11. نکاح کا بیان
نکاح کی فضیلت
علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ منیٰ میں تھا، تو عثمان (رض) انہیں لے کر تنہائی میں گئے، میں ان کے قریب بیٹھا تھا، عثمان (رض) نے ان سے کہا : کیا آپ چاہتے ہیں آپ کی شادی کسی نوجوان لڑکی سے کرا دوں جو آپ کو ماضی کے حسین لمحات کی یاد دلا دے ؟ جب عبداللہ بن مسعود (رض) نے دیکھا کہ عثمان (رض) ان سے اس کے علاوہ کوئی راز کی بات نہیں کہنا چاہتے، تو انہوں نے مجھ کو قریب آنے کا اشارہ کیا، میں قریب آگیا، اس وقت عبداللہ بن مسعود (رض) کہہ رہے تھے کہ اگر آپ ایسا کہتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا ہے : اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شخص نان و نفقہ کی طاقت رکھے تو وہ شادی کرلے، اس لیے کہ اس سے نگاہیں زیادہ نیچی رہتی ہیں، اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت ہوتی ہے، اور جو نان و نفقہ کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ یہ شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٠ (١٩٠٥) ، النکاح ٢ (٥٠٦٥) ، صحیح مسلم/النکاح ١ (١٤٠٠) ، سنن ابی داود/النکاح ١ (٢٠٤٦) ، سنن الترمذی/النکاح ١ (١٠٨١ تعلیقاً ) ، سنن النسائی/الصیام ٤٣ (٢٢٤١) ، النکاح ٣ (٣٢٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٥٨، ٣٧٨، ٤٢٤، ٤٢٥، ٤٣٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٢ (٢٢١٢) (صحیح )
نکاح کی فضیلت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے، تم لوگ شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر (قیامت کے دن) فخر کروں گا، اور جو صاحب استطاعت ہوں شادی کریں، اور جس کو شادی کی استطاعت نہ ہو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٤٩، ومصباح الزجاجة : ٦٥٤) (حسن) (سند میں عیسیٰ بن میمون منکر الحدیث ہے، بلکہ بعض لوگوں نے متروک الحدیث بھی کہا ہے، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣٨٣ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں نکاح کا لفظ امر کے ساتھ وارد ہوا ہے، اور امر وجوب کے لیے آتا ہے، اسی لیے اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ جس کو نان و نفقہ اور مہر وغیرہ کی قدرت ہو اس کو نکاح کرنا سنت ہے، اور اگر اس کے ساتھ گناہ میں پڑنے کا ڈر ہو تو نکاح کرنا واجب ہے، صحیحین میں انس (رض) سے مروی ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا، بعض نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا سوؤں گا نہیں، بعض نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی افطار نہیں کروں گا، یہ خبر نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا حال ہے لوگوں کا ایسا ایسا کہتے ہیں، میں تو روزے بھی رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں، سوتا بھی ہوں، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، پھر جو کوئی میرے طریقے سے نفرت کرے وہ مجھ سے نہیں ہے ۔
نکاح کی فضیلت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : دو شخص کے درمیان محبت کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٩٥، ومصباح الزجاجة : ٦٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اکثر دو قوموں میں یا دو شخص میں عداوت ہوتی ہے، جب نکاح کی وجہ سے باہمی رشتہ ہوجاتا ہے تو وہ عداوت جاتی رہتی ہے، اور کبھی محبت کم ہوتی ہے تو نکاح سے زیادہ ہوجاتی ہے، اور یہی سبب ہے کہ قرابت دو طرح کی ہوگئی ہے، ایک نسبی قرابت، دوسرے سببی قرابت، اور انسان کو اپنی بیوی کے بھائی بہن سے ایسی الفت ہوتی ہے جیسے اپنے سگے بھائی بہن سے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
مجرد رہنے کی ممانعت
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) کی شادی کے بغیر زندگی گزارنے کی درخواست رد کردی، اگر آپ ﷺ نے انہیں اجازت دی ہوتی تو ہم خصی ہوجاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٨ (٥٠٧٣، ٥٠٧٤) ، صحیح مسلم/النکاح ١ (١٤٠٢) ، سنن الترمذی/النکاح ٢ (١٠٨٣) ، سنن النسائی/النکاح ٤ (٣٢١٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٦، ١٨٣) ، سنن الدارمی/ النکاح ٣ (٢٢١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تبتل کے معنی عورتوں سے الگ رہنے، نکاح نہ کرنے اور ازدواجی تعلق سے الگ تھلگ رہنے کے ہیں، نصاری کی اصطلاح میں اسے رہبانیت کہتے ہیں، تجرد کی زندگی گزارنا اور شادی کے بغیر رہنا شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے۔
مجرد رہنے کی ممانعت
سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تجرد والی زندگی (بےشادی شدہ رہنے) سے منع فرمایا۔ زید بن اخزم نے یہ اضافہ کیا ہے : اور قتادہ نے یہ آیت پڑھی، ولقد أرسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لهم أزواجا وذرية (سورة الرعد : 38) ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور اولاد بنائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٢ (١٠٨٢) ، سنن النسائی/النکاح ٤ (٣٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٠) ، مسند احمد (٥/١٧) صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتا ہے یا کافروں کے اعتراض رد کرتا ہے کہ اگر آپ نے کئی شادیاں کیں تو اولاً یہ نبوت کے منافی نہیں ہے، اگلے بہت سے انبیاء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے کئی کئی شادیاں کیں، ان کی اولاد بھی بہت تھی، بلکہ بنی اسرائیل تو سب یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہیں جن کے بارہ بیٹے تھے، اور کئی بیویاں تھیں، اور ابراہیم (علیہ السلام) کی دو بیویاں تھیں، ایک سارہ، دوسری ہاجرہ، اور سلیمان (علیہ السلام) کی ( ٩٩ ) بیویاں تھیں، الروضہ الندیہ میں ہے کہ مانویہ اور نصاری نکاح نہ کرنے کو عبادت سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں اس کو باطل کیا، فطرت اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان نکاح کرے، اور اپنے بنی نوع کی نسل کو قائم رکھے، اور بڑھائے، البتہ جس شخص کو بیوی رکھنے کی قدرت نہ ہو اس کو اکیلے رہنا درست ہے۔
خاوند کے ذمہ بیوی کا حق
معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب کھائے تو اس کو کھلائے، جب خود پہنے تو اس کو بھی پہنائے، اس کے چہرے پر نہ مارے، اس کو برا بھلا نہ کہے، اور اگر اس سے لاتعلقی اختیار کرے تو بھی اسے گھر ہی میں رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤٢ (٢١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٤٧، ٥/٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی بات پر ناراض ہو تو اسے گھر سے دوسری جگہ نہ بھگائے، گھر ہی میں رکھے، بطور تأدیب صرف بستر الگ کر دے، اس لئے کہ اس کو دوسرے گھر میں بھیج دینے سے اس کے پریشان اور آوارہ ہونے کا ڈر ہے، اور تعلقات بننے کی بجائے مزید بگڑنے کی راہ ہموار ہونے کا خطرہ ہے۔
خاوند کے ذمہ بیوی کا حق
عمرو بن احوص (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا : عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو ، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورتوں پر حق ہے، اور ان کا حق تم پر ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارا بستر ایسے شخص کو روندنے نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو ١ ؎ اور وہ کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، سنو ! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اچھی طرح ان کو کھانا اور کپڑا دو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ١١ (١١٦٣) ، تفسیر ١٠ (٣٠٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٩٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی مرد کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ اندر آئے، اور اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے، پہلے عربوں میں یہ چیز معیوب نہیں تھی لیکن جب آیت حجاب نازل ہوئی تو اس سے منع کردیا گیا۔ ٢ ؎: لمن تكرهون میں غیر محرم مرد تو یقینی طور پر داخل ہیں، نیز وہ محرم مرد اور عورتیں بھی اس میں داخل ہیں جن کے آنے جانے کو شوہر پسند نہ کرے۔
بیوی کے ذمہ خاوند کا حق
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں کسی کو سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اور اگر شوہر عورت کو جبل احمر سے جبل اسود تک، اور جبل اسود سے جبل احمر تک پتھر ڈھونے کا حکم دے تو عورت پر حق ہے کہ اس کو بجا لائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٢٠، ومصباح الزجاجة : ٦٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٧، ٧٦، ٩٧، ١١٢، ١٣٥) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، صرف حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے، الإرواء : ١٩٩٨ ، ٧ /٥٨، صحیح أبی داود : ١٨٧٧ )
بیوی کے ذمہ خاوند کا حق
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ جب معاذ (رض) شام سے واپس آئے، تو نبی اکرم ﷺ کو سجدہ (سجدہ تحیہ) کیا، آپ ﷺ نے پوچھا : اے معاذ ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں، ایسا نہ کرنا، اس لیے کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرلے، اور اگر شوہر عورت سے جماع کی خواہش کرے، اور وہ کجاوے پر سوار ہو تو بھی وہ شوہر کو منع نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٨٠، ومصباح الزجاجة : ٦٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (/٣٨١٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ نیک اور دیندار عورت دنیاوی عیش و عشرت کا عنوان ہوتی ہے، اس کی صحبت سے آدمی کو خوشی ہوتی ہے، باہر سے کتنے ہی رنج میں آئے جب اپنی پاک سیرت عورت کے پاس بیٹھتا ہے تو سارا رنج و غم بھول جاتا ہے برخلاف اس کے اگر عورت خراب اور بدخلق ہو تو دنیا کی زندگی جہنم بن جاتی ہے، کتنا ہی مال اور دولت ہو سب بیکار اور لغو ہوجاتا ہے، کچھ مزا نہیں آتا، علی (رض) نے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً (سورة البقرة : 201) سے دنیا کی نیکی سے نیک اور دیندار عورت اور آخرت کی نیکی سے جنت کی حور، اور آگ کے عذاب سے خراب اور بدزبان عورت مراد لی ہے۔
بیوی کے ذمہ خاوند کا حق
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ١٠ (١١٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٤) (ضعیف) (مساور الحمیری اور ان کی ماں دونوں مبہم راوی ہیں )
عورتوں کی فضیلت
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا متاع (سامان) ہے، اور دنیا کے سامانوں میں سے کوئی بھی چیز نیک اور صالح عورت سے بہتر نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٧ (١٤٦٧) ، سنن النسائی/النکاح ١٥ (٣٢٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٩) ، مسند احمد (٢/١٦٨) (صحیح )
عورتوں کی فضیلت
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ جب سونے اور چاندی کے بارے میں آیت اتری تو لوگ کہنے لگے کہ اب کون سا مال ہم اپنے لیے رکھیں ؟ عمر (رض) نے کہا : میں اسے تمہارے لیے معلوم کر کے کر آتا ہوں، اور اپنے اونٹ پر سوار ہو کر اسے تیز دوڑایا اور نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے، میں بھی آپ کے پیچھے تھا، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کون سا مال رکھیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں ہر کوئی شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، اور ایمان والی بیوی رکھے جو اس کی آخرت کے کاموں میں مدد کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٨٤، ومصباح الزجاجة : ٦٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ١٠ (٣٠٩٤) ، مسند احمد (٥/٢٧٨، ٢٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عورت کی مدد آخرت کے کام میں یہ ہے کی آدمی اس کی وجہ سے گناہوں اور بدنظری سے بچتا ہے، اور گھر کے تمام کام عورت کرلیتی ہے مرد کو عبادت کی فرصت ملتی ہے، اگر عورت نہ ہو اور یہ کام خود کرے تو عبادت کی فرصت مشکل سے ملے گی، بعض عورتیں خود نیک اور دیندار ہوتی ہیں، ان کی صحبت کے اثر سے مرد بھی زاہد اور عابد ہوجاتا ہے، بعض عورتیں اپنے شوہر کو تہجد کی نماز کے لئے جگاتی ہیں۔
عورتوں کی فضیلت
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے : تقویٰ کے بعد مومن نے جو سب سے اچھی چیز حاصل کی وہ ایسی نیک بیوی ہے کہ اگر شوہر اسے حکم دے تو اسے مانے، اور اگر اس کی جانب دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے، اور اگر وہ اس (کے بھروسے) پر قسم کھالے تو اسے سچا کر دکھائے، اور اگر وہ موجود نہ ہو تو عورت اپنی ذات اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٩، ومصباح الزجاجة : ٦٥٩) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے )
دیندار عورت سے شادی کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے، ان کے مال و دولت کی وجہ سے، ان کے حسب و نسب کی وجہ سے، ان کے حسن و جمال اور خوبصورتی کی وجہ سے، اور ان کی دین داری کی وجہ سے، لہٰذا تم دیندار عورت کا انتخاب کر کے کامیاب بنو، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٥ (٥٠٩٠) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٥ (١٤٦٦) ، سنن ابی داود/النکاح ٢ (٢٠٤٧) ، سنن النسائی/النکاح ١٣ (٣٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٤ (٢٢١٦) (صحیح )
دیندار عورت سے شادی کرنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں سے صرف ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر شادی نہ کرو، ہوسکتا ہے حسن و جمال ہی ان کو تباہ و برباد کر دے، اور عورتوں سے ان کے مال و دولت کو دیکھ کر شادی نہ کرو، ہوسکتا ہے ان کے مال ان کو سرکش بنادیں، بلکہ ان کی دین داری کی وجہ سے ان سے شادی کرو، ایک کان کٹی کالی لونڈی جو دیندار ہو زیادہ بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٦٨، ومصباح الزجاجة : ٦٦٠) (ضعیف جدا) (سند میں عبد الرحمن بن زیاد بن انعم افریقی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٠٦٠ )
کنواریوں کے بیان میں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ ﷺ سے ملا، تو آپ نے فرمایا : جابر ! کیا تم نے شادی کرلی ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! آپ ﷺ نے پوچھا : کنواری سے یا غیر کنواری سے ؟ میں نے کہا : غیر کنواری سے، آپ ﷺ نے فرمایا : شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے ؟ میں نے کہا : میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٦ (٧١٥) ، سنن النسائی/النکاح ٦ (٣٢٢١) ، ١٠ (٣٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٤ (٢٠٩٧) ، الوکالة ٨ (٢٤٠٩) ، الجہاد ١١٣ (٢٩٦٧) ، المغازي ١٨ (٤٠٥٢) ، النکاح ١٠ (٥٠٧٩) ، ١٢١ (٥٢٤٥) ، ١٢٢ (٥٢٤٧) ، النفقات ١٢ (٥٣٦٧) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٧) ، سنن ابی داود/النکاح ٣ (٢٠٤٨) ، سنن الترمذی/النکاح ١٣ (١١٠٠) ، مسند احمد (٣/٢٩٤، ٣٠٢، ٣٠٨، ٣١٤، ٣٦٢، ٣٦٩، ٣٧٤، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٢ (٢٢٦٢) (صحیح )
کنواریوں کے بیان میں
عویم بن ساعدہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کنواری لڑکیوں سے شادی کیا کرو، کیونکہ وہ شیریں دہن ہوتی ہیں اور زیادہ بچے جننے والی ہوتی ہیں، اور تھوڑے پہ راضی رہتی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٦) ، ومصباح الزجاجة : ٦٦١) (حسن) (سند میں عبد الرحمن بن سالم مجہول ہے، لیکن جابر (رض) کی مرفوع حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
آزاد اور زیادہ جننے والی عورتوں سے شادی کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس کو اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنے کا ارادہ ہے تو چاہیے کہ وہ آزاد عورتوں سے شادی کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢١، ومصباح الزجاجة : ٦٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٥، ٤٩٣) (ضعیف) (سند میں کثیر بن سلیم اور سلام بن سوار ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ آزاد عورتیں بہ نسبت لونڈیوں کے زیادہ لطیف اور پاکیزہ ہوتی ہیں، اور ممکن ہے کہ مطلب یہ ہو جو کوئی آزاد عورتوں سے نکاح کرے گا، اس کی نگاہ اجنبی عورتوں کے طرف نہ اٹھے گی، پس وہ اکثر گناہوں سے بچا رہے گا۔
آزاد اور زیادہ جننے والی عورتوں سے شادی کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے فخر کروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٨١، ومصباح الزجاجة : ٦٦٣) (صحیح) (سند میں طلحہ بن عمرو مکی ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٧٨٤ وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٩٦٠ ، صحیح أبی داود : ١٧٨٩ ) وضاحت : ١ ؎: جب نکاح کرو گے تو اولاد ہوگی اور میری امت زیادہ ہوگی، مؤلف نے انس (رض) کی حدیث بیان نہیں کی جس کو احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے کہ شوہر سے محبت کرنے والی عورت سے نکاح کرو، جو بہت جننے والی ہو اس لئے کہ میں دوسرے انبیاء پر قیامت کے دن تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔
کسی عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو ایک نظر اسے دیکھنا
محمد بن مسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو شادی کا پیغام دیا تو میں اسے دیکھنے کے لیے چھپنے لگا، یہاں تک کہ میں نے اسے اسی کے باغ میں دیکھ لیا، لوگوں نے ان سے کہا : آپ ایسا کرتے ہیں جب کہ آپ صحابی رسول ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جب اللہ کسی مرد کے دل میں کسی عورت کو نکاح کا پیغام دینے کا خیال پیدا کرے، تو اس عورت کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٨، ومصباح الزجاجة : ٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٣، ٤/٢٢٥) (صحیح) (سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٩٨ ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ یہ ضرورت کے وقت دیکھنا ہے، اور ضرورت کے وقت ایسا کرنا جائز ہے جیسے قاضی اور گواہ کا عورت کو دیکھنا صحیح اور جائز ہے، اسی طرح طبیب کو علاج کے لئے اس مقام کو دیکھنا درست ہے جہاں دیکھنے کی ضرورت ہو، اہل حدیث، شافعی، ابوحنیفہ، احمد اور اکثر اہل علم کا مذہب یہی ہے کہ جس عورت سے نکاح کرنا مقصود ہو اس کا دیکھنا جائز ہے، اور امام مالک کہتے ہیں کہ یہ عورت کی اجازت سے صحیح ہے، بغیر اس کی اجازت کے صحیح نہیں، اور ایک روایت ان سے یہ ہے کہ صحیح نہیں ہے، اس باب میں ایک یہ حدیث ہے، دوسری مغیرہ (رض) کی حدیث ہے جو آگے آرہی ہے، تیسری ابوہریرہ (رض) کی حدیث جو صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کا ارادہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اس کو دیکھا تھا ؟ وہ بولا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اس کو دیکھ لو، اس لئے کہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے، آپ ﷺ نے جو فرمایا ویسا ہی ہوا، اور اس عورت سے خوب موافقت رہی۔
کسی عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو ایک نظر اسے دیکھنا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ مغیرہ بن شعبہ (رض) نے ایک عورت سے نکاح کرنا چاہا، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : جاؤ اور اس کو دیکھ لو ایسا کرنے سے زیادہ امید ہے کہ تم دونوں کے درمیان الفت و محبت ہو ، مغیرہ (رض) نے ایسا ہی کیا، اور پھر شادی کی، پھر انہوں نے اس سے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی کا ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٠، ومصباح الزجاجة : ٦٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ٥ (١٠٨٧) ، سنن النسائی/النکاح ١٧ (٣٢٣٧) ، مسند احمد (٤/٢٤٥، ٢٤٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٥ (٢٢١٨) (صحیح )
کسی عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو ایک نظر اسے دیکھنا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ سے ذکر کیا کہ میں ایک عورت کو پیغام دے رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اسے دیکھ لو، اس سے تم دونوں میں محبت زیادہ ہونے کی امید ہے ، چناچہ میں ایک انصاری عورت کے پاس آیا، اور اس کے ماں باپ کے ذریعہ سے اسے پیغام دیا، اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان سنایا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ ان کو یہ بات پسند نہیں آئی، اس عورت نے پردہ سے یہ بات سنی تو کہا : اگر رسول اللہ ﷺ نے دیکھنے کا حکم دیا ہے، تو تم دیکھ لو، ورنہ میں تم کو اللہ کا واسطہ دلاتی ہوں، گویا کہ اس نے اس چیز کو بہت بڑا سمجھا، مغیرہ (رض) کہتے ہیں : میں نے اس عورت کو دیکھا، اور اس سے شادی کرلی، پھر انہوں نے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی کا حال بتایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٥ (١٠٨٧) ، سنن النسائی/النکاح ١٧ (٣٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٤، سنن الدارمی/النکاح ٥ (٢٢١٨) (صحیح )
