5. عیدین کے ابواب

【1】

عید کی نماز کے لئے پیدل چلنا

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ عید کے لیے پیدل جانا اور نکلنے سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے وہ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی عید کے لیے پیدل جائے اور عید الفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے کچھ کھالے، ٣- مستحب یہ ہے کہ آدمی بلا عذر سوار ہو کر نہ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٦١ (الشق الأول فقط ) ( تحفة الأشراف : ١٠٠٤٢) (حسن) (سند میں حارث اعور ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1294 - 1297) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 530

【2】

عید کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے اور اس کے بعد خطبہ دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے ہوگی، ٤- اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے جس نے نماز سے پہلے خطبہ دیا وہ مروان بن حکم تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٨ (٩٦٣) ، صحیح مسلم/العیدین (٨٨٨) ، سنن النسائی/العیدین ٩ (١٥٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٥ (١٢٧٦) ، ( تحفة الأشراف : ٧٨٢٣) ، مسند احمد (٢/١٢، ٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مگر ایک صحابی رسول ﷺ نے اسے اس بدعت کی ایجاد سے روک دیا تھا (رض) وارضاہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1276) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 531

【3】

عیدین کی نماز میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عیدین کی نماز ایک اور دو سے زیادہ بار یعنی متعدد بار بغیر اذان اور بغیر اقامت کے پڑھی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر بن سمرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر بن عبداللہ اور ابن عباس (رض) سے احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ عیدین کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جائے گی اور نہ نوافل میں سے کسی کے لیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العیدین (٨٨٧) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٥٠ (١١٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢١٦٦) ، مسند احمد (٥/٩١) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (1042) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 532

【4】

عیدین کی نماز میں قرات

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عیدین اور جمعہ میں «سبح اسم ربک الأعلی» اور «هل أتاک حديث الغاشية» پڑھتے تھے، اور بسا اوقات دونوں ایک ہی دن میں آ پڑتے تو بھی انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- نعمان بن بشیر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو واقد، سمرہ بن جندب اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اسی طرح سفیان ثوری اور مسعر نے بھی ابراہیم بن محمد بن منتشر سے ابو عوانہ کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ٤- رہے سفیان بن عیینہ تو ان سے روایت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کی ایک سند یوں ہے : «عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر عن أبيه عن حبيب بن سالم عن أبيه عن النعمان بن بشير» ‏‏‏‏ اور ہم حبیب بن سالم کی کسی ایسی روایت کو نہیں جانتے جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہو۔ حبیب بن سالم نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام ہیں، انہوں نے نعمان بن بشیر سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ اور ابن عیینہ سے ابراہیم بن محمد بن منتشر کے واسطہ سے ان لوگوں کی طرح بھی روایت کی گئی ہے ٢ ؎ اور نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ عیدین کی نماز میں «سورة ق» اور «اقتربت الساعة» پڑھتے تھے ٣ ؎ اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٨) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤٢ (١١٢٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٠ (١٤٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٠ (١١٢٠) ، و ١٥٧ (١٢٨١) ، موطا امام مالک/الجمعة ٩ (١٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٦١٢) ، مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٣ (١٦٠٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس سند میں حبیب بن سالم اور نعمان بن بشیر کے درمیان حبیب کے والد کا اضافہ ہے ، جو صحیح نہیں ہے۔ ٢ ؎ : یعنی : بغیر «عن أبیہ» کے اضافہ کے ، یہ روایت آگے آرہی ہے۔ ٣ ؎ : اس میں کوئی تضاد نہیں ، کبھی آپ یہ سورتیں پڑھتے اور کبھی وہ سورتیں ، بہرحال ان کی قراءت مسنون ہے ، فرض نہیں ، لیکن ایسا نہیں کہ بعض لوگوں کی طرح ان مسنون سورتوں کو پڑھے ہی نہیں۔ مسنون عمل کو بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر چھوڑنا سخت گناہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1119) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 533

【5】

None

عمر بن خطاب نے ابوواقد لیثی حارث بن عوف رضی الله عنہ سے پوچھا: عید الفطر اور عیدالاضحیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ «ق والقرآن المجيد» اور «اقتربت الساعة وانشق القمر» پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

【6】

عیدین کی نماز میں قرات

اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 535

【7】

عیدین کی تکبیرا ت

عمرو بن عوف مزنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عائشہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- کثیر کے دادا کی حدیث حسن ہے اور یہ سب سے اچھی روایت ہے جو نبی اکرم ﷺ سے اس باب میں روایت کی گئی ہے۔ ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- اور ابوہریرہ (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے مدینے میں اسی طرح یہ نماز پڑھی، ٥- اور یہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے، اور یہی مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٦- عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے عیدین کی تکبیروں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ نو تکبیریں ہیں۔ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہے ١ ؎ اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت کرے پھر رکوع کی تکبیر کے ساتھ چار تکبیریں کہے ٢ ؎ کئی صحابہ کرام سے بھی اسی طرح کی روایت مروی ہے۔ اہل کوفہ کا بھی قول یہی ہے اور یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٦ (١٢٧٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٧٧٤) (صحیح) (سند میں کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے : صحیح أبی داود ١٠٤٥-١٠٤٦، والعیدین ٢٦/٩٨٩) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تکبیر تحریمہ کے ساتھ پانچ ، یعنی پہلی میں چار زائد تکبیریں۔ ٢ ؎ : یہ کل سات تکبیریں زائد ہوئیں اس کی سند ابن مسعود (رض) تک صحیح ہے ، لیکن یہ موقوف ہے خود آپ ﷺ کا عمل بارہ زوائد تکبیرات پر تھا ، ولنا المرفوع۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1279) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 536

