12. طلاق کا بیان

【1】

طلاق کا بیان۔

عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین حفصہ (رض) کو طلاق دے دی پھر رجوع کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٨ (٢٢٨٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٧٦ (٣٥٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطلاق ٢ (٢٣١٠) (صحیح )

【2】

طلاق کا بیان۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اللہ کے حدود سے کھیل کرتے ہیں، ان میں سے ایک اپنی بیوی سے کہتا ہے : میں نے تجھے طلاق دے دی پھر تجھ سے رجعت کرلی، پھر تجھے طلاق دے دی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٠، ومصباح الزجاجة : ٧١٦) (ضعیف) (سند میں مؤمل بن اسماعیل مختلف فیہ راوی ہیں )

【3】

طلاق کا بیان۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مبغوض چیز طلاق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣ (١٢٧٧، ١٢٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١١) (ضعیف) (سند میں عبید اللہ بن الولید ضعیف راوی ہیں، صواب اس حدیث کا مرسل ہونا ہے اور ثقات نے اسے مرسلاً ہی روایت کیا ہے )

【4】

سنت طلاق کا بیان۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں حکم دو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلیں یہاں تک کہ وہ عورت حیض سے پاک ہوجائے پھر اسے حیض آئے، اور اس سے بھی پاک ہوجائے، پھر ابن عمر اگر چاہیں تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیں، اور اگر چاہیں تو روکے رکھیں یہی عورتوں کی عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن النسائی/الطلاق ١ (٣٤١٩) ، ٥ (٣٤٢٩) ، ٧٦ (٣٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ تفسیر الطلاق ١٣ (٤٩٠٨) ، الطلاق ٢ (٥٢٥٢) ، ٣ (٥٢٥٨) ، ٤٥ (٥٣٣٣) ، الأحکام ١٣ (٧١٦٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٧٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٥) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢٠ (٥٢) ، مسند احمد (٢/٤٣، ٥١، ٧٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ١ (٢٣٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد یہ آیت کریمہ ہے : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ (سورة الطلاق : 1) یعنی طلاق دو عورتوں کو ان کی عدت کے یعنی طہر کی حالت میں۔

【5】

سنت طلاق کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ طلاق سنی یہ ہے کہ عورت کو اس طہر میں ایک طلاق دے جس میں اس سے جماع نہ کیا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٢ (٣٤٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٥١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ عورت کو عدت کے حساب میں آسانی ہو، اور اسی طہر سے عدت شروع ہوجائے، تین طہر کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہوجائے گی، عدت ختم ہونے کے بعد وہ دوسرے سے شادی کرسکتی ہے، طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، اور شرط یہ ہے کہ اس طہر سے پہلے جو حیض تھا اس میں طلاق نہ دی ہو، یا حمل کی حالت میں جب حمل ظاہر ہوگیا ہو اور اس کے سوا دوسری طرح طلاق دینا (مثلاً حیض کی حالت میں یا طہر کی حالت میں جب جماع کرچکا ہو یا حمل کی حالت میں جب وہ ظاہر نہ ہوا ہو، لیکن شبہ ہو، اسی طرح تین طلاق ایک بار دینا حرام ہے اور اس کا ذکر آگے آئے گا) اور حدیث میں جو ابن عمر (رض) کو حکم ہوا کہ اس طہر کے بعد دوسرے طہر میں طلاق دیں، تو اس میں یہ حکمت تھی کہ طلاق سے رجعت کا علم نہ ہو تو ایک طہر تک عورت کو رہنے دے، اور بعضوں نے کہا کہ یہ سزا ان کے ناجائز فعل کی دی، اور بعضوں نے کہا یہ طہر اسی حیض سے متعلق تھا جس میں طلاق دی گئی تھی اس لئے دوسرے طہر کا انتظار کرے۔

【6】

سنت طلاق کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں طلاق سنی یہ ہے کہ عورت کو ہر طہر میں ایک طلاق دے، جب تیسری بار پاک ہو تو آخری طلاق دیدے، اور اس کے بعد عدت ایک حیض ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد دو حیض پہلے گزر چکے ہیں، یہ صورت اس وقت ہے، جب کہ عورت کو تین طلاق دینی ہو، اور بہتر یہ ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہو تو ایک ہی طلاق پر قناعت کرے، تین حیض یا تین طہر گزر جانے کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہوجائے گی۔ اس میں یہ فائدہ ہے کہ اگر مرد عدت گزر جانے کے بعد بھی چاہے تو اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے، لیکن تین طلاق دینے کے بعد وہ اس سے اس وقت تک شادی نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے سے شادی نہ کرلے، پھر وہ اسے طلاق دے دے۔

【7】

سنت طلاق کا بیان۔

ابو غلاب یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو انہوں نے کہا : کیا تم عبداللہ بن عمر (رض) کو پہچانتے ہو ؟ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی تو عمر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ ابن عمر رجوع کرلیں، میں نے پوچھا : کیا اس طلاق کا شمار ہوگا ؟ انہوں نے کہا : تم کیا سمجھتے ہو، اگر وہ عاجز ہوجائے یا دیوانہ ہوجائے (تو کیا وہ شمار نہ ہوگی یعنی ضرور ہوگی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الطلاق ٢ (٥٢٥٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٨٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٥ (٣٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣، ٥١، ٧٤، ٧٩) (صحیح )

【8】

حاملہ عورت کا طلاق دینے کا طریقہ۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، تو عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں حکم دو کہ رجوع کرلیں، پھر طہر کی یا حمل کی حالت میں طلاق دیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٨١) ، سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٦) ، سنن النسائی/الطلاق ٣ (٣٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦، ٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اس میں عدت کی آسانی ہے اگر طہر میں طلاق دے اور حاملہ نہ ہو تو تین طہر یا حیض کے بعد مدت گزر جائے گی، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی عدت ختم جائے گی، عدت کا مقصد یہ ہے کہ حمل کی حالت میں عورت دوسرے شوہر سے جماع نہ کرائے ورنہ بچہ میں دوسرے مرد کا پانی بھی شریک ہوگا، اور یہ معیوب ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لئے یہ طریقہ ٹھہرا کہ جس طہر میں جماع نہ کیا جائے اس میں طلاق دے، اور تین حیض تک انتظار اس لئے ہوا کہ کبھی حمل کی حالت میں بھی ایک آدھ بار تھوڑا سا حیض آجاتا ہے، لیکن جب تک تین حیض برابر آئے تو یقین ہوا کہ وہ حاملہ نہیں ہے، اب دوسرے مرد سے نکاح کرے، یا اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی نکاح کرسکتی ہے اگرچہ طلاق یا شوہر کی موت سے متصل ہی وضع حمل ہو۔

