18. گروی رکھنے کا بیان
گروی رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ایک مقررہ مدت کے لیے غلہ قرض پر خریدا، اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھ دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٤ (٢٠٦٨) ، ٣٣ (٢٠٩٦) ، ٨٨ (٢٢٠٠) ، السلم ٥ (٢٢٥١) ، ٦ (٢٢٥٢) ، الاستقراض ١ (٢٣٨٦) ، الرھن ٢ (٢٥٠٩) ، ٥ (٢٥١٣) ، الجہاد ٨٩ (٢٩١٦) ، المغازي ٨٦ (٤٤٦٧) ، صحیح مسلم/البیوع ٤٥ (١٦٠٣) ، سنن النسائی/البیوع ٥٦ (٤٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٢، ١٦٠، ٢٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رہن کہتے ہیں گروی رکھنے کو یعنی کوئی چیز کسی کے پاس بطور ضمانت رکھ کر اس سے قرض لینا، گروی رکھنے والے کو راہن اور گروی رکھ کر قرض دینے والے کو مرتہن اور جو چیز گروی رکھی جائے اس کو رہن یا مرہون کہتے ہیں۔
گروی رکھنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دی، اور اس سے اپنے گھر والوں کے لیے جو لیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٤ (٢٠٦٩) ، الرھن ١ (٢٥٠٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٧ (١٢١٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥٧ (٤٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٣، ٢٠٨، ٢٣٢) (صحیح )
گروی رکھنا
اسماء بنت یزید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس کچھ غلے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٤، ومصباح الزجاجة : ٨٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥٣، ٤٥٧) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے )
گروی رکھنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٧ (١٢١٤) ، سنن النسائی/البیوع ٨١ (٤٦٥٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٤ (٢٦٢٤) ، مسند احمد (١/٢٣٦، ٣٠٠، ٣٠١، ٣٦١) (حسن صحیح )
گروی کے جانور پر سواری کی جاسکتی ہے اور اس کا دودھ پیا جاسکتا ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جانور پر سواری کی جائے گی جب وہ اس کے ذمہ گروی ہو، اور دودھ والے جانور کا دودھ پیا جائے گا جب وہ گروی ہو، اور جو سواری کرے یا دودھ پیئے اس جانور کی خوراک کا خرچ ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرہن ٤ (٢٥١١) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٨ (٣٥٢٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٣١ (١٢٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٨، ٤٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ مرتہن کو شرعی طور پر گروی جانور کے دودھ پینے اور سواری کرنے کا حق حاصل ہے، راہن سے اس سلسلے میں اسے اجازت کی ضرورت نہیں، البتہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ جانور پر خرچ اور منافع کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف سے کام لے، واضح رہے کہ اس قسم کے منافع کو سود سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک استثنائی شکل ہے۔
رہن روکانہ جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہن روکا نہیں جاسکتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣١١٣، ومصباح الزجاجة : ٨٥٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ١٠ (١٣) (ضعیف) (سند میں محمد بن حمید الرازی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٥ / ٢٤٢ و ١٤٠٨ ) وضاحت : ١ ؎: زمانہ جاہلیت سے یہ دستور چلا آ رہا تھا کہ راہن اگر وقت مقررہ پر قرض کی ادائیگی سے قاصر رہا، تو اس کا گروی مال ڈوب جاتا تھا، اسلام نے اس ظالمانہ نظام کی تردید کی، اور اسے مرتہن کے پاس امانت قرار دے کر راہن کی ملکیت میں برقرار رکھا، اور راہن کو حکم دیا کہ قرض کی ادائیگی کے لئے بھر پور کوشش کرے، کوشش کے باوجود اگر وہ قرض ادا نہ کرسکے تو مرہون (رہن میں رکھی چیز کو) بیچ کر قرض پورا کرنے اور بقیہ مال راہن کو لوٹا دینے کا حکم دیا۔
مزدوروں کی مزدوری
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن ان کا مدمقابل میں ہوں گا، اور جس کا میں قیامت کے دن مدمقابل ہوں گا اس پر غالب آؤں گا، ایک وہ جو مجھ سے عہد کرے پھر بدعہدی کرے، دوسرے وہ جو کسی آزاد کو پکڑ کر بیچ دے پھر اس کی قیمت کھائے، اور تیسرے وہ جو کسی کو مزدور رکھے اور اس سے پورا کام لے اور اس کی اجرت نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٠٦ (٢٢٢٧) ، الإجارة ١٠ (٢٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٨) (صحیح) (ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٢٨٧ )
مزدوروں کی مزدوری
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٣٦، ومصباح الزجاجة : ٨٦٠) (صحیح) (سند میں عبد الرحمن بن زید ضعیف راوی ہیں، اور وہب بن سعید یہ عبد الوہاب بن سعید صدوق ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ کام ختم ہوتے ہی اس کی اجرت دے دو ، یہ نہیں کہ اجرت دینے میں حیلہ کرو اور کام لے لو۔
پیٹ کی روٹی کے بدلہ مزدور رکھنا
