39. آداب اور اجازت لینے کا بیان
سلام کو پھیلانے کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم (صحیح معنوں میں) مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے (سچی) محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگو تو تم میں باہمی محبت پیدا ہوجائے (وہ یہ کہ) آپس میں سلام کو عام کرو (پھیلاؤ) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن سلام، شریح بن ہانی عن ابیہ، عبداللہ بن عمرو، براء، انس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٢ (٥٤) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٤٢ (٥١٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٨) ، والأدب ١١ (٣٦٩٢) (تحفة الأشراف : ١٢٥١٣) ، و مسند احمد (٢/٣٩١) ، ٤٤٢، ٤٧٧، ٤٩٥، ٥١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت میں داخل ہونے کے لیے بنیادی چیز ایمان ہے ، اور ایمان کی تکمیل کے لیے آپسی محبت اور بھائی چارہ کا ہونا ضروری ہے ، اور انہیں اگر باقی رکھنا ہے تو سلام کو عام کرو اور اسے خوب پھیلاؤ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3692) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2688
سلام کی فضیلت کے بارے میں
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : «السلام عليكم» ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں ، پھر ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا : «السلام عليكم ورحمة الله» ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اس کے لیے) بیس نیکیاں ہیں ، پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا : «السلام عليكم ورحمة اللہ وبرکاته» ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اس کے لیے) تیس نیکیاں ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں علی، ابوسعید اور سہل بن حنیف سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٤٣ (٥١٩٥) (تحفة الأشراف : ٤٣٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرمان الٰہی : «وإذا حييتم بتحية فحيوا بأحسن منها أو ردوها» یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو ، یا انہی الفاظ کو لوٹا دو (النساء : ٨٦ ) کے مطابق سلام کا جواب سلام کرنے والے سے اچھا دو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو انہی الفاظ کو لوٹا دو ، یا در ہے یہ حکم مسلمانوں کے لیے ، یعنی خیر و برکت کی کثرت کی دعا کسی مسلمان کے حق میں ہی ہونی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 268) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2689
داخل ہونے کے لئے تین مرتبہ اجازت لینا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے عمر (رض) سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا :«السلام عليكم» کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ عمر (رض) نے (دل میں) کہا : ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا : «السلام عليكم» کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ عمر (رض) نے (دل میں) کہا : ابھی تو دو ہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا : «السلام عليكم» کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے ؟ عمر (رض) نے (دل میں کہا) تین بار اجازت طلب کرچکے، پھر ابوموسیٰ اشعری (رض) واپس ہو لیے، عمر (رض) نے دربان سے کہا : ابوموسیٰ نے کیا کیا ؟ اس نے کہا : لوٹ گئے۔ عمر (رض) نے کہا انہیں بلا کر میرے پاس لاؤ، پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو عمر (رض) نے کہا : یہ آپ نے کیا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے سنت پر عمل کیا ہے، عمر (رض) نے کہا سنت پر ؟ قسم اللہ کی ! تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل و ثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں : پھر وہ ہمارے پاس آئے، اس وقت ہم انصار کی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے کہا : اے انصار کی جماعت ! کیا تم رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو، کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا : «الاستئذان ثلاث» (اجازت طلبی) تین بار ہے۔ اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لوٹ جاؤ؟ (یہ سن کر) لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے، ابو سعید خدری کہتے ہیں : میں نے اپنا سر ابوموسیٰ اشعری کی طرف اونچا کر کے کہا : اس سلسلے میں جو بھی سزا آپ کو ملے گی میں اس میں حصہ دار ہوں گا، راوی کہتے ہیں : پھر وہ (ابوسعید) عمر (رض) کے پاس آئے، اور ان کو اس حدیث کی خبر دی، عمر نے کہا : مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور جریری کا نام سعید بن ایاس ہے اور ان کی کنیت ابومسعود ہے۔ یہ حدیث ان کے سوا اور لوگوں نے بھی ابونضرہ سے روایت کی ہے، اور ابونضرہ عبدی کا نام منذر بن مالک بن قطعہ ہے، ٢ - اس باب میں علی اور سعد کی آزاد کردہ لونڈی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٧ (٢١٥٣) (تحفة الأشراف : ٤٣٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات ایک ادنی شخص کو علم دین کی وہ بات معلوم ہوسکتی ہے جو کسی بڑے صاحب علم کو معلوم نہیں ، چناچہ عمر (رض) کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تین بار اجازت طلب کرنے پر اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2690
داخل ہونے کے لئے تین مرتبہ اجازت لینا
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ کے پاس آنے کی تین بار اجازت مانگی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ابوزمیل کا نام سماک الحنفی ہے، ٣ - میرے نزدیک عمر کو ابوموسیٰ کی اس بات پر اعتراض اور انکار اس وجہ سے تھا کہ ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اجازت تین بار طلب کی جائے، اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ور نہ لوٹ جاؤ ۔ (رہ گیا عمر (رض) کا اپنا معاملہ) تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے تین بار اجازت طلب کی تھی تو انہیں اجازت مل گئی تھی، اس حدیث کی خبر انہیں نہیں تھی جسے ابوموسیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا : پھر اگر اندر جانے کی اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٩) (ضعیف الإسناد منکر المتن) (اس کے راوی ” عکرمہ بن عمار “ روایت میں غلطی کر جاتے تھے، اور فی الحقیقت یہ روایت پچھلی صحیح روایت کے برخلاف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، منکر المتن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2691
سلام کا جواب کیسے دیا جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں آیا (اس وقت) رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس نے نماز پڑھی پھر آ کر آپ کو سلام عرض کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «وعليك» تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث عبیداللہ بن عمر سے اور عبیداللہ بن عمر نے سعید مقبری سے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «عن أبيه عن أبي هريرة» کہا ہے، اس میں «فسلم عليه وقال وعليك» اس نے آپ کو سلام کیا اور آپ نے کہا تم پر بھی سلام ہو کا ذکر نہیں کیا، ٣ - یحییٰ بن سعید کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1160) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2692
کسی کو سلام بھیجنے کے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں کہا : وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں بنی نمیر کے ایک شخص سے بھی روایت ہے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں، ٣ - زہری نے بھی یہ حدیث ابوسلمہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٢٢١٧) ، وفضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٦٨) ، والأدب ١١١ (٦٢٠١) ، والاستئذان ١٦ (٦٢٤٩) ، و ١٩ (٦٢٥٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٦٦ (٥٢٣٢) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٣ (٩٣٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٢ (٣٦٩٥) (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٧) ، و مسند احمد (٦/١٤٦، ١٥٠، ٢٠٨، ٢٢٤) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ١٠ (٢٦٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غائبانہ سلام کسی شخص کے واسطہ سے پہنچے یا کسی خط میں لکھ کر آئے تو اس کا جواب فوری طور پر دینا چاہیئے۔ اور اسی طرح دینا چاہیئے جیسے اوپر ذکر ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2693
پہلے سلام کرنے والے کی فضیلت کے متعلق
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! جب دو آدمی آپس میں ملیں تو سلام کرنے میں پہل کون کرے ؟ آپ نے فرمایا : ان دونوں میں سے جو اللہ کے زیادہ قریب ہے ١ ؎۔ (وہ پہل کرے گا ) امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابوفروہ رہاوی مقارب الحدیث ہیں، مگر ان کے بیٹے محمد بن یزید ان سے منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٨٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ سے جس کا زیادہ لگاؤ اور تعلق ہوگا اس میں تواضع اور خاکساری بھی زیادہ پائی جائے گی ، اس لیے وہ سلام کرنے میں بھی پہل کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4646) ، تخريج الکلم الطيب (198) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2694
سلام میں ہاتھ سے اشارہ کرنے کی کراہت
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں سے مشابہت اختیار کرے، نہ یہود کی مشابہت کرو اور نہ نصاریٰ کی، یہودیوں کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں کا اشارہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ٢ - ابن مبارک نے یہ حدیث ابن لھیعہ سے روایت کی ہے، اور اسے انہوں نے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٣٤) (حسن) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابن لہیعہ “ ضعیف ہیں، اور عبد اللہ بن مبارک کی ان سے جو روایت ہے وہ موقوف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة رقم : ٢١٩٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہود و نصاری اور کفار کی کسی بھی فعل میں مشابہت نہ کرو ، خصوصا سلام کی ان دو خصلتوں میں ممکن ہے یہ لوگ «السلام عليكم» اور «وعليكم السلام» کہنے کے بجائے صرف اشارہ پر اکتفا کرتے رہے ہوں ، زبان سے سلام ادا کرنا انبیاء کی سنت ہے ، اس لیے اس سنت کو اپناتے ہوئے عذر کی جگہوں میں اشارہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، جیسے کسی بہرے کو سلام کرنا وغیرہ ، اسی طرح بعض مخصوص حالات میں صرف اشارہ پر اکتفا کرنا بھی صحیح ہے ، جیسے گونگے کا سلام کرنا اور حالت نماز میں اشارہ سے جواب دینا وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (2194) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2695
بچوں کو سلام کرنے کے متعلق
سیار کہتے ہیں کہ میں ثابت بنانی کے ساتھ جا رہا تھا، وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا، ثابت نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا : میں انس (رض) کے ساتھ (جا رہا) تھا وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے سلام کیا، پھر انس نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اسے کئی لوگوں نے ثابت سے روایت کیا ہے، ٣ - یہ حدیث متعدد سندوں سے انس (رض) سے بھی روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٥ (٦٢٤٧) ، صحیح مسلم/السلام ٥ (٢١٦٨) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٤٧ (٥٢٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٤ (٢٧٠٠) (تحفة الأشراف : ٤٣٨) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٨ (٢٦٧٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بچوں سے سلام کرنے میں کئی فائدے ہیں : ( ١ ) سلام کرنے والے میں تواضع کا اظہار ہوتا ہے ، ( ٢ ) بچوں کو اسلامی آداب سے آگاہی ہوتی ہے ، ( ٣ ) سلام سے ان کی دلجوئی بھی ہوتی ہے ، ( ٤ ) ان کے سامنے سلام کی اہمیت واضح ہوتی ہے ، ( ٥ ) وہ اس سے باخبر ہوتے ہیں کہ یہ سنت رسول ہے جس پر عمل کرنا بہت اہم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2696 اس سند سے بھی انس (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٢٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2696
عورتوں کو سلام کرنے کے متعلق
اسماء بنت یزید (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں گزرے وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، چناچہ آپ نے انہیں اپنے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - عبدالحمید (راوی) نے بھی پتے ہاتھ سے اشارہ کیا (کہ اس طرح) ، ٣ - احمد بن حنبل کہتے ہیں : شہر بن حوشب کے واسطہ سے عبدالحمید بن بہرام کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے، ٤ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : شہر حسن الحدیث ہیں اور ان کو روایت حدیث میں قوی بخاری کہتے ہیں : ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیا ہے۔ ابن عون کہتے ہیں : «إن شهرا نزکوه» کے واسطہ سے کہا : شہر کی شخصیت کو محدثین نے داغ دار بتایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ نضر کہتے ہیں «نزكوه» کا مطلب یہ ہے کہ «طعنوا فيه» یعنی ان کی شخصیت کو داغ دار بتایا ہے، اور لوگوں نے ان پر جرح اس لیے کی ہے کہ وہ سلطان (حکومت) کے ملازم بن گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٤٨ (٥٢٠٤) (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ جہاں فتنے کا خوف نہ ہو وہاں مرد اور عورتوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنا جائز ہے ، مثلاً عورتوں کی جماعت ہو یا کوئی بوڑھی عورت ہو ، کیونکہ ان دونوں صورتوں میں فتنے کا اندیشہ نہیں ہے ، البتہ مرد کا کسی جوان عورت کو سلام کرنا جب کہ وہ تنہا ہو اسی طرح تنہا جوان عورت کا کسی مرد کو سلام کرنا صحیح نہیں ، کیونکہ یہ دونوں صورتیں فتنے سے خالی نہیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف حجاب المرأة المسلمة (99 - 100) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2697
اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : بیٹے ! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو انہیں سلام کیا کرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے خیر و برکت کا باعث ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٦٥) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ سلام گھر میں خیر و برکت کی کثرت کا سب سے بہترین نسخہ ہے ، بہت افسوس ہے ایسے لوگوں پر جو سلام جیسی چیز کو چھوڑ کر خود بھی اور اپنے گھر والوں کو بھی خیر و برکت اور سلامتی سے محروم رکھتے ہیں ، ہوسکتا ہے ایسے لوگ اپنے بیوی بچوں کو سلام کرنے میں اپنی سبکی محسوس کرتے ہوں ، اس لیے گھر میں آتے جاتے سلام ضرور کرنا چاہیئے تاکہ سلام کی خیر و برکت سے محروم نہ رہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2698
کلام سے پہلے سلام کرنے کے متعلق
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بات چیت شروع کرنے سے پہلے سلام کیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٠٧٤) (حسن) (سند میں محمد بن زاذان اور عنبسہ بن عبد الرحمن دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، الصحیحة ٨١٦) قال الشيخ الألباني : (حديث : السلام قبل الکلام ) حسن، (حديث : لا تدعوا أحد ..... ) // موضوع // (حديث : السلام قبل الکلام ) ، الصحيحة (816) ، (حديث : لا تدعوا أحد ... ) // ضعيف الجامع الصغير (3374) ، وقال فيه : موضوع // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2699 اور سند سے نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : کسی کو کھانے پر نہ بلاؤ جب تک کہ وہ سلام نہ کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث منکر ہے ہم اس حدیث کو اس سند کے سوا کسی اور سند سے نہیں جانتے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عنبسہ بن عبدالرحمٰن حدیث بیان کرنے میں ضعیف اور بہکنے والے، اور محمد بن زاذان منکرالحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تخريج : (موضوع) (ضعیف الجامع ٣٣٧٣، ٣٣٧٤، الضعیفة ١٧٣٦ ) قال الشيخ الألباني : (حديث : السلام قبل الکلام ) حسن، (حديث : لا تدعوا أحد ..... ) // موضوع // (حديث : السلام قبل الکلام ) ، الصحيحة (816) ، (حديث : لا تدعوا أحد ... ) // ضعيف الجامع الصغير (3374) ، وقال فيه : موضوع // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2699
اس بارے میں کہ ذمی (کافر) کو سلام کرنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تمہاری ان کے کسی فرد سے راستے میں ملاقات ہوجائے تو اسے تنگ راستے سے ہی جانے پر مجبور کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٦٠٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہود و نصاری اور غیر مسلموں کو مجبور کیا جائے کہ بھیڑ والے راستوں میں کناروں پر چلیں ، اور مسلمان درمیان میں چلیں تاکہ ان کی شوکت و حشمت کا اظہار ہو۔ اور اس طرح سے ان کو سلام اور مسلمانوں کے بارے میں مزید غور وفکر کا موقع ملے ، شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کا دل عزت و غلبہ والے دین کے لیے کھول دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (127) ، الصحيحة (704) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2700
اس بارے میں کہ ذمی (کافر) کو سلام کرنا مکروہ ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : «السّام عليك» تم پر موت و ہلاکت آئے ، نبی اکرم ﷺ نے جواب میں فرمایا : «عليكم» ١ ؎، عائشہ نے (اس پر دو لفظ بڑھا کر) کہا «بل عليكم السام واللعنة» بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت ہو ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں رفق، نرم روی اور ملائمیت کو پسند کرتا ہے ، عائشہ (رض) نے کہا : کیا آپ نے سنا نہیں ؟ انہوں نے کیا کہا ہے ؟۔ آپ نے فرمایا : تبھی تو میں نے «عليكم» کہا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابو بصرہ غفاری، ابن عمر، انس اور ابوعبدالرحمٰن جہنی سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الستتابة المرتدین ٤ (٦٩٢٧) ، صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٥) (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٧) ، و مسند احمد (٦/١٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا آپ نے «عليكم» کہہ کر یہود کی بد دعا خود انہیں پر لوٹا دی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (764) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2701
جس مجلس میں مسلمان اور کافر ہوں ان کو سلام کرنا
اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور یہود دونوں تھے تو آپ نے انہیں سلام کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر آل عمران ١٥ (٤٥٦٦) ، والمرضی ١٥ (٥٦٦٣) ، والأدب ١١٥ (٦٢٠٧) ، والاستئذان ٢٠ (٦٢٥٤) ، صحیح مسلم/الجھاد ٤٠ (١٧٩٨) (تحفة الأشراف : ١٠٩) ، و مسند احمد (٥/٢٠٣) (کلہم سوی المؤلف في سیاق طویل فیہ قصة) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ایسی مجلس جس میں مسلمان اور کافر دونوں موجود ہوں ، اس میں مسلمانوں کو اپنا مخاطب سمجھ کر انہیں السلام علیکم کہنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2702
اس بارے میں کہ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو (یعنی چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے ۔ اور ابن مثنی نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے : چھوٹا اپنے بڑے کو سلام کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے متعدد سندوں سے مروی ہے، ٢ - ایوب سختیانی، یونس بن عبید اور علی بن یزید کہتے ہیں کہ حسن بصری نے ابوہریرہ (رض) سے نہیں سنا ہے، ٣ - اس باب میں عبدالرحمٰن بن شبل، فضالہ بن عبید اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤ (٦٢٣١) ، و ٥ (٦٢٣٢) ، و ٦ (٦٢٣٣) ، و ٧ (٦٢٣٤) ، صحیح مسلم/السلام ١ (٩٢١٦٠، سنن ابی داود/ الأدب ١٤٥ (٥١٩٨) ، ٥١٩٩) (تحفة الأشراف : ١٢٢٥١) ، و مسند احمد (٢/٣٢٥، ٥١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ سلام کرنے میں حدیث میں جو طریقہ اور صورت مذکور ہے اس کا اعتبار ہوگا نہ کہ رتبے اور درجے کا ، اگر صورت میں اتفاق ہوگا مثلاً دونوں سوار ہیں یا دونوں پیدل ہیں تو ایسی صورت میں سلام کرتے وقت چھوٹے اور بڑے کا لحاظ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1145) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2703
اس بارے میں کہ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چھوٹا بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٤٦٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1149) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2704
اس بارے میں کہ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے
