2. پاکی کا بیان
وضو اور غسل جنابت کے لئے پانی کی مقدار کے بیان میں
سفینہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد پانی سے وضو فرماتے تھے، اور ایک صاع پانی سے غسل ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٢ (٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٤ (٩٢) ، مسند احمد (٥/٢٢٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٢ (٦٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صاع : ایک معروف شرعی پیمانہ ہے، یہاں مراد صاع نبوی یا صاع مدنی ہے، جس کا وزن موجودہ مستعمل اوزان سے تقریباً ڈھائی کلو گرام ہوتا ہے، اور مد : جو صاع نبوی کا چوتھا حصہ ہوتا ہے، جس کا وزن موجودہ مستعمل وزن سے تقریباً چھ سو پچیس ( ٦٢٥ ) گرام کے قریب ہوتا ہے۔
وضو اور غسل جنابت کے لئے پانی کی مقدار کے بیان میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد پانی سے وضو فرماتے تھے، اور ایک صاع پانی سے غسل۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہا رة ٤٤ (٩٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣ (٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢١، ٢١٨، ٢٣٤، ٢٣٨، ٢٤٩) (صحیح )
وضو اور غسل جنابت کے لئے پانی کی مقدار کے بیان میں
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد پانی سے وضو، اور ایک صاع پانی سے غسل کیا کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٠٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٣ (٢٥١) ، سنن ابی داود/الطہارة ٤٤ (٩٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤٤ (٢٣١) ، مسند احمد (٣/٢٧٠) (صحیح )
وضو اور غسل جنابت کے لئے پانی کی مقدار کے بیان میں
عقیل بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وضو میں ایک مد اور غسل میں ایک صاع پانی کافی ہے ، اس پر ایک شخص نے کہا : ہمیں اتنا پانی کافی نہیں ہوتا، تو انہوں نے کہا : تم سے بہتر ذات کو، اور تم سے زیادہ بالوں والے (یعنی نبی اکرم ﷺ ) کو کافی ہوجاتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٥، ومصباح الزجاجة : ١١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٧٠) (صحیح) (حبان بن علی اور یزید بن أبی زیاد دونوں ضعیف ہیں، اس لئے یہ سند ضعیف ہے، لیکن مد و صاع سے متعلق ٹکڑا انس (رض) کی صحیح حدیث سے ثابت ہے، اور تابعی کی اس مسئلے میں صحابی سے گفتگو جابر (رض) کی حدیث سے ثابت ہے، اس لئے ان شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٩٩١ - ٢٤٤٧ ) وضاحت : ١ ؎: عقیل بن ابی طالب (رض) نے گویا یہ بتلایا کہ ایک مد اور ایک صاع پانی کا کافی نہ ہونا دو ہی وجہ سے ہوسکتا ہے، ایک تو احتیاط اور تقوی، دوسرے بالوں کی کثرت، تو اللہ تعالیٰ کے رسول تم سے زیادہ متقی اور محتاط تھے، اور آپ ﷺ کے بال بھی تم سے زیادہ تھے، جب آپ کو اتنا پانی کافی تھا تو تم کو کافی کیوں نہیں، سوائے اس کے کہ تم شکی مزاج ہو یا وسوسہ کا شکار، کوئی اور وجہ تو ہے نہیں۔
اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں فرماتے
اسامہ بن عمیر ہذلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کوئی بھی نماز بغیر وضو کے قبول نہیں فرماتا، اور نہ چوری کے مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہا رة ٣١ (٥٩) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٤ (١٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٤، ٧٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢١ (٧١٣) (صحیح ) شعبہ سے دوسرے راویوں نے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔
اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں فرماتے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کوئی بھی نماز بغیر پاکی (وضو) کے اور کوئی بھی صدقہ چوری کے مال سے قبول نہیں کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢ (٢٢٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ١ (١) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٢٠، ٣٩، ٥١، ٥٧، ٧٣) (صحیح )
اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں فرماتے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ کوئی نماز بغیر پاکی (وضو) کے اور کوئی صدقہ چوری کے مال سے قبول نہیں فرماتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٢، ومصباح الزجاجة : ١١٢) (صحیح) (اس سند میں سنان بن سعد ضعیف اور مجہول راوی ہیں، صرف یزید بن أبی حبیب نے ان سے روایت کی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، کما تقدم، نیز محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن لیث بن سعد نے ان کی متابعت کی ہے )
اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں فرماتے
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کوئی نماز بغیر پاکی (وضو) کے اور کوئی صدقہ چوری کے مال سے قبول نہیں فرماتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٦٨، ومصباح الزجاجة : ١١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ٤٦) (صحیح) (اس سند میں خلیل بن زکریا ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے کماتقدم ) وضاحت : ١ ؎: غلول: مال غنیمت میں خیانت کو کہتے ہیں، یہاں مطلق حرام مال مراد ہے، یعنی حرام مال سے دیا ہوا صدقہ اللہ کی رضامندی کا باعث نہیں ہوتا، اور نہ اس پر ثواب ملتا ہے۔
نماز کی کنجی طہات ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز کی کنجی طہارت (وضو) ہے، اور (دوران نماز ممنوع چیزوں کو) حرام کردینے والی چیز تکبیر (تحریمہ) ہے، اور (نماز سے باہر) امور کو حلال کردینے والی چیز سلام ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣١ (٦١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣ (٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢١ (٧١٣) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣٠١ ) وضاحت : ١ ؎: تکبیر اولیٰ کہنے کے بعد وہ سارے افعال حرام ہوجاتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے نماز میں حرام قرار دیا ہے، اور سلام پھیرنے کے بعد وہ سارے افعال حلال ہوجاتے ہیں، جنہیں نماز کے باہر اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔
نماز کی کنجی طہات ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے، اور اس کی منافی چیزیں پہلی تکبیر تحریمہ سے حرام ہوجاتی ہیں، اور اس (یعنی نماز) سے باہر امور کو حلال کردینے والی چیز سلام پھیرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلا ة ٦٢ (٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٥٧) (صحیح) (یہ سند ابو سفیان طریف سعدی کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن سابقہ حدیث کی بناء پر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: تحریم: نماز کی حرمت میں دخول اور تحلیل: نماز کی حرمت سے خروج کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے، یعنی نماز میں داخلہ تکبیر ہی سے اور نماز سے خروج تسلیم ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کا دروازہ بند ہوتا ہے بندہ اسے طہارت ہی سے کھول سکتا ہے، یعنی بغیر وضو اور طہارت کے نماز نہیں پڑھ سکتا، اسی طرح نماز میں آدمی اللہ اکبر ہی کہہ کر داخل ہوسکتا ہے، اور السلام علیکم ہی کہہ کر اس سے باہر نکل سکتا ہے۔
وضو کا اہتمام
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راہ استقامت پر قائم رہو ١ ؎، تم ساری نیکیوں کا احاطہٰ نہیں کرسکو گے، اور تم جان لو کہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٨٦، ومصباح الزجاجة : ١١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢ (٦٨١) (صحیح) (سند میں سالم بن ابی الجعد اور ثوبان (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن دارمی اور ابن حبان میں سند متصل ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤١٢ ) وضاحت : ١ ؎: راہ استقامت پر قائم رہو کا مطلب ہے کہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اسلام کے اوامرو نواہی پر جمے رہو، استقامت کمال ایمان کی علامت ہے، اس لئے اس مرتبہ پر بہت ہی کم لوگ پہنچ پاتے ہیں کیونکہ یہ مشکل امر ہے۔
وضو کا اہتمام
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راہ استقامت پر قائم رہو، تم ساری نیکیوں کا احاطہٰ نہیں کرسکتے، اور جان لو کہ تمہارا سب سے افضل عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن ہی کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٢٣، ومصباح الزجاجة : ١١٥) (صحیح) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢ /١٣٧ )
وضو کا اہتمام
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم استقامت پر قائم رہو، اور کیا ہی بہتر ہے، اگر تم اس پر قائم رہ سکو، اور تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن ہی کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٣، ومصباح الزجاجة : ١١٦) (صحیح) (سند میں ابو حفص دمشقی مجہول ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢ /١٣٧ )
وضو جزو ایمان ہے
ابومالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مکمل وضو کرنا نصف ایمان ہے ١ ؎، اور الحمد لله میزان کو (ثواب سے) بھر دیتا ہے، اور سبحان الله، الله أكبر آسمان و زمین کو (ثواب سے) بھر دیتے ہیں، نماز نور ہے، اور زکاۃ برہان (دلیل و حجت) ہے، اور صبر (دل کی) روشنی ہے، اور قرآن دلیل و حجت ہے، ہر شخص صبح کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کو بیچنے والا ہوتا ہے، پھر وہ یا تو اسے (جہنم سے) آزاد کرا لیتا ہے یا ہلاک کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٤٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ١ (٢٢٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ٨٦ (٣٥١٧) ، مسند احمد (٥/٣٤٢، ٣٤٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢ (٦٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وضو نصف (آدھا) ایمان ہے کیونکہ اس سے ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے، اور یہ طہارت نماز کے لئے شرط ہے اس لئے اسے آدھے ایمان یا آدھی نماز سے تعبیر کیا گیا اور باطنی طہارت ایمان و اقرار توحید سے حاصل ہوتی ہے، زکاۃ کی ادائیگی سے ایمان کی سچائی کا پتہ چلتا ہے، صبر باعث نور و ضیاء ہے، اور ممکن ہے صبر سے مراد یہاں روزہ ہو، کیونکہ شہوات کے توڑنے میں اس کی تاثیر قوی ہے، اور یہ دل کی نورانیت کا باعث ہوتا ہے، قرآن پر عمل کرنے سے نجات، اور اس کو چھوڑ دینے سے ہلاکت کا قوی اندیشہ ہے، ہر شخص اپنے کردار و عمل سے اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا کر اس کو عذاب سے آزاد کرانے والا ہے، یا شیطان کی فرمانبرداری سے اس کے عذاب میں گرفتار کرنے والا ہے، اس حدیث سے حمد باری تعالیٰ اور تسبیح و تحمید کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ اس کے اجر و ثواب سے اعمال کی میزان بھاری ہوجائے گی۔
طہارت کا ثواب
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی وضو کرتا ہے، اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد آتا ہے، اور اس کے گھر سے نکلنے کا سبب صرف نماز ہی ہوتی ہے، تو اس کے ہر قدم کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا اور ایک گناہ مٹاتا ہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٢ (ألف) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ الصلاة ٨٧ (٤٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥٢ (٥٦٤) ، مسند احمد (٢/٢٥٢، ٤٧٥) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٧٧٤) (صحیح )
طہارت کا ثواب
عبداللہ صنابحی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے وضو کیا، کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تو اس کے گناہ ناک اور منہ سے نکل جاتے ہیں، اور جب وہ اپنا منہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے منہ سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے دونوں ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں، اور جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے دونوں پاؤں سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، اور اس کی نماز اور مسجد کی جانب اس کا جانا ثواب مزید کا باعث ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٨٥ (١٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٧٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٦ (٣٠) ، مسند احمد (٤/٣٤٨، ٣٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد صغائر (گناہ صغیرہ) ہیں کیونکہ کبائر (گناہ کبیرہ) بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اسی طرح حقوق العباد (بندوں کے حقوق) سے متعلق گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک ان کے حقوق کی ادائیگی نہ کردی جائے، یا ان سے معاف نہ کرا لیا جائے، نیز اس حدیث سے گھر سے وضو کر کے مسجد میں جانے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
طہارت کا ثواب
عمرو بن عبسہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بندہ وضو کرتا اور اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے ہاتھوں سے جھڑ جاتے ہیں، جب وہ اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے چہرے سے جھڑ جاتے ہیں، اور جب اپنے بازو دھوتا ہے اور سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ بازوؤں اور سر سے جھڑ جاتے ہیں، اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے پاؤں سے جھڑ جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥٢ (٨٣٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٨ (١٤٧) ، مسند احمد (٤/١١٢، ١١٣، ١١٤) (صحیح )
طہارت کا ثواب
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو قیامت کے دن کیسے پہچانیں گے جن کو آپ نے دیکھا نہیں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وضو کے اثر کی وجہ سے ان کی پیشانی، ہاتھ اور پاؤں سفید اور روشن ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٢٥، ومصباح الزجاجة : ١١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٣، ٤٥١، ٤٥٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات کی صریح علامت ہے کہ صحابہ کرام رسول اکرم ﷺ کو ہر وقت، ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں سمجھتے تھے، اور خود رسول اللہ کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا، ورنہ صحابہ یہ سوال کیوں کرتے اور آپ جواب یہ کیوں دیتے ؟ اس سند سے بھی ایسی ہی حدیث مروی ہے۔
طہارت کا ثواب
عثمان بن عفان (رض) کے غلام حمران کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو مسجد کے قریب چبوترے پہ بیٹھا ہوا دیکھا، انہوں نے وضو کا پانی منگایا، اور وضو کیا، پھر کہنے لگے میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اسی بیٹھنے کی جگہ پر دیکھا کہ آپ نے اسی طرح وضو کیا جس طرح میں نے کیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اس بشارت سے دھوکے میں نہ آجانا (کہ نیک اعمال چھوڑ دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٦٨ (٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٩٢، ومصباح الزجاجة : ١١٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٤ (١٥٩) ، ٢٨ (١٦٤) ، الصوم ٢٧ (١٩٣٤) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣ (٢٢٦) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٠٦) موطا امام مالک/الطہارة ٦ (٢٩) ، مسند احمد (١/٦٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٧ (٧٢٠) ، (اور ان میں ولا تغتروا کا لفظ نہیں ہے) (صحیح ) اس سند سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔
مسواک کے بارے میں
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو مسواک سے دانت و منہ صاف کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٣ (٢٤٥) ، الجمعة ٨ (٨٨٩) ، التھجد ٩ (١١٣٦) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٠ (٥٥) ، سنن النسائی/الطہارة ٢ (٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٩٠، ٣٩٧، ٤٠٢، ٤٠٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٠ (٧١٢) (صحیح )
مسواک کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٧ (٧) (تحفة الأشراف : ١٢٩٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٨ (٨٨٧) ، التمني ٩ (٧٢٤٠) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٢٥ (٤٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٨ (٢٢) ، موطا امام مالک/الطہارة ٣٢ (١١٤) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٨ (٧١٠) ، الصلاة ١٦٨ (١٥٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مسواک کو واجب کردیتا، لیکن ہر نماز کے وقت مسواک کا مسنون ہونا ثابت ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ امت پر کس درجہ مشفق اور مہربان تھے۔
مسواک کے بارے میں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے، پھر ہر دو رکعت کے بعد لوٹتے اور مسواک کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٨٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٦) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٠ (٥٥) ، مسند احمد (١/ ٢١٨) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہر دو رکعت کے بعد واپس جا کر سو جاتے، پھر اٹھ کر مسواک کرتے جیسا کہ سنن ابوداود (رقم : ٥٨ ) میں تفصیل وارد ہے۔
مسواک کے بارے میں
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسواک کرو اس لیے کہ مسواک منہ کو پاک کرنے کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا سبب ہے، جبرائیل جب بھی میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھے مسواک کی وصیت کی، یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں میرے اور میری امت کے اوپر اسے فرض نہ کردیا جائے، اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ مجھے ڈر ہے کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو امت پر مسواک کو فرض کردیتا، اور میں خود اس قدر مسواک کرتا ہوں کہ مجھے ڈر ہونے لگتا ہے کہ کہیں میں اپنے مسوڑھوں کو نہ چھیل ڈالوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٧، ومصباح الزجاجة : ١١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٣) (ضعیف) (حدیث کی سند میں مذکور علی بن یزید منکر الحدیث ہے، نیز عثمان کی علی بن یزید سے روایت کی علماء نے تضعیف کی ہے )
مسواک کے بارے میں
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا کہ آپ مجھے بتائیے کہ نبی اکرم ﷺ جب گھر میں آپ کے پاس جاتے تھے تو سب سے پہلے کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : آپ جب بھی آتے تھے پہلے مسواک کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٥ (٢٥٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ٢٧ (٥١) ، سنن النسائی/الطہارة ٨ (٨) ، مسند احمد (٦/٤١، ١١٠، ١٨٢، ١٨٨، ١٩٢، ٢٣٧، ٢٥٤) (صحیح) (ابن ماجہ کی سند میں شریک راوی ضعیف ہیں، لیکن صحیح مسلم وغیرہ میں مسعر و سفیان کی متابعت سے یہ صحیح ہے )
مسواک کے بارے میں
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ تمہارے منہ قرآن کے راستے ہیں (تم اپنے منہ سے قرآن کی تلاوت کرتے ہو) لہٰذا اسے مسواک کے ذریعہ پاک رکھا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٠٦، ومصباح الزجاجة : ١٢٠) (صحیح) (سند میں بحر بن کنیز ضعیف ہیں، اور سعید بن جبیر اور علی (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن دوسرے طرق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٢١٣ )
فطرت کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں فطرت ہیں ١ ؎، یا پانچ باتیں فطرت میں سے ہیں : ختنہ کرانا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھیڑنا، مونچھوں کے بال تراشنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٣ (٥٨٨٩) ، ٦٤ (٥٨٩١) ، الاستئذان ٥١ (٦٢٩٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٥٧) ، سنن ابی داود/الترجل ١٦ (٤١٩٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٩ (٩) ، ١٠ (١٠) ، ١١ (١١) ، الزینة من المجتبی ١ (٥٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٦) ، موطا امام مالک/ صفة النبي ﷺ ٣ (٣ موقوفاً ) ، مسند احمد (٢/٢٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فطرت یعنی انبیاء کرام کی سنت قدیمہ ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے، بعض لوگوں کے نزدیک فطرت سے مراد جبلت یعنی مزاج و طبیعت ہے جس پر انسان کی پیدائش ہوئی ہے، یہاں حصر مراد نہیں اس کے بعد والی روایت میں عشر من الفطرة (فطرت کے دس کام) کے الفاظ آئے ہیں۔
فطرت کے بیان میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : مونچھوں کے بال تراشنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، موئے زیر ناف صاف کرنا، اور پانی سے استنجاء کرنا ۔ زکریا نے کہا کہ مصعب کہتے ہیں : میں دسویں چیز بھول گیا، ہوسکتا ہے وہ کلی کرنا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٦١) ، سنن ابی داود/الطہارة ٢٩ (٥٣) ، سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٧) ، سنن النسائی/الزینة ١ (٥٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٧) (حسن )
فطرت کے بیان میں
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا، مونچھ کاٹنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناف کے نیچے کا بال صاف کرنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، اور وضو کے بعد شرمگاہ پر پانی کا چھینٹا مارنا، اور ختنہ کرانا فطرت میں سے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢٩ (٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٤) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہے ) اس سند سے علی بن زید سے اسی کے مثل مروی ہے۔
فطرت کے بیان میں
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے لیے مونچھوں کے تراشنے، موئے زیر ناف مونڈنے، بغل کے بال اکھیڑنے، اور ناخن تراشنے کے بارے میں وقت کی تعیین کردی گئی ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٥٨) ، سنن ابی داود/الترجل ١٦ (٤٢٠٠) ، سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٨) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤ (١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠) ، وقد أخرجہ : حم (٣/١٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بال اور ناخن جب بڑے ہوں تو انہیں کاٹ لینا چاہیے، اگر کسی مجبوری سے نہ کاٹ سکیں تو زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، اس کے بعد ضرور کاٹ دینا چاہیے۔
بیت الخلاء داخل ہوتے وقت کیا کہتے؟
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ پاخانہ جنوں کے حاضر ہونے کی جگہیں ہیں، لہٰذا جب کوئی پاخانہ میں جائے تو کہے :اللهم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث یعنی : اے اللہ ! میں ناپاک جنوں اور جنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣ (٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٩، ٣٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پاخانہ میں داخل ہونے، اور میدان میں کپڑا اوپر کرنے سے قبل یہ دعا پڑھے۔ اس سند سے زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگے انہوں نے یہی سابقہ حدیث ذکر کی، زید بن ارقم کی یہ حدیث دوسری دو سندوں سے بھی مروی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٨١) وانظر ماقبلہ (صحیح )
بیت الخلاء داخل ہوتے وقت کیا کہتے؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنوں اور بنی آدم (انسانوں) کی شرمگاہوں کے درمیان پردہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص پاخانہ میں داخل ہو تو بسم اللہ کہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٧٣ (٦٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٢) (صحیح )
بیت الخلاء داخل ہوتے وقت کیا کہتے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پاخانہ میں داخل ہوتے تو فرماتے : أعوذ بالله من الخبث والخبائث یعنی : میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ناپاک جنوں اور جنیوں کے شر سے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣٢ (٣٧٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨ (١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٩ (١٤٢) ، الدعوات ١٥ (٦٣٢٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣ (٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤ (٥) ، مسند احمد (٣/١٠١، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠ (٦٩٦) (صحیح )
بیت الخلاء داخل ہوتے وقت کیا کہتے؟
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص پاخانہ میں داخل ہو تو اس دعا کے پڑھنے میں کوتاہی نہ کرے : اللهم إني أعوذ بک من الرجس النجس الخبيث المخبث الشيطان الرجيم یعنی : اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ناپاک، گندے، برے بدکار راندے ہوئے شیطان کے شر سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٤، ومصباح الزجاجة : ١٢١) (ضعیف) (اس میں عبیداللہ بن زحر، علی بن یزید اور القاسم ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢١٨٩ ) اس سند سے ابوامامہ (رض) کی اس حدیث میں : من الرجس النجس کے الفاظ مذکور نہیں ہیں، بلکہ من الخبيث المخبث الشيطان الرجيم ہے۔
بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد کی دعا
ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آیا تو ان کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ جب پاخانہ سے نکلتے تو کہتے :غفرانک یعنی : اے اللہ ! میں تیری بخشش چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٧ (٣٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥ (٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ١٥٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٦ (٧٧٠) (صحیح ) اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد کی دعا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب پاخانہ سے نکلتے تو فرماتے : الحمد لله الذي أذهب عني الأذى وعافاني یعنی : تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھ سے تکلیف دور کی، اور مجھے عافیت بخشی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣١، ٥٣٩، ١١٤١، ومصباح الزجاجة : ١٢٢) (ضعیف) (اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں، ابن السنی کے یہاں ابو ذر (رض) سے یہ موقوفاً ثابت ہے ملاحظہ ہو : تحفة الأشراف وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٦٥٨ ، والإرواء : ٥٣ ) وضاحت : ١ ؎: حقیقت میں پاخانہ و پیشاب کا بخوبی آنا بڑی نعمت ہے، اس پر بندے کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
بیت الخلاء میں ذکر اللہ اور انگوٹھی لے جانے کا حکم
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر وقت کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٩ (٦٣٤ تعلیقًا) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩ (١٨) ، سنن الترمذی/الدعوات ٩ (٣٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٠، ١٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ کا ذکر ہر وقت کرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے باوضو ہونے یا کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہونے کی کوئی قید نہ تھی، ہر حالت میں ذکر الٰہی کرتے تھے، لیکن قضاء حاجت کے وقت ذکر کرنا منع ہے، اسی طرح جماع کی حالت میں بھی تلاوت قرآن منع ہے، یہ حدیث ان اوقات کے علاوہ کے لئے ہے، بعض لوگوں نے ذکر قلبی مراد لیا ہے۔
بیت الخلاء میں ذکر اللہ اور انگوٹھی لے جانے کا حکم
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار دیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٠ (١٩) ، سنن الترمذی/اللباس ١٦ (١٧٤٦) ، الشمائل ١١ (٩٣) ، سنن النسائی/الزینة ٥١ (٥٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩٩، ١٠١، ٢٨٢) (ضعیف) (اس میں ابن جریج مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، امام دارقطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے اجتناب کرو، اس لئے کہ وہ قبیح تدلیس کرتے ہیں، وہ صرف ایسی حدیث کے بارے میں تدلیس کرتے ہیں جس کو انہوں نے کسی مطعون راوی سے سنی ہو ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی میں تین سطریں تھیں، نیچے کی سطر میں محمد، اور بیچ کی سطر میں رسول، اور اوپر کی سطر میں لفظ الجلالہ اللہ مرقوم تھا، اور اسی لفظ کی تعظیم کی وجہ سے آپ ﷺ اس کو اتار دیتے تھے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس میں اللہ کا نام ہو اسے پاخانے وغیرہ نجس جگہوں میں نہ لے جایا جائے۔
غسل خانے میں پیشاب کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی بھی شخص اپنے غسل خانہ میں قطعاً پیشاب نہ کرے، اس لیے کہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٥ (٢٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٧ (٢١) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٢ (٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥٦) (ضعیف) (فإن عامة الوسواس منه کے سیاق کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا : لا يبولن أحدکم في مستحمه شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ٦ ، و صحیح ابی داود : ٢١ ) ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن یزید کو کہتے سنا : وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے علی بن محمد طنافسی کو کہتے ہوئے سنا : یہ ممانعت اس جگہ کے لیے ہے جہاں غسل خانے کچے ہوں، اور پانی جمع ہوتا ہو، لیکن آج کل غسل خانہ میں پیشاب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ اب غسل خانے چونا، گچ اور ڈامر (تارکول) کے ذریعے پختہ بنائے جاتے ہیں، اگر ان میں کوئی پیشاب کرے اور پانی بہا دے تو کوئی حرج نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : (ضعیف) (ملاحظہ ہو : المشکاة : ٣٥٣ ) وضاحت : ١ ؎: بہتر یہی ہے کسی بھی طرح کے غسل خانے میں پیشاب نہ کرے۔
کھڑے ہو کر پیشاب کرنا
حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے، اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦١ (٢٢٤) ، ٦٢ (٢٢٥) ، والمظالم ٢٧ (٢٤٧١) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩ (٢٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٩ (١٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧ (١٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٩٤) ، سنن الدارمی/ الطہارة ٩ (٦٩٥) (صحیح )
کھڑے ہو کر پیشاب کرنا
مغیرہ بن شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٠٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٩ (٦٩٥) ، وانظر ما قبلہ (صحیح ) شعبہ نے کہا کہ عاصم نے اپنی روایت میں يومئذ کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، اور یوں کہا ہے : آپ ﷺ ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے، اور کھڑے ہو کر اس دن پیشاب کیا۔ اور یہ اعمش اس حدیث کو عن أبي وائل عن حذيفة کے طریق سے روایت کرتے ہیں وہ يومئذ کو ذکر نہیں کرتے تو میں نے منصور سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے مجھ سے عن أبي وائل عن حذيفة کے طریق سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے، اور آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٥ (تحفة الأشراف : ١١٥٠٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٣ ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کی عادت کریمہ یہی تھی آپ اکثر بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے، گذشتہ باب میں حذیفہ (رض) کی حدیث میں جس کا ذکر ہے اس کی بہت سی تو جیہات علماء کرام نے کی ہیں، جو اکثر تکلف سے خالی نہیں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں آپ ﷺ نے بیان جواز، یا ضرورت شدیدہ کے سبب ایسا کیا، ورنہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا منع ہے، ام المؤمنین عائشہ (رض) کا انکار ان کے علم کی بنیاد پر ہے، وہ معمول بتارہی ہیں، اور حذیفہ (رض) نے اپنا مشاہدہ بتایا، جو ایک بار کا واقعہ ہے، جو جواز کی دلیل ہے۔
بیٹھ کر پیشاب کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جو تم سے بیان کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا تو تم اس کی تصدیق نہ کرو، میں نے دیکھا ہے کہ آپ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٨ (١٢) ، سنن النسائی/الطہارة ٢٥ (٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٦) (صحیح ) وضاحت : ام المؤمنین عائشہ (رض) کا انکار ان کے علم کی بنیاد پر ہے، وہ معمول بتارہی ہیں۔
بیٹھ کر پیشاب کرنا
عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : عمر ! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو ۔ عمر (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کبھی بھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٦٩، ومصباح الزجاجة : ١٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/ الطہارة ٨ (١٢ تعلیقًا) (ضعیف) (حدیث کی سند میں مذکور راوی عبد الکریم بن المخارق ابو امیہ ضعیف ہیں، اور عبید اللہ بن العمری ثقہ نے اس خبر کے معارض روایت کی ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٩٣٤ )
بیٹھ کر پیشاب کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ ابوالحسن القطان کہتے ہیں : میں نے ابوعبداللہ محمد بن یزید (یعنی : ابن ماجہ) سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن عبدالرحمٰن مخزومی سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ سفیان ثوری نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث : أنا رأيته يبول قاعدا کے بارے میں کہا کہ : مرد اس بات کو ام المؤمنین عائشہ (رض) سے زیادہ جانتے ہیں، (احمد بن عبدالرحمٰن مخزومی کی سفیان ثوری سے ملاقات نہیں) ۔ احمد بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں : عربوں کی عادت کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی تھی، کیا تم اسے عبدالرحمٰن بن حسنہ کی حدیث میں دیکھتے نہیں ہو ؟ اس میں ہے : دیکھو ! وہ عورتوں کی طرح بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١١٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٥) (ضعیف جدًا) (اس سند میں عدی بن الفضل متروک راوی ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٦٣٨ ) وضاحت : ١ ؎: رسول اکرم ﷺ کو یہودی کہتے تھے کہ محمد ﷺ تو عورتوں کی طرح بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں۔
دایاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانا اور اس سے استنجاء کرنا مکروہ ہے۔
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنی شرمگاہ اپنے داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے، اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٨ (١٥٣) ، ١٩ (١٥٤) ، والأشربة ٢٥ (٥٦٣٠) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٨ (٢٦٧) سنن ابی داود/الطہارة ١٨ (٣١) ، سنن الترمذی/ الطہارة ١١ (١٥) ، سنن النسائی/ الطہارة ٢٣ (٢٤، ٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠٠، ٣١٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٣ (٧٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ ناپسندیدہ کاموں کے لئے آدمی دایاں ہاتھ استعمال نہ کرے تاکہ اس کا وقار و احترام باقی رہے، امام ترمذی فرماتے ہیں کہ عام اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ انہوں نے دائیں ہاتھ سے استنجا کو مکروہ کہا ہے۔ اس سند سے بھی اوزاعی نے اس طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔
دایاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانا اور اس سے استنجاء کرنا مکروہ ہے۔
عقبہ بن صہبان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو کہتے ہوئے سنا : جب سے رسول اللہ ﷺ سے میں نے اس ہاتھ کے ذریعہ بیعت کی نہ تو میں نے گانا گایا، اور نہ جھوٹ بولا، اور نہ اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے چھوا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٣١، ومصباح الزجاجة : ١٢٦) (ضعیف جدًا) (اس کی سند میں صلت بن دینار متروک اور ناصبی الحدیث ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی داہنے ہاتھ کو رسول اکرم ﷺ کے داہنے ہاتھ پر رکھ کر بیعت کرنے کے بعد سے اس کو شرمگاہ سے نہیں لگایا۔
دایاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانا اور اس سے استنجاء کرنا مکروہ ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص استنجاء کرے تو داہنے ہاتھ سے نہ کرے، بلکہ بائیں ہاتھ سے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤ (٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٦ (٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٠ (١٥٥) مناقب الأنصار ٣٢ (٣٨٦٠) ، مسند احمد (٢/ ٢٤٧، ٢٥٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٤ (٧٠١) (حسن صحیح )
پتھروں سے استنجا کرنا اور (استنجا میں) گوبر اور ہڈی (استعمال کرنے) سے ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے لیے ایسا ہی ہوں جیسے باپ اپنے بیٹے کے لیے، میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلے کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرو ، آپ ﷺ نے تین پتھروں سے استنجاء کرنے کا حکم دیا، اور گوبر اور ہڈی سے، اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے سے منع کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤ (٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٦ (٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٢٤٧، ٢٥٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض روایتوں میں تین سے کم پتھر پر اکتفا کرنے سے منع کیا گیا ہے جس سے تین پتھر کے استعمال کا وجوب ثابت ہوتا ہے، بعض احادیث میں اس ممانعت کی علت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہے، نیز یہاں رمَّ ۃ (بوسیدہ ہڈی) سے مراد مطلق ہڈی ہے جیسا کہ دوسری روایتوں میں آتا ہے، یا یہ کہا جائے کہ بوسیدہ ہڈی جو نجس نہیں ہوتی، جب اسے نجاست سے آلودہ کرنے کی ممانعت ہے تو وہ ہڈی جو بوسیدہ نہ ہو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگی۔
پتھروں سے استنجا کرنا اور (استنجا میں) گوبر اور ہڈی (استعمال کرنے) سے ممانعت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے گئے اور فرمایا : میرے پاس تین پتھر لاؤ، عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں دو پتھر اور گوبر کا ایک ٹکڑا لے کر آیا تو آپ ﷺ نے دونوں پتھر لے لیے اور گوبر پھینک دیا، اور فرمایا : یہ ناپاک ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢١ (١٥٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٨ (٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الوضوء ١٣ (١٧) ، مسند احمد (١/٣٨٨، ٤١٨، ٤٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے فرمایا : گوبر نجس ہے، ایک اور پتھر لاؤ (ورجاله ثقات) ، علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں : ممکن ہے رسول ﷺ نے خود ہی تیسرا پتھر اٹھا لیا ہو ، ملاحظہ ہو تحفۃ الأحوذی ( ١ /٦٩) ، چناچہ آگے کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تین پتھر لینا سنت ہے۔
پتھروں سے استنجا کرنا اور (استنجا میں) گوبر اور ہڈی (استعمال کرنے) سے ممانعت
خزیمہ بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : استنجاء کے لیے تین پتھر ہوں جن میں گوبر نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢١ (٤١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٩) ، مسند احمد (٥/٢١٣، ٢١٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١ (٦٩٨) (صحیح )
پتھروں سے استنجا کرنا اور (استنجا میں) گوبر اور ہڈی (استعمال کرنے) سے ممانعت
سلمان فارسی (رض) کہتے ہیں کہ ان سے کسی مشرک نے بطور استہزاء کے کہا : میں تمہارے ساتھی (نبی اکرم ﷺ ) کو دیکھتا ہوں کہ وہ تمہیں ہر چیز سکھاتے ہیں، یہاں تک کہ قضائے حاجت کے آداب بھی بتاتے ہیں ! سلمان فارسی (رض) نے کہا : ہاں، آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کریں، دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کریں، اور تین پتھر سے کم استعمال نہ کریں، ان میں کوئی گوبر ہو نہ ہڈی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٢٦٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٤ (٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٢ (١٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٧ (٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ٤٣٧، ٤٣٨، ٤٣٩) (صحیح )
پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے
عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی (رض) کہتے ہیں کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا : کوئی شخص قبلہ رو ہو کر ہرگز پیشاب نہ کرے اور میں سب سے پہلا شخص ہوں جس نے لوگوں سے یہ حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٣٦، ومصباح الزجاجة : ١٢٧) ، مسند احمد (٤/١٩٠، ١٩١) (صحیح )
پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا، اور فرمایا : مشرق (پورب) کی طرف منہ کرو، یا پچھم کی طرف ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١١ (١٤٤) ، الصلاة ٢٩ (٣٩٤) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٢٦٤) ، سنن ابی داود/الطہارة ٤ (٩) ، سنن الترمذی/الطہارة ٦ (٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٢٠ (٢١) ، ٢١ (٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٧٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القبلة ١ (١) ، مسند احمد (٥/٤١٦، ٤١٧، ٤٢١) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦ (٦٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان اہل مدینہ یا ان لوگوں کے لئے تھا، جن کا قبلہ اتر یا دکھن کو تھا، مسلمان کو قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت کے لئے نہ بیٹھنا چاہیے۔
پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے
معقل بن ابومعقل اسدی (رض) (جن کو نبی اکرم ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں پیشاب اور پاخانے کے وقت دونوں قبلوں (مسجد الحرام اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤ (١٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٠) (ضعیف) (حدیث کی سند میں مذکور راوی أبو زید مجہول ہیں )
پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے
ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں انہوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے قبلہ رو ہو کر پاخانہ اور پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ١٢، ١٥) (صحیح) (حدیث کی سند میں ابن لہیعہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٠ )
پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے
جابر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو سعید خدری (رض) کو کہتے ہوئے سنا : بیشک رسول اللہ ﷺ نے مجھے کھڑے ہو کر پانی پینے سے، اور قبلہ رو ہو کر پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٩) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ کی ہے، لیکن شواہد کی نباء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٠ )
اس کی رخصت ہے بیت الخلاء میں اور صحرا میں رخصت نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، حالانکہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : یہ یزید بن ہارون کی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٢ (١٤٥) ، ١٤ (١٤٨) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٢٦٦) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥ (١٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧ (١١) ، سنن النسائی/الطہارة ٢٢ (٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القبلة ٢ (٣) ، مسند احمد (٢/١٢، ١٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨ (٦٩٤) (صحیح )
اس کی رخصت ہے بیت الخلاء میں اور صحرا میں رخصت نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بیت الخلاء میں قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث شعبی سے بیان کی تو انہوں نے کہا : ابن عمر (رض) نے سچ کہا، اور ابوہریرہ (رض) نے بھی سچ کہا، لیکن ابوہریرہ (رض) کا قول یہ ہے کہ صحراء میں نہ تو قبلہ کی جانب منہ کرو نہ پیٹھ، اور ابن عمر (رض) کا قول یہ ہے کہ بیت الخلاء میں قبلہ کا اعتبار نہیں، جدھر چاہو منہ کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٢٥١، ومصباح الزجاجة : ١٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٧، ٩٩، ١١٤) (ضعیف جدًا) (سند میں عیسیٰ بن أبی عیسیٰ الحناط متروک الحدیث ہے ) اس سند سے بھی عبیداللہ بن موسیٰ اسی طرح بیان کرتے ہیں۔
اس کی رخصت ہے بیت الخلاء میں اور صحرا میں رخصت نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ذکر ہوا کہ کچھ لوگ بیت الخلاء میں قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ وہ عملی طور پر بھی اجتناب کرتے ہوں گے۔ میری جائے ضرورت کا رخ قبلہ کی طرف کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣١، ومصباح الزجاجة : ١٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ١٢٧، ١٣٧، ١٨٣، ٢١٩، ٢٢٧، ٢٣٩) (ضعیف) (سند میں خالد بن ابوصلت مجہول ہیں، نیز عراک بن مالک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ام المومنین عائشہ (رض) سے ان کا سماع نہیں ہے ) اس سند سے بھی خالد بن ابی الصلت سے اسی کے مثل مروی ہے۔
اس کی رخصت ہے بیت الخلاء میں اور صحرا میں رخصت نہیں
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کرنے کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں، پھر آپ کے انتقال سے ایک سال پہلے میں نے دیکھا قضائے حاجت کے وقت آپ ﷺ کا منہ قبلہ کی طرف ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥ (١٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧ (٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧٤) ، مسند احمد (٣/٣٦٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: جابر (رض) یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ممانعت صحراء اور بنیان (آبادی) دونوں کو عام تھی، اسی وجہ سے انہوں نے اسے نسخ پر محمول کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے آخری فعل سے ممانعت منسوخ ہوگئی، اگر ممانعت کو صحراء و میدان کے ساتھ خاص مان لیا جائے تو نہ دونوں فعلوں میں تعارض ہوگا، اور نہ ہی ناسخ منسوخ ماننے کی ضرورت پڑے گی۔
پیشاب کے بعد خوب صفائی کا اہتمام کرنا
یزداد یمانی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرے تو اپنے عضو تناسل کو تین مرتبہ سونت لے (زور سے دبا کر کھینچے تاکہ اس کے اندر جو قطرات ہیں، وہ نکل جائیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٧) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف اور عیسیٰ بن زیاد الیمانی مجہول الحال ہیں، نیز یزداد کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٦٢١ ) اس سند سے بھی زمعہ نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔
پیشاب کرنے کے بعد وضو نہ کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پیشاب کے لیے باہر تشریف لے گئے، اور عمر (رض) پیچھے سے پانی لے کر پہنچے، آپ ﷺ نے پوچھا : عمر یہ کیا ہے ؟ کہا : پانی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ جب بھی پیشاب کروں، تو وضو کروں، اور اگر میں ایسا کروں تو یہ سنت واجبہ بن جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢٢ (٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٥) (ضعیف) (تراجع الألبانی، رقم : ٢٩٦ ، حدیث کی سند میں عبد اللہ بن یحییٰ التوام ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔
راستے میں پیشاب کرنے سے ممانعت
ابوسعید حمیری بیان کرتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) ایسی احادیث بیان کرتے تھے، جو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے نہیں سنی ہوتی تھیں، چناچہ جو حدیثیں سنی ہوئی ہوتیں ان کے بیان سے خاموش رہتے، عبداللہ بن عمرو (رض) کو ان کی یہ حالت اور بیان کردہ روایات پہنچیں تو انہوں نے کہا : قسم اللہ کی ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا فرماتے ہوئے نہیں سنا، قریب ہے کہ معاذ تم کو قضائے حاجت کے مسئلے میں فتنے میں مبتلا کردیں، یہ خبر معاذ (رض) کو پہنچی تو وہ ان سے جا کر ملے اور کہا : اے عبداللہ بن عمرو ! رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث کو جھٹلانا نفاق ہے، اگر کہنے والے نے کوئی بات جھوٹ کہی تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو واقعی یہ کہتے ہوئے سنا ہے : تین ایسی چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں : مسافروں کے وارد ہونے کی جگہوں پر، سائے دار درختوں کے نیچے، اور عام راستوں پر قضائے حاجت کرنے سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٤ (٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٣٤) (حسن) (سند میں ابوسعید الحمیری کا سماع معاذ (رض) سے ثابت نہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن کے درجہ میں ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٦٢ ) وضاحت : ١ ؎: جن مقامات پر لوگ اپنے یا جانوروں کے پانی کے لئے جاتے ہوں، جہاں آرام کے لئے سایہ میں بیٹھتے ہوں، یا جس راستہ پر چلتے ہوں اس پر پاخانہ کرنا لعنت کا سبب ہے، کیونکہ اس سے لوگوں کو ایذاء پہنچتی ہے، اور لوگ لعن و طعن کرتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔
راستے میں پیشاب کرنے سے ممانعت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیچ راستے میں رات کو پڑاؤ ڈالنے اور نماز پڑھنے سے بچو، اس لیے کہ وہ سانپوں اور درندوں کے باربار آنے اور جانے کا راستہ ہے، اور وہاں قضائے حاجت سے بھی بچو اس لیے کہ یہ لعنت کے اسباب میں سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٢٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥ ٣٠) (حسن) (اس سند میں سالم بن عبد اللہ الخیاط البصری ہیں، حافظ ابن حجر نے انہیں صدوق سئی الحفظ کہا ہے، مگر زہیر بن محمد التمیمی اور عمرو بن أبی سلمہ دونوں ضعیف ہیں، اور حسن بصری اور جابر (رض) کے درمیان انقطاع ہے، نیز اس حدیث میں والصلاة عليها کا لفظ ثابت نہیں ہے، لیکن حدیث کے جملے متفرق طور پر صحیح ہیں، پہلا جملہ إياكم والتعريس صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، اور آخری ٹکڑے : وقضاء الحاجة عليها فإنها من الملاعن کے کافی شواہد ہیں : ملاحظہ ہو : ا لإرواء : ١ / ١٠١، وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٤٣٣ )
راستے میں پیشاب کرنے سے ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے راستے میں نماز پڑھنے یا پاخانہ پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٩٠٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٦) (ضعیف) (سند میں ابن لہیعہ اور عمرو بن خالد ضعیف ہیں، لیکن متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإراوء : ١ /١٠١ - ١٠٢ - ٣١٩ )
پاخانہ کے لئے دور جانا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو دور جاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١ (١) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٦ (٢٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦ (١٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤ (٦٨٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مقصود اس سے پردہ ہے، جہاں سے اور جیسے بھی حاصل ہوجائے کافی ہے۔
پاخانہ کے لئے دور جانا
