22. حدود کا بیان
مسلمان کا خون حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے
ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان (رض) نے ان (بلوائیوں) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا : یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں : ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کا ارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کر دے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مرتد ہوجائے) ، اللہ کی قسم میں نے نہ کبھی جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام میں، نہ میں نے کسی مسلمان کو قتل کیا، اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد ارتداد کا شکار ہوا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٥٠٢) ، سنن الترمذی/الفتن ١ (٢١٥٨) ، سنن النسائی/المحاربة (تحریم الدم) ٦ (٤٠٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٦١، ٦٢، ٦٥، ٧٠) ، سنن الدارمی/الحدود ١ (٢٣٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ عثمان (رض) نے حجت قائم کی ان بےرحم باغیوں پر جو آپ کے قتل کے درپے تھے، لیکن انہوں نے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں دیا، اور بڑی بےرحمی کے ساتھ گھر میں گھس کر آپ (رض) کو قتل کیا، اس وقت آپ روزے سے تھے، اور تلاوت قرآن میں مصروف تھے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
مسلمان کا خون حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کا جو صرف اللہ کے معبود برحق ہونے، اور میرے اللہ کا رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو، خون کرنا حلال نہیں، البتہ تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ہو تو حلال ہے : اگر اس نے کسی کی جان ناحق لی ہو، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہوا ہو، یا اپنے دین (اسلام) کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوگیا ہو (یعنی مرتد ہوگیا ہو) ، (تو ان تین صورتوں میں اس کا خون حلال ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٦ (٦٨٧٦) ، صحیح مسلم/القسامة ٦ (١٦٧٦) ، سنن ابی داود/الحدود ١ (٤٣٥٢) ، سنن الترمذی/الدیات ١٠ (١٤٠٢) ، سنن النسائی/المحاربة ٥ (٤٠٢١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٢، ٤٢٨، ٤٤٤، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/الحدود ٢ (٢٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پس جہاں توحید و رسالت پر ایمان لایا، مسلمان ہوگیا، اب اس کا خون بہانا حرام اور ناجائز ٹھہرا، اگرچہ وہ دوسرے فروعی مسائل میں کتنا ہی اختلاف رکھتا ہو۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس عمدہ قانون کو چھوڑ کر آپس ہی میں اختلاف و تشدد اور لڑائی جھگڑے کا بازار گرم کیا، اور مسلمان مسلمان ہی کو مارنے لگے، اور ان کے بعض جاہل مولوی فتوی دینے لگے کہ فلاں مسلمان اس مسئلہ میں خلاف کرنے سے کافر اور مرتد اور واجب القتل ہوگیا، حالانکہ صحیح حدیث سے صاف ثابت ہے کہ جو توحید اور رسالت کو مانتا ہو وہ مسلمان ہے، اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں، اب اگر یہ کہیں کہ ابوبکر صدیق (رض) نے مانعین زکاۃ کے خلاف جہاد کیا تھا، حالانکہ وہ توحید اور رسالت کو مانتے تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ زکاۃ اسلام کا رکن ہے، اور اس کے ساتھ بھی ابوبکر (رض) پر صحابہ (رض) نے اعتراض کیا تھا، جب انہوں نے ان لوگوں سے لڑنا چاہا تھا، لیکن ابوبکر (رض) امام اور خلیفہ وقت تھے، اور ان کی اطاعت بموجب حدیث نبوی واجب تھی اور انہوں نے دلیل لی دوسری احادیث و آیات سے، اب ایسا واجب اطاعت امام اور خلیفہ کون ہے جس کے ماتحت ہو کر تم مسلمانوں سے لڑتے ہو اور ان کو ستاتے ہو، اور بات بات پر مار کاٹ اور زد و کو ب اور سب و شتم کا ارتکاب کرتے ہو، بھلا دوران نماز رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، آمین زور سے یا آہستہ کہنا، ہاتھ زیر ناف یا ٍسینے پر باندھنا، یہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے مسلمانوں میں فتنہ و فساد ہو ؟ اور ان کی عزت اور جان کو داؤ پر لگایا جائے ؟ سنت نبوی پر عمل کرنے والوں کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں اور ان کو مارنے پیٹنے والوں کا معاملہ قاتلین عثمان کی طرح ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے ، پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس نکتہ کو سمجھیں اور باہم متحد ہوجائیں، مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب وہ آپس میں فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے لڑتے جھگڑتے ہیں تو ان کی اس ناسمجھی پر دشمن کتنا ہنستے اور خوش ہوتے ہیں، برخلاف مسلمانوں کے نصاری میں متعدد فرقے ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمی خیال کرتا ہے، لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے کی وجہ سے سب ایک رہتے ہیں، اور غیر مذہب والوں سے مقابلہ کرتے وقت سب ایک دوسرے کے مددگار اور معاون بن جاتے ہیں، مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے کہ جو کوئی اللہ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، محمد ﷺ کو سچا رسول اور آخری نبی جانے اس آدمی کو اپنا مسلمان بھائی سمجھیں، گو فروعی مسائل میں اختلاف باقی رہے۔ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی رسی یعنی کتاب و سنت کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور آپس میں اختلاف نہ کریں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُواْ (سورة آل عمران : 103) سب مل کر اللہ کی رسی ۔ یعنی اس کے دین اور کتاب و سنت ۔ کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو ، نیز رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے : ترکت فيكم أمرين لن تضلوا ما إن تمسکتم بهما کتاب الله و سنة رسوله میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب اللہ و سنت رسول چھوڑی ہیں جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہو گے ۔
جو شخص اپنے دین سے پھر جائے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے دین (اسلام) کو بدل ڈالے اسے قتل کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٤٩ (٣٠١٧) ، المرتدین ٢ (٦٩٢٢) ، سنن ابی داود/الحدود ١ (٤٣٥١) ، سنن الترمذی/الحدود ٢٥ (١٤٥٨) ، سنن النسائی/الحدود ١١ (٤٠٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٢، ٢٨٣، ٣٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوموسی اشعری (رض) کی حدیث صحیحین میں ہے کہ معاذ بن جبل (رض) یمن میں ان کے پاس گئے، وہاں ایک شخص بندھا ہوا تھا، انہوں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ ابوموسی اشعری (رض) نے کہا : یہودی تھا پھر مسلمان ہوگیا، اب پھر یہودی ہوگیا، معاذ (رض) نے کہا : میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق اسے قتل نہ کردیا جائے، اور مرتد چاہے مرد ہو یا عورت واجب القتل ہے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے قید کریں گے، یہاں تک کہ دوبارہ دین اسلام میں داخل ہوجائے۔ اور فقہاء کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے مرتد کے ان شبہات کا ازالہ کریں گے جو اس کو اسلام کے بارے میں لاحق ہے، اور تین دن تک قید میں رکھیں گے، اگر اس پر بھی مسلمان نہ ہو تو اس کو قتل کردیں گے۔
جو شخص اپنے دین سے پھر جائے
معاویہ بن حیدۃ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا جو اسلام لانے کے بعد شرک کرے، الا یہ کہ وہ پھر مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے مل جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٤٣٨) ، ٧٣ (٢٥٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دار الکفر سے دار الاسلام میں آجائے، مراد وہ دار الکفر ہے جہاں مسلمان اسلام کے ارکان اور عبادات بجا نہ لاسکیں، ایسی جگہ سے ہجرت کرنا فرض ہے اور بعضوں نے کہا : مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہونے کا مقصدیہ ہے کہ کافروں کی عادات و اخلاق چھوڑ دے۔
حدود کو نافذ کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی ایک حد کا نافذ کرنا اللہ تعالیٰ کی زمین پر چالیس رات بارش ہونے سے بہتر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨١، ومصباح الزجاجة : ٨٩٩) (حسن) (سند میں سعید بن سنان ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٣١ ) وضاحت : ١ ؎: جیسے بارش سے خوشحالی آجاتی ہے، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔ ایسے ہی رعایا کی زندگی اسلامی حدود کے نافذ کرنے سے ہوتی ہے، مجرمین کو سزا ہوتی ہے لوگوں کے جان و مال محفوظ رہتے ہیں، اور لوگوں کو راحت حاصل ہوتی ہے۔