فضالہ بن عبید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سوار پیدل چلنے والے کو اور چلنے والا کھڑے ہوئے شخص کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٢٧ (٣٣٨) (تحفة الأشراف : ١١٠٣٤) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٦ (٢٦٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1150) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2705
اٹھتے اور بیٹھتے وقت سلام کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، پھر اگر اس کا دل بیٹھنے کو چاہے تو بیٹھ جائے۔ پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو سلام کرے۔ پہلا (سلام) دوسرے (سلام) سے زیادہ ضروری نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - یہ حدیث ابن عجلان سے بھی آئی ہے، ابن عجلان نے بسند «سعيد المقبري عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٥٠ (٥٢٠٨) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٣١ (٣٦٩) (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٨) ، و مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٨٧، ٤٣٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں سلام کی یکساں اہمیت و ضرورت ہے ، جیسے مجلس میں شریک ہوتے وقت سلام کرے ایسے ہی مجلس سے رخصت ہوتے وقت بھی سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوا جائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (183) ، تخريج الکلم (201) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2706
گھر کے سامنے کھڑے ہو کر اجازت مانگنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (گھر میں داخل ہونے کی) اجازت ملنے سے پہلے ہی جس نے (دروازے کا) پردہ کھسکا کر کسی کے گھر کے اندر جھانکا، اور گھر والے کی بیوی کی پردہ دری کی تو اس نے ایک ایسا کام کیا جس کا کرنا اس کے لیے حلال نہ تھا، جس وقت اس نے اپنی نگاہ اندر ڈالی تھی کاش اس وقت اس کا سامنا کسی ایسے شخص سے ہوجاتا جو اس کی دونوں آنکھیں پھوڑ دیتا تو میں اس پر اسے خوں بہا نہ دیتا۔ اور اگر کوئی شخص ایسے دروازے کے سامنے سے گزرا جس پر کوئی پردہ پڑا ہوا نہیں ہے اور دروازہ بند بھی نہیں ہے پھر اس کی نظر اٹھ گئی تو اس کی کچھ خطا نہیں۔ غلطی و کوتاہی تو گھر والے کی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اس طرح کی حدیث صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - اس باب میں ابوہریرہ اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٩٦٠) ، و مسند احمد (٥/١٨١) (صحیح) (تراجع الالبانی / ١ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3526 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2707
بغیر اجازت کسی کے گھر میں جھانکنا
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے گھر میں تھے (اسی دوران) ایک شخص نے آپ کے گھر میں جھانکا، آپ ﷺ تیر کا پھل لے کر لپکے (کہ اس کی آنکھیں پھوڑ دیں) لیکن وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١١ (٦٢٤٢) ، والدیات ١٥ (٦٨٨٠) ، و ٢٣ (٦٩٠٠) ، صحیح مسلم/الآداب ٩ (٢١٥٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣٦ (٥١٧١) ، سنن النسائی/القسامة ٤٦ (٤٨٦٢) (تحفة الأشراف : ٧٢١) ، و مسند احمد (٣/١٠٨، ١٤٠، ٢٣٩، ٢٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2708
بغیر اجازت کسی کے گھر میں جھانکنا
سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے حجرے میں ایک سوراخ سے جھانکا (اس وقت) نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ اپنا سر کھجا رہے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے (پہلے سے) معلوم ہوتا کہ تو جھانک رہا ہے تو میں اسے تیری آنکھ میں کونچ دیتا (تجھے پتا نہیں) اجازت مانگنے کا حکم تو دیکھنے کے سبب ہی سے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٥ (٥٩٢٤) ، والاستئذان ١١ (٦٢٤١) ، والدیات ٢٣ (٦٩٠١) ، صحیح مسلم/الآداب ٩ (٢١٥٦) ، سنن النسائی/القسامة ٤٦ (٤٨٦٣) (تحفة الأشراف : ٤٨٠٦) ، و مسند احمد (٥/٣٣٠، ٣٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ اجازت مانگنے سے پہلے کسی کے گھر میں جھانکنا اور ادھر ادھر نظر دوڑانا منع ہے ، یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بھی اجازت طلب کئے بغیر داخل ہونا منع ہے ، اگر اجازت طلب کرنا ضروری نہ ہوتا تو بہت سوں کی پردہ دری ہوتی اور نامحرم عورتوں پر بھی نظر پڑتی ، یہی وہ قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح الترغيب (3 / 273) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2709
اجازت مانگنے سے پہلے سلام کرنا
کلدہ بن حنبل (رض) نے بیان کیا کہ صفوان بن امیہ نے انہیں دودھ، پیوسی اور ککڑی کے ٹکڑے دے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا اور آپ اس وقت مکہ کے اونچائی والے حصہ میں تھے، میں آپ کے پاس اجازت لیے اور سلام کئے بغیر چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : واپس باہر جاؤ، پھر کہو «السلام علیکم» ، کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب صفوان اسلام لا چکے تھے۔ عمرو بن عبداللہ کہتے ہیں : یہ حدیث امیہ بن صفوان نے مجھ سے بیان کی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ حدیث میں نے کلدہ سے سنی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اسے ہم صرف ابن جریج کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ٣ - ابوعاصم نے بھی ابن جریج سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٣٧ (٥١٧٦) (تحفة الأشراف : ١١١٦٧) ، و مسند احمد (٣/٤١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (818) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2710
اجازت مانگنے سے پہلے سلام کرنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک قرض کے سلسلے میں جو میرے والد کے ذمہ تھا کچھ بات کرنے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے کہا : کون ہے ؟ ۔ میں نے کہا : میں ہوں، آپ نے فرمایا : میں میں (کیا ہے ؟ ) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٧ (٦٢٥٠) ، صحیح مسلم/الآداب ٨ (٢١٥٥) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٣٩ (٥١٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٧ (٣٧٠٩) (تحفة الأشراف : ٣٠٤٢) ، و مسند احمد (٣/٢٩٨) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٢ (٢٦٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ اجازت طلب کرتے وقت اگر گھر والے یہ جاننا چاہیں کہ آنے والا کون ہے تو میں کہنے کے بجائے اپنا نام اور اگر کنیت سے مشہور ہے تو کنیت بتلائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2711
اس بارے میں کہ سفر سے واپسی میں رات کو گھر میں داخل ہونا مکروہ ہے
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو سفر سے رات میں بیویوں کے پاس لوٹ کر آنے سے روکا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے جابر (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے، ٣ - اس باب میں انس، ابن عمر، اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤ - ابن عباس (رض) سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو رات میں بیویوں کے پاس سفر سے واپس لوٹ کر آنے سے روکا ابن عباس (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے اس روکنے کے باوجود دو شخص رات میں لوٹ کر اپنی بیویوں کے پاس آئے (نتیجہ انہیں اس نافرمانی کا یہ ملا) کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی بیوی کے پاس ایک دوسرے مرد کو پایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ١٦ (١٨٠١) ، والنکاح ١٢٠ (٥٢٤٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥٦ (١٩٢٨/١٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رات میں سفر سے واپس آ کر اپنے گھر والوں کے پاس آنے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب آمد کی پیشگی اطلاع نہ دی گئی ہو ، اور اگر گھر والے اس کی آمد سے پہلے ہی باخبر ہیں تو پھر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2712
مکتوب (خط) کو خاک آلود کرنا
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی تحریر لکھے تو لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈالنا چاہیئے، کیونکہ اس سے حاجت برآری کی زیادہ توقع ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث منکر ہے، ٢ - ہم اسے صرف اسی سند سے ابوزبیر کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - حمزہ ہمارے نزدیک عمرو نصیبی کے بیٹے ہیں، اور وہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف مانے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٩ (٣٧٧٤) (تحفة الأشراف : ٢٦٩٩) (سند میں حمزة بن عمرو متروک الحدیث ہے اور ابو زبیر مکی مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ابن ماجہ کی سند میں بقیہ ہیں اور روایت ابو احمد دمشقی سے ہے جو مجہول ہیں) (ضعیف) (الضعیفة ١٧٣٨ ) وضاحت : ١ ؎ : تحریر پھیلی اور بگڑی ہوئی نہیں بلکہ صاف و ستھری رہے گی تو جس مقصد کے لیے لکھی گئی ہوگی ، اس مقصد کے جلد حاصل ہونے کی امید کی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5657) ، الضعيفة (1738) // ضعيف الجامع الصغير (674) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2713
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا۔ آپ کے سامنے ایک کاتب بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے سنا آپ اس سے فرما رہے تھے : تم اپنا قلم اپنے کان پر رکھے رہا کرو کیونکہ اس سے لکھوانے والوں کو آگاہی و یاد دہانی ہوجایا کرے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور یہ سند ضعیف ہے، ٣ - عنبسہ بن عبدالرحمٰن اور محم بن زاذان، دونوں حدیث بیان کرنے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (التحفہ : ٤٧٤٣) (موضوع) (سند میں عنبسہ اور محمد بن زاذان دونوں متروک الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (865) // ضعيف الجامع الصغير (3588) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2714
سریانی زبان کی تعلیم
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے یہود کی کچھ تحریر سیکھ لوں، آپ نے فرمایا : قسم اللہ کی ! میں یہود کی تحریر پر اعتماد و اطمینان نہیں کرتا ، چناچہ ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے آپ کے لیے اسے سیکھ لیا۔ کہتے ہیں : پھر جب میں نے سیکھ لیا اور آپ کو یہودیوں کے پاس کچھ لکھ کر بھیجنا ہوا تو میں نے لکھ کر ان کے پاس بھیج دیا، اور جب یہودیوں نے کوئی چیز لکھ کر آپ کے پاس بھیجی تو میں نے ان کی کتاب (تحریر) پڑھ کر آپ کو سنا دی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث اس سند کے علاوہ بھی دوسری سند سے زید بن ثابت (رض) سے مروی ہے، اسے اعمش نے ثابت بن عبید انصاری کے واسطہ سے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سریانی زبان سیکھ لوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٤٠ (٧١٩٥) (تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/ العلم ٢ (٣٦٤٥) (تحفة الأشراف : ٣٧٠٢) ، و مسند احمد (٥/١٨٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ یہود سے اگر کوئی چیز لکھائی جاتی یا ان سے کوئی چیز پڑھوائی جاتی دونوں صورتوں میں ان کی طرف سے کمی و زیادتی کا امکان تھا ، اسی خطرہ کے پیش نظر آپ نے زید بن ثابت کو یہود کی زبان سیکھنے کا حکم دیا ، یہ خطرہ آج بھی باقی ہے ، اور ساتھ ہی دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبانیں بھی سیکھی جائیں ، اس لیے امت مسلمہ کو چاہیئے کہ دنیا کی ہر زبان سیکھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (4659) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2715
مشرکین سے خط وکتابت کرنے کے متعلق
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے کسریٰ و قیصر، نجاشی اور سارے سرکش و متکبر بادشاہوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھ کر بھیجے۔ اس نجاشی سے وہ نجاشی (بادشاہ حبش اصحمہ) مراد نہیں ہے کہ جن کے انتقال پر نبی اکرم ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٢٧ (١٧٧٤) (تحفة الأشراف : ١١٧٩) ، و مسند احمد (٣/٣٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2716
مشرکین کو کس طرح خط تحریر کیا جائے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ابوسفیان بن حرب (رض) نے ان سے بیان کیا کہ وہ قریش کے کچھ تاجروں کے ساتھ شام میں تھے کہ ہرقل (شہنشاہ شام) نے انہیں بلا بھیجا، تو وہ سب اس کے پاس آئے، پھر سفیان نے آگے بات بڑھائی۔ کہا : پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا۔ پھر خط پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا «بسم اللہ الرحمن الرحيم من محمد عبدالله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم السلام علی من اتبع الهدى أمابعد» میں شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمان (بڑا مہربان) اور رحیم (نہایت رحم کرنے والا) ہے۔ یہ خط محمد کی جانب سے ہے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور ہرقل کے پاس بھیجا جا رہا ہے جو روم کے شہنشاہ ہیں۔ سلامتی ہے اس شخص کے لیے جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد : حمد و نعت کے بعد … الخ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوسفیان کا نام صخر بن حرب (رض) تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحی ١ (٧) ، والجھاد ١٠٢ (٢٩٤١) ، وتفسیر آل عمران ٤ (٤٥٥٣) ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٧ (١٧٧٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٢٨ (٥١٣٦) (تحفة الأشراف : ٤٨٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2717
خط پر مہر لگانے کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جب عجمی (بادشاہوں) کو خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ عجمی بغیر مہر لگا ہوا خط قبول نہیں کرتے چناچہ آپ نے (مہر کے لیے) ایک انگوٹھی بنوائی، تو ان میں آپ کی ہتھیلی میں اس کی چمک کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٧ (٦٥) ، والجھاد ١٠١ (٢٩٣٨) ، واللباس ٥٠ (٥٨٧٢) ، ٥٢ (٥٨٧٥) ، والأحکام ١٥ (٧١٦٢) ، صحیح مسلم/اللباس ١٣ (٢٠٩٢/٥٦) ، سنن ابی داود/ الخاتم ١ (٤٢١٤) ، سنن النسائی/الزینة ٤٧ (٥٢٠٤) (تحفة الأشراف : ١٣٦٨) ، و مسند احمد (٣/١٦٨-١٦٩، ١٧٠، ١٨١، ٢٢٣، ٢٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (74) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2718
سلام کی کیفیت کے بارے میں
مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرے دو دوست (مدینہ) آئے، فقر و فاقہ اور جہد و مشقت کی بنا پر ہماری سماعت متاثر ہوگئی تھی ١ ؎ اور ہماری آنکھیں دھنس گئی تھیں، ہم نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے لگے لیکن ہمیں کسی نے قبول نہ کیا ٢ ؎، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے تو آپ ہمیں اپنے گھر لے آئے، اس وقت آپ کے پاس تین بکریاں تھیں۔ آپ نے فرمایا : ان کا دودھ ہم سب کے لیے دوہو ، تو ہم دوہتے اور ہر شخص اپنا حصہ پیتا اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے، پھر رسول اللہ ﷺ رات میں تشریف لاتے اور اس انداز سے سلام کرتے تھے کہ سونے والا جاگ نہ اٹھے اور جاگنے والا سن بھی لے ٣ ؎، پھر آپ مسجد آتے نماز تہجد پڑھتے پھر جا کر اپنے حصے کا دودھ پیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٣٢ (٢٠٥٥) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٢٣ (٣٢٣) (تحفة الأشراف : ١١٥٤٦) ، و مسند احمد (٦/٣٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہم اونچا سننے لگے تھے۔ ٢ ؎ : وہ سوچتے یہ تو خود ہی مر رہے ہیں یہ کیا کام کریں گے۔ اور وہ ہمیں کام نہ دیتے۔ ٣ ؎ : نہ آواز بھاری ، بلند اور کرخت ہوتی کہ سونے والا چونک کر اٹھ بیٹھے اور نہ ہی اتنی باریک ، ہلکی اور پست کہ جاگنے والا بھی نہ سن سکے۔ بلکہ آواز درمیانی ہوتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح آداب الزفاف ص (82 - 83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2719
اس بارے میں کہ پیشاب کرنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو اس وقت سلام کیا جب آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٩٠ (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وهو مکرر الحديث (90) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2720 عبداللہ بن عمر (رض) نے اس سند سے اسی طرح روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علقمہ بن فغواء، جابر، براء اور مہاجر بن قنفد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وهو مکرر الحديث (90) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2720
اس بارے میں کہ ابتداء میں علیک السلام کہنا مکروہ ہے
جابر بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ سے ملنا چاہتا تھا، مگر آپ تک پہنچ نہ سکا، میں بیٹھا رہا پھر کچھ لوگ سامنے آئے جن میں آپ ﷺ بھی تھے۔ میں آپ سے واقف نہ تھا، آپ ان لوگوں میں صلح صفائی کرا رہے تھے، جب آپ (اس کام سے) فارغ ہوئے تو آپ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے، ان لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! جب میں نے (لوگوں کو) ایسا کہتے دیکھا تو میں نے کہا : «علیک السلام یا رسول اللہ»! (آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول) اور ایسا میں نے تین بار کہا، آپ نے فرمایا : «علیک السلام» میت کا سلام ہے ١ ؎، آپ نے بھی ایسا تین بار کہا، پھر آپ میری طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اور فرمایا : جب آدمی اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ کہے «السلام علیکم ورحمة اللہ» پھر آپ نے میرے سلام کا جواب اس طرح لوٹایا، فرمایا : «وعلیک ورحمة اللہ وعلیک ورحمة اللہ وعلیک ورحمة اللہ» (تین بار) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوغفار نے یہ حدیث بسند «ابو تمیمہ الہجیمی عن ابی جری جابر بن سلیم الہجیمی» سے روایت کی ہے، ہجیمی کہتے ہیں : میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا پھر آگے پوری حدیث بیان کردی۔ ابو تمیمہ کا نام طریف بن مجالد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٥١ (٥٢٠٩) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ١٢٣ (٣١٧-٣٢٠) (تحفة الأشراف : ٢١٢٣ و ١٥٥٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں «علیک السلام» کہنے کی جو ممانعت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سلام کا یہی رواج تھا ، ورنہ اسلام میں تو زندوں اور مردوں دونوں کے لیے «السلام علیکم» ہی سلام ہے ، چناچہ مردوں کے لیے سلام کے تعلق سے حدیث کے یہ الفاظ ہیں : «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1403) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2721
اس بارے میں کہ ابتداء میں علیک السلام کہنا مکروہ ہے
جابر بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، پھر آپ سے عرض کیا : «علیک السلام» آپ پر سلامتی ہو تو آپ نے فرمایا :«علیک السلام» مت کہو بلکہ «السلام علیک» کہو اور آگے پورا لمبا قصہ بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2721) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2722
اس بارے میں کہ ابتداء میں علیک السلام کہنا مکروہ ہے
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی بات کہتے تو اسے تین بار دھراتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ فائدہ ١ ؎: تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٠ (٩٤، ٩٥) ، والاستئذان ١٣ (٦٢٤٤) (تحفة الأشراف : ٥٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح مختصر الشمائل (192) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2723
ابو واقد حارث بن عوف لیثی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ کے ساتھ لوگ بھی بیٹھے تھے، اسی دوران اچانک تین آدمی آئے، ان میں سے دو رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھ آئے، اور ایک واپس چلا گیا، جب وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر رکے تو انہوں نے سلام کیا، پھر ان دونوں میں سے ایک نے مجلس میں کچھ جگہ (گنجائش) دیکھی تو وہ اسی میں (گھس کر) بیٹھ گیا۔ اور دوسرا شخص ان لوگوں کے (یعنی صحابہ) کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا۔ اور تیسرا تو پیٹھ موڑے چلا ہی گیا تھا، پھر جب فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا : کیا میں تمہیں تینوں اشخاص کے متعلق نہ بتاؤں ؟ (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے نے شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور رہا تیسرا شخص تو اس نے اعراض کیا، چناچہ اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا، منہ پھیرلیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابو مرہ ام ہانی بنت ابی طالب (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام یزید ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عقیل ابن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٨ (٦٦) ، والصلاة ٨٤ (٤٧٤) ، صحیح مسلم/السلام ١٠ (٢١٧٦) (تحفة الأشراف : ١٥٥١٤) ، وط/السلام ٣ (٤) ، و مسند احمد (٥/٢١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2724