【9】

ایسا شخص جو اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدے۔

عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے کہا : آپ مجھ سے اپنی طلاق کے بارے میں بیان کریں، تو انہوں نے کہا : میرے شوہر نے یمن کے سفر پر نکلتے وقت مجھے تین طلاق دی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز رکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن ابی داود/الطلاق) ٣٩ (٢٢٩١) ، سنن الترمذی/الطلاق ٥ (١١٨٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٧ (٣٤٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے جمہور علماء و فقہاء نے دلیل لی ہے کہ اگر کوئی ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو تینوں پڑجائیں گی، اس مسئلہ میں تین مذہب اور ہیں، ایک یہ کہ کچھ نہیں پڑے گا، نہ ایک نہ تین، کیونکہ اس طرح طلاق دینا بدعت اور حرام ہے، اس مذہب کو ابن حزم نے امام احمد سے بھی نقل کیا ہے، اور کہا کہ روافض کا بھی یہی مذہب ہے، واضح رہے کہ تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ اور اہل بیت سے امام باقر، امام صادق اور ناصر کا بھی یہی مذہب ہے، اور ابوعبید اور بعض ظاہریہ بھی اسی کے قائل ہیں، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ طلاق بدعی نہیں پڑتی اور یہ بھی بدعی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر عورت مدخولہ ہے تو تینوں پڑجائیں گی اور مدخولہ نہیں ہے تو ایک پڑے گی، ایک جماعت کا یہ قول ہے جیسے ابن عباس اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ۔ تیسرے یہ کہ ایک طلاق رجعی پڑے گی خواہ عورت مدخولہ ہو یا نہ ہو، اور ابن عباس (رض) کا صحیح ترین مذہب یہی ہے، اور ابن اسحاق، عطاء، عکرمہ اور اکثر اہل بیت اسی کے قائل ہیں، سارے مذاہب میں یہ صحیح ہے، امام شوکانی نے اس مسئلے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اور چاروں مذاہب کے دلائل بیان کر کے اخیر قول کو ترجیح دی ہے، اور اس دور میں اس مسئلہ کو اختلافی قرار دیا ہے۔ علامہ ابن القیم (رح) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے یہ صحیح اور ثابت ہے کہ تین طلاق ایک ہی بار دینے سے ایک ہی طلاق پڑتی تھی عہد نبوت میں، اور ابوبکر (رض) کے عہد میں، اور شروع خلافت عمر (رض) میں، اور عمر (رض) نے لوگوں کو سزا دینے کے لئے یہ فتوی دیا کہ تینوں طلاقیں پڑجائیں گی، اور یہ ان کا اجتہاد ہے، جو اوروں پر حجت نہیں ہوسکتا، خصوصاً نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق (رض) کا فتوی ان کے اجتہاد سے رد نہیں ہوسکتا، اور ابن القیم نے اغاثۃ اللہ فان میں اس مسئلہ میں طویل کلام کیا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ اس صورت میں ایک ہی طلاق پڑے گی، امام شوکانی کہتے ہیں : ابوموسی اشعری، ابن عباس، طاؤس، عطاء، جابر بن زید، احمد بن عیسی، عبد اللہ بن موسی، علی اور زید بن علی سے ایسا ہی منقول ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم دونوں اسی طرف گئے ہیں، اور ابن مغیث نے کتاب الوثائق میں علی، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم اور مشائخ قرطبہ کی جماعت سے ایسا ہی نقل کیا ہے، اور ابن منذر نے اصحاب ابن عباس (رض) سے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ اس باب میں جو حدیثیں آئی ہیں ان سب میں ابن عباس (رض) کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، جو صحیح مسلم میں ہے کہ تین طلاقیں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر (رض) کی خلافت اور شروع عمر (رض) کی خلافت میں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں، جب عمر (رض) کا زمانہ آیا اور لوگوں نے پے در پے طلاق دینا شروع کی تو عمر (رض) نے تینوں طلاق کو ان پر نافذ کردیا۔ علامہ ابن القیم نے اس مسئلہ کی تحقیق میں کتاب و سنت اور لغت اور صحابہ کے عمل سے دلیل لی، پھر کہا کہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ اور لغت اور عرف اسی پر دلالت کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ کے خلیفہ اور صحابہ اور عمر (رض) کی خلافت میں بھی تین برس تک لوگ اسی پر چلتے رہے، اگر کوئی ان کا شمار کرے تو ہزار سے زیادہ ان کی تعداد ہوگی، کسی نے اقرار کیا، کسی نے سکوت اختیار کیا، اور بعضوں نے جو کہا کہ عمر (رض) کے زمانہ سے پھر لوگوں نے انہی کے فتوی پر اجماع کرلیا، تو یہ ثابت نہیں، ہر زمانہ میں علماء اسی عہد اول کے فتوی پر فتوی دیتے رہے، امت کے عالم عبداللہ بن عباس (رض) نے مروی حدیث کے مطابق فتوی دیا، اس کو حماد بن زید نے ایوب سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جب کسی نے ایک ہی دفعہ میں کہا : تجھ کو تین طلاق ہیں، تو ایک ہی طلاق پڑے گی، اور زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف (رض) نے بھی ایسا ہی فتوی دیا، یہ ابن وضاح نے نقل کیا ہے، اور تابعین میں سے عکرمہ، طاؤس نے ایسا ہی فتوی دیا اور تبع تابعین میں سے محمد بن اسحاق اور خلاس بن عمرو الہجری نے ایسا ہی فتوی دیا اور اتباع تبع تابعین میں داود بن علی اور ان کے اکثر اصحاب نے ایسا ہی فتوی دیا ہے، غرض یہ کہ ہر زمانہ میں علماء اور ائمہ اس قول کے موافق فتویٰ دیتے رہے، اور یہ قول بالاجماع متروک نہیں ہوا، اور کیونکر ہوسکتا ہے جب کتاب و سنت اور قیاس اور اجماع قدیم سے یہی ثابت ہے، اور اس کے بعد کسی اجماع نے اس کو باطل نہیں کیا، لیکن عمر (رض) نے ایک مصلحت سے اس کے خلاف رائے تجویز کی اور ان کا یہ فیصلہ کسی دوسرے پر حجت نہیں ہوسکتا، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اس پر عمل کرے اور اس کے خلاف کسی کے فتوی اور کسی کا قیاس قبول نہ کرے، خواہ وہ کوئی ہو، اور اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے إعلام الموقعين، إغاثة اللهفان، رسالہ شوکانی، نیل الاوطار، مسک الختام، سنن ابن ماجہ مع حاشیہ مولانا وحیدالزمان حیدرآبادی کی طرف رجوع کیجئے، نیز تسمية المفتين کے نام سے ایک رسالہ اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا ہے جس میں قدیم و جدید علماء کی ایک بڑی تعداد کا ذکر ہے جو تین طلاقوں کو ایک قرار دیتی ہے۔ (فریوائی )

【10】

رجوع (بعداز طلاق) کا بیان۔

مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ عمران بن حصین (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس سے جماع کرے، اور اپنی طلاق اور رجعت پہ کسی کو گواہ نہ بنائے ؟ تو عمران (رض) نے کہا : تم نے سنت کے خلاف طلاق دی، اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت پہ گواہ بناؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٥ (٢١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گواہی ان دونوں کے لئے شرط نہیں، ہاں مسنون ہے۔

【11】

بچہ کی پیدائش کیساتھ ہی حاملہ خاتون بائنہ ہوجائے گی۔

زبیر بن عوام (رض) سے روایت ہے کہ ان کی زوجیت میں ام کلثوم بنت عقبہ تھیں، انہوں نے حمل کی حالت میں زبیر (رض) سے کہا : مجھے ایک طلاق دے کر میرا دل خوش کر دو ، لہٰذا انہوں نے ایک طلاق دے دی، پھر وہ نماز کے لیے نکلے جب واپس آئے تو وہ بچہ جن چکی تھیں تو زبیر (رض) نے کہا : اسے کیا ہوگیا ؟ اس نے مجھ سے مکر کیا ہے، اللہ اس سے مکر کرے، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : کتاب کی میعاد گزر گئی (اب رجوع کا اختیار نہیں رہا) لیکن اسے نکاح کا پیغام دے دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٤٥، ومصباح الزجاجة : ٧١٧) (صحیح) (حدیث کے شواہد ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢١١٧ ) وضاحت : ١ ؎: اگر وہ منظور کرے تو نیا نکاح ہوسکتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ کی عدت طلاق میں بھی وضع حمل ہے، جیسے شوہر کے انتقال کے بعد بھی حاملہ کی عدت وضع حمل ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ (الطلاق : 4 )

【12】

وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہوجائیگی۔

ابوسنابل کہتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ بنت حارث (رض) نے اپنے شوہر کی وفات کے بیس سے کچھ زائد دنوں بعد بچہ جنا، جب وہ نفاس سے پاک ہوگئیں تو شادی کی خواہشمند ہوئیں، تو یہ معیوب سمجھا گیا، اور اس کی خبر نبی اکرم ﷺ کو دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہے تو وہ ایسا کرسکتی ہے کیونکہ اس کی عدت گزر گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ١٧ (١١٩٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٥) ، سنن الدارمی/الطلاق ١١ (٢٣٢٧) (صحیح )

【13】

وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہوجائیگی۔

مسروق اور عمرو بن عتبہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے سبیعہ بنت حارث (رض) کو خط لکھا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ ان کا کیا معاملہ تھا ؟ سبیعہ (رض) نے ان کو جواب لکھا کہ ان کے شوہر کی وفات کے پچیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر وہ خیر یعنی شوہر کی تلاش میں متحرک ہوئیں، تو ان کے پاس ابوسنابل بن بعکک گزرے تو انہوں نے کہا کہ تم نے جلدی کردی، دونوں میعادوں میں سے آخری میعاد چار ماہ دس دن عدت گزارو، یہ سن کر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کس لیے ؟ میں نے صورت حال بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی نیک اور دیندار شوہر ملے تو شادی کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٠ تعلیقاً (٣٩٩١) ، الطلاق ٣٩ (٥٣١٩) ، صحیح مسلم/الطلاق ٨ (١٤٨٤) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٧ (٢٣٠٦) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٢) (صحیح )

【14】

وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہوجائیگی۔

مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سبیعہ (رض) کو حکم دیا کہ نفاس سے پاک ہونے کے بعد شادی کرلیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٩ (٥٣٢٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٧٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣٠ (٨٥) ، مسند احمد (٤/٣٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہی حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ام سلمہ (رض) سے مروی ہے، جس میں شوہر کے موت کے دس دن بعد بچہ جننے کا ذکر ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ نکاح کرے اور احمد اور دارقطنی نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! آیت کریمہ : وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق : 4) کا حکم مطلقہ اور جس کا شوہر مرجائے دونوں کے لیے ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : دونوں کے لیے ہے ، اس کو ابویعلی نے مسند میں، ضیاء مقدسی نے مختارہ میں اور ابن مردویہ نے تفسیر میں روایت کیا ہے، اس کی سند میں مثنی بن صباح کو ابن مردویہ نے ثقہ کہا ہے، اور ابن معین نے بھی ثقہ کہا جب کہ اکثر نے ان کو ضعیف کہا ہے۔

【15】

وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہوجائیگی۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! جو کوئی چاہے ہم اس سے لعان کرلیں کہ چھوٹی سورة نساء (سورۃ الطلاق) اس آیت کے بعد اتری ہے جس میں چار ماہ دس دن کی عدت کا حکم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٧ (٢٣٠٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٦ (٣٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ٢ (٤٩٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور سورة طلاق میں یہ آیت وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق : 4) حاملہ عورتوں کے باب میں ناسخ ہوگی پہلی آیت کی البتہ غیر حاملہ وفات کی عدت چار مہنیے دس دن گزارے۔