حدود کو نافذ کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی ایک حد جو دنیا میں نافذ ہو، اہل زمین کے لیے یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ چالیس دن تک بارش ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قطع السارق ٧ (٤٩١٩، ٤٩٢٠ موقوفاً ) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٢، ٤٠٢) (حسن) (سند میں جریر بن یزید ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے )
حدود کو نافذ کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو قرآن کی کسی آیت کا انکار کرے، اس کی گردن مارنا حلال ہے، اور جو یہ کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اس پر زیادتی کرنے کا اب کوئی راستہ باقی نہیں، مگر جب وہ کوئی ایسا کام کر گزرے جس پر حد ہو تو اس پر حد جاری کی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٢، ومصباح الزجاجة : ٩٠٠) (ضعیف) (سند میں حفص بن عمر ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٤١٦ )
حدود کو نافذ کرنا
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کرو، خواہ کوئی قریبی ہو یا دور کا، اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٧، ومصباح الزجاجة : ٩٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٣٠) (حسن )
جس پر حد واجب نہیں
عطیہ قرظی (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ غزوہ قریظہ کے دن (جب بنی قریظہ کے تمام یہودی قتل کردیئے گئے) رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو جس کے زیر ناف بال اگ آئے تھے اسے قتل کردیا گیا، اور جس کے نہیں اگے تھے اسے (نابالغ سمجھ کر) چھوڑ دیا گیا، میں ان لوگوں میں تھا جن کے بال نہیں اگے تھے تو مجھے چھوڑ دیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ١٧ (٤٤٠٤) ، سنن الترمذی/السیر ٢٩ (١٥٨٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٠ (٣٤٦٠) ، القطع ١٤ (٤٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٠، ٣٨٣، ٥/٣١٢، ٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عطیہ (رض) کا تعلق یہود بنی قریظہ سے تھا، غزوہ احزاب کے فوراً بعد اس قبیلے کی غداری اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد اس پر چڑھائی کا واقعہ پیش آیا، اس غزوہ میں عطیہ (رض) دیگر نابالغ بچوں کے ساتھ قتل ہونے سے بچ گئے، اور بعد میں اسلام قبول کیا، ان کا اسلام اور ان کی اسلامی خدمات بہت اعلیٰ درجے کی ہیں۔
جس پر حد واجب نہیں
عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ قرظی (رض) کو یہ بھی کہتے سنا : تو اب میں تمہارے درمیان ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )
جس پر حد واجب نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کیا گیا، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی، آپ ﷺ نے مجھے (غزوہ میں شریک ہونے کی) اجازت نہیں دی، لیکن جب مجھے آپ کے سامنے غزوہ خندق کے دن پیش کیا گیا، تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی، اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ نافع کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے عمر بن عبدالعزیز سے ان کے عہد خلافت میں بیان کی تو انہوں نے کہا : یہی نابالغ اور بالغ کی حد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي أسامة أخرجہ : صحیح البخاری/الشہادات ١٨ (٢٦٦٤) ، المغازي ٢٩ (٤٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٣) ، وقد أخرجہ : وحدیث عبد اللہ بن نمیر صحیح مسلم/الإمارہ ٢٣ (١٨٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٥٥) ، مسند احمد (٢/١٧) ، وحدیث أبي معاویہ تفردبہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف : ٨١١٥) ، سنن ابی داود/الخراج ١٦ (٢٩٥٧) ، الحدود ١٧ (٤٤٠٦) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٤ (١٣١٦) ، الجہاد ٣١ (١٧١١) ، سنن النسائی/الطلا ق ٢٠ (٣٤٣١) ، مسند احمد (٢/١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلوغ کی کئی نشانیاں ہیں : زیر ناف بال اگنا، ڈاڑھی مونچھ کے بال اگنا، احتلام ہونا، پندرہ برس کی عمر کا ہونا۔
اہل ایمان کی پردہ پوشی اور حدود کو شبہات کی وجہ سے ساقط کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الذکر ١١ (٢٦٩٩) ، سنن ابی داود/الأدب ٦٨ (٤٩٤٦) ، سنن الترمذی/الحدود ٣ (١٤٢٥) ، مسند احمد (٢/٢٥٢، ٣٢٥، ٥٠٠، ٥٢٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٦٠) (صحیح )
اہل ایمان کی پردہ پوشی اور حدود کو شبہات کی وجہ سے ساقط کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم حدود کو دفع کرو، جہاں تک دفع کرنے کی گنجائش پاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٥، ومصباح الزجاجة : ٩٠٢) (ضعیف) (سند میں ابراہیم بن الفضل المخزومی ضعیف راوی ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٣٥٦ )
اہل ایمان کی پردہ پوشی اور حدود کو شبہات کی وجہ سے ساقط کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسے اس کے گھر میں بھی ذلیل کرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٣، ومصباح الزجاجة : ٩٠٣) (صحیح) (سند میں محمد بن عثمان جُمَحِي ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٣٨٧ ) وضاحت : ١ ؎: یہ تجربہ کی بات ہے کہ جو کوئی اپنے بھائی مسلمان کا عیب اس کو ذلیل کرنے کے لئے ظاہر کرتا ہے وہ اس سے بڑھ کر عیب میں گرفتار ہوتا ہے، اور اس سے بڑھ کر ذلیل و خوار ہوتا ہے۔
حدود میں سفارش
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، قریش کافی فکرمند ہوئے اور کہا : اس کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے کون گفتگو کرے گا ؟ لوگوں نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اسامہ بن زید (رض) کے علاوہ کون اس کی جرات کرسکتا ہے ؟ چناچہ اسامہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو ؟ پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : لوگو ! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بناء پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور حال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اللہ کی قسم ! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا ۔ محمد بن رمح (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میں نے لیث بن سعد کو کہتے سنا : اللہ تعالیٰ نے فاطمہ (رض) کو چوری کرنے سے محفوظ رکھا اور ہر مسلمان کو ایسا ہی کہنا چاہیئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشبہات ٨ (٢٦٤٨) ، الأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٥) ، فضائل الصحابة ١٨ (٣٧٣٢) ، المغازي ٥٢ (٤٣٠٤) ، الحدود ١١ (٦٧٨٧) ، ١٢ (٦٧٨٨) ، ١٤ (٦٨٠٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٢ (١٦٨٨) ، سنن ابی داود/الحدود ٤ (٤٣٧٣) ، سنن الترمذی/الحدود ٦ (١٤٣٠) ، سنن النسائی/قطع السارق ٥ (٤٩٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٦٢) ، سنن الدارمی/الحدود ٥ ٢٣٤٨) (صحیح )
حدود میں سفارش
مسعود بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ جب اس عورت (فاطمہ بنت اسود) نے رسول اللہ ﷺ کے گھر سے چادر چرائی تو ہمیں اس کی بڑی فکر ہوئی، وہ قریشی عورت تھی، چناچہ ہم گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا : ہم اس کے فدیہ میں چالیس اوقیہ ادا کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس عورت کا پاک کردیا جانا اس کے حق میں بہتر ہے ، جب ہم نے رسول اللہ ﷺ کی نرم گفتگو سنی تو (امیدیں لگائے) اسامہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ سے (اس کے سلسلے میں) گفتگو کرو، جب رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھا (کہ اسامہ سفارش کر رہے ہیں) تو کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اور فرمایا : کیا بات ہے تم باربار مجھ سے اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو ؟ جو اللہ کی ایک باندی پر ثابت ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر یہ چیز اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ کے ساتھ پیش آتی، جو اس کے ساتھ پیش آئی ہے تو محمد اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٦٣، ومصباح الزجاجة : ٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠٩) (ضعیف) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں، روایت عنعنہ سے کی ہے نیز ملاحظہ ہو : الضعیفة : ٤٤٢٥ )
زنا کی حد