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم ﷺ کے پاس آتے تو جس کو جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - یہ حدیث زہیر بن معاویہ نے سماک سے بھی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٦ (٤٨٢٥) (تحفة الأشراف : ٢١٧٣) ، و مسند احمد (٥/٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مجلس کو کشادہ رکھنا چاہیئے تاکہ ہر آنے والے کو مجلس میں بیٹھنے کیا جگہ مل جائے اور اس میں تنگی محسوس نہ کرے ، مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیئے ، دوسرے کو اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھنا ممنوع ہے ، اس میں رتبے و درجے کا کوئی اعتبار نہیں ، یہ اور بات ہے کہ بیٹھا ہوا شخص اپنے سے بڑے کے لیے جگہ خالی کر دے پھر تو اس جگہ بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (330) ، تخريج علم أبي خيثمة (100) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2725
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ (سند میں اس بات کی صراحت ہے کہ ابواسحاق نے براء سے سنا نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے، بالخصوص شعبہ کی روایت ہونے کی وجہ سے قوی ہے) انصار کے کچھ لوگ راستے میں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا : (یوں تو راستے میں بیٹھنا اچھا نہیں ہے) لیکن اگر تم بیٹھنا ضروری سمجھتے ہو تو سلام کا جواب دیا کرو، مظلوم کی مدد کیا کرو، اور (بھولے بھٹکے ہوئے کو) راستہ بتادیا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور ابوشریح خزاعی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٨٤) ، وانظر مسند احمد (٤/٢٨١، ٢٨٣، ٢٩١، ٢٩٣، ٣٠١) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٢٦ (٢٦٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح المتن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2726
مصافحے کے متعلق
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور (سلام) و مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث براء سے متعدد سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٥٣ (٥٢١٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٦ (٣٧٠٣) (تحفة الأشراف : ١٧٩٩) ، و مسند احمد (٤/٢٨٩، ٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنا اور مصافحہ کرنا اگر ایک طرف دونوں میں محبت کا باعث ہے تو دوسری جانب گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہے ، اس مغفرت کا تعلق صرف صغیرہ گناہوں سے ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں سے ، کبیرہ گناہ تو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3703) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2727
مصافحے کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، اس نے پوچھا : کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، اس نے کہا : پھر تو وہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے، آپ نے فرمایا : ہاں (بس اتنا ہی کافی ہے) ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ١٥ (٣٧٠٢) (تحفة الأشراف : ٨٢٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ( ١ ) ملاقات کے وقت کسی کے سامنے جھکنا منع ہے ، اس لیے جھک کر کسی کا پاؤں چھونا ناجائز ہے ، ( ٢ ) اس حدیث میں معانقہ اور بوسے سے جو منع کیا گیا ہے ، یہ ہر مرتبہ ملاقات کے وقت کرنے سے ہے ، البتہ نئی سفر سے آ کر ملے تو معانقہ و بوسہ درست ہے ، ( ٣ ) «أفيأخذ بيده ويصافحه» سے یہ واضح ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے ہوگا ، کیونکہ حدیث میں دونوں ہاتھ کے پکڑنے کے متعلق نہیں پوچھا گیا ، بلکہ یہ پوچھا گیا ہے کہ اس کے ہاتھ کو پکڑے اور مصافحہ کرے معلوم ہوا کہ مصافحہ کا مسنون طریقہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (3702) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2728
مصافحے کے متعلق
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٢٧ (٦٢٦٣) (تحفة الأشراف : ١٤٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2729
مصافحے کے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مکمل سلام («السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ» کہنے کے ساتھ ساتھ) ہاتھ کو ہاتھ میں لینا یعنی (مصافحہ کرنا) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن سلیم کی روایت سے جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں جانتے ہیں، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا کہ میرے نزدیک یحییٰ بن سلیم نے سفیان کی وہ روایت مراد لی ہے جسے انہوں نے منصور سے روایت کی ہے، اور منصور نے خیثمہ سے اور خیثمہ نے اس سے جس نے ابن مسعود (رض) سے سنا ہے اور ابن مسعود نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا : (بعد نماز عشاء) بات چیت اور قصہ گوئی نہیں کرنی چاہیئے، سوائے اس شخص کے جس کو (ابھی کچھ دیر بعد اٹھ کر تہجد کی) نماز پڑھنی ہے یا سفر کرنا ہے، محمد کہتے ہیں : اور منصور سے مروی ہے انہوں نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے عبدالرحمٰن بن یزید سے یا ان کے سوا کسی اور سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں : سلام کی تکمیل سے مراد ہاتھ پکڑنا (مصافحہ کرنا) ہے، ٣ - اس باب میں براء اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٦٤١) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2691) // و (1288) ، ضعيف الجامع الصغير (5294) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2730
مصافحے کے متعلق
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ تم میں سے عیادت کرنے والا اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے ، یا آپ نے یہ فرمایا : (راوی کو شبہ ہوگیا ہے) اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے، پھر اس سے پوچھے کہ وہ کیسا ہے ؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : عبیداللہ بن زحر ثقہ ہیں اور علی بن یزید ضعیف ہیں، ٣ - قاسم بن عبدالرحمٰن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے اور یہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ثقہ ہیں اور قاسم شامی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩١٠) (ضعیف) وانظر مسند احمد (٥/٢٦٠) (یہ سند مشہور ضعیف سندوں میں سے ہے، عبید اللہ بن زحر “ اور ” علی بن زید بن جدعان “ دونوں سخت ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1288) // ضعيف الجامع الصغير (5297) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2731
گلے ملنے اور بوسہ دینے کے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ زید بن حارثہ مدینہ آئے (اس وقت) رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے، وہ آپ کے پاس آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، تو آپ ان کی طرف ننگے بدن اپنے کپڑے سمیٹتے ہوئے لپکے اور قسم اللہ کی میں نے آپ کو ننگے بدن نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد دیکھا ١ ؎، آپ نے (بڑھ کر) انہیں گلے لگا لیا اور ان کا بوسہ لیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف زہری کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٦١١) (ضعیف) (سند میں ” ابراہیم بن یحییٰ بن محمد “ اور ان کے باپ ” یحییٰ بن محمد بن عباد “ دونوں ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کسی کے استقبال میں آپ ﷺ کو اس حالت و کیفیت میں نہیں دیکھا جو حالت و کیفیت زید بن حارثہ سے ملاقات کے وقت تھی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھے سے گرگئی تھی اور آپ نے اسی حالت میں ان سے معانقہ کیا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (4682) ، مقدمة رياض الصالحين و / (5) ، نقد الکتاني ص (16) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2732
ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لینے کے متعلق
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا : چلو اس نبی کے پاس لے چلتے ہیں۔ اس کے ساتھی نے کہا نبی نہ کہو۔ ورنہ اگر انہوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی، پھر وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے (موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئیں) نو کھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے ان سے کہا ( ١ ) کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ ( ٢ ) چوری نہ کرو ( ٣ ) زنا نہ کرو ( ٤ ) ناحق کسی کو قتل نہ کرو ( ٥ ) کسی بےگناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے ( ٦ ) جادو نہ کرو ( ٧ ) سود مت کھاؤ ( ٨ ) پارسا عورت پر زنا کی تہمت مت لگاؤ ( ٩ ) اور دشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اور خاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ «سبت» (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو، (آپ کا جواب سن کر) انہوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا : پھر تمہیں میری پیروی کرنے سے کیا چیز روکتی ہے ؟ انہوں نے کہا : داود (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے۔ اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع (پیروی) کی تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں یزید بن اسود، ابن عمر اور کعب بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ١٦ (٣٧٠٥) ، وأعادہ المؤلف في التفسیر (٣١٤٤) والنسائی فی الکبری فی السیر (٨٦٥٦) وفی المحاربة (٣٥٤١) (تحفة الأشراف : ٤٩٥١) وأحمد (٤/٢٣٩) (ضعیف) (سند میں ” عبد اللہ بن سلمہ “ مختلط ہوگئے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3705) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (808) ، والذي هنا أتم وانظر الآتي برقم (613 / 3365) ، ضعيف سنن النسائي (275 / 4078) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2733
مرحبا کہنے کے بارے میں
ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ فتح مکہ والے سال میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی۔ آپ اس وقت غسل فرما رہے تھے، اور فاطمہ (رض) ایک کپڑے سے آپ کو آڑ کیے ہوئے تھیں۔ میں نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا : کون ہیں یہ ؟ میں نے کہا : میں ام ہانی ہوں، آپ نے فرمایا : ام ہانی کا آنا مبارک ہو ۔ راوی کہتے ہیں پھر ابو مرہ نے حدیث کا پورا واقعہ بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢١ (٢٨٠) ، والصلاة ٤ (٣٥٧) ، والجزیة ٩ (٣١٧١) ، والأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، صحیح مسلم/الحیض ١٦ (٣٣٦) ، والمسافرین ١٣ (٣٣٦/٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٩ (٤٦٥) (ببعضة) (تحفة الأشراف : ١٨٠٨) ، وط/قصر الصلاة ٨ (٢٨) ، و مسند احمد (٦/٣٤٣، ٤٢٣) ، وسنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2734
مرحبا کہنے کے بارے میں
عکرمہ بن ابی جہل (رض) کہتے ہیں کہ جب میں (مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے) آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہاجر سوار کا آنا مبارک ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے۔ ہم اسے صرف موسیٰ بن مسعود کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں۔ موسیٰ بن مسعود حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ٢ - عبدالرحمٰن بن مہدی نے بھی یہ حدیث سفیان سے اور سفیان نے ابواسحاق سے مرسلاً روایت کی ہے۔ اور اس سند میں مصعب بن سعد کا ذکر نہیں کیا ہے اور یہی صحیح تر ہے، ٣ - میں نے محمد بن بشار کو کہتے ہوئے سنا : موسیٰ بن مسعود حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ٤ - محمد بن بشار کہتے ہیں : میں نے موسیٰ بن مسعود سے بہت سی حدیثیں لیں، پھر میں نے ان سے حدیثیں لینی چھوڑ دی، ٥ - اس باب میں بریدہ، ابن عباس اور ابوجحیفہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٠١٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں ” موسیٰ بن مسعود “ حافظہ کے کمزور تھے، اس لیے تصحیف (پھیر بدل) کے شکار ہوجایا کرتے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2735
چھینک کا جواب دینے کے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں، ( ١ ) جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، ( ٢ ) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، ( ٣ ) جب اسے چھینک آئے (اور وہ «الحمد لله» کہے) تو «يرحمک الله» کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے، ( ٤ ) جب وہ بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کرے، ( ٥ ) جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ (قبرستان) جائے، ( ٦ ) اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - یہ حدیث متعدد سندوں سے نبی کریم ﷺ سے آئی ہے، ٣ - بعض محدثین نے حارث اعور سے متعلق کلام کیا ہے، ٤ - اور اس باب میں ابوہریرہ، ابوایوب، براء اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ١ (١٤٣٣) (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٤) ، و مسند احمد (١/٨٩) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٥ (٢٦٧٥) (صحیح) (حارث بن عبداللہ أعور ضعیف راوی ہے، اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں، مؤلف نے حارث بن عبداللہ أعور کی تضعیف کا ذکر کیا ہے، اور شواہد کا بھی ذکر ہے، اور اسی لیے حدیث کی تحسین کی ہے، اور صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة ١٨٣٢، اور دیکھئے اگلی حدیث ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حقوق ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے باہمی اخوت و محبت کی رسی مضبوط ہوتی ہے ، حدیث میں بیان کردہ حقوق بظاہر بڑے نہیں ہیں لیکن انجام اور نتیجے کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1433) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (301) ، المشکاة (4643) ، الصحيحة (73) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2736
جب چھینک آئے تو کیا کہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کے مومن پر چھ حقوق ہیں، ( ١ ) جب بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کرے، ( ٢ ) جب مرے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، ( ٣ ) جب دعوت کرے تو قبول کرے، ( ٤ ) جب ملے تو اس سے سلام کرے، ( ٥ ) جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب دے، ( ٦ ) اس کے سامنے موجود رہے یا نہ رہے اس کا خیرخواہ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - محمد بن موسیٰ مخزومی مدنی ثقہ ہیں ان سے عبدالعزیز ابن محمد اور ابن ابی فدیک نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣ (٢١٦٣) (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٦) ، و مسند احمد (٢/٣٢١، ٣٧٢، ٤١٢، ٥٤٠) (صحیح) (و ورد عند صحیح البخاری/ (الجنائز ٢/ح ١٢٤٠) ، وم (السلام ٣/ح ٢١٦٢) بلفظ ” خمس “ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (832) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2737
جب چھینک آئے تو کیا کہے
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر۔ ابن عمر (رض) نے کہا : کہنے کو تو میں بھی «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» کہہ سکتا ہوں ١ ؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم «الحمد لله علی كل حال» ہر حال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، کہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف زیاد بن ربیع کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٦٤٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دوسرے مقامات پر ایسا کہا کرتا ہوں لیکن اس کا یوں کہنے کا یہ مقام نہیں ہے ، بلکہ اس جگہ اللہ کے رسول نے ہمیں «الحمد لله علی كل حال» کہنے کا حکم دیا ہے۔ ٢ ؎ : صحیح بخاری (کتاب الادب باب ١٢٦ ) میں ابوہریرہ (رض) کی روایت میں صرف «الحمد لله» کا ذکر ہے ، حافظ ابن حجر نے متعدد طرق سے یہ ثابت کیا ہے کہ حمد و ثنا کے جو بھی الفاظ اس بابت ثابت ہیں کہے جاسکتے ہیں جیسے «الحمد لله رب العالمين» کا اضافہ بھی ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (4744) ، الإرواء (3 / 245) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2738
اس بارے میں کہ چھینکنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم ﷺ کے پاس ہوتے تو یہ امید لگا کر چھینکتے کہ آپ ﷺ ان کے لیے «يرحمکم الله» اللہ تم پر رحم کرے کہیں گے۔ مگر آپ (اس موقع پر صرف) «يهديكم اللہ ويصلح بالکم» اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کر دے فرماتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں علی، ابوایوب، سالم بن عبید، عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٠١ (٥٠٣٨) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٧ (٢٣٢/م) (تحفة الأشراف : ٩٠٨٢) ، و مسند احمد (٤/٤٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی چھینک کے جواب میں صرف «يهديكم اللہ ويصلح بالکم» کہا جائے۔ اور «یرحکم اللہ» (اللہ تم پر رحم کرے) نہ کہا جائے کیونکہ اللہ کی رحمت اخروی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4740 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2739
اس بارے میں کہ چھینکنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے
سالم بن عبید (رض) سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا : «السلام عليكم» (اس کے جواب میں) سالم (رض) نے کہا : «عليك وعلی وأمك» (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر) ، یہ بات اس شخص کو ناگوار معلوم ہوئی تو سالم نے کہا : بھئی میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی اکرم ﷺ نے کہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم» تو نبی اکرم ﷺ نے کہا : «عليك وعلی أمك» ، (تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو) ۔ (آپ نے آگے فرمایا) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے «الحمدللہ رب العالمین» کہنا چاہیئے۔ اور جواب دینے والا «یرحمک اللہ» اور (چھینکنے والا) «يغفر اللہ لي ولكم» کہے، (نہ کہ «السلام عليك» کہے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ ایک ایسی حدیث ہے جس میں منصور سے روایت کرنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لوگوں نے ہلال بن یساف اور سالم کے درمیان ایک اور راوی کو داخل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٩ (٥٠٣١) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٦ (٢٢٥) (تحفة الأشراف : ٣٧٨٦) ، و مسند احمد (٦/٧، ٨) (ضعیف) (ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان سند میں دو راویوں کا سقط ہے، عمل الیوم واللیلة کی روایت رقم : ٣٢٨-٢٣٠ سے یہ سقط ظاہر ہے، اگلی روایت صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (3 / 246 - 247) // 780 //، المشکاة (4741 / التحقيق الثاني) //، ضعيف أبي داود (1067 / 5031) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2740
اس بارے میں کہ چھینکنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے
ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کسی کو چھینک آئے تو «الحمد لله علی كل حال» (تمام تعریفیں ہر حال میں اللہ کے لیے ہیں) کہے۔ اور جو اس کا جواب دے وہ «يرحمک الله» کہے، اور اس کے جواب میں چھینکنے والا کہے «يهديكم اللہ ويصلح بالکم» (اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست فرما دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٢ (٢١٣) (تحفة الأشراف : ٣٤٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3715) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2741
اس بارے میں کہ اگر چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو اسے جواب دینا واجب ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی، آپ نے ایک کی چھینک پر «يرحمک الله» کہہ کر دعا دی اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی چھینک پر «یرحمک اللہ» کہہ کر دعا دی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے یہ دعا نہیں دی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (چھینک آئی تو) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور (تجھے چھینک آئی تو) تم نے اس کی حمد نہ کی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٢٣ (٦٢٢١) ، صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩١) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٢ (٥٠٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٠ (١٧١٣) (تحفة الأشراف : ٨٧٢) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٣١ (٢٧٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے پر جو سنت کے مطابق «الحمدللہ» کہے وہی دعائے خیر کا مستحق ہے «الحمداللہ» نہ کہنے کی صورت میں جواب دینے کی ضرورت نہیں ، یہ اور بات ہے کہ مسئلہ نہ معلوم ہونے کی صورت میں چھینکنے والے کو سمجھا دینا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2742
