17. صدقات کا بیان
صدقہ دے کر واپس لینا
عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے صدقہ کو دے کر واپس نہ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٩ (١٤٩٠) ، الھبة ٣٠ (٢٦٢٣) ، ٣٧ (٢٦٣٦) ، الوصایا ٣١ (٢٧٧٥) ، الجہاد ١١٩ (٢٩٧٠) ، ١٣٧ (٣٠٠٢) ، صحیح مسلم/الھبات ١ (١٦٢٠) ، سنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٢ (٦٦٨) ، موطا امام مالک/الزکاة ٢٦ (٤٩) ، مسند احمد (١/٢٥، ٣٧، ٤٠، ٥٤) (صحیح )
صدقہ دے کر واپس لینا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو صدقہ دے کر واپس لے لیتا ہے اس کی مثال کتے کی ہے جو قے کرتا ہے پھر لوٹ کر اس کو کھاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٣٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٦٢) (صحیح )
کوئی چیز صدقہ میں دی پھر دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہی ہے تو کیا صدقہ کرنے والا وہ چیز خرید سکتا ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک گھوڑا صدقہ کیا، پھر دیکھا کہ اس کا مالک اس کو کم دام میں بیچ رہا ہے تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور آپ ﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا صدقہ مت خریدو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٤٦) (صحیح )
کوئی چیز صدقہ میں دی پھر دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہی ہے تو کیا صدقہ کرنے والا وہ چیز خرید سکتا ہے۔
زبیر بن عوام (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک گھوڑی صدقہ میں دی جس کو غمر یا غمرۃ کہا جاتا تھا، پھر اسی کے بچوں میں ایک بچھیرا یا بچھیری کو بکتا دیکھا، جو ان کی گھوڑی کی نسل سے تعلق رکھتا تھا، تو اس کو خریدنے سے روک دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٣٢، ومصباح الزجاجة : ٨٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٤) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عامر غیر معروف راوی ہیں، ان کے بارے میں یہ نہیں معلوم کہ وہ عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ غزی ثقہ راوی ہیں، یا کوئی اور، اس لئے اس احتمال کی وجہ سے حدیث ثابت نہیں )
کسی نے کوئی چیز صدقہ میں دی پھر وہی چیز وراثت میں اس کو ملے۔
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی صدقہ میں دی تھی، ماں کا انتقال ہوگیا (اب لونڈی کا حکم کیا ہوگا ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تجھے (تیرے صدقہ کا) ثواب دیا، اور پھر اسے تجھے وارثت میں بھی لوٹا دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٩٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ترکہ (وراثت) میں تمہارے پاس لونڈی آگئی، معلوم ہوا کہ صدقہ کی ہوئی چیز اگر میراث میں آجائے تو اس کا لینا منع نہیں ہے، البتہ اس کو خریدنا منع ہے۔
کسی نے کوئی چیز صدقہ میں دی پھر وہی چیز وراثت میں اس کو ملے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : میں نے اپنی ماں کو ایک باغ دیا تھا، اور وہ مرگئیں، اور میرے سوا ان کا کوئی اور وارث نہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں تمہارے صدقہ کا ثواب مل گیا، اور تمہارا باغ بھی تمہیں واپس مل گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٤، ومصباح الزجاجة : ٨٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٥) (حسن صحیح )
وقف کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) کو خیبر میں کچھ زمین ملی، تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے مشورہ لیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے خیبر میں کچھ مال ملا ہے، اتنا عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا، تو آپ اس کے متعلق مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اصل زمین اپنی ملکیت میں باقی رکھو اور اسے (یعنی اس کے پھلوں اور منافع کو) صدقہ کر دو ۔ عمر (رض) نے ایسا ہی کیا، اس طرح کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ اسے وراثت میں دیا جائے، اور وہ صدقہ رہے فقیروں اور رشتہ داروں کے لیے، غلاموں کے آزاد کرانے اور مجاہدین کے سامان تیار کرنے کے لیے، اور مسافروں اور مہمانوں کے لیے اور جو اس کا متولی ہو وہ اس میں دستور کے مطابق کھائے یا کسی دوست کو کھلائے لیکن مال جمع نہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ١٩ (٢٧٣٧) ، الوصایا ٢٢ (٦٧٦٤) ، ٢٨ (٢٧٧٢) ، ٣٢ (٢٧٧٧) ، صحیح مسلم/الوصایا ٤ (١٦٣٢) ، سنن ابی داود/الوصایا ١٣ (٢٨٧٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٦ (١٣٧٥) ، سنن النسائی/الإحب اس ١ (٣٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٥، ١٢٥) (صحیح )