عتبہ بن ندر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو آپ نے سورة طسم پڑھی، جب موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ پر پہنچے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو عفت و پاک دامنی اور خوراک کے عوض آٹھ یا دس سال تک مزدور بنایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٩، ومصباح الزجاجة : ٨٦١) (ضعیف جدا) (بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور مسلمہ بن علی منکرالحدیث ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٤٨٨ ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث ضعیف ہے، اور یہ معلوم ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے بھاگ کر مدین میں پہنچے تو وہاں شعیب (علیہ السلام) کے نوکر ہوئے، اقرار یہ تھا کہ آٹھ یا دس برس تک عفت کے ساتھ ان کی خدمت کریں اور کھانا پیٹ بھر کھائیں، مدت کے بعد ایک بیٹی کا نکاح ان سے کردیا جائے یہ قصہ قرآن شریف میں تفصیل سے مذکور ہے۔
پیٹ کی روٹی کے بدلہ مزدور رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میری پرورش یتیمی کی حالت میں ہوئی، اور ہجرت کرنے کے وقت میں مسکین تھا، اور غزوان کی بیٹی کا صرف خوراک کی اور باری باری اونٹ پر چڑھنے کے عوض مزدور تھا، جب وہ لوگ ٹھہرتے تو میں ان کے لیے لکڑیاں چنتا، اور جب وہ سوار ہوتے تو میں ان کے اونٹوں کی حدی خوانی کرتا، تو شکر ہے اللہ کا جس نے دین کو مضبوط کیا، اور ابوہریرہ کو امام بنایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٩٥، ومصباح الزجاجة : ٨٦٢) (ضعیف) (حیان بن بسطام ضعیف راوی ہیں )
ایک کھجور کے بدلے ایک ڈول کھینچنا اور عمدہ کھجور کی شرط ٹھہرانا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو ایک بار بھوک لگی یہ خبر علی (رض) کو پہنچی، تو وہ کام کی تلاش میں نکلے جسے کر کے کچھ پائیں تو لے کر آئیں تاکہ اسے رسول اللہ ﷺ کو کھلا سکیں، چناچہ وہ ایک یہودی کے باغ میں آئے، اور اس کے لیے سترہ ڈول پانی کھینچا، ہر ڈول ایک کھجور کے بدلے، یہودی نے ان کو اختیار دیا کہ وہ اس کی کھجوروں میں سے سترہ عجوہ کھجوریں چن لیں، وہ انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٢، ومصباح الزجاجة : ٨٦٣) (ضعیف جدا) (سند میں حنش حسین بن قیس الرحبی) متروک الحدیث ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٥ /٣١٤ )
ایک کھجور کے بدلے ایک ڈول کھینچنا اور عمدہ کھجور کی شرط ٹھہرانا
علی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک کھجور کے بدلے ایک ڈول پانی نکالتا تھا، اور یہ شرط لگا لیتا تھا کہ وہ کھجور خشک اور عمدہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٥، ومصباح الزجاجة : ٨٦٤) (حسن) (سند میں ابواسحاق مدلس و مختلط راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٥ / ٣١٤- ٣١٥ تحت رقم : ٩١ ١٤ )
ایک کھجور کے بدلے ایک ڈول کھینچنا اور عمدہ کھجور کی شرط ٹھہرانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا وجہ ہے کہ میں آپ کا رنگ بدلا ہوا پاتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بھوک سے ، یہ سن کر انصاری اپنے گھر گئے، وہاں انہیں کچھ نہ ملا، پھر کوئی کام ڈھونڈنے نکلے، تو دیکھا کہ ایک یہودی اپنے کھجور کے درختوں کو پانی دے رہا ہے، انصاری نے یہودی سے کہا : میں تمہارے درختوں کو سینچ دوں ؟ اس نے کہا : ہاں، سینچ دو ، کہا : ہر ڈول کے بدلے ایک کھجور لوں گا، اور انصاری نے یہ شرط بھی لگا لی کہ کالی، سوکھی اور خراب کھجوریں نہیں لوں گا، صرف اچھی ہی لوں گا، اس طرح انہوں نے دو صاع کے قریب کھجوریں حاصل کیں، اور انہیں لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٣٥، ومصباح الزجاجة : ٨٦٥) (ضعیف جدا) (سند میں عبداللہ بن سعید بن کیسان متہم بالکذب ہے )
تہائی یا چوتھائی پیدوار کے عوض بٹائی پر دینا
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ بیع و مزابنہ سے منع کیا، اور فرمایا : کھیتی تین آدمی کریں : ایک وہ جس کی خود زمین ہو، وہ اپنی زمین میں کھیتی کرے، دوسرے وہ جس کو زمین (ہبہ یا مستعار) دی گئی ہو، تو وہ اس دی گئی زمین میں کھیتی کرے، تیسرے وہ جو سونا یا چاندی (نقد) دے کر زمین ٹھیکے پر لے لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٤٠٠) ، سنن النسائی/المزراعة ٢ (٣٩٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ (٢٣٤٠) ، الھبة ٣٥ (٢٦٣٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٤٧) ، موطا امام مالک/کراء الارض ١ (١) ، مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٠٤، ٣٥٤، ٣٦٣، ٤٦٤، ٤٦٥، ٤٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں محاقلہ سے مراد مزارعت (بٹائی) ہی ہے، اور اس کی ممانعت کا معاملہ اخلاقاً ہے نہ کہ بطور حرمت، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں نبی اکرم ﷺ نے نہ یہ کہ اس کی اجازت دی، بلکہ خود اہل خیبر سے بٹائی پر معاملہ کیا جیسا کہ باب النخيل والکرم میں آئے گا۔
تہائی یا چوتھائی پیدوار کے عوض بٹائی پر دینا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم مزارعت (بٹائی کھیتی) کیا کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم نے رافع بن خدیج (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو پھر ہم نے ان کے کہنے سے اسے چھوڑ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٢١ (١٥٤٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٨٩) ، سنن النسائی/المزراعة ٢ (٣٩٢٧، ٣٩٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٤، ٢/١١، ٣/٤٦٣) ، ٤٦٥، ٤/١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عباس (رض) وغیرہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی، یعنی خلاف اولیٰ تھی، تحریمی نہیں کیونکہ آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اپنے مسلمان بھائی کو کھیتی کے لئے مفت زمین دینی چاہیے، اسے بٹائی پر دینا کیا ضروری ہے، چونکہ عرب میں زمین کی کمی نہیں، پس جس قدر اپنے سے ہو سکے اس میں خود زراعت کرے، اور جو بچ رہے وہ اپنے مسلمان بھائی کو عاریت کے طور پردے دے تاکہ ثواب حاصل ہو۔