مسلمان بھائی پیغام نکاح دے تو دوسرا بھی اسی کو پیغام نہ دے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، النکاح ٤٥ (٥١٤٢) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، سنن ابی داود/النکاح ١٨ (٢٠٨٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٨ (١١٣٤) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ١ (١) ، حم (٢/٢٣٨، ٢٧٤، ٣١١، ٣١٨، ٣٩٤، ٤١١، ٤٢٧، ٤٥٧، ٤٦٢، ٤٦٣، ٤٨٧، ٤٨٩، ٥٥٨، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک مسلمان کی جب کسی جگہ نسبت طے ہونے لگے اور دونوں طرف سے رغبت کا اظہار ہونے لگ جائے تو کسی اور کے لیے شادی کا پیغام دینا جائز نہیں کیونکہ اس سے دوسرے مسلمان کی حق تلفی ہوتی ہے، اور اگر ابھی دونوں طرف سے رغبت کا اظہار نہیں ہوا ہے تو پیغام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
مسلمان بھائی پیغام نکاح دے تو دوسرا بھی اسی کو پیغام نہ دے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٢) ، البیوع ٨ (١٤١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨١٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٥ (٥١٤٢) ، سنن ابی داود/النکاح ١٨ (٢٠٨١) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٧ (١١٣٤) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٣٨) ، موطا امام مالک/النکاح ١ (٢) ، البیوع ٤٥ (٤٥) ، مسند احمد (٢/١٢٢، ١٢٤، ١٢٦، ١٣٠، ١٤٢، ١٥٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢٢) ، البیوع ٣٣ (٢٦٠٩) (صحیح )
مسلمان بھائی پیغام نکاح دے تو دوسرا بھی اسی کو پیغام نہ دے
فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تمہاری عدت گزر جائے تو مجھے خبر دینا ، آخر انہوں نے آپ ﷺ کو خبر دی، تو انہیں معاویہ ابولجہم بن صخیر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے شادی کا پیغام دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہے معاویہ تو وہ مفلس آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے، اور رہے ابوجہم تو وہ عورتوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں، لیکن اسامہ بہتر ہیں یہ سن کر فاطمہ (رض) نے ہاتھ سے اشارہ کیا : اور کہا : اسامہ اسامہ (یعنی اپنی بےرغبتی ظاہر کی) آپ ﷺ نے فاطمہ (رض) سے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا تمہارے لیے بہتر ہے ، فاطمہ (رض) کہتی ہیں : آخر میں نے اسامہ سے شادی کرلی، تو دوسری عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٧ (١١٣٥) سنن النسائی/النکاح ٨ (٣٢٢٤) ، الطلاق ٧٣ (٣٥٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٩ (٢٨٨٤) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢٣ (٦٧) ، مسند احمد (٦/٤١٤، ٤١٥) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت سے معلوم ہوا کہ جسے پیغام دیا گیا اگر اس کی طرف سے ابھی موافقت کا اظہار نہیں ہوا ہے تو دوسرے کے لیے پیغام دینا جائز ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صلاح و مشورہ دینے میں کسی کا حقیقی اور واقعی عیب بیان کرنا جائز ہے تاکہ مشورہ لینے والا دھوکہ نہ کھائے، یہ غیبت میں داخل نہیں ہے۔
کنواری یا ثیبہ دونوں سے نکاح کی اجازت لینا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غیر کنواری عورت اپنے آپ پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری عورت سے نکاح کے سلسلے میں اجازت طلب کی جائے گی ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کنواری بولنے سے شرم کرے گی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤٢١) ، سنن ابی داود/النکاح ٢٦ (٢٠٩٨) ، سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٨) ، سنن النسائی/النکاح ٣١ (٣٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ٢ (٣) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٤٢، ٢٧٤، ٣٥٤، ٣٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٤) (صحیح )
کنواری یا ثیبہ دونوں سے نکاح کی اجازت لینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : غیر کنواری عورت کا نکاح اس کی واضح اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کا نکاح بھی اس سے اجازت لے کر کیا جائے، اور کنواری کی اجازت اس کی خاموشی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤١٩) ، سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٢ (٥١٣٦) ، الحیل ١١ (٦٩٦٨، ٦٩٧٠) ، سنن النسائی/النکاح ٣٣ (٣٢٦٧) ، مسند احمد (٢/٢٢١، ٢٥٠، ٤٢٥، ٤٣٤، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٢) (صحیح )
کنواری یا ثیبہ دونوں سے نکاح کی اجازت لینا
عدی کندی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غیر کنواری عورت اپنی رضا مندی صراحۃً ظاہر کرے، اور کنواری کی رضا مندی اس کی خاموشی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٢، ومصباح الزجاجة : ٦٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٢) (صحیح) (عدی کندی کا اپنے والد عدی بن عمرہ سے سماع نہیں ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: ثیّبہ کا چپ ہوجانا کافی نہیں بلکہ زبان سے ہوں یا ہاں کہنا چاہیے، مراد یہاں کنواری اور ثیبہ سے وہ لڑکی ہے جو جوان اور بالغ ہوگئی ہو، لیکن جو نابالغ ہو اس سے اجازت لینا ضروری نہیں بلکہ ولی کی اجازت کافی ہے، جیسے ابوبکر صدیق (رض) نے اپنی بیٹی ام المومنین عائشہ (رض) کا نبی اکرم ﷺ سے نکاح کردیا تھا، اس وقت ام المومنین عائشہ (رض) کی عمر صرف چھ برس کی تھی۔
بیٹی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کرنا
عبدالرحمٰن بن یزید انصاری اور مجمع بن یزید انصاری (رض) خبر دیتے ہیں کہ خذام نامی ایک شخص نے اپنی بیٹی (خنساء) کا نکاح کردیا، اس نے اپنے باپ کا کیا ہوا نکاح ناپسند کیا، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے اس کے والد کا کیا ہوا نکاح فسخ کردیا، پھر اس نے ابولبابہ بن عبدالمنذر (رض) سے شادی کی۔ یحییٰ بن سعید نے ذکر کیا کہ وہ ثیبہ (غیر کنواری) تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٢ (٥١٣٨، ٥١٣٩) ، الإکراہ ٣ (١٩٤٥) ، الحیل ١١ (٦٩٦٩) ، سنن ابی داود/النکاح ٢٦ (٢١٠١) ، سنن النسائی/النکاح ٣٥ (٣٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ١٤ (٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٢٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٤ ١ (٣٢٣٧) (صحیح )
بیٹی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کرنا
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک نوجوان عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی عرض کیا : میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے، تاکہ میری وجہ سے اس کی ذلت ختم ہوجائے، نبی اکرم ﷺ نے اس عورت کو اختیار دے دیا، تو اس نے کہا : میرے والد نے جو کیا میں نے اسے مان لیا، لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے باپوں کو ان پر (جبراً نکاح کردینے کا) اختیار نہیں پہنچتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٩٧، ومصباح الزجاجة : ٦٦٨) (ضعیف شاذ) (غایة المرام : ٢١٧ )
بیٹی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور اس نے عرض کیا : اس کے والد نے اس کا نکاح کردیا حالانکہ وہ راضی نہیں ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے اختیار دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٥ (٢٠٩٦، ٢٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٣) (صحیح )
بیٹی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کرنا
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اترے، مجھے بخار آگیا اور میرے بال جھڑ گئے، پھر بال بڑھ کر مونڈھوں تک پہنچ گئے، تو میری ماں ام رومان میرے پاس آئیں، میں ایک جھولے میں تھی، میرے ساتھ میری کئی سہیلیاں تھیں، ماں نے مجھے آواز دی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں ؟ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ پر لا کھڑا کیا، اس وقت میرا سانس پھول رہا تھا، یہاں تک کہ میں کچھ پرسکون ہوگئی، پھر میری ماں نے تھوڑا سا پانی لے کر اس سے میرا منہ دھویا اور سر پونچھا، پھر مجھے گھر میں لے گئیں، وہاں ایک کمرہ میں انصار کی کچھ عورتیں تھیں، انہوں نے دعا دیتے ہوئے کہا : تم خیر و برکت اور بہتر نصیب کے ساتھ جیو ، میری ماں نے مجھے ان عورتوں کے سپرد کردیا، انہوں نے مجھے آراستہ کیا، میں کسی بات سے خوف زدہ نہیں ہوئی مگر اس وقت جب رسول اللہ ﷺ چاشت کے وقت اچانک تشریف لائے، اور ان عورتوں نے مجھے آپ کے حوالہ کردیا، اس وقت میری عمر نو سال تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٣٨ (٥١٣٣) ، ٣٩ (٥١٣٤) ، ٥٩ (٥١٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ١٠ (١٤٢٢) ، سنن ابی داود/النکاح ٣٤ (٢١٢١) ، سنن النسائی/النکاح ٢٩ (٣٢٥٧) ، مسند احمد (٦/١١٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٦ (٢٣٠٧) (صحیح )
نابالغ لڑکیوں کے نکاح ان کے باپ کرسکتے ہیں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے نکاح کیا، اس وقت ان کی عمر سات برس تھی، اور ان کے ساتھ خلوت کی تو ان کی عمر نو سال تھی، اور آپ ﷺ کا انتقال ہوا تو اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٢٠، ومصباح الزجاجة : ٦٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣٠) (صحیح) (سند میں ابو عبیدہ اور عبد اللہ بن مسعود (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦ /٢٣٠ ) وضاحت : ١ ؎: ام المومنین عائشہ (رض) کے فضائل و مناقب بیشمار ہیں، اور وہ آپ ﷺ کی تمام بیویوں میں خدیجہ الکبری (رض) کے بعد سب سے افضل ہیں، اور بعضوں نے خدیجہ الکبری سے بھی ان کو افضل کہا ہے، غرض وہ آپ ﷺ کی خاص چہیتی تھیں اور آپ کی بیویوں میں صرف وہی کنواری تھیں، اور اس کم سنی میں آپ (رض) کا یہ حال تھا کہ علم و فضل، قوت حافظہ اور عقل و دانش میں بڑی بوڑھی عورتوں سے سبقت لے گئی تھیں۔
نابالغ لڑکی کا نکاح والد کے علاوہ کوئی اور کردے تو؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب عثمان بن مظعون (رض) کا انتقال ہوا، تو انہوں نے ایک بیٹی چھوڑی، عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میری شادی اس لڑکی سے میرے ماموں قدامہ (رض) نے کرا دی جو اس لڑکی کے چچا تھے، اور اس سے مشورہ نہیں لیا، یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا، اس لڑکی نے یہ نکاح ناپسند کیا، اور اس نے چاہا کہ اس کا نکاح مغیرہ بن شعبہ (رض) سے کردیا جائے، آخر قدامہ (رض) نے اس کا نکاح مغیرہ ہی سے کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٥٢، ومصباح الزجاجة : ٦٧٠) ، ورواہ أحمد (٢/١٣٠، والدار قطنی فيسننہ و البیہقی في سننہ ٧/١١٣، من طریق عمربن حسین، عن نافع عن ابن عمر، وأخرجہ : الحاکم ٢/١٦ و البیہقی ٧/١٢١) (حسن) (اس کی سند میں عبد اللہ بن نافع ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث حسن ہے، کما فی التخریج ) وضاحت : ١ ؎: شاید عثمان (رض) کی بیٹی جوان ہوگی، اور جوان لڑکی کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے نافذ نہیں ہوتا، حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اگر باپ دادا کے سوا اور کوئی ولی کر دے تو وہ درست اور جائز ہوگا، لیکن لڑکی کو بلوغت کے بعد فسخ نکاح کا اختیار ہے، اگر وہ اس نکاح سے ناراض ہو تو وہ فسخ نکاح کرسکتی ہے۔
ولی کے بغیر نکاح باطل ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت کا نکاح اس کے ولی نے نہ کیا ہو، تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے، اگر مرد نے ایسی عورت سے جماع کرلیا تو اس جماع کے عوض عورت کے لیے اس کا مہر ہے، اور اگر ولی اختلاف کریں تو حاکم اس کا ولی ہوگا جس کا کوئی ولی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٠ (٢٠٨٣، ٢٠٨٤٨) ، سنن الترمذی/النکاح ١٤ (١١٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٦، ١٦٦، ٢٦٠) ، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٣٠) (صحیح )
ولی کے بغیر نکاح باطل ہے۔
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔ اور ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث میں ہے : جس کا کوئی ولی نہ ہو، اس کا ولی حاکم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٦٢، ومصباح الزجاجة : ٦٧١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٠ (٢٠٨٣) ، سنن الترمذی/النکاح ١٤ (١١٠٢) ، مسند احمد (٦/٦٦، ١٦٦، ٢٦٠، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٣٠) (صحیح) (حجاج بن ارطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حجاج کا عکرمہ سے سماع نہیں بھی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦ / ٢٣٨- ٢٤٧ )
ولی کے بغیر نکاح باطل ہے۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٠ (٢٠٨٥) ، سنن الترمذی/النکاح ١٤ (١١٠١) ، (تحفة الأشراف : ٩١١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٣، ٤١٨، ٣٩٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٢٩) (صحیح )
ولی کے بغیر نکاح باطل ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت عورت کا نکاح نہ کرائے، اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے، پس بدکار وہی عورت ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٤، ومصباح الزجاجة : ٦٧٢) (صحیح) (الزانیہ کے جملہ کے علاوہ حدیث صحیح ہے، نیز ملا حظہ ہو : الإرواء : ١٨٤١ )
شغار کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی سے کہے : آپ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے اس شرط پر کردیں کہ میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تجھ سے کر دوں گا، اور ان دونوں کے درمیان کوئی مہر نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٨ (٥١٠٩) ، الحیل ٤ (٦٩٦٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٧ (١٤١٥) ، سنن ابی داود/النکاح ١٥ (٢٠٧٤) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٠ (١١٦٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦١ (٣٣٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ١١ (٢٤) ، مسند احمد (٢/٧، ١٩، ٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٩ (٢٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ ہر ایک جانب مہر یہی ہو کہ دوسرے کی بیٹی یا بہن یہ حاصل کرے، ابن عبدالبر نے کہا یہ نکاح باجماع علماء ناجائز ہے لیکن اختلاف ہے کہ یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں، جمہور اس کو باطل کہتے ہیں، اور شافعی نے کہا یہ نکاح مثل نکاح متعہ کے باطل ہے، اور ابوحنیفہ نے کہا نکاح صحیح ہوجائے گا، اور ہر ایک پر مہر مثل لازم ہوگا۔
شغار کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٧ (١٤١٦) ، سنن النسائی/النکاح ٦١ (٣٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٦، ٤٣٩، ٤٩٦) (صحیح )
شغار کی ممانعت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں شغار نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٨، ومصباح الزجاجة : ٦٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٢) (صحیح )
عورتوں کا مہر
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : نبی اکرم ﷺ کی بیویوں کا مہر کیا تھا ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ کی بیویوں کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا، تم جانتے ہو نش کیا ہے ؟ یہ آدھا اوقیہ ہے، یہ کل پانچ سو درہم ہوئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٦) ، سنن ابی داود/النکاح ٢٩ (٢١٠٥) ، سنن النسائی/النکاح ٦٦ (٣٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١٨ (٢٢٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، ساڑھے بارہ اوقیہ کے کل پانچ سو درہم ہوئے۔
عورتوں کا مہر
ابوعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : عورتوں کے مہر مہنگے نہ کرو، اس لیے کہ اگر یہ دنیا میں عزت کی بات ہوتی یا اللہ تعالیٰ کے یہاں تقویٰ کی چیز ہوتی تو اس کے زیادہ حقدار محمد ﷺ ہوتے، آپ ﷺ نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں میں سے کسی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا، اور مرد اپنی بیوی کے بھاری مہر سے بوجھل رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مہر اس کے دل میں بیوی سے دشمنی کا سبب بن جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں نے تیرے لیے تکلیف اٹھائی یہاں تک کہ مشک کی رسی بھی اٹھائی، یا مجھے مشک کے پانی کی طرح پسینہ آیا۔ ابوعجفاء کہتے ہیں : میں پیدائش کے اعتبار سے عربی تھا ١ ؎، عمر (رض) نے جو لفظ علق القرب ۃ یا عرق القرب ۃ کہا : میں اسے نہیں سمجھ سکا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٢٩ (٢١٠٦) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٣ (١١١٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦٦ (٣٣٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١، ٤٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اصلاً عرب کا رہنے والا نہ تھا بلکہ دوسرے ملک سے آ کر عرب میں پیدا ہوا تھا۔
عورتوں کا مہر
عامر بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے کہ بنو فزارہ کے ایک شخص نے (مہر میں) دو جوتیوں کے بدلے شادی کی، تو نبی اکرم ﷺ نے اس کا نکاح جائز رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٢١ (١١١٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٦) ، وقد أخرجہ : (٣/٤٤٥، ٤٤٦) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف ہیں )
عورتوں کا مہر
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی تو آپ نے فرمایا : اس سے کون نکاح کرے گا ؟ ایک شخص نے کہا : میں، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا : اسے کچھ دو چاہے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو ، وہ بولا : میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے اس کا نکاح تمہارے ساتھ اس قرآن کے بدلے کردیا جو تمہیں یاد ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٩ (٢٣١٠) ، فضائل القرآن ٢١ (٥٠٢٩) ، ٢٢ (٥٣٠) ، النکاح ١٤ (٥٠٨٧) ، ٣٢ (٥١٢١) ، ٣٥ (٥١٢٦) ، ٣٧ (٥١٣٢) ، ٤٠ (٥١٣٥) ، ٤٤ (٥١٤١) ، ٥٠ (٥١٤٩) ، ٥١ (٥١٥٠) ، اللباس ٤٩ (٧١١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٥) ، سنن ابی داود/النکاح ٣١ (٢١١١) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٣ (١١١٤) ، سنن النسائی/النکاح ١ (٣٢٠٢) ، موطا امام مالک/النکاح ٣ (٨) ، مسند احمد (٥/٣٣٦) ، سنن الدارمی/النکاح ١٩ (٢٢٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہر میں مال کی کوئی تحدید نہیں، خواہ کم ہو یا زیادہ، اسی طرح محنت مزدوری یا تعلیم قرآن پر بھی نکاح درست ہے، جمہور علماء کی یہی رائے ہے، اور بعض نے دس درہم کی تحدید کی ہے، ان کے نزدیک اس سے کم میں مہر درست نہیں، لیکن ان کے دلائل اس قابل نہیں کہ ان صحیح احادیث کا معارضہ کرسکیں۔
عورتوں کا مہر
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عائشہ (رض) سے گھر میں موجود سامان پر نکاح کیا جس کی قیمت پچاس درہم تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٩١، ومصباح الزجاجة : ٦٧٤) (ضعیف) (سند میں عطیہ العوفی ضعیف ہے )
مرد نکاح کرے مہر مقرر نہ کرے اسی حال میں اسے موت جائے
