40. مثالوں کا بیان
اللہ تعالیٰ کی بندوں کے لئے مثال
نواس بن سمعان کلابی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال دی ہے، اس صراط مستقیم کے دونوں جانب دو گھر ہیں، ان گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ایک پکارنے والا اس راستے کے سرے پر کھڑا پکار رہا ہے، اور دوسرا پکارنے والا اوپر سے پکار رہا ہے، (پھر آپ نے یہ آیت پڑھی) «والله يدعوا إلى دار السلام ويهدي من يشاء إلى صراط مستقيم» اللہ تعالیٰ دارالسلام (جنت کی طرف) بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے ، تو وہ دروازے جو صراط مستقیم کے دونوں جانب ہیں وہ حدود اللہ ہیں ١ ؎ تو کوئی شخص جب تک پردہ کھول نہ دیا جائے، حدود اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور اوپر سے پکارنے والا اس کے رب کا واعظ ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن کو سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے زکریا بن عدی کو سنا وہ کہتے تھے کہ ابواسحاق فزاری نے کہا : بقیہ (راوی) تم سے جو ثقہ راویوں کے ذریعہ روایت کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی روایت نہ لو خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١١٧١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی محرمات مثلاً زنا اور شراب وغیرہ ، ان محرمات میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں پڑ سکتا جب تک خود سے بڑھ کر ان کا ارتکاب نہ کرنے لگے ، اور ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کے عذاب و عقاب کا مستحق ہوجائے گا۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے ، اور کھلے ہوئے دروازوں سے مراد اللہ کے محارم ہیں اور لٹکے ہوئے پردے اللہ کی حدود ہیں ، اور راستے کے سرے پر بلانے والا داعی قرآن ہے ، اور اس کے اوپر سے پکار نے والا داعی مومن کا دل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (191 و 192) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2859
اللہ تعالیٰ کی بندوں کے لئے مثال
جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا : میں نے خواب دیکھا ہے کہ جبرائیل میرے سر کے پاس ہیں اور میکائیل میرے پیروں کے پاس، ان دونوں میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہہ رہا تھا : ان کی کوئی مثال پیش کرو، تو اس نے آپ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : آپ سنیں، آپ کے کان ہمیشہ سنتے رہیں، آپ سمجھیں، آپ کا دل عقل (سمجھ، علم و حکمت) سے بھرا رہے۔ آپ کی مثال اور آپ کی امت کی مثال ایک ایسے بادشاہ کی ہے جس نے ایک شہر آباد کیا، اس شہر میں ایک گھر بنایا پھر ایک دستر خوان بچھایا، پھر قاصد کو بھیج کر لوگوں کو کھانے پر بلایا، تو کچھ لوگوں نے اس کی دعوت قبول کرلی اور کچھ لوگوں نے بلانے والے کی دعوت ٹھکرا دی (کچھ پرواہ ہی نہ کی) اس مثال میں یہ سمجھو کہ اللہ بادشاہ ہے، اور دار سے مراد اسلام ہے اور بیت سے مراد جنت ہے اور آپ اے محمد ! رسول و قاصد ہیں۔ جس نے آپ کی دعوت قبول کرلی وہ اسلام میں داخل ہوگیا اور جو اسلام میں داخل ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگیا تو اس نے وہ سب کچھ کھایا جو جنت میں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے اور وہ سندیں اس حدیث کی سند سے زیادہ صحیح ہیں، ٢ - یہ مرسل حدیث ہے (یعنی منقطع ہے) ٣ - سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ (رض) کو نہیں پایا ہے، ٤ - اس باب میں ابن مسعود (رض) سے بھی روایت ہے (جو آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢ (تعلیقا عقب حدیث رقم ٧٢٨١) (تحفة الأشراف : ٢٢٦٧) (صحیح) (سند میں سعید بن أبی ہلال، اور جابر کے درمیان انقطاع ہے، مگر دیگر سندوں سے یہ حدیث صحیح ہے، جیسے بخاری کی مذکورہ روایت ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2860
اللہ تعالیٰ کی بندوں کے لئے مثال