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، آپ قضائے حاجت کے لیے الگ تھلگ ہوئے پھر واپس آئے، وضو کے لیے پانی مانگا اور وضو کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٧) (صحیح) (سند میں ضعف ہے، اس لئے کہ عمر بن المثنی الاشجعی الرقی مستور اور عطاء خراسانی تدلیس و ارسال کرنے والے ہیں، اور ان کی روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کا سماع انس (رض) سے نہیں ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٣٣ )
پاخانہ کے لئے دور جانا
یعلیٰ بن مرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو دور نکل جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٨) (صحیح) (یونس بن خباب ضعیف ہیں لیکن حدیث مغیرہ بن شعبہ (رض) سے آئی ہے، اس لئے صحیح ہے، کما تقدم ( ٣٣١ ) نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١١٥٩ )
پاخانہ کے لئے دور جانا
عبدالرحمٰن بن ابوقراد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا، آپ قضائے حاجت کے لیے دور نکل گئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٦ (١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٤٤٣، ٤/٢٢٤) (صحیح )
پاخانہ کے لئے دور جانا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، آپ ﷺ قضائے حاجت کے لیے اس وقت تک نہ بیٹھتے جب تک کہ نظروں سے اوجھل نہ ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١ (٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ٤ (١٧) (صحیح )
پاخانہ کے لئے دور جانا
بلال بن حارث مزنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو دور نکل جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٢٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٩) (صحیح) (سند میں کثیر بن عبد اللہ ضعیف ہیں، لیکن سابقہ احادیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )
پیشاب، پاخانہ کے لئے موزوں جگہ تلاش کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو استنجاء میں پتھر استعمال کرے تو طاق استعمال کرے، جس نے ایسا کیا اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہ کیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو خلال کرے (اور دانتوں سے کچھ نکلے) تو اسے تھوک دے، اور جو چیز زبان کی حرکت سے نکلے اسے نگل جائے، جس نے ایسا کیا اچھا کیا، اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو شخص قضائے حاجت کے لیے باہر میدان میں جائے تو آڑ میں ہوجائے، اگر آڑ کی جگہ نہ پائے اور ریت کا کوئی تودہ ہو تو اسی کی آڑ میں ہوجائے، اس لیے کہ شیطان انسانوں کی شرمگاہوں سے کھیل کرتا ہے، جس نے ایسا کیا اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٩ (٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧١) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥ (٦٨٩) (ضعیف) (سند میں حصین حمیری اور ابو سعد الخیر مجہول ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن من استجمر فليوتر کا جملہ صحیح ہے، یہ حدیث آگے ( ٣٤٩٨ ) پر بھی آرہی ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٠٢٨ )
پیشاب، پاخانہ کے لئے موزوں جگہ تلاش کرنا
اس سند سے اسی کے ہم معنی حدیث مروی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے : جو سرمہ لگائے تو طاق لگائے، جس نے ایسا کیا اچھا کیا، اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو کچھ زبان کی حرکت سے نکلے اسے نگل جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (سابقہ علت کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، لیکن من اکتحل فليوتر کا جملہ شواہد صحیحہ کی وجہ سے صحیح ہے )
پیشاب، پاخانہ کے لئے موزوں جگہ تلاش کرنا
مرہ بن وہب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے قضائے حاجت کا ارادہ کیا اور مجھ سے کہا : تم کھجور کے ان دونوں چھوٹے درختوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں باہم مل جانے کا حکم دے رہے ہیں ، چناچہ حکم پاتے ہی وہ دونوں درخت باہم مل گئے ٢ ؎، آپ ﷺ نے ان کی آڑ میں قضائے حاجت کی اور پھر مجھ سے فرمایا : ان دونوں کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنی اپنی جگہ واپس لوٹ جائیں ۔ مرہ کہتے ہیں : میں نے جا کر ان سے یہ کہا تو وہ دونوں درخت اپنی اپنی جگہ واپس لوٹ گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٢) (صحیح) (سند میں ضعف ہے اس لئے کہ منہال کا سماع یعلی بن مرہ سے نہیں ہے، لیکن دوسرے شواہد اور طرق سے یہ صحیح ہے، (ملاحظہ ہو : زہد وکیع ( ٥٠٩ ) تحقیق سنن ابی داود/عبد الرحمن الفریوائی ) وضاحت : ١ ؎: مصباح الزجاجہ ( ١٣٨ ) میں اس کے بعد : قال أبوبکر القصار کا اضافہ کیا ہے، اور ایسے ہی مشہور حسن کے یہاں ہے، لیکن سند میں ابوبکر کا ذکر نہیں ہے) ٢ ؎: درخت کا نبی اکرم ﷺ کے حکم سے چلے آنا آپ کا معجزہ تھا۔
پیشاب، پاخانہ کے لئے موزوں جگہ تلاش کرنا
عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو قضائے حاجت کے وقت آڑ کے لیے ٹیلے یا کھجوروں کے جھنڈ سب سے زیادہ پسندیدہ تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٧٩ (٣٤٢) ، الفضائل ١١ (٢٤٢٩) ، سنن ابی داود/الجہاد ٤٧ (٢٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٤، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥ (٦٩٠) (صحیح )
پیشاب، پاخانہ کے لئے موزوں جگہ تلاش کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ راستہ چھوڑ کر ایک گھاٹی کی جانب مڑے اور پیشاب کیا، یہاں تک کہ مجھے ترس آتا تھا کہ آپ ﷺ پیروں کو پیشاب کے وقت بہت زیادہ کشادہ کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٥٠، ومصباح الزجاجة : ١٤١) (ضعیف) (سند میں محمد بن ذکوان ضعیف و منکر الحدیث ہیں )
قضاء حاجت کے لئے جمع ہونا اور اس وقت گفتگو کرنا منع ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قضائے حاجت کے وقت دو آدمی آپس میں کانا پھوسی نہ کریں کہ آپس میں ہر ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھ رہا ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧ (١٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ١٦، ٣٦) (صحیح) (اس کی سند میں کلام ہے، کیونکہ ہلال بن عیاض مجہول راوی ہیں، اور عکرمہ بن عمار سے اس حدیث کی روایت میں سخت اضطراب کا شکار ہوئے، لیکن متابعت اور شاہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣١٢٠ ، و صحیح ابی داود : ١١ /م، و تراجع الالبانی، رقم : ٧ ) اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے، اس میں ہلال بن عیاض کے بجائے عیاض بن ہلال ہے، محمد بن یحییٰ کہتے ہیں : یہی صحیح ہے۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے لیکن اس سند میں عیاض بن عبداللہ ہے۔
قضاء حاجت کے لئے جمع ہونا اور اس وقت گفتگو کرنا منع ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٨ (٢٨١) ، سنن النسائی/ الطہا رة ٣١ (٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٣٤١، ٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ٹھہرے ہوئے پانی سے مراد وہ پانی ہے جو نہر اور دریا کے پانی کی طرح جاری نہ ہو، جیسے گڑھا، جھیل اور تالاب وغیرہ کا پانی ان میں پیشاب کرنا منع ہے، تو پاخانہ کرنا بدرجہ اولیٰ منع ہوگا۔ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے ہی سڑاند پیدا ہوجاتی ہے اور وہ بدبودار ہوجاتا ہے، اگر اس میں مزید نجاست اور گندگی ڈال دی جائے، تو یہ پانی مزید بدبودار ہوجائے گا، اور اس کی سڑاند سے قرب و جوار کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی، اور صحت عامہ میں خلل پیدا ہوگا، اور ماحول آلودہ ہوگا۔
قضاء حاجت کے لئے جمع ہونا اور اس وقت گفتگو کرنا منع ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی شخص ہرگز پیشاب نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣٦ (٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضو ٦٩ (٢٣٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٨ (٢٨٢) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٦ (٥٨) ، مسند احمد (٢/٣١٦، ٣٤٦، ٣٦٢، ٤٦٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٤ (٧٥٧) (حسن صحیح )
قضاء حاجت کے لئے جمع ہونا اور اس وقت گفتگو کرنا منع ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی شخص ہرگز پیشاب نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٩٣، ومصباح الزجاجة : ١٤٢) (ضعیف) (سند میں اسحاق بن عبداللہ أبی فروہ متروک ہیں، لیکن ابوہریرہ (رض) سے یہ الماء الدائم کے لفظ سے صحیح اور متفق علیہ ہے، کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو : سنن ابی داود : ٦٩ -٧٠ )
پیشاب کے معاملے میں شدت
عبدالرحمٰن بن حسنہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک ڈھال تھی، آپ ﷺ نے اسے رکھا اور اس کی آڑ میں بیٹھ کر پیشاب کیا، کچھ لوگوں نے (بطور استہزاء) کہا کہ انہیں دیکھو ایسے پیشاب کرتے ہیں جیسے عورت پیشاب کرتی ہے، نبی اکرم ﷺ نے سنا اور فرمایا : افسوس ہے تم پر، بنی اسرائیل کے ایک شخص کو جو مصیبت پہنچی، تمہیں اس کی خبر نہیں ؟ ان کے کپڑوں میں پیشاب لگ جاتا تو اسے قینچی سے کاٹتے تھے، ایک شخص نے انہیں اس عمل سے روک دیا، تو اسے اس کی قبر میں عذاب دیا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١١ (٢٢) ، سنن النسائی/الطہارة ٢٦ (٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٣) ، مسند احمد (٤/ ١٩٦) (صحیح ) اس سند سے بھی اعمش نے ایسی ہی حدیث ذکر کی ہے۔
پیشاب کے معاملے میں شدت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر دو نئی قبروں کے پاس سے ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور یہ عذاب کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل تھا) ، ایک شخص تو پیشاب (کی چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا غیبت (چغلی) کیا کرتا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٦ (٢١٦) ، ٥٧ (٢١٨) ، الجنائز ٨١ (١٣٦١) ، ٨٨ (١٣٧٨) ، الأدب ٤٦ (٦٥٥٢) ، ٤٩ (٦٠٥٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٤ (٢٩٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ١١ (٢٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٣ (٧٠) ، سنن النسائی/الطہارة ٢٧ (٣١) ، الجنائز ١١٦ (٢٠٧٠، ٢٠٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١ /٢٢٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦١ (٧٦٦) (صحیح )
پیشاب کے معاملے میں شدت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زیادہ تر قبر کا عذاب پیشاب کی وجہ سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠١، ومصباح الزجاجة : ١٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٦، ٣٨٨، ٣٨٩) (صحیح )
پیشاب کے معاملے میں شدت
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور یہ عذاب کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے (جس سے بچنا مشکل تھا) ایک شخص کو تو پیشاب کی چھینٹے سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے، اور دوسرا غیبت (چغلی) کرنے کی وجہ سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥، ٣٩) (حسن صحیح )
جس کو سلام کیا جائے جبکہ وہ پیشاب کر رہا ہو
مہاجر بن قنفذ بن عمرو بن جدعان (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ وضو فرما رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا، پھر جب آپ ﷺ وضو سے فارغ ہوئے تو فرمایا : تمہارے سلام کا جواب دینے میں رکاوٹ والی چیز یہ تھی کہ میں باوضو نہ تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨ (١٧) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٤ (٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٥، ٥/٨٠) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٣ (٢٦٨٣) (صحیح ) اس سند سے بھی سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح کی روایت ذکر کی ہے۔
جس کو سلام کیا جائے جبکہ وہ پیشاب کر رہا ہو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پیشاب کر رہے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس سے گزرا، اس شخص نے آپ کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب نہ دیا، جب آپ ﷺ پیشاب سے فارغ ہوگئے تو اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پہ ماریں، اور تیمم کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٠١، ومصباح الزجاجة : ١٤٥) (صحیح) (اس سند میں ضعف ہے اس لئے کہ مسلمہ بن علی ضعیف ہیں، ابی اور صحیحین میں الأرض کے بجائے الجدار کے لفظ سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٢٥٦ )
جس کو سلام کیا جائے جبکہ وہ پیشاب کر رہا ہو
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ پیشاب کر رہے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس سے گزرا، اس نے آپ کو سلام کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : جب تم مجھے اس حالت میں دیکھو تو سلام نہ کرو، اگر تم ایسا کرو گے تو میں جواب نہ دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٦) (صحیح) (سوید بن سعید ضعیف راوی ہے، لیکن ان کی متابعت عیسیٰ بن یونس سے مسند أبی یعلی میں موجود ہے، اور منتقی ابن الجارود : ١ /٢٣، میں ابن عمر (رض) کا شاہد موجود ہے )
جس کو سلام کیا جائے جبکہ وہ پیشاب کر رہا ہو
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پیشاب کر رہے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس سے گزرا، اس نے آپ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحیض ٢٨ (٣٧٠) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٨ (١٦) ، سنن الترمذی/ الطہارة ٦٧ (٩٠) ، الاستئذان ٢٧ (٢٧٢٠) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٣ (٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٩٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سلام کا جواب نہیں دیا کا مطلب یہ ہے کہ فوری طور پر جواب نہیں دیا، نہ کہ مطلقاً جواب ہی نہیں دیا، کیونکہ حدیث نمبر ( ٣٥١ ) پر گزر چکا ہے کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ نے اپنی ہتھیلیاں زمین پر ماریں اور تیمم کیا، اس کے بعد سلام کا جواب دیا، اور سنن نسائی میں مہاجر بن قنفذ (رض) کی روایت میں ہے فلم يرد عليه السلام حتى توضأ فلما توضأ رد عليه وضو کرنے تک آپ ﷺ نے جواب نہ دیا، پھر جب وضو کرلیا تو سلام کا جواب دیا۔
پانی سے استنجا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی بھی نہ دیکھا کہ آپ پاخانہ سے نکلے ہوں اور پانی نہ لیا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ ہمیشہ پانی سے استنجاء کرتے تھے، کیونکہ پانی سے بھر پور طہارت حاصل ہوتی ہے۔
پانی سے استنجا کرنا
ابوایوب انصاری، جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ : فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين اس میں کچھ لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (سورة التوبة : 108) ، اتری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے انصار کی جماعت ! اللہ تعالیٰ نے طہارت کے بارے میں تمہاری تعریف کی ہے، تو وہ تمہاری کیسی طہارت ہے ، ان لوگوں نے کہا : ہماری طہارت یہ ہے کہ ہم لوگ نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، اور جنابت ہونے سے غسل کرتے ہیں، اور پانی سے استنجاء کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : (اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کا) یہی سبب ہے، لہٰذا تم لوگ اس طہارت پر کاربند رہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٦، ٢٣٣٧، ٣٤٦٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦) (صحیح) (یہ سند ضعیف ہے، عتبہ بن أبی حکیم ضعیف راوی ہیں، اور طلحہ نے ابو ایوب انصاری (رض) سے نہیں سنا، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٣٤ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آیت کا معنی یہ ہے کہ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ جل جلالہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے، اور ضمیر اس آیت میں مسجد قبا، یا مسجد نبوی کی طرف لوٹ رہی ہے، شاید پانی سے استنجا کرنے سے ہی ان کی تعریف کی گئی ہے، ورنہ غسل جنابت اور وضو مہاجرین بھی کرتے تھے۔
پانی سے استنجا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے سرین کو تین بار دھوتے تھے۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے بھی ایسے ہی کیا، تو اسے دوا اور پاکی دونوں پایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٤٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٢١٠) (ضعیف) (اس سند میں زیدالعمی و جابر جعفی اور شریک القاضی ضعیف ہیں ) اس سند سے بھی اسی کے ہم معنی روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : (مصباح الزجاجة : ٣٥٦، یہ سند بھی سابقہ سند کی طرح ضعیف ہے )
پانی سے استنجا کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ آیت کریمہ اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی : فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين اس میں کچھ لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (سورة التوبة : 108) ، ابوہریرہ (رض) نے فرمایا : وہ پانی سے استنجاء کرتے تھے تو ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢٣ (٤٤) ، سنن الترمذی/التفسیر سورة التوبة ١٠ (٣١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٠٩) (صحیح )
استنجا کے بعد ہاتھ زمین پر مل کر دھونا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قضائے حاجت کی، پھر پانی کے برتن سے استنجاء کیا پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑ کر دھویا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢٤ (٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٨٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطہارة ٤٣ (٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١١، ٤٥٤) (حسن) (سند میں شریک ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٣٥ ) وضاحت : ١ ؎: ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ پاخانہ کے بعد ہاتھ مٹی سے مل کر دھونا مسنون ہے، مقصد ہاتھوں کی صفائی و ستھرائی ہے جو مٹی صابن وغیرہ کے استعمال سے ہوجاتی ہے۔ اس سند سے بھی اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے۔
استنجا کے بعد ہاتھ زمین پر مل کر دھونا
جریر بن عبداللہ بجلی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ درختوں کی ایک جھاڑی میں داخل ہوئے، اور قضائے حاجت کی، جریر (رض) آپ ﷺ کے پاس پانی کا ایک برتن لے کر آئے تو آپ ﷺ نے اس سے استنجاء کیا، اور اپنا ہاتھ مٹی سے رگڑ کر دھویا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٤٣ (٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٠٧) ، وقد أخرجہ : دی/الطہارة ١٦ (٧٠٦) (حسن) (اس حدیث کی سند میں مذکور راوی ابراہیم کا سماع ان کے والد جریر بن عبد اللہ بجلی (رض) سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : اوپر کی حدیث نمبر : ٣٥٨ ، و صحیح ابی داود : ٣٥ ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ ہاتھ اچھی طرح سے صاف ہوجائے، اور نجاست کا اثر کلی طور پر زائل اور ختم ہوجائے۔
برتن ڈھانکنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنے مشکیزوں کے منہ باندھ کر اور برتنوں کو ڈھک کر رکھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٢ (٢٠١٣) ، سنن ابی داود/الجہاد ٨٣ (٦٠٤) ، مسند احمد (٣/٨٢) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھک کر رکھنا چاہیے تاکہ کھانے پینے کی چیز میں گرد و غبار نہ آنے پائے اور کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہے، نیز یہ حکم عام ہے، دن ہو یا رات، ٹھنڈی ہو یا گرمی۔
برتن ڈھانکنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے لیے رات کو تین برتن ڈھانپ کر رکھتی تھی، ایک برتن آپ کی طہارت (وضو) کے لیے، دوسرا آپ کی مسواک کے لیے، اور تیسرا آپ کے پینے کے لیے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٥٠) (آگے یہ کتاب الأشربہ میں آرہی ہے، (٣٤١٢) (ضعیف) (سند میں حريش بن الخريت ضعیف ہیں )
برتن ڈھانکنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے طہارت (وضو) کے برتن کو کسی دوسرے کے سپرد نہیں کرتے تھے، اور نہ اس چیز کو جس کو صدقہ کرنا ہوتا، بلکہ اس کا انتظام خود کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٣٥، ومصباح الزجاجة : ١٥١) (ضعیف جدًا) (سند میں علقمہ مجہول اور مطہر بن الہیثم ضعیف ومتروک راوی ہے، ابن حبان کہتے ہیں کہ وہ ایسی حدیث روایت کرتا ہے، جس پر کوئی اس کی متابعت نہیں کرتا، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٢٥٠ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اکثر عادت ایسی ہی تھی کہ وضو کرنے میں اور پانی لانے اور کپڑے پاک کرنے میں کسی سے مدد نہ لیتے، اور اگر کوئی بخوشی نبی اکرم ﷺ کی خدمت بجا لاتا تو اس کو بھی منع نہ کرتے، چناچہ اوپر کی روایت میں ابھی گزرا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے وضو کا پانی رکھتیں، اور عبداللہ بن مسعود (رض) صاحب اداوہ و نعلین مشہور تھے، یعنی وضو کے وقت نبی اکرم ﷺ کے لیے پانی والی چھاگل لانے اور آپ کے لیے جوتے لا کر رکھنے والے صحابی کی حیثیت سے آپ کی شہرت تھی، اور ثوبان (رض) نے نبی اکرم ﷺ کو وضو کرایا۔
کتا منہ ڈال دے تو برتن دھونا
ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی پیشانی پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا : اے عراق والو ! تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھتا ہوں تاکہ تم فائدے میں رہو اور میرے اوپر گناہ ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھوئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٧ (٢٧٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٢ (٦٦) ، المیاہ ٦ (٣٣٦) ، ٧ (٣٣٩، ٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٤١، ١٤٦٠٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٤ (١٧٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٧ (٧١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٦٨ (٩١) ، موطا امام مالک/الطہارة ٦ (٣٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٦٥، ٢٧١، ٣١٤، ٣٦٠، ٣٥٨، ٤٢٤، ٤٢٧، ٤٤٠، ٤٨٠، ٤٨٢، ٥٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح احادیث سے سات بار دھونا ہی ثابت ہے، تین بار دھونے کی روایت معتبر نہیں ہے، بعض لوگوں نے اسے بھی دیگر نجاستوں پر قیاس کیا ہے، اور کہا ہے کہ کتے کے برتن میں منہ ڈال دینے پر برتن تین بار دھونے سے پاک ہوجائے گا، لیکن اس قیاس سے نص کی یا ضعیف حدیث سے صحیح حدیث کی مخالفت ہے جو درست نہیں۔
کتا منہ ڈال دے تو برتن دھونا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھوئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٤ (١٧٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٧ (٢٧٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٥١ (٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٩) (صحیح )
کتا منہ ڈال دے تو برتن دھونا
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال کر پی لے تو اسے سات مرتبہ دھو ڈالو، اور آٹھویں مرتبہ مٹی مل کر دھوؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٧ (٢٨٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٧ (٧٤) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٣ (٦٧) ، المیاة ٧ (٣٣٧، ٣٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٥٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٩ (٧٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کے ظاہر سے ایسا معلوم ہوتا ہے آٹھویں بار دھونا بھی واجب ہے، بعض لوگوں نے تعارض دفع کرنے کے لئے ابوہریرہ (رض) کی روایت کو ترجیح دی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ ترجیح اس وقت دی جاتی ہے جب تعارض ہو، اور یہاں تعارض نہیں ہے، عبداللہ بن مغفل (رض) کی حدیث پر عمل کرنے سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث پر بھی عمل ہوجاتا ہے۔
کتا منہ ڈال دے تو برتن دھونا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کتا کسی کے برتن میں منہ ڈال دے، تو اسے سات مرتبہ دھوئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٣٥) (صحیح )
بلی کے جھوٹے سے وضو کرنے کی اجازت
کبشہ بنت کعب (رض) جو ابوقتادہ کی بہو تھیں کہتی ہیں کہ انہوں نے ابوقتادہ (رض) کے وضو کے لیے پانی نکالا تو ایک بلی آئی اور اس میں سے پینے لگی، ابوقتادہ (رض) نے اس کے لیے برتن جھکا دیا، میں ان کی جانب حیرت سے دیکھنے لگی تو انہوں نے کہا : بھتیجی ! تمہیں تعجب ہو رہا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : بلی ناپاک نہیں ہے وہ گھروں میں گھومنے پھرنے والوں یا والیوں میں سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣٨ (٧٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٦٩ (٩٢) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٤ (٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٣ (١٣) ، مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٨ (٧٦٣) (صحیح )
بلی کے جھوٹے سے وضو کرنے کی اجازت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے وضو کیا کرتے تھے اور اس سے پہلے بلی اس میں سے پی چکی ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٧، ومصباح الزجاجة : ١٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطھارة ٣٨ (٧٦) (صحیح) (حدیث کی سند میں حارثہ بن ابی الرجال ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٦٩ ، ٧٠ )