اس بارے میں کہ کتنی بار چھینک کا جواب دیا جائے
سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : «يرحمک الله» (اللہ تم پر رحم فرمائے) پھر اسے دوبارہ چھینک آئی تو آپ نے فرمایا : اسے تو زکام ہوگیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٠٠ (٥٠٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٠ (١٧١٤) (تحفة الأشراف : ٤٥١٣) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٣٢ (٢٧٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک یا دو سے زیادہ بار چھینک آنے پر جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3714) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2743
اس بارے میں کہ کتنی بار چھینک کا جواب دیا جائے
عبید بن رفاعہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھینکنے والے کی چھینک کا جواب تین بار دیا جائے گا، اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیار ہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند مجہول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٠٠ (٥٠٣٦) (تحفة الأشراف : ٩٧٤٦) (ضعیف) (سند میں ” یزید بن عبد الرحمن ابو خالدالدالانی “ بہت غلطیاں کر جاتے تھے، اور ” عمر بن اسحاق بن ابی طلحہ “ اور ان کی ماں ” حمیدہ یا عبیدہ “ دونوں مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (4830) // ضعيف الجامع الصغير (3407) ، ضعيف أبي داود (1068 / 5036) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2744
چھینک کے وقت آواز پست رکھنے اور چہرہ ڈھانکنے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٨ (٥٠٢٩) (تحفة الأشراف : ١٢٥٨١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھینک آتے وقت دوسروں کا خیال رکھا جائے ، ایسا نہ ہو کہ ناک سے نکلے ہوئے ذرات دوسروں پر پڑیں ، اس لیے ہاتھ یا کپڑے منہ پر رکھ لینا چاہیئے ، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے تہذیب و شائستگی کے ساتھ ساتھ نظافت پر بھی زور دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الروض النضير (1109) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2745
اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند اور جمائی کو ناپسند کرتے ہیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھینکنا اللہ کی جانب سے ہے اور جمائی شیطان کی جانب سے ہے۔ جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیئے کہ جمائی آتے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے، اور جب جمائی لینے والا آہ، آہ کرتا ہے تو شیطان جمائی لینے والے کے پیٹ میں گھس کر ہنستا ہے۔ اور بیشک اللہ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی لینے کو ناپسند کرتا ہے۔ تو (جان لو) کہ آدمی جب جمائی کے وقت آہ آہ کی آواز نکالتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیٹ کے اندر گھس کر ہنستا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٨٢ (٢١٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٢ (٩٦٩) ، وانظر مایاتي بعدہ (تحفة الأشراف : ١٣٠١٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، التعليق علی ابن خزيمة (921 - 922) ، الإرواء (779) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2746
اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند اور جمائی کو ناپسند کرتے ہیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد للہ» کہے تو ہر مسلمان کے لیے جو اسے سنے «یرحمک اللہ» کہنا ضروری ہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - اور یہ ابن عجلان کی (اوپر مذکور) روایت سے زیادہ صحیح ہے، ٣ - ابن ابی ذئب : سعید مقبری کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے (احفظ) اور محمد بن عجلان سے زیادہ قوی (اثبت) ہیں، ٤ - میں نے ابوبکر عطار بصریٰ سے سنا ہے وہ روایت کرتے ہیں : علی بن مدینی کے واسطہ سے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں : محمد بن عجلان کہتے ہیں : سعید مقبری کی احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ سعید نے بعض حدیثیں (بلاواسطہ) ابوہریرہ سے روایت کی ہیں۔ اور بعض حدیثیں بواسطہ ایک شخص کے ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہیں۔ تو وہ سب میرے ذہن میں گڈمڈ ہوگئیں۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ بلاواسطہ کون تھیں اور بواسطہ کون ؟ تو میں نے سبھی روایتوں کو سعید کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کردی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٨٩) ، والأدب ١٢٥ (٦٢٢٣) ، و ٢٦ (٦٢٦٢) ، صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩٥) ، سنن ابی داود/ الأدب ٩٧ (٥٠٢٨) (تحفة الأشراف : ١٤٣٢٢) ، و مسند احمد (٢/٢٦٥، ٤٢٨، ٥١٧) وانظر ما تقدم برقم ٣٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (776) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2747
اس بارے میں کہ نماز میں چھینک آنا شیطان کی طرف سے ہے
ثابت کے باپ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز میں چھینک، اونگھ، جمائی، حیض، قے اور نکسیر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف شریک کی روایت جانتے ہیں جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں، ٣ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس روایت «عن عدی بن ثابت عن ابیہ عن جدہ» کے تعلق سے پوچھا کہ عدی کے دادا کا کیا نام ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا، لیکن یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کا نام دینار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٤٢ (٩٦٩) (تحفة الأشراف : ٣٥٤٣) (ضعیف) (سند میں ” ثابت انصاری “ مجہول، اور ” ابوالیقظان “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (999) // ضعيف الجامع الصغير (3865) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2748
اس بارے میں کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھ جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١١ (٢١٧٧) (تحفة الأشراف : ٧٥٤١) ، وانظر مایأتي (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2749
اس بارے میں کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس جگہ نہ بیٹھ جائے ۔ راوی سالم کہتے ہیں : ابن عمر (رض) کے احترام میں آدمی ان کے آنے پر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوجاتا تھا لیکن وہ (اس ممانعت کی وجہ سے) اس کی جگہ نہیں بیٹھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ اور پھر واپس آئے تو وہ اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٦٩٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2750
اس بارے میں کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنا مکروہ ہے
وہب بن حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ کا زیادہ مستحق ہے، اگر وہ کسی ضرورت سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آئے تو وہی اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوبکرہ، ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٧٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2 / 258) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2751
اس بارے میں دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تفریق پیدا کرے مگر ان کی اجازت سے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث کو عامر احول نے عمرو بن شعیب سے بھی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٢٤ (٤٨٤٤، ٤٨٤٥) (تحفة الأشراف : ٨٦٥٦) ، و مسند احمد (٢/٢١٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے درمیان بغیر اجازت کسی کا بیٹھنا صحیح نہیں ، اگر وہ دونوں اجازت دے دیں تو پھر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (7403 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2752
اس بارے میں دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھنا مکروہ ہے
ابومجلز سے روایت ہے کہ ایک آدمی حلقہ کے بیچ میں بیٹھ گیا، تو حذیفہ نے کہا : محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ شخص ملعون ہے جو بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلقہ (دائرہ) کے بیچ میں جا کر بیٹھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابومجلز کا نام لاحق بن حمید ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٧ (٤٨٢٦) (تحفة الأشراف : ٣٣٨٩) ، و مسند احمد (٥/٣٨٣، ٤٠١) (ضعیف) (ابو مجلز اور حذیفہ (رض) کے درمیان سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد وہ آدمی ہے جو مجلس کے کنارے نہ بیٹھ کر لوگوں کی گردنوں کو پھاندتا ہوا بیچ حلقہ میں جا کر بیٹھے ، اور لوگوں کے درمیان حائل ہوجائے ، البتہ ایسا آدمی جس کا انتظار اسی بنا پر ہو کہ وہ مجلس کے درمیان آ کر بیٹھے تو وہ اس لعنت میں داخل نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (638) ، المشکاة (4722) // ضعيف الجامع الصغير (4694) ، ضعيف أبي داود (1028 / 4826) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2753
کسی کی تعظیم میں کھڑے ہونے کی کراہت کے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ کوئی شخص انہیں یعنی (صحابہ) کو رسول اللہ سے زیادہ محبوب نہ تھا کہتے ہیں : (لیکن) وہ لوگ آپ کو دیکھ کر (ادباً ) کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ ﷺ اسے ناپسند کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (289) ، الضعيفة تحت الحديث (346) ، المشکاة (4698) ، نقد الکتاني ص (51) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2754
کسی کی تعظیم میں کھڑے ہونے کی کراہت کے متعلق
ابومجلز کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) باہر نکلے، عبداللہ بن زبیر اور ابن صفوان انہیں دیکھ کر (احتراماً ) کھڑے ہوگئے۔ تو معاویہ (رض) نے کہا تم دونوں بیٹھ جاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔ ہم سے بیان کیا ہناد نے وہ کہتے ہیں : ہم سے بیان کیا ابواسامہ نے اور ابواسامہ نے حبیب بن شہید سے حبیب بن شہید نے ابومجلز سے ابومجلز نے معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٦٥ (٥٢٢٩) (تحفة الأشراف : ١١٤٤٨) ، و مسند احمد (٤/١٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ادب و تعظیم کی خاطر کسی کے لیے کھڑا ہونا مکروہ ہے ، البتہ کسی معذور شخص کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے ، نیز اگر کسی آنے والے کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کو لے کر مجلس میں آئے اور بیٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ فاطمہ (رض) رسول اللہ کے لیے کرتی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4699) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2755
ناخن تراشنے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ١ ؎، ( ١ ) شرمگاہ کے بال مونڈنا، ( ٢ ) ختنہ کرنا، ( ٣ ) مونچھیں کترنا، ( ٤ ) بغل کے بال اکھیڑنا، ( ٥ ) ناخن تراشنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٣ (٥٨٨٩) ، و ٦٤ (٥٨٩١) ، والاستئذان ٥١ (٦٦٩٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٥٧) ، سنن ابی داود/ الترجل ١٦ (٤١٩٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٩ (٩) ، و ١٠ (١٠) ، والزینة ٥٣ (٥٠٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨ (٢٩٢) (تحفة الأشراف : ١٣٢٨٦) ، وط/صفة النبی اکرم ﷺ ٣ (٤) (موقوفا) و مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٤٠، ٢٨٤، ٤١١، ٤٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انبیاء کی وہ سنتیں ہیں جن کی اقتداء کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ یہ ساری شریعتوں میں تھیں ، کیونکہ یہ فطرت انسانی کے اندر داخل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (292) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2756
ناخن تراشنے کے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دس ١ ؎ چیزیں فطرت سے ہیں ( ١ ) مونچھیں کترنا ( ٢ ) ڈاڑھی بڑھانا ( ٣ ) مسواک کرنا ( ٤ ) ناک میں پانی ڈالنا ( ٥ ) ناخن کاٹنا ( ٦ ) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت دھونا ( ٦ ) بغل کے بال اکھیڑنا ( ٨ ) ناف سے نیچے کے بال مونڈنا ( ٩ ) پانی سے استنجاء کرنا، زکریا (راوی) کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا : دسویں چیز میں بھول گیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کلی کرنا ہو ، «انتقاص الماء» سے مراد پانی سے استنجاء کرنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں عمار بن یاسر، ابن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٦١) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٢٩ (٥٣) ، سنن النسائی/الزینة ١ (٥٠٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨ (٢٩٣) (تحفة الأشراف : ٨٨ ا ١٦) ، و مسند احمد (٦/١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پچھلی حدیث میں پانچ کا ذکر ہے ، اور اس میں دس کا ، دونوں میں کوئی تضاد نہیں ، پانچ دس میں داخل ہیں ، یا پہلے آپ کو پانچ کے بارے میں بتایا گیا ، بعد میں دس کے بارے میں بتایا گیا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (293) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2757
ناخن تراشنے اور مونچھیں کتروانے کی مدت سے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کے لیے مدت متعین فرما دی ہے کہ ہر چالیس دن کے اندر ناخن کاٹ لیں۔ مونچھیں کتروا لیں۔ اور ناف سے نیچے کے بال مونڈ لیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٦ (٢٥٨) ، سنن ابی داود/ الترجل ١٦ (٤٢٠٠) ، سنن النسائی/الطھارة ١٤ (١٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨ (٢٩٢) (تحفة الأشراف : ١٠٧٠) ، و مسند احمد (٣/١٢٢، ٢٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (295) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2758
ناخن تراشنے اور مونچھیں کتروانے کی مدت سے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، زیر ناف کے بال لینے، اور بغل کے بال اکھاڑنے کا ہمارے لیے وقت مقرر فرما دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٢ - صدقہ بن موسیٰ (جو پہلی حدیث کی سند میں) محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ چالیس دن سے اوپر نہ ہو ، یہ مطلب نہیں ہے کہ چالیس دن کے اندر جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2758) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2759
مونچھیں کترنے کے بارے میں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ خلیل الرحمن ابراہیم (علیہ السلام) بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦١١٧) (ضعیف الإسناد) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں بہت اضطراب ہوتا ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2760
مونچھیں کترنے کے بارے میں
زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنی مونچھوں کے بال نہ لیے (یعنی انہیں نہیں کاٹا) تو وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطھارة ١٣ (١٣) ، والزینة ٢ (٥٠٥٠) (تحفة الأشراف : ٣٦٦٠) ، و مسند احمد (٤/٣٦٦، ٣٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ ہماری سنت اور ہمارے طریقے کا مخالف ہے ، کیونکہ مونچھیں بڑھانا کفار و مشرکین کا شعار ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (313) ، المشکاة (4438) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2761
داڑھی کی اطراف سے کچھ بال کاٹنے کے متعلق
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی ڈاڑھی لمبائی اور چوڑائی سے لیا کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے : عمر بن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔ میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو، یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں، سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی ڈاڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے۔ میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتا ہوں۔ میں نے انہیں (یعنی بخاری کو عمر بن ہارون) کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایا ہے، ٣ - میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔ اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، ٤ - قتیبہ نے کہا : وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثور بن یزید سے بیان کیا ثور بن یزید سے اور ثور بن یزید روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اہل طائف پر منجنیق نصب کردیا۔ قتیبہ کہتے ہیں میں نے (اپنے استاد) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں ؟ (جن کا آپ نے ابھی روایت میں «عن رجل» کہہ کر ذکر کیا ہے) تو انہوں نے کہا : یہ تمہارے ساتھی عمر بن ہارون ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٦٦٢) (موضوع) (سند میں ” عمر بن ہارون ابو جو ین العبدی “ متروک الحدیث ہے ) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی نے وکیع بن جراح کے واسطہ سے جو حدیث منجنیق روایت کی ہے ، تو اس کا مقصد یہ ہے کہ وکیع بن جراح جیسے ثقہ راوی نے عمر بن ہارون سے روایت کی ہے ، گویا عمر بن ہارون کی توثیق مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : موضوع، الضعيفة (288) // ضعيف الجامع الصغير (4517) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2762
داڑھی بڑھانے کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٤ (٥٨٩٢) ، و ٦٥ (٥٨٩٣) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٦ (٢٥٩) ، سنن النسائی/الطھارة ١٥ (١٥) ، والزینة ٢ (٥٠٤٨) ، و ٥٦ (٥٢٢٨) (تحفة الأشراف : ٧٩٤٥) ، و مسند احمد (٢/٥٢) وانظر مایأتي (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (1035) ، آداب الزفاف (120) ، حجاب المرأة (94) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2763
داڑھی بڑھانے کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مونچھیں کٹوانے اور ڈاڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابن عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام ابوبکر بن نافع ثقہ آدمی ہیں، ٣ - عمر بن نافع یہ بھی ثقہ ہیں، ٤ - عبداللہ بن نافع ابن عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں اور حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخاتم ١٦ (٤١٩٩) (تحفة الأشراف : ٨٥٤٢) ، وط/الشعر ١ (١) وانظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں لفظوں کے ساتھ اس حدیث کو روایت کرنے والے ابن عمر (رض) جن کی سمجھ کی داد خود نبی اکرم ﷺ نے دی ہے ، اور جو اتباع سنت میں اس حد تک بڑھے ہوئے تھے کہ جہاں نبی اکرم ﷺ نے اونٹ بیٹھا کر پیشاب کیا تھا وہاں آپ بلا ضرورت بھی اقتداء میں بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے تو یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ آپ جو ایک مٹھی سے زیادہ اپنی داڑھی کو کاٹ دیا کرتے تھے یہ فرمان رسول ﷺ کی مخالفت ہے ؟ بات یہ نہیں ہے ، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ابن عمر (رض) کا یہ فعل حدیث کے خلاف نہیں ہے ، «توفیر» اور «اعفاء» کا مطلب ایک مٹھی سے زیادہ کاٹنے پر بھی حاصل ہوجاتا ہے ، آپ از حد متبع سنت صحابی ہیں نیز عربی زبان کے جانکار ہیں ، آپ سے زیادہ فرمان رسول کو کون سمجھ سکتا ہے ؟ اور کون اتباع کرسکتا ہے ؟۔ اس لیے جو اہل علم داڑھی کو ایک قبضہ کے بعد کاٹنے کا فتوی دیتے ہیں ان کی بات میں وزن ہے اور یہ ان مسائل میں سے ہے جس میں علماء کا اختلاف قوی اور معتبر ہے ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ص انظر ما قبله (2763) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2764
ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹنا
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو مسجد میں اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر چت لیٹے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٥ (٤٧٥) ، واللباس ١٠٣ (٥٩٦٩) ، والاستئذان ٤٤ (٦٢٨٧) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٢ (٢١٠٠) ، سنن ابی داود/ الادب ٣٦ (٤٨٦٦) ، سنن النسائی/المساجد ٢٨ (٧٢٢) (تحفة الأشراف : ٥٢٩٨) ، وط/السفر ٢٤ (٨٧) ، و مسند احمد (٤/٣٩، ٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2765
اس کی کراہت کے بارے میں