تہائی یا چوتھائی پیدوار کے عوض بٹائی پر دینا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس زائد زمینیں تھیں، جنہیں وہ تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دیا کرتے تھے، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس زائد زمینیں ہوں تو ان میں وہ یا تو خود کھیتی کرے یا اپنے بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے، اگر یہ دونوں نہ کرے تو اپنی زمین اپنے پاس ہی روکے رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ (٢٣٤٠) ، الہبة ٣٥ (٢٦٣٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٣٦) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٠٤، ٣١٢، ٣٥٤، ٣٦٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٧٢ (٢٦٥٧) (صحیح )
تہائی یا چوتھائی پیدوار کے عوض بٹائی پر دینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس زمین ہو وہ خود کھیتی کرے یا اپنے بھائی کو (مفت) دیدے، ورنہ اپنی زمین اپنے پاس ہی روکے رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ (٢٣٤١) ، صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس مفہوم کی احادیث کو ابتدائے اسلام کے احکام پر محمول کیا جائے، کیونکہ سونے اور چاندی کے عوض تو کرایہ پر زمین دینا بالاتفاق جائز ہے جبکہ ان میں اس کی بھی ممانعت ہے۔
زمین اجرت پر دینا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ اپنی زمین کرایہ پر کھیتی کے لیے دیا کرتے تھے، ان کے پاس ایک شخص آیا اور انہیں رافع بن خدیج (رض) والی حدیث کی خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے کھیتوں کو کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے، یہ سن کر ابن عمر (رض) چلے اور میں بھی ان کے ساتھ چلا یہاں تک کہ بلاط میں رافع (رض) کے پاس آئے، اور ان سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھیتوں کو کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے، اس پر عبداللہ بن عمر (رض) نے ان زمینوں کو کرایہ پر دینا چھوڑ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ٢٢ (٢٢٨٥) ، الحرث ١٨ (٢٣٤٥) ، صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٤٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٩٤) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/کراء الأرض ١ (٣) ، مسند احمد (١/٢٣٤، ٤/١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلاط : مسجد نبوی کے پاس ایک مقام کا نام ہے۔ یہ رافع بن خدیج (رض) کی اگلی حدیث کے خلاف ہے، اس میں بٹائی سے منع کیا ہے، لیکن سونے چاندی کے بدلے زمین کا کرایہ پر دینا درست بیان ہوا ہے، اور اس روایت میں مطلقاً کرایہ پر دینے سے ممانعت ہے اسی واسطے اہل حدیث نے رافع (رض) کی حدیث کو ترک کیا کیونکہ وہ مضطرب ہے۔
زمین اجرت پر دینا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا : جس کے پاس زمین ہو وہ اس میں خود کھیتی کرے، یا کسی کو کھیتی کے لیے دیدے، لیکن کرائے پر نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٣٦) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ (٢٣٤٠) ، الھبة ٣٥ (٢٦٣٢) ، مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٠٤، ٣١٢، ٣٥٤، ٣٦٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٧٢ (٢٦٥٧) (صحیح )
زمین اجرت پر دینا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ سے منع کیا ہے، اور محاقلہ زمین کو کرایہ پر دینا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨١ (٢١٨٦) ، صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٣ (٢٤) ، مسند احمد (٣/٦، ٨، ٦٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٣ (٢٥٩٩) (صحیح )
خالی زمین کو سونے چاندی کے عوض کریہ پر دینے کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب انہوں نے سنا کہ لوگ زمین کو کرائیے پر دینے کے سلسلے میں کثرت سے گفتگو کر رہے ہیں، تو سبحان اللہ کہہ کر تعجب کا اظہار کیا، اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے تو یوں فرمایا تھا : تم میں سے کسی نے اپنے بھائی کو زمین مفت کیوں نہیں دے دی آپ ﷺ نے اسے کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث والمزارعة ١٠ (٢٣٣٠) ، الھبة ٣٥ (٢٦٣٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٢١ (١٥٥٠) ، سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٨٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ٤٢ (١٣٨٥) ، سنن النسائی/المزراعة ٢ (٣٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٤، ٢٨١، ٣٤٩) ، (٢٣٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رافع (رض) کو حدیث کا مطلب سمجھنے میں دھوکہ ہوا۔