【8】

عیدین سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید الفطر کے دن نکلے، آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر آپ نے نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمرو اور ابوسعید سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٤- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ عیدین کی نماز کے پہلے اور اس کے بعد نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٨ (٩٦٤) ، و ٢٦ (٩٨٩) ، والزکاة ٢١ (٤٣١) ، واللباس ٥٧ (٥٨٨١) ، و ٥٩ (٥٨٨٣) ، صحیح مسلم/العیدین ٢ (١٣/٨٨٤) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٥٦ (١١٥٩) ، سنن النسائی/العیدین ٢٩ (١٥٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٦٠ (١٢٩١) ، ( تحفة الأشراف : ٥٥٥٨) ، مسند احمد (١/٣٥٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٩ (١٦٤٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1291) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 537

【9】

عیدین سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہیں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ عید کے دن نکلے تو انہوں نے نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد اور ذکر کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسے ہی کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٥٧٦) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (3 / 99) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 538

【10】

عیدین کے لئے عورتوں کا نکلنا

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو کیا کرے ؟ آپ نے فرمایا : اس کی بہن کو چاہیئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دیدے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٣ (٣٢٤) ، والصلاة ٢ (٣٥١) ، والعیدین ١٥ (٩٨٠) ، و ٢١ (٩٨١) ، والحج ٨١ (١٦٥٢) ، صحیح مسلم/العیدین ١ (٨٩٠) ، والجہاد ٤٨ (١٨١٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٤٧ (١١٣٦) ، سنن النسائی/الحیض ٢٢ (٣٩٠) ، والعیدین ٣ (١٥٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٦٥ (١٣٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٨١٠٨) ، مسند احمد (٥/٨٤، ٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢٣ (١٦٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو نماز عید کے لیے عید گاہ لے جانا مسنون ہے ، جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں : یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے ، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس (رض) سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں ، ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہوگی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1307 و 1308) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 539

【11】

None

ام عطیہ رضی الله عنہا سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور عیدین کے لیے عورتوں کو نکلنے کی رخصت دی ہے، اور بعض نے اسے مکروہ جانا ہے، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ آج کل میں عیدین میں عورتوں کے جانے کو مکروہ سمجھتا ہوں، اگر کوئی عورت نہ مانے اور نکلنے ہی پر بضد ہو تو چاہیئے کہ اس کا شوہر اسے پرانے میلے کپڑوں میں نکلنے کی اجازت دے اور وہ زینت نہ کرے، اور اگر وہ اس طرح نکلنے پر راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو حق ہے کہ وہ اسے نکلنے سے روک دے، ۵- عائشہ رضی الله عنہا سے نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نئی چیزوں کو دیکھ لیتے جو اب عورتوں نے نکال رکھی ہیں تو انہیں مسجد جانے سے منع فرما دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا، ۶- سفیان ثوری سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آج کل کے دور میں انہوں نے بھی عورتوں کا عید کے لیے نکلنا مکروہ قرار دیا ۱؎۔

【12】

نبی ﷺ عیدین کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے آنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب عید کے دن ایک راستے سے نکلتے تو دوسرے سے واپس آتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابورافع (رض) سے احادیث آئی ہیں، ٣- ابوتمیلہ اور یونس بن محمد نے یہ حدیث بطریق : «فليح بن سليمان، عن سعيد بن الحارث، عن جابر بن عبدالله» کی ہے، ٤- بعض اہل علم نے اس حدیث کی پیروی میں امام کے لیے مستحب قرار دیا ہے کہ جب ایک راستے سے جائے تو دوسرے سے واپس آئے۔ شافعی کا یہی قول ہے، اور جابر کی حدیث (بمقابلہ ابوہریرہ) گویا زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف من حدیث ابی ہریرة واخرجہ فی العیدین ٢٤ (٩٨٦) بنفس الطریق لکنہ من حدیث جابر، وقال حدیث جابر أصح (ای من حدیث ابی ہریرة) ( تحفة الأشراف : ١٢٩٣٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کی پیروی میں مسلمانوں کو بھی راستہ تبدیل کر کے آنا جانا چاہیئے ، کیونکہ اس سے ایک تو اسلام کی شان وشوکت کا مظاہرہ ہوگا دوسرے قیامت کے دن یہ دونوں راستے ان کی اس عبادت کی گواہی دیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1301) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 541

【13】

نبی ﷺ عیدین کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے آنا

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید الفطر کے دن جب تک کھا نہ لیتے نکلتے نہیں تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک نماز نہ پڑھ لیتے کھاتے نہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بریدہ بن حصیب اسلمی (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ثواب بن عتبہ کی اس کے علاوہ کوئی حدیث مجھے نہیں معلوم، ٣- اس باب میں علی اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- بعض اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے کہ آدمی عید الفطر کی نماز کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ نکلے اور اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ کھجور ١ ؎ کا ناشتہ کرے اور عید الاضحی کے دن نہ کھائے جب تک کہ لوٹ کر نہ آ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٩ (١٧٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں نے پتہ نہیں کہاں سے یہ حتمی رواج بنا ڈالا ہے کہ سوئیاں کھا کر عید گاہ جاتے ہیں ، اور آ کر بھی کھاتے کھلاتے ہیں ، اس رواج کی اس حد تک پابندی کی جاتی ہے کہ عیدالفطر اور سوئیاں لازم ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں ، جیسے عید الاضحی میں گوشت ، اس حد تک پابندی بدعت کے زمرے میں داخل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1756) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 542

【14】

نبی ﷺ عیدین کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے آنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید الفطر کے دن نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں کھالیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر صحیح البخاری/العیدین ٤ (٩٥٣) ، وسنن ابن ماجہ/الصوم ٤٩ (١٧٥٣) ، ( تحفة الأشراف : ٥٤٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1754) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 543