1. سنت کی پیروی کا بیان

【1】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں جس چیز کا حکم دوں اسے مانو، اور جس چیز سے روک دوں اس سے رک جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٥) (صحیح) (اس سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی ضعیف ہیں، لیکن متابعت سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث کی تخریج میں دئیے گئے حوالہ جات )

【2】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو چیز میں نے تمہیں نہ بتائی ہو اسے یوں ہی رہنے دو ١ ؎، اس لیے کہ تم سے پہلے کی امتیں زیادہ سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لہٰذا جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو طاقت بھر اس پر عمل کرو، اور جب کسی چیز سے منع کر دوں تو اس سے رک جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٦١) ، الحدیث أخرجہ من طریق الأعمش : صحیح مسلم/الحج ٧٣ (١٣٣٧) ، الفضائل ٣٧ (١٣١) ، سنن الترمذی/العلم ١٧ (٦٢٧٩) ، مسند احمد (٢/٤٩٥) ، وقد أخرجہ من طرق أخری : صحیح البخاری/الاعتصام ٢ (٧٢٨٨) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٧ (١٣٠) ، سنن النسائی/الحج ١ (٢٦٢٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٧، ٢٥٨، ٣١٣، ٤٢٨، ٤٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ذروني ما ترکتكم میں ما مصدریہ ظرفیہ ہے، یعنی جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، مطلب یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں میں تم سے کچھ نہ کہوں اس کے بارے میں تم مجھ سے غیر ضروری سوالات کرنے سے بچو۔

【3】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف ١٢٤٧٧، ١٢٥٤٧) ، الحدیث أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠٩ (٢٩٥٧) ، الأحکام ١ (٧١٣٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (٨١٣٥) ، سنن النسائی/البیعة ٢٧ (٤١٩٨) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٢٥٢، ٢٧٠، ٣١٣، ٣٤٢، ٤١٦، ٤٦٧) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے حدیث نمبر : ٢٨٥٩ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم ﷺ کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے، اور ان کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : من يطع الرسول فقد أطاع الله جو اطاعت کرے رسول کی وہ اطاعت کرچکا اللہ کی (سورة النساء : 80) ۔

【4】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

ابو جعفر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنتے تو نہ اس میں کچھ بڑھاتے، اور نہ ہی کچھ گھٹاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٤٢، ومصباح الزجاجة : ٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣١ (٣٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ حدیث کی روایت میں حد درجہ محتاط تھے، الفاظ کی پوری پابندی کرتے تھے، اور ہوبہو اسی طرح روایت کرتے جس طرح سنتے۔

【5】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، ہم اس وقت غربت و افلاس اور فقر کا تذکرہ کر رہے تھے، اور اس سے ڈر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ فقر سے ڈرتے ہو ؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور تم پر دنیا آئندہ ایسی لائی جائے گی کہ اس کی طلب مزید تمہارے دل کو حق سے پھیر دے گی ١ ؎، قسم اللہ کی ! میں نے تم کو ایسی تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے ۔ ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی ! رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا، قسم اللہ کی ! آپ نے ہم کو ایک تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا، جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٩، ومصباح الزجاجة : ١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: إلا هيه میں ھی کی ضمیر دنیا کی طرف لوٹ رہی ہے، اور اس کے آخر میں ھا ھائے سکت ہے۔ ٢ ؎: اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں نے تمہیں ایک ایسے حال پر چھوڑا ہے کہ تمہارے دل پاک و صاف ہیں، ان میں باطل کی طرف کوئی میلان نہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے تنگی و خوشحالی کوئی بھی چیز انہیں پھیر نہیں سکتی۔

【6】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

قرہ بن ایاس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں سے ایک گروہ کو ہمیشہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل رہے گی ١ ؎، اور جو اس کی تائید و مدد نہ کرے گا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/کتاب الفتن ٢٧ (٢١٩٢) ، ٥١ (٢٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٦ ٤/٩٧، ١٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: طائفة کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے قلت مراد ہے، یعنی یہ ایک ایسا گروہ ہوگا جو تعداد میں کم ہوگا، یا تعظیم کے لئے ہے یعنی یہ ایک بڑے رتبے والا گروہ ہوگا، امام احمد بن حنبل (رح) اس گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر اس سے مراد اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ پھر اس سے مراد کون ہوں گے، اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے عاملین بالحدیث کو یہ بشارت دی ہے کہ کسی کی موافقت یا مخالفت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، اس لئے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حفاظت و امان میں ہیں، اس لئے متبع سنت کو اس حدیث کی روشنی میں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ حدیث رسول کے ثابت ہوجانے کے بعد سلف صالحین کے فہم و مراد کے مطابق اس پر بلا خوف و خطر عمل کرے اور اگر ساری دنیا بھی اس کی مخالف ہو تو اس کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرے، اس لئے کہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اللہ کا آخری دین ہے، اور اسی پر چل کر ہمارے لئے نجات ہے۔

【7】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم (دین) پر قائم رہنے والا ہوگا، اس کی مخالفت کرنے والا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٤٢٧٨، ومصباح الزجاجة : ٣) ، وقد أ خرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٦، ٤/٩٧) (حسن صحیح )

【8】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

ابوعنبہ خولانی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی، وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ ہمیشہ اس دین میں نئے پودے اگا کر ان سے اپنی اطاعت کراتا رہے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٥، ومصباح الزجاجة : ٤) ، مسند احمد (٤/٢٠٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: نئے پودے اگانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نئے نئے لوگوں کو پیدا فرمائے گا، جو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں گے۔

【9】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

شعیب کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا : تمہارے علماء کہاں ہیں ؟ تمہارے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : قیامت تک میری امت میں سے ایک گروہ لوگوں پر غالب رہے گا، کوئی اس کی مدد کرے یا نہ کرے اسے اس کی پرواہ نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٧ (٣١١٦) ، المناقب ٢٨ (٣٦٤٠) ، الاعتصام ١٠ (٧٣١١) ، التوحید ٢٩ (٧٤٥٩) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥٣ (١٩٢٣) ، مسند احمد (٤/٩٣) (صحیح )

【10】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ نصرت الٰہی سے بہرہ ور ہو کر حق پر قائم رہے گا، مخالفین کی مخالفت اسے (اللہ کے امر یعنی :) ١ ؎ قیامت تک کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٣ (١٩٢٠) ، الفتن ٥ (٢٨٨٩) ، سنن الترمذی/الفتن ١٤ (٢١٧٦) ، ٥١ (٢٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الفتن ١ (٤٢٥٢) ، مسند احمد (٥/٣٤، ٣٥) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٨ (٢٤٧٦) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٩٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امر اللہ سے مراد وہ ” ہوا “ ہے جو سارے مومنوں کی روحوں کو قبض کرے گی۔

【11】

سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے، آپ نے ایک لکیر کھینچی اور دو لکیریں اس کے دائیں جانب اور دو بائیں جانب کھینچیں، پھر اپنا ہاتھ بیچ والی لکیر پر رکھا اور فرمایا : یہ اللہ کا راستہ ہے ، پھر اس آیت کی تلاوت کی : وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبيله یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے (سورۃ الانعام : ١٥٣ ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٥٧، ومصباح الزجاجة : ٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٣، ٣١٦، ٣٢٢، ٣٨٥) (صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن مسعود (رض) کے شاہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : السنہ لابن ابی عاصم : ١٦، وتعلیق عوض الشہری علی مصباح الزجاجة : ٥ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا راستہ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ یہ قرآن جو میں نے تمہارے واسطے بھیجا، اور جو رویہ اور طریقہ اس میں تمہارے چلنے کو مقرر فرمایا ہے، یہی میری رضا مندی اور میری طرف پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے، اسی پر چلو اور اس کے علاوہ دیگر راستے تم کو نجات کے راستہ سے بہکا دیں گے، کیونکہ وہ سب شیطان کے راستے ہیں، اور نبی اکرم ﷺ نے بھی بکمال رأفت و رحمت یہ سب طریقے صاف طور پر ہر آدمی کے لئے واضح فرما دیئے ہیں۔

【12】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

مقدام بن معدیکرب کندی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے : ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی کو حلال سمجھیں گے اور جو چیز حرام پائیں گے اسی کو حرام جانیں گے ، تو سن لو ! جسے رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٤) ، مسند احمد (٤/١٣٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٩، (٦٠٦) (صحیح )

【13】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو، اور اس کے پاس جن چیزوں کا میں نے حکم دیا ہے، یا جن چیزوں سے منع کیا ہے میں سے کوئی بات پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٥) ، سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٧) (صحیح )

【14】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ قابل رد ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٥ (٢٦٩٧) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٨ (١٧١٨) ، سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٣، ١٤٦، ١٨٠، ٢٤٠، ٢٥٦، ٢٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ایک اہم شرعی ضابطہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جس کام پر کتاب اور سنت صحیحہ کی کوئی دلیل نہ ہو، اور صحابہ و تابعین اور خیر القرون کے تعامل سے وہ محروم ہو تو وہ بدعت ہے۔

【15】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے زبیر (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے پاس مقام حرہ کی اس نالی کے بارے میں جھگڑا کیا جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر (رض) سے کہا : پانی چھوڑ دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے، زبیر (رض) نے انکار کیا، ان دونوں نے اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : زبیر ! تم اپنا کھیت سینچ لو ! پھر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو ، انصاری غضبناک ہو کر بولا : اللہ کے رسول ! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : زبیر ! تم اپنا باغ سینچ لو، پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ مینڈوں تک پہنچ جائے ، عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں : زبیر نے کہا : قسم اللہ کی ! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے : فلا وربک لا يؤمنون حتى يحكموک فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما قسم ہے آپ کے رب کی ! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس کے سارے اختلافات اور جھگڑوں میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں، اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں (سورة النساء : 65) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب المساقاة ٦ (٢٣٥٩) ، ٨ (٢٣٦٢) ، تفسیر القرآن ١٢ (٣٠٢٧) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٦ (٢٣٥٧) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٣١ (٣٦٣٧) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٦ (١٣٦٣) ، تفسیر القرآن سورة النساء (٣٠٢٧) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٢٦ (٥٤١٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٥، ٤/٥) ، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ٢٤٨٠) (صحیح )

【16】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہ روکو ، تو ان کے ایک بیٹے نے ان سے کہا : ہم تو انہیں ضرور روکیں گے، یہ سن کر ابن عمر (رض) سخت ناراض ہوئے اور بولے : میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٦ (٨٧٣) ، والنکاح ١١٧ (٥٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٤٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٠ (٤٤٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥٣ (٥٦٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٣ (٥٧٠) ، سنن النسائی/المساجد ١٥ (٧٠٧) ، موطا امام مالک/القبلة ٦ (١٢) ، مسند احمد (٢/٧، ١٥١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٧ (١٣١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا تم اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے مدمقابل لا رہے ہو، مسند احمد ( ٢ /٦٣) میں ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے زندگی بھر اس لڑکے سے بات نہیں کی۔

【17】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ ان کا ایک بھتیجا ان کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اس نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری رکھ کر پھینکی، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس کام سے روکا ہے اور فرمایا ہے کہ : یہ کنکری نہ تو کوئی شکار کرتی ہے، اور نہ ہی دشمن کو زخمی کرتی ہے، البتہ یہ دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ان کا بھتیجا دوبارہ کنکریاں پھینکنے لگا تو انہوں نے کہا : میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ ﷺ نے اس کام سے روکا ہے اور تم پھر اسے کرنے لگے، میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذبائح ١٠ (١٩٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الفتح ٥ (٤٨٤١) ، والذبائح ٥ (٥٤٧٩) ، والأدب ١٢٢ (٦٢٢٠) ، سنن ابی داود/الدیات ٢١ (٤٥٧٨) ، سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٨١٩) ، مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٤٦، ٥٤، ٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٠ (٤٥٢) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٢٢٦، ٣٢٢٧) (صحیح )

【18】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری (رض) نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ (رض) کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا : لوگو ! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ١ ؎، تو معاویہ (رض) نے ان سے کہا : ابوالولید ! میری رائے میں تو یہ سود نہیں ہے، یعنی نقدا نقد میں تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے، ہاں اگر ادھار ہے تو وہ سود ہے، عبادہ (رض) نے کہا : میں آپ سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور آپ اپنی رائے بیان کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں سے صحیح سالم نکال دیا تو میں کسی ایسی سر زمین میں نہیں رہ سکتا جہاں میرے اوپر آپ کی حکمرانی چلے، پھر جب وہ واپس لوٹے تو مدینہ چلے گئے، تو ان سے عمر بن خطاب (رض) نے پوچھا : ابوالولید ! مدینہ آنے کا سبب کیا ہے ؟ تو انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا، اور معاویہ (رض) سے ان کے زیر انتظام علاقہ میں نہ رہنے کی جو بات کہی تھی اسے بھی بیان کیا، عمر (رض) نے کہا : ابوالولید ! آپ اپنی سر زمین کی طرف واپس لوٹ جائیں، اللہ اس سر زمین میں کوئی بھلائی نہ رکھے جس میں آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوں ، اور معاویہ (رض) کو لکھا کہ عبادہ پر آپ کا حکم نہیں چلے گا، آپ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ عبادہ کی بات پر چلیں کیونکہ شرعی حکم دراصل وہی ہے جو انہوں نے بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٠٦، ومصباح الزجاجة : ٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (١٥٨٧) ، سنن ابی داود/البیوع ١٢ (٣٣٤٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٣ (١٢٤٠) ، سنن النسائی/البیوع ٤٢ (٤٥٦٧) ، مسند احمد (٥/٣١٤) ، سنن الدارمی/البیوع ٤١ (٢٥٥٤) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٢٥٤) (صحیح) (بوصیری کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل صحیحین میں عبادہ (رض) سے قصہ مذکورہ کے بغیرمروی ہے، اور اس کی صورت مرسل و منقطع کی ہے کہ قبیصہ کو قصہ نہیں ملا، امام مزی کہتے ہیں : قبیصہ کی ملاقات عبادہ (رض) سے نہیں ہوئی ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو ۔ عبادۃ بن صامت (رض) کی کنیت ابوالولید ہے۔

【19】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان کروں تو تم رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہی (خیال و گمان) رکھو کہ آپ کی بات سب سے زیادہ عمدہ، اور ہدایت و تقویٰ میں سب سے بڑھی ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٣٢، ومصباح الزجاجة : ٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١٥) ، سنن الدارمی/المقدمة ٥٠ (٦١٢) (ضعیف) (عون بن عبداللہ کی ابن مسعود (رض) سے ملاقات نہیں ہے، سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن آگے علی (رض) سے ثابت اس معنی کا قول آرہا ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ٢٠ )

【20】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

علی بن ابی طالب (رض) کہتے کہ جب میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث بیان کروں تو تم یہی (خیال گمان) رکھو کہ آپ ﷺ کی بات سب سے زیادہ عمدہ، اور ہدایت و تقویٰ میں سب سے بڑھی ہوئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٧، ومصباح الزجاجة : ٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٢، ١٣٠) ، سنن الدارمی/المقدمة ٥٠ (٦١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حدیثوں کو صحیح محمل پر رکھو اور مناسب موقع پر فٹ کرو، اور اس میں تعارض اور تناقض کا خیال نہ کرو، اور جو حدیث کا منطوق ہو اسی کو تقوی اور ہدایت جانو، اور اس کے خلاف کو مطلقاً بہتر اور ہدایت نہ سمجھو۔

【21】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں یہ ہرگز نہ پاؤں کہ تم میں سے کسی سے میری حدیث بیان کی جا رہی ہو اور وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے یہ کہتا ہو : قرآن پڑھو، سنو ! جو بھی اچھی بات کہی گئی ہے وہ میری ہی کہی ہوئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٣٦) (ضعیف جدًا) (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری متروک روای ہیں )

【22】

حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی

ابوسلمہ (ابوسلمہ ابن عبدالرحمٰن بن عوف) سے روایت ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے ایک آدمی سے کہا : میرے بھتیجے ! جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان کروں تو تم اس پر کہاوتیں اور مثالیں نہ بیان کیا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٢، ١٥٠٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٣٣٢) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤٨٥) (حسن ) اس سند سے عمرو بن مرہ سے علی (رض) کی حدیث کے ہم مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : (ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ٢٠) (صحیح )

【23】

حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں

عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں بلا ناغہ ہر جمعرات کی شام کو عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس جاتا تھا، میں نے کبھی بھی آپ کو کسی چیز کے بارے میں قال رسول الله صلى الله عليه وسلم کہتے نہیں سنا، ایک شام آپ نے کہا : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اور اپنا سر جھکا لیا، میں نے ان کو دیکھا کہ اپنے کرتے کی گھنڈیاں کھولے کھڑے ہیں، آنکھیں بھر آئی ہیں اور گردن کی رگیں پھول گئی ہیں اور کہہ رہے ہیں : آپ ﷺ نے اس سے کچھ کم یا زیادہ یا اس کے قریب یا اس کے مشابہ فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٩٢، ومصباح الزجاجة : ٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٥٢) ، سنن الدارمی/ المقدمة ٢٨ (٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کمال ادب تھا کہ حدیث کی روایت میں نبی اکرم ﷺ کی طرف اس وقت تک نسبت نہ کرتے تھے جب تک خوب یقین نہ ہوجاتا کہ یہی آپ ﷺ کا فرمان ہے، اور جب ذرا سا بھی گمان اور شبہہ ہوتا تو اس خوف سے ڈر جاتے کہ کہیں آپ ﷺ پر جھوٹ نہ باندھ دیں، کیونکہ جو آپ ﷺ پر جھوٹ باندھے صحیح حدیث کی روشنی میں اس پر جہنم کی وعید ہے۔

【24】

حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث بیان کرتے، اور اس سے فارغ ہوتے تو کہتے : أو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم یا جیسا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٩، ومصباح الزجاجة : ١٠) ، وقد أخرجہ : دي المقدمة ٢٨ (٢٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا یہ کہہ کر وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم نے تم سے جو یہ حدیث بیان کی ہے وہ روایت بالمعنی ہے، رہے الفاظ تو ہوسکتا ہے کہ ہو بہو یہی الفاظ رہے ہوں یا الفاظ کچھ بدلے ہوں۔

【25】

حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم نے زید بن ارقم (رض) سے کہا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کریں، تو وہ کہنے لگے : ہم بوڑھے ہوگئے ہیں، ہم پر نسیان غالب ہوگیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرنا مشکل کام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧٤، ومصباح الزجاجة : ١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٠، ٣٧٢) (صحیح )

【26】

حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں

عبداللہ بن ابی السفر کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو کہتے سنا : میں سال بھر ابن عمر (رض) کی مجلسوں میں رہا لیکن میں نے ان سے رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أخبار الآحاد ٦ (٧٢٦٧) ، صحیح مسلم/الصید ٧ (١٩٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٧١١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٤، ١٣٧، ١٥٧) (صحیح )

【27】

حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں

طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) کو کہتے سنا : ہم تو بس حدیثیں یاد کرتے تھے اور حدیث رسول تو یاد کی ہی جاتی ہے، لیکن جب تم مشکل اور آسان راستوں پر چلنے لگے تو ہم نے دوری اختیار کرلی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المقدمة ٤ (٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ کنایہ ہے افراط و تفریط سے، یعنی جب تم نقل میں افراط و تفریط سے کام لینے لگے اور احتیاط کا دامن چھوڑ دیا، تو ہم نے بھی احتیاط کی روش اختیار کی۔

【28】

حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں

قرظہ بن کعب کہتے ہیں کہ ہمیں عمر بن خطاب (رض) نے کوفہ بھیجا، اور ہمیں رخصت کرنے کے لیے آپ ہمارے ساتھ مقام صرار تک چل کر آئے اور کہنے لگے : کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیوں چل کر آیا ہوں ؟ قرظہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا : رسول اللہ ﷺ کی صحبت کے حق اور انصار کے حق کی ادائیگی کی خاطر آئے ہیں، کہا : نہیں، بلکہ میں تمہارے ساتھ ایک بات بیان کرنے کے لیے آیا ہوں، میں نے چاہا کہ میرے ساتھ آنے کی وجہ سے تم اسے یاد رکھو گے : تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہو جن کے سینوں میں قرآن ہانڈی کی طرح جوش مارتا ہوگا، جب وہ تم کو دیکھیں گے تو (مارے شوق کے) اپنی گردنیں تمہاری طرف لمبی کریں گے ١ ؎، اور کہیں گے : یہ اصحاب محمد ہیں، تم ان سے رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں کم بیان کرنا، جاؤ میں بھی تمہارا شریک ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ٢٨ (٦٨٧) (صحیح) (اس کی سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، لیکن حاکم کی سند کی متابعت سے یہ صحیح ہے، حاکم نے اس کو اپنی مستدرک میں صحیح الإسناد کہا ہے، اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ وہ تمہاری باتیں سن سکیں اور تم سے استفادہ کرسکیں۔ اس سے مراد احادیث کے بیان کرنے میں احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی طرف توجہ مبذول کرانا تھا، اور یہ ایسی بات ہے جس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ گویا اس سے اصل مقصد احادیث کو تحقیق کے ساتھ بیان کرنے کی اہمیت کو بیان کرنا تھا تاکہ نبی کریم ﷺ کی طرف غلط نسبت نہ ہو۔

【29】

حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں

سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں سعد بن مالک (رض) کے ساتھ مدینہ سے مکہ تک گیا، لیکن راستے بھر میں نے آپ کو نبی اکرم ﷺ سے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٥، ومصباح الزجاجة : ١٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد والسیر ٢٦ (٢٨٢٤) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٨ (٢٨٦) (صحیح ) وضاحت : اس کی وجہ وہی احتیاط ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی، تاہم وہ لوگوں کو مسائل بیان فرماتے اور ان کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے اور یہ سب کچھ احادیث ہی سے ماخوذ ہوتا تھا۔

【30】

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمدا جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑا تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣٦٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفتن ٧٠ (٢٢٥٧) ، العلم ٨ (٢٦٥٩) ، مسند احمد (١/٣٨٩، ٣٩٣، ٤٠١، ٤٣٦، ٤٤٩) (وأولہ : إنکم منصورون ....) (صحیح متواتر) (اس سند میں شریک بن عبداللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شعبہ و سفیان نے ان کی متابعت کی ہے، اور ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے ) وضاحت : ١ ؎: چاہے اس سے کوئی نیک مقصد ہی کیوں نہ ہو، جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کی قید سے وہ شخص اس وعید سے نکل گیا ہے جس نے غلطی سے یا بھول سے کوئی بات رسول اکرم ﷺ کی طرف منسوب کی ہو۔

【31】

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمدا جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ پر جھوٹ نہ باندھو، اس لیے کہ مجھ پر جھوٹ باندھنا جہنم میں داخل کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١٠٦) ، صحیح مسلم/المقدمة ٢ (٢) ، سنن الترمذی/العلم ٨ (٢٦٦٠) ، المناقب ٢٠ (٧٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٣، ١٢٣، ١٥٠) (صحیح )

【32】

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمدا جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص میرے اوپر جھوٹ باندھے (انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ) میرا خیال ہے کہ آپ نے متعمدا بھی فرمایا یعنی جان بوجھ کر ١ ؎ تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ٨ (٢٦٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ العلم ٣٩ (١٠٨) ، صحیح مسلم/المقدمة ٢ (٣) ، مسند احمد (٣/٩٨، ١١٣، ١١٦، ١٧٢، ١٧٦، ٢٠٣، ٢٠٩، ٢٢٣، ٢٧٩، ٢٨٠) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٥ (٢٤٤) ، ٤٦ (٥٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی انس بن مالک (رض) کو یہ شک ہے کہ متعمدا کا لفظ بھی فرمایا یا نہیں، اور باقی حدیث میں کوئی شک نہیں ہے۔

【33】

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمدا جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے میرے اوپر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٩٩٣، ومصباح الزجاجة) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٣، ٨٣) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٥ (٢٣٧) (صحیح )

【34】

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمدا جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص گھڑ کر میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١٠٩) ، صحیح مسلم/المقدمة ٢ (٣) ، مسند احمد (٢/٣٢١) (حسن صحیح )

【35】

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمدا جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان۔

ابوقتادۃ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس منبر پر فرماتے سنا : تم مجھ سے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے بچو، اگر کوئی میرے حوالے سے کوئی بات کہے تو وہ صحیح صحیح اور سچ سچ کہے، اور جو شخص گھڑ کر میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٣٠، ومصباح الزجاجة : ١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٧، ٣١٠) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٥ (٢٤٣) (حسن) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن مسند احمد میں تحدیث کی صراحت ہے، نیز شواہد و متابعت کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٥٣ ، و تحقیق عوض الشہری، مصباح الزجاجة : ١٥ )

【36】

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمدا جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان۔

عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے زبیر بن عوام (رض) سے کہا : کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنتا جس طرح ابن مسعود اور فلاں فلاں کو سنتا ہوں ؟ تو انہوں نے کہا : سنو ! جب سے میں اسلام لایا نبی اکرم ﷺ سے جدا نہیں ہوا، لیکن میں نے آپ سے ایک بات سنی ہے، آپ ﷺ فرما رہے تھے : جو شخص میرے اوپر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٨ (١٠٧) ، سنن ابی داود/العلم ٤ (٣٦٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٥، ١٦٦) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٥ (٢٣٩) (صحیح )

【37】

جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمدا جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص میرے اوپر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٤٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزہد والر قائق ١٦ (٣٠٠٤) ، مسند احمد (٢/٤٧، ٣ /٣٩، ٤٤) (صحیح) (سند میں سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، اور عطیہ العوفی ضعیف، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح بلکہ متواتر ہے ) وضاحت : ١ ؎: ان حدیثوں میں نبی ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا عذاب مذکور ہے، اور حقیقت میں یہ بہت بڑا گناہ اور سنگین دینی جریمہ ہے۔

【38】

اس شخص کا بیان جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرے یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مجھ سے کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/العلم ٩ (٢٦٦٢) ، مسند احمد (٥/١٤، ٢٠) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: الکاذبين تثنیہ کے ساتھ یعنی دو جھوٹے، دو جھوٹوں سے مراد ایک تو وہ شخص ہے جو جھوٹی حدیثیں گھڑتا ہے، دوسرا وہ شخص ہے جو ان کی روایت کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ روایت کرنے والا بھی گناہ میں گھڑنے والے کے ساتھ شریک ہوگا، اور الکاذبين جمع کے ساتھ بھی آیا ہے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ بہت سارے جھوٹے لوگوں میں سے ایک جھوٹا آدمی احادیث کا گھڑنے والا بھی ہوگا۔

【39】

اس شخص کا بیان جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرے یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے۔

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مجھ سے کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المقدمة ١ (١) (تحفة الأشراف : ٤٦٢٧) ، و سنن الترمذی/العلم ٩ (٢٦٦٢) ، مسند احمد (٥/١٤، ١٩، ٢٠) (صحیح )

【40】

اس شخص کا بیان جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرے یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے مجھ سے کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کی کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٨) (صحیح ) اس سند سے سمرہ بن جندب (رض) کی حدیث کے مثل علی (رض) سے بھی مروی ہے۔

【41】

اس شخص کا بیان جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرے یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے۔

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المقدمة ١ (١) ، سنن الترمذی/العلم ٩ (٢٦٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٢٥٠، ٢٥٢، ٢٥٥) (صحیح )

【42】

خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی

عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ سے ڈرو، اور امیر (سربراہ) کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں (بدعتوں) سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں تقویٰ اختیار کرنے اور امیر کی اطاعت کرنے کے علاوہ سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین کی اتباع کی تاکید اور بدعات سے بچنے کی تلقین ہے، ساتھ ہی اس بات کی پیش گوئی بھی ہے کہ یہ امت اختلاف و انتشار کا شکار ہوگی، ایسے موقع پر صحیح راہ یہ ہوگی کہ نبی اکرم ﷺ کی سنت اور خلفاء راشدین کے طریقے اور ان کے تعامل سے تجاوز نہ کیا جائے، کیونکہ اختلافات کی صورت میں حق کو پہنچاننے کی کسوٹی اور معیار یہی دونوں چیزیں ہیں۔

【43】

خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی

عرباض بن ساریہ (رض) کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین ١ ؎ کی سنت سے جو کچھ تمہیں معلوم ہے اس کی پابندی کرنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رکھنا، اور امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٧) ، سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٦، ١٢٧) ، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہدایت یافتہ خلفاء سے مراد خلفاء راشدین ہیں، یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم، حدیث میں وارد ہے : الخلافة ثلاثون عامًا یعنی خلافت راشدہ تیس سال تک رہے گی۔

【44】

خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی

عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز فجر پڑھائی، پھر ہماری جانب متوجہ ہوئے، اور ہمیں ایک مؤثر نصیحت کی، پھر راوی نے سابقہ حدیث جیسی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٢) (صحیح )

【45】

بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ، آواز بلند اور غصہ سخت ہوجاتا، گویا کہ آپ ﷺ کسی (حملہ آور) لشکر سے ڈرانے والے اس شخص کی طرح ہیں جو کہہ رہا ہے کہ لشکر تمہارے اوپر صبح کو حملہ کرنے والا ہے، شام کو حملہ کرنے والا ہے۔ اور آپ ﷺ فرماتے : میں اور قیامت دونوں اس طرح قریب بھیجے گئے ہیں ، اور (سمجھانے کے لیے) آپ ﷺ اپنی شہادت والی اور بیچ والی انگلی ملاتے پھر فرماتے : حمد و صلاۃ کے بعد ! جان لو کہ سارے امور میں سے بہتر اللہ کی کتاب (قرآن) ہے، اور راستوں میں سے سب سے بہتر محمد کا راستہ (سنت) ہے، اور سب سے بری چیز دین میں نئی چیزیں (بدعات) ہیں ١ ؎، اور ہر بدعت (نئی چیز) گمراہی ہے ۔ اور آپ ﷺ فرماتے تھے : جو مرنے والا مال و اسباب چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض یا اہل و عیال چھوڑے تو قرض کی ادائیگی، اور بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٦٧) ، سنن النسائی/العیدین ٢١ (١٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الخراج ١٥ (٢٩٥٤) ، مسند احمد (٣/٣١١، ٣١٩، ٣٣٨، ٣٧١، سنن الدارمی/المقدمة ٢٣ (٢١٢) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٤١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محدثات نئی چیزوں سے مراد ہر وہ چیز جو نبی ﷺ کے بعد دین میں ایجاد کرلی گئی ہو، اور کتاب و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو۔

【46】

بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بس دو ہی چیزیں ہیں، ایک کلام اور دوسری چیز طریقہ، تو سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام (قرآن مجید) ہے، اور سب سے بہتر طریقہ (سنت) محمد ﷺ کا طریقہ ہے، سنو ! تم اپنے آپ کو دین میں نئی چیزوں سے بچانا، اس لیے کہ دین میں سب سے بری چیز محدثات (نئی چیزیں) ہیں، اور ہر محدث (نئی چیز) بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ سنو ! کہیں شیطان تمہارے دلوں میں زیادہ زندہ رہنے اور جینے کا وسوسہ نہ ڈال دے، اور تمہارے دل سخت ہوجائیں ١ ؎۔ خبردار ! آنے والی چیز قریب ہے ٢ ؎، دور تو وہ چیز ہے جو آنے والی نہیں۔ خبردار ! بدبخت تو وہی ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں بدبخت لکھ دیا گیا، اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے۔ آگاہ رہو ! مومن سے جنگ و جدال اور لڑائی جھگڑا کرنا کفر ہے، اور اسے گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے ٣ ؎۔ سنو ! تم اپنے آپ کو جھوٹ سے بچانا، اس لیے کہ جھوٹ سنجیدگی یا ہنسی مذاق (مزاح) میں کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے ٤ ؎، کوئی شخص اپنے بچے سے ایسا وعدہ نہ کرے جسے پورا نہ کرے ٥ ؎، جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اور سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، چناچہ سچے آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے سچ کہا اور نیک و کار ہوا، اور جھوٹے آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا اور گناہ گار ہوا۔ سنو ! بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٢٤، ومصباح الزجاجہ : ١٧) (ضعیف) (عبید بن میمون مجہول الحال راوی ہیں، اس لئے یہ سند ضعیف ہے، اور یہ سیاق بھی کہیں اور موجود نہیں ہے، لیکن حدیث کے فقرات اور متابعات و شواہد کی وجہ سے صحیح ہیں، نیز ملاحظہ ہو : فتح الباری : ١٠ /٥١١ و ١٣ / ٢٥٢، و صحیح البخاری : ٦٠٩٤ ، ومسلم : ٢٦٠٦ -٢٦٤٧، وابوداود : ٤٩٨٩ ، و الترمذی : ٩٧٢ ، والموطا/ الکلام : ١٦ ، ومسند احمد : ١ /٣٨٤ - ٤٠٥، والدارمی : ٢٧٥٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شیطان تمہیں دھوکا نہ دے کہ ابھی تمہاری زندگی بہت باقی ہے، دنیا میں عیش و عشرت کرلو، دنیا کے مزے لے لو، آخرت کی فکر پھر کرلینا ، کیونکہ اس سے آدمی کا دل سخت ہوجاتا ہے، اور زاد آخرت کے حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے۔ ٢ ؎: آنے والی چیز یعنی موت یا قیامت۔ ٣ ؎: بلا وجہ ترک تعلق جائز نہیں اور اگر کوئی معقول وجہ ہے تو تین دن کی تنبیہ کافی ہے، اور اگر ترک تعلق کا سبب فسق و فجور ہے تو جب تک وہ توبہ نہ کرلے اس وقت تک نہ ملے۔ ٤ ؎: اس سے مطلقاً جھوٹ کی حرمت ثابت ہوتی ہے، خواہ ظرافت ہو یا عدم ظرافت۔ ٥ ؎ : اس میں اولاد سے بھی وعدہ میں جھوٹ نہ بولنے کی ہدایت ہے۔