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء پڑھی۔ پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گئے (وہاں) انہیں (ایک جگہ) بٹھا دیا۔ پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں، اور ان سے کہا : ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا۔ تمہارے قریب بہت سے لوگ آ کر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا، اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے ۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : پھر رسول اللہ ﷺ جہاں جانا چاہتے تھے وہاں چلے گئے، اسی دوران کہ میں اپنے دائرہ کے اندر بیٹھا ہوا تھا کچھ لوگ میرے پاس آئے وہ جاٹ لگ رہے تھے ١ ؎، ان کے بال اور جسم نہ مجھے ننگے دکھائی دے رہے تھے اور نہ ہی (ان کے جسموں پر مجھے) لباس نظر آ رہا تھا، وہ میرے پاس آ کر رک جاتے اور لکیر کو پار نہ کرتے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف نکل جاتے، یہاں تک کہ جب رات ختم ہونے کو آئی تو آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا : رات ہی سے اپنے آپ کو دیکھتا ہوں (یعنی میں سو نہ سکا) پھر آپ دائرے کے اندر داخل ہو کر میرے پاس آئے۔ اور میری ران کا تکیہ بنا کر سو گئے، آپ سونے میں خراٹے لینے لگتے تھے، تو اسی دوران کہ میں بیٹھا ہوا تھا اور آپ میری ران کا تکیہ بنائے ہوئے سو رہے تھے۔ یکایک میں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پایا جن کے کپڑے سفید تھے، اللہ خوب جانتا ہے کہ انہیں کس قدر خوبصورتی حاصل تھی۔ وہ لوگ میرے پاس آ کر رک گئے، ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے سرہانے بیٹھ گئے اور کچھ لوگ آپ کے پائتانے، پھر ان لوگوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا : ہم نے کسی بندے کو کبھی نہیں دیکھا جسے اتنا ملا ہو جتنا اس نبی کو ملا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کا دل بیدار رہتا ہے۔ ان کے لیے کوئی مثال پیش کرو (پھر انہوں نے کہا ان کی مثال) ایک سردار کی مثال ہے جس نے ایک محل بنایا، پھر ایک دستر خوان بچھایا اور لوگوں کو اپنے دستر خوان پر کھانے پینے کے لیے بلایا، تو جس نے ان کی دعوت قبول کرلی وہ ان کے کھانے پینے سے فیض یاب ہوا۔ اور جس نے ان کی دعوت قبول نہ کی وہ (سردار) اسے سزا دے گا پھر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اور ان کے جاتے ہی رسول اللہ ﷺ بیدار ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : سنا، کیا کہا انہوں نے ؟ اور یہ کون لوگ تھے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : وہ فرشتے تھے۔ تم سمجھتے ہو انہوں نے کیا مثال دی ہے ؟ میں نے (پھر) کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : انہوں نے جو مثال دی ہے وہ ہے رحمن (اللہ) تبارک و تعالیٰ کی، رحمن نے جنت بنائی، اور اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی۔ تو جس نے دعوت قبول کرلی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جو اس کی دعوت نہ قبول کرے گا وہ اسے عذاب و عقاب سے دوچار کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - ابو تمیمہ : ہجیمی ہیں اور ان کا نام طریف بن مجالد ہے، ٣ - ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے، ٤ - سلیمان تیمی جن سے یہ حدیث معتمر نے روایت کی ہے وہ سلیمان بن طرخان ہیں، وہ اصلاً تیمی نہ تھے، لیکن وہ بنی تیم میں آیا جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیمی مشہور ہوگئے۔ علی ابن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے تھے : میں نے سلیمان تیمی سے زیادہ کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٣٨١) ، وانظر : سنن الدارمی/المقدمة ٢ (١٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «زط» یعنی : جاٹ قوم کے معلوم ہو رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2861
نبی اکرم ﷺ اور تمام انبیاء کی مثال
