4. جمعہ کا بیان
جمعہ کے دن کے فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا، جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا، اور قیامت بھی اسی دن قائم ہوگی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابولبابہ، سلمان، ابوذر، سعد بن عبادہ اور اوس بن اوس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٥ (٨٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٨٨٢) ، مسند احمد (٢/٤٠١، ١٤٨، ٤٥١، ٤٨٦، ٥٠١، ٥٤٠) ، وانظر أیضا ما یأتي برقم ٤٩١ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دن بڑے بڑے امور سرانجام پائے ہیں کہ جن سے جمعہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (961) ، صحيح أبي داود (961) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 488
جمعہ کے دن کی وہ ساعت جس میں دعا کی قبولیت کی امید ہے
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے روز اس گھڑی کو جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے عصر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کے درمیان تلاش کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ٢- یہ حدیث انس (رض) سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ٣- محمد بن ابی حمید ضعیف گردانے جاتے ہیں، بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان کی تضعیف کی ہے، انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے، نیز کہا جاتا ہے کہ یہی ابوابراہیم انصاری ہیں اور یہ منکرالحدیث ہیں، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ گھڑی جس میں قبولیت دعا کی امید کی جاتی ہے عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ احمد کہتے ہیں : اس گھڑی کے سلسلے میں جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے زیادہ تر حدیثیں یہی آئی ہیں کہ یہ عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، نیز سورج ڈھلنے کے بعد بھی اس کے ہونے کی امید کی جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦١٩) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی محمد بن ابی حمید ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا) وضاحت : ١ ؎ : اس بابت متعدد روایات ہیں ، دیکھئیے اگلی حدیثیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (1360) ، التعليق الرغيب (1 / 251) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 489
جمعہ کے دن کی وہ ساعت جس میں دعا کی قبولیت کی امید ہے
عمرو بن عوف مزنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جو کچھ بھی اس میں مانگتا ہے اللہ اسے عطا کرتا ہے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کون سی گھڑی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز (جمعہ) کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر اس سے پلٹنے یعنی نماز ختم ہونے تک ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمرو بن عوف کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابوموسیٰ ، ابوذر، سلمان، عبداللہ بن سلام، ابولبابہ، سعد بن عبادہ اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٩ (١١٣٨) (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٣) (ضعیف جداً ) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، کثیر ضعیف راوی ہیں، اور ان کے والد عبداللہ عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی مقبول یعنی متابعت کے وقت ورنہ ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : قبولیت دعا کی اس گھڑی کے وقت کے بارے میں یہی ٹکڑا اس حدیث میں ضعیف ہے ، نہ کہ مطلق حدیث ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (1138) // ضعيف سنن ابن ماجة (235) ، ضعيف الجامع الصغير (1890) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 490
جمعہ کے دن کی وہ ساعت جس میں دعا کی قبولیت کی امید ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے، اسی دن وہ جنت سے (زمین پر اتارے گئے) اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جسے مسلم بندہ نماز کی حالت میں پائے اور اللہ سے اس میں کچھ طلب کرے تو اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : پھر میں عبداللہ بن سلام سے ملا اور ان سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : میں یہ گھڑی اچھی طرح جانتا ہوں، میں نے کہا : مجھے بھی اس کے بارے میں بتائیے اور اس سلسلہ میں مجھ سے بخل نہ کیجئے، انہوں نے کہا : یہ عصر کے بعد سے لے کر سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، اس پر میں نے کہا : یہ عصر کے بعد کیسے ہوسکتی ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اسے مسلمان بندہ حالت نماز میں پائے اور یہ وقت ایسا ہے جس میں نماز نہیں پڑھی جاتی ؟ تو عبداللہ بن سلام نے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں کسی جگہ بیٹھا رہے تو وہ بھی نماز ہی میں ہوتا ہے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور فرمایا ہے تو انہوں نے کہا : تو یہی مراد ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، ٢- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٣- اور آپ کے اس قول «أخبرني بها ولا تضنن بها علي» کے معنی ہیں اسے مجھے بتانے میں بخل نہ کیجئے، «ضنّ» کے معنی بخل کے ہیں اور «ظنين» کے معنی، متہم کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٧ (١٠٤٦) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٥ (١٤٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٠٠٠) ، موطا امام مالک/الجمعة ٧ (١٦) (صحیح) وقد رواہ بدون ذکر القصة مقتصرا علی الحدیث المرفوع کل من : صحیح البخاری/الجمعة ٣٧ (٩٣٥) ، والطلاق ٢٤ (٥٢٩٤) ، والدعوات ٦١ (٦٤٠٠) ، و صحیح مسلم/الجمعة ٤ (٨٥٢) ، و سنن النسائی/الجمعة ٤٥ (١٤٣٢، ١٤٣٣) ، و سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٩ (١١٣٧) ، وط/الجمعة ٧ (١٥) و مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٥٥، ٢٧٢، ٢٠٨، ٢٨٤، ٤٠٣، ٤٥٧، ٤٦٩، ٤٨١، ٤٨٩) ، وسنن الدارمی/الصلاة ٢٠٤ (١٦١٠) وضاحت : ١ ؎ : صحیح مسلم میں ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر خطبہ سے فراغت کے درمیان ہے یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ، اس لیے بقول امام احمد اور ابن عبدالبر دونوں وقتوں میں دعا میں کوشش کرنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1139) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 491
