9. حج کا بیان

【1】

مکہ کا حرم ہونا

ابوشریح عدوی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ٢ ؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا : اے امیر ! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ ﷺ کے قتال کو دلیل بنا کر (قتال کا) جواز نکالے تو اس سے کہو : اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں ، ابوشریح سے پوچھا گیا : اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا ؟ کہا : اس نے مجھ سے کہا : ابوشریح ! میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں، حرم مکہ کسی نافرمان (یعنی باغی) کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوشریح (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابوشریح خزاعی کا نام خویلد بن عمرو ہے۔ اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں، ٣- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- «ولا فارا بخربة» کی بجائے «ولا فارا بخزية» زائے منقوطہٰ اور یاء کے ساتھ بھی مروی ہے، ٥- اور «ولا فارا بخربة» میں «خربہ» کے معنی گناہ اور جرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیا یا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٧ (١٠٤) ، وجزاء الصید ٨ (١٨٣٢) ، والمغازي ٥١ (٤٢٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٤) ، سنن النسائی/الحج ١١١ (٢٨٧٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٠٥٧) ، مسند احمد (٤/٣١) ، ویأتي عند المؤلف في الدیات (برقم : ١٤٠٦) ، و مسند احمد (٦/٣٨٥) من غیر ہذا الطریق (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت ٥ ھ یا ٦ ھ میں ہوئی اور بعض نے ٩ ھ یا ١٠ ھ کہا ہے ، زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔ ٢ ؎ : عمرو بن سعید : یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر (رض) کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 809

【2】

حج اور عمرے کا ثواب

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور ١ ؎ کا بدلہ صرف جنت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن مسعود کی حدیث حسن ہے، اور ابن مسعود کی روایت سے غریب ہے، ٢- اس باب میں عمر، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن حبشی، ام سلمہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٦ (٢٦٣٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٢٧٤) ، مسند احمد (١/٣٨٧) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حج مبرور وہ حج ہے جس میں حاجی اللہ کی کسی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرے اور بعض نے حج مبرور کے معنی حج مقبول کے کئے ہیں ، اس کی علامت یہ بتائی ہے کہ حج کے بعد وہ انسان اللہ کا عبادت گزار بن جائے جب کہ وہ اس سے پہلے غافل رہا ہو۔ اور ہر طرح کے شرک و کفر اور بدعت اور فسق و فجور کے کام سے تائب ہو کر اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (2887) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 810

【3】

حج اور عمرے کا ثواب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بیہیودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا ١ ؎ تو اس کے گزشتہ تمام گناہ ٢ ؎ بخش دئیے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤ (١٥٢١) ، والمحصر ٩ (١٨١٩) ، و ١٠ (١٨٢٠) ، صحیح مسلم/الحج ٧٩ (١٣٥٠) ، سنن النسائی/الحج ٤ (٢٦٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣ (٢٨٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٤٣١) ، مسند احمد (٢/٤١٠، ٤٨٤، ٤٩٤) (صحیح) (غفر له ما تقدم من ذنبه کا لفظ شاذ ہے، اور اس کی جگہ رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمهصحیح اور متفق علیہ ہے، تراجع الالبانی ٣٤٢) وضاحت : ١ ؎ : «رفث» کے اصل معنی جماع کرنے کے ہیں ، یہاں مراد فحش گوئی اور بےہودگی کی باتیں کرنی اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے ، حج کے دوران چونکہ بیوی سے مجامعت جائز نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر اس سے گفتگو بھی ناپسندیدہ ہے ، اور «فسق» سے مراد اللہ کی نافرمانی ہے ، اور «جدال» سے مراد لوگوں سے لڑائی جھگڑا ہے ، دوران حج ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے۔ ٢ ؎ : اس سے مراد وہ صغیر ( چھوٹے ) گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ، رہے بڑے بڑے گناہ اور وہ چھوٹے گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں تو وہ توبہ حق کے ادا کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح حجة النبی صلی اللہ عليه وسلم (5) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 811

【4】

ترک حج کی مذمت

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر کے خرچ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر، اور یہ اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب (قرآن) میں فرمایا ہے : اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے ١ ؎، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢- اس کی سند میں کلام ہے۔ ہلال بن عبداللہ مجہول راوی ہیں۔ اور حارث حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (سند میں ہلال اور حارث اعور دونوں ضعیف راوی ہیں) وضاحت : ١ ؎ : ضعیف ہے ، مگر علی (رض) کے اپنے قول سے صحیح ہے ، اور ایسی بات کوئی صحابی اپنی رائے سے نہیں کہہ سکتا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2521) ، التعليق الرغيب (2 / 134) // ضعيف الجامع الصغير (5860) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 812

【5】

زرد راہ اور سواری کی ملکیت سے حج فرض ہوجاتا ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا چیز حج واجب کرتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : سفر خرچ اور سواری ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- ابراہیم ہی ابن یزید خوزی مکی ہیں اور ان کے حافظہ کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان پر کلام کیا ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب سفر خرچ اور سواری کا مالک ہوجائے تو اس پر حج واجب ہوجاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٦ (٢٨٩٦) ، ویأتي في التفسیر (برقم : ٢٩٩٨) (تحفة الأشراف : ٨٤٤) (ضعیف جدا) (سند میں ” ابراہیم بن یزید الخوزی “ متروک الحدیث راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (2896) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (631) ، وانظر صحيح ابن ماجة رقم (2341) ، الإرواء (988) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 813

【6】

کتنے حج فرض ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ حکم نازل ہوا کہ اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں ، تو لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال (فرض ہے) ؟ آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا ہر سال ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہوجاتا اور پھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا : اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تم پر شاق گزریں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- ابوالبختری کا نام سعید بن ابی عمران ہے اور یہی سعید بن فیروز ہیں، ٣- اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٢ (٢٨٨٤) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المائدہ (٣٠٥٥) (ضعیف) (سند میں ابو البختری کی علی (رض) سے معاصرت وسماع نہیں ہے، اس لیے سند منقطع ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (2884) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (628) ، الإرواء (980) ، وسيأتي برقم (584 / 3261) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 814

【7】

نبی اکرم ﷺ نے کتنے حج کئے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے تین حج کئے، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد، اس کے ساتھ آپ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طور پر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے۔ ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں نحر کیا، پھر آپ نے ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کر اسے پکانے کا حکم دیا، تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث سفیان کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کے طریق سے جانتے ہیں ١ ؎، ٢- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ حدیث عبداللہ بن ابی زیاد کے واسطہ سے روایت کی ہے، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے سلسلے میں پوچھا تو وہ اسے بروایت «الثوري عن جعفر عن أبيه عن جابر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» نہیں جان سکے، میں نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے اس حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا : یہ ثوری سے روایت کی جاتی ہے اور ثوری نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے مجاہد سے مرسلاً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٨٤ (٣٠٧٦) (تحفة الأشراف : ٢٦٠٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ابن ماجہ کے یہاں عبدالرحمٰن بن داود نے زید بن حباب کی متابعت کی ہے ، نیز ان کے یہاں اس کی ابن عباس (رض) کی روایت شاہد بھی موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3076) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 815

【8】

نبی اکرم ﷺ نے کنتے عمرے کئے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چار عمرے کئے : حدیبیہ کا عمرہ، دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ، تیسرا عمرہ جعرانہ ١ ؎ کا، چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں انس، عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ المناسک ٨٠ (١٩٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٠ (٣٠٠٣) (تحفة الأشراف : ٦١٦٨) ، مسند احمد (١/٢٤٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جعرانہ طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے نبی اکرم ﷺ نے غزوہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3003) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 816 ابن عیینہ نے بسند عمرو بن دینار عن عکرمہ روایت کی کہ نبی اکرم ﷺ نے چار عمرے کئے، اس میں عکرمہ نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے،

【9】

نبی اکرم ﷺ نے کس جگہ احرام باندھا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ نے حج کا ارادہ کیا تو آپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔ (مدینہ میں) لوگ اکٹھا ہوگئے، چناچہ جب آپ (وہاں سے چل کر) بیداء پہنچے تو احرام باندھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، انس، مسور بن مخرمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٦١٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ نے درحقیقت ذو الحلیفہ کی مسجد میں نماز کے بعد احرام باندھا ، دیکھئیے اگلی حدیث۔ قال الشيخ الألباني : صحيح حجة النبی صلی اللہ عليه وسلم (45 / 2) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 817

【10】

نبی اکرم ﷺ نے کس جگہ احرام باندھا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا) ١ ؎ اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے مسجد (ذی الحلیفہ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢ (١٥١٥) ، و ٢٠ (١٥٤١) ، والجہاد ٥٣ (٢٨٦٥) ، صحیح مسلم/الحج (١١٨٦) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢١ (١٧٧١) ، سنن النسائی/الحج ٥٦ (٢٧٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٢٠) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٣٠) ، مسند احمد (٢/١٠، ٦٦، ١٥٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔ ٢ ؎ : ان روایات میں بظاہر تعارض ہے ، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے ، پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے ، گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 818

【11】

نبی ﷺ نے کب احرام باند ھا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز کے بعد احرام باندھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو، ٣- جس چیز کو اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی نماز کے بعد احرام باندھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٥٦ (٢٧٥٥) (تحفة الأشراف : ٥٥٠٢) (ضعیف) (سند میں خصیف مختلط راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (312) // عندنا برقم (388 / 1770) ، ضعيف سنن النسائي برقم (175 / 2754) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 819

【12】

حج افراد

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد ١ ؎ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- ابن عمر (رض) سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حج افراد کیا، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بھی افراد کیا، ٥ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢٣ (١٧٧٧) ، سنن النسائی/الحج ٤٨ (٢٧١٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٧ (٢٩٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥١٧) ، موطا امام مالک/الحج ١١ (٣٧) ، سنن الدارمی/المناسک ١٦ (١٨٥٣) (صحیح الإسناد شاذ) وأخرجہ مسند احمد (٦/٢٤٣) من غیر ہذا الطریق۔ (نبی اکرم ﷺ کا حج، حج قران تھا، اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎ حج کی تین قسمیں ہیں : افراد ، قِران اور تمتع ، حج افراد یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے ، اور حج قران یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے ، اور قربانی کا جانور ساتھ ، جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھر مکہ میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے اور پھر آٹھویں تاریخ کو مکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔ اب رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے کون سا حج کیا تھا ؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قران کیا تھا ، تفصیل کے لیے حدیث رقم ٨٢٢ کا حاشیہ دیکھیں۔ قال الشيخ الألباني : (الحديث الأول) شاذ، (الحديث الثاني) حسن الإسناد، ولكنه شاذ، انظر ما بعده، وبخاصة الحديث (823) (الحديث الأول) ، ابن ماجة (2964) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 820

【13】

None

میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔

【14】

تمتع کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع کیا ١ ؎ اور ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بھی ٢ ؎ اور سب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ (رض) ہیں ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف و ٣٤ (١٢٥١) ، و سنن ابی داود/ المناسک ٢٤ (١٧٩٥) ، وسنن ابن ماجہ/الحج ١٤ (٢٩١٧) ، و ٣٨ (٢٩٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٤٥) ، و مسند احمد (٣/٩٩) ، وسنن الدارمی/المناسک ٧٨ (١٩٦٤) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن ابی سلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ نے کون سا حج کیا تھا ؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں ، بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افراد کیا اور بعض سے حج تمتع اور بعض سے حج قران ، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے نبی اکرم ﷺ کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا ، اور یہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا تھا اور بعد میں آپ قارن ہوگئے تھے ، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کا ارشاد ہے «لولا معي الهدى لأحللت» اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا ، اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے ، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا ، کیونکہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہرحال حج قران میں بھی حاصل ہے ، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی روایت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبر دی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظر حج افراد تھا بعد میں آپ نے حج میں عمرہ کو بھی شامل کرلیا ، اور آپ سے کہا گیا : «قل عمرة في حجة» اس طرح آپ نے حج افراد کو حج قران سے بدل دیا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کون سی قسم افضل ہے ؟ تو احناف حج قرِان کو افضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کو پسند کیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے ، امام احمد اور امام مالک نے حج تمتع کو افضل کہا ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اور نبی اکرم ﷺ نے ایک مرحلہ پر اس کی خواہش کا اظہار بھی فرمایا تھا اور بعض نے حج افراد کو افضل قرار دیا ہے۔ آخری اور حق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔ ٢ ؎ : یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے : «قال عبدالله بن شقيق : کان عثمان ينهى عن المتعة وکان علي يأمربها» اور نیچے کی روایت سے عمر (رض) کا منع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے ، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی ، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہونے کا علم نہیں تھا ، پھر جب انہیں اس کا جواز معلوم ہوا تو انہوں نے بھی تمتع کیا۔ ٣ ؎ : روایات سے معاویہ (رض) سے پہلے عمر و عثمان (رض) سے ممانعت ثابت ہے ، ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی ، اور معاویہ (رض) کی نہی تحریمی ، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ (رض) کی اوّلیت تحریم کے اعتبار سے تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر

【15】

تمتع کے بارے میں

محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس (رض) سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کر رہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا : ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد (رض) نے کہا : بہت بری بات ہے جو تم نے کہی، میرے بھتیجے ! تو ضحاک بن قیس نے کہا : عمر بن خطاب (رض) نے اس سے منع کیا ہے، اس پر سعد (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اسے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٥٠ (٢٧٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ٣٩٢٨) ، موطا امام مالک/الحج ١٩ (٦٠) ، سنن الدارمی/الحج ١٨ (١٨٥٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 822

【16】

تمتع کے بارے میں

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر (رض) سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا : آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے ؟ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ ﷺ نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ ﷺ کے حکم کی، تو اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے حکم کی، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث ( ٨٢٢) حسن ہے، ٢- اس باب میں علی، عثمان، جابر، سعد، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیا ہے کہ حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنا درست ہے، ٤- اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کر کے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کرلے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جو اسے میسر ہو قربانی لازم ہوگی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے روزے رکھے، ٥- متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین روزے رکھے تو ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری روزہ یوم عرفہ کو ہو، اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر اور عائشہ (رض) بھی شامل ہیں کے قول کی رو سے اگر وہ دس دنوں میں یہ روزے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔ یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٦- اور بعض کہتے ہیں : ایام تشریق میں روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اہل حدیث حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٨٦٢) (صحیح الإسناد) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 823

【17】

تلبیہ ( لبیک) کہنا

نافع کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر (رض) نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکارتے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے : «لبيك اللهم لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك»۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھے : یہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے : «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل» حاضر ہوں تیری خدمت میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور خوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٣١٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2918) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 826

【18】

تلبیہ ( لبیک) کہنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا تلبیہ یہ تھا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك» حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود، جابر، ام المؤمنین عائشہ (رض)، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- شافعی کہتے ہیں : اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کا اضافہ کرلے تو کوئی حرج نہیں ہوگا - ان شاء اللہ۔ لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ پر اکتفا کرے۔ شافعی کہتے ہیں : ہم نے جو یہ کہا کہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھا لینے میں کوئی حرج نہیں تو اس دلیل سے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے تلبیہ یاد کیا پھر اپنی طرف سے اس میں «لبيك والرغباء إليك والعمل» حاضر ہوں، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے کا اضافہ کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٥٩٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحج ٢٦ (١٥٤٩) ، واللباس ٦٩ (٥٩٥١) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٣) ، سنن ابی داود/ الحج ٢٧ (١٨١٢) ، سنن النسائی/الحج ٥٤ (٢٧٤٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١ (٢٩٨) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٣، ٢٨، ٣٤، ٤١، ٤٣، ٤٧، ٤٨، ٥٣، ٧٦، ٧٧، ٧٩، ١٣) ، سنن الدارمی/المناسک ١٣ (١٨٤٩) ، من غیر ہذا الطریق، وانظر الحدیث الآتی۔ وضاحت : ١ ؎ : جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے تلبیہ میں اپنی طرف سے «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے ، اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے ، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے ، ابن عمر (رض) کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2918) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 825

【19】

تلبیہ اور قربانی کی فضیلت

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا حج افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس میں کثرت سے تلبیہ پکارا گیا ہو اور خوب خون بہایا گیا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ١٦ (٢٩٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٠٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٨ (١٨٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی قربانی کی گئی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2924) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 827

【20】

تلبیہ اور قربانی کی فضیلت

【21】

تلبیہ آواز سے پڑھنا

سائب بن خلاد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل نے آ کر مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ کو حکم دوں کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز بلند کریں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- خلاد بن السائب کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے، حسن صحیح ہے۔ ٢- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق : «خلاد بن السائب عن زيد بن خالد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح یہی ہے کہ خلاد بن سائب نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، اور یہ خلاد بن سائب بن خلاد بن سوید انصاری ہیں، ٣- اس باب میں زید بن خالد، ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٢٧ (١٨١٤) ، سنن النسائی/الحج ٥٥ (٢٧٥٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٦ (٢٩٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٨٨) ، موطا امام مالک/الحج ١٠ (٣٤) ، مسند احمد (٤/٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/الحج ١٤ (١٨٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مردوں کے لیے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مستحب ہے «اصحابی» کی قید سے عورتیں خارج ہوگئیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز پست رکھیں۔ مگر وجوب کی دلیل بالصراحت کہیں نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2922) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 829

【22】

احرام باندھتے وقت غسل کرنا

زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے کے لیے اپنے کپڑے اتارے اور غسل کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اہل علم کی ایک جماعت نے احرام باندھنے کے وقت غسل کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر : سنن الدارمی/المناسک ٦ (١٨٣٥) (تحفة الأشراف : ٣٧١٠) (صحیح) (سند میں عبداللہ بن یعقوب مجہول الحال ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ احرام کے لیے غسل کرنا مستحب ہے ، اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے ، اور بعض نے اسے واجب کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح التعليقات الجياد، المشکاة (2547 / التحقيق الثانی، الحج الکبير) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 830

【23】

آفا قی کے لئے احرام باندھنے کی جگہ

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم احرام کہاں سے باندھیں ؟ آپ نے فرمایا : اہل مدینہ ذی الحلیفہ ٢ ؎ سے احرام باندھیں، اہل شام جحفہ ٣ ؎ سے اور اہل نجد قرن سے ٤ ؎۔ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل یمن یلملم سے ٥ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٥٩٣) وانظر : مسند احمد (٢/٤٨، ٦٥) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/العلم ٥٢ (١٣٣) ، والحج ٤ (١٥٢٢) ، و ٨ (١٥٢٥) ، و ١٠ (١٥٢٧) ، والاعتصام ١٥ (٧٣٣٤) ، صحیح مسلم/الحج ٢ (١١٨٢) ، سنن ابی داود/ المناسک ٩ (١٧٣٧) ، سنن النسائی/المناسک ١٧ (٢٦٥٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٣ (٢٩١٤) ، موطا امام مالک/الحج ٨ (٢٢) ، مسند احمد (٢/٥٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٥ (١٨٣١) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : «مواقیت» میقات کی جمع ہے ، میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر احرام باندھ کر حج کی نیت کرتا ہے۔ ٢ ؎ : مدینہ کے قریب ایک مقام ہے۔ جس کی دوری مدینہ سے مکہ کی طرف دس کیلو میٹر ہے اور یہ مکہ سے سب سے دوری پر واقع میقات ہے۔ ٣ ؎ : مکہ کے قریب ایک بستی ہے جسے اب رابغ کہتے ہیں۔ ٤ ؎ : اسے قرن المنازل بھی کہتے ہیں ، یہ مکہ سے سب سے قریب ترین میقات ہے۔ مکہ سے اس کی دوری ٩٥ کیلو میٹر ہے۔ ٥ ؎ : ایک معروف مقام کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2914) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 831