وقف کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کر دوں ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اصل زمین کو رہنے دو ، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإحب اس ٢ (٣٦٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٠٢) (صحیح ) ابن ابی عمر کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر طسفيان عن عبدالله عن نافع عن ابن عمر کے طریق سے پائی ہے، وہ (ابن عمر) کہتے ہیں : عمر (رض) نے کہا، پھر انہوں نے اسی جیسی روایت ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ٧٧٤١) (صحیح )
عاریت کا بیان
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : عاریت (مانگی ہوئی چیز) ادا کی جائے، اور جو جانور دودھ پینے کے لیے دیا جائے وہ لوٹا دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٤، ومصباح الزجاجة : ٨٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/البیوع ٩٠ (٣٥٦٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٤ (١٢٦٥) ، (الشطر الأول فقط) (صحیح) (سند میں اسماعیل بن عیاش کی وجہ سے ضعف ہے )
عاریت کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : عاریت (منگنی لی ہوئی چیز، مانگی ہوئی چیز) ادا کی جائے، اور دودھ پینے کے لیے دئیے گئے جانور کو واپس کردیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٢، ومصباح الزجاجة : ٨٤١) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٥١٦ )
عاریت کا بیان
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاتھ پر واجب ہے کہ جو وہ لے اسے واپس کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٩٠ (٣٥٦١) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٩ (١٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢، ١٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٦ (٢٦٣٨) (ضعیف) (سند میں حسن بصری ہیں، جنہوں نے سمرہ (رض) سے یہ حدیث نہیں سنی ہے، کیونکہ انہوں نے صرف سمرہ (رض) سے حدیث عقیقہ سنی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٥١٦ ) ۔
امانت کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس کوئی امانت رکھی گئی تو اس پر تاوان نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٨٠، ومصباح الزجاجة : ٨٤٢) (حسن) (سند میں ایوب بن سوید اور مثنی بن صباح ضعیف ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣١٥ ، الإرواء : ١٥٤٧ ، و التعلیق علی الروضہ الندیہ ) وضاحت : ١ ؎: اگر وہ بغیر اس کی کسی کوتاہی یا خیانت کے برباد ہوجائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔
امین مال امانت سے تجارت کرے اور اس کو نفع ہوجائے تو
عروہ بارقی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کو ایک بکری خریدنے کے لیے ایک دینار دیا تو اس سے انہوں نے دو بکریاں خریدیں، پھر ایک بکری کو ایک دینار میں بیچ دیا، اور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک دینار اور ایک بکری لے کر حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی، راوی کہتے ہیں : (اس دعا کی برکت سے) ان (عروۃ) کا حال یہ ہوگیا کہ اگر وہ مٹی بھی خرید لیتے تو اس میں نفع کماتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٨ (٣٦٤٠، ٣٦٤١، ٣٦٤٢) ، سنن ابی داود/البیوع ٢٨ (٣٣٨٤، ٣٣٨٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٤ (١٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٥، ٣٧٦) (صحیح ) عروہ بن ابی الجعد بارقی (رض) کہتے ہیں کہ باہر سے بکنے کے لیے جانور آئے، تو رسول اللہ ﷺ نے (ایک جانور خریدنے کے لیے) مجھے ایک دینار دیا، پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن) (ملاحظہ ہو : الإ رواء : ٥/١٢٩ )
حوالہ کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالدار کا (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اور جب تم میں کوئی کسی مالدار کی طرف تحویل کیا جائے، تو اس کی حوالگی قبول کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٩٩ (٤٦٩٥) ، ١٠١ (٤٧٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحوالہ ١ (٢٢٨٨) ، ٢ (٢٢٨٩) ، الإستقراض ١٢ (٢٤٠٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ٧ (١٥٦٤) ، سنن ابی داود/البیوع ١٠ (٣٣٤٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٨ (١٣٠٨) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٠ (٨٤) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٤، ٢٦٠، ٣١٥، ٣٧٧، ٣٨٠، ٤٦٣، ٤٦٤، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٨ (٢٦٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کے حوالہ کیا جائے۔
حوالہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اور جب تمہیں کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو اس کی حوالگی کو قبول کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٣٥، ومصباح الزجاجة : ٨٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧١) (صحیح) (سند میں یونس بن عبید اور نافع کے مابین انقطاع ہے، لیکن سابقہ شاہد سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر آدمی مفلس ہو اور پیسہ پاس نہ ہو تو قرض ادا کرنے میں مجبوری ہے، لیکن پیسہ ہوتے ہوئے لوگوں کا قرض نہ دینا اس میں دیر لگانا گناہ ہے اور قرض خواہ پر ظلم ہے گویا اس کا حق مارنا گناہ ہے، اور اپنے نفس پر بھی ظلم ہے اس واسطے کہ زندگی کا اعتبار نہیں، شاید مرجائے اور قرض خواہ کا قرض رہ جائے، اس لئے جب پیسہ ہو تو فوراً قرض ادا کر دے۔
ضمانت کا بیان
ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : (قرض کا) ضامن و کفیل (اس کی ادائیگی کا) ذمہ دار ہے، اور قرض کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٩٠ (٣٥٦٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٩ (١٢٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٤) (صحیح )
ضمانت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک شخص ایک قرض دار کے پیچھے لگا رہا جس پر اس کا دس دینار قرض تھا، وہ کہہ رہا تھا : میرے پاس کچھ نہیں جو میں تجھے دوں، اور قرض خواہ کہہ رہا تھا : جب تک تم میرا قرض نہیں ادا کرو گے یا کوئی ضامن نہیں لاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا، چناچہ وہ اسے کھینچ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا، آپ ﷺ نے قرض خواہ سے پوچھا : تم اس کو کتنی مہلت دے سکتے ہو ؟ اس نے کہا : ایک مہینہ کی، آپ ﷺ نے فرمایا : تو میں اس کا ضامن ہوتا ہوں ، پھر قرض دار نبی اکرم ﷺ کے دئیے ہوئے مقررہ وقت پر اپنا قرضہ لے کر آیا، آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : تجھے یہ کہاں سے ملا ؟ اس نے عرض کیا : ایک کان سے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں بہتری نہیں ، اور آپ ﷺ نے اسے اپنی جانب سے ادا کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٢ (٣٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ احتمال ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کا ہو۔
ضمانت کا بیان
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا، تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ لیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھوں گا) اس لیے کہ وہ قرض دار ہے ، ابوقتادہ (رض) نے عرض کیا : میں اس کے قرض کی ضمانت لیتا ہوں تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پورا ادا کرنا ہوگا ، انہوں نے کہا : جی ہاں، پورا ادا کروں گا، اس پر اٹھارہ یا انیس درہم قرض تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٩ (١٠٦٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٧ (١٩٦٢) ، البیوع ١٠٠ (٤٦٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٠٢، ٣١١) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٣ (٢٦٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ قرض بری بلا ہے، نبی کریم ﷺ نے اس کی وجہ سے نماز جنازہ پڑھنے میں تامل کیا، بعضوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے تنبیہ کے لئے ایسا کیا تاکہ دوسرے لوگ قرض کی ادائیگی کا پورا پورا خیال رکھیں، قرض وہ بلا ہے کہ شہید کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں پر قرض معاف نہیں ہوتا، وہ حقوق العباد ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امام کو جائز ہے کہ بعض مردوں پر جن سے گناہ سرزد ہوا ہو نماز جنازہ نہ پڑھے، دوسرے لوگوں کو ڈرانے کے لئے، لیکن دوسرے لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ میت کی طرف سے ضمانت درست ہے اگرچہ اس نے قرض کے موافق مال نہ چھوڑا ہو، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں : اگر قرض کے موافق اس نے مال نہ چھوڑا ہو تو ضمانت درست نہیں۔
جوقرض اس نیت سے لے کہ (جلد) ادا کروں گا۔
ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ قرض لیا کرتی تھیں تو ان کے گھر والوں میں سے کسی نے ان سے کہا : آپ ایسا نہ کریں، اور ان کے ایسا کرنے کو اس نے ناپسند کیا، تو وہ بولیں : کیوں ایسا نہ کریں، میں نے اپنے نبی اور خلیل ﷺ کو فرماتے سنا ہے : کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں جو قرض لیتا ہو اور اللہ جانتا ہو کہ وہ اس کو ادا کرنا چاہتا ہے مگر اللہ اس کو دنیا ہی میں اس سے ادا کرا دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٩٧ (٤٦٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٧٧) (صحیح) (حدیث میں فِي الدُّنْيَا کا لفظ ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٤٩٦ ) ۔ وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی ادائیگی کا راستہ پیدا کرے گا۔
جوقرض اس نیت سے لے کہ (جلد) ادا کروں گا۔
عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قرض دار کے ساتھ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض ادا کر دے، جب کہ وہ قرض ایسی چیز کے لیے نہ ہو جس کو اللہ ناپسند کرتا ہے، راوی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر (رض) اپنے خازن سے کہتے کہ جاؤ میرے لیے قرض لے کر آؤ، اس لیے کہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں کوئی رات گزاروں اور اللہ تعالیٰ میرے ساتھ نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٢٨، ومصباح الزجاجة : ٨٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٥٥ (٢٦٣٧) (صحیح )
جوقرضہ ادا نہ کرنے کی نیت سے لے۔
صہیب الخیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو قرض لے اور اس کو ادا کرنے کی نیت نہ رکھتا ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ سے چور ہو کر ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٢، ومصباح الزجاجة : ٨٤٥) (حسن صحیح ) اس سند سے بھی اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٠، ومصباح الزجاجة : ٨٤٦ )
جوقرضہ ادا نہ کرنے کی نیت سے لے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں کا مال لے اور اس کو ہڑپ کرنا چاہتا ہو تو اس کو اللہ تباہ کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستقراض وأداء الدیون ٢ (٢٣٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦١، ٤١٧) (صحیح )
قرض کے بارے میں شدید وعید
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کی روح بدن سے جدا ہوئی اور وہ تین چیزوں غرور (گھمنڈ) خیانت اور قرض سے پاک ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٢١ (١٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٢١١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٦، ٢٨١، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٢ (٢٦٣٤) (صحیح )
قرض کے بارے میں شدید وعید
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی جان اس کے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے ادائیگی کردی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٧٧ (١٠٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٠، ٤٧٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٢ (٢٦٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ اس کو آرام اس وقت تک نہ ملے گا، یا وہ جنت میں داخل نہ ہونے پائے گا۔ جب تک کہ وہ قرض ادا نہ ہوجائے۔
قرض کے بارے میں شدید وعید
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مرجائے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی دینار یا درہم ہو تو (قیامت میں) جہاں دینار اور درہم نہیں ہوگا، اس کی نیکیوں سے ادا کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٤٧، ومصباح الزجاجة : ٨٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٢) (صحیح) (یہ سند حسن ہے لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے )
جوقرضہ یا بے سہارا بال بچے چھوڑے تو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہیں۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن رسول اللہ ﷺ کے عہد میں وفات پا جاتا، اور اس کے ذمہ قرض ہوتا، تو آپ ﷺ پوچھتے : کیا اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ چھوڑا ہے ؟ تو اگر لوگ کہتے : جی ہاں، تو آپ ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھتے، اور اگر کہتے : نہیں، تو آپ ﷺ فرماتے : تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتوحات عطا کیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہوں، تو جو کوئی وفات پا جائے اور اس پر قرض ہو، تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، اور جو کوئی مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفرائض ٤ (١٦١٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٧ (١٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الکفالة ٥ (٢٢٩٨) ، النفقات ١٥ (٥٣٧١) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٩ (١٠٧٠) ، حم (٢/٢٩٠، ٤٥٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٤ (٢٦٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسلام کے ابتدائی عہد میں جب مال و دولت کی کمی تھی تو جب کوئی مقروض مرتا نبی کریم ﷺ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرماتے وہ پڑھ لیتے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات دیں، اور مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ نے حکم دیا کہ اب جو کوئی مسلمان مقروض مرے اس کا قرضہ میں ادا کروں گا، اسی طرح بےسہارا بال بچے چھوڑ جائے تو ان کی پرورش کا ذمہ بھی میرے سر ہے۔