بلی کے جھوٹے سے وضو کرنے کی اجازت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلی نماز کو نہیں توڑتی، اس لیے کہ وہ گھر کے سامانوں میں سے ایک سامان ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٦٤، ومصباح الزجاجة : ١٥٣) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن أبی الزناد ضعیف اور مضطرب الحدیث ہیں، لیکن سنن کبری بیہقی میں ابوہریرہ (رض) سے موقوفا یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٥١٢ ) وضاحت : ١ ؎: عبیداللہ بن عبدالمجید کی کنیت ابوبکر نہیں بلکہ ابوعلی ہے، ابوبکر ان کے بھائی ہیں (ملاحظہ ہو : تہذیب الکمال )
عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے جواز میں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی نے لگن سے غسل کیا، پھر نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، اور اس بچے ہوئے پانی سے غسل یا وضو کرنا چاہا تو وہ بولیں : اے اللہ کے رسول ! میں ناپاک تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : پانی ناپاک نہیں ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣٥ (٦٨) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٨ (٦٥) ، سنن النسائی/المیاة (٣٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٥، ٢٨٤، ٣٠٨، ٣٣٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٧ (٧٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جنبی مرد یا عورت اگر برتن میں ہاتھ دھو کر یا ہاتھ وغیرہ ڈال دیں یا اس میں سے نکال کر استعمال کریں تو باقی پانی ناپاک نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے وضو اور غسل جائز ہے تو وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔
عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے جواز میں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی نے غسل جنابت کیا، پھر ان کے بچے ہوئے پانی سے نبی اکرم ﷺ نے وضو یا غسل کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )
عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے جواز میں
ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے غسل جنابت سے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٧١، ومصباح الزجاجة : ١٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٠) (صحیح) (سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، اور سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن دونوں کی متابعت موجود ہے، اس لئے کہ حاکم نے مستدرک ( ١ /١٥٩) میں اس حدیث کو محمد بن بکر سے، اور انہوں نے شعبہ سے، اور شعبہ نے سماک سے روایت کیا ہے، اور شعبہ اپنے مشائخ سے صرف صحیح احادیث ہی روایت کرتے ہیں، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : فتح الباری ( ١ /٣٠٠) ، نیز محمد بن بکر نے شریک کی متابعت کی ہے۔
اس کی ممانعت
حکم بن عمرو غفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کو عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٠ (٨٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٧ (٦٤) ، سنن النسائی/المیاہ ١١ (٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٣، ٥/٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے پاکی حاصل کرنے کے جواز اور عدم جواز کے سلسلے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں، لہٰذا ممانعت یا عدم جواز کی روایات کو اس پانی پر محمول کیا جائے، جو اعضاء کو دھوتے وقت گرا ہو، یا ان میں وارد ممانعت نہی تنزیہی ہے، تحریمی نہیں، یعنی نہ کرنا اولیٰ اور بہتر ہے، جواز کی روایتوں کو برتن میں بچے ہوئے پانی پر محمول کیا جائے، اس صورت میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
اس کی ممانعت
عبداللہ بن سرجس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے اور عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے، البتہ دونوں ایک ساتھ شروع کریں۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : صحیح پہلی حدیث یعنی حکم بن عمرو (رض) کی ہے، اور دوسری حدیث یعنی عبداللہ بن سرجس (رض) کی وہم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اوپر کی حدیث ( ٣٧٣ ) صحیح ہے، امام ترمذی کہتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا : عبداللہ سرجس کی اس باب میں حدیث موقوف صحیح ہے، جس نے اسے مرفوع بیان کیا غلطی کی (سنن ترمذی : ١ / ١٩٣) ۔ اس سند سے بھی اسی کی ہم معنی حدیث آئی ہے۔
اس کی ممانعت
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، اور کوئی ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل نہیں کرتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٥١، ومصباح الزجاجة : ١٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٧) (ضعیف) (اس سند میں الحارث الاعور ضعیف راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎: ظاہر یہ ہے کہ غسل ایک کا دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے جائز ہے، مگر نہی جو وارد ہوئی ہے تنزیہی ہے، یعنی نہ کرنا اولیٰ اور بہتر ہے۔
مردو عورت کا ایک ہی برتن سے غسل
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣١٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٨ (٧٢) ، ١٤٤ (٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٩، ١٦٥٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢ (٢٥٠) ، ١٩ (٢٦١) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٩ (٧٧) ، الغسل ٨ (٤١١) ، مسند احمد (٦/١٧١، ٢٦٥، ١٧٢، ٢٣٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٨ (٧٧٦) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٦٠٤) (صحیح )
مردو عورت کا ایک ہی برتن سے غسل
ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣١٩) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٦ (٦٢) سنن النسائی/الطہارة ١٤٦ (٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٩) (صحیح )
مردو عورت کا ایک ہی برتن سے غسل
ام ہانی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور میمونہ (رض) نے لگن جیسے ایک برتن سے غسل کیا جس میں آٹے کے اثرات تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٤٩ (٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٢) (صحیح )
مردو عورت کا ایک ہی برتن سے غسل
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٥، ومصباح الزجاجة : ١٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٧) (صحیح) (اس سند کی بوصیری نے تحسین کی ہے، اور اس میں شریک القاضی سئ الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے )
مردو عورت کا ایک ہی برتن سے غسل
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢١ (٣٢٢) ، صحیح مسلم/الحیض ٤٩ (٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٢، ١١٦، ١٢٠٩، ١٢٤، ٢٠، ٢٤٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٨ (٧٧٧) (صحیح )
مرد اور عورت کا ایک برتن سے وضو کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مرد و عورت رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک ہی برتن سے وضو کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٣ (١٩٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٩ (٧٩) ، سنن النسائی/الطھارة ٥٧ (٧١) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٥٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٣ (١٥) ، مسند احمد (٢/٤، ١٠٣) (صحیح )
مرد اور عورت کا ایک برتن سے وضو کرنا
ام صبیہ جہنیہ خولہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ اکثر میرا اور رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ ایک ہی برتن سے وضو کرتے وقت ٹکرا جایا کرتا تھا۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : میں نے محمد کو کہتے ہوئے سنا کہ ام صبیہ یہ خولہ بنت قیس ہیں اور میں نے اس کا ذکر ابوزرعہ سے کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣٩ (٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٦، ٣٦٧) (حسن صحیح )
مرد اور عورت کا ایک برتن سے وضو کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ اور نبی اکرم ﷺ دونوں نماز کے لیے ایک ہی ساتھ وضو کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٠٤) (صحیح )
نبیذ سے وضو کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے لیل ۃ الجن (جنوں سے ملاقات والی رات) میں فرمایا : کیا تمہارے پاس وضو کا پانی ہے ؟ ، انہوں نے کہا : برتن میں تھوڑے سے نبیذ کے سوا کچھ نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ پاک کھجور اور پاک پانی کا شربت ہے ، پھر آپ ﷺ نے وضو کیا ١ ؎۔ یہ وکیع کی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٢ (٨٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٦٥ (٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٢، ٤٤٩، ٤٥٠، ٤٥٨) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں أبوزید مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اور بعد کی حدیث تمام محدثین کے نزدیک سخت ضعیف ہے، اور بقول امام طحاوی قابل استدلال نہیں، خود عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ وہ لیل ۃ الجن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ تھے، لہذا نبیذ سے وضو درست نہیں، جمہور کا مذہب یہی ہے۔
نبیذ سے وضو کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابن مسعود (رض) سے لیل ۃ الجن میں فرمایا : کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، چھاگل (مشک) میں نبیذ کے سوا کچھ نہیں ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ پاک کھجور اور پاک پانی ہے، میرے اوپر ڈالو ، عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : میں نے انڈیلا اور آپ ﷺ نے وضو کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤١٦، ومصباح الزجاجة : ١٥٨) (ضعیف) (سند میں حنش ابن لہیعہ دونوں ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: نبیذ وہ پانی ہے جس میں کھجور ڈال کر رات بھر بھگو یا جائے، جس کی وجہ سے پانی قدرے میٹھا ہوجائے، اور اس کا رنگ بھی بدل جائے، وہ نبیذ کہلاتا ہے۔ لیل ۃ الجن: وہ رات ہے جس میں نبی اکرم ﷺ جنوں کو ہدایت کے لئے مکہ سے باہر تشریف لے گئے تھے، اور ان سے ملاقات کی، اور ان کو دعوت اسلام دی، اور وہ مشرف بہ اسلام ہوئے، رسول اللہ ﷺ کا جنوں کے پاس جانا چھ مرتبہ ثابت ہے، پہلی بار کا واقعہ مکہ میں پیش آیا، اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ ابن مسعود (رض) نہیں تھے جیسا کہ صحیح مسلم اور سنن ترمذی کے اندر سورة احقاف کی تفسیر میں مذکور ہے، دوسری مرتبہ کا واقعہ مکہ ہی میں جبل حجون پر پیش آیا، تیسرا واقعہ اعلی مکہ میں پیش آیا، جب کہ چوتھا مدینہ میں بقیع غرقد کا ہے، ان تینوں راتوں میں ابن مسعود (رض) آپ ﷺ کے ساتھ تھے، پانچواں واقعہ مدنی زندگی میں مدینہ سے باہر پیش آیا، اس موقع پر آپ ﷺ کے ساتھ زبیر بن العوام (رض) تھے، چھٹا واقعہ آپ ﷺ کے کسی سفر کا ہے اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ بلال بن حارث (رض) تھے (ملاحظہ ہو : الکوکب الدری شرح الترمذی) ۔
سمندری پانی سے وضو کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی رکھتے ہیں، اگر ہم اس پانی سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرلیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا پانی بذات خود پاک ہے، اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اس کا مردار حلال ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤١ (٨٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٢ (٦٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٧ (٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٣ (١٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٧، ٣٦، ٣٧٨) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٣ (٧٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سمندر کا مردار حلال ہے : اس سے مراد حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مرگئے اور سمندر نے ان کو ساحل پر ڈال دیا، اسی کو آیت أحل لکم صيد البحر وطعامه (سورة المائدة : 96) میں طَعام سے تعبیر کیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ ہے جو خشکی پر زندہ نہ رہ سکے جیسے مچھلی، تو مچھلی تمام اقسام کی حلال ہیں، رہے دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں، اگر کسی جانور کا نص شرعی سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا کھانا مروی ہے، اور وہ ان کے زمانے میں موجود تھا، تو اس کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
سمندری پانی سے وضو کرنا
ابن الفراسی کہتے ہیں کہ میں شکار کیا کرتا تھا، میرے پاس ایک مشک تھی، جس میں میں پانی رکھتا تھا، اور میں نے سمندر کے پانی سے وضو کرلیا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا پانی پاک ہے، اور پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٥٩) (صحیح) (مسلم بن مخشی نے فراسی سے نہیں سنا، ابن الفراسی سے سنا ہے، اور ابن الفراسی صحابی نہیں ہیں، اور دراصل یہ حدیث ابن الفراسی نے اپنے باب فراسی سے روایت کی ہے، جو لگتا ہے کہ اس طریق سے ساقط ہوگئے ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
سمندری پانی سے وضو کرنا
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سمندر کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٩٢، ومصباح الزجاجة : ١٦٠) (حسن صحیح ) اس سند سے بھی جابر (رض) سے اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے۔
وضو میں کسی سے مدد طلب کرنا اور اس کا پانی ڈالنا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی کسی حاجت کے لیے تشریف لے گئے، جب آپ واپس ہوئے تو میں لوٹے میں پانی لے کر آپ سے ملا، میں نے پانی ڈالا، آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں بازو دھونے لگے تو جبہ کی آستین تنگ پڑگئی، آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکال لیے، انہیں دھویا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧ (٣٦٣) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٢٧٤) ، سنن النسائی/الطہارة ٦٦ (٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٩ (١٤٩) ، موطا امام مالک/الطہارة ٨ (٤١) ، حم ٤/٢٥٥، سنن الدارمی/الطہارة ٤١ (٧٤٠) (صحیح) (یہ مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٥٤٥ )
وضو میں کسی سے مدد طلب کرنا اور اس کا پانی ڈالنا
ربیع بنت معوذ (رض) کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس وضو کا برتن لے کر آئی، آپ ﷺ نے فرمایا : پانی ڈالو ١ ؎، میں نے پانی ڈالا، آپ ﷺ نے اپنا چہرہ اور اپنے دونوں بازو دھوئے اور نیا پانی لے کر سر کے اگلے اور پچھلے حصے کا مسح کیا، اور اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٢٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٥ (٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦١) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٤ (٧١٧) (حسن) (سند میں شریک القاضی سئ الحفظ ضعیف راوی ہیں، اس لئے مَائً جَدِيداً کا لفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١١٧ - ١٢٢ ) وضاحت : ١ ؎: اوپر کی ان تینوں احادیث سے معلوم ہوا کہ وضو میں تعاون لینا درست ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں۔
وضو میں کسی سے مدد طلب کرنا اور اس کا پانی ڈالنا
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو سفر و حضر میں کئی بار وضو کرایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٦، ومصباح الزجاجة : ١٦١) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ولید بن عقبہ مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: وضو کرانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی ڈالتے اور آپ ﷺ وضو کرتے۔
وضو میں کسی سے مدد طلب کرنا اور اس کا پانی ڈالنا
رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ کی لونڈی ام عیاش (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو وضو کراتی تھی، میں کھڑی ہوتی تھی اور آپ بیٹھے ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٠، ومصباح الزجاجة : ١٦٢) (ضعیف) (یہ سند ضعیف ہے اس لئے کہ عبد الکریم بن روح ضعیف، اور روح بن عنبسہ مجہول راوی ہیں )
جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو ہاتھ کہاں لگا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص رات کو سو کر بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، جب تک کہ دو یا تین مرتبہ اس پہ پانی نہ بہا لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ١٩ (٢٤) ، سنن النسائی/الغسل ٢٩ (٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٦ (١٦٢) ولیس عندہ ذکر العدد، صحیح مسلم/الطہارة ٢٦ (٢٧٨) ، سنن ابی داود/الطہارة ٤٩ (١٠٣) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢ (٩) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٣، سنن الدارمی/الطہارة ٧٨ (٧٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دن کو سو کر اٹھے جب بھی یہی حکم ہے کہ دھوئے بغیر ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، اور یہ نہی تنزیہی ہے، یعنی ہاتھ دھلنا فرض نہیں ہے، بلکہ اچھا اور مستحب ہے۔
جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو ہاتھ کہاں لگا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص سو کر اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ٦٨٩٤، ومصباح الزجاجة : ١٦٣) (صحیح )
جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو ہاتھ کہاں لگا۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص نیند سے اٹھے، اور وضو کرنا چاہے تو اپنا ہاتھ وضو کے پانی میں نہ ڈالے، جب تک کہ اسے دھو نہ لے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا، اور اس نے اسے کس چیز پہ رکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٣، ومصباح الزجاجة : ١٦٤) (منکر) (اس حدیث میںولا على ما وضعها کا لفظ منکر ہے، اور صحیح مسلم میں یہ حدیث اس کے بغیر موجود ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٩٣ )
جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو ہاتھ کہاں لگا۔
حارث کہتے ہیں کہ علی (رض) نے پانی منگایا اور برتن میں ہاتھ داخل کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ١٠٠٥٢ ، ومصباح الزجاجة : ١٦٥ ) (صحیح) سند میں حارث ضعیف ہے، اور ابواسحاق ثقہ لیکن مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٩٤، ٩٧، ١٠٠، ١٠١، ١٠٦، ١٠٩، ١١١ )
وضو میں بسم اللہ کہنا
ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو وضو سے پہلے بسم اللہ نہ کہے اس کا وضو نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٢٨، ومصباح الزجاجة : ٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطہارة ٢٥ (٧١٨) (حسن) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨١ )
وضو میں بسم اللہ کہنا
سعید بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں، اور جس نے بسم اللہ نہیں کہا، اس کا وضو نہیں ہوا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٢٠ (٢٥) ، دون قو لہ : ” لا صلاة لمن لا وضوء لہ “ (تحفة الأشراف : ٤٤٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٨ (١٠١) ، مسند احمد (٤/٧٠، ٥/٣٨١، ٦/٣٨٢) (حسن )
وضو میں بسم اللہ کہنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں، اور جس نے بسم اللہ نہیں کہا، اس کا وضو نہیں ہوا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٨ (١٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٤١٨) (حسن )
وضو میں بسم اللہ کہنا
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں، جس کا وضو نہیں، اور اس شخص کا وضو نہیں جو وضو کے وقت بسم اللہ نہ پڑھے، اور اس شخص کی نماز نہیں جو نبی اکرم ﷺ پہ درود نہ بھیجے، اور اس شخص کی نماز نہیں جو انصار سے محبت نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٢، ومصباح الزجاجة : ١٦٨) (منکر) (سند میں عبدالمہیمن ضعیف اور منکر الحدیث ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف اور منکر ہے، پہلا ٹکڑا شواہد کی بناء پر ثابت ہے، لیکن دوسرا ٹکڑا : لا صلاة لمن لا يصلي ۔۔۔ الخ منکر ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢١٦٦ ، ٤٨٠٦ ) اس سند سے بھی اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے۔
وضو میں دائیں کا خیال رکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب طہارت (وضو و غسل) کرتے اور جب کنگھا کرتے، اور جب جوتے پہنتے تو دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٨) ، الصلاة ٤٧ (٤٢٦) ، الأطعمة (٥٣٨٠) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٩ (٢٦٨) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٤ (٤١٤٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣١١ (٦٠٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٩٠ (١١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٤، ١٣٠، ١٤٧، ١٨٨، ٢٠٢، ٢١٠) (صحیح )
وضو میں دائیں کا خیال رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم وضو کرو تو داہنے اعضاء سے شروع کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٤ (٤١٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ وضو میں پہلے داہنا ہاتھ دھوئے، اور جوتا پہلے داہنے پاؤں میں پہنے، اسی طرح کنگھی پہلے سر کے داہنی طرف کرے پھر بائیں طرف، یہی مسنون ہے، اور نبی اکرم ﷺ کی یہی عادت مبارکہ تھی۔ اس سند سے بھی اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے۔
ایک چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی چلو سے کلی کی، اور ناک میں پانی چڑھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطہارة ٧ (١٤٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٨ (٣٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٥ (١٠٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٢ (١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٨، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٩ (٧٢٤) (صحیح )
ایک چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور ایک ہی چلو سے تین بار کلی کی، اور تین بار ناک میں پانی ڈالا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٦، ومصباح الزجاجة : ١٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١١١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٧ (٤٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٧٤ (٩١) ، ٧٥ (٩٢) ، ٧٦ (٩٣) ، ٧٧ (٩٤) ، مسند احمد (١/١٢٢) (صحیح )
ایک چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
عبداللہ بن زید انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے وضو کے لیے پانی مانگا، ہم نے پانی حاضر کیا تو آپ ﷺ نے ایک ہی چلو سے کلی کی، اور ناک میں پانی ڈالا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٨ (١٨٥) ، ٣٩ (١٨٦) ، ٤١ (١٩١) ، ٤٢ (١٩٢) ، ٤٥ (١٩٧) ، ٤٦ (١٩٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٧ (٢٣٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٤ (٣٢) ، ٣٦ (٤٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٤٧ (١٠٠) ، ٥٠ (١١٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٠ (٩٧) ، ٨١ (٩٨) ، ٨٢ (٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ١ (١) ، مسند احمد (٤/٣٨، ٣٩، ٤٠، ٤٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٧ (٧٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ایک ہی چلو سے کلی بھی کرتے تھے اور ناک میں پانی بھی چڑھاتے تھے، بعض روایتوں سے دونوں کے لئے الگ الگ پانی لینے کا ثبوت ملتا ہے، اس سلسلہ میں دونوں طرح کی روایات آتی ہیں، لیکن ایک چلو میں دونوں کو جمع کرنے کی روایات تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور صحیح بھی ہیں۔
خوب اچھی طرح ناک میں پانی ڈالنا اور ناک صاف کرنا
سلمہ بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تم وضو کرو تو ناک جھاڑو، اور جب استنجاء کرو تو طاق ڈھیلے استعمال کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٢١ (٢٧) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٩ (٤٣) ، ٧٢ (٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٣، ٣٣٩) (صحیح )
خوب اچھی طرح ناک میں پانی ڈالنا اور ناک صاف کرنا
لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے ! آپ ﷺ نے فرمایا : تم مکمل طور پر وضو کرو، اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو، الا یہ کہ تم روزے سے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٥ (١٤٢) ، الصوم ٢٧ (٢٣٦٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٠ (٣٨) ، الصوم ٦٩ (٧٨٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٧١ (٨٧) ، ٩٢ (١١٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) ، وأخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٤ (٧٣٢) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤٤٨ )
خوب اچھی طرح ناک میں پانی ڈالنا اور ناک صاف کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو بار یا تین بار اچھی طرح ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٥ (١٤١) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٨، ٣١٥، ٣٥٢) (صحیح )
خوب اچھی طرح ناک میں پانی ڈالنا اور ناک صاف کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص وضو کرے تو اچھی طرح ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑے، اور جب استنجاء کرے تو طاق ڈھیلے استعمال کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٥ (١٦١) ، صحیح مسلم/الطہارة ٨ (٢٣٧) ، سنن النسائی/الطہارة ٧٢ (٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہار ة ١ (٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٧، ٤٠١) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٢ (٧٣٠) (صحیح )