【24】

آفاقی کے لئے احرام باندھنے کی جگہ

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اہل مشرق کی میقات عقیق ١ ؎ مقرر کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- محمد بن علی ہی ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٩ (١٧٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٤٣) (ضعیف منکر) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے، نیز محمد بن علی کا اپنے دادا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں ہے، اور حدیث میں وارد ” عقیق “ کا لفظ منکر ہے، صحیح لفظ ” ذات عرق “ ہے، الإرواء : ١٠٠٢، ضعیف سنن ابی داود : ٣٠٦) وضاحت : ١ ؎ : یہ ایک معروف مقام ہے ، جو عراق کی میقات ذات العرق کے قریب ہے۔ قال الشيخ الألباني : منكر، والصحيح ذات عرق .، الإرواء (1002) ، ضعيف أبي داود (306) // عندنا برقم (381 / 1740) ، المشکاة (2530) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 832

【25】

کہ محرم ( احرام والے) کے لئے کون سالباس پہننا جائز نہیں

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کھڑ ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ہمیں احرام میں کون کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ قمیص پہنو، نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ موزے، الا یہ کہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ خف (چمڑے کے موزے) پہنے اور اسے کاٹ کر ٹخنے سے نیچے کرلے ١ ؎ اور نہ ایسا کوئی کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہو ٢ ؎، اور محرم عورت نقاب نہ لگائے اور نہ دستانے پہنے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٣ (١٨٣٨) ، سنن ابی داود/ المناسک ٣٢ (١٨٢٥) ، سنن النسائی/الحج ٢٨ (٢٦٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ٨٢٧٥) ، مسند احمد (٢/١١٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/العلم ٥٣ (١٣٤) ، والصلاة ٩ (٣٩٦) ، والحج ٢١ (١٥٤٢) ، وجزاء الصید ١٥ (١٨٤٢) ، واللباس ٨ (٥٧٩٤) ، و ١٣ (٥٨٠٣) ، و ١٤ (٥٨٠٥) ، و ١٥ (٥٨٠٦) ، و ٣٤ (٥٨٤٧) ، و ٣٧ (٥٨٥٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٩ (٢٩٢٩) ، موطا امام مالک/الحج ٣ (٨) ، مسند احمد (٢/٤، ٨، ٢٩، ٣٢، ٣٤، ٤١، ٥٤، ٥٦، ٥٩، ٦٥، ٧٧) ، سنن الدارمی/الحج ٩ (١٨٣٩) من غیر الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : جمہور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے «خف» چمڑے کے موزوں کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیر کاٹے «خف» (موزہ ) پہننے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ابن عباس (رض) کی روایت «من لم يجد نعلين فليلبس خفين» جو بخاری میں آئی ہے مطلق ہے ، لیکن جمہور نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا ، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جوابات دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر (رض) کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے پہلے مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس (رض) کی روایت عرفات کی ہے ، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابن عمر (رض) کی روایت حجت کے اعتبار سے ابن عباس کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو أصح الاسانید ہے۔ ٢ ؎ : ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے ، اس بات پر اجماع ہے کہ حالت احرام میں مرد کے لیے حدیث میں مذکور یہ کپڑے پہننے جائز نہیں ہیں ، قمیص اور سراویل ( پاجانے ) میں تمام سلے ہوئے کپڑے داخل ہیں ، اسی طرح عمامہ اور خفین سے ہر وہ چیز مراد ہے جو سر اور قدم کو ڈھانپ لے ، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں ، عورت کے لیے حالت احرام میں وہ تمام کپڑے پہننے جائز ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر ہے البتہ وہ ورس اور زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے نہ پہننے۔ ٣ ؎ : محرم عورت کے لیے نقاب پہننا منع ہے ، مگر اس حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا ، برصغیر ہندو پاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرتے وقت چہروں پر لٹکا لیا کرتی تھیں اس لیے اس نقاب کو عورتیں بوقت ضرورت چہرے پر لٹکا سکتی ہیں اور چونکہ اس وقت حج میں ہر وقت اجنبی مردوں کا سامنا پڑتا ہے اس لیے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پر لٹکائے رکھ سکتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 833

【26】

اگر تہبند اور جوتے نہ ہوں تو پاجامہ اور موزے پہن لے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : محرم کو جب تہبند میسر نہ ہو تو پاجامہ پہن لے اور جب جوتے میسر نہ ہوں تو «خف» (چمڑے کے موزے) پہن لے ١ ؎۔

【27】

جو شخص قمیص یا جبہ پہنے ہوئے احرام باند ھے

یعلیٰ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک اعرابی کو دیکھا جو احرام کی حالت میں کرتا پہنے ہوئے تھا۔ تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے اتار دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٣١ (١٨٢٠) ، (٤/٢٢٤) ، وانظر الحدیث الآتي ( تحفة الأشراف : ١١٨٤٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی اکرم ﷺ جعرانہ میں تھے تفصیل کے لیے دیکھئیے ابوداؤد المناسک ٣١ ، نسائی الحج ٢٩۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1596 - 1599) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 835

【28】

جو شخص قمیص یا جبہ پہنے ہوئے احرام باند ھے

یعلیٰ (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ یہ زیادہ صحیح ہے اور حدیث میں ایک قصہ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اسی طرح اسے قتادہ، حجاج بن ارطاۃ اور دوسرے کئی لوگوں نے عطا سے اور انہوں نے یعلیٰ بن امیہ سے روایت کی ہے۔ لیکن صحیح وہی ہے جسے عمرو بن دینار اور ابن جریج نے عطاء سے، اور عطاء نے صفوان بن یعلیٰ سے اور صفوان نے اپنے والد یعلیٰ سے اور یعلیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٧ (١٥٣٦) ، والعمرة ١٠ (١٧٨٩) ، وجزاء الصید ١٩ (١٨٤٧) ، والمغازي ٥٦ (٤٣٢٩) ، وفضائل القرآن ٢ (٤٩٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٨٠) ، سنن ابی داود/ الحج ٣١ (١٨١٩) ، سنن النسائی/الحج ٢٩ (٢٦٦٩) ، و ٤٤ (٢٧٠٩-٢٧١١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٣٦) ، مسند احمد (٤/٢٢٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس قصہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ابوداؤد المناسک ٣١ ، و نسائی الحج ٢٩۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 836

【29】

محرم کا کن جانوروں کو مارنا جائز ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ موذی جانور ہیں جو حرم میں یا حالت احرام میں بھی مارے جاسکتے ہیں : چوہیا، بچھو، کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٦ (٣٣١٤) ، صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٨) ، سنن النسائی/الحج ١١٨ (٢٨٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٦٢٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٢٩) ، سنن النسائی/الحج ٨٣ (٢٨٣٢) ، و ١١٣ (٢٨٨٤) ، و ١١٤ (٢٨٨٥) ، و ١١٦ (٢٨٩٠) ، و ١١٧ (٢٨٩١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩١ (٣٠٨٧) مسند احمد (٦/٨٧، ٩٧، ١٢٢، ٢٠٣، ٢٥٩، ٢٦١) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ کاٹ کھانے والے کتے سے مراد وہ تمام درندے ہیں جو لوگوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کردیتے ہوں مثلاً شیر چیتا بھیڑیا وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3087) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 837

【30】

محرم کا کن جانوروں کو مارنا جائز ہے

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : محرم سرکش درندے، کاٹ کھانے والے کتے، چوہا، بچھو، چیل اور کوے مار سکتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں : محرم ظلم ڈھانے والے درندوں کو مار سکتا ہے، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں : محرم ہر اس درندے کو جو لوگوں کو یا جانوروں کو ایذاء پہنچائے، مار سکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٤٠ (١٨٤٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩١ (٣٠٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٣٣) ، مسند احمد (٣/٣) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3089) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (660) ، الإرواء (4 / 226) ، المشکاة (2702) ، ضعيف الجامع الصغير (6433) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 838

【31】

محرم کے پچھنے لگانا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس ٢ ؎، عبداللہ بن بحینہ ٣ ؎ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بال نہیں منڈائے گا، ٤- مالک کہتے ہیں کہ محرم پچھنا نہیں لگوا سکتا، الا یہ کہ ضروری ہو، ٥- سفیان ثوری اور شافعی کہتے ہیں : محرم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بال نہیں اتار سکتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، والصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، والطب ١٢ (٥٦٩٥) ، و ١٥ (٥٧٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٣) ، سنن ابی داود/ المناسک ٣٦ (١٨٣٥) ، سنن النسائی/الحج ٩٢ (٢٨٤٨) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٩٢، ٣٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٣٧، ٥٩٣٩) ، وأخرجہ کل من : سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٧ (٣٠٨١) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢٢، ٢٣٦، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٨٣، ٢٨٦، ٣١٥، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٧٢) ، سنن الدارمی/ الحج ٢٠ (١٨٦٠) من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق (صحیح) وضاحت : ١ ؎ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں پچھنا لگوانا جائز ہے ، البتہ اگر بچھنا لگوانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ دینا ضروری ہوگا ، یہ فدیہ ایک بکری ذبح کرنا ہے ، یا تین دن کے روزے رکھنا ، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ ٢ ؎ : انس (رض) کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے احرام کی حالت میں اپنے پاؤں کی پشت پر تکلیف کی وجہ سے پچھنا لگوایا۔ ٣ ؎ : عبداللہ ابن بحینہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حالت احرام میں لحی جمل میں اپنے سرکے وسط میں پچھنا لگوایا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1682) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 839

【32】

احرم کی حالت میں نکاح کرنا مکروہ ہے

نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی چاہی، تو انہوں نے مجھے ابان بن عثمان کے پاس بھیجا، وہ مکہ میں امیر حج تھے۔ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا : آپ کے بھائی اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو انہوں نے کہا : میں انہیں ایک گنوار اعرابی سمجھتا ہوں، محرم نہ خود نکاح کرسکتا اور نہ کسی کا نکاح کرا سکتا ہے - «أو كما قال» - پھر انہوں نے (اپنے والد) عثمان (رض) سے روایت کرتے ہوئے اسی کے مثل بیان کیا، وہ اسے مرفوع روایت کر رہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عثمان (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابورافع اور میمونہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض صحابہ کرام جن میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب اور ابن عمر (رض) بھی شامل ہیں اسی پر عمل ہے، اور یہی بعض تابعین فقہاء کا بھی قول ہے اور مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ یہ لوگ محرم کے لیے نکاح کرنا جائز نہیں سمجھتے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر محرم نے نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤٠٩) ، سنن ابی داود/ الحج ٣٩ (١٨٤١) ، سنن النسائی/الحج ٩١ (٢٨٤٥) ، والنکاح ٣٨ (٣٢٧٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٥ (١٩٦٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٧٦) ، موطا امام مالک/الحج ٢٢ (٧٠) ، مسند احمد (١/٥٧، ٦٤، ٦٩، ٧٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎: شرعی ضابطہ یہی ہے کہ محرم حالت احرام میں نہ تو خود اپنا نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرا سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1966) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 840

【33】

احرم کی حالت میں نکاح کرنا مکروہ ہے

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میمونہ سے نکاح کیا اور آپ حلال تھے پھر ان کے خلوت میں گئے تب بھی آپ حلال تھے، اور میں ہی آپ دونوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور ہم حماد بن زید کے علاوہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے مطر وراق کے واسطے سے ربیعہ سے مسنداً روایت کیا ہو، ٣- اور مالک بن انس نے ربیعہ سے، اور ربیعہ نے سلیمان بن یسار سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔ اسے مالک نے مرسلا روایت کیا ہے، اور سلیمان بن ہلال نے بھی اسے ربیعہ سے مرسلا روایت کیا ہے، ٤- یزید بن اصم ام المؤمنین میمونہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی اور آپ حلال تھے یعنی محرم نہیں تھے۔ یزید بن اصم میمونہ کے بھانجے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٦) (تحفة الأشراف : ١٢٠١٧) ، و مسند احمد (٦/٣٩٢-٣٩٣) (ضعیف) (اس کا آخری ٹکڑا میں ” أنا الرسول بينهما “ میں دونوں کے درمیان قاصد تھا) ، ضعیف ہے کیونکہ اس سے قوی روایت میں ہے کہ ” عباس (رض) “ نے یہ شادی کرائی تھی، اس کے راوی ” مطرالوراق “ حافظے کے ضعیف ہیں، اس روایت کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کا پہلا ٹکڑا حدیث رقم : ٨٤٥ کے طریق سے صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن الشطر الأول منه صحيح من الطريق الآتية (887) ، الإرواء (1849) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 841

【34】

محرم کو نکاح کی اجازت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٢٣٠) (صحیح) (یہ روایت سنداً صحیح ہے، لیکن ابن عباس (رض) سے اس واقعہ کے نقل کرنے میں وہم ہوگیا تھا، اس لیے یہ شاذ کے حکم میں ہے، اور صحیح یہ ہے کہ میمونہ (رض) کی شادی حلال ہونے کے بعد ہوئی جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٢ (١٨٣٧) ، والمغازي ٤٣ (٤٢٥٨) ، والنکاح ٣٠ (٥١١٤) ، صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤١٠) ، سنن ابی داود/ الحج ٣٩ (١٨٤٤) ، سنن النسائی/الحج ٩٠ (٢٨٤٠- ٢٨٤٤) ، والنکاح ٣٧ (٣٢٧٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٥ (١٩٦٥) ، مسند احمد (١/٢٢، ٢٤، ٢٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٣) ، من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : شاذ، ابن ماجة (1965) // ضعيف ابن ماجة (426) ، الإرواء (1037) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 842

【35】

محرم کو نکاح کی اجازت

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ٥٩٩٠) (صحیح) (سندا صحیح ہے، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم) وضاحت : ١ ؎ : سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ابن عباس کو اس سلسلہ میں وہم ہوا ہے کیونکہ ام المؤمنین میمونہ (رض) کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی تو ہم دونوں حلال تھے ، اسی طرح ان کے وکیل ابورافع کا بیان بھی جیسا کہ گزرا یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میمونہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے ، اس سلسلہ میں صاحب معاملہ کا بیان زیادہ معتبر ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : شاذ انظر ما قبله (842) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 843

【36】

محرم کو نکاح کی اجازت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے میمونہ سے شادی کی تو آپ محرم تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- نبی اکرم ﷺ کے میمونہ سے شادی کرنے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ نے مکہ کے راستے میں ان سے شادی کی تھی، بعض لوگوں نے کہا : آپ نے جب ان سے شادی کی تو آپ حلال تھے البتہ آپ کے ان سے شادی کرنے کی بات ظاہر ہوئی تو آپ محرم تھے، اور آپ نے مکہ کے راستے میں مقام سرف میں ان کے ساتھ خلوت میں گئے تو بھی آپ حلال تھے۔ میمونہ کا انتقال بھی سرف میں ہوا جہاں رسول اللہ ﷺ نے ان سے خلوت کی تھی اور وہ مقام سرف میں ہی دفن کی گئیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٤٢ (تحفة الأشراف : ٥٣٧٦) (صحیح) (سندا صحیح ہے، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 844

【37】

محرم کو نکاح کی اجازت

ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی اور آپ حلال تھے اور ان سے خلوت کی تو بھی آپ حلال تھے۔ اور انہوں نے سرف ہی میں انتقال کیا، ہم نے انہیں اسی سایہ دار مقام میں دفن کیا جہاں آپ نے ان سے خلوت کی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث یزید بن اصم سے مرسلاً روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤١١) ، سنن ابی داود/ الحج ٣٩ (١٨٤٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٥ (١٩٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٨٢) ، مسند احمد (٣٣٣، ٣٣٥) ، دي ٢١ (١٨٦٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1964) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 845

【38】

محرم کو شکار کا گوشت کھانا۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خشکی کا شکار تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جب کہ تم نے اس کا شکار خود نہ کیا ہو، نہ ہی وہ تمہارے لیے کیا گیا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابوقتادہ اور طلحہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- جابر کی حدیث مفسَّر ہے، ٣- اور ہم مُطّلب کا جابر سے سماع نہیں جانتے، ٤- اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ محرم کے لیے شکار کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جب اس نے خود اس کا شکار نہ کیا ہو، نہ ہی وہ اس کے لیے کیا گیا ہو، ٥- شافعی کہتے ہیں : یہ اس باب میں مروی سب سے اچھی اور قیاس کے سب سے زیادہ موافق حدیث ہے، اور اسی پر عمل ہے۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٤١ (١٨٥١) ، سنن النسائی/الحج ٨١ (٢٨٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ٣٠٩٨) ، مسند احمد (٣/٣٦٢) (ضعیف) (سند میں عمروبن ابی عمرو ضعیف ہیں، لیکن اگلی روایت سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2700 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (3524) ، ضعيف أبي داود (401 / 1851) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 846

【39】

محرم کو شکار کا گوشت کھانا۔

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ آپ جب مکہ کا کچھ راستہ طے کرچکے تو وہ اپنے بعض محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے جب کہ ابوقتادہ خود غیر محرم تھے، اسی دوران انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا، تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دے دیں تو ان لوگوں نے اسے انہیں دینے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا۔ تو ان لوگوں نے اسے بھی اٹھا کردینے سے انکار کیا تو انہوں نے اسے خود ہی (اتر کر) اٹھا لیا اور شکار کا پیچھا کیا اور اسے مار ڈالا، تو بعض صحابہ کرام نے اس شکار میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا۔ پھر وہ نبی اکرم ﷺ سے آ کر ملے اور اس بارے آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : یہ تو ایک ایسی غذا ہے جسے اللہ نے تمہیں کھلایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٤ (١٨٢٣) ، والجہاد ٨٨ (٢٩١٤) ، والذباع ١٠ (٥٤٩٠) ، و ١١ (٥٤٩٢) ، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٦) ، سنن ابی داود/ الحج ٤١ (١٨٥٢) ، سنن النسائی/الحج ٧٨ (٢٨١٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٢١٣١) ، موطا امام مالک/الحج ٢٤ (٧٦) ، مسند احمد (٥/٣٠١) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢ (١٨٢١) ، و ٣ (١٨٢٢) ، و ٥ (١٨٢٤) ، والہبة ٣ (٢٥٧٠) ، والجہاد ٤٦ (٢٨٥٤) ، والأطعمة ١٩ (٥٤٠٦، ٥٤٠٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٣ (٣٠٩٣) ، مسند احمد (٥/٣٠٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٦٧) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خشکی کا شکار اگر کسی غیر احرام والے نے اپنے لیے کیا ہو اور محرم نے کسی طرح کا تعاون اس میں نہ کیا ہو تو اس میں اسے محرم کے لیے کھانا جائز ہے ، اور اگر کسی غیر محرم نے خشکی کا شکار محرم کے لیے کیا ہو یا محرم نے اس میں کسی طرح کا تعاون کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1028) ، صحيح أبي داود (1623) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 847

【40】

محرم کو شکار کا گوشت کھانا۔

اس سند سے بھی ابوقتادہ سے نیل گائے کے بارے میں ابونضر ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے البتہ زید بن اسلم کی اس حدیث میں اتنا زائد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٢١٢٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الذي قبله (847) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 848

【41】

محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا مکروہ ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ صعب بن جثامہ (رض) نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ابواء یا ودان میں ان کے پاس سے گزرے، تو انہوں نے آپ کو ایک نیل گائے ہدیہ کیا، تو آپ نے اسے لوٹا دیا۔ ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے، جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا : ہم تمہیں لوٹاتے نہیں لیکن ہم محرم ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے اور انہوں نے محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے، ٣- شافعی کہتے ہیں : ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے وہ گوشت صرف اس لیے لوٹا دیا کہ آپ کو گمان ہوا کہ وہ آپ ہی کی خاطر شکار کیا گیا ہے۔ سو آپ نے اسے تنزیہاً چھوڑ دیا، ٤- زہری کے بعض تلامذہ نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے۔ اور اس میں «أهدى له حمارا وحشياً» کے بجائے «أهدى له لحم حمارٍ وحشٍ» ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے، ٥- اس باب میں علی اور زید بن ارقم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٦ (١٨٢٥) ، والہبة ٦ (٢٥٧٣) ، و ١٧ (٢٥٩٦) ، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٣) ، سنن النسائی/الحج ٧٩ (٢٨٢١، ٢٨٢٢، ٢٨٢٥، ٢٨٢٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٢ (٣٠٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٩٤٠) ، موطا امام مالک/الحج ٢٤ (٨٣) ، مسند احمد ( ٤/٣٧، ٣٨، ٧١، ٧٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٧٠، و ١٨٧٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 849