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور بولا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، اللہ کی کتاب کے مطابق آپ ہمارا فیصلہ کر دیجئیے، اس کا فریق (مقابل) جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، بولا : آپ ہمارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق فرمائیے لیکن مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : کہو اس نے بیان کیا کہ میرا بیٹا اس آدمی کے یہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا، میں نے اس کی جانب سے سو بکریاں اور ایک نوکر فدیہ میں دے دیا ہے، پھر میں نے اہل علم میں سے کچھ لوگوں سے پوچھا، تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، اور اس کی بیوی کے لیے رجم یعنی سنگساری کی سزا ہے، رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم دونوں کے درمیان اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ کروں گا، سو بکریاں اور خادم تم واپس لے لو، اور تمہارے بیٹے کے لیے سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، اور اے انیس ! کل صبح تم اس کی عورت کے پاس جاؤ اور اگر وہ اقبال جرم کرلے تو اسے رجم کر دو ١ ؎۔ حدیث کے راوی ہشام کہتے ہیں : انیس صبح کو اس کے ہاں پہنچے، اس نے اقبال جرم کیا، تو انہوں نے اسے رجم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ١٣ (٢٣١٤، ٢٣١٥ مختصراً ) الصلح ٥ (٢٦٩٥، ٢٦٩٦) ، الشروط ٩ (٢٧٢٤، ٢٧٢٥) ، الإیمان ٣ (٦٦٣٣، ٦٦٣٤) ، الحدود ٢٠ (٦٨٣٥، ٦٨٣٦) ، ١٦ (٦٨٢٧، ٦٨٢٨) ، ٣٣ (٦٨٥٩، ٦٨٦٠) ، الأحکام ٣ (٧١٩٣٤، ٧١٩٤) ، الآحاد ١ (٧٢٥٨، ٧٢٦٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٧، ١٦٩٨) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٥ (٤٤٤٥) ، سنن الترمذی/الحدود ٨ (١٤٣٣) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٢١ (٤٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ١ (٦) ، مسند احمد (٤/١١٥، ١١٦) ، سنن الدارمی/الحدود ١٢ (٢٣٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عورت شادی شدہ تھی اس لئے اسے پتھر مار مار کر ہلاک کردیا گیا، اور لڑکا شادی شدہ نہیں تھا، اس لئے اس کے لئے ایک سال جلا وطنی اور سو کوڑوں کی سزا متعین کی گئی۔
زنا کی حد
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دین کے احکام) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے (جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا) راہ نکال دی ہے : کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، اور شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کرے ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٣ (١٦٩٠) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٣ (٤٤١٥، ٤٤١٦) ، سنن الترمذی/الحدود ٨ (١٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٣) ، وقد أخرجہ : حم (٣/٤٧٥، ٥/٣١٣، ٣١٧، ٣١٨، ٣٢٠) ، سنن الدارمی/الحدود ١٩ (٢٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محصن (شادی شدہ) زانی اور محصنہ (شادی شدہ) زانیہ کی سزا سو کوڑے ہیں، پھر رجم کا حکم دیا جائے گا، اور اگر کوڑے نہ مارے جائیں اور صرف رجم پر اکتفا کیا جائے تو ایسا بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے انیس (رض) کو اس عورت کے رجم کا حکم دیا، اور کوڑے مارنے کے لئے نہیں فرمایا، اسی طرح آپ ﷺ نے ماعز اسلمی، غامدیہ (رض) اور یہود کو رجم کا حکم دیا اور کسی کو کوڑے نہیں لگوائے، اسی طرح شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) نے اپنی خلافت میں صرف رجم کیا کوڑے نہیں مارے، بعضوں نے کہا : عبادہ (رض) کی حدیث کا حکم منسوخ ہے، اور یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں سورة نساء کی آیت کا حوالہ ہے اور سورة نساء اخیر میں اتری۔ اور حق یہ ہے کہ امام کو اس باب میں اختیار ہے، خواہ کوڑے لگا کر رجم کرے، خواہ رجم ہی پر بس کرے۔
جو اپنی بیوی کی باندی سے صحبت کر بیٹھا
حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر (رض) کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت کرلی تھی، تو نعمان (رض) نے کہا : میں اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا، پھر کہا : اگر اس کی عورت نے اسے اس لونڈی کے ساتھ صحبت کرنے کی اجازت دی ہے تو میں اس شخص کو سو کوڑے لگاؤں گا، اور اگر اس نے اجازت نہیں دی ہے تو میں اسے رجم کروں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٨ (٤٤٥٨، ٤٤٥٩) ، سنن الترمذی/الحدود ٢١ (١٤٥١) ، سنن النسائی/النکاح ٧٠ (٣٣٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٧٢، ٢٧٦، ٢٧٧) ، سنن الدارمی/الحدود ٢٠ (٢٣٧٤) (ضعیف) (سند میں حبیب بن سالم کے بارے میں بخاری نے کہا : فیہ نظر )
جو اپنی بیوی کی باندی سے صحبت کر بیٹھا
سلمہ بن محبق (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص لایا گیا اس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت کی تھی، آپ ﷺ نے اس پر حد نافذ نہیں کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٨ (٤٤٦٠، ٤٤٦١) ، سنن النسائی/النکاح ٧٠ (٣٣٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٦، ٥/٦) (ضعیف) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور ان کی ہشام سے روایت میں کلام ہے )
سنگسار کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : مجھے اندیشہ ہے کہ جب زمانہ زیادہ گزر جائے گا تو کہنے والا یہ کہے گا کہ میں کتاب اللہ میں رجم (کا حکم) نہیں پاتا، اور اس طرح لوگ اللہ تعالیٰ کے ایک فریضے کو ترک کر کے گمراہ ہوجائیں، واضح رہے کہ رجم حق ہے، جب کہ آدمی شادی شدہ ہو گواہی قائم ہو، یا حمل ٹھہر جائے، یا زنا کا اعتراف کرلے، اور میں نے رجم کی یہ آیت پڑھی ہے : الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان دونوں کو ضرور رجم کرو ... ١ ؎، رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا، اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٣٠ (٦٨٢٩، ٦٨٣٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٤ (١٦٩١) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٣ (٤٤١٨) ، سنن الترمذی/الحدود ٧ (١٤٣١، ١٤٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ١ (١) ، مسند احمد (١/ ٢٣، ٤٠، ٤٧، ٥٥) ، سنن الدارمی/الحدود ١٦ (٢٣٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت سے مراد شادی شدہ لوگ ہیں۔
سنگسار کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہا : میں نے زنا کیا ہے، آپ ﷺ نے ان کی طرف سے منہ پھیرلیا، انہوں نے پھر کہا : میں نے زنا کیا ہے، آپ ﷺ نے پھر منہ پھیرلیا، انہوں نے پھر کہا : میں نے زنا کیا ہے، آپ ﷺ نے پھر منہ پھیرلیا، انہوں نے پھر کہا : میں نے زنا کیا ہے، آپ ﷺ نے پھر منہ پھیرلیا یہاں تک کہ چار بار زنا کا اقرار کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ انہیں رجم کردیا جائے، چناچہ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے، ایک شخص نے انہیں پا لیا، اس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو مار کر گرا دیا، پتھر پڑتے وقت ان کے بھاگنے کا تذکرہ جب نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : آخر تم نے انہیں چھوڑ کیوں نہ دیا ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطلاق ١١ (٥٢٧٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٤) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٤ (٤٤١٩) ، سنن الترمذی/الحدود ٥ (١٤٢٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ ان سے پھر پوچھے شاید وہ اپنے اقرار سے پھرجاتے اور حد ساقط ہوجاتی، زنا کا اقرار ایک بار کرنا حد کے لئے کافی ہے، اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ﷺ نے غامدیہ کو رجم کیا، اس نے ایک ہی بار اقرار کیا تھا، ایک یہودی اور یہودیہ کا رجم آگے مذکور ہوگا، اس میں بھی چار بار اقرار کا ذکر نہیں ہے۔
سنگسار کرنا
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر زنا کا اعتراف کیا، آپ ﷺ نے حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دئیے گئے، پھر اس کو رجم کیا، اس کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٦) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٥ (٤٤٤٠) ، سنن الترمذی/الحدود ٩ (١٤٣٥) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٤ (١٩٥٩) ، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٣٣، ٤٣٧) ، سنن الدارمی/الحدود ١٧ (٢٣٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے تاکہ بےپردگی نہ ہو، بعضوں نے اس کے حق میں کچھ برے الفاظ نکالے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ سارے مدینہ والوں میں بانٹ دی جائے تو ان کو کافی ہوجائے گی، بیشک یہ عورت اس زمانہ کے تمام عابدوں اور زاہدوں سے درجہ میں زیادہ تھی کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے گناہ کا اقرار کیا، سزا پائی، پھر نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ سے مشرف ہوئی، اللہ ان کے درجہ کو بلند کرے، آمین۔
