن العرباض بن سارية عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٦ (٤٦٠٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٢) (تحفة الأشراف : ٩٨٩٠) ، وسنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (42) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2676

【33】

سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں

عمرو بن عوف (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حارث (رض) سے کہا : سمجھ لو (جان لو) انہوں نے کہا : سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : سمجھ لو اور جان لو ، انہوں نے عرض کیا : سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی و خوش نہیں، تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا، اس کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - محم بن عیینہ مصیصی شامی ہیں، ٣ - اور کثیر بن عبداللہ سے مراد کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٥ (٢١٠) (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٦) (ضعیف) (سند میں کثیر ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (210) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (37) ، تخريج السنة لابن أبي عاصم (42) ، المشکاة (1682) ، ضعيف الجامع الصغير (965) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2677

【34】

سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے بیٹے : اگر تم سے ہو سکے کہ صبح و شام تم اس طرح گزارے کہ تمہارے دل میں کسی کے لیے بھی کھوٹ (بغض، حسد، کینہ وغیرہ) نہ ہو تو ایسا کرلیا کرو ، پھر آپ نے فرمایا : میرے بیٹے ! ایسا کرنا میری سنت (اور میرا طریقہ) ہے، اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث میں ایک طویل قصہ بھی ہے، ٢ - اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے، ٣ - محمد بن عبداللہ انصاری ثقہ ہیں، اور ان کے باپ بھی ثقہ ہیں، ٤ - علی بن زید صدوق ہیں (ان کا شمار سچوں میں ہے) بس ان میں اتنی سی کمی و خرابی ہے کہ وہ بسا اوقات بعض روایات کو جسے دوسرے راوی موقوفاً روایت کرتے ہیں اسے یہ مرفوع روایت کردیتے ہیں، ٥ - میں نے محمد بن بشار کو کہتے ہوئے سنا کہ ابوالولید نے کہا : شعبہ کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن زید نے حدیث بیان کی اور علی بن زید رفاع تھے، ٦ - ہم سعید بن مسیب کی انس کے واسطہ سے اس طویل حدیث کے سوا اور کوئی روایت نہیں جانتے، ٧ - عباد بن میسرہ منقری نے یہ حدیث علی بن زید کے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اس حدیث میں سعید بن مسیب کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، ٨ - میں نے اس حدیث کا محمد بن اسماعیل بخاری سے ذکر کر کے اس کے متعلق جاننا چاہا تو انہوں نے اس کے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کیا، ٩ - انس بن مالک سے سعید بن مسیب کی روایت سے یہ یا اس کے علاوہ کوئی بھی حدیث معروف نہیں ہے۔ انس بن مالک ٩٣ ہجری میں انتقال فرما گئے اور سعید بن مسیب ان کے دو سال بعد ٩٥ ہجری میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٦٥) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (175) // ضعيف الجامع الصغير (6389) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2678

【35】

جن چیزوں کو نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا انہیں ترک کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم مجھے چھوڑے رکھو، پھر جب میں تم سے کوئی چیز بیان کروں تو اسے لے لو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ بہت زیادہ سوالات کرنے اور اپنے انبیاء سے کثرت سے اختلافات کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢ (٧٢٨٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧٣ (١٣٣٧) ، والفضائل ٣٧ (١٣٣٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١ (١، ٢) (تحفة الأشراف : ١٢٥١٨) ، و مسند احمد (٢/٢٤٧، ٢٥٨، ٣١٣، ٤٢٨، ٤٤٨، ٤٥٧، ٤٦٧، ٤٨٢، ٤٩٥، ٥٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی خواہ مخواہ مسئلے مسائل پوچھ کر اپنے لیے تنگی اور دشواری نہ پیدا کرو ، میرے بیان کرنے کے مطابق اس پر عمل کرو ، کیونکہ کثرت سوال سے اسی طرح پریشانی میں پڑ سکتے ہو جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں کا حال ہوا ، سورة البقرہ میں بنی اسرائیل کا جو حال بیان ہوا وہ اس سلسلہ میں بےانتہا عبرت آموز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1 - 2) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2679

【36】

مدینہ کے عالم کی فضیلت کے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے : عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ لوگ علم کی تلاش میں کثرت سے لمبے لمبے سفر طے کریں گے، لیکن (کہیں بھی) انہیں مدینہ کے عالم سے بڑا کوئی عالم نہ ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عیینہ سے مروی یہ حدیث حسن ہے، ٢ - سفیان بن عیینہ سے اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ عالم مدینہ کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا : مالک بن انس ہیں، ٣ - اسحاق بن موسیٰ کہتے ہیں : میں نے ابن عیینہ کو کہتے سنا کہ وہ (یعنی عالم مدینہ) عمری عبدالعزیز بن عبداللہ زاہد ہیں، ٤ - میں نے یحییٰ بن موسیٰ کو کہتے ہوئے سنا عبدالرزاق کہتے تھے کہ وہ (عالم مدینہ) مالک بن انس ہیں، ٥ - عمری یہ عبدالعزیز بن عبداللہ ہیں، اور یہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١٢٨٧٧) ، و مسند احمد (٢/٢٩٩) (ضعیف) (سند میں ابن جریج اور ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث سے اس کا ایک شاہد مروی ہے، مگر اس میں زہر بن محمد کثیر الغلط، اور سعید بن ابی ہند مدلس ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (246) ، التعليق علی التنکيل (1 / 385) ، الضعيفة (4833) // ضعيف الجامع الصغير (6448) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2680