【42】

کہ محرم کے لئے سمندری جانوروں کا شکار حلال ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے نکلے تھے کہ ہمارے سامنے ٹڈی کا ایک دل آگیا، ہم انہیں اپنے کوڑوں اور لاٹھیوں سے مارنے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے کھاؤ، کیونکہ یہ سمندر کا شکار ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوالمھزم کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے، ٢- ابوالمہزم کا نام یزید بن سفیان ہے۔ شعبہ نے ان میں کلام کیا ہے، ٣- اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو ٹڈی کا شکار کرنے اور اسے کھانے کی رخصت دی ہے، ٤- اور بعض کا خیال ہے کہ اگر وہ اس کا شکار کرے اور اسے کھائے تو اس پر فدیہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٤٢ (١٨٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢٩ (٣٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٨٣٢) ، مسند احمد (٢/٣٠٦، ٣٦٤) (ضعیف) (سند میں ابو الہزم ضعیف راوی ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3222) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (693) ، الإرواء (1031) ، ضعيف الجامع الصغير (4207) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 850

【43】

محرم کے لئے بجو کے شکار کا حکم

ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر (رض) سے پوچھا : کیا لکڑ بگھا شکار میں داخل ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، (پھر) میں نے پوچھا : کیا میں اسے کھا سکتا ہوں ـ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں نے کہا : کیا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم نے فرمایا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کا بیان ہے کہ یہ حدیث جریر بن حزم نے بھی روایت کی ہے لیکن انہوں نے جابر سے اور جابر نے عمر (رض) سے روایت کی ہے، ابن جریج کی حدیث زیادہ صحیح ہے، ٣- اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور بعض اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ محرم جب لگڑ بگھا کا شکار کرے یا اسے کھائے تو اس پر فدیہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأطعمة ٣٢ (٣٨٠١) ، سنن النسائی/الحج ٨٩ (٢٨٣٩) ، والصید ٢٨ (٤٣٢٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٠ (٣٠٨٥) ، والصید ١٥ (٣٢٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٨١) ، مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣١٨، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٩٠ (١٩٨٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3085) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 851

【44】

مکہ داخل ہونے کے لئے غسل کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں داخل ہونے کے لیے (مقام) فخ میں ١ ؎ غسل کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غیر محفوظ ہے، ٢- صحیح وہ روایت ہے جسے نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرتے تھے۔ اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں کہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے، ٣- عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں۔ احمد بن حنبل اور علی بن مدینی وغیرہما نے ان کی تضعیف کی ہے اور ہم اس حدیث کو صرف انہی کے طریق سے مرفوع جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٧٣٢) (ضعیف الإسناد جدا) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم سخت ضعیف ہیں، لیکن مقام ” فخ “ کے ذکر کے بغیر مطلق دخول مکہ کے لیے غسل ابن عمر ہی سے بخاری ومسلم میں مروی ہے) وضاحت : ١ ؎ : مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد جدا، لکن رواه الشيخان دون ذکر فخ ، صحيح أبي داود (1629) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 852

【45】

نبی اکرم ﷺ مکہ میں بلندی کی طرف سے باہر نکلے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مکہ آتے تو بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور نشیب کی طرف سے نکلتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤١ (١٥٧٦) ، صحیح مسلم/الحج ٣٧ (١٢٥٧) ، سنن ابی داود/ الحج (١٨٦٩) (تحفة الأشراف : ١٦٩٢٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/المغازي ٤٩ (٤٢٩٠) ، سنن ابی داود/ الحج ٤٥ (١٨٦٨) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : بلندی سے مراد ثنیہ کداء ہے جو مکہ مکرمہ کی مقبرۃ المعلیٰ کی طرف ہے ، اور بلند ہے اور نشیب سے مراد ثنیۃ کدی ہے جو باب العمرۃ اور اب ملک فہد کی طرف نشیب میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1633) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 853

【46】

آنحضرت ﷺ مکہ میں دن کے وقت داخل ہوئے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں دن کے وقت داخل ہوئے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٦ (٢٩٤١) (تحفة الأشراف : ٧٧٢٣) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” عبداللہ العمری “ ضعیف ہیں، دیکھئے صحیح ابی داود : ١٦٢٩، وسنن ابی داود : ١٨٦٥) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل یہ ہے کہ مکہ میں دن کے وقت داخل ہوا جائے مگر یہ قدرت اور امکان پر منحصر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1629) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 854

【47】

بیت اللہ کے دیکھنے کے وقت ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے۔

مہاجر مکی کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ سے پوچھا گیا : جب آدمی بیت اللہ کو دیکھے تو کیا اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ؟ انہوں نے کہا : ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا، تو کیا ہم ایسا کرتے تھے ؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں : بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھانے کی حدیث ہم شعبہ ہی کے طریق سے جانتے ہیں، شعبہ ابوقزعہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوقزعہ کا نام سوید بن حجیر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٤٦ (١٨٧٠) ، سنن النسائی/الحج ١٢٢ (٢٨٩٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٥ (١٩٦١) (تحفة الأشراف : ٣١١٦) (ضعیف) (سند میں مہاجر بن عکرمہ، لین الحدیث راوی ہیں، نیز اس کے متن میں اثبات ونفی تک کا اختلاف ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہاں استفہام انکار کے لیے ہے ، ابوداؤد کی روایت میں «أفكنا نفعله» کے بجائے «فلم يكن يفعله» اور نسائی کی روایت میں «فلم نکن نفعله» ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس سے استدلال صحیح نہیں اس کے برعکس صحیح احادیث اور آثار سے بیت اللہ پر نظر پڑتے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (326) ، المشکاة (2574 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 855

【48】

بیت اللہ کے دیکھنے کے وقت ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مکہ آئے تو آپ مسجد الحرام میں داخل ہوئے، اور حجر اسود کا بوسہ لیا، پھر اپنے دائیں جانب چلے آپ نے تین چکر میں رمل کیا ١ ؎ اور چار چکر میں عام چال چلے۔ پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پاس آ کر فرمایا : مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ، چناچہ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا۔ پھر دو رکعت کے بعد حجر اسود کے پاس آ کر اس کا استلام کیا۔ پھر صفا کی طرف گئے۔ میرا خیال ہے کہ (وہاں) آپ نے یہ آیت پڑھی : «‏‏‏‏ (إن الصفا والمروة من شعائر الله» صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن ابی داود/ الحج ٥٧ (١٩٠٥) ، والحروف ١ (٣٩٦٩) ، سنن النسائی/الحج ١٤٩ (٢٩٤٢) ، ١٦٣ (٢٩٦٤، ٢٩٦٥) ، و ١٦٤ (٢٩٦٦) ، و ١٧٢ (٢٩٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٦ (١٠٠٨) ، والمناسک ٢٩ (٢٩٥١) ، و ٨٤ (٣٠٧٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٤ و ٢٥٩٥ و ٢٥٩٦) ، مسند احمد (٣/٣٢٠) ، سنن الدارمی/المناسک ١١ (١٨٤٦) ، وانظر ما یأتي برقم : ٨٥٧ و ٨٦٢ و ٢٩٦٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : رمل یعنی اکڑ کر مونڈھا ہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتا ہے ، یہ طواف کعبہ کے پہلے تین پھیروں میں سنت ہے ، نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقتور اور توانا ہونے کا مظاہرہ کرسکیں ، کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مدینہ کے بخار نے انہیں کمزور کردیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3074) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 856

【49】

حجر اسود سے رمل شروع کرنے اور اسی پر ختم کرنا

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل ١ ؎ کیا اور چار میں عام چل چلے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- شافعی کہتے ہیں : جب کوئی جان بوجھ کر رمل کرنا چھوڑ دے تو اس نے غلط کیا لیکن اس پر کوئی چیز واجب نہیں اور جب اس نے ابتدائی تین پھیروں میں رمل نہ کیا ہو تو باقی میں نہیں کرے گا، ٥- بعض اہل علم کہتے ہیں : اہل مکہ کے لیے رمل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر جس نے مکہ سے احرام باندھا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمل حجر اسود سے حجر اسود تک پورے مطاف میں مشروع ہے ، رہی ابن عباس کی روایت جس میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلنے کا ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے ، اس لیے کہ ابن عباس کی روایت عمرہ قضاء کے موقع کی ہے جو ٧ ھ میں فتح مکہ سے پہلے ہوا ہے اور جابر (رض) کی حدیث حجۃ الوداع کے موقع کی ہے جو ١٠ ھ میں ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3074) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 857

【50】

حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی چیز کو بوسہ نہ دے۔

ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کے ساتھ تھا، معاویہ (رض) جس رکن کے بھی پاس سے گزرتے، اس کا استلام کرتے ١ ؎ تو ابن عباس نے ان سے کہا : نبی اکرم ﷺ نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہیں کیا، اس پر معاویہ (رض) نے کہا : بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑی جانے کے لائق نہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے، ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہ کیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٧٨٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : خانہ کعبہ چار رکنوں پر مشتمل ہے ، پہلے رکن کو دو فضیلتیں حاصل ہیں ، ایک یہ کہ اس میں حجر اسود نصب ہے دوسرے یہ کہ قواعد ابراہیمی پر قائم ہے اور دوسرے رکن کو صرف دوسری فضیلت حاصل ہے یعنی وہ بھی قواعد ابراہیمی پر قائم ہے اور رکن شامی اور رکن عراقی کو ان دونوں فضیلتوں میں سے کوئی بھی فضیلت حاصل نہیں ، یہ دونوں قواعد ابراہیمی پر قائم نہیں اس لیے پہلے کی تقبیل ( بوسہ ) ہے اور دوسرے کا صرف استلام ( چھونا ) ہے اور باقی دونوں کی نہ تقبیل ہے نہ استلام ، یہی جمہور کی رائے ہے ، اور بعض لوگ رکن یمانی کی تقبیل کو بھی مستحب کہتے ہیں ، جو ممنوع نہیں ہے۔ ٢ ؎ : معاویہ (رض) کے اس قول کا جواب امام شافعی نے یہ کہہ کردیا ہے کہ ان رکن شامی اور رکن عراقی دونوں کا استلام نہ کرنا انہیں چھوڑنا نہیں ہے حاجی ان کا طواف کر رہا ہے انہیں چھوڑ نہیں رہا ، بلکہ یہ فعلاً اور ترکاً دونوں اعتبار سے سنت کی اتباع ہے ، اگر ان دونوں کا استلام نہ کرنا انہیں چھوڑنا ہے تو ارکان کے درمیان جو جگہیں ہیں ان کا استلام نہ کرنا بھی انہیں چھوڑنا ہوا حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 858

【51】

نبی اکرم ﷺ نے اضطباع کی حالت میں طواف کیا

یعلیٰ بن امیہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اضطباع کی حالت میں ١ ؎ بیت اللہ کا طواف کیا، آپ کے جسم مبارک پر ایک چادر تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہی ثوری کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے اور اسے ہم صرف کے انہی طریق سے جانتے ہیں، ٣- عبدالحمید جبیرہ بن شیبہ کے بیٹے ہیں، جنہوں نے ابن یعلیٰ سے اور ابن یعلیٰ نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور یعلیٰ سے مراد یعلیٰ بن امیہ ہیں (رض) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٥٠ (١٨٨٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٠ (٢٩٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٣٩) ، مسند احمد (٤/٢٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٨ (١٨٨٥) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : چادر ایک سرے کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر سینے سے گزارتے ہوئے پیٹھ کی طرف کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈالنے کو اضطباع کہتے ہیں ، یہ طواف کے سبھی پھیروں میں سنت ہے ، بخلاف رمل کے ، وہ صرف شروع کے تین پھیروں ( چکروں ) میں ہے ، طواف کے علاوہ کسی جگہ اور کسی حالت میں اضطباع نہیں ہے بعض لوگ حج و عمرہ میں احرام ہی کے وقت سے اضطباع کرتے ہیں ، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ نماز کی حالت میں یہ مکروہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (2954) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 859

【52】

حجر اسود کو بوسہ دینا

عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے : میں تیرا بوسہ لے رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوبکر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٠ (١٥٩٧) ، و ٥٧ (١٦٠٥) ، (١٦١٠) ، صحیح مسلم/الحج ٤١ (١٢٧٠) ، سنن ابی داود/ المناسک ٤٧ (١٨٧٣) ، سنن النسائی/الحج ١٤٧ (٢٩٤٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٧ (٢٩٤٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٤٧٣) ، مسند احمد (١/٢٦، ٤٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : موطا امام مالک/الحج ٣٦ (١١٥) ، مسند احمد (١/٢١، ٣٤، ٣٥، ٣٩، ٥١، ٥٣، ٥٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٢ (١٩٠٦) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : اپنے اس قول سے عمر (رض) لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ حجر اسود کا چومنا رسول اللہ کے فعل کی اتباع میں ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ یہ خود نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے جیسا کہ جاہلیت میں بتوں کے سلسلہ میں اس طرح کا لوگ عقیدہ رکھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2943) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 860

【53】

حجر اسود کو بوسہ دینا

زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر (رض) سے حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا : اچھا بتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہوجاؤں اور اگر میں بھیڑ میں پھنس جاؤں ؟ تو اس پر ابن عمر نے کہا : تم (یہ اپنا) اگر مگر یمن میں رکھو ١ ؎ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ یہ زبیر بن عربی وہی ہیں، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔ انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔ اور ان سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اور ائمہ نے روایت کی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھو لے اور اپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگر وہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تو اس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے، یہ شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦٠ (١٦١١) ، سنن النسائی/الحج ١٥٥ (٢٩٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ٦٧١٩) ، مسند احمد (٢/١٥٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ مطلب یہ ہے کہ اگر مگر چھوڑ دو ، اس طرح کے سوالات سنت رسول کے شیدائیوں کو زیب نہیں دیتے ، یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے ، سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 861

【54】

سعی صفا سے شروع کرنا چاہیے

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جس وقت مکہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور یہ آیت پڑھی : «‏‏‏‏ (واتخذوا من مقام إبراهيم مصلی» مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ یعنی وہاں نماز پڑھو (البقرہ : ١٢٥) ، پھر مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی، پھر حجر اسود کے پاس آئے اور اس کا استلام کیا پھر فرمایا : ہم (سعی) اسی سے شروع کریں گے جس سے اللہ نے شروع کیا ہے۔ چناچہ آپ نے صفا سے سعی شروع کی اور یہ آیت پڑھی : «إن الصفا والمروة من شعائر الله» صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں (البقرہ : ١٥٨) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سعی مروہ کے بجائے صفا سے شروع کی جائے۔ اگر کسی نے صفا کے بجائے مروہ سے سعی شروع کردی تو یہ سعی کافی نہ ہوگی اور سعی پھر سے صفا سے شروع کرے گا، ٣- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کی، یہاں تک کہ واپس گھر چلا گیا، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی نے صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی یہاں تک کہ وہ مکہ سے باہر نکل آیا پھر اسے یاد آیا، اور وہ مکہ کے قریب ہے تو واپس جا کر صفا و مروہ کی سعی کرے۔ اور اگر اسے یاد نہیں آیا یہاں تک کہ وہ اپنے ملک واپس آگیا تو اسے کافی ہوجائے گا لیکن اس پر دم لازم ہوگا، یہی سفیان ثوری کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے صفا و مروہ کے درمیان سعی چھوڑ دی یہاں تک کہ اپنے ملک واپس آگیا تو یہ اسے کافی نہ ہوگا۔ یہ شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی واجب ہے، اس کے بغیر حج درست نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٨٥٦ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1374) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 862

【55】

صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، تاکہ مشرکین کو اپنی قوت دکھا سکیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، ابن عمر اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے، اگر وہ سعی نہ کرے بلکہ صفا و مروہ کے درمیان عام چال چلے تو اسے جائز سمجھتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٧٤١) ، مسند احمد (١/٢٥٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 863

【56】

صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا

کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو سعی میں عام چال چلتے دیکھا تو میں نے ان سے کہا : کیا آپ صفا و مروہ کی سعی میں عام چال چلتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : اگر میں دوڑوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوڑتے بھی دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے، اور میں کافی بوڑھا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عمر سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٥٦ (١٩٠٤) ، سنن النسائی/الحج ١٧٤ (٢٩٧٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٣ (٢٩٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٧٩) ، مسند احمد (٢/٥٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2988) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 864

【57】

سوری پر طواف کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کیا جب ١ ؎ آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر، ابوالطفیل اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کی ایک جماعت نے بیت اللہ کا طواف، اور صفا و مروہ کی سعی سوار ہو کر کرنے کو مکروہ کہا ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو، یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦١ (١٦١٢) ، و ٦٢ (١٦١٣) ، و ٧٤ (١٦٣٢) ، والطلاق ٢٤ (٥٢٩٣) ، سنن النسائی/الحج ١٦٠ (٢٩٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سواری پر طواف آپ نے اس لیے کیا تھا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ سے حج کے مسائل پوچھ سکیں کیونکہ لوگ آپ کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ ٢ ؎ : یہ اشارہ آپ اپنی چھڑی سے کرتے تھے پھر اسے چوم لیتے تھے جیسا کہ ابوالطفیل (رض) کی روایت میں ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2948) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 865

【58】

طواف کی فضیلت کے بارے میں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بیت اللہ کا طواف پچاس بار کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا جیسے اسی دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں انس اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابن عباس (رض) کی حدیث غریب ہے، ٣- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ تو ابن عباس سے ان کے اپنے قول سے روایت کیا جاتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٥٣١) (ضعیف) (سند میں سفیان بن وکیع یحییٰ بن یمان شریک القاضی اور ابواسحاق سبیعی سب میں کلام ہے، صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عباس کا اپنا قول ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (5102) // ضعيف الجامع الصغير (5682) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 866

【59】

طواف کی فضیلت کے بارے میں

ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ لوگ عبداللہ بن سعید بن جبیر کو ان کے والد سے افضل شمار کرتے تھے۔ اور عبداللہ کے ایک بھائی ہیں جنہیں عبدالملک بن سعید بن جبیر کہتے ہیں۔ انہوں نے ان سے بھی روایت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٨٤٥٢) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف نے یہ اثر پچھلی حدیث کے راوی عبداللہ بن سعید بن جبیر کی تعریف میں پیش کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 867

【60】

عصر اور فجر کے بعد طواف کے دو ( نفل) پڑھنا

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے بنی عبد مناف ! رات دن کے کسی بھی حصہ میں کسی کو اس گھر کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جبیر مطعم (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- عبداللہ بن ابی نجیح نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن باباہ سے روایت کی ہے، ٣- اس باب میں ابن عباس اور ابوذر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- مکہ میں عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں : عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز پڑھنے اور طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ١ ؎ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی حدیث ٢ ؎ سے دلیل لی ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : اگر کوئی عصر کے بعد طواف کرے تو سورج ڈوبنے تک نماز نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر کوئی فجر کے بعد طواف کرے تو سورج نکلنے تک نماز نہ پڑھے۔ ان کی دلیل عمر (رض) کی حدیث ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد طواف کیا اور نماز نہیں پڑھی پھر مکہ سے نکل گئے یہاں تک کہ وہ ذی طویٰ میں اترے تو سورج نکل جانے کے بعد نماز پڑھی۔ یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٥٣ (١٨٩٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٤١ (٥٨٦) ، والحج ١٣٧ (٢٩٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٩ (١٢٥٦) ، ( تحفة الأشراف : ٣١٨٧) ، مسند احمد (٤/٨٠، ٨١، ٨٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٩ (١٩٦٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی ارجح و اشبہ ہے۔ ٢ ؎ : جو اس باب میں مذکور ہے ، اس کا ماحصل یہ ہے کہ مکہ میں مکروہ اور ممنوع اوقات کا لحاظ نہیں ہے۔ ( خاص کر طواف کے بعد دو رکعتوں کے سلسلے میں ) جب کہ عام جگہوں میں فجر و عصر کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1254) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 868

【61】

طواف کی دو رکعتوں میں کیا پڑھا جائے

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طواف کی دو رکعت میں اخلاص کی دونوں سورتیں یعنی «قل يا أيها الکافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٦١٣) (صحیح) (جعفر صادق کے طریق سے صحیح مسلم میں مروی طویل حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ مولف کی اس سند میں عبدالعزیز بن عمران متروک الحدیث راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : «قل يا أيها الکافرون» کو سورة الاخلاص تغلیباً کہا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3074) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 869