یہودی اور یہودن کو سنگسار کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک یہودی جوڑے کو رجم کیا، میں بھی اس کو رجم کرنے والوں میں شامل تھا، میں نے دیکھا کہ یہودی مرد یہودیہ کو پتھروں سے بچانے کے لیے آڑے آجاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحدود ٢٤ (٦١٤٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٦٩٩) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٦ (٤٤٤٦) ، سنن الترمذی/االحدود ١٠ (١٤٣٦) ، موطا امام مالک/الحدود ١ (١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧، ٦٣، ٧٦) ، سنن الدارمی/الحدود ١٥ (٢٣٦٧) (صحیح )
یہودی اور یہودن کو سنگسار کرنا
جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک یہودی اور ایک یہودیہ کو رجم کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ١٠ (١٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٥) ، وقد أخرجہ : (حم (٥/٩١، ٩٤، ٩٦، ٩٧، ١٠٤) (صحیح) (سابقہ شاہد سے یہ صحیح ہے )
یہودی اور یہودن کو سنگسار کرنا
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک یہودی کے پاس سے ہوا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور جس کو کوڑے لگائے گئے تھے، آپ ﷺ نے ان یہودیوں کو بلایا اور پوچھا : کیا تم لوگ اپنی کتاب توریت میں زانی کی یہی حد پاتے ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا : ہاں، پھر آپ ﷺ نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کو بلایا، اور اس سے پوچھا : میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس نے موسیٰ پر توراۃ نازل فرمائی : کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد یہی پاتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : نہیں، اور اگر آپ نے مجھے اللہ کی قسم نہ دی ہوتی تو میں آپ کو کبھی نہ بتاتا، ہماری کتاب میں زانی کی حد رجم ہے، لیکن ہمارے معزز لوگوں میں کثرت سے رجم کے واقعات پیش آئے، تو جب ہم کسی معزز آدمی کو زنا کے جرم میں پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر پکڑا جانے والا معمولی آدمی ہوتا تو ہم اس پر حد جاری کرتے، پھر ہم نے لوگوں سے کہا کہ آؤ ایسی حد پر اتفاق کریں کہ جو معزز اور معمولی دونوں قسم کے آدمیوں پر ہم یکساں طور پر قائم کرسکیں، چناچہ ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا پر اتفاق کرلیا، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللهم إني أول من أحيا أمرك إذ أماتوه یعنی اے اللہ ! میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا ہے جسے ان لوگوں نے مردہ کردیا تھا ، آپ ﷺ نے حکم دیا اور وہ یہودی رجم کردیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٧٠٠) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٦ (٤٤٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢٨٦، ٢٩٠، ٣٠٠) (صحیح )
جو بدکاری کا اظہار کرے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کرتا تو فلاں عورت کو کرتا، اس لیے کہ اس کی بات چیت سے اس کی شکل و صورت سے اور جو لوگ اس کے پاس آتے ہیں اس سے اس کا فاحشہ ہونا ظاہر ہوچکا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٧٧، ومصباح الزجاجة : ٩٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣١ (٥٣١٠) ، ٣٦ (٥٣١٦) ، الحدود ٤٣ (٦٨٥٦) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٦ (٣٤٩٧) ، مسند احمد (١/٣٣٥، ٣٥٧، ٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کا فاحشہ ہونا معلوم ہو، تو بھی اس کو زنا کی حد نہیں لگا سکتے جب تک کہ اس کی طرف سے جرم کا اعتراف و اقرار نہ ہو، یا چار آدمیوں کی گواہی کا ثبوت نہ ہو۔
جو بدکاری کا اظہار کرے
قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا، تو ان سے ابن شداد نے پوچھا : کیا یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کرتا تو اس عورت کو کرتا ؟ ابن عباس (رض) نے کہا : وہ تو ایسی عورت تھی جو علانیہ بدکار تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٣٠ (٦٨٥٥) ، التمني ٩ (٧٢٣٨) ، صحیح مسلم/اللعان (١٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٥، ٣٣٦، ٣٥٧، ٣٦٥) (صحیح )
جو قوم لوط کا عمل کرے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کو تم پاؤ کہ وہ قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کر رہا ہے، تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٩ (٤٤٦٢) ، سنن الترمذی/الحدود ٢٤ (١٤٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٩، ٣٠٠) (صحیح )
جو قوم لوط کا عمل کرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قوم لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا : اوپر والا ہو کہ نیچے والا، دونوں کو رجم کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٨٦، ومصباح الزجاجة : ٩٠٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٤، (١٤٥٦ تعلیقاً ) (حسن) (سند میں عاصم بن عمر ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
جو قوم لوط کا عمل کرے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٤ (١٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨٢) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل منکر الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ابن الطلاع مالکی أقضیۃ الرسول ﷺ میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے لواطت میں رجم ثابت نہیں ہے اور نہ اس کے بارے میں آپ کا کوئی فیصلہ ہی ہے، بلکہ ابن عباس، ابوہریرہ (رض) سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو ، اور بیہقی نے علی (رض) سے روایت کی کہ انہوں نے ایک اغلام باز کو رجم کیا ( ٨ /٢٣٢) ، شافعی کہتے ہیں کہ ہمارا یہی قول ہے کہ وہ رجم کیا جائے، چاہے شادی شدہ ہو یا کنوارا، اور بیہقی نے روایت کی کہ ابوبکر (رض) نے ایک مفعول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا، تو اس دن سب سے زیادہ سخت رائے علی (رض) نے دی اور کہا : اس گناہ کو کسی امت نے نہیں کیا سوائے ایک امت کے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو آگ سے جلا دیں، تو صحابہ کرام نے اس کو آگ سے جلانے پر اتفاق کیا، ابوبکر (رض) نے خالد بن ولید (رض) کو لکھا کہ اس کو آگ سے جلا دو ، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، اس کی سند میں ابراہیم بن ابی رافع مدینی ضعیف راوی ہے، بعضوں نے اس کو جھوٹا کہا ہے، لیکن اس کا دوسرا طریق بھی ہے، جس سے روایت صرف مرسل ہے۔ ابوداود نے صحیح سند سے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اغلام بازی کرنے والے کو رجم کیا جائے گا، اور بیہقی نے صحیح سند سے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ان سے اغلام بازی کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : سب سے اونچے مکان سے اوندھا کر کے گرا دیا جائے، پھر پتھروں سے کچلا جائے ۔ اغلام بازی متفقہ طور پر حرام اور کبیرہ گناہ ہے، لیکن اس کی سزا کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اوپر بعض صحابہ کا مذہب مذکور ہوا کہ اس کی سزا قتل ہے، چاہے وہ غیر شادی شدہ ہو، اور فاعل اور مفعول دونوں اس سزا میں برابر ہیں، یہی امام شافعی کا مسلک ہے، اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کریں گرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں بشرطیکہ مفعول پر جبر نہ ہوا ہو، بعض لوگوں نے اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور بغوی نے شعبی، زہری، مالک، احمد اور اسحاق سے نقل کیا کہ وہ رجم کیا جائے، شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگر زانی کا دو بار رجم درست قرار دیا جائے تو اغلام باز کو بھی رجم کیا جائے گا، منذری کہتے ہیں کہ اغلام بازی کرنے والے کو ابوبکر، علی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم، اور ہشام بن عبدالملک نے زندہ جلایا۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ اغلام باز کی حد زانی کی حد ہے، اگر وہ شادی شدہ ہو تو رجم کیا جائے گا، ورنہ کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کیا جائے گا، اور جس کے ساتھ یہ فعل قبیح کیا گیا ہو یعنی مفعول کو کوڑے لگائے جائیں گے، اور جلا وطن کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ امام جو سزا مناسب سمجھے وہ دے، لیکن نہ رجم ہوگا اور نہ کوڑے لگائے جائیں گے۔ نواب صدیق حسن فرماتے ہیں کہ فاعل اور مفعول کے قتل کرنے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا حکم صحیح اور ثابت ہے، اور صحابہ کرام نے اس حکم کی تنفیذ فرمائی یہ بھی ثابت ہے، اور انہوں نے اس عظیم فحش کام کرنے والوں کو شادی اور غیر شادی کی تفریق کے بغیر قتل کیا، اور ان کے زمانے میں ایسا کئی بار ہوا، اور ان میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی، جب کہ مسلمان کے خون بہائے جانے جیسے مسئلے پر کسی مسلمان کے لیے خاموشی جائز نہیں ہے، اور یہ وہ عہد تھا کہ حق بات جو بھی ہو اور جہاں سے بھی ہو مقبول ہوتی تھی، تو اگر اغلام باز کا زانی کے سلسلے کے وارد دلائل کے عموم میں اندراج صحیح ہو تو ہر فاعل چاہے وہ شادی ہو یا غیر شادی شدہ کے قتل کے سلسلے میں وارد دلیل سے وہ عموم مخصوص ہوجائے گا، (ملاحظہ ہو : الروضۃ الندیۃ ٣ /٢٨٣- ٢٨٦ )
