21. غلام آزاد کرنے کا بیان۔
مدبر کا بیان
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدبر غلام بیچا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٩ (٢١٤١) ، ١١٠ (٢٢٣٠) ، الإاستقراض ١٦ (٢٤٠٣) ، الخصومات ٣ (٢٤١٥) ، العقتق ٩ (٢٥٣٤) ، کفارات الأیمان ٧ (٦٧١٦) ، الإکراہ ٤ (٦٩٤٧) ، الأحکام ٣٢ (٧١٨٦) ، سنن ابی داود/العتق ٩ (٣٩٥٥) ، سنن النسائی/البیوع ٨٣ (٤٦٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٤١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٣ (٩٩٧) ، سنن الترمذی/البیوع ١١ (١٢١٩) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٠٨، ٣٦٥، ٣٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٧ (٢٦١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدبر وہ غلام یا لونڈی ہے جس سے مالک نے یہ کہہ دیا ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔
مدبر کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص نے غلام کو مدبر بنادیا، اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بیچ دیا، اور قبیلہ بنی عدی کے شخص ابن نحام نے اسے خریدا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٠ (٢٢٣١) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٣ (٩٩٧) ، سنن الترمذی/البیوع ١١ (١٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٨) (صحیح )
مدبر کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مدبر غلام میت کے تہائی مال میں سے شمار ہوگا ۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : میں نے عثمان یعنی ابن ابی شیبہ کو کہتے سنا کہ یہ روایت یعنی المدبر من الثلث کی حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠٦٥، ومصباح الزجاجة : ٨٩٠) (موضوع) (علی بن ظبیان کی ابن معین وغیرہ نے تکذیب کی ہے )
ام ولد کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لونڈی اپنے مالک کا بچہ جنے، تو وہ مالک کے مرجانے کے بعد آزاد ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٢٣، ومصباح الزجاجة : ٨٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٣، ٣١٧، ٣٢٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٨ (٢٦١٦) (ضعیف) (سند میں حسین بن عبد اللہ متروک راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٧٧١ )
ام ولد کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی ماں کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے بچے (ابراہیم) نے اسے آزاد کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٢٤، ومصباح الزجاجة : ٨٩٤) (ضعیف) (سند میں حسین بن عبداللہ متروک راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٧٧٢ )
ام ولد کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی لونڈیاں اور امہات الاولاد بیچا کرتے تھے، اور نبی اکرم ﷺ ہمارے درمیان زندہ تھے، اور ہم اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٨٣٥، ومصباح الزجاجة : ٨٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/العتق ٨ (٣٩٥٤) ، مسند احمد (٣/٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امہات الاولاد: وہ لونڈیاں جن کے بطن سے آقا (مالک) کی اولاد ہوچکی ہو۔ ابوداود کی روایت میں یہ زیادتی موجود ہے کہ عمر (رض) نے اپنے دور خلافت میں ام ولد کے بیچنے سے منع فرما دیا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سے رک گئے، نیز اس حدیث کا جواب علماء نے یوں دیا ہے کہ جابر (رض) کو نسخ کی خبر نہیں ہوئی، پہلے ام ولد کی بیع جائز رہی ہوگی پھر آپ ﷺ نے اس سے منع کیا ہوگا، اور دلیل اس کی یہ ہے کہ عمر (رض) نے اس سے منع کیا، جیسے جابر (رض) نے متعہ کے باب میں بھی ایسی ہی روایت کی ہے کہ ہم متعہ کرتے رہے، نبی کریم ﷺ اور ابوبکر اور عمر (رض) کے شروع خلافت میں، پھر عمر (رض) نے اس سے منع کیا، حالانکہ متعہ کی حلت بالاجماع منسوخ ہے، اور جابر (رض) کو اس کے نسخ کی اطلاع نہیں ہوئی، اسی طرح اس ممانعت کی بھی ان کو خبر نہیں ہوئی ہوگی۔
مکاتب کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی مدد کرنا اللہ پر حق ہے، ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ کا غازی ہو، دوسرے وہ مکاتب جو بدل کتابت ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تیسرا وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے ارادے سے نکاح کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٠ (١٦٥٥) ، سنن النسائی/الجہاد ١٣ (٣١٢٣) ، النکاح ٥ (٣٢٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥١، ٤٣٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: مکاتب : وہ لونڈی یا غلام جس سے مالک کہے کہ تم اتنا مال ادا کر دو تو تم آزاد ہو۔
مکاتب کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس غلام سے سو اوقیہ پر مکاتبت کی گئی ہو، اور وہ سوائے دس اوقیہ کے باقی تمام ادا کر دے، تو وہ غلام ہی رہے گا (جب تک پورا ادا نہ کر دے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٣، ومصباح الزجاجة : ٨٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/العتق ١ (٣٩٢٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٥ (١٢٦٠) (حسن) (سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن متابعت کی وجہ سے یہحسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٦٧٤ ) ۔ وضاحت : ١ ؎: اوقیہ : ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، جو تقریباً ایک سو اٹھارہ گرام کے مساوی ہوتا ہے۔