【62】

طواف کی دو رکعتوں میں کیا پڑھا جائے

محمد (محمد بن علی الباقر) سے روایت ہے کہ وہ طواف کی دونوں رکعتوں میں : «قل يا أيها الکافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سفیان کی جعفر بن محمد عن أبیہ کی روایت عبدالعزیز بن عمران کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ٢- اور (سفیان کی روایت کردہ) جعفر بن محمد کی حدیث جسے وہ اپنے والد (کے عمل سے) سے روایت کرتے ہیں (عبدالعزیز کی روایت کردہ) جعفر بن محمد کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ اپنے والد سے اور وہ جابر سے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ١ ؎، ٣- عبدالعزیز بن عمران حدیث میں ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٩٣٢٤) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی کے اس قول میں نظر ہے کیونکہ عبدالعزیز بن عمران اس حدیث کو «عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر» کے طریق سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہیں ، امام مسلم نے اپنی صحیح میں ( برقم : ١٢١٨) «حاتم بن اسماعیل المدنی عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر» کے طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوعا صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 870

【63】

ننگے ہو کر طواف کرنا حرام ہے

زید بن اثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) سے پوچھا : آپ کو کن باتوں کا حکم دے کر بھیجا گیا ہے ؟ ١ ؎ انہوں نے کہا : چار باتوں کا : جنت میں صرف وہی جان داخل ہوگی جو مسلمان ہو، بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے۔ مسلمان اور مشرک اس سال کے بعد جمع نہ ہوں، جس کسی کا نبی اکرم ﷺ سے کوئی عہد ہو تو اس کا یہ عہد اس کی مدت تک کے لیے ہوگا۔ اور جس کی کوئی مدت نہ ہو تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر التوبة (٣٠٩٢) (تحفة الأشراف : ١٠١٠١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس سال کے حج کی بات ہے جب نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر (رض) کو حج کا امیر بنا کر بھیجا تھا ، ( آٹھویں یا نویں سال ہجرت میں ) اور پھر اللہ عزوجل کی طرف سے حرم مکی میں مشرکین و کفار کے داخلہ پر پابندی کا حکم نازل ہوجانے کی بنا پر آپ ﷺ نے علی (رض) کو ابوبکر (رض) کے پاس مکہ میں یہ احکام دے کر روانہ فرمایا تھا ، راوی حدیث زید بن اثیع الہمدانی ان سے انہی احکام و اوامر کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں جو ان کو نبی اکرم ﷺ کی طرف سے دے کر بھیجا گیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1101) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 871

【64】

ننگے ہو کر طواف کرنا حرام ہے

ہم سے ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے بیان کیا، یہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور سفیان نے ابواسحاق سبیعی سے اسی طرح کی حدیث روایت کی، البتہ ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے (زید بن اثیع کے بجائے) زید بن یثیع کہا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : شعبہ کو اس میں وہم ہوا ہے، انہوں نے : زید بن اثیل کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (871) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 872

【65】

خانہ کعبہ میں داخل ہونا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے نکل کر گئے، آپ کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں اور طبیعت خوش، پھر میرے پاس لوٹ کر آئے، تو غمگین اور افسردہ تھے، میں نے آپ سے (وجہ) پوچھی، تو آپ نے فرمایا : میں کعبہ کے اندر گیا۔ اور میری خواہش ہوئی کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ میں ڈر رہا ہوں کہ اپنے بعد میں نے اپنی امت کو زحمت میں ڈال دیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٩٥ (٢٠٢٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک (٧٩) (٣٠٦٤) (تحفة الأشراف : ١٦٢٣٠) (ضعیف) (اس کے راوی ” اسماعیل بن عبدالملک “ کثیرالوہم ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3064) // ضعيف سنن ابن ماجة (656) ، ضعيف الجامع الصغير (2085) ، ضعيف أبي داود (440 / 2029) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 873

【66】

کعبہ میں نماز پڑھنا

بلال (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بلال (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں اسامہ بن زید، فضل بن عباس، عثمان بن طلحہ اور شیبہ بن عثمان (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ٤- مالک بن انس کہتے ہیں : کعبے میں نفل نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اور انہوں نے کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے، ٥- شافعی کہتے ہیں : کعبہ کے اندر فرض اور نفل کوئی بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ نفل اور فرض کا حکم وضو اور قبلے کے بارے میں ایک ہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٠٣٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصلاة ٣٠ (٣٩٧) ، و ٨١ (٤٨٦) ، و ٩٦ (٥٠٤) ، والتہجد ٢٥ (١١٦٧) ، والحج ٥١ (١٥٩٨) ، والجہاد ١٢٧ (٢٩٨٨) ، والمغازي ٤٩ (٤٢٨٩) ، و ٧٧ (٤٤٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ٢٨ (١٣٢٩) ، سنن ابی داود/ الحج ٩٣ (٢٠٢٣) ، سنن النسائی/المساجد ٥ (٦٩١) ، والقبلة ٦ (٧٤٨) ، والحج ١٢٦ (٢٩٠٨) ، و ١٢٧ (٢٩٠٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٩ (٣٠٦٣) ، موطا امام مالک/الحج ٦٣ (١٩٣) ، مسند احمد (٢/٣٣، ٥٥، ١١٣، ١٢٠٠، ١٣٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٣ (١٩٠٨) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر فی السیاق۔ وضاحت : ١ ؎ : راجح بلال (رض) کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے ، رہی ابن عباس (رض) کی نفی ، تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید (رض) نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کرلیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہوگئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہوگئے ، نبی اکرم ﷺ دوسرے گوشے میں تھے اور بلال (رض) آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے ، نبی اکرم ﷺ کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم ﷺ ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہوسکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3063) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 874

【67】

خانہ کعنہ کو توڑ کر بنا نا

اسود بن یزید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر (رض) نے ان سے کہا : تم مجھ سے وہ باتیں بیان کرو، جسے ام المؤمنین یعنی عائشہ (رض) تم سے رازدارانہ طور سے بیان کیا کرتی تھیں، انہوں نے کہا : مجھ سے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اگر تمہاری قوم کے لوگ جاہلیت چھوڑ کر نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے، تو میں کعبہ کو گرا دیتا اور اس میں دو دروازے کردیتا ، چناچہ ابن زبیر (رض) جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے کعبہ گرا کر اس میں دو دروازے کردیئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٢٥ (٢٩٠٥) (تحفة الأشراف : ١٦٠٣٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحج ٤٢ (١٥٨٣) ، والأنبیاء ١٠ (٣٣٦٨) ، وتفسیر البقرة ١٠ (٤٤٨٤) ، صحیح مسلم/الحج ٦٩ (١٣٣٣) ، سنن النسائی/الحج ١٢٥ (٢٩٠٣) ، موطا امام مالک/الحج ٣٣ (١٠٤) ، مسند احمد (٦/١١٣، ١٧٧، ٢٤٧، ٢٥٣، ٢٥٢) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر في السیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (875) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 875

【68】

حطیم میں نماز پڑھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ١ ؎ کے اندر کردیا اور فرمایا : اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کردیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٩٤ (٢٠٢٨) ، سنن النسائی/الحج ١٢٨ (٢٩١٥) (تحفة الأشراف : ١٧٩٦١) ، مسند احمد (٦/٩٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے ، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیئے ، اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (1769) ، الصحيحة (43) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 876

【69】

حجر اسود رکن یمانی اور مقام ابر اہیم کی فضیلت۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حجر اسود جنت سے اترا، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کردیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٤٥ (٢٩٣٨) (تحفة الأشراف : ٥٥٧١) ، مسند احمد (١/٣٠٧، ٣٢٩، ٣٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : زیادہ طور پر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کیونکہ عقلاً و نقلاً اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے حجر اسود کی تعظیم شان میں مبالغہ اور گناہوں کی سنگینی بتانا مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2577) ، التعليق الرغيب (2 / 123) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 877

【70】

حجر اسود رکن یمانی اور مقام ابر اہیم کی فضیلت۔

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : حجر اسود اور مقام ابراہیم دونوں جنت کے یاقوت میں سے دو یاقوت ہیں، اللہ نے ان کا نور ختم کردیا، اگر اللہ ان کا نور ختم نہ کرتا تو وہ مشرق و مغرب کے سارے مقام کو روشن کردیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- یہ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے موقوفاً ان کا قول روایت کیا جاتا ہے، ٣- اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر : مسند احمد (٢/٢١٣، ٢١٤) (التحفة : ٨٩٣٠) (صحیح) (سند میں رجاء بن صبیح ابو یحییٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے صحیح الترغیب رقم : ١١٤٧) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 878

【71】

منٰی کی طرف جانا اور قیام کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے منیٰ ١ ؎ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پڑھائی ٢ ؎ پھر آپ صبح ٣ ؎ ہی عرفات کے لیے روانہ ہوگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اسماعیل بن مسلم پر ان کے حافظے کے تعلق سے لوگوں نے کلام کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٥١ (٣٠٠٤) (تحفة الأشراف : ٥٨٨١) (صحیح) (سند میں اسماعیل بن مسلم کے اندر ائمہ کا کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : منیٰ : مکہ اور مزدلفہ کے درمیان کئی وادیوں پر مشتمل ایک کھلے میدان کا نام ہے ، مشرقی سمت میں اس کی حد وہ نشیبی وادی ہے جو وادی محسّر سے اترتے وقت پڑتی ہے اور مغربی سمت میں جمرہ عقبہ ہے۔ ٢ ؎ : یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ۔ ٣ ؎ : یعنی سورج نکلنے کے بعد۔ قال الشيخ الألباني : صحيح حجة النبی صلی اللہ عليه وسلم (69 / 55) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 879

【72】

منٰی کی طرف جانا اور قیام کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے منیٰ میں ظہر اور فجر پڑھی ١ ؎، پھر آپ صبح ہی صبح ٢ ؎ عرفات کے لیے روانہ ہوگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مقسم کی حدیث ابن عباس سے مروی ہے، ٢- شعبہ کا بیان ہے کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ چیزیں سنی ہیں، اور انہوں نے انہیں شمار کیا تو یہ حدیث شعبہ کی شمار کی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی، ٣- اس باب میں عبداللہ بن زبیر اور انس سے بھی احادیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٥٩ (٩١١) (تحفة الأشراف : ٦٤٦٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : ظہر سے لے کر فجر تک پڑھی۔ ظہر ، عصر جمع اور قصر کر کے ، پھر مغرب اور عشاء جمع اور قصر کر کے۔ ٢ ؎ : یعنی نویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے فوراً بعد۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (879) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 880

【73】

منٰی میں پہلے والا قیام کا زیادہ حقدار ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم آپ کے لیے منی میں ایک گھر نہ بنادیں جو آپ کو سایہ دے۔ آپ نے فرمایا : نہیں ١ ؎، منیٰ میں اس کا حق ہے جو وہاں پہلے پہنچے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٩٠ (٢٠١٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٢ (٣٠٠٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٧ (١٩٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٩٦٣) (ضعیف) (یوسف کی والدہ ” مسیکہ “ مجہول ہیں) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ منی کو کسی کے لیے خاص کرنا درست نہیں ، وہ رمی ، ذبح اور حلق وغیرہ عبادات کی سر زمین ہے ، اگر مکان بنانے کی اجازت دے دی جائے تو پورا میدان مکانات ہی سے بھر جائے گا اور عبادت کے لیے جگہ نہیں رہ جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3006) // ضعيف سنن ابن ماجة (648) ، ضعيف أبي داود (438 / 2019) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 881

【74】

منٰی میں قصر نماز پڑھنا

حارثہ بن وہب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حارثہ بن وہب کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور ابن مسعود (رض) سے بھی مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان (رض) کے ساتھ ان کے ابتدائی دور خلافت میں دو رکعتیں پڑھیں، ٤- اہل مکہ کے منیٰ میں نماز قصر کرنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ میں نماز قصر کریں ١ ؎، بجز ایسے شخص کے جو منیٰ میں مسافر کی حیثیت سے ہو، یہ ابن جریج، سفیان ثوری، یحییٰ بن سعید قطان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے منیٰ میں نماز قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اوزاعی، مالک، سفیان بن عیینہ، اور عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ٢ (١٠٨٣) ، والحج ٨٤ (١٦٥٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢ (٦٩٦) ، سنن ابی داود/ الحج ٧٧ (١٩٦٥) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٣ (١٤٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٨٤) ، مسند احمد (٤/٣٠٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے ، مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے ، اور جوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1714) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 882

【75】

عرفات میں ٹھہر نا اور دعا کرنا

یزید بن شیبان کہتے ہیں : ہمارے پاس یزید بن مربع انصاری (رض) آئے، ہم لوگ موقف (عرفات) میں ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جسے عمرو بن عبداللہ امام سے دور سمجھتے تھے ١ ؎ تو یزید بن مربع نے کہا : میں تمہاری طرف رسول اللہ ﷺ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تم لوگ مشاعر ٢ ؎ پر ٹھہرو کیونکہ تم ابراہیم کے وارث ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یزید بن مربع انصاری کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے ہم صرف ابن عیینہ کے طریق سے جانتے ہیں، اور ابن عیینہ عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں، ٣- ابن مربع کا نام یزید بن مربع انصاری ہے، ان کی صرف یہی ایک حدیث جانی جاتی ہے، ٤- اس باب میں علی، عائشہ، جبیر بن مطعم، شرید بن سوید ثقفی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٦٣ (١٩١٩) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٢ (٣٠١٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٥ (٣٠١١) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٢٦) ، مسند احمد (٤/١٣٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ جملہ مدرج ہے عمرو بن دینار کا تشریحی قول ہے۔ ٢ ؎ : مشاعر سے مراد مواضع نسک اور مواقف قدیمہ ہیں ، یعنی ان مقامات پر تم بھی وقوف کرو کیونکہ ان پر وقوف تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے دور سے بطور روایت چلا آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3011) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 883

【76】

عرفات میں ٹھہر نا اور دعا کرنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ - اور یہ «حمس» ١ ؎ کہلاتے ہیں - مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے : ہم تو اللہ کے خادم ہیں۔ (عرفات نہیں جاتے) ، اور جوان کے علاوہ لوگ تھے وہ عرفہ میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے آیت کریمہ «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» اور تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں (البقرہ : ١٩٩) نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اہل مکہ حرم سے باہر نہیں جاتے تھے اور عرفہ حرم سے باہر ہے۔ اہل مکہ مزدلفہ ہی میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے : ہم اللہ کے آباد کئے ہوئے لوگ ہیں۔ اور اہل مکہ کے علاوہ لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے حکم نازل فرمایا : «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں «حمس» سے مراد اہل حرم ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٧٢٣٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «حمس» کے معنی بہادر اور شجاع کے ہیں۔ مکہ والے اپنے آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کیا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3018) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 884

【77】

تمام عرفات ٹھہر نے کی جگہ ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات میں قیام کیا اور فرمایا : یہ عرفہ ہے، یہی وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے، عرفہ (عرفات) کا پورا ٹھہرنے کی جگہ ہے، پھر آپ جس وقت سورج ڈوب گیا تو وہاں سے لوٹے۔ اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا، اور آپ اپنی عام رفتار سے چلتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، اور لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہتے جاتے تھے : لوگو ! سکون و وقار کو لازم پکڑو ، پھر آپ مزدلفہ آئے اور لوگوں کو دونوں نمازیں (مغرب اور عشاء قصر کر کے) ایک ساتھ پڑھائیں، جب صبح ہوئی تو آپ قزح ١ ؎ آ کر ٹھہرے، اور فرمایا : یہ قزح ہے اور یہ بھی موقف ہے اور مزدلفہ پورا کا پورا موقف ہے ، پھر آپ لوٹے یہاں تک کہ آپ وادی محسر ٢ ؎ پہنچے اور آپ نے اپنی اونٹنی کو مارا تو وہ دوڑی یہاں تک کہ اس نے وادی پار کرلی، پھر آپ نے وقوف کیا۔ اور فضل بن عباس (رض) کو (اونٹنی پر) پیچھے بٹھایا، پھر آپ جمرہ آئے اور رمی کی، پھر منحر (قربانی کی جگہ) آئے اور فرمایا : یہ منحر ہے، اور منیٰ پورا کا پورا منحر (قربانی کرنے کی جگہ) ہے ، قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے آپ سے مسئلہ پوچھا، اس نے عرض کیا : میرے والد بوڑھے ہوچکے ہیں اور ان پر اللہ کا فریضہ حج واجب ہوچکا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں تو کافی ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کرلے ۔ علی (رض) کہتے ہیں : آپ ﷺ نے فضل کی گردن موڑ دی، اس پر آپ سے، عباس (رض) نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی ؟ تو آپ نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں جوان ہیں تو میں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا ٣ ؎، پھر ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں نے سر منڈانے سے پہلے طواف افاضہ کرلیا۔ آپ نے فرمایا : سر منڈوا لو یا بال کتروا لو کوئی حرج نہیں ہے ۔ پھر ایک دوسرے شخص نے آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی، آپ نے فرمایا : رمی کرلو کوئی حرج نہیں ٤ ؎ پھر آپ بیت اللہ آئے اور اس کا طواف کیا، پھر زمزم پر آئے، اور فرمایا : بنی عبدالمطلب ! اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کردیں گے تو میں بھی (تمہارے ساتھ) پانی کھینچتا ۔ (اور لوگوں کو پلاتے) امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے علی کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ یعنی عبدالرحمٰن بن حارث بن عیاش کی سند سے، اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ثوری سے اسی کے مثل روایت کی ہے، ٢- اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ عرفہ میں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کو ملا کر ایک ساتھ پڑھے، ٤- اور بعض اہل علم کہتے ہیں : جب آدمی اپنے ڈیرے (خیمے) میں نماز پڑھے اور امام کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہو تو چاہے دونوں نمازوں کو ایک ساتھ جمع اور قصر کر کے پڑھ لے، جیسا کہ امام نے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٦٤ (١٩٢٢) (مختصراً ) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : مزدلفہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔ ٢ ؎ : منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پر عذاب آیات ھا۔ ٣ ؎ : یعنی : مجھے اندیشہ ہوا کہ فضل جب نوجوان لڑکی کی طرف سے ملتفت تھے ، شیطان ان کو بہکا نہ دے۔ ٤ ؎ : حاجی کو دسویں ذوالحجہ میں چار کام کرنے پڑتے ہیں ، ١- جمرہ عقبیٰ کی رمی ، ٢- نحر ہدی ( جانور ذبح کرنا ) ، ٣- حلق یا قصر ، ٤- طواف افاضہ ، ان چاروں میں ترتیب افضل ہے ، اور اگر کسی وجہ سے ترتیب قائم نہ رہ سکے تو اس سے دم لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگا جب کہ بعض نے کہا کہ حرج تو کچھ نہیں ہوگا لیکن دم لازم آئے گا۔ مگر ان کے پاس نص صریح میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن حجاب المرأة المسلمة (28) ، الحج الکبير صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 885

【78】

عرفات سے واپسی

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ وادی محسر میں تیز چال چلے۔ (بشر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) آپ مزدلفہ سے لوٹے، آپ پرسکون یعنی عام رفتار سے چل رہے تھے، لوگوں کو بھی آپ نے سکون و اطمینان سے چلنے کا حکم دیا۔ (اور ابونعیم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ نے انہیں ایسی کنکریوں سے رمی کرنے کا حکم دیا جو دو انگلیوں میں پکڑی جاسکیں، اور فرمایا : شاید میں اس سال کے بعد تمہیں نہ دیکھ سکوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں اسامہ بن زید (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٦٦ (١٩٤٤) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٤ (٣٠٢٤) ، و ٢١٥ (٣٠٥٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦١ (٣٠٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٧٤٧ و ٢٧٥) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٣٢، ٣٦٧، ٣٩١) ، ویأتي عند المؤلف رقم : ٨٩٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1699 و 1719) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 886

【79】

مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کرنا

عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے مزدلفہ میں نماز پڑھی اور ایک اقامت سے مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھیں اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٦٥ (١٩٢٩) (تحفة الأشراف : ٧٢٨٥) (صحیح) (ہر صلاة کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت) وضاحت : ١ ؎ : اس کے برخلاف جابر (رض) کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اور دو تکبیروں سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1682 - 1690) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 887