جمعہ کے دن غسل کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کرلے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس بات میں عمر، ابو سعید خدری، جابر، براء، عائشہ اور ابو الدرداء سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة (٨٤٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦٨٣٣) ، مسند احمد (٢/٤١، ٤٢، ٥٣، ٧٥، ١٠١، ١١٥، ١٤١، ١٤٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے ، اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری ( استحباب ) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے تیرا حق مجھ پر واجب ہے یعنی مؤکد ہے ، نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اور عقوبت ہو۔ ( اس تاویل کی وجہ حدیث رقم ٤٩٧ ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1088) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 492
None
نیز ابن شہاب زہری سے یہ حدیث بطریق: «الزهري عن عبد الله بن عبد الله بن عمر عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی مروی ہے، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: «سالم عن أبيه عبدالله بن عمر» روایت کی ہے اور جو حدیث انہوں نے بطریق: «عبدالله بن عبدالله بن عمر عن أبيه عبدالله بن عمر» روایت کی ہے دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اور زہری کے بعض تلامذہ نے اسے بطریق: «الزهري عن آل عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر» روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: جمعہ کے دن کے غسل کے سلسلہ میں بطریق: «ابن عمر عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرفوعاً مروی ہے، ( جو آگے آ رہی ہے ) اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
None
عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران صحابہ میں سے ایک شخص ۱؎ ( مسجد میں ) داخل ہوئے، تو عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: یہ کون سا وقت ( آنے کا ) ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے صرف اتنی دیر کی کہ اذان سنی اور بس وضو کر کے آ گیا ہوں، اس پر عمر رضی الله عنہ نے کہا: تم نے صرف ( وضو ہی پر اکتفا کیا ) حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم دیا ہے؟
None
زہری سے یہی حدیث مروی ہے۔ اور مالک نے بھی یہ حدیث بطریق: «عن الزہری عن سالم» روایت کی ہے، وہ سالم بن عمر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس سلسلے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے بطریق: «سالم عن أبیہ» روایت کی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مالک سے بھی اسی حدیث کی طرح مروی ہے، انہوں نے بطریق: «الزهري عن سالم عن أبيه» بھی روایت کی ہے۔
جمعہ کے دن غسل کرنے کی فضلیت کے بارے میں
اوس بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور غسل کرایا، اور سویرے پہنچا، شروع سے خطبہ میں شریک رہا، امام کے قریب بیٹھا اور غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اسے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور رات کے قیام کا ثواب ملے گا ۔ وکیع کہتے ہیں : اس کا معنی ہے کہ اس نے خود غسل کیا اور اپنی عورت کو بھی غسل کرایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اوس بن اوس کی حدیث حسن ہے، ٢- عبداللہ بن مبارک نے اس حدیث کے سلسلہ میں کہا ہے کہ «من غسل واغتسل» کے معنی ہیں : جس نے اپنا سر دھویا اور غسل کیا، ٣- اس باب میں ابوبکر، عمران بن حصین، سلمان، ابوذر، ابوسعید، ابن عمر، اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٢٩ (٣٤٥) ، سنن النسائی/الجمعة ١٠ (١٣٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٠ (١٠٨٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٥) ، مسند احمد ٤/٨، ٩، ١٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٤ (١٥٨٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1087) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 496
جمعہ کے دن وضو کرنا
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس نے رخصت کو اختیار کیا اور خوب ہے یہ رخصت، اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سمرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- قتادہ کے بعض تلامذہ نے تو یہ حدیث قتادہ سے اور قتادہ نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے سمرہ بن جندب سے (مرفوعاً ) روایت کی ہے۔ اور بعض نے قتادہ سے اور قتادہ نے حسن سے اور حسن نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ٣- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، انہوں نے جمعہ کے دن کے غسل کو پسند کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ غسل کے بدلے وضو بھی کافی ہوجائے گا، ٥- شافعی کہتے ہیں : جمعہ کے روز نبی اکرم ﷺ کے غسل کے حکم کے وجوبی ہونے کے بجائے اختیاری ہونے پر جو چیزیں دلالت کرتی ہیں ان میں سے عمر (رض) کی حدیث بھی ہے جس میں انہوں نے عثمان (رض) سے کہا ہے کہ تم نے صرف وضو پر اکتفا کیا ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا ہے، اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ یہ حکم واجبی ہے، اختیاری نہیں تو عمر (رض) عثمان (رض) کو لوٹائے بغیر نہ چھوڑتے اور ان سے کہتے : جاؤ غسل کرو، اور نہ ہی عثمان (رض) سے اس بات کے جاننے کے باوجود کہ نبی اکرم ﷺ نے جمعہ کو غسل کرنے کا حکم دیا ہے اس کے وجوب کی حقیقت مخفی رہتی، بلکہ اس حدیث میں صاف دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل افضل ہے نہ کہ واجب۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٠ (٣٥٤) ، سنن النسائی/الجمعة ٩ (١٣٨١) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٨٧) ، مسند احمد (٥/١٥، ١٦، ٢٢) (صحیح) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ (رض) سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کا غسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضو کی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھا قرار دیا گیا ہے اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1091) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 497