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنی پیٹھ کے بل لیٹے تو اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر نہ رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو کئی راویوں نے سلیمان تیمی سے روایت کیا ہے۔ اور خداش (جن کا ذکر اس حدیث کی سند میں ہے) نہیں جانے جاتے کہ وہ کون ہیں ؟ اور سلیمان تیمی نے ان سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٠ (٢٠٨٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ٣٦ (٤٨٦٥) (تحفة الأشراف : ٢٧٠٢) ، و مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣٢٢، ٣٤٩) وانظر مابعدہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب بےپردگی کا خوف ہو ، اگر ایسا نہیں ہے مثلاً آدمی پائجامہ اور شلوار وغیرہ میں ہے تو ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر چت لیٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جیسا کہ پچھلی حدیث میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں بیان ہوا۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2766
اس کی کراہت کے بارے میں
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں صماء ١ ؎ اور احتباء ٢ ؎ کرنے اور ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر چت لیٹنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١٠٧ (٥٣٤٤) (تحفة الأشراف : ٢٩٠٥) ، و مسند احمد (٣/٢٩٣، ٣٢٢، ٣٣١، ٣٤٤، ٣٤٩) وانظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «اشتمال صمّاء» : یہ ہے کہ کپڑا اس طرح جسم پر لپیٹے کہ دونوں ہاتھ اندر ہوں ، اور حرکت کرنا مشکل ہو۔ ٢ ؎ : «احتباء» : یہ ہے کہ آدمی دونوں سرینوں (چوتڑوں) کے اوپر بیٹھے اور دونوں پنڈلیوں کو کھڑی کر کے پیٹ سے لگالے اور اوپر سے ایک کپڑا ڈال لے ، اس صورت میں شرمگاہ کھلنے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ اور اگر اچانک اٹھنا پڑجائے تو آدمی جلدی سے اٹھ بھی نہیں سکتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1255) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2767
پیٹ کے بل لیٹنے کی کراہت کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنے پیٹ کے بل (اوندھے منہ) لیٹا ہوا دیکھا تو فرمایا : یہ ایسا لیٹنا ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے روایت کی ہے اور ابوسلمہ نے یعیش بن طہفہ کے واسطہ سے ان کے باپ طہفہ سے روایت کی ہے، انہیں طخفہ بھی کہا جاتا ہے، لیکن صحیح طہفہ ہی ہے۔ اور بعض حفاظ کہتے ہیں : طخفہ صحیح ہے۔ اور انہیں طغفہ اور یعیش بھی کہا جاتا ہے۔ اور وہ صحابہ میں سے ہیں، ٢ - اس باب میں طہفہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥٠٤١ و ١٥٠٥٤) وانظر مسند احمد (٢/٣٠٤) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (4718 و 4719) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2768
ستر کی حفاظ کے متعلق
معاویہ بن حیدہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اپنی شرمگاہیں کس قدر کھول سکتے اور کس قدر چھپانا ضروری ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا ہر کسی سے اپنی شرمگاہ کو چھپاؤ، انہوں نے کہا : آدمی کبھی آدمی کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھ سکے ، میں نے کہا : آدمی کبھی تنہا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تو اور زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - بہز کے دادا کا نام معاویہ بن حیدۃ القشیری ہے۔ ٣ - اور جریری نے حکیم بن معاویہ سے روایت کی ہے اور وہ بہز کے والد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطھارة ٩٩ (تعلیقا في الباب) سنن ابی داود/ الحمام ٣ (٤٠١٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٨ (١٩٢٠) ، ویأتي برقم ٢٧٩٤) (تحفة الأشراف : ١١٣٨٠) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1920) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2769
تکیہ لگانے کے بارے میں
جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی بائیں جانب تکیہ پر ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو کئی اور نے بطریق : «إسرائيل عن سماک عن جابر بن سمرة» روایت کی ہے، (اس میں ہے) وہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم ﷺ کو تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا، لیکن انہوں نے «علی یسارہ» اپنی بائیں جانب تکیہ رکھنے کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٤٥ (٤١٤٣) (تحفة الأشراف : ٢١٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (104) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2770
تکیہ لگانے کے بارے میں
جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2770) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2771
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی کے حدود اقتدار و اختیار میں اس کی اجازت کے بغیر امامت نہیں کرائی جاسکتی، اور نہ ہی کسی شخص کے گھر میں اس کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جاسکتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (494) ، صحيح أبي داود (594) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2772
اس بارے میں کہ سواری کا مالک اس پر آگے بیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ چلے جا رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص جس کے ساتھ گدھا تھا آپ کے پاس آیا۔ اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ سوار ہوجائیے، اور خود پیچھے ہٹ گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو اپنی سواری کے سینے پر یعنی آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہو الاّ یہ کہ تم مجھے اس کا حق دے دو ۔ یہ سن کر فوراً اس نے کہا : میں نے اس کا حق آپ کو دے دیا۔ پھر آپ اس پر سوار ہوگئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اس باب میں قیس بن سعد بن عبادۃ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجھاد ٦٥ (٢٥٧٢) (تحفة الأشراف : ١٩٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کس قدر متواضع تھی ، آپ کسی دوسرے کے حق کو لینا پسند نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ وہ خود آپ کو یہ حق دینے پر راضی نہ ہوجاتا ، یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی شخصیت میں ہمیشہ انصاف پسندی اور حق کا اظہار شامل تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3918) ، الإرواء (2 / 257) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2773
انماط (یعنی قالین) کے استعمال کی اجازت
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس «انماط» (غالیچے) ہیں ؟ میں نے کہا : غالیچے ہمارے پاس کہاں سے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے پاس عنقریب «انماط» (غالیچے) ہوں گے ۔ (تو اب وہ زمانہ آگیا ہے) میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ تم اپنے «انماط» (غالیچے) مجھ سے دور رکھو۔ تو وہ کہتی ہے : کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہ کہا تھا کہ تمہارے پاس «انماط» ہوں گے، تو میں اس سے درگزر کرجاتا ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٣١) ، واللباس ٦٢ (٥١٦١) ، صحیح مسلم/اللباس ٧ (٢٠٨٣) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤٥ (٤١٤٥) ، سنن النسائی/النکاح ٨٣ (٣٣٨٨) (تحفة الأشراف : ٣٠٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ نے جو پیشین گوئی کی تھی کہ مسلمان مالدار ہوجائیں گے ، اور عیش و عشرت کی ساری چیزیں انہیں میسر ہوں گی بحمد اللہ آج مسلمان آپ کی اس پیشین گوئی سے پوری طرح مستفید ہو رہے ہیں ، اس حدیث سے غالیچے رکھنے کی اجازت کا پتا چلتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2774
ایک جانور پر تین آدمیوں کے سوار ہونے کے بارے میں
سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے شہباء نامی خچر کو جس پر آپ، اور حسن و حسین سوار تھے۔ آپ ﷺ کے حجرہ کے پاس (صحن میں) لیتا چلا گیا، یہ (حسن) آپ کے آگے اور وہ (حسین) آپ کے پیچھے بیٹھے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس میں ابن عباس اور عبداللہ بن جعفر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٨ (٢٤٢٣) (تحفة الأشراف : ٥١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض احادیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ ایک سواری پر تین آدمیوں کے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ، اور اس حدیث میں یہ ہے کہ آپ حسن اور حسین (رض) کے ساتھ ایک ہی سواری پر بیٹھے ، منع کی صورت اس حالت سے متعلق ہے جب سواری کمزور ہو اور اگر طاقتور ہے تو پھر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2775
اچانک نظر پڑجانے کے بارے میں
جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (کسی اجنبیہ عورت پر) اچانک پڑجانے والی نظر سے متعلق پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا : تم اپنی نگاہ پھیرلیا کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأدب ١٠ (٢١٥٩) ، سنن ابی داود/ النکاح ٤٤ (٢١٤٨) (تحفة الأشراف : ٣٢٣٧) ، و مسند احمد (٤/٣٥٨، ٣٦١) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ١٥ (٢٦٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ کسی مقصد و ارادہ کے بغیر اگر اچانک کسی اجنبی عورت پر نگاہ پڑجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، حرج اور گناہ تو اس میں ہے کہ اس پر باربار نگاہ مقصد و ارادہ کے ساتھ ڈالی جائے ، اور یہ کہ اچانک نگاہ کو بھی فوراً پھیرلیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح حجاب المرأة (35) ، صحيح أبي داود (1864) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2776
اچانک نظر پڑجانے کے بارے میں
بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : علی ! نظر کے بعد نظر نہ اٹھاؤ، کیونکہ تمہارے لیے پہلی نظر (معاف) ہے اور دوسری (معاف) نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٤٤ (٢١٤٩) (تحفة الأشراف : ٢٠٠٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر اچانک پہلی مرتبہ تمہاری نگاہ کسی پر پڑگئی تو یہ معاف ہے ، لیکن تمہارا دوبارہ دیکھنا قابل گرفت ہوگا (اور پہلی والی بھی فوراً ہٹا لینی ہوگی) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن الحجاب (34) ، صحيح أبي داود (1865) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2777
عورتوں کا مردوں سے پردہ کرنا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھیں اور میمونہ (رض) بھی موجود تھیں، اسی دوران کہ ہم دونوں آپ کے پاس بیٹھی تھیں، عبداللہ بن ام مکتوم آئے اور آپ کے پاس پہنچ گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہمیں پردے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم دونوں ان سے پردہ کرو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا وہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں ؟ اور نہ ہمیں پہچان سکتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم دونوں انہیں دیکھتی نہیں ہو ؟ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٣٧ (٤١١٢) (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٢) ، و مسند احمد (٦/٢٩٦) (ضعیف) (سند میں ” نبھان “ مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث عائشہ (رض) کی حدیث ” میں حبشی لوگوں کا کھیل دیکھتی رہی … “ کے مخالف ہے، الإرواء ١٨٠٦ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی فتنہ کو اپنا سر ابھارنے کے لیے مرد و عورت میں سے کسی کا بھی ایک دوسرے کو دیکھنا کافی ہوگا ، اب جب کہ تم دونوں انہیں دیکھ رہی ہو اس لیے فتنہ سے بچنے کے لے پردہ ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (3116) ، الإرواء (1806) //، ضعيف أبي داود (887 / 4112) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2778
اس بارے میں کہ عورتوں کے ہاں ان کے خاوندوں کی اجازت کے بغیر جانا منع ہے
عمرو بن العاص (رض) کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) سے روایت ہے کہ عمرو بن العاص (رض) نے انہیں علی (رض) کے پاس (ان کی بیوی) اسماء بنت عمیس ١ ؎ سے ملاقات کی اجازت مانگنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے اجازت دے دی، پھر جب وہ جس ضرورت سے گئے تھے اس سے کہہ سن کر فارغ ہوئے تو ان کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) نے ان سے (اس کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عورتوں کے پاس ان کے شوہروں سے اجازت لیے بغیر جانے سے منع فرمایا ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عقبہ بن عامر، عبداللہ بن عمرو اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٢) (صحیح) (سند میں مولی عمرو بن العاص مبہم راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : پہلے یہ جعفر طیار کی بیوی تھیں ، پھر ان سے ابوبکر (رض) نے شادی کی ، ان کے بعد ان سے علی (رض) نے شادی کی۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی بیوی کے پاس کسی شرعی ضرورت کی تکمیل کے لیے اس وقت جانا جائز ہوگا جب اس کے شوہر سے اجازت لے لی گئی ہو ، اجازت کے بغیر اس کے پاس جانا جائز نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح آداب الزفاف (176 - 177) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2779
عورتوں کے فتنے سے بچنے کے متعلق
اسامہ بن زید اور سعید بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی ثقہ لوگوں نے بطریق : «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن أسامة بن زيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» سے روایت کی ہے۔ اور انہوں نے اس سند میں «عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل» کا ذکر نہیں کیا، ٣ - ہم معتمر کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے «عن أسامة بن زيد وسعيد بن زيد» (ایک ساتھ) کہا ہو، ٤ - اس باب میں ابوسعید (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٨ (٥٠٩٦) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٦ (٢٧٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٩ (٣٩٩٨) (تحفة الأشراف : ٩٩، و ٤٤٦٢) ، و مسند احمد (٥/٢٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مرد عورتوں کے حسن و عشق کا شکار ہو کر اپنا دین و دنیا سب تباہ اور حکومت و اقتدار سب گنوا بیٹھتے ہیں۔ اسی فتنے کو استعمال کر کے عیسائیوں اور یہودیوں نے ملت کو پارہ پارہ کردیا اور مسلمانوں کو غلام اور زیرنگیں کرلیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2701) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2780 ابن عمر (رض) نے بسند «سفيان عن سليمان التيمي عن أبي عثمان عن أسامة بن زيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2701) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2780
بالوں کا گچھا بنانے کی ممانعت
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) کو مدینہ میں خطبہ کے دوران کہتے ہوئے سنا : اے اہل مدینہ ! تمہارے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان زائد بالوں کے استعمال سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور آپ کہتے تھے : جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اسے اپنا لیا تو وہ ہلاک ہوگئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث متعدد سندوں سے معاویہ (رض) سے روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٤ (٣٤٦٨) ، واللباس ٨٣ (٥٩٣٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٧) ، سنن ابی داود/ الترجل ٥ (٤١٦٧) ، سنن النسائی/الزینة ٢١ (٥٠٩٥) ، و ٦٨ (٥٢٤٩-٥٢٥٠) (تحفة الأشراف : ١١٤٠٧) ، وط/الشعر ١ (٢) ، و مسند احمد (٤/٩٥، ٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ مزید بال لگا کر بڑی چوٹی بنانا یہ فتنہ کا باعث ہے ، ساتھ ہی یہ زانیہ و فاسقہ عورتوں کا شعار بھی ہے ، بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب یہ شعار اپنایا تو لوگ بدکاریوں میں مبتلا ہوگئے ، اور نتیجۃ ہلاک و برباد ہوگئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (100) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2781
بال گودنے والی، گدوانے والی اور بالوں کو جوڑنے والیوں کے بارے میں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے گودنا گودنے والی اور گودنا گدوانے والیوں پر اور حسن میں اضافے کی خاطر چہرے سے بال اکھاڑنے والی اور اکھیڑوانے والیوں پر اور اللہ کی بناوٹ (تخلیق) میں تبدیلیاں کرنے والیوں پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث کو شعبہ اور کئی دوسرے ائمہ نے بھی منصور سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الحشر ٤ (٤٨٨٦) ، واللباس ٨٢ (٥٩٣١) ، ٨٤ (٥٩٣٩) ، و ٨٥ (٥٩٤٣) ، و ٨٦ (٥٩٤٤) ، و ٨٧ (٥٩٤٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٥) ، سنن ابی داود/ الترجل ٥ (٤١٦٩) ، سنن النسائی/الزینة ٢٤ (٥١٠٢) ، و ٢٦ (٥١١٠) ، ٧٢ (٥٢٥٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٢ (١٩٨٩) (تحفة الأشراف : ٩٤٥٠) ، و مسند احمد (١/٤٠٩، ٤١٥، ٤٣٤، ٤٤٨، ٤٥٤، ٤٦٢، ٤٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح آداب الزفاف (113 - 114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2782
بال گودنے والی، گدوانے والی اور بالوں کو جوڑنے والیوں کے بارے میں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی لعنت ہو بالوں کو جوڑنے والی اور جو ڑوانے والی پر اور گودنا گودنے اور گودنا گودوانے والی پر ، نافع کہتے ہیں : گودائی مسوڑھے میں ہوتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، معقل بن یسار، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔
مردوں کے مشابہ بننے والی عورتوں کے بارے میں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو مرد عورتوں کی طرح اور عورتیں مردوں کی طرح وضع قطع اور بات چیت کا لہجہ اور انداز اختیار کرتی ہیں ، ان پر لعنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1904) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2784
مردوں کے مشابہ بننے والی عورتوں کے بارے میں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی زنانے (مخنث) مردوں پر، اور مردانہ پن اختیار کرنے والی عورتوں پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٥١ (٥٨٨٥) ، سنن ابی داود/ اللباس ٣١ (٤٠٩٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٢ (١٩٠٤) (تحفة الأشراف : ٦١٨٨) ، و مسند احمد (١/٢٥١، ٣٣٠) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٢١ (٢٦٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الذی قبله (2784) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2785
اس بارے میں کہ عورت کا خوشبو لگا کر نکلنا منع ہے
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ایسی ہے یعنی وہ بھی زانیہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الترجل ٧ (٤١٧٣) ، سنن النسائی/الزینة ٣٥ (٥١٢٩) (تحفة الأشراف : ٩٠٢٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ہر آنکھ زنا کار ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ آنکھ جو کسی اجنبی عورت کی طرف شہوت سے دیکھے وہ زانیہ ہے ، اور خوشبو لگا کر کسی مجلس کے پاس سے گزرنے والی عورت اس لیے زانیہ ہے کیونکہ وہ لوگوں کی نگاہوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا سبب بنی ہے ، اس لیے وہ برابر کی شریک ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن تخريج إيمان أبى عبيد (96 / 110) ، تخريج المشکاة (65) ، حجاب المرأة (64) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2786
مردوں اور عورتوں کی خوشبو کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک پھیل رہی ہو اور رنگ چھپا ہوا ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو لیکن مہک اس کی چھپی ہوئی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٥٠ (٢١٧٤) ، سنن النسائی/الزینة ٣٢ (٥١٢٠، ٥١٢١) (تحفة الأشراف : ١٥٨٦) ، و مسند احمد (٢/٥٤١) (حسن) (سند میں ” رجل “ مبہم راوی ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو صحیح الترغیب رقم : ٤٠٢٤ ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ مرد ایسی خوشبو لگائیں جس میں بو ہو اور رنگ نہ ہو ، جیسے عطر اور عود وغیرہ ، اور عورتیں ایسی چیزوں کا استعمال کریں جس میں رنگ ہو خوشبو نہ ہو مثلاً زعفران اور مہندی وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4443) ، مختصر الشمائل (188) ، الرد علی الکتانی ص (11) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2787
مردوں اور عورتوں کی خوشبو کے بارے میں
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : مرد کی بہترین خوشبو وہ ہے جس کی مہک پھیلے اور اس کا رنگ چھپا رہے، اور عورتوں کی بہترین خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور خوشبو چھپی رہے ، اور آپ ﷺ نے زین کے اوپر انتہائی سرخ ریشمی کپڑا ڈالنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٨٠٥) ، و مسند احمد (٤/٤٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4443) ، مختصر الشمائل (188) ، الرد علی الکتاني ص (11) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2788