خالی زمین کو سونے چاندی کے عوض کریہ پر دینے کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنی زمین اپنے بھائی کو مفت دے تو یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ اس سے اتنی اور اتنی یعنی کوئی متعین رقم لے۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہی حقل ہے، اور انصار کی زبان میں اس کو محاقلہ کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٢١ ١٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٣) (صحیح )
خالی زمین کو سونے چاندی کے عوض کریہ پر دینے کی اجازت
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم زمین کو اس شرط پر کرایہ پر دیتے تھے کہ فلاں جگہ کی پیداوار میری ہوگی، اور فلاں جگہ کی تمہاری، تو ہم کو پیداوار پر زمین کرائے پر دینے سے منع کردیا گیا، البتہ چاندی کے بدلے یعنی نقد کرائے پر دینے سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٧ (٢٣٢٧) ، ١٢ (٢٣٣٢) ، ١٩ (٢٣٤٦) ، الشروط ٧، (٢٧٢٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٩ (١٥٤٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٩٢، ٣٣٩٣) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٣٠، ٣٩٣١، ٣٩٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/کراء الارض ١ (١) ، مسند احمد (٤/١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس قسم کی شرط بٹائی کی زمین میں درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں اس بات کا خطرہ ہے کہ کسی قطعہ زمین کی پیداوار خوب ہوا، اور دوسرے قطعہ میں کچھ پیدا نہ ہو، دراصل اسی قسم کی بٹائی سے رسول اکرم ﷺ نے منع فرمایا تھا، صحابی رسول رافع بن خدیج (رض) نے اس سے مطلق بٹائی کی ممانعت سمجھ لی۔
جو مزارعت مکروہ ہے۔
رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا ظہیر (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک ایسے کام سے جو ہمارے لیے مفید تھا منع فرمایا، رافع (رض) کہتے ہیں کہ، تو میں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا ہے وہی حق ہے، کہا : رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : تم اپنے کھیتوں کو کیا کرتے ہو ؟ تو ہم نے عرض کیا : ہم اسے تہائی اور چوتھائی پیداوار پر اور گیہوں یا جو کے چند وسق پر کرائے پر دیتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کرو، تم یا تو خود اس میں کھیتی کرو یا دوسرے کو کھیتی کرنے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ (٢٣٣٩) ، صحیح مسلم/البیوع ١٨ (٥٤٨) ، سنن النسائی/الأیمان المزراعة ٢ (٣٩٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/کراء الأرض ١ (٣) (صحیح )
جو مزارعت مکروہ ہے۔
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ کسی کو زمین کی حاجت نہیں ہوتی تھی تو اسے تہائی یا چوتھائی یا آدھے کی بٹائی پردے دیتا، اور تین شرطیں لگاتا کہ نالیوں کے قریب والی زمین کی پیداوار، صفائی کے بعد بالیوں میں بچ جانے والا غلہ اور فصل ربیع کے پانی سے جو پیداوار ہوگی وہ میں لوں گا، اس وقت لوگوں کی گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، وہ ان میں پھاؤڑے سے اور ان طریقوں سے جن سے اللہ چاہتا محنت کرتا اور اس سے فائدہ حاصل کرتا، آخر رافع بن خدیج (رض) ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ نے تمہیں ایک کام سے جو تمہارے لیے مفید تھا منع فرما دیا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہ ﷺ تمہیں زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کرتے ہیں، اور فرماتے ہیں : جس کو اپنی زمین کی ضرورت نہ ہو وہ اسے اپنے بھائی کو مفت (بطور عطیہ) دیدے، یا اسے خالی پڑی رہنے دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٣٩٨) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٨٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/کراء الأرض ١ (١) (صحیح )
جو مزارعت مکروہ ہے۔
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) نے کہا : اللہ رافع بن خدیج (رض) کو بخشے، اللہ کی قسم ! یہ حدیث میں ان سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ ﷺ کے پاس دو شخص آئے، ان دونوں میں لڑائی ہوئی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہارا یہی حال ہے تو کھیتوں کو کرائے پہ نہ دیا کرو ، رافع (رض) نے صرف اتنا ہی سنا کہ کھیتوں کو کرائے پر نہ دیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٩٠) ، سنن النسائی/الأیمان المزارعة ٢ (٣٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٧) (صحیح) (غایة المرام : ٣٦٦۔ الإرواء : ١٤٧٨ - ١٤٧٩ ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ ممانعت اس وقت ہوگی جب لڑائی اور جھگڑے کا سبب بنے، ورنہ ملطلقاً کھیت بٹائی پر دینے سے آپ ﷺ نے نہیں روکا ہے۔
تہائی اور چوتھائی پیداوار کے عوض مزارعت کی اجازت
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے کہا : اے ابوعبدالرحمٰن ! کاش آپ اس بٹائی کو چھوڑ دیتے، اس لیے کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، تو وہ بولے : عمرو ! میں ان کی مدد کرتا ہوں، اور ان کو (زمین بٹائی پر) دیتا ہوں، اور معاذ بن جبل (رض) نے ہماری موجودگی میں لوگوں سے ایسا معاملہ کیا ہے، اور ان کے سب سے بڑے عالم یعنی ابن عباس (رض) نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع نہیں کیا، بلکہ یوں فرمایا : اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو یوں ہی بغیر کرایہ کے دیدے، تو وہ اس سے بہتر ہے کہ زمین کا ایک معین کرایہ لے ۔