جمعہ کے دن وضو کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا : جس نے وضو کیا اور اچھی طرح کیا ١ ؎ پھر جمعہ کے لیے آیا ٢ ؎، امام کے قریب بیٹھا، غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے ٣ ؎ کے گناہ ٤ ؎ بخش دیئے جائیں گے۔ اور جس نے کنکریاں ہٹائیں تو اس نے لغو کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٨ (٨٥٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٩ (١٠٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٢ (١٠٢٥) ، و ٨١ (١٠٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٤٠٥) ، مسند احمد (٢/٤٢٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اچھی طرح وضو کیا کا مطلب ہے سنت کے مطابق وضو کیا۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ گھر سے وضو کر کے مسجد میں آنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔ ٣ ؎: یعنی دس دن کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک نیکی کا اجر کم سے کم دس گنا ہے۔ ٤ ؎ : اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1090) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 498
جمعہ کی نماز کے لئے جلدی جانا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے روز جنابت کے غسل کی طرح (یعنی خوب اہتمام سے) غسل کیا پھر نماز جمعہ کے لیے (پہلی گھڑی میں ) گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا، اور جو اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا اور جو چوتھی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کر کے اللہ کا تقرب حاصل کیا، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، پھر جب امام خطبہ کے لیے گھر سے نکل آیا تو فرشتے ذکر سننے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٤ (٨٨١) ، و ٣١ (٩٢٩) ، وبدء الخلق ٦ (٣٢١١) ، صحیح مسلم/الجمعة ٧ (٨٥٠) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٢٩ (٣٥١) ، سنن النسائی/الإمامة ٥٩ (٨٦٥) ، والجمعة ١٣ (١٣٨٦) ، و ١٤ (١٣٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٢ (١٠٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٥٦٩) ، موطا امام مالک/الجمعة ١ (١) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٩، ٢٨٠، ٥٠٥، ٥١٢) سنن الدارمی/الصلاة ١٩٣ (١٥٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نام درج کرنے والا رجسٹر بند کر کے خطبہ سننے لگتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1092) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 499
بغیر عذر جمعہ ترک کرنا
ابوالجعد ضمری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو جمعہ تین بار سستی ١ ؎ سے حقیر جان کر چھوڑ دے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوالجعد کی حدیث حسن ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ابوالجعد ضمری کا نام پوچھا تو وہ نہیں جان سکے، ٣- اس حدیث کے علاوہ میں ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتا جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، ٤- ہم اس حدیث کو صرف محمد بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢١٠ (١٠٥٢) ، سنن النسائی/الجمعة ١ (١٣٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٣ (١١٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٨٣) ، مسند احمد (٣/٤٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٥ (١٦١٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل جمعہ چھوڑنا ایک خطرناک کام ہے ، اس سے دل پر مہر لگ سکتی ہے جس کے بعد اخروی کامیابی کی امید ختم ہوجاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1125) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 500
کتنی دور سے جمعہ میں حاضر ہو
اہل قباء میں سے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتا ہے - اس کے والد صحابہ میں سے ہیں - وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قباء سے آ کر جمعہ میں شریک ہوں۔ اس سلسلے میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت کی گئی ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور اس باب میں نبی اکرم ﷺ سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں ہے، ٢- ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جمعہ اس پر فرض ہے جو رات کو اپنے گھر والوں تک پہنچ سکے ، اس حدیث کی سند ضعیف ہے، یہ حدیث معارک بن عباد سے روایت کی جاتی ہے اور معارک عبداللہ بن سعید مقبری سے روایت کرتے ہیں، یحییٰ بن سعید قطان نے عبداللہ بن سعید مقبری کی حدیث کی تضعیف کی ہے، ٣- اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ جمعہ کس پر واجب ہے، بعض کہتے ہیں : جمعہ اس شخص پر واجب ہے جو رات کو اپنے گھر پہنچ سکے اور بعض کہتے ہیں : جمعہ صرف اسی پر واجب جس نے اذان سنی ہو، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٦٩) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی ” رجل من اھل قباء “ مبہم ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 501 میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا کہ ہم لوگ احمد بن حنبل کے پاس تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ جمعہ کس پر واجب ہے ؟ تو امام احمد نے اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی چیز ذکر نہیں کی، احمد بن حسن کہتے ہیں : تو میں نے احمد بن حنبل سے کہا : اس سلسلہ میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، تو امام احمد نے پوچھا کیا نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے ؟ میں نے کہا : ہاں (نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے) ، پھر احمد بن حسن نے «حجاج بن نصير حدثنا معارک بن عباد عن عبد اللہ بن سعيد المقبري عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : جمعہ اس پر واجب ہے جو رات کو اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آسکے ، احمد بن حسن کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل مجھ پر غصہ ہوئے اور مجھ سے کہا : اپنے رب سے استغفار کرو، اپنے رب سے استغفار کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : احمد بن حنبل نے ایسا اس لیے کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو کوئی حیثیت نہیں دی اور اسے کسی شمار میں نہیں رکھا، سند کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٩٦٥) (ضعیف جداً ) (اس کے تین راوی ضعیف ہیں : عبداللہ بن سعید متروک، اور حجاج بن نصیر اور معارک دونوں ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، المشکاة (1386) // ضعيف الجامع الصغير (2661) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 502