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی، اور مہر کی تعین اور دخول سے پہلے ہی اس کا انتقال ہوگیا، تو انہوں نے کہا : اس عورت کو مہر ملے گا، اور میراث سے حصہ ملے گا، اور اس پہ عدت بھی لازم ہوگی، تو معقل بن سنان اشجعی (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، جب آپ نے بروع بنت واشق (رض) کے سلسلہ میں ایسے ہی فیصلہ کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٢ (٢١١٤، ٢١١٥) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٣ (١١٤٥) ، سنن النسائی/النکاح ٦٨ (٣٣٥٨) ، الطلاق ٥٧ (٣٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٤٧، ٣/٤٨٠، ٤/٢٨٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٧ (٢٢٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ روایت مختصر ہے، بعض حدیثوں میں یوں ہے کہ عبداللہ (رض) نے کہا : اس عورت کو مہر مثل ملے گا، یعنی اس کے کنبے کی عورتوں کا جو مہر ہوگا وہی اس کو دلایا جائے گا، نہ کم اور نہ زیادہ، پھر معقل (رض) نے گواہی دی تو عبداللہ بن مسعود (رض) نہایت خوش ہوئے کہ ان کا فیصلہ نبی اکرم ﷺ کے حکم کے مطابق ہوا، علامہ ابن القیم نے کہا کہ اس فتوے کے معارض کوئی فتوی نہیں تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی کے مثل مروی ہے۔
خطبہ نکاح
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو خیر کے جامع کلمات دیئے گئے تھے ١ ؎ خواہ وہ اخیر کے ہوں، یا کہا : شروع کے، آپ نے ہمیں صلاۃ کا خطبہ سکھایا اور حاجت کا خطبہ بھی، صلاۃ کا خطبہ یہ ہے : التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله آداب بندگیاں، صلاتیں اور پاکیزہ خیراتیں، اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اور حاجت کا خطبہ یہ ہے :إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله بیشک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریفیں بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اسی سے مغفرت چاہتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں، اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، اللہ جسے راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جیسے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اس کے بعد اپنے خطبہ کے ساتھ قرآن کی تین آیتیں پڑھو : يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور مسلمان ہی رہ کر مرو اخیر آیت تک واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے اخیر آیت تک اتقوا الله وقولوا قولا سديدا يصلح لکم أعمالکم ويغفر لکم ذنوبکم اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور نپی تلی بات کہو اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوارے دے گا، اور تمہارے گناہ معاف کرے گا، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی اخیر آیت تک ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٣ (٢١١٨) ، سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٥) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٤ (١٤٠٥) ، النکاح ٣٩ (٣٢٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٢، ٤٠٨، ٤١٣، ٤١٨، ٤٢٣، ٤٣٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٠ (٢٢٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جوامع الخیر یعنی آپ کی باتیں مختصر لیکن جامع اور مبنی برخیر ہوتی ہیں۔ ٢ ؎: سنن دارمی کی روایت میں ہے کہ اس خطبہ کے بعد پھر نکاح پڑھایا جائے یعنی ایجاب و قبول کرایا جائے، سنن ترمذی میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس خطبے میں تشہد نہیں وہ کوڑھ والے ہاتھ کی طرح ہے ۔
خطبہ نکاح
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (خطبہ میں) فرمایا : الحمد لله نحمده ونستعينه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد بیشک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریفیں بیان کرتے ہیں، ہم اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اسی سے مغفرت چاہتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں، اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، اللہ جسے راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جیسے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٦٨) ، سنن النسائی/النکاح ٣٩ (٣٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٦) (صحیح )
خطبہ نکاح
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی اہم کام اللہ کی حمد و ثنا سے نہ شروع کیا جائے، وہ برکت سے خالی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٢١ (٤٨٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٩) (ضعیف) (متصل مرفوع حدیث ضعیف ہے، قرة کی وجہ سے مرسل صحیح ہے )
نکاح کی تشہیر
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس نکاح کا اعلان کرو اور اس پر دف بجاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٣، ومصباح الزجاجة : ٦٧٥) (ضعیف) (اس کی سند میں خالد بن الیاس ضعیف و متروک الحدیث ہے، لیکن أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ کا جملہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٩٩٣ ، سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٩٨٢ )
نکاح کی تشہیر
محمد بن حاطب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے، اور اس کا اعلان کیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٦ (١٠٨٨) ، سنن النسائی/النکاح ٧٢ (٣٣٧١) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٨، ٤/٢٥٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ سب لوگوں کو خبر ہوجائے کہ یہاں نکاح ہوا ہے، اب علماء کا اختلاف ہے کہ سوائے دف کے اور باجے بھی درست ہیں یا نہیں ؟ جیسے طبلے سارنگی وغیرہ بعضوں نے دف کے سوا دوسرے سارے باجوں کو ناجائز رکھا ہے اور بعضوں نے شادی اور عید میں جائز رکھا ہے، اور وقتوں میں جائز نہیں رکھا۔
شادی کے گیت گانا اور دف بجانا
ابوالحسین خالد مدنی کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے، لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پھر ہم ربیع بنت معوذ (رض) کے پاس گئے، ان سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ میری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں، اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی : وفينا نبي يعلم ما في غد ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا مت کہو، اس لیے کہ کل کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٢ (٤٠٠١) ، النکاح ٤٨ (٥١٤٧) ، سنن ابی داود/الأدب ٥١ (٤٩٢٢) ، سنن الترمذی/النکاح ٦ (١٠٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥٩، ٣٦٠) (صحیح )
شادی کے گیت گانا اور دف بجانا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ابوبکر (رض) میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں ایسے اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے دن کہے تھے، اور وہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہ تھیں، تو ابوبکر (رض) نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ کے گھر میں شیطان کا باجا ہو رہا ہے، اور یہ عید الفطر کا دن تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، اور یہ ہماری عید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٢ (٩٤٩) ، ٣ (٩٥٢) ، ٢٥ (٩٨٧) ، الجہاد ٨١ (٢٩٠٧) ، المناقب ١٥ (٣٥٢٠) ، مناقب الأنصار ٤٦ (٣٩٣١) ، صحیح مسلم/العیدین ٤ (٨٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٠١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/العیدین ٣٢ (١٥٩٤) ، ٣٦ (١٥٩٨) ، مسند احمد (٦/٣٣، ٨٤، ٩٩، ١٢٧) (صحیح )
شادی کے گیت گانا اور دف بجانا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ کے ایک راستہ سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ لڑکیاں دف بجاتے ہوئے گا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں : نحن جوار من بني النجار يا حبذا محمد من جار ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں کیا ہی عمدہ پڑوسی ہیں محمد ﷺ یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١١، ومصباح الزجاجة : ٦٧٦) (صحیح )
شادی کے گیت گانا اور دف بجانا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے انصار میں سے اپنی ایک قرابت دار خاتون کی شادی کرائی، تو رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لائے، اور فرمایا : تم لوگوں نے دلہن کو رخصت کردیا ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے ساتھ کوئی گانے والی بھی بھیجی ؟ عائشہ (رض) نے کہا : نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انصار کے لوگ غزل پسند کرتے ہیں، کاش تم لوگ دلہن کے ساتھ کسی کو بھیجتے جو یہ گاتا : أتيناکم أتيناکم فحيانا وحياكم ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے، اللہ تمہیں اور ہمیں سلامت رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٥٣، ومصباح الزجاجة : ٦٧٧) (حسن) (غزل کا جملہ منکر ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٤٦٥ ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ مکہ سے چل کر مدینہ پہنچے تو انصار کی لڑکیاں راستوں پر گاتی بجاتی نکلیں، اور آپ ﷺ کی آمد پر کی خوشی میں کہا : طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مٍنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا للهِ دَاع آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھتا ہے اصل یہ ہے کہ الأعمال بالنیات، ان لڑکیوں کو گانے سے اور کوئی غرض نہ تھی سوا اس کے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی آمد کی خوشی میں ایسا کرتی تھیں، اور یہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہ تھیں بلکہ کمسن اور نابالغ تھیں، اور آپ ﷺ کے تشریف لانے کی خوشی میں معمولی طور سے گانے بجانے لگیں، یہ مباح ہے اس کی اباحت میں کچھ شک نہیں۔ ابن القیم زاد المعاد میں لکھتے ہیں کہ لڑکیوں کے استقبال کا یہ واقع غزوہ تبوک سے واپسی کا ہے۔
شادی کے گیت گانا اور دف بجانا
مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ تھا انہوں نے طبلہ کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں، اور وہاں سے ہٹ گئے یہاں تک کہ ایسا تین مرتبہ کیا، پھر کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٠٧، ومصباح الزجاجة : ٦٧٨) (صحیح) (یہ زمارة راع کے لفظ سے صحیح ہے، اور اس میں طبل کا ذکر منکر ہے )
ہیجڑوں کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے، وہاں ایک ہیجڑے کو سنا جو عبداللہ بن ابی امیہ سے کہہ رہا تھا : اگر اللہ کل طائف کو فتح کر دے گا تو میں تم کو ایک عورت بتاؤں گا جو سامنے آتی ہے چار سلوٹوں کے ساتھ اور پیچھے مڑتی ہے آٹھ سلوٹوں کے ساتھ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے گھروں سے باہر نکال دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٦ (٤٣٢٤) ، اللباس ٦٢ (٥٨٨٧) ، النکاح ١١٣ (٥٢٣٥) ، صحیح مسلم/السلام ١٣ (٢١٨٠) ، سنن ابی داود/الأدب ٦١ (٤٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١٨) (صحیح )
ہیجڑوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عورت پر لعنت کی جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے، اور اس مرد پر لعنت کی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٩٤، ومصباح الزجاجة : ٦٧٩) (حسن صحیح )
ہیجڑوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت کی، اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦١ (٥٨٨٥) ، سنن ابی داود/اللباس ٣١ (٤٠٩٧) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٤ (٢٧٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٦١٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥١، ٢٥٤، ٣٠٠، ٣٣٩) ، سنن الدارمی/الإستئذان ٢١ (٢٦٩١) (صحیح )
نکاح پر مبارک باد دینا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب شادی کی مبارکباد دیتے تو فرماتے : بارک الله لکم و بارک عليكم وجمع بينكما في خير اللہ تم کو برکت دے، اور اس برکت کو قائم و دائم رکھے، اور تم دونوں میں خیر پر اتفاق رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٧ (٢١٣٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٧ (١٠٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٣٨١) ، سنن الدارمی/النکاح ٦ (٢٢١٩) (صحیح )
نکاح پر مبارک باد دینا
عقیل بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے قبیلہ بنی جشم کی ایک عورت سے شادی کی، تو لوگوں نے (جاہلیت کے دستور کے مطابق) یوں کہا :بالرفاء والبنين میاں بیوی میں اتفاق رہے اور لڑکے پیدا ہوں تو آپ نے کہا : اس طرح مت کہو، بلکہ وہ کہو، جو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :اللهم بارک لهم و بارک عليهم اے اللہ ! ان کو برکت دے اور اس برکت کو قائم و دائم رکھ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/النکاح ٧٣ (٣٣٧٣) ، مسند احمد (١/٢٠١، ٣/ ٤٥١) (صحیح )
ولیمہ کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) (کے جسم) پر پیلے رنگ کے اثرات دیکھے، تو پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے ایک عورت سے گٹھلی کے برابر سونے کے عوض شادی کرلی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا :بارک الله لك أولم ولو بشاة اللہ تمہیں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١ (٢٠٤٩) ، مناقب الأنصار ٣ (٣٧٨١) ، ٥٠ (٣٩٣٧) ، النکاح ٧ (٥٠٧٢) ، ٤٩ (٥١٣٨) ، ٥٤ (٥١٥٣) ، ٥٦ (٥١٥٥) ، ٦٨ (٥١٦٧) ، الأدب ٦٧ (٦٠٨٢) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٣) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٧) ، سنن الترمذی/النکاح ١٠ (١٠٩٤) ، سنن النسائی/النکاح ٧٥ (٣٣٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٠ (٢١٠٩) ، موطا امام مالک/النکاح ٢١ (٤٧) ، مسند احمد (٣/١٦٥، ١٩٠، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٨ (٢١٠٨) ، النکاح ٢٢ (٢٢٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: واضح رہے کہ یہ بات نبی اکرم ﷺ نے عبدالرحمن بن عوف (رض) کی مالی حیثیت کو دیکھ کر کہی تھی کہ ولیمہ میں کم سے کم ایک بکری ضرور ہو اس سے اس بات پر استدلال صحیح نہیں کہ ولیمہ میں گوشت ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ نے صفیہ (رض) کے ولیمہ میں ستو اور کھجور ہی پر اکتفا کیا تھا، ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں جو شوہر کی طرف سے شب زفاف کے بعد ہوتا ہے اور یہ کھانا مسنون ہے۔
ولیمہ کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی کا اتنا بڑا ولیمہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا بڑا آپ نے اپنی بیوی زینب (رض) کا کیا، آپ ﷺ نے ان کے ولیمہ میں ایک بکری ذبح کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٦٨ (٥١٦٨) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٨) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢ (٣٧٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٢٧) (صحیح )
ولیمہ کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین صفیہ (رض) کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٢ (٣٧٤٤) ، سنن الترمذی/النکاح ١٠ (١٠٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، الجہاد ٤٣ (١٣٦٥) ، سنن النسائی/النکاح ٧٩ (٣٣٨٤) (صحیح )
ولیمہ کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ایک ولیمہ میں شریک ہوا، اس میں نہ گوشت تھا نہ روٹی تھی۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف سفیان بن عیینہ ہی نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٦١ (٥١٥٩) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، مسند احمد (٣/٩٩) (صحیح) (اس کی سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، لیکن اصل حدیث صحیح ہے، کمافی التخریج )
ولیمہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم فاطمہ (رض) کو تیار کریں اور علی (رض) کے پاس بھیجیں، چناچہ ہم گھر میں گئے، اور میدان بطحاء کے کناروں سے نرم مٹی لے کر اس گھر میں بطور فرش ہم نے بچھا دی، پھر دو تکیوں میں کھجور کی چھال بھری، اور ہم نے اسے اپنے ہاتھوں سے دھنا، پھر ہم نے لوگوں کو کھجور اور انگور کھلایا، اور میٹھا پانی پلایا، اور ہم نے ایک لکڑی گھر کے ایک گوشہ میں لگا دی تاکہ اس پر کپڑا ڈالا جاسکے، اور مشکیزے لٹکائے جاسکیں چناچہ ہم نے فاطمہ (رض) کی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣١، ١٨٢١٢، ومصباح الزجاجة : ٦٨٠) (ضعیف) (سند میں مفضل بن عبد اللہ اور جابر جعفی ضعیف راوی ہیں )
ولیمہ کا بیان
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ ابواسید ساعدی (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی شادی میں بلایا، تو سب لوگوں کی خدمت دلہن ہی نے کی، وہ دلہن کہتی ہیں : جانتے ہو میں نے رسول اللہ ﷺ کو کیا پلایا ؟ میں نے چند کھجوریں رات کو بھگو دی تھیں، صبح کو میں نے ان کو صاف کیا، اور آپ ﷺ کو ان کا شربت پلایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٧١ (٥١٧٦، ٥١٧٧) ، صحیح مسلم/الاشربة ٢٧ (٢٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٠٩) (صحیح )
دعوت قبول کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ سب سے برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے، اور جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٧٣ (٥١٧٧، ٥١٧٨) موقوفًا، صحیح مسلم/النکاح ١٦ (١٤٣٢) مرفوعاً ، سنن ابی داود/الأطعمة ١ (٣٧٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ٢١ (٥٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٨ (٢١١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ولیمہ کا کھانا سنت ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ولیمہ کیا ہے، مگر اس ولیمہ کو برا کہا جس میں مالداروں کی ہی دعوت ہوتی ہے، اور محتاجوں کو کوئی نہیں پوچھتا، معلوم ہوا کہ عمدہ کھانا وہ ہے جس میں غریب و محتاج بھی شریک ہوں، سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ محتاجوں اور فقیروں کو دعوت میں زیادہ بلایا جائے، اگر کچھ دوست و احباب اور متعارفین مالدار بھی ہوں تو مضائقہ نہیں، پھر جب یہ فقیر و محتاج آئیں تو ان کو بڑی خاطر داری کے ساتھ عمدہ عمدہ کھانے کھلائے اور اگر ممکن ہو تو خود بھی ان کے ساتھ شریک ہو کر کھائے۔
دعوت قبول کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٦ (١٤٢٩) ، النکاح ٢٣ (٢٢٥١) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٧١ (٥١٧٣) ، سنن ابی داود/الأطعمة ١ (٣٧٣٦) ، موطا امام مالک/النکاح ٢١ (٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٤٠ (٢١٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعضوں نے کہا : اس حدیث کی رو سے ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے، اور بعضوں نے کہا فرض کفایہ ہے، اور بعضوں نے کہا مستحب ہے، یہ جب ہے کہ دعوت متعین طور پر ہو، اگر دعوت عام ہو تو قبول کرنا واجب نہ ہوگا اس لئے کہ اس کے نہ جانے سے میزبان کی دل شکنی نہ ہوگی، اور دعوت قبول کرنا عذر کی وجہ سے ساقط ہوجاتا ہے، مثلاً دعوت کا کھانا مشتبہ ہو، یا وہاں صرف مالدار حاضر ہوتے ہوں، یا صاحب دعوت صحبت اور دوستی کے لائق نہ ہوں، یا دعوت سے مقصود حب جاہ اور کبر و غرور ہو، یا وہاں خلاف شرع کام ہوں جیسے فواحش کا ارتکاب، بےپردگی اور بےحیائی اور ناچ گانا وغیرہ منکر امور۔
دعوت قبول کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولیمہ پہلے دن حق ہے، دوسرے دن عرف اور دستور کے موافق، اور تیسرے دن ریاکاری اور شہرت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣٣، ومصباح الزجاجة : ٦٨١) (ضعیف) (ابو مالک نخعی ضعیف ہے )
کنواری اور ثیبہ کے پاس ٹھہرنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غیر کنواری (شوہر دیدہ) کے لیے تین دن، اور کنواری کے لیے سات دن ہیں، (پھر باری تقسیم کردیں) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٠٠ (٥٢١٤) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٢ (١٤٦١) ، سنن ابی داود/النکاح ٣٥ (٢١٢٤) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٠ (١١٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ٥ (١٥) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٧ (٢٢٥٥) (حسن) (اصل حدیث دوسرے طرق سے ثابت ہے کمافی التخریج ) وضاحت : ١ ؎: باب کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص کے پاس پہلے سے بیوی ہو، اب ایک نئی شادی اور کرلے تو اگر نئی بیوی کنواری ہو تو سات دن تک اس کے پاس رہے، اور اگر ثیبہ ہو تو تین دن تک، پھر دونوں بیویوں کے پاس باری باری ایک ایک روز رہا کرے، اور اس سے غرض یہ ہے کہ نئی دلہن کا دل ملانا ضروری ہے، اگر پہلے سے ہی باری باری رہے تو اس کو وحشت ہوجانے کا ڈر ہے، اور کنواری کا دل ذرا دیر میں ملتا ہے، اس لئے سات دن اس کے لئے رکھے، اور ثیبہ کا دل جلدی مل جاتا ہے، تین دن اس کے لئے رکھے، اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں۔