تہائی اور چوتھائی پیداوار کے عوض مزارعت کی اجازت
طاؤس سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل (رض) نے رسول اللہ ﷺ ، ابوبکرو عمر اور عثمان (رض) عنہم کے عہد میں زمین کو تہائی اور چوتھائی کرائے پر دیا، اور آج تک اسی پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣١٧، ومصباح الزجاجة : ٨٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٦) (صحیح )
تہائی اور چوتھائی پیداوار کے عوض مزارعت کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تو صرف یہ فرمایا تھا : کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین یوں ہی مفت کھیتی کے لیے دیدے، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس سے کوئی معین محصول لے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث (رقم : ٢٤٥٦) (صحیح )
اناج کے بدلہ زمین اجرت پر لینا
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں محاقلہ کیا کرتے تھے، پھر ان کا خیال ہے کہ ان کے چچاؤں میں سے کوئی آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس کے پاس زمین ہو وہ اس کو متعین غلے کے بدلے کرائے پر نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٨ (١٥٤٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٣٩٥، ٣٣٩٦) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/کراء الأرض ١ (١) ، مسند احمد (٣/٤٦٤، ٤٦٥، ٤٦٦) (صحیح )
کسی قوم کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر کاشت کرنا
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی کی زمین میں بغیر اس کی اجازت کے کھیتی کرے تو اس میں سے اس کو کچھ نہیں ملے گا، البتہ اس کا خرچ دلا دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٣ (٣٤٠٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٩ (١٣٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٥، ٤/١٤١) (صحیح )
کھجور اور انگور بٹائی پر دینا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر والوں سے پھل اور غلہ کی نصف پیداوار پر (بٹائی کا) معاملہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٨ (٢٣٢٩) ، صحیح مسلم/المساقاة ١ (١٥٥١) ، سنن ابی داود/البیوع ٣٥ (٣٤٠٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٤١ (١٣٨٣) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٤٥ (٣٩٣١) ، (تحفة الأشراف : ٨١٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧، ٢٢، ٣٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٧١ (٢٦٥٦) (صحیح )
کھجور اور انگور بٹائی پر دینا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر والوں کو خیبر کی زمین اور درختوں کو نصف پیداوار کی بٹائی پر دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٨٣، ومصباح الزجاجة : ٨٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٠) (صحیح) (حکم بن عتیبہ نے مقسم سے صرف چار احایث سنی ہیں، اور محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، کما تقدم )
کھجور اور انگور بٹائی پر دینا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر کو فتح کیا، تو اسے نصف پیداوار کی بٹائی پردے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠، ومصباح الزجاجة : ٨٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٨) (صحیح) (سند میں مسلم بن کیسان کوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے حدیث صحیح ہے )
کھجور میں پیوند لگانا
طلحہ بن عبیداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھجور کے باغ میں گزرا، تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : نر کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس سے کوئی فائدہ ہوگا ، یہ خبر جب ان صحابہ کو پہنچی تو انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا، لیکن اس سے درختوں میں پھل کم آئے، پھر یہ بات نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ میرا گمان تھا، اگر اس میں فائدہ ہے تو اسے کرو، میں تو تمہی جیسا ایک آدمی ہوں گمان کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح، لیکن جو میں تم سے کہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (تو وہ غلط نہیں ہوسکتا ہے) کیونکہ میں اللہ تعالیٰ پر ہرگز جھوٹ نہیں بولوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٣٨ (٢٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٠١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٢) (صحیح )
کھجور میں پیوند لگانا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ آوازیں سنیں تو پوچھا : یہ کیسی آواز ہے ؟ لوگوں نے کہا : لوگ کھجور کے درختوں میں پیوند لگا رہے ہیں ١ ؎، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کریں تو بہتر ہوگا چناچہ اس سال ان لوگوں نے پیوند نہیں لگایا تو کھجور خراب ہوگئی، لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری دنیا کا جو کام ہو، اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٣٨ (٢٣٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٨، ١٦٨٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢٣، ١٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تأبیر یا تلقیح: نر کھجور کے شگوفے (کلی) مادہ کھجور میں ڈالنے کو تلقیح یا تأبیر کہتے ہیں، ایسا کرنے سے کھجور کے درخت خوب پھل لاتے ہیں۔