اس بارے میں کہ خوشبو سے انکار کرنا مکروہ ہے
ثمامہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ انس (رض) خوشبو (کی چیز) واپس نہیں کرتے تھے، اور انس (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ خوشبو کو واپس نہ کرتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٩ (٢٥٨٢) ، واللباس ٨٠ (٥٩٢٩) ، سنن النسائی/الزینة ٧٤ (٥٢٦٠) (تحفة الأشراف : ٧٤٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آپ ﷺ کے پاس ہدیہ اگر خوشبو جیسی چیز آتی تو آپ اسے بھی واپس نہیں کرتے تھے ، اس لیے سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ہدیہ کی ہوئی خوشبو کو واپس نہیں کرنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (186) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2789
اس بارے میں کہ خوشبو سے انکار کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں (ہدیہ و تحفہ میں آئیں) تو وہ واپس نہیں کی جاتی ہیں : تکئے، دہن، اور دودھ، دہن (تیل) سے مراد خوشبو ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - عبداللہ یہ مسلم بن جندب کے بیٹے ہیں اور مدنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧٤٥٣) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن مختصر الشمائل (187) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2790
اس بارے میں کہ خوشبو سے انکار کرنا مکروہ ہے
ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو خوشبو دی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے کیونکہ وہ جنت سے نکلی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - حنان (نام کے) راوی کو ہم صرف اسی حدیث میں پاتے ہیں، ٣ - ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ تو پایا لیکن انہیں آپ کا دیدار نصیب نہ ہوا اور نہ ہی آپ سے کوئی حدیث سن سکے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ المراسیل ٩٧ (تحفة الأشراف : ١٨٩٧٥) (ضعیف) (اولاً یہ مرسل ہے کیوں کہ ابو عثمان النھدی تابعی ہیں، دوسرے اس کا راوی ” حنان “ لین الحدیث ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف مختصر الشمائل (189) ، الضعيفة (764) // ضعيف الجامع الصغير (385) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2791
مباشرت ممنوعہ سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت عورت سے نہ چمٹے یہاں تک کہ وہ اسے اپنے شوہر سے اس طرح بیان کرے گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١١٨ (٥٢٤٠) ، سنن ابی داود/ النکاح ٤٤ (٢١٥٠) (تحفة الأشراف : ٩٢٥٢) ، و مسند احمد (١/٣٨٧، ٤٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر عورت اپنے شوہر سے کسی دوسری عورت کے جسمانی اوصاف بیان کرے تو اس سے اس کا شوہر فتنہ اور زناکاری میں مبتلا ہوسکتا ہے ، شریعت نے اسی فتنہ کے سد باب کے لیے کسی دوسری عورت کے جسمانی اوصاف کو بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1866 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2792
مباشرت ممنوعہ سے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مرد مرد کی شرمگاہ اور عورت عورت کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے، اور مرد مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں ننگا ہو کر نہ لیٹے اور عورت عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن، غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢١ (١٤٣٧) ، سنن ابی داود/ الحمام ٣ (٤٠١٨) (تحفة الأشراف : ٤١١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دو مرد یا دو عورتیں ایک ہی کپڑا اوڑھ کر ننگے بدن نہ لیٹ جائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (661) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2793
ستر کی حفاظت سے متعلق
معاویہ بن حیدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے نبی ! ہم اپنی شرمگاہیں کس قدر کھول سکتے ہیں اور کس قدر چھپانا ضروری ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنی شرمگاہ اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا ہر ایک سے چھپاؤ، میں نے پھر کہا : جب لوگ مل جل کر رہ رہے ہوں (تو ہم کیا اور کیسے کریں ؟ ) آپ نے فرمایا : تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونا چاہیئے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھ سکے ، میں نے پھر کہا : اللہ کے نبی ! جب آدمی تنہا ہو ؟ آپ نے فرمایا : لوگوں کے مقابل اللہ تو اور زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٧٦٩ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن وتقدم (2931) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2794
اس بارے میں کہ ران ستر میں داخل ہے
جرہد (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مسجد میں جرہد کے پاس (یعنی میرے پاس سے) سے گزرے (اس وقت) ان کی ران کھلی ہوئی تھی تو آپ نے فرمایا : ران بھی ستر (چھپانے کی چیز) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٢ (تعلیقاً في الترجمة) ، سنن ابی داود/ الحمام ٢ (٤٠١) (تحفة الأشراف : ٣٢٠٦) ، و مسند احمد (٣/٤٧٨) (ویأتي بعد حدیث) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1 / 297 - 298) ، المشکاة (3114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2795
اس بارے میں کہ ران ستر میں داخل ہے
جرہد (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور وہ اپنی ران کھولے ہوئے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنی ران ڈھانپ لو کیونکہ یہ ستر (چھپانے کی چیز) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٤٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2796
اس بارے میں کہ ران ستر میں داخل ہے
جرہد اسلمی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ران ستر (چھپانے کی چیز) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں علی اور محمد بن عبداللہ بن جحش سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور عبداللہ بن جحش اور ان کے بیٹے محمد (رض) دونوں صحابی رسول ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٧٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2797
اس بارے میں کہ ران ستر میں داخل ہے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ران بھی ستر (چھپانے کی چیز) ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2797) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2798
پاکیزگی کے بارے میں
صالح بن ابی حسان کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب کو کہتے ہوئے سنا : اللہ طیب (پاک) ہے اور پاکی (صفائی و ستھرائی) کو پسند کرتا ہے۔ اللہ مہربان ہے اور مہربانی کو پسند کرتا ہے۔ اور اللہ سخی و فیاض ہے اور جود و سخا کو پسند کرتا ہے، تو پاک و صاف رکھو۔ (میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس سے آگے کہا) اپنے گھروں کے صحنوں اور گھروں کے سامنے کے میدانوں کو، اور یہود سے مشابہت نہ اختیار کرو ۔ (صالح کہتے ہیں) میں نے اس (روایت) کا مہاجر بن مسمار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے اس کو عامر بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا۔ البتہ مہاجر نے «نظفوا أفنيتكم» کہا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - خالد بن الیاس ضعیف سمجھے جاتے ہیں اور انہیں خالد بن ایاس بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٨٩٤) (ضعیف) (سند میں مہاجر بن سمار لین الحدیث ہیں، لیکن ” نظفوا أفنيتكم … الخ “ اور ” جواد يحب الجواد “ کے ٹکڑے متابعات کی بنا پر صحیح ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحة رقم : ١٦٢٧ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن قوله : صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2799
جماع کے وقت پردہ کرنے کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ننگے ہونے سے بچو، کیونکہ تمہارے ساتھ وہ (فرشتے) ہوتے ہیں جو تم سے جدا نہیں ہوتے۔ وہ تو صرف اس وقت جدا ہوتے ہیں جب آدمی پاخانہ جاتا ہے یا اپنی بیوی کے پاس جا کر اس سے ہمبستر ہوتا ہے۔ اس لیے تم ان (فرشتوں) سے شرم کھاؤ اور ان کی عزت کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٣١٨) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، دیکھیے : الارواء رقم : ٦٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (64) ، المشکاة (3115 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (2194) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2800
حمام میں جانے کے بارے میں
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ تہہ بند باندھے بغیر غسل خانہ (حمام) میں داخل نہ ہو، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی بیوی کو غسل خانہ (حمام) میں نہ بھیجے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دور چلتا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف اس سند سے جانتے ہیں، ٣ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : لیث بن ابی سلیم صدوق ہیں، لیکن بسا اوقات وہ وہم کر جاتے ہیں، ٤ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کہتے ہیں : لیث کی حدیث سے دل خوش نہیں ہوتا۔ لیث بعض ایسی حدیثوں کو مرفوع بیان کردیتے تھے جسے دوسرے لوگ مرفوع نہیں کرتے تھے۔ انہیں وجوہات سے لوگوں نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الغسل ٢ (٤٠١) (بعضہ) (تحفة الأشراف : ٢٢٨٤) ، و مسند احمد (٣/٣٣٩) (حسن) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، الإروائ : ١٩٤٩، غایة المرام ١٩٠ ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حمامات عمومی غسل خانے ہوا کرتے تھے ، جس میں مرد اور عورتیں سب کے سب ننگے نہاتے تھے ، آپ ﷺ نے مردوں کو تہہ بند باندھ کر نہانے کی اجازت دی ، جب کہ عورتوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے ، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر وہ مجلس جہاں نشہ آور اور حرام چیزوں کا دور چل رہا ہو اس میں شریک ہونا درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (1 / 88 - 89) ، الإرواء (1949) ، غاية المرام (190) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2801
حمام میں جانے کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مردوں اور عورتوں کو حمامات (عمومی غسل خانوں) میں جا کر نہانے سے منع فرمایا۔ پھر مردوں کو تہہ بند پہن کر نہانے کی اجازت دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو ہم صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اس کی سند ویسی مضبوط نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحمام ١ (٤٠٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٨ (٣٧٤٩) (تحفة الأشراف : ١٧٧٩٨) ، و مسند احمد (٦/١٧٩) (ضعیف) (سند میں ابو عذرہ مجہول تابعی ہیں، صحابی نہیں ہیں : غایة المرام رقم ١٩٠ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2749) // كذا الأصل، وهو في ضعيف سنن ابن ماجة برقم (821 - 3749) ، غاية المرام (191) ، ضعيف أبي داود (865 / 4009) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2802
حمام میں جانے کے بارے میں
ابوملیح ہذلی سے روایت ہے کہ اہل حمص یا اہل شام کی کچھ عورتیں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا : تم وہی ہو جن کی عورتیں حمامات (عمومی غسل خانوں) میں نہانے جایا کرتی ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو عورت اپنے شوہر کے گھر کے سوا اپنے کپڑے کہیں دوسری جگہ اتار کر رکھتی ہے وہ عورت اپنے اور اپنے رب کے درمیان سے حجاب کا پردہ اٹھا دیتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحمام ١ (٤٠١٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٨ (٣٧٥٠) (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٤) ، و مسند احمد (٦/١٩٩) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٢٣ (٢٦٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3750) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2803
اس بارے میں کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر یا کتا ہو
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو، اور نہ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں جس میں جاندار مجسموں کی تصویر ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٢٥، ٣٢٢٦) ، و ١٧ (٣٣٢٢) ، سنن ابی داود/ المغازي ١٢ (٤٠٠٢) ، واللباس ٨٨ (٥٩٤٩) ، و ٥٢ (٥٩٥٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٦) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤٨ (٤١٥٣) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١١ (٤٢٨٧) ، والزینة ١١١ (٥٣٤٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٤ (٣٦٤٩) (تحفة الأشراف : ٣٧٧٩) ، و مسند احمد (٤/٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایسے کتے جو کھیت اور و جائیداد کی نگرانی نیز شکار کے لیے ہوں وہ مستثنیٰ ہیں ، اسی طرح تصویر سے بےجان چیزوں کی تصویریں مستثنیٰ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3649) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2804
اس بارے میں کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر یا کتا ہو
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبر دی ہے : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں مجسمے ہوں یا تصویر ہو ، (اس حدیث میں اسحاق راوی کو شک ہوگیا کہ ان کے استاد نے «تماثیل» اور «صورة» دونوں میں سے کیا کہا ؟ انہیں یاد نہیں) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٣١) وانظر موطا امام مالک/الاستئذان ٣ (٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (118) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2805
اس بارے میں کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر یا کتا ہو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) نے آ کر کہا : کل رات میں آپ کے پاس آیا تھا لیکن مجھے آپ کے پاس گھر میں آنے سے اس بات نے روکا کہ آپ جس گھر میں تھے اس کے دروازے پر مردوں کی تصویریں تھیں اور گھر کے پردے پر بھی تصویریں تھیں۔ اور گھر میں کتا بھی تھا، تو آپ ایسا کریں کہ دروازے کی «تماثیل» (مجسموں) کے سر کو اڑوا دیجئیے کہ وہ مجسمے پیڑ جیسے ہوجائیں، اور پردے پھڑوا کر ان کے دو تکیے بنوا دیجئیے جو پڑے رہیں اور روندے اور استعمال کیے جائیں۔ اور کتے کو نکال بھگائیے، تو رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا۔ اور وہ کتا ایک پلا تھا حسن یا حسین کا ان کی چارپائی کے نیچے رہتا تھا، چناچہ آپ نے اسے بھگا دینے کا حکم دیا اور اسے بھگا دیا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عائشہ اور ابوطلحہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٤٨ (٤١٥٨) ، سنن النسائی/الزینة ١١٥) (٥٣٨٠) (تحفة الأشراف : ١٤٣٤٥) ، و مسند احمد (٢/٣٠٥، ٣٠٨، ٤٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح آداب الزفاف (102 - 108) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2806
کسم کے رنگے ہوئے کپڑے کی مردوں کے لے ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص سرخ رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے گزرا۔ اس نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اسے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس حدیث سے اہل علم کے نزدیک مراد یہ ہے کہ وہ زرد رنگ میں رنگا ہوا کپڑا پہننا مکروہ سمجھتے ہیں۔ اور جو کپڑا گیروے رنگ وغیرہ میں رنگا جائے اس کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جب کہ وہ کسم کا نہ ہو (یعنی زرد رنگ کا نہ ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ٢٠ (٤٠٦٩) (تحفة الأشراف : ٨٩١٨) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو یحییٰ القتات لین الحدیث ہیں، مگر دیگر روایات سے اس کا معنی ثابت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد //، ضعيف أبي داود (878 / 4069) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2807
کسم کے رنگے ہوئے کپڑے کی مردوں کے لے ممانعت
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے (مردوں کو) سونے کی انگوٹھی پہننے سے، قسی کے (ریشم ملے ہوئے) کپڑے پہننے سے، زین پر رکھنے والی ریشمی گدیلے سے اور جَو کی نبیذ سے۔ ابوالا ٔحوص کہتے ہیں «جعه» ایک شراب ہے جو مصر میں جَو سے بنائی جاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٦٤ (تحفة الأشراف : ١٠٣٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح المتن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2808
کسم کے رنگے ہوئے کپڑے کی مردوں کے لے ممانعت
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں کے کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جنازے کے ساتھ جائیں۔ مریض کی عیادت کریں، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دیں۔ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کریں، مظلوم کی مدد کریں، اور قسم کھانے والے کی قسم پوری کرائیں، اور سلام کا جواب دیں کا، اور سات چیزوں سے آپ نے ہمیں منع فرمایا ہے سونے کی انگوٹھی پہننے، یا سونے کے چھلے استعمال کرنے سے، اور چاندی کے برتنوں سے اور حریر، دیباج، استبرق اور قسی کے پہننے سے (یہ سب ریشمی کپڑے ہیں) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اشعث بن سلیم : یہ اشعث بن ابوشعثاء ہیں، ابوشعثاء کا نام سلیم بن اسود ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٧٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی طرف منه (1760) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2809
سفید کپڑے پہننے کے بارے میں
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ پاکیزہ اور عمدہ لباس ہیں، اور انہیں سفید کپڑوں کا اپنے مردوں کو کفن دو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٥ (٣٥٦٧) (تحفة الأشراف : ٤٦٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندگی میں سفید لباس بہتر ، پاکیزہ اور عمدہ ہے ، اس لیے کہ سفید کپڑے میں ملبوس شخص کبر و غرور اور نخوت سے خالی ہوتا ہے ، جب کہ دوسرے رنگوں والے لباس میں متکبر ین یا عورتوں سے مشابہت کا امکان ہے ، اپنے مردوں کو بھی انہی سفید کپڑوں میں دفنانا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1472) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2810
مردوں کے لئے سرخ کپڑے پہننے کی اجازت کے بارے میں
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کو بھی دیکھنے لگا (کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے ١ ؎، اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف اشعث کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ٢٢٠٨) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار قاضی اہواز ضعیف راوی ہیں، انہوں نے اس حدیث کو براء بن عازب کی بجائے جابر بن سمرہ کی روایت بنا سنن الدارمی/ ہے، براء بن عازب کی روایت رقم ١٧٢٤ پر گزر چکی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : بعض علماء کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ سرخ لباس خالص سرخ رنگ کا نہیں تھا بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں ، ظاہر ہے ایسے سرخ لباس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : (حديث البراء) صحيح، (حديث جابر بن سمرة) ضعيف (حديث البراء) وتقدم بأتم منه (1724) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا برقم (1408 - 1794) //، (حديث جابر بن سمرة) مختصر الشمائل (8) // ووقع فيه : صحيح، وهو خطأ // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2811
سبز کپڑا پہننے کے بارے میں
ابورمثہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو سبز کپڑے استعمال کئے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف عبیداللہ بن ایاد کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - ابورمثہ تیمی کا نام حبیب بن حیان ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام رفاعہ بن یثربی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ اللباس ١٩ (٤٠٦٥) ، والترجل ١٨ (٤٢٠٦) ، سنن النسائی/العیدین ١٦ (١٥٧١) ، والزینة ٩٦ (٥٣٣٤) (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٦) ، و مسند احمد (٢/٢٢٦، ٢٢٧، ٢٢٨) ، و (٤/١٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (36) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2812
سیاہ لباس کے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ (گھر سے) نکلے، اس وقت آپ کالے بالوں کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٦ (٢٠٨١) ، وفضائل الصحابة ٩ (٢٤٢٤) (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٧) ، و مسند احمد (٦/١٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (56) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2813