وقت جمعہ کے بارے میں
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٦ (٩٠٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٢٤ (١٠٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٨٩) ، مسند احمد (٣/١٢٨، ٢٢٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الأجوبة النافعة، صحيح أبي داود (995) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 503
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔
None
انس رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سلمہ بن الاکوع، جابر اور زبیر بن عوام رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اسی پر اکثر اہل علم کا اجماع ہے کہ جمعہ کا وقت ظہر کے وقت کی طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض کی رائے ہے کہ جمعہ کی نماز جب زوال سے پہلے پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔ احمد کہتے ہیں: جس نے جمعہ کی نماز زوال سے پہلے پڑھ لی تو اس پر دہرانا ضروری نہیں۔
منبر پر خطبہ پڑھنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کھجور کے ایک تنے پر (کھڑے ہو کر) خطبہ دیتے تھے، جب آپ ﷺ نے منبر بنا لیا تو وہ تنا رو پڑا یہاں تک کہ آپ اس کے پاس آئے اور اسے چمٹا لیا تو وہ چپ ہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، جابر، سہل بن سعد، ابی بن کعب، ابن عباس اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٥٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٤٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2174) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 505
منبر پر خطبہ پڑھنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دیتے پھر (بیچ میں) بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے، راوی کہتے ہیں : جیسے آج کل تم لوگ کرتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، جابر بن عبداللہ اور جابر بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- یہی اہل علم کی رائے ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فصل کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٧ (٩٢٠) ، و ٣٠ (٩٢٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٧٨٧٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1002) ، الإرواء (604) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 506
خطبہ مختصر پڑھنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتا تھا تو آپ کی نماز بھی درمیانی ہوتی تھی اور خطبہ بھی درمیانا ہوتا تھا۔ (یعنی زیادہ لمبا نہیں ہوتا تھا) امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر بن سمرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمار بن یاسر اور ابن ابی اوفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٦٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٢٩ (١١٠١) ، سنن النسائی/العیدین ٢٦ (١٥٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٥ (١١٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ٢١٦٧) ، مسند احمد (٥/٩١، ٩٣-٩٥، ٩٨، ١٠٠، ١٠٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٩ (١٥٩٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1106) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 507
منبر پر قرآن پڑھنا
یعلیٰ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر پڑھتے سنا : «ونادوا يا مالک» ١ ؎ اور وہ پکار کر کہیں گے اے مالک ! امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یعلیٰ بن امیہ (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، اور یہی ابن عیینہ کی حدیث ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر بن سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کی ایک جماعت نے امام کے خطبہ میں قرآن کی کچھ آیتیں پڑھنے کو پسند کیا ہے ٢ ؎، شافعی کہتے ہیں : امام جب خطبہ دے اور اس میں قرآن کچھ نہ پڑھے تو خطبہ دہرائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٣٠) ، و ١٠ (٣٢٦٦) ، وتفسیر الزخرف ١ (٤٨١٩) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : الزخرف : ٧٧ («مالک» جہنم کے دروغہ کا نام ہے جس کو جہنمی پکار کر کہیں گے کہ اپنے رب سے کہو کہ ہمیں موت ہی دیدے تاکہ جہنم کے عذاب سے نجات تو مل جائے ، جواب ملے گا : یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہنا ہے ) ٢ ؎ : صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ جمعہ میں سورة ق پوری پڑھا کرتے تھے ، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور وعظ ونصیحت کے قرآن کی کوئی آیت پڑھنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (3 / 75) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 508
خطبہ دیتے وقت امام کی طرف منہ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب منبر پر بیٹھتے تو ہم اپنا منہ آپ کی طرف کرلیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- منصور کی حدیث کو ہم صرف محمد بن فضل بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- محمد بن فضل بن عطیہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ضعیف اور ذاہب الحدیث ہیں، ٣- اس باب میں نبی اکرم ﷺ سے روایت کی گئی کوئی چیز صحیح نہیں ہے ١ ؎، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ خطبے کے وقت امام کی طرف رخ کرنا مستحب سمجھتے ہیں اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٥- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٤٥٧) (صحیح) (یہ سند سخت ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں راوی محمد بن فضل بن عطیہ کی لوگوں نے تکذیب تک کی ہے، لیکن براء بن عازب اور ابن عمر، انس اور ابو سعید خدری وغیرہ سے مروی شواہد کی بنا پر صحابہ کا یہ تعامل صحیح اور ثابت ہے تفصیل کے لیے دیکھئے : الصحیحة ٢٠٨٠) وضاحت : ١ ؎ : سند کے لحاظ سے اس باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے لیکن متعدد احادیث وآثار سے اس مضمون کو تقویت مل جاتی ہے ( دیکھئیے الصحیحۃ رقم ٢٠٨٠) عام مساجد میں یہ چیز تو بہت آسان ہے لیکن خانہ کعبہ میں مشکل ہے ، تو وہاں یہ بات معاف ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2080) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 509