وضو میں اعضاء کا ایک ایک بار دھونا
ثابت بن ابوصفیہ ثمالی کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر سے پوچھا : کیا آپ کو جابر بن عبداللہ (رض) سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو میں اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھویا، کہا : ہاں، میں نے کہا : اور دو دو بار اور تین تین بار ؟ کہا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٣٥ (٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٢) (ضعیف) (سند میں ثابت بن ابی صفیہ ضعیف اور رافضی ہے اس لئے یہ ضعیف ہے، اور شریک القاضی سیٔ الحفظ، لیکن اصل متن شواہد کی بناء پر ثابت ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٤٢٢ )
وضو میں اعضاء کا ایک ایک بار دھونا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اعضاء وضو کو ایک ایک چلو سے دھویا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٢ (١٥٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٣ (١٣٨) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٢ (٤٢) ، سنن النسائی/الطہارة ٦٤ (٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٣٣٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٩ (٧٢٤) (صحیح )
وضو میں اعضاء کا ایک ایک بار دھونا
عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو غزوہ تبوک میں دیکھا کہ آپ نے اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھویا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٣ (٤٢ تعلیقاً ) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣) (حسن) (سند میں رشدین بن سعد ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شاید کی بناء پر یہ حدیث قوی ہے )
وضو میں اعضاء تین بار دھونا
شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان اور علی (رض) کو دیکھا کہ وہ اعضاء وضو کو تین تین بار دھوتے تھے، اور کہتے تھے : رسول اللہ ﷺ کا وضو ایسا ہی تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١١٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٤ (٤٤) (صحیح ) اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضو میں اعضاء تین بار دھونا
مطلب بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھویا، اور اس کو نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٦٥ (٨١) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٥٨) (صحیح) (سند میں ولید اور مطلب کثیر التدلیس راوی ہیں، اور دونوں نے عنعنہ سے روایت کی ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے، ان متعدد احادیث سے ثابت ہوا کہ شریعت نے آسانی کے لئے تین تین بار، دو دو بار، اور ایک ایک بار اعضاء وضو کو دھونا سب مشروع رکھا ہے جس طرح آسان ہو کرے۔
وضو میں اعضاء تین بار دھونا
ام المؤمنین عائشہ اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھویا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٣٢، ١٧٦٧٠) (صحیح) (سند میں خالد بن حیان ہیں، جو روایت میں غلطیاں کرتے ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے )
وضو میں اعضاء تین بار دھونا
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھویا، اور سر کا مسح ایک بار کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٩، ومصباح الزجاجة : ١٧١) (صحیح) (اس حدیث میں فائد بن عبد الرحمن متروک و منکر الحدیث راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٠٠ )
وضو میں اعضاء تین بار دھونا
ابومالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اعضاء وضو کو تین تین بار دھوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٩) (صحیح) (اس حدیث کے راوی لیث بن أبی سلیم اور شہر بن حوشب دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : احادیث باب ہذا )
وضو میں اعضاء تین بار دھونا
ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھویا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٤٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٢٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٥ (٣٣) ، مسند احمد (٦/٣٥٩) (حسن صحیح )
وضو میں اعضاء ایک بار، دو بار اور تین بار دھونا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھویا، اور فرمایا : یہ اس شخص کا وضو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بغیر نماز قبول نہیں فرماتا ، پھر دو دو بار دھویا، اور فرمایا : یہ ایک مناسب درجے کا وضو ہے ، اور پھر تین تین بار دھویا، اور فرمایا : یہ سب سے کامل وضو ہے اور یہی میرا اور اللہ کے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کا وضو ہے، جس شخص نے اس طرح وضو کیا ، پھر وضو سے فراغت کے بعد کہا : أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں، وہ جس سے چاہے داخل ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٦٠، ومصباح الزجاجة : ١٧٣) (ضعیف جدًا) (سند میں عبدالرحیم متروک ہے، ابن معین نے ” کذاب خبیث “ کہا ہے، نیز اس میں زید العمی ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٧٣٥ ، والإرواء : ٨٥ )
وضو میں اعضاء ایک بار، دو بار اور تین بار دھونا
ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کا پانی منگایا، اور ایک ایک مرتبہ اعضائے وضو کو دھویا، اور فرمایا : یہ وضو کے صحیح ہونے کی لازمی مقدار ہے ، یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا : یہ اس کا وضو ہے کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کسی کی کوئی بھی نماز قبول نہیں فرماتا ، پھر آپ ﷺ نے اعضاء وضو کو دو دو بار دھویا، اور فرمایا : یہ وضو اس درجہ کا ہے کہ جو ایسا وضو کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو دوہرا اجر دے گا ، پھر آپ ﷺ نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھویا، اور فرمایا : یہ میرا وضو ہے، اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام کا وضو ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥، ومصباح الزجاجة : ١٧٤) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن عرادة اور زید الحواری ” العمی “ دونوں ضعیف ہیں )
وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وضو میں وسوسہ ڈالنے کے کام کے لیے ایک شیطان ہے جس کو ولہان کہا جاتا ہے، لہٰذا تم پانی کے وسوسوں سے بچو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٤٣ (٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢٦) (ضعیف جدًا) (سند میں خارجہ بن مصعب متروک راوی ہے، اور کذابین سے تدلیس کرتا ہے )
وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا، اور آپ سے وضو کے سلسلے میں پوچھا، آپ ﷺ نے تین تین بار وضو کر کے اسے دکھایا، پھر فرمایا : یہی (مکمل) وضو ہے، لہٰذا جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے برا کیا، یا حد سے تجاوز کیا، یا ظلم کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥١ (١٣٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٤ (١٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٠) (حسن صحیح )
وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ (رض) کے پاس رات بسر کی، نبی اکرم ﷺ رات میں بیدار ہوئے، اور آپ نے ایک پرانے مشکیزے سے بہت ہی ہلکا وضو کیا، میں بھی اٹھا اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے نبی اکرم ﷺ نے کیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥ (١٣٨) ، والأذان ١٦١ (٧٢٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٧ (٢٣٢) ، سنن النسائی/ الغسل ٢٩ (٤٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٠، ٢٤٤، ٢٨٣، ٣٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بہت جلد اور تھوڑے پانی سے وضو کیا، اور یہ وقت تہجد کا تھا۔
وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : اسراف (فضول خرچی) نہ کرو، اسراف (فضول خرچی) نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٩٠) (موضوع) (اس میں بقیہ مدلس، محمد بن الفضل کذاب اور فضل بن عطیہ ضعیف راوی ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٧٨٢ )
وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سعد (رض) کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کیسا اسراف ہے ؟ ، انہوں نے کہا : کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢١) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ١١٠ ، سند میں ابن لہیعہ ضعیف، اور حیی بن عبداللہ صاحب وھم راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الارواء : ١٤٠ ، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٢٩٢ ، وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٧٨٢ ) وضاحت : ١ ؎: ان احادیث سے وضو میں بھی فضول خرچی منع ہے، آج کل بلاوجہ پانی زیادہ بہانے کا رواج ہوگیا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کا خاص خیال رکھیں، اور بلا ضرورت پانی نہ بہائیں۔
خوب اچھی طرح وضو کرنا
ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کامل وضو کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣١ (٨٠٨) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢٣ (١٧٠١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٦ (١٤١) ، الخیل ٩ (٣٦١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٢٢٥، ٢٣٢، ٢٣٤، ٢٤٩، ٢٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسباغ الوضوء کے معنی ہیں، ہر اس عضو تک جس کا دھونا وضو میں ضروری ہے، پوری طرح احتیاط کے ساتھ پانی پہنچانا، تاکہ کوئی جگہ سوکھی نہ رہ جائے۔
خوب اچھی طرح وضو کرنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے ؟ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اللہ کے رسول ! ضرور بتائیے ! آپ ﷺ نے فرمایا : ناپسندیدگی کے باوجود مکمل وضو کرنا ١ ؎، اور مسجدوں کی جانب دور سے چل کر جانا ٢ ؎، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٦، ومصباح الزجاجة : ١٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ٣٩ (٥١) ، مسند احمد (٣/٣، ١٦، ٩٥) ، دي الطہارة ٣٠ (٧٢٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سخت سردی اور بیماری کے باوجود (جس میں پانی کا استعمال سخت ناپسندیدہ کام ہوتا ہے) ، مکمل وضو کرنا۔ ٢ ؎: یہ مسجد سے گھر دور ہونے کی صورت میں حاصل ہوگا، اسی طرح اس سے مراد بار بار مسجد جانا بھی ہوسکتا ہے۔
خوب اچھی طرح وضو کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : غلطیوں کے کفارے یہ ہیں : اس وقت کامل وضو کرنا جب دل نہ چاہتا ہو، اور مسجدوں کی طرف (چلنے کے لیے) پاؤں کام میں لانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٤ (٢٥١) أتم منہ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٩ (٥١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٧ (١٤٣) ، مسند احمد (٢/٢٧٧، ٢/٣٠٣) (صحیح )
داڑھی میں خلال کرنا
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٢٣ (٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: داڑھی کے بالوں کا خلال مستحبات وضو میں سے ہے، جن کی داڑھی گھنی ہو انہیں اس کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، اسی طرح انگلیوں کے خلال کا بھی خیال رکھنا چاہیے، اگر یہ احساس ہو کہ پانی نہیں پہنچا ہوگا تو ضروری ہے۔
داڑھی میں خلال کرنا
عثمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنی داڑھی میں خلال کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٢٣ (٣١) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٠٩) ، مسند احمد (١/٥٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٣ (٧٣١) (صحیح )
داڑھی میں خلال کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو اپنی داڑھی میں دو بار خلال کرتے، اور اپنی انگلیوں میں بھی دو بار خلال کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٧٧) (صحیح) (سند میں یحییٰ بن کثیر اور یزید بن أبان الرقاشی دونوں ضعیف ہیں، لیکن یہ حدیث مرتين کے لفظ کے بغیر صحیح ہے، سنن أبی داود : ١٤٥ ، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابن ماجہ : ٣٥١ ، و الإرواء : ٣٥١ )
داڑھی میں خلال کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو اپنے گال کے دونوں طرف کچھ ملتے، پھر اپنی داڑھی میں انگلیوں کو نیچے سے داخل کر کے خلال کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٧٨) (ضعیف) (اس میں عبد الواحد بن قیس مختلف فیہ راوی ہیں، نیزملا حظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٢٢ )
داڑھی میں خلال کرنا
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنی داڑھی کا خلال کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٩٧، ومصباح الزجاجة : ١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ٤١٧) (صحیح) (واصل الرقاشی اور أبو سورة دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، کما تقدم )
سر کا مسح
یحییٰ بن عمارہ بن ابی حسن مازنی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے نانا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری مازنی (رض) سے کہا : آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کیسے وضو کرتے تھے ؟ عبداللہ بن زید (رض) نے کہا : ہاں، اور وضو کا پانی منگایا، اور اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا، اور دو بار دھویا، پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑا، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دو دو بار دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح اس طرح کیا کہ دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصہ پر رکھے، اور ان کو پیچھے کو لے گئے یعنی سر کے اگلے حصے سے شروع کیا، اور دونوں ہاتھوں کو گدی تک لے گئے پھر اسی جگہ پر واپس لوٹا لائے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٩ (١٨٥) ، ٤٥ (١٨٦) ، ٤٢ (١٩١) ، ٤٣ (١٩٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٧ (٢٣٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١١٩) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٤ (٣٢) ، ٣٦، (٤٧) سنن النسائی/الطہارة ٨٠ (٩٨) ، ٨١ (٩٨) ، ٨٢ (٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ١ (١) ، مسند احمد (٤/٣٨، ٣٩) ، دی/الطہارة ٢٧ (٧٢١) ، وقد مضی برقم : (٤٠٥) (صحیح) (عمرو بن یحییٰ بن عمارة بن ابی حسن انصاری مازنی مدنی عبد اللہ زید بن عاصم انصاری (رض) کے نواسہ ہیں، اور ان کے دادا ابو حسن تمیم بن عمرو صحابی رسول ہیں، ملاحظہ ہو : تہذہیب الکمال : ٢٢ /٢٩٦ )
سر کا مسح
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٠٩) ، مسند احمد (١/٦٦، ٧٢، ٢/٣٤٨) (صحیح )
سر کا مسح
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے سر کا مسح ایک بار کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١١٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٧٩ (٩٦) (صحیح )
سر کا مسح
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، اور اپنے سر کا مسح ایک بار کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٢، ومصباح الزجاجة : ١٨٠) (صحیح) (سند میں یحییٰ بن راشد اور محمد بن الحارث دونوں ضعیف ہیں، لیکن سابقہ متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے) ۔
سر کا مسح
ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے سر کا مسح دو بار کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٢٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٥ (٣٣) ، مسند احمد (٦/٣٦٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: دو بار سے مراد آگے سے پیچھے لے جانا، اور پیچھے سے آگے لانا ہے، فی الواقع یہ ایک ہی مسح ہے، راوی نے اس کی ظاہری شکل دیکھ کر اس کی تعبیر مرتین (دو بار) سے کردی ہے۔
کانوں کا مسح کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں کان کے اندرونی حصے کا مسح شہادت کی انگلیوں سے کیا، اور ان کے مقابل اپنے دونوں انگوٹھوں کو کانوں کے اوپری حصے پر پھیرا، اس طرح کان کے اندرونی اور اوپری دونوں حصوں کا مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧ (١٤٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٢ (١٣٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٨ (٣٦) ، ٣٢ (٤٢) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٤ (١٠١) ، ٨٥ (١٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٨، ٣٦٥، ٧٠٣) (حسن صحیح )
کانوں کا مسح کرنا
ربیع (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے دونوں کان کے اندرونی اور اوپری حصے کا مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٢٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٥ (٢٣) ، مسند احمد (٦/٣٦) (حسن )
کانوں کا مسح کرنا
ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا، اور اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں کے سوراخ میں داخل کیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٢٥ (٣٣) ، مسند احمد (٦/٣٦٠) وقد مضي برقم (٣٩٠) (حسن )
کانوں کا مسح کرنا
مقدام بن معدیکرب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے سر کا اور اپنے کان کے اندرونی و بیرونی حصے کا مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٧٢) (صحیح )
کان سر میں داخل ہیں۔
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وضو کے باب میں) دونوں کان سر میں داخل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٦، ومصباح الزجاجة : ١٨١) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ١٢١، ملا حظہ ہو : الإرواء : ٨٤ ) وضاحت : ١ ؎: کانوں کے مسح کے لئے الگ سے پانی کی ضرورت نہیں، اور اگر لے تو وہ بھی جائز ہے، جیسا کہ دیگر احادیث میں ہے۔
کان سر میں داخل ہیں۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وضو کے باب میں) دونوں کان سر میں داخل ہیں آپ ﷺ اپنے سر کا مسح ایک بار کرتے تھے، اور گوشہ چشم پر بھی انگلی پھیرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٣٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٩ (٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٨، ٢٦٤، ٢٦٨) (حسن) (اس سند میں شہر بن حوشب ضعیف ہیں، اور ان کی اس روایت میں وكان يمسح رأسه کا لفظ ضعیف ہے، بقیہ حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٦ )
کان سر میں داخل ہیں۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وضو کے باب میں) دونوں کان سر میں داخل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٩٥، ومصباح الزجاجة : ١٨٢) (حسن) (اس سند میں عمرو بن الحصین اور محمد بن عبد اللہ بن علاثہ ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے، کما تقدم ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ سر کے مسح کے پانی سے کان کا مسح بھی کیا جائے گا کیونکہ کان بھی سر ہی کا ایک حصہ ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کان کے لئے نیا پانی لینا بھی مشروع ہے لیکن علامہ ابن القیم نے زاد المعاد میں ثابت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے کانوں کے لئے نیا پانی لینا ثابت نہیں، البتہ ابن عمر (رض) کے عمل سے ثابت ہے، علامہ عبدالرحمن مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں کہتے ہیں : میرے علم میں کوئی ایسی صحیح مرفوع روایت نہیں جس میں یہ بیان ہو کہ آپ ﷺ نے کانوں کے لئے نیا پانی لیا ہو، ہاں ابن عمر (رض) سے ایسا کرنا ثابت ہے، امام مالک نے موطا میں نافع کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) اپنی دونوں انگلیوں سے اپنے کانوں کے لئے نیا پانی لیتے تھے۔
انگلیوں میں خلال کرنا
مستورد بن شداد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نے وضو کیا تو اپنی سب سے چھوٹی انگلی سے اپنے پیروں کی انگلیوں کا خلال کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٨ (١٤٨) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٠ (٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٥٦) ، مسند احمد (٤/٢٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ پیروں کی انگلیوں کے درمیان خلال مسنون ہے، انگلیوں کے خلال کا طریقہ یہ ہے کہ دو انگلیوں کے درمیان انگلی اس طرح داخل کرے کہ دونوں انگلیوں کا درمیانی حصہ پوری طرح تر ہوجائے۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
انگلیوں میں خلال کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اچھی طرح ہر عضو تک پانی پہنچا کر وضو کرو، اور اپنے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان پانی پہنچاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨٥، ومصباح الزجاجة : ١٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٣٠ (٣٩) ، إلا قو لہ : اذا قمت الی الصلاة فاسبغ الوضوء مسند احمد (١/٢٨٧، ٣/٤٨١) (حسن صحیح )
انگلیوں میں خلال کرنا
لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کامل وضو کرو، اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٥ (١٤٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٠ (٣٨) ، الصوم ٦٩ (٧٨٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٧١ (٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) ، مسند احمد (٤/٣٣، ٢١١) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٤ (٧٣٢) ، وقد مضی برقم : (٤٠٧) (صحیح )
انگلیوں میں خلال کرنا
ابورافع (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو اپنی انگوٹھی ہلاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٣، ومصباح الزجاجة : ١٨٤) (ضعیف) (سند میں معمر اور ان کے والد محمد بن عبید اللہ دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن وضو میں انگلی کی انگوٹھی کو حرکت دینا آثار صحابہ و تابعین سے ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎: وضو اور غسل وغیرہ میں انگوٹھی، چھلہ وغیرہ کو گھما لینا چاہیے تاکہ کوئی جگہ سوکھی نہ رہ جائے۔
ایڑیاں دھونا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، ان کی ایڑیاں سوکھی ظاہر ہو رہی تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایڑیوں کو دھلنے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے آگ کی تباہی ہے، وضو میں اچھی طرح ہر عضو تک پانی پہنچا کر وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٩ (٢٤١) ، سنن ابی داود/الطہارة ٤٦ (٩٧) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٩ (١١١) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٣ (٦٠) ، ٣٠ (٩٦) ، الوضوء ٢٨ (١٦٣) ، مسند احمد (٢/١٩٣، ٢٠١، ٢٠٥، ٢١١، ٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عراقیب: عرقوب کی جمع ہے، اور وہ موٹی رگ ہے جو ایڑی کے اور پاؤں کے پیچھے ہے، یعنی ایڑیاں اگر وضو میں خشک رہ جائیں گی تو جہنم میں جلائی جائیں گی۔
ایڑیاں دھونا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایڑیوں کو دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے آگ کی تباہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٩ (٢٤٠) (صحیح )
ایڑیاں دھونا
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے (اپنے بھائی) عبدالرحمٰن کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو کہا : وضو مکمل کیا کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ایٹریوں کو دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے آگ کی تباہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢١) ، صحیح مسلم/الطہارة ٩ (٢٤٠) ، مسند احمد (٦/٤٠، ٩١) (صحیح )
ایڑیاں دھونا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایٹریوں کو دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے آگ کی تباہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٩ (١٦٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٩ (٢٤٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣١ (٤١) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٨ (١٠٩) ، مسند احمد (٢/٢٣١، ٢٨٢، ٢٨٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٥ (٧٣٣) (صحیح )
ایڑیاں دھونا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ایڑیوں کو دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے آگ کی تباہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٥٦، ومصباح الزجاجة : ١٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٩، ٣٩٣) (صحیح) (اصل حدیث صحیحین میں عبد اللہ بن عمرو سے اور صحیح مسلم میں أبوہریرہ و ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ) وضاحت : ١ ؎: مصباح الزجاجۃ (ط۔ مصریہ) اور (ط۔ عوض الشہری) میں للأعقاب ہے، ایسے ہی حیدر آباد آصفیہ کے مصباح الزجاجۃ کے نسخہ میں ہے، فؤاد عبد الباقی، مشہور حسن اور اعظمی کے نسخہ میں للعراقيب ہے، دونوں ہم معنی لفظ ہیں۔
ایڑیاں دھونا
خالد بن ولید، یزید بن ابوسفیان، شرحبیل بن حسنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا وضو مکمل کیا کرو، ایڑیوں کو دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے آگ کی تباہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٥، ٣٥١٠، ومصباح الزجاجة : ٤٨٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (/٢/٢٠٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٤ (٧٣٣) (صحیح) (بوصیری نے اسناد کی تحسین کی ہے، اور کہا ہے کہ یہ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) و عبداللہ بن عمرو سے، اور صحیح مسلم میں ام المومنین عائشہ (رض) سے أسبغوا الوضوء کے لفظ سے مروی ہے۔
پاؤں دھونا
ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا، اور اپنے دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھویا، پھر کہنے لگے : میرا مقصد یہ تھا کہ تمہیں تمہارے نبی اکرم ﷺ کا وضو دکھلا دوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١١٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ٣٧ (٤٨) ، سنن النسائی/ الطہارة ٧٩ (٩٦) ، ٩٣ (١١٥) ، مسند احمد (١/١٤٢، ١٥٦، ١٥٧) (صحیح )