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری مثال اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی مثال، اس شخص کی طرح ہے جس نے گھر بنایا، گھر کو مکمل کیا اور اسے خوبصورت بنایا، سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے ١ ؎۔ لوگ اس گھر میں آنے لگے اور اسے دیکھ کر تعجب کرنے لگے، اور کہنے لگے : کاش یہ ایک اینٹ کی جگہ (بھی) خالی نہ ہوتی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابی بن کعب اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١٨ (٣٥٣٤) ، صحیح مسلم/الفضائل ٧ (٢٢٨٧) (تحفة الأشراف : ٢٢٦٠) ، وحإ (٢/٢٥٧، ٣٩٨، ٤١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی گھر کو خوبصورت اور مکمل بنانے کے باوجود ایک اینٹ کی جگہ باقی رکھ چھوڑی ، لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگے : کاش یہ خالی جگہ پر ہوجاتی تو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے ، اس حدیث کی ایک روایت میں آگے الفاظ ہیں : تو میں وہی (آخری) اینٹ ہوں جیسے خالی جگہ میں لگا کر نبوت کے محل کو مکمل کیا گیا ہے۔ خوبصورت گھر سے مراد نبوت و رسالت والا دین حنیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح فقه السيرة (141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2862
نماز، روزے اور صدقے کی مثال کے متعلق
حارث اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ وہ خود ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں۔ قریب تھا کہ وہ اس حکم کی تعمیل میں سستی و تاخیر کریں عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اللہ تعالیٰ نے تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ تم خود ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی حکم دو کہ وہ بھی اس پر عمل کریں، یا تو تم ان کو حکم دو یا پھر میں ان کو حکم دیتا ہوں۔ یحییٰ نے کہا : میں ڈرتا ہوں کہ اگر آپ نے ان امور پر مجھ سے سبقت کی تو میں زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں یا عذاب میں مبتلا نہ کردیا جاؤں، پھر انہوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا، مسجد لوگوں سے بھر گئی۔ لوگ کنگوروں پر بھی جا بیٹھے، پھر انہوں نے کہا : اللہ نے ہمیں پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تمہیں حکم دوں کہ تم بھی ان پر عمل کرو۔ پہلی چیز یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور اس شخص کی مثال جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس آدمی کی ہے جس نے ایک غلام خالص اپنے مال سے سونا یا چاندی دے کر خریدا، اور (اس سے) کہا : یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا پیشہ (روز گار) ہے تو تم کام کرو اور منافع مجھے دو ، سو وہ کام کرتا ہے اور نفع اپنے مالک کے سوا کسی اور کو دیتا ہے، تو بھلا کون شخص یہ پسند کرسکتا ہے کہ اس کا غلام اس قسم کا ہو، ٢ - اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں نماز کا حکم دیا ہے تو جب تم نماز پڑھو تو ادھر ادھر نہ دیکھو۔ کیونکہ اللہ اپنا چہرہ نماز پڑھتے ہوئے بندے کے چہرے کی طرف رکھتا ہے جب تک کہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے، ٣ - اور تمہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس کی مثال اس آدمی کی ہے جو ایک جماعت کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ایک تھیلی ہے جس میں مشک ہے اور ہر ایک کو اس کی خوشبو بھاتی ہے۔ اور روزہ دار کے منہ کی بو مشک کی خوشبو سے بڑھ کر ہے، ٤ - اور تمہیں صدقہ و زکاۃ دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسے دشمن نے قیدی بنا لیا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے گردن سے ملا کر باندھ دیئے ہیں، اور اسے لے کر چلے تاکہ اس کی گردن اڑا دیں تو اس (قیدی) نے کہا کہ میرے پاس تھوڑا زیادہ جو کچھ مال ہے میں تمہیں فدیہ دے کر اپنے کو چھڑا لینا چاہتا ہوں، پھر انہیں فدیہ دے کر اپنے کو آزاد کرا لیا ١ ؎، ٥ - اور اس نے حکم دیا ہے کہ تم اللہ کا ذکر کرو۔ اس کی مثال اس آدمی کی مثال ہے جس کا پیچھا دشمن تیزی سے کرے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں پہنچ کر اپنی جان کو ان (دشمنوں) سے بچا لے۔ ایسے ہی بندہ (انسان) اپنے کو شیطان (کے شر) سے اللہ کے ذکر کے بغیر نہیں بچا سکتا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں بھی تمہیں ان پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا حکم مجھے اللہ نے دیا ہے ( ١ ) بات سننا ( ٢ ) (سننے کے بعد) اطاعت کرنا ( ٣ ) جہاد کرنا ( ٤ ) ہجرت کرنا ( ٥ ) جماعت کے ساتھ رہنا کیونکہ جو جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹا (علیحدہ ہوا) اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے باہر نکال پھینکا۔ مگر یہ کہ پھر اسلام میں واپس آ جائے۔ اور جس نے جاہلیت کا نعرہ لگایا تو وہ جہنم کے ایندھنوں میں سے ایک ایندھن ہے۔ (یہ سن کر) ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول ! اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ تو تم اللہ کے بندو ! اس اللہ کے پکار کی دعوت دو ٢ ؎ جس نے تمہارا نام مسلم و مومن رکھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : حارث اشعری صحابی ہیں اور اس حدیث کے علاوہ بھی ان سے حدیثیں مروی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (التحفة : ٣٢٧٤) ، و مسند احمد (٤/٢٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسی طرح صدقہ و خیرات کرنے والا صدقہ و خیرات کی بدولت اللہ کی رحمت کا مستحق ہوتا ہے ، اور اس کے عذاب سے نجات پا لیتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی جاہلیت کا نعرہ اور اس کی پکار جو خانہ جنگی کی پکار ہے اس سے بچو اور اللہ کی توحید اور اس کی تعلیمات کی طرف لوگوں کو بلاؤ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (3694) ، التعليق الرغيب (1 / 189 - 190) ، صحيح الجامع (1724) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2863
نماز، روزے اور صدقے کی مثال کے متعلق
اس سند سے بھی حارث اشعری (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح اسی کی ہم معنی حدیث روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ٢ - ابوسلام حبشی کا نام ممطور ہے، ٣ - اس حدیث کو علی بن مبارک نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2864
قرآن پڑھنے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ و مزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے خوشبودار پودے کی ہے جس کی بو، مہک تو اچھی ہے مزہ کڑوا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ہے اندرائن (حنظل) (ایک کڑوا پھل) کی طرح ہے جس کی بو بھی اچھی نہیں اور مزہ بھی اچھا نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے شعبہ نے قتادہ سے بھی روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٧ (٥٠٢٠) ، و ٣٦ (٥٠٥٩) ، والأطعمة ٣٠ (٥٤٢٧) ، التوحید ٥٧ (٧٥٦٠) ، صحیح مسلم/المسافرین (٣٧ (٧٩٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٩ (٤٨٣٠) ، سنن النسائی/الإیمان ٣٢ (٥٠٤١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٦ (٢١٤) (تحفة الأشراف : ٨٩٨١) ، و مسند احمد (٣٩٧، ٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلام کی اثر انگیزی انسان کے ظاہر و باطن دونوں میں پائی جاتی ہے اور انسان چونکہ مختلف اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اس لیے قرآن کریم کا پورا پورا تاثیری فائدہ صرف اس بندے کو حاصل ہوتا ہے جو مومن ہونے کے ساتھ حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والا ہو ، ایسا مومن اللہ کے نزدیک خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح مقبول ہے۔ اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا باطن قرآن سے مستفید ہوتا ہے لیکن ظاہر محروم رہتا ہے ، یہ وہ مومن بندہ ہے جو قاری قرآن نہیں ہے ، ایسا مومن اللہ کے نزدیک اس مزے دار پھل کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں ہوتی ، اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا ظاہر قرآن پڑھنے کے سبب اچھا ہے لیکن باطن تاریک ہے ، یہ قرآن پڑھنے والا منافق ہے ، یہ اللہ کے نزدیک اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے ، اور کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اس قرآن سے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا ، یہ قرآن نہ پڑھنے والا منافق ہے ، یہ اللہ کے نزدیک حنظلہ اندرائن (حنظل) کی طرح ہے جس میں نہ تو خوشبو ہے اور نہ ہی اس کا مزہ اچھا ہے ، بلکہ کڑوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح نقد الکتانی (43) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2865
