8. روزوں کے متعلق ابواب
رمضان کے فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن ١ ؎ جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے : خیر کے طلب گار ! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار ! رک جا ٢ ؎ اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں (تو ہوسکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابن مسعود اور سلمان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ٢ (١٦٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٤٩) (صحیح) وأخرج الشق الأول کل من : صحیح البخاری/الصوم ٥ (١٨٩٨، ١٨٩٩) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٧٧) ، وصحیح مسلم/الصوم ١ (١٠٧٩) ، وسنن النسائی/الصوم ٣ (٢٠٩٩، ٢١٠٠) ، و ٤ (٢١٠١، ٢١٠٢، ٢١٠٣، ٢١٠٤) ، و ٥ (٢١٠٦، ٢١٠٧) ، وط/الصوم ٢٢ (٥٩) ، و مسند احمد (٢/٢٨١، ٣٥٧، ٣٧٨، ٤٠١) ، وسنن الدارمی/الصوم ٥٣ (١٨١٦) ، من غیر ہذا الطریق عنہ۔ وضاحت : ١ ؎ : مردة الجن کا عطف الشياطين پر ہے ، بعض اسے عطف تفسیری کہتے ہیں اور بعض عطف مغایرت یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ جب شیاطین اور مردۃ الجن قید کر دئیے جاتے ہیں تو پھر معاصی کا صدور کیوں ہوتا ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ کہ معصیت کے صدور کے لیے تحقق اور شیاطین کا وجود ضروری نہیں ، انسان گیارہ مہینے شیطان سے متاثر ہوتا رہتا ہے رمضان میں بھی اس کا اثر باقی رہتا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ لیڈر قید کردیئے جاتے لیکن رضاکار اور والنیٹر کھلے رہتے ہیں۔ ٢ ؎ : اسی ندا کا اثر ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی نیکیوں کی جانب توجہ بڑھ جاتی ہے اور وہ اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن ذکر و عبادات خیرات اور توبہ واستغفار کا زیادہ اہتمام کرنے لگتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1642) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 682
رمضان کے فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ ١ ؎ بخش دئیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے بھی سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی (پچھلی) حدیث، جسے ابوبکر بن عیاش نے روایت کی ہے غریب ہے، اسے ہم ابوبکر بن عیاش کی روایت کی طرح جسے انہوں نے بطریق : «الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة» روایت کی ہے۔ ابوبکر ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بسند «حسن بن ربیع عن أبی الأحوص عن الأعمش» مجاہد کا قول نقل کیا کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے … پھر آگے انہوں نے پوری حدیث بیان کی، ٣- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : یہ حدیث میرے نزدیک ابوبکر بن عیاش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٣٨ و ١٥٠٥١) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٧) ، و ٢٨ (٣٨) ، والصوم ٦ (١٩٠١) ، والتراویح ١ (٢٠٠٨، ٢٠٠٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣ (١٦٠٣) ، والصوم ٣٩ (٢١٩٣) ، والإیمان ٢١ (٥٠٢٧-٥٠٢٩) ، و ٢٢ (٥٠٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٣ (١٣٢٦) ، موطا امام مالک/ رمضان ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٤١، ٣٨٥، ٤٧٣، ٥٠٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٧) ، من غیر ہذا الطریق عنہ وبتصرف بسیر فی السیاق وانظر ما یأتی عند المؤلف برقم : ٨٠٨۔ وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1326) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 683
رمضان کے استقبال کی نیت سے روزے نہ رکھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے) روزے نہ رکھو ١ ؎، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آپڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو ٢ ؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہوجائے تو مہینے کے تیس دن شمار کرلو، پھر روزہ رکھنا بند کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں بعض صحابہ کرام سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔ وہ اس بات کو مکروہ سمجھتے ہیں کہ آدمی ماہ رمضان کے آنے سے پہلے رمضان کے استقبال میں روزے رکھے، اور اگر کسی آدمی کا (کسی خاص دن میں) روزہ رکھنے کا معمول ہو اور وہ دن رمضان سے پہلے آپڑے تو ان کے نزدیک اس دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٥٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ١٤ (١٩١٤) ، صحیح مسلم/الصیام ٣ (١٠٨٢) ، سنن ابی داود/ الصیام ١١ (٢٣٣٥) ، سنن النسائی/الصیام ٣١ (٢١٧٤) ، و ٣٨ (٢١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥ (١٦٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٣٤٧، ٤٠٨، ٤٣٨، ٤٧٧، ٤٩٧، ٥١٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٤ (١٧٣١) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ فرض روزے نفلی روزوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائیں اور کچھ لوگ انہیں فرض نہ سمجھ بیٹھیں ، لہٰذا تحفظ حدود کے لیے نبی اکرم ﷺ نے جانبین سے روزہ منع کردیا کیونکہ امم سابقہ میں اس قسم کے تغیر وتبدل ہوا کرتے تھے جس سے زیادتی فی الدین کی راہ کھلتی تھی ، اس لیے اس سے منع کردیا۔ ٢ ؎ : مثلاً پہلے سے جمعرات یا پیر یا ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھا جائے کہ یہ استقبال رمضان میں سے نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1650 و 1655) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 684
رمضان کے استقبال کی نیت سے روزے نہ رکھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال میں) روزہ نہ رکھو سوائے اس کے کہ آدمی اس دن روزہ رکھتا آ رہا ہو تو اسے رکھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٥٤٠٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1650) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 685
شک کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم عمار بن یاسر (رض) کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا : کھاؤ۔ یہ سن کر ایک صاحب الگ گوشے میں ہوگئے اور کہا : میں روزے سے ہوں، اس پر عمار (رض) نے کہا : جس نے کسی ایسے دن روزہ رکھا جس میں لوگوں کو شبہ ہو ١ ؎ (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمار (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہے، ٣- صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان لوگوں نے اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے جس میں شبہ ہو، (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اور ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اگر وہ اس دن روزہ رکھے اور وہ ماہ رمضان کا دن ہو تو وہ اس کے بدلے ایک دن کی قضاء کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصیام ٣٧ (٢١٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣ (١٦٤٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٣٥٤) ، سنن الدارمی/الصوم ١ (١٧٢٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جس میں شبہ ہو سے مراد ٣٠ شعبان کا دن ہے یعنی بادل کی وجہ سے ٢٩ ویں دن چاند نظر نہیں آیا تو کوئی شخص یہ سمجھ کر روزہ رکھ لے کہ پتہ نہیں یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن ، کہیں یہ رمضان ہی نہ ہو ، اس طرح شک والے دن میں روزہ رکھنا صحیح نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1645) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 686
رمضان کے لئے شعبان کے چاند کا خیال رکھنا چاہئے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان کے لیے شعبان کے چاند کی گنتی کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے اس طرح ابومعاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور صحیح وہ روایت ہے جو (عبدہ بن سلیمان نے) بطریق «محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : رمضان کے استقبال میں ایک یا دو دن پہلے روزہ شروع نہ کر دو ، اسی طرح بطریق : «يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥١٢٣) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (565) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 687
چاند دیکھ کر روزہ رکھے اور چاند دیکھ کر افطار کرے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان سے پہلے ١ ؎ روزہ نہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور دیکھ کر ہی بند کرو، اور اگر بادل آڑے آ جائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔ ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٧ (٢٣٢٧) ، سنن النسائی/الصیام ١٢ (٢١٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٠٥) ، وأخرجہ موطا امام مالک/الصیام ١ (٣) ، و مسند احمد (١/٢٢١) ، وسنن الدارمی/الصوم ١ (١٧٢٥) من غیر ہذا الطریق عنہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : رمضان سے پہلے سے مراد شعبان کا دوسرا نصف ہے ، مطلب یہ ہے کہ ١٥ شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جائیں تاکہ رمضان کے فرض روزوں کے لیے اس کی قوت و توانائی برقرار رہے۔ ٢ ؎ یعنی بادل کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو اور ٢٩ شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کئے جائیں ، اسی طرح اگر ٢٩ رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو رمضان کے تیس روزے پورے کر کے عید الفطر منائی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2016) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 688
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تیس دن کے روزے رکھنے سے زیادہ ٢٩ دن کے روزے رکھے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عمر، ابوہریرہ، عائشہ، سعد بن ابی وقاص، ابن عباس، ابن عمر، انس، جابر، ام سلمہ اور ابوبکرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مہینہ ٢٩ دن کا (بھی) ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصوم ٤ (٢٣٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤٧٨) ، مسند احمد (١/٤٤١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1658) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 689
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے ایلاء کیا (یعنی اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھائی) پھر آپ نے اپنے بالاخانے میں ٢٩ دن قیام کیا (پھر آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے) تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے تو ایک مہینے کا ایلاء کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا : مہینہ ٢٩ دن کا (بھی) ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٨٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٨) ، والصوم ١١ (١٩١١) ، والمظالم ٢٥ (٢٤٦٩) ، والنکاح ٩١ (٥٢٠١) ، والأیمان والنذور ٢٠ (٦٦٨٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٢ (٣٤٨٦) ، مسند احمد (٣/٢٠٠) من غیر ہذا الطریق عنہ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 690
مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : میں نے چاند دیکھا ہے، آپ نے فرمایا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں دیتا ہوں، آپ نے فرمایا : بلال ! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں ۔
عید کے دو مہینے ایک ساتھ کم نہیں ہوتے
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عید کے دونوں مہینے رمضان ١ ؎ اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے (یعنی دونوں ٢٩ دن کے نہیں ہوتے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوبکرہ کی حدیث حسن ہے، ٢- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ٣- احمد بن حنبل کہتے ہیں : اس حدیث عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے کا مطلب یہ ہے کہ رمضان اور ذی الحجہ دونوں ایک ہی سال کے اندر کم نہیں ہوتے ٢ ؎ اگر ان دونوں میں کوئی کم ہوگا یعنی ایک ٢٩ دن کا ہوگا تو دوسرا پورا یعنی تیس دن کا ہوگا، ٤- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ٢٩ دن کے ہوں تو بھی ثواب کے اعتبار سے کم نہ ہوں گے، اسحاق بن راہویہ کے مذہب کی رو سے دونوں مہینے ایک سال میں کم ہوسکتے ہیں یعنی دونوں ٢٩ دن کے ہوسکتے ہیں ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٢ (١٩١٢) ، صحیح مسلم/الصوم ٧ (١٠٨٩) ، سنن ابی داود/ الصوم ٤ (٢٣٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٩ (١٦٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٦٧٧) ، مسند احمد (٥/٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ عید تو شوال میں ہوتی ہے پھر رمضان کو شہر عید کیسے کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب کی وجہ سے کہا گیا ہے چونکہ عید رمضان ہی کی وجہ سے متحقق ہوتی ہے لہٰذا اس کی طرف نسبت کردی گئی ہے۔ ٢ ؎ : اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بعض اوقات دونوں انتیس ( ٢٩) کے ہوتے ہیں ، تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عام طور سے دونوں کم نہیں ہوتے ہیں۔ ٣ ؎ : اور ایسا ہوتا بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1659) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 692
ہر شہر والوں کے لئے انہیں کے چاند دیکھنے کا اعتبار ہے
کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ (رض) کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور (اسی درمیان) رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ١ ؎، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس (رض) نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا : تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا ؟ میں نے کہا : ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا : کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا ؟ تو میں نے کہا : لوگوں نے اسے دیکھا اور انہوں نے روزے رکھے اور معاویہ (رض) نے بھی روزہ رکھا، اس پر ابن عباس (رض) نے کہا : لیکن ہم نے اسے ہفتہ (سنیچر) کی رات کو دیکھا، تو ہم برابر روزے سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کرلیں، یا ہم ٢٩ کا چاند دیکھ لیں، تو میں نے کہا : کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفا نہیں کریں گے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی حکم دیا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خود چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٥ (١٠٨٧) ، سنن ابی داود/ الصیام ٩ (٢٣٣٢) ، سنن النسائی/الصیام ٧ (٢١١٣) ، ( تحفة الأشراف : ٦٣٥٧) ، مسند احمد (١/٣٠٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رویت ضروری ہے ، محض فلکی حساب کافی نہیں ، رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہوگی یا نہیں ؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتا ہے کہ «صوموا» اور «افطروا» کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنہوں نے چاند دیکھا ہو ، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں ، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے ، اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1021) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 693
کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے کھجور میسر ہو، تو چاہیئے کہ وہ اسی سے روزہ کھولے، اور جسے کھجور میسر نہ ہو تو چاہیئے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیز ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں سلمان بن عامر (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- ہم نہیں جانتے کہ انس کی حدیث سعید بن عامر کے علاوہ کسی اور نے بھی شعبہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث غیر محفوظ ہے ١ ؎، ہم اس کی کوئی اصل عبدالعزیز کی روایت سے جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہو نہیں جانتے، اور شعبہ کے شاگردوں نے یہ حدیث بطریق : «شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، اور یہ سعید بن عامر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، کچھ اور لوگوں نے اس کی بطریق : «شعبة عن عاصم عن حفصة بنت سيرين عن سلمان» روایت کی ہے اور اس میں شعبہ کی رباب سے روایت کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور صحیح وہ ہے جسے سفیان ثوری، ابن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق : «عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے، اور ابن عون کہتے ہیں : «عن أم الرائح بنت صليع عن سلمان بن عامر» اور رباب ہی دراصل ام الرائح ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٠٢٦) (ضعیف) (سند میں سعید بن عامر حافظہ کے ضعیف ہیں اور ان سے اس کی سند میں وہم ہوا بھی ہے، دیکھئے الارواء رقم : ٩٢٢) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ سعیدبن عامر «عن شعبة عن عبدالعزيز بن صهيب عن أنس» کے طریق سے اس کی روایت میں منفرد ہیں ، شعبہ کے دوسرے تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے ، ان لوگوں نے اسے «عن شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن سلمان بن عامر» کے طریق سے روایت کی ہے ، اور عاصم الاحول کے تلامذہ مثلاً سفیان ثوری اور ابن عیینہ وغیرہم نے بھی اسے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی ابن عون نے اپنی روایت میں «عن الرباب» کہنے کے بجائے «عن ام الروائح بنت صلیع» کہا ہے ، اور رباب ام الروائح کے علاوہ کوئی اور عورت نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1699) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (374) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 694
کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے
سلمان بن عامر ضبی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو چاہیئے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے (کھجور) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیز ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصوم ٢١ (٢٣٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٥ (١٦٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤٤٨٦) ، مسند احمد (٤/، ١٧، ١٩، ٢١٣، ٢١٥) ، سنن الدارمی/الصوم ١٢ (١٧٧٣) ، وانظر أیضا ما تقدم برقم ٦٥٨ (ضعیف) وضاحت : ١ ؎ : اگرچہ قولاً اس کی سند صحیح نہیں ہے ، مگر فعلاً یہ حدیث دیگر طرق سے ثابت ہے۔ ٢ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر افطار میں کھجور میسر ہو تو کھجور ہی سے افطار کرے کیونکہ یہ مقوی معدہ ، مقوی اعصاب اور جسم میں واقع ہونے والی کمزوریوں کا بہترین بدل ہے اور اگر کھجور میّسر نہ ہو سکے تو پھر پانی سے افطار بہتر ہے نبی اکرم ﷺ تازہ کھجور سے افطار کیا کرتے تھے اگر تازہ کھجور نہیں ملتی تو خشک کھجور سے افطار کرتے اور اگر وہ بھی نہ ملتی تو چند گھونٹ پانی سے افطار کرتے تھے۔ ان دونوں چیزوں کے علاوہ اجر و ثواب وغیرہ کی نیت سے کسی اور چیز مثلاً نمک وغیرہ سے افطار کرنا بدعت ہے ، جو ملاؤں نے ایجاد کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 695
کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اور یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٢١ (٢٣٥٦) ، ( تحفة الأشراف : ٢٦٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (922) ، الصحيح (2040) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 696
عید الفطر اس دن جس دن سب افطار کرین اور عیدا لاضحی اس دن جس دن سب قربانی کرین
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صیام کا دن وہی ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار کا دن وہی ہے جب سب عید الفطر مناتے ہو اور اضحٰی کا دن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے کہ صوم اور عید الفطر اجتماعیت اور سواد اعظم کے ساتھ ہونا چاہیئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٩٩٧) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الصوم ٥ (٢٣٢٤) وسنن ابن ماجہ/الصیام ٩ (١٦٦٠) من غیر ہذا الطریق (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی کا اس حدیث پر عنوان لگانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہوجائے اور سارے کے سارے لوگ غور و خوض کرنے کے بعد ایک فیصلہ کرلیں تو اسی کے حساب سے رمضان اور عید میں کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1660) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 697
جب رات سامنے آئے اور دن گزرے تو افطار کرنا چاہئے
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رات آ جائے، اور دن چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو تم نے افطار کرلیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن ابی اوفی اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٣ (١٩٥٤) ، صحیح مسلم/الصیام ١٠ (١١٠٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ١٩ (٢٣٥١) ، ٢٨، ٣٥، ( تحفة الأشراف : ١٠٤٧٤) ، مسند احمد (١/٤٨) ، سنن الدارمی/الصوم ١١ (١٧٤٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : تم نے افطار کرلیا کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے روزہ کھولنے کا وقت ہوگیا ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم شرعاً روزہ کھولنے والے ہوگئے خواہ تم نے کچھ کھایا پیا نہ ہو کیونکہ سورج ڈوبتے ہی روزہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا اس میں روزہ کے وقت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2036) ، الإرواء (916) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 698
جلدی روزہ کھولنا
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ برابر خیر میں رہیں گے ١ ؎ جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سہل بن سعد (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس، عائشہ اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور یہی قول ہے جسے صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم نے اختیار کیا ہے، ان لوگوں نے افطار میں جلدی کرنے کو مستحب جانا ہے اور اسی کے شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٥ (١٩٥٧) ، ( تحفة الأشراف : ٤٧٤٦) ، موطا امام مالک/الصیام ٣ (٦) ، مسند احمد (٥/٣٣٧، ٣٣٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الصیام ٩ (١٠٩٨) ، وسنن ابن ماجہ/الصیام ٢٤ (١٦٩٧) ، مسند احمد (٥/٣٣١، ٣٣٤، ٣٣٦) ، وسنن الدارمی/الصوم ١١ (١٧٤١) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : «خیر» سے مراد دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ ٢ ؎ : افطار میں جلدی کریں گے ، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے روزہ کھول لیں گے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے میں تاخیر نہیں کریں گے جیسا کہ آج کل احتیاط کے نام پر کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (917) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 699
جلدی روزہ کھولنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٢٣٥) ، وانظر : مسند احمد (٢/٢٣٨، ٣٢٩) (ضعیف) (سند میں قرة بن عبدالرحمن کی بہت سے منکر روایات ہیں، نیز ولید بن مسلم مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس محبت کی وجہ شاید سنت کی متابعت ، بدعت سے دور رہنے اور اہل کتاب کی مخالفت ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1989) ، التعليق الرغيب (2 / 95) ، التعليقات الجياد // ضعيف الجامع الصغير (4041) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 700
جلدی روزہ کھولنا
اس سند سے بھی اوزاعی سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (سابقہ حدیث کے رواة اس میں بھی ہیں) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 701
جلدی روزہ کھولنا
ابوعطیہ کہتے ہیں کہ میں اور مسروق دونوں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گئے، ہم نے عرض کیا : ام المؤمنین ! صحابہ میں سے دو آدمی ہیں، ان میں سے ایک افطار جلدی کرتا ہے اور نماز ١ ؎ بھی جلدی پڑھتا ہے اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے اور نماز بھی دیر سے پڑھتا ہے ٢ ؎ انہوں نے کہا : وہ کون ہے جو افطار جلدی کرتا ہے اور نماز بھی جلدی پڑھتا ہے، ہم نے کہا : وہ عبداللہ بن مسعود ہیں، اس پر انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ اسی طرح کرتے تھے اور دوسرے ابوموسیٰ ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابوعطیہ کا نام مالک بن ابی عامر ہمدانی ہے اور انہیں ابن عامر ہمدانی بھی کہا جاتا ہے۔ اور ابن عامر ہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٩) ، سنن ابی داود/ الصوم ٢٠ (٢٣٥٤) ، سنن النسائی/الصیام ٢٣ (٢١٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٧٩٩) ، مسند احمد (٦/٤٨) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (٦/١٧٣) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : بظاہر اس سے مراد مغرب ہے اور عموم پر بھی اسے محمول کیا جاسکتا ہے اس صورت میں مغرب بھی من جملہ انہی میں سے ہوگی۔ ٢ ؎ : پہلے شخص یعنی عبداللہ بن مسعود (رض) عزیمت اور سنت پر عمل پیرا تھے اور دوسرے شخص یعنی ابوموسیٰ اشعری جواز اور رخصت پر۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2039) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 702
سحری میں تاخیر کرنا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں : ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سحری کی، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، انس کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اس کی مقدار کتنی تھی ؟ ١ ؎ انہوں نے کہا : پچاس آیتوں کے (پڑھنے کے) بقدر ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٨ (٥٧٥) ، والصوم ١٩ (١٩٢١) ، صحیح مسلم/الصیام ٩ (١٠٩٧) ، سنن النسائی/الصیام ٢١ (٢١٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٣ (١٩٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦٩٦) ، مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٥، ١٨٦، ١٨٨، ١٩٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٨ (١٧٠٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان دونوں کے بیچ میں کتنا وقفہ تھا۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سحری بالکل آخری وقت میں کھائی جائے ، یہی مسنون طریقہ ہے تاہم صبح صادق سے پہلے کھالی جائے اور یہ وقفہ پچاس آیتوں کے پڑھنے کے بقدر ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 703
سحری میں تاخیر کرنا
اس سند سے بھی ہشام سے اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں یوں ہے : پچاس آیتوں کے پڑھنے کے بقدر۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- زید بن ثابت (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں حذیفہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ان لوگوں نے سحری میں دیر کرنے کو پسند کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 704
صبح صادق کی تحقیق
قیس بن طلق کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ طلق بن علی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ پیو، تمہیں کھانے پینے سے چمکتی اور چڑھتی ہوئی صبح یعنی صبح کاذب نہ روکے ١ ؎ کھاتے پیتے رہو، یہاں تک کہ سرخی تمہارے چوڑان میں ہوجائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- طلق بن علی (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں عدی بن حاتم، ابوذر اور سمرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ صائم پر کھانا پینا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ فجر کی سرخ چوڑی روشنی نمودار نہ ہوجائے، اور یہی اکثر اہل علم کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ١٧ (٢٣٤٨) (تحفة الأشراف : ٥٠٢٥) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «الساطع المصعد» سے مراد فجر کاذب ہے اور «الاحمر» سے مراد صبح صادق ، اس حدیث سے بعض لوگوں نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ فجر کے ظاہر ہونے تک کھانا پینا جائز ہے ، مگر جمہور کہتے ہیں کہ فجر کے متحقق ہوتے ہی کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے اور اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ «الاحمر» کہنا مجاورت کی بنا پر ہے کیونکہ فجر کے طلوع کے ساتھ حمرہ ( سرخی ) آ جاتی ہے پس فجر تحقق کو «الاحمر» کہہ دیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (2033) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 705
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان باز نہ رکھے اور نہ ہی لمبی فجر باز رکھے، ہاں وہ فجر باز رکھے جو کناروں میں پھیلتی ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
جو روزہ دار غیبت کرے اس کی برائی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو («صائم» ) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٨ (١٩٠٣) ، والأدب ٥١ (٦٠٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢١ (١٦٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٣٢١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس تنبیہ سے مقصود یہ ہے کہ روزہ دار روزے کی حالت میں اپنے آپ کو ہر قسم کی معصیت سے بچائے رکھے تاکہ وہ روزہ کے ثواب کا مستحق ہو سکے ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ رمضان میں کھانا پینا شروع کر دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1689) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 707
سحری کھانے کی فضلیت
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سحری کھاؤ ١ ؎، کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، جابر بن عبداللہ، ابن عباس، عمرو بن العاص، عرباض بن ساریہ، عتبہ بن عبداللہ اور ابو الدرداء (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ٣- نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ہمارے روزوں اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کھانے کا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٥) ، سنن النسائی/الصیام ١٨ (٢١٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦٨ و ١٤٣٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٢٠ (١٩٢٣) ، وسنن ابن ماجہ/الصیام ٢٢ (١٦٩٢) ، و مسند احمد (٣/٩٩، ٢١٥، ٢٥٨، ٢٨١) ، وسنن الدارمی/الصوم ٩ (١٧٣٨) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : امر کا صیغہ ندب و استحباب کے لیے ہے سحری کھانے سے آدمی پورے دن اپنے اندر طاقت و توانائی محسوس کرتا ہے اس کے برعکس جو سحری نہیں کھاتا اسے جلدی بھوک پیاس ستانے لگتی ہے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سحری کھانا اس امت کی امتیازی خصوصیات میں سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1692) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 708
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل مصر موسى بن عَلِيّ ( عین کے فتحہ کے ساتھ ) : کہتے ہیں اور اہل عراق موسى بن عُليّ ( عین کے ضمہ کے ساتھ ) کہتے ہیں اور وہ موسیٰ بن عُلَيّ بن رباح اللخمی ہیں۔
سفر میں روزہ رکھنا مکروہ ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے تو آپ نے روزہ رکھا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم ١ ؎ پر پہنچے تو آپ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں پر روزہ رکھنا گراں ہو رہا ہے اور لوگ آپ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ (یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگا کر پیا، لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، تو ان میں سے بعض نے روزہ توڑ دیا اور بعض رکھے رہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ (اب بھی) روزے سے ہیں، آپ نے فرمایا : یہی لوگ نافرمان ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں کعب بن عاصم، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ، ٤- سفر میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے، یہاں تک بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جب وہ سفر میں روزہ رکھ لے تو وہ سفر سے لوٹنے کے بعد پھر دوبارہ رکھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی سفر میں روزہ نہ رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ ٥- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر وہ طاقت پائے اور روزہ رکھے تو یہی مستحسن اور افضل ہے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس اور عبداللہ بن مبارک اسی کے قائل ہیں، ٦- شافعی کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے قول سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں اور جس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ روزے سے ہیں تو آپ کا یہ فرمانا کہ یہی لوگ نافرمان ہیں ایسے شخص کے لیے ہے جس کا دل اللہ کی دی ہوئی رخصت اور اجازت کو قبول نہ کرے، لیکن جو لوگ سفر میں روزہ نہ رکھنے کو مباح سمجھتے ہوئے روزہ رکھے اور اس کی قوت بھی رکھتا ہو تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١٤١) ، سنن النسائی/الصیام ٤٩ (٢٢٦٥) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ ٢ ؎ : کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور صوم افطار کرنے کے بارے میں انہیں جو رخصت دی گئی ہے اس رخصت کو قبول کرنے سے انہوں نے انکار کیا ، اور یہ اس شخص پر محمول کیا جائے گا جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر ہو رہا ہو ، رہا وہ شخص جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر نہ پہنچے تو وہ روزہ رکھنے سے گنہگار نہ ہوگا ، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران مشقت کی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (4 / 57) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 710
سفر میں روزہ رکھنے کی اجازت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا، وہ خود مسلسل روزہ رکھا کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ کی حدیث کہ حمزہ بن عمرو (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا، حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس بن مالک، ابو سعید خدری، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمرو، ابو الدرداء اور حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصوم ٥٨ (٢٣١٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٠٧١) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٣٣ (١٩٤٢، ١٩٤٣) وصحیح مسلم/الصیام ٧ (١١٢١) ، و سنن ابی داود/ الصوم ٤٢ (٢٤٠٢) ، وسنن النسائی/الصیام ٥٨ (٢٣٠٨-٢٣١٠) ، و ٧٤ (٢٣٨٦) ، وسنن ابن ماجہ/الصوم ١٠ (١٦٦٢) ، موطا امام مالک/الصیام ٧ (٢٤) و مسند احمد (٦/٤٦، ١٩٣، ٢٠٢، ٢٠٧) ، وسنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٤٨) ، من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1662) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 711
سفر میں روزہ رکھنے کی اجازت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان میں سفر کرتے تو نہ آپ روزہ رکھنے والے کے روزہ رکھنے پر نکیر کرتے اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والے کے روزہ نہ رکھنے پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٦) ، سنن النسائی/الصیام ٥٩ (٢٣١٢) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٤٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 712
سفر میں روزہ رکھنے کی اجازت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے تو ہم میں سے بعض روزے سے ہوتے اور بعض روزے سے نہ ہوتے۔ تو نہ تو روزہ نہ رکھنے والا رکھنے والے پر غصہ کرتا اور نہ ہی روزہ رکھنے والے نہ رکھنے والے پر، ان کا خیال تھا کہ جسے قوت ہو وہ روزہ رکھے تو بہتر ہے، اور جس نے کمزوری محسوس کی اور روزہ نہ رکھا تو بھی بہتر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٦) ، سنن النسائی/الصیام ٥٩ (٢٣١١) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣٢٥) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (٣/٤٥، ٧٤، ٨٧) من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 713
لڑنے والے کے لئے افطار کی اجازت
معمر بن ابی حیّیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسیب سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو ابن مسیب نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں : ہم نے رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو غزوے کئے۔ غزوہ بدر اور فتح مکہ، ہم نے ان دونوں میں روزے نہیں رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمر (رض) کی حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری سے بھی روایت ہے، ٣- ابو سعید خدری سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے (لوگوں کو) ایک غزوے میں افطار کا حکم دیا۔ عمر بن خطاب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ البتہ انہوں نے روزہ رکھنے کی رخصت دشمن سے مڈبھیڑ کی صورت میں دی ہے۔ اور بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٤٥٠) (ضعیف الإسناد) (سعیدبن المسیب نے عمر فاروق (رض) کو نہیں پایا ہے، لیکن دوسرے دلائل سے مسئلہ ثابت ہے) وضاحت : ١ ؎ : یا تو سفر کی وجہ سے یا طاقت کے لیے تاکہ دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت کمزوری لاحق نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 714
حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لئے افطار کی اجازت ہے