【47】

بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی : هو الذي أنزل عليك الکتاب منه آيات محکمات هن أم الکتاب وأخر متشابهات اللہ تعالیٰ کے یہ فرمان وما يذكر إلا أولو الألباب تک : (سورة آل عمران : 7) ، یعنی : وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب اتاری، جس میں اس کی بعض آیات معلوم و متعین معنی والی محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض آیات متشابہ ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھ ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ پھیلائیں اور ان کے معنی مراد کی جستجو کریں، حالانکہ ان کے حقیقی معنی مراد کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمام ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔ اور (آیت کی تلاوت کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! جب ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات میں جھگڑتے اور بحث و تکرار کرتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اس آیت کریمہ میں مراد لیا ہے، تو ان سے بچو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٦٢٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر آل عمرآن ١ (٤٥٤٧) ، صحیح مسلم/العلم ١ (٢٦٦٥) ، سنن ابی داود/السنة ٢ (٤٥٩٨) ، سنن الترمذی/التفسیر ٤ (٢٩٩٣، ٢٩٩٤) ، مسند احمد (٦ / ٤٨) ، سنن الدارمی/المقدمة ١٩ (١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پوری آیت اس طرح ہے : يضاجعها هو الذي أنزل عليك الکتاب منه آيات محکمات هن أم الکتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغائ الفتنة وابتغائ تأويله وما يعلم تأويله إلا الله والراسخون في العلم يقولون آمنا به كل من عند ربنا وما يذكر إلا أولوا الألباب (سورۃ آل عمران : ٧ ) ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو دو قسموں محکم اور متشابہ میں تقسیم کیا ہے، محکم اسے کہتے ہیں جس کی دلالت اور جس کا معنی پوری طرح واضح اور ظاہر ہو، اور جس میں کسی طرح کی تاویل اور تخصیص کا احتمال نہ ہو، اور اس پر عمل کرنا واجب ہے، اور متشابہ یہ ہے کہ جس کے معنی تک مجتہد نہ پہنچ پائے، یا وہ مجمل کے معنی میں ہے جس کی دلالت واضح نہ ہو، یا متشابہ وہ ہے جس کی معرفت کے لئے غور و فکر، تدبر اور قرائن کی ضرورت ہو، جس کی موجودگی میں اس کے مشکل معنی کو سمجھا جاسکے، اور محکم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اصل کتاب فرمایا، پس اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ متشابہ کو محکم سے ملا کر اس کے معنی کو سمجھیں، اور یہی طریقہ سلف کا ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پھیر دیتے تھے اور یہ جو فرمایا کہ جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں اس متشابہ کی، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ متشابہ کو محکم کی طرف نہیں پھیرتے کہ اس سے مشتبہ وجوہ سے صحیح وجوہ ان کے ہاتھ آجائے بلکہ دوسری وجوہ باطلہ پر اس کو اتارتے ہیں اور اس میں وہ تمام اقوام باطلہ داخل ہیں جو حق سے پھری ہوئی ہیں اور وما يعلم تأويله إلا الله میں مفسرین کے دو قول ہیں : پہلا یہ کہ یہاں وقف ہے، یعنی إلا الله پر اور یہیں پر کلام تمام ہوگیا، اور اس صورت میں آیت سے مراد یہ ہوگا کہ تاویل یعنی متشابہات کی حقیقت کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا، اور اکثر مفسرین اسی کی طرف گئے ہیں، اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں وقف نہیں ہے، اور والراسخون في العلم معطوف ہے اپنے ماقبل والے جملہ پر یعنی ان متشابہات کا علم اور ان کی تاویل و تفسیر اللہ تبارک و تعالیٰ اور علماء راسخین کو معلوم ہے، بعض مفسرین اس طرف بھی گئے ہیں۔

【48】

بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان۔

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی قوم ہدایت پر رہنے کے بعد گمراہ اس وقت ہوئی جب وہ جدال (بحث اور جھگڑے) میں مبتلا ہوئی ، پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی : بل هم قوم خصمون بلکہ وہ جھگڑالو لوگ ہیں (سورة الزخرف : 58) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/التفسیر ٤٤ (٣٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٢، ٢٥٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: پوری آیت یوں ہے : ولما ضرب ابن مريم مثلا إذا قومک منه يصدون (57) وقالوا أآلهتنا خير أم هو ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون (سورة الزخرف : 58) اور جب عیسیٰ ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو آپ کی قوم اس پر خوشی سے چیخنے چلانے لگی ہے، اور کہتی ہے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ؟ ان کا آپ سے یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ وہ لوگ جھگڑالو ہیں ہی ۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابن الزبعری نے رسول اللہ ﷺ سے بحث و مجادلہ کیا تھا، اور اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : إنكم وما تعبدون من دون الله حصب جهنم تم اور تمہارے معبودان باطل جہنم کا ایندھن ہیں (سورة الأنبياء : 98) ، تو ابن الزبعری نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں آپ سے بحث و حجت میں جیت گیا، قسم ہے رب کعبہ کی ! بھلا دیکھو تو نصاری مسیح کو، اور یہود عزیر کو پوجتے ہیں، اور اسی طرح بنی ملیح فرشتوں کو، سو اگر یہ لوگ جہنم میں ہیں تو چلو ہم بھی راضی ہیں کہ ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ رہیں، سو کفار فجار اس پر بہت ہنسے اور قہق ہے لگانے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون بیشک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے، وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے (سورة الأنبياء : 101) ۔ حقیقت میں ابن الزبعری کا اعتراض حماقت سے بھرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے وما تعبدون فرمایا ہے، یعنی جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور لفظ ما عربی میں غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے، ملائکہ اور انبیاء ذوی العقول ہیں، اس لئے وہ اس میں کیوں کر داخل ہوں گے، اور باوجود اہل لسان ہونے کے اس کو اس طرف خیال نہ ہوا۔ جدال کہتے ہیں حق کے مقابلے میں باطل اور جھوٹی باتیں بنانے کو اور اسی قبیل سے ہے قیاس اور رائے کو دلیل و حجت کے آگے پیش کرنا، یا کسی امام اور عالم کا قول حدیث صحیح کے مقابل میں پیش کرنا، خلاصہ کلام یہ کہ حق کے رد و ابطال میں جو بات بھی پیش کی جائے گی وہ جدال ہے، جس کی قرآن کریم میں بکثرت مذمت وارد ہوئی ہے۔

【49】

بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان۔

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کسی بدعتی کا روزہ، نماز، صدقہ و زکاۃ، حج، عمرہ، جہاد، نفل و فرض کچھ بھی قبول نہیں کرتا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جاتا ہے جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٦٩، ومصباح الزجاجة : ١٨) (موضوع) (اس کی سند میں محمد بن محصن العکاشی کذاب راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٤٩٣ )

【50】

بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کسی بدعتی کا عمل قبول نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اپنی بدعت ترک نہ کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦٩، ومصباح الزجاجة : ١٩) (ضعیف) (سند میں ابوزید اور ابو المغیرہ دونوں مجہول راوی ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الا ٔلبانی : رقم : ١٤٨ ، وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٤٩٢ )

【51】

بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا اور وہ باطل پر تھا تو اس کے لیے جنت کے کناروں میں ایک محل بنایا جائے گا، اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود بحث اور کٹ حجتی چھوڑ دی اس کے لیے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا، اور جس نے اپنے آپ کو حسن اخلاق سے مزین کیا اس کے لیے جنت کے اوپری حصہ میں محل بنایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٥٨ (١٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨) (ضعیف) (اس حدیث کی امام ترمذی نے تحسین فرمائی ہے، لیکن اس کی سند میں سلمہ بن وردان منکرالحدیث راوی ہیں، اور متن مقلوب ہے جس کی وضاحت ابو امامہ (رض) کی حدیث سے ہوتی ہے، ملاحظہ ہو : سنن ابی داود : ٤٨٠٠ )

【52】

(دین میں) عقل لڑانے سے احتراز کا بیان۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں مٹائے گا کہ اسے یک بارگی لوگوں سے چھین لے گا، بلکہ اسے علماء کو موت دے کر مٹائے گا، جب اللہ تعالیٰ کسی بھی عالم کو باقی اور زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، تو گمراہ ہوں گے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ العلم ٣٤ (١٠٠) ، الاعتصام ٧ (٧٣٠٧) ، صحیح مسلم/العلم ٥ (٢٦٧٣) ، سنن الترمذی/العلم ٥ (٢٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٧، ٢٦١) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٦ (٢٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب کتاب و سنت سے آگاہی رکھنے والے علماء ختم ہوجائیں گے تو کتاب و سنت کا علم لوگوں میں نہ رہے گا، لوگ نام و نہاد علماء اور مفتیان سے مسائل پوچھیں گے، اور یہ جاہل اور ہوا پرست اپنی رائے یا اور لوگوں کی رائے سے ان سوالات کے جوابات دیں گے، اس طرح سے لوگ گمراہ ہوجائیں گے، اور لوگوں میں ہزاروں مسائل خلاف کتاب و سنت پھیل جائیں گے، اس لئے اس حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کے علم کے حاصل کرنے میں پوری جدوجہد کریں، اور علم اور علماء کی سرپرستی قبول کریں، اور کتاب و سنت کے ماہرین سے رجوع ہوں، ورنہ دنیا و آخرت میں خسارے کا بڑا امکان ہے، اس لئے کہ جہالت کی بیماری کی وجہ سے امت مختلف قسم کے امراض میں مبتلا رہتی ہے، جس کا علاج وحی ہے، جیسے آنکھ بغیر روشنی کے بےنور رہتی ہے، ایسے ہی انسانی عقل بغیر وحی کی روشنی کے گمراہ، پس نور ہدایت کتاب و سنت میں ہے، جس کے لئے ہم سب کو سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔

【53】

(دین میں) عقل لڑانے سے احتراز کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے (بغیر تحقیق کے) کوئی غلط فتویٰ دیا گیا (اور اس نے اس پر عمل کیا) تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العلم ٨ (٣٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢١، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/ المقدمة ٢٠ (١٦١) (حسن )

【54】

(دین میں) عقل لڑانے سے احتراز کا بیان۔

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علم تین طرح کا ہے، اور جو اس کے علاوہ ہے وہ زائد قسم کا ہے : محکم آیات ١ ؎، صحیح ثابت سنت ٢ ؎، اور منصفانہ وراثت ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ١ (٢٨٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٧٦) (ضعیف) (سند میں تین راوی : رشدین بن سعد، عبدالرحمن بن زیاد بن أنعم الإفریقی اور عبد الرحمن بن رافع ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی غیر منسوخ قرآن کا علم۔ ٢ ؎: یعنی صحیح احادیث کا علم۔ ٣ ؎: فرائض کا علم جس سے ترکے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے۔

【55】

(دین میں) عقل لڑانے سے احتراز کا بیان۔

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو یمن بھیجا تو فرمایا : جن امور و مسائل کا تمہیں علم ہو انہیں کے بارے میں فیصلے کرنا، اگر کوئی معاملہ تمہارے اوپر مشتبہ ہوجائے تو ٹھہرنا انتظار کرنا یہاں تک کہ تم اس کی حقیقت معلوم کرلو، یا اس سلسلہ میں میرے پاس لکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٣٩) ، (مصباح الزجاجة : ٢٠) (موضوع) (سند میں محمد بن سعید بن حسان المصلوب وضاع اور متروک الحدیث راوی ہے )

【56】

(دین میں) عقل لڑانے سے احتراز کا بیان۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بنی اسرائیل کا معاملہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا یہاں تک کہ ان میں وہ لوگ پیدا ہوگئے جو جنگ میں حاصل شدہ عورتوں کی اولاد تھے، انہوں نے رائے (قیاس) سے فتوی دینا شروع کیا، تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے، اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٢) ، (مصباح الزجاجة : ٢١) (ضعیف) (سند میں سوید بن سعید ضعیف اور مدلس ہیں، اور کثرت سے تدلیس کرتے ہیں، ابن ابی الرجال کے بارے میں بوصیری نے کہا ہے کہ وہ حارثہ بن محمد عبد الرحمن ہیں، اور وہ ضعیف راوی ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الرجال محمد بن عبدالرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن النعمان الانصاری المدنی ہیں، جو صدوق ہیں لیکن کبھی خطا ٔ کا بھی صدور ہوا ہے، ابن حجر فرماتے ہیں : صدوق ربما أخطأ، نیز ملاحظہ ہو مصباح الزجاجة ب تحقیق د ؍ عوض الشہری : ١ / ١١٧- ١١٨ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بنی اسرائیل میں ساری برائی رائے کے پھیلنے سے اور وحی سے اعراض کرنے سے ہوئی، اور ہر امت کی بربادی اسی طرح ہوتی ہے کہ جب وہ اپنی رائے کو وحی الٰہی پر مقدم کرتے ہیں تو برباد ہوجاتے ہیں، اس امت میں بھی جب سے کتاب و سنت سے اعراض پیدا ہوا، اور لوگوں نے باطل آراء اور فاسد قیاس سے فتوی دینا شروع کیا، اور پچھلوں نے ان کی آراء اور قیاس کو وحی الٰہی اور ارشاد رسالت پر ترجیح دی، جب ہی سے ایک صورت انتشار اور پھوٹ کی پیدا ہوئی اور مختلف مذاہب وجود میں آگئے، اور امت میں اتحاد و اتفاق کم ہوتا گیا، اور ہر ایک نے کتاب و سنت سے اعراض کر کے کسی ایک کو اپنا امام و پیشوا مقرر کر کے اسی کو معیار کتاب و سنت ٹھہرایا، جب کہ اصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسائل میں مرجع اور مآخذ کتاب و سنت اور سلف صالحین کا فہم و منہج ہے، اور اس کی طرف رجوع ہونے میں امت کے اتحاد کی ضمانت ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : ترکت فيكم أمرين لن تضلّوا ما إن تمسکتم بهما کتاب الله وسنتي میں تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب و سنت چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں (عملاً ) پکڑے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے ۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں لوگوں کا معاملہ برابر ٹھیک رہا یہاں تک کہ کوفہ میں فلاں شخص، مدینہ میں ربیعۃ الرای، اور بصرہ میں عثمان البتی پیدا ہوئے، ہم نے انہیں جنگ میں قید کی جانے والی عورتوں کی اولاد میں سے پایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٧٧٨، ومصباح الزجاجة : ٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فواد عبدالباقی کے نسخہ میں یہ حدیث مذکور نہیں ہے، لیکن تحفۃ الاشراف، اور مصباح الزجاجۃ میں یہ موجود ہے جیسا کہ اوپر کی تخریج سے واضح ہے۔

【57】

ایمان کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان کے ساٹھ یا ستر سے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں سے ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ١ ؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلیٰ اور بہتر شعبہ لا إله إلا الله اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہنا ہے، اور شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣ بلفظ : وستون (٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٢ بلفظ : وسبعون وھو الأرجح (٣٥) ، سنن ابی داود/السنة ١٥ (٤٦٧٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ٦ (٢٦١٤) ، سنن النسائی/الإیمان ١٦ (٥٠٠٧، ٥٠٠٨، ٥٠٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤١٤، ٢٤٢، ٤٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شعبةٌ میں تنوین تعظیم کے لئے ہے۔ ٢ ؎: حیاء ایمان کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ یہ نفس انسانی کی اصلاح و تربیت میں نہایت مؤثر کردار ادا کرتی ہے، نیز وہ انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کے عمل کے اعتبار سے بہت سے مراتب و اجزاء ہیں، اور اس میں کمی اور بیشی بھی ہوتی ہے، اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )

【58】

ایمان کا بیان۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے سلسلے میں ملامت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ٧ (٢٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/لإیمان ١٦ (٢٣) ، الأدب ٧٧ (٦١١٨) ، سنن ابی داود/الأدب ٧ (٤٧٩٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٢٧ (٥٠٣٦) ، موطا امام مالک/حسن الخلق ٢ (١٠) ، مسند احمد (٢/٥٦، ١٤٧) (صحیح )

【59】

ایمان کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر (گھمنڈ) ہوگا وہ جنت میں نہیں داخل ہوگا، اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں داخل ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٩ (٩١) ، اللباس ٢٩ (٤٠٩١) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٦١ (١٩٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٧، ٤١٢، ٤١٦، ٢/١٦٤، ٣/١٣، ١٧) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٤١٧٣ ) وضاحت : ١ ؎: مرتکب کبیرہ کے سلسلے میں آخرت سے متعلق وعید کی احادیث میں یہ آیا ہے کہ وہ ملعون ہے، یا اس کو جنت میں نہ داخل ہونے کی وعید ہے، یا جہنم میں داخل ہونے کی وعید ہے، اس سلسلے میں علماء کی آراء کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے : 1 لا يدخل الجنة وہ جنت میں نہ داخل ہوگا، یعنی نعمت و سرور اور انبساط کے اعتبار سے اونچے درجہ کی جنت میں نہ داخل ہوگا، یہ مطلب نہیں ہے کہ جنت کے کسی درجہ اور طبقہ میں داخل نہ ہوگا۔ 2 یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرتکب کبیرہ اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہوگا جس وقت تک مرتکب کبیرہ کا ارتکاب نہ کرنے والے جنت میں داخل ہو رہے ہوں گے، اس لئے کہ وہ اپنے گناہوں کی باز پرس اور محاسبہ کے مرحلہ میں ہوگا، یا اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ہوگا، اور سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔ بعض لوگوں نے اس معنی کو ان لفظوں میں بیان کیا : إن النفي هو الدخول المطلق الذي لا يكون معه عذاب، لا الدخول المقيد الذي يحصل لمن دخل النار ثم دخل الجنة، یعنی : احادیث میں جنت میں اس مطلق دخول کی نفی ہے جس کے ساتھ عذاب نہ ہوگا، نہ کہ اس قید کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی نفی ہے جو جہنم میں داخل ہونے والے کو ہوگی کہ وہ جرم کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہوگا۔ 3 ایک قول یہ بھی ہے کہ احادیث میں شرط اور استثناء موجود ہے یعنی اگر اللہ نے اس (مرتکب کبیرہ) کو عذاب دیا تو وہ جنت میں نہ داخل ہوگا، یا جنت میں نہ داخل ہوگا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے۔ بعض معاصی کے مرتکب کے بارے میں جہنم کی وعید والی احادیث کے بارے میں امام نووی فرماتے ہیں کہ کفر سے کمتر مرتکب کبائر کے لئے جہنم کی وعید سے متعلق ساری احادیث کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اس کی سزا ہے، کبھی وہ سزا کا مستحق ہوگا، اور کبھی اس سے سزا معاف کردی جائے گی، پھر اگر اس کو (اس کے جرم کی پاداش میں) سزا ہوئی، تو وہ داخل جہنم ہوگا، لیکن اس میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہے گا، بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے وہ ضروری طور پر وہاں سے نکلے گا، توحید پر مرنے والا کوئی آدمی ہمیشہ اور ابدی طور پر جہنم میں نہیں رہے گا، یہ اہل سنت کے درمیان متفق علیہ اصول ہے۔ آخرت سے متعلق وارد احادیث وعد و وعید کے سلسلہ میں زیادہ راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہ اعمال وعدہ اور وعید کے اثبات و تحقق کے لئے سبب و علت ہیں لیکن کسی متعین شخص پر ان وعدوں یا وعیدوں کا اطلاق نہیں ہوگا الا یہ کہ اس میں وہ ساری شروط و قیود پائی جا رہی ہوں، اور اس سلسلہ کی رکاوٹیں موجود نہ ہوں، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کو متعدد مقامات پر مبرہن کیا ہے۔ اس لئے کہ اہل ایمان کے شرک سے اجتناب اور دوری کی صورت میں اعمال صالحہ پر دخول جنت کی بات بہت ساری احادیث میں وارد ہوئی ہیں، اور جن مطلق روایتوں میں کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ یا شہادتین پر جنت میں داخل ہونے یا جہنم کے حرام ہونے کی بات ہے تو دوسری احادیث میں اس کی شروط و قیود آئی ہیں جن کی وجہ سے مطلق احادیث کو مقید احادیث پر رکھنا واجب اور ضروری ہے، مطلق احادیث لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں کلمہ توحید کو دخول جنت کا تقاضا کہا گیا ہے جس کے لئے شروط و قیود کا ہونا اور موانع (رکاوٹوں) کا نہ ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ امام حسن بصری سے جب یہ کہا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا، جنت میں داخل ہوگا تو آپ نے فرمایا : جس نے کلمہ توحید کہا، اور اس کے حقوق و فرائض ادا کئے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ وہب بن منبہ سے سائل نے سوال کیا کہ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کیا جنت کی کنجی نہیں ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : کیوں نہیں، لیکن کنجی بغیر دندانے کے نہیں ہوتی، اگر تم دندانے والی کنجی لے کر آؤ گے تو جنت کا دروازہ تمہارے لئے کھل جائے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔ اہل علم نے کلمہ گو (لا الہ الا اللہ کے قائل) میں سات شرطوں کے ضروری طور پر ہونے کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ اس کلمہ سے فائدہ اٹھا سکے، وہ یہ ہیں : (علم، یقین، اخلاص، صدق، محبت، انقیاد، قبول) ۔ امام ابن القیم حدیث : إن الله حرم على النار من قال : لا إله إلا الله يبتغي وجه الله اللہ کی رضا و خوشنودی کو چاہنے والے لا الہ الا اللہ کے قائل (کلمہ گو) پر اللہ تعالیٰ نے جہنم حرام کردی ہے کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : شارع نے صرف زبانی اقرار سے اس کے حصول (یعنی جنت میں داخل ہونا اور جہنم میں نہ جانے) کی بات نہیں کہی ہے، اس لئے کہ یہ اعداء دین اسلام منافقین کلمہ توحید کو اپنی زبانوں سے دہراتے تھے، اور اس کے ساتھ وہ جہنم کے سب سے خراب درجہ کے مستحق ہیں، اس لئے زبانی اقرار اور دلی اقرار دونوں ضروری اور واجبی ہیں۔ اور دلی اقرار میں کلمہ کی معرفت اور اس کی تصدیق موجود ہے اور کلمہ میں سارے معبودان باطل کا انکار اور اللہ واحد کی الوہیت، اس کی عبادت کے اثبات کی معرفت موجود ہے، اور ماسوا اللہ سے الوہیت کی نفی کی حقیقت کی معرفت بھی موجود ہے کہ الوہیت و عبادت اللہ کے ساتھ خاص ہے اور دوسرے کے لئے اس کا ثبوت محال ہے۔ اس معنی و مفہوم کے علم و معرفت اور یقین و حال کے ساتھ دل میں ثابت و متحقق ہونے کے نتیجہ میں کلمہ گو پر جہنم حرام ہے، اور شارع نے اپنے ہر قول میں جو ثواب و اجر متعین فرمایا ہے وہی پوری اور مکمل بات ہے۔ امام سلیمان بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ کلمہ توحید کو زبان سے کہنا بغیر اس کے معنی کو سمجھے، اور بغیر اس کے تقاضے پر عمل کے اجماعی طور پر نفع بخش نہیں ہے (تیسیر العزیز الحمید) ۔ ابوبکر (رض) نے جب زکاۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کا ارادہ فرمایا، تو عمر (رض) نے مشہور حدیث : أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا : لا إله إلا الله، فمن قالها فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله (متفق علیہ) سے استدلال کرتے ہوئے آپ پر اعتراض کیا، تو ابوبکر (رض) نے ان کو یہ سمجھایا کہ کلمہ توحید کے حق نہ ادا کرنے پر ان سے قتال (جنگ) ممنوع نہیں ہے، کیونکہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے کلمہ کہا تو اس کا مال اور اس کی جان میرے یہاں معصوم و محفوظ ہے الا یہ کہ قتل کو واجب کرنے والا حق یعنی عدل و انصاف کا تقاضا موجود ہو، تو فرمایا کہ زکاۃ مال کا حق ہے، یعنی اس کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کی جائے گی، عمر (رض) اور دوسرے صحابۂ کرام رضوان علیہم اجمعین نے ابوبکر (رض) کے اس فہم حدیث اور استدلال کو قبول کیا اور آپ کے ساتھ مل کر ان لوگوں کے خلاف جنگ کی۔ ابن عمر (رض) کی دوسری متفق علیہ حدیث میں مسلمانوں کے خون اور مال کی حرمت و عصمت کی مزید ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم ربانی ہے، جب تک کہ لوگ کلمہ توحید و رسالت (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کی گواہی نہ دیں، اور جب تک نماز اور اس کی اقامت اور زکاۃ کی ادائیگی نہ کرلیں، اور جب فرائض ادا کرلیں گے، تو ان کے خون و مال کی عصمت و حرمت میرے یہاں متحقق ہوجائے گی، الا یہ کہ اسلام کا حق موجود ہو، یعنی قتل کو واجب کرنے کا سبب اور عدل و انصاف کا تقاضا موجود ہو، اور (عدل کا تقاضا پورا ہونے اور حدود کے نفاذ کے بعد) ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے ۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ دنیاوی سزائیں صرف کلمہ توحید و رسالت کے اقرار سے معاف نہیں ہوسکتی، بلکہ اسلام کے کسی حق کے نہ بجا لانے کی صورت میں بندہ سزا کا مستحق ہوگا، تو اسی طرح سے آخرت میں ان اعمال کے کرنے یا نہ کرنے پر عقوبت و سزا کے استحقاق کا معاملہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ کلمہ توحید کے قائل پر جہنم کی حرمت، اور شفاعت کے ذریعہ جہنم سے باہر نکلنے کی بات کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کلمہ اسلام کی شروط و قیود کو اس کے حقوق و واجبات ادا کرکے پورا کیا، اور اس کی راہ جنت کی رکاوٹیں بھی جاتی رہیں تو اس کے حق میں یہ وعدہ ثابت و متحقق ہوگا۔ آخرت کے احکام سے متعلق وارد احادیث وعید کے سلسلے میں بھی صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر و اطلاق پر رکھا جائے گا، اور ان کو کسی متعین شخص پر فٹ نہیں کیا جائے گا۔ اس مسئلہ کو اس مثال سے مزید سمجھا جائے کہ رسول اکرم ﷺ نے شراب سے متعلق دس افراد پر لعنت فرمائی : شراب کشید کرنے والے پر، شراب کشید کروانے والے پر، اس کو پینے والے پر، اس کو ڈھونے والے پر وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عمر (رض) نے فرمایا : عبداللہ نامی ایک آدمی جو حمار کے لقب سے مشہور تھا، اور وہ رسول اکرم ﷺ کو ہنسایا کرتا تھا، اس آدمی کو رسول اکرم ﷺ نے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے، ایک مرتبہ یہ صحابی رسول آپ ﷺ کے پاس لائے گئے تو دوبارہ انہیں کوڑے لگائے گئے، ایک آدمی نے کہا : اللہ کی اس پر لعنت ہو، اسے کتنی بار شراب پینے کے جرم میں لایا گیا، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم اس پر لعنت نہ بھیجو، اللہ کی قسم ! مجھے اس کے بارے میں یہی معلوم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے اس متعین آدمی پر جس نے بار بار شراب پی تھی، لعن طعن سے منع فرمایا، جبکہ پہلی حدیث میں شرابی پر لعنت بھیجی گئی ہے، اس لئے کہ مطلق لعنت سے مخصوص اور متعین آدمی پر لعنت لازم نہیں، جس کے ساتھ (لعنت نہ لاگو ہونے کے) ایسے موانع ہوں، جو اس کو اس وعید سے دور رکھتے ہوں۔ وعید کی احادیث کو مطلق بیان کرنے، اور اس کو کسی شخص پر محمول نہ کرنے کا عمل ان تمام احادیث میں ضروری ہے جن میں اس کام سے متعلق آخرت میں جہنم کی دھمکی ہے، مثلاً ارشاد نبوی ہے : إذا التقى المسلمان بسيفهما، فالقاتل والمقتول في النار جب دو مسلمان تلوار لے کر آمنے سامنے آ کھڑے ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم کی آگ میں ہیں ۔ ناحق مسلمانوں سے جنگ کی حرمت کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل واجب ہے، اور یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کام کے کرنے والے کو اس وعید کی دھمکی ہے، لیکن بایں ہمہ ہم جنگ جمل اور صفین کے شرکاء کے جہنم میں داخل ہونے کا حکم نہ لگائیں گے، اس لئے کہ ان جنگوں میں شریک لوگوں کے پاس عذر و تاویل موجود ہے، اور ان کے پاس ایسی نیکیاں ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کا انطباق ان پر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان فرمایا : وعید سے متعلق احادیث کے تقاضوں پر عمل اس اعتقاد کے ساتھ واجب ہے کہ اس کام کا ارتکاب کرنے والے کو اس کام کے جرم کی وعید (دھمکی) ہے، لیکن اس وعید کے اس آدمی پر لاگو ہونے کے لئے شروط و قیود کا ہونا، اور رکاوٹوں کا نہ ہونا ضروری ہے ۔ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں : اور یہ جیسا کہ وعید کی نصوص ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : إن الذين يأکلون أموال اليتامى ظلما إنما يأکلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا (سورۃ النساء : ١٠ ) اور وعید کی یہ نصوص بحق ہیں، لیکن متعین آدمی پر اس وعید کے متحقق ہونے کی گواہی نہ دی جائے گی، پس کسی متعین قبلہ والے کے لئے جہنم کی وعید کی گواہی نہ دی جائے گی اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ یہ وعید کسی شرط کے فوت ہوجانے یا کسی رکاوٹ کے موجود ہونے کی وجہ سے اس کو نہ لاحق ہو ۔ اہل علم نے گناہوں کی سزا کے ساقط ہوجانے کے گیارہ اسباب کا ذکر کیا ہے، جن سے وعید کا نفاذ ممنوع اور معطل ہوجاتا ہے : ١ ۔ توحید ٢ ۔ توبہ (یہ متفقہ طور پر وعید کے نفاذ کی مانع ہے) ٣ ۔ استغفار ٤ ۔ نیکیاں (جو برائیوں کو مٹانے والی ہوتی ہے) ٥ ۔ اہل ایمان کا مومن کے لئے دعا جیسے نماز جنازہ۔ ٦ ۔ میت کو ثواب پہنچانے کے لئے کئے جانے والے اچھے کام جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ۔ ٧ ۔ نبی اکرم ﷺ اور دوسرے لوگوں کی قیامت کے دن گنہگاروں کے بارے میں شفاعت۔ ٨ ۔ دنیاوی آلام و مصائب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ خطاؤں کو معاف کرتا ہے۔ ٩ ۔ قبر میں حاصل ہونے والی سختیاں اور فتنے، یہ بھی گناہوں کے لئے کفارہ ہوتے ہیں۔ ١٠ ۔ روز قیامت کی ہولناکیاں، سختیاں اور تکالیف۔ ١١ ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عفو، اور بغیر شفاعت کے اس کی بخشش و مغفرت۔

【60】

ایمان کا بیان۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو جہنم سے نجات دیدے گا، اور وہ امن میں ہوجائیں گے تو وہ اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لیے جو جہنم میں داخل کر دئیے گئے ہوں گے، اپنے رب سے ایسی بحث و تکرار کریں گے ١ ؎ کہ کسی نے دنیا میں اپنے حق کے لیے اپنے ساتھی سے بھی ویسا نہیں کیا ہوگا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، اور حج کرتے تھے، تو نے ان کو جہنم میں داخل کردیا ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ ان میں سے جنہیں تم پہچانتے ہو نکال لو ، وہ مومن ان جہنمیوں کے پاس آئیں گے، اور انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیں گے، آگ ان کی صورتوں کو نہیں کھائے ہوگی، کسی کو آگ نے اس کی آدھی پنڈلیوں تک اور کسی کو ٹخنوں تک پکڑ لیا ہوگا، پھر وہ مومن ان کو جہنم سے نکالیں گے اور عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! جن کو تو نے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان کو نکال لیا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس شخص کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہو اس کو بھی جہنم سے نکال لو، پھر جس کے دل میں آدھا دینار کے برابر ایمان ہو، پھر جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ۔ ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں : جس کو اس پر یقین نہ آئے وہ اس آیت کو پڑھ لے : إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تک حسنة يضاعفها ويؤت من لدنه أجرا عظيما یعنی : بیشک اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنا کردیتا ہے، اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے (سورة النساء : 40) ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإیمان ١٨ (٥٠١٣) ، (تحفة الأشراف : ٤١٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ الإیمان ١٥ (٢٢) ، الرقاق ٥١ (٦٥٦٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨١ (١٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اصرار کے ساتھ سفارش کریں گے۔ ٢ ؎: اس حدیث سے بھی ایمان کی زیادتی اور کمی کا ہونا ظاہر ہوتا ہے، اور جہنم سے نجات ایمان کی زیادتی اور کمی پر منحصر ہے، نیز صالحین کی شفاعت و سفارش پر۔