【16】

بیوہ عدت کہاں پوری کرے؟

زینب بنت کعب بن عجرہ (رض) جو ابو سعید خدری (رض) کے نکاح میں تھیں سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری (رض) کی بہن فریعہ بنت مالک (رض) نے کہا : میرے شوہر اپنے کچھ غلاموں کی تلاش میں نکلے اور ان کو قدوم کے کنارے پا لیا، ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا، میرے شوہر کے انتقال کی خبر آئی تو اس وقت میں انصار کے ایک گھر میں تھی، جو میرے کنبہ والوں کے گھر سے دور تھا، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے شوہر کی موت کی خبر آئی ہے اور میں اپنے کنبہ والوں اور بھائیوں کے گھروں سے دور ایک گھر میں ہوں، اور میرے شوہر نے کوئی مال نہیں چھوڑا جسے میں خرچ کروں یا میں اس کی وارث ہوں، اور نہ اپنا ذاتی کوئی گھر چھوڑا جس کے وہ مالک ہوتے، اب اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے خاندان کے گھر اور بھائیوں کے گھر میں آ جاؤں ؟ یہ مجھے زیادہ پسند ہے، اس میں میرے بعض کام زیادہ چل جائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہتی ہو تو ایسا کرلو ۔ فریعہ (رض) نے کہا کہ میں یہ سن کر ٹھنڈی آنکھوں کے ساتھ خوش خوش نکلی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی زبان پہ مجھے حکم دیا تھا، یہاں تک کہ میں ابھی مسجد میں یا حجرہ ہی میں تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا : کیا کہتی ہو ؟ میں نے سارا قصہ پھر بیان کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسی گھر میں جہاں تمہارے شوہر کے انتقال کی خبر آئی ہے ٹھہری رہو یہاں تک کہ کتاب (قرآن) میں لکھی ہوئی عدت (چار ماہ دس دن) پوری ہوجائے، فریعہ (رض) کہتی ہیں : پھر میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت کے گزارے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٤ (٢٣٠٠) ، سنن الترمذی/الطلاق ٢٣ (١٢٠٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٦٠ (٣٥٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣١ (٨٧) ، مسند احمد (٦/٣٧٠، ٤٢١) (صحیح )

【17】

دوران عدت خاتون گھر سے باہر جاسکتی ہے یا نہیں ؟

عروہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے خاندان کی ایک عورت کو طلاق دے دی گئی، میرا اس کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہ گھر سے منتقل ہو رہی ہے، اور کہتی ہے : فاطمہ بنت قیس (رض) نے ہمیں حکم دیا ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں گھر بدلنے کا حکم دیا تھا، مروان نے کہا : اسی نے اسے حکم دیا ہے۔ عروہ کہتے ہیں کہ تو میں نے کہا : اللہ کی قسم، عائشہ (رض) نے اس چیز کو ناپسند کیا ہے، اور کہا ہے کہ فاطمہ (رض) ایک خالی ویران مکان میں تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں ڈر پیدا ہوا، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو مکان بدلنے کی اجازت دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١٤ (٥٣٢١، ٥٣٢٦، تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٠ (٢٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠١٨) (حسن) (سند میں عبد العزیز بن عبد اللہ اور عبد الرحمن بن ابی الزناد ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٩٨٤ و فتح الباری : ٩ /٤٢٩- ٤٨٠ ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ زبان درازی کی وجہ سے آپ ﷺ نے ان کو اجازت دی تاکہ لڑائی نہ ہو، مروان نے کہا : اس بیوی اور شوہر میں بھی ایسی لڑائی ہے، لہٰذا اس کا ہٹا دینا بجا ہے، غرض مروان نے یہ قیاس کیا۔

【18】

دوران عدت خاتون گھر سے باہر جاسکتی ہے یا نہیں ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت قیس (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میں ڈرتی ہوں کہ کوئی میرے پاس گھس آئے، تو آپ نے انہیں وہاں سے منتقل ہوجانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٢) ، سنن النسائی/الطلاق ٧٠ (٣٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٢) (صحیح )

【19】

دوران عدت خاتون گھر سے باہر جاسکتی ہے یا نہیں ؟

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق دے دی گئی، پھر انہوں نے اپنی کھجوریں توڑنے کا ارادہ کیا، تو ایک شخص نے انہیں گھر سے نکل کر باغ جانے پر ڈانٹا تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے، تم اپنی کھجوریں توڑو، ممکن ہے تم صدقہ کرو یا کوئی کار خیر انجام دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٧ (١٤٨١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤١ (٢٢٩٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٧١ (٣٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢١) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٤ (٢٣٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو عورت طلاق کی عدت میں ہو اس کا گھر سے نکلنا جائز ہے۔

【20】

جس عورت کو طلاق دی جائے تو عدت تک شوہر پر رہائش ونفقہ دینا واجب ہے یا نہیں ؟

ابوبکر بن ابی جہم بن صخیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس (رض) کو کہتے سنا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں سکنیٰ (جائے رہائش) اور نفقہ کا حقدار نہیں قرار دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٨ (١١٣٥) ، سنن النسائی/الطلاق ١٥ (٣٤٤٧) ، ٧٢ (٣٥٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اہلحدیث کے نزدیک طلاق رجعی والی عورت کا نفقہ (خرچ) اور سکنی (رہائش) شوہر پر واجب ہے، اور جس کو طلاق بائنہ یعنی تین طلاق دی جائیں اس کے لئے نہ نفقہ ہے نہ سکنی، امام احمد، اسحاق، ابو ثور، ابو داود اور ان کے اتباع کا یہی مذہب ہے، اور بحر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما، حسن بصری، عطاء، شعبی، ابن ابی لیلیٰ ، اوزاعی اور امامیہ کا قول بھی یہی نقل کیا گیا ہے، اسی طرح جس عورت کا شوہر وفات پا گیا ہو اس کے لئے بھی عدت میں نفقہ اور سکنی نہیں ہے، اہلحدیث کے نزدیک البتہ حاملہ ہو تو وضع حمل تک نفقہ اور سکنی واجب ہے خواہ وفات پائے ہوئے شوہر والی ہو یا طلاق بائن والی کیونکہ قرآن میں ہے : وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق : 6) ۔

【21】

جس عورت کو طلاق دی جائے تو عدت تک شوہر پر رہائش ونفقہ دینا واجب ہے یا نہیں ؟

شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس (رض) کا بیان ہے کہ میرے شوہر نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تین طلاقیں دے دیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے نہ سکنی (رہائش) ہے، نہ نفقہ (اخراجات) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن الترمذی/الطلاق ٥ (١١٨٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٧ (٣٤٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اہلحدیث نے اس متفق علیہ حدیث سے دلیل لی ہے، صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ تیرے لئے نفقہ نہیں ہے مگر جب تو حاملہ ہو، جمہور کہتے ہیں کہ عمر اور عائشہ (رض) نے اس حدیث کا انکار کیا، اور عمر (رض) نے کہا : ہم اپنے رب کی کتاب اور نبی کی سنت ایک عورت کے قول سے نہیں چھوڑ سکتے، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا، یا بھول گئی، اور فاطمہ (رض) کو جب یہ بات پہنچی، تو انہوں نے کہا : تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ (سورة الطلاق : 1) یہاں تک فرمایا : لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا (سورة الطلاق : 1) تین طلاق کے بعد کون سا امر پیدا ہوگا (یعنی رجوع کی امید نہیں تو نفقہ اور سکنی بھی واجب نہ ہوگا) اہل حدیث یہ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد اور نسائی نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا : نفقہ اور سکنی اس عورت کے لئے ہے جس سے اس کا شوہر رجوع کرسکتا ہو اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب رجوع نہ کرسکتا ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکنی، اس کی سند میں مجالد بن سعید ہیں ان کی متابعت بھی ہوئی ہے اور وہ ثقہ ہیں تو اس کا حدیث کو مرفوع روایت کرنا مقبول ہوگا، اور قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں جو نفقہ اور سکنی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں لیکن وہ سب مطلقہ رجعی سے متعلق ہیں جیسے : لا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ (سورة الطلاق : 1) اور أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ (سورة الطلاق : 6) اور وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ (سورة البقرة : 241) اور دلیل اس تخصیص کی فاطمہ بنت قیس کی حدیث ہے، اور یہ آیت : لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا (سورة الطلاق : 1) اور یہ آیت : وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق : 6) کیونکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر حاملہ نہ ہوں تو ان کو خرچ دینا واجب نہیں، اور بیہقی میں جابر (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ جس حاملہ عورت کا شوہر مرجائے اس کو نفقہ نہیں ہے، اس کے بارے میں ابن حجر نے کہا کہ محفوظ یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، اور ابوحنیفہ نے کہا کہ وفات والی کے لئے سکنی نہیں ہے وہ جہاں چاہے عدت گزارے، اور مالک (رح) نے کہا : اس کے لئے سکنی ہے، اور شافعی کے اس باب میں دو قول ہیں۔

【22】

بوقت طلاق بیوی کو کپڑے دینا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب عمرہ بنت جون رسول اللہ ﷺ کے پاس لائی گئی تو اس نے آپ ﷺ سے (اللہ کی) پناہ مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو نے ایسی ہستی کی پناہ مانگی جس کی پناہ مانگی جاتی ہے ، پھر آپ ﷺ نے اسے طلاق دے دی، اور اسامہ (رض) یا انس (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے اسے سفید کتان کے تین کپڑے دیئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٩٧، ومصباح الزجاجة : ٧١٨) (منکر) (اسا مہ اور انس رضی+اللہ+عنہما کا ذکر اس حدیث میں منکر ہے، لیکن صحیح بخاری میں اس لفظ سے ثابت ہے، فأمر أبا أ سید أن یجہزہا ویکسوہا ثوبین رازقیتین (آپ صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے ابواسید کو حکم دیا کہ اس کو تیار کریں، اور دو سفید کتان کے کپڑے پہنائیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧ / ١٤٦ )

【23】

اگر مرد طلاق سے انکاری ہو؟

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب عورت دعویٰ کرے کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے، اور طلاق پہ ایک معتبر شخص کو گواہ لائے (اور اس کا مرد انکار کرے) تو اس کے شوہر سے قسم لی جائے گی، اگر وہ قسم کھالے تو گواہ کی گواہی باطل ہوجائے گی، اور اگر قسم کھانے سے انکار کرے تو اس کا انکار دوسرے گواہ کے درجہ میں ہوگا، اور طلاق جائز ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٥٢، ومصباح الزجاجة : ٧١٩) (ضعیف) (سند میں زہیر بن محمد ضعیف حافظہ والے راوی ہیں، اور ابن جریج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )

【24】

ہنسی (مذاق) میں طلاق دینا نکاح کرنا یا رجوع کرنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین کام ہیں جو سنجیدگی سے کرنا بھی حقیقت ہے، اور مذاق کے طور پر کرنا بھی حقیقت ہے، ایک نکاح، دوسرے طلاق، تیسرے (طلاق سے) رجعت ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٩ (٢١٩٤) ، سنن الترمذی/الطلاق ٩ (١١٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٥٤) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حسن کے درجہ کو ہے، عبد الرحمن بن حبیب میں ضعف ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کے طور پر اور اس کے مقابل جِد ہے یعنی درحقیقت ایک کام کا کرنا۔

【25】

زیر لب طلاق دینا اور زبان سے کچھ ادا نہ کرنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کردیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا اسے زبان سے نہ کہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٦ (٢٥٢٨) ، الطلاق ١١ (٥٢٦٩) ، الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥٨ (١٢٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٥ (٢٢٠٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ٨ (١١٨٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٢ (٣٤٦٤، ٣٤٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٨، ٤٢٥، ٤٧٤، ٤٨١، ٤٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دل میں اگر طلاق کا خیال گزرے لیکن زبان سے کچھ نہ کہے تو طلاق واقع نہ ہوگی، سب امور میں یہی حکم ہے جیسے عتاق، رجوع، بیع وشراء وغیرہ میں، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ کا اگر کوئی ارادہ کرے لیکن ہاتھ پاؤں یا زبان سے اس کو نہ کرے تو لکھا نہ جائے گا، یعنی اس پر اس کی پکڑ نہ ہوگی، یہ اللہ تعالیٰ کی اس امت پر عنایت ہے۔

【26】

دیوانے نابالغ اور سونے والے کی طلاق کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے : ایک تو سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگے، دوسرے نابالغ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے، تیسرے پاگل اور دیوانے سے یہاں تک کہ وہ عقل و ہوش میں آجائے ۔ ابوبکر کی روایت میں وعن المجنون حتى يعقل کے بجائے وعن المبتلى حتى يبرأ دیوانگی میں مبتلا شخص سے یہاں تک کہ وہ اچھا ہوجائے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ١٦ (٤٣٩٨) ، سنن النسائی/الطلاق ٢١ (٣٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠٠، ١٠١، ١٤٤) ، سنن الدارمی/الحدود ١ (٢٣٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان میں سے کسی کی طلاق نہ پڑے گی، لیکن پاگل اور دیوانے میں اختلاف ہے اور اکثر کے نزدیک اس کی طلاق پڑجائے گی۔

【27】

دیوانے نابالغ اور سونے والے کی طلاق کا بیان۔

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بچے، دیوانے اور سوئے ہوئے شخص سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحدود ١ (١٤٢٣) (صحیح) (دوسرے شواہد کے بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں القاسم بن یزید مجہول ہیں، اور ان کی ملاقات علی (رض) سے نہیں ہے )

【28】

جبر سے یا بھول کر طلاق دینے کا بیان۔

ابوذرغفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک، اور جس کام پہ تم مجبور کردیئے جاؤ معاف کردیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٢) (صحیح) (سند میں ابو بکرالہذلی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: جب اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کیا، اور دنیا کے احکام میں معافی ہوگئی، تو جب اس نے بھولے سے طلاق دی یا مجبوری کی حالت میں تو طلاق نہ پڑے گی۔

【29】

جبر سے یا بھول کر طلاق دینے کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جو ان کے دلوں میں وسوسے آتے ہیں معاف کردیا ہے جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا نہ بولیں، اور اسی طرح ان کاموں سے بھی انہیں معاف کردیا ہے جس پر وہ مجبور کردیئے جائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : ٢٠٤٠ (صحیح) (حدیث میں وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ کا لفظ شاذ ہے، لیکن اگلی حدیث ابن عباس (رض) میں یہ لفظ ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎: شیخ عبدالحق محدث (رح) لمعات التنقیح میں فرماتے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ نے اسی حدیث کی رو سے یہ حکم دیا ہے کہ جس پر زبردستی کی جائے اس کی طلاق اور عتاق (آزادی) نہ پڑے گی اور ہمارے مذہب (حنفی) میں قیاس کی رو سے ہزل پر طلاق اور عتاق دونوں پڑجائے گی تو جو عقد ہزل میں نافذ ہوجاتا ہے۔ وہ اکراہ (زبردستی) میں بھی نافذ ہوجائے گا، مولانا وحید الزمان صاحب اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ حنفیہ نے قیاس کو حدیث پر مقدم رکھا، اور نہ صرف اس حدیث پر بلکہ ابوذر، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث پر بھی جو اوپر گزریں، اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حنفیہ نے جو اصول بنائے ہیں کہ خبر واحد، مرسل حدیث اور ضعیف حدیث بلکہ صحابی کا قول بھی قیاس پر مقدم ہے، یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں، سیکڑوں مسائل میں انہوں نے قیاس کو احادیث صحیحہ پر مقدم رکھا ہے، اور یقیناً یہ متاخرین حنفیہ کا فعل ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اس سے بالکل بری تھے، جیسے انہوں نے نبیذ سے وضو اور نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جانے میں ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس جلی کو ترک کردیا ہے، تو بھلا صحیح حدیث کے خلاف وہ کیونکر اپنا قیاس قائم رکھتے، اور محدثین نے باسناد مسلسل امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے حدیث پر عمل لازم ہے، اور میرا قول حدیث کی وجہ سے چھوڑ دینا، امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ جب تک لوگ علم حدیث حاصل کرتے رہیں گے اچھے رہیں گے، اور جب حدیث چھوڑ دیں گے تو بگڑ جائیں گے، لیکن افسوس ہے کہ حنفیہ نے اس باب میں اپنے امام کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔

【30】

جبر سے یا بھول کر طلاق دینے کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی کرائے گئے کام معاف کردیئے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٠٥، ومصباح الزجاجة : ٧٢٢) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨٢ )

【31】

جبر سے یا بھول کر طلاق دینے کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زبردستی کی صورت میں نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ عتاق (غلامی سے آزادی) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٨ (٢١٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٧٦) (حسن) (سند میں عبید بن صالح ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١ /٢٠٤٧ و صحیح أبی داود : ١٩٠٣ )

【32】

نکاح سے پہلے طلاق لغو (بات) ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی جس عورت کا بطور نکاح مالک نہیں اس کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ھشیم أخرجہ : سنن الترمذی/الطلاق ٦ (١١٨١) ، تحفة الأشراف : ٨٧٢١) ، وحدیث حاتم بن اسماعیل أخرجہ : سنن ابی داود/لطلاق ٧ (٢١٩١، ٢١٩٢) ، تحفة الأشراف : ٨٧٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ١٨٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اب اگر کوئی طلاق دے تو اس کا فعل لغو ہے، مثلاً یوں کہے : جس عورت سے میں نکاح کروں اس کو طلاق ہے، اور اس کے بعد نکاح کرے تو اس کہنے سے طلاق نہ پڑے گی۔

【33】

نکاح سے پہلے طلاق لغو (بات) ہے۔

مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نکاح سے پہلے طلاق نہیں، اور ملکیت سے پہلے آزادی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٧٧، ومصباح الزجاجة : ٧٢٣) (حسن صحیح) (سند میں ہشام بن سعد ضعیف راوی ہیں، اور علی بن الحسین مختلف فیہ، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧ / ١٥٢ )

【34】

نکاح سے پہلے طلاق لغو (بات) ہے۔

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نکاح سے پہلے طلاق نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٩٤، ومصباح الزجاجة : ٧٢٤) (صحیح) (سند میں جویبر ضعیف راوی ہے، لیکن سابقہ شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے )

【35】

کن کلمات سے طلاق ہوجاتی ہے ؟

اوزاعی کہتے ہیں میں نے زہری سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ کی کون سی بیوی نے آپ سے اللہ کی پناہ مانگی تو انہوں نے کہا : مجھے عروہ نے خبر دی کی عائشہ (رض) نے فرمایا : جَون کی بیٹی جب نبی اکرم ﷺ کی خلوت میں آئی اور آپ ﷺ اس کے قریب گئے تو بولی : میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے ایک بڑی ہستی کی پناہ مانگی ہے تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣ (٥٢٥٤) ، سنن النسائی/الطلاق ١٤ (٣٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥١٢) (صحیح) (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : حدیث : ٢٠٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: اس لفظ الحقي بأهلك یعنی اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ میں طلاق سے کنایہ ہے، ایک تو صاف طلاق کا لفظ ہے، دوسرے وہ الفاظ ہیں جن کو کنایات کہتے ہیں، ان میں بعض الفاظ سے طلاق پڑتی ہے، بعض سے نہیں پڑتی، اور جن سے پڑتی ہے ان میں یہ شرط ہے کہ طلاق کی نیت سے کہے، اہل حدیث کے نزدیک یوں کہنے سے کہ تو مجھ پر حرام ہے، طلاق نہیں پڑتی، بخاری ومسلم نے ابن عباس (رض) سے ایسا ہی روایت کیا ہے اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، اور کہنے لگا : میں نے اپنی عورت کو حرام کرلیا، انہوں نے کہا : تم نے جھوٹ اور غلط کہا، وہ تم پر حرام نہیں ہے، پھر یہ آیت پڑھی : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ (سورة التحريم : 1) اور سب سے سخت کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے۔