جوقرضہ یا بے سہارا بال بچے چھوڑے تو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہیں۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کے بال بچوں کا خرچ مجھ پر ہے، اور ان کا معاملہ میرے سپرد ہے، اور میں مومنوں کے زیادہ قریب ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج ١٥ (٢٩٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٦، ٣٧١) ، وھوطرف حدیث تقدم برقم : ٤٥) (صحیح )
تنگدست کو مہلت دینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی تنگ دست پر آسانی کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٦٧ (١٣٠٦) (صحیح )
تنگدست کو مہلت دینا
بریدہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے صدقہ کا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠١٢، ومصباح الزجاجة : ٨٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥١، ٣٦٠) (صحیح) (سند میں ابوداود نفیع بن الحارث ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق و شواہد سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٨٦ )
تنگدست کو مہلت دینا
صحابی رسول ابوالیسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے (عرش کے) سائے میں رکھے، تو وہ تنگ دست کو مہلت دے، یا اس کا قرض معاف کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١٨ (٣٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١١١٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٠ (٢٦٣٠) (صحیح )
تنگدست کو مہلت دینا
حذیفہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مرگیا تو اس سے پوچھا گیا : تم نے کیا عمل کیا ہے ؟ تو اس کو یا تو یاد آیا یا یاد لایا گیا، اس نے کہا : میں سکہ اور نقد کو کھوٹ کے باوجود لے لیتا تھا، اور تنگ دست کو مہلت دیا کرتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٧ (٢٠٧٧) ، الاستقراض ٥ (٢٣٩١) ، الأنبیاء ٥٤ (٣٤٥١) ، الرقاق ٢٥ (٦٤٨٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ٦ (١٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجنائز ١١٧ (٢٠٨٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٧ (١٣٠٧) ، مسند احمد (٥/٣٩٥، ٣٩٩) ، سنن الدارمی/البیوع ١٤ (٢٥٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کوئی کھوٹا سکہ یا نقدی دیتا تو بھی میں اسے قبول کرلیتا تھا۔
اچھے طریقہ سے مطالبہ کرنا اور حق لینے میں برائی سے بچنا
ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی حق کا مطالبہ کرے تو شریفانہ طور پر کرے، خواہ وہ حق پورا پا سکے یا نہ پا سکے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٩٤، ١٧٦٧٣، ومصباح الزجاجة : ٨٤٩) (صحیح )
اچھے طریقہ سے مطالبہ کرنا اور حق لینے میں برائی سے بچنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صاحب حق سے فرمایا : شریفانہ انداز سے اپنا حق لو خواہ پورا ملے یا نہ ملے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٨٧، ومصباح الزجاجة : ٨٥٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں عفاف کا لفظ آیا ہے، مطلب یہ ہے کہ صاحب حق اچھے ڈھنگ اور شریفانہ طور طریقے سے قرض کا مطالبہ کرے، نرمی اور شفقت کا لحاظ رکھے، خلاف شرع سختی نہ کرے، اور گالی گلوچ نہ بکے یا وہی مال لے جو حلال ہے، حرام مال سے اپنا قرض پورا نہ کرے۔
عمدگی سے ادا کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں بہتر وہ ہے یا بہتر لوگوں میں سے وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٥ (٢٣٠٥) ، ٦ (٢٣٠٦) ، الاستقراض ٤ (٢٣٩٠) ، ٦ (٢٣٩٢) ، ٧ (٢٣٩٣) ، ١٣ (٢٤٠١) ، الھبة ٢٣ (٢٦٠٦) ، ٢٥ (٢٦٠٩) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٢ (١٦٠١) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٥ (١٣١٦، ١٣١٧) ، سنن النسائی/البیوع ٦٢ (٤٦٢٢) ، ١٠١ (٤٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٣٧٣، ٣٩٣، ٤١٦، ٤٣١، ٤٥٦، ٤٧٦، ٥٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قرض کا اچھی طرح ادا کرنا یہ ہے کہ قرض کے مال سے اچھا مال دے یا کچھ زائد دے یا قرض خواہ کا شکریہ ادا کرے، قرض میں زائد ادا کرنا مستحب ہے اور یہ منع نہیں ہے، منع وہ قرض ہے جس میں زیادہ دینے کی شرط ہو اور وہ سود ہے۔
عمدگی سے ادا کرنا
عبداللہ بن ابی ربیعہ مخزومی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ حنین کے موقع پر ان سے تیس یا چالیس ہزار قرض لیا، پھر جب حنین سے واپس آئے تو قرض ادا کیا، اور آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ تیرے اہل و عیال اور مال و دولت میں برکت دے، قرض کا بدلہ اس کو پورا کا پورا چکانا، اور قرض دینے والے کا شکریہ ادا کرنا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإستقراض ٩٥ (٤٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦) (حسن) (سند میں ابراہیم بن عبداللہ کے حالات غیر معروف ہیں، شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإراوء : ١٣٨٨ )