امام کے خطبہ دیتے ہوئے آنے والا شخص دو رکعت پڑھے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا تو آپ نے اسے پوچھا : کیا تم نے نماز پڑھ لی ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اٹھو اور (دو رکعت) نماز پڑھ لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢٥ (١١٢٦) ، والجمعة ٣٢ (٩٣٠) ، و ٣٣ (٩٣١) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٤ (٨٧٥) ، سنن النسائی/الجمعة ٢١ (١٤٠١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٧ (١١١٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥١١) ، مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣٠٨، ٣٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٦ (١٤٠٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1112) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 510
امام کے خطبہ دیتے ہوئے آنے والا شخص دو رکعت پڑھے
عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری (رض) جمعہ کے دن (مسجد میں) داخل ہوئے، مروان بن حکم خطبہ دے رہے تھے، وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، پہریدار آئے تاکہ انہیں بٹھا دیں لیکن وہ نہیں مانے اور نماز پڑھ ہی لی، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے ان کے پاس آ کر کہا : اللہ آپ پر رحم فرمائے قریب تھا کہ یہ لوگ آپ سے ہاتھا پائی کر بیٹھتے، تو انہوں نے کہا : میں تو یہ دونوں رکعتیں ہرگز چھوڑنے والا تھا نہیں، بعد اس کے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے، پھر انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص جمعہ کے دن پراگندہ حالت میں آیا، نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، اس نے دو رکعتیں پڑھیں اور نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں : سفیان بن عیینہ جب مسجد میں آتے اور امام خطبہ دے رہا ہوتا تو دو رکعتیں پڑھتے تھے، وہ اس کا حکم بھی دیتے تھے، اور ابوعبدالرحمٰن المقری بھی اسے درست سمجھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- میں نے ابن ابی عمر کو کہتے سنا کہ سفیان بن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ ہیں اور حدیث میں مامون ہیں، ٣- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور سہل بن سعد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جب کوئی مسجد میں داخل ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ بیٹھ جائے نماز نہ پڑھے، یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے، ٥- پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٣٩ (١٦٧٥) ، (مختصرا) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٦ (١٤٠٩) ، والزکاة ٥٥ (٢٥٣٧) ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٧٢) ، مسند احمد (٣/٢٥) ، (کلہم بدون ذکر قصة مروان) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے مسجد میں داخل ہوتے وقت دو رکعت تحیۃ المسجد کی تاکید ثابت ہوتی ہے ، اس باب میں اور بہت سی احادیث ہیں حتیٰ کہ تحیۃ المسجد کے لیے مکروہ اوقات کی بھی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ یہ سببی صلاۃ ہے ، ہاں اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہو کہ جب کسی فرض وسنت صلاۃ کا وقت تھا تو فرض وسنت صلاۃ سے تحیۃ المسجد کی بھی ادائیگی ہو جائیگی۔ قال الشيخ الألباني : (حكاية عياض بن عبد اللہ بن أبي السرح عن أبي سعيد الخدري) حسن صحيح، (قول العلاء بن خالد القرشي عن الحسن البصري) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (1113) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 511
جب امام خطبہ پڑھتا ہو تو کلام مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران کسی سے کہا : چپ رہو تو اس نے لغو بات کی یا اس نے اپنا جمعہ لغو کرلیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن ابی اوفی اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اسی پر عمل ہے، علماء نے آدمی کے لیے خطبہ کے دوران گفتگو کرنا مکروہ جانا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی دوسرا گفتگو کرے تو اسے بھی منع نہ کرے سوائے اشارے کے، ٤- البتہ دوران خطبہ سلام کے جواب دینے اور چھینکنے والے کے جواب میں «يرحمک الله» کہنے کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض اہل علم نے دوران خطبہ سلام کا جواب دینے اور چھینکنے والے کے جواب میں «يرحمک الله» کہنے کی اجازت دی ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، اور یہی شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٦ (٩٣٤) ، صحیح مسلم/الجمعة ٣ (٨٥١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٣٥ (١١١٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٢ (١٤٠٢) ، والعیدین ٢١ (١٥٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٦ (١١١٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٢٠٦) ، موطا امام مالک/الجمعة ٢ (٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٢٧٢، ٢٨٠، ٣٩٣، ٣٩٦، ٤٨٥، ٥١٨، ٥٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٥ (١٥٨٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے جمعہ کی فضیلت نہیں ملی بلکہ اس سے محروم رہا ، یہ معنی نہیں کہ اس کی نماز ہی نہیں ہوئی کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس کی نماز جمعہ ادا ہوجائے گی ، البتہ وہ جمعہ کی فضیلت سے محروم رہے گا ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ پورے انہماک اور توجہ سے سننا چاہیئے ، اور خطبہ کے دوران کوئی ناروا حرکت نہیں کرنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 512
جمعہ کے دن لوگوں کو پھلانگ کر آگے جانا مکروہ ہے