【80】

مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کرنا

اس سند سے بھی ابن عمر (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔ محمد بن بشار نے («حدثنا» کے بجائے) «قال یحییٰ» کہا ہے۔ اور صحیح سفیان والی روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث جسے سفیان نے روایت کی ہے اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، اور سفیان کی حدیث صحیح حسن ہے، ٢- اسرائیل نے یہ حدیث ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی نے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور عبداللہ اور خالد نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سعید بن جبیر کی حدیث جسے انہوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، سلمہ بن کہیل نے اسے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے، رہے ابواسحاق سبیعی تو انہوں نے اسے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور ان دونوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے، ٣- اس باب میں علی، ابوایوب، عبداللہ بن سعید، جابر اور اسامہ بن زید (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس لیے کہ مغرب مزدلفہ آنے سے پہلے نہیں پڑھی جائے گی، جب حجاج جمع ١ ؎ یعنی مزدلفہ جائیں تو دونوں نمازیں ایک اقامت سے اکٹھی پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھیں گے۔ یہی مسلک ہے جسے بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری کا بھی قول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہے تو مغرب پڑھے پھر شام کا کھانا کھائے، اور اپنے کپڑے اتارے پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے، ٤- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرے۔ مغرب کے لیے اذان کہے اور تکبیر کہے اور مغرب پڑھے، پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے یہ شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٦) ، سنن ابی داود/ الحج ٦٥ (٩٩٣٠، ١٩٣٢) ، سنن النسائی/الصلاة ١٨ (٤٨٢) ، و ٢٠ (٤٨٤، ٤٨٥) ، والمواقیت ٤٩ (٦٠٧) ، والأذان ١٩ (٦٥٨) ، و ٢٠ (٦٥٩) ، والحج ٢٠٧ (٣٠٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٥٢) ، مسند احمد (٢/٣، ٦٢، ٧٩، ٨١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٣ (١٥٥٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : جمع مزدلفہ کا نام ہے ، کہا جاتا ہے کہ آدم اور حوا جب جنت سے اتارے گئے تو اسی مقام پر آ کر دونوں اکٹھا ہوئے تھے اس لیے اس کا نام جمع پڑگیا۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 888

【81】

امام کو مزدلفہ میں پا نے والے نے حج کو پا لیا

عبدالرحمٰن بن یعمر (رض) کہتے ہیں کہ نجد کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اس وقت آپ عرفہ میں تھے۔ انہوں نے آپ سے حج کے متعلق پوچھا تو آپ نے منادی کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا : حج عرفات میں ٹھہرنا ہے ١ ؎ جو کوئی مزدلفہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے عرفہ آ جائے، اس نے حج کو پا لیا ٢ ؎ منی کے تین دن ہیں، جو جلدی کرے اور دو دن ہی میں چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو دیر کرے تیسرے دن جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ (یحییٰ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ نے ایک شخص کو پیچھے بٹھایا اور اس نے آواز لگائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٦٩ (١٩٤٩) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٣ (٣٠١٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٧ (٣٠١٥) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٣٥) ، مسند احمد (٤/٣٠٩، ٣١٠، ٣٣٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٤ (١٩٢٩) ، ویأتي في التفسیر برقم : ٢٩٧٥ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہوجانے سے حج فوت ہوجاتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پا لیا جو حج کا ایک رکن ہے اور حج کے فوت ہوجانے سے مامون و بےخوف ہوگیا ، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہوگیا اور اسے اب کچھ اور نہیں کرنا ہے ، ابھی تو طواف افاضہ جو حج کا ایک اہم رکن ہے باقی ہے بغیر اس کے حج کیسے پورا ہوسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3015) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 889

【82】

امام کو مزدلفہ میں پا نے والے نے حج کو پا لیا

- ابن ابی عمر نے بسند سفیان بن عیینہ عن سفیان الثوری عن بکیر بن عطاء عن عبدالرحمٰن بن یعمر عن النبی کریم ﷺ اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں : قال سفیان بن عیینہ، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔ © امام ترمذی کہتے ہیں : ١- شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے، ٢- وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہا کہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں ام المناسک کی حیثیت رکھتی ہے، ٣- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمٰن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا، اس کا حج فوت ہوگیا، اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تو یہ اسے کافی نہیں ہوگا۔ اسے عمرہ بنا لے اور اگلے سال حج کرے ، یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ابن ابی عمر نے بسند «سفيان الثوري عن بكير بن عطاء عن عبدالرحمٰن بن يعمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں : «قال سفيان بن عيينة» ، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے، ٢- وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہا کہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں ام المناسک کی حیثیت رکھتی ہے، ٣- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمٰن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا، اس کا حج فوت ہوگیا، اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تو یہ اسے کافی نہیں ہوگا۔ اسے عمرہ بنا لے اور اگلے سال حج کرے ، یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 890

【83】

امام کو مزدلفہ میں پا نے والے نے حج کو پا لیا

عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام الطائی (رض) کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس مزدلفہ آیا، جس وقت آپ نماز کے لیے نکلے تو میں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں قبیلہ طی کے دونوں پہاڑوں سے ہوتا ہوا آیا ہوں، میں نے اپنی سواری کو اور خود اپنے کو خوب تھکا دیا ہے، اللہ کی قسم ! میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا جہاں میں نے (یہ سوچ کر کہ عرفات کا ٹیلہ ہے) وقوف نہ کیا ہو تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی ہماری اس نماز میں حاضر رہا اور اس نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے روانہ ہوں اور وہ اس سے پہلے دن یا رات میں عرفہ میں وقوف کرچکا ہو ١ ؎ تو اس نے اپنا حج پورا کرلیا، اور اپنا میل کچیل ختم کرلیا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- «تَفَثَهُ» کے معنی «نسكه» کے ہیں یعنی مناسک حج کے ہیں۔ اور اس کے قول : «ما ترکت من حبل إلا وقفت عليه» کوئی ٹیلہ ایسا نہ تھا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو کے سلسلے میں یہ ہے کہ جب ریت کا ٹیلہ ہو تو اسے حبل اور جب پتھر کا ہو تو اسے جبل کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٦٩ (١٩٥٠) ، سنن النسائی/الحج ٢١١ (٣٠٤٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٧ (٣٠١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٠٠) ، مسند احمد (٤/٢٦١، ٢٦٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٤ (١٩٣٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت نو ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجر تک ہے ان دونوں وقتوں کے بیچ اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج ادا ہوجائے گا۔ ٢ ؎ : یعنی حالت احرام میں پراگندہ ہو کر رہنے کی مدت اس نے پوری کرلی اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3016) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 891

【84】

ضعیف لوگوں کو مزدلفہ سے جلدی روانہ کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے مزدلفہ سے رات ہی میں اسباب (کمزور عورتوں اور ان کے اسباب) کے ساتھ روانہ کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عائشہ (رض)، ام حبیبہ، اسماء بنت ابی بکر اور فضل بن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٨ (١٦٧٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩٩٧) ، مسند احمد (١/٢٤٥، ٣٣٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3026) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 892

【85】

ضعیف لوگوں کو مزدلفہ سے جلدی روانہ کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے گھر والوں میں سے کمزوروں (یعنی عورتوں اور بچوں) کو پہلے ہی روانہ کردیا، اور آپ نے (ان سے) فرمایا : جب تک سورج نہ نکل جائے رمی جمار نہ کرنا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابن عباس (رض) کی حدیث «بعثني رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم في ثقل» صحیح حدیث ہے، یہ ان سے کئی سندوں سے مروی ہے، شعبہ نے یہ حدیث مشاش سے اور مشاش نے عطاء سے اور عطا نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے گھر والوں میں سے کمزور لوگوں کو پہلے ہی رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ کردیا تھا، یہ حدیث غلط ہے۔ مشاش نے اس میں غلطی کی ہے، انہوں نے اس میں فضل بن عباس کا اضافہ کردیا ہے۔ ابن جریج اور دیگر لوگوں نے یہ حدیث عطاء سے اور عطاء نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور اس میں فضل بن عباس کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ٣- مشاش بصرہ کے رہنے والے ہیں اور ان سے شعبہ نے روایت کی ہے، ٤- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کمزور لوگ مزدلفہ سے رات ہی کو منیٰ کے لیے روانہ ہوجائیں، ٥- اکثر اہل علم نے نبی اکرم ﷺ کی حدیث کے مطابق ہی کہا ہے کہ لوگ جب تک سورج طلوع نہ ہو رمی نہ کریں، ٦- اور بعض اہل علم نے رات ہی کو رمی کرلینے کی رخصت دی ہے۔ اور عمل نبی اکرم ﷺ کی حدیث پر ہے کہ وہ رمی نہ کریں جب تک کہ سورج نہ نکل جائے، یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٤٧٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ الحج ٦٦ (١٩٤٠) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٢ (٣٠٦٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٢ (٣٠٢٥) ، مسند احمد (١/٢٣٤، ٣١١) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ بھیج دینا جائز ہے تاکہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہوجائیں لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں ، ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے : اے میرے بچو جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ سورج نہ نکل جائے ، یہی قول راجح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3025) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 893

【86】

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ دسویں ذی الحجہ کو (ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ وہ دسویں ذی الحجہ کے زوال بعد کے بعد ہی رمی کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٣ (١٢٩٩) ، سنن ابی داود/ الحج ٧٨ (١٩٧١) ، سنن النسائی/الحج ٢٢١ (٣٠٦٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٥ (٣٠٥٣) ، سنن ابی داود/ المناسک ٥٨ (١٩٣٧) (تحفة الأشراف : ٢٧٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر ( دسویں ذوالحجہ ، قربانی والے دن ) کے علاوہ دوسرے ، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعد کی جائے ، یہی جمہور کا قول ہے اور عطاء و طاؤس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائز کہا ہے ، اور حنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے ، عطاء و طاؤس کے قول پر نبی اکرم ﷺ کے فعل و قول سے کوئی دلیل نہیں ہے ، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پر ابن عباس کے ایک اثر سے استدلال کیا ہے ، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہو رہی کا قول قابل اعتماد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3053) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 894

【87】

مزدلفہ طلوع آفتاب سے پہلے نکلنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ (مزدلفہ سے) سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- جاہلیت کے زمانے میں لوگ انتظار کرتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا پھر لوٹتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٤٧٣) (صحیح بما بعدہ) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” حکم “ نے ” مقسم “ سے صرف پانچ احادیث سنی ہیں، اور یہ حدیث شاید ان میں سے نہیں ہے ؟ ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما بعده (896) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 895

【88】

مزدلفہ طلوع آفتاب سے پہلے نکلنا

عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، عمر بن خطاب (رض) نے کہا : مشرکین جب تک کہ سورج نکل نہیں آتا نہیں لوٹتے تھے اور کہتے تھے : ثبیر ! تو روشن ہوجا (تب ہم لوٹیں گے) ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی، چناچہ عمر (رض) سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٠ (١٦٨٤) ، ومناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٨) ، سنن ابی داود/ الحج ٦٥ (١٩٣٨) ، سنن النسائی/الحج ٢١٣ (٣٠٥٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦١ (٣٠٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦١٦) ، مسند احمد (١/١٤، ٢٩، ٣٩، ٤٢، ٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٥ (١٩٣٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3022) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 896

【89】

چھوٹی چھوٹی کنکریاں مارنا

جابر (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ایسی کنکریوں سے رمی جمار کر رہے تھے جو انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے درمیان پکڑی جاسکتی تھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سلیمان بن عمرو بن احوص (جو اپنی ماں ام جندب ازدیہ سے روایت کرتے ہیں) ، ابن عباس، فضل بن عباس، عبدالرحمٰن بن عثمان تمیمی اور عبدالرحمٰن بن معاذ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور اسی کو اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ کنکریاں جن سے رمی کی جاتی ہے ایسی ہوں جو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑی جاسکیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٨٨٦ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ کنکریاں «باقلاّ» کے دانے کے برابر ہوتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3023) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 897

【90】

زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مارنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمی جمار اس وقت کرتے جب سورج ڈھل جاتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٥ (٣٠٥٤) (تحفة الأشراف : ٦٤٦٦) (صحیح) (سابقہ حدیث نمبر ٨٩٤ سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، حکم نے مقسم سے صرف پانچ احادیث ہی سنی ہیں، اور یہ شاید ان میں سے نہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یوم النحر کے علاوہ باقی دنوں میں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بحديث جابر رقم (901) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 898

【91】

سوار ہو کر کنکریاں مارنا

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دسویں ذی الحجہ کو جمرہ کی رمی سواری پر کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں جابر، قدامہ بن عبداللہ، اور سلیمان بن عمرو بن احوص کی ماں (رضی اللہ عنہم) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- بعض نے یہ پسند کیا ہے کہ وہ جمرات تک پیدل چل کر جائیں، ٥- ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ جمرات تک پیدل چل کر جاتے، ٦- ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی کبھار سواری پر رمی اس لیے کی تاکہ آپ کے اس فعل کی بھی لوگ پیروی کریں۔ اور دونوں ہی حدیثوں پر اہل علم کا عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٦ (٣٠٣٤) (تحفة الأشراف : ٦٤٦٧) (صحیح) (سابقہ جابر کی حدیث نمبر ٨٨٦ سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، وانظر الحديث (887) ، ابن ماجة (3034) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 899

【92】

سوار ہو کر کنکریاں مارنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب رمی جمار کرتے، تو جمرات تک پیدل آتے جاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض لوگوں نے اسے عبیداللہ (العمری) سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ٤- بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوسکتا ہے، اور دسویں کے بعد باقی دنوں میں پیدل جائے گا۔ گویا جس نے یہ کہا ہے اس کے پیش نظر صرف نبی اکرم ﷺ کے اس فعل کی اتباع ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوئے جب آپ رمی جمار کرنے گئے۔ اور دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ ہی کی رمی کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٠١١) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (٢/١٣٨) من طریق عبد العمری عن نافع بہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2072) ، صحيح أبي داود (1718) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 900

【93】

جاب کنکریاں کیسے ماری جائیں

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے بیچ میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہو کر اپنے داہنے ابرو کے مقابل رمی شروع کی۔ پھر سات کنکریوں سے رمی کی۔ ہر کنکری پر وہ اللہ اکبر کہتے تھے، پھر انہوں نے کہا : اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس ذات نے بھی یہیں سے رمی کی جس پر سورة البقرہ نازل کی گئی ہے۔

【94】

جاب کنکریاں کیسے ماری جائیں

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جمرات کی رمی اور صفا و مروہ کی سعی اللہ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٩١ (١٨٨٨) (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٣) ، مسند احمد (٦/١٣٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٦ (١٨٩٥) (ضعیف) (اس کے راوی ” عبیداللہ بن ابی زیاد “ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2624) ، ضعيف أبي داود (328) // عندنا برقم (410 / 1888) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 902

【95】

None

میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ایک اونٹنی پر جمرات کی رمی کر رہے تھے، نہ لوگوں کو دھکیلنے اور ہانکنے کی آواز تھی اور نہ ہٹو ہٹو کی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قدامہ بن عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اسی طریق سے جانی جاتی ہے، یہ ایمن بن نابل کی حدیث ہے۔ اور ایمن اہل حدیث ( محدثین ) کے نزدیک ثقہ ہیں، ۳- اس باب میں عبداللہ بن حنظلہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

【96】

اونٹ اور گائے میں شراکت

جابر (رض) کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گائے اور اونٹ کو سات سات آدمیوں کی جانب سے نحر (ذبح) کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ اونٹ سات لوگوں کی طرف سے اور گائے سات لوگوں کی طرف سے ہوگی۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی اور احمد کا قول ہے، ٤- ابن عباس (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ گائے سات لوگوں کی طرف سے اور اونٹ دس لوگوں کی طرف سے کافی ہوگا ١ ؎۔ یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔ ابن عباس کی حدیث کو ہم صرف ایک ہی طریق سے جانتے ہیں (ملاحظہ ہو آنے والی حدیث : ٩٠٥) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٢ (١٣١٨) ، سنن ابی داود/ الضحایا ٧ (٢٨٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٥ (٣١٣٢) (تحفة الأشراف : ٢٩٣٣) ، موطا امام مالک/الضحایا ٥ (٩) ، ویأتي عند المؤلف في الأضاحي ٨ (١٥٠٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : (صحیح مسلم/المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ المصدر المذکور سنن النسائی/الضحایا ١٦ (٤٣٩٨) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : جابر (رض) کی یہ حدیث حج و عمرہ کے «ھدی» کے بارے میں ہے ، جس کے اندر ابن عباس (رض) کی اگلی حدیث قربانی کے بارے میں ہے ( اور اس کی تائید صحیحین میں مروی رافع بن خدیج کی حدیث سے بھی ہوتی ہے ، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مال غنیمت میں ایک اونٹ کے بدلے دس بکریاں تقسیم کیں ، یعنی : ایک اونٹ برابر دس بکریوں کے ہے ) شوکانی نے ان دونوں حدیثوں میں یہی تطبیق دی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3132) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 904

【97】

None

ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حسین بن واقد کی حدیث ( روایت ) ہے۔

【98】

قربانی کے اونٹ کا اشعار

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ذو الحلیفہ میں (ہدی کے جانور کو) دو جوتیوں کے ہار پہنائے اور ان کی کوہان کے دائیں طرف اشعار ١ ؎ کیا اور اس سے خون صاف کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام (رض) وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اشعار کے قائل ہیں۔ یہی ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٣- یوسف بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے وکیع کو کہتے سنا جس وقت انہوں نے یہ حدیث روایت کی کہ اس سلسلے میں اہل رائے کے قول کو نہ دیکھو، کیونکہ اشعار سنت ہے اور ان کا قول بدعت ہے، ٤- میں نے ابوسائب کو کہتے سنا کہ ہم لوگ وکیع کے پاس تھے تو انہوں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے جو ان لوگوں میں سے تھا جو رائے میں غور و فکر کرتے ہیں کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اشعار کیا ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ مثلہ ہے تو اس آدمی نے کہا : ابراہیم نخعی سے مروی ہے انہوں نے بھی کہا ہے کہ اشعار مثلہ ہے، ابوسائب کہتے ہیں : تو میں نے وکیع کو دیکھا کہ (اس کی اس بات سے) وہ سخت ناراض ہوئے اور کہا : میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اور تم کہتے ہو : ابراہیم نے کہا : تم تو اس لائق ہو کہ تمہیں قید کردیا جائے پھر اس وقت تک قید سے تمہیں نہ نکالا جائے جب تک کہ تم اپنے اس قول سے باز نہ آ جاؤ ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٢ (١٢٤٣) ، سنن ابی داود/ الحج ١٥ (١٧٥٢) ، سنن النسائی/الحج ٦٣ (٢٧٧٥) ، و ٦٧ (٢٧٨٤) ، و ٧٠ (٢٧٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٦ (٣٠٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٥٩) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٤٥، ٢٨٠، ٣٣٩، ٣٤٤، ٣٤٧، ٣٧٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٨ (١٩٥٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہدی کے اونٹ کی کوہان پر داہنے جانب چیر کر خون نکالنے اور اس کے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے ، یہ ہدی کے جانوروں کی علامت اور پہچان ہے۔ ٢ ؎ : وکیع کے اس قول سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیئے جو ائمہ کے اقوال کو حدیث رسول کے مخالف پا کر بھی انہیں اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اور حدیث رسول کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس حدیث میں اندھی تقلید کا زبردست رد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3097) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 906

【99】

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنا ہدی کا جانور قدید سے خریدا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے ثوری کی حدیث سے صرف یحییٰ بن یمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں : اور نافع سے مروی ہے کہ ابن عمر نے قدید ١ ؎ سے خریدا، اور یہ زیادہ صحیح ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٩ (٣٠٩٨) (تحفة الأشراف : ٧٨٩٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں یحییٰ بن یمان اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، صحیح بات یہ ہے کہ قدید سے ہدی کا جانور خود ابن عمر (رض) نے خریدا تھا جیسا کہ بخاری نے روایت کی ہے (الحج ١٠٥ ح ١٦٩٣) یحییٰ بن یمان نے اس کو مرفوع کردیا ہے) وضاحت : ١ ؎ : قدید مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ ٢ ؎ : یعنی یہ موقوف اثر اس مرفوع حدیث سے کہ جسے یحییٰ بن یمان نے ثوری سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد، ابن ماجة (3102) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 907