جومحرم سے بدکاری کرے یا جانور سے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی محرم سے جماع کرے اسے قتل کر دو ، اور جو کسی جانور سے جماع کرے تو اسے بھی قتل کر دو ، اور اس جانور کو بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٧٩، ومصباح الزجاجة : ٩٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٣ (١٤٥٥) ، مسند احمد (١/٣٠٠) (ضعیف) (اس حدیث میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہیں، اور داود بن الحصین کی عکرمہ سے روایت میں بھی کلام ہے، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا مَنْ وَقَعَ عَلَى ذَاتِ مَحْرَمٍ فَاقْتُلُوهُ ضعیف ہے، اور دوسرا ٹکڑا صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٣٤٨ ، ٨ -٤- ١٥ - ٢٣٥٢ )
لونڈی پر حد قائم کرنا
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے آپ سے اس لونڈی کے بارے میں سوال کیا جس نے شادی شدہ ہونے سے پہلے زنا کیا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے کوڑے مارو، اگر پھر زنا کرے تو پھر کوڑے مارو ، پھر آپ ﷺ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ میں کہا : اسے بیچ دو خواہ وہ بالوں کی ایک رسی کے عوض بکے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٢٢ (٦٨٣٧، ٦٨٣٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٦ (١٧٠٣) ، سنن ابی داود/الحدود ٣٣ (٤٤٦٩) ، سنن الترمذی/الحدود ١٣ (١٤٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٦، ٤٨١٤، ١٤١٠٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ٣ (١٤) ، مسند احمد (٤/١١٦، ١١٧) سنن الدارمی/الحدود ١٢ (٢٣٧١) (صحیح )
لونڈی پر حد قائم کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے مارو، پھر زنا کرے تو پھر کوڑے مارو، اگر اب بھی زنا کرے تو پھر کوڑے مارو، اس کے بعد اگر زنا کرے تو اسے بیچ دو خواہ ایک ضفیر ہی کے بدلے ہو، اور ضفیر رسی کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠٩، ومصباح الزجاجة : ٩٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٥) (صحیح) (سند میں عمّار بن أبی فروہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٩٢١ ، تراجع الألبانی : رقم : ٤٨٨ )
حد قذف کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب میری براءت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا تذکرہ کر کے قرآنی آیات کی تلاوت کی، اور جب منبر سے اتر آئے، تو دو مردوں اور ایک عورت کے بارے میں حکم دیا چناچہ ان کو حد لگائی گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٣٥ (٤٤٧٤، ٤٤٧٥) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن، سورة النور ٢٥ (٣١٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥، ٦١) (حسن) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اگرچہ بہتان باندھنے میں سب سے بڑھ چڑھ کر منافقین نے حصہ لیا تھا، لیکن نبی اکرم ﷺ نے ان پر حد جاری نہیں کی، اس لئے کہ حد پاک کرنے کے لئے ہے، اور منافقین پاک نہیں ہوسکتے وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی رہیں گے۔
حد قذف کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی آدمی کسی کو کہے : اے مخنث ! تو اسے بیس کوڑے لگاؤ، اور اگر کوئی کسی کو کہے : اے لوطی ! تو اسے بیس کوڑے لگاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٧٥، ومصباح الزجاجة : ٩٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٩ (١٤٦٢) ، ولم یذکر الشطر الثانی : وَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ : يَا لُوطِيُّ ! ......) (ضعیف) (سند میں ابن أبی حبیبہ ضعیف راوی ہیں )
نشہ کرنے والے کی حد
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ جس پر میں حد جاری کروں (اگر وہ مرجائے) تو میں اس کی دیت ادا نہیں کروں گا، سوائے شرابی کے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی کوئی حد نہیں مقرر فرمائی، بلکہ یہ تو ہماری اپنی مقرر کی ہوئی حد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٥ (٦٧٧٨) ، صحیح مسلم/الحدود ٨ (١٧٠٧) ، سنن ابی داود/الحدود ٣٧ (٤٤٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٥، ١٣٠) (صحیح )
نشہ کرنے والے کی حد
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شراب کے جرم میں جوتوں اور چھڑیوں سے مارنے کی سزا دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحدود ٢ (٦٧٧٣) ، صحیح مسلم/الحدود ٨ (١٧٠٦) ، سنن ابی داود/الحدود ٣٧ (٤٤٨٧) ، سنن الترمذی/الحدود ١٤ (١٤٤٣) ، مسند احمد (١/١٧٦، ٢٧٢) ، سنن الدارمی/الحدود ٨ (٢٣٥٧) (صحیح )
نشہ کرنے والے کی حد
حضین بن منذر رقاشی کہتے ہیں کہ جب ولید بن عقبہ کو عثمان (رض) کے پاس لایا گیا اور لوگوں نے ان کے خلاف گواہی دی، تو عثمان (رض) نے علی (رض) سے کہا : اٹھئیے اور اپنے چچا زاد بھائی پر حد جاری کیجئے، چناچہ علی (رض) نے ان کو کوڑے مارے اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے چالیس کوڑے لگائے، اور ابوبکر (رض) نے چالیس کوڑے لگائے، اور عمر (رض) نے اسی کوڑے لگائے، اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٤ (٦٧٧٣) ، صحیح مسلم/الحدود ٨ (١٧٠٧) ، سنن ابی داود/الحدود ٣٦ (٤٤٨٠، ٤٤٨١، ٤٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٠، ١٣٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٢، ٦٤٠، ١٤٤) ، سنن الدارمی/الحدود ٩ (٢٣٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ولید بن عقبہ عثمان (رض) کے اخیافی بھائی تھے، اور ان کے دور خلافت میں کوفہ کے عامل تھے، انہوں نے لوگوں کو صبح نماز فجر چار رکعتیں پڑھائیں، اور بولے : اور زیادہ کروں ؟ عبد اللہ بن مسعود (رض) نے کہا : ہم ہمیشہ زیادتی ہی میں رہے جب سے تم حاکم ہوئے، یہ عقبہ بن ابی معیط کا بیٹا تھا جس نے نبی کریم ﷺ پر اونٹنی کی بچہ دانی لا کر ڈال دی تھی، جب آپ ﷺ سجدہ میں تھے، ولید بن عقبہ نے شراب پی کر نشہ کی حالت میں نماز پڑھائی، آخر لوگوں کی شکایت پر معزول ہو کر مدینہ میں عثمان (رض) کے پاس حاضر کیا گیا، شرابی کی حد کوئی معین نہیں، امام کو اختیار ہے خواہ چالیس کوڑے مارے یا کم یا زیادہ، خواہ جوتوں سے مارے، صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ ﷺ نے اس کو چالیس کے قریب چھڑی سے مارا، راوی نے کہا : ابوبکر (رض) نے بھی ایسا ہی کیا، جب عمر (رض) کا زمانہ آیا تو انہوں نے لوگوں سے رائے لی، عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا : سب حدوں میں جو ہلکی حد قذف ہے، اس میں اسی ( ٨٠ ) کوڑے ہیں، پھر عمر (رض) نے بھی شراب میں اسی کوڑے مارنے کا حکم دیا، اور بخاری میں عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ نعمان نبی کریم ﷺ کے پاس لائے گئے، آپ ﷺ نے ان لوگوں سے جو گھر میں تھے فرمایا : اس کو مارو تو میں نے بھی اس کو جوتوں اور چھڑیوں سے مارا، اور اس باب میں کئی حدیثیں ہیں ان سب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شراب پینے کی حد مقرر نہیں کی، جیسا مناسب ہوتا ویسا آپ عمل کرتے، اور ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تھوڑی مٹی لی اور شرابی کے منہ پر ڈال دی۔
جو بار بار خمر پیے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی نشے میں آجائے تو اسے کوڑے لگاؤ، اور اگر پھر ایسا کرے تو پھر کوڑے مارو، اور پھر بھی ایسا کرے تو پھر کوڑے مارو ، پھر چوتھی بار کے لیے فرمایا : اس کے بعد بھی ایسا کرے تو اس کی گردن اڑا دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٣٧ (٤٤٨٤) ، سنن النسائی/الأشربة ٤٣ (٥٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٠، ٢٩١، ٥٠٤، ٥١٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ روایت منسوخ ہے، عبداللہ بن مسعود (رض) کی اس روایت سے جو باب لايحل دم امريء مسلم إلافي ثلاث میں گزر چکی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں، لايحل دم امريء مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا أحد ثلاثة نفر : النفس بالنفس، والثيب الزاني، و التارک لدينه المفارق للجماعة نیز جابر (رض) کی ایک روایت سے بھی اس حدیث کے منسوخ ہونے کا پتا چلتا ہے جس میں ہے کہ آپ کے پاس ایسا شخص لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی تھی، لیکن آپ ﷺ نے اسے کوڑے لگا کر چھوڑ دیا۔
جو بار بار خمر پیے۔
معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب لوگ شراب پئیں تو انہیں کوڑے لگاؤ، پھر پئیں تو کوڑے لگاؤ، اس کے بعد بھی پئیں تب بھی کوڑے لگاؤ، اس کے بعد پئیں تو انہیں قتل کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٣٧ (٤٤٨٢) ، سنن الترمذی/الحدود ١٥ (١٤٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٤/٩٥، ٩٦، ١٠٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث بھی منسوخ ہے جیسا کہ اوپر گزرا۔
سن رسیدہ اور بیمار پر بھی حد واجب ہوتی ہے۔
1 سعید بن سعد بن عبادہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک ناقص الخلقت (لولا لنگڑا) اور ضعیف و ناتواں شخص تھا، اس سے کسی شر کا اندیشہ نہیں تھا، البتہ (ایک بار) وہ گھر کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی کے ساتھ زنا کر رہا تھا، سعد (رض) اس کے معاملے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر پہنچے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے سو کوڑے مارو ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے، اگر ہم اسے سو کوڑے ماریں گے تو مرجائے گا، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا کھجور کا ایک خوشہ لو جس میں سو شاخیں ہوں، اور اس سے ایک بار مار دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١ ٤٤٧، ومصباح الزجاجة : ٩١٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحدود ٣٤ (٤٤٧٢) ، مسند احمد (٥/٢٢٢) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: تو گویا سو مار ماریں، یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے ضعیف بندوں پر عنایت ہے، اور مسلم نے علی (رض) سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ کی ایک لونڈی نے زنا کیا، تو آپ ﷺ نے مجھ کو اسے کوڑے مارنے کا حکم دیا، میں اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ اس نے ابھی بچہ جنا ہے، میں ڈرا کہیں کوڑے لگانے سے وہ مر نہ جائے، میں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ نفاس سے پاک ہوجائے صحیح مسلم کی اس روایت میں مہلت کا ذکر ہے جب کہ اس سے پہلی والی حدیث میں بوڑھے پر کوڑے لگانے میں کسی مہلت کا ذکر نہیں تو ان دونوں حدیثوں میں جمع کی صورت یہ ہے کہ جب کسی بیمار کے اچھا ہونے کی امید ہو تو حد نافذ کرنے سے رک جائے یہاں تک کہ وہ اچھا ہوجائے اور جو اس کے اچھا ہوجانے کی امید نہ ہو تو حد نافذ کردیں جیسے سعید بن عبادہ کی روایت میں ہے، واضح رہے بڑھاپا وہ بیماری ہے جس سے اچھا ہونے کی کوئی امید نہیں، اور نفاس وہ بیماری جو کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجاتی ہے، اس لئے اس میں مہلت ہے۔ اس سند سے سعد بن عبادہ (رض) سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٣٩، ومصباح الزجاجة : ٩١١)
مسلمان پر ہتھیار سونتنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو ہم مسلمانوں پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث یعقوب بن حمید بن کا سب عن عبدالعزیز أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٣ (١٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٩٢) ، وحدیث یعقوب بن حمید بن کا سب عن المغیرة بن عبدالرحمن تفرد بہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف : ١٤١٤٩) ، وحدیث یعقوب بن حمید بن کا سب عن أنس بن عیاض قد تفرد بہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف : ١٤٦٠١، ١٤٦٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ارشاد گرامی : وہ ہم میں سے نہیں ہے میں اس شخص کے لئے جو مسلمان پر ہتھیار اٹھائے بڑی وعید ہے، یعنی وہ اپنے اخلاق و عادات میں زمانہ جاہلیت کے کفار کی طرح ہوگیا، جو آپس میں لڑنے بھڑنے اور جنگ کرنے کے عادی تھے، جن احادیث میں گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے سے رسول اکرم ﷺ کی براءت کا ذکر ہے اس کے سلسلے میں علماء اسلام کی آراء مندرجہ ذیل ہیں : ١ ۔ مرتکب کبیرہ سے رسول اکرم ﷺ کے اعلان براءت کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کی اطاعت و اقتداء کرنے والا نہیں، اور اسلامی شریعت کا محافظ و پابند نہیں ہے، تو وہ احادیث جن میں نبی اکرم ﷺ نے صغیرہ گناہوں کے مرتکب سے متعلق ليس منا (فلاں کام کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے) فرمایا ہے، تو ان میں ایمان کی نفی سے مراد ایسا ضروری ولابدی ایمان ہے جس کے ذریعہ وہ بغیر سزا و عقاب کے ثواب و اجر کا مستحق ہے، اور یہ معنی سابقہ ایمان کی نفی سے توجیہ کے ہم مثل ہے، ابوعبید القاسم بن سلام اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہی مذہب ہے۔ ٢ ۔ امام سفیان بن عیینہ سے اس کا معنی یوں منقول ہے : ليس مثلنا یعنی وہ ہماری طرح نہیں ہے ۔
مسلمان پر ہتھیار سونتنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الایمان ٤٢ (١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الفتن ٧ (٧٠٧٠) ، مسند احمد (٢/٣، ٣٥، ١٤٢) (صحیح )
مسلمان پر ہتھیار سونتنا
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٧ (٧٠٧١) ، صحیح مسلم/الایمان ٤٢ (١٠٠) ، سنن الترمذی/الحدود ٢٦ (١٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٤٢) (صحیح )
جورہزنی کرے اور زمین پر فسادبرپا کرے۔
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے چند لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : اگر تم ہمارے اونٹوں کے ریوڑ میں جاؤ، اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو تو صحت مند ہوجاؤ گے ١ ؎ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، پھر وہ اسلام سے پھرگئے (مرتد ہوگئے) اور رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے آپ کے اونٹوں کو ہانک لے گئے، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا، چناچہ وہ گرفتار کر کے لائے گئے، تو آپ نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے، ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائی پھیر دی، ٢ ؎ اور انہیں حرہ ٣ ؎ میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضو ٦٧ (٢٢٣) ، الزکاة ٦٨ (١٥٠١) ، الجہاد ١٥٢ (٣٠١٨) ، المغازي ٣٧ (١٤٩٢، ١٤٩٣) ، الطب ٥ (٥٦٨٥) ، ٦ (٥٦٨٦) ، ٢٩ (٥٧٢٧) ، الحدود ١ (٦٨٠٢) ، ٢ (٦٨٠٣) ، ٣ (٦٨٠٤) ، ٤ (٦٨٠٥) ، الدیات ٢٢ (٦٨٩٩) ، صحیح مسلم/القسامة ٢ (١٦٧١) ، سنن ابی داود/الحدود ٣ (٤٣٦٤) ، سنن الترمذی/الاطعمة ٣٨ (١٨٤٥) ، الطب ٦ (٢٠٤٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩١ (٣٠٦) ، المحاربة (تحریم الدم) ٧ (٤٠٢٩) ، مسند احمد (٣/١٦١، ١٦٣، ١٧٠، ٢٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ حلال جانور کا پیشاب پاک ہے، ورنہ اس کے پینے کی اجازت نہ ہوتی، کیونکہ حرام اور نجس چیز سے علاج درست نہیں۔ ٢ ؎: یہ سزا قصاص کے طور پر تھی کیونکہ انہوں نے بھی رسول اکرم ﷺ کے چرواہوں کے ساتھ ایسے ہی کیا تھا۔ ٣ ؎: مدینہ منورہ کے مشرقی اور مغربی حصہ میں سیاہ پتھریلی جگہ کو حرہ کہتے ہیں۔
جورہزنی کرے اور زمین پر فسادبرپا کرے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں پر حملہ کردیا، چناچہ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاریة (تحریم الدم) ٧ (٤٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ پیاس کے مارے تڑپتے رہے لیکن کسی نے ان کو پانی نہیں دیا یہاں تک کہ وہ مرگئے، یہ آنکھیں پھوڑنا اور پانی نہ دینا تشدد کے لئے نہ تھا بلکہ اس لئے تھا کہ انہوں نے کئی کبیرہ گناہ کئے تھے، ارتداد، قتل، لوٹ پاٹ، ناشکری وغیرہ۔ بعضوں نے کہا کہ یہ قصاص میں تھا کیونکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا، غرض بدکار، بدفعل، بےرحم اور ظالم پر ہرگز رحم نہ کرنا چاہیے، اور اس کو ہمیشہ سخت سزا دینی چاہیے تاکہ عام لوگ تکلیف سے محفوظ رہیں، اور یہ عام لوگوں پر عین رحم و کرم ہے کہ ظالم کو سخت سزا دی جائے، اور ظالم پر رحم کرنا غریب رعایا پر ظلم ہے۔
جسے اس کے مال کی خاطر قتل کردیا جائے وہ بھی شہید ہے۔
سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اپنا مال بچانے میں مارا جائے تو وہ شہید ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٣٢ (٤٧٧٢) ، سنن الترمذی/الدیات ٢٢ (١٤٢١) ، سنن النسائی/الدم ١٨ (٤٠٩٥، ٤٠٩٦، ٤٠٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٧، ١٨٨، ١٨٩، ١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کو شہید کا درجہ ملے گا، یہ جب ہے کہ ظالم ظلم سے اس کا مال لینا چاہتا ہو اور وہ اپنا مال بچاتے ہوئے مارا جائے۔
جسے اس کے مال کی خاطر قتل کردیا جائے وہ بھی شہید ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس سے اس کا مال چھینا جائے اور لڑا جائے پھر وہ بھی لڑے اور قتل ہوجائے، تو وہ شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٦٨، ومصباح الزجاجة : ٩١٢) (صحیح) (سند میں یزید بن سنان تمیمی ضعیف ہیں لیکن، سعید بن زید (رض) کی سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