کنواری اور ثیبہ کے پاس ٹھہرنا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان سے شادی کی تو ان کے پاس تین دن رہے، اور فرمایا : تم میرے نزدیک کم تر نہیں ہو اگر تم چاہتی ہو میں سات روز تک تمہارے پاس رہ سکتا ہوں، اس صورت میں میں سب عورتوں کے پاس سات سات روز تک رہوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٢ (١٤٦٠) ، سنن ابی داود/النکاح ٣٥ (٢١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ٥ (١٤) ، مسند احمد (٦/٢٩٢، ٢٩٥، ٣٠٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٧ (٢٢٥٦) (صحیح )
جب بیوی مرد کے پاس آئے تو مرد کیا کہے؟
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کوئی بیوی، خادم یا جانور حاصل کرے، تو اس کی پیشانی پکڑ کر یہ دعا پڑھے اللهم إني أسألک من خيرها وخير ما جبلت عليه وأعوذ بک من شرها وشر ما جبلت عليه اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس کی خلقت اور طبیعت کی بھلائی مانگتا ہوں، اور اس کے شر اور اس کی خلقت اور طبیعت کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤٦ (٢١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٩) (حسن )
جب بیوی مرد کے پاس آئے تو مرد کیا کہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو یہ دعا پڑھے اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني اے اللہ ! تو مجھے شیطان سے بچا، اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھ پھر اس ملاپ سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا، یا شیطان اسے نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔ تخریج دارالدعوہ : (صحیح )
جماع کے وقت پردہ
معاویہ بن حیدۃ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم اپنی شرمگاہیں کس قدر کھول سکتے ہیں اور کس قدر چھپانا ضروری ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بیوی یا لونڈی کے علاوہ ہمیشہ اپنی شرمگاہ چھپائے رکھو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر لوگ ملے جلے رہتے ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم ایسا کرسکو کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھے تو ایسا ہی کرو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر ہم میں سے کوئی اکیلا ہو ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں سے اللہ زیادہ لائق ہے کہ اس سے شرم کی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحمام ٢ (٤٠١٧) ، سنن الترمذی/الأدب ٢٦ (٢٧٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣، ٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ نے کسی طرح کشف ستر کی اجازت نہ دی، اب جو لوگ حمام میں نہلانے والوں یا حجام کے سامنے ننگے ہوجاتے ہیں، یا عورتیں ایک دوسری کے سامنے، یہ شرعی نقطہء نظر سے بالکل منع ہے، بوقت ضرورت تنہائی میں ننگے ہونا درست ہے، جیسے نہاتے وقت یہ نہیں کہ بلاضرورت ننگے ہو کر بیٹھے، اللہ تعالیٰ سے اور فرشتوں سے شرم کرنا چاہیے، سبحان اللہ جیسا شرم و حیا کا اعتبار دین اسلام میں ہے ویسا کسی دین میں نہیں ہے، یہود اور نصاری ایک دوسرے کے سامنے ننگے نہاتے ہیں، اور مشرکین عہد جاہلیت میں جاہلیت کے وقت ننگے ہو کر طواف اور عبادت کیا کرتے تھے، اور اب بھی یہ رسم ہندوؤں میں موجود ہے، مگر اسلام نے ان سب ہی باتوں کو رد کردیا، تہذیب، حیاء اور شرم سکھائی۔
جماع کے وقت پردہ
عتبہ بن عبدسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے تو کپڑا اوڑھ لے، اور گدھا گدھی کی طرح ننگا نہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٥، ومصباح الزجاجة : ٦٨٢) (ضعیف) (الاحوص بن حکیم ضعیف ہے )
جماع کے وقت پردہ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی شرمگاہ کبھی نہیں دیکھی۔ ابوبکر بن ابوشیبہ کہتے ہیں کہ ابونعیم کی روایت میں عن مولیٰ لعائش ۃ کے بجائے عن مولا ۃ لعائش ۃ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨١٦، ومصباح الزجاجة : ٦٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٣، ١٩٠) (ضعیف) (ام المومنین عائشہ (رض) کی مولاة یا مولیٰ ضعیف ہے )
عورتوں کے ساتھ پیچھے کی راہ سے صحبت کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی عورت سے اس کے دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٣٧، ومصباح الزجاجة : ٦٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ٤٦ (٢١٦٢) ، مسند احمد (٢/٢٧٢، ٣٤٤، ٤٤٤، ٤٧٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٣ (١١٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا : عورت سے دبر میں جماع کرنا لواطت صغری ہے اور اس باب میں کئی حدیثیں ہیں جو ایک دوسرے کو قوی کرتی ہیں، اور ائمہ اربعہ اور تمام علماء حدیث نے اس کی حرمت پر اتفاق کیا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا : فَأْتُواْ حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ (سورة البقرة : 223) اور حرث کہتے ہیں کھیتی کو یعنی جہاں سے پیدا ہو وہ کھیتی ہے، اور وہ قبل ہے اور دبر فرث ہے یعنی نجاست۔
عورتوں کے ساتھ پیچھے کی راہ سے صحبت کی ممانعت
خزیمہ بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حق بات سے شرم نہیں کرتا آپ ﷺ نے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور فرمایا : عورتوں کی دبر میں جماع نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الاشراف : ٣٥٣٠، ومصباح الزجاجة : ٦٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١٣، ٢١٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٤ (١١٨٣) (صحیح) (اس کی سند میں حجاج بن أرطاہ مدلس و ضعیف ہیں، عنعنہ سے روایت کی ہے، اور عبداللہ بن ہر می یا ہر می بن عبد اللہ مستور ہیں، لیکن متابعت اور شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٠٠٥ )
عورتوں کے ساتھ پیچھے کی راہ سے صحبت کی ممانعت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ یہود کہتے تھے کہ جس نے بیوی کی اگلی شرمگاہ میں پیچھے سے جماع کیا تو لڑکا بھینگا ہوگا، چناچہ اللہ سبحانہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی : نساؤكم حرث لکم فأتوا حرثکم أنى شئتم (سورة البقرة : 223) تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، لہٰذا تم اپنی کھیتیوں میں جدھر سے چاہو آؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٩ (١٤٣٥) ، سنن الترمذی/التفسیر ٣ (٢٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٣٠) ، وقد أخر جہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة البقرة ٣٩ (٤٥٢٨) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٣ (١١٧٢) ، النکاح ٣٠ (٢٢٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: انصار بھی یہود کی پیروی کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ جو کوئی دبر کی طرف سے قبل میں جماع کرے تو لڑکا بھینگا (احول) ہوگا، اللہ تعالیٰ نے اس کو باطل کیا، اور اگلی شرمگاہ میں ہر طرح سے جماع کو جائز رکھا، مسند احمد میں ہے کہ انصار کی ایک عورت نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : عورت سے اگلی شرمگاہ میں پیچھے سے کوئی جماع کرے تو کیا حکم ہے ؟ تو آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی، اور عمر (رض) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا : میں ہلاک ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں ؟ انہوں نے کہا میں نے رات کو اپنے پالان (عورت) کو الٹا کیا، آپ ﷺ نے جواب نہ دیا، تب یہ آیت اتری، یعنی اختیار ہے آگے سے جماع کرو یا پیچھے سے، لیکن دخول ضروری ہے کہ قبل (اگلی شرمگاہ) میں ہو، اور فرمایا : بچو حیض سے اور دبر سے لہذا آیت کا یہ مطلب نہیں کہ دبر (پاخانہ کا مقام) میں دخول کرنا جائز ہے، طیبی نے کہا : اجنبی عورت سے اگر دبر میں جماع کیا تو وہ زنا کے مثل ہے، اور جو اپنی عورت یا لونڈی سے کیا تو حرام کام کا مرتکب ہوا، لیکن اس پر حد نہ جاری ہوگی، اور امام نووی کہتے ہیں کہ مفعول (جس کے ساتھ غلط کام کیا گیا) اگر چھوٹا یا پاگل ہو یا اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو تو ایسا فعل کرنے والے پر حد جاری ہوگی۔
عزل کا بیان
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عزل کے بارے میں پوچھا : تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ ایسا کرتے ہو ؟ ایسا نہ کرنے میں تمہیں کوئی نقصان نہیں ہے، اس لیے کہ جس جان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہونا مقدر کیا ہے وہ ضرور پیدا ہوگی ۔ ١ ؎ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ١٠٩ (٢٢٢٩) ، العتق ١٣ (٢٥٤٢) ، المغازي ٣٢ (٤١٣٨) ، النکاح ٩٦ (٥٢١٠) ، القدر ٦ (٦٦٠٣) ، التوحید ١٨ (٧٤٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٣٨) ، سنن ابی داود/النکاح ٤٩ (٢١٧٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٠ (١١٣٨) ، سنن النسائی/النکاح ٥٥ (٣٣٢٩) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٤ (٩٥) ، مسند احمد (٢/٢٢، ٢٦، ٤٧، ٤٩، ٥١، ٥٣، ٥٩، ٦٨، ٧٢، ٧٨، ٨٨، ٩٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٦ (٢٢٦) (صحیح) ١٩٢ وضاحت : ١ ؎: عزل : شرمگاہ سے باہر منی نکالنے کو عزل کہتے ہیں۔
عزل کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے، اور قرآن اترا کرتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٩٦ (٥٢٠٨) ، صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٤٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٨ (١١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر عزل منع ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کی ممانعت نازل کردیتا، البتہ لونڈی سے اس کی اجازت کے بغیر بھی عزل درست ہے، اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ عزل مکروہ ہے، لیکن حرام نہیں ہے، اور بہت صحابہ اور تابعین سے اس کی اجازت منقول ہے۔
عزل کا بیان
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٧١، ومصباح الزجاجة : ٦٨٦) (ضعیف) (ابن لہیعہ ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٠٠٧ )
پھوپھی اور خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھتیجی اور بھانجی سے نکاح نہ کیا جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی مرد اس عورت سے نکاح نہ کرے جس کی پھوپھی یا خالہ اس کے نکاح میں ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ (٥١٠٩) ، سنن ابی داود/النکاح ١٣ (٢٠٦٥) ، سنن الترمذی/النکاح ٣١ (١١٢٦) ، سنن النسائی/النکاح ٤٨ (٣٢٩٨) ، موطا امام مالک/النکاح ٨ (٢٠) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٥٥، ٣٩٤، ٤٠١، ٤٢٣، ٤٢٦، ٤٣٢، ٤٥٢، ٤٦٢، ٤٦٥، ٤٧٤، ٤٨٩، ٥٠٨، ٥١٦، ٥١٨، ٥٢٩، ٥٣٢) سنن الدارمی/النکاح ٨ (٢٢٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: البتہ اگر ایک مرجائے یا اسے طلاق دے دے تو دوسری سے شادی کرسکتا ہے۔
پھوپھی اور خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھتیجی اور بھانجی سے نکاح نہ کیا جائے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو نکاحوں سے منع فرماتے ہوئے سنا، ایک یہ کہ کوئی شخص بھتیجی اور پھوپھی دونوں کو نکاح میں جمع کرے، دوسرے یہ کہ خالہ اور بھانجی کو جمع کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٧٠، ومصباح الزجاجة : ٦٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٧) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہے، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن حدیث دوسرے طرق سے صحیح ہے، کما تقدم )
پھوپھی اور خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھتیجی اور بھانجی سے نکاح نہ کیا جائے
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت سے اس کی پھوپھی کے عقد میں ہوتے ہوئے نکاح نہ کیا جائے، اور نہ ہی اس کی خالہ کے عقد میں ہوتے ہوئے اس سے نکاح کیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١٤٣، ومصباح الزجاجة : ٦٨٨) (صحیح) (جبارہ بن مغلس ضعیف ہے، لیکن سابقہ احادیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے وہ کسی اور سے شادی کرلے اور دوسرا خاوند صحبت سے پہلے طلاق دیدے تو کیا پہلے خاوند کے پاس لوٹ کرسکتی ہے ؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی (رضی اللہ عنہا) نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں رفاعہ کے پاس تھی، انہوں نے مجھے تین طلاق دے دی، تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کرلی، اور ان کے پاس جو ہے وہ ایسا ہے جیسے کپڑے کا جھالر ١ ؎ نبی اکرم ﷺ مسکرائے، اور فرمایا : کیا تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو ؟ نہیں، یہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم عبدالرحمٰن کا مزہ نہ چکھو، اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٣ (٢٦٣٩) ، الطلاق ٤ (٥٢٦٠) ، الطلاق ٣٧ (٥٣١٧) ، اللباس ٦ (٥٧٩٢) ، الأدب ٦٨ (٦٠٨٤) ، صحیح مسلم/النکاح ١٧ (١٤٣٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٧ (١١١٨) ، سنن النسائی/النکاح ٤٣ (٣٢٨٥) ، الطلاق ٩ (٣٤٣٧) ، ١٠ (٣٤٣٨) ، ١٢ (٣٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤، ٣٧، ١٩٢، ٢٢٦، ٢٢٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ٤ (٢٣١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی انہیں جماع کی قدرت نہیں ہے۔ ٢ ؎: حتى تذوقي عسيلته سے کنایہ جماع کی طرف ہے، اور جماع کو شہد سے تشبیہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح شہد کے استعمال سے لذت و حلاوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح جماع سے بھی لذت و حلاوت حاصل ہوتی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کوئی اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے تو وہ عورت دوسرے مرد سے نکاح کرے، اور شوہر اس سے جماع کرلے، اگر اس کے بعد یہ دوسرا اس کو طلاق دے دیتا ہے تو یہ عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نیا نکاح کرسکتی ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ دوسرے شوہر کا یہ نکاح حلالہ کی نیت سے نہ ہو اور نہ حلالہ کی شرط لگائی جائے کہ اس حیلہ سے عورت اپنے شوہر کے پاس پہنچ جائے، آگے آ رہا ہے کہ حلالہ کا نکاح حرام اور ناجائز ہے، اور ایسا کرنے والا اور جس کے لیے کیا جائے دونوں ملعون ہیں۔
مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے وہ کسی اور سے شادی کرلے اور دوسرا خاوند صحبت سے پہلے طلاق دیدے تو کیا پہلے خاوند کے پاس لوٹ کرسکتی ہے ؟
عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم ﷺ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں روایت کرتے ہیں، جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے، پھر دوسرا شخص اس سے شادی کرے اور دخول سے پہلے اسے طلاق دے، تو کیا وہ پہلے شوہر کے پاس لوٹ سکتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں جب تک کہ دوسرا شوہر اس کا مزہ نہ چکھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ١٢ (٣٤٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥، ٦٢، ٨٥) (صحیح )
حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٩٨، ومصباح الزجاجة : ٦٨٩) (صحیح) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف ہے، لیکن دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٨٩٧ )
حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ١٥ (٢٠٧٦، ٢٠٧٧) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٧ (١١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٣، ٨٧، ١٠٧، ١٢١، ١٥٠، ١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محلل (حلالہ کرنے والا) وہ شخص ہے جو طلاق دینے کی نیت سے مطلقہ ثلاثہ سے نکاح و مباشرت کرے اور محلل لہ (جس کے لیے حلالہ کیا جائے) سے پہلا شوہر مراد ہے جس نے تین طلاقیں دیں، یہ حدیث دلیل ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح باطل اور حرام ہے کیونکہ لعنت حرام فعل ہی پر کی جاتی ہے، جمہور اس کی حرمت کے قائل ہیں۔
حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تم کو مستعار (مانگے ہوئے) بکرے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ضرور بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے دونوں پر لعنت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٦٨، ومصباح الزجاجة : ٦٩٠) (حسن) (ابو مصعب میں کلام ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦ / ٣٠٩- ٣١٠ ) وضاحت : ١ ؎: شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس باب میں إقامة الدليل على إبطال التحليل نامی کتاب تصنیف فرمائی ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں : نکاح حلالہ کسی ملت میں مباح نہیں ہوا، اور نہ اسے کسی صحابی نے کیا اور نہ اس کا فتوی دیا، افسوس ہے اس زمانہ میں لوگ حلالہ کا نکاح کرتے ہیں، اور وہ عورت جو حلالہ کراتی ہے گویا دو آدمیوں سے زنا کراتی ہے، ایک حلالہ کرنے والے سے، دوسرے پھر اپنے پہلے شوہر سے، اللہ تعالیٰ اس آفت سے پناہ میں رکھے۔ آمین
جونسبی رشتے حرام ہیں وہ رضاعی بھی حرام ہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رضاعت سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٦٩ أ) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٦٢٤٤) تفسیر سورة السجدة ٩ (٤٧٩٢) ، النکاح ٢٢ (٥١٠٣) ، ١١٧ (٥٢٣٩) ، الأدب ٩٣ (٦١٥٦) ، صحیح مسلم/الرضاع ٢ (١٤٤٥) ، سنن ابی داود/النکاح ٨ (٢٠٥٧) ، سنن الترمذی/الرضاع ٢ (١١٤٧) ، سنن النسائی/النکاح ٤٩ (٣٣٠٣) ، موطا امام مالک/الرضاع ١ (٣) ، مسند احمد (٦/١٩٤، ٢٧١) ، سنن الدارمی/ النکاح ٤٨ (٢٢٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسے ماں بہن وغیرہ، لیکن رضاعت میں چار عورتیں حرام نہیں ہیں جو نسب میں حرام ہیں : ١ ۔ ایک تو اپنے بھائی کی رضاعی ماں جب کہ بھائی کی نسبی ماں حرام ہے، اس لئے کہ وہ یا تو اپنی بھی ماں ہوگی یا باپ کی بیوی ہوگی، اس لئے کہ وہ بہو ہوگی، اور دونوں محرم ہیں، ٢ ۔ دوسرے پوتے یا نواسے کی رضاعی ماں جب کہ پوتے یا نواسے کی نسبی ماں حرام ہوگی اس لئے کہ وہ بہو ہوگی یا بیٹی، ٣ ۔ تیسری اپنی اولاد کی رضاعی نانی یا دادی جب کہ اولاد کی نسبی نانی یا دادی حرام ہے، کیونکہ وہ اپنی ساس ہوگی یا ماں، ٤ ۔ چوتھی اپنی اولاد کی رضاعی بہن جب کہ نسبی بہن اپنی اولاد کی حرام ہے کیونکہ وہ اپنی بیٹی ہوگی یا ربیبہ، اور بعض علماء نے مزید کچھ عورتوں کو بیان کیا ہے جو رضاع میں حرام نہیں ہیں جیسے چچا کی رضاعی ماں یا پھوپھی کی رضاعی ماں یا ماموں کی رضاعی ماں یا خالہ کی رضاعی ماں، مگر نسب میں یہ سب حرام ہیں، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو رشتہ محرمات کی اس آیت میں مذکور ہے { حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ } [سورة النساء : 23] تک، وہ سب رضاع کی وجہ سے بھی محرم ہوجاتی ہیں، اور جن عورتوں کا اوپر بیان ہوا وہ اس آیت میں مذکور نہیں ہیں۔
جونسبی رشتے حرام ہیں وہ رضاعی بھی حرام ہیں