【100】

مقیم کا ہدی کے گلے میں ہار ڈالنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے قلادے بٹے، پھر آپ نہ محرم ہوئے اور نہ ہی آپ نے کوئی کپڑا پہننا چھوڑا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ہدی (کے جانور) کو قلادہ پہنا دے اور وہ حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اس پر کپڑا پہننا یا خوشبو لگانا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ وہ احرام نہ باندھ لے، ٣- اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب آدمی اپنے ہدی (کے جانور) کو قلادہ پہنا دے تو اس پر وہ سب واجب ہوجاتا ہے جو ایک محرم پر واجب ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٦٨ (٢٧٨٦) (تحفة الأشراف : ١٧٥١٣) ، مسند احمد (٦/٨٥) (صحیح) (وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٦٩٨) ، و ١٠٧ (١٦٩٩) ، و ١٠٨ (١٦٩٩) ، و ١٠٩ (١٧٠٠) ، و ١١٠ (١٧٠٢، ١٧٠٣) ، الوکالة ١٤ (٢٣١٧) ، والأضاحي ١٥ (٥٥٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن ابی داود/ الحج ١٧ (١٧٥٨) ، سنن النسائی/الحج ٦٥ (٢٧٧٧-٢٧٨١) ، و ٦٦ (٢٧٨٢) ، ٦٨ (٢٧٨٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٤ (٣٠٩٥) ، مسند احمد (٦/٣٥، ٣٦، ٧٨، ٩١، ١٠٢، ١٢٧، ١٧٤، ١٨٠، ١٨٥، ١٩٠، ١٩١، ٢٠٠، ٢٠٨، ٢١٣، ٢١٦، ٢٢٥، ٢٣٦، ٢٥٣، ٢٦٢) من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3098) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 908

【101】

بکریوں کی تقلید کے بارے میں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدی کی بکریوں کے سارے قلادے (پٹے) میں ہی بٹتی تھی ١ ؎ پھر آپ احرام نہ باندھتے (حلال ہی رہتے تھے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، وہ بکریوں کے قلادہ پہنانے کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ ( تحفة الأشراف : ١٥٩٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بکریوں کی تقلید بھی مستحب ہے ، امام مالک اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ بکریوں کی تقلید مستحب نہیں ان دونوں نے تقلید کو اونٹ گائے کے ساتھ خاص کیا ہے ، یہ حدیث ان دونوں کے خلاف صریح حجت ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ کمزوری کا باعث ہوگی ، لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے اس لیے کہ تقلید سے مقصود پہچان ہے انہیں ایسی چیز کا قلادہ پہنایا جائے جس سے انہیں کمزوری نہ ہو۔ اللہ عزوجل ہم سب کو مذہبی و معنوی تقلید سے محفوظ رکھے ، «اللہم آمین»۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 909

【102】

اگرہدی کا جانور مرنے کے قریب ہو تو کیا کیا جائے

رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کی دیکھ بھال کرنے والے ناجیہ خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو اونٹ راستے میں مرنے لگیں انہیں میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا : انہیں نحر (ذبح) کر دو ، پھر ان کی جوتی انہیں کے خون میں لت پت کر دو ، پھر انہیں لوگوں کے لیے چھوڑ دو کہ وہ ان کا گوشت کھائیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ناجیہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ذویب ابو قبیصہ خزاعی (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ نفلی ہدی کا جانور جب مرنے لگے تو نہ وہ خود اسے کھائے اور نہ اس کے سفر کے ساتھی کھائیں۔ وہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑ دے، کہ وہ اسے کھائیں۔ یہی اس کے لیے کافی ہے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اس میں سے کچھ کھالیا تو جتنا اس نے اس میں سے کھایا ہے اسی کے بقدر وہ تاوان دے، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ نفلی ہدی کے جانور میں سے کچھ کھالے تو جس نے کھایا وہ اس کا ضامن ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ١٩ (١٧٦٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠١ (٣١٠٦) (تحفة الأشراف : ١١٥٨١) ، موطا امام مالک/الحج ٤٧ (١٤٨) ، مسند احمد (٤/٣٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٦ (١٩٥٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3106) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 910

【103】

قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ہدی کے اونٹ ہانکتے دیکھا، تو اسے حکم دیا اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ہدی کا اونٹ ہے، پھر آپ نے اس سے تیسری یا چوتھی بار میں کہا : اس پر سوار ہوجاؤ، تمہارا برا ہو ١ ؎ یا تمہاری ہلاکت ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابوہریرہ، اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہ میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے ہدی کے جانور پر سوار ہونے کی اجازت دی ہے، جب کہ وہ اس کا محتاج ہو، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٤- بعض کہتے ہیں : جب تک مجبور نہ ہو ہدی کے جانور پر سوار نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٢ (٢٧٥٤) (تحفة الأشراف : ١٤٣٧) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/١٠٣ (١٦٩٠) ، والأدب ٩٥ (٦١٥٩) ، صحیح مسلم/الحج ٦٥ (١٣٢٣) ، سنن النسائی/الحج ٧٤ (٢٨٠٢) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١٧٠، ١٧٣، ٢٠٢، ٢٣١، ٣٣٤، ٢٧٥، ٢٧٦، ٢٩١) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٩ ( ) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : یہ آپ نے تنبیہ اور ڈانٹ کے طور پر فرمایا کیونکہ سواری کی اجازت آپ اسے پہلے دے چکے تھے اور آپ کو یہ پہلے معلوم تھا کہ یہ ہدی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 911

【104】

سر کے بال کس طرف سے منڈ وانے شروع کئے جائیں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں : جب نبی اکرم ﷺ نے جمرہ کی رمی کرلی تو اپنے ہدی کے اونٹ نحر (ذبح) کیے۔ پھر سر مونڈنے والے کو اپنے سر کا داہنا جانب ١ ؎ دیا اور اس نے سر مونڈا، تو یہ بال آپ نے ابوطلحہ کو دئیے، پھر اپنا بایاں جانب اسے دیا تو اس نے اسے بھی مونڈا تو آپ نے فرمایا : یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو

【105】

بال منڈ وانا اور کتر وانا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سر منڈوایا، صحابہ کی ایک جماعت نے بھی سر مونڈوایا اور بعض لوگوں نے بال کتروائے۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار یا دو بار فرمایا : اللہ سر مونڈانے والوں پر رحم فرمائے ، پھر فرمایا : کتروانے والوں پر بھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس، ابن ام الحصین، مارب، ابو سعید خدری، ابومریم، حبشی بن جنادہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور وہ آدمی کے لیے سر منڈانے کو پسند کرتے ہیں اور اگر کوئی صرف کتروا لے تو وہ اسے بھی اس کی طرف سے کافی سمجھتے ہیں۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٢٧ (تعلیقا عقب حدیث ١٧٢٧) ، صحیح مسلم/الحج ٥٥ (١٣٠١) (تحفة الأشراف : ٨٢٦٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحج ١٢٧ (١٧٢٧) ، صحیح مسلم/الحج (المصدر المذکور) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧١ (٣٠٤٣) ، موطا امام مالک/الحج ٦٠ (١٨٤) ، مسند احمد (٢/٣٤، ١٣٨، ١٥١) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٤ (١٩٤٧) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حلق ( منڈوانا ) تقصیر ( کٹوانے ) کے مقابلہ میں افضل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3044) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 913

【106】

عورتوں کے لئے سر کے بال منڈ وانا حرام ہے

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنا سر مونڈوائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٤ (٥٠٥٢) (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٥) (ضعیف) (اس سند میں اضطراب ہے جس کو مؤلف نے بیان کردیا ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2653 / التحقيق الثاني) ، الضعيفة (678) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 914

【107】

عورتوں کے لئے سر کے بال منڈ وانا حرام ہے

اس سند سے بھی خلاس سے اسی طرح مروی ہے، لیکن اس میں انہوں نے علی (رض) کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث میں اضطراب ہے، یہ حدیث حماد بن سلمہ سے بطریق : «قتادة عن عائشة أن النبي صلی اللہ عليه وسلم» مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عورت کو اپنا سر مونڈانے سے منع فرمایا، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ عورت کے لیے سر منڈانے کو درست نہیں سمجھتے ان کا خیال ہے کہ اس پر تقصیر (بال کتروانا) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٨٦١٧) (ضعیف) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 915

【108】

جو آدمی سر منڈ والے ذبح سے پہلے اور قربانی کرلے کنکریاں مار نے سے پہلے

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا ؟ آپ نے فرمایا : اب ذبح کرلو کوئی حرج نہیں ایک دوسرے نے پوچھا : میں نے رمی سے پہلے نحر (ذبح) کرلیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اب رمی کرلو کوئی حرج نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، جابر، ابن عباس، ابن عمر، اسامہ بن شریک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں : اگر کسی نسک کو یعنی رمی یا نحر یا حلق وغیرہ میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے کرلے تو اس پر دم (ذبیحہ) لازم ہوگا (مگر یہ بات بغیر دلیل کے ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٣ (٨٣) ، والحج ١٣١ (١٧٣٦) ، والأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٥) ، صحیح مسلم/الحج ٥٧ (١٣٠٦) ، سنن ابی داود/ المناسک ٨٨ (٢٠١٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٤ (٣٠٥١) (تحفة الأشراف : ٨٩٠٦) ، موطا امام مالک/الحج ٨١ (٢٤٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٥ (١٩٤٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3051) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 916

【109】

احرم کھو لنے کے بعد طواف زیارت سے پہلے خوشبو لگانا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے احرام باندھنے سے پہلے اور دسویں ذی الحجہ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے خوشبو لگائی جس میں مشک تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی کرلے، جانور ذبح کرلے، اور سر مونڈا لے یا بال کتروا لے تو اب اس کے لیے ہر وہ چیز حلال ہوگئی جو اس پر حرام تھی سوائے عورتوں کے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٤- عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ اس کے لیے ہر چیز حلال ہوگئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے، ٥- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، اور یہی کوفہ والوں کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٨٩) ، سنن النسائی/الحج ٤١ (٢٦٩٣) (تحفة الأشراف : ١٧٥٢٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحج ١٨ (١٥٣٩) ، و ١٤٣ (١٧٥٤) ، واللباس ٧٣ (٥٩٢٢) ، و ٧٩ (٥٩٢٨) ، و ٨١ (٥٩٣٠) ، سنن ابی داود/ المناسک ١١ (١٧٤٥) ، سنن النسائی/الحج ٤١ (٢٦٨٥-٢٦٩٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١١ (٢٩٢٦) ، و ٧٠ (٣٠٤٢) ، موطا امام مالک/الحج ٧ (١٧) ، مسند احمد (٦/٩٨، ١٠٦، ١٣٠، ١٦٢، ١٨١، ١٨٦، ١٩٢، ٢٠٠، ٢٠٧، ٢٠٩، ٢١٤، ٢١٦، ٢٣٧، ٢٣٨، ٢٤٤، ٢٤٥، ٢٥٨) ، سنن الدارمی/المناسک (١٨٤٤) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : دسویں تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حاجی حلال ہوجاتا ہے ، اسے تحلل اول کہتے ہیں ، تحلل اول میں عورت کے علاوہ ساری چیزیں حلال ہوجاتی ہیں ، اور طواف افاضہ کے بعد عورت بھی حلال ہوجاتی ہے ، اب وہ عورت سے صحبت یا بوس وکنار کرسکتا ہے اسے تحلل ثانی کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2926) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 917

【110】

حج میں لبیک کہنا ترک کیا جائے

فضل بن عباس (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپنا ردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کرلے گئے) آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- فضل (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، ابن مسعود، اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حاجی تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ جمرہ کی رمی نہ کرلے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٢ (١٦٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨١) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢٨ (١٨١٥) ، سنن النسائی/الحج ٢١٦ (٣٠٥٧) ، و ٢٢٨ (٣٠٨١) ، و ٢٢٩ (٣٠٨٢) ، مسند احمد (١/٢١٠، ٢١١، ٢١٢، ٢١٣) (تحفة الأشراف : ١١٠٥٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحج ٢٢ (١٥٤٣) ، و ٩٣ (١٦٧٠) ، صحیح مسلم/الحج (المصدرالمذکور) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٩ (٣٠٤٠) ، مسند احمد (١/٢١٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٠ (١٩٤٣) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کا استدلال «حتی يرمي الجمرة» سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کرلینے کے بعد تلبیہ پکارنا بند کرے ، لیکن جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جمرہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کردینا چاہیئے ، ان کی دلیل صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے جس میں «لم يزل يلبي حتی بلغ الجمرة» کے الفاظ وارد ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3040) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 918

【111】

عمرے میں تلبیہ پڑھنا کب ترک کرے۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عمرہ میں تلبیہ پکارنا اس وقت بند کرتے جب حجر اسود کا استلام کرلیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا شخص تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ حجر اسود کا استلام نہ کرلے، ٤- بعض کہتے ہیں کہ جب مکہ کے گھروں یعنی مکہ کی آبادی میں پہنچ جائے تو تلبیہ پکارنا بند کر دے۔ لیکن عمل نبی اکرم ﷺ کی (مذکورہ) حدیث پر ہے۔ یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٢٩ (١٨١٧) (تحفة الأشراف : ٥٩٥٨) (ضعیف) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، والصحيح موقوف علی ابن عباس، الإرواء (1099) ، ضعيف أبي داود (316) // عندنا برقم (397 / 1817) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 919

【112】

رات کو طواف زیارت کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) اور ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے ٢ ؎، ٢- بعض اہل علم نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور بعض نے دسویں ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، لیکن بعض نے اسے منیٰ کے آخری دن تک مؤخر کرنے کی گنجائش رکھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٠ (تعلیقا فی الترجمة) ، سنن ابی داود/ المناسک ٨٣ (٢٠٠٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٧ (٣٠٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٥٢ و ١٧٥٩٤) ، مسند احمد (١/٢٨٨) (ضعیف شاذ) (ابو الزبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ابوالزبیر کا دونوں صحابہ سے سماع نہیں ہے، اور یہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دن میں طواف زیارت فرمایا تھا، اس لیے شاذ ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎ عبداللہ بن عباس اور عائشہ (رض) کی یہ حدیث ابن عمر (رض) کی حدیث کے مخالف ہے جسے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے ، جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر کو دن میں طواف کیا ، امام بخاری نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ ابن عمر اور جابر کی حدیث کو پہلے دن پر محمول کیا جائے اور ابن عباس اور عائشہ کی حدیث کو اس کے علاوہ باقی دنوں پر ، صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں : «حديث ابن عباس وعائشة المذکور في هذا الباب ضعيف فلا حاجة إلى الجمع الذي أشار إليه البخاري ، وأما علی تقدير الصحة فهذا الجمع متعين»۔ (ابن عباس اور عائشہ کی باب میں مذکور حدیث ضعیف ہے ، اس لیے بخاری نے جس جمع و تطبیق کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی ضرورت نہیں ہے اور صحت ماننے کی صورت میں جمع وتطبیق متعین ہے ) ۔ ٢ ؎ امام ترمذی کا اس حدیث کو حسن صحیح کہنا درست نہیں ہے ، صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں ، کیونکہ ابو الزبیر کا ابن عباس سے اور عائشہ (رض) سے سماع نہیں ہے ، ابوالحسن القطان کہتے ہیں «عندي أن هذا الحديث ليس بصحيح إنما طاف النبي صلی اللہ عليه وسلم يومئذ نهارا»۔ قال الشيخ الألباني : شاذ، ابن ماجة (3059) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (654) ، الإرواء (4 / 264) برقم (1070) ، ضعيف أبي داود (435 / 2000) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 920

【113】

وادی ابطح میں اتر نا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر، عمر، اور عثمان (رض) ابطح ١ ؎ میں قیام کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اسے صرف عبدالرزاق کی سند سے جانتے ہیں، وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں، ٢- اس باب میں عائشہ، ابورافع اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم نے ابطح میں قیام کو مستحب قرار دیا ہے، واجب نہیں، جو چاہے وہاں قیام کرے، ٤- شافعی کہتے ہیں : ابطح کا قیام حج کے مناسک میں سے نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک مقام ہے جہاں نبی اکرم ﷺ نے قیام فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٨١ (٣٠٦٩) (تحفة الأشراف : ٨٠٢٥) (صحیح) وأخرجہ مسلم فی الحج (٥٩/١٣١٠) من غیر ہذا الوجہ) وضاحت : ١ ؎ : ابطح ، بطحاء خیف کنانہ اور محصب سب ہم معنی ہیں اس سے مراد مکہ اور منیٰ کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادہ قریب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3069) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 921

【114】

وادی ابطح میں اتر نا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں ١ ؎، یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے قیام فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- «تحصیب» کے معنی ابطح میں قیام کرنے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٧ (١٧٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١٢) (تحفة الأشراف : ٥٩٤١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے ، رسول اللہ ﷺ نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی ، ظہر و عصر اور مغرب اور عشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری ، چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے ، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا ، امام مالک امام شافعی اور جمہور اہل علم نے رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین (رض) کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 922

【115】

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابطح میں قیام فرمایا اس لیے کہ یہاں سے (مدینے کے لیے) روانہ ہونا زیادہ آسان تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اور سفیان نے ہشام بن عروہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١١) (تحفة الأشراف : ١٦٧٨٥) ، وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الحج (المصدر المذکور) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨١ (٣٠٦٧) من غیر ھذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1752) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 923

【116】

بچے کا حج

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو رسول اللہ ﷺ کی طرف اٹھا کر پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا اس پر بھی حج ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اور اجر تجھے ملے گا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث غریب ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ١١ (٢٩١٠) (تحفة الأشراف : ٣٠٧٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ اس میں شافعی احمد ، مالک اور جمہور علماء کے لیے دلیل ہے ، جو اس بات کے قائل ہیں کہ نابالغ بچے کا حج صحیح ہے ، اس پر اسے ثواب دیا جائے گا اگرچہ اس سے فرض ساقط نہیں ہوگا اور بالغ ہونے کی استطاعت کی صورت میں اسے پھر سے حج کرنا پڑے گا اور نابالغ کا یہ حج نفلی حج ہوگا ، امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ نابالغ بچے کا حج منعقد نہیں ہوگا وہ صرف تمرین ومشق کے لیے اسے کرے گا اس پر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا ، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2910) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 924

【117】

بچے کا حج

اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ محمد بن منکدر سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ٢- اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ بچہ جب بالغ ہونے سے پہلے حج کرلے تو (اس کا فریضہ ساقط نہیں ہوگا) جب وہ بالغ ہوجائے گا تو اس کے ذمہ حج ہوگا، کم سنی کا یہ حج اسلام کے عائد کردہ فریضہ حج کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ اسی طرح غلام کا معاملہ ہے، اگر وہ غلامی میں حج کرچکا ہو پھر آزاد کردیا جائے تو آزادی کی حالت میں اس پر حج فرض ہوگا جب وہ اس کی سبیل پالے، غلامی کی حالت میں کیا ہوا حج کافی نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 926

【118】

بچے کا حج

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ میرے باپ نے حجۃ الوداع میں مجھے ساتھ لے کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا، میں سات برس کا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٥ (١٨٥٨) (تحفة الأشراف : ٣٨٠٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الحج الکبير صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 925

【119】

بچے کا حج

جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا تو ہم عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہتے اور بچوں کی طرف سے رمی کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ٢- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کی طرف سے کوئی دوسرا تلبیہ نہیں کہے گا، بلکہ وہ خود ہی تلبیہ کہے گی البتہ اس کے لیے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٨ (٣٠٣٨) (تحفة الأشراف : ٢٦٦٢) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار ضعیف راوی ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3038) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (652) ، وانظر حجة النبي صلی اللہ عليه وسلم الصفحة (50) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 927