عمدگی سے ادا کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ سے اپنا قرض یا حق مانگنے آیا، اور کچھ (نامناسب) الفاظ کہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی طرف بڑھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں، رہنے دو ، قرض خواہ کو مقروض پر غلبہ اور برتری رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اسے ادا کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣١، ومصباح الزجاجة : ٨٥١) (ضعیف جدا) (حنش کے بارے میں بخاری نے کہا کہ اس کی احادیث بہت زیادہ منکر ہیں، اس حدیث کو لکھا نہیں جائے گا، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣١٨ )
عمدگی سے ادا کرنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ سے اپنے قرض کا مطالبہ کرنے کے لیے آیا، اور اس نے آپ ﷺ سے سختی سے مطالبہ کیا، اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں آپ کو تنگ کروں گا، نہیں تو میرا قرض ادا کر دیجئیے (یہ سن کر) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کو جھڑکا اور کہا : افسوس ہے تجھ پر، تجھے معلوم ہے کہ تو کس سے بات کر رہا ہے ؟ وہ بولا : میں اپنے حق کا مطالبہ کر رہا ہوں، نبی اکرم ﷺ نے (صحابہ کرام سے) فرمایا : تم صاحب حق کی طرف داری کیوں نہیں کرتے پھر آپ ﷺ نے خولہ بنت قیس کے پاس ایک آدمی بھیجا، اور ان کو کہلوایا کہ اگر تمہارے پاس کھجوریں ہوں تو ہمیں اتنی مدت تک کے لیے قرض دے دو کہ ہماری کھجوریں آجائیں، تو ہم تمہیں ادا کردیں گے ، انہوں نے کہا : ہاں، میرے باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ کے رسول ! میرے پاس ہے، اور انہوں نے آپ کو قرض دے دیا، آپ ﷺ نے اس سے اعرابی کا قرض ادا کردیا، اور اس کو کھانا بھی کھلایا، وہ بولا : آپ نے میرا حق پورا ادا کردیا، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا دے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہی بہتر لوگ ہیں، اور کبھی وہ امت پاک اور مقدس نہ ہوگی جس میں کمزور بغیر پریشان ہوئے اپنا حق نہ لے سکے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٢١، ومصباح الزجاجة : ٨٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ آپ ﷺ کا کیا عدل و انصاف تھا، اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہ فرمایا کہ تم قرض خواہ کی مدد کرو، میری رعایت کیوں کرتے ہو، حق کا خیال اس سے زیادہ کیا ہوگا، آپ ﷺ کی نبوت کی یہ ایک کھلی دلیل ہے، نبی کے علاوہ دوسرے سے ایسا عدل و انصاف ہونا ممکن نہیں ہے، دوسری روایت میں ہے کہ پھر وہ گنوار جو کافر تھا مسلمان ہوگیا، اور کہنے لگا : میں نے آپ ﷺ سے زیادہ صابر نہیں دیکھا۔
قرض کی وجہ سے قید کرنا اور قرض دار کا پیچھا نہ چھوڑنا اس کے ساتھ رہنا۔
شرید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو قرض ادا کرسکتا ہو اس کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت کو حلال کردیتا ہے، اور اس کو سزا (عقوبت) پہنچانا جائز ہوجاتا ہے ۔ علی طنافسی کہتے ہیں : عزت حلال ہونے کا مطلب ہے کہ قرض خواہ اس کے نادہند ہونے کی شکایت لوگوں سے کرسکتا ہے، اور عقوبت پہنچانے کے معنیٰ اس کو قید میں ڈال دینے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢٩ (٣٦٢٨) ، سنن النسائی/البیوع ٩٨ (٤٦٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٢، ٣٨٨، ٣٨٩) (حسن) (سند میں محمد بن میمون مجہول راوی ہیں، جن سے وبر طائفی کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٤٣٤ )
قرض کی وجہ سے قید کرنا اور قرض دار کا پیچھا نہ چھوڑنا اس کے ساتھ رہنا۔
ہرماس بن حبیب اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے قرض دار کو لے کر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے پیچھے لگے رہو ، پھر آپ شام کو میرے پاس سے گزرے تو فرمایا : اے بنی تمیم کے بھائی ! تمہارا قیدی کہاں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٢٩ (٣٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٤) (ضعیف) (ہرماس بن حبیب اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں )
قرض کی وجہ سے قید کرنا اور قرض دار کا پیچھا نہ چھوڑنا اس کے ساتھ رہنا۔
کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں اونچی ہوگئیں، اور رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو آپ گھر سے نکل کر ان کے پاس آئے، اور کعب (رض) کو آواز دی، تو وہ بولے : حاضر ہوں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے قرض میں سے اتنا چھوڑ دو ، اور اپنے ہاتھ سے آدھے کا اشارہ کیا، تو وہ بولے : میں نے چھوڑ دیا، آپ ﷺ نے ابن ابی حدرد (رض) سے فرمایا : اٹھو، جاؤ ان کا قرض ادا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧١ (٤٥٧) ، ٨٣ (٤٧١) والخصومات ٤ (٢٤١٨) ، ٩ (٢٤٢٤) ، الصلح ١٠ (٢٧٠٦) ، ١٤ (٢٧١٠) ، صحیح مسلم/المسافاة ٢٥ (١٥٥٨) ، سنن ابی داود/الأقضیة ١٢ (٣٥٩٥) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٢١ (٥٤١٠) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٤، ٤٦٠، ٦/٣٨٦، ٣٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٩ (٢٦٢٩) (صحیح )