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حمزہ بن عبدالمطلب (رض) کی بیٹی سے نکاح کا مشورہ دیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، اور رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٥) ، النکاح ٢٠ (٥١٠٠) ، صحیح مسلم/الرضاع ٣ (١٤٤٧) ، سنن النسائی/النکاح ٥٠ (٣٣٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٥) ، ٢٩٠، ٣٢٩، ٣٣٩، ٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں سات ہیں۔ ١ ۔ مائیں : ان میں ماں کی مائیں (نانیاں) اور ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں پردادیاں) اور ان سے آگے تک) شامل ہیں۔ ٢ ۔ بیٹیاں : ان میں پوتیاں، نواسیاں، اور پوتیوں، اور نواسیوں کی بیٹیاں نیچے تک شامل ہیں، زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے، ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں، اور اس نکاح کو حرام سمجھتے ہیں، البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ وہ شرعی بیٹی نہیں ہے، پس جس طرح يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ (سورة النساء : 11) میں داخل نہیں ہے اور بالاجماع وہ وارث نہیں ہے اسی طرح وہ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ (سورة النساء : 23) والی آیت : وَبَنَاتُكُمْ میں داخل نہیں۔ ٣ ۔ بہنیں : حقیقی ہوں یا اخیافی (وہ بھائی بہن جن کے باپ الگ الگ اور ماں ایک ہو) یا علاتی (ماں کی طرف سے سوتیلا بھائی یا سوتیلی بہن) ۔ ٤ ۔ پھوپھیاں : اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانی دادی کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ ٥ ۔ خالائیں : اس میں ماں کی سب مونث اصول یعنی نانی دادی کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ ٦ ۔ بھتیجیاں : اس میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فروعی) شامل ہیں۔ ٧ ۔ بھانجیاں اس میں تینوں قسموں کی بہنوں کی اولاد۔ مذکورہ بالا رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی یہ سارے رشتے حرام ہوجاتے ہیں۔ رضاعی محرمات کی بھی سات قسمیں ہیں : ١ ۔ رضاعی مائیں ٢ ۔ رضاعی بیٹیاں ٣ ۔ رضاعی بہنیں ٤ ۔ رضاعی پھوپھیاں ٥ ۔ رضاعی خالائیں ٦ ۔ رضاعی بھتیجیاں ٧ ۔ رضاعی بھانجیاں۔
جونسبی رشتے حرام ہیں وہ رضاعی بھی حرام ہیں
ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ میری بہن عزہ سے نکاح کر لیجئیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس کو پسند کرتی ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں آپ کے پاس اکیلی نہیں ہوں (کہ سوکن کا ہونا پسند نہ کروں) خیر میں میرے ساتھ شریک ہونے کی سب سے زیادہ حقدار میری بہن ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ میرے لیے حلال نہیں ہے انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم میں باتیں ہو رہی تھیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ام سلمہ کی بیٹی سے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ میری ربیبہ بھی نہ ہوتی تب بھی میرے لیے اس سے نکاح درست نہ ہوتا، اس لیے کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھ کو اور اس کے والد (ابوسلمہ) کو ثویبہ نے دودھ پلایا تھا، لہٰذا تم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو مجھ پر نکاح کے لیے نہ پیش کیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٠ (٥١٠١) ، ٢٥ (٥١٠٦) ، ٢٦ (٥١٠٧) ، ٣٥ (٥١٢٣) ، النفقات ١٦ (٥٣٧٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ٤ (١٤٤٩) ، سنن النسائی/النکاح ٤٤ (٣٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ٧ (٢٠٥٦) ، مسند احمد (٦/٢٩، ٣٠٩، ٤٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ میرے لئے جائز نہیں ہوسکتیں، اس لیے کہ دو بہنوں کو نکاح میں ایک ساتھ جمع کرنا جائز نہیں، اور بیٹیاں اس لئے کہ وہ میری ربیبہ ہوئیں، ربیبہ قرآن کی دلیل سے حرام ہے، ربیبہ وہ لڑکی ہے جو بیوی کے پہلے شوہر سے ہو۔ اس سند سے بھی ام حبیبہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔
ایک دو بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ام الفضل (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک یا دو بار دودھ پینے یا چوسنے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت نہیں ہوتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٥ (١٤٥١) ، سنن النسائی/النکاح ٥١ (٣٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٩، ٣٤٠) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب بچہ ماں کی چھاتی کو منہ میں لے کر چوستا ہے پھر بغیر کسی عارضہ کے اپنی مرضی و خوشی سے چھاتی کو چھوڑ دیتا ہے تو اسے رَضْعَ ۃ ٌ کہتے ہیں، اور مصّ ۃ : مصّ سے ماخوذ ہے جس کے معنی چوسنے کے ہیں، مص ۃ اور رَضْعَ ۃ ٌ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ رضاعت کا حکم کتنا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے اس میں اختلاف ہے، جمہور کا قول ہے کہ یہ حکم تھوڑا دودھ پیا ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ثابت ہوجاتا ہے، داود ظاہری اور ایک قول کے مطابق احمد، اسحاق راہویہ، ابوعبید وغیرہم نے اس حدیث کے مفہوم مخالف (یعنی دو بار پینے یا چوسنے سے حرمت نہیں ثابت ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین بار ایسا کرنے سے حرمت ثابت ہو جائیگی) سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ رضاعت کا حکم تین مرتبہ پینے سے ثابت ہوتا ہے دو دفعہ پینے سے نہیں، اور امام شافعی کہتے ہیں کہ پانچ مرتبہ پینے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت ہوتی ہے ان کی دلیل ام المومنین عائشہ (رض) کی روایت ہے جو آگے آرہی ہے، جمہور کی دلیل آیت کریمہ : امهاتکم اللآتى ارضعنکم ہے۔
ایک دو بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک یا دو بار دودھ چوسنے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٥ (١٤٥٠) ، سنن ابی داود/النکاح ١١ (٢٠٦٣) ، سنن الترمذی/الرضاع ٣ (١١٥٠) ، سنن النسائی/النکاح ٥١ (٣٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ٩٦، ٢١٦، ٢٤٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٧) (صحیح )
ایک دو بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ پہلے قرآن میں یہ آیت تھی، پھر وہ ساقط و منسوخ ہوگئی، وہ آیت یہ ہے لا يحرم إلا عشر رضعات أو خمس معلومات دس یا پانچ مقرر رضاعتوں کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الرضاع ٦ (١٤٥٢) ، ولفظہ أصح، سنن ابی داود/النکاح ١١ (٢٠٦٢) ، سنن الترمذی/الرضاع ٣ (١١٥٠) ، سنن النسائی/النکاح ٥١ (٣٣٠٩) ، موطا امام مالک/الرضاع ٣ (١٧) ، مسند احمد (٦/٢٦٩) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ قرآن مجید میں یہ حکم نازل کیا گیا تھا کہ دس بار دودھ پینا حتی کہ اس کے پینے کا یقین ہوجائے، نکاح کو حرام قرار دیتا ہے، پھر پانچ بار دودھ پینے کے حکم سے یہ حکم منسوخ کردیا گیا، اور جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو خمس معلومات (یعنی پانچ بار دودھ پینے) والی آیت قرآن میں پڑھی جا رہی تھی، امام نووی کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ پانچ کی تعداد کا نسخ اتنی تاخیر سے ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات کا واقعہ پیش آگیا اور بعض لوگ پھر بھی ان پانچ کی تعداد کو قرآن سمجھ کر اس کی تلاوت کرتے رہے کیونکہ آپ کی وفات کے بالکل ساتھ ہی ان کا منسوخ ہونا نازل ہوا تھا۔ مزید فرمایا کہ نسخ کی تین قسمیں ہیں، ایک جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہو جیسے دس مرتبہ دودھ پینے والی آیت، دوسری جس کی تلاوت تو منسوخ ہو مگر اس کا حکم باقی ہو جیسے پانچ مرتبہ دودھ پینے کی آیت، اور آیت رجم، اور تیسری یہ کہ جس کا حکم تو منسوخ ہو مگر اس کی تلاوت باقی ہو جیسے آیت وصیت وغیرہ۔
بڑی عمر والے کا دودھ پینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! سالم کے ہمارے پاس آنے جانے کی وجہ سے میں ابوحذیفہ (رض) کے چہرہ پر ناگواری محسوس کرتی ہوں، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم سالم کو دودھ پلا دو ، انہوں نے کہا : میں انہیں دودھ کیسے پلاؤں گی وہ بڑی عمر کے ہیں ؟ ! رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ وہ بڑی عمر کے ہیں ، آخر سہلہ (رض) نے ایسا ہی کیا، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور کہا : میں نے ابوحذیفہ کے چہرے پر اس کے بعد کوئی ایسی بات محسوس نہیں کی جسے میں ناپسند کروں، اور ابوحذیفہ (رض) بدر کی لڑائی میں شریک تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٧ (١٤٥٣) ، سنن النسائی/النکاح ٥٣ (٣٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ١٠ (٢٠٦١) ، موطا امام مالک/الرضاع ٢ (١٢) ، مسند احمد (٦/٢٥٥، ٢٧١) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٢ (٢٣٠٣) (صحیح )
بڑی عمر والے کا دودھ پینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی آیت اتری، اور یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پہ لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے تھیں، جب نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی، اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے ایک بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٧ (١٤٥٢) ، سنن ابی داود/النکاح ١١ (٢٠٦٢) ، سنن الترمذی/الرضاع ٣ (١١٥٠) ، سنن النسائی/النکاح ٥١ (٣٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الرضاع ٣ (١٧) ، مسند احمد (٦/٢٦٩) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٩ (٢٢٩٩) (حسن )
دودھ چھوٹنے کے بعد رضاعت نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، اور اس وقت ایک شخص ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ میرے بھائی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : دیکھو جن لوگوں کو تم اپنے پاس آنے دیتی ہو انہیں اچھی طرح دیکھ لو (کہ ان سے واقعی تمہارا رضاعی رشتہ ہے یا نہیں) حرمت تو اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو بچپن کی ہو جس وقت دودھ ہی غذا ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٧) ، الخمس ٤ (٣١٠٥) ، النکاح ٢٢ (٥١٠٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ٨ (١٤٥٥) ، سنن ابی داود/النکاح ٩ (٢٠٥٨) ، سنن النسائی/النکاح ٥١ (٢٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٤، ١٣٨، ١٧٤، ٢٤١) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٢ (٢٣٠٢) (صحیح )
دودھ چھوٹنے کے بعد رضاعت نہیں
عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رضاعت معتبر نہیں ہے مگر وہ جو آنتوں کو پھاڑ دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٨٢، ومصباح الزجاجة : ٦٩١) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢١٥٠ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو کم سنی میں دو برس کے اندر ہو۔
دودھ چھوٹنے کے بعد رضاعت نہیں
زینب بنت ابی سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ساری بیویوں نے اس مسئلہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی مخالفت کی، اور انہوں نے انکار کیا کہ سالم مولی ابوحذیفہ (رض) جیسی رضاعت کوئی کر کے ان کے پاس آئے جائے، اور انہوں نے کہا : ہمیں کیا معلوم شاید یہ صرف سالم کے لیے رخصت ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٧ (١٤٥٤) ، سنن النسائی/النکاح ٥٣ (٣٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٤) (صحیح )
مرد کی طرف سے دودھ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا افلح بن ابی قیس میرے پاس آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی، یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حجاب (پردے) کا حکم اتر چکا تھا، میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کردیا یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس آئے، اور فرمایا : یہ تمہارے چچا ہیں ان کو اجازت دو ، میں نے کہا : مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں ! ١ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے دونوں ہاتھ یا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١ (١٤٤٤) ، سنن النسائی/النکاح ٥٢ (٣٣١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٣، ١٦٩٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشہادات ٧ (٢٦٤٤) ، تفسیر سورة السجدة ٩ (٤٧٩٦) ، النکاح ٢٣ (٥١٠٣) ، موطا امام مالک/الرضاع ١ (٣) ، مسند احمد (٦/١٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہرچند بچہ عورت کا دودھ پیتا ہے، مگر اس کا شوہر بچے کا باپ ہوجاتا ہے، کیونکہ عورت کا دودھ اسی مرد کی وجہ سے ہوتا ہے، اب اس مرد کا بھائی بچہ کا چچا ہوگا، اور نسبی چچا کی طرح وہ بھی محرم ہوگا۔ ٢ ؎: جب کوئی شخص نادانی کی بات کہتا ہے تو یہ کلمہ اس موقعے پر اس پر افسوس کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے۔
مرد کی طرف سے دودھ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، تو میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کردیا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے چچا کو اپنے پاس آنے دو ، میں نے کہا : مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں ! ، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تمہارے چچا ہیں انہیں اپنے پاس آنے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١ (١٤٤٥) ، سنن الترمذی/الرضاع ٢ (١١٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٨٢) (صحیح )
مرد اسلام لائے اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں
دیلمی (فیروز دیلمی) (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور میرے نکاح میں دو بہنیں تھیں جن سے میں نے زمانہ جاہلیت میں شادی کی تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم گھر واپس جاؤ تو ان میں سے ایک کو طلاق دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٥ (٢٢٤٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٣ (١١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٢) (حسن) (اسحاق بن عبد اللہ ضعیف و متروک الحدیث ہے، لیکن آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
مرد اسلام لائے اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں
فیروز دیلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میرے نکاح میں دو سگی بہنیں ہیں، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) (سند میں ابن لہیعہ ہیں، اور ابن وہب کی ان سے روایت صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦ /٣٣٤- ٣٣٥ و صحیح أبی داو د : ١٩٤٠ ) وضاحت : ١ ؎: جمہور علماء کا یہی قول ہے، اس لئے کہ جاہلیت میں ان دونوں کا نکاح صحیح ہوگیا تھا۔ اب جب اسلام لایا تو گویا ایسا ہوا کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کیا، نیز کفر کے نکاح قائم رہیں گے اگر شرع کے خلاف نہ ہوں، گو ان نکاحوں میں ہماری شرع کے موافق شرطیں نہ ہوں جیسے گواہ یا ولی وغیرہ۔
مرد مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں چار سے زائد عورتیں ہوں۔
قیس بن حارث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کیا، اور میرے پاس آٹھ عورتیں تھیں، چناچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں سے چار کا انتخاب کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٥ (٢٢٤١، ٢٢٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٨٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمانہ کفر کا نکاح معتبر ہوگا اگر میاں بیوی دونوں اسلام قبول کرلیں تو ان کا سابقہ نکاح برقرار رہے گا، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوگی، یہی امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کا مذہب ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جدائی کے وقت ترتیب نکاح غیر موثر ہے، مرد کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ پہلی بیوی کو روک رکھے بلکہ اسے اختیار ہے جسے چاہے روک لے اور جسے چاہے جدا کر دے، یہ حدیث اور اس کے بعد والی حدیثیں حنفیہ کے خلاف حجت ہیں۔
مرد مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں چار سے زائد عورتیں ہوں۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ (رض) نے اسلام قبول کیا اور ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ان میں سے چار کو رکھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٣٢ (١١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٤٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٢٩ (٧٦) ، مسند احمد (٢/١٣، ١٤، ٤٤، ١٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا حرام ہے، لیکن اس حکم سے نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی مستثنیٰ ہے، آپ کے حرم میں بیک وقت نو بیویاں تھیں، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی، اور اس میں بہت سی دینی اور سیاسی مصلحتیں کار فرما تھیں، آپ ﷺ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں، غیلان بن سلمہ (رض) ثقیف کے سرداروں میں سے تھے، فتح طائف کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا۔
نکاح میں شرط کا بیان
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ پوری کی جانے کی مستحق شرط وہ ہے جس کے ذریعے تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ٦ (٢٧٢١) ، النکاح ٥٣ (٥١٥١) ، صحیح مسلم/النکاح ٨ (١٤١٨) ، سنن ابی داود/النکاح ٤٠ (٢١٣٩) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٢ (١١٢٧) ، سنن النسائی/النکاح ٤٢ (٣٢٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٤، ١٥٠، ١٥٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٢١ (٢٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شرط سے مراد وہ شرط ہے جس پر عورت سے نکاح کیا، اس حدیث کی روشنی میں مرد نکاح کے وقت جو شرطیں مقرر کرے ان کو پورا کرنا واجب ہے، گو وہ شرطیں کسی قسم کی ہوں، اور بعضوں نے کہا : مراد وہ شرطیں ہیں جو مہر کے متعلق ہوں، یا نکاح سے، اور جو دوسری شرطیں ہوں جیسے یہ کہ عورت کو اس کے گھر سے نہ نکالے گا، یا اس کے ملک سے نہ لے جائے گا، یا اس کے اوپر دوسرا نکاح نہ کرے گا، تو ایسی شرطوں کا پورا کرنا شوہر پر واجب نہیں ہے، لیکن اگر اس نے ان شرطوں پر قسم کھائی ہو، اور ان کے خلاف کرے، تو قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔
نکاح میں شرط کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہر یا عطیہ یا ہبہ میں سے جو نکاح ہونے سے پہلے ہو وہ عورت کا حق ہے، اور جو نکاح کے بعد ہو تو وہ اس کا حق ہے، جس کو دیا جائے یا عطا کیا جائے، اور مرد سب سے زیادہ جس چیز کی وجہ سے اپنے اعزازو اکرام کا مستحق ہے وہ اس کی بیٹی یا بہن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٦ (٢١٢٩) ، سنن النسائی/النکاح ٦٧ (٣٣٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٢) (ضعیف) (سند میں ابن جریج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے )
مرد اپنی باندی کو آزاد کرکے اس سے شادی کرلے
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی طرح ادب سکھائے، اور اچھی طرح تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کرلے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے، اور اہل کتاب میں سے جو شخص اپنے نبی پر ایمان لایا، پھر محمد ﷺ پر ایمان لایا، تو اسے دوہرا اجر ملے گا، اور جو غلام اللہ کا حق ادا کرے، اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرے، تو اس کو دوہرا اجر ہے ١ ؎۔ شعبی نے صالح سے کہا : ہم نے یہ حدیث تم کو مفت سنا دی، اس سے معمولی حدیث کے لیے آدمی مدینہ تک سوار ہو کر جایا کرتا تھا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣١ (٩٧) ، العتق ١٤ (٢٥٤٤) ، ١٦ (٢٥٤٧) ، الجہاد ١٥٤ (٣٠١١) ، الأنبیاء ٤٧ (٣٤٤٦) ، النکاح ١٣ (٥٠٨٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٠ (١٥٤) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٤ (١١١٦) ، سنن النسائی/النکاح ٦٥ (٣٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٩١٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ٦ (٢٠٥٣) ، حم (٤/٣٩٥، ٣٩٨، ٤١٤، ٤١٥) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٦ (٢٢٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک اجر اس کے آزاد کرنے کا، اور دوسرا اجر اس کی تعلیم یا نکاح کا، اب اہل حدیث کا قول یہ ہے کہ اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور اسی آزادی کو مہر مقرر کر کے اس سے نکاح کرلے تو جائز ہے۔ ٢ ؎: امام شعبی (عامر بن شراحیل) کوفہ میں تھے، ان کے عہد میں کوفہ سے مدینہ تک دو ماہ کا سفر تھا، مطلب یہ ہے کہ ایک ایک حدیث سننے کے لئے محدثین کرام دو دو مہینے کا سفر کرتے تھے، سبحان اللہ، اگلے لوگوں کو اللہ بخشے اگر وہ ایسی محنتیں نہ کرتے تو ہم تک دین کیوں کر پہنچتا۔
مرد اپنی باندی کو آزاد کرکے اس سے شادی کرلے