【36】

طلاق بتہ (بائن) کا بیان۔

رکانہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ (قطعی طلاق) دے دی، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا : تم نے اس سے کیا مراد لی ہے ؟ انہوں نے کہا : ایک ہی مراد لی ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : قسم اللہ کی کیا تم نے اس سے ایک ہی مراد لی ہے ؟ ، انہوں نے کہا : قسم اللہ کی میں نے اس سے صرف ایک ہی مراد لی ہے، تب نبی اکرم ﷺ نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی ١ ؎۔ محمد بن ماجہ کہتے ہیں : میں نے محمد بن حسن بن علی طنافسی کو کہتے سنا : یہ حدیث کتنی عمدہ ہے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : ابوعبیدہ نے یہ حدیث ایک گوشے میں ڈال دی ہے، اور احمد اسے روایت کرنے کی ہمت نہیں کرسکے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٤ (٢٢٠٦، ٢٢٠٧، ٢٢٠٨) ، سنن الترمذی/الطلاق ٢ (١١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطلاق ٨ (٢٣١٨) (ضعیف) (اس کے تین رواة زبیری سعید، عبداللہ بن علی، اور علی بن یزید ضعیف ہیں، دیکھئے : إرواء الغلیل : ٢٠٦٣ ) وضاحت : ١ ؎: بتہ: تین طلاق کو بتہ کہتے ہیں، کیونکہ بت کے معنی ہیں قطع کرنا، اور تین طلاقوں سے عورت شوہر سے بالکل الگ ہوجاتی ہے، پھر اس سے رجعت نہیں ہوسکتی، اور عدت گزر جانے کے بعد ایک طلاق بھی بتہ یعنی بائن ہوجاتی ہے۔

【37】

آدمی اپنی عورت کو اختیار دے دے تو؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو اختیار دیا تو ہم نے آپ ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو کچھ نہیں سمجھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٥ (٥٢٦٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٢ (٢٢٠٣) ، سنن الترمذی/الطلاق ٤ (١١٧٩) ، سنن النسائی/النکاح ٢ (٣٢٠٤) ، الطلاق ٢٧ (٣٤٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥، ١٧١، ١٧٣، ١٨٥، ٢٠٢، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/الطلاق ٥ (٢٣١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چاہے طلاق دے لے اور چاہے شوہر کو پسند کرے، پس اگر عورت نے شوہر کو اختیار کیا تو طلاق نہ پڑے گی، یہی قول اہل حدیث کا ہے۔

【38】

آدمی اپنی عورت کو اختیار دے دے تو؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب آیت : وإن کنتن تردن الله ورسوله اتری تو رسول اللہ ﷺ نے میرے پاس آ کر فرمایا : عائشہ ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کرلینا جلد بازی نہ کرنا ، عائشہ (رض) کہتی ہیں : اللہ کی قسم ! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ ﷺ نے مجھ پر یہ آیت پڑھی : يا أيها النبي قل لأزواجک إن کنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها (سورة الأحزاب : 28) اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش و زیبائش پسند کرتی ہو تو آؤ میں تم کو کچھ دے کر اچھی طرح رخصت کر دوں، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور یوم آخرت کو چاہتی ہو تو تم میں سے جو نیک ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ... (یہ سن کر) میں بولی : کیا میں اس میں اپنے ماں باپ سے مشورہ لینے جاؤں گی ! میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرچکی ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب ٤ (٤٧٨٥) ، ٥ (٤٧٨٦ تعلیقاً ) ، سنن النسائی/النکاح ٢ (٣٢٠٣) ، الطلاق ٢٦ (٣٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٥) ، سنن الترمذی/تفسیر الأحزاب (٣٢٠٤) ، مسند احمد (٦/٧٨، ١٠٣، ١٥٣، ١٦٣، ١٨٥، ٢٤٨، ٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پھر آپ ﷺ نے سب بیویوں سے اسی طرح کہا، لیکن سب نے اللہ و رسول کو اختیار کیا، اور دنیا پر خاک ڈالی، اللہ تعالیٰ کی لعنت دنیا کی چار دن کی بہار پر ہے، پھر آخر اللہ کے پاس جانا ہے، پس آخرت کی بھلائی سب پر مقدم ہے، دنیا تو بری یا بھلی کسی بھی طرح گزر جاتی ہے، لیکن آخرت ہمیشہ رہنا ہے، اللہ آخرت سنوارے۔ آمین۔

【39】

عورت کیلئے خلع لینے کی کراہت۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت بغیر کسی حقیقی وجہ اور واقعی سبب کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ جنت کی خوشبو پا سکے، جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے پائی جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٣٨، ومصباح الزجاجة : ٧٢٥) (ضعیف) (سند میں ثوبان مجہول الحال راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: خلع : عورت کچھ مال شوہر کو دے کر اس سے الگ ہوجائے اس کو خلع کہتے ہیں، خلع کا بدل کم ہو یا زیادہ جس پر اتفاق ہوجائے سب صحیح ہے۔

【40】

عورت کیلئے خلع لینے کی کراہت۔

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کسی عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا، تو اس پہ جنت کی خوشبو حرام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٨ (٢٢٢٦) ، سنن الترمذی/الطلاق ١١ (١١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨٣) ، سنن الدارمی/الطلاق ٦ (٢٣١٦) (صحیح )

【41】

خلع کے بدلے خاوند دیا گیا مال واپس لے سکتا ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جمیلہ بنت سلول (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کی قسم میں (اپنے شوہر) ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ نہیں کر رہی ہوں، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر (شوہر کی ناشکری) کو ناپسند کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے ناپسند ہیں، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا ان کا دیا ہوا باغ واپس لوٹا دو گی ؟ انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا باغ لے لیں، اور زیادہ نہ لیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٠٥، ومصباح الزجاجة : ٦٢٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطلاق ١٢ (٥٢٧٣، ٥٢٧٤) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٨ (٢٢٢٨٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٠ (١١٨٥) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٤ (٣٤٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح سند سے دارقطنی کی روایت میں ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ ثابت نے مہر میں اس کو ایک باغ دیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اس کا باغ واپس کردیتی ہو جو اس نے تم کو دیا ہے ؟ تو انہوں کہا : ہاں، باغ بھی دیتی ہوں اور کچھ زیادہ بھی دیتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : زیادہ نہیں، صرف باغ لوٹا دو ، اس نے کہا : بہت اچھا۔ معلوم ہوا کہ شوہر نے جو بیوی کو دیا خلع کے بدلے اس سے زیادہ لینا جائز نہیں، علی، طاؤس، عطاء، زہری، ابوحنیفہ، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ اور جمہور کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ بھی لینا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فلا جناح عليهما فيما افتدت به، اور یہ عام ہے، قلیل اور کثیر دونوں کو شامل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں سے اس کی تخصیص ہوجاتی ہے۔

【42】

خلع کے بدلے خاوند دیا گیا مال واپس لے سکتا ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ حبیبہ بنت سہل (رض) ثابت بن قیس بن شماس (رض) کے نکاح میں تھیں، وہ ناٹے اور بدصورت آدمی تھے، حبیبہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! اگر اللہ کا ڈر نہ ہوتا تو ثابت جب میرے پاس آئے تو میں ان کے منہ پر تھوک دیتی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم ان کا باغ واپس لوٹا دو گی ؟ کہا : ہاں، اور ان کا باغ انہیں واپس دے دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٧، ومصباح الزجاجة : ٧٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣) (ضعیف) (سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن صحیح احادیث اس سے مستغنی کردیتی ہے )

【43】

خلع والی عورت عدت کیسے گزارے؟

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) سے کہا : تم مجھ سے اپنا واقعہ بیان کرو، انہوں نے کہا : میں نے اپنے شوہر سے خلع کرا لیا، پھر میں نے عثمان (رض) کے پاس آ کر پوچھا : مجھ پر کتنی عدت ہے ؟ انہوں نے کہا : تم پر کوئی عدت نہیں مگر یہ کہ تمہارے شوہر نے حال ہی میں تم سے صحبت کی ہو، تو تم اس کے پاس رکی رہو یہاں تک کہ تمہیں ایک حیض آجائے، ربیع (رض) نے کہا : عثمان (رض) نے اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کی پیروی کی، جو آپ نے بنی مغالہ کی خاتون مریم (رض) کے سلسلے میں کیا تھا، جو ثابت بن قیس (رض) کی زوجیت میں تھیں اور ان سے خلع کرلیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ٥٣ (٣٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نسائی میں ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ ثابت کی عورت کے قصے میں نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا : جو تمہارا اس کے پاس ہے وہ لے لو اور اس کو چھوڑ دو ثابت نے کہا : اچھا، پھر نبی کریم ﷺ نے اس کو ایک حیض کی عدت گزارنے کا حکم دیا۔ اور یہ کئی طریق سے مروی ہے، ان حدیثوں سے یہ نکلتا ہے کہ خلع کرانے والی کی عدت ایک حیض ہے اور خلع نکاح کا فسخ ہے، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اگر خلع طلاق ہوتا تو اس کی عدت تین حیض ہوتی، ابوجعفر النحاس نے الناسخ والمنسوخ میں اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور یہی دلائل کی روشنی میں زیادہ صحیح ہے۔

【44】

ایلاء کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قسم کھائی کہ ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے، آپ ٢٩ دن تک رکے رہے، جب تیسویں دن کی شام ہوئی تو آپ ﷺ میرے پاس آئے، میں نے کہا : آپ نے تو ایک ماہ تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی ؟ ! آپ ﷺ نے فرمایا : مہینہ اس طرح ہوتا ہے آپ نے دونوں ہاتھوں کی ساری انگلیوں کو کھلا رکھ کر تین بار فرمایا، اس طرح کل تیس دن ہوئے، پھر فرمایا : اور مہینہ اس طرح بھی ہوتا ہے اس بار دو دفعہ ساری انگلیوں کو کھلا رکھا، تیسری بار میں ایک انگلی بند کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١٩، ومصباح الزجاجة : ٧٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣، ١٠٥) (حسن صحیح )

