15. فیصلوں کا بیان
قاضیوں کا ذکر
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص لوگوں کا قاضی (فیصلہ کرنے والا) بنایا گیا تو وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ١٢٩٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأقضیة ١ (٣٥٧١) ، سنن الترمذی/الأحکام ١ (١٣٢٥) ، مسند احمد (٢/٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بن مارے اس کی موت ہوئی، مطلب یہ ہے کہ قضا کا عہدہ بڑے خطرے اور مواخذے کا کام ہے، اور اس میں عاقبت کے خراب ہونے کا ڈر ہے مگر جس کو اللہ تعالیٰ بچائے، اور اسی واسطے اکثر اسلاف نے تکلیفیں برداشت کیں اور ذلت کو گوارا کیا، لیکن قضا کا عہدہ نہ قبول کیا، چناچہ امام ابوحنیفہ (رح) کو خلیفہ منصور نے مارا پیٹا اور قید کیا، لیکن انہوں نے قاضی بننا قبول نہ کیا، تاکہ اپنے آپ کو حدیث میں وارد وعید سے بچا سکیں، اور جن علماء نے یہ ذمہ داریاں قبول کیں انہوں نے ایک دینی فریضہ پورا کیا، ان کو اللہ کے فضل سے اپنے اوپر اعتماد تھا کہ وہ اس عہدے کے ذریعے سے ملک اور عوام کی خدمت کریں گے، اور اللہ رب العزت کے یہاں اجر کے مستحق ہوں گے۔
قاضیوں کا ذکر
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے عہدہ قضاء کا مطالبہ کیا، وہ اپنے نفس کے حوالہ کردیا جاتا ہے، اور جو اس کے لیے مجبور کیا جائے تو اس کے لیے ایک فرشتہ اترتا ہے جو اسے درست بات کی رہنمائی کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ١ (٣٥٧٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ١ (١٣٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ٢٢٠) (ضعیف) (سند میں عبدالأعلی ضعیف راوی ہے )
قاضیوں کا ذکر
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن بھیجا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے (قاضی بنا کر) یمن بھیج رہے ہیں، اور میں (جوان) ہوں، لوگوں کے درمیان مجھے فیصلے کرنے ہوں گے، اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے، تو آپ ﷺ نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا پھر فرمایا : اے اللہ ! اس کے دل کو ہدایت فرما، اور اس کی زبان کو ثابت رکھ ، پھر اس کے بعد مجھے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی کوئی تردد اور شک نہیں ہوا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١١٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٦ (٣٥٨٢) ، سنن الترمذی/الأحکام ٥ (١٣٣١) ، مسند احمد (١/٨٣، ١٤٩) (صحیح) (سند میں ابو البختری سعید بن فیروز کا سماع علی (رض) سے نہیں ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر حسن یا صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٦٠٠ ، ابوداود : ٣٥٨٢ ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ نے محبت سے علی (رض) کے سینے پر جب ہلکی سی ضرب لگائی اور دعا فرمائی تو اس معجزے کا ظہور ہوا اور دعا کی قبولیت کی مثال سامنے آئی، یہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے ساتھی کے سینے پر ہاتھ رکھا اور دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے کو علم قضا کے لیے کھول دیا، ایسا ہی معجزہ ابوہریرہ (رض) کے ساتھ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینے کو علم حدیث کے لیے کھول دیا، اور خود ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے حدیث بھول جانے کی شکایت کی تو آپ نے ان کو ایک چادر دی جسے انہوں نے اپنے جسم سے لپیٹ لیا، اور نبی اکرم ﷺ نے آپ کے حافظے کے تیز ہونے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ ظاہر کیا اور اپنے محبوب نبی کی ایسی دعا قبول کی کہ ابوہریرہ صحابہ کرام میں احادیث شریفہ کے سب سے بڑے حافظ قرار پائے، جب کہ آپ کو نبی اکرم ﷺ کی مصاحبت کا شرف بہت مختصر ملا کہ آپ غزوہ خیبر کے وقت محرم سن ٧ ہجری کو مدینہ آئے، اس طرح سے تقریباً سوا چار سال کی مدت آپ نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گزاری، اور پھر اللہ کا فضل ان پر اور اہل اسلام پر یہ ہوا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ پوری زندگی حدیث کی خدمت کرتے رہے، یہاں تک کہ ٥٧ یا ٥٨ ہجری میں آپ کی وفات ہوئی رضی اللہ عنہ۔
ظلم اور رشوت سے شدید ممانعت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو حاکم بھی لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ایک فرشتہ اس کی گدی پکڑے ہوئے ہوگا، پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے گا، اگر حکم ہوگا کہ اس کو پھینک دو ، تو وہ اسے ایک ایسی کھائی میں پھینک دے گا جس میں وہ چالیس برس تک گرتا چلا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٦، ومصباح الزجاجة : ٨١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٠) (ضعیف) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہے )
ظلم اور رشوت سے شدید ممانعت
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی مدد قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے ساتھ اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے، جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٤ (١٣٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٥١٦٧) (حسن )
ظلم اور رشوت سے شدید ممانعت
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٤ (٣٥٨٠) ، سنن الترمذی/الأحکام ٩ (١٣٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٤، ١٩٠، ١٩٤، ٢١٢، ٥/٢٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رشوت لینے والے پر تو ظاہر ہے کہ وہ رشوت لے کر ضرور اس فریق کی رعایت کرے گا جس سے رشوت کھائے گا، اور رشوت دینے والے پر اس واسطے کہ وہ رشوت دے کر اس کو ظلم اور ناحق پر مائل کرے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر اس کا مقدمہ حق ہو اور کوئی حاکم بغیر رشوت لئے حق فیصلہ نہ کرتا ہو تو ظلم کو دفع کرنے کے لئے اگر رشوت دے تو گناہ گار نہ ہوگا، پس ضروری ہے کہ آدمی رشوت دینے اور لینے والے دونوں برے کاموں سے پرہیز کرے، اسی طرح رشوت دلانے اور اس کی دلالی کرنے سے بھی دور رہے کیونکہ ان امور سے ڈر ہے کہ وہ اللہ کی لعنت کا مستحق ہوگا، نسأل الله العافية۔
حاکم اجتہاد کرکے حق کو سمجھ لے۔
عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب حاکم فیصلہ اجتہاد سے کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کو دہرا اجر ملے گا، اور جب فیصلہ کی کوشش کرے اور اجتہاد میں غلطی کرے، تو اس کو ایک اجر ملے گا ۔ یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن عمرو بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : اسی طرح اس کو مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا ہے، اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢١ (٧٣٥٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٦ (١٧١٦) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٢ (٣٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٨، ٢٠٤) (صحیح )
حاکم اجتہاد کرکے حق کو سمجھ لے۔