زرد رنگ کے کپڑے پہننے کے متعلق
قیلہ بنت مخرمہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے پھر انہوں نے پوری لمبی حدیث بیان کی (اس میں ہے کہ) ایک شخص اس وقت آیا جب سورج چڑھ آیا تھا۔ اس نے کہا : «السلام علیک یا رسول اللہ» ! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «وعلیک السلام ورحمة اللہ» ، اور نبی اکرم ﷺ (کے جسم) پر دو پرانے کپڑے تھے۔ وہ زعفران سے رنگے ہوئے تھے، اور کثرت استعمال سے ان کا رنگ پھیکا پڑگیا تھا ١ ؎ اور نبی اکرم ﷺ کے پاس کھجور کی ایک شاخ تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : قیلہ کی حدیث کو ہم صرف عبداللہ بن حسان کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الخراج والإمارة ٣٦ (٣٠٧٠) (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٧) (حسن) (ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود رقم ٣٩٢ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : زعفران کا اثر ختم ہوچکا تھا ، اس لیے یہ حدیث اگلی حدیث کے منافی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن مختصر الشمائل (53 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2814
اس بارے میں کہ مردوں کو زعفران اور خلوق منع ہے
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (مردوں کو) زعفرانی رنگ کے استعمال سے منع فرمایا ہے، مردوں کے لیے زعفران کے استعمال کی کراہت کا مطلب یہ ہے کہ مرد زعفران کی خوشبو نہ لگائیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٣ (٥٨٤٦) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٣ (٢١٠١) ، سنن ابی داود/ الترجل ٨ (٤١٧٩) ، سنن النسائی/الحج ٤٣ (٢٧٠٧) ، وا الزینة ٧٣ (٥٢٥٨) (تحفة الأشراف : ١٠١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2815
اس بارے میں کہ مردوں کو زعفران اور خلوق منع ہے
یعلیٰ بن مرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو خلوق لگائے ہوئے دیکھا ١ ؎، تو آپ نے فرمایا : جاؤ اسے دھو ڈالو۔ پھر دھو ڈالو، پھر (آئندہ کبھی) نہ لگاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - بعض لوگوں نے عطا بن سائب سے اس حدیث کی اسناد میں اختلاف کیا ہے، ٣ - علی (علی ابن المدینی) کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید نے کہا ہے کہ جس نے عطاء بن سائب سے ان کی زندگی کے پرانے (پہلے) دور میں سنا ہے تو اس کا سماع صحیح ہے اور شعبہ اور سفیان ثوری کا عطاء بن سائب سے سماع صحیح ہے مگر دو حدیثیں جو عطاء سے زاذان کے واسطہ سے مروی ہیں تو وہ صحیح نہیں ہیں، ٤ - شعبہ کہتے ہیں میں نے ان دونوں حدیثوں کو عطاء سے ان کی عمر کے آخری دور میں سنا ہے۔ (اور یہ حدیث ان میں سے نہیں ہے) ، ٥ - کہا جاتا ہے کہ عطاء بن سائب کا حافظہ ان کے آخری دور میں بگڑ گیا تھا، ٦ - اس باب میں عمار، ابوموسیٰ ، اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٣٤ (٥١٢٤) (تحفة الأشراف : ١١٨٤٩) ، و مسند احمد (٤/١٧١، ١٧٣) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو حفص مجہول راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : «خلوق» : ایک قسم کی خوشبو ہے جو عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2816
حریر اور دیباج پہننے کی ممانعت کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کو یہ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے دنیا میں «حریر» (ریشمی کپڑا) پہنا تو وہ اسے آخرت (یعنی جنت) میں نہ پہنے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے اسماء بنت ابی بکر کے آزاد کردہ غلام ابوعمرو سے مروی ہے۔ ان کا نام عبداللہ اور ان کی کنیت ابوعمرو ہے، ان سے عطاء بن ابی رباح اور عمرو بن دینار نے روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں علی، حذیفہ، انس (رض) اور دیگر کئی لوگوں سے بھی احادیث آئی ہیں، جن کا ذکر ہم کتاب اللباس میں کرچکے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١ (٢٠٦٩) (تحفة الأشراف : ١٠٥٤٢) ، و مسند احمد (١/٢٠، ٢٦، ٣٦، ٣٩) (صحیح) (ھذا من مسند عمر (رض)، وقد أخرجہ من مسند ابن عمر کل من : صحیح البخاری/الجمعة ٧ (٨٨٦، والعیدین ١ (٩٣٨) ، والھبة ٢٧ (٢٦١٢) ، والجھاد ١٧٧ (٣٠٥٤) ، واللباس ٣٠ (٥٨٤١) ، والأدب ٩ (٥٩٨١) ، و ٦٦ (٦٠٨١) ، وصحیح مسلم/المصدر المذکور (٢٠٦٨) ، و سنن ابی داود/ الصلاة ٢١٩ (١٠٧٦) ، واللباس ١٠ (٤٠٤٠) ، سنن النسائی/الجمعة ١١ (١٣٨٣) ، والزینة ٨٣ (٥١٦١) ، وسنن ابن ماجہ/اللباس ١٦ (٣٥٩١) ، وط/اللباس ٨ (١٨) ، و مسند احمد (٢/٢٠، ٣٩، ٤٩) (بذکر قصة ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (78) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2817
مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ ق بائیں تقسیم کیں، اور مخرمہ کو (ان میں سے) کچھ نہ دیا۔ مخرمہ (رض) نے کہا : اے میرے بیٹے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر چلو، تو میں ان کے ساتھ گیا۔ انہوں نے کہا : تم اندر جاؤ اور آپ کو میرے پاس بلا لاؤ، چناچہ میں آپ کو ان کے پاس بلا کر لانے کے لیے چلا گیا، رسول اللہ ﷺ نکل کر تشریف لائے۔ تو آپ کے پاس ان قباؤں میں سے ایک قباء تھی ، آپ نے فرمایا : یہ میں نے تمہارے لیے چھپا رکھی تھی ۔ مسور کہتے ہیں : پھر مخرمہ نے آپ کو دیکھا اور بول اٹھے : مخرمہ اسے پا کر خوش ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابن ابی ملیکہ کا نام عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ١٩ (٢٥٩٩) ، والشھادات ١١ (٢١٢٧) ، والخمس ١١ (٣١٢٧) ، واللباس ١٢ (٥٨٠٠) ، و ٤٢ (٥٨٦٢) ، والأدب ٨٢ (٦١٣٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٤ (١٠٥٨) ، سنن ابی داود/ اللباس ٤ (٤٠٢٨) ، سنن النسائی/الزینة ٩٩ (٥٣٢٦) (تحفة الأشراف : ١١٢٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2818
اس بارے میں کہ بندے پر نعمتوں کا اثر اللہ تعالیٰ کو پسند ہے
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں ابوالاحوص کے باپ، عمران بن حصین اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٧٤) (صحیح) (یہ سند حسن درجے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس کی جیسی اچھی حیثیت ہو اسی لحاظ سے وہ حدود شریعت میں رہتے ہوئے اچھا کھائے پیے اور اچھا پہنے خوشحالی کے باوجود پھٹیچر نہ بنا رہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح غاية المرام (75) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2819
سیاہ موزوں کے متعلق
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نجاشی (شاہ حبشہ) نے نبی اکرم ﷺ کو دو کالے رنگ کے موزے بھیجے، آپ نے انہیں پہنا، پھر آپ نے وضو کیا اور ان دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ہم اسے صرف دلہم کی روایت سے جانتے ہیں، ٣ - محمد بن ربیعہ نے دلہم (راوی) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطھارة ٥٩ (١٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٤ (٥٤٩) ، واللباس ٣١ (٣٦٢٠) (تحفة الأشراف : ١٩٥٦) ، و مسند احمد (٥/٣٥٢) (حسن) (سند میں دلھم ضعیف ہیں، اور حجیر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود رقم ١٤٤ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (5449) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2820
سفید بال نکالنے کی ممانعت
عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بڑھاپے کے (سفید) بال اکھیڑنے سے منع کیا، اور فرمایا ہے : یہ تو مسلمان کا نور ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - عبدالرحمٰن بن حارث اور کئی دیگر لوگوں سے یہ حدیث عمر بن شعیب کے واسطہ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٥ (٣٧٢١) (تحفة الأشراف : ٨٧٨٨٣) (حسن صحیح) (الصحیحة ١٢٤٣ ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ داڑھی اور سر میں جو بال سفید ہوچکے ہیں انہیں نہیں اکھاڑنا چاہیئے ، اس لیے کہ یہ انسان کو غرور اور نفسانی شہوات میں مبتلا ہونے سے روکتے ہیں ، کیونکہ ان سے انسان کے اندر تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4458) ، الصحيحة (1243) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2821
اس بارے میں کہ امانت دینے والا امانت دار ہوتا ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشیر جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کو امانت دار ہونا چاہیئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - متعدد لوگوں نے شیبان بن عبدالرحمٰن نحوی سے روایت کی ہے، اور شیبان، صاحب کتاب اور صحیح الحدیث ہیں، اور ان کی کنیت ابومعاویہ ہے، ٣ - ہم سے عبدالجبار بن علاء عطار نے بیان کیا، انہوں نے روایت کی سفیان بن عیینہ سے وہ کہتے ہیں کہ عبدالملک بن عمیر نے کہا : جب میں حدیث بیان کرتا ہوں تو اس حدیث کا ایک ایک لفظ (یعنی پوری حدیث) بیان کردیتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدٰیث رقم ٢٣٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے ، وہ مشورہ لینے والے کی نگاہ میں امانت دار سمجھاتا ہے ، اس لیے اس امانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ ایمانداری سے مشورہ دے اور مشورہ دینے کے بعد مشورہ لینے والے کے راز کو دوسروں پر ظاہر نہ کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وقد تقدم فی الحديث (2370) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا برقم (1931 - 2488) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2822
اس بارے میں کہ امانت دینے والا امانت دار ہوتا ہے
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشیر یعنی جس سے مشورہ لیا جائے اس کو امین ہونا چاہیئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حدیث ام سلمہ (رض) کی روایت سے غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٩) (صحیح) (سند میں عبد الرحمن بن زید بن جدعان کی دادی (جدة) مجہول راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما بعده (2824) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2823
نحوست کے بارے میں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نحوست تین چیزوں میں ہے ( ١ ) عورت میں ( ٢ ) گھر میں ( ٣ ) اور جانور (گھوڑے) میں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - زہری کے بعض اصحاب (تلامذہ) اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے «عن حمزة» کا ذکر نہیں کرتے بلکہ «عن سالم عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٤٧ (٢٨٥٨) ، والنکاح ١٧ (٥٠٩٣، ٥٠٩٤) ، والطب ٤٣ (٥٧٥٣) ، صحیح مسلم/السلام ٣٤ (٢٢٥٥) ، سنن النسائی/الخیل ٥ (٣٥٧١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٩٩، ٦٨٢٦) ، موطا امام مالک/الاستئذان ٨ (٢٢) ، و مسند احمد (٢/٨، ٣٦، ١١٥، ١٢٦) (صحیح) (اس روایت میں ” الشؤم في … “ کا لفظ شاذ ہے، صحیحین کے وہ الفاظ صحیح ہیں جو یہ ہیں ” إن کان الشؤم ففي … “ یعنی اگر نحوست کا وجود ہوتا تو ان تین چیزوں میں ہوتا، الصحیحة ٤٤٣، ٧٩٩، ١٨٩٧) قال الشيخ الألباني : صحيح بزيادة : إن کان الشؤم فی شيء ففي ، الصحيحة (443 و 799 و 1897) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2824 ہم سے یہ حدیث ابن ابی عمر نے سفیان بن عیینہ سے انہوں نے زہری سے، زہری نے عبداللہ بن عمر کے دونوں بیٹے سالم اور حمزہ سے اور ان دونوں نے اپنے والد عبداللہ سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بزيادة : إن کان الشؤم فی شيء ففي ، الصحيحة (443 و 799 و 1897) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2824
اس بارے میں کہ تیسرے آدمی کی موجودگی میں دو آدمی سرگوشی نہ کریں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم تین آدمی ایک ساتھ ہو، تو دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو اکیلا چھوڑ کر باہم کانا پھوسی نہ کریں ، سفیان نے اپنی روایت میں «لا يتناجی اثنان دون الثالث فإن ذلك يحزنه» کہا ہے، یعنی تیسرے شخص کو چھوڑ کر دو سرگوشی نہ کریں کیونکہ اس سے اسے دکھ اور رنج ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک کو نظر انداز کر کے دو سرگوشی نہ کریں، کیونکہ اس سے مومن کو تکلیف پہنچتی ہے، اور اللہ عزوجل مومن کی تکلیف کو پسند نہیں کرتا ہے ، ٢ - اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤٥ (٦٢٨٨) ، و ٤٧ (٦٢٩٠) ، صحیح مسلم/السلام ١٥ (٢١٨٤) ، سنن ابی داود/ الأدب ٢٩ (٤٨٥١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٠ (٣٧٧٥) (تحفة الأشراف : ٩٢٥٣) ، وط/السلام ٦ (١٣) ، و مسند احمد (١/٤٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3775) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2825
وعدے کے متعلق
ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو گورا چٹا دیکھا، آپ پر بڑھاپا آ چلا تھا حسن بن علی (رض) (شکل و صورت میں) آپ کے مشابہ تھے۔ آپ نے تیرہ ( ١٣ ) جوان اونٹنیاں ہم کو عنایت کرنے کے لیے حکم صادر فرمایا، ہم انہیں لینے کے لیے گئے ہی تھے کہ اچانک آپ کے انتقال کی خبر آ گئی، چناچہ لوگوں نے ہمیں کچھ نہ دیا، پھر جب ابوبکر (رض) نے مملکت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو انہوں نے اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے جس کسی کا بھی کوئی عہد و پیمان ہو تو وہ ہمارے پاس آئے (اور پیش کرے) چناچہ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور انہیں آپ کے حکم سے آگاہ کیا، تو انہوں نے ہمیں ان اونٹنیوں کے دینے کا حکم فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - مروان بن معاویہ نے یہ حدیث اپنی سند سے ابوجحیفہ (رض) کے واسطے سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣ - کئی اور لوگوں نے بھی اسماعیل بن ابوخالد کے واسطہ سے ابوجحیفہ سے روایت کی ہے، (اس روایت میں ہے) وہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ہے حسن بن علی (رض) آپ کے مشابہ تھے۔ اور انہوں نے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٤٤) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٩ (٢٣٤٣) (تحفة الأشراف : ١١٧٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2826
وعدے کے متعلق
ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ہے، حسن بن علی (رض) آپ کے مشابہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اسی طرح کئی ایک نے اسماعیل بن ابوخالد سے اسی جیسی روایت کی ہے، ٢ - اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣ - ابوجحیفہ (رض) کا نام وہب سوائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2827
فداک ابی وامی کہنا
علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع کرتے ہوئے نہیں دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٨٠ (٢٩٠٥) ، والمغازي ١٨ (٤٠٥٨، ٤٠٥٩) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥١ (٢٤١١) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٧٧ (١٩٠-١٩٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٢٩) ، وانظر رقم ٢٨٣٠ (تحفة الأشراف : ١٠١١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی «فداک ابی امی» میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں ایسا سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا ، سعد کے لیے استعمال سے ثابت ہوا کہ اور کسی کے لیے بھی یہ جملہ کہا جاسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (130) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2828
فداک ابی وامی کہنا
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ اپنے والد اور اپنی ماں کو سعد بن ابی وقاص (رض) کے سوا کسی کے لیے جمع نہیں کیا۔ جنگ احد میں آپ نے ان سے کہا : تیر چلاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، اور آپ نے ان سے یہ بھی کہا : اے بہادر قوی جوان ! تیر چلاتے جاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث علی سے متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہے، ٣ - اس حدیث کو متعدد لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے سعید بن مسیب سے، سعید بن مسیب نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے اپنے والدین کو یکجا کردیا۔ آپ نے فرمایا : تیر چلائے جاؤ، تم پر ہمارے ماں باپ قربان ہوں ، ٤ - اس باب میں زبیر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، اور ان کی روایت میں ” الغلام الحزور “ کا لفظ صحیح نہیں ہے، بقیہ حدیث صحیح کے متابعات و شواہد صحیحین میں موجود ہیں ) قال الشيخ الألباني : منکر بذکر الغلام الحزور // سيأتي (783 / 4019) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2829
فداک ابی وامی کہنا
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کی لڑائی کے دن میرے لیے «فداک أبي وأمي» کہہ کر اپنے ماں باپ کو یکجا کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ١٥ (٣٧٢٥) ، والمغازي ١٨ (٤٠٥ ¤ ٥- ٤٠٥٧) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥١ (٢٤١٢) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٣٠) (تحفة الأشراف : ٣٨٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2830
کسی کو بیٹا کہہ کر پکارنا
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے «يا بني» اے میرے بیٹے کہہ کر پکارا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس سند کے علاوہ کچھ دیگر سندوں سے بھی انس سے روایت ہے، ٣ - ابوعثمان یہ ثقہ شیخ ہیں اور ان کا نام جعد بن عثمان ہے، اور انہیں ابن دینار بھی کہا جاتا ہے اور یہ بصرہ کے رہنے والے ہیں۔ ان سے یونس بن عبید اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے، ٤ - اس باب میں مغیرہ اور عمر بن ابی سلمہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٦ (٢١٥١) ، سنن ابی داود/ الأدب ٧٣ (٤٩٦٤) (تحفة الأشراف : ٥١٤) ، و مسند احمد (٣/٢٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے ثابت ہوا کہ اپنے بیٹے کے علاوہ بھی کسی بچے کو اے میرے بیٹے ! کہا جاسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2830
بچے کا نام جلدی رکھنے کے متعلق
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ساتویں دن نومولود بچے کا نام رکھنے اس اور اس کا عقیقہ کردینے کا حکم دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٧٩٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نومولود بچے کا نام اس کی پیدائش کے ساتویں دن رکھا جائے ، بچے کی پیدائشی آلائش صاف کر کے یعنی اس کے سر کے بال اتروا کر بچے کو نہلایا جائے اور ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے ، یہ افضل ہے ، ایسے عائشہ (رض) کے فرمان کے مطابق چودھویں یا اکیسویں کو بھی ایسا کیا جاسکتا ہے (حاکم) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (4 / 399 - 400 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2832
مستحب ناموں کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ١ (٢١٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٠ (٣٧٢٨) (تحفة الأشراف : ٧٧٢٠) ، وحإ (٢/٢٤، ١٢٨) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٦٠ (٢٧٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ لفظ «عبد» لگا کر رکھے جانے والے نام اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3728) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2833
مستحب ناموں کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٧٧٢١) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2834
مکروہ ناموں کے متعلق
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ) رافع، برکت اور یسار نام رکھنے سے منع کر دوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اسی طرح اسے ابواحمد نے سفیان سے ابوسفیان نے ابوزبیر سے ابوزبیر نے جابر سے اور انہوں نے عمر سے روایت کی ہے۔ اور ابواحمد کے علاوہ نے سفیان سے سفیان نے ابوزبیر سے اور ابوزبیر نے جابر سے جابر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٣ - ابواحمد ثقہ ہیں حافظ ہیں، ٤ - لوگوں میں یہ حدیث «عن جابر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مشہور ہے اور اس حدیث میں «عن عمر» (عمر (رض) سے روایت ہے) کی سند سے کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٣١ (وراجع صحیح مسلم/الآدب ٢ (٢١٣٨) (تحفة الأشراف : ١٠٤٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3829) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2835
مکروہ ناموں کے متعلق
سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے غلام کا نام رباح، افلح، یسار اور نجیح نہ رکھو (کیونکہ) پوچھا جائے کہ کیا وہ یہاں ہے ؟ تو کہا جائے گا : نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٢ (٢١٣٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ٧٠ (٤٩٥٨، ٤٩٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣١ (٣٧٣٠) (تحفة الأشراف : ٤٦١٢) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٦١ (٢٧٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «رباح» فائدہ دینے والا «افلح» فلاح والا «یسار» آسانی «نجیح» کامیاب رہنے والا ، ان ناموں کے رکھنے سے اس لیے منع کیا گیا کیونکہ اگر کسی سے پوچھا جائے : کیا «افلح» یہاں ہے اور جواب میں کہا جائے کہ نہیں تو لوگ اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3630) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2836
مکروہ ناموں کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدتر نام اس شخص کا ہوگا جس کا نام «ملک الاملاک» ہوگا ، سفیان کہتے ہیں : «ملک الاملاک» کا مطلب ہے : شہنشاہ۔ اور «اخنع» کے معنی «اقبح» ہیں یعنی سب سے بدتر اور حقیر ترین۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١١٤ (٦٢٠٥) ، صحیح مسلم/الآداب ٤ (٢١٤٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ٧٠ (٤٩٦١) (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٢) ، و مسند احمد (٢/٢٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (914) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2837
نام بدلنے کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے «عاصیہ» کا نام بدل دیا اور کہا (آج سے) تو «جمیلہ» یعنی : تیرا نام جمیلہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو یحییٰ بن سعید قطان نے مرفوع بیان کیا ہے۔ یحییٰ نے عبیداللہ سے عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، اور بعض راویوں نے یہ حدیث عبیداللہ سے، عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے عمر سے مرسلاً روایت کی ہے، ٣ - اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، عبداللہ بن سلام، عبداللہ بن مطیع، عائشہ، حکم بن سعید، مسلم، اسامہ بن اخدری، ہانی اور عبدالرحمٰن بن ابی سبرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٣ (٣١٣٩) ، سنن ابی داود/ الأدب ٧٠ (٤٩٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٢ (٣٧٣٣) (تحفة الأشراف : ٨١٥٥) ، و مسند احمد (٢/١٨) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٦٢ (٢٧٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ایسے نام جو برے ہوں انہیں بدل کر ان کی جگہ اچھا نام رکھ دیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3733) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2838
نام بدلنے کے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ برا نام بدل دیا کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث کے راوی ابوبکر بن نافع کہتے ہیں کہ کبھی تو عمر بن علی (الفلاس) نے اس حدیث کی سند میں کہا : «هشام بن عروة عن أبيه عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» یعنی مرسلاً روایت کی اور اس میں «عن عائشة» کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧١٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (207 و 208) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2839
نبی اکرم ﷺ کے اسماء کے متعلق
جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے کئی نام ہیں : میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں وہ ماحی ہوں جس کے ذریعہ اللہ کفر کو مٹاتا ہے، میں وہ حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگ جمع کیے جائیں گے ١ ؎ میں وہ عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہ پیدا ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں حذیفہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١٧ (٣٥٣٢) ، وتفسیر سورة الصف ١ (٤٨٩٦) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٤ (٢٣٥٤) (تحفة الأشراف : ٣١٩١) ، و مسند احمد (٤/٨٠، ٨١، ٨٤) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٥٩ (٢٨١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میدان حشر میں لوگ میرے پیچھے ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (315) ، الروض النضير (1 / 340) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2840
اس بارے میں کہ کسی کے لئے نبی اکرم ﷺ کا نام اور کنیت جمع کرکے رکھنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص آپ کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ جمع کر کے محمد ابوالقاسم نام رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے، ٣ - بعض اہل علم مکروہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نبی اکرم ﷺ کا نام اور آپ کی کنیت ایک ساتھ رکھے۔ لیکن بعض لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٤٣) ، و مسند احمد (٢/٤٣٣) (صحیح) (وراجع ماعند صحیح البخاری/ في الأدب (٦١٨٨) وضاحت : ١ ؎ : اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے ، بعض کا کہنا ہے کہ آپ کی زندگی میں یہ چیز ممنوع تھی ، آپ کے بعد آپ کا نام اور آپ کی کنیت رکھنا درست ہے ، بعض کا کہنا ہے کہ دونوں ایک ساتھ رکھنا منع ہے ، جب کہ بعض کہتے ہیں کہ ممانعت کا تعلق صرف کنیت سے ہے ، پہلا قول راجح ہے (دیکھئیے اگلی دونوں حدیثیں) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (4769 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2841
اس بارے میں کہ کسی کے لئے نبی اکرم ﷺ کا نام اور کنیت جمع کرکے رکھنا مکروہ ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو بازار میں ابوالقاسم کہہ کر پکارتے ہوئے سنا تو آپ اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ تو اس نے کہا : میں نے آپ کو نہیں پکارا ہے۔ (یہ سن کر) آپ نے فرمایا : میری کنیت نہ رکھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ابوالقاسم کنیت رکھنا مکروہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (4769 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2841
اس بارے میں کہ کسی کے لئے نبی اکرم ﷺ کا نام اور کنیت جمع کرکے رکھنا مکروہ ہے
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ کے انتقال کے بعد میرے یہاں لڑکا پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام محمد اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ۔ (ایسا کرسکتے ہو) علی (رض) کہتے ہیں : یہ صرف میرے لیے رخصت و اجازت تھی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٧٦ (٤٩٦٧) (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر تحفة الودود صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2843
اس متعلق کہ بعض اشعار حکمت ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بعض اشعار میں حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٢١٣) (حسن صحیح ) وضاحت : امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ، ٢ - اسے ابوسعید اشج نے ابن ابی غنیہ کے واسطہ سے مرفوع روایت کیا ہے۔ اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن ابی غنیہ کے واسطہ سے اسے موقوف روایت کیا ہے ، ٣ - یہ حدیث کئی سندوں سے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے ، ٤ - اس باب میں ابی بن کعب ، ابن عباس ، عائشہ ، بریدہ ، اور عمرو بن عوف مزنی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2844
اس متعلق کہ بعض اشعار حکمت ہے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بعض اشعار میں حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٥ (٥٠١١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤١ (٣٧٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٦) ، و مسند احمد (١/٢٦٩، ٣٠٩، ٣١٣) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (3756) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2845
شعر پڑھنے کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حسان (رض) کے لیے مسجد میں منبر رکھتے تھے جس پر کھڑے ہو کر وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے فخریہ اشعار پڑھتے تھے۔ یا وہ اپنی شاعری کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ کا دفاع فرماتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : اللہ حسان کی مدد روح القدس (جبرائیل) کے ذریعہ فرماتا ہے جب تک وہ (اپنے اشعار کے ذریعہ) رسول اللہ ﷺ کی جانب سے فخر کرتے یا آپ کا دفاع کرتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اور یہ حدیث ابن ابی الزناد کی روایت سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٥ (٥٠١٥) (تحفة الأشراف : ١٦٣٥١، و ١٧٠٢٠) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (1657) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2846
شعر پڑھنے کے بارے میں
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عمرۃ القضاء کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔ «خلوا بني الکفار عن سبيله اليوم نضربکم علی تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» اے کفار کی اولاد ! اس کے (یعنی محمد ﷺ کے) راستے سے ہٹ جاؤ، آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جدا کر دے گی، ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کر دے گی عمر (رض) نے ان سے کہا : ابن رواحہ ! تم رسول اللہ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : انہیں کہنے دو ، عمر ! یہ اشعار ان (کفار و مشرکین) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ زود اثر ہیں (یہ انہیں بوکھلا کر رکھ دیں گے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر سے اور معمر نے زہری کے واسطہ سے انس سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣ - اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث میں مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے (اس وقت) کعب بن مالک آپ کے ساتھ آپ کے سامنے موجود تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : بعض محدثین کے نزدیک یہ زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ عبداللہ بن رواحہ جنگ موتہ میں مارے گئے ہیں۔ اور عمرۃ القضاء اس کے بعد ہوا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٠٩ (٢٨٧٦) ، و ١٢١ (٢٨٩٦) (تحفة الأشراف : ٢٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حافظ ابن حجر نے امام ترمذی کے اس قول پر نقد کیا ہے ، کہتے ہیں : امام ترمذی کا یہ کہنا کہ عمرۃ القضاء جنگ موتہ کے بعد ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (210) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2847
شعر پڑھنے کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ان سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ کبھی کوئی شعر بطور مثال اور نمونہ پیش کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، رسول اللہ ﷺ ابن رواحہ کا شعر بطور مثال پیش کرتے تھے، آپ کہتے تھے : «ويأتيك بالأخبار من لم تزود» ١ ؎ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٨٧ (٩٩٧) (تحفة الأشراف : ١٦١٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پورا شعر اس طرح ہے : «ستبدی لک الأيام ماکنت جاهلا ويأتيك بالأخبار من لم تزود» زمانہ تمہارے سامنے وہ چیزیں ظاہر اور پیش کرے گا جن سے تم ناواقف اور بیخبر ہو گے ، اور تمہارے پاس وہ آدمی خبریں اور اطلاعات لے کر آئے گا جس کو تم نے خرچہ دے کر اس کام کے لیے بھیجا بھی نہ ہوگا ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2057) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2848
شعر پڑھنے کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عرب کا بہترین شعری کلام لبید کا یہ شعر ہے : «ألا کل شيء ما خلا اللہ باطل» سن لو ! اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور اسے ثوری اور ان کے علاوہ نے بھی عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٤١) ، والأدب ٩٠ (٦١٤٧) ، والرقاق ٢٩ (٦٤٨٩) ، صحیح مسلم/الشعرح ٢ (٢٢٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤١ (٣٧٥٧) (تحفة الأشراف : ١٤٩٧٦) ، و مسند احمد (٢/٢٤٨، ٣٩١، ٣٩٣، ٤٤٤، ٤٥٨، ٤٧٠، ٤٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ : أصدق ... مختصر الشمائل (207) ، فقه السيرة (27) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2849
شعر پڑھنے کے بارے میں
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سو بار سے زیادہ بیٹھنے کا شرف حاصل ہے، آپ کے صحابہ شعر پڑھتے (سنتے و سناتے) تھے، اور جاہلیت کی بہت سی باتیں باہم ذکر کرتے تھے۔ آپ چپ بیٹھے رہتے اور کبھی کبھی ان کے ساتھ مسکرانے لگتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے زہیر بھی نے سماک سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢١٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (211) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2850
شعر پڑھنے کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کے پیٹ کا خون آلود مواد سے بھر جانا جسے وہ گلا، سڑا دے، یہ کہیں بہتر ہے اس سے کہ اس کے پیٹ (و سینے) میں (کفریہ شرکیہ اور گندے) اشعار بھرے ہوئے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں سعد، ابن عمر، اور ابو الدرداء (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٩٢ (٦١٥٥) ، صحیح مسلم/الشعر ٧ (٢٢٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٢ (٣٧٥٩) (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٨) ، و مسند احمد (٢/٢٨٨، ٣٣١، ٣٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پچھلے باب کی احادیث اور اس باب کی احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ اشعار اگر توحید وسنت ، اخلاق حمیدہ ، وعظ و نصیحت ، پند و نصائح اور حکمت و دانائی پر مشتمل ہوں تو ان کا کہنا ، پڑھنا سب جائز ہے ، اور اگر کفریہ ، شرکیہ ، بدعت اور خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہوں یا بازاری اور گندے اشعار ہوں تو ان کو اپنے دل وماغ میں داخل کرنا (یا ذکر کرنا) پیپ اور مواد سے زیادہ مکروہ اور نقصان دہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (211) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2851 ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کے پیٹ کا خون آلود مواد سے بھر جانا جسے وہ گلا، سڑا دے، یہ کہیں بہتر ہے اس سے کہ اس کے پیٹ (و سینے) میں (کفریہ شرکیہ اور گندے) اشعار بھرے ہوئے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں سعد، ابن عمر، اور ابو الدرداء (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٩٢ (٦١٥٥) ، صحیح مسلم/الشعر ٧ (٢٢٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٢ (٣٧٥٩) (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٨) ، و مسند احمد (٢/٢٨٨، ٣٣١، ٣٩١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پچھلے باب کی احادیث اور اس باب کی احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ اشعار اگر توحید وسنت ، اخلاق حمیدہ ، وعظ و نصیحت ، پند و نصائح اور حکمت و دانائی پر مشتمل ہوں تو ان کا کہنا ، پڑھنا سب جائز ہے ، اور اگر کفریہ ، شرکیہ ، بدعت اور خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہوں یا بازاری اور گندے اشعار ہوں تو ان کو اپنے دل وماغ میں داخل کرنا (یا ذکر کرنا) پیپ اور مواد سے زیادہ مکروہ اور نقصان دہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (211) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2851
اس بارے میں کہ کسی کا اپنے پیٹ کو پیپ سے بھر لینا، شعروں سے بھر لینے سے بہتر ہے
سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کے پیٹ کا بیماری کے سبب مواد سے بھر جانا بہتر ہے اس سے کہ وہ شعر سے بھرا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الشعر ٨ (٢٢٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٢ (٣٧٦٠) (تحفة الأشراف : ٣٩١٩) ، و مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٧، ١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پیپ مواد سے تو صرف تکلیف ہوگی لیکن (گندے) اشعار سے تو انسان کی عاقبت ہی خراب ہو کر رہ جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3759) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2852
فصاحت اور بیان کے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایسے مبالغہ کرنے والے شخص کو ناپسند کرتا ہے جو اپنی زبان ایسے چلاتا ہے جیسے گائے چلاتی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں سعد (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٩٤ (٥٠٠٥) (تحفة الأشراف : ٨٨٣٣) ، وحإ (٢/١٦٥، ١٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جیسے گائے چارے کو اپنی زبان سے لپیٹ لپیٹ کر اپنی خوراک بناتی ہے اسی طرح چرب زبان آدمی بات کو لپیٹ لپیٹ کر بیان کرتا چلا جاتا ہے ، یہ صورت خاص کر غلط باتوں کے سلسلے ہی میں ہوتی ہے ، ایسی فصاحت و بلاغت ناپسندیدہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (878) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2853
فصاحت اور بیان کے متعلق
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی چھت پر جہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو سونے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اس حدیث کو صرف محمد بن منکدر کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ جابر سے روایت کرتے ہیں، ٣ - عبدالجبار بن عمر ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٠٥٣) (صحیح) (سند میں عبد الجبار بن عمر الأیلي ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں سے اخیر تک چند احادیث متفرق ابواب کی ہیں ، ان کا فصاحت و بیان سے کوئی تعلق نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (826) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2854
فصاحت اور بیان کے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو وعظ و نصیحت کا سلسلے میں اوقات کا خیال کیا کرتے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں ہم پر اکتاہٹ طاری نہ ہوجائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١١ (٦٨) ، و ١٢ (٧٠) ، والدعوات ٦٩ (٦٤١١) ، صحیح مسلم/المنافقین ١٩ (٢٨٢١) (تحفة الأشراف : ٩٢٥٤) ، و مسند احمد (١/٣٧٧، ٤٢٥، ٤٤٠، ٤٤٣، ٤٦٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ وعظ و نصیحت کے لیے وقفے وقفے کے ساتھ کچھ وقت مقرر کرنا چاہیئے ، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے لوگوں پر اکتاہٹ طاری ہونے کا خطرہ ہے جس سے وعظ و نصیحت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2855 اس سند سے بھی سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2855
فصاحت اور بیان کے متعلق
ابوصالح سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ (رض) سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ پسند تھا ؟ ، ان دونوں نے جواب دیا کہ وہ عمل جو گرچہ تھوڑا ہو لیکن اسے مستقل اور برابر کیا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (التحة : ١٦٠٧٢) ، و راجع ماعند صحیح البخاری/التھجد ٧ (١١٣٢) ، وصحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1238) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2856
فصاحت اور بیان کے متعلق
جابر (رض) سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (رات میں) برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو اور مشکوں کے منہ باندھ دیا کرو، گھر کے دروازے بند کردیا کرو، اور چراغوں کو بجھا دیا کرو کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چوہیا چراغ کی بتی کھینچ لے جاتی ہے اور گھر والوں کو جلا ڈالتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث متعدد سندوں سے جابر سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٨١٢ (تحفة الأشراف : ٢٤٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ومضی (1813) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا برقم (1479 - 1888) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2857
فصاحت اور بیان کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم ہریالی اور شادابی کے زمانہ میں سفر کرو تو اونٹ کو زمین سے اس کا حق دو (یعنی جی بھر کر چر لینے دیا کرو) اور جب تم خزاں و خشکی اور قحط کے دنوں میں سفر کرو اس کی قوت سے فائدہ اٹھا لینے میں کرو تو جلدی ١ ؎ اور جب تم رات میں قیام کے لیے پڑاؤ ڈالو تو عام راستے سے ہٹ کر قیام کرو، کیونکہ یہ (راستے) رات میں چوپایوں کے راستے اور کیڑوں مکوڑوں کے ٹھکانے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٤ (١٩٢٦) ، سنن ابی داود/ الجھاد ٦٣ (٢٥٦٩) (تحفة الأشراف : ١٢٧٠٦) ، و مسند احمد (٢/٣٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کوشش کر کے جلد منزل پر پہنچ جاؤ ، کیونکہ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے چارے کی کمی کے باعث اونٹ کمزور پڑگیا تو تم پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1357) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2858