【61】

ایمان کا بیان۔

جندب بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، اور ہم طاقتور نوجوان تھے، ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کو سیکھا، پھر ہم نے قرآن سیکھا، تو اس سے ہمارا ایمان اور زیادہ (بڑھ) ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٦٤، ومصباح الزجاجة : ٢٣) (صحیح )

【62】

ایمان کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس امت کے دو گروہ ایسے ہوں گے کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں : ایک مرجیہ ١ ؎ اور دوسرا قدریہ (منکرین قدر) ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القدر ١٣ (٢١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٢٢) (ضعیف) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٧٣ ) (اس کی تحسین امام ترمذی نے کی ہے حسن غریب لیکن اس میں تین راوی ضعیف ہیں، محمد بن فضیل میں تشیع ہے، علی بن نزار ضعیف ہیں، اور نزار عکرمہ سے ایسی احادیث روایت کرتے ہیں جو عکرمہ کی نہیں ہوتیں، لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں فرقے (مرجئہ وقدریہ) عقائد میں گمراہی کی وجہ سے اہل سنت کے نزدیک گمراہ فرقوں میں شمار کئے جاتے ہیں ) وضاحت : ١ ؎: مرجئہ ارجاء سے ہے، جس کے معنی تاخیر کے ہیں، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت (گناہ) نقصان دہ نہیں جیسے کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں، ان کے نزدیک ایمان محض دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے، جب کہ اہل سنت کے نزدیک ایمان کے تین ارکان ہیں، دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اقرار کرنا، اور اعضاء وجوارح سے عمل کرنا۔ ٢ ؎: قدریہ جبریہ کے خلاف ہیں، جو اپنے کو مجبور محض کہتے ہیں اور یہ بڑی گمراہی کی بات ہے، اور قدریہ کی نسبت قدر کی طرف ہے، یعنی اللہ کی تقدیر پر جو اس نے قبل مخلوقات مقدر کی، غرض وہ مدعی ہیں کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے، کفر ہو یا معصیت و گناہ اور انہوں نے انکار کیا کہ یہ امور تقدیر الٰہی ہیں، یہ گمراہ فرقہ ہے اور غلطی پر ہے۔ قضا و قدر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہمارے اعمال و افعال اور ہمارے انجام کار کے بارے میں شروع ہی سے علم ہے، اسی نے ہماری قسمتوں کے فیصلے کر رکھے ہیں، اس لئے ہر بری اور بھلی تقدیر کی بات پر ہمارا ایمان ہے، ساتھ ہی ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بااختیار مخلوق پیدا کیا ہے، جسے عقل و شعور کی نعمت سے نوازا ہے اور اس کی ہدایت کے لئے شروع ہی سے انبیاء و رسل بھیجے ہیں اور آخر میں نبی آخر الزماں محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ انسان وحی کی روشنی میں زندگی گزار کر اللہ رب العزت کے یہاں سرخرو ہو۔

【63】

ایمان کا بیان۔

عمر بن الخطاب (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے، اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ ﷺ کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ ﷺ کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا : اے محمد ! اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، اور خانہ کعبہ کا حج کرنا ، اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے کہا : اے محمد ! ایمان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یوم آخرت، اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھو ، اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے کہا : اے محمد ! احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو یقین رکھو کہ وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے ۔ پھر اس نے پوچھا : قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے پوچھ رہے ہو، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ١ ؎۔ پھر اس نے پوچھا : اس کی نشانیاں کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : لونڈی اپنے مالکن کو جنے گی (وکیع راوی حدیث نے کہا : یعنی عجمی عورتیں عرب کو جنیں گی) ٢ ؎ اور تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، فقیر و محتاج بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ بڑی بڑی کوٹھیوں اور محلات کے بنانے میں فخر و مسابقت سے کام لیں گے ۔ راوی کہتے ہیں : پھر عمر (رض) نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ مجھ سے تین دن کے بعد ملے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو وہ شخص کون تھا ؟ ، میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اور بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١ (٨) ، سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٥، ٤٦٩٦، ٤٦٩٧) ، سنن الترمذی/الإیمان ٤ (٢٦١٠) ، سنن النسائی/الإیمان ٥ (٤٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٧ (٥٠) ، تفسیر سورة لقمان ٢ (٤٧٧٧) ، مسند احمد (١ / ٢٧، ٢٨، ٥١، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ : ١ مفتی سے اگر ایسی بات پوچھی جائے جو اسے معلوم نہیں تو لا أدري کہہ دے یعنی میں نہیں جانتا، اور یہ اس کی کسر شان کا سبب نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قیامت کے سلسلہ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا۔ 2 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص عالم کی مجلس میں حاضر ہو اور لوگوں کو کسی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کی حاجت ہو تو وہ عالم سے پوچھ لے تاکہ اس کا جواب سب لوگ سن لیں۔ 3 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کو چاہیے کہ سائل کو نرمی سے سمجھا دے، اور محبت سے بتلا دے تاکہ علمی اور دینی فوائد کا دروازہ بند نہ ہوجائے، اور سائل کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم دین اور مفتی کے ساتھ کمال ادب کا مظاہرہ کرے، اور اس کی مجلس میں وقار اور ادب سے بیٹھے۔ ٢ ؎: لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی : یعنی ملک فتح ہوں گے، اور لونڈیاں مال غنیمت میں کثرت سے حاصل ہوں گی، اور کثرت سے لوگ ان لونڈیوں کے مالک ہوں گے، اور ان لونڈیوں کی ان کے آقا سے اولاد ہوگی اور وہ آزاد ہوں گے، اور وہ اپنی ماؤں کو لونڈیاں جانیں گے، اور بعض روایتوں میں ربتها کی جگہ ربها وارد ہوا ہے۔ ٣ ؎: اس حدیث کو حدیث جبرئیل کہتے ہیں اور یہ ظاہری اور باطنی ساری عبادات اور اخلاص و عمل کی ساری صورتوں کو شامل ہے، اور ہر طرح کے واجبات اور سنن اور معروف و منکر کو محیط ہے۔

【64】

ایمان کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں میں باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! ایمان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اس سے ملاقات اور یوم آخرت پر ایمان رکھو ١ ؎۔ اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، فرض نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو ۔ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو یہ سمجھو کہ وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے ۔ اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے پوچھ رہے ہو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تم کو اس کی نشانیاں بتاؤں گا : جب لونڈی اپنی مالکن کو جنے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتوں پر فخر و مسابقت کریں تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، قیامت کی آمد ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی : إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تکسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس سر زمین میں مرے گا، اللہ ہی علیم (پورے علم والا) اور خبیر (خبر رکھنے والا ہے) (سورة لقمان : 34) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٧ (٥٠) ، تفسیر لقمان ٢ (٤٧٧٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ١ (٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٥ (٤٩٩٦) ، مسند احمد (٢/ ٤٢٦) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤٠٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علماء اہل سنت اور عام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ایمان تین چیزوں سے مرکب ہے : 1 دل سے یقین کرنا، 2 زبان سے اقرار کرنا، 3 کتاب و سنت سے ثابت شدہ فرائض اور اعمال کو اعضاء وجوارح سے بجا لانا، اور جس قدر صالح اعمال زیادہ ہوں گے ایمان بھی زیادہ ہوگا، اور جس قدر اعمال میں کمی ہوگی ایمان میں کمی ہوگی، کتاب و سنت میں اس پر بیشمار دلائل ہیں۔

【65】

ایمان کا بیان۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان دل کی معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائے بدن سے عمل کا نام ہے ۔ ابوالصلت کہتا ہے : یہ سند ایسی ہے کہ اگر دیوانے پر پڑھ دی جائے تو وہ اچھا ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٦، ومصباح الزجاجة : ٢٤) (موضوع) (اس کی سند میں عبدالسلام بن صالح ابو الصّلت الہروی رافضی کذاب اور متہم بالوضع راوی ہے، اس بناء پر یہ حدیث موضوع ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٢٧٠ ، والموضو عات لابن الجوزی : ١ /١٢٨، وتلخیص الموضوعات : ٢٦ ب تحقیق سنن ابی داود/ عبد الرحمن الفریوائی )

【66】

ایمان کا بیان۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی (یا اپنے پڑوسی) کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٧ (١٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٧ (٤٥) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٩ (٢٥١٥) ، سنن النسائی/الإیمان ١٩ (٥٠١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٩، ٣/١٧١، ١٧٢، ١٧٦، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/الرقاق ٢٩ (٢٧٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کامل مومن نہیں ہوسکتا، اس حدیث سے مسلمانوں کی باہمی خیر خواہی کی اہمیت و فضیلت ظاہر ہوئی، اس سنہری اصول پر اگر مسلمان عمل کرنے لگ جائیں تو معاشرے سے لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ فریب وغیرہ بیماریاں خودبخود ختم ہوجائیں گی۔

【67】

ایمان کا بیان۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٧ (١٣) ، ٨ (١٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٦ (٤٤) ، سنن النسائی/الایمان ١٩ (٥٠١٦) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٩ (٢٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧٧، ٢٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ جب تک ساری دنیا کے رسم و رواج اور عادات و رسوم، اور اپنی آل اولاد اور ماں باپ سے زیادہ سنت کی محبت نہ ہو اس وقت تک ایمان کامل نہیں، پھر جتنی اس محبت میں کمی ہوگی اتنی ہی ایمان میں کمی ہوگی۔

【68】

ایمان کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم اس ذات کی ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہوسکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے ! آپس میں سلام کو عام کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٢ (٥٤) ، سنن الترمذی/الاستئذان ١ (٢٦٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٦٩، ١٢٥١٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١٤٢ (٥١٩٣) ، مسند احمد (١/١٦٥، ٢/٣٩١) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٦٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض سلام کرنے ہی سے تم مومن قرار دیے جاؤ گے، اور جنت کے مستحق ہوجاؤ گے، بلکہ مطلب یہ کہ ایمان اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے ساتھ عمل بھی ہوگا، اور سلام اسلام کا ایک شعار اور ایمان کا عملی مظاہرہ ہے، ایمان اور عمل کا اجتماع ہی مومن کو جنت میں لے جائے گا، اس حدیث میں سلام عام کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ مسلمانوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔

【69】

ایمان کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٨ (٤٨) ، الأدب ٤٤ (٧٠٤٤) ، الفتن ٨ (٧٠٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٨ (٦٤) ، سنن النسائی/المحاربة (تحریم الدم) ٢٧ (٤١١٤، ٤١١٥، ٤١١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٣، ٩٢٥١، ٩٢٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٥٢ (١٩٨٣) ، الإیمان ١٥ (٢٦٣٥) ، مسند احمد (١/٣٨٥، ٤١١، ٤١٧، ٤٣٣) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٩٣) (صحیح )

【70】

ایمان کا بیان۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دنیا کو اس حال میں چھوڑا کہ خالص اللہ واحد کی عبادت کرتا رہا، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، نماز قائم کی، اور زکاۃ ادا کی، تو اس کی موت اس حال میں ہوگی کہ اللہ اس سے راضی ہوگا ۔ انس (رض) نے کہا : یہی اللہ کا دین ہے جس کو رسول لے کر آئے، اور اپنے رب کی طرف سے اس کی تبلیغ کی، اس سے پہلے کہ دین میں لوگوں کی باتوں اور طرح طرح کی خواہشوں کی ملاوٹ اور آمیزش ہو۔ اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورة (براءۃ) میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزکاة الآية، یعنی : اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں، اور زکاۃ ادا کریں (سورۃ التوبہ : ٥ ) ۔ انس (رض) نے کہا : یعنی بتوں کو چھوڑ دیں اور ان کی عبادت سے دستبردار ہوجائیں، اور نماز قائم کریں، زکاۃ دیں (تو ان کا راستہ چھوڑ دو ) ۔ اور دوسری آیت میں یہ ہے : فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزکاة فإخوانکم في الدين یعنی : اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں (سورۃ التوبہ : ١١ ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢، ومصباح الزجاجة : ٢٥) (ضعیف) (سند میں ابو جعفر الرازی اور ربیع بن انس ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: پوری آیت اتنی ہی ہے جو اوپر گذری، اللہ تعالیٰ اس میں مشرکوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ توبہ کے بعد نماز و زکاۃ ادا کریں تو تمہارے بھائی ہیں، اور خلاصہ حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو توحید سکھانے کے لئے بھیجا ہے، اور دین کا دارومدار توحید و اخلاص پر ہے، اور نماز و زکاۃ ظاہری اعمال صالحہ میں سب سے اہم اور بنیادی رکن ہیں۔ اس سند سے ربیع بن انس (رح) سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔

【71】

ایمان کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٩) ، ٤٠ (١٤٥٧) ، المرتدین ٣ (٦٩٢٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، سنن ابی داود/الزکاة ١ (١٥٥٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ١ (٢٦٠٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٣ (٢٤٤٢) ، المحاربة ١ (٣٩٨٣) ، مسند احمد (٢/٥٢٨) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٩٢٧) (صحیح متواتر) (اس کی سند حسن ہے، لیکن اصل حدیث متواتر ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس سے اسلام کے چار بنیادی ارکان معلوم ہوئے : ١ ۔ توحید باری تعالیٰ ، ٢ ۔ رسالت محمدیہ کا یقین و اقرار، ٣ ۔ اقامت نماز، ٤ ۔ زکاۃ کی ادائیگی، یہ یاد رہے کہ دوسری صحیح حدیث : بني الإسلام على خمس میں اسلام کے پانچویں رکن روزہ کا بھی ذکر ہے۔

【72】

ایمان کا بیان۔

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے لوگوں سے قتال (لڑنے) کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٤٠، ومصباح الزجاجة : ٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨، ٥ ٢٤٥) (صحیح متواتر) (اس کی سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے، بلکہ اصل حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو : مجمع الزوائد : ١ / ٢٤ )

【73】

ایمان کا بیان۔

ابن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں دو قسم کے لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں : ایک مرجئہ اور دوسرے قدریہ (منکرین قدر) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٨، ومصباح الزجاجة : ٢٧) (ضعیف) (اس کی سند میں نزار بن حیان ضعیف راوی ہیں، اور عکرمہ سے ایسی روایت کرتے ہیں، جو ان کی نہیں ہوتی، اور عبدالرحمن محمدا للیثی مجہول ہیں )

【74】

ایمان کا بیان۔

ابوہریرہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا، اور گھٹتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤١١، ١٤٣٥٢) (ضعیف جدًا) (سند میں عبد الوہاب بن مجاہد متروک الحدیث راوی ہے، لیکن سلف صالحین کے ایمان کی زیادتی اور نقصان پر بکثر ت اقوال ہیں، اور آیات کریمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، نیز اس باب میں بعض مرفوع روایت مروی ہے، جو صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١١٢٣ )

【75】

ایمان کا بیان۔

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٠) (ضعیف) (سند میں حارث کو شک ہے کہ انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے، اس لئے اس سے انقطاع سند کا اشارہ ملتا ہے )

【76】

تقدیر کے بیان میں۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ جو صادق و مصدوق (یعنی جو خود سچے ہیں اور سچے مانے گئے ہیں) نے بیان کیا کہ پیدائش اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفہ خلقت ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار باتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتہ سے کہتا ہے : اس کا عمل، اس کی مدت عمر، اس کا رزق، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی جنت والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر اس کا مقدر غالب آجاتا ہے (یعنی لکھی ہوئی تقدیر غالب آجاتی ہے) ، اور وہ جہنم والوں کا عمل کر بیٹھتا ہے، اور اس میں داخل ہوجاتا ہے، اور تم میں سے کوئی جہنم والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، کہ اس پر لکھی ہوئی تقدیر غالب آجاتی ہے، اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے، اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢٠٨) ، الانبیاء ١ (٣٣٣٢) ، القدر ١ (٦٥٩٤) ، التوحید ٢٨ (٧٤٥٤) ، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٣) ، سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٧٠٨) ، سنن الترمذی/القدر ٤ (٢١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٢، ٤١٤، ٤٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل، اجل (عمر) رزق اور سعادت و شقاوت (خوش نصیبی، اور بدنصیبی) یہ سب تقدیر سے ہے، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے حق میں پہلے ہی لکھ دیا ہے، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس لئے ہر آدمی کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت و اطاعت رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کرکے تقدیر کو اپنے حق میں مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وأن ليس للإنسان إلا ما سعى۔

【77】

تقدیر کے بیان میں۔

عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے، اور مجھے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں یہ شبہات میرے دین اور میرے معاملے کو خراب نہ کردیں، چناچہ میں ابی بن کعب (رض) کے پاس آیا، اور عرض کیا : ابوالمنذر ! میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات وارد ہوئے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا دین اور میرا معاملہ خراب نہ ہوجائے، لہٰذا آپ اس سلسلہ میں مجھ سے کچھ بیان کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کچھ فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے زیادہ بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو (یا کہا : احد پہاڑ کے برابر مال ہو) اور تم اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو ، تو یہ اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک کہ تم تقدیر پہ ایمان نہ لاؤ، تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا وہ تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تمہیں نہیں پہنچا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا ١ ؎، اور اگر تم اس اعتقاد کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے، اور کوئی حرج نہیں کہ تم میرے بھائی عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں : میں عبداللہ (رض) کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا، تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ابی (رض) نے بتایا تھا، اور مجھ سے کہا : کوئی مضائقہ نہیں کہ تم حذیفہ (رض) کے پاس جاؤ۔ چناچہ میں حذیفہ (رض) کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ان دونوں (ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے بتایا تھا، اور انہوں نے کہا : تم زید بن ثابت (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے بھی پوچھ لو۔ چناچہ میں زید بن ثابت (رض) کے پاس آیا، اور ان سے بھی پوچھا، تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد کے برابر سونا یا احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، اور تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس وقت تک تمہاری جانب سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہ ہوگا جب تک کہ تم پوری تقدیر پہ کلی طور پر ایمان نہ لاؤ، اور تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا ہے تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تم سے چوک گیا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا، اور اگر تم اس عقیدہ کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٢، ٣٧٢٦، ٩٣٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٥، ١٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں ایمان کے مزہ اور اس کی حلاوت و شیرینی کا ذکر ہے جو محسوس اشیاء کے مزہ کی طرح نہیں ہے، دنیاوی کھانے پینے کا ایک مزہ ہوتا ہے، دوسری چیز کھانے کے بعد پہلی چیز کا مزہ جاتا رہتا ہے، لیکن ایمان کی حلاوت تا دیر باقی رہتی ہے، حتی کہ آدمی کبھی خلوص دل، حضور قلب اور خشوع و خضوع کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اس کی حلاوت اسے مدتوں محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ایمانی حلاوت اور مزہ کا ادراک صرف اسی کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے بہرہ ور کیا ہو۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کر رکھا ہے، تقدیر کو اصابت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ تقدیر کا لکھا ہو کر رہے گا، تو جو کچھ تقدیر تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بندہ کے حق میں لکھ دی ہے وہ اس کو مل کر رہے گی، مقدر کو ٹالنے کے اسباب اختیار کرنے کے بعد بھی وہ مل کر رہے گا، انسان سے وہ خطا نہیں کرے گا۔ ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم کو جو کچھ بھی پہنچ گیا ہے اس کے بارے میں یہ نہ سوچو کہ وہ تم سے خطا کرنے والی چیز ہے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسے ایسے کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، اس لئے کہ اس وقت تم جس حالت سے دور چار ہوئے اس کا ٹلنا ناممکن ہے، تو تمہارا ہر اندازہ اور ہر تدبیر اس تقدیر کے وقوع پذیر ہونے میں غیر موثر ہے، حدیث کی شرح دونوں معنوں میں صحیح ہے، پس اللہ تعالیٰ نے بندہ کے حق میں جو کچھ مقدر کر رکھا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا، اس کا خطا کرجانا ناممکن ہے، اس بات پر ایمان کے نتیجہ میں مومن ایمان کا مزہ چکھے گا، اس لئے کہ اس ایمان کی موجودگی میں آدمی کو اس بات کا علم اور اس پر اطمینان ہوگا کہ مقدر کی بات لابدی اور ضروری طور پر واقع ہوگی، اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی اپنے بچوں کو لے کر کسی تفریح گاہ میں سیر و تفریح کے لئے جاتا ہے، اور اس کا بچہ وہاں گہرے پانی میں ڈوب کر مرجاتا ہے، تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر وہ سیر کے لئے نہ نکلا ہوتا تو وہ بچہ نہ مرتا، اس لئے کہ جو کچھ ہوا یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا، اور تقدیر کے مطابق لازمی طور پر ہوا جس کو روکا نہیں جاسکتا تھا، تو جو کچھ ہونے والی چیز تھی اس نے خطا نہیں کی، ایسی صورت میں انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اس صورت حال پر اللہ کے فیصلہ پر صبر کرتا ہے بلکہ اس پر راضی ہوتا ہے، اور اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں تھی، اور دل میں ہر طرح کے اٹھتے خیالات اور اندازے سب شیطانی وساوس کے قبیل سے ہیں، پس آدمی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوتا، کیونکہ لو شیطان کی دخل اندازی کا راستہ کھول دیتا ہے، اس معنی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے : ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسکم إلا في کتاب من قبل أن نبرأها إن ذلک على الله يسير (٢٢) لكيلا تأسوا على ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم والله لا يحب کل مختال فخور یعنی : نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے، تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہوجایا کرو، اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ (سورۃ الحدید : ٢٢ -٢٣) آدمی اگر تقدیر پر یقین کرے تو مصائب و حوادث پر اس کو اطمینان قلب ہوگا، اور وہ اس پر صبر کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوگا، اور اسے ایمان کی حلاوت کا احساس ہوگا۔ حدیث کا دوسرا ٹکڑا : وما أخطأك لم يكن يصيبك پہلے فقرے ہی کے معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو تقدیر میں نہ ہونا لکھ دیا ہے، وہ کبھی واقع نہیں ہوسکتی، مثلاً اگر ایک آدمی نے کسی تجارت گاہ کا رخ کیا، لیکن وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ بازار بند ہوگیا، تو اس کو کہا جائے گا کہ یہ تجارتی فائدہ جو تم کو نہ ملا، اسے تم کو ہرگز ہرگز نہ ملنا تھا چاہے تم اس کے لئے جتنا بھی جتن اور کوشش کرتے، یا ہم یہ کہیں کہ یہ تم کو حاصل ہونے والا نہ تھا اس لئے کہ معاملہ اللہ کے قضا و قدر کے مطابق طے ہونا تھا، آدمی کو اس عقیدہ کا تجربہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اس کے بعد اس کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہوا یا نہیں۔ ٢ ؎: سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ انسان تقدیر پر ایمان رکھے، اور شیطانی وسوسوں سے بچے، اور تقدیر کے منکروں سے میل جول نہ رکھے بلکہ ان سے دور رہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے اچھے اعمال بغیر ایمان کے ہرگز قبول نہیں ہوتے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان اس قضا و قدر کے اسلامی عقیدہ کے سوا کسی اور عقیدہ پر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا، مراد اس سے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا نہیں ہے، جیسے کافروں کے لئے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے، اس لئے کہ اہل قبلہ اپنے گناہوں کی سزا میں عذاب پانے کے بعد اگر وہ موحد ہیں تو جہنم سے نکالے جائیں گے۔

【78】

تقدیر کے بیان میں۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ ﷺ نے اس سے زمین کو کریدا، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا : جنت و جہنم میں ہر شخص کا ٹھکانہ لکھ دیا گیا ہے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اس پر بھروسہ نہ کرلیں (اور عمل چھوڑ دیں) ، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، عمل کرو، اور صرف لکھی تقدیر پر بھروسہ نہ کر کے بیٹھو، اس لیے کہ ہر ایک کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : فأما من أعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى وأما من بخل واستغنى وکذب بالحسنى فسنيسره للعسرى، یعنی : جس نے اللہ کی راہ میں دیا اپنے رب سے ڈرا، اور اچھی بات کی تصدیق کرتا رہا، تو ہم بھی اس پر سہولت کا راستہ آسان کردیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی، لاپرواہی برتی اور اچھی بات کو جھٹلایا تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کردیں گے (سورة الليل : 5-10) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٢ (١٣٦٢) ، تفسیر القرآن ٩٢ (٤٩٤٥) ، الأدب ١٢٠ (٦٢١٧) ، القدر ٤ (٦٦٠٥) ، التوحید ٥٤ (٧٥٥٢) ، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٧) ، سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٤) ، سنن الترمذی/القدر ٣ (٢١٣٦) ، التفسیر ٨٠ (٣٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٢، ١٢٩، ١٣، ١٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں ان شیطانی وسوسوں کا جواب ہے جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں آتے رہتے ہیں کہ جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو اب عمل کیونکر کریں ؟ لیکن نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمل کرو، تقدیر پر بھروسہ کر کے بیٹھ نہ جاؤ، کیونکہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے ، اس لئے نیک عمل کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہی جنت میں جانے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق بننے کا ذریعہ ہے۔

【79】

تقدیر کے بیان میں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے ١ ؎، دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو : کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو : جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ اگر مگر شیطان کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر ٨ (٢٦٦٤) ، سنن النسائی/ في الیوم واللیلة (٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٣٦٦، ٣٧) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤١٦٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ عبادت کی ادائیگی اور فرائض و سنن، اور دعوت و تبلیغ اور معاشرتی خدمت وغیرہ امور کے قیام میں کمزور مومن سے زیادہ مستعد اور توانا ہوتا ہے۔ ٢ ؎: یعنی اگر مگر سے شیطان کو گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔

【80】

تقدیر کے بیان میں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدم و موسیٰ (علیہا السلام) میں مناظرہ ہوا، موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) سے کہا : اے آدم ! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں ناکام و نامراد بنادیا، اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم (علیہ السلام) نے ان سے کہا : اے موسیٰ ! اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کیا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا !، نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا : چناچہ آدم موسیٰ پر غالب آگئے، آدم موسیٰ پر غالب آگئے، آدم موسیٰ پر غالب آگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التفسیر سورة طہ ١ (٤٧٣٦) ، القدر ١١ (٦٦١٤) ، صحیح مسلم/القدر ٢ (٢٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٧٠١) ، سنن الترمذی/القدر ٢ (٢١٣٥) ، موطا امام مالک/القدر ١ (١) ، مسند احمد (٢/٢٤٨، ٢٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے اور ان سے جیت گئے یعنی انہیں اس بات کا قائل کرلیا کہ بندہ اپنے افعال میں خود مختار نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس کام کو اس کے لئے مقدر کردیا ہے اس کے نہ کرنے پر وہ قادر نہیں، لہذا جو کچھ انہوں نے کیا اس پر انہیں ملامت کرنا درست نہیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ تم نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنے برس پہلے تورات لکھی ؟ انہوں نے کہا : چالیس برس، پھر آدم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم نے اس میں پڑھا ہے : وعصى آدم ربه فغوى یعنی آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو راہ بھول گئے ، انہوں نے کہا : ہاں، آدم (علیہ السلام) نے فرمایا : پھر بھلا تم مجھے کیا ملامت کرتے ہو ؟ باقی وہی مضمون ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) جیت گئے، اور یہ تکرار تاکید کے لئے تھی تاکہ بخوبی یہ بات سمجھ لی جائے کہ آدم (علیہ السلام) مستقل فاعل نہ تھے کہ فعل و ترک کا اختیار کامل رکھتے ہوں، بلکہ جو تقدیر الٰہی تھی اس کا ان سے وقوع ہوا، اور اللہ کی مرضی و مشیت کا ہونا ضروری تھا، گویا کہ آدم (علیہ السلام) نے یہ کہا کہ پھر تم اس علم سابق سے جو بذریعہ تورات تمہیں حاصل ہوچکا ہے کیوں غافل ہوتے ہو، اور صرف میرے کسب (یعنی فعل اور کام) کو یاد کرتے ہو، جو صرف سبب تھا، اور اصل سے غفلت کرتے ہو جو تقدیر الٰہی تھی اور تم جیسے منتخب اور پسندیدہ اور اسرار و رموز الٰہی کے واقف کار سے یہ بات نہایت بعید ہے، اور ان دونوں نبیوں میں یہ گفتگو عالم تکلیف و اسباب میں نہیں ہوئی کہ یہاں وسائط و اکتساب سے قطع نظر اور وسائل اور مواصلات سے چشم پوشی جائز نہیں بلکہ عالم علوی میں ہوئی جو اہل تقوی کی ارواح کے اکٹھا ہونے کی جگہ ہے، اور مکلف اس وقت تک ملامت کا مستحق ہوگا جب وہ عہد تکلیف و مسئولیت میں ہو تو اس پر ملامت امر معروف میں داخل ہے، اور معاصی سے ممانعت کا سبب ہے، اور دوسروں کے لئے عبرت اور موعظت کا سبب ہے، اور جب آدمی تکلیف و مسئولیت کے مقام سے نکل گیا تو اب وہ ملامت کا مستحق نہ رہا بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو چیز مقدر کردی تھی اس کا ظہور ہوا، اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب آدم (علیہ السلام) تائب ہوچکے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تھی، اور تائب ملامت کے لائق نہیں ہوتا، مقصد یہ ہے کہ اس واقعہ سے فساق و فجار اپنے فسق و فجور اور بد اعمالیوں پر استدلال نہیں کرسکتے۔

【81】

تقدیر کے بیان میں۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص چار چیزوں پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہوسکتا : اللہ واحد پر جس کا کوئی شریک نہیں، میرے اللہ کے رسول ہونے پر، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر، اور تقدیر پر ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القدر ١٠ (٢١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٧، ١٣٣) (صحیح )

【82】

تقدیر کے بیان میں۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ انصار کے ایک بچے کے جنازے میں بلائے گئے، تو میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس بچہ کے لیے مبارک باد ہو، وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ تو اس نے کوئی برائی کی اور نہ ہی برائی کرنے کا وقت پایا، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ بات یوں نہیں ہے، بلکہ اللہ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے، اور جہنم کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر (٢٦٦٢) ، سنن ابی داود/السنة ١٨ (٤٧١٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٨ (١٩٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤١، ٢٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ام المؤمنین عائشہ (رض) کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہ کیا اس لئے یہ تو یقینا جنتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس یقین کی تردید فرمائی کہ بلا دلیل کسی کو جنتی کہنا صحیح نہیں، جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کردیا ہے، اور وہ ہمیں معلوم نہیں تو ہم کسی کو حتمی اور یقینی طور پر جنتی یا جہنمی کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ حدیث ایک دوسری حدیث سے معارض معلوم ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان بچے جو بچپن ہی میں مرجائیں گے اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، نیز علماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کو جنتی یا جہنمی کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے روکنا مقصود تھا، بعض نے کہا : یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ کو بتایا نہیں گیا تھا کہ مسلم بچے جنتی ہیں۔

【83】

تقدیر کے بیان میں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مشرکین قریش نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ سے تقدیر کے سلسلے میں جھگڑنے لگے، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی :يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر إنا کل شيء خلقناه بقدر یعنی : جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا : جہنم کی آگ لگنے کے مزے چکھو، بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے پر پیدا کیا ہے (سورۃ القمر : ٤٩ ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر ٤ (٢٦٥٦) ، سنن الترمذی/القدر ١٩ (٢١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٨٩) ، مسند احمد (٢/٤٤٤، ٤٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بغوی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جو چیز ہم نے پیدا کی ہے وہ تقدیر سے ہے یعنی وہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے، حسن بصری نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہر چیز کا اندازہ کیا کہ اس کے موافق وہ پیدا ہوتی ہے، اور عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر لکھی ، اور فرمایا : رب العالمین کا عرش اس وقت پانی پر تھا ، اور عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز قدر سے ہے یہاں تک کہ نادانی و دانائی بھی ، فتح البیان میں ہے کہ اثبات قدر سے جو بعضوں کے خیال میں آتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا مجبور و مقہور کردینا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم قدیم کی خبر ہے کہ بندے کیا کمائیں گے، اور ان کے افعال کا صدور خیر ہو یا شر اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔

【84】

تقدیر کے بیان میں۔

عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے تقدیر کے سلسلے میں کچھ ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو تقدیر کے سلسلے میں ذرا بھی بحث کرے گا اس سے قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال کیا جائے گا، اور جو اس سلسلہ میں کچھ نہ کہے تو اس سے سوال نہیں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٦٥، ومصباح الزجاجة : ٢٨) (ضعیف) (سند میں واقع دو راوی یحییٰ بن عثمان منکر الحدیث اور یحییٰ بن عبد اللہ لین الحدیث ہیں، ملاحظہ : المشکاة : ١١٤ ) ابوالحسن القطان نے کہا : ہمیں خازم بن یحیٰی نے انہیں عبدالملک بن سنان نے انہیں یحیٰی بن عثمان نے اسی (مالک بن اسماعیل) کی مثل روایت بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (سبب ضعف کے لئے ملاحظہ ہو : اس سے پہلے کی حدیث )

【85】

تقدیر کے بیان میں۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس آئے، وہ لوگ اس وقت تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے، آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سخت غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگیا، گویا کہ آپ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا تم اسی لیے پیدا کیے گئے ہو ؟ تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض حصہ سے ٹکرا رہے ہو، اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوئی ہیں ١ ؎۔ عبداللہ بن عمرو (رض) کا بیان ہے : میں نے کبھی بھی آپ ﷺ کی مجلس سے غیر حاضر ہونے کی ایسی خواہش اپنے جی میں نہیں کی جیسی اس مجلس سے غیر حاضر رہنے کی خواہش کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٤، ومصباح الزجاجة : ٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٩٦، ١٧٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرنی چاہیے، جتنی اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے اسی پر ایمان کافی ہے، اور اس کے بارے میں زیادہ غور و خوض اور قیل و قال، باطل میں قیل و قال کرنا ہے، اور اس طرح باقی امور جس میں شارع نے اجمال و اختصار سے کام لیا ہے اس کی شرح و تفصیل کی بھی ہمیں ضرورت نہیں۔

【86】

تقدیر کے بیان میں۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹوں کو کھجلی ہوجاتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٠، مصباح الزجاجة : ٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤، ٢٢٢) (صحیح) (سند میں یحییٰ بن أبی حیہ ابو جناب الکلبی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے، صرف ذلکم القدر کا لفظ شاہد نہ ملنے کی بناء پر ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٨٢ ، و الضعیفة : ٤٨٠٨ ) وضاحت : ١ ؎: چھوا چھوت کی بیماری کو عربی میں عدوى: کہتے ہیں یعنی ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جائے، اور زمانہ جاہلیت میں عربوں کا عقیدہ تھا کہ کھجلی وغیرہ بعض امراض ایک دوسرے کو لگ جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس عقیدہ کو باطل قرار دیا، اور فرمایا کہ یہ تقدیر سے ہے، جیسے پہلے اونٹ کو کسی کی کھجلی نہیں لگی، بلکہ یہ تقدیر الہٰی ہے، اسی طرح اور اونٹوں کی کھجلی بھی ہے۔ طيرة: بدفالی اور بدشگونی کو کہتے ہیں جیسے عورتیں کہتی ہیں کہ یہ کپڑا میں نے کس منحوس کے قدم سے لگایا کہ تمام ہی نہیں ہوتا، یا گھر سے نکلے اور بلی سامنے آگئی، یا کسی نے چھینک دیا تو بیٹھ گئے، یا کوئی چڑیا آگے سے گزر گئی تو اب اگر جائیں گے تو کام نہ ہوگا، اس اعتقاد کو بھی نبی اکرم ﷺ نے باطل فرما دیا، اور اس کو شرک قرار دیا۔ هامة: ایک معروف و مشہور جانور ہے جسے الو کہتے ہیں، عرب اس سے بدفالی لیتے تھے، اور کفار و مشرکین کا آج بھی عقیدہ ہے کہ وہ جہاں بولتا ہے وہ گھر ویران اور برباد ہوجاتا ہے، اور بعض عربوں نے سمجھ رکھا تھا کہ میت کی ہڈیاں سڑ کر الو بن جاتی ہیں، یہ تفسیر اکثر علماء نے کی ہے، غرض جاہل لوگ جو ان چیزوں کو خیر و شر کا مصدر و منبع جانتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے اس اعتقاد کا رد و ابطال کر کے خیر و شر کا مصدر تقدیر الٰہی کو بتایا، اور مسلمان کو یہی عقیدہ رکھنا چاہیے کہ نفع و نقصان اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔

【87】

تقدیر کے بیان میں۔

عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ عدی بن حاتم (رض) جب کوفہ آئے تو ہم اہل کوفہ کے چند فقہاء کے ساتھ ان کے پاس گئے، اور ہم نے ان سے کہا : آپ ہم سے کوئی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، تو وہ کہنے لگے : میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا : اے عدی بن حاتم ! اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے ، میں نے پوچھا : اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور ساری تقدیر پر ایمان لاؤ، چاہے اچھی ہو، بری ہو، میٹھی ہو، کڑوی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٤، مصباح الزجاجة : ٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٧، ٣٧٨) (ضعیف جدًا) (سند میں عبد الاعلیٰ منکر الحدیث بلکہ تقریباً متروک الحدیث راوی ہیں، ملاحظہ ہو : ظلال الجنة : ١٣٥ )

【88】

تقدیر کے بیان میں۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دل کی مثال اس پر کی طرح ہے جسے ہوائیں میدان میں الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٤، مصباح الزجاجة : ٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٨، ٤١٩) (صحیح) (سند میں راوی یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت سعید بن ایاس الجریری نے کی ہے، مسند احمد : ٤ /٤١٩، والسنة لابن أبی عاصم : ٢٣٤ ، نیز مسند أحمد : ٤ /٤٠٨ نے عاصم الاحول عن أبی کبشہ عن ابی موسیٰ سے بھی روایت کی ہے، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو خیر و شر دل میں آتا ہے سب تقدیر الہٰی سے ہے۔

【89】

تقدیر کے بیان میں۔

جابر (رض) کہتے ہیں : انصار کا ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میرے پاس ایک لونڈی ہے میں اس سے عزل کرتا ہوں ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : جو اس کے مقدر میں ہوگا وہ اس کے پاس آ کر رہے گا ، کچھ دنوں کے بعد وہ آدمی حاضر ہوا اور کہا : لونڈی حاملہ ہوگئی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٤٩، ومصباح الزجاجة : ٣٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٣٩) ، سنن ابی داود/النکاح ٤٩ (٢١٧٣) ، مسند احمد (٣/٣١٣، ٣٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عضو تناسل کو عورت کی شرمگاہ سے باہر نکال کر منی گرانے کا نام عزل ہے۔ ٢ ؎: اس سے بھی معلوم ہوا کہ لڑکا اور لڑکی کی پیدائش اللہ کی تقدیر سے ہوتی ہے، کسی پیر و فقیر اور ولی و مرشد کی نذر و نیاز اور منت ماننے سے نہیں۔

【90】

تقدیر کے بیان میں۔

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز نہیں بڑھاتی ١ ؎، اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں بدلتی ہے ٢ ؎، اور آدمی گناہوں کے ارتکاب کے سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٣، ومصباح الزجاجة : ٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠٢، ٥/٢٧٧) (حسن) (حدیث کے آخری ٹکڑے : وإن الرجل ليحرم الرزق بخطيئة يعملها یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة : ١٥٤ ، یہ حدیث آگے ( ٤٠٢٢ ) نمبر پر آرہی ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نیکی سے عمر میں برکت ہوتی ہے، اور وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہتی ہے، یا نیکی کا ثواب مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : والباقيات الصالحات خير عند ربک ثوابا وخير أملا اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ازروئے ثواب اور آئندہ کی اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں (سورۃ الکہف : ٤٦ ) تو گویا عمر بڑھ گئی یا لوح محفوظ میں جو عمر لکھی تھی اس سے زیادہ ہوجاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يمحو الله ما يشاء ويثبت یعنی : اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے اور جو چاہے ثابت رکھے (سورۃ الرعد : ٣٩ ) ، یا ملک الموت نے جو عمر اس کی معلوم کی تھی اس سے بڑھ جاتی ہے، اگرچہ علم الہی میں جو تھی وہی رہتی ہے، اس لئے کہ علم الہی میں موجود چیز کا اس سے پیچھے رہ جانا محال ہے۔ ٢ ؎: تقدیر کو دعا کے سوا ... الخ یعنی مصائب اور بلیات جن سے آدمی ڈرتا ہے دعا سے دور ہوجاتی ہیں، اور مجازاً ان بلاؤں کو تقدیر فرمایا، دعا سے جو مصیبت تقدیر میں لکھی ہے آتی ہے مگر سہل ہوجاتی ہے، اور صبر کی توفیق عنایت ہوتی ہے، اس سے وہ آسان ہوجاتی ہے تو گویا وہ مصیب لوٹ گئی۔

【91】

تقدیر کے بیان میں۔

سراقہ بن جعشم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ اعمال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں آیا اس تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں جس کو لکھ کر قلم خشک ہوچکا ہے، اور جو جاری ہوچکی ہے ؟ یا ایسے امر کے مطابق ہوتے ہیں جو آگے ہونے والا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ اسی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں جس کو قلم لکھ کر خشک ہوچکا ہے، اور جو جاری ہوچکی ہے، اور پھر ایک شخص کے لیے اس کی تقدیر کے مطابق وہی کام آسان کردیا جاتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨١٩، ومصباح الزجاجة : ٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٩٧) (صحیح) (اس حدیث میں مجاہد اور سراقہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن ابن عمر (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : السنة لابن ابی عاصم : ١٦٩ )

【92】

تقدیر کے بیان میں۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تقدیر کے جھٹلانے والے ہیں، اگر وہ بیمار پڑجائیں تو تم ان کی عیادت نہ کرو، اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں شریک نہ ہو، اور اگر ان سے ملو تو انہیں سلام نہ کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٨٧٩، ومصباح الزجاجة : ٣٦) (حسن) (سند میں بقیہ بن الولید اور ابو الزبیر مدلس راوی ہیں، اور دونوں نے عنعنہ سے روایت کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، اور وإن لقيتموهم فلا تسلموا عليهم کا جملہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : السنة لا بن أبی عاصم : ٣٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ نے تقدیر کے منکرین کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ وہ دو خالق کے قائل ہیں : ایک خیر کا خالق ہے، اس کا نام یزدان ہے، اور دوسرا شر کا خالق ہے، اس کا نام اہرمن ہے، اور قدریہ خالق سے خلق کے اختیار کو سلب کرتے ہیں اور خلق کو ہر مخلوق کے لئے ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ شر کا خالق نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ پر اصلح (زیادہ بہتر کام) واجب ہے، اور اسی لئے علمائے اہل سنت نے کہا ہے کہ معتزلہ مجوس سے بدتر ہیں اس لئے کہ وہ دو ہی خالق اور الٰہ کے قائل ہیں اور معتزلہ بہت سے خالقوں کے قائل ہیں کہ وہ ہر انسان کو اپنے افعال کا خالق قرار دیتے ہیں۔

【93】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگاہ رہو ! میں ہر خلیل (جگری دوست) کی دلی دوستی سے بری ہوں، اور اگر میں کسی کو خلیل (جگری دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا، بیشک تمہارا یہ ساتھی اللہ کا خلیل (مخلص دوست ہے) ١ ؎۔ وکیع کہتے ہیں : آپ ﷺ نے ساتھی سے اپنے آپ کو مراد لیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١ (٢٣٨٣) ، سنن الترمذی/المنا قب ١٦ (٣٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٧، ٣٨٩، ٣٨٩، ٤٣٣، ٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خلیل ایسا جگری دوست ہے کہ جس کے سوا دل میں کسی کی جگہ نہ رہے، اس لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا خلیل (جگری دوست) میرا اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ میرے دل میں اس کی محبت نے ذرہ برابر جگہ نہ چھوڑی کہ اب کسی کی محبت دل میں آسکے، اور اگر ذرا بھی دل میں گنجائش ہوتی تو میں ابوبکر کو اس میں اس خصوصی دوستی والے جذبہ میں جگہ دیتا، اس حدیث سے ابوبکر (رض) کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی، اور معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ رسول اللہ ﷺ کے جگری دوستی اور خصوصی محبت کے قابل اور مستحق ہیں۔

【94】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے کسی بھی مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر (رض) کے مال نے فائدہ پہنچایا ۔ ابوہریرہ کہتے ہیں : یہ سن کر ابوبکر (رض) رونے لگے اور کہا : اللہ کے رسول ! میں اور میرا مال سب صرف آپ ہی کا ہے، اے اللہ کے رسول ! ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٨، ومصباح الزجاجة : ٣٨) ، وأخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ١٦ (٣٦٥٥) ، مسند احمد (٢/٢٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حقیقت میں ابوبکر (رض) کے مال و دولت اور جاہ و شخصیت سے اسلام کو بڑی تقویت ملی، چناچہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انہوں نے ابتدائے اسلام میں اور مسلمانوں کی فقر و مسکنت اور قلت تعداد کی حالت میں چالیس ہزار درہم مسلمانوں کی تائید و تقویت میں خرچ کئے، اور قریش سے سات غلاموں کو آزاد کرایا، بلال اور عامر بن فہیرہ (رض) انہی میں سے تھے، اور آپ کے والد ابو قحافہ (رض) اس پر معترض ہوئے تو آپ نے کہا کہ میں اللہ عز وجل کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں اور آیت : فأما من أعطى واتقى (٥) وصدق بالحسنى (٦) (سورة الليل : 5-6) اسی باب میں نازل ہوئی۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسلام کی خدمت، کتاب و سنت کی نشر و اشاعت اور اہل علم و دین کی تائید و تقویت میں حصہ لے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان پرور زندگی میں ہمارے لئے بڑی عبرت اور موعظت کا سامان ہے۔

【95】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے ادھیڑ عمر والے جنتیوں کے سردار ہوں گے، علی ! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ المنا قب ١٦ (٣٦٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ادھیڑ عمر والے جنتیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ادھیڑ عمر ہو کر مرے ہیں کیونکہ جنت میں کوئی ادھیڑ عمر کا نہیں ہوگا سب جوان ہوں گے، كهول جمع ہے كهل کی، اور كهل مردوں میں وہ ہے جس کی عمر تیس سے متجاوز ہوگئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک، اور اس سے مراد یہ ہے کہ جو مسلمان اس عمر تک پہنچ کر انتقال کر گئے ہیں یہ دونوں یعنی ابوبکر و عمر (رض) جنت میں ان کے سردار ہوں گے، یا کہولت سے کنایہ کیا عقل و شعور اور فہم و فراست کی پختگی پر یعنی جو دانا اور فہمیدہ لوگ جنت میں ہوں گے ابوبکر و عمر (رض) ان کے سردار ہوں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر نبی، نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا اور انبیاء کے بعد شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) سب سے افضل ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر نبی معصوم نہیں ہوسکتا اور معلوم ہوا کہ نبی کے بعد خلافت کے مستحق یہی ہیں اس لئے کہ جب جنت میں یہ سردار ہوں گے تو دنیا کی سرداری میں کیا شک رہا، مگر واقع میں نبی اکرم ﷺ نے انہیں جنتیوں کا سردار فرمایا ہے، جہنمیوں کا نہیں، اس لئے گمراہ اور جاہل ان کی سرداری کا انکار کرتے ہیں۔

【96】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلند درجے والوں کو (جنت میں) نیچے درجہ والے دیکھیں گے جس طرح چمکتا ہوا ستارہ آسمان کی بلندیوں میں دیکھا جاتا ہے، اور ابوبکرو عمر بھی انہیں میں سے ہیں، اور ان میں سب سے فائق و برتر ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المنا قب ١٦ (٣٦٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٠٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحروف والقراء ات ١ (٣٩٨٧) ، مسند احمد (٣/٢٧، ٧٢، ٩٣، ٩٨) (صحیح) (اس سند میں عطیة العوفی ضعیف ہیں، امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے، اور سنن ابی داود کا سیاق اس سے مختلف ہے ( ٣٩٧٨ ) ، شیخ البانی نے شواہد کی بناء پر اس کی تصحیح کی ہے، صحیح ابن ماجہ : ٩٦ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کے درجات کی بلندی کا علم ہوتا ہے۔

【97】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

حذیفہ بن الیمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نہیں جانتا کہ کب تک میں تمہارے درمیان رہوں، پس میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا ، اور آپ ﷺ نے ابوبکرو عمر (رض) کی جانب اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ١٦ (٣٦٦٢، ٣٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٨٥، ٣٩٩، ٤٠٢) (صحیح )

【98】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ جب عمر (رض) کو (وفات کے بعد) ان کی چارپائی پہ لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا، اور دعا کرنے لگے، یا کہا : تعریف کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے دعا کرنے لگے، میں بھی انہیں میں تھا، تو مجھے صرف اس شخص نے خوف زدہ کیا جو لوگوں کو دھکا دے کر میرے پاس آیا، اور میرا کندھا پکڑ لیا، میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علی بن ابی طالب (رض) ہیں، انہوں نے کہا : اللہ عمر (رض) پر رحم کرے، پھر بولے : میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا جس کا عمل آپ کے عمل سے زیادہ مجھے عزیز و پیارا ہو کہ میں اس عمل کو لے کر اللہ سے ملوں، اور قسم ہے اللہ کی ! میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (نبی اکرم ﷺ و ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ رکھے گا، اس وجہ سے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو اکثر فرماتے ہوئے سنتا تھا : میں اور ابوبکرو عمر گئے، میں اور ابوبکرو عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکرو عمر نکلے ، لہٰذا میں آپ کے ان باتوں کی وجہ سے یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ (جنت میں) رکھے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٤ (٣٦٧٧) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٣٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے عمر (رض) کی بڑی فضیلت معلوم ہوئی، اور معلوم ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان سے خاص محبت تھی، وہ ان کے جنازے کو گھیرے ہوئے تھے، اور ان کے لئے دعائے خیر کر رہے تھے، اور معلوم ہوا کہ علی اور شیخین (ابوبکر و عمر) رضی اللہ عنہم کے دلوں میں کسی طرح کا بغض و حسد اور کینہ نہ تھا جیسا کہ روافض اور شیعہ وغیرہ کا خیال باطل ہے، اور معلوم ہوا کہ شیخین نبی کریم ﷺ کے دوست اور رفیق تھے کہ اکثر آپ ﷺ نشست و برخاست اور جمیع حالات میں ان کی معیت اور رفاقت بیان فرماتے تھے، اور مرنے کے بعد بھی قیامت تک تینوں ایک ہی جگہ یعنی ام المؤمنین عائشہ (رض) کے حجرہ میں مدفون ہیں، اور جنت میں بھی بفضل الٰہی ساتھ ساتھ ہوں گے۔

【99】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ابوبکرو عمر کے درمیان نکلے، اور فرمایا : ہم اسی طرح قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ١٦ (٣٦٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٩٩) (ضعیف) (سند میں راوی سعید بن مسلمہ منکر الحدیث ہیں )

【100】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوبکرو عمر انبیاء و رسل کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں جنت کے ادھیڑ لوگوں کے سردار ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨١٩، ومصباح الزجاجة : ٣٧) (صحیح )

【101】

سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت۔

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ، عرض کیا گیا : مردوں میں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے والد (ابوبکر) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٦٣ (٣٨٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر (رض) رسول اللہ ﷺ کے بڑے چہیتے اور محبوب تھے، اور جو آپ ﷺ کا چہیتا اور محبوب ہو وہ اللہ تعالیٰ کا چہیتا اور محبوب ہے۔

【102】

سیدنا عمر فاروق (رض) کی فضیلت۔

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا : رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا ؟ کہا : ابوبکر، میں نے پوچھا : پھر کون ؟ کہا : عمر، میں نے پوچھا : پھر کون ؟ کہا : ابوعبیدہ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المنا قب ١٤، (٣٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خلاصہ یہ ہے کہ محبت کے مختلف وجوہ و اسباب ہوتے ہیں، چناچہ نبی ﷺ کی فاطمہ (رض) سے محبت بیٹی ہونے کے اعتبار سے اور ان کے زہد و عبادت کی وجہ سے تھی، اور عائشہ (رض) سے محبت زوجیت، دینی بصیرت، اور فہم و فراست کے سبب تھی، اور ابوبکر و عمر (رض) سے محبت اسلام میں سبقت، دین کی بلندی، علم کی زیادتی، شریعت کی حفاظت اور اسلام کی تائید کے سبب تھی، شیخین کے یہ کمالات و مناقب کسی پر پوشیدہ نہیں، اور ابوعبیدہ (رض) سے محبت اس لئے تھی کہ ان کے ہاتھ پر متعدد فتوحات اسلام ہوئیں۔

【103】

سیدنا عمر فاروق (رض) کی فضیلت۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب عمر (رض) نے اسلام قبول کیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا : اے محمد ! عمر کے قبول اسلام سے آسمان والے بہت ہی خوش ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤١٧، ومصباح الزجاجة : ٣٩) (ضعیف جدًا) (سند میں عبداللہ بن خراش منکر الحدیث بلکہ بعضوں کے نزدیک کذاب ہیں )

【104】

سیدنا عمر فاروق (رض) کی فضیلت۔

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حق تعالیٰ سب سے پہلے قیامت کے دن عمر سے مصافحہ کریں گے، اور سب سے پہلے انہیں سے سلام کریں گے، اور سب سے پہلے ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤، ومصباح الزجاجة : ٤٠) (منکر جدًا) (داود بن عطاء المدینی ضعیف ہیں، اور منکر الحدیث ہیں اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے )

【105】

سیدنا عمر فاروق (رض) کی فضیلت۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! اسلام کو خاص طور سے عمر بن خطاب کے ذریعہ عزت و طاقت عطا فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٤٤، ومصباح الزجاجة : ٤٢) (صحیح) (اس حدیث کی سند میں زنجی بن خالد منکر الحدیث صاحب أوھام راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، حدیث میں خاصة کا لفظ متابعت یا شاہد کے نہ ملنے سے ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٦٠٣٦ ، و صحیح السیرة النبویة) ۔

【106】

سیدنا عمر فاروق (رض) کی فضیلت۔

عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو کہتے سنا : رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں، اور ان کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر عمر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٩، ومصباح الزجاجة : ٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٧١) ، سنن ابی داود/السنة ٨ (٤٦٢٩) (صحیح )

【107】

سیدنا عمر فاروق (رض) کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا : اس اثنا میں کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا، پھر اچانک میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ ایک محل کے کنارے وضو کر رہی ہے، میں نے پوچھا : یہ محل کس کا ہے ؟ اس عورت نے کہا : عمر کا (مجھے عمر کی غیرت یاد آگئی تو میں پیٹھ پھیر کر واپس ہوگیا) ۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : یہ سن کر عمر (رض) رونے لگے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا میں آپ سے غیرت کروں گا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٨ (٣٢٤٢) ، فضائل أصحاب النبي ﷺ ٦ (٣٦٨٠) ، التعبیر ٣٢ (٧٠٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٣٩٥) ، مسند احمد (٢/٣٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وضو نظافت اور لطافت کے لئے تھا، نہ کہ رفع حدث اور طہارت کے لئے کیونکہ جنت شرعی امور و اعمال کے ادا کرنے کی جگہ نہیں ہے، اور اس حدیث سے عمر (رض) کا جنتی ہونا ثابت ہوا، اور انبیاء کا خواب وحی ہے، خواب و خیال نہیں۔

【108】

سیدنا عمر فاروق (رض) کی فضیلت۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بیشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے، وہ حق ہی بولتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج والإمارة ١٨ (٢٩٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٥، ١٦٥، ١٧٧) (صحیح) (تراجع الا ٔلبانی، رقم : ٥٠٧ )

【109】

سیدنا عثمان غنی (رض) کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق (ساتھی) ہے، اور میرے رفیق (ساتھی) اس میں عثمان بن عفان ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٠، ومصباح الزجاجة : ٤٣) (ضعیف) (عثمان بن خالد ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ا لضعیفہ : ٢٢٩١ )

【110】

سیدنا عثمان غنی (رض) کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عثمان (رض) سے مسجد کے دروازے پر ملے، اور فرمایا : عثمان ! یہ جبرائیل ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شادی ام کلثوم سے رقیہ کے مہر مثل پر کردی ہے، اس شرط پر کہ تم ان کو بھی اسی خوبی سے رکھو جس طرح اسے (رقیہ کو) رکھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٨٩، ومصباح الزجاجة : ٤٤) (ضعیف) (اس کی سند میں بھی عثمان بن خالد ضعیف راوی ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ گذشتہ حدیث ( ١٠٩ ) میں گزرا ) وضاحت : ١ ؎: ام کلثوم اور رقیہ (رض) دونوں نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیاں تھیں، اور پہلے دونوں ابولہب کے دونوں بیٹے عتبہ اور ربیعہ کے نکاح میں تھیں، دخول سے پہلے ہی ابولہب نے اپنے دونوں لڑکوں کو کہا کہ محمد ﷺ کی لڑکیوں کو طلاق دے دو ، تو انہوں نے طلاق دے دی، اور نبی اکرم ﷺ نے پہلے ایک کی شادی عثمان (رض) سے کی، پھر ان کے انتقال کے بعد دوسری کی شادی بھی انہی سے کردی، اس لئے ان کا لقب ذوالنورین ہوا۔

【111】

سیدنا عثمان غنی (رض) کی فضیلت۔

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کیا کہ وہ جلد ظاہر ہوگا، اسی درمیان ایک شخص اپنا سر منہ چھپائے ہوئے گزرا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ شخص ان دنوں ہدایت پر ہوگا ، کعب (رض) کہتے ہیں : میں تیزی سے اٹھا، اور عثمان (رض) کے دونوں کندھے پکڑ لیے، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کی جانب رخ کر کے کہا : کیا یہی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں یہی ہیں (جو ہدایت پر ہوں گے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١١٧، ومصباح الزجاجة : ٤٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المنا قب ١٩ (٣٧٠٤) ، مسند احمد (٤/ ٢٣٥، ٢٣٦، ٢٤٢، ٢٤٣) (صحیح) (ابن سیرین اور کعب بن عجرہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن مرة بن کعب کی ترمذی کی حدیث نمبر ( ٣٧٠٤ ) کے شاہد سے یہ صحیح ہے، جس کی تصحیح امام ترمذی نے کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عثمان (رض) کے خلاف بغاوت کرنے والے، اور فتنہ کھڑا کرنے والے حق پر نہ تھے، اور عثمان (رض) حق پر تھے۔

【112】

سیدنا عثمان غنی (رض) کی فضیلت۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عثمان ! اگر اللہ تعالیٰ کبھی تمہیں اس امر یعنی خلافت کا والی بنائے، اور منافقین تمہاری وہ قمیص اتارنا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے، تو اسے مت اتارنا ، آپ ﷺ نے یہ بات تین بار فرمائی۔ نعمان (رض) کہتے ہیں : میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا : پھر آپ نے یہ بات لوگوں کو بتائی کیوں نہیں ؟ تو وہ بولیں : میں اسے بھلا دی گئی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٥، ومصباح الزجاجة : ٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ١٩ (٣٧٠٥) ، مسند احمد (٦/١٤٩) (صحیح) (امام ترمذی نے ربیعہ بن یزید اور نعمان بن بشیر (رض) کے درمیان عبد اللہ بن عامر الیحصبی کا ذکر کیا ہے، ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں اسی کو صحیح قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو : ٣/٢٦٤ ) وضاحت : ١ ؎: قمیص سے مراد خلافت ہے، ظاہر ہے عثمان (رض) کی خلافت صحیح تھی، مخالفین ظلم، نفاق اور ہٹ دھرمی کا شکار تھے، ام المؤمنین عائشہ (رض) بھی یہ حدیث بمنشا الہٰی بھول گئی تھیں، بعد میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی بات یاد آگئی۔

【113】

سیدنا عثمان غنی (رض) کی فضیلت۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض الموت میں فرمایا : میری خواہش یہ ہے کہ میرے پاس میرے صحابہ میں سے کوئی ہوتا ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ابوبکر کو نہ بلا دیں ؟ آپ ﷺ خاموش رہے، ہم نے عرض کیا : کیا ہم عمر کو نہ بلا دیں ؟ آپ ﷺ خاموش رہے، ہم نے عرض کیا : کیا ہم عثمان کو نہ بلا دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، تو وہ آئے، آپ ﷺ ان سے تنہائی میں باتیں کرنے لگے، اور عثمان (رض) کا چہرہ بدلتا رہا۔ قیس کہتے ہیں : مجھ سے عثمان (رض) کے غلام ابوسہلۃ نے بیان کیا کہ عثمان بن عفان (رض) نے جس دن ان پر حملہ کیا گیا کہا : بیشک رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے جو عہد لیا تھا میں اسی کی طرف جا رہا ہوں۔ علی بن محمد نے اپنی حدیث میں : وأنا صابر عليه کہا ہے، یعنی : میں اس پر صبر کرنے والا ہوں۔ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں : اس کے بعد سب لوگوں کا خیال تھا کہ اس گفتگو سے یہی دن مراد تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٦٩، ومصباح الزجاجة : ٤٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ١٩ (٣٧١١) ، مسند احمد (١/٥٨، ٦٩، ٥/٢٩٠، ٦/ ٢١٤) ، مقتصراً علی ما رواہ قیس عن أبي سہلة فقط (صحیح) (نیز ملاحظہ ہو : تعلیق الشہری علی الحدیث فی مصباح الزجاجة : ٤٦ ) وضاحت : ١ ؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شہادت عثمان (رض) کے دن کو یوم الدار سے یاد رکھا، ظالموں نے کئی دن محاصرہ کے بعد آپ کو بھوکا پیاسا شہید کیا، نبی اکرم ﷺ نے آپ کو اس کی پیش گوئی فرما دی تھی، اور تنہائی کی گفتگو کا حال کسی کو معلوم نہ تھا، آپ کی شہادت کے بعد معلوم ہوا، رضی اللہ عنہ۔

【114】

سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی امّی ﷺ نے مجھ سے فرمایا : مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا، مجھ سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٣ (٧٨) ، سنن الترمذی/ المنا قب ٢١ (٣٧٣٦) ، سنن النسائی/الایمان ١٩ (٥٠٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٤، ٩٥، ١٢٨) (صحیح )

【115】

سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت۔

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے علی (رض) سے فرمایا : کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تم میری طرف سے ایسے ہی رہو جیسے ہارون موسیٰ کی طرف سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٩ (٣٧٠٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤ (٢٤٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ٢١ (٣٧٣١) ، مسند احمد (١/١٧٠، ١٧٧، ٣/٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ایک بڑی حدیث کا ٹکڑا ہے (غزوۂ تبوک کی تفصیلات دیکھئے) ، بعض منافقوں نے علی (رض) کو بزدلی کا طعنہ دیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ تم کو بزدلی کے سبب مدینہ میں چھوڑ گئے، ان کو تکلیف ہوئی، رسول اللہ ﷺ سے شکوہ کیا، تب آپ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی، یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی ہے، اور اس میں یہ لفظ زیادہ ہے : إلا أنه لا نبي بعدي یعنی اتنی بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، یعنی جیسے ہارون (علیہ السلام) نبی تھے، اس حدیث سے نبی اکرم ﷺ کے بعد علی (رض) کی خلافت پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ ہارون موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد موسیٰ کے خلیفہ نہیں تھے بلکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے تھے۔

【116】

سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت۔

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر آئے، آپ نے راستے میں ایک جگہ نزول فرمایا اور عرض کیا :الصلاة جامعة، یعنی سب کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا، پھر علی (رض) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : کیا میں مومنوں کی جانوں کا مومنوں سے زیادہ حقدار نہیں ہوں ؟ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں ہر مومن کا اس کی جان سے زیادہ حقدار نہیں ہوں ؟ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ (علی) دوست ہیں اس کے جس کا میں دوست ہوں، اے اللہ ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، جو علی سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٧، ومصباح الزجاجة : ٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨١) (صحیح) (لیکن یہ سند ضعیف ہے، اس میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، اور عدی بن ثابت ثقہ ہیں، لیکن تشیع سے مطعون ہیں، لیکن اصل حدیث شواہد کی وجہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٥٠ ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع سے لوٹتے وقت غدیرخم میں بیان فرمائی، یہ مکہ اور مدینہ کے بیچ جحفہ میں ایک مقام کا نام ہے، اس حدیث سے علی (رض) کی خلافت بلافصل پر استدلال درست نہیں : ١ ۔ کیونکہ اس کے لئے شیعہ مذہب میں حدیث متواتر چاہیے، اور یہ متواتر نہیں ہے ٢ ۔ ولی اور مولیٰ مشترک المعنی لفظ ہیں، اس لئے کوئی خاص معنی متعین ہو یہ ممنوع ہے، ٣ ۔ امام معہود و معلوم کے لئے مولیٰ کا اطلاق اہل زبان کے یہاں مسلم نہیں، ٤ ۔ خلفاء ثلاثہ (ابوبکر، عمر، عثمان (رض) عنہم) کی تقدیم اجماعی مسئلہ ہے، اور اس اجماع میں خود علی (رض) شامل ہیں، ٥ ۔ اگر اس سے خلافت بلافصل مراد ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہرگز اس سے عدول نہ کرتے، وہ اہل زبان اور منشاء نبوی کو ہم سے بہتر جاننے والے تھے، ٦ ۔ اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ علی (رض) سے محبت کی جائے اور ان کے بغض سے اجتناب کیا جائے، اور یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص امہات المومنین اور آل رسول سے محبت کی جائے، اور ان سے بغض و عداوت کا معاملہ نہ رکھا جائے۔