ابوہاشم کہتے ہیں کہ اگر ابن بریدہ کی یہ روایت نہ ہوتی جو انہوں نے اپنے والد (بریدہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے، اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : قاضی تین طرح کے ہیں : ان میں سے دو جہنمی ہیں اور ایک جنتی، ایک وہ جس نے حق کو معلوم کیا اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا، تو وہ جنت میں جائے گا، دوسرا وہ جس نے لوگوں کے درمیان بغیر جانے بوجھے فیصلہ دیا، تو وہ جہنم میں جائے گا، تیسرا وہ جس نے فیصلہ کرنے میں ظلم کیا (یعنی جان کر حق کے خلاف فیصلہ دیا) تو وہ بھی جہنمی ہوگا (اگر یہ حدیث نہ ہوتی) تو ہم کہتے کہ جب قاضی فیصلہ کرنے میں اجتہاد کرے تو وہ جنتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢ (٣٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأحکام ١ (١٣٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اجتہاد کافی نہیں ہے بلکہ حق کا علم یعنی یقین ضروری ہے، علماء کے نزدیک یہ حدیث تہدید و تشدید پر محمول ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ قضا کے لئے صرف اجتہاد یعنی غلبہ ظن کافی ہے، اس میں غلطی کا احتمال رہتا ہے، اور دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ مجتہد اگر خطا بھی کرے گا تو اسے ایک اجر ملے گا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قاضی کا مجتہد ہونا ضروری ہے، اور مقلد کا قاضی ہونا صحیح نہیں ہے کیونکہ کتاب و سنت کے علم کا اطلاق صرف مجتہد پر ہوتا ہے، اور مقلد تو کتاب و سنت اور دلیل سے بیخبر ہوتا ہے، صرف اپنے امام کا قول معلوم کرلیتا ہے، لہذا مجتہد کتاب و سنت کی روشنی میں اس بات کا فیصلہ کرے گا جو اللہ تعالیٰ اس کو دکھائے ہیں، مقلد تو اپنے امام کی رائے کے مطابق فیصلہ کرے گا، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (سورة المائدة : 44) وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (سورة المائدة 45) وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (سورة المائدة :47) اور اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرنا مجتہد کی شان ہے مقلد کی نہیں، اور معاذ (رض) کی رائے سے متعلق مشہور حدیث جس کی صحت میں بعض علماء نے کلام کیا ہے، میں ان کا قول ہے کہ (میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، اگر اس میں نہ ملے گا تو حدیث سے اور اگر اس میں نہ ملے گا تو پھر اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا) یہ بھی مجتہد کی شان ہے، مقلد تو نہ قرآن کو دیکھتا ہے نہ حدیث کو، صرف درمختار، کنز اور وقایہ پر عمل کرتا ہے، اور اس کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ یہ حکم کتاب وسنت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ (ملاحظہ ہو : الروضۃ الندیۃ )
حاکم غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ١ ؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں : حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ١٣ (٧١٥٨) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٧ (١٧١٧) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٩ (٣٥٨٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ٧ (١٣٣٤) ، سنن النسائی/آداب القضاة ١٧ (٥٤٠٨) ، ٣١ (٥٤٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦، ٣٧، ٣٨، ٤٦، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی کریم ﷺ نے جو غصہ کی حالت میں زبیر (رض) کا فیصلہ ایک انصاری کے ساتھ کیا تو یہ آپ ﷺ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ حالت غضب اور رضا دونوں میں معصوم تھے، اور ظاہر یہ ہے کہ ممانعت تحریمی ہے، اس پر جمہور علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی غصہ کی حالت میں فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ حق ہو تو صحیح ہوگا، علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ مفتی سخت غصہ، یا زیادہ بھوک، یا زیادہ قلق، یا پریشان کن خوف و ڈر، یا نیند کا غلبہ، یا پاخانہ پیشاب کی حاجت میں فتوی نہ دے، اسی طرح جب دل اور طرف لگا ہوا ہو، بلکہ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ مذکورہ امور کی وجہ سے وہ اعتدال کی حالت سے باہر چلا گیا ہے، اور اس کی تحقیق و جستجو کی قدرت متاثر ہوگئی ہے، تو اس کو فتویٰ سے رک جانا چاہیے، اس پر بھی اگر وہ ان حالتوں میں فتویٰ دیتا ہے تو اس کا فتویٰ صحیح ہے لیکن اگر ایسی حالت میں فیصلہ کرتا ہے، تو کیا اس کا فیصلہ نافذ ہوگا، یا نہیں نافذ ہوگا ؟ اس بارے میں امام احمد کے مذہب میں تین اقوال ہیں : پہلا یہ کہ نافذ ہوگا، دوسرا یہ کہ نافذ نہیں ہوگا، تیسرا یہ کہ مسئلہ کو سمجھنے کے بعد اگر غصہ ہو تو اس میں نافذ ہوگا، اور اگر مسئلہ کے سمجھنے سے پہلے غصہ ہو تو نافذ نہیں ہوگا۔ (ملاحظہ ہو : الروضۃ الندیۃ ٣ /٢٣٣ )
حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرسکتا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہوسکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٦ (٢٤٥٨) ، الشہادات ٢٧ (٢٦٨٠) ، الحیل ١٠ (٦٩٦٧) ، الأحکام ٢٠ (٧١٦٩) ، ٢٩ (٧١٨١) ، ٣١ (٧١٨٥) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٣ (١٧١٣) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٧ (٣٥٨٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ١١ (١٣٣٩) ، سنن النسائی/آداب القضاة ١٢ (٥٤٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ١ (١) ، مسند احمد (٦/٣٠٧، ٣٢٠) (صحیح )
حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرسکتا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہوسکتا ہے تم میں کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، تو جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی ٹکڑا کاٹوں تو گویا میں اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩٥، ومصباح الزجاجة : ٨١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣٢، ٦/٣٠٧) (حسن صحیح )
پرائی چیز کا دعوی کرنا اور اس میں جھگڑا کرنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو کسی ایسی چیز پر دعویٰ کرے جو اس کی نہیں ہے، تو وہ ہم میں سے نہیں، اور اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ٥ (٣٥٠٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٧ (٦١) ، مسند احمد (٥/١٦٦) (صحیح )
پرائی چیز کا دعوی کرنا اور اس میں جھگڑا کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی جھگڑے میں کسی کی ناحق مدد کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض رہے گا یہاں تک کہ وہ (اس سے) باز آجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ١٤ (٣٥٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٤٥) (صحیح) (سند میں مطر الوارق ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث متابعات کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧ / ٣٥٠ و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٤٣٧ ، ١٠٢١ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کام سے توبہ کرلے اور اس کو چھوڑ دے۔
مدعی پر گواہ ہیں مدعی علیہ پر قسم
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کے مطابق دے دیا جائے، تو لوگ دوسروں کی جان اور مال کا (ناحق) دعویٰ کر بیٹھیں گے، لیکن مدعیٰ علیہ کو قسم کھانا چاہیئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرہن ٦ (٢٥١٤) ، الشہادات ٢٠ (٢٦٦٨) ، تفسیر سورة آل عمران ٣ (٤٥٥٢) ، صحیح مسلم/الاقضیة ١ (١٧١١) ، سنن ابی داود/الاقضیة ٢٣ (٣٦١٩) ، سنن الترمذی/الاحکام ١٢ (١٣٤٢) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٣٥ (٥٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٣، ٢٨٨، ٣٤٣، ٣٥١، ٣٥٦، ٣٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہو اور مدعی علیہ قسم کھالے تو وہ دعویٰ سے بری ہوگیا، اگر مدعی علیہ قسم اٹھانے پر تیار نہ ہو تو وہ دعویٰ کے مطابق مدعی کا حق ادا کرے۔
مدعی پر گواہ ہیں مدعی علیہ پر قسم