انس بن مالک کعبی (رض) ١ ؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سواروں نے ہم پر رات میں حملہ کیا، تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، میں نے آپ کو پایا کہ آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، آپ نے فرمایا : آؤ کھالو ، میں نے عرض کیا : میں روزے سے ہوں ۔ آپ نے فرمایا : قریب آؤ، میں تمہیں روزے کے بارے میں بتاؤں، اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز ٢ ؎ معاف کردی ہے، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی روزہ کو معاف کردیا ہے۔ اللہ کی قسم نبی اکرم ﷺ نے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت دونوں لفظ کہے یا ان میں سے کوئی ایک لفظ کہا، تو ہائے افسوس اپنے آپ پر کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کیوں نہیں کھایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس بن مالک کعبی کی حدیث حسن ہے، انس بن مالک کی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث ہم نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، ٢- اس باب میں ابوامیہ سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزہ نہیں رکھیں گی، بعد میں قضاء کریں گی، اور فقراء و مساکین کو کھانا کھلائیں گی۔ سفیان، مالک، شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں، ٥- بعض کہتے ہیں : وہ روزہ نہیں رکھیں گی بلکہ فقراء و مساکین کو کھانا کھلائیں گی۔ اور ان پر کوئی قضاء نہیں اور اگر وہ قضاء کرنا چاہیں تو ان پر کھانا کھلانا واجب نہیں۔ اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٤٣ (٢٤٠٨) ، سنن النسائی/الصیام ٥١ (٢٢٧٦) ، و ٦٢ (٢٣١٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٢ (١٦٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٢) ، مسند احمد (٤/٣٤٧) ، و (٥/٢٩) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ وہ انس بن مالک نہیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے خادم ہیں ، بلکہ یہ کعبی ہیں۔ ٢ ؎ : مراد چار رکعت والی نماز میں سے ہے۔ ٣ ؎ : اور اسی کو صاحب تحفہ الأحوذی نے راجح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ یہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں لہٰذا ان پر صرف قضاء لازم ہوگی۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1667) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 715
میت کی طرف سے روزہ رکھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : میری بہن مرگئی ہے۔ اس پر مسلسل دو ماہ کے روزے تھے۔ بتائیے میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا : ذرا بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں ؟ اس نے کہا : ہاں (ادا کرتی) ، آپ نے فرمایا : تو اللہ کا حق اس سے بھی بڑا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں بریدہ، ابن عمر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٢ (١٩٥٣) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٧ (١١٤٨) ، (وعندہما ” أمي “ بدل ” أختي “ وقد أشار البخاري إلی اختلاف الروایات) ، سنن ابی داود/ الأیمان ٢٦ (٣٣١٠) ، (وعندہ إیضا ” أمي “ ) ، ( تحفة الأشراف : ٥٦١٢ و ٥٩٦١ و ٦٤٢٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے ، محدثین کا یہی قول ہے اور یہی راجح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1758) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 716
میت کی طرف سے روزہ رکھنا
اس سند سے بھی اعمش سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوخالد احمر نے اعمش سے یہ حدیث بہت عمدہ طریقے سے روایت کی ہے، ٣- ابوخالد الاحمر کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی اسے اعمش سے ابوخالد کی روایت کے مثل روایت کیا ہے، ابومعاویہ نے اور دوسرے کئی اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «الأعمش عن مسلم البطين عن سعيد بن جبير عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے سلمہ بن کہیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور نہ ہی عطاء اور مجاہد کے واسطے کا، ابوخالد کا نام سلیمان بن حیان ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : * صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 717
روزوں کا کفارہ
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اس حالت میں مرے کہ اس پر ایک ماہ کا روزہ باقی ہو تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ٢- صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمر (رض) سے موقوف ہے یعنی انہیں کا قول ہے، ٣- اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزے رکھے جائیں گے۔ یہ قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں : جب میت پر نذر والے روزے ہوں تو اس کی طرف سے روزہ رکھا جائے گا، اور جب اس پر رمضان کی قضاء واجب ہو تو اس کی طرف سے مسکینوں اور فقیروں کو کھانا کھلایا جائے گا، مالک، سفیان اور شافعی کہتے ہیں کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٠ (١٧٥٧) (تحفة الأشراف : ٨٤٢٣) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار کندی ضعیف ہیں، نیز اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1757) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (389) ، المشکاة (2034 / التحقيق الثاني) ، ضعيف الجامع الصغير (5853) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 718
صائم جس کو قے آجائے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزوں سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا : پچھنا لگوانے سے ١ ؎، قے آ جانے سے اور احتلام ہوجانے سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث محفوظ نہیں ہے، ٢- عبداللہ بن زید بن اسلم اور عبدالعزیز بن محمد اور دیگر کئی رواۃ نے یہ حدیث زید بن اسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔ اور اس میں ان لوگوں نے ابو سعید خدری کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ٣- عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف مانے جاتے ہیں، ٤- میں نے ابوداؤد سجزی کو کہتے سنا کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا ؟ تو انہوں نے کہا : ان کے بھائی عبداللہ بن زید بن اسلم میں کوئی حرج نہیں، ٤- اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا کہ علی بن عبداللہ المدینی نے عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں ٢ ؎ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : میں ان سے کچھ روایت نہیں کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤١٨٢) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر یہ روایت «أفطر الحاجم والمحجوم» کی مخالف ہے ، تاویل یہ کی جاتی ہے کہ «أفطر الحاجم والمحجوم» کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نے اپنے آپ افطار کے لیے خود کو پیش کردیا ہے بلکہ قریب پہنچ گئے ہیں ، جسے سینگی لگائی گئی وہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے اور سینگی لگانے والا اس لیے کہ اس سے بچنا مشکل ہے کہ جب وہ خون کھینچ رہا ہو تو خون کا کوئی قطرہ حلق میں چلا جائے اور روزہ ٹوٹ جائے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور ناسخ انس (رض) کی روایت ہے جسے دارقطنی نے روایت کیا ہے ، اس میں ہے «رخص النبي صلی اللہ عليه وسلم بعد في الحجامة الصائم وکان أنس يحتجم وهو صائم»۔ ٢ ؎ : زید بن اسلم کے تین بیٹے ہیں : عبداللہ ، عبدالرحمٰن اور اسامہ۔ امام احمد کے نزدیک عبداللہ ثقہ ہیں اور عبدالرحمٰن اور اسامہ دونوں ضعیف اور یحییٰ بن معین کے نزدیک زیدبن اسلم کے سبھی بیٹے ضعیف ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف تخريج حقيقة الصيام (21 - 22) ، ضعيف أبي داود (409) ، // عندنا برقم (513 / 2376) ، ضعيف الجامع الصغير (2567) ، المشکاة (2015) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 719
روزے میں عمدا قے کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جسے قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء لازم نہیں ١ ؎ اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے روزے کی قضاء کرنی چاہیئے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم اسے بسند «هشام عن ابن سيرين عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» عیسیٰ بن یونس ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا، ٢- یہ حدیث دوسری اور سندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے، ٣- اس باب میں ابو الدرداء، ثوبان اور فضالہ بن عبید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- ابو الدرداء، ثوبان اور فضالہ بن عبید (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قے کی تو آپ نے روزہ توڑ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نفلی روزے سے تھے۔ قے ہوئی تو آپ نے کچھ کمزوری محسوس کی اس لیے روزہ توڑ دیا، بعض روایات میں اس کی تفسیر اسی طرح مروی ہے، ٥- اور اہل علم کا عمل ابوہریرہ کی حدیث پر ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ روزہ دار کو جب قے آ جائے تو اس پر قضاء لازم نہیں ہے۔ اور جب قے جان بوجھ کر کرے تو اسے چاہیئے کہ قضاء کرے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٣٢ (٢٣٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٦ (١٦٧٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٥٤٢) ، مسند احمد (٢/٤٩٨) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٥ (١٧٧٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس میں روزہ دار کی کوئی غلطی نہیں۔ ٢ ؎ : اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ اس میں کفارہ نہیں صرف قضاء ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1676) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 720
روزے میں بھول کر کھانا پینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بھول کر کچھ کھا پی لیا، وہ روزہ نہ توڑے، یہ روزی ہے جو اللہ نے اسے دی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٤٩٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بخاری کی روایت ہے «فإنما أطعمه اللہ وسقاه»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1673) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 721
روزے میں بھول کر کھانا پینا
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری اور ام اسحاق غنویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ٤- مالک بن انس کہتے ہیں کہ جب کوئی رمضان میں بھول کر کھا پی لے تو اس پر روزوں کی قضاء لازم ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٥ (١٦٧٣) ، و ( تحفة الأشراف : ١٢٣٠٣، و ١٤٤٧) (صحیح) وأخرجہ سنن ابی داود/ الصیام ٣٩ (٢٣٩٨) من غیر ہذا الطریق والسیاق، وانظر ما قبلہ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 722
قصدا روزہ توڑنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اور بغیر کسی بیماری کے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا تو پورے سال کا روزہ بھی اس کو پورا نہیں کر پائے گا چاہے وہ پورے سال روزے سے رہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوالمطوس کا نام یزید بن مطوس ہے اور اس کے علاوہ مجھے ان کی کوئی اور حدیث معلوم نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٣٨ (٢٣٩٦، ٢٣٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٥ (١٦٧٢) ، مسند احمد ( ٢/٤٥٨، ٤٧٠) ، سنن الدارمی/الصوم ١٨ (١٧٥٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٦١٦) (ضعیف) (سند میں ابو المطوس لین الحدیث ہیں اور ان کے والد مجہول) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1672) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (368) مختصرا، المشکاة (2013) ، ضعيف الجامع الصغير (5462) ، ضعيف أبي داود (517 / 2396) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 723
رمضان میں روزہ توڑنے کا کفارہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں ہلاک ہوگیا، آپ نے پوچھا : تمہیں کس چیز نے ہلاک کردیا ؟ اس نے عرض کیا : میں رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا۔ آپ نے پوچھا : کیا تم ایک غلام یا لونڈی آزاد کرسکتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے پوچھا : کیا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، تو آپ نے پوچھا : کیا ساٹھ مسکین کو کھانا کھلا سکتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، تو آپ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ اتنے میں آپ ﷺ کے پاس ایک بڑا ٹوکرہ لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں، آپ نے فرمایا : اسے لے جا کر صدقہ کر دو ، اس نے عرض کیا : ان دونوں ملے ہوئے علاقوں کے درمیان کی بستی (یعنی مدینہ میں) مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے ساتھ والے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ نے فرمایا : اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، عائشہ اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں جو رمضان میں جان بوجھ کر بیوی سے جماع کر کے روزہ توڑ دے، اسی حدیث پر عمل ہے، ٤- اور جو جان بوجھ کر کھا پی کر روزہ توڑے، تو اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں : اس پر روزے کی قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہے، ان لوگوں نے کھانے پینے کو جماع کے مشابہ قرار دیا ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں : اس پر صرف روزے کی قضاء لازم ہے، کفارہ نہیں۔ اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ سے جو کفارہ مذکور ہے وہ جماع سے متعلق ہے، کھانے پینے کے بارے میں آپ سے کفارہ مذکور نہیں ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ کھانا پینا جماع کے مشابہ نہیں ہے۔ یہ شافعی اور احمد کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کا اس شخص سے جس نے روزہ توڑ دیا، اور آپ نے اس پر صدقہ کیا یہ کہنا کہ اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو ، کئی باتوں کا احتمال رکھتا ہے : ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کفارہ اس شخص پر ہوگا جو اس پر قادر ہو، اور یہ ایسا شخص تھا جسے کفارہ دینے کی قدرت نہیں تھی، تو جب نبی اکرم ﷺ نے اسے کچھ دیا اور وہ اس کا مالک ہوگیا تو اس آدمی نے عرض کیا : ہم سے زیادہ اس کا کوئی محتاج نہیں۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے لے لو اور جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو ، اس لیے کہ روزانہ کی خوراک سے بچنے کے بعد ہی کفارہ لازم آتا ہے، تو جو اس طرح کی صورت حال سے گزر رہا ہو اس کے لیے شافعی نے اسی بات کو پسند کیا ہے کہ وہی اسے کھالے اور کفارہ اس پر فرض رہے گا، جب کبھی وہ مالدار ہوگا تو کفارہ ادا کرے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٠ (١٩٣٦) ، صحیح مسلم/الصیام ١٤ (١١١١) ، سنن ابی داود/ الصیام ٣٧ (٢٣٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٤ (١٦٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٢٧٥) ، موطا امام مالک/الصیام ٩ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٢٤١) ، سنن الدارمی/الصوم ١٩ (١٧٥٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1671) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 724
روزے میں مسواک کرنا
عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو روزہ کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ میں اسے شمار نہیں کرسکتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عامر بن ربیعہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- اسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے۔ یہ لوگ روزہ دار کے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ١ ؎ سمجھتے، البتہ بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے تازی لکڑی کی مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے، اور دن کے آخری حصہ میں بھی مسواک کو مکروہ کہا ہے۔ لیکن شافعی دن کے شروع یا آخری کسی بھی حصہ میں مسواک کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ نے دن کے آخری حصہ میں مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٢٦ (٢٣٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٣٤) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : خواہ زوال سے پہلے ہو یا زوال کے بعد ، خواہ تازی لکڑی سے ہو ، یا خشک ، یہی اکثر اہل علم کا قول ہے اور یہی راجح۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (68) //، ضعيف أبي داود (511 / 2364) ، المشکاة (2009) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 725
روازے میں سرمہ لگانے کے بارے میں
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر پوچھا : میری آنکھ آ گئی ہے، کیا میں سرمہ لگا لوں، میں روزے سے ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں (لگا لو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ٢- اس باب میں نبی اکرم ﷺ سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں، ٣- ابوعات کہ ضعیف قرار دیے جاتے ہیں، ٤- اس باب میں ابورافع سے بھی روایت ہے، ٥- صائم کے سرمہ لگانے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ١ ؎ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے اور بعض اہل علم نے روزہ دار کو سرمہ لگانے کی رخصت دی ہے اور یہ شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٩٢٢) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو عاتک طریف سلمان ضعیف راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : ان کی دلیل معبد بن ہوذہ کی حدیث ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے ، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مشک ملا ہوا سرمہ سوتے وقت لگانے کا حکم دیا اور فرمایا صائم اس سے پرہیز کرے ، لیکن یہ حدیث منکر ہے ، جیسا کہ ابوداؤد نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے نقل کیا ہے ، لہٰذا اس حدیث کے رو سے صائم کے سرمہ لگانے کی کراہت پر استدلال صحیح نہیں ، راجح یہی ہے کہ صائم کے لیے بغیر کراہت کے سرمہ لگانا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 726
روزے میں بوسہ لینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ماہ صیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر بن خطاب، حفصہ، ابو سعید خدری، ام سلمہ، ابن عباس، انس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صائم کے بوسہ لینے کے سلسلے میں صحابہ کرام وغیرہم کا اختلاف ہے۔ بعض صحابہ نے بوڑھے کے لیے بوسہ لینے کی رخصت دی ہے۔ اور نوجوانوں کے لیے اس اندیشے کے پیش نظر رخصت نہیں دی کہ اس کا صوم محفوظ و مامون نہیں رہ سکے گا۔ جماع ان کے نزدیک زیادہ سخت چیز ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے : بوسہ اجر کم کردیتا ہے لیکن اس سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا، ان کا خیال ہے کہ روزہ دار کو اگر اپنے نفس پر قابو (کنٹرول) ہو تو وہ بوسہ لے سکتا ہے اور جب وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہ رکھ سکے تو بوسہ نہ لے تاکہ اس کا روزہ محفوظ و مامون رہے۔ یہ سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ١٢ (١١١٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ٣٣ (٢٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٩ (١٦٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے روزے کی حالت میں بوسہ کا جواز ثابت ہوتا ہے ، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں فرض اور نفل روزے کی تفریق صحیح نہیں ، رمضان کے روزے کی حالت میں بھی بوسہ لیا جاسکتا ہے ، لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1683) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 727
روزہ میں بوس وکنار کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں مجھ سے بوس و کنار کرتے تھے، آپ اپنی خواہش پر تم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر ما بعدہ ( تحفة الأشراف : ١٧٤١٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1684) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 728
