20. گمشدہ چیزوں کا بیان
طلب شفعہ
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شریک کو شریک پر اس وقت شفعہ نہیں رہتا ہے، جب وہ خریداری میں اس سے سبقت کر جائے، اسی طرح نہ کم سن (نابالغ) کے لیے شفعہ ہے، اور نہ غائب کے لیے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٩٣، ومصباح الزجاجة : ٨٨٧) (ضعیف جدا) (سند میں محمد بن الحارث ضعیف راوی ہیں، اور محمد بن عبد الرحمن البیلمانی متہم با لکذب راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٨٠٤ ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً کسی جائیداد میں زید، عمر اور بکر شریک ہیں، بکر نے اپنا حصہ زید کے ہاتھ بیچ دیا، تو عمر کو زید پر شفعہ کے دعویٰ کا حق حاصل نہ ہوگا۔
گمشدہ اونٹ، گائے اور بکری
عبداللہ بن شخیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کی گمشدہ چیز آگ کا شعلہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٥١، ومصباح الزجاجة : ٨٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٦٢٠ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو کوئی اس کی خبر نہ کرے بلکہ اسے ہضم کرنے کی نیت سے چھپا رکھے تو اس کے بدلے میں یہ جہنم کی آگ کا مستحق ہے۔
گمشدہ اونٹ، گائے اور بکری
منذر بن جریر کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ بوازیج میں تھا کہ گایوں کا ریوڑ نکلا، تو آپ نے ان میں ایک اجنبی قسم کی گائے دیکھی تو پوچھا : یہ گائے کیسی ہے ؟ لوگوں نے کہا : کسی اور کی گائے ہے، جو ہماری گایوں کے ساتھ آگئی ہے، انہوں نے حکم دیا، اور وہ ہانک کر نکال دی گئی یہاں تک کہ وہ نظر سے اوجھل ہوگئی، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : گمشدہ چیز کو وہی اپنے پاس رکھتا ہے جو گمراہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللقطة ١ (١٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٠، ٣٦٢) (صحیح) (سند میں علت ہے کیونکہ ضحاک مجہول راوی ہیں، لیکن مرفوع حدیث، شاہد کی بناء پر صحیح ہے، قصہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٥٦٣ ، و صحیح أبی داود : ١٥١٣ ، تراجع الألبانی : رقم : ٥١٥ ) وضاحت : ١ ؎: بوازیج : ایک شہر کا نام ہے۔
گمشدہ اونٹ، گائے اور بکری
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے گمشدہ اونٹ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ غضب ناک ہوگئے، اور غصے سے آپ کے رخسار مبارک سرخ ہوگئے اور فرمایا : تم کو اس سے کیا سروکار، اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے، وہ خود پانی پر جاسکتا ہے اور درخت سے کھا سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لیتا ہے پھر آپ ﷺ سے گمشدہ بکری کے بارے پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو لے لو اس لیے کہ وہ یا تو تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیئے کی ١ ؎ پھر آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو، اور ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو، ٢ ؎ اگر اس کی شناخت پہچان ہوجائے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے اپنے مال میں شامل کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللقطة ١ (٢٤٢٦) ، صحیح مسلم/اللقطة ١ (١٧٢٢) ، سنن ابی داود/اللقطة ١ (١٧٠٤، ١٧٠٥) ، سنن الترمذی/الاحکام ٣٥ (١٣٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٣٨ (٤٦، ٤٧) ، مسند احمد (٤/١١٥، ١١٦، ١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر کوئی اس کی حفاظت نہ کرے گا تو وہ اسے کھاجائے گا۔ ٢ ؎: بازار یا مسجد یا جہاں لوگ جمع ہوتے ہوں، پکار کر کہے کہ مجھے ایک چیز ملی ہے، نشانی بتا کر جس کی ہو لے جائے، اگر اس کا مالک اس کی شناخت کرلے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے اپنے مال میں شامل کرلے۔
گمشدہ اونٹ، گائے اور بکری
عیاض بن حمار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو وہ ایک یا دو معتبر شخص کو اس پر گواہ بنا لے، پھر وہ نہ اس میں تبدیلی کرے اور نہ چھپائے، اگر اس کا مالک آجائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، ورنہ وہ اللہ کا مال ہے جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللقطة ١ (١٧٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٢، ٢٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیحین میں زید بن خالد (رض) کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے چاندی اور سونے کے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا تھیلا اور سربند پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کو پوچھتے رہو، اگر کوئی اس کو نہ پہچانے تو خرچ کر ڈالو، لیکن وہ تمہارے پاس امانت ہوگی، جب اس کا مالک آئے، گرچہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد تو تم اس کو دے دو ۔
گمشدہ اونٹ، گائے اور بکری
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا : اس کو اسی جگہ ڈال دو ، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب (رض) کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا : تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو ، میں پتا کرتا رہا، لیکن کسی کو نہ پایا جو انہیں پہچانتا ہو، پھر میں نے آپ ﷺ سے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا تھیلا، بندھن اور اس کی تعداد یاد رکھو، پھر سال بھر اس کے مالک کا پتا کرتے رہو، اگر اس کا جا ننے والا آجائے تو خیر، ورنہ وہ تمہارے مال کی طرح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللقطة ١ (٢٤٢٦) ، صحیح مسلم/اللقطة ١ (١٧٢٣) ، سنن ابی داود/اللقطة ١ (١٧٠١، ١٧٠٢) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٥ (١٣٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢٦، ١٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم کی روایت میں ہے : ثمَّ عرِّفها سنةً ، فإن جاء صاحبُها وإلا فشأنكَ بها سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر اس کا جاننے والا آجائے تو خیر ورنہ اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