اشعث بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی، اس نے میرے حصہ کا انکار کردیا، تو میں اس کو نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس گواہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا : نہیں، تو آپ ﷺ نے یہودی سے کہا : تم قسم کھاؤ، میں نے عرض کیا : تب تو وہ قسم کھالے گا اور میرا مال ہڑپ کر جائے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا (سورة آل عمران : 77) جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑا مال لیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے بات تک نہیں کرے گا، نہ قیامت کے دن ان پر رحمت کی نگاہ ڈالے گا، نہ گناہوں سے ان کو پاک کرے گا، اور ان کو نہایت درد ناک عذاب ہوتا رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المسافات ٤ (٢٣٥٦، ٢٣٥٧) ، الرہن ٦ (٢٥١٥، ٢٥١٦) ، الخصومات ٤ (٢٤١٦، ٢٤١٧) ، الأحکام ٣٠ (٧١٨٣، ٧١٨٤) ، صحیح مسلم/الایمان ٦١ (١٣٨) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٢٥ (٣٦٢١) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٢ (١٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨، ٩٢٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١١) (صحیح )
جھوٹی قسم کھا کر مال حاصل کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی چیز کے لیے قسم کھائے اور وہ اس قسم میں جھوٹا ہو، اور اس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرلے، تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرب والمساقات ٤ (٢٣٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦١ (١٣٨) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٢٥ (٣٦٢١) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٢ (١٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٧) (صحیح )
جھوٹی قسم کھا کر مال حاصل کرنا
ابوامامہ حارثی (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص بھی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان آدمی کا حق مارے گا، تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دے گا، اور جہنم کو اس کے لیے واجب کر دے گا، لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! اگرچہ وہ معمولی چیز ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، خواہ وہ پیلو کی ایک مسواک ہی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٦١ (١٣٧) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٢٩ (٥٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٠) (صحیح )
قسم کہاں کھائے؟
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص میرے اس منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے، خواہ وہ ایک ہری مسواک ہی کے لیے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان ٣ (٢٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٨ (١٠) ، مسند احمد (٣/٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹی قسم متبرک مقام میں کھانا اور زیادہ سخت گناہ ہے، اگرچہ ہر جگہ جھوٹی قسم کھانا خود ایک سخت گناہ ہے، بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ مدعی کو اختیار ہے جہاں پر چاہے اور جن الفاظ سے چاہے مدعی علیہ سے قسم لے سکتا ہے، اور بعضوں نے کہا : صرف عدالت میں قسم ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھانا کافی ہے، اس سے زیادہ کے لئے مدعی جبر نہیں کرسکتا۔
قسم کہاں کھائے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس منبر کے پاس کوئی غلام یا لونڈی جھوٹی قسم نہیں کھاتا، اگرچہ وہ قسم ایک تازہ مسواک ہی کے لیے ہو، مگر جہنم کی آگ اس پر واجب ہوجاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٩، ومصباح الزجاجة : ٨١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥١٨) (صحیح )
اہل کتاب سے کیا قسم لی جائے؟
براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی عالم کو بلایا، اور فرمایا : میں تم کو اس ذات کی قسم دلاتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات اتاری ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٧٠٠) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٦ (٤٤٤٧، ٤٤٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٦، ٢٩٠، ٣٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسا کہنے سے یہودی کے دل پر زیادہ اثر ہوتا ہے، اور نصرانی سے یوں کہیں گے قسم کھا اس اللہ کی جس نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل اتاری۔
اہل کتاب سے کیا قسم لی جائے؟
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو یہودیوں سے فرمایا : میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دلاتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات اتاری ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٦ (٤٤٥٢، ٤٤٥٣، ٤٤٥٤ مختصراً ) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨٧) (صحیح )
دو مرد کسی سامان کا دعوی کریں اور کسی کے پاس ثبوت نہ ہو۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ ایک جانور پر دو آدمیوں نے دعویٰ کیا، اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، تو نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کو قسم پر قرعہ اندازی کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢٢ (٣٦١٦، ٣٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشہادات ٢٤ (٢٦٧٤) ، مسند احمد (٢/٤٨٩، ٥٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کی صورت یہ ہے کہ جانور ایک تیسرے شخص کے پاس ہو اور دو شخص اس کا دعوی کریں، اور تیسرا شخص کہے کہ میں اصل مالک کو نہیں پہچانتا، علی (رض) کا یہی قول ہے، اور شافعی کے نزدیک وہ جانور تیسرے کے پاس رہے گا، اور ابوحنیفہ کے نزدیک دونوں دعوے داروں کو آدھا آدھا بانٹ دیں گے، اسی طرح اگر دو شخص ایک چیز کا دعوی کریں، اور دونوں گواہ پیش کریں اور کوئی ترجیح کی وجہ نہ ہو تو اس چیز کو آدھا آدھا بانٹ دیں گے، (ابوداود، حاکم، بیہقی) ۔
دو مرد کسی سامان کا دعوی کریں اور کسی کے پاس ثبوت نہ ہو۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی جھگڑا لے کر آئے، اور ان دونوں کے درمیان ایک جانور تھا (جس پر دونوں اپنا اپنا دعویٰ کر رہے تھے) اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہ تھا، تو آپ نے اسے دونوں کو آدھا آدھا بانٹ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢٢ (٣٦١٣، ٣٦١٤، ٣٦١٥) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٣٤ (٥٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٨) ، مسند احمد (٤/٤٠٣) (ضعیف) (قتادہ سے مروی ان احادیث میں روایت ابوموسیٰ اشعری سے ہے، اور بعض رواة نے اسے سعید بن ابی بردہ عن أبیہ مرسلاً روایت کیا ہے، اور بعض حفاظ نے اسے سماک بن حرب سے مرسلاً صحیح مانا ہے، ملاحظہ ہو : تحفة الأشراف : ٩٠٨٨ و الإرواء : ٢٦٥٦ )
دو مرد کسی سامان کا دعوی کریں اور کسی کے پاس ثبوت نہ ہو۔
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی کا کوئی سامان کھو جائے یا چوری ہوجائے، پھر وہ کسی آدمی کو اسے بیچتے ہوئے پائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، اور جس نے خریدا وہ اس کے بیچنے والے سے قیمت واپس لے لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٩، ومصباح الزجاجة : ٨١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣، ١٨) (ضعیف) (حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اصل مالک جس کا مال چوری ہوگیا تھا، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔
جومال جانور خراب کردیں اس کا حکم