【117】

سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت۔

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : ابولیلیٰ رات میں علی (رض) کے ساتھ بات چیت کیا کرتے تھے، اور علی (رض) گرمی کے کپڑے جاڑے میں اور جاڑے کے کپڑے گرمی میں پہنا کرتے تھے، ہم نے ابولیلیٰ سے کہا : کاش آپ ان سے اس کا سبب پوچھتے تو بہتر ہوتا، پوچھنے پر علی (رض) نے (جواباً ) کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھے غزوہ خیبر کے موقع پر اپنے پاس بلا بھیجا، اس وقت میری آنکھ دکھ رہی تھی، اور (حاضر خدمت ہو کر) میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری آنکھیں آئی ہوئی ہیں، میں مبتلا ہوں، آپ نے میری آنکھوں میں لعاب دہن لگایا، پھر دعا فرمائی : اے اللہ اس سے سردی اور گرمی کو دور رکھ ۔ علی (رض) کہتے ہیں : اس دن کے بعد سے آج تک میں نے سردی اور گرمی کو محسوس ہی نہیں کیا، اور آپ ﷺ نے فرمایا : میں ایسے آدمی کو (جہاد کا قائد بنا کر) بھیجوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں، اور وہ میدان جنگ سے بھاگنے والا نہیں ہے ۔ لوگ ایسے شخص کو دیکھنے کے لیے گردنیں اونچی کرنے لگے، آپ ﷺ نے علی (رض) کو بلایا، اور جنگ کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں دے دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١٣، ومصباح الزجاجة : ٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٩، ١٣٣) (حسن) (اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ شدید سيء الحفظ ہیں، لیکن حدیث طبرانی میں موجود شواہد کی بناء پر حسن ہے، بعض ٹکڑے صحیحین میں بھی ہیں، ملاحظہ ہو : ا لا ٔوسط للطبرانی : ١ /١٢٧/١، ٢٢٢ /٢ ) وضاحت : ١ ؎ : غزوہ خیبر ٧ ھ میں ہوا، اور خیبر مدینہ سے شمال میں شام کی طرف واقع ہے، یہ حدیث بھی مؤید ہے کہ اوپر والی حدیث میں مولیٰ سے دوستی اور محبت مراد ہے، اس میں بھی آپ ﷺ نے محبت کی تصریح فرمائی ہے۔

【118】

سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٣٤، ومصباح الزجاجة : ٥٠) (صحیح) (اس کی سند میں معلی بن عبدالرحمن ضعیف اور ذاھب الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، جیسا کہ ترمذی اور نسائی نے حذیفہ (رض) سے روایت کی ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٩٧ )

【119】

سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت۔

حبشی بن جنادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : علی مجھ سے ہیں، اور میں ان سے ہوں، اور میری طرف سے اس پیغام کو سوائے علی کے کوئی اور پہنچا نہیں سکتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المنا قب ٢١ (٣٧١٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٤، ١٦٥) (حسن) (تراجع الا ٔلبانی، رقم : ٣٧٨ ، وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٩٨٠ ، وظلال الجنة : ١١٨٩ ) وضاحت : ١ ؎: رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ ابوبکر (رض) کے لئے بطور عذر، اور علی (رض) کی تکریم کے لئے اس وقت فرمائے جب ابوبکر (رض) امیر حج تھے، اور سورة براءت میں مشرکین سے کئے گئے معاہدہ کے توڑنے کے اعلان کی ضرورت پڑی، چونکہ دستور عرب کے مطابق سردار یا سردار کا قریبی رشتہ دار ہی یہ اعلان کرسکتا تھا، لہذا علی (رض) کو یہ ذمہ داری سونپی گئی، رضی اللہ عنہم۔

【120】

سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت۔

عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول ﷺ کا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا، میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٥٧، ومصباح الزجاجة : ٥١) (باطل) (سند میں عباد بن عبداللہ ضعیف اور متروک ر ١ وی ہے، اور اس کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا : فيه نظر اور وہی حدیث کے بطلان کا سبب ہے، امام ذہبی نے فرمایا : یہ حدیث علی (رض) پر جھوٹ ہے، ملاحظہ ہو : الموضوعات لابن الجوزی : ١ /٣٤١، وتلخیص المستدرک للذہبی، وتنزیہ الشریعة : ١ /٣٨٦، وشیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ : ٣١٠ ، للدکتور عبد الرحمن الفریوائی )

【121】

سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت۔

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) اپنے ایک سفر حج میں آئے تو سعد (رض) ان کے پاس ملنے آئے، لوگوں نے علی (رض) کا تذکرہ کیا تو معاویہ (رض) نے علی (رض) کو نامناسب الفاظ سے یاد کیا، اس پر سعد (رض) ناراض ہوگئے اور بولے : آپ ایسا اس شخص کی شان میں کہتے ہیں جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس کا مولیٰ میں ہوں، علی اس کے مولیٰ ہیں ، اور آپ ﷺ سے میں نے یہ بھی سنا : تم (یعنی علی) میرے لیے ویسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ، نیز میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا : آج میں لڑائی کا جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٩ (٣٧٠٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤ (٢٤٠٤) ، سنن الترمذی/المناقب ٢١ (٣٧٢٤) ، مسند احمد (١/٨٤، ١١٨) (صحیح )

【122】

حضرت زبیر (رض) کی فضیلت۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ قریظہ پر حملے کے دن فرمایا : کون ہے جو میرے پاس قوم (یعنی یہود بنی قریظہ) کی خبر لائے ؟ ، زبیر (رض) نے کہا : میں ہوں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کون ہے جو میرے پاس قوم کی خبر لائے ؟ ، زبیر (رض) نے کہا : میں، یہ سوال و جواب تین بار ہوا، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کے حواری (خاص مددگار) ہوتے ہیں، اور میرے حواری (خاص مددگار) زبیر ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤١ (٢٨٤٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابہ ٦ (٢٤١٥) ، سنن الترمذی/المنا قب ٢٥ (٣٨٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٩، ١٠٢، ٣/٣٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ واقعہ غزوہ احزاب کا ہے جو سن ( ٥ ) ہجری میں واقع ہوا، جب کفار قریش قبائل عرب اور خیبر کے یہودی سرداروں کے ساتھ دس ہزار کی تعداد میں مدینہ پر چڑھ آئے، نبی اکرم ﷺ نے سلمان فارسی (رض) کے مشورہ سے خندق کھدوائی، اس لئے اس غزوہ کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے، مسلمان بڑی کس مپرسی کے عالم میں تھے، اور یہود بنی قریظہ نے بھی معاہدہ توڑ کر کفار مکہ کا ساتھ دیا، ایک دن بہت سردی تھی، نبی اکرم ﷺ نے صحابہ سے یہ چاہا کہ کوئی اس متحدہ فوج کی خبر لائے جن میں بنی قریظہ بھی شریک تھے، لیکن سب خاموش رہے، اور اس مہم پر زبیر (رض) گئے، اور ان کو سردی بھی نہ لگی، اور خبر لائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حملہ آوروں پر بارش اور ٹھنڈی ہوا بھیج دی ہے جس سے ان کے خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں، اور لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، زبیر (رض) نبی کریم ﷺ کی پھوپھی صفیہ (رض) کے بیٹے تھے۔

【123】

حضرت زبیر (رض) کی فضیلت۔

زبیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ احد ١ ؎ کے دن میرے لیے اپنے ماں باپ دونوں کو جمع کیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ١٣ (٣٧٢٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٦ (٢٤١٦) ، سنن الترمذی/المناقب ٢٣ (٣٧٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٤، ١٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تخریج میں مذکورہ مراجع میں یہ ہے کہ واقعہ غزوہ احزاب خندق کا ہے، اس لئے احد کا ذکر یہاں خطا اور وہم کے قبیل سے ہے۔ ٢ ؎: یعنی کہا : میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں ، یہ زبیر (رض) کے حق میں بہت بڑا اعزاز ہے، آگے حدیث میں یہ فضیلت سعد بن ابی وقاص (رض) کو بھی حاصل ہے، لیکن وہاں پر علی (رض) نے اس فضیلت کو صرف سعد بن ابی وقاص (رض) کے ساتھ خاص کردیا ہے، اس میں تطبیق کی صورت اس طرح ہے کہ یہ علی (رض) کے علم کے مطابق تھا، ورنہ صحیح احادیث میں یہ فضیلت دونوں کو حاصل ہے، واضح رہے کہ ابن ماجہ میں زبیر (رض) کی یہ بات غزوہ احد کے موقع پر منقول ہوئی ہے، جب کہ دوسرے مراجع میں یہ غزوہ احزاب کی مناسبت سے ہے، اور آگے آ رہا ہے کہ سعد بن ابی وقاص (رض) کے لئے آپ ﷺ نے یہ غزوہ احد کے موقع پر فرمایا تھا۔

【124】

حضرت زبیر (رض) کی فضیلت۔

عروہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : عروہ ! تمہارے نانا (ابوبکر) اور والد (زبیر) ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : الذين استجابوا لله والرسول من بعد ما أصابهم القرح جن لوگوں نے زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہا (سورة آل عمران : 172) ، یعنی ابوبکر اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ١٦ (٤٠٧٧) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٦ (٢٤١٨) ، مسند احمد (١/١٦٤، ١٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پوری آیت یوں ہے : الذين استجابوا لله والرسول من بعد مآ أصابهم القرح للذين أحسنوا منهم واتقوا أجر عظيم یعنی : جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد اللہ اور رسول کا کہنا مانا، جو لوگ ان میں نیک و صالح اور پرہیز گار ہوئے ان کو بڑا ثواب ہے (سورة آل عمران : 172) ۔ اس آیت کا شان نزول امام بغوی نے یوں ذکر کیا ہے کہ جب ابو سفیان اور کفار مکہ جنگ احد سے واپس لوٹے، اور مقام روحا میں پہنچے تو اپنے لوٹنے پر نادم و شرمندہ ہوئے اور ملامت کی، اور کہنے لگے کہ ہم نے محمد کو نہ قتل کیا، نہ ان کی عورتوں کو قید کیا، پھر ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ دوبارہ واپس چل کر مسلمانوں کا کام تمام کردیا جائے، جب یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے صحابہ کرام کی ایک جماعت اکٹھا کی، اور ابوسفیان اور کفار مکہ کے تعاقب میں روانہ ہونا چاہا، اور اعلان کردیا کہ ہمارے ساتھ غزوہ احد کے شرکاء کے علاوہ اور کوئی نہ نکلے، جابر بن عبداللہ (رض) نے اجازت طلب کی تو آپ نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، نبی کریم ﷺ ، ابوبکر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، سعید، عبدالرحمن بن عوف، عبداللہ بن مسعود، حذیفہ بن الیمان، اور ابوعبیدہ بن جراح وغیرہم کی معیت میں ستر آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے، اور حمراء الأسد (مدینہ سے بارہ میل ( ١٩ کلومیٹر) کے فاصلے پر ایک مقام) پر پہنچے، اس کے بعد بغوی (رح) نے یہی روایت ام المؤمنین عائشہ (رض) سے نقل کی ہے، غرض وہاں معبد خزاعی نامی ایک آدمی تھا جو نبی کریم ﷺ سے محبت رکھتا تھا، اور وہاں کے بعض لوگ ایمان لا چکے تھے تو معبد نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ہم کو آپ کے اصحاب کے زخمی ہونے کا بہت رنج ہوا، غرض وہ وہاں سے ابوسفیان کے پاس آیا، اور ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شجاعت کی خبر دی، ابوسفیان اور ان کے ساتھی اس خبر کو سن کر ٹھنڈے ہوگئے، اور مکہ واپس لوٹ گئے، غرض اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی فضیلت میں یہ آیت نازل فرمائی۔

【125】

حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کی فضیلت۔

جابر (رض) فرماتے ہیں کہ طلحہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ شہید ہیں جو روئے زمین پر چل رہے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٢٢ (٣٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٣١٠٣) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٢٦ )

【126】

حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کی فضیلت۔

معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے طلحہ (رض) کو دیکھا تو فرمایا : یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٣٤ (٣٢٠٢) ، المناقب ٢٢ (٣٧٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٤٥) (حسن )

【127】

حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کی فضیلت۔

موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ ہم معاویہ (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے کئے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: پوری آیت یوں ہے : من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر وما بدلوا تبديلا یعنی مومنوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس وعدے کو جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا سچ کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کردیا، اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں، اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی (سورة الأحزاب : 23) ۔

【128】

حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کی فضیلت۔

قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ (رض) کا وہ ہاتھ دیکھا جو شل (بیکار) ہوگیا تھا، جنگ احد میں انہوں نے اس کو ڈھال بنا کر رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ فضائل أصحاب ١٤ (٣٧٢٤) ، المغازي ١٨ (٤٠٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦١) (صحیح )

【129】

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی فضیلت۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) (رض) کے علاوہ کسی کے لیے اپنے والدین کو جمع کیا ہو، آپ ﷺ نے غزوہ احد کے دن سعد (رض) سے کہا : اے سعد ! تم تیر چلاؤ، میرے ماں اور باپ تم پر فدا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٨٠ (٢٩٠٥) ، الأدب ١٠٣ (٦١٨٤) ، المغازي ١٨ (٤٠٥٨، ٤٠٥٩) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥ (٢٤١١) ، سنن الترمذی/المناقب ٢٧ (٣٧٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٢، ١٢٤، ١٣٧، ١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ فضیلت غزوہ احزاب کے موقع پر زبیر (رض) کو بھی حاصل ہے، اور حدیث میں علی (رض) نے جو بیان کی وہ ان کے اپنے علم کے مطابق ہے، ملاحظہ ہو : حدیث نمبر ( ١٢٣ )

【130】

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی فضیلت۔

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) کو کہتے سنا : رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے غزوہ احد کے دن اپنے والدین کو جمع کیا، اور فرمایا : اے سعد ! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل أصحاب النبي ﷺ ١٥ (٣٧٢٥) ، المغازي ١٨ (٤٠٥٥، ٤٠٥٦، ٤٠٥٧) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥ (٢٤١١، ٢٤١٢) ، سنن الترمذی/الأدب ٦١ (٢٨٣٠) ، المناقب ٢٧ (٣٧٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٤، ١٨٠) (صحیح )

【131】

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی فضیلت۔

قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) کو کہتے سنا : میں پہلا عربی شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ١٥ (٣٧٢٨) ، الرقاق ١٧ (٦٤٥٣) ، صحیح مسلم/الزھد ١٢ (٢٩٦٦) ، سنن الترمذی/الزھد ٣٩ (٢٣٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٩١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٤، ١٨١، ١٨٦) ، سنن الدارمی/الفرائض ٢ (٢٩٠٢) (صحیح )

【132】

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی فضیلت۔

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ جس دن میں نے اسلام قبول کیا اس دن کسی نے اسلام نہ قبول کیا تھا، اور میں (ابتدائی عہد میں) سات دن تک مسلمانوں کا تیسرا شخص تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وضاحت : ١ ؎: یعنی سات دن تک کوئی اور مسلمان نہ ہوا، یعنی میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اسلام لانے میں پہل کی، یہ بات ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے۔

【133】

عشرہ مبشرہ کے فضائل

سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دسویں شخص تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر جنت میں ہیں، عمر جنت میں ہیں، عثمان جنت میں ہیں، علی جنت میں ہیں، طلحہ جنت میں ہیں، زبیر جنت میں ہیں، سعد جنت میں ہیں، عبدالرحمٰن جنت میں ہیں ، سعید (رض) سے پوچھا گیا : نواں کون تھا ؟ بولے : میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٩ (٤٦٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المنا قب ٢٦ (٣٧٤٨) ، ٢٨ (٣٧٥٧) ، مسند احمد (١/ ١٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اور آگے کی حدیث (جس میں مذکور ہے کہ دسویں آدمی ابوعبیدہ (رض) ہیں) میں کوئی تعارض نہیں، اس لئے کہ یہ دونوں الگ الگ مجلس کی حدیثیں ہیں۔

【134】

عشرہ مبشرہ کے فضائل

سعید بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ٹھہر، اے حرا ! ١ ؎ (وہ لرزنے لگا تھا) تیرے اوپر سوائے نبی، صدیق اور شہید کے کوئی اور نہیں ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے نام گنوائے : ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعید بن زید رضی اللہ عنہم۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٩ (٤٦٤٨) ، سنن الترمذی/المناقب ٢٦ (٣٧٤٧) ، ٢٨ (٣٧٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ١٨٨، ١٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حرا مکہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے، جو نبی اکرم ﷺ کی آمد کی خوشی میں جھومنے لگا تو آپ ﷺ نے یہ فرمایا، اور جو فرمایا وہ ہو کر رہا، سوائے سعد (رض) کے جن کا انتقال اپنے قصر میں ہوا، یا یہ کہ ان کا انتقال کسی ایسے مرض میں ہوا جس سے وہ شہادت کا درجہ پا گئے، آپ ﷺ نے تغلیبا سب کو شہید کہا۔

【135】

ابوعبیدہ بن جراح (رض) کے فضائل

حذیفہ بن الیمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران سے فرمایا : میں تمہارے ساتھ ایک ایسے امانت دار آدمی کو بھیجوں گا جو انتہائی درجہ امانت دار ہے ، حذیفہ (رض) نے کہا : لوگ اس امین شخص کی جانب گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے، آپ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح کو بھیجا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٢١ (٣٧٤٥) ، المغازي ٧٣ (٤٣٨٠) ، أخبار الأحاد ١ (٧٢٥٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٧ (٢٤٢٠) ، سنن الترمذی/المناقب ٣٣ (٣٧٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١٤، ٤/٩٠، ٥/ ٣٨٥، ٣٩٨، ٤٤٠، ٤٠١) (صحیح )

【136】

ابوعبیدہ بن جراح (رض) کے فضائل

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح (رض) کے متعلق فرمایا : یہ اس امت کے امین ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣١٦) ، مسند احمد (١/١٨، ٤١٤، ٢/١٢٥، وانظر ما قبلہ) (صحیح )

【137】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے فضائل

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں بغیر مشورہ کے کسی کو خلیفہ مقرر کرتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو مقرر کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٣٨ (٣٨٠٨، ٣٨٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٦، ٩٥، ١٠٧، ١٠٨) (ضعیف) (حارث ضعیف اور متہم بالرفض ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٣٢٧ )

【138】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے فضائل

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ابوبکرو عمر (رض) نے انہیں بشارت سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص چاہتا ہو کہ قرآن کو بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے ویسے ہی پڑھے جیسے نازل ہوا ہے تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کی قراءت کے مطابق پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧، ٢٦، ٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی قراءت کی فضیلت معلوم ہوئی، اور ان کا طرز قراءت بھی معلوم ہوا۔

【139】

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے فضائل

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہیں میرے گھر آنے کی اجازت یہی ہے کہ تم پردہ اٹھاؤ، اور یہ کہ میری آواز سن لو، الا یہ کہ میں تمہیں خود منع کر دوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٦ (٢١٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٨، ٣٩٤، ٤٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی فضیلت ظاہر ہے، چونکہ وہ خادم خاص تھے، اور برابر شریک مجلس رہا کرتے تھے، بار بار اجازت طلب کرنے میں حرج تھا، اس لئے نبی اکرم ﷺ نے ان کو یہ مخصوص اجازت عطا فرمائی۔

【140】

حضرت عباس بن عبدالمطلب کے فضائل

عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ قریش کے (کچھ لوگوں کا حال یہ تھا) جب ہم ان سے ملتے اور وہ باتیں کر رہے ہوتے تو ہمیں دیکھ کر وہ اپنی بات بند کردیتے، ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور جب میرے اہل بیت میں سے کسی کو دیکھتے ہیں تو چپ ہوجاتے ہیں، اللہ کی قسم ! کسی شخص کے دل میں ایمان اس وقت تک گھر نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ میرے اہل بیت سے اللہ کے واسطے اور ان کے ساتھ میری قرابت کی بناء پر محبت نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٣٧، مصباح الزجاجة : ٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٥) (ضعیف) (اس سند میں اعمش مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے، ابوسبرہ نخعی لین الحدیث نیز محمد بن کعب قرظی کی عباس (رض) سے روایت کے بارے میں انقطاع و ارسال کی بات بھی کہی گی ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٤٣٠ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل بیت کی محبت ایمان کی نشانی ہے، اور محبت ان کی یہی ہے کہ ایمان و عمل میں ان کی روش پر چلا جائے، اور ان کا طریقہ اختیار کیا جائے، رضی اللہ عنہم۔

【141】

حضرت عباس بن عبدالمطلب کے فضائل

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل (گہرا دوست) بنایا ہے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل (گہرا دوست) بنایا، چناچہ میرا اور ابراہیم کا گھر جنت میں قیامت کے دن آمنے سامنے ہوگا، اور عباس ہم دو خلیلوں کے مابین ایک مومن ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩١٤، ومصباح الزجاجة : ٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥٨، ٢٢٥) (موضوع) (سند میں مذکور عبدالوہاب بن ضحاک متہم بالوضع راوی ہے، اس لئے یہ حدیث موضوع ہے، لیکن حدیث کا یہ ٹکڑا إن الله اتخذني صحیح ہے، جیسا کہ حدیث نمبر ( ٩٣ ) میں مذکور ہے، نیز تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٠٣٤ )

【142】

حضرت علی (رض) کے صاحبزادوں حس و حسین (رض) کے فضائل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن (رض) کے بارے میں فرمایا : اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، اور اس سے بھی محبت کر جو اس سے محبت کرے ١ ؎۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ یہ فرما کر آپ ﷺ نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٩ (٢١٢٢) ، اللباس ٦٠ (٥٨٨٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٨ (٢٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٩، ٣٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حسن (رض) سے محبت اور دوستی کا تقاضہ یہ ہے کہ ایک مسلمان نبی اکرم ﷺ کی سنت پر جان دے۔

【143】

حضرت علی (رض) کے صاحبزادوں حس و حسین (رض) کے فضائل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٩٦، ومصباح الزجاجة : ٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٨، ٤٤٠، ٥٣١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: محبت ان حضرات کی یہی ہے کہ ان کے احترام کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلا جائے۔

【144】

حضرت علی (رض) کے صاحبزادوں حس و حسین (رض) کے فضائل

یعلیٰ بن مرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں نکلے، دیکھا تو حسین رضی اللہ عنہ) گلی میں کھیل رہے ہیں، نبی اکرم ﷺ لوگوں سے آگے نکل گئے، اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیے، حسین (رض) بچے تھے، ادھر ادھر بھاگنے لگے، اور نبی اکرم ﷺ ان کو ہنسانے لگے، یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا، اور اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر بوسہ لیا، اور فرمایا : حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھے، اور حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٠، ومصباح الزجاجة : ٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ٣١ (٣٧٧٥) ، مسند احمد (٤/١٧٢) (حسن) (تراجع الألباني، رقم : ٣٧٥ ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث حسین بن علی (رض) کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، نیز کھانے کی دعوت میں جانا، چھوٹے بچوں کا گلی میں کھیلنا، نیز چھوٹے بچوں کو پیار میں ہنسانا مسنون و مستحب ہے۔ یہ حدیث علی بن محمد سے وکیع عن سفیان کے واسطے سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

【145】

حضرت علی (رض) کے صاحبزادوں حس و حسین (رض) کے فضائل

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا : میں اس شخص کے لیے سراپا صلح ہوں جس سے تم لوگوں نے صلح کی، اور سراپا جنگ ہوں اس کے لیے جس سے تم لوگوں نے جنگ کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٦١ (٣٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٢) (ضعیف) (اس سند میں علی بن المنذر میں تشیع ہے، اسباط بن نصر صددق لیکن کثیر الخطا ٔ ہیں، اور غرائب بیان کرتے ہیں، سدی پر تشیع کا الزام ہے، اور ان کی حدیث میں ضعف ہے، نیز صبیح لین الحدیث ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٦٠٢٨ )

【146】

حضرت عمار بن یاسر (رض) کے فضائل۔

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، عمار بن یاسر (رض) نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : انہیں آنے کی اجازت دو ، طیب و مطیب پاک و پاکیزہ شخص کو خوش آمدید ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٣٥ (٣٧٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٩، ١٠٠، ١٢٣، ١٢٦، ١٣٠، ١٣٧) (صحیح )

【147】

حضرت عمار بن یاسر (رض) کے فضائل۔

ہانی بن ہانی (رض) کہتے ہیں کہ عمار (رض) علی (رض) کے پاس گئے تو علی (رض) نے کہا : طیب و مطیب پاک و پاکیزہ کو خوش آمدید، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : عمار ایمان سے بھرے ہوئے ہیں، ایمان ان کے جوڑوں تک پہنچ گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٠٣، ومصباح الزجاجة : ٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مشاش: ہڈیوں کے جوڑ کو کہتے ہیں، جیسے کہنی یا گھٹنے یا کندھے کا جوڑ، مراد یہ ہے کہ عمار (رض) کے دل میں ایمان گھر کر گیا ہے، اور وہاں سے ان کے سارے جسم میں ایمان کے انوار و برکات پھیل گئے ہیں، اور رگوں اور ہڈیوں میں سما گئے ہیں، یہاں تک کہ جوڑوں میں بھی اس کا اثر پہنچ گیا ہے، اور اس میں عمار بن یاسر (رض) کے کمال ایمان کی شہادت ہے جو عظیم فضیلت ہے۔

【148】

حضرت عمار بن یاسر (رض) کے فضائل۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمار پر جب بھی دو کام پیش کئے گئے تو انہوں نے ان میں سے بہترین کام کا انتخاب کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٣٥ (٣٧٩٩) ، سنن النسائی/الکبری، المناقب ٣٧ (٨٢٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٣) (صحیح )

【149】

حضرت سلمان، ابوذر، مقداد (رض) کے فضائل۔

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مجھے چار افراد سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے، اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : علی انہیں لوگوں میں سے ہیں (آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا) ، اور ابوذر، سلمان اور مقداد ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المنا قب ٢١ (٣٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥١، ٣٥٦) (ضعیف) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٥٤٩ )

【150】

حضرت سلمان، ابوذر، مقداد (رض) کے فضائل۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ پہلے پہل جن لوگوں نے اپنا اسلام ظاہر کیا وہ سات افراد تھے : رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد (رضی اللہ عنہم) ، رہے رسول اللہ ﷺ تو اللہ تعالیٰ نے کفار کی ایذا رسانیوں سے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعہ آپ کو بچایا، اور ابوبکر (رض) کو ان کی قوم کے سبب محفوظ رکھا، رہے باقی لوگ تو ان کو مشرکین نے پکڑا اور لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں ڈال دیا، چناچہ ان میں سے ہر ایک سے مشرکین نے جو کہلوایا بظاہر کہہ دیا، سوائے بلال کے، اللہ کی راہ میں انہوں نے اپنی جان کو حقیر سمجھا، اور ان کی قوم نے بھی ان کو حقیر جانا، چناچہ انہوں نے بلال (رض) کو پکڑ کر بچوں کے حوالہ کردیا، وہ ان کو مکہ کی گھاٹیوں میں گھسیٹتے پھرتے اور وہ اَحَد، اَحَد کہتے (یعنی اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٢٤، ومصباح الزجاجة : ٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: ان چھ سابق الایمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی استقامت اور دین کی خاطر ان کی عزیمت لائق اتباع ہے، ان میں بلال (رض) کی عزیمت سب سے اعلی وارفع ہے، جان کے خطرے کے وقت دین پر دلی اطمینان کی صورت میں کفر کا اظہار جائز ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو (النحل : 106) جس کی نظر میں اللہ کی عظمت و شان ہوتی ہے، اس کے دل میں موجودات عالم کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی حتی کہ اپنی جان بھی حقیر نظر آتی ہے، بلال (رض) کی حالت یہی تھی رضی اللہ عنہم۔

【151】

حضرت سلمان، ابوذر، مقداد (رض) کے فضائل۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ اتنی کسی کو نہ دی گئیں ہوں گی، اور میں اللہ کی راہ میں اس قدر ڈرایا گیا کہ اتنا کوئی نہیں ڈرایا گیا ہوگا، اور مجھ پہ مسلسل تین ایام ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلال کے لیے کوئی چیز کھانے کی نہ تھی جسے کوئی ذی روح کھاتا سوائے اس کے جو بلال کی بغل میں چھپا ہوا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٣٤ (٢٤٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٠، ٢٨٦) (صحیح )

【152】

حضرت بلال (رض) کے فضائل۔

سالم سے روایت ہے کہ ایک شاعر نے بلال بن عبداللہ کی مدح سرائی کی، اور مصرعہ کہا : بلال بن عبد الله خير بلال بلال بن عبداللہ بلالوں میں سب سے بہتر ہیں ، تو ابن عمر (رض) نے کہا : تم غلط کہہ رہے ہو، ایسا نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بلال بلالوں میں سب سے افضل اور بہتر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٨١، ومصباح الزجاجة : ٥٩) (ضعیف) (عمر بن حمزہ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بلال بن عبداللہ سے مراد عبداللہ بن عمر (رض) کے صاحبزادے بلال ہیں۔

【153】

حضرت خباب (رض) کے فضائل۔

ابولیلیٰ کندی کہتے ہیں کہ خباب (رض) عمر (رض) کے پاس آئے، تو عمر (رض) نے کہا : میرے قریب بیٹھو، تم سے بڑھ کر میرے قریب بیٹھنے کا کوئی مستحق نہیں سوائے عمار (رض) کے، پھر خباب (رض) اپنی پیٹھ پر مشرکین کی مار پیٹ کے نشانات ان کو دکھانے لگے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٣، ومصباح الزجاجة : ٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصحاب فضل و کمال کو مجلس میں ممتاز مقام پر رکھنا چاہیے، عمر (رض) افاضل صحابہ کو اپنے پاس جگہ دیتے تھے، عمار (رض) نے بھی اللہ کی راہ میں بہت تکلیفیں اٹھائی تھیں اس لئے عمر (رض) نے ان کو بھی یاد کیا، اور معلوم ہوا کہ کسی کی تعریف اس کے سامنے اگر اس سے خود پسندی اور عجب کا ڈر نہ ہو تو جائز ہے، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار اس اعتبار سے جائز ہے کہ وہ اللہ کی نعمتیں ہیں، جیسے خباب (رض) نے اپنے جسم کے نشان دکھائے کہ جو ایک نعمت الٰہی تھی، اور جو اللہ کے نزدیک بلندی درجات کا سبب ہوئی۔

【154】

حضرت خباب (رض) کے فضائل۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر ہیں، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب ہیں، سب سے بہتر قاری ابی بن کعب ہیں، سب سے زیادہ حلال و حرام کے جاننے والے معاذ بن جبل ہیں، اور سب سے زیادہ فرائض (میراث تقسیم) کے جاننے والے زید بن ثابت ہیں، سنو ! ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے، اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٣٣ (٣٧٩١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ٢١ (٣٧٤٤) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٧ (٢٤١٩) ، مسند احمد (٣/١٨٤، ٢٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے ان آٹھوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت معلوم ہوئی، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر ایک میں قابل تعریف صفات موجود تھیں، مگر بعض کمالات ہر ایک میں بدرجہ أتم موجود تھے، اگرچہ وہ صفتیں اوروں میں بھی تھیں، اس لئے ہر ایک کو ایک صفت سے جو اس میں بدرجہ کمال موجود تھی یاد فرمایا۔

【155】

حضرت خباب (رض) کے فضائل۔

ابوقلابہ سے ابن قدامہ کے نزدیک اسی کے مثل مروی ہے مگر فرق یہ ہے کہ اس میں زید بن ثابت (رض) کے حق میں : أفرضهم کے بجائے أعلمهم بالفرائض ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )

【156】

حضرت خباب (رض) کے فضائل۔

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : زمین نے کسی ایسے شخص کو نہ اٹھایا، اور نہ آسمان اس پر سایہ فگن ہوا جو ابوذر سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٣٦ (٣٨٠١) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ١٦٣، ١٧٥، ٢٢٣) (صحیح )

【157】

حضرت سعد بن معاذ (رض) کے فضائل۔

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا تحفہ میں پیش کیا گیا، لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ تمہارے لیے تعجب انگیز ہے ؟ ، لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے کہیں بہتر ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٨ (٣٢٤٩) ، مناقب الأنصار ١٢ (٣٨٠٢) ، اللباس ٢٦ (٥٨٣٦) الأیمان والنذور ٣ (٦٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٤ (٢٤٦٨) ، سنن الترمذی/المناقب ٥١ (٣٨٤٧) ، مسند احمد (٢/٢٥٧، ٣٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے کئی باتیں ثابت ہوئیں : ١ ۔ ہدیہ لینا سنت ہے چاہے ہدیہ دینے والا مشرک و کافر ہی کیوں نہ ہو، اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ نے کفار و مشرکین کے ہدایا و تحائف قبول فرمائے۔ ٢ ۔ جنت میں رومال بھی ہوں گے۔ ٣ ۔ سعد (رض) کے لیے جنت کی بشارت۔ ٤ ۔ جنت کی ادنیٰ چیز بھی دنیا کی اعلیٰ چیزوں سے بلکہ ساری دنیا سے افضل اور بہتر ہے، اور کیوں کر نہ ہو کہ وہ باقی رہنے والی ہے، اور دنیا کی یہ چیزیں فانی ہیں۔