اہل اسلام تین چیزوں میں شریک
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزوں میں سارے مسلمانوں کی شرکت (ساجھے داری) ہے : پانی، گھاس اور آگ، ان کی قیمت لینا حرام ہے ١ ؎۔ ابوسعید کہتے ہیں : پانی سے مراد بہتا پانی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤١٨، ومصباح الزجاجة : ٨٦٩) (صحیح) (سند میں عبداللہ بن خراش ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، وثمنہ حرام کا جملہ شاہد نہ ہونے سے ضعیف ہے )
اہل اسلام تین چیزوں میں شریک
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جن سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا : پانی، گھاس اور آگ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٢٦، ومصباح الزجاجة : ٨٧٠) (صحیح )
اہل اسلام تین چیزوں میں شریک
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کون سی ایسی چیز ہے جس کا روکنا جائز نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پانی، نمک اور آگ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! پانی تو ہمیں معلوم ہے کہ اس کا روکنا جائز اور حلال نہیں ؟ لیکن نمک اور آگ کیوں جائز نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اے حمیراء ! ١ ؎ جس نے آگ دی گویا اس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جو اس پر پکا، اور جس نے نمک دیا گویا اس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جس کو اس نمک نے مزے دار بنایا، اور جس نے کسی مسلمان کو جہاں پانی ملتا ہے، ایک گھونٹ پانی پلایا گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا، اور جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ ایک گھونٹ پانی پلایا جہاں پانی نہ ملتا ہو گویا اس نے اس کو نئی زندگی بخشی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٢١، ومصباح الزجاجة : ٨٧١) (ضعیف) (علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٣٨٤ ) وضاحت : ١ ؎: حمیراء : حمراء کی تصغیر ہے یعنی اے گوری چٹی سرخی مائل رنگت والی۔
نہریں اور چشمے جاگیر میں دینا
ابیض بن حمال (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اس نمک کو جو نمک سدمآرب کے نام سے جانا جاتا ہے رسول اللہ ﷺ سے بطور جاگیر طلب کیا، تو آپ ﷺ نے اسے انہیں جاگیر میں دے دیا، پھر اقرع بن حابس تمیمی (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا : میں زمانہ جاہلیت میں اس نمک کی کان پر سے گزر چکا ہوں، وہ ایسی زمین میں ہے جہاں پانی نہیں ہے، جو وہاں جاتا ہے، وہاں سے نمک لے جاتا ہے، وہ بہتے پانی کی طرح ہے، جس کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوتا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے ابیض بن حمال سے نمک کی اس جاگیر کو فسخ کردینے کو کہا، ابیض (رض) نے عرض کیا : میں اس کو اس شرط پر فسخ کرتا ہوں کہ آپ ﷺ اسے میری طرف سے صدقہ کردیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اچھا وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہے اور وہ جاری پانی کے مثل ہے، جو آئے اس سے لے جائے ۔ فرج بن سعید کہتے ہیں : اور وہ آج تک ویسے ہی ہے، جو وہاں جاتا ہے اس میں سے نمک لے جاتا ہے۔ ابیض (رض) کہتے ہیں : پھر نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس جاگیر کے عوض جو آپ نے فسخ کردی تھی جرف یعنی جرف مراد (ایک مقام کا نام ہے) میں زمین اور کھجور کے کچھ درخت جاگیر کے طور پر دیے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج ٣٦ (٣٠٦٤) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٩ (١٣٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٦٦ (٢٦٥٠) (حسن )
پانی بیچنے سے ممانعت
ابومنہال کہتے ہیں کہ میں نے ایاس بن عبداللہ مزنی (رض) سے سنا، انہوں نے کچھ لوگوں کو پانی بیچتے ہوئے دیکھا تو کہا : پانی نہ بیچو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے پانی بیچنے سے منع کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٣ (٣٤٧٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٤ (١٢٧١) ، سنن النسائی/البیوع ٨٦ (٤٦٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٨، ٤١٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٩ (٢٦٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ جب ہے کہ پانی کسی قدرتی دریا یا چشمہ میں موجود ہو تو وہ کسی کی ملکیت نہیں، اس کا بیچنا ناجائز ہے، لیکن اگر کوئی پانی بھر کر لائے اور گھڑے یا مشک یا بوتل وغیرہ میں رکھے تو اس کا استعمال بغیر اس کی اجازت کے درست نہیں ہے، اور اس کا بیچنا جائز ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے عثمان (رض) کو بئر رومہ خریدنے کے لئے فرمایا، اور آپ ﷺ نے ایک عورت سے پانی لیا جو اونٹ پر لائی تھی پھر لوگوں سے اس کی قیمت دلائی۔
پانی بیچنے سے ممانعت