پاؤں دھونا
مقدام بن معدیکرب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے دونوں پیروں کو تین تین بار دھویا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٧٤، ومصباح الزجاجة : ١٨٧) ، مسند احمد (٤/١٣٢) (صحیح )
پاؤں دھونا
ربیع (رض) کہتی ہیں کہ میرے پاس ابن عباس (رض) آئے، اور انہوں نے مجھ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا، اس سے وہ اپنی وہ حدیث مراد لے رہی تھیں جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے دونوں پیر دھوئے، ابن عباس (رض) نے کہا کہ لوگ پاؤں کے دھونے ہی پر مصر ہیں جب کہ میں قرآن کریم میں پاؤں کے صرف مسح کا حکم پاتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٤٤، ومصباح الزجاجة : ١٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٠) (حسن) (اس میں عباس کا اثر منکر ہے، اس کے راوی ابن عقیل کے حافظہ میں ضعف تھا، اور اس ٹکڑے کی روایت میں کسی نے ان کی متابعت نہیں کی ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں ابن عباس (رض) نے کہا سے آخر تک محدثین کرام کے نزدیک منکر ہے، اس لئے اس کی بنیاد پر حدیث کے ضعف پر استدلال درست نہیں، ابن عباس (رض) خود پیر دھونے پر عامل اور اس کے قائل تھے۔
وضو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق کرنا۔
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کامل وضو کیا، تو اس کی فرض نماز ایک نماز سے دوسری نماز تک کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٤ (٢٣١) ، سنن النسائی/ الطہارة ١٠٨ (١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٤ (١٦٠) ، مسند احمد (١/٥٧، ٦٦، ٦٩) (صحیح )
وضو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق کرنا۔
رفاعہ بن رافع (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : کسی کی کوئی نماز پوری نہیں ہوتی جب تک کہ کامل وضو نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے کہ اپنے چہرے کو اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت اور دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھوئے، اور اپنے سر کا مسح کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٥٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٠ (٣٠٢) ، سنن النسائی/الإفتتاح ١٦٧ (١١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٨ (١٣٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں بھی رجلیہ کا لفظ يديه پر معطوف ہے، اور مطلب یہ ہے کہ منہ اور ہاتھ اور پاؤں کو دھوئے، اور سر کا مسح کرے۔
وضو کے بعد (ستر کے مقابل رومالی پر) پانی چھڑ کنا۔
حکم بن سفیان ثقفی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، پھر ایک چلو پانی لے کر شرمگاہ پر چھینٹا مارا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٤ (١٦٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٢ (١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٤١٠، ٤/١٧٩، ٢١٢، ٥/٤٠٨، ٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ ستر (شرمگاہ) پر پیشاب کا خطرہ ہونے کا وسوسہ ختم ہوجائے، یہ وسوسہ دور کرنے کی ایک اچھی تدبیر ہے جسے آپ ﷺ نے امت کو سکھایا ہے۔
وضو کے بعد (ستر کے مقابل رومالی پر) پانی چھڑ کنا۔
زید بن حارثہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے وضو سکھایا، اور مجھے اپنے کپڑے کے نیچے (شرمگاہ) پر چھینٹے مارنے کا حکم دیا کہ کہیں وضو کے بعد پیشاب کا کوئی قطرہ نہ آگیا ہو (تاکہ چھینٹے مارنے سے یہ شبہ زائل ہوجائے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٧٤٥، ومصباح الزجاجة : ١٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦١) (حسن) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر حسن ہے لیکن وأمرني أن أنضح تحت ثوبي کا لفظ ضعیف ہے اس کا کوئی شاہد نہیں ہے، البتہ فعل نبوی سے یہ ثابت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٣٤١ ، و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٨٤١ ، صحیح أبی داود : ١٥٩ ) وضاحت : ١ ؎: غرض یہ ہے کہ پانی چھڑکنے سے پیشاب کا قطرہ رک جائے گا اور نہ نکلے گا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ احلیل مرد کا عورت کی طرح ہے، اور گائے وغیرہ کی چھاتی کی طرح ہے، جب پستان میں دودھ کو روکنا منظور ہوتا ہے، تو پانی چھڑک دیتے ہیں، اسی طرح شرم گاہ پر چھڑکنے سے قطرہ رک جاتا ہے۔ اس سند سے بھی ابن لہیعہ نے اسی جیسی حدیث ذکر کی ہے۔
وضو کے بعد (ستر کے مقابل رومالی پر) پانی چھڑ کنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم وضو کرو تو (شرمگاہ پر) چھینٹے مار لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٣٨، (٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٤٤) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں حسن بن علی الہاشمی ضعیف ہیں، لیکن نبی اکرم ﷺ کے فعل سے یہ عمل ثابت ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث ( ٤٦٤ ) نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٣١٢ ، وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢ /٥١٩ - ٥٢٠) ۔
وضو کے بعد (ستر کے مقابل رومالی پر) پانی چھڑ کنا۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنی شرمگاہ پہ چھینٹ ماری۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ٢٩٤٠، ومصباح الزجاجة : ١٩٠) (صحیح) (اس حدیث کی سند میں قیس بن ربیع اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ دونوں ضعیف ہیں، لیکن شواہد اور متابعات کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے )
وضو اور غسل کے بعد تولیہ کا استعمال
ام ہانی بنت ابی طالب (رض) بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی اکرم ﷺ نے نہانے کا ارادہ کیا، فاطمہ (رض) نے آپ پر پردہ کئے رکھا، پھر آپ ﷺ نے نہا کر اپنا کپڑا لیا، اور اسے اپنے جسم پر لپیٹ لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢١ (٢٨٠) ، الصلاة ٤ (٣٥٧) ، الأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، صحیح مسلم/الحیض ١٦ (٣٣٦) ، المسافرین ١٣ (٣٣٦) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٣٤ (٢٧٣٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤٣ (٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٨ (٢٧) ، مسند احمد (٦/٣٤١، ٣٤٢، ٣٤٣، ٤٢٣، ٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ کپڑا بدن کا پانی خشک کرنے کے لئے تو لئے کے طور پر تھا۔
وضو اور غسل کے بعد تولیہ کا استعمال
قیس بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے آپ کے لیے غسل کا پانی رکھا، آپ نے غسل کیا، پھر ہم آپ کے پاس ورس میں رنگی ہوئی ایک چادر لائے آپ ﷺ نے اسے لپیٹ لیا۔ قیس بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ اس چادر کی وجہ سے آپ کے پیٹ کی سلوٹوں میں ورس کے جو نشانات پڑگئے تھے گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٦٠٤) (ضعیف) (اس کی سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف اور محمد بن شرجیل مجہول ہیں )
وضو اور غسل کے بعد تولیہ کا استعمال
ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ غسل جنابت کرچکے تو میں آپ کے پاس ایک کپڑا لائی، آپ نے اسے واپس لوٹا دیا اور (بدن سے) پانی جھاڑنے لگے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١٦ (٢٧٤) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩٨ (٢٤٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧٦ (١٠٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦١ (٢٥٤) ، الغسل ٧ (٤٠٨) ، ١٤ (٤١٨) ، ١٥ (٤١٩) ، ٢٢ (٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٠، ٣٣٥، ٣٣٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٧ (٧٧٤) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٥٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ممکن ہے نبی ﷺ کو اس کی ضرورت نہ رہی ہو یا کپڑا صاف نہ رہا ہو جس سے آپ نے بدن صاف کرنے کو پسند نہ کیا ہو۔
وضو اور غسل کے بعد تولیہ کا استعمال
سلمان فارسی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے پہنے ہوئے اون کے جبہ کو الٹ کر اس سے اپنا چہرہ پونچھ لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٩، ومصباح الزجاجة : ١٩١) (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٣٥٦٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: وضو کے بعد ہاتھ منہ صاف کرنے کے سلسلہ میں ممانعت کی کوئی حدیث صحیح نہیں لہذا جائز ہے ضروری نہیں، بلکہ زاد المعاد میں ابن القیم نے فرمایا ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کی اس باب میں ایک حدیث آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک کپڑا تھا جس سے آپ اپنے اعضاء وضو پونچھا کرتے تھے۔
وضو کے بعد کی دعا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اچھی طرح وضو کیا، پھر تین مرتبہ أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے، اور اس کے رسول ہیں کہا، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے وہ جس دروازہ سے چاہے داخل ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٢، ومصباح الزجاجة : ١٩٢) ، مسند احمد (٣/٢٦٥) (ضعیف) (اس سند میں زید العمی ضعیف ہیں، مگر دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثلاث مرات کے بغیر ثابت ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٨٤١ ) اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضو کے بعد کی دعا
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان بھی اچھی طرح سے وضو کرے پھر أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے، اور رسول ہیں تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے جس دروازے سے چاہے وہ داخل ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٦ (٢٣٤) ، سنن ابی داود/الطہارة ٦٥ (١٦٩) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤١ (٥٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠٨ (١٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٦، ١٥١، ١٥٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤٣ (٧٤٣) (صحیح )
پیتل کے برتن میں وضو کرنا
صحابی رسول عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے پیتل کے ایک چھوٹے برتن میں پانی حاضر کیا جس سے آپ نے وضو کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٣٤) (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) (صحیح )
پیتل کے برتن میں وضو کرنا
ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) کہتی ہیں کہ میرے پاس پیتل کی ایک تھال تھی جس میں میں نبی اکرم ﷺ کے سر میں کنگھی کیا کرتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٢، ومصباح الزجاجة : ١٩٣) ، مسند احمد (٦/ ٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس میں پانی ڈال کر۔
پیتل کے برتن میں وضو کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک جھوٹے برتن میں وضو کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢٤ (٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١١، ٤٥٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٦ (٧٠٥) (حسن) (تراجع الألبانی رقم : ٦١٥ ، سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، جیسا کہ گزرا ( ٤٧١ ) نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٩ ) وضاحت : ١ ؎: تور: طشت کے مشابہ ایک برتن ہے، اور مخضب: ایک برتن ہے جس میں کپڑے دھوتے ہیں وہ بھی مثل طشت کے ہے، ان حدیثوں سے ثابت ہوا کہ پیتل کے برتن گھر میں رکھنا اور استعمال کرنا بلا کراہت جائز ہے، اور جیسا عوام میں اس کا مکروہ ہونا مذکور ہے وہ خلاف حدیث ہے۔
نیند سے وضو کا ٹوٹنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سو جاتے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگتے، پھر اٹھ کر بغیر وضو کے نماز پڑھتے۔ طنافسی کہتے ہیں : وکیع کا بیان ہے کہ عائشہ (رض) کی مراد یہ تھی کہ سجدہ کی حالت میں سو جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٥) (صحیح )
نیند سے وضو کا ٹوٹنا
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے، پھر کھڑے ہوئے، اور نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٤٥، ومصباح الزجاجة : ١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٤، ٤٢٦) (صحیح) (سند میں حجاج بن أرطاة ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق سے صحیح ہے )
نیند سے وضو کا ٹوٹنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ یعنی نبی اکرم ﷺ کا یہ سونا بیٹھے بیٹھے تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٤٦) (منکر) (سند میں حریث ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٢٢٩ )
نیند سے وضو کا ٹوٹنا
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آنکھ سرین کا بندھن ہے، لہٰذا جو سو جائے وہ وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨٠ (٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٧، ١١٨، ١٥٠) (حسن )
نیند سے وضو کا ٹوٹنا
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اپنے موزوں کو تین دنوں تک جنابت کے سوا پاخانے، پیشاب اور نیند کے سبب نہ اتاریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٧١ (٩٦) ، الدعوات ٩٩ (٣٥٣٥) ، سنن النسائی/الطہارة ٩٨ (١٢٦) ، ١١٣ (١٥٨) ، ١١٤ (١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٩، ٢٤٠، ٢٤١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث سے ثابت ہوا کہ معمولی نیند سے یا سجدہ وغیرہ میں سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ہاں لیٹ کر سو گیا تو وضو کرے مسافر کے لئے جائز ہے کہ اگر موزے وضو کے بعد پہنے ہیں تو تین دن تین رات تک نہ اتارے مسح کرتا رہے، اگر غسل جنابت ہو تو اتارنا ضروری ہے، مقیم کے لئے موزوں پر مسح ایک دن ایک رات کے لئے ہے۔
شرمگاہ کو چھو نے سے وضو ٹوٹنا۔
بسرہ بنت صفوان (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنی شرمگاہ چھوئے تو وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧٠ (١٨١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٦١ (٨٢، ٨٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٨ (١٦٣، ١٦٤) ، الغسل ٣٠ (٤٤٥، ٤٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ١٥ (٥٨) ، مسند احمد (٦/٤٠٦، ٤٠٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٠ (٧٥١) (صحیح )
شرمگاہ کو چھو نے سے وضو ٹوٹنا۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی اپنی شرمگاہ چھوئے تو اس پر وضو لازم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩١، ومصباح الزجاجة : ١٩٦) (صحیح) (سند میں عقبہ بن عبدالرحمن متکلم فیہ راوی ہیں، ابن المدینی نے انہیں شیخ مجہول کہا ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )
شرمگاہ کو چھو نے سے وضو ٹوٹنا۔
ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو اپنی شرمگاہ چھوئے تو وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٤، ومصباح الزجاجة : ١٩٧) (صحیح) (سند میں مکحول مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن سابقہ احادیث سے تقویت پر یہ صحیح ہے )
شرمگاہ کو چھو نے سے وضو ٹوٹنا۔
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص اپنی شرمگاہ چھوئے وہ وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٤، ٦/٤٠٦) (صحیح) (اسحاق بن أبی فردہ ضعیف ہیں، لیکن سابقہ احادیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
ذکر چھونے کی رخصت کے بیان میں
طلق (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا : آپ سے شرمگاہ چھونے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : اس کے چھونے سے وضو نہیں ہے، وہ تو تمہارے جسم کا ایک حصہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧١ (١٨٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٦٢ (٨٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٩ (١٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢، ٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بسرہ بنت صفوان اور طلق بن علی (رض) دونوں کی روایتیں بظاہر متعارض ہیں لیکن بسرہ (رض) کی روایت کو ترجیح اس لئے حاصل ہے کہ وہ زیادہ صحیح و ثابت ہے، اور طلق بن علی (رض) کی روایت منسوخ ہے کیونکہ وہ پہلے کی ہے، اور بسرہ (رض) کی روایت بعد کی ہے جیسا کہ ابن حبان اور حازمی نے اس کی تصریح کی ہے، اور دونوں میں تطبیق اس طرح سے بھی دی جاتی ہے کہ بسرہ (رض) کی حدیث بغیر کسی حاجز (پردہ) کے چھونے سے متعلق ہے، اور طلق کی حدیث حاجز (پردہ) کے اوپر چھونے سے متعلق ہے، لہذا اگر کوئی بغیر کسی حائل کے شرمگاہ چھولے تو وضو کرے اور اگر کوئی پردہ حائل ہو تو وضو کی ضرورت نہیں۔
ذکر چھونے کی رخصت کے بیان میں
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے شرمگاہ چھونے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تو تمہارے جسم کا ایک حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٢، ومصباح الزجاجة : ١٩٩) (ضعیف جدًا) (اس سند میں جعفر بن زبیر متروک راوی ہے، شعبہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ اکذب الناس ہے )
جو آگ میں پکا ہو اس سے وضو واجب ہونے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آگ پر پکی ہوئی چیزوں کے استعمال سے وضو کرو ، اس پر ابن عباس (رض) نے کہا : کیا ہم گرم پانی استعمال کرنے سے بھی وضو کریں ؟ ابوہریرہ (رض) نے کہا : میرے بھتیجے ! جب تم رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث سنو تو اس پر باتیں مت بناؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٥٨ (٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٣ (٣٥١) ، سنن ابی داود/الطہارة ٧٦ (١٩٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢٢ (١٧١) ، مسند احمد (٢/٤٥٨، ٥٠٣، ٥٢٩) ومضی مختصرا برقم : (٢٢) دون توضؤوا (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اس بات پر سخت تنبیہ ہے کہ حدیث رسول سن کر کسی طرح کی ٹال مٹول کی جائے، آج جن لوگوں نے اپنا وطیرہ یہ بنایا ہوا ہے کہ جب تک اقوال ائمہ نہ پائیں اس وقت تک ان کے دلوں کو تسکین نہیں ہوتی ان کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
جو آگ میں پکا ہو اس سے وضو واجب ہونے کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر اس چیز کے استعمال سے وضو کرو جس کو آگ پر پکایا گیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥١) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٣ (٣٥٣) ، مسند احمد (٦/٨٩) (صحیح )
جو آگ میں پکا ہو اس سے وضو واجب ہونے کا بیان۔
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں پر رکھتے اور کہتے : یہ دونوں کان بہرے ہوجائیں اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہو : تم ہر اس چیز کے استعمال سے وضو کرو جسے آگ پر پکایا گیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٢) (ضعیف) (سند میں خالد بن یزید ضعیف راوی ہے، جس کو ابن معین نے متہم بھی کہا ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے، کما تقدم اور یہ واضح رہے کہ باب کی احادیث منسوخ ہیں، جیسا کہ آگے آئے گا )
آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنے کا جواز۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بکری کے دست کا گوشت کھایا، پھر نیچے بچھے ہوئے چمڑے میں اپنا ہاتھ پونچھا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے، اور نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧٥ (١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٦١١٠، ومصباح الزجاجة : ٢٠١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٨ (٥٤٠٤) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٤ (٣٥٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢٣ (١٨٢) ، موطا امام مالک/الطہارة ٥ (١٩) ، مسند احمد (١/٣٢٦) (صحیح) (سند میں سماک بن حرب ہیں، جن کی عکرمہ سے راویت میں اضطراب ہے، لیکن دوسرے طرق کی وجہ سے یہ صحیح ہے، اس لئے کہ مسند احمد میں سفیان نے سماک کی متابعت کی ہے، ایسے ہی ایوب نے بھی متابعت کی ہے (مسند احمد ١ /٢٧٣) نیز زہیر نے بھی سماک کی متابعت کی ہے، ( ١ /٢٦٧) نیز حدیث کے دوسرے طرق ہیں، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٨٢ - ١٨٤) ۔
آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنے کا جواز۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکرو عمر (رض) نے روٹی اور گوشت کھایا، اور وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٢، ٢٥٤٧، ٣٠٣٨، ومصباح الزجاجة : ٢٠٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٣ (٤٥٤٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٧٥ (١٩١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٩ (٨٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢٣ (١٨٥) ، حم (٣/٣٥١، ٨١ ٣) (صحیح )
آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنے کا جواز۔
زہری کہتے ہیں کہ میں ولید یا عبدالملک کے ساتھ شام کے کھانے پہ حاضر ہوا، جب نماز کا وقت ہوا تو میں وضو کے لیے اٹھا تو جعفر بن عمرو بن امیہ ١ ؎ نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد (عمرو بن امیہ ضمری مدنی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے آگ پہ پکا ہوا کھانا کھایا، پھر نماز پڑھی، اور وضو نہیں کیا۔ علی بن عبداللہ بن عباس نے کہا کہ میں اپنے والد (عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما) کے بارے میں بھی اسی طرح کی گواہی دیتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٠ (٢٠٨) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٤ (٣٥٤، ٣٥٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣٣ (١٨٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٩، ١٠٧٠٠) ، وقدأخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٩١٣٩، ٥/ ٢٨٧، ٢٨٨) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٨ (٧٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جعفر عبدالملک بن مروان کے رضاعی بھائی تھے۔
آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنے کا جواز۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بکری کی (پکی ہوئی) دست پیش کی گئی، آپ نے اس میں سے کھایا، پھر نماز پڑھی، اور پانی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٢٣ (١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٢، ٣٠٦، ٣١٧، ٣١٩، ٣٢٣) (صحیح )
آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنے کا جواز۔
سوید بن نعمان انصاری (رض) کہتے ہیں کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی جانب نکلے، جب مقام صہباء ١ ؎ میں پہنچے تو عصر کی نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ نے کھانا منگایا تو صرف ستو لایا گیا لوگوں نے اسے کھایا، پیا، پھر آپ ﷺ نے پانی منگایا، اور کلی کی، پھر اٹھے اور ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥١ (٢٠٩) ، ٥٤ (٢١٥) ، الجہاد، ١٢٣ (٢٩٨١) ، المغازي ٣ (٤١٧٥) ، الأطعمة ٨ (٥٣٨٤) ، ٩ (٥٣٩٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢٤ (١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٥ (٢٠) مسند احمد (٣/ ٤٦٢، ٤٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صہباء: خیبر سے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنے کا جواز۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کے دست کا گوشت کھایا، پھر کلی کی، اور اپنے ہاتھ دھو کر نماز پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٢٩، ومصباح الزجاجة : ٢٠٣) ، مسند احمد (٢/٣٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث سے پچھلے باب کی احادیث منسوخ ہیں، یا پچھلے باب کی احادیث میں وضو سے مراد ہاتھ وغیرہ دھونا ہے ناکہ شرعی وضو۔
اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا : کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے وضو کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧٢ (١٨٤) ، سنن الترمذی/ الطہارة ٦٠ (٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٨، ٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کا گوشت ناقض وضو ہے، یہی صحیح مذہب ہے، اور عام طور پر اصحاب حدیث کی یہی رائے ہے، جو لوگ اسے ناقض وضو نہیں مانتے وہ اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ یہاں وضو سے وضو شرعی مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے وضو لغوی یعنی ہاتھ منہ دھونا مراد ہے۔
اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ کا گوشت کھائیں تو وضو کریں، اور بکری کا گوشت کھائیں تو وضو نہ کریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٥ (٣٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٢١٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٦، ٨٨، ٩٢، ١١٠، ١٠٢، ١٠٥، ١٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اونٹ اور بکری کے گوشت میں تفریق کی حکمت اور وجہ جاننا ضروری نہیں کیونکہ یہ تعبدی احکام ہیں، ان کی حکمت کا عقل میں آنا ضروری نہیں، شارع کے نزدیک اس میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ضرور پوشیدہ ہوگی گو وہ ہماری عقل میں نہ آئے۔
اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا
اسید بن حضیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بکری کا دودھ پی کر وضو نہ کرو، البتہ اونٹنی کا دودھ پی کر وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤، ومصباح الزجاجة : ٢٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٢، ٥/١٢٢) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور سابقہ صحیح احادیث میں اونٹ کے گوشت وضو کا حکم ہے، نہ کہ اونٹنی کے دو دھ پینے سے )
اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اونٹ کے گوشت سے وضو کرلیا کرو، اور بکری کے گوشت سے وضو نہ کرو، اور اونٹنی کے دودھ سے وضو کیا کرو، اور بکری کے دودھ سے وضو نہ کرو، بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھو، اور اونٹ کے باڑوں میں نماز نہ پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤١٦، ومصباح الزجاجة : ٢٠٥) (ضعیف) (سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز خالد بن یزید مجہول ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، اور حدیث کا دوسرا ٹکڑا وتوضئوا من ألبان الإبل ولا توضئوا من ألبان الغنم ضعیف اور منکر ہے، بقیہ حدیث یعنی پہلا اور آخری ٹکڑا شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، یعنی اونٹ کے گوشت سے وضو اور بکری کے گوشت سے عدم وضو، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٧٧ ) وضاحت : ١ ؎: آگ پر پکی دیگر چیزوں کے استعمال سے وضو ضروری نہیں ہے، لیکن اونٹ کے گوشت کا معاملہ جدا ہے، اسی لئے شریعت نے اس کو الگ ذکر کیا ہے، اب ہماری سمجھ میں اس کی مصلحت آئے یا نہ آئے ہمیں فرماں برداری کرنا ضروری ہے۔
دودھ پی کر کلی کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دودھ پی کر کلی کرلیا کرو کیونکہ اس میں چکناہٹ ہوتی ہے ۔
دودھ پی کر کلی کرنا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : جب تم دودھ پیو تو کلی کرلیا کرو کیونکہ اس میں چکناہٹ ہوتی ہے ۔
دودھ پی کر کلی کرنا
سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دودھ پی کر کلی کرلیا کرو کیونکہ اس میں چکناہٹ ہوتی ہے ۔
دودھ پی کر کلی کرنا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بکری دودھ کر دودھ پیا، پھر پانی منگوا کر کلی کی اور فرمایا : اس میں چکناہٹ ہوتی ہے ۔
بوسہ کی وجہ سے وضو کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیا، پھر نماز کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا، (عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ) میں نے (ام المؤمنین عائشہ (رض) سے) کہا : وہ آپ ہی رہی ہوں گی ! تو وہ ہنس پڑیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٩ (١٧٩) ، سنن الترمذی/الطہارة ٦٣ (٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧١، ومصباح الزجاجة : ٢٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٠٧) (صحیح )
بوسہ کی وجہ سے وضو کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وضو کرتے پھر بوسہ لیتے، اور بغیر وضو کئے نماز پڑھتے، اور بعض دفعہ آپ ﷺ نے میرے ساتھ بھی ایسا کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٢، ومصباح الزجاجة : ٢٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٢) (ضعیف) (سند میں حجاج مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، اور زینب کے حالات معلوم نہیں، ان کے بارے میں دارقطنی کا قول ہے :لا تقوم بہا حجة قابل اعتماد نہیں ہیں )
بوسہ کی وجہ سے وضو کرنا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ سے مذی ١ ؎ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا : اس میں وضو ہے، اور منی ٢ ؎ میں غسل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٨٣ (١١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ١٣ (٢٦٩) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٣ (٢٠٧) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٢ (١٥٧) ، الغسل ٢٨ (٤٣٦) ، مسند احمد (١/٨٢، ١٠٨، ١١٠) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤٧، ١٢٥ ) وضاحت : ١ ؎: مذی : وہ لیس دار پتلا پانی ہے، جو ابتداء شہوت میں مرد کے عضو تناسل سے بغیر اچھلے نکلتا ہے اور جس پر وضو ہے۔ ٢ ؎: منی سے مراد وہ رطوبت ہے، جو شہوت کے وقت عضو تناسل سے اچھل کر نکلتی ہے، جس پر غسل واجب ہے۔
بوسہ کی وجہ سے وضو کرنا
مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی سے قریب ہوتا ہے، اور اسے انزال نہیں ہوتا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب ایسا ہو تو آدمی اپنی شرمگاہ پر پانی ڈال لے یعنی اسے دھو لے، اور وضو کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨٣ (٢٠٧) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٢ (١٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ١٣ (٥٣) ، مسند احمد (١/١٢٤، ٦/٤، ٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر قربت سے انزال نہ ہو تب بھی اس کو بہر حال غسل کرنا ہوگا، مقداد کی یہ حدیث منسوخ ہے : إذا التقى الختان سے، یعنی جب دو ختنے باہم مل جائیں تو غسل واجب ہے، انزال ہو یا نہ ہو۔
بوسہ کی وجہ سے وضو کرنا
سہل بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ مجھے شدت سے مذی آتی تھی جس کی وجہ سے میں کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، چناچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : اس سے وضو کافی ہے ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! جو کپڑے میں لگ جائے اس کا حکم کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ایک چلو پانی لو، اور جہاں پہ دیکھو کہ مذی لگ گئی ہے وہاں پہ چھڑک دو ، بس یہ تمہارے لیے کافی ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨٣ (٢١٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ٨٤ (١١٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤٩ (٧٥٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: لیکن یہ تبھی ہے جب یقین ہو کہ یہ مذی ہے، اگر یقین ہو کہ منی ہے، تو غسل کرنا ہی ہوگا۔
بوسہ کی وجہ سے وضو کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وہ عمر (رض) کے ہمراہ ابی بن کعب (رض) کے ہاں گئے۔ وہ (گھر سے) باہر تشریف لائے۔ (بات چیت کے دوران ان میں ابی نے) فرمایا : مجھے مذی آگئی تھی تو میں نے عضو خاص کو دھو کر وضو کیا ہے (اس لیے باہر آنے میں دیر ہوئی) عمر (رض) نے فرمایا : کیا یہ (وضو کرلینا) کافی ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : کیا آپ نے یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے (خود) سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١، ومصباح الزجاجة : ٢١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٠، ٥/١١٧) (ضعیف الإسناد) (سند ابوحبیب کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : مذی اور اسی طرح پیشاب اور پاخانہ کے راستہ سے جو چیز بھی نکلے اس سے وضو ٹوٹنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
سو تے وقت ہاتھ منہ دھو نا
عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات میں بیدار ہوئے، بیت الخلاء گئے اور قضائے حاجت کی، پھر اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کو دھویا، پھر سو گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٠ (٦٣١٦) ، صحیح مسلم/الحیض ٥ (٣٠٤) ، المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠٥ (٥٠٤٣) ، سنن الترمذی/الشمائل (٢٥٨) ، سنن النسائی/الکبري الصلاة ٤٣ (٣٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٤، ٢٨٣، ٢٨٤، ٢٨٤، ٣٤٣) (صحیح ) اس سند سے بھی ابن عباس (رض) نے اسی جیسی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً ذکر کی ہے۔
ہر نماز کے لئے وضو کرنا اور تمام نمازیں
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور ہم ساری نماز ایک وضو سے پڑھ لیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطہارة ٥٤ (٢١٤) ، سنن ابی داود/الطہارة ٦٦ (١٧١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٤ (٦٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠١ (١٣١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ١٣٢، ١٩٤، ٢٦٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤٥ (٧٤٧) (صحیح )
ہر نماز کے لئے وضو کرنا اور تمام نمازیں
بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے، لیکن فتح مکہ کے دن آپ ﷺ نے ایک وضو سے ساری نماز پڑھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٥ (٢٧٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٦٦ (١٧٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٥ (٦١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠١ (١٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥١، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣ (٦٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ کی عام عادت مبارکہ یہی تھی، فتح مکہ سے پہلے بھی آپ کا ایسا کرنا ثابت ہے۔
ہر نماز کے لئے وضو کرنا اور تمام نمازیں
فضل بن مبشر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو ایک ہی وضو سے کئی نماز پڑھتے دیکھا، تو میں نے کہا : یہ کیا ہے ؟ عرض کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے، چناچہ میں بھی ویسے ہی کرتا ہوں جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧١، ومصباح الزجاجة : ٢١١) (صحیح) (اس حدیث کی سند میں الفضل بن مبشر ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اگر وضو باقی ہے ٹوٹا نہیں ہے، تو ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں۔
وضو کے باوجود وضو کرنا۔
ابوغطیف ہذلی کہتے ہیں کہ میں نے مسجد میں عبداللہ بن عمر بن خطاب (رض) سے ان کی مجلس میں سنا، پھر جب نماز کا وقت ہوا، تو وہ اٹھے وضو کیا، اور نماز ادا کی، پھر مجلس میں دوبارہ حاضر ہوئے، پھر جب عصر کا وقت آیا تو اٹھے وضو کیا، اور نماز پڑھی، پھر اپنی مجلس میں واپس آئے، پھر جب مغرب کا وقت ہوا تو اٹھے وضو کیا، اور نماز ادا کی پھر اپنی مجلس میں دوبارہ حاضر ہوئے تو میں نے کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے، کیا یہ وضو (ہر نماز کے لیے) فرض ہے یا سنت ؟ کہا : کیا تم نے میرے اس کام کو سمجھ لیا اور یہ سمجھا ہے کہ یہ میں نے اپنی طرف سے کیا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، بولے : نہیں، (ہر نماز کے لیے وضو کرنا فرض نہیں) اگر میں نماز فجر کے لیے وضو کرتا تو اس سے وضو نہ ٹوٹنے تک ساری نماز پڑھتا، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس شخص نے وضو ہوتے ہوئے وضو کیا، تو اس کے لیے دس نیکیاں ہیں ، اور مجھ کو ان نیکیوں ہی کا شوق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/لطہارة ٣٢ (٦٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٤ (٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٩، ومصباح الزجاجة : ٢١٢) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں ابو غطیف مجہول و عبد الرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : / ٩ )
بغر حدث کے وضو واجب نہیں
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس شخص کا معاملہ لے جایا گیا جس نے نماز میں (حدث کا) شبہ محسوس کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وہ گوز کی آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤ (١٣٧) ، ٣٤ (١٧٧) ، البیوع ٥ (٢٠٥٦) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٦ (٣٦١) ، سنن ابی داود/الطہارة ٦٨ (١٧٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٥ (١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩، ٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگ شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں، اور اکثر شیطان ان کو نماز میں وہم دلاتا رہتا ہے، یہ حکم ان کے لئے ہے۔
بغر حدث کے وضو واجب نہیں
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے نماز میں حدث کا شبہ ہوجانے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تک کہ آواز نہ سن لے یا بو نہ محسوس کرلے نماز نہ توڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٨، ومصباح الزجاجة : ٢١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٦) (صحیح) (اس سند میں ضعف ہے، اس لئے کہ محاربی کا معمر سے سماع ثابت نہیں ہے، نیز وہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، زہری کے حفاظ تلامذہ نے اس حدیث کو زہری عن ابن المسیب عن عبد اللہ بن زید بن عاصم (رض) سے روایت کیا ہے، جو صحیحین اور سنن ابی داود، و نسائی میں ہے، ملاحظہ ہو : ( ٥١٣ ) اس سابقہ حدیث سے تقویت پاکر اصل حدیث صحیح ہے، نیز ابوسعید الخدری (رض) کی یہ حدیث دوسرے طریق سے مسند احمد میں بھی ہے، ( ٣ /٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جب ہوا کے خارج ہونے کا یقین ہوجائے، تب نماز توڑے، اور جا کر وضو کرے محض شک اور وہم کی بناء پر نہیں۔
بغر حدث کے وضو واجب نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بغیر آواز یا بو کے وضو واجب نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٥٦ (٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٨٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٦ (٣٦٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٦٨ (١٧٧) ، مسند احمد (٢/٤١٠، ٤٣٥) (صحیح )
بغر حدث کے وضو واجب نہیں
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید (رض) کو اپنا کپڑا سونگھتے دیکھا، میں نے پوچھا : اس کا سبب کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بغیر بو سونگھے یا آواز سنے وضو واجب نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٧٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٦) (صحیح) (سند میں عبد العزیز بن عبید اللہ الأحمصی ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ سب روایتیں شک کی صورت پر محمول ہیں کہ جب ہوا خارج ہونے میں شک ہو تو شک سے وضو باطل نہیں ہوتا، ہاں اگر یقین ہوجائے تو وضو باطل ہوجائے گا۔
پانی کی وہ مقدار جو ناپاک نہیں ہوتی
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے صحراء اور میدان میں واقع ان گڈھوں کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جن سے مویشی اور درندے پانی پیتے رہتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب پانی دو قلہ (دو بڑے مٹکے کے برابر) ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣٣ (٦٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٠ (٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٠٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطہارة ٤٤ (٥٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٤ (٧٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر پانی دو قلہ سے زیادہ ہوگا تو بدرجہ اولی ناپاک نہ ہوگا، اور اگر اس کا رنگ، بو، یا مزہ یا ان میں سے کوئی کسی ناپاک چیز کے پڑنے سے بدل جائے، تو ناپاک ہوجائے گا، دو قلہ کا اندازہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی ایسے حوض میں کہ جس کی زمین برابر ہوا گر پانی جمع کریں تو تقریباً سات بالشت لمبا اور پانچ بالشت چوڑا ہوگا، اور یہ ادنیٰ درجہ ہے حوض کا اور اعلیٰ درجہ ہے برتنوں کا، عرب میں اس سے بڑا برتن نہیں ہوتا تھا۔ قلہ : کے معنی مٹکے کے ہیں یہاں مراد ہجر کے مٹکے ہیں کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور تھے، اس میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، اس اعتبار سے دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی، جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلوگرام ( ٢٢٧ ) بنتی ہے۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
پانی کی وہ مقدار جو ناپاک نہیں ہوتی
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب پانی دو یا تین قلہ ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٠٥، ومصباح الزجاجة : ٢١٥) (صحیح) (أو ثلاثاً کا لفظ صرف اس روایت میں ہے، اصحاب حماد نے اس کے بغیر روایت کی ہے کماتقدم ) ( امام ابن ماجہ (رح) کے شاگرد) ابو حسن بن سلمہ قطان نے یہی روایت اپنی عالی سند سے، یعنی بواسطہ ابوحاتم و ابو ولید وغیرہ، حماد سے امام ابن ماجہ کے واسطے کے بغیر بیان کی۔
حو ضوں کا بیان۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان جو حوض و تالاب واقع ہیں، اور ان پر درندے، کتے اور گدھے پانی پینے آتے ہیں، تو ایسے حوضوں و تالابوں کا اور ان کے پانی سے طہارت حاصل کرنے کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو کچھ انہوں نے اپنی تہ میں سمیٹ لیا، وہ ان کا حصہ ہے، اور جو پانی حوض (تالاب) میں بچا، وہ ہمارے لیے پاک کرنے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٨٦، ومصباح الزجاجة : ٢١٦) (ضعیف) ( عبدالرحمن بن زید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٦٠٩ )
حو ضوں کا بیان۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک تالاب پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ایک گدھے کی لاش پڑی ہوئی ہے ہم اس (کے استعمال) سے رک گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس پہنچے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی (یہ سنا) تو ہم نے پیا پلایا، اور پانی بھر کر لاد لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١١٤) (صحیح) ( سند میں طریف بن شہاب اور شریک القاضی ضعیف ہیں، اس لئے یہ اسناد ضعیف ہے، اور جیفہ حمار کا قصہ صحیح نہیں ہے، لیکن بقیہ مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : ا لإرواء : ١٤ ، و صحیح ابی داود : ٥٩ )
حو ضوں کا بیان۔
ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جو چیز اس کی بو، مزہ اور رنگ پر غالب آجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٦٠، ومصباح الزجاجة : ٢١٨) (ضعیف) ( رشدین اور راشد بن سعد دونوں ضعیف ہیں، یہ حدیث صحیح نہیں ہے، لیکن علماء کا اس کے عمل پر اجماع ہے، یعنی اگر نجاست پڑنے سے پانی میں تبدیلی پیدا ہوجائے تو وہ پانی نجس ہے ) وضاحت : ١ ؎: نجاست پڑنے کے بعد اگر پانی میں بو، رنگ اور مزہ کی تبدیلی ہوجائے تو وہ پانی کم ہو یا زیادہ نجس و ناپاک ہوجائے گا، اس پر علماء کا اجماع ہے کما تقدم۔
اس لڑ کے کے پیشاب کے بیان میں جو کھانا نہیں کھا تا
لبابہ بنت الحارث (رض) کہتی ہیں کہ حسین بن علی (رض) نے نبی اکرم ﷺ کی گود میں پیشاب کردیا، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے اپنا کپڑا دے دیجئیے اور دوسرا کپڑا پہن لیجئیے (تاکہ میں اسے دھو دوں) ، آپ ﷺ نے فرمایا : بچے کے پیشاب پہ پانی چھڑکا جاتا ہے، اور بچی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٧ (٣٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٥) ، ویأتی عند المؤلف في تعبیر الرؤیا (٣٩٢٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوداؤد کی ایک روایت میں مالم يطعم (جب تک وہ کھانا نہ کھانے لگے) کی قید ہے، اس لئے جو روایتیں مطلق ہیں مقید پر محمول کی جائیں گی، مؤلف نے ترجمۃ الباب میں الصبى الذي لم يطعم کہہ کر اسی جانب اشارہ کیا ہے۔
اس لڑ کے کے پیشاب کے بیان میں جو کھانا نہیں کھا تا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ کے اوپر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر صرف پانی بہا لیا، اور اسے دھویا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٨٤، ومصباح الزجاجة : ٢١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٩٥ (٢٢٢) ، العقیقة ١ (٥٤٦٨) ، الأدب ٢١ (٦٠٠٢) ، الدعوات ٣٠ (٦٣٥٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣١ (٢٨٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٩ (٣٠٤) ، موطا امام مالک/الطہارة ٣٠ (١٠٩) ، مسند احمد (٦/٥٢، ٢١٠، ٢١٢) (صحیح )
اس لڑ کے کے پیشاب کے بیان میں جو کھانا نہیں کھا تا
ام قیس بنت محصن (رض) کہتی ہیں کہ میں اپنے ایک شیرخوار بچے کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس نے آپ کے اوپر پیشاب کردیا، آپ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٩ (٢٢٣) ، الطب ١٠ (٥٦٩٣) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣١ (٢٨٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٣٧ (٣٧٤) ، سنن الترمذی/ الطہارة ٥٤ (٧١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٩ (٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٣٠ (١١٠) ، مسند احمد (٦/٣٥٥، ٣٥٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٣ (٧٦٨) (صحیح )
اس لڑ کے کے پیشاب کے بیان میں جو کھانا نہیں کھاتا
علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے شیرخوار بچے کے پیشاب کے بارے میں فرمایا : بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے، اور بچی کا پیشاب دھویا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٧ (٣٧٧) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٤ (٦١٠) ، الصلاة ٤٣٠ (٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٧) (صحیح ) ابوالیمان مصری کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث يرش من الغلام، ويغسل من بول الجارية بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے اور بچی کا پیشاب دھویا جائے کے متعلق پوچھا کہ دونوں میں فرق کی کیا وجہ ہے جب کہ پیشاب ہونے میں دونوں برابر ہیں ؟ تو امام شافعی نے جواب دیا : لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے بنا ہے، اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے، اس کے بعد مجھ سے کہا : کچھ سمجھے ؟ میں نے جواب دیا : نہیں، انہوں نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا، تو ان کی چھوٹی پسلی سے حواء پیدا کی گئیں، تو بچے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہوا، اور بچی کا پیشاب خون اور گوشت سے، پھر مجھ سے پوچھا : سمجھے ؟ میں نے کہا : ہاں، اس پر انہوں نے مجھ سے کہا : اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے نفع بخشے۔
اس لڑ کے کے پیشاب کے بیان میں جو کھانا نہیں کھاتا
ابوسمح (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کا خادم تھا، آپ کے پاس حسن یا حسین کو لایا گیا، انہوں نے آپ ﷺ کے سینے پر پیشاب کردیا، لوگوں نے اسے دھونا چاہا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر پانی چھڑک دو ، اس لیے کہ بچی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٧ (٣٧٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩٠ (٣٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥١، ١٢٠٥٢) (صحیح )
اس لڑ کے کے پیشاب کے بیان میں جو کھانا نہیں کھاتا
ام کرز (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے، اور بچی کا پیشاب دھویا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٥٠، ومصباح الزجاجة : ٢٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٤٢٢، ٤٤٠، ٤٦٤) (صحیح) (اس سند میں انقطاع ہے اس لئے کہ عمرو بن شعیب کا ام کرز سے سماع نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث اور دوسرے شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں شریعت نے فرق رکھا ہے، اس کو روکنے کے لئے طرح طرح کی تاویلات فاسدہ کرنا محض تعصب بےجا کی کرشمہ سازی ہے، مسلمان کو اس کے رسول کا فرمان کافی ہے، اس کے سامنے اسے کسی دوسری طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔
زمین پر پیشاب لگ جائے تو کیسے دھو یا جائے
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا، تو کچھ لوگ اس کی جانب لپکے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کا پیشاب نہ روکو اطمینان سے کرلینے دو ، پھر آپ ﷺ نے ایک ڈول پانی منگایا، اور اس پر بہا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٨ (٢١٩) ، الأدب ٣٥ (٦٠٢٥) ، ٨٠ (٦١٢٨) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٠ (٢٨٤) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٥ (٥٣) ، المیاہ ٢ (٣٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ١٢ (١٤٧) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٢ (٧٦٧) (صحیح )
زمین پر پیشاب لگ جائے تو کیسے دھو یا جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کہا : اے اللہ ! میری اور محمد ﷺ کی مغفرت فرما دے، اور ہمارے ساتھ کسی اور کی مغفرت نہ کر، رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا : تم نے ایک کشادہ چیز (یعنی اللہ کی مغفرت) کو تنگ کردیا ، پھر وہ دیہاتی پیٹھ پھیر کر چلا، اور جب مسجد کے ایک گوشہ میں پہنچا تو ٹانگیں پھیلا کر پیشاب کرنے لگا، پھر دین کی سمجھ آجانے کے بعد (یہ قصہ بیان کر کے) دیہاتی نے کہا : میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں، مجھے نہ تو آپ نے ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف یہ فرمایا : یہ مسجد پیشاب کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے ذکر اور نماز کے لیے بنائی گئی ہے پھر آپ ﷺ نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا، تو وہ اس کے پیشاب پر بہا دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٨ (٢١٩) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٣٨ (٣٨٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ١١٢ (١٤٧) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٥ (٥٣) ، مسند احمد (٢/٥٠٣) (حسن صحیح )
زمین پر پیشاب لگ جائے تو کیسے دھو یا جائے
واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا : اے اللہ مجھ پر اور محمد ﷺ پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ اپنی رحمت میں کسی کو شریک نہ کر، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کردیا، افسوس ہے تم پر یا تمہارے لیے خرابی ہے ، واثلہ (رض) کہتے ہیں : وہ پاؤں پھیلا کر پیشاب کرنے لگا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : رکو، رکو، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو (پیشاب کرلینے دو ) ، پھر آپ ﷺ نے ایک ڈول پانی منگایا اور اس پر بہا دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٥، ومصباح الزجاجة : ٢٢١) (صحیح) (سند میں عبیداللہ الہذلی ضعیف ہیں، لیکن ابوہریرہ و انس (رض) کی سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس باب کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ ناپاک زمین پر پانی بہانا کافی ہے، اور اسی سے وہ پاک ہوجاتی ہے۔