روزہ میں بوس وکنار کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور اپنی بیویوں کے ساتھ لپٹ کر لیٹتے تھے، آپ اپنی جنسی خواہش پر تم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور «لإربه» کے معنی «لنفسه» اپنے نفس پر کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ١٢ (١١٠٦) ، سنن ابی داود/ الصیام ٣٣ (٢٣٨٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٥ و ١٧٤٠٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٢٣ (١٩٢٧) ، وصحیح مسلم/الصیام (المصدرالسابق) ، وسنن ابن ماجہ/الصیام ١٩ (١٦٨٤) ، وسنن الدارمی/الصوم ٢١ (١٧٦٣) ، من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1687) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 729
اس کا روزہ درست نہیں جو رات سے نیت نہ کرے
ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے روزے کی نیت فجر سے پہلے نہیں کرلی، اس کا روزہ نہیں ہوا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حفصہ (رض) کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، نیز اسے نافع سے بھی روایت کیا گیا ہے انہوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور اسے ابن عمر ہی کا قول قرار دیا ہے، اس کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اور اسی طرح یہ حدیث زہری سے بھی موقوفاً مروی ہے، ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اسے مرفوع کیا ہے یحییٰ بن ایوب کے سوا، ٢- اس کا معنی اہل علم کے نزدیک صرف یہ ہے کہ اس کا روزہ نہیں ہوتا، جو رمضان میں یا رمضان کی قضاء میں یا نذر کے روزے میں روزے کی نیت طلوع فجر سے پہلے نہیں کرتا۔ اگر اس نے رات میں نیت نہیں کی تو اس کا روزہ نہیں ہوا، البتہ نفل روزے میں اس کے لیے صبح ہوجانے کے بعد بھی روزے کی نیت کرنا مباح ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٧١ (٢٤٥٤) ، سنن النسائی/الصیام ٦٨ (٣٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٦ (١٧٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٠٢) ، مسند احمد (٦/٢٨٧) ، سنن الدارمی/الصوم ١٠ (١٧٤٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر یہ عام ہے فرض اور نفل دونوں قسم کے روزوں کو شامل ہے لیکن جمہور نے اسے فرض کے ساتھ خاص مانا ہے اور راجح بھی یہی ہے ، اس کی دلیل عائشہ (رض) کی روایت ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس آتے اور پوچھتے : کیا کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ تو اگر میں کہتی کہ نہیں تو آپ فرماتے : میں روزے سے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1700) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 730
نفل روزہ توڑنا
ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اتنے میں آپ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ نے اس میں سے پیا، پھر مجھے دیا تو میں نے بھی پیا۔ پھر میں نے عرض کیا : میں نے گناہ کا کام کرلیا ہے۔ آپ میرے لیے بخشش کی دعا کر دیجئیے۔ آپ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : میں روزے سے تھی اور میں نے روزہ توڑ دیا تو آپ نے پوچھا : کیا کوئی قضاء کا روزہ تھا جسے تم قضاء کر رہی تھی ؟ عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو اس سے تمہیں کوئی نقصان ہونے والا نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابو سعید خدری اور ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٨٠١٥) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ” سماک “ جب منفرد ہوں تو ان کی روایت میں بڑا اضطراب پایاجاتا ہے، یہی حال اگلی حدیث میں ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج المشکاة (2079) ، صحيح أبي داود (2120) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 731
نفل روزہ توڑنا
شعبہ کہتے ہیں کہ میں سماک بن حرب کو کہتے سنا کہ ام ہانی (رض) کے دونوں بیٹوں میں سے ایک نے مجھ سے حدیث بیان کی تو میں ان دونوں میں جو سب سے افضل تھا اس سے ملا، اس کا نام جعدہ تھا، ام ہانی اس کی دادی تھیں، اس نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کی دادی کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں آئے تو آپ نے کوئی پینے کی چیز منگائی اور اسے پیا۔ پھر آپ نے انہیں دیا تو انہوں نے بھی پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں تو روزے سے تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے ۔ شعبہ کہتے ہیں : میں نے سماک سے پوچھا : کیا آپ نے اسے ام ہانی سے سنا ہے ؟ کہا : نہیں، مجھے ابوصالح نے اور ہمارے گھر والوں نے خبر دی ہے اور ان لوگوں نے ام ہانی سے روایت کی۔ حماد بن سلمہ نے بھی یہ حدیث سماک بن حرب سے روایت کی ہے۔ اس میں ہے ام ہانی کی لڑکی کے بیٹے ہارون سے روایت ہے، انہوں نے ام ہانی سے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- شعبہ کی روایت سب سے بہتر ہے، اسی طرح ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ہے اور محمود نے ابوداؤد سے روایت کی ہے، اس میں «أمين نفسه» ہے، البتہ ابوداؤد سے محمود کے علاوہ دوسرے لوگوں نے جو روایت کی تو ان لوگوں نے «أمير نفسه أو أمين نفسه» شک کے ساتھ کہا۔ اور اسی طرح شعبہ سے متعدد سندوں سے بھی «أمين أو أمير نفسه» شک کے ساتھ وارد ہے۔ ام ہانی کی حدیث کی سند میں کلام ہے۔ ٢- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا اگر روزہ توڑ دے تو اس پر کوئی قضاء لازم نہیں الا یہ کہ وہ قضاء کرنا چاہے۔ یہی سفیان ثوری، احمد، اسحاق بن راہویہ اور شافعی کا قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٨٠٠١) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہی جمہور کا قول ہے ، ان کی دلیل ام ہانی کی روایت ہے جس میں ہے «فإن شئت فأقضی وإن شئت فلا تقضی» نیز ابو سعید خدری (رض) کی روایت ہے جس میں ہے «أفطر فصم مکانه إن شئت» یہ دونوں روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نفل روزہ توڑ دینے پر قضاء لازم نہیں ، حنفیہ کہتے ہیں کہ قضاء لازم ہے ، ان کی دلیل عائشہ و حفصہ (رض) کی روایت ہے جو ایک باب کے بعد آرہی ہے ، لیکن وہ ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج المشکاة (2079) ، صحيح أبي داود (2120) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 732
نفل روزہ توڑنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن میرے پاس آئے اور آپ نے پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے میں نے عرض کیا : نہیں، تو آپ نے فرمایا : تو میں روزے سے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٢ (١١٥٤) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٢ (٢٤٥٥) ، سنن النسائی/الصیام ٦٧ (٢٣٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٦ (١٧٠١) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٧٢) ، مسند احمد (٦/٤٩، ٢٠٧) (حسن صحیح) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (965) ، صحيح أبي داود (2119) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 733
نفل روزہ توڑنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس آتے تو پوچھتے : کیا تمہارے پاس کھانا ہے ؟ میں کہتی : نہیں۔ تو آپ فرماتے : تو میں روزے سے ہوں ، ایک دن آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔ آپ نے پوچھا : کیا چیز ہے ؟ میں نے عرض کیا : حیس ، آپ نے فرمایا : میں صبح سے روزے سے ہوں ، پھر آپ نے کھالیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک قسم کا کھانا جو کھجور ، ستّو اور گھی سے تیار کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (965) ، صحيح أبي داود (2119) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 734
نفل روزے کی قضا واجب ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور حفصہ دونوں روزے سے تھیں، ہمارے پاس کھانے کی ایک چیز آئی جس کی ہمیں رغبت ہوئی، تو ہم نے اس میں سے کھالیا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ آ گئے، تو حفصہ مجھ سے سبقت کر گئیں - وہ اپنے باپ ہی کی بیٹی تو تھیں - انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ روزے سے تھے۔ ہمارے سامنے کھانا آگیا، تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی تو ہم نے اسے کھالیا، آپ نے فرمایا : تم دونوں کسی اور دن اس کی قضاء کرلینا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- صالح بن ابی اخضر اور محمد بن ابی حفصہ نے یہ حدیث بسند «زہری عن عروہ عن عائشہ» اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اسے مالک بن انس، معمر، عبیداللہ بن عمر، زیاد بن سعد اور دوسرے کئی حفاظ نے بسند «الزہری عن عائشہ» مرسلاً روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عروہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٦٤١٩) (ضعیف) (جعفر بن برقان زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عروہ کا واسطہ غلط ہے سند میں عروہ ہیں ہی نہیں) وضاحت : ١ ؎ : لیکن جمہور نے اسے تخییر پر محمول کیا ہے کیونکہ ام ہانی کی ایک روایت میں ہے «وإن کان تطوعاً فإن شئت فأقضي وإن شئت فلا تقضي» اور اگر نفلی روزہ ہے تو چاہو تو تم اس کی قضاء کرو اور چاہو تو نہ کرو اس روایت کی تخریج احمد نے کی ہے اور ابوداؤد نے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (423) // عندنا برقم (531 / 2457) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 735
شعبان اور رمضان کے روزے ملا کر رکھنا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو لگاتار دو مہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان ١ ؎ اور رمضان کے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام سلمہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اور یہ حدیث ابوسلمہ سے بروایت عائشہ بھی مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا، آپ شعبان کے سارے روزے رکھتے، سوائے چند دنوں کے بلکہ پورے ہی شعبان روزے رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٣٣ (٢١٧٧) ، و ٧٠ (٢٣٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤ (١٦٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٣٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الصیام ١١ (٢٣٣٦) ، وسنن النسائی/الصیام ٧٠ (٢٣٥٥) ، و مسند احمد (٦/٣١١) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ ایک حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں تو آپ نے اس بات کو پسند فرمایا کہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1648) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 736
شعبان اور رمضان کے روزے ملا کر رکھنا
اس سند سے بھی اسے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مبارک اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئی مہینے کے اکثر ایام روزہ رکھے تو کہا جائے کہ اس نے پورے مہینے کے روزے رکھے، اور کہا جائے کہ اس نے پوری رات نماز پڑھی حالانکہ اس نے شام کا کھانا بھی کھایا اور بعض دوسرے کاموں میں بھی مشغول رہا۔ گویا ابن مبارک دونوں حدیثوں کو ایک دوسرے کے موافق سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ اس مہینے کے اکثر ایام میں روزہ رکھتے تھے، ٢- سالم ابوالنضر اور دوسرے کئی لوگوں نے بھی بطریق ابوسلمہ عن عائشہ محمد بن عمرو کی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٧٥٦) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٥٢ (١٩٦٩) ، وصحیح مسلم/الصیام ٣٤ (١١٥٦) ، وسنن النسائی/الصیام ٣٤ (٢١٧٩، ٢١٨٠) ، و ٣٥ (٢١٨١-٢١٨٧) ، وسنن ابن ماجہ/الصیام ٣٠ (١٧١٠) ، وط/الصیام ٢٢ (٥٦) ، و مسند احمد (٦/٣٩، ٥٨، ٨٤، ١٠٧، ١٢٨، ١٤٣، ١٠٣، ١٦٥، ٢٣٣، ٢٤٢، ٢٤٩، ٢٦٨) ، من غیر ہذا الطریق ویتصرف یسیر فی السیاق قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1648) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 737
تعظیم رمضان کے لئے شعبان کے دوسرے پندرہ دنوں میں روزے رکھنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- اور اس حدیث کا مفہوم بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی پہلے سے روزہ نہ رکھ رہا ہو، پھر جب شعبان ختم ہونے کے کچھ دن باقی رہ جائیں تو ماہ رمضان کی تعظیم میں روزہ رکھنا شروع کر دے۔ نیز ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے وہ چیزیں روایت کی ہے جو ان لوگوں کے قول سے ملتا جلتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ماہ رمضان کے استقبال میں پہلے سے روزہ نہ رکھو اس کے کہ ان ایام میں کوئی ایسا روزہ پڑجائے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کراہت اس شخص کے لیے ہے جو عمداً رمضان کی تعظیم میں روزہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ١٢ (٢٣٣٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٤ (١٧٨٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٠٥١) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/الصیام ٥ (١٦٥١) ، وسنن الدارمی/الصوم ٣٤ (١٧٨١) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنے کی ممانعت امت کو اس لیے ہے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار رہے ، رہے نبی اکرم ﷺ اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ آپ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا لیا کرتے تھے چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزہ آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1651) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 738
شعبان کی پندرھویں رات
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو غائب پایا۔ تو میں (آپ کی تلاش میں) باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا : کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان ٢ ؎ کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث کو ہم اس سند سے صرف حجاج کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا ہے، نیز فرمایا : یحییٰ بن ابی کثیر کا عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ کا یحییٰ بن ابی کثیر سے سماع نہیں، ٣- اس باب میں ابوبکر صدیق (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الاقامة ١٩١ (١٣٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٥) (ضعیف) (مؤلف نے سبب بیان کردیا ہے کہ حجاج بن ارطاة ضعیف راوی ہے، اور سند میں دوجگہ انقطاع ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس باب کا ذکر یہاں استطراداً شعبان کے ذکر کی وجہ سے کیا گیا ہے ورنہ گفتگو یہاں صرف روزوں کے سلسلہ میں ہے۔ ٢ ؎ : اسی کو برصغیر ہندو پاک میں لیلۃ البراءت بھی کہتے ہیں ، جس کا فارسی ترجمہ شب براءت ہے۔ اور اس میں ہونے والے اعمال بدعت وخرافات کے قبیل سے ہیں ، نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے حوالے سے کوئی ایک بھی صحیح روایت اور حدیث احادیث کی کتب میں نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1389) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (295) ، المشکاة (1299) الصفحة (406) ، ضعيف الجامع الصغير (1761) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 739
محرم کے روزوں کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے ١ ؎ محرم کا روزہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٨ (١١٦٣) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٥ (٢٤٢٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٦ (١٦١٤) ، سنن ابن ماجہ/قیام الصیام ٤٣ (١٧٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٢٩٢) ، مسند احمد (٢/٣٤٢، ٢٤٤، ٥٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کی طرف اس مہینہ کی نسبت اس کے شرف و فضل کی علامت ہے ، جیسے بیت اللہ اور ناقۃ اللہ وغیرہ ہیں ، محرم چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ، ماہ محرم ہی سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1742) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 740
محرم کے روزوں کے بارے میں
علی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا : ماہ رمضان کے بعد کس مہینے میں روزہ رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں ؟ تو انہوں نے اس سے کہا : میں نے اس سلسلے میں سوائے ایک شخص کے کسی کو پوچھتے نہیں سنا، میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے سنا، اور میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر ماہ رمضان کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہی ہو تو محرم کا روزہ رکھو، وہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں پر رحمت کی ١ ؎ اور اس میں دوسرے لوگوں پر بھی رحمت کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٢٩٥) (ضعیف) (سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں، اور ان سے روایت کرنے والے ” عبدالرحمن بن اسحاق بن الحارث ابو شیبہ “ ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 77) // ضعيف الجامع الصغير (1298) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 741
جمعہ کے دن روزہ رکھنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر ماہ کے شروع کے تین دن روزے رکھتے۔ اور ایسا کم ہوتا تھا کہ جمعہ کے دن آپ روزے سے نہ ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- شعبہ نے یہ حدیث عاصم سے روایت کی ہے اور اسے مرفوع نہیں کیا، ٣- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اہل علم کی ایک جماعت نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ مکروہ یہ ہے کہ آدمی صرف جمعہ کو روزہ رکھے نہ اس سے پہلے رکھے اور نہ اس کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٦٨ (٢٤٥٠) (تحفة الأشراف : ٩٢٠٦) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن تخريج المشکاة (2058) ، التعليق علی ابن خزيمة (2149) ، صحيح أبي داود (2116) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 742
صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے، إلا یہ کہ وہ اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی روزہ رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، جابر، جنادہ ازدی، جویریہ، انس اور عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ آدمی کے لیے مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے مخصوص کرلے، نہ اس سے پہلے روزہ رکھے اور نہ اس کے بعد۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٤ (١١٤٤) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٠ (٢٤٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٧ (١٧٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٥٠٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصیام ٦٣ (١٩٨٥) ، و مسند احمد (٢/٤٥٨) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : اس ممانعت کی وجہ کیا ہے ، اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ، سب سے صحیح وجہ اس کا یوم عید ہونا ہے ، اس کی صراحت ابوہریرہ (رض) کی مرفوع روایت میں ہے جس کی تخریج حاکم وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «يوم الجمعة يوم عيد فلا تجعلوا يوم عيدكم صيامکم إلا أن تصوموا قبله وبعده» جمعہ کا دن عید کا دن ہے ، اس لیے اپنے عید والے دن روزہ نہ رکھا کرو ، إلا یہ کہ اس سے ایک دن قبل - جمعرات کا بھی۔ روزہ رکھو یا اس سے ایک دن بعد سنیچر کے دن کا بھی۔ اور ابن ابی شیبہ نے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث علی (رض) سے روایت کی ہے جس کی سند حسن ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «من کان منکم متطوعاً من الشهر فليصم يوم الخميس ولا يصم يوم الجمعة فإنه يوم طعام وشراب» تم میں سے جو کوئی کسی مہینے کے نفلی روزے رکھ رہا ہو ، وہ جمعرات کے دن کا روزہ رکھے ، جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے ، اس لیے کہ یہ کھانے پینے کا دن ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1723) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 743