【158】

حضرت سعد بن معاذ (رض) کے فضائل۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سعد بن معاذ کی موت کے وقت رحمن کا عرش جھوم اٹھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١٢ (٣٨٠٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٤ (٢٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ٥١ (٣٨٤٨) ، مسند احمد (٣/٢٣٤، ٢٩٦، ٣١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب ان کی پاکیزہ روح وہاں پہنچی تو خوشی کے سبب سے عرش حرکت میں آگیا، یا اس سے کنایہ ہے رب العرش کے خوش ہونے کا، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روحیں عرش تک جاتی ہیں، اس لئے کہ اللہ رب العزت کا دربار خاص وہیں لگتا ہے۔

【159】

حضرت جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کے فضائل۔

جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا، اور جب بھی مجھے دیکھا میرے روبرو مسکرائے اور میں نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر ٹک نہیں پاتا (گر جاتا ہوں) تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پہ مارا اور دعا فرمائی : اے اللہ ! اس کو ثابت رکھ اور اسے ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٥٤ (٣٠٣٥) ، الأدب ٦٨ (٦٠٨٩) ، مناقب الأنصار ٢١ (٣٨٢٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٩ (٢٤٧٥) ، سنن الترمذی/ المناقب ٤٢ (٣٨٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٢٤) ، مسند احمد (٤/٣٥٨، ٣٥٩، ٣٦٢، ٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جریر (رض) دراز قد، خوبصورت اور حسین و جمیل تھے، عمر (رض) ان کو اس امت کا یوسف کہا کرتے تھے۔

【160】

اہل بدر کے فضائل۔

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) یا کوئی اور فرشتہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور عرض کیا : آپ اپنے میں شرکائے بدر کو کیسا سمجھتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : وہ ہم میں سب سے بہتر ہیں، اس فرشتہ نے کہا : اسی طرح ہمارے نزدیک وہ (شرکائے بدر) سب سے بہتر ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦٥، ومصباح الزجاجة : ٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٥) (صحیح) (اس حدیث کو امام بخاری نے ( ٧ /٣١١) بطریق یحییٰ بن سعید عن معاذ بن رفاعہ عن أبیہ ذکر کیا ہے، یہ نقل کرنے کے بعد بوصیری کہتے ہیں کہ اگر یہ یعنی سند ابن ماجہ محفوظ ہے تو یہ جائز ہے کہ یحییٰ بن سعید کے اس حدیث میں دو شیخ ہیں، اور سب ثقہ ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے غزوہ بدر کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس لئے کہ شرکاء بدر انسان ہی نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی سب سے افضل اور بہتر لوگ ہیں۔

【161】

اہل بدر کے فضائل۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں صرف کر ڈالے تو ان میں کسی کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی ثواب نہ پائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٧٣) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٤ (٢٥٤١) ، سنن ابی داود/السنة ١١ (٤٦٥٨) ، سنن الترمذی/المناقب ٥٩ (٣٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٠١، ١٢٥٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١، ٤٥، ٥٥، ٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مُدّ : ایک معروف پیمانہ ہے جو اہل حجاز کے نزدیک ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، یہ صاع نبوی کا چوتھا حصہ ہوتا ہے، مد کا وزن موجودہ مستعمل وزن سے تقریباً چھ سو پچیس ( ٦٢٥ ) گرام کے قریب ہوتا ہے۔

【162】

اہل بدر کے فضائل۔

نسیر بن ذعلوق کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کہتے تھے : اصحاب محمد ﷺ کو گالیاں نہ دو ، ان کا نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں ایک لمحہ رہنا تمہارے ساری عمر کے عمل سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٠، ومصباح الزجاجة : ٦١) (حسن )

【163】

انصار (رض) کے فضائل۔

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے انصار سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی، اور جس شخص نے انصار سے دشمنی کی اس سے اللہ نے دشمنی کی ۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے عدی سے پوچھا : کیا آپ نے یہ حدیث خود براء بن عازب (رض) سے سنی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : مجھ ہی سے تو انہوں نے یہ حدیث بیان کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأ نصار ٤ (٣٧٨٣) ، صحیح مسلم/ الإیمان ٣٣ (٧٥) ، سنن الترمذی/المناقب ٦٦ (٣٩٠٠) سنن النسائی/ الکبری (٨٣٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٢٨٣، ٢٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر صحابہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے، اور صحبت رسول والے شرف کے برابر کوئی عمل نہیں ہوسکتا۔

【164】

انصار (رض) کے فضائل۔

سعد بن مالک انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : انصار شعار ہیں ١ ؎، اور لوگ دثار ہیں ٢ ؎، اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں جائیں اور انصار کسی دوسری وادی میں جائیں تو میں انصار کی وادی میں جاؤں گا، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠١، ومصباح الزجاجة : ٦٢) (صحیح) (اس کی سند میں عبد المہیمن بن عباس ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق و شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة : ١٧٦٨ ) وضاحت : ١ ؎: شعار: بدن سے متصل کپڑا، یعنی میرے قریب تر اور نصرت دین میں خاص الخاص ہیں۔ ٢ ؎: دثار: اوپر پہنا جانے والا کپڑا یعنی ان کے مقابلہ میں دور، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہجرت اللہ تعالیٰ کے نزدیک معظم اور قابل قدر عمل ہے۔

【165】

انصار (رض) کے فضائل۔

عوف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ انصار پر، ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحم کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٠، ومصباح الزجاجة : ٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٥) (ضعیف جدًا) (سند میں کثیر بن عبد اللہ سخت ضعیف اور منکر الحدیث راوی ہے، اسے امام شافعی نے کذاب بلکہ رکن کذب کہا ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن حدیث اللهم اغفر الأنصار وأبناء الأنصار کے لفظ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٦٤٠ )

【166】

عبداللہ بن عباس (رض) کے فضائل۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے سینہ سے لگایا، اور یہ دعا فرمائی : اللهم علمه الحکمة وتأويل الکتاب اے اللہ ! اس کو میری سنت اور قرآن کی تفسیر کا علم عطاء فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١٧ (٧٥ مختصرًا) فضائل الصحابة ٢٤ (٣٧٥٦) ، الاعتصام (٧٢٧٠) ، سنن الترمذی/المناقب ٤٣ (٣٨٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٩) ، سنن النسائی/الکبری (٨١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٦، ٢٦٩، ٣٥٩) (صحیح )

【167】

خوارج کا بیان

عبیدہ فرماتے ہیں کہ علی (رض) نے خوارج کا ذکر کیا، اور ذکر کرتے ہوئے کہا : ان میں ایک آدمی ناقص ہاتھ کا ہے ١ ؎، اور اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ تم خوشی سے اترانے لگو گے تو میں تمہیں ضرور بتاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے ان کے قاتلین کے لیے کس ثواب اور انعام و اکرام کا وعدہ فرمایا ہے، میں نے کہا : کیا آپ نے یہ بات محمد ﷺ سے سنی ہے ؟ کہا : ہاں، کعبہ کے رب کی قسم ! (ضرور سنی ہے) ، اسے تین مرتبہ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤٨ (١٠٦٦) ، سنن ابی داود/السنة ٣١ (٤٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ١٣، ٦٥، ٨٣، ٩٥، ١١٣، ١٢٢ ١٤٤ ١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: راوی کو شک ہے کہ مخدج اليد أو مودن اليد أو مثدون اليد میں سے کون سا لفظ استعمال کیا ہے، جب کہ ان سب کے معنی تقریباً برابر ہیں، یعنی ناقص ہاتھ۔

【168】

خوارج کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اخیر زمانہ میں کچھ نوعمر، بیوقوف اور کم عقل لوگ ظہور پذیر ہوں گے، لوگوں کی سب سے اچھی (دین کی) باتوں کو کہیں گے، قرآن پڑھیں گے، لیکن ان کے حلق سے نہ اترے گا، وہ اسلام سے ویسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، تو جو انہیں پائے قتل کر دے، اس لیے کہ ان کا قتل قاتل کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعث اجر و ثواب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٢٤ (٢١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٢١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨١، ١١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اخیر زمانہ سے مراد خلافت راشدہ کا آخری زمانہ ہے اس لئے کہ خوارج کا ظہور اسی وقت ہوا، اور نہروان کا واقعہ علی (رض) کی خلافت میں ٣٣ ھ میں ہوا، اس وقت خلافت راشدہ کو اٹھائیس برس گزرے تھے، خلافت کے تیس سال کی مدت مکمل ہونے میں صرف دو سال باقی تھے۔ ٢ ؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ لوگ نوعمر اور نوجوان ہوں گے، کم عمری کی وجہ سے سوج بوجھ میں پختگی نہ ہوگی، بظاہر وہ اچھی باتیں کریں گے، اور ان کی باتیں موافق شرع معلوم ہوں گی، مگر حقیقت میں خلاف شرع ہوں گی۔

【169】

خوارج کا بیان

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے کہا : کیا آپ نے نبی اکرم ﷺ کو حروریہ ١ ؎ (خوارج) کے بارے میں کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک ایسی قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو بڑی عبادت گزار ہوگی، اس کی نماز کے مقابلہ میں تم میں سے ہر ایک شخص اپنی نماز کو کمتر اور حقیر سمجھے گا ٢ ؎، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اپنا تیر لے کر اس کا پھل دیکھتا ہے، تو اسے (خون وغیرہ) کچھ بھی نظر نہیں آتا، پھر اس کے پھل کو دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آتا، پھر اپنے تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آتا، پھر وہ تیر کے پر کو دیکھتا ہے تو شک میں مبتلا ہوتا ہے کہ آیا اسے کچھ اثر دکھایا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٦ (٣٣٤٤) ، المناقب ٢٥ (٣٦١٠) ، المغازي ٦٢ (٤٣٥١) ، تفسیر التوبہ ١٠ (٤٦٦٧) ، فضائل القرآن ٣٦ (٥٠٥٨) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٣) ، الاستتابة ٧ (٦٩٣٣) ، التوحید ٢٣ (٧٤٣٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٧ (١٠٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٢١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ٣١ (٤٧٦٤) ، سنن النسائی/الزکاة ٧٩ (٢٥٧٩) ، التحریم ٢٢ (٤١٠٦) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (١٠) ، مسند احمد (٣/ ٥٦، ٦٠، ٦٥، ٦٨، ٧٢، ٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حروریہ: حروراء کی طرف نسبت ہے جو کوفہ کے قریب ایک بستی کا نام ہے اس سے مراد خوارج ہیں، انہیں حروریہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسی بستی سے خروج کیا تھا۔ ٢ ؎: ظاہری عبادت و ریاضت اگر عقیدہ اسلام سے الگ ہو کر کی جا رہی ہے تو وہ بیکار محض ہے، یہ بھی پتہ چلا کہ بدعت کی نحوست سے نماز و روزہ جیسی اہم عبادتیں بھی مقبول نہیں ہوتیں، تیر شکار سے پار نکل جانے میں جس قدر سرعت رکھتا ہے، اہل بدعت خصوصاً خوارج دین سے خارج ہونے میں سریع تر ہیں۔

【170】

خوارج کا بیان

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے بعد میری امت میں سے کچھ لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے، لیکن وہ ان کی حلق سے نہ اترے گا، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے، پھر وہ دین کی طرف واپس لوٹ کر نہ آئیں گے، انسانوں اور حیوانوں میں بدترین لوگ ہیں ١ ؎۔ عبداللہ بن صامت کہتے ہیں : میں نے اس کا ذکر حکم بن عمرو غفاری کے بھائی رافع بن عمرو (رض) سے کیا تو انہوں نے کہا : میں نے بھی اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤٧ (١٠٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥، ٥/٣١، ٦١) ، سنن الدارمی/الجہاد ٤٠ (٢٤٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خلق سے مراد لوگ، اور خلیق ۃ سے چوپائے اور جانور ہیں، اس حدیث سے پتہ چلا کہ اہل بدعت جانوروں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ خوارج اہل بدعت ہی کا ایک فرقہ ہے۔

【171】

خوارج کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگ قرآن تو ضرور پڑھیں گے، مگر وہ اسلام سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٢٥، ومصباح الزجاجة : ٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٦) (صحیح) (سند میں سماک ضعیف ہیں، اور ان کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن یہ حدیث دوسرے شواہد سے صحیح ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٢٢١ )

【172】

خوارج کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مقام جعرانہ میں تشریف فرما تھے، اور آپ بلال (رض) کی گود میں سے سونا، چاندی اور اموال غنیمت (لوگوں میں) تقسیم فرما رہے تھے، تو ایک شخص نے کہا : اے محمد ! عدل و انصاف کیجئیے، آپ نے عدل سے کام نہیں لیا، آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا برا ہو، اگر میں عدل و انصاف نہ کروں گا تو میرے بعد کون عدل کرے گا ؟ ، عمر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے اور بھی ساتھی ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہیں، لیکن وہ ان کی حلق سے نیچے نہیں اترتا ہے، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٧٢، ومصباح الزجاجة : ٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١٥ (٣١٣٨) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٧ (١٠٦٣) ، مسند احمد (٣/٣٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جعرانہ: مکہ سے آٹھ نو میل پر ایک مقام کا نام ہے، جہاں پر نبی اکرم ﷺ نے غزوہ حنین کے غنائم تقسیم کئے تھے، اس وقت جس شخص نے اعتراض کیا تھا وہ ذوالخویصرہ تھا، آپ ﷺ نے ازراہ مصلحت اس کی گردن مارنے کی اجازت نہ دی، ایسا نہ ہو کہ کہیں مشرکین میں یہ مشہور ہوجائے کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔

【173】

خوارج کا بیان

ابن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خوارج جہنم کے کتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٦٩، ومصباح الزجاجة : ٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٥) (صحیح) (اعمش کا سماع ابن أبی أوفی سے ثابت نہیں ہے، اس لئے سند میں انقطاع ہے، لیکن دوسرے طرق اور شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٣٥٥٤ )

【174】

خوارج کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن قرآن اس کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، جب بھی ان کا کوئی گروہ پیدا ہوگا ختم کردیا جائے گا ، ابن عمر (رض) کہتے ہیں : میں نے بیسیوں بار رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب بھی ان کا کوئی گروہ نکلے گا ختم کردیا جائے گا، یہاں تک کہ انہیں میں سے دجال نکلے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٥٨، ومصباح الزجاجة : ٦٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: ختم کردیا جائے گا، یعنی اس کا مستحق ہوگا کہ اس کا خاتمہ اور صفایا کردیا جائے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اہل بدعت ہی سے دجال کا خروج ہوگا۔

【175】

خوارج کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آخری زمانہ (خلافت راشدہ کے اخیر) میں یا اس امت میں سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ ان کے نرخرے یا حلق سے نیچے نہ اترے گا، ان کی نشانی سر منڈانا ہے، جب تم انہیں دیکھو یا ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٣١ (٤٧٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نشان سر منڈانا ہے، اور اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ بال منڈانا مکروہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، بعض اوقات سر منڈانا عبادت ہے، جیسا کہ حج اور عمرہ میں، اور پیدائش کے ساتویں روز بچے کا سر منڈانا سنت ہے۔

【176】

خوارج کا بیان

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں یہ خوارج سب سے بدترین مقتول ہیں جو آسمان کے سایہ تلے قتل کیے گئے، اور سب سے بہتر مقتول وہ ہیں جن کو جہنم کے کتوں (خوارج) نے قتل کردیا، یہ خوارج مسلمان تھے، پھر کافر ہوگئے ١ ؎۔ ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے ابوامامہ (رض) سے پوچھا کہ آپ یہ بات خود اپنی جانب سے کہہ رہے ہیں ؟ تو ابوامامہ (رض) نے کہا : نہیں، بلکہ اسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤ (٣٠٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ٢٥٣، ٢٥٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس قتل و غارت گری میں زمانہ جاہلیت کے کفار کی طرح ہوگئے، جب کہ دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : لا ترجعوا بعدي کفارا يضرب بعضکم رقاب بعض اے مسلمانو ! میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ، زمانہ جاہلیت میں عربوں میں قبائلی نظام کے تحت چھوٹے چھوٹے مسائل کے تحت آئے دن آپس میں خونریزی اور قتل و غارت گری کے واقعات پیش آتے تھے، انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی، اسلام نے انسانی جانوں کا بڑا احترام کیا، اور بلا کسی واقعی سبب کے خونریزی کو بہت بڑا گناہ اور جرم قرار دیا، اب نو مسلم معاشرہ ایک نظم و ضبط میں بندھ گیا تھا، جرائم پر حدود قصاص اور دیت کا ایک مستقل نظام تھا، اس لئے نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو عہد جاہلیت کے غلط طریقے پر اس حدیث میں تنبیہ فرمائی، اور ایسے اسلوب میں خطاب کیا کہ حقیقی معنوں میں لوگ ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت گری اور خونریزی سے اپنے آپ کو دور رکھیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ ﷺ نے اس طرح تربیت فرمائی تھی کہ دوبارہ وہ عہد جاہلیت کے کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھنے میں غایت درجہ کا لحاظ رکھتے تھے، تاکہ ان کے اعمال اکارت اور بےکار نہ جائیں۔

【177】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا : عنقریب تم لوگ اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو رہی ہے، لہٰذا اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز سے پیچھے نہ رہو تو ایسا کرو ۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی : وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب اپنے رب کی تسبیح و تحمید بیان کیجئے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے (سورة ق : 39) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٦ (٥٥٤) ، و تفسیر ق ٢ (٤٨٥١) ، والتوحید ٢٤ (٧٤٣٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٧ (٦٣٣) ، سنن ابی داود/السنة ٢٠ (٤٧٢٩) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ١٦ (٢٥٥١) ، سنن النسائی/الکبری/الصلاة ٥٧ (٤٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٠، ٣٦٢، ٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اہل ایمان کے لئے جنت میں اللہ تعالیٰ کی رویت ثابت ہوتی ہے، نیز اللہ رب العزت کے لئے علو اور بلندی کی صفت کہ وہ سب سے اوپر آسمان کے اوپر ہے، نیز اس حدیث سے فجر اور عصر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، آیت کریمہ میں تسبیح سے مراد صلاۃ (نماز) ہے۔

【178】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں چودھویں رات کو چاند دیکھنے میں مشقت ہوتی ہے ؟ صحابہ نے کہا : جی نہیں، فرمایا : اسی طرح قیامت کے دن تمہیں اپنے رب کی زیارت میں کوئی مشکل نہیں ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٨٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاذان ١٢٩ (٨٠٦) ، الرقاق ٥٢ (٦٥٧٣) ، التوحید ٢٤ (٤٧٣٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨١ (١٨٣) الزھد ١ (٢٩٦٨) ، سنن ابی داود/السنة ٢٠ (٤٧٢٩) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ١٦ (٢٥٥٤) ، سنن الدارمی/الرقاق ٨١ (٢٨٤٣) (صحیح )

【179】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم ٹھیک دوپہر میں سورج دیکھنے میں کوئی دقت اور پریشانی محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو ؟ ، ہم نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم چودہویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو ؟ ، ہم نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : سورج و چاند کو دیکھنے کی طرح تم اپنے رب کے دیدار میں بھی ایک دوسرے سے مزاحمت نہیں کرو گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کے لئے صفت علو اور مومنین کے لئے اس کی رؤیت ثابت ہوتی ہے، اور اس میں جہمیہ اور معتزلہ دونوں کا ردو ابطال ہوا، جو اہل ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رؤیت نیز اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور بلندی کی صفت کے منکر ہیں۔

【180】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابورزین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن دیکھیں گے ؟ اور اس کی اس کے مخلوق میں کیا نشانی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ابورزین ! کیا تم میں سے ہر ایک چاند کو اکیلا بلا کسی روک ٹوک کے نہیں دیکھ لیتا ہے ؟ ، میں نے کہا : کیوں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس سے زیادہ عظیم ہے، اور اس کی مخلوق میں یہ (چاند) اس کے دیدار کی ایک نشانی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٢٠ (٤٧٣١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١، ١٢) (حسن) (وکیع بن حدس مقبول عند المتابعہ ہیں، اور ان کی متابعت موجود ہے، ملاحظہ ہو : السنة لابن أبی عاصم ( ٤٦٨ ) ، شیخ الاسلام ابن تیمیة وجھودہ فی الحدیث وعلومہ ( ٣٨ ) للدکتور عبد الرحمن الفریوائی )

【181】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابورزین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارا رب اپنے بندوں کے مایوس ہونے سے ہنستا ہے جب کہ اللہ کی طرف سے ان کی حالت بدلنے کا وقت قریب ہوتا ہے ، وہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا رب ہنستا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، تو میں نے عرض کیا : تب تو ہم ایسے رب کے خیر سے ہرگز محروم نہ رہیں گے جو ہنستا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٠، ومصباح الزجاجة : ٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١، ١٢) (حسن) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٨١٠ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت ضحک کا اثبات ہوتا ہے، اور اس کا ہنسنا ایسا ہے جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔

【182】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابورزین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارا رب اپنی مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بادل میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ اوپر ہوا تھی، اور نہ ہی وہاں کوئی مخلوق تھی، (پھر پانی پیدا کیا) اور اس کا عرش پانی پہ تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ١٢ (٣١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١، ١٢) (ضعیف) (حدیث کی سند میں مذکور راوی وکیع بن حدس مجہول الحال ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ظلال الجنة : ٦١٢ ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں عماء کا لفظ آیا ہے جس کے معنی اگر بالمد ہو تو سحاب رقیق (بدلی) کے ہوتے ہیں، اور بالقصر ہو تو اس کے معنی لاشیء کے ہوتے ہیں، بعض اہل لغت نے العماء بالقصر کے معنی ایسے امر کے کئے ہیں جو عقل اور ادراک سے ماوراء ہو، حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت فوقیت و علو ثابت ہوئی، کیفیت مجہول ہے۔

【183】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں : اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر (رض) کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا : ابن عمر ! آپ نے نبی اکرم ﷺ سے نجویٰ (یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں) ، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا، اور فرمائے گا : کیا تم (اس گناہ کو) جانتے ہو ؟ وہ بندہ کہے گا : اے رب ! میں جانتا ہوں، یہاں تک کہ جب مومن اپنے جملہ گناہوں کا اقرار کرلے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے دنیا میں ان گناہوں کی پردہ پوشی کی اور آج میں ان کو بخشتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ یا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ، آپ ﷺ نے فرمایا : رہے کافر و منافق تو ان کو حاضرین کے سامنے پکارا جائے گا (راوی خالد کہتے ہیں کہ الأشهاد میں کچھ انقطاع ہے) : یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا، سن لو ! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر (سورۃ ہود : ١٨ ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ المظالم ٢ (٢٤٤١) ، التفسیر ٤ (٤٦٨٥) ، الأدب ٧٠ (٦٠٧٠) ، التوحید ٣٦ (٧٥١٤) ، صحیح مسلم/التوبة ٨ (٢٧٦٨) ، سنن النسائی/الکبری (١١٢٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧٤، ١٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث جہمیہ وغیرہ کی تردید کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے حروف و اصوات پر مشتمل ہونے کے منکر ہیں۔

【184】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس درمیان کہ اہل جنت اپنی نعمتوں میں ہوں گے، اچانک ان پر ایک نور چمکے گا، وہ اپنے سر اوپر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ ان کا رب ان کے اوپر سے جھانک رہا ہے، اور فرما رہا ہے : اے جنت والو ! تم پر سلام ہو ، اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے قول : سلام قولا من رب رحيم (سورة يس : 58) کا رحيم (مہربان) رب کی طرف سے (اہل جنت کو) سلام کہا جائے گا ، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تک باری تعالیٰ کے دیدار کی نعمت ان کو ملتی رہے گی وہ کسی بھی دوسری نعمت کی طرف مطلقاً نظر نہیں اٹھائیں گے، پھر وہ ان سے چھپ جائے گا، لیکن ان کے گھروں میں ہمیشہ کے لیے اس کا نور اور برکت باقی رہ جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٦٧، ومصباح الزجاجة : ٦٩) (ضعیف) (ابوعاصم العبادانی منکر الحدیث اور الفضل بن عیسیٰ بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ٥٦٦٤ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں کئی طرح سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جہت علو میں ہے، نیز کلام اللہ کا حروف و اصوات پر مشتمل ہونا، اور قابل سماع ہونا بھی ثابت ہوا کہ جنتی جنت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، جہمیہ اللہ رب العزت کی رؤیت کے منکر ہیں، ان کا مذہب باطل ہے۔

【185】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) بغیر کسی ترجمان کے ہم کلام ہوگا ١ ؎، بندہ اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو اپنے آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر بائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر اپنے آگے دیکھے گا تو جہنم اس کے سامنے ہوگی پس جو جہنم سے بچ سکتا ہو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کو اللہ کی راہ میں دے کر تو اس کو ضرور ایسا کرنا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٩ (١٤١٣) ، ١٠ (١٤١٧) ، المناقب ٢٥ (٣٥٩٥) ، الأدب ٣٤ (٦٠٢٣) ، الرقاق ٤٩ (٦٥٣٩) ، ٥١ (٦٥٦٣) التوحید ٣٦ (٧٥١٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٦) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ١ (٢٤١٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الزکاة ٦٣ (٢٥٥٤) ، مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٨، ٢٥٩، ٣٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جب جنت میں لوگ داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان کوئی حجاب (پردہ) نہ ہوگا، اس کی طرف نظر کرنے سے صرف اس ذات مقدس کی عظمت وکبریائی اور جلال وہیبت ہی مانع ہوگا، پھر جب اللہ عزوجل ان پر اپنی رافت اور رحمت اور فضل و امتنان کا اظہار کرے گا تو وہ رکاوٹ دور ہوجائے گی، اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا شرف حاصل کرلیں گے۔

【186】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوموسیٰ اشعری (عبداللہ بن قیس) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ساری چیزیں چاندی کی ہیں، اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ان کی ساری چیزیں سونے کی ہیں، جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر ہوگی جو دیدار سے مانع ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الرحمن ١ (٤٨٧٨) ، التوحید ٢٤ (٧٤٤٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٠ (١٨٠) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ٣ (٢٥٢٨) ، سنن النسائی/الکبری (٧٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٩١٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١١، ٤١٦) ، سنن الدارمی/الرقاق ١٠١ (٢٨٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا مقصد بھی یہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کی رؤیت میں رکاوٹ اس کی عظمت وکبریائی اور اس کی ہیبت اور اس کا جلال ہوگا، جس کے سبب کسی کو اس کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت نہ ہوگی، لیکن جب اس کی رحمت و رأفت اور اس کے فضل و کرم کا ظہور ہوگا تو یہ رکاوٹ دور ہوجائے گی، اور اہل ایمان اس کی رؤیت کی نعمت سے سرفراز ہوجائیں گے، اس حدیث میں فرقۂ جہمیہ کا بڑا واضح اور بلیغ رد ہے جو رؤیت باری تعالیٰ کے منکر ہیں۔

【187】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت : للذين أحسنوا الحسنى وزيادة جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے نیکی ہے اور اس سے زیادہ بھی ہے (سورة يونس : 26) کی تلاوت فرمائی، اور اس کی تفسیر میں فرمایا : جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو منادی پکارے گا : جنت والو ! اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے وہ اسے پورا کرنا چاہتا ہے، جنتی کہیں گے : وہ کیا وعدہ ہے ؟ کیا اللہ نے ہمارے نیک اعمال کو وزنی نہیں کیا ؟ ہمارے چہروں کو روشن اور تابناک نہیں کیا ؟ ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا ؟ اور ہمیں جہنم سے نجات نہیں دی ؟ ، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دے گا، لوگ اس کا دیدار کریں گے، اللہ کی قسم ! اللہ کے عطیات میں سے کوئی بھی چیز ان کے نزدیک اس کے دیدار سے زیادہ محبوب اور ان کی نگاہ کو ٹھنڈی کرنے والی نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٠ (١٨١) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ٥٢ (٢٥٥٢) ، تفسیر القرآن ١١ (٣١٠٥) ، سنن النسائی/ الکبری (٧٧٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٢، ٣٣٣، ٦/ ١٥) (صحیح )

【188】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے، نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی، میں گھر کے ایک گوشہ میں تھی اور اس کی باتوں کو سن نہیں پا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی :قد سمع الله قول التي تجادلک في زوجها بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی (سورة المجادلة : ١ ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٩ (٧٣٨٥) ، (تعلیقاً ) ، سنن النسائی/ الطلاق ٣٣ (٣٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٤٦) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٠٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ آیت اوس بن صامت کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ (رض) کے حق میں نازل ہوئی، ایک بار ان کے شوہر نے ان کو بلایا تو انہوں نے عذر کیا، اس پر اوس (رض) نے خفا ہو کر کہا : تم میرے اوپر ایسی ہو جیسی میری ماں کی پیٹھ، اسے شرعی اصطلاح (زبان) میں ظہار کہتے ہیں، پھر وہ نادم ہوئے، ظہار و ایلاء جاہلیت کا طلاق تھا، غرض خولہ کے شوہر نے کہا کہ تم مجھ پر حرام ہو، تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت ام المؤمنین عائشہ (رض) آپ ﷺ کا سر مبارک دھو رہی تھیں، خولہ نے کہا : اللہ کے رسول میرے شوہر اوس بن صامت نے جب مجھ سے شادی کی تھی تو میں جوان اور مالدار تھی، پھر جب انہوں نے میرا مال کھالیا، اور میری جوانی مٹ گئی، اور میرے عزیز و اقارب چھوٹ گئے، اور میں بوڑھی ہوگئی تو مجھ سے ظہار کیا، اور وہ اب اپنے اس اقدام پر نادم ہیں، تو کیا اب کوئی صورت ایسی ہے کہ میں اور وہ مل جائیں ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اس پر حرام ہوگئی ، پھر انہوں نے کہا کہ میں اپنے اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور تنہائی کو رکھتی ہوں، ایک مدت دراز تک میں ان کے پاس رہی اور ان سے میرے بچے ہیں جن سے مجھے پیار ہے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا : تم اس پر حرام ہو، اور مجھے تمہارے بارے میں کوئی حکم نہیں ہوا ، پھر خولہ نے بار بار نبی اکرم ﷺ سے اپنے احوال و مشکلات کا اظہار کیا، اور جب نبی اکرم ﷺ فرماتے کہ تم اس پر حرام ہوگئی تو وہ فریادیں کرتیں اور کہتیں کہ میں اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور شدت حال کو رکھتی ہوں، میرے چھوٹے بچے ہیں، اگر میں ان کو شوہر کے سپرد کر دوں تو وہ برباد ہوں گے، اور اگر اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مریں گے، اور بار بار آسمان کی طرف اپنا سر اٹھاتی تھیں کہ یا اللہ میں تجھ سے فریاد کرتی ہوں، یا اللہ تو اپنا کوئی حکم اپنے نبی ﷺ کی زبان پر اتار دے کہ جس سے میری مصیبت دور ہو، اسلام میں ظہار کا یہ پہلا واقعہ تھا، اور دوسری طرف ام المؤمنین عائشہ (رض) نبی اکرم ﷺ کا سر دھونے میں مشغول تھیں، تو خولہ (رض) کو یہ کہتے سنا کہ اللہ کے نبی میرے لئے کچھ غور کریں، اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : ذرا تم خاموش رہو، رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھتی نہیں ہو، نبی اکرم ﷺ کی حالت یہ ہوتی تھی کہ جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ پر اونگھ طاری ہوجاتی، پھر جب وحی اتر چکی تو آپ ﷺ نے فرمایا : خولہ نے اپنے شوہر کا شکوہ کیا ، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : قد سمع الله قول التي تجادلک في زوجها بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی (سورة المجادلة : 1) ۔ اس قصہ سے بڑے عمدہ فوائد معلوم ہوئے : ( ١ ) آیت کا شان نزول کہ یہ آیت حکم ظہار پر مشتمل ہے، اور اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ( ٢ ) صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ جب کوئی حادثہ پیش آتا تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور یہی حکم ہے ساری امت کے لئے کہ مشکلات و مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کریں، اگرچہ نبی اکرم ﷺ دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں مگر آپ کی سنت (احادیث شریفہ) اور کتاب (قرآن مجید) ہمارے درمیان ہے، اور دنیا میں یہی دونوں چیزیں اہل اسلام کے لیے ترکہ اور میراث ہیں، فمن أخذه أخذ بحظ وافر۔ ( ٣ ) انبیاء کی بشریت اور مجبوری کہ وہ بھی تمام امور میں اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خولہ (رض) کو کچھ جواب نہ دیا جب تک کہ رب السماوات نے حکم نہ اتارا۔ ( ٤ ) سابقہ شرائع پر ہمارے لئے عمل واجب ہے جب تک کہ اس کے نسخ کا علم ہم تک نہ پہنچے، اور اسی کے موافق نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم ان پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کا نسخ اتارا تو آپ ﷺ نے ناسخ کے موافق حکم دیا۔ ( ٥ ) صراحت کے ساتھ اور محسوس اشارے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور فوقیت کا ثبوت کہ خولہ (رض) بار بار اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی حالت بیان کرتی ہوں، اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے اس امر کی تقریر و تصویب فرمائی اور کوئی اعتراض نہ کیا، اور اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی جانب و جہت خاص نہ ہو، اور رسول اکرم ﷺ کے سامنے کوئی اللہ تعالیٰ کے لئے جہت کو خاص کرے اور آپ ﷺ اس پر خاموش رہیں، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں جو اسلام کی اساس اور ایمان کی بنیاد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جہالت اور بدعقیدگی کو گوارہ کریں یہ محال بات ہے، اور اس سے بھی محال اور بعید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس علو اور فوقیت کے عقیدہ کو ناپسند کرے، اور اس پر تنبیہ نہ کر کے ظہار کے بارے میں اپنے احکام اتارے اور صحیح عقیدہ کی تعلیم نہ دے، خلاصہ یہ ہے کہ اس قصے میں اللہ تعالیٰ کے لیے علو اور بلندی کی بات پورے طورپر واضح ہے، اور سلف صالحین اور ائمہ اسلام کے یہاں یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ ( ٦ ) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ و صحابیات کو رسول اکرم ﷺ سے کتنی محبت تھی، اور وہ کس ادب و احترام کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوتے تھے، اور بات بات میں اپنے آپ کو رسول اکرم ﷺ پر فدا کرتے تھے، اور یہی نسبت ضروری ہے ہر مسلمان کو آپ کی سنت شریفہ سے کہ دل و جان سے اس پر عمل کرے۔ ( ٧ ) اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے لئے سمع و بصر (سننے اور دیکھنے) کی صفات ثابت ہوئیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : إن الله سميع بصير یقینا اللہ تعالیٰ سننے اور دیکھنے والا ہے (سورة المجادلة : 1) اور فرمایا : قال لا تخافا إنني معکما أسمع وأرى اللہ نے (موسیٰ و ہارون) سے کہا تم بالکل نہ ڈرو میں تمہارے ساتھ ہوں، اور سنتا اور دیکھتا رہوں گا (سورة طه : 46) ۔ اور ابوموسی اشعری (رض) سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب بلندی پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی جانوں پر نرمی کرو، اس لئے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے، بلکہ سمیع و بصیر (سننے والے دیکھنے والے) کو پکارتے ہو ۔