【120】

بہت بوڑ ھے اور میت کی طرف سے حج کرنا۔

فضل بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد کو اللہ کے فریضہ حج نے پا لیا ہے لیکن وہ اتنے بوڑھے ہیں کہ اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتے (تو کیا کیا جائے ؟ ) ۔ آپ نے فرمایا : تو ان کی طرف سے حج کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- فضل بن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابن عباس (رض) سے حصین بن عوف مزنی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٣- ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سنان بن عبداللہ جہنی (رض) نے اپنی پھوپھی سے اور ان کی پھوپھی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٤- ابن عباس (رض) نے براہ راست نبی اکرم ﷺ سے بھی روایت کی ہے، ٥- امام ترمذی کہتے ہیں : میں نے ان روایات کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا : اس باب میں سب سے صحیح روایت وہ ہے جسے ابن عباس نے فضل بن عباس سے اور فضل نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے ٦- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس کا بھی احتمال ہے کہ ابن عباس نے اسے (اپنے بھائی) فضل سے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی سنا ہو اور ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، اور پھر ابن عباس (رض) نے اسے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہو اور جس سے انہوں نے اسے سنا ہو اس کا نام ذکر نہ کیا ہو، نبی اکرم ﷺ سے اس باب میں کئی اور بھی احادیث ہیں، ٧- اس باب میں علی، بریدہ، حصین بن عوف، ابورزین عقیلی، سودہ بنت زمعہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٨- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے حج کیا جاسکتا ہے، ٩- مالک کہتے ہیں : میت کی طرف سے حج اس وقت کیا جائے گا جب وہ حج کرنے کی وصیت کر گیا ہو، ١٠- بعض لوگوں نے زندہ شخص کی طرف سے جب وہ بہت زیادہ بوڑھا ہوگیا ہو یا ایسی حالت میں ہو کہ وہ حج پر قدرت نہ رکھتا ہو حج کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی ابن مبارک اور شافعی کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٣ (١٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٧١ (١٣٢٥) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٩ (٥٣٩١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠ (٢٩٠٩) (تحفة الأشراف : ١١٠٤٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2909) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 928

【121】

اسی سے متعلق

ابورزین عقیلی لقیط بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرہ کرنے اور سوار ہو کر سفر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے فرمایا : تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرلو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- عمرے کا ذکر صرف اسی حدیث میں مذکور ہوا ہے کہ آدمی غیر کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٢٦ (١٨١٠) ، سنن النسائی/الحج ٢ (٢٦٢٢) ، و ١٠ (٢٦٣٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠ (٢٩٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١١٧٣) ، مسند احمد (٤/١٠-١٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2906) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 930

【122】

اسی سے متعلق

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : میری ماں مرگئی ہے، وہ حج نہیں کرسکی تھی، کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، تو اس کی طرف سے حج کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٧ (١١٤٩) (بزیادة) ( تحفة الأشراف : ١٩٨٠) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2561) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 929

【123】

عمرہ واجب ہے یا نہیں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے عمرے کے بارے میں پوچھا گیا : کیا یہ واجب ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، لیکن عمرہ کرنا بہتر ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ واجب نہیں ہے، ٣- اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حج دو ہیں : ایک حج اکبر ہے جو یوم نحر (دسویں ذی الحجہ کو) ہوتا ہے اور دوسرا حج اصغر ہے جسے عمرہ کہتے ہیں، ٤- شافعی کہتے ہیں : عمرہ (کا وجوب) سنت سے ثابت ہے، ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے چھوڑنے کی اجازت دی ہو۔ اور اس کے نفل ہونے کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ سے جس سند سے (نفل ہونا) مروی ہے وہ ضعیف ہے۔ اس جیسی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، اور ہم تک یہ بات بھی پہنچی ہے کہ ابن عباس (رض) اسے واجب قرار دیتے تھے۔ یہ سب شافعی کا کلام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٠١١) (ضعیف الإسناد) (سند حجاج بن ارطاة کثیرالارسال والتدلیس ہیں) وضاحت : ١ ؎ : اس سے حنفیہ اور مالکیہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ عمرہ واجب نہیں ہے ، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے لائق استدلال نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 931

【124】

اسی سے متعلق

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوچکا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں سراقہ بن جعشم اور جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی تشریح شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کی ہے کہ جاہلیت کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرتے تھے، جب اسلام آیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا : عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوچکا ہے ، یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اشہر حج شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں ، کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں حج کا احرام باندھے، اور حرمت والے مہینے یہ ہیں : رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٤٣٠١) (صحیح) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں، لیکن متابعات وشواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الحج ٣١ (١٢٤١) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢٣ (١٧٩٠) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (١٨١٧) ، مسند احمد ( ١/٢٣٦، ٢٥٣، ٢٥٩، ٣٤١) ، سنن الدارمی/المناسک ١٨ (١٨٩٨) ، من غیر ہذا الطریق، وأصلہ عند : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٣ (١٠٨٥) ، والحج ٢٣ (١٥٤٥) ، و ٣٤ (١٥٦٤) ، والشرکة ١٥ (٢٥٠٥) ، ومناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٢) وضاحت : ١ ؎ : مگر حرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے ، امام (رح) نے ان کا ذکر صرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1571) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 932

【125】

عمرے کی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے ١ ؎ اور حج مقبول ٢ ؎ کا بدلہ جنت ہی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٩ (١٣٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٥٥٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٦، ٤٦١) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/العمرة (١٧٧٣) ، صحیح مسلم/الحج (المصدرالمذکور) سنن النسائی/الحج ٣ (٢٦٢٣) ، و ٥ (٢٦٣٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣ (٢٨٨٨) ، موطا امام مالک/الحج ٢١ (٦٥) ، مسند احمد (٢/٢٦٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٧ (١٨٠٢) ، من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : مراد صغائر ( چھوٹے گناہ ) ہیں نہ کہ کبائر ( بڑے گناہ ) کیونکہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ ٢ ؎ : حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کی ملاوٹ نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2888) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 933

【126】

تنعیم سے عمرے کے لئے جانا

عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ (رض) کو تنعیم ١ ؎ سے عمرہ کرائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ٦ (١٧٨٤) ، والجہاد ١٢٤ (٢٩٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٨ (٢٩٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ٩٦٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : تنعیم مکہ سے باہر ایک معروف جگہ کا نام ہے جو مدینہ کی جہت میں مکہ سے چار میل کی دوری پر ہے ، عمرہ کے لیے اہل مکہ کی میقات حل ( حرم مکہ سے باہر کی جگہ ) ہے ، اور تنعیم چونکہ سب سے قریبی حِل ہے اس لیے آپ نے عائشہ (رض) کو تنعیم سے احرام باندھنے کا حکم دیا۔ اور یہ عمرہ ان کے لیے اس عمرے کے بدلے میں تھا جو وہ حج سے قبل حیض آ جانے کی وجہ سے نہیں کرسکی تھیں ، اس سے حج کے بعد عمرہ پر عمرہ کرنے کی موجودہ چلن پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2999) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 934

【127】

جعرانہ سے عمرے کے لئے جانا۔

محرش کعبی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جعرانہ سے رات کو عمرے کی نیت سے نکلے اور رات ہی میں مکہ میں داخل ہوئے، آپ نے اپنا عمرہ پورا کیا، پھر اسی رات (مکہ سے) نکل پڑے اور آپ نے واپس جعرانہ ١ ؎ میں صبح کی، گویا آپ نے وہیں رات گزاری ہو، اور جب دوسرے دن سورج ڈھل گیا تو آپ وادی سرف ٢ ؎ سے نکلے یہاں تک کہ اس راستے پر آئے جس سے وادی سرف والا راستہ آ کر مل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے (بہت سے) لوگوں سے آپ کا عمرہ پوشیدہ رہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- ہم اس حدیث کے علاوہ محرش کعبی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو اور کہا جاتا ہے : «جاء مع الطريق» والا ٹکڑا موصول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٨١ (١٩٩٦) ، سنن النسائی/الحج ١٠٤ (٢٨٦٦، ٢٨٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٢٠) ، مسند احمد (٣/٤٢٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٤١ (١٩٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ ٢ ؎ : مکہ سے تین میل کی دوری پر ایک جگہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1742) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 935

【128】

رجب میں عمرہ کرنا

عروہ کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے پوچھا گیا : رسول اللہ ﷺ نے کس مہینے میں عمرہ کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا : رجب میں، اس پر عائشہ (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے جو بھی عمرہ کیا، اس میں وہ یعنی ابن عمر آپ کے ساتھ تھے، آپ نے رجب کے مہینے میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جبیب بن ابی ثابت نے عروہ بن زبیر سے نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٧ (٢٩٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٧٣) ، وراجع ما عند صحیح البخاری/العمرة ٣ (١٧٧٦) ، صحیح مسلم/الحج ٣٥ (١٢٥٥، ١٢٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمر عائشہ (رض) کی یہ بات سن کر خاموش رہے ، کچھ نہیں بولے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ان پر مشتبہ تھا ، یا تو وہ بھول گئے تھے ، یا انہیں شک ہوگیا تھا ، اسی وجہ سے ام المؤمنین کی بات کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ، اس سلسلہ میں صحیح بات ام المؤمنین کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2997 و 2998) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 936

【129】

رجب میں عمرہ کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چار عمرے کیے، ان میں سے ایک رجب میں تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ (بہذا السیاق) المؤلف، وراجع ما عند : صحیح البخاری/العمرة ٣ (١٧٧٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٣٥ (١٢٥٥، ٢٢٠) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٨٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ترمذی نے یہ حدیث مختصراً روایت کی ہے شیخین نے اسے «جریر عن منصور عن مجاہد» کے طریق سے مفصلاً روایت کی ہے صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں «قال : دخلت أنا وعروۃ بن الزبیر المسجد فإذا عبداللہ بن عمر جالس إلی حجرۃ عائشۃ ، وإذا ناس یصلون فی المسجد صلاۃ الضحیٰ ، قال : فسألناہ عن صلاتہم فقال : بدعۃ ، ثم قال لہ : کم اعتمر النبي صلی اللہ عليه وسلم قال : اربع احداہن فی رجب ، فکرہنا أن نردعلیہ وقال : سمعنا استنان عائشۃ أم المؤمنین فی الحجرۃ فقال عروۃ : یا أم المؤمنین ! ألاتسمعین ما یقول ابوعبدالرحمٰن ؟ قالت : مایقول ؟ قال : یقول : أن رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم اعتمر أربع عمرات إحداہن فی رجب ، قالت : - ی (رح) اباعبدالرحمٰن - ما اعتمر عمرۃ إلا وہو شاہد ، وما اعتمرفی رجب قط»۔ مجاہد کہتے ہیں کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن عمر (رض) کو عائشہ (رض) کے حجرے کے پاس بیٹھا پایا ، لوگ مسجد میں نماز الضحی ( چاشت کی نماز ) پڑھ رہے تھے ، ہم نے ابن عمر (رض) سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا ، فرمایا : یہ بدعت ہے ، پھر مجاہد نے ان سے پوچھا نبی اکرم ﷺ نے کتنے عمرے کئے تھے ؟ کہا : چار عمرے ایک ماہ رجب میں تھا ، ہم نے یہ ناپسند کیا کہ ان کی تردید کریں ، ہم نے ام المؤمنین عائشہ کی حجرے میں آواز سنی تو عروہ نے کہا : ام المؤمنین ابوعبدالرحمٰن ابن عمر جو کہہ رہے ہیں کیا آپ اسے سن رہی ہیں ؟ کہا : کیا کہہ رہے ہیں ؟ ، کہا کہہ رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے ایک رجب میں تھا فرمایا : اللہ ابوعبدالرحمٰن ابن عمر پر اپنا رحم فرمائے ، رسول اللہ ﷺ کے ہر عمرہ میں وہ حاضر تھے ( پھر بھی یہ بات کہہ رہے ہیں ) آپ نے رجب میں ہرگز عمرہ نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ولكنه مختصر من السياق الذی قبله، وفيه انکار عائشة عمرة رجب صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 937

【130】

ذیقعدہ میں عمرہ کرنا

براء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ذی قعدہ کے مہینہ میں عمرہ کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٧ (١٨٤٤) ، والصلح ٦ (٢٦٩٩) ، والمغازي ٤٣ (٤٢٥١) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٣) (صحیح) وأخرجہ صحیح البخاری/العمرة ٣ (١٧٨١) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : بخاری کی ایک روایت میں ہے «اعتمر رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم في ذي القعدة قبل أن يحج مرتين»۔ نبی اکرم ﷺ نے حج سے پہلے آپ نے ذوقعدہ میں دو مرتبہ عمرہ کیا ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 938

【131】

رمضان میں عمرہ کرنا

ام معقل (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام معقل کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢- ( وہب کے بجائے) ھرم بن خنبش بھی کہا جاتا ہے۔ بیان اور جابر نے یوں کہا ہے «عن الشعبي عن وهب بن خنبش» اور داود اودی نے یوں کہا ہے «عن الشعبي عن هرم بن خنبش» لیکن صحیح وہب بن خنبش ہی ہے، ٣- اس باب میں ابن عباس، جابر، ابوہریرہ، انس اور وہب بن خنبش (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٤- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ رمضان کا عمرہ حج کے ثواب برابر ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم بھی اس حدیث کے مفہوم کی طرح ہے جو نبی اکرم ﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ جس نے سورة «قل هو اللہ أحد» پڑھی اس نے تہائی قرآن پڑھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٥ (٢٩٩٣) (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر اعتبار سے عمرہ حج کے برابر ہے ، بلکہ صرف اجر و ثواب میں حج کے برابر ہے ، ایسا نہیں کہ اس سے فریضہء حج ادا ہوجائے گا ، یا نذر مانا ہوا حج پورا ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2993) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 939

【132】

جو حج کے لئے لبیک پکا رنے کے بعد زخمی یا معذور ہوجائے

حجاج بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کا کوئی عضو ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو اس کے لیے احرام کھول دینا درست ہے، اس پر دوسرا حج لازم ہوگا

【133】

حج میں شرط لگانا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں، تو کیا میں شرط لگا سکتی ہوں ؟ (کہ اگر کوئی عذر شرعی لاحق ہوا تو احرام کھول دوں گی) آپ نے فرمایا : ہاں، تو انہوں نے پوچھا : میں کیسے کہوں ؟ آپ نے فرمایا : «لبيك اللهم لبيك لبيك محلي من الأرض حيث تحبسني» حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں حاضر ہوں، میرے احرام کھولنے کی جگہ وہ ہے جہاں تو مجھے روک دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر، اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے، وہ حج میں شرط لگا لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط کرلی پھر اسے کوئی مرض یا عذر لاحق ہوا تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ حلال ہوجائے اور اپنے احرام سے نکل آئے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٤- بعض اہل علم حج میں شرط لگانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط لگا بھی لی تو اسے احرام سے نکلنے کا حق نہیں، یہ لوگ اسے اس شخص کی طرح سمجھتے ہیں جس نے شرط نہیں لگائی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٢٢ (١٧٧٦) ، سنن النسائی/الحج ٦٠ (٢٧٦٧) ، سنن الدارمی/المناسک ١٥ (١٨٥٢) ، ( تحفة الأشراف : ٦٢٣٢) (صحیح) و أخرجہ : سنن النسائی/الحج ٥٩ (٢٧٦٦) ، و ٦٠ (٢٧٦٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٤ (٢٩٣٨) ، مسند احمد (١/٣٥٣٧) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : یہ لوگ ضباعہ بنت زبیر کی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضباعہ ہی کے ساتھ خاص تھا ، ایک تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ «محلي حيث حبسني» میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے کا معنی «محلي حيث حبسني الموت» میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو نے مجھے موت دے دی ہے کیونکہ مرجانے سے احرام خود بخود ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ دونوں تاویلیں باطل ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ شرط خاص عمرہ سے تحلل کے ساتھ ہے حج کے تحلل سے نہیں ، لیکن ضباعہ کا واقعہ اس قول کو باطل کردیتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2938) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 941

【134】

اسی سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ حج میں شرط لگانے سے انکار کرتے تھے اور کہتے تھے : کیا تمہارے لیے تمہارے نبی اکرم ﷺ کا طریقہ کافی نہیں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر ٢ (١٨١٠) ، سنن النسائی/الحج ٦١ (٢٧٧٠) (تحفة الأشراف : ٦٩٣٧) ، مسند احمد (٢/٣٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دراصل ابن عمر (رض) نے یہ بات ابن عباس (رض) کی تردید میں کہی تھی جو شرط لگانے کا فتوی دیتے تھے ، ان کو ضباعہ (رض) والی حدیث نہیں پہنچی تھی ورنہ ایسی بات نہ کہتے ، اور آپ کا اشارہ صلح حدیبیہ میں نبی اکرم ﷺ کے عمرہ سے روک دیئے جانے کی طرف تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 942

【135】

طواف زیارت کے بعد کسی عورت کو حیض آجانا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ صفیہ بنت حیی منیٰ کے دنوں میں حائضہ ہوگئی ہیں، آپ نے پوچھا : کیا وہ ہمیں (مکے سے روانہ ہونے سے) روک دے گی ؟ لوگوں نے عرض کیا : وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تب تو کوئی حرج نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عورت جب طواف زیارت کرچکی ہو اور پھر اسے حیض آ جائے تو وہ روانہ ہوسکتی ہے، طواف وداع چھوڑ دینے سے اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٧ (١٢١١/٣٨٣) (تحفة الأشراف : ١٧٥١٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحیض ٢٧ (٣٢٨) ، والحج ١٢٩ (١٧٣٣) ، و ١٤٥ (١٧٥٧) ، و ١٥ (١٧٧١) ، صحیح مسلم/الحج (المصدر المذکور رقم : ٣٨٢) ، سنن ابی داود/ الحج ٨٥ (٢٠٠٣) ، سنن النسائی/الحیض ٢٣ (٣٩١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٣ (٣٠٧٢) ، موطا امام مالک/الحج ٧٥ (٢٦٦) ، مسند احمد (٦/٣٨، ٣٩، ٨٢، ٩٩، ١٢٢، ١٦٤، ١٧٥، ١٩٣، ٢٠٢، ٢٠٧، ٢١٣، ٢٢٤، ٢٣١، ٢٥٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٣ (١٩٥٨) من غیر ہذا الطریق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3072 و 3073) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 943

【136】

طواف زیارت کے بعد کسی عورت کو حیض آجانا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جس نے بیت اللہ کا حج کیا، اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف (وداع) ہونا چاہیئے حائضہ عورتوں کے سوا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں رخصت دی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٨٠٨١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (4 / 289) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 944

【137】

حائضہ کون کون سے افعال کرسکتی ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ مجھے حیض آگیا چناچہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث اس طریق کے علاوہ سے بھی عائشہ سے مروی ہے۔ ٢- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ حائضہ خانہ کعبہ کے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرے گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٠١٣) (صحیح) (سند میں جابر جعفی سخت ضعیف ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحیض ٧ (٣٠٥) ، والحج ٣٣ (١٥٠٦) ، و ٨١ (١٦٥٠) ، والعمرة ٩ (١٧٨٨) ، والأضاحي ٣ (٥٥٤٨) ، و ١٠ (٥٥٥٩) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/ المناسک ٢٣ (١٧٨٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٣ (٢٩١) ، والحیض ١ (٣٤٩) ، والجہاد ٥ (٢٧٤٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٦ (٢٩٦٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٢ (١٩٤٥) من غیر ہذا الطریق وبسیاق آخر۔ وضاحت : ١ ؎ : بخاری و مسلم کی روایت میں ہے «أهلي بالحج واصنعي ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت» یعنی حج کا تلبیہ پکارو اور وہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2963) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 945

【138】

جو شخص حج یا عمرہ کے لئے آئے اسے چاہیے کہ آخر میں بیت اللہ سے ہو کر واپس لو ٹے

حارث بن عبداللہ بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے اس گھر (بیت اللہ) کا حج یا عمرہ کیا تو چاہیئے کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو۔ تو ان سے عمر (رض) نے کہا : تم اپنے ہاتھوں کے بل زمین پر گرو یعنی ہلاک ہو، تم نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی اور ہمیں نہیں بتائی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حارث بن عبداللہ بن اوس (رض) کی حدیث غریب ہے، اسی طرح دوسرے اور لوگوں نے بھی حجاج بن ارطاۃ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اس سند کے بعض حصہ کے سلسلہ میں حجاج سے اختلاف کیا گیا ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ٣٢٧٨) وانظر مسند احمد (٣/٤١٦-٤١٧) (منکر) (اس لفظ سے منکر ہے، لیکن اس کا معنی دوسرے طرق سے صحیح ہے، اور ” أواعتمر “ کا لفظ ثابت نہیں ہے، سند میں ” عبدالرحمن بن بیلمانی ضعیف ہیں، اور حجاج بن ارطاة مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طواف وداع واجب ہے یہی اکثر علماء کا قول ہے ، وہ اس کے ترک سے دم کو لازم قرار دیتے ہیں ، امام مالک ، داود اور ابن المنذر کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اور اس کے ترک سے کوئی چیز لازم نہیں آتی۔ قال الشيخ الألباني : منکر بهذا اللفظ، و، الصحيحة معناه دون قوله : أو اعتمر ، صحيح أبي داود (1749) ، الضعيفة (4585) // عندنا برقم (1763 / 2002) ، ضعيف الجامع الصغير (5555) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 946