【37】

اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک فقیہ (عالم) ہزار عبادت کرنے والوں کے مقابلہ میں اکیلا شیطان پر حاوی اور بھاری ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت سے صرف اسی سند جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٢) (تحفة الأشراف : ٦٣٩٥) (موضوع) (سند میں روح بن جناح بہت ہی ضعیف ہے، بلکہ وضع سے متہم ہے ) قال الشيخ الألباني : موضوع، ابن ماجة (222) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (41) ، المشکاة (217) ، ضعيف الجامع (3987) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2681

【38】

اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے

قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء (رض) کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء (رض) نے اس سے کہا : میرے بھائی ! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا : مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا : کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، انہوں نے کہا : کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداء نے کہا : (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے، ٢ - یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند «داود بن جميل عن کثير بن قيس عن أبي الدرداء عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العلم ١ (٣٦٤١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٣) (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٨) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٥٤) (صحیح) (سند میں کثیر بن قیس، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : زہد وکیع رقم ٥١٩ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علماء و محدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں ، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے ، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو ، علم دین حاصل کرنے والے کے لیے جنت کا راستہ آسان ہوجاتا ہے ، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں ، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (223) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2682

【39】

اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے

یزید بن سلمہ جعفی کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے بہت سی حدیثیں آپ سے سنی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بعد کی حدیثیں شروع کی حدیثوں کو بھلا نہ دیں، آپ مجھے کوئی ایسا کلمہ (کوئی ایسی بات) بتا دیجئیے جو دونوں (اول و آخر) کو ایک ساتھ باقی رکھنے کا ذریعہ بنے۔ آپ نے فرمایا : جو کچھ بھی تم جانتے ہو ان کے متعلق اللہ کا خوف و تقویٰ ملحوظ رکھو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ایسی ہے جس کی سند متصل نہیں ہے، یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے۔ ٢ - میرے نزدیک ابن اشوع نے یزید بن سلمی (کے دور) کو نہیں پایا ہے، ٣ - ابن اشوع کا نام سعید بن اشوع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٨٣٠) (ضعیف) (سعید بن اشوع کا سماع یزید بن سلمہ (رض) سے نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جن چیزوں سے تمہیں روکا گیا ہے ان سے باز رہو ، اور جن چیزوں پر عمل کا حکم دیا گیا ہے ان پر عمل جاری رکھو ، ایسا کرنا تمہارے لیے حدیثوں کے حفظ کے تعلق سے بہتر ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1696) // ضعيف الجامع الصغير (108) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2683

【40】

اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منافق میں دو خصلتیں (صفتیں) جمع نہیں ہوسکتی ہیں : حسن اخلاق اور دین کی سمجھ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم عوف کی اس حدیث کو صرف شیخ خلف بن ایوب عامری کی روایت سے جانتے ہیں، اور ابوکریب محمد بن علاء کے سوا کسی کو ہم نہیں جانتے جس نے خلف بن ایوب عامری سے روایت کی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسے شخص ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٤٨٧) (صحیح) (دیکھئے : الصحیحة ٢٧٨، و تراجع الألبانی ٤٦٨ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (219 / التحقيق الثاني) ، الصحيحة (278) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2684

【41】

اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے

ابوامامہ باہلی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعائیں کرتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - فضیل بن عیاض کہتے ہیں «ملکوت السموات» (عالم بالا) میں عمل کرنے والے عالم اور معلم کو بہت بڑی اہمیت و شخصیت کا مالک سمجھا اور پکارا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (213 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (1 / 60) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2685

【42】

اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن بھلائی سے ہرگز آسودہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے آخری انجام جنت میں پہنچ جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٥٦) (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (216) // والصواب (222) ، ضعيف الجامع الصغير (4783) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2686

【43】

اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے وہ اسے حاصل کرلینے کا زیادہ حق رکھتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣ - ابراہیم بن فضل مدنی مخزومی حدیث بیان کرنے میں حفظ کے تعلق سے کمزور مانے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٥ (٤١٦٩) (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٠) (ضعیف جدا) (سند میں ابراہیم بن الفضل المخزومی متروک راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا (216) // كذا الأصل والصواب : أنه رقم مشكاة المصابيح وهو في ضعيف الجامع الصغير برقم (4302 ) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2687