【45】

ایلاء کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایلاء کیا، اس لیے کہ ام المؤمنین زینب (رض) نے آپ کا بھیجا ہوا ہدیہ واپس کردیا تھا، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : زینب نے آپ کی بےقدری کی ہے، یہ سن کر آپ غصہ ہوئے اور ان سب سے ایلاء کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٠، ومصباح الزجاجة : ٧٢٨) (ضعیف) (سند میں حارثہ بن محمد بن ابی الرجال ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کو رنج و ملال ہوا، ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے پاس کہیں سے ہدیہ آیا، آپ نے سب بیویوں کو اس میں سے حصے بھیجے، زینب (رض) نے وہ حصہ واپس کردیا، آپ نے اور زیادہ کر کے بھیجا جب بھی پھیر دیا، تب آپ غصہ ہوئے، اور قسم کھائی کہ میں تم سب کے پاس ایک مہینہ تک نہ آؤں گا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جانور ذبح کیا تھا، اس کا گوشت سب بیویوں کو بھیجا جب انہوں نے نہ لیا تو اس وقت آپ کو غصہ آیا۔ اور بعضوں نے کہا : ایلاء کا سبب یہ نہ تھا بلکہ آپ ﷺ کی بیویاں آپ سے خرچ مانگتی تھیں، اور تقاضا کرتی تھیں، چناچہ ابوبکر و عمر (رض) آئے، انہوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا، اس وقت آپ ﷺ نے ایلاء کیا، پھر یہ آیت تخییر اتری۔ واللہ اعلم

【46】

ایلاء کا بیان۔

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعض بیویوں سے ایک ماہ کا ایلاء کیا، جب ٢٩ دن ہوگئے تو آپ صبح کو یا شام کو بیویوں کے پاس تشریف لے گئے، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ابھی تو ٢٩ ہی دن ہوئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مہینہ ٢٩ کا بھی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١١ (١٩١٠) ، صحیح مسلم/الصیام ٤ (١٠٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١٥) (صحیح )

【47】

ظہار کا بیان۔

سلمہ بن صخر بیاضی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے عورتوں کی بڑی چاہت رہتی تھی، میں کسی مرد کو نہیں جانتا جو عورت سے اتنی صحبت کرتا ہو جتنی میں کرتا تھا، جب رمضان آیا تو میں نے اپنی بیوی سے رمضان گزرنے تک ظہار کرلیا، ایک رات وہ مجھ سے باتیں کر رہی تھی کہ اس کا کچھ بدن کھل گیا، میں اس پہ چڑھ بیٹھا، اور اس سے مباشرت کرلی، جب صبح ہوئی تو میں اپنے لوگوں کے پاس گیا، اور ان سے اپنا قصہ بیان کیا، میں نے ان سے کہا : تم لوگ میرے لیے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھو، تو انہوں نے کہا : ہم نہیں پوچھیں گے، ایسا نہ ہو کہ ہماری شان میں وحی اترے، یا رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے سلسلے میں کچھ فرما دیں، اور اس کا عار ہمیشہ کے لیے باقی رہے لیکن اب یہ کام ہم تمہارے ہی سپرد کرتے ہیں، اب تم خود ہی جاؤ اور رسول اللہ ﷺ سے اپنا حال بیان کرو۔ سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں خود ہی چلا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا : تم نے یہ کام کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : ہاں، اے اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں اور اپنے بارے میں اللہ کے حکم پر صابر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم ایک غلام آزاد کرو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں تو صرف اپنی جان کا مالک ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم لگاتار دو ماہ کے روزے رکھو، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول یہ بلا جو میرے اوپر آئی ہے روزے ہی کہ وجہ سے تو آئی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو صدقہ دو ، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ، میں نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم نے یہ رات اس حالت میں گزاری ہے کہ ہمارے پاس رات کا کھانا نہ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : بنی زریق کا صدقہ وصول کرنے والے کے پاس جاؤ، اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں کچھ مال دیدے، اور اس میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ اور جو بچے اپنے کام میں لے لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٧ (٢٢١٣) ، سنن الترمذی/الطلاق ٢٠ (١١٩٨، ١٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧، ٥/٤٣٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ٩ (٢٣١٩) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٠٩١، و صحیح ابی داود : ١٩٤٢ - ١٩٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، کفارہ ادا ہوگیا، اور مال بھی ہاتھ آگیا، یہی حال ہوتا ہے اس کا جو سچائی اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں حاضر ہو، اور اس پر اجماع ہے کہ ظہار کا کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب مرد اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ کرے، اور اگر کفارے سے پہلے جماع کرلیا تو گنہگار ہوگا، لیکن ایک ہی کفارہ واجب ہوگا اور یہی حق ہے۔

【48】

ظہار کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا بابرکت ہے وہ ذات جو ہر چیز کو سنتی ہے، میں خولہ بنت ثعلبہ (رض) کی بات سن رہی تھی، کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھیں، وہ رسول اللہ ﷺ سے اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھیں کہ میرا شوہر میری جوانی کھا گیا، میں اس کی اولاد جنتی رہی، جب میں بوڑھی ہوگئی اور ولادت کا سلسلہ منقطع ہوگیا، تو اس نے مجھ سے ظہار کرلیا، اے اللہ ! میں تجھ ہی سے شکوہ کرتی ہوں، وہ ابھی وہاں سے ہٹی بھی نہیں تھیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) یہ آیتیں لے کر اترے : قد سمع الله قول التي تجادلک في زوجها وتشتکي إلى الله (سورة المجادلة : 1) اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کر رہی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٩ (٧٣٨٥ تعلیقاً ) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٣ (٣٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦) (دیکھئے : حدیث نمبر : ١٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اپنی مصیبت اور دکھ کا شکوہ کر رہی تھی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اتارا، اور ظہار کا کفارہ بیان فرمایا، اور عورت کی داد رسی کی شوہر نے کفارہ دے کر پھر اس کو بیوی کی طرح سمجھا، اور اس سے صحبت کی۔

【49】

کفارہ سے قبل ہی اگر ظہار کرنے والا جماع کر بیٹھے۔

سلمہ بن صخر بیاضی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہار کرنے والے شخص کے متعلق جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جماع کرلے فرمایا : اس پر ایک ہی کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث (رقم : ٢٠٦٢) (صحیح )

【50】

کفارہ سے قبل ہی اگر ظہار کرنے والا جماع کر بیٹھے۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا، اور کفارہ کی ادائیگی سے قبل ہی جماع کرلیا، چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے پوچھا : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ وہ بولا : اللہ کے رسول ! میں نے اس کے پازیب کی سفیدی چاندنی رات میں دیکھی، میں بےاختیار ہوگیا، اور اس سے جماع کر بیٹھا، رسول اللہ ﷺ مسکرائے، اور اسے حکم دیا کہ کفارہ کی ادائیگی سے پہلے اس کے قریب نہ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٧ (٢٢٢٣) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٩ (١١٩٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٣ (٣٤٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٦) (حسن) (سند میں حکم بن ابان ضعیف الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے )

【51】

لعان کا بیان۔

سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ عویمر عجلانی (رضی اللہ عنہ) عاصم بن عدی (رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے، اور کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسئلہ پوچھو کہ اگر کوئی مرد اپنی عورت کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو (زنا) کرتے ہوئے پائے پھر اس کو قتل کر دے تو کیا اس کے بدلے اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا وہ کیا کرے ؟ عاصم (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا، آپ ﷺ کو ایسے سوالات برے لگے ١ ؎، پھر عویمر (رضی اللہ عنہ) عاصم (رضی اللہ عنہ) سے ملے اور پوچھا : تم نے کیا کیا ؟ عاصم (رض) نے کہا : میں نے کیا جو کیا یعنی پوچھا لیکن تم سے مجھے کوئی بھلائی نہیں پہنچی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے اس طرح کے سوالوں کو برا جانا، عویمر (رض) کہنے لگے : اللہ کی قسم میں رسول اللہ ﷺ کے پاس خود جاؤں گا اور آپ سے پوچھوں گا، چناچہ وہ خود آپ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان دونوں کے بارے میں وحی اتر چکی ہے، آپ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کرا دیا، عویمر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! اب اگر اس عورت کو میں ساتھ لے جاؤں تو گویا میں نے اس پر تہمت لگائی چناچہ انہوں نے اس کو نبی اکرم ﷺ کے حکم سے پہلے ہی چھوڑ دیا، پھر لعان کرنے والوں کے بارے میں یہ دستور ہوگیا۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دیکھو اگر عویمر کی عورت کالے رنگ کا، کالی آنکھوں والا، بڑی سرین والا بچہ جنے تو میں سمجھتا ہوں کہ عویمر سچے ہیں، اور اگر سرخ رنگ کا بچہ جنے جیسے وحرہ (سرخ کیڑا ہوتا ہے) تو میں سمجھتا ہوں وہ جھوٹے ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اس عورت کا بچہ بری شکل پہ پیدا ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٤ (٤٢٣) ، تفسیر سورة النور ١ (٤٧٤٥) ، ٢ (٤٧٤٦) ، الطلاق ٤ (٥٣٥٩) ، ٢٩ (٥٣٠٨) ، ٣٠ (٥٣٠٩) ، الحدود ٤٣ (٦٨٥٤) ، الأحکام ١٨ (٧١٦٥) ، الاعتصام ٥ (٧٣٠٤) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٢) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٤٥) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٥ (٣٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ١٣ (٣٤) ، مسند احمد (٥/٣٣٠، ٣٣٤، ٣٣٦، ٣٣٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٩ (٢٢٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ بلا ضرورت سوال کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، اور شاید اس وقت تک آپ کو یہ معلوم نہ ہوا ہو کہ ایسا واقعہ کہیں پیش آیا ہے۔