انس (رض) کہتے ہیں کہ پہلے ام المؤمنین صفیہ (رض) دحیہ کلبی (رض) کے حصہ میں آئیں، پھر نبی اکرم ﷺ کی ہوگئیں، تو آپ نے ان سے شادی کی، اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر بنایا ١ ؎۔ حماد کہتے ہیں کہ عبدالعزیز نے ثابت سے پوچھا : اے ابومحمد ! کیا آپ نے انس (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان (صفیہ) کا مہر کیا مقرر کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخوف ٦ (٩٤٧) ، النکاح ١٤ (٥٠٨٦) ، صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، الجہاد ٤٣ (١٣٦٥) ، سنن ابی داود/الخراج ٢١ (٢٩٩٦) ، سنن النسائی/النکاح ٧٩ (٣٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١، ١٠١٧، ١٠١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩٩، ١٣٨، ١٦٥، ١٧٠، ١٨١) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٥ (٢٢٨٨، ٢٢٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صفیہ (رض) ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھیں، اور یہودیوں کے بادشاہ حی بن اخطب کی بیٹی تھیں، اس لئے مسلمانوں کے سردار کے پاس ان کا رہنا مناسب تھا۔
مرد اپنی باندی کو آزاد کرکے اس سے شادی کرلے
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین صفیہ (رض) کو آزاد کیا، اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر مقرر کر کے ان سے شادی کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٠٥، ومصباح الزجاجة : ٦٩٠) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
آقا کی اجازت کے بغیر غلام کا شادی کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو وہ زانی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٨٦، ومصباح الزجاجة : ٦٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/النکاح ١٧ (٢٠٧٨) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٠ (١١١١) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٧٧، ٣٨٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٠ (٢٢٧٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: جابر (رض) کی ایک روایت میں ہے کہ نکاح باطل ہے، اسی وجہ سے اس حدیث میں اسے زانی کہا گیا ہے۔
آقا کی اجازت کے بغیر غلام کا شادی کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس غلام نے اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا، تو وہ زانی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٠٨، ومصباح الزجاجة : ٦٩٤) (حسن) (سند میں مندل ضعیف راوی ہے، سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
نکاح متعہ کی ممانعت
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے، اور پالتو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرما دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢١٦) ، النکاح ٣١ (٥١١٥) ، الذبائح ٢٨ (٥٥٢٣) ، الحیل ٤ (٦٩٦١) ، صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٠٧) ، الصید ٥ (١٤٠٧) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٨ (١١٢١) ، الأطعمة ٦ (١٧٩٤) ، سنن النسائی/النکاح ٧١ (٣٣٦٧) ، الصید ٣١ (٤٣٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ١٨ (٤١) ، مسند احمد (١/٧٩، ١٠٣، ١٤٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٦ (٢٢٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: متعہ : کسی عورت سے ایک متعین مدت تک کے لیے نکاح کرنے کو متعہ کہتے ہیں، جب مقررہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو ان کے درمیان خودبخود جدائی ہوجاتی ہے، متعہ دو مرتبہ حرام ہوا اور دو ہی مرتبہ مباح و جائز ہوا، چناچہ یہ غزوہ خیبر سے پہلے حلال تھا پھر اسے غزوہ خیبر کے موقع پر حرام کیا گیا، پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر مباح کیا گیا اور عام اوطاس بھی اسی کو کہتے ہیں اس کے بعد یہ ہمیشہ ہمیش کے لیے حرام کردیا گیا جیسا کہ امام نووی نے بیان فرمایا ہے۔ لیکن علامہ ابن القیم کی رائے یہ ہے کہ متعہ غزوہ خیبر کے موقع پر حرام نہیں کیا گیا بلکہ اس کی حرمت فتح مکہ کے سال ہوئی، اور یہی رائے صحیح ہے، اس سے پہلے مباح و جائز تھا، اور علی (رض) نے متعہ کی حرمت اور گھریلو گدھے کی حرمت کو جو ایک ساتھ جمع کردیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن عباس (رض) ان دونوں کو مباح و جائز سمجھتے تھے تو علی نے نبی اکرم ﷺ سے ان دونوں کی تحریم ابن عباس (رض) کی تردید میں بیان کی ہے، اور پالتو گدھے کی حرمت غزوہ خیبر میں ہوئی تھی، اور اس کی تحریم کے لیے غزوہ خیبر کے دن کو بطور ظرف ذکر کیا ہے، اور تحریم متعہ کو مطلق بیان کیا ہے، صحیح سند سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھے کو حرام قرار دیا، نیز عورتوں سے متعہ کو بھی حرام کیا، اور ایک روایت میں حرم متعة النساء وحرم لحوم الحمر الأهلية کے الفاظ بھی ہیں جس سے بعض راویوں نے یہ سمجھا کہ ان دونوں کو خیبر کے روز ہی حرام کیا گیا تھا، تو انھوں نے دونوں کو خیبر کے روز ہی سے مقید کردیا، اور بعض راویوں نے ایک کی تحریم پر اقتصار کیا اور وہ ہے گھریلو گدھے کی تحریم، یہیں سے وہم ہوا کہ دونوں کی تحریم غزوہ خیبر کے موقع پر ہوئی، رہا خیبر کا قصہ تو اس روز نہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہودی عورتوں سے متعہ کیا، اور نہ ہی اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے انھوں نے اجازت طلب کی اور نہ ہی کسی نے کبھی اس غزوہ میں اس کو نقل کیا ہے اور نہ اس متعہ کے فعل یا اس کی تحریم کا حتمی ذکر ہے بخلاف فتح مکہ کے، فتح مکہ کے موقع پر متعہ کے فعل اور اس کی تحریم کا ذکر مشہور ہے اور اس کی روایت صحیح ترین روایت ہے۔ (ملاحظہ ہو : زاد المعاد )
نکاح متعہ کی ممانعت
سبرہ بن معبد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلے، تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! عورت کے بغیر رہنا ہمیں گراں گزر رہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ان عورتوں سے متعہ کرلو ، ہم ان عورتوں کے پاس گئے وہ نہیں مانیں، اور کہنے لگیں کہ ہم سے ایک معین مدت تک کے لیے نکاح کرو، لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے اور ان کے درمیان ایک مدت مقرر کرلو چناچہ میں اور میرا ایک چچا زاد بھائی دونوں چلے، اس کے پاس ایک چادر تھی، اور میرے پاس بھی ایک چادر تھی، لیکن اس کی چادر میری چادر سے اچھی تھی، اور میں اس کی نسبت زیادہ جوان تھا، پھر ہم دونوں ایک عورت کے پاس آئے تو اس نے کہا : چادر تو چادر کی ہی طرح ہے (پھر وہ میری طرف مائل ہوگئی) چناچہ میں نے اس سے نکاح (متعہ) کرلیا، اور اس رات اسی کے پاس رہا، صبح کو میں آیا تو رسول اللہ ﷺ رکن (حجر اسود) اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے فرما رہے تھے : اے لوگو ! میں نے تم کو متعہ کی اجازت دی تھی لیکن سن لو ! اللہ نے اس کو قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا ہے، اب جس کے پاس متعہ والی عورتوں میں سے کوئی عورت ہو تو اس کو چھوڑ دے، اور جو کچھ اس کو دے چکا ہے اسے واپس نہ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٠٦) ، سنن ابی داود/النکاح ١٤ (٢٠٧٢) ، سنن النسائی/النکاح ٧١ (٣٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٤، ٤٠٥) ، سنن الدارمی/النکاح ١٦ (٢٢٤٢) (صحیح) (حجة الوداع کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح یوم الفتح ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے )
نکاح متعہ کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب (رض) خلیفہ ہوئے، تو انہوں نے خطبہ دیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو تین بار متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دیا، قسم ہے اللہ کی اگر میں کسی کے بارے میں جانوں گا کہ وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے متعہ کرتا ہے تو میں اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا، مگر یہ کہ وہ چار گواہ لائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے حرام قرار دینے کے بعد حلال کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٦، ومصباح الزجاجة : ٦٩٥) (حسن )
محرم شادی کرسکتا ہے۔
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی، اور آپ اس وقت حلال تھے۔ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ میمونہ (رض) میری بھی خالہ تھیں، اور ابن عباس (رض) کی بھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤١١) ، سنن ابی داود/المناسک ٣٩ (١٨٤٣) ، سنن الترمذی/الحج ٢٤ (١٨٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٣، ٣٣٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٥) (صحیح )
محرم شادی کرسکتا ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (میمونہ (رض) سے) حالت احرام میں نکاح کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٢ (١٨٣٧) ، المغازي ٤٣ (٤٢٥٨) ، النکاح ٣٠ (٥١١٤) ، صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤١٠) ، سنن ابی داود/الحج ٣٩ (١٨٤٤) ، سنن الترمذی/الحج ٢٤ (٨٤٣) ، سنن النسائی/الحج ٩٠ (٢٨٤٣) ، النکاح ٣٧ (٣٢٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢، ٢٤٥، ٢٦٦، ٢٧٠، ٢٨٣، ٢٨٥، ٢٨٦، ٣٢٤، ٣٣٠، ٣٣٣، ٣٣٦، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٥٤، ٣٦٠، ٣٦١) ، سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٣) (صحیح) (لیکن یہ شاذ ہے، اس لیے کہ اوپر کی میمونہ رضی+اللہ+عنہا کی حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ شادی احرام سے باہر حلت کے ایام میں ہوئی تھی، اور یہ صاحب معاملہ کا بیان ہے، تو ان کی بات زیادہ لائق اعتماد ہے، اور ابن+عباس رضی+اللہ+عنہما نے اپنے علم کی بناء پر ایسا کہا تھا، جو خلاف واقعہ بات ہے ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عباس (رض) کی یہ حدیث میمونہ بنت حارث (رض) کی سابقہ حدیث کی معارض ہے، اس میں ابن عباس (رض) کو وہم ہوا ہے کیونکہ یہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایت کی مخالف ہے، فرد واحد کی طرف وہم کی نسبت جماعت کی طرف وہم کی نسبت سے زیادہ قریب ہے، خود صاحب قصہ ام المومنین میمونہ (رض) کا اور ان کے وکیل ابورافع (رض) جو ان کے اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان سفارت کے فرائض انجام دے رہے تھے کا بیان اس کے خلاف ہے، ابن عباس (رض) کے قول : وهو محرم کی ایک تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ ابن عباس (رض) کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نبی اکرم ﷺ حدود حرم میں تھے، اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ نبی اکرم ﷺ نے احرام کی حالت میں ام المومنین میمونہ (رض) سے نکاح کیا، تو پھر اسے آپ کی خصوصیت پر محمول کیا جائے گا، عثمان (رض) کی آگے آنے والی حدیث میں ایک کلی قانون کا بیان ہے، اور ابن عباس (رض) سے منقول حدیث میں نبی اکرم ﷺ کے فعل کی حکایت ہے جس میں بہت سارے احتمالات موجود ہیں۔
محرم شادی کرسکتا ہے۔
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : محرم نہ تو اپنا نکاح کرے، اور نہ دوسرے کا نکاح کرائے، اور نہ ہی شادی کا پیغام دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤٠٩) ، سنن ابی داود/الحج ٣٩ (١٨٤١، ١٨٤٢) ، سنن الترمذی/الحج ٢٣ (٨٤٠) ، سنن النسائی/الحج ٩١ (٢٨٤٥) ، النکاح ٣٨ (٣٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٢٢ (٧٠) ، حم ١/٥٧، ٦٤، ٦٩، ٧٣، سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٤) ، النکاح ١٧ (٢٢٤٤) (صحیح )
نکاح میں ہمسر اور برابر کے لوگ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو ، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اور بڑی خرابی ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٣ (١٠٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٥) (حسن) (سند میں عبد الحمید ضعیف راوی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٨٦٨ ، لیکن متابعت کی وجہ سے حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفو کا اعتبار صرف دین اور اخلاق میں کیا جائے گا، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ چار چیزوں (دین، نسب آزادی اور پیشہ و صنعت میں) معتبر ہے، لیکن پہلا قول راجح ہے، اور اس کے قابل ترجیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
نکاح میں ہمسر اور برابر کے لوگ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے نطفوں کے لیے نیک عورت کا انتخاب کرو، اور اپنے برابر والوں سے نکاح کرو، اور انہیں کو اپنی بیٹیوں کے نکاح کا پیغام دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٨٤، ومصباح الزجاجة : ٦٩٦) (حسن) (سند میں الحارث الجعفری ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة : ١٠٦٧ ) وضاحت : ١ ؎: اکفاء کفو کی جمع ہے، کاف کے ضمہ اور خاء کے سکون کے ساتھ اس کے معنی مثل، نظیر اور ہمسر کے ہیں۔
بیویوں کی باری مقرر کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف مائل رہے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٩ (٢١٣٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٤١ (١١٤١) ، سنن النسائی/عشرةالنساء ٢ (٣٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٧، ٤٧١) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٤ (٢٢٥٢) (صحیح )
بیویوں کی باری مقرر کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الھبة ١٥ (٢٥٩٣) ، النکاح ٩٧ (٥٠٩٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٥) ، سنن ابی داود/النکاح ٣٩ (٢١٣٨) ، مسند احمد (٦/١١٧، ١٥١، ١٩٧، ٢٦٩) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣١ (٢٤٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس عورت کا نام قرعہ میں نکلتا اس کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے، باقی عورتوں کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور یہ آپ ﷺ کا کمال انصاف تھا، ورنہ علماء نے کہا ہے کہ آپ ﷺ پر بیویوں کے درمیان تقسیم ایام واجب نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دے دیا تھا کہ جس عورت کے پاس چاہیں رہیں : تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء (سورة الأحزاب : 51) ان میں سے جسے چاہیں دور رکھیں اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لیں ۔
بیویوں کی باری مقرر کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر کرتے، اور باری میں انصاف کرتے، پھر فرماتے تھے : اے اللہ ! یہ میرا کام ہے جس کا میں مالک ہوں، لہٰذا تو مجھے اس معاملہ (محبت کے معاملہ) میں ملامت نہ کر جس کا تو مالک ہے، اور میں مالک نہیں ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٩ (٢١٣٤) ، سنن الترمذی/النکاح ٤١ (١١٤٠) ، سنن النسائی/عشرة النکاح ٢ (٣٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٥ (٢٢٥٣) (ضعیف) (لیکن رسول اکرم ﷺ کا بیویوں کے درمیان ایام کی تقسیم ثابت ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٣٤٦ ) وضاحت : ١ ؎: رسول اکرم ﷺ کے اسوہ کے مطابق مرد کا اختیار جہاں تک ہے، وہاں تک بیویوں کے درمیان عدل کرے، ہر ایک عورت کے پاس باری باری رہنا یہ اختیاری معاملہ ہے جو ہوسکتا ہے، لیکن دل کی محبت اور جماع کی خواہش یہ اختیاری نہیں ہے، کسی عورت سے رغبت ہوتی ہے، کسی سے نہیں ہوتی، تو اس میں برابری کرنا یہ مرد سے نہیں ہوسکتا، بس اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے گا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ اپنی باری کسی دوسری عورت کو ہبہ کر دے جیسے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یا اپنی باری شوہر کو معاف کر دے۔
بیوی اپنی باری سوکن کو دے سکتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ (رض) بوڑھی ہوگئیں، تو انہوں نے اپنی باری کا دن عائشہ (رض) کو ہبہ کردیا، چناچہ رسول اللہ ﷺ سودہ (رض) کی باری والے دن عائشہ (رض) کے پاس رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي بکر أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٤٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٠١) ، وحدیث محمد بن الصبَّاح تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الھبة ١٥ (٢٥٩٣) ، النکاح ٩٩ (٥٢١٢) ، سنن ابی داود/النکاح ٣٩ (٢١٣٥) ، مسند احمد (٦/ ١٠٧) (صحیح )
بیوی اپنی باری سوکن کو دے سکتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صفیہ بنت حیی (رض) پر کسی وجہ سے ناراض ہوگئے، تو صفیہ (رض) نے کہا : عائشہ ! کیا تم رسول اللہ ﷺ کو مجھ سے راضی کرسکتی ہو، اور میں اپنی باری تم کو ہبہ کر دوں گی ؟ انہوں نے کہا : ہاں، چناچہ انہوں نے زعفران سے رنگا ہوا اپنا دوپٹہ لیا، اور اس پہ پانی چھڑکا تاکہ اس کی خوشبو پھوٹے، پھر رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں بیٹھیں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عائشہ مجھ سے دور ہوجاؤ، آج تمہاری باری نہیں ہے ، تو انہوں نے کہا : یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور پورا قصہ بتایا تو نبی اکرم ﷺ صفیہ (رض) سے راضی ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٤، ومصباح الزجاجة : ٦٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٥، ١٤٥) (ضعیف) (سند میں سمیہ بصریہ غیر معروف ہے )
بیوی اپنی باری سوکن کو دے سکتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ یہ آیت : والصلح خير اس شخص کے بارے میں اتری جس کی ایک بیوی تھی اور مدت سے اس کے ساتھ رہی تھی، اس سے کئی بچے ہوئے، اب مرد نے ارادہ کیا کہ اس کے بدلے دوسری عورت سے نکاح کرے (اور اسے طلاق دیدے) چناچہ اس عورت نے مرد کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اس کے پاس رہے گی، اور وہ اس کے لیے باری نہیں رکھے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧١٢٨) (حسن) (سند میں اختلاف ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے )
نکاح کرانے کے لئے سفارش کرنا
ابورہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر سفارش یہ ہے کہ مرد اور عورت کے نکاح کی سفارش کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٨، ومصباح الزجاجة : ٦٩٩) (ضعیف) (ابو رہم سمعی مخضرم اور ثقہ ہیں، اس لئے ارسال کی وجہ سے یہ ضعیف ہے )
نکاح کرانے کے لئے سفارش کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اسامہ (رض) دروازہ کی چوکھٹ پر گرپڑے، جس سے ان کے چہرے پہ زخم ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ان سے خون صاف کرو ، میں نے اسے ناپسند کیا تو آپ ﷺ ان کے زخم سے خون نچوڑنے اور ان کے منہ سے صاف کرنے لگے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے زیورات اور کپڑوں سے اس طرح سنوارتا کہ اس کا چرچا ہونے لگتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩٦، ومصباح الزجاجة : ٧٠٠) ، وقد أخرجہ : ٦/١٣٩، ٢٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو زیور اور لباس سے آراستہ کرنا جائز ہے بلکہ نکاح کے وقت مستحب ہے۔
بیویوں کے ساتھ اچھا برتا کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٣٧، ومصباح الزجاجة : ٧٠١) (صحیح) (سند میں عمارہ بن ثوبان مستور ہے، لیکن دوسری سند سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی عمدہ سلوک اور اخلاق کے ساتھ اگرچہ تمام لوگوں سے معاشرت عمدہ طور سے لازم ہے، تاکہ سب خاص و عام اپنے سے خوش رہیں، اور مرتے وقت تعریف کریں، اور دعا دیں لیکن سب لوگوں سے زیادہ حق اپنی بیوی اور بال بچوں کا ہے، اس کے بعد دوسرے عزیزوں اور ناتے والوں کا، اس کے بعد دوستوں کا اس کے بعد اور لوگوں کا۔
بیویوں کے ساتھ اچھا برتا کرنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣٤، ومصباح الزجاجة : ٧٠٢) (صحیح) (سند میں اعمش مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے )
بیویوں کے ساتھ اچھا برتا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں آپ ﷺ سے آگے نکل گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٢٧) ، سنن ابی داود/الجہاد ٦٨ (٢٥٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ جب میرا بدن بھاری ہوگیا تو آپ ﷺ دوڑ میں مجھ سے آگے نکل گئے، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! یہ پہلی دوڑ کا بدلہ ہے اس حدیث کے یہاں لانے کا مقصد یہ ہے کہ شوہر کی حسن معاشرت اپنی بیویوں کے ساتھ معلوم ہو باوجود یہ کہ نبی اکرم ﷺ کا سن مبارک زیادہ تھا، اور عائشہ (رض) کم سن تھیں، لیکن آپ ﷺ ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ ایسا کرتے اور دوڑنا مباح ہے کچھ برا کھیل نہیں ہے۔