ہفتے کے دن روزہ رکھنا
عبداللہ بن بسر کی بہن بہیہ صمّاء (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہفتہ کے دن روزہ مت رکھو ١ ؎، سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تم پر فرض کیا ہو، اگر تم میں سے کوئی انگور کی چھال اور درخت کی ٹہنی کے علاوہ کچھ نہ پائے تو اسی کو چبا لے (اور روزہ نہ رکھے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور اس کے مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی روزہ کے لیے ہفتے (سنیچر) کا دن مخصوص کرلے، اس لیے کہ یہودی ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٥١٢ (٢٤٢١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٨ (١٧٢٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٠ (١٧٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩١٠) (صحیح) (اس کی سند میں تھوڑا کلام ہے، دیکھئے : الإرواء رقم : ٩٦٠) وضاحت : ١ ؎ : جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے یعنی روزہ نہ رکھنا بہتر ہے ، سوائے اس کے کہ اللہ نے تم پر فرض کیا ہو کے لفظ میں فرض نذر کے کفاروں کے روزے شامل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1726) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 744
پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سوموار اور جمعرات کے روزے کی تلاش میں رہتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عائشہ (رض) کی حدیث حسن ہے اور اس سند سے غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٣٦ (٢١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٢ (١٧٣٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٠٨١) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن النسائی/الصیام السابق : ٢١٨٨، وباب ٧٠ (الأرقام : ٢٣٥٨، ٢٣٦٢-٢٣٦٥) ، و مسند احمد (٦/٨٠، ٨٩، ١٠٦) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ ان دونوں دنوں میں اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں ، ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «تعرض الأعمال يوم الإثنين والخميس فأحب أن يعرض عملي وأنا صائم» اور دوسری وجہ وہ ہے جس کا ذکر مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوموار ( دوشنبہ ) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی اور اسی میں میں نبی بنا کر بھجا گیا ، یا اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1739) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 745
پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مہینہ ہفتہ (سنیچر) ، اتوار اور سوموار (دوشنبہ) کو اور دوسرے مہینہ منگل، بدھ، اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- عبدالرحمٰن بن مہدی نے اس حدیث کو سفیان سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٠٧٠) (ضعیف) (سند میں خیثمہ بن ابی خیثمہ ابو نصر بصری لین الحدیث ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف تخريج المشکاة / التحقيق الثاني (2059) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 746
پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس باب میں حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٢ (١٧٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٧٤٦) ، وأخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٩) (صحیح) (سند میں محمد بن رفاعہ لین الحدیث راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج المشکاة / التحقيق الثانی (2056) ، التعليق الرغيب (2 / 84) ، الإرواء (949) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 747
بدھ اور جمعرات کے دن روزہ کھنا
مسلم قرشی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے صیام الدھر (سال بھر کے روزوں) کے بارے میں پوچھا، یا آپ سے صیام الدھر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : تم پر تمہارے گھر والوں کا بھی حق ہے، رمضان کے روزے رکھو، اور اس مہینے کے رکھو جو اس سے متصل ہے، اور ہر بدھ اور جمعرات کے روزے رکھو، جب تم نے یہ روزے رکھ لیے، تو اب گویا تم نے سال بھر روزہ رکھا اور افطار کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مسلم قرشی (رض) کی حدیث غریب ہے، ٢- بعض لوگوں نے بطریق «ہارون بن سلمان عن مسلم بن عبیداللہ عن عبیداللہ بن مسلم» روایت کی ہے، ٣- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٥٧ (٢٤٣٢) (تحفة الأشراف : ٩٧٤) (ضعیف) (صحیح سند اس طرح ہے ” عن مسلم بن عبیداللہ، عن أبیہ ” عبیداللہ بن مسلم “ اور مسلم بن عبیداللہ لین الحدیث ہیں اور ان کے باپ ” عبیداللہ بن مسلم “ صحابی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (420) // عندنا برقم (527 / 2432) ، المشکاة (2061) ، ضعيف الجامع الصغير (1914) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 748
عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن ١ ؎ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوقتادہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم نے عرفہ کے دن کے روزے کو مستحب قرار دیا ہے، مگر جو لوگ عرفات میں ہوں ان کے لیے مستحب نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٦ (١١٦٢) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٣ (٢٤٢٥) ، سنن النسائی/الصیام ٧٣ (٢٣٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣١ (١٧٣٠) ، (التحفہ : ١٢١١٧) ، مسند احمد (٥/٢٩٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یوم عرفہ سے مراد ٩ ذی الحجہ ہے جب حجاج کرام عرفات میں وقوف کرتے ہیں اور ذکر و دعا میں مشغول ہوتے ہیں ، اس دن ان کے لیے یہی سب سے بڑی عبادت ہے اس لیے اس دن کا روزہ ان کے لیے مستحب نہیں ہے ، البتہ غیر حاجیوں کے لیے اس دن روزہ رکھنا بڑی فضیلت کی بات ہے ، اس سے ان کے دو سال کے وہ صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے۔ ( یہ خیال رہے کہ مکہ سے دور علاقوں کے لوگ اپنے یہاں کی رویت کے حساب سے ٩ ذی الحجہ کو عرفہ کا روزہ نہ رکھیں ، بلکہ مکہ کی رویت کے حساب سے ٩ ذی الحجہ کا روزہ رکھیں کیونکہ حجاج اسی حساب سے میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں مطلع اور ملک بدل جائے وہاں کے لوگ اپنے حساب نو ذی الحجہ کا روزہ رکھیں ، بلکہ افضل یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ سے ٩ تک مسلسل روزہ رکھے ، اس لیے کہ ان دنوں میں کیے گئے اعمال کی فضیلت حدیث میں بہت آئی ہے اور سلف صالحین کا اس ضمن میں تعامل بھی روایات میں مذکور ہے ، اور اس سے یوم عرفہ سے مراد مقام عرفات میں ٩ ذی الحجہ پر بھی عمل ہوجائے گا ، واللہ اعلم۔ ٢ ؎ : اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بعد والے سال کے گناہوں کا وہ کفارہ کیسے ہوجاتا ہے جب کہ آدمی نے وہ گناہ ابھی کیا ہی نہیں ہے تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس سال اللہ تعالیٰ اسے گناہوں سے محفوظ رکھے گا یا اتنی رحمت و ثواب اسے مرحمت فرما دے گا کہ وہ آنے والے سال کے گناہوں کا بھی کفارہ ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1730) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 749
عرفات میں عرفہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عرفات میں روزہ نہیں رکھا، ام فضل (رض) نے آپ کے پاس دودھ بھیجا تو آپ نے اسے پیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عمر اور ام الفضل (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے اس دن کا (یعنی یوم عرفہ کا) روزہ نہیں رکھا اور ابوبکر (رض) کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا، عمر کے ساتھ حج کیا، تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا، اور عثمان کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا، ٤- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ عرفات میں روزہ نہ رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں تاکہ آدمی دعا کی زیادہ سے زیادہ قدرت رکھ سکے، ٥- اور بعض اہل علم نے عرفہ کے دن عرفات میں روزہ رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أوأخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٦٠٠٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2109) ، التعليق علی ابن خزيمة (2102) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 750
عرفات میں عرفہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
ابونجیح یسار کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے عرفہ کے دن عرفات میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا۔ آپ نے اس دن کا روزہ نہیں رکھا۔ ابوبکر کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی نہیں رکھا، عمر کے ساتھ کیا۔ انہوں نے بھی نہیں رکھا۔ عثمان کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی نہیں رکھا (رضی اللہ عنہم) ، میں بھی اس دن (وہاں عرفات میں) روزہ نہیں رکھتا ہوں، البتہ نہ تو میں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے روکتا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یہ حدیث ابن ابی نجیح سے بطریق : «عن أبيه عن رجل عن ابن عمر» بھی مروی ہے۔ ابونجیح کا نام یسار ہے اور انہوں نے ابن عمر سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) ( تحفة الأشراف : ٨٥٧١) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : اس کا مطلب یہ ہے کہ ابونجیح نے اس حدیث کو پہلے ابن عمر سے ایک آدمی کے واسطے سے سنا تھا پھر بعد میں ابن عمر سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے اسے براہ راست بغیر واسطے کے ابن عمر (رض) سے سنا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 751
عاشورہ کے روزہ کی ترغیب
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء ١ ؎ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی، محمد بن صیفی، سلمہ بن الاکوع، ہند بن اسماء، ابن عباس، ربیع بنت معوذ بن عفراء، عبدالرحمٰن بن سلمہ خزاعی، جنہوں نے اپنے چچا سے روایت کی ہے اور عبداللہ بن زبیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن کے روزہ رکھنے پر ابھارا، ٢- ابوقتادہ (رض) کی حدیث کے علاوہ ہم نہیں جانتے کہ کسی اور روایت میں آپ نے یہ فرمایا ہو کہ عاشوراء کے دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ احمد اور اسحاق کا قول بھی ابوقتادہ کی حدیث کے مطابق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٧٤٩ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : محرم کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہتے ہیں ، نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں ، آپ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی اس خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا : ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں ، چناچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ ٩ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہود کی مخالفت بھی ہوجائے ، بلکہ ایک روایت میں آپ نے اس کا حکم دیا ہے کہ تم عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1738) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 752
اس بارے میں کہ عاشورے کے دن روزہ نہ رکھنا بھی جائز ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کردیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے ١ ؎، ٢- اس باب میں ابن مسعود، قیس بن سعد، جابر بن سمرہ، ابن عمر اور معاویہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا عمل عائشہ (رض) کی حدیث پر ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے، یہ لوگ یوم عاشوراء کے روزے کو واجب نہیں سمجھتے، الا یہ کہ جو اس کی اس فضیلت کی وجہ سے جو ذکر کی گئی اس کی رغبت رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (التحفہ : ١٧٠٨٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٢) ، وصحیح مسلم/الصیام ١٩ (١١٢٥) ، و سنن ابی داود/ الصیام ٦٤ (٢٤٤٢) ، وط/الصیام ١١ (٣٣) ، وسنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٨٠٣) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : فائدہ ا ؎ : مولف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 753
اس برے میں کہ عاشو رہ کونسا دن ہے
حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس پہنچا، وہ زمزم پر اپنی چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے، میں نے پوچھا : مجھے یوم عاشوراء کے بارے میں بتائیے کہ وہ کون سا دن ہے جس میں میں روزہ رکھوں ؟ انہوں نے کہا : جب تم محرم کا چاند دیکھو تو دن گنو، اور نویں تاریخ کو روزہ رکھ کر صبح کرو۔ میں نے پوچھا : کیا اسی طرح سے محمد ﷺ رکھتے تھے ؟ کہا : ہاں (اسی طرح رکھتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٠ (١١٣٣) ، سنن ابی داود/ الصیام ٦٥ (٢٤٤٦) ، (التحفہ : ٥٤١٢) ، مسند احمد (١/٢٤٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2114) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 754
اس برے میں کہ عاشو رہ کونسا دن ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا عاشوراء کے دن کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں : عاشوراء نواں دن ہے اور بعض کہتے ہیں : دسواں دن ١ ؎ ابن عباس سے مروی ہے کہ نویں اور دسویں دن کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اکثر علماء کی رائے بھی ہے کہ محرم کا دسواں دن ہی یوم عاشوراء ہے اور یہی قول راجح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2113) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 755
ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں روزہ رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزے رکھتے کبھی نہیں دیکھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اسی طرح کئی دوسرے لوگوں نے بھی بطریق «الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة» روایت کی ہے، ٢- اور ثوری وغیرہ نے یہ حدیث بطریق «منصور عن ابراہیم النخعی» یوں روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا گیا، ٣- اور ابوالا ٔحوص نے بطریق «منصور عن ابراہیم النخعی عن عائشہ» روایت کی اس میں انہوں نے اسود کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ٤- اور لوگوں نے اس حدیث میں منصور پر اختلاف کیا ہے۔ اور اعمش کی روایت زیادہ صحیح ہے اور سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ متصل ہے، ٥- اعمش ابراہیم نخعی کی سند کے منصور سے زیادہ یاد رکھنے والے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الاعتکاف ٤ (١١٧٦) ، سنن ابی داود/ الصیام ٦٢ (٢٤٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٩ (١٧٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٤٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر اس حدیث سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ ہے ، لیکن یہ صحیح نہیں ، ان دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے ، خاص کر یوم عرفہ کے روزہ کی بڑی فضیلت وارد ہے ، ویسے بھی ان دنوں کے نیک اعمال اللہ کو بہت پسند ہیں اس لیے اس حدیث کی تاویل کی جاتی کہ نبی اکرم ﷺ کا ان دنوں روزہ نہ رکھنا ممکن ہے بیماری یا سفر وغیرہ کسی عارض کی وجہ سے رہا ہو ، نیز عائشہ (رض) کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ فی الواقع روزہ نہ رکھتے رہے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1729) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 756
ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں اعمال صالحہ کی فضیلت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ١١ (٩٦٩) ، سنن ابی داود/ الصیام ٦١ (٢٤٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٩ (١٧٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٦١٤) ، مسند احمد (١/٢٢٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٢ (١٨١٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1727) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 757
ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں اعمال صالحہ کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف مسعود بن واصل کی حدیث سے اس طریق کے علاوہ جانتے ہیں اور مسعود نے نہّاس سے روایت کی ہے، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے کسی اور طریق سے نہیں جان سکے، ٤- اس میں سے کچھ جسے قتادہ نے بسند «قتادة عن سعيد بن المسيب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مرسلا روایت کی ہے، ٤- یحییٰ بن سعید نے نہ اس بن قہم پر ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٩ (١٧٢٨) (تحفة الأشراف : ١٣٠٩٨) (ضعیف) (سند میں نہ اس بن قہم ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1728) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (377) مع بعض الاختلاف في الألفاظ، وانظر :، المشکاة (1471) ، ضعيف الجامع الصغير (5161) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 758
شوال کے چھ روزے
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوایوب (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- عبدالعزیز بن محمد نے اس حدیث کو بطریق : «صفوان بن سليم بن سعيد عن عمر بن ثابت عن أبي أيوب عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، ٣- شعبہ نے یہ حدیث بطریق : «ورقاء بن عمر عن سعد بن سعيد» روایت کی ہے، سعد بن سعید، یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، ٤- بعض محدثین نے سعد بن سعید پر حافظے کے اعتبار سے کلام کیا ہے۔ ٥- حسن بصری سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس شوال کے چھ دن کے روزوں کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے : اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے روزوں سے پورے سال راضی ہے، ٦- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ثوبان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٧- ایک جماعت نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے، ٨- ابن مبارک کہتے ہیں : یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں، ٩- ابن مبارک کہتے ہیں : بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں، ١٠- اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں، ١ ١- ابن مبارک سے نے یہ بھی کہا : اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٩ (١١٦٤) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٨ (٢٤٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٣ (١٧١٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٤ (١٧٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ٣٤٨٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے ، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا ، جس کا یہ مستقل معمول ہوجائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہوگا ، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جاسکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی ، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (1716) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 759