قرآن پڑھنے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جسے ہوائیں (ادھر ادھر) ہلاتی رہتی ہیں۔ (ایسا ہی مومن ہے) مومن پر بلائیں برابر آتی رہتی ہیں، اور منافق کی مثال صنوبر (اشوک) کے درخت کی ہے، وہ اپنی جگہ سے ہلتا نہیں جب تک کہ کاٹ نہ دیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المنافقین ١٤ (٢٨٠٩) (تحفة الأشراف : ١٣٢٧٩) (وراجع ماعند صحیح البخاری/ في المرضی ١ (٥٦٤٤) ، والتوحید ٣١ (٧٤٦٦) ، و مسند احمد (٢/٢٣٤، ٢٨٤، ٥٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج إيمان ابن أبى شيبة (86) ، الصحيحة (2883) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2866
قرآن پڑھنے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کا پتا نہیں جھڑتا، یہ مومن کی مثال ہے تو مجھے بتاؤ یہ کون سا درخت ہے ؟ عبداللہ کہتے ہیں : لوگ اسے جنگلوں کے درختوں میں ڈھونڈنے لگے، اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ کھجور ہے ، مجھے شرم آ گئی کہ میں (چھوٹا ہو کر بڑوں کے سامنے) بولوں (جب کہ لوگ خاموش ہیں) پھر میں نے (اپنے والد) عمر (رض) کو وہ بات بتائی جو میرے دل میں آئی تھی، تو انہوں نے کہا (میرے بیٹے) اگر تم نے یہ بات بتادی ہوتی تو یہ چیز مجھے اس سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتی کہ میرے پاس اس اس طرح کا مال اور یہ یہ چیزیں ہوتیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤ (٦١) ، و ٥ (٧٢) ، و ٥٠ (١٣١) ، وتفسیر سورة ابراہیم ١ (٤٦٩٨) ، والأدب ٧٩ (٦١٢٢) ، و ٨٩ (٦١٤٤) ، صحیح مسلم/المنافقین ١٥ (٢٨١١) (تحفة الأشراف : ٧٢٣٤) ، و مسند احمد (٢/٣١، ٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2867
پانچ نمازوں کی مثال
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بھلا بتاؤ تو صحیح، اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس نہر میں ہر دن پانچ بار نہائے تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل رہے گا ؟ صحابہ نے کہا : اس کے جسم پر تھوڑا بھی میل نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا : یہی مثال ہے پانچوں نمازوں کی، ان نمازوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - قتیبہ کہتے ہیں : ہم سے بکر بن مضر قرشی نے ابن الہاد کے واسطہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ٣ - اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٦ (٥٢٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٥١ (٦٦٧) ، سنن النسائی/الصلاة ٧ (٤٦٣) (تحفة الأشراف : ٤٩٩٨) ، و مسند احمد (٢/٣٧٩، ٤٢ ¤ ٦- ٤٢٧) ، وسنن الدارمی/الصلاة ١ (١٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ نماز کی ادائیگی سے انسان صغیرہ گناہوں سے پاک و صاف ہوتا رہتا ہے ، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ سنت کے مطابق نماز ادا کی جائے ، اور نماز کو نماز سمجھ کر پڑھا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (15) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2868
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کی مثال بارش کی ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا اول بہتر ہے یا اس کا آخر ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں عمار، عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - عبدالرحمٰن بن مہدی سے روایت ہے کہ وہ حماد بن یحییٰ الابح کی تائید و تصدیق کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارے اساتذہ میں سے ہیں۔ فائدہ ١ ؎: معلوم ہوا کہ امت کا ہر فرد بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، نہیں معلوم اس میں سے کس کو کب اور کس وقت دوسرے سے خیر و برکت پہنچ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٩١) ، و مسند احمد (٣/١٣٠، ١٤٣، ٣١٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (6277) ، الصحيحة (2286) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2869