قرض دینے کی فضیلت
قیس بن رومی کہتے ہیں کہ سلیمان بن اذنان نے علقمہ کو ان کی تنخواہ ملنے تک کے لیے ایک ہزار درہم قرض دے رکھا تھا، جب ان کی تنخواہ ملی تو سلیمان نے ان سے اپنے قرض کا تقاضا کیا، اور ان پر سختی کی، تو علقمہ نے اسے ادا کردیا، لیکن ایسا لگا کہ علقمہ ناراض ہیں، پھر کچھ مہینے گزرے تو پھر وہ سلیمان بن اذنان کے پاس آئے، اور کہا : میری تنخواہ ملنے تک مجھے ایک ہزار درہم کا پھر قرض دے دیجئیے، وہ بولے : ہاں، لے لو، یہ میرے لیے عزت کی بات ہے، اور ام عتبہ کو پکار کر کہا : وہ مہر بند تھیلی لے آؤ جو تمہارے پاس ہے، وہ اسے لے آئیں، تو انہوں نے کہا : دیکھو اللہ کی قسم ! یہ تو وہی درہم ہیں جو تم نے مجھے ادا کئے تھے، میں نے اس میں سے ایک درہم بھی ادھر ادھر نہیں کیا ہے، علقمہ بولے : تمہارے باپ عظیم ہیں پھر تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا ؟ ١ ؎ وہ بولے : اس حدیث کی وجہ سے جو میں نے آپ سے سنی تھی، انہوں نے پوچھا : تم نے مجھ سے کیا سنا تھا ؟ وہ بولے : میں نے آپ سے سنا تھا، آپ ابن مسعود (رض) سے روایت کر رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : کوئی مسلمان ایسا نہیں جو کسی مسلمان کو دو بار قرض دے، مگر اس کو ایک بار اتنے ہی مال کے صدقے کا ثواب ملے گا ، علقمہ نے کہا : ہاں، مجھے ابن مسعود (رض) نے ایسے ہی خبر دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٧٥، ومصباح الزجاجة : ٨٥٣) (ضعیف) (سند میں قیس بن رومی مجہول، اور سلیمان بن یسیر ضعیف ہیں، اس لئے یہ ضعیف ہے، مرفوع حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٣٨٩ ) وضاحت : ١ ؎: یہ تعریفی کلمہ ہے۔ یعنی جب تمہیں ان کی ضرورت نہیں تھی تو پھر تم نے مجھ سے اتنی سختی سے کیوں مطالبہ کیا تھا۔ تو ہر بار قرض میں آدھے صدقہ کا ثواب ہے، دوبارہ قرض دے تو گویا اتنا کل مال صدقہ دیا۔ اسی وجہ سے سلیمان نے سخت تقاضا کر کے اپنا قرض وصول کرلیا تاکہ علقمہ کو دوبارہ قرض لینے کی ضرورت ہو اور ان کا ثواب زیادہ ہو، سبحان اللہ، اگلے لوگ ثواب کے کیسے حریص اور طالب تھے، آگے حدیث میں ہے کہ قرض میں صدقہ سے زیادہ ثواب ہے، یہ حدیث بظاہر اس کے مخالف ہے اور ممکن ہے کہ یہ حدیث مطلق قرض میں ہو اور وہ اس قرض میں جس میں مقروض سے تقاضا نہ کرے یا جو سخت ضرورت کے وقت دے۔ واللہ اعلم۔
قرض دینے کی فضیلت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے، اور قرض کا اٹھارہ گنا، میں نے کہا : جبرائیل ! کیا بات ہے ؟ قرض صدقہ سے افضل کیسے ہے ؟ تو کہا : اس لیے کہ سائل سوال کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کھانے کو ہوتا ہے، اور قرض لینے والا قرض اس وقت تک نہیں مانگتا جب تک اس کو واقعی ضرورت نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٣، ومصباح الزجاجة : ٨٥٤) (ضعیف جدا) (خالد بن یزید متروک ہے، یحییٰ بن معین نے تکذیب کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : ٣٦٣٧ )
قرض دینے کی فضیلت
یحییٰ بن ابی اسحاق ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : ہم میں سے ایک شخص اپنے مسلمان بھائی کو مال قرض دیتا ہے، پھر قرض لینے والا اس کو تحفہ بھیجتا ہے تو یہ عمل کیسا ہے ؟ کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : تم میں سے جب کوئی کسی کو قرض دے، پھر وہ اس کو تحفہ دے یا اسے اپنے جانور پر سوار کرے، تو وہ سوار نہ ہو اور نہ تحفہ قبول کرے، ہاں، اگر ان کے درمیان پہلے سے ایسا ہوتا رہا ہو تو ٹھیک ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٥، ومصباح الزجاجة : ٨٥٥) (ضعیف) (سند میں عتبہ بن حمید الضبی ضعیف ہیں، اور یحییٰ بن أبی اسحاق الہنائی مجہول الحال، تراجع الألبانی : رقم : ٣٢٩ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قرض دینے سے پہلے بھی اس کے پاس سے تحفہ آیا کرتا ہو، یا وہ سواری دیا کرتا ہو تو اب بھی اس کا قبول کرنا درست ہے اور جو قرض سے پہلے اس کی عادت نہ تھی تو یقیناً اس کا سبب قرض ہوگا اور ہماری شریعت میں قرض دے کر منفعت اٹھانا درست نہیں، اور بخاری نے تاریخ میں انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی کسی کو قرض دے تو اس کا تحفہ نہ لے، اور بیہقی نے سنن کبری میں ابن مسعود، ابی بن کعب، عبد اللہ بن سلام اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ ان سبھوں نے کہا : جس قرض سے منفعت ہو وہ سود ہے یعنی سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، ان سب احادیث و آثار سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے زمانہ میں جو قرض دے کر اس پر شرح فیصد سے منفعت کی شرط ٹھہراتے ہیں مثلاً سات روپیہ فی صد یا دس روپیہ فی صد، یہ ربا (سود) ہے اور حرام ہے، اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے اور اس صورت میں بینک اور دوسرے کاروباری ادارے جو سودی نظام چلاتے ہیں ان سے سودی تعامل اور کاروبار بالکل حرام ہے۔