【139】

قارن صرف ایک طواف کرے

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کو ملا کر ایک ساتھ کیا اور ان کے لیے ایک ہی طواف کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- صحابہ کرام (رض) وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حج قران کرنے والا ایک ہی طواف کرے گا۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٤- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ وہ دو طواف اور دو سعی کرے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٦٧٧) (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة اور ابوالزبیر دونوں مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے جمہور نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ قارن کے لیے ایک ہی طواف کافی ہے۔ اور اس سے مراد «طواف بین الصفا والمروۃ» یعنی سعی ہے نہ کہ خانہ کعبہ کا طواف ، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرہ میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کیا ، اور یوم النحر کو طواف افاضہ بھی کیا ، البتہ طواف افاضہ میں صفا و مروہ کی سعی نہیں کی ( دیکھئیے صحیح مسلم کتاب الحج باب رقم : ١٩) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2971 - 2974) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 947

【140】

قارن صرف ایک طواف کرے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اس کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے یہاں تک کہ وہ ان دونوں کا احرام کھول دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢- اسے ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے میں عبدالعزیز دراوردی منفرد ہیں، اسے دوسرے کئی اور لوگوں نے بھی عبیداللہ بن عمر (العمری) سے روایت کیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٩ (٢٩٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ٨٠٢٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2975) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 948

【141】

مہاجر حج کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے۔

علاء بن حضرمی (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مہاجر اپنے حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکہ میں تین دن ٹھہر سکتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اس سند سے اور طرح سے بھی یہ حدیث مرفوعاً روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٤٧ (٣٩٣٣) ، صحیح مسلم/الحج ٨١ (١٣٥٢) ، سنن ابی داود/ المناسک ٩٢ (٢٠٢٢) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٤ (١٤٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٣) ، ( تحفة الأشراف : ١١٠٠٨) ، مسند احمد (٥/٥٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٠ (١٢٤٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : پہلے منیٰ سے لوٹنے کے بعد مہاجرین کی مکہ میں اقامت جائز نہیں تھی ، بعد میں اسے جائز کردیا گیا اور تین دن کی تحدید کردی گئی ، اس سے زیادہ کی اقامت اس کے لیے جائز نہیں کیونکہ اس نے اس شہر کو اللہ کی رضا کے لیے چھوڑ دیا ہے لہٰذا اس سے زیادہ وہ وہاں قیام نہ کرے ، ورنہ یہ اس کے واپس آ جانے کے مشابہ ہوگا ( یہ مدینے کے مہاجرین مکہ کے لیے خاص تھا ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1073) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 949

【142】

حج اور عمرے سے واپسی پر کیا کہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی غزوے، حج یا عمرے سے لوٹتے اور کسی بلند مقام پر چڑھتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے، پھر کہتے : «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو علی كل شيء قدير آيبون تائبون عابدون سائحون لربنا حامدون صدق اللہ وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ سلطنت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم لوٹنے والے ہیں، رجوع کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سیر و سیاحت کرنے والے ہیں، اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا ہی ساری فوجوں کو شکست دے دی ، امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عمر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں براء، انس اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٦ (١٣٤٤) ، ( تحفة الأشراف : ٧٥٣٩) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/العمرة ١٢ (١٧٩٧) ، والجہاد ١٣٣ (٢٩٩٥) ، والمغازي ٢٩ (٤١١٦) ، والدعوات ٥٢ (٦٣٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ٧٦ (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ الجہاد ١٧٠ (٢٧٧٠) ، مسند احمد (٢/٥، ١٥، ٢١، ٣٨، ٦٣، ١٠٥) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (2475) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 950

【143】

محرم جو احرام میں مر جائے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گرپڑا، اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا وہ محرم تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے انہی (احرام کے) دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور اس کا سر نہ چھپاؤ، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب محرم مرجاتا ہے تو اس کا احرام ختم ہوجاتا ہے، اور اس کے ساتھ بھی وہی سب کچھ کیا جائے گا جو غیر محرم کے ساتھ کیا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢١ (١٢٦٨) ، وجزاء الصید ٢٠ (١٨٤٩) ، صحیح مسلم/الحج ١٤ (١٢٠٦) ، سنن ابی داود/ الجنائز ٨٤ (٣٢٢٨) ، سنن النسائی/الجنائز (١٩٠٥) ، والحج ٤٧ (٢٧١٥) ، و ١٠١ (١٨٦١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٩ (٣٠٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ٥٥٨٢) ، مسند احمد (١/٣٤٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الجنائز ١٩ (١٢٦٥) ، و ٢٠ (١٢٦٦) ، و ٢١ (١٢٦٧) ، وجزاء الصید ١٣ (١٨٣٩) ، و ٢١ (١٨٥١) ، صحیح مسلم/الحج (المصدرالمذکور) ، سنن النسائی/الحج ٤٧ (٢٧١٤) ، و ٩٧ (٢٨٥٦) ، و ٩٨ (٢٨٥٧) ، و ٩٩ (٢٨٥٨، ٢٨٥٩) ، و ١٠٠ (٢٨٦٠) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٦٦، ٢٨٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٥ (١٨٩٤) من غیر ہذا الطریق۔ وضاحت : ١ ؎ : یہ قول حنفیہ اور مالکیہ کا ہے ، ان کی دلیل ابوہریرہ کی حدیث «إذا مات ابن آدم انقطع عمله» ہے اور باب کی حدیث کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ممکن ہے نبی اکرم ﷺ کو وحی کے ذریعہ یہ بتادیا گیا ہو کہ یہ شخص مرنے کے بعد اپنے احرام ہی کی حالت میں باقی رہے گا ، یہ خاص ہے اسی آدمی کے ساتھ ، لیکن کیا اس خصوصیت کی کوئی دلیل ہے ؟ ، ایسی فقہ کا کیا فائدہ جو قرآن وسنت کی نصوص کے ہی خلاف ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3084) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 951

【144】

محرم اگر آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہوجائے تو صَبِر ( ایلوے) کالیپ کرے

نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر کی آنکھیں دکھنے لگیں، وہ احرام سے تھے، انہوں نے ابان بن عثمان سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا : ان میں ایلوے کا لیپ کرلو، کیونکہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو اس کا ذکر کرتے سنا ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کر رہے تھے آپ نے فرمایا : ان پر ایلوے کا لیپ کرلو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ محرم کے ایسی دوا سے علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جس میں خوشبو نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٢ (١٢٠٤) ، سنن ابی داود/ المناسک ٣٧ (١٨٣٨) ، سنن النسائی/المناسک ٤٥ (٢٧١٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٧٧) ، مسند احمد (١/٦٠، ٦٥، ٦٨، ٦٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٣ (١٩٤٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایلوے ، یا اس جیسی چیز جس میں خوشبو نہ ہو سے آنکھوں میں لیپ لگانا جائز ہے ، اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں ہوگا ، رہیں ایسی چیزیں جن میں خوشبو ہو تو بوقت ضرورت و حاجت ان سے بھی لیپ کرنا درست ہوگا ، لیکن اس پر فدیہ دینا ہوگا ، علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ بوقت ضرورت محرم کے لیے آنکھ میں سرمہ لگانا جس میں خوشبو نہ ہو جائز ہے ، اس سے اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں آئے گا ، البتہ زینت کے لیے سرمہ لگانے کو امام شافعی وغیرہ نے مکروہ کہا ہے ، اور ایک جماعت نے اس سے منع کیا ہے ، امام احمد اور اسحاق کی بھی یہی رائے ہے کہ زینت کے لیے سرمہ لگانا درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1612) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 952

【145】

اگر محرم احرام کی حالت میں سر منڈ ادے تو کیا حکم ہے

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کے پاس سے گزرے، وہ حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے۔ اور ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہے تھے۔ جوئیں ان کے منہ پر گر رہی تھیں تو آپ نے پوچھا : کیا یہ جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں ؟ کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : سر منڈوا لو اور چھ مسکینوں کو ایک فرق کھانا کھلا دو ، (فرق تین صاع کا ہوتا ہے) یا تین دن کے روزے رکھ لو۔ یا ایک جانور قربان کر دو ۔ ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے یا ایک بکری ذبح کر دو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام (رض) وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب اپنا سر مونڈا لے، یا ایسے کپڑے پہن لے جن کا پہننا احرام میں درست نہیں یا خوشبو لگالے۔ تو اس پر اسی کے مثل کفارہ ہوگا جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر (١٨١٤) ، و ٦ (١٨١٥) ، و ٧ (١٨١٦) ، و ٨ (١٨١٧) ، والمغازي ٣٥ (٤١٥٩، ٤١٩٠) ، وتفسیر البقرة ٣٢ (٤٥١٧) ، والمرضی ١٦ (٥٦٦٥) ، والطب ١٦ (٥٧٠٣) ، والکفارات ١ (٦٨٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٠ (١٢٠١) ، سنن ابی داود/ المناسک ٤٣ (١٨٥٦) ، سنن النسائی/المناسک ٩٦ (٢٨٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١١١٤) ، موطا امام مالک/الحج ٧٨ (٢٣٨) ، مسند احمد (٤/٢٤٢، ٢٤٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح مسلم/الحج ١٠ (المصدر المذکور) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٦ (٣٠٧٩) ، مسند احمد (٤/٢٤٢، ٢٤٣) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3079 و 3080) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 953

【146】

چرواہوں کو اجازت ہے کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑیں۔

عدی (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑ دیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اسی طرح ابن عیینہ نے بھی روایت کی ہے، اور مالک بن انس نے بسند «عبد اللہ بن أبي بکر بن محمد ابن عمرو بن حزم عن أبيه عن أبي البداح بن عدي عن أبيه أن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، اور مالک کی روایت زیادہ صحیح ہے، ٢- اہل علم کی ایک جماعت نے چرواہوں کو رخصت دی ہے کہ وہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ترک کردیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحج ٧٨ (١٩٧٥) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٥ (٣٠٧١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٧ (٣٠٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٣٠) ، مسند احمد (٥/٤٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٨ (١٩٣٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی چرواہوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ایام تشریق کے پہلے دن گیارہویں کی رمی کریں پھر وہ اپنے اونٹوں کو چرانے چلے جائیں پھر تیسرے دن یعنی تیرہویں کو دوسرے اور تیسرے یعنی بارہویں اور تیرہویں دونوں دنوں کی رمی کریں ، اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کریں پھر اس کے بعد والے دن گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی کریں اور پھر روانگی کے دن تیرہویں کی رمی کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3036) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 954

【147】

چرواہوں کو اجازت ہے کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑیں۔

عاصم بن عدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کے چرواہوں کو (منی میں ) رات گزارنے کے سلسلہ میں رخصت دی کہ وہ دسویں ذی الحجہ کو (جمرہ عقبہ کی) رمی کرلیں۔ پھر دسویں ذی الحجہ کے بعد کے دو دنوں کی رمی جمع کر کے ایک دن میں اکٹھی کرلیں ١ ؎ (مالک کہتے ہیں : میرا گمان ہے کہ راوی نے کہا) پہلے دن رمی کرلے پھر کوچ کے دن رمی کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ ابن عیینہ کی عبداللہ بن ابی بکر سے روایت والی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس جمع کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ تیرہویں کو بارہویں اور تیرہویں دونوں دنوں کی رمی ایک ساتھ کریں ، دوسری صورت یہ ہے کہ گیارہویں کو گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی ایک ساتھ کریں پھر تیرہویں کو آ کر رمی کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3037) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 955

【148】

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ علی (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس یمن سے آئے تو آپ نے پوچھا : تم نے کیا تلبیہ پکارا، اور کون سا احرام باندھا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : میں نے وہی تلبیہ پکارا، اور اسی کا احرام باندھا ہے جس کا تلبیہ رسول اللہ ﷺ نے پکارا، اور جو احرام رسول اللہ ﷺ نے باندھا ہے ١ ؎ آپ نے فرمایا : اگر میرے ساتھ ہدی کے جانور نہ ہوتے تو میں احرام کھول دیتا ٢ ؎، امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٢ (١٥٥٨) ، صحیح مسلم/الحج ٣٤ (١٢٥٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٥) ، مسند احمد (٣/١٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے احرام کو دوسرے کے احرام پر معلق کرنا جائز ہے۔ ٢ ؎ : یعنی : عمرہ کے بعد احرام کھول دیتا ، پھر ٨ ذی الحجہ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھنا ، جیسا کہ حج تمتع میں کیا جاتا ہے ، مذکورہ مجبوری کی وجہ سے آپ نے قران ہی کیا ، ورنہ تمتع کرتے ، اس لیے تمتع افضل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1006) ، الحج الکبير صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 956

【149】

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : حج اکبر (بڑے حج) کا دن کون سا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : «یوم النحر» قربانی کا دن ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وأخرجہ في تفسیر التوبة أیضا (٣٠٨٨) (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٩) (صحیح) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1101) ، صحيح أبي داود (1700 و 1701) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 957

【150】

علی (رض) کہتے ہیں کہ حج اکبر (بڑے حج) کا دن دسویں ذی الحجہ کا دن ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ابن ابی عمر نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور ابن عیینہ کی موقوف روایت محمد بن اسحاق کی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح بہت سے حفاظ حدیث نے اسے بسند «أبي إسحق عن الحارث عن علي» موقوفاً روایت کیا ہے، شعبہ نے بھی ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے انہوں نے یوں کہا ہے «عن عبد اللہ بن مرة عن الحارث عن علي موقوفا» ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : دسویں تاریخ کو حج اکبر ( بڑا حج ) اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسی دن حج کے اکثر افعال انجام دیئے جاتے ہیں ، مثلاً جمرہ عقبہ کی رمی ( کنکری مارنا ) ، حلق ( سر منڈوانا ) ، ذبح ، طواف زیارت وغیرہ اعمال حج ، اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ حج اکبر اس حج کو کہتے ہیں جس میں دسویں تاریخ جمعہ کو آ پڑی ہو ، تو اس کی کوئی اصل نہیں ، رہی طلحہ بن عبیداللہ بن کرز کی روایت «أفضل الأيام يوم عرفه وإذا وافق يوم جمعة فهو أفضل من سبعين حجة في غير يوم جمعة» تو یہ مرسل ہے ، اور اس کی سند بھی معلوم نہیں ، اور حج اصغر سے جمہور عمرہ مراد لیتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حج اصغر یوم عرفہ ہے اور حج اکبر یوم النحر۔ ٢ ؎ : یعنی شعبہ والی روایت میں ابواسحاق سبیعی اور حارث کے درمیان عبداللہ بن مرہ کے واسطے کا اضافہ ہے جب کہ دیگر حفاظ کی روایت میں ایسا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (957) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 958

【151】

عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) حجر اسود اور رکن یمانی پر ایسی بھیڑ لگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تو میں نے پوچھا : ابوعبدالرحمٰن ! آپ دونوں رکن پر ایسی بھیڑ لگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا ؟ تو انہوں نے کہا : اگر میں ایسا کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ان پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کا کفارہ ہے ۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے : جس نے اس گھر کا طواف سات مرتبہ (سات چکر) کیا اور اسے گنا، تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے : وہ جتنے بھی قدم رکھے اور اٹھائے گا اللہ ہر ایک کے بدلے اس کی ایک غلطی معاف کرے گا اور ایک نیکی لکھے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- حماد بن زید نے بطریق : «عطا بن السائب، عن ابن عبید بن عمير، عن ابن عمر» روایت کی ہے اور اس میں انہوں نے ابن عبید کے باپ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٣١٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : (قوله : صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 959

【152】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیت اللہ کے گرد طواف نماز کے مثل ہے۔ البتہ اس میں تم بول سکتے ہو (جب کہ نماز میں تم بول نہیں سکتے) تو جو اس میں بولے وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث ابن طاؤس وغیرہ نے ابن عباس سے موقوفاً روایت کی ہے۔ ہم اسے صرف عطاء بن سائب کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، ٢- اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، یہ لوگ اس بات کو مستحب قرار دیتے ہیں کہ آدمی طواف میں بلا ضرورت نہ بولے (اور اگر بولے) تو اللہ کا ذکر کرے یا پھر علم کی کوئی بات کہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٧٣٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (121) ، المشکاة (2576) ، التعليق الرغيب (2 / 121) ، التعليق علی ابن خزيمة (2739) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 960

【153】

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جس سے یہ دیکھے گا، ایک زبان ہوگی جس سے یہ بولے گا۔ اور یہ اس شخص کے ایمان کی گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ (یعنی ایمان اور اجر کی نیت سے) اس کا استلام کیا ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٧ (٢٧٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ٥٥٣٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٦ (١٨٨١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کو چوما یا چھوا ہوگا یہ حدیث اپنے ظاہر ہی پر محمول ہوگی اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ حجر اسود کو آنکھیں اور زبان دیدے اور دیکھنے اور بولنے کی طاقت بخش دے بعض لوگوں نے اس حدیث کی تاویل کی ہے کہ یہ کنایہ ہے حجر اسود کا استلام کرنے والے کو ثواب دینے اور اور اس کی کوشش کو ضائع نہ کرنے سے لیکن یہ محض فلسفیانہ موشگافی ہے ، صحیح یہی ہے کہ حدیث کو ظاہر ہی پر محمول کیا جائے۔ اور ایسا ہونے پر ایمان لایا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2578) ، التعليق الرغيب (2 / 122) ، التعليق علی ابن خزيمة (2735) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 961

【154】

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ حالت احرام میں زیتون کا تیل لگاتے تھے اور یہ (تیل) بغیر خوشبو کے ہوتا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف فرقد سبخی کی روایت سے جانتے ہیں، اور فرقد نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے فرقد سبخی کے سلسلے میں کلام کیا ہے، اور فرقد سے لوگوں نے روایت کی ہے، ٢- مقتت کے معنی خوشبودار کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٨ (٣٠٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٦٠) (ضعیف الإسناد) (سند میں فرقد سبخی لین الحدیث اور کثیر الخطاء راوی ہں ذ) (وأخرجہ صحیح البخاری/الحج ١٨ (١٥٣٧) موقوفا علی ابن عمر وہو أصح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لیے زیتون کا تیل جس میں خوشبو کی ملاوٹ نہ ہو لگانا جائز ہے ، لیکن حدیث ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 962

【155】

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ زمزم کا پانی ساتھ مدینہ لے جاتی تھیں، اور بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٦٩٠٥) (صحیح) (سند میں خلاد بن یزید جعفی کے حفظ میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حاجیوں کے لیے زمزم کا پانی مکہ سے اپنے وطن لے جانا مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (883) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 963

【156】

عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے کہا : مجھ سے آپ کوئی ایسی بات بیان کیجئیے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے یاد کر رکھی ہو۔ بتائیے آپ نے آٹھویں ذی الحجہ کو ظہر کہاں پڑھی ؟ انہوں نے کہا : منیٰ میں، (پھر) میں نے پوچھا : اور کوچ کے دن عصر کہاں پڑھی ؟ کہا : ابطح میں لیکن تم ویسے ہی کرو جیسے تمہارے امراء و حکام کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اسحاق بن یوسف الازرق کی روایت سے غریب جانی جاتی ہے جسے انہوں نے ثوری سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٨٣ (١٦٥٣) ، و ١٤٦ (١٧٨٣) ، صحیح مسلم/الحج ٥٨ (١٣٠٩) ، سنن ابی داود/ المناسک ٥٩ (١٩١٢) ، سنن النسائی/الحج ١٩٠ (٣٠٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩٨٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٦ (١٩١٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1670) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 964