ابن محیصہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ براء (رض) کی ایک اونٹنی کو لوگوں کا کھیت چرنے کی عادی تھی، وہ لوگوں کے باغ میں چلی گئی، اور اسے نقصان پہنچا دیا، رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ دن کو اپنے مال کی حفاظت کی ذمہ داری مال والوں کی ہے، اور رات کو جانور جو نقصان پہنچا جائیں اسے جانوروں کے مالکوں کو دینا ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٩٢ (٣٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاقضیة ٢٨ ( (٣٧) ، مسند احمد (٤/٢٩٥، ٥/٤٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ رات کو جانور والوں کو چاہیے کہ اپنے جانور باندھ کر رکھیں، جب انہوں نے چھوڑ دیا اور کسی کا نقصان کیا تو نقصان ان کو بھرنا پڑے گا۔ براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ براء کے گھر والوں کی ایک اونٹنی نے کسی کا نقصان کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ اسی کے برابر واپس لوٹانے کا فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظرماقبلہ (صحیح )
کوئی شخص کسی چیز کو توڑ ڈالے تو اس کا حکم
قبیلہ بنی سوءۃ کے ایک شخص کا بیان ہے کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا : مجھ سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کا حال بیان کیجئیے، تو وہ بولیں : کیا تم قرآن (کی آیت) : وإنک لعلى خلق عظيم یقیناً آپ بڑے اخلاق والے ہیں نہیں پڑھتے ؟ ایک بار رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، میں نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا، اور حفصہ (رض) نے بھی آپ کے لیے کھانا تیار کیا، حفصہ (رض) مجھ سے پہلے کھانا لے آئیں، میں نے اپنی لونڈی سے کہا : جاؤ ان کے کھانے کا پیالہ الٹ دو ، وہ حفصہ (رض) کے پاس آئی، اور جب انہوں نے اپنا پیالہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھنا چاہا، تو اس نے اسے الٹ دیا جس سے پیالہ ٹوٹ گیا، اور کھانا بکھر گیا، رسول اللہ ﷺ نے اس گرے ہوئے کھانے کو اور پیالہ میں جو بچا تھا سب کو دستر خوان پر اکٹھا کیا، اور سب نے اسے کھایا، پھر آپ ﷺ نے میرا پیالہ اٹھایا، اور اسے حفصہ کو دے دیا، اور فرمایا : اپنے برتن کے بدلے میں برتن لے لو ، اور جو کھانا اس میں ہے وہ کھالو، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر اس کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ١٧٨١٣، ومصباح الزجاجة : ٨١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١١) (ضعیف الإسناد) (سند میں رجل من بنی سوء ة مبہم ہے، لیکن ام المومنین عائشہ (رض) سے دوسری روایت نبوی میں اخلاق والا ٹکڑا ثابت ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٢١٣ )
کوئی شخص کسی چیز کو توڑ ڈالے تو اس کا حکم
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں سے ایک کے پاس تھے، آپ کی کسی دوسری بیوی نے ایک کھانے کا پیالہ بھیجا، پہلی بیوی نے (غصہ سے کھانا لانے والے) کے ہاتھ پر مارا، اور پیالہ گر کر ٹوٹ گیا، رسول اللہ ﷺ نے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک کو دوسرے سے جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کرنے لگے اور فرماتے جاتے تھے : تمہاری ماں کو غیرت آگئی ہے (کہ میرے گھر اس نے کھانا کیوں بھیجا) ، تم کھانا کھاؤ، لوگوں نے کھایا، پھر جن کے گھر میں آپ ﷺ تھے اپنا پیالہ لائیں، تو آپ نے یہ صحیح سالم پیالہ قاصد کو عنایت کردیا، اور ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر میں رکھ چھوڑا جس نے اسے توڑا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٩١ (٣٥٦٧) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٣ (١٣٥٩) ، سنن النسائی/عشرة النکاح ٤ (٣٤٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٣، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٤ (٢٤٨١) ، النکاح ١٠٧ (٥٢٢٥) ، مسند احمد (٣/١٠٥، ٢٦٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٨ (٢٦٤٠) (صحیح )
مرد اپنے ہمسایہ کی دیوار پر چھت رکھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی سے اس کا پڑوسی اس کی دیوار پر شہ تیر (دھرن یا کڑی) رکھنے کی اجازت مانگے، تو اس کو منع نہ کرے ، جب ابوہریرہ (رض) نے یہ حدیث لوگوں سے بیان کی تو لوگوں نے اپنے سروں کو جھکا لیا، یہ دیکھ کر ابوہریرہ رضی اللہ (رض) نے ان سے کہا : کیوں، کیا ہوا ؟ میں دیکھتا ہوں کہ تم اس حدیث سے منہ پھیر رہے ہو، اللہ کی قسم ! میں تو اس کو تمہارے شانوں کے درمیان مار کر رہوں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٠ (٢٤٦٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٩ (١٦٠٩) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٣١ (٣٦٣٤) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٨ (١٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢٦ (٣٢) ، مسند احمد (٢/٣٩٦، ٢٤٠، ٢٧٤، ٣٩٦، ٤٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہر وقت تم کو سناؤں گا، یا تمہارے مونڈھوں کے بیچ میں اس حدیث کو لکھ کر لگا دوں گا، تاکہ ہر وقت ہر شخص دیکھے، یا تم اس کو چھپا نہ سکو، یا یہ مطلب ہے کہ تم تو دیوار پر کڑی رکھنے اور لکڑی گاڑ لینے کو گوارہ نہیں کرتے، میں تمہارے کندھوں پر بھی رکھوں گا، بعض روایتوں میں اکنافکم نون سے ہے یعنی تمہارے ہر طرف اس حدیث کو پھیلا دوں گا۔
مرد اپنے ہمسایہ کی دیوار پر چھت رکھے
عکرمہ بن سلمہ کہتے ہیں بلمغیرہ (بنی مغیرہ) کے دو بھائیوں میں سے ایک نے یہ شرط لگائی کہ اگر میری دیوار میں تم دھرن لگاؤ تو میرا غلام آزاد ہے، پھر مجمع بن یزید (رض) اور بہت سے انصار آئے اور کہنے لگے : ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی (دھرن) گاڑنے سے منع نہ کرے ، یہ سن کر وہ کہنے لگا : میرے بھائی ! شریعت کا فیصلہ تمہارے موافق نکلا لیکن چونکہ میں قسم کھاچکا ہوں اس لیے تم میری دیوار کے ساتھ ایک ستون کھڑا کر کے اس پر لکڑی رکھ لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢١٧، ومصباح الزجاجة : ٨٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٩، ٤٨٠) (حسن) (سند میں ابن جریج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ہشام بن یحییٰ مستور لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، اور عکرمہ بن سلمہ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بلمغیرة یعنی بني المغیرة اس میں ایک لغت یہ بھی ہے۔ تاکہ تمہارا کام نکل جائے اور میرا نقصان نہ ہو، ورنہ میرا غلام آزاد ہوجائے گا۔
مرد اپنے ہمسایہ کی دیوار پر چھت رکھے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی (دھرن) گاڑنے سے منع نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢١١، ومصباح الزجاجة : ٨١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٥) (صحیح) (سند میں ابن لھیعہ ہیں، اور عبد اللہ بن وہب کی ان سے روایت صحیح ہے، نیز ابن وہب کی متابعت بھی موجود ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٩٤٧ )
راستہ کی مقدار میں اختلاف ہوجائے تو؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راستہ کو سات ہاتھ رکھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : دالأقضیة ٣١ (٣٦٣٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٠ (١٣٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٩ (٢٤٧٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٣١ (١٦١٣) ، مسند احمد (٢/٤٦٦، ٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ وہاں ہے جہاں ایک جگہ پر کئی لوگ رہتے ہوں اور راستہ کی لمبائی چوڑائی پہلے سے معلوم نہ ہو۔ اب اس میں جھگڑا کریں تو سات ہاتھ کے برابر راستہ چھوڑ دینا چاہیے، لیکن جو راستے پہلے سے بنے ہوئے ہیں اور ان کی لمبائی چوڑائی معلوم ہے، ان میں کسی کو تصرف کرنے مثلاً عمارت بنانے اور راستہ کی زمین تنگ کردینے کا اختیار نہیں ہے، اور سات ہاتھ کا راستہ ضرورت کے لئے کافی ہے، نبی کریم ﷺ کے عہد میں صرف آدمی، گھوڑے اور اونٹ راستوں پر چلتے تھے، ان کے لئے اتنا لمبا چوڑا راستہ کافی تھا، لیکن عام راستے جہاں آمد و رفت عام ہو اور گاڑیاں اور بگھیاں بہت چلتی ہوں وہاں اگر یہ لمبائی اور چوڑائی تنگ ہو تو حاکم کو اختیار ہے جتنا راستہ ضروری معلوم ہو اس کی تحدید کر دے۔