مکاتب کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کسی کے پاس مکاتب غلام ہو، اور اس کے پاس اس قدر مال ہوگیا ہو کہ وہ اپنا بدل کتابت ادا کرسکے، تو تم لوگوں کو اس سے پردہ کرنا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العتق ١ (٣٩٢٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٥ (١٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٩) (ضعیف) (سند میں نبہان مجہول راوی ہیں، نیز یہ حدیث اگلی حدیث کے مخالف بھی ہے )
مکاتب کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے پاس بریرہ (رض) آئیں جو مکاتب (لونڈی) تھیں، ان کے مالکوں نے نو اوقیہ پر ان سے مکاتبت کی تھی، عائشہ (رض) نے ان سے کہا : اگر تمہارے مالک چاہیں تو تمہارا بدل مکاتبت میں ایک ہی بار ادا کروں، مگر تمہاری ولاء (میراث) میری ہوگی، چناچہ بریرہ (رض) اپنے مالکوں کے پاس آئیں، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے یہ (پیش کش) اس شرط پر منظور کرلی کہ ولاء (میراث) کا حق خود ان کو ملے گا، اس کا تذکرہ عائشہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنا کام کر ڈالو ، اور پھر آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں میں خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے فرمایا : آخر لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہیں ہیں، اور ہر وہ شرط جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہ ہو باطل ہے، اگرچہ ایسی سو شرطیں ہوں، اللہ کی کتاب سب سے زیادہ حقدار اور اللہ تعالیٰ کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے، ولاء اسی کا حق ہے جو (مکاتب کی طرف سے مال ادا کر کے) اسے آزاد کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المکاتب ٣ (٢٥٦٣) ، صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٩ (٢٢٣٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٣ (١٢٥٦) ، سنن النسائی/الطلاق ٣١ (٣٤٨٣) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٠ (٢٥) ، مسند احمد (٦/٤٦، ١١٥، ١٢٣، ١٧٢، ١٩١، ٢٠٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مکاتب جب بدل کتابت کی ادائیگی سے عاجز ہوجائے تو وہ پھر غلام ہوجاتا ہے، اور اس کی بیع درست ہوجاتی ہے، اور بریرہ (رض) کا یہی حال ہوا تھا، جب تو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان کو خرید کر کے آزاد کردیا۔
غلام کو آزاد کرنا
شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب (رض) سے کہا : کعب بن مرہ ! ہم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کریں، اور احتیاط سے کام لیں، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگا، اس کی ہر ہڈی اس کی ہر ہڈی کا فدیہ بنے گی، اور جو شخص دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے گا تو یہ دونوں اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ بنیں گی، ان کی دو ہڈیاں اس کی ایک ہڈی کے برابر ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العتق ١٤ (٣٩٦٧) ، سنن النسائی/الجہاد ٢٦ (٣١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٩ (١٦٣٤) ، مسند احمد (٤/٢٣٥، ٢٣٦) (صحیح )
غلام کو آزاد کرنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا غلام آزاد کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو مالکوں کو سب سے زیادہ پسند ہو، اور جو قیمت کے اعتبار سے سب سے مہنگا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٢ (٢٥١٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨٤) ، سنن النسائی/الجہاد ١٧ (٣١٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ میں ہمیشہ عمدہ اور قیمتی چیز دینا بہتر ہے، کیونکہ وہ شہنشاہ بےپرواہ ہے اس کو کسی چیز کی پرواہ نہیں، اور ادب بھی یہی ہے کہ اس کے نام پر وہی چیز دیں جو نہایت محبوب اور مرغوب اور قیمتی ہو : لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ (سورة آل عمران : 92) ۔
جومحرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تو وہ (رشتہ دار) آزاد ہے۔
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی محرم رشتے دار کا مالک بن جائے تو وہ آزاد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العتق ٧ (٣٩٤٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٨ (١٣٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٠، ٤٥٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥، ١٨، ٢٠) (صحیح) (حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے، اور حاکم نے صحیح، اور ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی ہے، حالانکہ سند میں حسن بصری ہیں، جن کا سماع سمرة (رض) سے صرف حدیث عقیقہ کا ہے، دوسری کوئی حدیث ان سے نہیں سنی ہے، لیکن حدیث اپنے طرق و شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٧٤٦ )
جومحرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تو وہ (رشتہ دار) آزاد ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی محرم رشتے دار کا مالک ہوجائے تو وہ آزاد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٥٧، ومصباح الزجاجة : ٨٩٥) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٨ (١٣٦٥ تعلیقاً ) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٧٤٦ )
غلام کو آزاد کرنا اور اس پر اپنی خدمت کی شرط ٹھہرانا
عبداللہ بن معاویہ، حماد بن سلمہ، سعید بن جمہان، حضرت سفینہ ابوعبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ نے مجھے آزاد کیا اور میرے ساتھ یہ شرط ٹھہرائی کہ حیات طیبہ میں نبی کی خدمت کروں۔
غلام میں اپنا حصہ آزاد کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی کسی (مشترک) غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے، تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پاس مال ہو تو اپنے مال سے اس کو مکمل آزاد کرائے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام سے باقی ماندہ قیمت کی ادائیگی کے لیے مزدوری کرائے، لیکن اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الشرکة ٥ (٢٤٩٢) ، ١٤ (٢٥٠٤) ، العتق ٥ (٢٥٢٦، ٢٥٢٧) ، صحیح مسلم/العتق ١ (١٥٠٣) ، سنن ابی داود/العتق ٣ (٣٩٣٤) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٤ (١٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٥، ٣٤٧، ٤٢٦، ٤٦٨، ٤٧٢، ٥٣١) (صحیح )
غلام میں اپنا حصہ آزاد کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دے، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی، اور اس کے بقیہ شرکاء کے حصہ کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہوگی، بشرطیکہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے، اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہوجائے گا، لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ایسی صورت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہوگا جتنا اس نے آزاد کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٤ (٢٥٢٢) ، الشرکة ٥ (٢٤٩١) ، ١٤ (٢٥٠٣) ، صحیح مسلم/العتق ١ (١٥٠١) ، الأإیمان ١٢ (١٥٠١) ، سنن ابی داود/العتق ٦ (٣٩٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٠٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأحکام ١٤ (١٣٤٦) ، سنن النسائی/ البیوع ١٠٤ (٤٧٠٣) ، موطا امام مالک/العتق ١ (١) ، مسند احمد (٢/٢، ١٥، ٣٤، ٧٧، ١٠٥، ١١٢، ١٤٢، ١٥٦) (صحیح )
جو کسی غلام کو آزاد کرے اور اس غلام کے پاس مال بھی ہو
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی ایسے غلام کو آزاد کرے جس کے پاس مال ہو، وہ مال غلام ہی کا ہوگا، سوائے اس کے کہ مالک غلام سے اس کے مال کی شرط لگالے تو وہ مال مالک کا ہوگا ۔ ابن لہیعہ کی روایت میں (شرط کے بجائے) إلا أن يستثنيه السيد ہے (سوائے اس کے کہ مالک مال کا استثناء کرلے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العتق ١١ (٣٩٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٠٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المساقاة ١٧ (٢٣٧٩) ، صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٥ (١٢٤٤) (صحیح )
جو کسی غلام کو آزاد کرے اور اس غلام کے پاس مال بھی ہو
عمیر مولی عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) نے ان سے کہا : عمیر ! میں نے تمہیں خوشی خوشی آزاد کردیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو شخص ایک غلام آزاد کرے اور اس کے مال کا تذکرہ نہ کرے، تو وہ مال غلام کا ہوگا ، مجھے بتاؤ تمہارے پاس کیا مال ہے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٩٣، ومصباح الزجاجة : ٨٩٦) (ضعیف) (سند میں اسحاق بن ابراہیم المسعودی مجہول راوی ہیں، امام بخاری کہتے کہ حدیث کو مرفوع روایت کرنے میں ان کی متابعت نہیں کی جائے گی، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٧٤٨ ) اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٩٣، ومصباح الزجاجة : ٨٩٧ )
ولدالزنا کو آزاد کرنا
نبی اکرم ﷺ کی لونڈی میمونہ بنت سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ولد الزنا کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جوتیوں کی ایسی جوڑی جسے پہن کر جہاد کروں، وہ ولد الزنا کو آزاد کرنے سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٨، ومصباح الزجاجة : ٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦٣) ، (ضعیف) (سند میں ابویزید مجہول اور منکر الحدیث راوی ہے )
مرد اور اس کی بیوی کو آزاد کرنا ہو تو پہلے مرد کو آزاد کرے
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی میاں بیوی تھے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں ان دونوں کو آزاد کرنا چاہتی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم ان دونوں کو آزاد کرنا چاہتی ہو تو عورت سے پہلے مرد کو آزاد کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢ (٢٢٣٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٨ (٣٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٤) (ضعیف) (سند میں اسحاق بن منصور اور عبید اللہ بن عبد الرحمن بن موھب دونوں ضعیف ہیں )