بیویوں کے ساتھ اچھا برتا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ (خیبر سے واپس) مدینہ آئے، اور صفیہ بنت حیی (رض) کے آپ دولہا ہوئے، تو انصار کی عورتیں آئیں، اور انہوں نے صفیہ (رض) کا حال بیان کیا، عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے اپنی صورت بدلی، منہ پر نقاب ڈالا، اور صفیہ (رض) کو دیکھنے چلی، رسول اللہ ﷺ نے میری آنکھ دیکھ کر مجھے پہچان لیا، آپ ﷺ دوسری طرف متوجہ ہوئے تو میں اور تیزی سے چلی، لیکن آپ نے مجھ کو پکڑ کر گود میں اٹھا لیا، اور پوچھا : تو نے کیسا دیکھا ؟ میں نے کہا : بس چھوڑ دیجئیے، یہودی عورتوں میں سے ایک یہودی عورت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٢٢، ومصباح الزجاجة : ٧٠٣) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہے )
بیویوں کے ساتھ اچھا برتا کرنا
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : مجھے معلوم ہونے سے پہلے زینب بنت جحش (رض) میرے گھر میں بغیر اجازت کے آگئیں، وہ غصہ میں تھیں، کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! کیا آپ کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ابوبکر کی بیٹی اپنی آغوش آپ کے لیے وا کر دے ؟ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئیں، میں نے ان سے منہ موڑ لیا، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تو بھی اس کی خبر لے اور اس پر اپنی برتری دکھا تو میں ان کی طرف پلٹی، اور میں نے ان کا جواب دیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ان کا تھوک ان کے منہ میں سوکھ گیا، اور مجھے کوئی جواب نہ دے سکیں، پھر میں نے نبی اکرم ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ کا چہرہ کھل اٹھا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٦٢، ومصباح الزجاجة : ٧٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زینب بنت جحش (رض) خاندان قریش کی حسین و جمیل اور صاحب حسب و نسب خاتون تھیں، اور رسول اکرم ﷺ کی بیویوں میں انہی کو عائشہ (رض) کی برابری کا دعوی تھا، وہ کہتی تھیں : میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا اور تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا، وہ غصہ میں اس وجہ سے تھیں کہ ام المومنین عائشہ (رض) کی طرف آپ ﷺ کی توجہ زیادہ تھی، اور وہ آپ سے شکایت کر رہی تھیں، ام المومنین عائشہ (رض) کو انہوں نے حقارتاً بُنَيَّةُ (جو تصغیر ہے بنت کی) کہا یعنی چھوٹی لڑکی، چھوکری، آپ تو عائشہ کے شیدائی اور ان پر فریفتہ ہیں، دوسری بیویوں کی آپ کو فکر ہی نہیں ہے، نہ کسی کا آپ کو خیال ہے، ام المومنین عائشہ (رض) نے اپنی قمیص الٹی اور بانہہ کھولی، ام المومنین عائشہ (رض) کا جواب دینا اور ام المومنین زینب (رض) کا ہار جانا جو ناحق شکایت کرتی تھیں، اس سے آپ کو خوشی ہوئی اور اس کے نتیجے میں آپ کا چہرہ کھل اٹھا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے زینب (رض) سے فرمایا : تم نہیں جانتی ہو یہ ابوبکر کی بیٹی ہے ۔ سوکنوں کی یہ وقتی غیرت والی لڑائی عائلی زندگی کا ایک خوش کن لازمہ ہے، اس میں شوہر کی عقلمندی اور اس کے حلم و صبر کا امتحان بھی ہے۔
بیویوں کے ساتھ اچھا برتا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، تو آپ میری سہیلیوں کو میرے پاس کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٧١٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٨١ (٦١٣٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٠) ، سنن ابی داود/الأدب ٦٢ (٤٩٣١) (صحیح) (سند میں عمر بن حبیب ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: گڑیاں کپڑے کی مورتیں جو بچیاں بناتی ہیں ان کی شادی کرتی ہیں یہ بچوں کا کھیل ہے، اور ان میں پوری مورت نہیں ہوتی اس لئے تصویر کا حکم نہیں دیا گیا، اور لڑکیوں کو اس کا کھیل جائز رکھا گیا، ام المومنین عائشہ (رض) کم سن تھیں، یہ آپ ﷺ کا کمال اخلاق تھا کہ بچوں پر شفقت کرتے اور کھیل کود سے ان کو منع نہ کرتے، نہ زیادہ غصہ ہوتے، اس باب کی تمام حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرتے تھے۔
بیویوں کو مارنا
عبداللہ بن زمعہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کا ذکر کیا، اور مردوں کو ان کے سلسلے میں نصیحت فرمائی، پھر فرمایا : کوئی شخص اپنی عورت کو لونڈی کی طرح کب تک مارے گا ؟ ہوسکتا ہے اسی دن شام میں اسے اپنی بیوی سے صحبت کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الشمس (٤٩٤٢) ، النکاح ٩٣ (٥٢٠٤) ، صحیح مسلم/صفة الجنة ونعیمہا ٣ (٢٨٥٥) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٧٩ (٣٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٤ (٢٢٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو پہلے ایسی سخت مار پھر اس کے بعد اتنا پیار بالکل نامناسب ہوگا، اور دل شرمائے گا، مناسب یہ ہے کہ امکانی حد تک عورت پر ہاتھ ہی نہ اٹھائے، اگر ایسا ہی سخت قصور کرے تو زبان سے خفا ہو، بستر الگ کر دے، اگر اس پر بھی نہ مانے تو ہلکی مار مارے۔
بیویوں کو مارنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ کسی خادم کو اپنے ہاتھ سے مارا، نہ کسی عورت کو، اور نہ کسی بھی چیز کو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٠ (٢٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٦٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ٥ (٤٧٨٦) ، مسند احمد (٦/٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٤ (٢٢٦٤) (صحیح )
بیویوں کو مارنا
ایاس بن عبداللہ بن ابی ذباب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی بندیوں کو نہ مارو ، تو عمر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! عورتیں اپنے شوہروں پہ دلیر ہوگئی ہیں، لہٰذا انہیں مارنے کی اجازت دیجئیے (چنانچہ آپ ﷺ نے اجازت دے دی) تو ان کو مار پڑی، اب بہت ساری عورتیں محمد ﷺ کے گھرانے کا چکر کاٹنے لگیں، جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : آل محمد کے گھر آج رات ستر عورتیں آئیں، ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھی، تو تم انہیں (زیادہ مارنے والے مردوں کو) بہتر لوگ نہ پاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤٣ (٢١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/النکاح ٣٤ (٢٦٦٥) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٢٣٤ )
بیویوں کو مارنا
اشعث بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات عمر (رض) کا مہمان ہوا، جب آدھی رات ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو مارنے لگے، تو میں ان دونوں کے بیچ حائل ہوگیا، جب وہ اپنے بستر پہ جانے لگے تو مجھ سے کہا : اشعث ! وہ بات جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تم اسے یاد کرلو : شوہر اپنی بیوی کو مارے تو قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال نہیں کیا جائے گا، اور وتر پڑھے بغیر نہ سوؤ اور تیسری چیز آپ نے کیا کہی میں بھول گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤٣ (٢١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠) (ضعیف) (یہ سند عبدالرحمن مسلمی کی وجہ سے ضعیف ہے، جو اس حدیث کے علاوہ کی دوسری حدیث کی روایت میں غیر معروف ہیں، اور داود بن عبد اللہ اودی روایت میں منفرد ہیں ) اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
بالوں میں جوڑا لگانا اور گودنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بالوں کو جوڑنے اور جڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي أسامہ تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٨٧٤) ، وحدیث عبد اللہ بن نمیر أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٣ (٥٩٣٧) ، ٨٥ (٥٩٤٠) ، ٨٧ (٥٩٤٧) ، سنن ابی داود/الترجل ٥ (٤١٦٨) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٥ (١٧٥٩) ، الأدب ٣٣ (٢٧٨٤) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ١٧ (٥٢٥٣) ، مسند احمد (٢/٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بال جوڑنے سے مراد یہ ہے کہ پرانے بال لے کر اپنے سر کے بالوں میں لگائے، جیسا بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے، اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سر کے بال زیادہ معلوم ہوں، امام نووی کہتے ہیں : ظاہر احادیث سے اس کی حرمت نکلتی ہے، اور بعضوں نے اس کو مکروہ کہا ہے، بعضوں نے شوہر کی اجازت سے جائز رکھا ہے اور گودنا بالاتفاق حرام ہے۔
بالوں میں جوڑا لگانا اور گودنا کیسا ہے؟
اسماء (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری بیٹی دلہن ہے، اور اسے چیچک کا عارضہ ہوا جس سے اس کے بال جھڑ گئے، کیا میں اس کے بال میں جوڑ لگا دوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے بالوں کو جوڑنے والی اور جو ڑوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٣ (٥٩٤١) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٢) ، سنن النسائی/الزینة ٢٢ (٥٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١١، ٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٣) (صحیح )
بالوں میں جوڑا لگانا اور گودنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں، بال اکھیڑنے والیوں، خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے، قبیلہ بنو اسد کی ام یعقوب نامی ایک عورت کو یہ حدیث پہنچی تو وہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہنے لگی : مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ ایسا ایسا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے، اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے، وہ کہنے لگی : میں پورا قرآن پڑھتی ہوں، لیکن اس میں مجھے یہ نہ ملا، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اگر تم پڑھتی ہوتی تو ضرور پاتی، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی : وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا رسول تمہیں جو دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے باز آ جاؤ اس عورت نے کہا : ضرور پڑھی ہے تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع کیا ہے، وہ عورت بولی : میرا خیال ہے کہ تمہاری بیوی بھی ایسا کرتی ہوگی، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : جاؤ دیکھو، چناچہ وہ اسے دیکھنے کے لیے گئی تو اس نے کوئی بات اپنے خیال کے مطابق نہیں پائی، تب کہنے لگی : میں نے تمہاری بیوی کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہی تھیں تو وہ کبھی میرے ساتھ نہ رہتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورةالحشر ٤ (٤٨٨٦) ، اللباس ٨٢ (٥٩٣١) ، ٨٤ (٥٩٣٩) ، ٨٥ (٥٩٤٣) ، ٨٦ (٥٩٤٤) ، ٨٧ (٥٩٤٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٥) ، سنن ابی داود/الترجل ٥ (٤١٦٩) ، سنن الترمذی/الادب ٣٣ (٢٧٨٢) ، سنن النسائی/الزینة ٢٤ (٥١٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٩، ٤١٥، ٤٢٤، ٤٤٨، ٤٥٤، ٤٦٢، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/الاستذان ١٩ (٢٦٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو وہ کبھی میرے ساتھ نہ رہتی کا مطلب ہے کہ میں اسے طلاق دے دیتا۔
کن دنوں میں اپنی ازواج سے صحبت کرنا مستحب ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے شوال میں شادی کی اور شوال ہی میں ملن بھی کیا، پھر کون سی بیوی آپ کے پاس مجھ سے زیادہ نصیب والی تھی، اور عائشہ (رض) اپنے یہاں کی عورتوں کو شوال میں (ان کے شوہروں کے پاس) بھیجنا پسند کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١١ (١٤٢٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٩ (١٠٩٣) ، سنن النسائی/النکاح ١٨ (٣٢٣٨) ، ٧٧ (٣٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٤، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٨ (٢٢٥٧) (صحیح )
کن دنوں میں اپنی ازواج سے صحبت کرنا مستحب ہے۔
ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے شوال میں شادی کی اور ان سے شوال ہی میں ملن بھی کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٨٢، ١٨٢٣٠، ومصباح الزجاجة : ٧٠٦) (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ سند میں ارسال ہے، عبدالملک بن الحارث+بن+ہشام یہ عبدالملک+بن+ابی+بکر بن الحارث+بن+ہشام المخزومی ہیں جیسا کہ طبقات ابن+سعد میں ہے، ٨ /٩٤-٩٥، اور یہ ثقہ تابعی ہیں، اسی طرح ابوبکر ثقہ تابعی ہیں، اور یہ حدیث ابوبکر کی ہے، نہ کہ ان کے دادا حارث+بن+ہشام کی، اور عبداللہ+بن+ابی+بکر یہ ابن+محمد عمرو+بن+حزم الانصاری ہیں، جو اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، اور ان سے ابن+اسحاق روایت کرتے ہیں، ابوبکر کی وفات 120 ھ میں ہوئی، اور ان کے شیخ عبدالملک کی وفات 125 ھ میں ہوئی، اس لیے یہ حدیث ابوبکر عبدالرحمٰن بن الحارث+بن+ہشام سے مرسلاً روایت ہے، ان کے دادا حارث+بن+ہشام سے نہیں، اس میں امام مزی وغیرہ کو وہم ہوا ہے، نیز سند میں ابن+اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن ابن سعد کی روایت میں تحدیث کی تصریح ہے، اور موطا امام+مالک میں ( ٢ / ٦٥٠) میں ثابت ہے کہ ابوبکر+بن+عبدالرحمٰن نے اس حدیث کو ام+سلمہ رضی+اللہ+عنہا سے لیا ہے، اس لیے یہ حدیث صحیح ہے، اسی وجہ سے شیخ البانی نے تفصیلی تحقیق کے بعد اس حدیث کو الضعیفہ ( ٤٣٥٠ ) سے منتقل کرنے کی بات کہی ہے، ، فالحدیث صحیح ینقل الی الکتاب الأخر ۔ ١٩٩ وضاحت : ١ ؎: شوال کا مہینہ عید اور خوشی کا مہینہ ہے، اس وجہ سے اس میں نکاح کرنا بہتر ہے، عہد جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے، رسول اکرم ﷺ نے ان کے خیال کو غلط ٹھہرایا اور اس مہینہ میں نکاح کیا، اور دخول بھی اسی مہینے میں کیا، گو ہر ماہ میں نکاح جائز ہے مگر جس مہینہ کو عوام بغیر دلیل شرعی کے عورتوں کی تقلید سے یا کافروں اور فاسقوں کی تقلید سے منحوس سمجھیں اس میں نکاح کرنا چاہیے، تاکہ عوام کے دل سے یہ غلط عقیدہ نکل جائے، شرع کی رو سے شوال، محرم یا صفر کا مہینہ کوئی منحوس نہیں ہے، اس لیے بےکھٹکے ان مہینوں میں نکاح کرنا چاہیے۔
مرد اپنی بیوی سے کوئی چیز دینے سے قبل دخول کرے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے پاس اس کی بیوی کو بھیج دیں اس سے پہلے کہ شوہر نے اس کو کوئی چیز دی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٦ (٢١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٩) (ضعیف) (سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی ضعیف ہیں، اور خیثمہ کا ام المؤمنین عائشہ (رض) سے سماع بھی محل نظر ہے، ملاحظہ ہو : تہذیب التہذیب ٣ / ١٧٩ )
کونسی چیز منحوس ہے اور کونسی مبارک ہوتی ہے؟
مخمر بن معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : نحوست کوئی چیز نہیں، تین چیزوں میں برکت ہوتی ہے : عورت، گھوڑا اور گھر میں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٣، ومصباح الزجاجة : ٧٠٧) (صحیح )
کونسی چیز منحوس ہے اور کونسی مبارک ہوتی ہے؟
سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ (یعنی نحوست) ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٧ (٢٨٦٠) ، النکاح ١٨ (٥٠٩٥) ، صحیح مسلم/السلام ٣٤ (٢٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الإستئذان ٨ (٢١) ، مسند احمد (٥/٣٣٥، ٣٣٨) (صحیح )
کونسی چیز منحوس ہے اور کونسی مبارک ہوتی ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نحوست تین چیزوں میں ہے : گھوڑے، عورت اور گھر میں ١ ؎۔ زہری کہتے ہیں : مجھ سے ابوعبیدہ نے بیان کیا کہ ان کی دادی زینب نے ان سے بیان کیا، اور وہ ام سلمہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ وہ ان تین چیزوں کو گن کر بتاتی تھیں اور ان کے ساتھ تلوار کا اضافہ کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد اللہ بن عمر أخرجہ : صحیح مسلم/الطب ٣٤ (٢٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٦٤) ، وحدیث أم سلمةٰ ، تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٧ (٢٨٥٨) ، النکاح ١٧ (٥٠٩٣) ، الطب ٤٣ (٥٧٥٣) ، سنن ابی داود/الطب ٢٤ (٣٩٢٢) ، سنن النسائی/الخیل ٥ (٣٥٩٩) ، سنن الترمذی/الادب ٥٨ (٢٨٢٤) ، موطا امام مالک/الإستئذان ٨ (٢٢) ، مسند احمد (٢/٨، ٣٦، ١١٥، ١٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: الشوم فى ثلاث (نحوست کے تین چیزوں میں متحقق ہونے) سے متعلق احادیث کے مقابلہ میں إن کان الشؤم (اگر نحوست ہوتی تو تین چیزوں میں ہوتی) کا لفظ کثرت روایت اور معنی کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے، اس لئے کہ اسلام میں کوئی چیز شؤم ونحوست کی نہیں، اس لئے البانی صاحب نے الشؤم فى ثلاثة والی احادیث کو شاذ قرار دیا ہے، اور شرط کے ساتھ وارد متعدد احادیث کو روایت اور معنی کے اعتبار سے صحیح قرار دیا ہے : (ملاحظہ ہو : الصحیحۃ : ٤ /٤٥٠-٤٥١ )
غیرت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بعض غیرت اللہ کو پسند ہے اور بعض ناپسند، جو غیرت اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ شک و تہمت کے مقام میں غیرت کرے، اور جو غیرت ناپسند ہے وہ غیر تہمت و شک کے مقام میں غیرت کرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٨، ومصباح الزجاجة : ٧٠٩) (صحیح) (اس کی سند میں أبی سھم مجہول ہے لیکن یہ حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : ابوداود : ٢٦٥٩ و نسائی و احمد : ٥ /٤٤٥ - ٤٤٦ و الإرواء : ١٩٩٩ ) وضاحت : ١ ؎: یہ وقت ایسا ہے کہ اللہ کی پناہ، بدمعاش لوگ کسی نیک بخت عورت کی نسبت ایک جھوٹی تہمت لگا دیتے ہیں تاکہ اس کا شوہر غیرت میں آ کر کوئی کام کر بیٹھے، اس کا گھر تباہ و برباد ہو، حسد کرنے والوں کو اس میں خوشی ہوتی ہے، یہ وقت بڑے تحمل اور استقلال کا ہے، انسان کو اس میں سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے، جلدی ہرگز نہ کرنی چاہیے، اور شریعت کے مطابق گواہی لینی چاہیے، اگر ایسے سچے اور نیک گواہوں کی گواہی نہ ملے تو سمجھ لے کہ یہ حاسدوں اور دشمنوں کا فریب ہے، جو اس کا گھر تباہ کرنا چاہتے تھے، اللہ پاک حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچائے، نبی اکرم ﷺ کو بھی ایذادہی سے نہ چھوڑا، ام المؤمنین عائشہ (رض) پر جھوٹی تہمت باندھی، طوفان اٹھایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو جھٹلایا اور ام المؤمنین عائشہ (رض) کی براءت ان کے سامنے نازل کی جس کی تلاوت قیامت تک کی جاتی رہے گی۔
غیرت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے جتنی غیرت خدیجہ (رض) پر کی اتنی کسی عورت پر نہیں کی کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کے رب نے آپ کو حکم دیا کہ انہیں جنت میں موتیوں کے ایک مکان کی بشارت دے دیں، یعنی سونے کے مکان کی، یہ تشریح ابن ماجہ نے کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٧٠٩٦) ، وقد أخر جہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٠ (٣٨١٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٢ (٢٤٣٤) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٧٠ (٢٠١٧) ، المناقب ٦٢ (٣٨٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نہ اس میں غل ہے نہ شور، جیسے دوسری روایت میں ہے کہ ام المؤمنین خدیجہ (رض) آپ ﷺ کی سب سے پہلی بیوی تھیں، آپ ﷺ کی تمام اولاد سوائے ابراہیم کے انہی کے مبارک بطن سے ہوئی، اور انہوں نے اپنا سارا مال و اسباب آپ ﷺ پر نثار کیا، اور سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لائیں، ان کے فضائل بہت ہیں، وہ آپ ﷺ کی ساری بیویوں میں سب سے افضل ہیں، اور سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء (رض) کی والدہ ہیں۔
غیرت کا بیان
مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب (رض) سے کردیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب (رض) میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٥ (٣١١١) ، المناقب ١٢ (٣٧١٤) ، النکاح ١٠٩ (٥٢٣٠) ، الطلاق ١٣ (٥٢٧٨) صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٧ (٢٤٤٩) ، سنن ابی داود/النکاح ١٣ (٢٠٧١) ، سنن الترمذی/المناقب ٦١ (٣٨٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٣، ٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علی (رض) نے فاطمہ (رض) کے موجود ہوتے ہوئے، ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنی چاہی تو آپ ﷺ نے یہ فرمایا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی، رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ نہیں رہ سکتیں یہ سن کر علی (رض) نے یہ شادی نہیں کی، اور فاطمہ (رض) کی زندگی تک کسی اور عورت سے شادی نہیں کی، ان کی وفات کے بعد ابوجہل کی بیٹی سے اور دوسری کئی عورتوں سے شادی کی۔