【52】

لعان کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ (رض) نے اپنی بیوی پر نبی اکرم ﷺ کے سامنے شریک بن سحماء کے ساتھ (بدکاری کا) الزام لگایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگیں گے، ہلال بن امیہ (رض) نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں، اور اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کوئی ایسا حکم اتارے گا جس سے میری پیٹھ حد لگنے سے بچ جائے گی، راوی نے کہا : پھر یہ آیت اتری : والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے سوا کوئی گواہ نہیں ہوتے ... یہاں تک کہ اخیر آیت : والخامسة أن غضب الله عليها إن کان من الصادقين (سورة النور : ٦ -٩) تک پہنچے تو نبی اکرم ﷺ لوٹے اور ہلال اور ان کی بیوی دونوں کو بلوایا، وہ دونوں آئے، ہلال بن امیہ (رض) کھڑے ہوئے اور گواہیاں دیں، نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے : اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کوئی ہے توبہ کرنے والا ، اس کے بعد ان کی بیوی کھڑی ہوئی اور اس نے گواہی دی، جب پانچویں گواہی کا وقت آیا یعنی یہ کہنے کا کہ عورت پہ اللہ کا غضب نازل ہو اگر مرد سچا ہو تو لوگوں نے عورت سے کہا : یہ گواہی ضرور واجب کر دے گی۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہ سن کر وہ عورت جھجکی اور واپس مڑی یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ اب وہ اپنی گواہی سے پھر جائے گی، لیکن اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں تو اپنے گھر والوں کو زندگی بھر کے لیے رسوا اور ذلیل نہیں کروں گی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دیکھو اگر اس عورت کو کالی آنکھوں والا، بھری سرین والا، موٹی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو، تو وہ شریک بن سحماء کا ہے ، بالآخر اسی شکل کا لڑکا پیدا ہوا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ جو ہوچکا نہ ہوا ہوتا تو میں اس عورت کے ساتھ ضرور کچھ سزا کا معاملہ کرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ تفسیر سورة النور ٢ (٤٧٤٦) ، الطلاق ٢٩ (٥٣٠٨) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٥٤) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة النور ٢٥ (٣١٧٩) (تحفة الأشراف : ٦٢٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٢٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم یہ اترا کہ لعان کرنے والوں پر حد قذف قائم نہ کی جائے، لہذا میں اس عورت پر حد نہیں جاری کرتا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حاکم کو رائے اور قیاس اور گمان پر عمل نہیں کرنا چاہیے، بلکہ جو فیصلہ گواہی اور دلیل سے ثابت ہو وہی دینا چاہیے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قیافہ شرعی حجت نہیں ہے، اور قیافہ کے سبب سے کسی کو حد نہیں پڑ سکتی۔

【53】

لعان کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی رات کو مسجد میں تھے کہ ایک شخص آ کر کہنے لگا اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے، پھر اس کو مار ڈالے، تو تم لوگ اس کو مار ڈالو گے، اور اگر زبان سے کچھ کہے تو تم اسے کوڑے لگاؤ گے، اللہ کی قسم میں تو نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر ضرور کروں گا، آخر اس نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے لعان کی آیتیں نازل فرمائیں، پھر وہ آیا اور اس نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی، نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کرایا اور فرمایا : میرا گمان ہے کہ شاید اس عورت کا بچہ کالا ہی پیدا ہو چناچہ ایسا ہی ہوا، اس کے یہاں کالا گھونگھریالے بال والا بچہ پیدا ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١٠ (١٤٩٥) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٢١، ٤٤٨) (صحیح )

【54】

لعان کا بیان۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا، اور اس کے بچے کا انکار کردیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٢ (٥٣١١) ، ٣٥ (٥٣١٥) ، ٥٢ (٥٣٥٠) ، الفرائض ١٧ (٦٧٤٨) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٤) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٥٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ٢٢ (١٢٠٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٥ (٣٥٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ١٣ (٣٥) ، مسند احمد (٢/ ١٢، ٣٨، ٦٤، ٧١) ، سنن الدارمی/االنکاح ٣٩ (٢٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بچہ ماں کے حوالے کردیا، اور اس کا نسب بھی ماں سے متعلق کردیا، اب وہ اپنی ماں کا وارث ہوگا لیکن اس کے مرد کا وارث نہ ہوگا جس نے یہ کہہ دیا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے۔

【55】

لعان کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ انصار کے ایک شخص نے قبیلہ بنی عجلان کی ایک عورت سے شادی کی، اور اس کے پاس رات گزاری، جب صبح ہوئی تو کہنے لگا : میں نے اسے کنواری نہیں پایا، آخر دونوں کا مقدمہ نبی اکرم ﷺ تک لے جایا گیا، آپ ﷺ نے لڑکی کو بلایا، اور اس سے پوچھا تو اس نے کہا : میں تو کنواری تھی، پھر آپ نے حکم دیا تو دونوں نے لعان کیا، اور آپ ﷺ نے اس عورت کو مہر دلوا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٢٦، ومصباح الزجاجة : ٧٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦١) (ضعیف) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت قال کہہ کر کی ہے )

【56】

لعان کا بیان۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چار قسم کی عورتوں میں لعان نہیں ہے، ایک تو نصرانیہ جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو، دوسری یہودیہ جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو، تیسری آزاد عورت جو کسی غلام کے نکاح میں ہو، چوتھی لونڈی جو کسی آزاد مرد کے نکاح میں ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٦٣، ومصباح الزجاجة : ٧٣٠) (ضعیف) (سند میں عثمان بن عطاء ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: لیکن تیسری صورت میں غلام کو حد قذف پڑے گی اور باقی صورتوں میں نہ لعان ہے نہ شوہر کو حد پڑے گی، غرض یہ ہے کہ لعان مومنہ اور آزاد عورت کی تہمت سے لازم آتا ہے، اگر عورت کافرہ ہو، یا لونڈی ہو، یا اس کو حد پڑچکی ہو تو لعان نہ ہوگا۔ (شرح وقایہ) ۔

【57】

(عورت کو اپنے پر) حرام کرنے کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایلاء کیا، اور اپنے اوپر حلال کو حرام ٹھہرا لیا ١ ؎ اور قسم کا کفارہ ادا کیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ٢١ (١٢٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ماریہ قبطیہ کو یا شہد کو۔ ٢ ؎: مطلب یہ ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلے تو طلاق نہ پڑے گی، بلکہ قسم کا کفارہ دینا ہوگا، قسم کا کفارہ قرآن مجید میں مذکور ہے، دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک مومن غلام آزاد کرنا، اور اگر ان تینوں میں سے کوئی چیز بھی میسر نہ ہو تو تین دن کا روزہ رکھنا۔

【58】

(عورت کو اپنے پر) حرام کرنے کا بیان۔

سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : حلال کو حرام کرنے میں قسم کا کفارہ ہے، اور ابن عباس (رض) کہتے تھے :لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة (سورة الاحزاب : 21) تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق (٤٩١١) ، صحیح مسلم/الطلاق ٣ (١٤٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطلاق ١٦ (٣٤٤٩) ، مسند احمد (١/٢٢٥) (صحیح )

【59】

لونڈی جب آزاد ہوگئی تو اپنے نفس پہ مختار ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے بریرہ (رض) کو آزاد کردیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو اختیار دے دیا، (کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہیں یا اس سے جدا ہوجائیں) اور ان کے شوہر آزاد تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ٧ (١١٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العتق ١٠ (٢٥٣٦) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٠ (٢٢٣٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٩ (٢٦١٥) ، الطلاق ٣٠ (٣٤٨٠) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٠ (٢٥) ، مسند احمد (٦/٤٦، ١١٥، ١٢٣، ١٧٢، ١٧٥، ١٧٨، ١٩١، ٢٠٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آزادی کے بعد پہلا نکاح باقی رکھے یا نہ رکھے، لیکن یہ جب ہے کہ اس کا شوہر غلام ہو، اگر شوہر آزاد ہو تو اختیار نہ ہوگا، امام مالک، شافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ ہر حال میں اختیار ہوگا، اور اس باب میں مختلف احادیث وارد ہیں۔

【60】

لونڈی جب آزاد ہوگئی تو اپنے نفس پہ مختار ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بریرہ (رض) کا شوہر غلام تھا اس کو مغیث کہا جاتا تھا، گویا کہ میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے پھر رہا ہے، اور رو رہا ہے اور اس کے آنسو اس کے گالوں پہ بہہ رہے ہیں، اور نبی اکرم ﷺ عباس (رض) سے فرما رہے ہیں : عباس ! کیا تمہیں بریرہ سے مغیث کی محبت اور مغیث سے بریرہ کی نفرت پہ تعجب نہیں ہے ؟ چناچہ نبی اکرم ﷺ نے بریرہ (رض) سے کہا : کاش تو مغیث کے پاس لوٹ جاتی، وہ تیرے بچے کا باپ ہے ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے کہا : نہیں، میں صرف سفارش کر رہا ہوں ، تو وہ بولی : مجھے مغیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١٥ (٥٢٨٢) ، ١٦ (٥٢٨٣) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٩ (٢٢٣١) ، سنن الترمذی/الرضاع ٧ (١١٥٤) ، سنن النسائی/آداب القضاء ٢٧ (٥٤١٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٨) (صحیح )

【61】

لونڈی جب آزاد ہوگئی تو اپنے نفس پہ مختار ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بریرہ میں تین سنتیں سامنے آئیں ایک تو یہ کہ جب وہ آزاد ہوئیں تو انہیں اختیار دیا گیا، اور ان کے شوہر غلام تھے، دوسرے یہ کہ لوگ بریرہ (رض) کو صدقہ دیا کرتے اور وہ نبی اکرم ﷺ کو ہدیہ کر دیتیں، تو آپ ﷺ فرماتے : وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور ہمارے لیے ہدیہ ہے ، تیسرے یہ کہ آپ ﷺ نے انہیں کے سلسلہ میں فرمایا : حق ولاء (غلام یا لونڈی کی میراث) اس کا ہے جو آزاد کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العتق ١٠ (٢٥٣٦) ، الأطعمة ٣١ (٥٤٣٠) ، الفرائض ٢٠ (٦٧٦٠) ، ٢٢ (٦٧٥٤) ، ٢٣ (٦٧٥٩) ، سنن ابی داود/الفرائض ١٢ (٢٩١٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٣ (٢١٢٦) ، الولاء ١ (٢١٢٥) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٠ (٣٤٧٩) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٠ (٢٥) ، مسند احمد (٦/٤٢، ١٧٠، ١٨٠، ١٨٦، ٢٠٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب بریرہ (رض) کے مالکوں نے ولاء (حق وراثت) لینا چاہا تو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو خرید کر آزاد کر دو ، ولاء (حق وراثت) اسی کو ملے گا جو آزاد کرے ۔