معاذ بن انس جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے دن جس نے لوگوں کی گردنیں پھاندیں اس نے جہنم کی طرف لے جانے والا پل بنا لیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔ سہل بن معاذ بن انس جہنی کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف رشد بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- البتہ اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ انہوں نے اس بات کو مکروہ سمجھا ہے، کہ آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے اور انہوں نے اس میں سختی سے کام لیا ہے۔ اور ان کے حفظ کے تعلق سے انہیں ضعیف گردانا ہے۔ بعض اہل علم نے رشدین بن سعد پر کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٨ (١١١٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٩٢) ، مسند احمد (٣/٤٣٧) (حسن) (سند میں رشدین بن سعد اور زبان بن فائد دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے حسن لغیرہ ہے، تراجع الالبانی ٤٥، السراج المنیر ١٥١٢، والصحیحہ ٣١٢٢) وضاحت : ١ ؎ : یہ ترجمہ «اتّخَذَ» معروف کے صیغے کا ہے مشہور اعراب مجہول کے صیغے «اتُّخِذَ» کے ساتھ ہے ، اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ جو جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے گا وہ جہنم کا پل بنادیا جائے گا جس پر چڑھ کر لوگ جہنم کو عبور کریں گے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1116) // ضعيف سنن ابن ماجة (230) ، المشکاة (1392) ، ضعيف الجامع الصغير (5516) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 513
امام کے خطبہ کے دوران احتباء مکروہ ہے
معاذ بن انس جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جمعہ کے دن جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ ملا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- عام اہل علم نے جمعہ کے دن حبوہ کو مکروہ جانا ہے، اور بعض نے اس کی رخصت دی ہے، انہیں میں سے عبداللہ بن عمر وغیرہ ہیں۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ دونوں امام کے خطبہ دینے کی حالت میں حبوہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٣٤ (١١١٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٩٩) ، مسند احمد (٣/٤٣٩) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : «حبوہ» ایک مخصوص بیٹھک کا نام ہے ، اس کی صورت یہ ہے کہ سرین پر بیٹھا جائے اور دونوں گھٹنوں کو کھڑا رکھا جائے اور انہیں دونوں ہاتھوں سے باندھ لیا جائے ، اس سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے نیند آتی ہے اور ہوا خارج ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (1293) ، صحيح أبي داود (1017) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 514
منبر پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے
حصین کہتے ہیں کہ بشر بن مروان خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے دعا ١ ؎ کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، تو میں نے عمارہ بن رویبہ کو کہتے سنا : اللہ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کو غارت کرے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ صرف اس طرح کرتے تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں، اور ہشیم نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٧٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٣٠ (١١٠٤) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٩ (١٤١٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٣٧٧) ، مسند احمد (٤/١٣٥، ١٣٦، ٢٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠١ (١٦٠١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحیح مسلم میں «فی الدعاء» کا لفظ نہیں ہے ، مولف نے اسی لفظ سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ خطبہ جمعہ کی حالت میں دعا میں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے ، اور مسلم کی روایت کے مطابق حدیث کا مطلب ہے کہ خطبہ میں بہت زیادہ ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے اور وہ جو صحیح بخاری میں انس (رض) سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے دوران خطبہ بارش کے لیے دعا کی اور ہاتھ اٹھایا ، تو بقول بعض ائمہ یہ استسقاء ( بارش کے طلب ) کی دعا تھی اس لیے اٹھایا تھا ، صحیح بات یہ ہے کہ عمارہ بن رویبہ نے مطلق حالت خطبہ میں ہاتھوں کو زیادہ حرکت کی بابت تنبیہ کی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1012) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 515
جمعہ کی اذان
سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور (دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ١ ؎ پھر جب عثمان (رض) خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ٢ ؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢١ (٩١٢) ، و ٢٢ (٩١٣) ، و ٢٤ (٩١٥) ، و ٢٥ (٩١٦) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٢٥ (١٠٨٧) ، سنن النسائی/الجمعة ١٥ (١٣٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٧ (١١٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٩٩) ، مسند احمد (٣/٤٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔ ٢ ؎ : زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔ ٣ ؎ : عثمان (رض) نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی ، اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کردی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان (رض) کی سنت ہے ، اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے ، ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی ، جس ضرورت کے تحت عثمان (رض) یہ زائد اذان دلوائی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1135) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 516