ہر مہینے میں تین روزے رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے تین باتوں کا عہد لیا : ١- میں وتر پڑھے بغیر نہ سووں، ٢- ہر ماہ تین دن کے روزے رکھوں، ٣- اور چاشت کی نماز (صلاۃ الضحیٰ ) پڑھا کروں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٨٨٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/التہجد ٣٣ (١١٧٨) ، والصیام ٦٠ (١٩٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧٢١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٨ (١٦٧٨) ، والصیام ٧٠ (٢٣٦٨) ، و ٨١ (٢٤٠٣) ، (٢/٢٢٩، ٢٣٣، ٢٥٤، ٢٥٨، ٢٦٠، ٢٦٥، ٢٧١، ٢٧٧، ٣٢٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٥) ، والصوم ٣٨ (١٧٨٦) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (946) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 760
ہر مہینے میں تین روزے رکھنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! جب تم ہر ماہ کے تین دن کے روزے رکھو تو تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوذر (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابوقتادہ، عبداللہ بن عمرو، قرہ بن ایاس مزنی، عبداللہ بن مسعود، ابوعقرب، ابن عباس، عائشہ، قتادہ بن ملحان، عثمان بن ابی العاص اور جریر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض احادیث میں یہ بھی ہے کہ جس نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے صوم الدھر رکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٨٤ (٢٤٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٨٨) (حسن صحیح) وأخرجہ : سنن النسائی/الصیام (المصدر المذکور (برقم : ٢٤٢٤-٢٤٣١) ، مسند احمد (٥/١٥، ٥٢، ١٧٧) من غیر ہذا الطریق وبسیاق آخر۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (947) ، ( ، المشکاة / التحقيق الثاني 2057) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 761
ہر مہینے میں تین روزے رکھنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھے تو یہی صیام الدھر ہے ، اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمائی ارشاد باری ہے : «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» (الأنعام : ١٦٠) جس نے ایک نیکی کی تو اسے (کم سے کم) اس کا دس گنا اجر ملے گا گویا ایک دن (کم سے کم) دس دن کے برابر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ نے یہ حدیث بطریق : «أبي شمر وأبي التياح عن أبي عثمان عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٨٢ (٢٤١١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٩ (١٧٠٨) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٦٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الإرواء أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 762
ہر مہینے میں تین روزے رکھنا
معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ ہر ماہ تین روزے رکھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں رکھتے تھے، میں نے کہا : کون سی تاریخوں میں رکھتے تھے ؟ کہا : آپ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ کون سی تاریخ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یزید الرشک یزید ضبعی ہی ہیں، یہی یزید بن قاسم بھی ہیں اور یہی قسّام ہیں، رشک کے معنی اہل بصرہ کی لغت میں قسّام کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٦ (١١٦٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٠ (٢٤٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٩ (١٧٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٩٧٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1708) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 763
روزہ کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا رب فرماتا ہے : ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ اور روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ جہنم کے لیے ڈھال ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے، اور اگر تم میں سے کوئی جاہل کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آئے اور وہ روزے سے ہو تو اسے کہہ دینا چاہیئے کہ میں روزے سے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں معاذ بن جبل، سہل بن سعد، کعب بن عجرہ، سلامہ بن قیصر اور بشیر بن خصاصیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بشیر کا نام زحم بن معبد ہے اور خصاصیہ ان کی ماں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٣٠٩٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٢ (١٨٩٤) ، و ٩ (١٩٠٤) ، واللباس ٧٨ (٥٩٢٧) ، والتوحید ٣٥ (٧٤٩٢) ، و ٥٠ (٧٥٣٨) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٠ (١١٥١) ، سنن النسائی/الصیام ٤٢ (٢٢١٦-٢٢٢١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١ (١٦٣٨) ، و ٢١ (١٦٩١) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٨) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٥٧، ٢٦٦، ٢٧٣، ٤٤٣، ٤٧٥، ٤٧٧، ٤٨٠، ٥٠١، ٥١٠، ٥١٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٠ (١٧٧٧) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق۔ وضاحت : ١ ؎ : یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ اعمال سبھی اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں اور وہی ان کا بدلہ دیتا ہے پھر روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا کہنے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ روزہ میں ریا کاری کا عمل دخل نہیں ہے جبکہ دوسرے اعمال میں ریا کاری ہوسکتی ہے کیونکہ دوسرے اعمال کا انحصار حرکات پر ہے جبکہ روزے کا انحصار صرف نیت پر ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ دوسرے اعمال کا ثواب لوگوں کو بتادیا گیا ہے کہ وہ اس سے سات سو گنا تک ہوسکتا ہے لیکن روزہ کا ثواب صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ ہی اس کا ثواب دے گا دوسروں کے علم میں نہیں ہے اسی لیے فرمایا : «الصوم لي و أنا أجزي به»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 57 - 58) ، صحيح أبي داود (2046) ، الإرواء (918) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 764
روزہ کی فضیلت
سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزہ رکھنے والوں ١ ؎ کو اس کی طرف بلایا جائے گا، تو جو روزہ رکھنے والوں میں سے ہوگا اس میں داخل ہوجائے گا اور جو اس میں داخل ہوگیا، وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ١ (١٦٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٧٧١) (صحیح) (مَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا) کا جملہ ثابت نہیں ہے، تراجع الالبانی ٣٥١) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٤ (١٨٩٦) ، وبدء الخلق (٣٢٥٧) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٠ (١١٥٢) ، مسند احمد (٥/٣٣٣، ٣٣٥) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : روزہ رکھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو فرض روزوں کے ساتھ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے ہوں ، ورنہ رمضان کے فرض روزے تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہیں ، اس خصوصی فضیلت کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو فرض کے ساتھ بکثرت نفلی روزوں کا اہتمام کرتے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1640) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 765
روزہ کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں : ایک خوشی افطار کرتے وقت ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم : ٧٦٤ (التحفہ : ١٢٧١٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1638) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 766
ہمیشہ روزہ رکھنا
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اگر کوئی صوم الدھر (پورے سال روزے) رکھے تو کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوقتادہ کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن شخیر، عمران بن حصین اور ابوموسیٰ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کی ایک جماعت نے صوم الدھر کو مکروہ کہا ہے اور بعض دوسرے لوگوں نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صیام الدھر تو اس وقت ہوگا جب عید الفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا نہ چھوڑے، جس نے ان دنوں میں روزہ ترک کردیا، وہ کراہت کی حد سے نکل گیا، اور وہ پورے سال روزہ رکھنے والا نہیں ہوا مالک بن انس سے اسی طرح مروی ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی طرح کہتے ہیں، ان دونوں کا کہنا ہے کہ ان پانچ دنوں یوم الفطر، یوم الاضحی اور ایام تشریق میں روزہ رکھنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، بقیہ دنوں میں افطار کرنا واجب نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٤٩ (تحفة الأشراف : ١٢١١٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ راوی کو شک ہے کہ «لا صام ولا أفطر» کہا یا «لم يصم ولم يفطر» کہا ( دونوں کے معنی ایک ہیں ) ظاہر یہی ہے کہ یہ خبر ہے کہ اس نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اس نے سنت کی مخالفت کی ، اور افطار نہیں کیا کیونکہ وہ بھوکا پیاسا رہا کچھ کھایا پیا نہیں ، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بد دعا ہے ، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اس کے اس فعل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (952) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 767
پے درپے روزے رکھنا
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے نبی اکرم ﷺ کے روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے خوب روزے رکھے، پھر آپ روزے رکھنا چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے بہت دنوں سے روزہ نہیں رکھے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے پورے روزے نہیں رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٤ (١١٥٦) ، سنن النسائی/الصیام ٧٠ (٢٣٥١) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٠٢) ، وانظر ما تقدم عند المؤلف برقم : ٧٣٧ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس کی وجہ یہ تھی تاکہ کوئی اس کے وجوب کا گمان نہ کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1710) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 768
پے درپے روزے رکھنا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ان سے نبی اکرم ﷺ کے روزوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا : آپ کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے : اب آپ کا ارادہ روزے بند کرنے کا نہیں ہے، اور کبھی بغیر روزے کے رہتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپ کوئی روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ اور آپ کو رات کے جس حصہ میں بھی تم نماز پڑھنا دیکھنا چاہتے نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جس حصہ میں سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے دیکھ لیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٨٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 769
پے درپے روزے رکھنا
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے افضل روزہ میرے بھائی داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے، اور جب (دشمن سے) مڈبھیڑ ہوتی تو میدان چھوڑ کر بھاگتے نہیں تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ سب سے افضل روزہ یہ ہے کہ تم ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن بغیر روزہ کے رہو، کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے سخت روزہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق ( تحفة الأشراف : ٨٦٣٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصوم ٥٧ (١٩٧٧) ، و ٥٩ (١٩٧٩) ، والانبیاء ٣٨ (٣٤٢٠) ، وفضائل القرآن ٣٤ (٥٠٥٢) ، والنکاح ٨٩ (٥١٩٩) ، والأدب ٨٤ (٦١٣٤) ، سنن ابی داود/ الصیام ٥٣ (٢٤٢٧) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، سنن النسائی/الصیام ٧١ (٢٣٨٠) ، و ٧٦ (٢٣٩٠-٢٣٩٥) ، و ٧٧ (٢٣٩٦-٢٣٩٨) ، و ٧٨ (٢٣٩٩-٢٤٠١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٨ (١٧٠٦) ، و ٣١ (١٧١٢) ، مسند احمد ٢/١٦٠، ١٦٤، ١٨٨، ١٨٩، ١٩٠، ١٩٤، ١٩٥، ١٩٨، ١٩٩، ٢٠٠، ٢٠٦، ٢١٦، ٢٢٤، ٢٦٥) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٢ (١٧٩٣) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف في السیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 770
پے درپے روزے رکھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو روزوں سے منع فرمایا : یوم الاضحی (بقر عید) کے روزے سے اور یوم الفطر (عید) کے روزے سے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، علی، عائشہ، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- عمرو بن یحییٰ ہی عمارہ بن ابی الحسن مازنی ہیں، وہ مدینے کے رہنے والے ہیں اور ثقہ ہیں۔ سفیان ثوری، شعبہ اور مالک بن انس نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ /الصوم ٦٦ (١٩٩١) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٢ (٨٢٧) ، سنن ابی داود/ الصیام ٤٨ (٢٤١٧) ، ( تحفة الأشراف : ٤٤٠٤) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٦ (١٨٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٦ (١٧٢١) ، مسند احمد (٣/٣٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٣ (١٧٩٤) ، من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح (1721) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 772
پے درپے روزے رکھنا
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے مولیٰ ابو عبید سعد کہتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب (رض) کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے سنا ہے، عید الفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے روزوں سے افطار کا دن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الاضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٦ (١٩٩٠) ، والأضاحی ١٦ (٥٥٧١) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٢ (١١٣٧) ، سنن ابی داود/ الصیام ٤٨ (٢٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٦ (١٧٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦٦٣) ، موطا امام مالک/العیدین ٢ (٥) مسند احمد (١/٤٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو ، اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنے کی نذر مان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کی قضاء اس پر لازم آئے گی اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہوجائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا ، ان کی قضاء کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1722) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 771
ایام تشریق میں روزہ رکھنا حرام ہے
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یوم عرفہ ١ ؎، یوم نحر ٢ ؎ اور ایام تشریق ٣ ؎ ہماری یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عقبہ بن عامر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، سعد، ابوہریرہ، جابر، نبیشہ، بشر بن سحیم، عبداللہ بن حذافہ، انس، حمزہ بن عمرو اسلمی، کعب بن مالک، عائشہ، عمرو بن العاص اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ البتہ صحابہ کرام وغیرہم کی ایک جماعت نے حج تمتع کرنے والے کو اس کی رخصت دی ہے جب وہ ہدی نہ پائے اور اس نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن میں روزہ نہ رکھے ہوں کہ وہ ایام تشریق میں روزہ رکھے۔ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصیام ٤٩ (٢٤١٩) ، سنن النسائی/المناسک ١٩٥ (٣٠٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٤١) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٧ (١٨٠٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ یوم عرفہ سے مراد وہ دن ہے جس میں حاجی میدان عرفات میں ہوتے ہیں یعنی نویں ذی الحجہ مطابق رؤیت مکہ مکرمہ۔ ٢ ؎ قربانی کا دن یعنی دسویں ذی الحجہ۔ ٣ ؎ ایام تشریق سے مراد گیارہویں ، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2090) ، الإرواء (4 / 130) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 773
پچھنے لگانا مکروہ ہے
رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سینگی (پچھنا) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ نہیں رہا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- رافع بن خدیج (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح رافع بن خدیج کی روایت ہے، ٣- اور علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح ثوبان اور شداد بن اوس کی حدیثیں ہیں، اس لیے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ سے ثوبان اور شداد بن اوس دونوں کی حدیثوں کی ایک ساتھ روایت کی ہے، ٤- اس باب میں علی، سعد، شداد بن اوس، ثوبان، اسامہ بن زید، عائشہ، معقل بن سنان (ابن یسار بھی کہا جاتا ہے) ، ابوہریرہ، ابن عباس، ابوموسیٰ ، بلال اور سعد (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٥- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کو مکروہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ بعض صحابہ نے رات کو پچھنا لگوایا۔ ان میں موسیٰ اشعری، اور ابن عمر بھی ہیں۔ ابن مبارک بھی یہی کہتے ہیں : ٦- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ جس نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا، اس پر اس کی قضاء ہے، اسحاق بن منصور کہتے ہیں : اسی طرح احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کہا ہے، ٧- شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا ، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی روزہ دار پچھنا لگوا لے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا، ٨- بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہوگئے تھے اور روزہ دار کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٥٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : گویا ان کا موقف یہ تھا کہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جانے کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1679 - 1681) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 774