پاک زمین نا پک زمین کو پاک کردیتی ہے۔
ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف کی ام ولد سے روایت ہے کہا انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ سے پوچھا : میرا دامن بہت لمبا ہے، اور مجھے گندی جگہ میں چلنا پڑتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ناپاک زمین کے بعد والی زمین اس دامن کو پاک کردیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٤٠ (٣٨٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٠٩ (١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٤ (١٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٤ (٧٦٩) (صحیح) (اس سند میں ام ولد ابراہیم مجہول ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٤٠٧ ) وضاحت : ١ ؎: یہ حال اس لٹکتے ہوئے دامن کا ہے جو ناپاک جگہوں سے رگڑتا ہے، جس کی طہارت کا حدیث میں ایک انوکھا عمدہ اور سہل طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد کی پاک جگہ کی رگڑ اسے پاک و صاف کر دے گی برخلاف ہمارے یہاں کے وسوسہ میں مبتلا لوگوں کے جنہوں نے دامن محمدی چھوڑ کر شیطان کے گریبان وسواس میں سر ڈالا ہے، اور ادنی سے چھینٹوں کو دھو کر کپڑوں کا ناس نکالا ہے، نعوذ باللہ من ہذا الوسواس۔
پاک زمین نا پک زمین کو پاک کردیتی ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ہم مسجد جاتے ہیں تو ناپاک راستے پر ہمارے پیر پڑجاتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین کا دوسرا (پاک) حصہ اسے پاک کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٥، ومصباح الزجاجة : ٢٢١) (ضعیف) (اس کی سند میں ابراہیم الیشکری مجہول اور ابن أبی حبیبہ (ابراہیم بن اسماعیل) ضعیف راوی ہیں، ابوداود میں ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً ثابت ہے کہ : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے جوتے سے نجاست روندے تو (اس کے بعد کی) مٹی اس کو پاک کر دے گی (حدیث نمبر : ٣٨٥ )
پاک زمین نا پک زمین کو پاک کردیتی ہے۔
قبیلہ بنو عبدالاشہل کی ایک عورت (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا : میرے اور مسجد کے مابین ایک گندا راستہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا اس کے بعد اس سے صاف راستہ ہے ، میں نے کہا : ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا : تو یہ اس کے بدلے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٤٠ (٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٥) (صحیح )
جنبی کے ساتھ مصافحہ۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ جنبی تھے نبی اکرم ﷺ مدینے کے کسی راستے میں انہیں ملے، تو وہ چپکے سے نکل لیے، نبی اکرم ﷺ نے ان کو غائب پایا، جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے پوچھا : ابوہریرہ ! تم کہاں تھے ؟ ، کہا : اللہ کے رسول ! آپ سے ملاقات کے وقت میں جنبی تھا، اور بغیر غسل کئے آپ کی محفل میں بیٹھنا مجھے اچھا نہیں لگا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن ناپاک نہیں ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٣ (٢٨٣) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٩ (٣٧١) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩٢ (٢٣١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٨٩ (١٢١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٢ (٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٥، ٢٨٢، ٤٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی ہونے سے مومن کا جسم اس طرح ناپاک نہیں ہوتا کہ کوئی اسے ہاتھ سے چھولے تو ہاتھ ناپاک ہوجائے، بلکہ اس کی ناپاکی حکمی ہوتی ہے عینی نہیں۔
جنبی کے ساتھ مصافحہ۔
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نکلے تو آپ کی مجھ سے ملاقات ہوگئی اور میں جنبی تھا، میں کھسک لیا، پھر غسل کر کے حاضر خدمت ہوا، آپ ﷺ نے پوچھا : تمہیں کیا ہوگیا تھا ؟ میں نے عرض کیا : میں جنبی تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان ناپاک نہیں ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٩ (٣٧٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩٢ (٢٣٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٢ (٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٤، ٤٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا، خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، مردہ ہو یا زندہ، امام بخاری نے ایک روایت میں تعلیقاً یہ الفاظ بھی نقل فرمائے ہیں کہ مومن زندہ یا مردہ کسی صورت میں نجس نہیں ہوتا، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بزرگوں کی محفلوں میں پاکی کے اہتمام کے ساتھ حاضر ہونا چاہیے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم یا استاذ اپنے شاگردوں کا حال پوچھے اور غیر حاضری کے اسباب دریافت کرے۔
کپڑے کو منی لگ جائے۔
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان بن یسار سے سوال کیا : اگر کپڑے میں منی لگ جائے تو ہم صرف اتنا ہی حصہ دھوئیں یا پورے کپڑے کو ؟ سلیمان نے کہا : ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے کپڑے میں منی لگ جاتی تو اس حصے کو دھو لیتے، پھر اسی کو پہن کر نماز کے لیے تشریف لے جاتے، اور میں اس کپڑے میں دھونے کا نشان دیکھتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٤ (٢٢٧) ، ٦٥ (٢٢٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٢ (٢٨٩) سنن ابی داود/الطہارة ١٣٦ (٣٧٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٧ (٢٩٦) ، سنن الترمذی/الطہارة ١٨٧ (١١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٣٥) ، مسند احمد (٦/٤٨، ١٤٢، ١٦٢، ٢٣٥) (صحیح )
منی کھرچ ڈالنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بعض اوقات میں اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کھرچ دیا کرتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٣٢ (٦٨٨) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٣٦ (٣٧١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٨ (٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٨٥ (١١٦) ، مسند احمد (٦ /٦٧، ١٢٥، ١٣٥، ٢١٣، ٢٣٩، ٢٦٣، ٠ ٢٨) (صحیح )
منی کھرچ ڈالنا۔
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس ایک مہمان آیا، انہوں نے مہمان کے لیے اپنی پیلی چادر دینے کا حکم دیا، اسے اس چادر میں احتلام ہوگیا، اسے شرم محسوس ہوئی کہ وہ چادر کو اس حال میں بھیجے کہ اس میں احتلام کا نشان ہو، اس نے چادر پانی میں ڈبو دی، پھر عائشہ (رض) کے پاس بھیج دیا، عائشہ (رض) نے کہا : اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کردیا ؟ اسے تو انگلی سے کھرچ دینا کافی تھا، میں نے اکثر رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی اپنی انگلی سے کھرچی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٨٥ (١١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٧) (صحیح )
منی کھرچ ڈالنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اگر میں کبھی رسول اللہ ﷺ کے کپڑے میں منی لگی دیکھتی تو اسے کھرچ دیتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٣٢ (٢٨٨) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٨ (٣٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر کپڑے میں منی لگ جائے تو اسے دور کرنے کے تین طریقے ہیں، کھرچنا، رگڑنا، اور دھونا، جس طریقے سے بھی اس کا ازالہ ممکن ہو کرسکتا ہے، بعض روایتوں میں اگر منی گیلی ہو تو دھوئے اور سوکھی ہو تو کھرچنے یا رگڑنے کا ذکر ہے، کھرچنے، رگڑنے، یا دھونے سے اگر نشان باقی رہتا ہے تو کوئی حرج نہیں، ابن عباس (رض) سے امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ منی کا معاملہ رینٹ اور تھوک جیسا ہے اس کو کھرچنا یا رگڑنا کافی ہے، اور یہی دلیل ہے اس کے پاک ہونے کی۔
ان کپڑوں میں نماز پڑھنا جن میں صحبت کی ہو
معاویہ بن ابوسفیان (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بہن ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ جماع والے کپڑوں میں نماز پڑھتے تھے ؟ کہا : ہاں، لیکن ایسا تب ہوتا تھا جب کپڑوں میں گندگی نہ لگی ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٣ (٣٦٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٦ (٢٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٦/٣٢٥، ٤٢٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٢ (١٤١٥) (صحیح )
ان کپڑوں میں نماز پڑھنا جن میں صحبت کی ہو
ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، آپ نے ہمیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھائی، جسے آپ اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کا داہنا کنارا بائیں کندھے پر اور بایاں داہنے کندھے پر تھا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے، تو عمر بن خطاب (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا آپ ہمیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھا لیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، میں میں اس کو پہن کر نماز پڑھ لیتا ہوں، اگرچہ اسے پہن کر مباشرت بھی کی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٥، ومصباح الزجاجة : ٢٢٢) (حسن) (اس حدیث کی سند میں حسن بن یحییٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن کے درجہ میں ہے، صحیح ابی داود : / ٣٩٠ ) وضاحت : ١ ؎: ان روایتوں سے ثابت ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی کپڑا خاص نماز کے لئے نہیں رہتا تھا، بلکہ روز مرہ کے کپڑوں سے ہی نماز بھی ادا کرلیتے تھے، اس لئے بعض لوگوں نے جو سجادے، جوڑے اور کپڑے نماز کے لئے خاص کر لئے ہیں، یہ بدعات و محدثات میں داخل ہیں، پھر اگر کوئی ان کو چھو لے تو ہندؤوں کی طرح چھوت سمجھتے ہیں، اور بھوت کی طرح الگ رہتے ہیں، ان کو وسواس خناس نے مبہوت کردیا ہے۔
ان کپڑوں میں نماز پڑھنا جن میں صحبت کی ہو
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : کیا وہ اس کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے جس میں بیوی سے صحبت کرتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، مگر یہ کہ اس میں کسی گندگی کا نشان دیکھے تو اسے دھو لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٠٦، ومصباح الزجاجة : ٢٢٤) ، مسند احمد (٥/٨٩، ٩٧) (صحیح )
موزوں پر مسح کرنا
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ (رض) نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے پوچھا گیا : کیا آپ ایسا کرتے ہیں ؟ کہا : میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں : لوگ جریر (رض) کی حدیث پسند کرتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے سورة المائدہ کے نزول کے بعد اسلام قبول کیا، (کیونکہ سورة المائدہ میں پیر کے دھونے کا حکم تھا) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٥ (٣٨٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٢) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧٠ (١١٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٩٦ (١١٨) ، القبلة ٢٣ (٧٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٨، ٣٦٣، ٣٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں لوگوں سے مراد اصحاب عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں، جس کی صراحت مسلم کی روایت میں ہے، مطلب یہ کہ سورة مائدہ میں وضو کا حکم ہے، اگر جریر (رض) کا اسلام نزول آیت سے پہلے ہوتا تو احتمال تھا کہ یہ حکم منسوخ ہو، اور جب متأخر ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سنت آیت کی مخصص ہے، اور حکم یہ ہے کہ اگر پیروں میں وضو کے بعد خف (موزے) پہنے ہوں تو مسح کافی ہے، دھونے کی ضرورت نہیں۔
موزوں پر مسح کرنا
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٣٠٥، ٣٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٥) (صحیح )
موزوں پر مسح کرنا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے لیے نکلے، وہ ایک لوٹے میں پانی لے کر آپ ﷺ کے پیچھے ہو لیے، جب آپ اپنی ضرورت سے فارغ ہوگئے، تو وضو کیا، اور موزوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٨ (١٨٢) ، ٤٩ (٢٠٣) ، المغازي ٨١ (٤٤٢١) ، اللباس ١١ (٥٧٩٩) صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٤) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٩ (١٤٩) ، سنن النسائی/الطہا رة ٦٣ (٧٩) ، ٦٦ (٨٢) ، ٧٩ (٩٦) ، ٨٠ (٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٧٥ (١٠٠) ، موطا امام مالک/الطہارة ٨ (٤١) ، مسند احمد (٤/٢٥٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤١ (٧٤٠) (صحیح )
موزوں پر مسح کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے سعد بن مالک (سعد بن مالک ابن ابی وقاص) (رض) کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو کہا : کیا آپ لوگ بھی ایسا کرتے ہیں ؟ وہ دونوں عمر (رض) کے پاس اکٹھا ہوئے اور سعد بن ابی وقاص (رض) نے عمر (رض) سے کہا : میرے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتائیے، تو عمر (رض) نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوتے تھے، اور اپنے موزوں پر مسح کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، ابن عمر (رض) نے کہا : خواہ کوئی بیت الخلاء سے آئے ؟ فرمایا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٠، ومصباح الزجاجة : ٢٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٩ (٢٠٢) ، موطا امام مالک/الطہارة ٨ (٤٢) ، مسند احمد (١/٣٥) (صحیح) (اس سند میں سعید بن أبی عروبہ مدلس صاحب اختلاط راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن بقول بوصیری محمد بن سواء نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے، نیز دوسرے طرق ہیں اس لئے یہ حدیث صحیح ہے )
موزوں پر مسح کرنا
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا، اور ہمیں موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٠، ومصباح الزجاجة : ٢٢٧) (صحیح) (اس حدیث کی سند میں عبد المہیمن ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے )
موزوں پر مسح کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا کہ آپ نے فرمایا : کچھ پانی ہے ؟ ، پھر آپ نے وضو کیا، اور موزوں پر مسح کیا، پھر لشکر میں شامل ہوئے اور ان کی امامت فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٣، ومصباح الزجاجة : ٢٢٧) (ضعیف) (عمر بن المثنی الاشجعی الرقی مستور ہیں، اور عطاء خراسانی اور انس (رض) کے مابین انقطاع ہے، جس کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے )
موزوں پر مسح کرنا
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نجاشی نے نبی اکرم ﷺ کو دو سیاہ سادے موزے بطور ہدیہ پیش کئے، آپ نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا اور ان پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٩ (١٥٥) ، سنن الترمذی/الأدب ٥٥ (٢٨٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٢) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٦٢٠) (حسن )
موزے کے اوپر اور نیچے کا مسح کرنا۔
مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے موزے کے اوپر اور نیچے مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٣ (١٦٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧٢ (٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٨ (٤١) مسند احمد (٤/٢٥١) سنن الدارمی/الطہارة ٤١ (٧٤٠) (ضعیف) (ملاحظہ ہو : المشکاة : ٥٢١ ) (شاید سند میں انقطاع ہے کیونکہ ثور کا سماع حیوة سے ثابت نہیں ہے )
موزے کے اوپر اور نیچے کا مسح کرنا۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو وضو کر رہا تھا، اور اپنے دونوں موزوں کو دھو رہا تھا، آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، گویا آپ اسے روک رہے ہیں، اور فرمایا : تمہیں تو (موزوں پر) صرف مسح کا حکم دیا گیا ہے ، اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح کیا یعنی انگلیوں کے کناروں سے خط کھینچتے ہوئے پنڈلیوں کی جڑ تک لے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٨٤، ومصباح الزجاجة : ٢٢٨) (ضعیف جدا) (سند میں بقیہ مدلس اور جریر بن یزید ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ١٩ )
مسح کی مدت مسافر اور مقیم کے لئے
شریح بن ہانی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے موزوں پر مسح کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : علی (رض) کے پاس جاؤ، اور ان سے پوچھو، اس لیے کہ وہ اس مسئلہ کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، چناچہ میں علی (رض) کے پاس آیا اور ان سے مسح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہم کو حکم دیتے تھے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات، اور مسافر تین دن تک مسح کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٤ (٢٧٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٩٩ (١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٦، ١٠٠، ١١٣، ١٢٠، ٣ ١٣، ١٣٤، ١٤٦، ١٤٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤٢ (٧٤١) (صحیح )
مسح کی مدت مسافر اور مقیم کے لئے
خزیمہ بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے تین دن تک کی اجازت دی ہے اور اگر پوچھنے والا اپنے سوال کو جاری رکھتا تو شاید اسے آپ پانچ دن کردیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٠ (١٥٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧١ (٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١٣، ٢١٤، ٢١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر مسافر نے وضو کرنے کے بعد موزے پہنے ہیں، تو وہ ان پر تین دن اور تین رات تک مسح کرسکتا ہے، واضح رہے کہ جس وقت پہنا ہے اس کا اعتبار نہیں بلکہ جس نماز کے وقت سے موزے پر مسح شروع کیا ہے اس کا اعتبار ہوگا، نیز نہانے کی حاجت اگر ہوجائے، تو اتارنے پڑیں گے۔
مسح کی مدت مسافر اور مقیم کے لئے
خزیمہ بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین دن اور ان کی راتیں مسافر کے لیے موزوں پر مسح کے حکم میں داخل ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )
مسح کی مدت مسافر اور مقیم کے لئے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! موزوں پر طہارت کی مدت کتنی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مسافر کے لیے تین دن اور تین رات، اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤١٤) (صحیح) (اس حدیث کی سند میں عمر الثمالی ضعیف ہیں، لیکن شواہد و متابعات کی بناء پر حدیث صحیح ہے )
مسح کی مدت مسافر اور مقیم کے لئے
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مسافر کو رخصت دی کہ جب وہ باوضو ہو کر اپنے موزے پہنے، پھر اس کا وضو ٹوٹ جائے اور نیا وضو کرے، تو وہ اپنے موزوں پر تین دن اور تین رات تک مسح کرے، اور مقیم ایک دن، اور ایک رات تک۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٢، ومصباح الزجاجة : ٢٢٩) (حسن )
مسح کے لئے مدت مقرر نہ ہونا۔
ابی بن عمارہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے گھر میں دونوں قبلوں کی جانب نماز پڑھی تھی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : کیا میں موزوں پر مسح کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، کہا : ایک دن تک ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، کہا : دو دن تک ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، کہا : تین دن ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، یہاں تک کہ سات تک پہنچے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : جب تک تمہارا دل چاہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٠ (١٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٦) (ضعیف) (اس کی سند میں محمد بن یزید مجہول الحال ہیں )
مسح کے لئے مدت مقرر نہ ہونا۔
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ وہ مصر سے عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئے، تو عمر (رض) نے پوچھا : آپ نے اپنے موزے کب سے نہیں اتارے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جمعہ سے جمعہ تک، تو عمر (رض) نے کہا : آپ نے سنت کو پا لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عقبہ بن عامر جہنی (رض) فتح مصر کی خوش خبری لے کر عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئے تھے، چونکہ ایسے موقعہ پر رکنے ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ہوتا، اس لئے انہوں نے تین دن سے زیادہ تک مسح کرلیا، یہ حکم ایسی ہی اضطراری صورتوں کے لئے ہے، ورنہ اصل حکم وہی ہے جو گزرا، مقیم ایک دن اور ایک رات، اور مسافر تین دن اور تین رات تک مسح کرسکتا ہے۔
جرابو اور جو توں پر مسح
مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور پاتا ہوں اور جوتوں پر مسح کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦١ (١٥٩) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧٤ (٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطہارة ٩٦ (١٢٤) ، مسند احمد (٤/٢٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب ان کو طہارت کر کے پہنے، تو پھر ان پر مسح صحیح ہے، اتارنا ضروری نہیں، اور جن لوگوں نے اس میں قیدیں لگائی ہیں کہ پائے تابے چمڑے کے ہوں، یا موٹے ہوں، اتنے کہ خود بخود تھم رہیں، یہ سب خیالی باتیں ہیں جن کی شرع میں کوئی دلیل نہیں ہے، اصل یہ ہے کہ شارع (علیہ السلام) نے اپنی امت پر آسانی کے لئے پاؤں کا دھونا ایسی حالت میں جب موزہ یا جراب یا جوتا چڑھا ہو معاف کردیا ہے جیسے سر کا مسح عمامہ بندھی ہوئی حالت میں، پھر اس آسانی کو نہ قبول کرنا، اور اس میں عقلی گھوڑے دوڑانے کی کیا ضرورت ہے۔
جرابو اور جو توں پر مسح
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور پاتا ہوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ معلی اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ مجھے یہی معلوم ہے کہ انہوں نے والنعلين کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٠٧، ومصباح الزجاجة : ٢٢٦) (صحیح) (عیسیٰ ضعیف الحفظ ہیں لیکن طرق و شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، کما تقدم قبلہ، (نیز ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود ١٤٨ )
عمامہ پر مسح۔
بلال (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں اور عمامہ (پگڑی) پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٢٧٥) ، سنن الترمذی/الطہارة ٧٥ (١٠١) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٦ (١٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٧) وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢، ١٣، ١٤، ١٥) (صحیح )
عمامہ پر مسح۔
عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو موزوں اور عمامہ (پگڑی) پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٨ (٢٠٤) ، سنن النسائی/الطہارة ٩٦ (١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٦ٔ ٤/١٣٩، ١٧٩، ٥/٢٨٧، ٢٨٨) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٨ (٧٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عمامہ پر مسح مغیرہ (رض) سے بھی مروی ہے، اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے، اور ان حدیثوں میں ذکر نہیں ہے کہ پیشانی پر مسح کر کے باقی ہاتھ عمامہ پر پھیرا، یہ حنفیوں کی تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں، امام احمد نے سلمان (رض) سے عمامہ کے مسح کی روایت کی ہے، ابوداؤد نے ثوبان (رض) سے، حاصل کلام یہ کہ سر پر اور عمامہ پر، اور سر اور عمامہ دونوں پر تینوں طرح صحیح اور ثابت ہے۔
عمامہ پر مسح۔
زید بن صوحان کے غلام ابو مسلم کہتے ہیں کہ میں سلمان (رض) کے ساتھ تھا، انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وضو کے لیے اپنے موزے نکال رہا ہے، تو سلمان (رض) نے اس سے کہا : اپنے موزے، عمامہ اور پیشانی پر مسح کرلیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو موزوں اور عمامہ پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥١١، ومصباح الزجاجة : ٢٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٩، ٤٤٠) (ضعیف) (سند میں محمد بن زید بن علی الکندی العبدی قاضی مرو کو ابو حاتم رازی نے صالح الحدیث لابأس بہ ، کہا ہے، ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے، اور ابن حجر نے مقبول کہا ہے، یعنی متابعت کی صورت میں، اور ابو مسلم العبدی مولیٰ زید بن صوحان بھی مقبول ہیں، اور ابو شریح بھی مقبول ہیں، متابعت کے نہ ہونے سے یہ حدیث ضعیف ہے، ان کا ترجمہ الاصابہ میں ہے ) وضاحت : ١ ؎: بوصیری نے مصباح الزجاج ۃ میں باب الصلاة في الثوب الذي يجامع فيه میں اس سیاق کو قدرے اختلاف سے دیا ہے جو یہ ہے : ابن حجر فرماتے ہیں : وقد رأيته في رواية سعدون عند ابن ماجة في نسخة صحيحة موجودة، وفيها عدة أحاديث في الطهارة لم أرها في رواية غيره، وقد تتبعتها في أماكنها بعون الله . النکت الظراف سنن ابی داود/عوض الشهري کے محقق نسخہ میں یہ حدیث ( ٢٢٩ ) نمبر پر ہے، موصوف فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ہندوستانی حیدر آبادی نسخہ اور سنن ابی داود/ مصطفى الأعظمي کے نسخہ میں ساقط ہے۔
عمامہ پر مسح۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، آپ کے سر پہ ایک قطری عمامہ تھا، آپ نے اپنا ہاتھ عمامہ کے نیچے داخل کر کے سر کے اگلے حصے کا مسح کیا، اور عمامہ نہیں کھولا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٧ (١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٥) (ضعیف) (اس کی سند میں ابو معقل مجہول ہیں )