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زائد پانی بیچنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٨ (١٥٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٢٩) ، و قد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زائد پانی سے مراد وہ پانی ہے جو اپنی اور اہل و عیال، جانوروں اور کھیتی کی ضرورت سے زائد ہو۔
زائد پانی سے اس لئے روکنا کہ اس کے ذریعہ گھاس سے روکے منع ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ضرورت سے زائد پانی اس مقصد سے نہ روکے کہ وہاں کی گھاس بھی روکے رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المساقاة ٢ (٢٣٥٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٨ (٢٥٦٦) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٢٦ (٣٢) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٤٦٣) (صحیح )
زائد پانی سے اس لئے روکنا کہ اس کے ذریعہ گھاس سے روکے منع ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ضرورت سے زائد پانی سے اور کنوئیں میں بچے ہوئے پانی سے کسی کو نہ روکا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٦، ومصباح الزجاجة : ٨٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥٢، ٢٦٨) (صحیح) (سند میں حارثہ بن أبی الرجال ضعیف ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ کنویں سے پانی نکالنے میں اپنا نقصان نہیں اور دوسرے کا فائدہ ہے، اور اس سے کنویں کا پانی زیادہ صاف اور عمدہ ہوجاتا ہے اور اس میں اور تازہ پانی بھر آتا ہے، اور بعضوں نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ جو پانی اپنی ضرورت سے زیادہ ہو اس کا بیچنا منع ہے جب کوئی اس کو پینا چاہے یا اپنے جانوروں کو پلانا چاہے لیکن اگر باغ یا درختوں کو سینچنا چاہے تو اس کا بیچنا درست ہے، اور کنویں کا پانی بھی روکنا درست نہیں ہے اس سے جو اس کو پینا چاہے یا اپنے جانوروں کو پلانا چاہے۔
کھیت اور باغ میں پانی لینا اور پانی روکنے کی مقدار
عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ ایک انصاری ١ ؎ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس حرہ کے نالے کے سلسلے میں جس سے لوگ کھجور کے درخت سیراب کرتے تھے، (ان کے والد) زبیر (رض) سے جھگڑا کیا، انصاری کہہ رہا تھا : پانی کو چھوڑ دو کہ آگے بہتا رہے، زبیر (رض) نہیں مانے ٢ ؎ بالآخر دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس معاملہ لے گئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زبیر (پانی روک کر) اپنے درختوں کو سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو ، انصاری نے یہ سنا تو ناراض ہوگیا اور بولا : اللہ کے رسول ! وہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں نا ؟ رسول اللہ ﷺ نے یہ سنا تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : زبیر ! اپنے درختوں کو سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ وہ مینڈوں تک بھر جائے ۔ عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ زبیر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم، میں سمجھتا ہوں کہ آیت کریمہ : فلا وربک لا يؤمنون حتى يحكموک فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما (سورة النساء : 65) سو قسم ہے تیرے رب کی ! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوش نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ، اسی معاملہ میں اتری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: انصاری کا نام اطب تھا، انہوں نے ناسمجھی کی بنیاد پر نبی اکرم ﷺ کی شان میں ایسی بات کہہ دی، کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایسا گستاخانہ جملہ نبی اکرم ﷺ کی شان میں کہے تو وہ کافر ہوجائے گا، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ کافر تھا، لیکن یہ قول مرجوح ہے، واللہ اعلم ٢ ؎: کیونکہ ان کا باغ نہر کی جانب اونچائی پر تھا اور انصاری کا ڈھلان پر جس سے زبیر (رض) کے باغ سے سارا پانی بہہ کر نکل جا رہا تھا۔
کھیت اور باغ میں پانی لینا اور پانی روکنے کی مقدار
ثعلبہ بن ابی مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وادی مہزور کے نالہ کے سلسلہ میں یہ فیصلہ کیا کہ اوپری حصہ نچلے حصہ سے برتر ہے، جس کا کھیت اونچائی پر ہو، پہلے سینچ لے، اور ٹخنوں تک پانی اپنے کھیت میں بھر لے، پھر پانی کو اس شخص کے لیے چھوڑ دے جس کا کھیت نشیب (ترائی) میں ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٧٤، ومصباح الزجاجة : ٨٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأقضیة ٣١ (٣٦٣٩) (حسن صحیح) (سند میں زکریا بن منظور ضعیف، اور محمد بن عقبہ مستور راوی ہیں، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: وہ بھی اپنے کھیت میں اتنا ہی پانی بھر کر تیسرے کی طرف چھوڑ دے جو اس سے نیچے علاقہ میں ہو، اسی طرح اخیر کیفیت تک عمل کیا جائے۔
کھیت اور باغ میں پانی لینا اور پانی روکنے کی مقدار
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وادی مہزور کے نالے کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ پانی ٹخنوں تک روک لیا جائے، پھر اسے چھوڑ دیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الاقضیة ٣١ (٣٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٣٥) (حسن صحیح )
کھیت اور باغ میں پانی لینا اور پانی روکنے کی مقدار