امام کا منبر سے اترنے کا بعد بات کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ضرورت کی بات اس وقت کرتے جب آپ منبر سے اترتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ہم اس حدیث کو صرف جریر بن حازم کی روایت سے جانتے ہیں، اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جریر بن حازم کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، اور صحیح وہی ہے جو بطریق : «ثابت عن أنس» مروی ہے، انس (رض) کہتے ہیں کہ نماز کھڑی ہوئی اور ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کا ہاتھ پکڑا تو آپ برابر اس سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : حدیث یہی ہے، اور جریر کو کبھی کبھی وہم ہوجاتا ہے حالانکہ وہ صدوق ہیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ جریر بن حازم کو ثابت کی حدیث میں (بھی) جسے ثابت نے انس سے اور انس نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے وہم ہوا ہے (جو یہ ہے کہ) آپ نے فرمایا : جب نماز کھڑی ہوجائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : نیز حماد بن زید سے روایت کی جاتی ہے کہ ہم لوگ ثابت بنانی کے پاس تھے، اور حجاج صواف نے یحییٰ ابن ابی کثیر کے واسطہ سے حدیث بیان کی، جسے یحییٰ نے عبداللہ بن ابوقتادہ سے اور عبداللہ نے اپنے والد ابوقتادہ سے اور ابوقتادہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : جب نماز کھڑی ہوجائے تو تم کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو چناچہ جریر کو وہم ہوا، انہیں گمان ہوا کہ ثابت نے ان سے بیان کیا ہے اور ثابت نے انس سے اور انس نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤٠ (١١٢٠) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٦ (١٤٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٩ (١١١٧) ، ( تحفة الأشراف : ٢٦٠) ، مسند احمد (٣/١٢٧) (شاذ) (جریر سے وہم ہوا ہے، واقعہ عشاء کا ہے، نہ کہ جمعہ کا، جیسا کہ مسلم کی حدیث نمبر ٣٧٠ میں ہے) قال الشيخ الألباني : شاذ، والمحفوظ الذي بعده .، ابن ماجة (1117) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 517
None
نماز کھڑی ہو جانے کے بعد میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سے ایک آدمی باتیں کر رہا ہے، اور آپ اس کے اور قبلے کے درمیان کھڑے ہیں، آپ برابر اس سے گفتگو کرتے رہے، میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طول قیام کی وجہ سے بعض لوگ اونگھ رہے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جمعہ کی نماز میں قرأت کے بارے میں
عبیداللہ بن ابی رافع کہتے ہیں : مروان نے ابوہریرہ (رض) کو مدینے میں اپنا نائب مقرر کیا اور وہ خود مکہ کی طرف نکلے، ابوہریرہ (رض) نے ہمیں جمعہ کے دن نماز پڑھائی تو انہوں نے (پہلی رکعت میں) سورة الجمعہ پڑھی اور دوسری رکعت میں «إذا جاءک المنافقون» ، عبیداللہ کہتے ہیں : تو میں ابوہریرہ (رض) سے ملا، میں نے ان سے کہا : آپ نے دو ایسی سورتیں پڑھی ہیں جنہیں علی (رض) کوفہ میں پڑھتے ہیں، اس پر ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں نے ان دونوں سورتوں کو رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے سنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، نعمان بن بشیر اور ابوعنبہ خولانی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ جمعہ کی نماز میں «سبح اسم ربک الأعلی» اور «هل أتاک حديث الغاشية» پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤٢ (١١٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٠ (١١١٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٤١٠٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1118) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 519
جمعہ کے دن فجر کی نماز میں کیا پڑھے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں «الم تنزيل السجدةَ» ، «هل أتى علی الإنسان» پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سعد، ابن مسعود اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- سفیان ثوری، شعبہ اور کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث مخول بن راشد سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢١٨ (١٠٧٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٧ (٩٥٧) ، والجمعة ٣٨ (١٤٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦ (٨٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٥٦١٣) ، مسند احمد (١/٢٢٦، ٣٠٧، ٣١٦، ٣٢٨، ٣٣٤، ٣٥٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (821) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 520
جمعہ سے پہلے اور بعد کی نماز
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعت (سنت) پڑھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- یہ حدیث بطریق «نافع عن ابن عمر» ہے، ٤- اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے، اور یہی شافعی اور احمد بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤٤ (١١٣٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٣ (١٤٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٥ (١١٣١) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٠١) ، وکذا (٦٩٤٨) ، مسند احمد (٢/١١، ٣٥، ٧٥، ٧٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں جمعہ کے بعد صرف دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے ، اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت آئی ہے جس میں چار رکعتیں پڑھنے کا حکم ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں صورتیں جائز ہیں ، بعض علماء نے یہ تطبیق دی ہے کہ مسجد میں پڑھنے والا چار رکعت پڑھے ، اور گھر میں پڑھے تو دو رکعت پڑھے کچھ لوگ چھ رکعت کے قائل ہیں ، لیکن کسی بھی صحیح مرفوع روایت سے یہ ثابت نہیں کہ کس طرح پڑھی جائے ، اس میں بھی اختلاف ہے ، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چاروں رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں اور بعض کا کہنا ہے کہ دو دو کر کے چار رکعت پڑھی جائیں ، لیکن بہتر یہ ہے کہ دو دو کر کے پڑھی جائیں کیونکہ صحیح حدیث میں ہے «صلاۃ اللیل والنہار مثنیٰ مثنیٰ» رات اور دن کی نفل نماز دو دو رکعت کر کے پڑھنا ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1131) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 521
جمعہ سے پہلے اور بعد کی نماز
نافع سے روایت ہے ابن عمر (رض) جب جمعہ پڑھ لیتے تو (گھر) واپس آتے اور دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے پھر کہتے رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٨٢٧٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1130) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 522