راستہ کی مقدار میں اختلاف ہوجائے تو؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم راستے کے سلسلہ میں اختلاف کرو تو اسے سات ہاتھ کا کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٢٨، ومصباح الزجاجة : ٨٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٥، ٣٠٣، ٣١٧) (صحیح )
اپنے حصہ میں ایسی چیز بنانا جس سے ہمسایہ کا نقصان ہو
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا : کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ ً ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٥، ومصباح الزجاجة : ٨٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٢٦، ٣٢٧) (صحیح) (سند میں اسحاق مجہول الحال راوی ہے، اور اسحاق اور عبادہ (رض) کے مابین انقطاع ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٥٠ و الإرواء : ٨٩٦ ، و غایة المرام ٦٨ ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً پڑوسی کے مکان کی طرف ایک نئی کھڑکی یا روشندان کھولے، یا پرنالہ یا نالی نکالے یا ایک پاخانہ گھر بنائے، ان امور میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر پڑوسی کو اس سے نقصان ہوتا ہو تو یہ تصرف صحیح نہ ہوگا، ورنہ صحیح ہے۔
اپنے حصہ میں ایسی چیز بنانا جس سے ہمسایہ کا نقصان ہو
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ ً ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠١٦، ومصباح الزجاجة : ٨٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٣) (صحیح) (اس سند میں جابر جعفی ضعیف روای ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
اپنے حصہ میں ایسی چیز بنانا جس سے ہمسایہ کا نقصان ہو
ابوصرمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی کو نقصان پہنچائے گا اللہ تعالیٰ اسے نقصان پہنچائے گا، اور جو کسی پر سختی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر سختی کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٣١ (٣٦٣٥) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٢٧ (١٩٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٣) (حسن )
دو مرد ایک جھونپڑی کے دعویدار
جاریہ (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگ ایک جھونپڑی کے متعلق جو ان کے بیچ میں تھی جھگڑا لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے، تو آپ ﷺ نے حذیفہ (رض) کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے بھیجا، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جھونپڑی ان کی ہے جن سے رسی قریب ہے، پھر جب وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس واپس آئے، اور انہیں بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے ٹھیک اور اچھا فیصلہ کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ٣١٨١، ومصباح الزجاجة : ٨٢٣) (ضعیف جدا) (سند میں نمران بن جاریہ مجہول الحال، اور دھشم بن قران متروک راوی ہیں )
قبضہ کی شرط لگانا
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب مال دو آدمیوں کے ہاتھ بیچا جائے تو وہ مال اس شخص کا ہوگا جس نے پہلے خریدا ١ ؎۔ ابوالولید کہتے ہیں کہ اس حدیث سے خلاصی کی شرط باطل ہوتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٢، ٩٩١٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ٢٠ (١١١٠) ، سنن النسائی/البیوع ٩٤ (٤٦٨٦) ، مسند احمد (٥/٨، ١١، ١٢، ١٨، ٢٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٥ (٢٢٣٩) (ضعیف) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور عقیقہ کی حدیث کے علاوہ سمرہ (رض) سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر دوسرے خریدار نے اپنے بائع سے یہ شرط لگائی تھی کہ جس طرح تم سے ہو سکے یہ مال چھڑا کر مجھ کو دینا تو یہ شرط مفید نہ ہوگی اور بائع پہلے خریدار سے اس کے چھڑانے پر مجبور نہ کیا جائے گا، مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید کے پاس ایک گھوڑا تھا، زید نے اس کو عمرو کے ہاتھ بیچ دیا، اس کے بعد زید کے وکیل (ایجنٹ) نے اس کو بکر کے ہاتھ بیچ دیا اور بکر نے وکیل سے شرط لگائی کہ اس گھوڑے کو چھڑا کر میرے حوالہ کرنا تمہارے ذمہ ہے، اس نے قبول کیا جب بھی وہ گھوڑا عمرو ہی کو ملے گا کیونکہ اس کی بیع پہلی تھی اور بکر کی بیع دوبارہ صحیح نہیں ہوئی۔
قرعہ ڈال کر فیصلہ کرنا
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص کے چھ غلام تھے، ان غلاموں کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، مرتے وقت اس نے ان سب کو آزاد کردیا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے حصے کئے (دو دو کے تین حصے) (اور قرعہ اندازی کر کے) دو کو (جن کے نام قرعہ نکلا) آزاد کردیا، اور چار کو بدستور غلام رکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٦٨) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٥ (٣٩٥٨، ٣٩٥٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٧ (١٣٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجنائز ٦٥ (١٩٦٠) ، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٣٥، ٤٣٧، ٤٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب آدمی بیمار ہو تو اس کو چاہیے کہ وارثوں کا خیال رکھے، اور اپنی ساری دولت تقسیم نہ کر دے، اگر ایسا ہی ضروری ہو تو تہائی مال تک اللہ کی راہ میں دے دے، اور دو تہائی دولت وارثوں کے لئے چھوڑ دے، اگر ساری دولت کے صدقہ کی وہ وصیت کرے تو یہ وصیت تہائی مال ہی میں نافذ ہوگی۔ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا، دو غلاموں کو قرعہ ڈال کر آزاد کرایا، اور قرعہ اس واسطے ڈالا کہ وہ جھگڑا نہ کریں، اور وہ وارثوں کی ملکیت میں بدستور غلام رہے، دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے حق میں سخت کلمہ کہا کیونکہ اس نے وارثوں کا خیال نہیں رکھا تھا۔
قرعہ ڈال کر فیصلہ کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک بیع کے متعلق دو آدمیوں نے جھگڑا کیا، اور ان میں کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، آپ ﷺ نے ان دونوں کو قسم کھانے کے لیے قرعہ ڈالنے کا حکم دیا خواہ انہیں یہ فیصلہ پسند ہو یا ناپسند۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢٢ (٣٦١٦) وأنظر حدیث رقم : (٢٣٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٨٩، ٥٢٤) (صحیح )
قرعہ ڈال کر فیصلہ کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ١٥ (٢٥٩٣) ، المغازي ٣٤ (٤١٤١) ، النکاح ٩٧ (٥٠٩٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٥) ، التوبة ١٠ (٢٤٤٥) ، سنن ابی داود/النکاح ٣٩ (٢١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥١، ١٩٧، ٢٦٩) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٦ (٢٢٤٥) ، الجہاد ٣١ (٢٤٦٧) ، (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ١٩٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جس کے نام قرعہ نکلتا اس کو اپنے ساتھ لے جاتے۔
قرعہ ڈال کر فیصلہ کرنا