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ کھجور کے درختوں کو نالہ سے سینچنے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ جس کا باغ اونچائی پر ہو، پہلے وہ اپنے باغ کو ٹخنوں تک پانی سے بھر لے، پھر پانی کو نیچے کی طرف جو اس کے قریب ہے اس کے لیے چھوڑ دے، اسی طرح سلسلہ بہ سلسلہ سیراب کیا جائے، یہاں تک کہ باغات سینچ کر ختم ہوجائیں یا پانی ختم ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٦، ومصباح الزجاجة : ٨٧٤) (صحیح) (سند میں اسحاق بن یحییٰ مجہول راوی ہیں، اور ان کا عبادہ (رض) سے سماع نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے )
پانی کی تقسیم
عمرو بن عوف مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب گھوڑے اپنی باری کے دن پانی پلانے کے لیے لائے جائیں تو الگ الگ لائے جائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٣، ومصباح الزجاجة : ٨٧٥) (ضعیف جدا) (سند میں عمرو بن عوف المزنی ضعیف راوی ہیں، اور کثیر بن عبد اللہ سخت ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٣٨٤ )
پانی کی تقسیم
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں جو تقسیم ہوچکی ہے وہ اسی طرح باقی رہے گی جیسی وہ ہوئی ہے، اور جو تقسیم زمانہ اسلام میں ہوئی ہے وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ١١ (٢٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٨٣) (صحیح )
کنویں کا حریم
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کنواں کھودے تو اس کے گرد چالیس ہاتھ تک کی زمین اس کی ہوگی، اس کے جانوروں کو پانی پلانے اور بٹھانے کے لیے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٥، ومصباح الزجاجة : ٨٧٦) ، سنن الدارمی/البیوع ٨٢ (٢٦٦٨) (حسن) (سند میں اسماعیل بن مسلم المکی ضعیف راوی ہیں، اور حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٥١ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کنویں کی ہر جانب چالیس ہاتھ تک اس کا علاقہ ہوگا کیونکہ عادتاً اتنی جگہ جانوروں کے لئے کافی ہوجاتی ہے، اور بعضوں نے کہا یہ جب ہے کہ کنویں کی گہرائی چالیس ہاتھ ہو اگر اس سے زیادہ ہو تو اتنے ہی ہاتھ ہر طرف جگہ ملے گی۔
کنویں کا حریم
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کنویں کی چوحدی اس کی رسی کی لمبائی کے برابر ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨٦، ومصباح الزجاجة : ٨٧٧) (ضعیف) (سند میں ثابت بن محمد ہے صحیح محمد بن ثابت ہے اور منصور بن صقیر ضعیف راوی ہیں )
درخت کا حریم
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ باغ میں کسی شخص کے ایک یا دو یا تین درخت ہوں، پھر لوگ اختلاف کریں کہ کتنی زمین پر ان کا حق ہے ؟ تو اس بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا : ہر درخت کے لیے نیچے کی اتنی زمین ہے جہاں تک اس کی ڈالیاں پھیلی ہیں، وہی اس درخت کی چوحدی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٧، ومصباح الزجاجة : ٨٧٨) (صحیح) (سند میں اسحاق بن یحییٰ مجہول ہیں، اور ان کی عبادہ (رض) سے روایت میں انقطاع ہے کیونکہ عبادہ (رض) سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے : ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٥٠ )
درخت کا حریم
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھجور کے درخت کی چوحدی اس کی ڈالیوں کی لمبائی کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٦٥، ومصباح الزجاجة : ٨٧٩) (صحیح) (سند میں ثابت بن محمد غلط ہے، صحیح محمد بن ثابت ہے، نیز منصور بن صقیر ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٥٠ )
جو جائیداد بیچے اور اس کی قیمت سے جائیداد نہ خریدے۔
سعید بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو کوئی گھر یا غیر منقولہ جائیداد بیچے اور پھر ویسی ہی جائیداد اس کی قیمت سے نہ خریدے، تو وہ اس لائق ہے کہ اس میں اس کو برکت نہ دی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٣، ومصباح الزجاجة : ٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٧، ٤/٣٠٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٨١ (٢٦٦٧) (حسن) (سند میں اسماعیل بن ابراہیم ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣٢٧ ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ یہ حدیث دنیاداروں کے لئے بڑی نصیحت ہے، نقد پیسہ ہمیشہ صرف ہوجاتا ہے کبھی چوری ہوجاتا ہے یا لٹ جاتا ہے، برخلاف جائیداد غیر منقولہ کے، تو آپ ﷺ نے جائیداد بیچنے کو مکروہ جانا جب اس کے بدل دوسری جائیداد نہ خریدے، کیونکہ نقد پیسہ رکھنے سے تو یہی بہتر تھا کہ جائیداد اپنے پاس رہنے دیتا۔ اس سند سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، تحفة الأشراف : ٤٤٥٣) (حسن )
جو جائیداد بیچے اور اس کی قیمت سے جائیداد نہ خریدے۔
حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی گھر بیچے اور پھر اس کی قیمت سے ویسا ہی دوسرا گھر نہ خریدے، تو اس میں اس کو برکت نہیں ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٩٤، ومصباح الزجاجة : ٨٨٢) (حسن) (سند میں یوسف بن میمون ضعیف راوی ہیں، لیکن یزید بن أبی خالد کی بیہقی میں متابعت سے یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ نقد پیسہ اٹھا اٹھا کر ختم کر دے گا، اور ایک رہنے کا آسرا بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