【189】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ذمہ لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٠٠ (٣٥٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١ (٣١٩٤) ، صحیح مسلم/التوبة ٤ (٢٧٥١) ، مسند احمد (٢/٤٣٣) ، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ٤٢٩٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے پیر، ہاتھ اور انگلیوں کا ذکر ہے، اس سلسلے میں سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیر بھی ہیں، ہاتھ بھی ہیں، انگلیاں بھی ہیں، ان کے ہونے پر ہمارا کامل ایمان اور یقین بھی ہے، لیکن وہ کیسے ہیں ؟ ان کی کیفیت کیا ہے ؟ ہمیں معلوم نہیں اور نہ ہمیں ان کی کیفیت سے کوئی غرض ہے، بس اتنی سی بات کافی ہے کہ اس کی عظمت و جلالت کے مطابق اس کی انگلیاں ہوں گی، نہ تو اسے کسی مخلوق کے ساتھ تشبیہ اور تمثیل دی جاسکتی ہے، اور نہ اللہ کے ہاتھ پاؤں اور اس کی انگلیوں کے لئے جو الفاظ مستعمل ہوئے ہیں انہیں اپنے اصلی اور حقیقی معنی سے ہٹایا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی انگلیوں سے مراد اللہ کی رحمتیں ہیں، ایسا کہنا مناسب نہیں، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ید (ہاتھ) کف (ہتھیلی) اور انامل (انگلیاں) جس معنی کے لئے موضوع ہیں بعینہ وہی معنی مراد لینا چاہیے، اس حدیث میں بھی صفات کے منکر فرقہ جہمیہ کا رد و ابطال ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ید (ہاتھ) رحمت اور غضب کی صفات کا انکار کرتے ہیں جب کہ اس حدیث میں یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں۔

【190】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمرو بن حرام غزوہ احد کے دن قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ ﷺ مجھ سے ملے اور فرمایا : جابر ! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے کیا کہا ہے ؟ ، (اور یحییٰ بن حبیب راوی نے اپنی حدیث میں کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جابر ! میں تمہیں کیوں شکستہ دل دیکھتا ہوں ؟ ) ، جابر (رض) کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے والد اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے، اور اہل و عیال اور قرض چھوڑ گئے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے ملاقات کے وقت کہا ؟ ، جابر (رض) نے کہا : جی ہاں ضرور بتائیے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر حجاب کے کلام نہیں کیا، لیکن تمہارے والد سے بغیر حجاب کے کلام کیا، اور فرمایا : میرے بندے ! مجھ سے آرزو کر میں تجھے عطا کروں گا، اس پر انہوں نے کہا : میرے رب ! میری آرزو یہ ہے کہ تو مجھے زندہ کر دے، اور میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا : یہ بات تو پہلے ہی ہماری جانب سے لکھی جا چکی ہے کہ لوگ دنیا میں دوبارہ واپس نہیں لوٹائے جائیں گے ١ ؎، انہوں نے کہا : میرے رب ! ان لوگوں کو جو دنیا میں ہیں میرے احوال کی خبر دیدے ، انہوں نے کہا : اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی : ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں (سورة آل عمران : ١٦٩ ) ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٨٧، ومصباح الزجاجة : ٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤ (٣٠١٠) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٨٠٠) (حسن) (ملاحظہ ہو : السنة لابن أبی عاصم : ٦١٥، ٦١٦ ) وضاحت : ١ ؎: اور جب شہیدوں کو دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا تو دوسرے کس کو لوٹنے کی اجازت ہوگی، پتہ چلا کہ جو لوگ انتقال کر گئے وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے۔ ٢ ؎: اس سے پتہ چلا کہ جو لوگ شہید ہوگئے ان کی زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے، اور نہ وہ دنیا میں زندہ ہیں۔

【191】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان دو افراد کے حال پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، اور دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور شہید کردیا جاتا ہے، پھر اس کے قاتل کو اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے، اور وہ اسلام قبول کرلیتا ہے، پھر اللہ کی راہ میں لڑائی کرتا ہے اور شہید کردیا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٥ (١٨٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٦٣) ، قد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٢٨ (٢٨٢٦) ، سنن النسائی/الجہاد ٣٧ (٣١٦٧) ، ٣٨ (٣١٦٨) ، موطا امام مالک/الجہاد ١٤ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٣١٨، ٤٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اہل سنت نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت ضحک (ہنسنے) پر استدلال کیا ہے، اور یہ صفت رضا اور خوشی پر دلالت کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات کی طرح اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں، جیسا کہ اس ذات باری تعالیٰ کے لئے لائق و سزاوار ہے، اور اس کو ہم مخلوقات سے کسی طرح کی مشابہت نہیں دیتے، اور نہ اس صفت کے معنی کو معطل کرتے ہیں، اور نہ اس کا انکار کرتے ہیں۔

【192】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا : اصل بادشاہ میں ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الزمر ٣ (٤٨١٢) ، التوحید ٦ (٧٣٨٢) ، صحیح مسلم/صفة القیامة ١ (٢٧٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢ /٣٧٤) ، سنن الدارمی/الرقاق ٨٠ (٢٨٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے ید و قبض و طی کا اثبات ہوتا ہے، اہل سنت اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں جو قبض و بسط و انفاق جیسی صفات رکھتے ہیں، اس کے دونوں ہاتھ یمین ہیں، اور اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔

【193】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ مقام بطحاء میں تھا، اور ان میں رسول اللہ ﷺ بھی موجود تھے کہ بادل کا ایک ٹکڑا گزرا، آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا : تم لوگ اس کو کیا کہتے ہو ؟ ، لوگوں نے کہا : سحاب، آپ ﷺ نے فرمایا : مزن بھی ؟ ، انہوں نے کہا : جی ہاں، مزن بھی، آپ ﷺ نے فرمایا : عنان بھی ؟ ، لوگوں نے کہا : عنان بھی، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ جانتے ہو ؟ ، لوگوں نے کہا : ہم نہیں جانتے، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے اور اس کے درمیان اکہتر ( ٧١ ) ، بہتر ( ٧٢ ) ، یا تہتر ( ٧٣ ) سال کی مسافت ہے، پھر اس کے اوپر آسمان کی بھی اتنی ہی مسافت ہے ، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اسی طرح سات آسمان شمار کیے، پھر فرمایا : ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے، اس کے نچلے اور اوپری حصہ کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان میں ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی طرح ہیں، ان کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان ہے، پھر ان کی پیٹھ پر عرش ہیں، اس کے نچلے اور اوپری حصہ کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان میں ہے، پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے جو بڑی برکت والا، بلند تر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ١٩ (٤٧٢٣) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٦٧ (٣٣٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٢٠٦، ٢٠٧) (ضعیف) (حدیث کی سند میں مذکور راوی الولید بن أبی ثور الہمدانی ضعیف ہیں، عبد اللہ بن عمیرہ لین الحدیث، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٢٤٧ ) وضاحت : ١ ؎: اگرچہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے، لیکن اس حدیث سے مصنف نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت علو ثابت کیا ہے، جب کہ یہ صفت کتاب و سنت کے بیشمار دلائل سے ثابت ہے اور ائمہ اسلام کا اس پر اجماع ہے، اس میں تاویل کی قطعاً گنجائش نہیں، یہاں پر علو سے مراد علو معنوی نہیں بلکہ حسی اور حقیقی علو ہے، اور یہ امر فطرت انسانی کے عین موافق ہے، لیکن معتزلہ و جہمیہ کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ وہ اس کی تاویل کرتے اور اس کا انکار کرتے ہیں، اور جس بات کو رسول اکرم ﷺ نے عقلاً ، حسا، لفظاً اور معناً بیان فرما دیا ہے اس میں شک کرتے ہیں، ائمہ دین نے اس مسئلہ میں مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں، جیسے کتاب العلو للعلي الغفار للامام الذہبی۔

【194】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کردیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ وہ جواب دیتے ہیں : اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر والا کوئی ایک بات سن لیتا ہے تو وہ اپنے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، بسا اوقات اس کو شعلہ اس سے پہلے ہی پا لیتا ہے کہ وہ اپنے نیچے والے تک پہنچائے، اور وہ کاہن (نجومی) یا ساحر (جادوگر) کی زبان پر ڈال دے، اور بسا اوقات وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا یہاں تک کہ وہ نیچے والے تک پہنچا دیتا ہے، پھر وہ اس میں سو جھوٹ ملاتا ہے تو وہی ایک بات سچ ہوتی ہے جو آسمان سے سنی گئی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الحجر ١ (٤٨٠٠) التوحید ٣٢ (٧٤٨١) ، سنن ابی داود/الحروف والقراء ات ١ (٣٩٨٩) ، سنن الترمذی/التفسیر ٣٥ (٣٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے بھی واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ بلندی پر ہے، اس کے احکام اوپر ہی سے نازل ہوتے ہیں، پس احکم الحاکمین اوپر ہی ہے، اور نیچے والے فرشتے اوپر کے درجہ والوں سے پوچھتے ہیں : کیا حکم ہوا ؟ وہ ان کو جواب دیتے ہیں کہ جو حکم اللہ تعالیٰ کا ہے وہ حق ہے، اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی بڑی عظمت اور ہیبت واضح ہوتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے باوجود قرب، نورانیت اور معصومیت کے اس قدر اللہ تعالیٰ سے لرزاں و ترساں ہیں تو ہم کو بدرجہا اس سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔

【195】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور پانچ باتیں بیان فرمائیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو اوپر نیچے کرتا ہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس تک پہنچا دیا جاتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر اس کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیات ان ساری مخلوقات کو جہاں تک اس کی نظر پہنچے جلا دیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٧٩ (١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٩١٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٥، ٤٠٠، ٤٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت نور اور وجہ (چہرہ) ثابت ہوا، لیکن اس کی کیفیت مجہول اور غیر معلوم ہے، اہل سنت یہی کہتے ہیں کہ رب عزوجل کے لئے صفت وجہ (چہرہ) ہے، مگر ایسا کہ جیسا اس کی شان کے لائق ہے، ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کی کوئی تاب نہیں لاسکتا۔

【196】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جہاں تک اس کی نظر جائے ، پھر ابوعبیدہ نے آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی : أن بورک من في النار ومن حولها و سبحان الله رب العالمين کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے (سورة النمل : 8) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح )

【197】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا رہتا ہے پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے، وہ اسے پست و بالا کرتا ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ذرا غور کرو کہ آسمان و زمین کی تخلیق (پیدائش) سے لے کر اس نے اب تک کتنا خرچ کیا ہوگا ؟ لیکن جو کچھ اس کے دونوں ہاتھ میں ہے اس میں سے کچھ بھی نہ گھٹا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤ (٣٠٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر ھود ٢ (٤٦٨٤) ، التوحید ١٩ (٤٧١١) ، صحیح مسلم/الزکاة ١١ (٩٩٣) ، مسند احمد (٢/٥٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رات دن کی سخاوت کے باوجود اللہ عزوجل کے خزانے سے کچھ بھی کمی نہیں ہوئی، اسی کے پاس سارے خزانے ہیں، اس نے کسی کو نہیں سونپے، آسمان و زمین والوں کا رزق اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی سب کو رزق دیتا ہے، حلال ہو یا حرام، اہل سنت کا یہی مذہب ہے۔

【198】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا : جبار (اللہ تعالیٰ ) آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا (آپ ﷺ نے اپنی مٹھی بند کی اور پھر اسے باربار بند کرنے اور کھولنے لگے) اور فرمائے گا : میں جبار ہوں، کہاں ہیں جبار اور کہاں ہیں تکبر (گھمنڈ) کرنے والے ؟ ، عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ دائیں اور بائیں جھکنے لگے یہاں تک کہ میں نے منبر کو دیکھا کہ نیچے سے ہلتا تھا، مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو لے کر گر نہ پڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صفات المنافقین ١ (٢٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ١٩ (٧٤١٢) ، سنن ابی داود/السنة ٢١ (٤٧٣٢) ، سنن النسائی/الکبری ١٨ (٧٦٨٩) ، مسند احمد (٢/٧٢) ، سنن الدارمی/الرقاق ٨٠ (٢٨٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے صاف ثابت ہوا کہ صفات باری تعالیٰ میں لفظ ید (ہاتھ) سے حقیقی ید ہی مراد ہے، اس کی تاویل قدرت و طاقت اور اقتدار سے کرنا گمراہی ہے۔

【199】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

نواس بن سمعان کلابی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ہر شخص کا دل اللہ تعالیٰ کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہے، اگر وہ چاہے تو اسے حق پر قائم رکھے اور چاہے تو اسے حق سے منحرف کر دے ، اور رسول اللہ ﷺ دعا فرماتے تھے : اے دلوں کے ثابت رکھنے والے ! تو ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ ، آپ ﷺ نے کہا : اور ترازو رحمن کے ہاتھ میں ہے، کچھ لوگوں کو بلند کرتا ہے اور کچھ کو پست، قیامت تک (ایسے ہی کرتا رہے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧١٥، ومصباح الزجاجة : ٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٢) (صحیح )

【200】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ تین طرح کے لوگوں کو دیکھ کر ہنستا ہے : ایک نماز میں نمازیوں کی صف، دوسرا وہ شخص جو رات کے درمیانی حصہ میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے، تیسرا وہ شخص جو جہاد کرتا ہے ۔ راوی کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : لشکر کے پیچھے ، یعنی ان کے بھاگ جانے کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٩٣، ومصباح الزجاجة : ٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨٠) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن اسماعیل مجہول اور مجالد ضعیف ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢١٠٣ )

【201】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حج کے دنوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور فرماتے : کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے ؟ اس لیے کہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام کی تبلیغ سے روک دیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٢٢ (٤٧٣٤) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ٢٤ (٢٩٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٢، ٣٩٠) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٥ (٣٣٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، ناکہ جبریل (علیہ السلام) کا، کلام اللہ کو مخلوق کا کلام کہنا گمراہوں کا کام ہے۔

【202】

جہیمیہ کے انکار کے بارے میں

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے فرمان : كل يوم هو في شأن وہ ذات باری تعالیٰ ہر روز ایک نئی شان میں ہے (سورة الرحمن : 29) کے سلسلے میں بیان فرمایا : اس کی شان میں سے یہ ہے کہ وہ کسی کے گناہ کو بخش دیتا ہے، کسی کی مصیبت کو دور کرتا ہے، کسی قوم کو بلند اور کسی کو پست کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٠٥، ومصباح الزجاجة : ٧٣) (حسن) (بخاری نے تعلیقاً تفسیر سورة الرحمن میں ابوالدرداء (رض) کا قول نقل کیا ہے، صحیح بخاری مع فتح الباری : ٨ /٦٢٠ )

【203】

جس نے اچھا یا برا رواج ڈالا

جریر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہوگا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہوگا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٧) ، العلم ٦ (٢٦٧٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٤ (٢٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/العلم ١٥ (٢٦٧٥) ، مسند احمد (٤/٣٥٧، ٣٥٨، ٣٥٩، ٣٦٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٥٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث یہاں مختصر ہے، پوری حدیث صحیح مسلم کتاب الزکاۃ میں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ من سن في الإسلام کے معنی یہ نہیں کہ دین میں نئی نئی بدعتیں نکالی جائیں، اور ان کا نام بدعت حسنہ رکھ دیا جائے، شریعت میں کوئی بدعت سنت حسنہ نہیں ہوتی، حدیث کا معنی یہ ہے کہ جو چیز اصول اسلام سے ثابت ہو، اور کسی وجہ سے اس کی طرف لوگوں کی توجہ نہ ہو، اور کوئی شخص اس کو جاری کرے تو جو لوگ اس کو دیکھ کر اس سنت پر عمل کریں گے ان کے ثواب میں کمی کیے بغیر ان کے برابر اس کو ثواب ملے گا، کیونکہ حدیث میں مذکور ہے کہ ایک شخص ایک تھیلا بھر کر امداد میں سامان لایا، جن کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو بھی رغبت ہوئی، اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ امداد لے کر آئے، تب آپ ﷺ نے یہ فرمایا۔

【204】

جس نے اچھا یا برا رواج ڈالا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس پر صدقہ و خیرات کرنے کی ترغیب دلائی، ایک صحابی نے کہا : میرے پاس اتنا اتنا مال ہے، راوی کہتے ہیں : اس مجلس میں جو بھی تھا اس نے تھوڑا یا زیادہ ضرور اس پر صدقہ کیا، تو اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کوئی اچھی سنت جاری کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے اس کے عمل کا پورا ثواب ملے گا، اور ان لوگوں کا ثواب بھی اس کو ملے گا جو اس سنت پر چلے، ان کے ثوابوں میں کوئی کمی بھی نہ کی جائے گی، اور جس نے کوئی غلط طریقہ جاری کیا، اور لوگوں نے اس پر عمل کیا، تو اس پر اس کا پورا گناہ ہوگا، اور ان لوگوں کا گناہ بھی اس پر ہوگا جنہوں نے اس غلط طریقہ پر عمل کیا، اور اس سے عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤٣، ومصباح الزجاجة : ٧٤) ، مسند احمد (٢/٥٢٠) (صحیح )

【205】

جس نے اچھا یا برا رواج ڈالا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے لوگوں کو کسی گمراہی کی طرف بلایا، اور لوگ اس کے پیچھے ہو لیے تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا اس کی پیروی کرنے والوں کو ہوگا، اور اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہوگی، اور جس نے ہدایت کی طرف بلایا اور لوگ اس کے ساتھ ہوگئے، تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس کی پیروی کرنے والے کو اور اس سے اس کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥١، ومصباح الزجاجة : ٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٣٨ (٣٢٢٨) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٥٣٠) (صحیح) (اس سند میں سعد بن سنان ضعیف ہیں، لیکن اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: شرک و بدعت، شرع میں حرام و ناجائز چیزیں اور فسق و فجور کی ساری باتیں گمراہی میں داخل ہیں کہ اس کی طرف دعوت دینے والے پر اس کے متبعین کا بھی عذاب ہوگا، اور خود وہ اپنے گناہوں کی سزا بھی پائے گا، اور ہدایت میں توحید و اتباع سنت اور ساری سنن و واجبات و فرائض داخل ہیں، اس کی طرف دعوت دینے والے کو ان باتوں کے ماننے والوں کا ثواب ملے گا، اور خود اس کے اپنے اعمال حسنہ کا ثواب، اس لئے داعی الی اللہ کے لئے جہاں یہ اور اس طرح کی حدیث میں فضیلت ہے وہاں علمائے سوء اور دعاۃ باطل کے لئے سخت تنبیہ بھی۔

【206】

جس نے اچھا یا برا رواج ڈالا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی ہدایت کی طرف بلائے تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو ملے گا جس نے اس کی اتباع کی، اور اس سے ان کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی، اور جو کسی گمراہی کی طرف بلائے تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا اس کی اتباع کرنے والوں کو ہوگا، اور اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/العلم ٦ (٢٦٧٤) ، سنن ابی داود/السنة ٧ (٤٦٠٩) ، سنن الترمذی/العلم ١٥ (٢٦٧٥) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٢٦٧٤) ، مسند احمد (٢/٣٩٧) (صحیح )

【207】

جس نے اچھا یا برا رواج ڈالا

ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کوئی اچھی سنت جاری کی اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور عمل کرنے والوں کے برابر بھی اجر ملے گا، اور عمل کرنے والوں کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہ ہوگی، اور جس نے کوئی غلط طریقہ جاری کیا، اور اس کے بعد اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اس پر اس کا گناہ ہوگا، اور عمل کرنے والوں کے مثل بھی گناہ ہوگا، اس سے عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٠٠، ومصباح الزجاجة : ٧٦) (حسن صحیح) (سند میں اسماعیل بن خلیفہ ابو اسرائیل الملائی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، انہیں شواہد میں سے جریر بن عبد اللہ (رض) کی صحیح مسلم کی حدیث ہے، ملاحظہ ہو : ٤ /٢٠٥٩ )

【208】

جس نے اچھا یا برا رواج ڈالا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی بھی کسی چیز کی طرف بلاتا ہے، قیامت کے دن اس حال میں کھڑا کیا جائے گا کہ وہ اپنی دعوت کو لازم پکڑے ہوگا، چاہے کسی ایک شخص نے ایک ہی شخص کو بلایا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٢١، ومصباح الزجاجة : ٧٧) (ضعیف) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف راوی ہیں )

【209】

جس نے مردہ سنت کو زندہ کیا

عوف مزنی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری سنتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کیا، اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور اس سے عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہ ہوگی، اور جس کسی نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ہوگا، اور اس پر عمل کرنے والوں کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہ ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٦) (صحیح) (اس حدیث کی سند میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی سخت ضعیف راوی ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن یہ متن ابو جحیفہ (رض) سے ثابت ہے، کما تقدم ( ٢٠٧ ) اس لئے البانی صاحب نے اس کے متن کی تصحیح کردی ہے، ملاحظہ ہو : السنة لابن أبی عاصم : ٤٢ ) وضاحت : ١ ؎: بدعت ایجاد کرنے والوں اور اس کی تبلیغ و ترویج کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے، جتنے لوگ ان کے بہکانے سے راہ حق سے گمراہ ہوں گے ان کا وبال ان ہی کے سر ہوگا، والعیاذ باللہ۔

【210】

جس نے مردہ سنت کو زندہ کیا

عوف مزنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہوچکی تھی تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہوگی، اور جس نے کوئی ایسی بدعت ایجاد کی جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے ہیں تو اسے اتنا گناہ ہوگا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ہوگا، اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (سند میں کثیر بن عبد اللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن کثرت طرق سے یہ صحیح ہے کماتقدم ) وضاحت : ١ ؎: مردہ یعنی متروک سنتوں کو زندہ کرنے کا ثواب بہت ہے، اس حدیث میں مردہ سنتوں کے زندہ کرنے والوں کے لئے بشارت ہے، ساتھ ہی بدعات کو رواج دینے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں کو جو وبال ہوگا اس کا بھی بیان ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو بدعتوں اور بدعتیوں سے محفوظ رکھے، آمین۔

【211】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (شعبہ کہتے ہیں :) تم میں سب سے بہتر (کہا) ، (اور سفیان نے کہا :) تم میں سب سے افضل (کہا) وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢١ (٥٠٢٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٩ (١٤٥٢) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٥ (٢٩٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٥٧، ٥٨، ٦٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢ (٣٣٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کلام اللہ چونکہ سب کلاموں سے افضل ہے، اس لئے اس کا سیکھنے والا اور سکھانے والا بھی افضل ہے۔

【212】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سب سے افضل وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح )

【213】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں ۔ عاصم کہتے ہیں : مصعب نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے میری اس جگہ پر بٹھایا تاکہ میں قرآن پڑھاؤں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٤٤، ومصباح الزجاجة : ٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢ (٣٣٨٢) (حسن صحیح) (اس حدیث کی سند میں مذکور راوی الحارث بن نبہان ضعیف ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١١٧٢ ) وضاحت : ١ ؎: عاصم بن بہدلہ : یہ عاصم بن ابی النجود ہیں، جو امام القراء ہیں، اور ان کی قراءت معتمد اور حجت مانی گئی ہے، اس وقت عاصم کی قراءت ہی عام اور مشہور قراءت ہے۔

【214】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال سنترے کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی اچھا ہے اور بو بھی اچھی ہے، اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس کا مزہ اچھا ہے لیکن کوئی بو نہیں ہے، اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال ریحانہ (خوشبودار گھاس وغیرہ) کی سی ہے کہ اس کی بو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال تھوہڑ (اندرائن) جیسی ہے کہ اس کا مزہ کڑوا ہے، اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٧ (٥٠٢٠) ، ٣٦ (٥٠٥٩) ، الأطعمة ٣٠ (٥٤٢٧) ، التوحید ٥٧ (٧٥٦٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٧ (٧٩٧) ، سنن ابی داود/الأدب ١٩ (٤٨٣٠) ، سنن الترمذی/الأمثال ٤ (٢٨٦٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٣٢ (٥٠٤١) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٣٩٧، ٤٠٤، ٤٠٨) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٨ (٣٣٦٦) (صحیح )

【215】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سے کچھ اللہ والے ہیں ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ قرآن پڑھنے پڑھانے والے ہیں، جو اللہ والے اور اس کے نزدیک خاص لوگ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤١، ومصباح الزجاجة : ٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری ٢٦ (٨٠٣١) ، مسند احمد (٣ /١٢٧، ١٢٨، ٢٤٢) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ١ (٣٣٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قرآن والے یعنی خشوع و خضوع اور آداب کے ساتھ اس کی تلاوت کرنے والے، اور اس کے وعدہ اور وعید پر ایمان لانے والے، اور اس کے احکام پر چلنے والے اللہ تعالیٰ کے خاص لوگ ہیں۔

【216】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن پڑھا اور اسے یاد کیا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٣ (٢٩٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤٨، ١٤٩) (ضعیف جدًا) (سند میں ابو عمر حفص بن سلیمان متروک، اور کثیر بن زا ذان مجہول راوی ہیں )

【217】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن سیکھو اور اس کی تلاوت کرو، تب سوؤ کیونکہ قرآن اور اس کے سیکھنے والے اور رات کو قیام (نماز تہجد) میں قرآن پڑھنے والے کی مثال خوشبو بھری ہوئی تھیلی کی ہے جس کی خوشبو ہر طرف پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا، مگر رات کو پڑھا نہیں ایسی خوشبو بھری تھیلی کی ہے جس کا منہ بندھا ہوا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ٢ (٢٨٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٤٢) (ضعیف) (حدیث کی ترمذی نے تحسین کی ہے، لیکن عطاء مولی أبی احمد ضعیف ہے، اس لئے یہ اس سند سے ضعیف ہے )

【218】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

عامر بن واثلہ ابوالطفیل (رض) کہتے ہیں کہ نافع بن عبدالحارث کی ملاقات عمر بن الخطاب (رض) سے مقام عسفان میں ہوئی، عمر بن الخطاب (رض) نے ان کو مکہ کا عامل بنا رکھا تھا، عمر (رض) نے پوچھا : تم کس کو اہل وادی (مکہ) پر اپنا نائب بنا کر آئے ہو ؟ نافع نے کہا : میں نے ان پر اپنا نائب ابن ابزیٰ کو مقرر کیا ہے، عمر (رض) نے پوچھا : ابن ابزیٰ کون ہے ؟ نافع نے کہا : ہمارے غلاموں میں سے ایک ہیں ١ ؎، عمر (رض) نے کہا : تم نے ان پہ ایک غلام کو اپنا نائب مقرر کردیا ؟ نافع نے عرض کیا : ابن ابزیٰ کتاب اللہ (قرآن) کا قاری، مسائل میراث کا عالم اور قاضی ہے، عمر (رض) نے کہا : اگر بات یوں ہے تو تمہارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ بہت سی قوموں کو سربلند، اور بہت سی قوموں کو پست کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسا فرین ٤٧ (٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٣٥) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٩ (٣٣٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مولیٰ کے معنی رفیق، دوست، آزاد غلام، حلیف، عزیز اور قریب کے ہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ یہاں آزاد غلام مراد ہے، اس لئے عمر (رض) نے اس پر تعجب کیا۔

【219】

قرآن سیکھنے، سکھانے کی فضلیت

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ابوذر ! اگر تم صبح کو قرآن کی ایک آیت بھی سیکھ لو تو تمہارے لیے سو رکعت پڑھنے سے بہتر ہے، اور اگر تم صبح علم کا ایک باب سیکھو خواہ اس پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ایک ہزار رکعت پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩١٨، ومصباح الزجاجة : ٨٠) (ضعیف) (یہ سند ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں عبداللہ بن زیاد مجہول اور علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ تفقہ قراءت سے افضل ہے، اور وہ دونوں ادائے نوافل سے افضل ہیں۔

【220】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے دین میں فہم و بصیرت عنایت کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣١١، ومصباح الزجاجة : ٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٤) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١١٩٤ - ١١٩٥ )

【221】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خیر (بھلائی) انسان کی فطری عادت ہے، اور شر (برائی) نفس کی خصومت ہے، اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے دین میں بصیرت و تفقہ عطاء کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٥٣، ومصباح الزجاجة : ٨٢) (حسن) (نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٦٥١ ) وضاحت : ١ ؎: انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خیر اور بھلائی کی عادت ڈالے، اور شر و فساد سے اپنے آپ کو طاقت بھر دور رکھے، اور فقہ سے مراد کتاب و سنت کا فہم ہے، اختلافی مسائل میں دلائل کے ساتھ متعارض احادیث میں تطبیق دے، اور دلائل کی بناء پر راجح اور مرجوح کو الگ الگ کرے، اور سنت رسول اللہ ﷺ کو آرائے رجال، اور قیل و قال پر مقدم رکھے، اور مسئلہ میں دلائل شرعیہ کا تابع رہے، اور کتاب و سنت پر مکمل طور پر عمل کرے، محدثین سے مروی ہے فقه الرجل بصيرته بالحديث یعنی آدمی کی فقہ یہ ہے کہ حدیث میں بصیرت حاصل کرے، اور متعارف فقہ میں سے ہر مسئلہ کو کتاب و سنت پر پیش کرے، جو دین کے موافق ہو اسے قبول کرے، اور جو دین کے خلاف ہو اس کو دور کرے، یہی دین کا طریقہ ہے، لیکن سنت سے نابلد اور دینی بصیرت سے غافل لوگوں پر یہ بہت شاق گزرتا ہے۔

【222】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شیطان پر ایک فقیہ (عالم) ہزار عابد سے بھاری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ١٩ (٢٦٨١) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٩٥) (موضوع) (سند میں روح بن جناح متہم بالوضع ہے، ابوسعید نقاش کہتے ہیں کہ یہ مجاہد سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٢١٧ )

【223】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابوالدرداء (رض) کے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : اے ابوالدرداء ! میں رسول اللہ ﷺ کے شہر مدینہ سے ایک حدیث کے لیے آیا ہوں، مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ نبی اکرم ﷺ سے وہ حدیث روایت کرتے ہیں ؟ ! ابوالدرداء (رض) نے پوچھا : آپ کی آمد کا سبب تجارت تو نہیں ؟ اس آدمی نے کہا : نہیں، کہا : کوئی اور مقصد تو نہیں ؟ اس آدمی نے کہا : نہیں، ابوالدرداء (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص علم دین کی تلاش میں کوئی راستہ چلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے، اور فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، آسمان و زمین کی ساری مخلوق یہاں تک کہ مچھلیاں بھی پانی میں طالب علم کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے، لہٰذا جس نے اس علم کو حاصل کیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العلم ٩٧ (٣٦٤١) ، سنن الترمذی/العلم ١٩ (٢٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٦) ، سنن الدارمی/ المقدمة ٣٢ (٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث علم حدیث اور محدثین کی فضیلت پر زبردست دلیل ہے اس کے علاوہ اس سے مندرجہ باتیں اور معلوم ہوئیں : ١ ۔ علماء سلف حدیث کی طلب میں دور دراز کے اسفار کرتے تھے۔ ٢ ۔ ایک حدیث کا حصول اس لائق ہے کہ دور دراز کا سفر کیا جائے۔ ٣ ۔ علم کی طلب میں اخلاص شرط ہے۔ ٤ ۔ دنیوی غرض کو طلب علم کے ساتھ نہ ملایا جائے۔ ٥ ۔ خلوص نیت کے ساتھ علم شرعی کی طلب سے جنت کا راستہ آسان ہوجاتا ہے۔ ٦ ۔ فرشتے اس کی خاطر داری کرتے ہیں۔ ٧ ۔ ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہے۔ ٨ ۔ طالب علم کو عابد پر فضیلت حاصل ہے۔ ٩ ۔ علماء حدیث نبی اکرم ﷺ کے حقیقی وارث ہیں۔