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) جب یمن میں تھے، تو ان کے پاس یہ مقدمہ آیا کہ تین آدمیوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی، تو انہوں نے پہلے دو آدمیوں سے پوچھا : کیا تم دونوں اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے ؟ ان دونوں نے کہا : نہیں، پھر دو کو الگ کیا، اور ان سے پوچھا : کیا تم دونوں اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے ؟ اس طرح جب وہ دو دو سے پوچھتے کہ تم اس لڑکے کو تیسرے کا کہتے ہو ؟ تو وہ انکار کرتے، آخر انہوں نے قرعہ اندازی کی، اور جس کے نام قرعہ نکلا وہ لڑکا اس کو دلایا، اور دو تہائی کی دیت اس پر لازم کردی، اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت ظاہر ہوگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٢ (٢٢٧٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٠ (٣٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٣، ٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہنسی کی وجہ یہ تھی کہ یہ فیصلہ عجیب طور کا تھا، اور دو تہائی دیت کی اس سے اس لئے دلوائی کہ دعوی کے مطابق اس لڑکے میں تینوں شریک تھے، اب قرعہ جھگڑا ختم کرنے کے لئے کیا، نہ نسب ثابت کرنے کے لئے، تو اس شخص کو بچہ کا دو تہائی کا بدلہ دوسرے دعویداروں کو دینا پڑا اور یہ علی (رض) کی اپنی رائے تھی، لیکن ابوداود نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسی صورت میں یہ حکم فرمایا : وہ بچہ اپنی ماں کے پاس رہے گا، اور کسی سے اس کا نسب ثابت نہ ہوگا، نہ وہ ان دعویداروں میں سے کسی مرد کا وارث ہوگا۔
قیافہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس خوش خوش تشریف لائے، آپ فرما رہے تھے : عائشہ ! کیا تم نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا، اس نے اسامہ اور زید بن حارثہ کو ایک چادر میں سویا ہوا دیکھا، وہ دونوں اپنے سر چھپائے ہوئے تھے، اور دونوں کے پیر کھلے تھے، تو کہا : یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٣٥٥) ، فضائل الصحابہ ١٧ (٣٧٣١) ، الفرائض ٣١ (٦٧٧١) ، صحیح مسلم/الرضاع ١١ (١٤٥٩) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣١ (٢٢٦٧) ، سنن الترمذی/الولاء ٥ (٢١٢٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٥١ (٣٤٢٣، ٣٥٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٢، ٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی کریم ﷺ کے متبنی زید بن حارثہ (رض) گورے رنگ کے تھے، اور ان کے بیٹے اسامہ سانولے رنگ کے تھے، منافقوں نے یہ طوفان اٹھایا کہ اسامہ زید کے بیٹے نہیں ہیں، اس سے نبی کریم ﷺ کو بڑا رنج ہوا، جب قیافہ شناس نے دونوں کے پاؤں دیکھ کر ایک طرح کے بتلائے تو مزید اطمینان ہوا کہ اسامہ زید ہی کے بیٹے ہیں، ہرچند پہلے بھی اس کا یقین تھا مگر قیافہ شناس کے کہنے پر اور زیادہ یقین ہوا، منافقوں کا منہ بند ہوا اور نبی کریم ﷺ کو خوشی حاصل ہوئی۔
قیافہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے ایک کاہنہ کے پاس آ کر کہا : ہمیں بتاؤ کہ ہم میں سے کون مقام ابراہیم کے صاحب (ابراہیم علیہ السلام) سے زیادہ مشابہ ہے ؟ ، وہ بولی : اگر تم ایک کمبل لے کر اسے اس نرم اور ہموار زمین پر گھسیٹو پھر اس پر چلو تو میں بتاؤں، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے کمبل کو زمین پر پھیرا (تاکہ زمین کے نشانات مٹ جائیں) پھر لوگ اس پر چلے، اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاؤں کے نشانات دیکھے، تو بولی : یہ شخص تم میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہے، پھر اس واقعہ پر بیس سال یا جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا گزرے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو نبوت عطا کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماحہ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٠، ومصباح الزجاجة : ٨٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٢) (منکر ضعیف) ط (سماک بن حرب کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے )
بچہ کو اختیار دینا کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک لڑکے کو اختیار دیا کہ وہ اپنے باپ کے پاس رہے یا ماں کے پاس اور فرمایا : بچے ! یہ تیری ماں ہے اور یہ تیرا باپ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٥ (٢٢٧٧) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢١ (١٣٥٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٥ (٣٥٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تو جس کے ساتھ چاہے جاسکتا ہے۔
بچہ کو اختیار دینا کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔
رافع بن سنان (رض) کہتے ہیں کہ ان کے ماں اور باپ دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک کافر تھے اور ایک مسلمان، تو نبی اکرم ﷺ نے ان (رافع) کو اختیار دیا (کہ جس کے ساتھ جانا چاہیں جاسکتے ہیں) وہ کافر کی طرف متوجہ ہوئے، آپ ﷺ نے دعا فرمائی : اے اللہ ! اس کو ہدایت دے ، پھر وہ مسلمان کی طرف متوجہ ہوئے، آپ ﷺ نے اسی (مسلمان) کے پاس ان کے رہنے کا فیصلہ فرما دیا۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد الحمید بن سلمة عن أبیہ عن جدہ، علی أن إسم أبویہ لایعرفان تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشرا ف : ١٥٥٨٦، مصباح الزجاجة : ٨٥٢) ، وحدیث عبد الحمید بن سملة عن جدہ رافع بن سنان أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٦ (٢٢٤٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٢ (٣٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٤) (صحیح) (سند میں عبدالحمید بن سلمہ عن أبیہ عن جدہ تینوں مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٤١ ١٩ )
صلح کا بیان
عمرو بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : مسلمانوں کے مابین صلح جائز ہے، سوائے ایسی صلح کے جو حلال کو حرام کر دے یا حرام کو حلال ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ١٧ (١٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی خلاف شرع صلح جائز نہیں، باقی جس میں شرع کی مخالفت نہ ہو وہ صلح ہر طرح سے جائز ہے۔
اپنا مال برباد کرنے والے پر پابندی لگانا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص کچھ کم عقل تھا، اور وہ خریدو فروخت کرتا تھا تو اس کے گھر والے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیجئیے، نبی اکرم ﷺ نے اس کو بلایا، اور اس کو خریدو فروخت کرنے سے منع کیا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ خریدو فروخت نہ کروں، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا جب خریدو فروخت کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ دھوکا دھڑی کی بات نہیں چلے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٨ (٣٥٠١) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٨ (١٢٥٠) ، سنن النسائی/البیوع ١٠ (٤٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مجھ کو دھوکہ مت دو ، اگر فریب ثابت ہوگا تو معاملہ فسخ کرنے کا مجھ کو اختیار ہوگا، دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ مجھ کو تین دن تک اختیار ہے (طبرانی اور بیہقی) ۔
اپنا مال برباد کرنے والے پر پابندی لگانا
محمد بن یحییٰ بن حبان کہتے ہیں کہ میرے دادا منقذ بن عمرو ہیں، ان کے سر میں ایک زخم لگا تھا جس سے ان کی زبان بگڑ گئی تھی، اس پر بھی وہ تجارت کرنا نہیں چھوڑتے تھے، اور ہمیشہ ٹھگے جاتے تھے، بالآخر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : جب تم کوئی چیز بیچو تو یوں کہہ دیا کرو : دھوکا دھڑی نہیں چلے گی، پھر تمہیں ہر اس سامان میں جسے تم خریدتے ہو تین دن کا اختیار ہوگا، اگر تمہیں پسند ہو تو رکھ لو اور اگر پسند نہ آئے تو اسے اس کے مالک کو واپس کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٢٨، ومصباح الزجاجة : ٨٢٦) (حسن) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، کما تقدم، تراجع الألبانی : رقم : ١٠٢ ) وضاحت : ١ ؎: پس یہ اختیار خاص کر کے آپ ﷺ نے منقذ کو دیا تھا، اگر کسی کے عقل میں فتور ہو تو حاکم ایسا اختیار دے سکتا ہے، نیز مسرف اور بیوقوف پر حجر کرنا جائز ہے۔