میت کی جانب سے دین ادا کرنا
سعد بن اطول (رض) کہتے ہیں کہ ان کے بھائی وفات پا گئے، اور (ترکہ میں) تین سو درہم اور بال بچے چھوڑے، میں نے چاہا کہ ان درہموں کو ان کے بال بچوں پر صرف کروں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارا بھائی اپنے قرض کے بدلے قید ہے، اس کا قرض ادا کرو ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے ان کی طرف سے سارے قرض ادا کر دئیے ہیں، سوائے ان دو درہموں کے جن کا دعویٰ ایک عورت نے کیا ہے، اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو بھی ادا کر دو اس لیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٣، ومصباح الزجاجة : ٨٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٦، ٥/٧) (صحیح )
میت کی جانب سے دین ادا کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے والد وفات پا گئے، اور اپنے اوپر ایک یہودی کے تیس وسق کھجور قرض چھوڑ گئے، جابر (رض) نے اس یہودی سے مہلت مانگی لیکن اس نے انہیں مہلت دینے سے انکار کردیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اس سے اس کی سفارش کردیں، رسول اللہ ﷺ اس کے پاس گئے اور آپ نے اس سے بات کی کہ وہ ان کھجوروں کو جو ان کے درخت پر ہیں اپنے قرض کے بدلہ لے لے، لیکن وہ نہیں مانا، پھر آپ ﷺ نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ انہیں مہلت دینے پر بھی راضی نہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ ان درختوں کے پاس تشریف لے گئے، اور ان کے درمیان چلے پھر جابر (رض) سے کہا : ان کھجوروں کو توڑ کر اس کا جو قرض ہے اسے پورا پورا ادا کر دو ، چناچہ آپ ﷺ کے واپس چلے جانے کے بعد جابر (رض) نے تیس وسق کھجور توڑی (جس سے جابر (رض) نے اس کا قرض چکایا) اور بارہ وسق کھجور بچ بھی گئی، جابر (رض) نے یہ صورت حال دیکھی تو رسول اللہ ﷺ کو بتانے آئے، لیکن آپ کو موجود نہیں پایا، جب آپ واپس تشریف لائے تو وہ پھر دوبارہ حاضر ہوئے، اور آپ کو بتایا کہ اس کا قرض پورا پورا ادا کردیا ہے، اور جو زائد کھجور بچ گئی تھی اس کی بھی خبر دی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اسے عمر بن خطاب کو بھی بتادو ، چناچہ جابر (رض) عمر (رض) کے پاس گئے، اور انہیں بھی اس کی خبر دی، یہ سن کر عمر (رض) بولے : میں اسی وقت سمجھ گیا تھا جب آپ ﷺ ان درختوں کے درمیان چلے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان میں ضرور برکت دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥١ (٢١٢٧) ، الاستقراض ٨ (٢٣٩٥) ، ٩ (٢٣٩٦) ، ١٨ (٢٤٠٥) ، الھبة ٢١ (٢٦٠١) ، الصلح ١٣ (٢٧٠٩) ، الوصایا ٣٦ (٢٧٨١) ، المناقب ٢٥ (٣٥٨٠) ، المغازي ١٨ (٤٠٥٣) ، سنن ابی داود/الوصایا ١٧ (٢٨٨٤) ، سنن النسائی/الوصایا ٤ (٣٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نبی کریم ﷺ کا ایک کھلا معجزہ تھا، عربوں کو کھجور کے تخمینہ میں بڑا تجربہ ہوتا ہے، اگر وہ کھجور تیس وسق سے زیادہ بلکہ تیس وسق بھی ہوتی تو جابر (رض) اتنا نہ گھبراتے، نہ نبی کریم ﷺ سے اس یہودی کے پاس سفارش کراتے، نہ وہ یہودی سارے باغ کی کھجور اپنے قرضہ کے عوض میں لینے سے انکار کرتا، وہ کھجوریں تیس وسق سے بہت کم تھیں، نبی کریم ﷺ کی دعا سے اس میں ایسی برکت ہوئی کہ سارا قرض ادا ہوگیا اور بارہ وسق کھجور بھی مزید بچ گئی، اس قسم کے معجزات نبی کریم ﷺ کی دعا سے کئی مقامات پر ظاہر ہوئے ہیں کہ تھوڑا سا کھانا یا پانی بہت سے آدمیوں کے لیے کافی ہوگیا۔
تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی مقروض ہوجائے تو اللہ اس کا قرضہ ادا کریں گے۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرض دار جب مقروض مرجائے تو قیامت کے دن اس کے قرض کی ادائیگی اس سے ضرور کرائی جائے گی سوائے اس کے کہ اس نے تین باتوں میں سے کسی کے لیے قرض لیا ہو، ایک وہ جس کی طاقت جہاد میں کمزور پڑجائے تو وہ قرض لے کر اپنی طاقت بڑھائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اور اپنے دشمن سے جہاد کے قابل ہوجائے، دوسرا وہ شخص جس کے پاس کوئی مسلمان مرجائے اور اس کے پاس اس کے کفن دفن کے لیے سوائے قرض کے کوئی چارہ نہ ہو، تیسرا وہ شخص، جو تجرد (بغیر شادی کے رہنے) سے اپنے نفس پر ڈرے، اور اپنے دین کو مبتلائے آفت ہونے کے اندیشے سے قرض لے کر نکاح کرے، تو اللہ تعالیٰ ان تینوں کا قرض قیامت کے دن ادا کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٠٤، ومصباح الزجاجة : ٨٥٧) (ضعیف) (سند میں رشدین ضعیف ہیں لیکن ان کی متابعت کئی راویوں نے کی ہے، اور ابن انعم عبد الرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٤٨٣ )