【224】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اور نااہلوں و ناقدروں کو علم سکھانے والا سور کے گلے میں جواہر، موتی اور سونے کا ہار پہنانے والے کی طرح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٧٠، ومصباح الزجاجة : ٨٣) (ضعیف جدًا) (اس کی سند میں حفص بن سلیمان البزار ضعیف بلکہ متروک الحدیث راوی ہے، اس لئے اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن پہلا ٹکڑا : طلب العلم فريضة على كل مسلم طرق و شواہد کی بناء پر صحیح ہے، اور دوسرا ٹکڑا : وواضع العلم عند غير أهله کمقلد الخنازير الجوهر واللؤلؤ والذهب ضعیف ہے کیونکہ اس کاراوی حفص ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٢١٨ ا لضعیفہ : ٢١٦ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ہر مسلمان پر دین کے وہ مسائل سیکھنا فرض ہے جو ضروری ہیں، مثلا عقیدہ، نماز، روزہ کے مسائل یا اس سے مراد یہ ہے کہ جس مسلمان کو کوئی مسئلہ در پیش ہو تو ضروری ہے کہ اس کے بارے میں علماء سے پوچھے، ورنہ طلب علم فرض کفایہ ہے، اگر کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیں تو باقی افراد عند اللہ ماخوذ نہ ہوں گے، اور اگر سبھی علم دین سیکھنا چھوڑ دیں تو سب گنہگار ہوں گے، امام بیہقی اپنی کتاب المدخل إلی السنن میں کہتے ہیں کہ شاید اس سے مراد یہ ہے کہ وہ علم سیکھنا فرض ہے جس کا جہل کسی بالغ کو درست نہیں، یا وہ علم مراد ہے جس کی ضرورت اس مسلمان کو ہو مثلاً تاجر کو خریدو فروخت کے احکام و مسائل کی، اور غازی کو جہاد کے احکام و مسائل کی یا یہ کہ ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض عین ہے، مگر جب کچھ لوگ جن کے علم سے سب کو کفایت ہو تحصیل علم میں مشغول ہوں تو باقی لوگ ترک طلب کے سبب ماخوذ نہ ہوں گے، پھر ابن مبارک کا یہ قول نقل کیا کہ ان سے اس حدیث کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کو کسی مسئلہ کی ضرورت پڑے تو کسی عالم سے پوچھ لینا ضروری ہے تاکہ اس کا علم حاصل ہو، اور اس کی طرف اشارہ آیت : فاسألوا أهل الذکر میں ہے۔

【225】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی پریشانیوں میں سے کسی پریشانی کو دور کردیا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے بعض پریشانیاں دور فرما دے گا، اور جس شخص نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے عیب کو چھپائے گا، اور جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اور جو شخص علم دین حاصل کرنے کے لیے کوئی راستہ چلے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستہ کو آسان کردیتا ہے، اور جب بھی اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں کچھ لوگ اکٹھا ہو کر قرآن کریم پڑھتے ہیں یا ایک دوسرے کو پڑھاتے ہیں، تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے، اور جس کے عمل نے اسے پیچھے کردیا، تو آخرت میں اس کا نسب اسے آگے نہیں کرسکتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکروالدعاء والتوبہ ١١ (٢٦٩٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٩ (١٤٥٥) ، العلم ١ (٣٦٤٣) ، الادب ٦٨ (٤٩٤٦) (تحفة الأشراف : ١٢٥١٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحدود ٣ (١٤٢٦) ، القراء ات ١٢ (٢٩٤٦) ، مسند احمد (٢/٢٥٢) ، سنن الدارمی/ المقدمة ٣٢ (٣٥٦) (صحیح )

【226】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی (رض) کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا : کس لیے آئے ہو ؟ میں نے کہا : علم حاصل کرنے کے لیے، صفوان (رض) نے عرض کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اپنے گھر سے علم حاصل کرنے کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے اس کے اس عمل سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے بازو بچھا دیتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٥، ومصباح الزجاجة : ٨٤) ، مسند احمد (٤/٤٢٠) (حسن صحیح )

【227】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر (علم دین) سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آئے تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جس کی نظر دوسروں کی متاع پر لگی ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٥٦، ومصباح الزجاجة : ٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٠، ٤١٨، ٥٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسجد نبوی میں علم دین حاصل کرنے کی غرض سے جانے والا مجاہد کے درجہ میں ہے، اور اسی وجہ سے دوسری مساجد اور دینی درسگاہوں میں علم دین حاصل کرنے والا بھی فضیلت کا مستحق ہے۔

【228】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اس علم دین کو اس کے قبض کیے جانے سے پہلے حاصل کرلو، اور اس کا قبض کیا جانا یہ ہے کہ اسے اٹھا لیا جائے ، پھر آپ نے بیچ والی اور شہادت کی انگلی دونوں کو ملایا، اور فرمایا : عالم اور متعلم (سیکھنے اور سکھانے والے) دونوں ثواب میں شریک ہیں، اور باقی لوگوں میں کوئی خیر نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٨، ومصباح الزجاجة : ٨٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ٢٦ (٢٤٦) (ضعیف) (اس کی سند میں علی بن یزید الہانی سخت ضعیف راوی ہے، اور عثمان بن أبی عاتکہ کی علی بن یزید سے روایت میں ضعف ہے، اور قاسم بن عبدالرحمن الدمشقی بھی متکلم فیہ راوی ہیں، خلاصہ یہ کہ یہ سند ضعیف ہے، بلکہ علماء کے نزدیک یہ سند ضعف میں مشہور ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢ /١٤٣ )

【229】

علمائ (کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن اپنے کسی کمرے سے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے اس میں دو حلقے دیکھے، ایک تلاوت قرآن اور ذکرو دعا میں مشغول تھا، اور دوسرا تعلیم و تعلم میں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دونوں حلقے نیکی کے کام میں ہیں، یہ لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں، اور اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور چاہے تو نہ دے، اور یہ لوگ علم سیکھنے اور سکھانے میں مشغول ہیں، اور میں تو صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، پھر انہیں کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٦٩، ومصباح الزجاجة : ٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٢٦١) (ضعیف) (اس کی سند میں داود، بکر بن خنیس اور عبد الرحمن بن زیاد افریقی تینوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١١ )

【230】

تبلیغ علم کے فضائل

زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچایا، اس لیے کہ بعض علم رکھنے والے خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں، اور بعض علم کو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچاتے ہیں ۔ علی بن محمد نے اپنی روایت میں اتنا مزید کہا : تین چیزیں ہیں کہ ان میں کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا، ہر نیک کام محض اللہ کی رضا کے لیے کرنا، مسلمانوں کے اماموں اور سرداروں کی خیر خواہی چاہنا، مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہنا، ان سے جدا نہ ہونا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٧٢٢، ومصباح الزجاجة : ٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/العلم ١٠ (٣٦٦٠) ، سنن الترمذی/العلم ٧ (٢٦٥٦) ، مسند احمد (١/٤٣٧، ٥/ ١٨٣) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٤ (٢٣٥) (صحیح) (اس کی سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح، بلکہ متواتر ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٤٠٣ ، ودراسة حديث : نضر الله امرأ رواية ودراية للشيخ عبدالمحسن العباد ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے علم دین اور اس کی تبلیغ کی فضیلت معلوم ہوئی، نیز معلوم ہوا کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوگا، قرآن و حدیث کی تعلیم و تبلیغ کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اس میں بشارت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد بھی بہت سارے لوگ دین میں تفقہ و بصیرت حاصل کریں گے، اور مشکل مسائل کا حل قرآن و حدیث سے تلاش کیا کریں گے، اور یہ محدثین کا گروہ ہے، ان کے لئے نبی اکرم ﷺ نے دعائے خیر فرمائی، اور یہ معاملہ قیامت تک جاری رہے گا، اور اس میں ان لوگوں کی تردید بھی ہے جو اجتہاد کے دروازہ کو بغیر کسی شرعی دلیل کے بند کہتے ہیں۔

【231】

تبلیغ علم کے فضائل

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منیٰ کی مسجد خیف میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا، اس لیے کہ بہت سے علم دین رکھنے والے فقیہ نہیں ہوتے ہیں، اور بہت سے وہ ہیں جو علم کو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١٩٨، ومصباح الزجاجة : ٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٧، ٣/٢٢٥، ٥/٨٠، ٨٢) ، سنن الدارمی/ المقدمة ٢٤، (٢٣٤) (یہ حدیث مکرر ہے ملاحظہ ہو : نمبر ٣٠٥٦) (صحیح) (اس کی سند میں عبدالسلام بن أبی الجنوب ضعیف ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، کماتقدم ) اس سند سے بھی جبیر بن مطعم (رض) سے اسی کے ہم معنی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔

【232】

تبلیغ علم کے فضائل

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا، اس لیے کہ بہت سے وہ لوگ جنہیں حدیث پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والوں سے زیادہ ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ٧ (٢٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٦١) وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٦) (صحیح )

【233】

تبلیغ علم کے فضائل

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو خطبہ دیا اور فرمایا : یہ باتیں حاضرین مجلس ان لوگوں تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں، اس لیے کہ بہت سے لوگ جنہیں کوئی بات پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والے سے زیادہ اس بارے میں ہوشمند اور باشعور ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأضاحي ٥ (٥٥٥٠) ، صحیح مسلم/القسامة ٩ (١٦٧٩) ، مسند احمد (٥/٣٧، ٣٩، ٤٥، ٩٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٢ (١٩٥٧) (صحیح )

【234】

تبلیغ علم کے فضائل

معاویہ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! حاضرین یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٩٣، ومصباح الزجاجة : ٩٠) وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١، ٣٢) (صحیح) ط (اس کی سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے) ۔

【235】

تبلیغ علم کے فضائل

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو لوگ حاضر ہیں انہیں چاہیئے کہ جو لوگ یہاں حاضر نہیں ہیں، ان تک (جو کچھ انہوں نے سنا ہے) پہنچا دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩٢ (٤١٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ١٠٤) (صحیح )

【236】

تبلیغ علم کے فضائل

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث سنی، اور اسے محفوظ رکھا، پھر میری جانب سے اسے اوروں کو پہنچا دیا، اس لیے کہ بہت سے علم دین رکھنے والے فقیہ نہیں ہوتے ہیں، اور بہت سے علم دین رکھنے والے اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦، ومصباح الزجاجة : ٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٢٧، ٣/٢٢٥، ٤/٨٠، ٨٢، ٥/١٨٣) (صحیح) (اس کی سند میں محمد بن ابراہیم الدمشقی منکر الحدیث ہیں، لیکن اصل حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، بلکہ متواتر ہے، ملاحظہ ہو : دراسة حديث : نضر الله امرأ للشيخ عبدالمحسن العباد) ۔

【237】

اس شخص کے بیان میں جو بھلائی کی کنجی ہو

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بعض لوگ خیر کی کنجی اور برائی کے قفل ہوتے ہیں ١ ؎ اور بعض لوگ برائی کی کنجی اور خیر کے قفل ہوتے ہیں، تو اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے خیر کی کنجیاں رکھ دیں ہیں، اور اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے شر کی کنجیاں رکھ دی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٠، ومصباح الزجاجة : ٩٢) (حسن) (حدیث کی سند میں مذکور راوی محمد بن أبی حمید ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٣٣٢ ) ۔ وضاحت : ١ ؎: یعنی خیر (اچھائی) کو پھیلاتے، اور برائی کو روکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ سے خیر کے دروازے کھلواتا ہے، گویا کہ اس نے خیر کی کنجی ان کو دے رکھی ہے جیسے محدثین، ائمہ دین، صلحاء و اتقیاء ان کی صحبت لوگوں کو نیک بناتی ہے، شر و فساد اور بدعات و سئیات سے روکتی ہے، برخلاف فساق و فجار، مفسدین و مبتدعین کے ان کی صحبت سے محض شر پیدا ہوتا ہے، أعاذنا الله منهم

【238】

اس شخص کے بیان میں جو بھلائی کی کنجی ہو

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ خیر خزانے ہیں، اور ان خزانوں کی کنجیاں بھی ہیں، اس بندے کے لیے خوشخبری ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خیر کی کنجی، اور شر کا قفل بنادیا ہو، اور اس بندے کے لیے ہلاکت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شر کی کنجی، اور خیر کا قفل بنایا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٧٠١، ومصباح الزجاجة : ٩٣) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ١٠٤ ، شواہد کی بناء پر یہ حدیث بھی حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں )

【239】

لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھانے والے کا ثواب

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : عالم کے لیے آسمان و زمین کی تمام مخلوق مغفرت طلب کرتی ہے، یہاں تک کہ سمندر میں مچھلیاں بھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/ المقدمة ٣٢ (٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عالم باعمل کی بڑی فضیلت ہے۔

【240】

لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھانے والے کا ثواب

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی کو علم دین سکھایا، تو اس کو اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس شخص کو جو اس پر عمل کرے، اور عمل کرنے والے کے ثواب سے کوئی کمی نہ ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٠٤، ومصباح الزجاجة : ٩٤) (حسن) (یحییٰ بن ایوب نے سہل بن معاذ کو نہیں پایا، امام مزی نے ابن وہب عن یحییٰ بن ایوب عن زبان بن فائد عن سہل بن معاذ بن انس عن أبیہ کی سند ذکر کی ہے، حافظ ابن حجر نے سہل بن معاذ کے بارے میں فرمایا کہ لا بأس به إلا في روايات زبان عنه، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : باب نمبر : ١٤ ، حدیث نمبر : ٢٠٣ - ٢٠٧ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں بڑی فضیلت ہے ان علماء کی جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنے) کی تعلیم دیتے ہیں، یا درس و تدریس سے علوم دینیہ پھیلاتے ہیں، یا تقریر و تحریر سے علوم قرآن و حدیث نشر کرتے ہیں۔

【241】

لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھانے والے کا ثواب

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اپنی موت کے بعد جو چیزیں دنیا میں چھوڑ جاتا ہے ان میں سے بہترین چیزیں تین ہیں : نیک اور صالح اولاد جو اس کے لیے دعائے خیر کرتی رہے، صدقہ جاریہ جس سے نفع جاری رہے، اس کا ثواب اسے پہنچتا رہے گا، اور ایسا علم کہ اس کے بعد اس پر عمل کیا جاتا رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٧، ومصباح الزجاجة : ٩٥) (صحیح ) اس سند سے ابوقتادہ (رض) سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا پھر انہوں نے اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی۔

【242】

لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھانے والے کا ثواب

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں : علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٤، ومصباح الزجاجة : ٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الوصایا ١٤ (٢٨٨٠) ، مسند احمد (٢/٣٧٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٦ (٥٧٨) (حسن )

【243】

لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھانے والے کا ثواب

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر اور افضل صدقہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان علم دین سیکھے، پھر اسے اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٠، ومصباح الزجاجة : ٩٧) (ضعیف) (اس سند میں اسحاق بن ابراہیم ضعیف ہیں، اور حسن بصری کا ابوہریرہ (رض) سے سماع ثابت نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦ /٢٩ )

【244】

ہمراہیوں کو پیچھے پیچھے چلانے کی کراہت کے بارے میں

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی بھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور نہ کبھی آپ کے پیچھے پیچھے دو آدمی چلتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٧ (٣٧٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٥، ١٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اتکاء (ٹیک لگانے) سے مراد کیا ہے ؟ اس میں اختلاف ہے، صحیح یہی ہے کہ ایک جانب جھک کر کھانا اتکاء ہے جیسے دائیں یا بائیں ہاتھ پر یا دیوار کے ساتھ ٹیک لگانا وغیرہ، ٹیک لگا کر کھانا منع ہے، گاؤ تکیہ لگا کر اس پر ٹیک دے کر کھانا، یا ایک ہاتھ زمین پر ٹیک کر کھانا، غرض ہر وہ صورت جس میں متکبرین و مکثرین (تکبر کرنے والوں، زیادہ کھانے والوں) کی مشابہت ہو منع ہے۔ ٢ ؎ نہ کبھی آپ کے پیچھے پیچھے دو آدمی چلتے تھے مطلب : جیسے دینی تعلیم سے غافل عام امراء اور مالداروں کے بارے میں مشاہدہ ہے کہ ان میں تکبر پایا جاتا ہے۔ (امام ابن ماجہ (رح) کے شاگرد) ابوالحسن القطان نے اپنی عالی سند سے یہی حدیث حماد بن سلمہ کے دوسرے دو شاگردوں سے بھی بیان کی ہے۔

【245】

ہمراہیوں کو پیچھے پیچھے چلانے کی کراہت کے بارے میں

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سخت گرمی کے دن میں بقیع غرقد نامی مقبرہ سے گزرے، لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے، جب آپ ﷺ نے جوتوں کی چاپ سنی تو آپ کے دل میں خیال آیا، آپ بیٹھ گئے، یہاں تک کہ ان کو اپنے سے آگے کرلیا کہ کہیں آپ کے دل میں کچھ تکبر نہ آجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٥، ومصباح الزجاجة : ٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٦) (ضعیف) (علی بن یزید الألہانی ضعیف و منکر الحدیث ہیں، نیز القاسم بھی ضعیف ہیں، اور اس سند پر کلام کے لئے ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ٢٢٨ )

【246】

ہمراہیوں کو پیچھے پیچھے چلانے کی کراہت کے بارے میں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب چلتے تو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے آگے آگے چلتے اور آپ کی پیٹھ فرشتوں کے لیے چھوڑ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١٢١، ومصباح الزجاجة : ٩٩) ، مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٣٢) (صحیح )

【247】

طلب علم کے بارے میں وصیت

ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ علم حاصل کرنے آئیں گے، لہٰذا جب تم ان کو دیکھو تو رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق انہیں مرحبا (خوش آمدید) کہو، اور انہیں علم سکھاؤ۔ محمد بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے حکم سے پوچھا کہ اقنوهم کے کیا معنی ہیں، تو انہوں نے کہا : علموهم، یعنی انہیں علم سکھلاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ٤ (٢٦٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦٢) (حسن) (سند میں ابوہارون العبدی ضعیف ومتروک راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٨٠ )

【248】

طلب علم کے بارے میں وصیت

اسماعیل (اسماعیل بن مسلم) کہتے ہیں کہ ہم حسن بصری کے پاس ان کی عیادت کے لیے گئے یہاں تک کہ ہم سے گھر بھر گیا، انہوں نے اپنے پاؤں سمیٹ لیے پھر کہا : ہم ابوہریرہ (رض) کے پاس ان کی عیادت کے لیے گئے یہاں تک کہ ہم سے گھر بھر گیا، تو انہوں نے اپنے پاؤں سمیٹ لیے، اور کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، یہاں تک کہ ہم سے گھر بھر گیا، آپ ﷺ پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے، جب آپ نے ہمیں دیکھا تو اپنے پاؤں سمیٹ لیے پھر فرمایا : عنقریب میرے بعد کچھ لوگ طلب علم کے لیے آئیں گے، تو تم انہیں مرحبا کہنا، مبارکباد پیش کرنا، اور انہیں علم دین سکھانا ۔ پھر حسن بصری کہتے ہیں : قسم اللہ کی (طلب علم میں) ہمارا بہت سے ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا کہ انہوں نے نہ تو ہمیں مرحبا کہا، نہ ہمیں مبارکباد دی، اور نہ ہی ہمیں علم دین سکھایا، اس پر مزید یہ کہ جب ہم ان کے پاس جاتے تو وہ ہمارے ساتھ بری طرح پیش آتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٤١٤) (موضوع) (اس سند میں المعلی بن ہلال کی کئی لوگوں نے تکذیب کی ہے، اور اس پر وضع حدیث کا الزام لگایا ہے، اور اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٣٤٩ )

【249】

طلب علم کے بارے میں وصیت

ہارون عبدی کہتے ہیں کہ جب ہم ابو سعید خدری (رض) کے پاس آتے تو وہ فرماتے : رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : لوگ تمہارے پیچھے ہیں، اور عنقریب وہ تمہارے پاس زمین کے مختلف گوشوں سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے، لہٰذا جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ٤ (٢٦٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦٢) (ضعیف) (سند میں ابوہارون العبدی ضعیف راوی ہے )

【250】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی دعاؤں میں یہ دعا بھی تھی : اللهم إني أعوذ بک من علم لا ينفع ومن دعا لا يسمع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع اے اللہ ! میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے، اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے، اور اس دل سے جو (اللہ سے) نہ ڈرے، اور اس نفس سے جو آسودہ نہ ہوتا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستعاذة ١٧ (٥٤٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٤٨) ، مسند احمد (٢/١٢٦١) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٨٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علم دین کا نفع یہی ہے کہ آدمی اس پر عمل کرے، اور خلق کو اس کی طرف بلائے۔

【251】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : اے اللہ ! میرے لیے اس چیز کو نفع بخش اور مفید بنا دے جو تو نے مجھے سکھایا ہے، مجھے وہ چیز سکھا دے جو میرے لیے نفع بخش اور مفید ہو، اور میرا علم زیادہ کر دے، اور ہر حال میں ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٢٩ (٣٥٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٥٦) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٨٣٣) (صحیح) (الحمد لله على كل حال کا جملہ ثابت نہیں ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٤٦٢ )

【252】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے علم دین کو جس سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہوتی ہے محض کسی دنیاوی فائدہ کے لیے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العلم ١٢ (٣٦٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣٨) (صحیح ) اس سند سے بھی فلیح بن سلیمان نے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔

【253】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے علم سیکھا تاکہ بیوقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے، یا علماء پر فخر کرے، یا لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے، تو وہ جہنم میں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٤٤، ومصباح الزجاجة : ١٠١) (حسن) (تراجع الألبانی رقم : ٣٨٩ ، سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، اس کی سند میں حماد بن عبد الرحمن اور ابوکرب ازدی دونوں مجہول راوی ہیں )

【254】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم علم کو علماء پر فخر کرنے یا کم عقلوں سے بحث و تکرار کے لیے نہ سیکھو، اور علم دین کو مجالس میں اچھے مقام کے حصول کا ذریعہ نہ بناؤ، جس نے ایسا کیا تو اس کے لیے جہنم ہے، جہنم ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٨٧٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٢) (صحیح) (تراجع الألبانی رقم : ٣٨٨ ، و صحیح الترغیب : ١٠٢ ، شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جہنم کا مستحق ہے، یا وہ علم اس کے حق میں خود آگ ہے۔

【255】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک میری امت کے کچھ لوگ دین کا علم حاصل کریں گے، قرآن پڑھیں گے، اور کہیں گے کہ ہم امراء و حکام کے پاس چلیں اور ان کی دنیا سے کچھ حصہ حاصل کریں، پھر ہم اپنے دین کے ساتھ ان سے الگ ہوجائیں گے، (آپ ﷺ نے فرمایا :) یہ بات ہونے والی نہیں ہے، جس طرح کانٹے دار درخت سے کانٹا ہی چنا جاسکتا ہے، اسی طرح ان کی قربت سے صرف ... چنا جاسکتا ہے ۔ محمد بن صباح راوی نے کہا : گویا آپ نے (گناہ) مراد لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٠٤) (ضعیف) (حدیث کی سند میں مذکور راوی عبید اللہ بن أبی بردہ مقبول راوی ہیں، لیکن متابعت نہ ہونے سے لین الحدیث ہیں، یعنی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٢٥٠ )

【256】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب الحزن سے اللہ کی پناہ مانگو ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! جب الحزن کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس میں کون لوگ داخل ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے ان قراء کے لیے تیار کیا گیا ہے جو اپنے اعمال میں ریاکاری کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین قاری وہ ہیں جو مالداروں کا چکر کاٹتے ہیں ۔ محاربی کہتے ہیں : امراء سے مراد ظالم حکمران ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد ابن ماجہ بہذا السیاق (تحفة الأشراف : ١٤٥٨٦، ومصباح الزجاجة : ١٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزھد ٤٨ (٣٢٨٣) ، دون قوله : وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّائِ إِلَى...، وقال : مئة مرة ، بدل : أربع مئة ، والباقي نحوه، وقال : غريب (ضعیف) (حدیث کی سند میں مذکور راوی عمار بن سیف وابومعاذ البصری دونوں ضعیف راوی ہیں، ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے، جس کا مطلب ان کے یہاں حدیث کی تضعیف ہے ) اس سند سے بھی معاویہ نصری نے جو ثقہ ہیں مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔ عمار کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ ابومعاذ کے شیخ محمد ہیں یا انس بن سیرین۔ امام ابن ماجہ (رح) نے ایک دوسری سند سے (حدیث کے راوی ابن سیرین) کے بارے میں راوی کا تردد بھی بیان کیا ہے کہ وہ محمد بن سیرین ہے یا انس بن سیرین۔ وضاحت : ( مصباح الزجاجۃ، تحت رقم : ١٠٣) د/عوض شہری کے نسخہ میں یہ عبارت نہیں ہے جب کہ مصری نسخہ میں یہ یہاں، اور بعد میں نمبر (٢٥) کے بعد ہے، یہاں پر اس نص کا وجود غلط معلوم ہوتا ہے، اس کا مقام نمبر (٢٥٧) کے بعد ہی صحیح ہے )

【257】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا اگر اہل علم علم کی حفاظت کرتے، اور اس کو اس کے اہل ہی کے پاس رکھتے تو وہ اپنے زمانہ والوں کے سردار ہوتے، لیکن ان لوگوں نے دنیا طلبی کے لیے اہل دنیا پر علم کو نچھاور کیا، تو ان کی نگاہوں میں ذلیل ہوگئے، میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہوگا، اور جس کی تمام تر سوچیں دنیاوی احوال میں پریشان رہیں، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٥) (ضعیف) (اس سند میں نہشل متروک ہے راوی، مناکیر روایت کرتا ہے، اس لئے حدیث کا پہلا ٹکڑا ضعیف ہے، لیکن حدیث کا دوسرا ٹکڑا : من جعل الهموم شواہد کی وجہ سے حسن ہے، جو اسی سند سے مؤلف کے یہاں کتاب الزہد ( ٤١٠٦ ) میں آ رہا ہے، نیز ملاحظہ ہو : کتاب الزهد لوكيع بن الجراح، تحقیق دکتور عبد الرحمن الفریوائی ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس حالت میں اللہ تعالیٰ اس سے اپنی مدد اٹھا لے گا۔ ابن نمیر نے معاویہ نصری ثقہ سے اس اسناد سے اسی طرح حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : (مصباح الزجاجة : ١٠٥، ط، مصریہ، وموطا امام مالک/ الجامعة الإسلامیة )

【258】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے غیر اللہ کے لیے علم طلب کیا، یا اللہ کے علاوہ کی (رضا مندی) چاہی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم کو بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ٦ (٢٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٧١٢) (ضعیف) (خالد بن دریک کا سماع ابن عمر (رض) سے نہیں ہے، اس لئے یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے )

【259】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم علم کو علماء پر فخر کرنے یا کم عقلوں سے بحث و تکرار کرنے یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے نہ سیکھو، جس نے ایسا کیا اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٨٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٦) (حسن) (سند میں بشیر بن میمون متروک ومتہم اور اشعث بن سوار دونوں ضعیف ہیں، اس لئے یہ سند سخت ضعیف ہے، لیکن شواہد ومتابعات کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : تخريج اقتضاء العلم، للخطیب البغدادی : ١٠٠ - ١٠٢، وصحيح الترغيب : ١٠٦ -١١٠ )

【260】

علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے علم کو علماء پر فخر کرنے، اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرنے، اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے سیکھا، اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣٨) (حسن) (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کے بناء پر حدیث صحیح ہے، کما تقدم )

【261】

علم چھپانے کی برائی میں

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص بھی علم دین یاد رکھتے ہوئے اسے چھپائے، تو اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنا کر لایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العلم ٩ (٣٦٥٨) ، سنن الترمذی/ العلم ٣ (٢٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٢٦٣، ٣٠٥، ٣٤٤، ٣٥٣، ٤٩٥، ٤٩٩، ٥٠٨) (حسن صحیح ) اس سند سے بھی عمارہ بن زاذان نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔ وضاحت : ( یہ سند شیخ مشہور بن حسن سلمان کے نسخے میں نہیں ہے، بلکہ یہ شیخ علی حسن عبدالحمید اثری کے نسخے میں صفحہ نمبر (١٤٧) پر موجود ہے ) اس سند سے بھی عمارہ بن زاذان نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔ وضاحت : ( یہ سند شیخ مشہور بن حسن سلمان کے نسخے میں نہیں ہے، بلکہ یہ شیخ علی حسن عبدالحمید اثری کے نسخے میں صفحہ نمبر (١٤٧) پر موجود ہے ) اس سند سے بھی عمارہ بن زاذان نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔ وضاحت : ( یہ سند شیخ مشہور بن حسن سلمان کے نسخے میں نہیں ہے، بلکہ یہ شیخ علی حسن عبدالحمید اثری کے نسخے میں صفحہ نمبر (١٤٧) پر موجود ہے )

【262】

علم چھپانے کی برائی میں

ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں اللہ کی قسم ! اگر قرآن کریم کی دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں نبی اکرم ﷺ سے کبھی بھی کوئی نہ حدیث بیان کرتا، اور دو آیتیں یہ ہیں : إن الذين يکتمون ما أنزل الله من الکتاب إلى آخر الآيتين بیشک جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلہ میں معمولی قیمت لیتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ نہ تو ان سے بات کرے گا اور نہ ہی ان کو معاف کرے گا، اور ان کو سخت عذاب پہنچے گا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے خرید لیا اور عذاب کو مغفرت کے بدلے، پس وہ کیا ہی صبر کرنے والے ہیں جہنم پر (سورة البقرة : 174-175) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٢ (١١٨) ، المزارعة ٢١ (٢٣٥٠) ، الاعتصام ٢٢ (٧٣٥٤) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٥ (٢٤٩٢) ، سنن النسائی/الکبری (٥٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آیت کا سیاق یہ ہے : إن الذين يکتمون ما أنزل الله من الکتاب ويشترون به ثمنا قليلا أولئك ما يأکلون في بطونهم إلا النار ولا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم (١٧٤) أولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة فمآ أصبرهم على النار (١٧٥) (سورة البقرة : 174-175) ، یہ آیات اگرچہ یہود کے متعلق ہیں، جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی توراۃ میں موجود صفات چھپا لیں، مگر قرآن کے عمومی سیاق کا حکم شریعت کے احکام کو چھپانے والوں کو شامل ہے، علماء کے یہاں مشہور قاعدہ ہے : العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب یعنی : اصل اعتبار الفاظ کے عموم سے استدلال کا ہے، سبب نزول سے وہ خاص نہیں ہے ۔

【263】

علم چھپانے کی برائی میں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اس امت کے خلف (بعد والے) اپنے سلف (پہلے والوں) کو برا بھلا کہنے لگیں، تو جس شخص نے اس وقت ایک حدیث بھی چھپائی اس نے اللہ کا نازل کردہ فرمان چھپایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٥١، ومصباح الزجاجة : ١٠٨) (ضعیف جدًا) (سند میں حسین بن أبی السری سخت ضعیف ہیں، اور عبد اللہ بن السری صدق وزہد سے متصف ہوتے ہوئے عجائب ومناکیر روایت کرنے میں منفرد ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٥٠٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ إن الذين يکتمون ما أنزل الله کی آیت جو اوپر گذری ہے اس کا مستحق ٹھہرا۔

【264】

علم چھپانے کی برائی میں

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص سے دین کے کسی مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا، اور باوجود علم کے اس نے اسے چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٩) (صحیح) (اس کی سند میں یوسف بن ابراہیم ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٢٢٣ ، ٢٢٤ )

【265】

علم چھپانے کی برائی میں

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کوئی ایسا علم چھپایا جس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دینی امور میں نفع دیتا ہے، تو اللہ اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٢٧، ومصباح الزجاجة : ١١٠) (ضعیف جدًا) (سند میں محمد بن داب سخت ضعیف ہیں، اور أبوزرعہ وغیرہ نے تکذیب کی ہے، اور وضع حدیث سے منسوب کیا ہے )

【266】

علم چھپانے کی برائی میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھا گیا، اور جاننے کے باوجود اس نے اس کو چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٧٧) (صحیح )