روزہ دار کو پچھنے لگانے کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا، آپ محرم تھے اور روزے سے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- اسی طرح وہیب نے بھی عبدالوارث کی طرح روایت کی ہے، ٣- اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے ایوب سے اور ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور، عکرمہ نے اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، والطب ١٢ (٥٦٩٥) ، سنن ابی داود/ الصیام ٢٩ (٢٣٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩٨٩) (صحیح) ” احتجم وھو صائم “ کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے، اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داود میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجود ہے، جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں ” محرم “ کا لفظ نہیں ذکر کیا ہے، در اصل الگ الگ نبی اکرم ﷺ نے دونوں حالت میں حجامت کرائی، جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب، عن عکرمہ، عن ابن عباس ہے کہ أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احتجم وهو محرم، واحتجم وهو صائم : ١٨٣٥، ١٩٣٨) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم و احرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے، بلکہ دو الگ الگ واقعہ ہے) وقد أخرجہ کل من : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، واطلب ١٥ (٥٧٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، سنن ابی داود/ الحج ٣٦ (١٨٣٥، ١٨٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٨٧ (٣٠٨١) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٢، ٢٣٦، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٦٠، ٢٨٣، ٢٨٦، ٢٩٢، ٣٠٦، ٣١٥، ٣٣٣، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٧٢، ٣٧٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٠ (١٨٢٠) ، من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح - بلفظ : .... واحتجم وهو صائم -، ابن ماجة (1682) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 775
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، آپ روزے سے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
روزہ دار کو پچھنے لگانے کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسے وقت میں پچھنا لگوایا جس میں آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، آپ احرام باندھے ہوئے تھے اور روزے کی حالت میں تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابو سعید خدری، جابر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٦٤٩٥) (منکر) (اس لفظ کے ساتھ منکر ہے، صحیح یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حالت احرام میں سینگی لگوائی تو صوم سے نہیں تھے کما تقدم اور حالت صیام میں سینگی لگانے کا واقعہ الگ ہے) قال الشيخ الألباني : منکر بهذا اللفظ، ابن ماجة (1682) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 777
روزوں میں وصال کی کر اہت کے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صوم وصال ١ ؎ مت رکھو ، لوگوں نے عرض کیا : آپ تو رکھتے ہیں ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابوہریرہ، عائشہ، ابن عمر، جابر، ابو سعید خدری، اور بشیر بن خصاصیہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ بغیر افطار کیے لگاتار روزے رکھنے کو مکروہ کہتے ہیں، ٤- عبداللہ بن زبیر (رض) سے مروی ہے کہ وہ کئی دنوں کو ملا لیتے تھے (درمیان میں) افطار نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صوم وصال یہ ہے کہ آدمی قصداً دو یا دو سے زیادہ دن تک افطار نہ کرے ، مسلسل روزے رکھے نہ رات میں کچھ کھائے پیئے اور نہ سحری ہی کے وقت ، صوم وصال نبی اکرم ﷺ کے لیے جائز تھا لیکن امت کے لیے جائز نہیں۔ ٢ ؎ : میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اسے جمہور نے مجازاً قوت پر محمول کیا ہے کہ کھانے پینے سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ قوت مجھے یوں ہی بغیر کھائے پیے دے دیتا ہے ، اور بعض نے اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوئے کھانے پینے سے جنت کا کھانا پینا مراد لیا ہے ، حافظ ابن القیم (رح) فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے معارف کی ایسی غذا کھلاتا ہے جس سے آپ کے دل پر لذت سرگوشی ومناجات کا فیضان ہوتا ہے ، اللہ کے قرب سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے اور اللہ کی محبت کی نعمت سے آپ کو سرشاری نصیب ہوتی ہے اور اس کی جناب کی طرف شوق میں افزونی ہوتی ہے ، یہ ہے وہ غذا جو آپ کو اللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہے ، یہ روحانی غذا ایسی ہے جو آپ کو دنیوی غذا سے کئی کئی دنوں تک کے لیے بےنیاز کردیتی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 778
صبح تک حالت جنابت میں رہتے ہوئے روزے کی نیت کرنا
ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو فجر پا لیتی اور اپنی بیویوں سے صحبت کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے پھر آپ غسل فرماتے اور روزہ رکھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں ـ: ١- عائشہ اور ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جب کوئی حالت جنابت میں صبح کرے تو وہ اس دن کی قضاء کرے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٢ (١٩٢٦) ، صحیح مسلم/الصیام ١٣ (١١٠٩) ، سنن ابی داود/ الصیام ٣٦ (٢٣٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٩٦) ، موطا امام مالک/الصیام ٤ (١٢) ، مسند احمد (٦/٣٨، وسنن الدارمی/الصوم ٢٢ (١٧٦٦) من غیر ہذا الطریق (صحیح) وضاحت : ١ ؎ ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کی یہ حدیث ابوہریرہ کی حدیث «من أصبح جنبا فلا صوم له» کے معارض ہے ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ عائشہ اور ام سلمہ کی حدیث کو ابوہریرہ کی حدیث پر ترجیح حاصل ہے کیونکہ یہ دونوں نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں سے ہیں اور بیویاں اپنے شوہروں کے حالات سے زیادہ واقفیت رکھتی ہیں ، دوسرے ابوہریرہ (رض) تنہا ہیں اور یہ دو ہیں اور دو کی روایت کو اکیلے کی روایت پر ترجیح دی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1703) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 779
روزہ دار کو دعوت قبول کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو اسے قبول کرے، اور اگر وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ دعا کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٤٣٣) (صحیح) وأخرجہ : کل من : صحیح مسلم/الصیام ٢٨ (١١٥٠) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٥ (٢٤٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٧ (١٧٥٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٢) ، سنن الدارمی/الصیام ٣١ (١٧٧٨) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی صاحب طعام کے لیے برکت کی دعا کرے ، کیونکہ طبرانی کی روایت میں ابن مسعود (رض) سے وارد ہے جس میں «وإن کان صائما فليدع بالبرکة» کے الفاظ آئے ہیں ، باب کی حدیث میں «فلیصل» کے بعد «يعني الدعاء» کے جو الفاظ آئے ہیں یہ «فلیصل» کی تفسیر ہے جو خود امام ترمذی نے کی ہے یا کسی اور راوی نے ، مطلب یہ ہے کہ یہاں نماز پڑھنا مراد نہیں بلکہ اس سے مراد دعا ہے ، بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے ، اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرے اس کے گھر جائے اور گھر کے کسی کونے میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ام سلیم (رض) کے گھر میں پڑھی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1750) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 780
روزہ دار کو دعوت قبول کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے اور وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ وہ کہے میں روزہ سے ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ سے مروی دونوں حدیثیں حسن صحیح ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٣٦٧١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : میں روزہ سے ہوں کہنے کا حکم دعوت قبول نہ کرنے کی معذرت کے طور پر ہے ، اگرچہ نوافل کا چھپانا بہتر ہے ، لیکن یہاں اس کے ظاہر کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ تاکہ داعی کے دل میں مدعو کے خلاف کوئی غلط فہمی اور کدورت راہ نہ پائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1750) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 781
عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ بغیر اس کی اجازت کے نہ رکھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس اور ابوسعید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٣ (١٧٦١) ، (بدون ذکر رمضان) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٠ (١٧٦١) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٦٨٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٤٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «لا تصوم» نفی کا صیغہ جونہی کے معنی میں ہے ، مسلم کی روایت میں «لا يحل للمرأة أن تصوم» کے الفاظ وارد ہیں ، یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر کی موجودگی میں نفلی روزے عورت کے لیے بغیر شوہر کی اجازت کے جائز نہیں ، اور یہ ممانعت مطلقاً ہے اس میں یوم عرفہ اور عاشوراء کے روزے بھی داخل ہیں بعض لوگوں نے عرفہ اور عاشوراء کے روزوں کو مستثنیٰ کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1761) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 782
رمضان کی قضاء میں تاخیر
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رمضان کے جو روزے مجھ پر رہ جاتے انہیں میں شعبان ہی میں قضاء کر پاتی تھی۔ جب تک کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات نہیں ہوگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٢٩٣) ، وانظر مسند احمد (٦/١٢٤، ١٣١، ١٧٠) ، وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/ /الصوم ٤٠ (١٩٥٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٦ (١١٤٦) ، سنن ابی داود/ الصیام ٤٠ (٢٣٩٩) ، سنن النسائی/الصیام ٦٤ (٢٣٣١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٣ (١٦٦٩) من غیر ھذا الطریق و بسیاق آخر (صحیح) (سند میں اسماعیل سدی کے بارے میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 783
روزہ دار کا ثواب جب لوگ اس کے سامنے کھانا کھائیں
لیلیٰ کی مالکن (ام عمارہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : روزہ دار کے پاس جب افطار کی چیزیں کھائی جاتی ہیں، تو فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : شعبہ نے بھی یہ حدیث بطریق : «حبيب بن زيد عن ليلى عن جدته أم عمارة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» سے اسی طرح روایت کی ہے (جو آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٦ (١٧٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٣٣٥) (ضعیف) (سند میں لیلیٰ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1748) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (384) ، وانظر صحيح ابن ماجة (1418) ، وفي ابن ماجة : إذا أكل عنده الطعام ، وضعيف الجامع (3525) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 784
روزہ دار کا ثواب جب لوگ اس کے سامنے کھانا کھائیں
ام عمارہ بنت کعب انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے، انہوں نے آپ کو کھانا پیش کیا، تو آپ نے فرمایا : تم بھی کھاؤ، انہوں نے کہا : میں روزہ سے ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ دار کے لیے فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں، جب اس کے پاس کھایا جاتا ہے جب تک کہ کھانے والے فارغ نہ ہوجائیں ۔ بعض روایتوں میں ہے جب تک کہ وہ آسودہ نہ ہوجائیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور یہ شریک کی (اوپر والی) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (سند میں لیلیٰ مجہول راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1748) // لفظ آخر ضعيف الجامع (1483) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 785
روزہ دار کا ثواب جب لوگ اس کے سامنے کھانا کھائیں
اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے اس میں «حتی يفرغوا أو يشبعوا» کا ذکر نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ام عمارہ حبیب بن زید انصاری کی دادی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) قال الشيخ الألباني : ضعيف أيضا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 786
حائضہ روزوں کی قضا کرے نماز کی نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہمیں حیض آتا پھر ہم پاک ہوجاتے تو آپ ہمیں روزے قضاء کرنے کا حکم دیتے اور نماز قضاء کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یہ معاذہ سے بھی مروی ہے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، ٣- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے، ہم ان کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں جانتے کہ حائضہ عورت روزے کی قضاء کرے گی، نماز کی نہیں کرے گی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ١٣ (١٦٧٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠١ (١٠١٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٧٤) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الحیض ١٥ (٣٣٥) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٠٥ (٢٦٣) ، سنن النسائی/الصیام ٦٤ (٢٣٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٩ (٦٣١) ، مسند احمد (٦/٢٣، ٢٣١- ٢٣٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠١ (١٠٢٠) من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق۔ وضاحت : ١ ؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی قضاء اتنی مشکل نہیں ہے جتنی نماز کی قضاء ہے کیونکہ یہ پورے سال میں صرف ایک بار کی بات ہوتی ہے اس کے برخلاف نماز حیض کی وجہ سے ہر مہینے چھ یا سات دن کی نماز چھوڑنی پڑتی ہے ، اور کبھی کبھی دس دس دن کی نماز چھوڑنی پڑجاتی ہے ، اس طرح سال کے تقریباً چار مہینے نماز کی قضاء کرنی پڑے گی جو انتہائی دشوار امر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (631) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 787
ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے
لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا : کامل طریقے سے وضو کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی سرکنے میں مبالغہ کرو، إلا یہ کہ تم روزے سے ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم نے روزہ دار کے لیے ناک میں پانی سرکنے میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ٣- اس باب میں دوسری روایات بھی ہیں جن سے ان کے قول کی تقویت ہوتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨ (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (407) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 788
جو شخص کسی کا مہمان ہو تو میزبان کی اجارت کے بغیر ( نفلی) روزہ نہ رکھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی جماعت کے ہاں اترے یعنی ان کا مہمان ہو تو ان کی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث منکر ہے، ٢- ہم ثقات میں سے کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث ہشام بن عروہ سے روایت کی ہو، ٣- موسیٰ بن داود نے یہ حدیث بطریق : «أبي بکر المدني عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، ٤- یہ حدیث بھی ضعیف ہے، ابوبکر اہل الحدیث کے نزدیک ضعیف ہیں، اور ابوبکر مدنی جو جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں، ان کا نام فضل بن مبشر ہے، وہ ان سے زیادہ ثقہ اور ان سے پہلے کے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٧٦٧) (ضعیف جداً ) (سند میں ایوب بن واقدمتروک الحدیث راوی ہے) وأخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٤ (١٧٦٣) من غیر ہذا الطریق وہو أیضا ضعیف لأجل أبی بکر المدنی فہو أیضا متروک۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی ابوبکر المدینی جنہوں نے ہشام سے روایت کی اگرچہ ضعیف ہیں لیکن ابوبکر مدنی سے جنہوں نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے زیادہ قوی ہیں ، ان کا ضعف ان کے مقابلہ میں ہلکا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (1763) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (391) ، ضعيف الجامع (706 و 5865) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 789
اعتکاف
ابوہریرہ (رض) اور عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف ١ ؎ کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ اور عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابی بن کعب، ابولیلیٰ ، ابوسعید، انس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) ( تحفة الأشراف : ١٣٢٨٥ و ١٦٦٤٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اعتکاف کے لغوی معنی روکنے اور بند کرلینے کے ہیں ، اور شرعی اصطلاح میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ اپنے آپ کو مسجد میں روکے رکھنے کو اعتکاف کہتے ہیں ، اعتکاف سنت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ اس کا اہتمام فرمایا ہے اور آپ کے بعد ازواج مطہرات (رض) بھی اس کا اہتمام کرتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (966) ، صحيح أبي داود (2125) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 790
اعتکاف
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر پڑھتے پھر اپنے معتکف (جائے اعتکاف) میں داخل ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث یحییٰ بن سعید سے بواسطہ عمرۃ مرسلاً بھی مروی ہے (اس میں عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں) ، ٢- اور اسے مالک اور دیگر کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ نے عمرۃ سے مرسلاً ہی روایت کی ہے، ٣- اور اوزاعی، سفیان ثوری اور دیگر لوگوں نے بطریق : «يحيى بن سعيد عن عروة عن عائشة» روایت کی ہے، ٤- بعض اہل علم کے نزدیک عمل اسی حدیث پر ہے، وہ کہتے ہیں : جب آدمی اعتکاف کا ارادہ کرے تو فجر پڑھے، پھر اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں داخل ہوجائے، احمد اور اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ بعض کہتے ہیں : جب آدمی اعتکاف کا ارادہ کرے تو اگلے دن جس میں وہ اعتکاف کرنا چاہتا ہے کی رات کا سورج ڈوب جائے تو وہ اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں بیٹھا ہو، یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٦ (٢٠٣٣) ، و ٧ (٢٠٣٤) ، و ١٤ (٢٠٤١) ، و ١٨ (٢٠٤٥) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ٢ (١١٧٢) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٧ (٢٤٦٤) ، سنن النسائی/المساجد ١٨ (٧١٠) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٥٩ (١٧٧١) ، موطا امام مالک/الاعتکاف ٤ (٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٩٣٠) مسند احمد (٦/٢٢٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ اور یہی جمہور علماء کا قول ہے ، اور ام المؤمنین عائشہ (رض) کی مذکورہ روایت کی تاویل یہ کی جاتی ہے : اس کا یہ مطلب نہیں کہ اعتکاف کی ابتداء آپ اکیسویں کی فجر کے بعد کرتے بلکہ اعتکاف کے لیے آپ بیسویں تاریخ کا دن گزار کر کے مغرب سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ جاتے اور اعتکاف کی نیت سے مسجد ہی میں رات گزارتے ، پھر جب فجر پڑھ چکتے تو اعتکاف کی مخصوص جگہ میں جو آپ کے لیے بنائی گئی ہوتی تشریف لے جاتے ، یہ تاویل اس لیے ضروری ہے کہ دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ آپ رمضان کے پورے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے اور اکیسویں کو فجر کے بعد معتکف میں آنے کا مطلب ہوگا کہ عشرہ پورا نہ ہو اس میں کمی رہ گئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1771) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 791