جمعہ سے پہلے اور بعد کی نماز
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو تم میں سے جمعہ کے بعد نماز پڑھے تو چاہیئے کہ چار رکعت پڑھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
جو جمعہ کی ایک رکعت کو پا سکے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز میں ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی تو وہ دوسری رکعت (خود سے) پڑھ لے اور جس نے لوگوں کو سجدے میں پایا تو وہ چار رکعت (ظہر کی نماز) پڑھے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٩ (٥٨٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤١ (١١٢١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩١ (١١٢٢) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٦٥، ٢٧١، ٢٨٠، ٣٧٥، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جماعت کی فضیلت اس نے پالی ، یا اس نے نماز کا وقت پا لیا ، اس کے عموم میں جمعہ کی نماز بھی داخل ہے ، اس لیے جمعہ کی دو رکعتوں میں اگر کوئی ایک رکعت بھی پالے تو گویا اس نے پوری نماز جمعہ جماعت سے پالی۔ ٢ ؎ : کیا نماز جمعہ میں امام کے ساتھ دوسری رکعت کے کسی بھی حصے میں شامل ہونے والا ظہر کی پوری چار رکعت پڑھے گا یا صرف دو رکعت مکمل کرے گا ؟ اس موضوع پر تفصیل جاننے کے لیے قول ثابت اردو شرح مؤطا امام مالک کی کتاب وقوف الصلاۃ کے باب وقت الجمعۃ کا مطالعہ کرلیں ، بموجب صحیح مسلک بالاختصار یہ ہے کہ ایسا مقتدی دو رکعت ہی پڑھے ، چار نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1122) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 524
جمعہ کے دن قیلولہ
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جمعہ کے بعد ہی کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سہل بن سعد کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٤٠ (٩٣٩) ، والحرث ٢١ (٢٣٤٩) ، والاطعمة ١٧ (٥٤٠٣) ، والاستئذان ١٦ (٦٢٤٨) ، و ٣٩ (٦٢٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٤ (١٠٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦٩٨) ، مسند احمد (٥/٣٣٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1099) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 525
جو اونگھے جمعہ میں تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ جائے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن اونگھے تو اپنی جگہ بدل دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٢٣٩ (١١١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٠٦) ، مسند احمد (٢/٢٢، ١٣٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1025) ، التعليق علی ابن خزيمة (1819) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 526
جمعہ کے دن سفر کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن رواحہ (رض) کو ایک سریہ میں بھیجا، اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا، ان کے ساتھی صبح سویرے روانہ ہوگئے، انہوں نے (اپنے جی میں) کہا : میں پیچھے رہ جاتا ہوں، اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہوں۔ پھر میں ان لوگوں سے جا ملوں گا، چناچہ جب انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا : تمہیں کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے روک دیا ؟ ، عرض کیا : میں نے چاہا کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھ لوں پھر میں ان سے جا ملوں گا۔ آپ نے فرمایا : اگر تم جو کچھ زمین میں ہے سب خرچ کر ڈالو تو بھی ان کے صبح روانہ ہونے کا ثواب نہیں پاس کو گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم صرف اسی سند سے اسے جانتے ہیں، ٢- یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ شعبہ کہتے ہیں کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ حدیثیں سنی ہیں اور شعبہ نے انہیں گن کر بتایا تو یہ حدیث شعبہ کی گنی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی۔ گویا حکم نے یہ حدیث مقسم سے نہیں سنی ہے، ٣- جمعہ کے دن سفر کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے جمعہ کے دن سفر پر نکلنے میں کوئی حرج نہیں جانا ہے جب کہ نماز کا وقت نہ ہوا ہو اور بعض کہتے ہیں، جب جمعہ کی صبح ہوجائے تو جمعہ پڑھے بغیر نہ نکلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر : مسند احمد (١/٢٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٧١) (ضعیف الإسناد) (حکم نے یہ حدیث مقسم سے نہیں سنی ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے سفر کی مشروعیت پر دلالت کر رہی ہے ، لیکن ضعیف ہے ، مگر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے خاص طور پر زوال کے بعد سفر سے ممانعت کی کوئی صحیح حدیث وارد بھی نہیں ہے اس لیے اس بابت علماء میں اختلاف ہے کہ کیا بہتر ہے ؟ دونوں طرف لوگ گئے ہیں جس کا تذکرہ مولف نے کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 527
جمعہ کے دن مسواک اور خوشبو لگانا
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کریں اور ہر ایک اپنے گھر والوں کی خوشبو میں سے خوشبو لگائے، اگر اسے خوشبو میسر نہ ہو تو پانی ہی اس کے لیے خوشبو ہے ۔ اس باب میں ابوسعید (رض) اور ایک انصاری شیخ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر مسند احمد (٤/٢٨٢، ٢٨٣) (تحفة الأشراف : ١٧٨٧) (ضعیف) (سند میں اسماعیل التیمی اور یزید بن ابی زیاد دونوں ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1400) // ضعيف الجامع الصغير (2737) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 528
جمعہ کے دن مسواک اور خوشبو لگانا
اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- براء (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- ہشیم کی روایت (رقم ٥٢٩) اسماعیل بن ابراہیم تیمی کی روایت (رقم ٥٢٨) سے زیادہ اچھی ہے، ٣- اسماعیل بن ابراہیم تیمی کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف گردانا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (اس کے راوی ” یزید بن ابی زیاد “ ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : لیکن یزید بن ابی زیاد جن پر اس حدیث کا دارومدار ہے خود ضعیف ہیں۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 529