انسان اس کی موت اور امید کی مثال
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو کنکریاں پھینکتے ہوئے فرمایا : کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے اور یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو بہتر معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ امید (و آرزو) ہے اور یہ اجل (موت) ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٩٥٠) (ضعیف) (سند میں بشیر بن مہاجر لین الحدیث راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ انسان کی آرزوئیں بہت ہیں ان آرزؤں کی تکمیل میں وہ سرگرداں رہتا ہے ، اس کی بہت ساری امیدوں کی تکمیل ابھی باقی ہے اور اچانک موت اسے اپنے آہنی شکنجے میں دبوچ لیتی ہے ، گویا انسان یہ کہتا ہے کہ موت سے قبل اپنی ساری آرزوئیں پوری کرلے گا جب کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 133) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2870
انسان اس کی موت اور امید کی مثال
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری مدت گزری ہوئی امتوں کے مقابل میں عصر سے مغرب تک کی درمیانی مدت کی طرح ہے (یعنی بہت مختصر تھوڑی) تمہاری مثال اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کئی مزدور رکھے۔ اس نے کہا : میرے یہاں کون فی کس ایک قیراط پر دوپہر تک کام کرتا ہے ؟ تو یہود نے ایک ایک قیراط پر کام کیا، پھر اس نے کہا : میرے یہاں کون مزدوری کرتا ہے دوپہر سے عصر تک فی کس ایک ایک قیراط پر ؟ تو نصاریٰ نے ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر تم (مسلمان) کام کرتے ہو عصر سے سورج ڈوبنے تک فی کس دو دو قیراط پر۔ (یہ دیکھ کر) یہود و نصاریٰ غصہ ہوگئے، انہوں نے کہا : ہمارا کام زیادہ ہے اور مزدوری تھوڑی ہے ؟ ، اللہ نے فرمایا : کیا تمہارا حق کچھ کم کر کے میں نے تم پر ظلم کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ تو اس نے کہا : یہ میرا فضل و انعام ہے میں جسے چاہوں دوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ٩ (٢٢٦٦٩) ، وأحادیث الأنبیاء ٥٠ (٣٤٥٩) ، وفضائل القرآن ١٧ (٥٠٢١) (تحفة الأشراف : ٧٢٣٥) ، و مسند احمد (٢/٦، ١١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر البخاری (312) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2871
انسان اس کی موت اور امید کی مثال
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ سو اونٹ کی طرح ہیں۔ آدمی ان میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہیں پاتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣٥ (٦٤٩٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٦٠ (٢٥٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٦ (٣٩٩٠) (تحفة الأشراف : ٦٩٤٥) ، و مسند احمد (٢/٧، ٤٤، ٧٠، ١٠٩، ١٢١، ١٢٢، ١٢٣، ١٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : اچھے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3990) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2872
انسان اس کی موت اور امید کی مثال
سفیان بن عیینہ زہری سے اسی سند سے اسی طرح روایت کرتے ہیں اور انہوں نے کہا : تم ان میں ایک بھی سواری کے قابل نہ پاؤ گے، یا یہ کہا : تم ان میں سے صرف ایک سواری کے قابل پا سکو گے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٦٨٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2872) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2873
انسان اس کی موت اور امید کی مثال
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی تو مکھیاں اور پتنگے اس میں پڑنے لگے (یہی حال تمہارا اور ہمارا ہے) میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں (جہنم کی آگ میں) بلا سوچے سمجھے گھسے چلے جا رہے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٤٠ (٣٤٢٦) ، صحیح مسلم/الفضائل ٦ (٢٢٨٤) (تحفة الأشراف : ١٣٨٧٩) ، و مسند احمد (٢/٣٦١، ٣٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الضعيفة تحت الحديث (3082) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2874