جسے اس کے مال کی خاطر قتل کردیا جائے وہ بھی شہید ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس سے اس کا مال ناجائز طریقے سے لینے کا ارادہ کیا جائے، اور وہ اس کے بچانے میں قتل کردیا جائے، تو وہ شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٥٧، ومصباح الزجاجة : ٩١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٩٤، ٣٢٤) (حسن صحیح) (عبدالعزیز بن المطلب صدوق ہیں، اس لئے یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے )
چوری کرنے والے کی حد (سزا)
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چور پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، وہ ایک انڈا چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، اور رسی چراتا ہے تو بھی اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٢٣ (١٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٣، ٣١٧، ٣٧٦، ٣٨٦، ٣٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اعمش نے کہا انڈے سے مراد یہاں سر کا خود (لوہے کی ٹوپی) ہے اور رسی سے مراد جس کی قیمت کئی درہم ہوں۔
چوری کرنے والے کی حد (سزا)
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹا، اس کی قیمت تین درہم تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ١ (١٦٨٦) ، سنن ابی داود/الحدود ١١ (٤٣٨٥) ، سنن الترمذی/الحدود ١٦ (١٤٤٦) ، سنن النسائی/قطع السارق ٧ (٤٩١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٦٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحدود ١٤ (٦٧٩٥، ٦٧٩٦، ٦٧٩٧، ٦٧٩٨) ، مسند احمد (٦/١٦٢) ، سنن الدارمی/الحدود ٤، ٢٤٦) (صحیح )
چوری کرنے والے کی حد (سزا)
1 ام المؤمینین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاتھ اسی وقت کاٹا جائے گا جب (چرائی گئی چیز کی قیمت) چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ١٤ (٦٧٨٩) ، صحیح مسلم/الحدود ١ (١٦٨٤) ، سنن ابی داود/الحدود ١١ (٤٣٨٣) ، سنن الترمذی/الحدود ١٦ (١٤٤٥) ، سنن النسائی/قطع السارق ٧ (٤٩٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٠) ، و قد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ٧ (٢٣) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٨٠، ٨١، ١٠٤، ١٦٣، ٢٤٩، ٢٥٢) ، سنن الدارمی/الحدود ٤ (٢٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ ربع دینار یعنی تین درہم یا اس سے زیادہ کی مالیت کا سامان اگر کوئی چوری کرتا ہے، تو اس کے عوض ہاتھ کاٹا جائے گا، ایک درہم چاندی کا وزن تقریباً تین گرام ہے، اس طرح سے تقریباً نو گرام چاندی کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، اور دینار کا وزن سوا چار گرام خالص سونا ہے۔ (ملاحظہ ہو : توضیح الأحکام من بلوغ المرام ٦ /٢٦٤- ٢٦٥ )
چوری کرنے والے کی حد (سزا)
سعد (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ڈھال کی قیمت کے برابر میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٨٣، ومصباح الزجاجة : ٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٩) (ضعیف) (ابو واقد صالح بن محمد بن زائدہ اللیثی ضعیف ہے، لیکن متفق علیہ شواہد میں ربع دینار میں قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کی قولی حدیث ہے، اور یہی ثمن المجن (ڈھال کی قیمت) ہے، اور فعلی حدیث اوپر گذری )
ہاتھ گردن میں لٹکانا
ابن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید سے سوال کیا : ہاتھ کاٹ کر گردن میں ٹکانا کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا : سنت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کا ہاتھ کاٹا، پھر اسے اس کی گردن میں لٹکا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢١، (٤٤١١) ، سنن الترمذی/الحدود ١٧ (١٤٤٧) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٥ (٤٩٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٩) (ضعیف) (سند میں عمر، حجاج اور مکحول تینوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے )
چور اعتراف کرلے
ثعلبہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ عمرو بن سمرہ بن حبیب بن عبدشمس رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور کہا : اللہ کے رسول ! میں نے بنی فلاں کا اونٹ چرایا ہے، لہٰذا مجھے اس جرم سے پاک کر دیجئیے، نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں کے پاس کسی کو بھیجا، انہوں نے بتایا کہ ہمارا ایک اونٹ غائب ہوگیا ہے، چناچہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا، اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ ثعلبہ (رض) کہتے ہیں : میں دیکھ رہا تھا جب اس کا ہاتھ کٹ کر گرا تو وہ کہہ رہا تھا : اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے تجھ سے پاک کیا، تو چاہتا تھا کہ میرے جسم کو جہنم میں داخل کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٧٥، ومصباح الزجاجة : ٩١٥) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن ثعلبہ مجہول اور عبداللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں )
غلام چوری کرے تو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر غلام چوری کرے تو اسے بیچ دو ، خواہ وہ نصف اوقیہ (بیس درہم) میں بک سکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٢ (٤٤١٢) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٣ (٤٩٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٧٩) (ضعیف) (سند میں عمر بن أبی سلمہ ہیں، جو روایت میں غلطی کرتے ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث ضعیف ہے علماء کا اتفاق ہے کہ غلام اور لونڈی جب چوری کریں تو ان کا بھی ہاتھ کاٹا جائے۔
غلام چوری کرے تو
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ بیت المال کے لیے مال غنیمت کے پانچویں حصے میں جو غلام ملے تھے ان میں سے ایک غلام نے خمس (پانچویں حصہ) میں سے کچھ چرا لیا، یہ معاملہ نبی اکرم ﷺ کے پاس پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا اور فرمایا : (خمس) اللہ کا مال ہے، ایک نے دوسرے کو چرایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٨ (ألف) ، ومصباح الزجاجة : ٩١٦) (ضعیف) (حجاج بن تمیم ضعیف ہیں، ملاحظہ الإرواء : ٢٤٤٤ )
امانت میں خیانت کرنے والے، لوٹنے والے اور اچکے کا حکم
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خائن، لٹیرے اور چھین کر بھاگنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ١٣ (٤٣٩١، ٤٣٩٢) ، سنن الترمذی/الحدود ١٨ (١٤٤٨) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٠ (٤٩٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨٠) ، سنن الدارمی/الحدود ٨ (٤٩٨٨) (صحیح )
امانت میں خیانت کرنے والے، لوٹنے والے اور اچکے کا حکم
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھین کر بھاگنے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧١٥، ومصباح الزجاجة : ٩١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیب کترے کا ہاتھ کاٹا جائے گا، کیونکہ چوری کی تعریف اس پر صادق آتی ہے۔
پھل اور گابھہ کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ پھل چرانے سے ہاتھ کاٹا جائے گا اور نہ کھجور کا گابھا چرانے سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ١٩ (١٤٤٩) ، سنن النسائی/قطع السارق ١٠ (٤٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحدود ١٢ (٤٣٨٨) ، موطا امام مالک/الحدود ١١ (٣٢) ، مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤٦٤) ، سنن الدارمی/الحدود ٧ (٢٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث معلوم ہوا کہ میوہ، پھل اور کھجور کے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، جب تک یہ چیزیں محفوظ مقام میں سوکھنے کے لئے نہ رکھی جائیں، یعنی جرین (کھلیان) میں، مگر شرط یہ ہے کہ چور اس میوے یا پھل کو صرف کھالے، اور گود میں بھر کر نہ لے جائے، اگر گود میں بھر کرلے جائے تو اس کو دوگنی قیمت اس کی دینا ہوگی، اور سزا کے لئے مار بھی پڑے گی۔
پھل اور گابھہ کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھل اور کھجور کا گابھا چرانے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٦٧، ومصباح الزجاجة : ٩١٨) (صحیح) (سند میں عبداللہ بن سعید المقبری ضعیف ہیں، لیکن سابقہ رافع بن خدیج (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨؍ ٧٣ )
حرز میں چرانے کا بیان