شب قدر
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، ابی، جابر بن سمرہ، جابر بن عبداللہ، ابن عمر، فلتان بن عاصم، انس، ابو سعید خدری، عبداللہ بن انیس، ابوبکرہ، ابن عباس، بلال اور عبادہ بن صامت (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- «یُجَاوِرُ» کے معنی «یَعْتَکِفُ» اعتکاف کرتے تھے کے ہیں، ٤- نبی اکرم ﷺ سے مروی اکثر روایات یہی ہیں کہ آپ نے فرمایا : اسے آخری عشرے کی تمام طاق راتوں میں تلاش کرو ، اور شب قدر کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں، اور رمضان کی آخری رات کے اقوال مروی ہیں، شافعی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا مفہوم - «واللہ اعلم» - یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق جواب دیتے تھے۔ آپ سے کہا جاتا : ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں ؟ آپ فرماتے : ہاں فلاں رات میں تلاش کرو، ٥- شافعی کہتے ہیں : میرے نزدیک سب سے قوی روایت اکیسویں رات کی ہے، ٦- ابی بن کعب سے مروی ہے وہ قسم کھا کر کہتے کہ یہ ستائیسویں رات ہے۔ کہتے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس کی علامتیں بتائیں، ہم نے اسے گن کر یاد رکھا۔ ابوقلابہ سے مروی ہے کہ شب قدر آخری عشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/لیلة القدر ٣ (٢٠٢٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٠٦١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : شب قدر کی تعیین کے سلسلہ میں علماء کے چالیس سے زائد اقوال منقول ہیں ، ان میں سے راجح قول یہی ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے بغیر تعیین کے کوئی رات ہے ، بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رات آپ کو بتادی گئی تھی لیکن پھر بھلا دی گئی ، اس میں مصلحت یہ تھی کہ لوگ اس رات کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 792
شب قدر
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب (رض) سے پوچھا : ابوالمنذر ! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ ستائیسویں رات ہے ؟ تو انہوں نے کہا : کیوں نہیں، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے کہ یہ ایک ایسی رات ہے جس کی صبح جب سورج نکلے گا تو اس میں شعاع نہیں ہوگی، تو ہم نے گنتی کی اور ہم نے یاد رکھا، (زرّ کہتے ہیں) اللہ کی قسم ! ابن مسعود کو بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ لیکن وہ یہ ناپسند کرتے ہیں کہ تمہیں (اسے مسلمانو ! ) بتادیں اور تم تکیہ کر کے بیٹھ جاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٦٢) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٩ (١٣٧٨) (تحفة الأشراف : ١٨) ، مسند احمد (٥/١٣٠، ١٣١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1247) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 793
شب قدر
عیینہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ ابوبکرہ (رض) کے پاس شب قدر کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا : جس چیز کی وجہ سے میں اسے صرف آخری عشرے ہی میں تلاش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک بات سنی ہے، میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے : تلاش کرو جب (مہینہ پورا ہونے میں) نو دن باقی رہ جائیں، یا جب سات دن باقی رہ جائیں، یا جب پانچ دن رہ جائیں، یا جب تین دن رہ جائیں ۔ ابوبکرہ (رض) رمضان کے بیس دن نماز پڑھتے تھے جیسے پورے سال پڑھتے تھے لیکن جب آخری عشرہ آتا تو عبادت میں خوب محنت کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) ( تحفة الأشراف : ١١٦٩٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 794
اسی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اپنے گھر والوں کو جگاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٠٣٠٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1768) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 795
اسی سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں عبادت میں اتنی کوشش کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الاعتکاف ٣ (١١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٧ (١٧٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٢٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1767) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 796
سردیوں کے روزے
عامر بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ٹھنڈا ٹھنڈا بغیر محنت کا مال غنیمت یہ ہے کہ روزہ سردی میں ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث مرسل ہے۔ عامر بن مسعود نے نبی اکرم ﷺ کو نہیں پایا۔ یہ ابراہیم بن عامر قرشی کے والد ہیں جن سے شعبہ اور ثوری نے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٠٤٩) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” نمیربن عریب “ لین الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث مرسل ہے، دیکھئے : الصحیحہ رقم : ١٩٢٢، تراجع الألبانی ٤٧٣) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1922) ، الروض النضير (69) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 797
ان لوگوں کا روزہ رکھنا جو اس کی طاقت رکھتے ہیں
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ «وعلی الذين يطيقونه فدية طعام مسكين» اور ان لوگوں پر جو روزے کی طاقت رکھتے ہیں ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا فدیہ ہے (البقرہ : ١٨٤) اتری تو ہم میں سے جو چاہتا کہ روزہ نہ رکھے وہ فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد والی ١ ؎ آیت نازل ہوئی اور اس نے اسے منسوخ کردیا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة البقرة ٢٦ (٤٥٠٦) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٥ (١١٤٥) ، سنن ابی داود/ الصیام ٢ (٢٣١٥) ، سنن النسائی/الصیام ٦٣ (٢٣١٨) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٩ (١٧٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بعد والی آیت سے مراد آیت کریمہ «فمن شهد منکم الشهر فليصمه» (البقرة : 185) ہے۔ ٢ ؎ : یہ حدیث اس بات پر صریح دلیل ہے کہ آیت کریمہ «وعلی الذين يطيقونه فدية» منسوخ ہے ، یہی جمہور کا قول ہے اور یہی حق ہے ، اور ابن عباس کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور اس کا حکم ان بڑے بوڑھوں کے ساتھ خاص ہے جنہیں روزہ رکھنے میں زحمت اور پریشانی ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (4 / 22) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 798
None
میں رمضان میں انس بن مالک رضی الله عنہ کے پاس آیا، وہ سفر کا ارادہ کر رہے تھے، ان کی سواری پر کجاوہ کسا جا چکا تھا اور وہ سفر کے کپڑے پہن چکے تھے، انہوں نے کھانا منگایا اور کھایا۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ سنت ہے؟ کہا: ہاں سنت ہے۔ پھر وہ سوار ہوئے۔
None
محمد بن کعب سے روایت ہے کہ میں رمضان میں انس بن مالک رضی الله عنہ کے پاس آیا پھر انہوں نے اسی طرح ذکر کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور محمد بن جعفر ہی ابن ابی کثیر مدینی ہیں اور ثقہ ہیں اور یہی اسماعیل بن جعفر کے بھائی ہیں اور عبداللہ بن جعفر علی بن عبداللہ مدینی کے والد ابن نجیح ہیں، یحییٰ بن معین ان کی تضعیف کرتے تھے، ۲- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مسافر کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے افطار کرے لیکن اسے نماز قصر کرنے کی اجازت نہیں جب تک کہ شہر یا گاؤں کی فصیل سے باہر نہ نکل جائے۔ یہی اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ حنظلی کا قول ہے۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ دار کا تحفہ خوشبودار تیل اور عود کی انگیٹھی ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی سند قوی نہیں ہے، ۳- ہم اسے صرف سعد بن طریف کی روایت سے جانتے ہیں، اور ۴- سعد بن طریف ضعیف قرار دیے جاتے ہیں۔
عید الفطر اور عید الا ضحی کب ہوتی ہے ؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عید الفطر کا دن وہ ہے جب لوگ عید منائیں، اور عید الاضحی کا دن وہ ہے جس دن لوگ قربانی کریں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث، اس سند سے حسن غریب صحیح ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا : کیا محمد بن منکدر نے عائشہ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، وہ اپنی روایت میں کہتے ہیں : میں نے عائشہ سے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دیکھئیے حدیث رقم ٦٩٧ اور اس کا حاشیہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1660) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 802
ایام اعتکاف کز رجا نا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، ایک سال آپ اعتکاف نہیں کرسکے تو جب اگلا سال آیا تو آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس بن مالک کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- معتکف جب اپنا اعتکاف اس مدت کے پورا کرنے سے پہلے ختم کر دے جس کی اس نے نیت کی تھی تو اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے کہا : جب وہ اعتکاف توڑ دے تو اس پر قضاء واجب ہوگی انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے اعتکاف سے نکل آئے تو آپ نے شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا، یہ مالک کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : اگر اس پر اعتکاف کی نذر یا کوئی ایسی چیز نہ ہو جسے اس نے اپنے اوپر واجب کرلی ہو اور وہ نفل کی نیت سے اعتکاف میں رہا ہو پھر اعتکاف سے نکل آیا ہو تو اس پر قضاء واجب نہیں الا یہ کہ وہ اپنی پسند سے اسے چاہے اور یہ اس پر واجب نہیں ہوگا۔ یہی شافعی کا قول ہے، ٣- شافعی کہتے ہیں : ہر وہ عمل جس کے کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں تمہیں اختیار ہو جب تم اسے کرنا شروع کر دو پھر اس کے پورا ہونے سے پہلے تم اسے چھوڑ دو تو اس کی قضاء تم پر لازم نہیں ہے۔ سوائے حج اور عمرہ کے، ٣- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٥٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2126) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 803
کیا معتکف اپنی حاجت کے لئے نکل سکتا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میرے قریب کردیتے میں اس میں کنگھی کردیتی ١ ؎ اور آپ گھر میں کسی انسانی ضرورت کے علاوہ ٢ ؎ داخل نہیں ہوتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی طرح اسے دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق : «مالک عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اسے بطریق : «مالک عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے، اور صحیح یہ ہے کہ ابن شہاب زہری نے اسے عروہ اور عمرہ دونوں سے اور ان دونوں نے عائشہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٧٦ (١٧٩) ، (٢٧٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٦٠٢ و ١٧٩٢١) ، وانظر الحدیث الآتی (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ معتکف اپنے جسم کا کوئی حصہ اگر مسجد سے نکالے تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔ ٢ ؎ : انسانی ضرورت کی تفسیر زہری نے پاخانہ اور پیشاب سے کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (633 و 1778) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 804
کیا معتکف اپنی حاجت کے لئے نکل سکتا ہے
ہم سے اسے قتیبہ نے بسند «الليث بن سعد عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جب آدمی اعتکاف کرے تو انسانی ضرورت کے بغیر اپنے معتکف سے نہ نکلے، اور ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ پاخانہ پیشاب جیسی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نکل سکتا ہے، ٢- پھر معتکف کے لیے مریض کی عیادت کرنے، جمعہ اور جنازہ میں شریک ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ وہ مریض کی عیادت کرسکتا ہے، جنازہ کے ساتھ جاسکتا ہے اور جمعہ میں شریک ہوسکتا ہے جب کہ اس نے اس کی شرط لگا لی ہو۔ یہ سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے، ٣- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے ان میں سے کوئی بھی چیز کرنے کی اجازت نہیں، ان کا خیال ہے کہ معتکف کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شہر میں ہو جہاں جمعہ ہوتا ہو تو مسجد جامع میں ہی اعتکاف کرے۔ اس لیے کہ یہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے معتکف سے نکلنا اس کے لیے مکروہ قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے جمعہ چھوڑنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے، اس لیے ان کا کہنا ہے کہ وہ جامع مسجد ہی میں اعتکاف کرے تاکہ اسے انسانی حاجتوں کے علاوہ کسی اور حاجت سے باہر نکلنے کی ضرورت نہ باقی رہے، اس لیے کہ بغیر کسی انسانی ضرورت کے مسجد سے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے۔ ٤- اور احمد کہتے ہیں : عائشہ (رض) کی حدیث کی رو سے نہ وہ مریض کی عیادت کرے گا، نہ جنازہ کے ساتھ جائے گا۔ ٥- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : اگر وہ ان چیزوں کی شرط کرلے تو اسے جنازے کے ساتھ جانے اور مریض کی عیادت کرنے کی اجازت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٣ (٢٠٢٩) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، سنن ابی داود/ الصیام ٧٩ (٢٤٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٦٤ (١٧٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٧٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : ح/الحیض ٢ (٢٩٥) ، والاعتکاف ٢ (٢٠٢٨) ، و ١٩ (٢٠٤٦) ، واللباس ٧٦ (٥٩٢٥) ، و سنن ابی داود/ الصیام ٧٩ (٢٤٦٧) ، وط/الطہارة ٢٨ (١٠٢) ، والاعتکاف ١ (١) ، و مسند احمد (٦/١٠٤) ، ٢٠٤، ٢٣١، ٢٤٧، ٢٦٢) ، وسنن الدارمی/الطہارة ١٠٧ (١٠٨٥) ، من غیر ہذا الطریق، وبتصرف یسیر فی السیاق۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 805
رمضان میں رات کو نماز پڑھنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز (تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، (یعنی تہجد نہیں پڑھی) اور جب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی۔ تو ہم نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے (تو بہتر ہوتا) ؟ آپ نے فرمایا : جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے، پھر آپ نے ہمیں ستائیسویں رات کو نماز پڑھائی۔ اور اپنے گھر والوں اور اپنی عورتوں کو بھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا : فلاح کیا چیز ہے ؟ تو انہوں نے کہا : سحری ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، نعمان بن بشیر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا، ٤- اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام (رض) سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں : اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکہ میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے، ٥- احمد کہتے ہیں : اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ١ ؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی، ٦- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ٤١ رکعتیں مرغوب ہیں، ٧- ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کیا ہے، ٨- شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسند کیا ہے جب وہ قاری ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٨ (١٣٧) ، سنن النسائی/السہو ١٠٣ (١٣٦٥) ، الإقامة ١٧٣ (١٣٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ١١٩٠٣) ، مسند احمد (٥/١٥٩) ، سنن الدارمی/الصوم (١٨١٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دو قول کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں وارد ہیں ان میں راجح اور مختار اور دلائل کے اعتبار سے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح سند سے یہی قول ثابت ہے دیگر اقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سند سے ثابت نہیں اور نہ ہی خلفاء راشدین (رض) میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1327) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 806
روزہ افطار کرانے کی فضیلت
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں سے ذرا بھی کم کیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٥ (١٧٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٦٠) ، مسند احمد (٤/١١٤-١١٥، ١١٦) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1746) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 807
رمضان میں نماز شب ( یعنی تراویح) کی ترغیب اور فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے قیام (تہجد پڑھنے) کی ترغیب دلاتے، بغیر اس کے کہ انہیں تاکیدی حکم دیں اور فرماتے : جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے ، چناچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور معاملہ اسی پر قائم رہا، پھر ابوبکر (رض) کے عہد خلافت میں اور عمر (رض) کے عہد خلافت کے ابتدائی دور میں بھی معاملہ اسی پر رہا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی سے حدیث آئی ہے، ٣- یہ حدیث بطریق : «الزهري عن عروة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٢٧٠) ، وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٧) ، والصوم ٦ (١٨٩٨) ، والتراویح ١ (٢٠٠٩) ، و سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، وسنن النسائی/قیام اللیل ٣ (١٦٠٣) ، والصیام ٣٩ (٢١٩٨-٢٢٠١، ٢٢٠٣-٢٢٠٤، ٢٢١٢) ، والإیمان ٢١ (٥٠٢٧- ٥٠٢٩) ، و ٢٢ (٥٠٣٠) من غیر ھذا الطریق (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نبی اکرم ﷺ کے عہد میں اور ابوبکر (رض) کے عہد میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بغیر عزیمت و تاکید کے اکیلے اکیلے ہی تراویح پڑھنے کا معاملہ رہا ، پھر عمر فاروق (رض) نے ابی بن کعب (رض) کی امامت میں باضابطہٰ گیارہ رکعت تراویح باجماعت کا نظم قائم کردیا۔ اس ضمن میں مؤطا امام میں صحیح حدیث موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1241) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 808