جس کے پاس مال نہ رہے اسے مفلس قرار دینا اور قرض خواہوں کی خاطر اس کا مال فروخت کرنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک شخص کو اس کے خریدے ہوئے پھلوں میں گھاٹا ہوا، اور وہ بہت زیادہ مقروض ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : تم لوگ اسے صدقہ دو چناچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، لیکن اس سے اس کا قرض پورا ادا نہ ہوسکا، بالآخر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مل گیا وہ لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے یعنی قرض خواہوں کے لیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٤ (١٥٥٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٠ (٣٤٦٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٤ (٦٥٥) ، سنن النسائی/البیوع ٢٨ (٤٥٣٤) ، ٩٣ (٤٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦، ٥٦، ٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اب وہ مفلس ہوگیا تو قرض خواہوں کو اس سے زیادہ کچھ نہیں پہنچتا کہ اس کے پاس جو مال ہو وہ لے لیں، مگر مکان رہنے کا اور ضروری کپڑا اور سردی کا کپڑا، اور سد رمق کے موافق خوراک اس کی اور اس کے گھر والوں کی یہ چیزیں قرض میں نہیں لی جائیں گی۔ (الروضۃ الندیۃ) ۔
جس کے پاس مال نہ رہے اسے مفلس قرار دینا اور قرض خواہوں کی خاطر اس کا مال فروخت کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل (رض) کو ان کے قرض خواہوں سے چھٹکارا دلوایا، اور پھر آپ ﷺ نے انہیں یمن کا عامل بنادیا، معاذ (رض) نے کہا : دیکھو ! رسول اللہ ﷺ نے میرے مال کے ذریعہ مجھے میرے قرض خواہوں سے چھٹکارا دلوایا، پھر مجھے آپ ﷺ نے عامل بھی بنادیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٦٨، ومصباح الزجاجة : ٨٢٧) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن مسلم بن ہرمز ضعیف اور سلمہ المکی مجہول الحال ہیں )
ایک شخص مفلس ہوگیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اسکے پاس پالیا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بعینہ اپنا مال اس شخص کے پاس پا لیا جو مفلس (دیوالیہ) ہوگیا ہو، تو وہ دوسرے قرض خواہوں سے اس مال کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستقراض ١٤ (٢٤٠٢) ، صحیح مسلم/المساقاة ٥ (١٥٥٩) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٦ (٣٥١٩، ٣٥٢٠) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٦٢) ، سنن النسائی/البیوع ٩٣ (٤٦٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٤٢ (٨٨، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٢٥٨، ٤١٠، ٤٦٨، ٤٧٤، ٥٠٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٥١ (٢٦٣٢) (صحیح )
ایک شخص مفلس ہوگیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اسکے پاس پالیا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کوئی سامان بیچا پھر اس نے اس کو بعینہ اس (مشتری) کے پاس پایا جو دیوالیہ ہوگیا ہے، اور بائع کو ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ نہیں ملا تھا، تو وہ سامان بائع کو ملے گا، اور اگر وہ اس کی قیمت میں سے کچھ لے چکا ہے تو وہ دیگر قرض خواہوں کے مانند ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وانظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کو بیچ کر قرض خواہوں کا قرضہ حصے کے طور پر اس سے ١ دا کریں گے، بائع کو بھی اپنے حصہ کے موافق ملے گا، حدیث سے یہ نکلا کہ اگر مشتری نے اسباب میں کچھ تصرف کیا ہو یعنی اس حال پر باقی نہ رہا جو بائع کے وقت پر تھا تب بھی وہ بائع کو نہ ملے گا بلکہ اس کو بیچ کر سب قرض خواہوں کو حصہ ادا کریں گے، بائع بھی اپنے حصہ کے موافق لے گا۔
ایک شخص مفلس ہوگیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اسکے پاس پالیا
ابن خلدہ زرقی (وہ مدینہ کے قاضی تھے) کہتے ہیں کہ ہم اپنے ایک ساتھی کے سلسلے میں جس کا دیوالیہ ہوگیا تھا ابوہریرہ (رض) کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا : ایسے ہی شخص کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے یہ فیصلہ دیا تھا : جو شخص مرجائے یا جس کا دیوالیہ ہوجائے، تو سامان کا مالک ہی اپنے سامان کا زیادہ حقدار ہے، جب وہ اس کو بعینہ اس کے پاس پائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٦ (٣٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٩) (ضعیف) (سند میں ابو المعتمر بن عمرو بن رافع مجہول ہیں )
ایک شخص مفلس ہوگیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اسکے پاس پالیا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مرجائے، اور اس کے پاس کسی کا مال بعینہ موجود ہو، خواہ اس کی قیمت سے کچھ وصول کیا ہو یا نہیں، وہ ہر حال میں دوسرے قرض خواہوں کے مانند ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٦٨) (صحیح )
جس سے گواہی طلب نہیں کی گئی اس کے لئے گواہی دینا مکروہ ہے۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون سے لوگ بہتر ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میرے زمانہ والے، پھر جو لوگ ان سے نزدیک ہوں، پھر وہ جو ان سے نزدیک ہوں، پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی گواہی ان کی قسم سے اور قسم گواہی سے سبقت کر جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٩ (٢٦٥٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٢ (٢٥٣٣) ، سنن الترمذی/المناقب ٥٧ (٣٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٣٧٨، ٤١٧، ٤٣٤، ٤٣٨، ٤٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے کے بڑے حریص ہوں گے، ہر وقت اس کے لیے تیار رہیں گے ذرا بھی احتیاط سے کام نہیں لیں گے۔
جس سے گواہی طلب نہیں کی گئی اس کے لئے گواہی دینا مکروہ ہے۔
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا، اس خطبہ میں انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہمارے بیچ کھڑے ہوئے جیسے میں تمہارے بیچ کھڑا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کی شان کے سلسلے میں میرا خیال رکھو پھر ان لوگوں کی شان کے سلسلے میں جو ان کے بعد ہوں، پھر جو ان کے بعد ہوں، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا یہاں تک کہ ایک شخص گواہی دے گا اور کوئی اس سے گواہی نہ چاہے گا، اور قسم کھائے گا اور کوئی اس سے قسم نہ چاہے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤١٨، ومصباح الزجاجة : ٨٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦) (صحیح) (سند میں عبد الملک بن عمیر مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، الصحیحة : ٤٣١ ، ١١١٦ ) وضاحت : ١ ؎: مقام جابیہ شام کی ایک بستی کا نام ہے۔ میرا خیال رکھو یعنی کم از کم میری رعایت کرتے ہوئے انہیں کوئی ایذا نہ پہنچاؤ۔
کسی کو معاملہ کا علم ہولیکن صاحب معاملہ کو اس کے گواہ ہونے کا علم نہ ہو۔
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بہتر گواہ وہ ہے جو پوچھے جانے سے پہلے گواہی دیدے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأقضیة ٩ (١٧١٩) ، سنن ابی داود/الأقضیة ١٣ (٣٥٩٦) ، سنن الترمذی/الشہادات ١ (٢٢٩٥، ٢٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢ (٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی گواہ نہ ہونے کے سبب جب کسی مسلمان کا حق مارا جا رہا ہو، یا اس کے مال یا جان کو نقصان لاحق ہو رہا ہو، تو ایسی صورت میں بغیر بلائے قاضی کے پاس جا کر گواہی دے دے۔