【62】

لونڈی جب آزاد ہوگئی تو اپنے نفس پہ مختار ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بریرہ (رض) کو حکم دیا گیا کہ وہ تین حیض عدت گزاریں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٢، ومصباح الزجاجة : ٧٣١) (صحیح )

【63】

لونڈی جب آزاد ہوگئی تو اپنے نفس پہ مختار ہے۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ (رض) کو اختیار دیا (کہ وہ اپنے شوہر مغیث کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٩٠، ومصباح الزجاجة : ٧٣٢) (صحیح )

【64】

لونڈی کی طلاق اور عدت کا بیان۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لونڈی کے لیے دو طلاقیں ہیں، اور اس کی عدت دو حیض ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٣٨، ومصباح الزجاجة : ٧٣٣) (ضعیف) (سند میں ضعف کا سبب عطیہ العوفی ہیں، جو ضعیف ہیں )

【65】

لونڈی کی طلاق اور عدت کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لونڈی کی دو طلاقیں ہیں، اور اس کی عدت دو حیض ہے ۔ ابوعاصم کہتے ہیں کہ میں نے مظاہر بن اسلم سے اس حدیث کا ذکر کیا اور ان سے عرض کیا کہ یہ حدیث آپ مجھ سے ویسے ہی بیان کریں جیسے کہ آپ نے ابن جریج سے بیان کی ہے، تو انہوں نے مجھے قاسم عن عائشہ کے طریق سے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لونڈی کے لیے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٦ (٢١٨٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ٧ (١١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطلاق ١٧ (٢٣٤٠) (ضعیف) (سند میں مظاہر بن أسلم ضعیف راوی ہیں )

【66】

غلام کے بارے میں طلاق کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے مالک نے اپنی لونڈی سے میرا نکاح کردیا تھا، اب وہ چاہتا ہے کہ مجھ میں اور میری بیوی میں جدائی کرا دے، یہ سن کر آپ ﷺ منبر پر چڑھے اور فرمایا : لوگو ! تمہارا کیا حال ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے غلام کا نکاح اپنی لونڈی سے کردیتا ہے، پھر وہ چاہتا ہے کہ ان دونوں میں جدائی کرا دے، طلاق تو اسی کا حق ہے جو عورت کی پنڈلی پکڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢١٩، ومصباح الزجاجة : ٧٣٤) (حسن) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو اس سے صحبت کرتا ہو یعنی شوہر کے اختیار میں ہے۔

【67】

اس شخص کا بیان جو لونڈی کو دو طلاقیں دے کر پھر خرید لے۔

ابوالحسن مولی بنی نوفل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) سے اس غلام کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو دو طلاق دے دی ہو پھر دونوں آزاد ہوجائیں، کیا وہ اس سے نکاح کرسکتا ہے ؟ ابن عباس (رض) نے جواب دیا : ہاں، کرسکتا ہے، ان سے پوچھا گیا : یہ فیصلہ کس کا ہے ؟ تو وہ بولے : رسول اللہ ﷺ نے اس کا فیصلہ کیا۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا : ابوالحسن نے یہ حدیث روایت کر کے گویا ایک بڑا پتھر اپنی گردن پہ اٹھا لیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٦ (٢١٨٧، ٢١٨٨) ، سنن النسائی/الطلاق ١٩ (٣٤٥٧، ٣٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٩، ٣٣٤) (ضعیف) (عمر بن معتب ضعیف راوی ہیں )

【68】

ام ولد کی عدت کا بیان

عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ہم پر ہمارے نبی محمد ﷺ کی سنت کو نہ بگاڑو، ام ولد کی عدت چار ماہ دس دن ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٨ (٢٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٢٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ام ولد وہ لونڈی جو اپنے مالک کا بچہ جنے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب ام ولد کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے، گویا یہ عدت میں مثل آزاد کے ہے، اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

【69】

بیوہ عورت (دوران عدت) زیب وزینت نہ کرے۔

ام المؤمنین ام سلمہ اور ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) ذکر کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ اس کی بیٹی کا شوہر مرگیا ہے، اور اس کی بیٹی کی آنکھ دکھ رہی ہے وہ سرمہ لگانا چاہتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پہلے (زمانہ جاہلیت میں) تم سال پورا ہونے پر اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی اور اب تو عدت صرف چار ماہ دس دن ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٤٦ (٥٣٣٦) ، ٤٧ (٥٣٣٨) ، الطب ١٨ (٥٧٠٦) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٨٨) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٣ (٢٢٩٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٨ (١١٩٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٥ (٣٥٣٠) ، ٦٧ (٣٥٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٦ و ١٨٢٥٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠١) ، مسند احمد (٦/٣٢٥، ٣٢٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٢ (٢٣٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب عورت کا شوہر مرجاتا تو وہ ایک خراب اور تنگ کوٹھری میں چلی جاتی، اور برے سے برے کپڑے پہنتی، نہ خوشبو لگاتی نہ زینت کرتی، کامل ایک سال تک ایسا کرتی، جب سال پورا ہوجاتا تو ایک اونٹنی کی مینگنی لاتی، عورت اس کو پھینک کر عدت سے باہر آتی، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جاہلیت کے زمانہ میں تو ایسی سخت تکلیف ایک سال تک سہتی تھیں، اب صرف چار مہینے دس دن تک عدت رہ گئی ہے، اس میں بھی زیب و زینت سے رکنا مشکل ہے، امام احمد اور اہلحدیث کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ سوگ والی عورت کو سرمہ لگانا کسی طرح جائز نہیں اگرچہ عذر بھی ہو، اور حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک عذر کی وجہ سے جائز ہے، بلاعذر جائز نہیں، اور شافعی نے کہا رات کو لگالے اور دن کے وقت اس کو صاف کر ڈالے، تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس عورت کا شوہر مرجائے وہ چار مہینے دس دن تک سوگ میں رہے، یعنی زیب و زینت نہ کرے۔

【70】

کیا عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے پہ سوگ کرسکتی ہے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ شوہر کے سوا کسی میت پہ تین دن سے زیادہ سوگ منائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٩١) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٨ (٣٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠٤) ، مسند احمد (٦/٣٧، ١٤٨، ٢٤٩) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٢ (٢٣٢٩) (صحیح )

【71】

کیا عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے پہ سوگ کرسکتی ہے؟

ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں کہ شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٩٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٥ (٣٥٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠٤) ، مسند احمد (٦/١٨٤، ٢٨٦، ٢٨٧) (صحیح )

【72】

کیا عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے پہ سوگ کرسکتی ہے؟

ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی میت پہ تین دن سے زیادہ سوگ نہ منایا جائے البتہ بیوی اپنے شوہر پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے، رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے، ہاں رنگین بنی ہوئی چادر اوڑھ سکتی ہے، سرمہ اور خوشبو نہ لگائے، مگر حیض سے پاکی کے شروع میں تھوڑا سا قسط یا اظفار (خوشبو) لگالے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ١٢ (١٣١٣، الجنائز ٣٠ (١٢٧٨) ، الطلاق ٤٧ (٥٣٣٩) ، ٤٩ (٥٣٤٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (٩٣٨) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٦ (٢٣٠٢، ٢٣٠٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٦٤ (٣٥٦٤) ، ٦٥ (٣٥٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٥، ٨٥، ٤٠٨) ، سنن الدارمی/ الطلاق ١٣ (٢٣٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شرم گاہ کی بدبو دور کرنے کے لئے تھوڑا سا خوشبو استعمال کرسکتی ہے۔

【73】

والد اپنے بیٹے کو حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دو توباپ کا حکم ماننا چاہئے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اس کو برا جانتے تھے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، چناچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الادب ١٢٩ (٥١٣٨) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٣ (١١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢، ٥٣، ١٥٧) (حسن )

【74】

والد اپنے بیٹے کو حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دو توباپ کا حکم ماننا چاہئے۔

ابوعبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص کو اس کی ماں نے یا باپ نے (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے، اس نے نذر مان لی کہ اگر اپنی بیوی کو طلاق دیدے تو اسے سو غلام آزاد کرنا ہوں گے، پھر وہ ابوالدرداء (رض) کے پاس آیا، وہ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھ رہے تھے، اور اسے خوب لمبی کر رہے تھے، اور انہوں نے نماز پڑھی ظہر و عصر کے درمیان، بالآخر اس شخص نے ان سے پوچھا، تو ابوالدرداء (رض) نے کہا : اپنی نذر پوری کرو، اور اپنے ماں باپ کی اطاعت کرو۔ ابوالدرداء (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : باپ جنت میں جانے کا بہترین دروازہ ہے، اب تم اپنے والدین کے حکم کی پابندی کرو، یا اسے نظر انداز کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر و الصلة ٣ (١٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٦، ١٩٧، ٦/٤٤٥، ٤٤٧، ٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت ایسی عمدہ چیز ہے، جن کی اطاعت سے جنت ملتی ہے، اور ظاہر ہے کہ جنت کی آدمی کو کتنی فکر ہونی چاہیے، پس ویسے ہی ماں باپ کی اطاعت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