گمشدہ اونٹ، گائے اور بکری
زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر کوئی اس کی (پہچان) کرلے تو اسے دے دو ، ورنہ اس کی تھیلی اور اس کا بندھن یاد رکھو، پھر اس کو اپنے کھانے میں استعمال کرلو، اگر اس کا مالک آجائے تو اسے ادا کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللقطة ١ (١٧٢٢) ، سنن ابی داود/اللقطة ١ (١٧٠٦) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٥ (١٣٧٢، ١٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٦، ٥/١٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مکہ میں جو لقطہ (گری پڑی چیز) ملے اس کے مالک کے تلاش کرنے میں زیادہ کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ مکہ کا لقطہ جائز نہیں، مگر اس کے لئے جو اس کو دریافت کرے، صحیحین میں انس (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے راستہ میں ایک کھجور پائی تو فرمایا : اگر مجھ کو یہ ڈر نہ ہوتا کہ شاید یہ صدقہ کی ہو تو میں اسے کھا لیتا ، اور احمد و طبرانی اور بیہقی نے یعلی بن مرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جس نے رسی یا درہم وغیرہ جیسا حقیر لقطہ اٹھایا تو وہ اس کے بارے میں تین دن تک پوچھے، اگر اس سے زیادہ چاہے تو چھ دن تک پوچھے اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ علی (رض) نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دینار لائے جس کو انہوں نے بازار میں پایا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : تین دن اس کے مالک کو پوچھتے رہو ، انہوں نے پوچھا کوئی مالک نہیں پایا، جو اس کو پہچانے تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اب اس کو کھالو (یعنی خرچ کرلو) اگر لقطہ کھانے کی چیز ہو (جیسے روٹی پھل وغیرہ) تو اس کا پوچھنا ضروری نہیں فوراً اس کا کھا لینا درست ہے۔
چوہا بل سے جو مال نکال لائے وہ لینا
مقداد بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن وہ بقیع کے قبرستان کی طرف قضائے حاجت کے لیے نکلے، ان دنوں لوگ قضائے حاجت کے لیے دو دو تین تین دن بعد ہی جایا کرتے تھے، اور مینگنیاں نکالتے تھے، خیر وہ ایک ویرانے میں گئے اور قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں ایک چوہے پر نظر پڑی جس نے سوراخ میں سے ایک دینار نکالا، پھر وہ اندر گھس گیا، اور پھر ایک دینار اور نکالا یہاں تک کہ اس نے سترہ دینار نکالے، پھر ایک سرخ کپڑے کے ٹکڑے کا کنارہ نکالا۔ مقداد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے وہ ٹکڑا کھینچا تو اس میں ایک دینار اور ملا اس طرح کل اٹھارہ دینار پورے ہوگئے، انہیں لے کر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، اور آپ کو پورا واقعہ بتایا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ اس کی زکاۃ لے لیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا : لے جاؤ، اس میں زکاۃ نہیں، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : شاید تم نے سوراخ میں اپنا ہاتھ ڈالا ؟ میں نے کہا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کی حق سے عزت فرمائی ۔ راوی کہتے ہیں : ان دیناروں میں اتنی برکت ہوئی کہ ان کی وفات تک آخری دینار ختم نہیں ہوا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج ٤٠ (٣٠٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٥٠) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن یعقوب ضعیف اور قر یبة بنت عبداللہ لین الحدیث ہیں )
جسے کان ملے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رکاز میں پانچواں حصہ (بیت المال کا) ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ١١ (١٧١٠) ، سنن ابی داود/الخراج ٤٠ (٣٠٨٥) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٧ (١٣٧٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٨ (٢٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٨، ١٥١٤٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٦ (١٤٩٩) ، المساقاة ٣ (٢٣٥٥) ، الدیات ٢٨ (٦٩١٢) ، ٢٩ (٦٩١٣) ، موطا امام مالک/ العقول ١٨ (١٢) ، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٢٢٩، ٢٥٤، ٢٧٤، ٢٨٥، ٣١٩، ٣٨٢، ٣٨٦، ٤٠٦، ٤١١، ٤١٤، ٤٥٤، ٤٥٦، ٤٦٧، ٤٧٥، ٤٨٢، ٤٨٢، ٤٩٥، ٤٩٩، ٥٠١، ٥٠٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٠ (١٧١٠) ، الدیات ٩ (٢٤٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رکاز کان کو کہتے ہیں، اور کچھ علماء کہتے ہیں کہ کافروں کے دفینہ یعنی خزانہ کو رکاز کہا جاتا ہے۔
جسے کان ملے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رکاز میں پانچواں حصہ (بیت المال کا) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٢٩، ومصباح الزجاجة : ٨٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٤، ٣/١٨٠) (صحیح )
جسے کان ملے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص نے ایک زمین خریدی، اس میں اسے سونے کا ایک مٹکا ملا، خریدار بائع (بیچنے والے) سے کہنے لگا : میں نے تو تم سے زمین خریدی ہے سونا نہیں خریدا، اور بائع کہہ رہا تھا : میں نے زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب تمہارے ہاتھ بیچا ہے، الغرض دونوں ایک شخص کے پاس معاملہ لے گئے، اس نے پوچھا : تم دونوں کا کوئی بچہ ہے ؟ ان میں سے ایک نے کہا : ہاں میرے پاس ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا : میرے پاس ایک لڑکی ہے، تو اس شخص نے کہا : تم دونوں اس لڑکے کی شادی اس لڑکی سے کر دو ، اور چاہیئے کہ اس سونے کو وہی دونوں اپنے اوپر خرچ کریں، اور اس میں سے صدقہ بھی دیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٩٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة ١١ (١٧٢١) ، مسند احمد (٢/٣١٦) (صحیح )