قرضوں پر گواہ بنانا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے آیت کریمہ : يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى کی تلاوت کی، یہاں تک کہ فإن أمن بعضکم بعضا یعنی اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہیئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہیئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہیئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو، تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو چاہیئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں، خریدو فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کرلیا کرو، اور (یاد رکھو کہ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو گے تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جیسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے، اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گنہگار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے (سورۃ البقرہ : ٢٨٢ ، ٢٨٣ ) تک پہنچے تو فرمایا : اس آیت نے اس پہلی والی آیت کو منسوخ کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٤، ومصباح الزجاجة : ٨٢٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اور بعض علماء نے کہا کہ سابقہ آیت منسوخ نہیں ہے اس لئے کہ وہ استحبابی حکم تھا، واجب نہ تھا اور مستحب یہی ہے کہ جب قرض لیا جائے تو اس کو لکھیں اور گواہ بنالیں کیونکہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ دائن (قرض خواہ) یا مدیون (مقروض) مرجائے اور ان کے وارثوں میں جھگڑا ہو یا مدیون کے ذمہ قرض رہ جائے اس کے وارث ادا نہ کریں تو عاقبت کا مواخذہ رہے۔
جس کی گواہی جائز نہیں
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ خائن مرد کی گواہی جائز ہے اور نہ خائن عورت کی، اور نہ اس کی جس پر اسلام میں حد نافذ ہوئی ہو، اور نہ اس کی جو اپنے بھائی کے خلاف کینہ و عداوت رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٤) ، ومصباح الزجاجة : ٨٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨١، ٢٠٣، ٢٠٨) (حسن) (سند میں حجاج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن ترمذی میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٦٦٩ ) وضاحت : ١ ؎: جس سے وہ کینہ رکھتا ہو اس کی گواہی جائز نہیں ہے، البتہ اگر اس کے فائدہ کے لئے گواہی دے تو قبول ہوگی، اہل حدیث کے نزدیک اس شخص کی شہادت جو عادل نہ ہو مقبول نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن میں ہے : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ (سورة الطلاق :2) ، اور اپنے میں سے دو عادل کو گواہ کرلو غرض یہ کہ شہادت میں ضروری ہے کہ شاہد مسلمان ہو، آزاد ہو، مکلف ہو، یعنی عاقل بالغ ہو، عادل ہو، صاحب مروت ہو متہم نہ ہو۔
جس کی گواہی جائز نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بدوی (دیہات میں رہنے والے) کی گواہی شہری (بستی میں رہنے والے) کے خلاف جائز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ١٧ (٣٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٣١) (صحیح )
ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گواہ اور (مدعی کی) قسم سے فیصلہ فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢١ (٣٦١٠، ٣٦١١) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٣ (١٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہو تو اس سے دوسرے گواہ کی جگہ قسم کو قبول کرلیا جائے گا، جمہور کا یہی مذہب ہے، ان کا کہنا ہے کہ مالی معاملات میں ایک گواہ اور ایک قسم جائز ہے البتہ غیر مالی معاملات میں دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک مالی معاملات ہوں یا غیر مالی معاملات دونوں صورتوں میں دو گواہوں کا ہونا لازمی ہے، اس باب کی ساری احادیث ان کے خلاف حجت ہیں ان کا استدلال : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ (سورة الطلاق :2) اور وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ (سورة البقرة : 282) سے ہے لیکن ان کا استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے اعلام الموقعین ج ١ ص ٣٢ ، ٢٨ ) ۔
ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنا
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک گواہ اور (مدعی کی) قسم سے فیصلہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ١٣ (١٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٥) (صحیح )
ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گواہ اور (مدعی کی) قسم سے فیصلہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأقضیة ٢ (١٧١٢) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٢١ (٣٦٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٨، ٣١٥، ٣٢٣) (صحیح )
ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنا
سرق (ابن اسد جہنی) (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مدعی کی قسم کے ساتھ ایک شخص کی گواہی کو جائز رکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٢، ومصباح الزجاجة : ٨٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢١) (صحیح) (سند میں مصری تابعی مبہم راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: ابن الجوزی نے التحقیق میں کہا کہ اس حدیث کے راوی بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ فرمایا اور جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ مدعی سے قسم لی جائے، اگر وہ قسم کھالے تو اس کا دعوی ثابت ہوگیا، اور اگر قسم کھانے سے انکار کرے تو اب مدعی علیہ سے قسم لیں گے، اگر اس نے قسم کھالی تو مدعی کا دعوی ساقط ہوگیا، اور اگر انکار کیا تو مدعی کا دعوی ثابت ہوگیا، اور پھر مدعی کا حق مدعی علیہ سے دلوایا جائے گا، الا یہ کہ وہ معاف کر دے، مگر یہ امر اموال کے دعوی میں ہوگا (یعنی ایک شاہد اور قسم پر فیصلہ) جب کہ حدود، نکاح، طلاق، عتاق، سرقہ اور قذف وغیرہ میں دو گواہ ضروری ہیں۔
جھوٹی گواہی
خریم بن فاتک اسدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز فجر پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا : جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے ، یہ جملہ آپ نے تین بار دہرایا، پھر آیت کریمہ : واجتنبوا قول الزور حنفاء لله غير مشرکين به جھوٹ بولنے سے بچو، اللہ کے لیے سیدھے چلو، اس کے ساتھ شرک نہ کرو (سورة الحج : ٣٠ -٣١) کی تلاوت فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ١٥ (٣٥٩٩) ، سنن الترمذی/الشہادات ٣ (٢٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٥) (ضعیف) (سند میں سفیان کے والد زیاد عصفری اور حبیب بن نعمان دونوں مجہول ہیں )
جھوٹی گواہی
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جھوٹی گواہی دینے والے کے پاؤں (قیامت کے دن) نہیں ٹلیں گے، جب تک اللہ اس کے لیے جہنم کو واجب نہ کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤١٧، ومصباح الزجاجة : ٨٣٢، ومصباح الزجاجة : ٨٣٢) (موضوع) (محمد بن الفرات کی امام احمد نے تکذیب کی ہے، نیز ملاحظہ : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٢٥٩ )
یہودونصاری کی گواہی ایک دوسرے کے متعلق
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل کتاب کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف گواہی کو جائز رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٥٦، ومصباح الزجاجة : ٨٣٣) (ضعیف) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٦٦٨ )