غیرت کا بیان
مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) نے ابوجہل کی بیٹی کو پیغام دیا جب کہ ان کے عقد میں نبی اکرم ﷺ کی صاحب زادی فاطمہ (رض) موجود تھیں، فاطمہ (رض) نے یہ خبر سنی تو نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : آپ کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا، اب علی (رض) ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ مسور کہتے ہیں : یہ خبر سن کر نبی اکرم ﷺ (منبر پر) کھڑے ہوئے، جس وقت آپ نے خطبہ پڑھا میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا : امابعد، میں نے اپنی بیٹی زینب کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا، انہوں نے جو بات کہی تھی اس کو سچ کر دکھایا ١ ؎ میری بیٹی فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، اور مجھے ناپسند ہے کہ تم لوگ اسے فتنے میں ڈالو، قسم اللہ کی، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی دونوں ایک شخص کے نکاح میں کبھی اکٹھی نہ ہوں گی، یہ سن کر علی (رض) شادی کے پیغام سے باز آگئے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کفر کے باوجود انہوں نے زینب (رض) کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا پھر بھیج دیا۔ ٢ ؎: یعنی علی (رض) نے یہ شادی نہیں کی، اور شادی کیوں کرتے آپ تو نبی اکرم ﷺ کے جاں نثار اور آپ کی مرضی کے تابع تھے، اس واقعہ کی وجہ سے علی (رض) پر کوئی طعن نہیں ہوسکتا جیسے خوارج کیا کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے لاعلمی میں یہ خیال کر کے کہ ہر مرد کو چار شادی کا حق ہے، یہ پیغام دیا تھا، جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کی مرضی کے خلاف ہے تو فوراً اس سے رک گئے۔
جس نے اپنا نفس (جان) ہبہ کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی تھیں کیا عورت اس بات سے نہیں شرماتی کہ وہ اپنے آپ کو نبی اکرم ﷺ کے لیے ہبہ کر دے ؟ ! تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء جس کو تو چاہے اپنی عورتوں میں سے اپنے سے جدا کر دے اور جس کو چاہے اپنے پاس رکھے (سورة الأحزاب : 51) تب میں نے کہا : آپ کا رب آپ کی خواہش پر حکم نازل کرنے میں جلدی کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الأحزاب (٤٧٨٨) ، النکاح ٢٩ (٥١١٣) تعلیقاً ، صحیح مسلم/الرضاع ١٤ (١٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/النکاح ٦٩ (٣٣٦١) ، مسند احمد (٦/١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ام المؤمنین عائشہ (رض) کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ عورتیں شرم کریں، اور اپنے آپ کو رسول اکرم ﷺ کو ہبہ نہ کریں اس لئے کہ آپ ﷺ کی بیویاں بہت ہوجائیں گی تو باری ہر ایک کی دیر میں آئے گی، اب اختلاف ہے کہ جس عورت نے اپنے آپ کو آپ ﷺ پر ہبہ کردیا تھا، اس کا نام کیا تھا، بعض کہتے ہیں میمونہ، بعض ام شریک، بعض زینب بنت خزیمہ، بعض خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہن واللہ اعلم
جس نے اپنا نفس (جان) ہبہ کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔
ثابت کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک (رض) کے ساتھ بیٹھے تھے، ان کے پاس ان کی ایک بیٹی تھی، انس (رض) نے کہا : ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور خود کو آپ پر پیش کیا اور بولی : کیا آپ کو میری حاجت ہے ؟ یہ سن کر انس (رض) کی بیٹی بولی : اس کو کتنی کم حیاء ہے ! اس پر انس (رض) نے کہا : وہ تجھ سے بہتر ہے، اس نے رسول اللہ ﷺ میں رغبت کی، اس لیے خود کو آپ پر پیش کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٣٢ (٥١٢٠) ، الأدب ٧٩ (٦١٢٣) ، سنن النسائی/النکاح ٢٥ (٣٢٥١) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨) (صحیح )
کسی شخص کا اپنا لڑکے (نسب) میں شک کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا بچہ جنا ہے ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے رنگ کیا ہیں ؟ اس نے کہا : سرخ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، ان میں خاکی رنگ کے بھی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں خاکی رنگ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا : کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہاں بھی (تیرے لڑکے میں) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہوگا ١ ؎۔ یہ الفاظ محمد بن صباح کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٥٠٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٨ (٢٢٦٠) ، سنن الترمذی/الولاء ٤ (٢١٢٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٦ (٣٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٦ (٥٣٠٥) ، الحدود ٤١ (٦٨٤٧) ، الاعتصام ١٢ (٧٣١٤) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٢٣٩، ٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ اونٹوں کی قدیم نسل میں کوئی دوسرے رنگ کا ہوگا، پھر یہی رنگ کئی پشت کے بعد ان کی نئی نسل میں ظاہر ہوا، اب موجودہ اونٹ جو پرانی نسل کے ہیں وہ خالص سرخ تھے، چت کبرے نہ تھے، پس اسی طرح ہوسکتا ہے کہ انسان کی اولاد میں بھی ماں باپ کے خلاف دوسرا رنگ ظاہر ہو، اور اس کی وجہ یہ ہو کہ ماں باپ کے دادا پردادا میں کوئی کالا بھی ہو اور وہ رنگ اب ظاہر ہوا ہو، حاصل یہ ہے کہ بچے کے گورے یا کالے رنگ یا نقشے کے اختلاف کی وجہ سے یہ شبہ نہ کرنا چاہیے۔
کسی شخص کا اپنا لڑکے (نسب) میں شک کرنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک بدوی (دیہاتی) نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا لڑکا جنا ہے، اور ہم ایک ایسے گھرانے کے ہیں جس میں کبھی کوئی کالا نہیں ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے پوچھا : ان کے رنگ کیا ہیں ؟ اس نے کہا : سرخ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں کوئی سیاہ بھی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا : ہوسکتا ہے کہ اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو آپ ﷺ نے فرمایا : پھر شاید تمہارے اس بچے کا بھی یہی حال ہو کہ اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٦٤٣، ومصباح الزجاجة : ١١٧) (حسن صحیح )
بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد (رض) دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ (رض) نے کہا : وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم ﷺ نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا : عبد بن زمعہ ! وہ بچہ تمہارا بھائی ہے (گرچہ مشابہت سے عتبہ کا معلوم ہوتا ہے) بچہ صاحب فراش (شوہر یا مالک) کا ہوتا ہے ١ ؎، سودہ تم اس سے پردہ کرو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣ (٢٠٥٣) ، ١٠٠ (٢٢١٨) ، الخصومات ٦ (٢٤٢١) ، العتق ٨ (٢٥٣٣) ، الوصایا ٤ (٢٧٤٥) ، المغازي ٥٣ (٤٣٠٣) ، الفرائض ١٨ (٦٧٤٩) ، ٢٨ (٦٧٦٥) ، الحدود ٢٣ (٦٨١٧) ، الأحکام ٢٩ (٧١٨٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣٤ (٢٢٧٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٩ (٣٥١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢١ (٢٠) مسند احمد (٦/١٢٩، ٢٠٠، ٢٧٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٤١ (٢٢٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زانی کا بچہ نہیں کہلائے گا، گو اس کے نطفہ سے پیدا ہو، بلکہ بچہ عورت کے شوہر یا مالک کا ہوگا اگر عورت لونڈی ہو۔ ٢ ؎: ام المؤمنین سودہ (رض) زمعہ کی بیٹی تھیں، تو یہ بچہ جب زمعہ کا ٹھہرا، تو سودہ کا بھائی ہوا، لیکن چونکہ اس کی مشابہت عتبہ سے پائی گئی، اس لیے احتیاطاً آپ ﷺ نے ام المؤمنین سودہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے۔
عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صاحب فراش کے لیے بچے کا فیصلہ کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فراش سے مراد صاحب فراش یعنی شوہر یا مولیٰ ہے کیونکہ یہ دونوں عورت کو بستر پر لٹاتے اور اس کے ساتھ سوتے ہیں وللعاهرالحجر یعنی زانی کے لیے ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حجر (پتھر) سے مراد یہ ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ سنگسار صرف شادی شدہ زانی کو کیا جائے گا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تو وہ جس کی بیوی یا لونڈی ہوگی اسی کی طرف بچے کے نسب کا الحاق ہوگا اور وہ اسی کا بچہ شمار کیا جائے گا، میراث اور ولادت کے دیگر احکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ ارتکاب زنا کا دعویٰ کرے، اور یہ بھی دعوی کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے، اس بچے کی مشابہت بھی اسی کے ساتھ ہو، اور صاحب فراش کے مشابہ نہ ہو، اس ساری صورتحال کے باوجود بچے کا الحاق صاحب فراش کے ساتھ کیا جائے گا، اس میں زانی کا کوئی حق نہیں ہوگا، اور یہ اس صورت میں ہے جب صاحب فراش اس کی نفی نہ کرے اور اگر اس نے اس کی نفی کردی تو پھر بچے کا الحاق ماں کے ساتھ ہوگا، اور وہ بچہ ماں کے ساتھ منسوب ہوگا، زانی سے منسوب نہیں ہوگا۔
بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٨) ، سنن الترمذی/الرضاع ٨ (١١٥٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٨ (٣٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الفرائض ١٨ (٦٧٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٨٠، ٣٨٦، ٤٠٩، ٤٦٦، ٤٧٥، ٤٩٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤١ (٢٢٨١) (صحیح )
بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے۔
ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : بچہ صاحب فراش کا ہے، اور زانی کے لیے پتھر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٥، ومصباح الزجاجة : ٧١٣) (صحیح) (سند میں سابقہ شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس میں اسماعیل بن عیاش اور شرجیل بن مسلم کی وجہ سے کچھ کلام ہے ) وضاحت : ١ ؎: وللعاهرالحجر یعنی زانی کے لیے ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حجر (پتھر) سے مراد یہ ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ سنگسار صرف شادی شدہ زانی کو کیا جائے گا۔
اگرزوجین میں سے کوئی پہلے اسلام قبول کرلے ؟
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر اسلام قبول کیا، اور اس سے ایک شخص نے نکاح کرلیا، پھر اس کا پہلا شوہر آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں اپنی عورت کے ساتھ ہی مسلمان ہوا تھا، اور اس کو میرا مسلمان ہونا معلوم تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو دوسرے شوہر سے چھین کر پہلے شوہر کے حوالے کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٣ (٢٢٣٨، ٢٢٣٩) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٢ (١١٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢، ٣٢٣) (ضعیف) (سند میں حفص بن جمیع ضعیف راوی ہیں، اور سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے )
اگرزوجین میں سے کوئی پہلے اسلام قبول کرلے ؟
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی زینب (رض) کو ابوالعاص بن ربیع (رض) کے پاس دو سال کے بعد اسی پہلے نکاح پر بھیج دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٤ (٢٢٤٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٢ (١١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٧، ٢٦١، ٣٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ ابوالعاص بن ربیع (رض) نے صلح حدیبیہ (سن ٦ ہجری) سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا اس لیے زینب (رض) کی واپسی کے لیے نئے نکاح کی ضرورت نہیں پڑی، مشرکین پر مسلمان عورتوں کو حرام قرار دینے کا ذکر صلح حدیبیہ کے مکمل ہونے کے بعد نازل ہونے والی آیت میں کیا گیا ہے، لہذا اس مدت کے دوران نکاح فسخ نہیں ہوا کیونکہ اس بارے میں کوئی شرعی حکم تھا ہی نہیں، اور جب نکاح فسخ نہیں ہوا تو نئے نکاح کی ضرورت پڑے گی ہی نہیں، رہی عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ والی روایت جو آگے آرہی ہے تو وہ ابن عباس (رض) کی اس حدیث کا معارضہ نہیں کرسکتی کیونکہ وہ حجاج بن أرطاۃ کی وجہ سے ضعیف ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ زینب (رض) نے ٢ ھ میں یا ٣ ھ کی ابتداء میں ہجرت کی، اور ان کی وفات ٨ ھ کے شروع میں ہوئی ہے، اس طرح ان کی ہجرت اور وفات کے درمیان کل پانچ برس چند ماہ کا وقفہ ہے، لہذا ابوالعاص بن ربیع (رض) کا قبول اسلام اور زینب (رض) کی ان کو واپسی اسی مدت کے دوران عمل میں آئی، اور صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قبول اسلام صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے، رہا یہ مسئلہ کہ زینب کی واپسی کتنے سال بعد ہوئی تو اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بعض میں دو سال، بعض میں تین سال اور بعض میں چھ سال کا ذکر ہے، لیکن صحیح ترین روایت یہ ہے کہ ان کی واپسی تین سال بعد ہوئی تھی، تین سال مکمل تھے اور کچھ مہینے مزید گزرے تھے۔
اگرزوجین میں سے کوئی پہلے اسلام قبول کرلے ؟
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی زینب (رض) کو ابوالعاص بن ربیع (رض) کے پاس نئے نکاح پر بھیج دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٤٢ (١١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠٧) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: صحیح یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو پہلے نکاح پر برقرار رکھا، اور دارقطنی نے کہا کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے، اور صواب ابن عباس (رض) کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے زینب (رض) کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح ہی سے لوٹا دیا۔ اور امام ترمذی کتاب العلم میں کہتے ہیں کہ میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا کہ اس باب میں ابن عباس کی حدیث عمرو بن شعیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں : تعجب ہے کہ اس ضعیف حدیث کو اصل بنادیں اور اس سے صحیح حدیث کو رد کردیں اور کہیں کہ وہ اصول کے خلاف ہے۔ ابن عباس (رض) کی حدیث کی طرف صحابہ کی ایک جماعت گئی ہے ومن بعدہم، ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اسلام قبول کرنے والے آدمی اور اس کے ساتھ اس کی اسلام نہ لانے والی بیوی کے درمیان جدائی نہ کراتے، بلکہ جب دوسرا اسلام لاتا تو نکاح اپنے حال پر رہتا، جب تک وہ عورت دوسرا نکاح نہ کرلے، اور یہ سنت معلومہ اور مشہورہ ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ابوسفیان نے مرالظہران میں جو خزاعہ کا علاقہ ہے، اسلام قبول کیا، اور وہاں فتح مکہ سے پہلے مسلمان تھے، تو وہ دارالاسلام ٹھہرا، اور ابوسفیان مکہ واپس چلے گئے، اور ان کی بیوی ہندہ جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، مکہ میں تھی، اس نے ابوسفیان کی داڑھی پکڑ کر کہا اس بوڑھے گمراہ کو قتل کر دو ، پھر اس کے کافی دنوں بعد ہندہ نے اسلام قبول کیا، وہ دارالحرب میں مقیم تھی، اور کافر تھی، جب کہ ابوسفیان مسلمان تھے، اور عدت گزر جانے کے بعد ہندہ مسلمان ہوئی، لیکن دونوں کا نکاح قائم رہا، کیونکہ درحقیقت اس کی عدت نہیں گزری، یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگئی، اور اسی طرح حکیم بن حزام کا حال گزرا، صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابوجہل دونوں کی بیویاں مکہ میں مسلمان ہوئیں اور مکہ دارالاسلام ہوگیا، اور نبی کریم ﷺ کی حکومت وہاں قائم ہوگئی، اور عکرمہ یمن کی طرف بھاگے وہ دارالحرب تھا، اور صفوان بھی دارالحرب چل دیئے، پھر صفوان مکہ میں لوٹے تو وہ دارالاسلام تھا، اور جنگ حنین میں حاضر ہوئے، لیکن اس وقت تک کافر تھے، اس کے بعد مسلمان ہوئے اور ان کی بیوی پہلے ہی نکاح سے ان کے پاس رہیں، کیونکہ درحقیقت ان کی عدت نہیں گزری تھی، اور اہل مغازی نے لکھا ہے کہ ایک انصاری عورت مکہ میں ایک شخص کے پاس تھی، پھر وہ مسلمان ہوگئی اور اس نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، اس کے بعد اس کا شوہر آیا وہ عدت میں تھی، تو اپنے پرانے نکاح ہی پر شوہر سے جا ملی۔ (الروضہ الندیہ) ۔
دودھ پلانے کی حالت میں جماع کرنا؟
جدامہ بنت وہب اسدیہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میں نے ارادہ کیا کہ بچہ کو دودھ پلانے والی بیوی سے جماع کرنے کو منع کر دوں، پھر میں نے دیکھا کہ فارس اور روم کے لوگ ایسا کر رہے ہیں، اور ان کی اولاد نہیں مرتی اور جس وقت آپ ﷺ سے عزل کے متعلق پوچھا گیا تھا، تو میں نے آپ کو فرماتے سنا : وہ تو وأدخفی (خفیہ طور زندہ گاڑ دینا) ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢٤ (١٤٤٢) ، سنن ابی داود/الطب ١٦ (٣٨٨٢) ، سنن الترمذی/الطب ٢٧ (٢٠٧٦، ٢٠٧٧) ، سنن النسائی/النکاح ٥٤ (٣٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الرضاع ٣ (١٦) ، مسند احمد (/٣٦١، ٤٣٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٣ (٢٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زمانہ رضاعت میں بیوی سے جماع کرنے کا نام غیل ہے، عربوں کا عقیدہ تھا کہ یہ بچے کے لیے نقصان دہ ہے، اس سے اس کے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے، اور یہ نقص اس میں پوری زندگی رہتا ہے، جس کے نتیجہ میں بسا اوقات انسان گھوڑے سے نیچے گرپڑتا ہے، اور گھوڑے کی پیٹھ پر ثابت نہیں رہ پاتا، اس حدیث میں عربوں کے اسی عقیدے کا ابطال ہے۔ عزل یہ ہے مرد عورت سے جماع کرے اور جب انزال کے قریب پہنچے تو عضو تناسل کو عورت کی شرمگاہ سے باہر نکال کر انزال کرے۔ وأدخفی کا مطلب یہ ہے کہ یہ حقیقۃً تو قبر میں نہیں دفناتا لیکن اس کے مشابہ ہے کیونکہ اس میں بھی حمل کو روکنے اور ضائع کرنے کی کوشش ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ حقیقی زندہ بچے کو نہیں مارتا اس لیے یہ حقیقی طور پر زندہ گاڑنا نہیں ہے۔
دودھ پلانے کی حالت میں جماع کرنا؟
اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اپنی اولاد کو خفیہ طور پر قتل نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے غیل سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر سے گرا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ١٦ (٣٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥٣، ٤٥، ٤٥٨) (حسن) (المشکاة و تراجع الألبانی : رقم : ٣٩٧ و صحیح ابن ماجہ : ١٦٤٨ )
جوخاتون اپنے شوہر کو تکلیف پہنچائے۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ دو بچے تھے، ایک کو وہ گود میں اٹھائے ہوئی تھی اور دوسرے کو کھینچ رہی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بچوں کو اٹھانے والی، انہیں جننے والی، اور ان پر شفقت کرنے والی عورتیں اگر اپنے شوہروں کو تکلیف نہ دیتیں تو جو ان میں سے نماز کی پابند ہیں جنت میں جاتیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٦٥، ومصباح الزجاجة : ٧١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٢، ٢٥٧، ٢٦٨) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے کیونکہ سالم بن ابی جعد کا سماع أبی امامہ سے ثابت نہیں ہے )
جوخاتون اپنے شوہر کو تکلیف پہنچائے۔
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی عورت اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو حورعین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے : اللہ تجھے ہلاک کرے، اسے تکلیف نہ دے، وہ تیرے پاس چند روز کا مہمان ہے، عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ١٩ (١١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سچ ہے دنیا کی قرابت اور رشتہ داری سب چند روزہ ہے، حقیقت میں ہماری بیوی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے جنت میں ہمارے لئے رکھی ہے۔
حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حرام کام حلال کو حرام نہیں کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٣٦، ومصباح الزجاجة : ٧١٥) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ا لضعیفہ : ٣٨٥ - ٣٨٨ )