صفوان (رض) سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں سو گئے، اور اپنی چادر کو تکیہ بنا لیا، کسی نے ان کے سر کے نیچے سے اسے نکال لیا، وہ چور کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، چناچہ نبی اکرم ﷺ نے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دیا، صفوان (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میرا مقصد یہ نہ تھا، میری چادر اس کے لیے صدقہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے آخر میرے پاس اسے لانے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ١٤ (٤٣٩٤) ، سنن النسائی/قطع السارق ٤ (٤٨٨٢ مرسلاً ) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحدود ٩ (٢٨) ، مسند احمد (٣/٤٠١، ٦/٤٦٥، ٤٦٦) ، سنن الدارمی/الحدود ٣ (٢٣٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر مسجد یا صحرا میں کوئی مال کا محافظ ہو تو اس کے چرانے میں ہاتھ کاٹا جائے گا، اکثر علماء اسی طرف گئے ہیں کہ قطع کے لئے حرز (یعنی مال کا محفوظ ہونا) ضروری ہے۔
حرز میں چرانے کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ مزینہ کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پھلوں کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص پھل خوشے میں سے توڑ کر چرائے تو اسے اس کی دوگنی قیمت دینی ہوگی، اور اگر پھل کھلیان میں ہو تو ہاتھ کاٹا جائے گا، بشرطیکہ وہ ڈھال کی قیمت کے برابر ہو، اور اگر اس نے صرف کھایا ہو لیا نہ ہو تو اس پر کچھ نہیں ، اس شخص نے پوچھا : اگر کوئی چراگاہ میں سے بکریاں چرا لے جائے (تو کیا ہوگا) ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی دوگنی قیمت ادا کرنی ہوگی، اور سزا بھی ملے گی، اور اگر وہ اپنے باڑے میں ہو تو اس میں (چوری کرنے پر) ہاتھ کاٹا جائے بشرطیکہ چرائی گئی چیز کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللقطة ١ (١٧١١) ، الحدود ١٢ (٤٣٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٨١٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٥٤ (١٢٨٩) ، سنن النسائی/قطع السارق ١١ (٤٩٧٢) ، مسند احمد (٢/١٨٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: ابوداود کی روایت میں ہے جو کوئی پھلوں کو منہ میں ڈال لے، اور گود میں بھر کر نہ لے جائے اس پر کچھ نہیں ہے، اور جو اٹھا کرلے جائے اس پر دوگنی قیمت ہے، اور سزا کے لئے مار ہے۔
چور کو تلقین کرنا
ابوامیہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا، اس نے اقبال جرم تو کیا لیکن اس کے پاس سامان نہیں ملا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہے ، اس نے کہا : کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے پھر فرمایا : میرے خیال میں تم نے چوری نہیں کی ، اس نے کہا : کیوں نہیں ؟ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا، تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کہو أستغفر الله وأتوب إليه میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس سے توبہ کرتا ہوں ، تو اس نے کہا : أستغفر الله وأتوب إليه تب آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا : اللهم تب عليه اے اللہ تو اس کی توبہ قبول فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٨ (٤٣٨٠) ، سنن النسائی/قطع السارق ٣ (٤٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٣) ، سنن الدارمی/الحدود ٦ (٢٣٤٩) (ضعیف) (سند میں ابو المنذر غیر معروف راوی ہیں )
جس پر زبردستی کی جائے
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کے ساتھ جبراً بدکاری کی گئی، آپ ﷺ نے اس عورت پر حد نہیں لگائی بلکہ اس شخص پر حد جاری کی جس نے اس کے ساتھ جبراً بدکاری کی تھی، اس روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے اسے مہر بھی دلایا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٢٢ ( ١٤٥٣ ) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٠ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤ /٣١٨) (ضعیف) (حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، روایت عنعنہ سے کی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧/٤٤١ ) وضاحت : ١ ؎: اس پر اکثر علماء کا اتفاق ہے کہ جب کسی کو ایسے جرم پر مجبور کیا جائے جس پر حد ہے، تو اس مجبور پر حد جاری نہیں ہوگی بلکہ جبراً بدکاری کرنے والے پر حد جاری ہوگی۔
مسجدوں میں حدود قائم کرنے سے ممانعت
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مساجد میں حدود نہ جاری کی جائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٩ (١٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الدیات ٦ (٢٤٠٢) (حسن) (اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ ذکر، تلاوت اور نماز وغیرہ کی جگہ ہے، اس میں مار پیٹ سزا وغیرہ مناسب نہیں، کیونکہ چیخ و پکار سے مسجد کے احترام میں فرق آئے گا، نیز اس کے خون وغیرہ سے نجاست کا بھی خطرہ ہے۔
مسجدوں میں حدود قائم کرنے سے ممانعت
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مساجد میں حد کے نفاذ سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٠٢، ومصباح الزجاجة : ٩١٩) (حسن) (سند میں ابن لہیعہ اور محمد بن عجلان ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے )
تعزیر کا بیان
ابوبردہ بن نیار انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : دس کوڑے سے زیادہ کسی کو نہ لگائے جائیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٤٢ (٦٨٤٨، ٦٨٤٩، ٦٨٥٠) ، صحیح مسلم/الحدود ٩ (١٧٠٨) ، سنن ابی داود/الحدود ٣٩ (٤٤٩١، ٤٤٩٢) ، سنن الترمذی/الحدود ٣٠ (١٤٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٦، ٤/٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٢٠) ، سنن الدارمی/الحدود ١١ (٢٣٦٠) (صحیح )
تعزیر کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تعزیراً دس کوڑوں سے زیادہ کی سزا نہ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨١، ومصباح الزجاجة : ٩٢٠) (حسن) (سند میں عباد بن کثیر ثقفی اور اسماعیل بن عیاش دونوں ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر حدیث حسن ہے )
حد کفارہ ہے
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے اگر کوئی ایسا کام کرے جس سے حد لازم آئے، اور اسے اس کی سزا مل جائے، تو یہی اس کا کفارہ ہے، ورنہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ١٠ (١٧٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الایمان ١١ (١٨) ، مناقب الانصار ٤٣ (٣٨٩٢) ، تفسیر سورةالممتحنة ٣ (٤٨٩٤) ، الحدود ٨ (٦٧٨٤) ، ١٤ (٨٠١) ، الاحکام ٤٩ (٧٢١٣) ، التوحید ٣١ (٧٤٦) ، سنن الترمذی/الحدود ١٢ (١٤٣٩) ، سنن النسائی/البیعة ٩ (٤١٦٦) ، مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢١، ٣٣٣) ، سنن الدارمی/السیر ١٧ (٢٤٩٧) (صحیح )
حد کفارہ ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دنیا میں کوئی گناہ کیا، اور اسے اس کی سزا مل گئی، تو اللہ تعالیٰ اس بات سے زیادہ انصاف پسند ہے کہ بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جو دنیا میں کوئی گناہ کرے، اور اللہ تعالیٰ اس کے گناہ پر پردہ ڈال دے، تو اللہ تعالیٰ کا کرم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ بندے سے اس بات پر دوبارہ مواخذہ کرے جسے وہ پہلے معاف کرچکا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ١١ (٢٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٩، ١٥٩) (ضعیف) (سند میں حجاج بن محمد مصیصی ہیں، جو بغداد آنے کے بعد اختلاط کا شکار ہوگئے، اور ہارون بن عبد اللہ الحمال ان کے شاگرد بغدادی ہیں، اس لئے ان کی روایت حجاج سے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎: گذشتہ صحیح حدیثوں سے پتلا چلا کہ حدود کے نفاذ سے گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے، محققین علماء کا یہی قول ہے، لیکن بعض علماء نے کہا کہ حد سے گناہ معاف نہیں ہوتا بلکہ گناہ کی معافی کے لئے توبہ درکار ہے اور اس کی کئی دلیلیں ہیں : ایک یہ کہ ڈکیتی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ذلک لهم خزي في الدنيا ولهم في الآخرة عذاب عظيم (سورة المائدة : 33) یعنی حد دنیا کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کو دردناک عذاب ہے ، دوسرے یہ کہ ایک روایت میں ہے : میں نہیں جانتا حدود کفارہ ہیں یا نہیں، تیسرے یہ کہ ابوامیہ مخزومی کی حدیث میں گزرا کہ آپ ﷺ نے جب چور کا ہاتھ کاٹا گیا تو اس سے کہا : اللہ سے استغفار کر اور توبہ کر ۔
مرد اپنی بیوی کے ساتھ اجنبی مرد کو پائے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آدمی اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں سعد (رض) نے کہا : کیوں نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کا اعزاز بخشا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٨) ، سنن ابی داود/الدیات ١٢ (٤٥٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٩٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ١٩ (١٧) ، الحدود ١ (٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے : میں اس سے زیادہ غیرت رکھتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے، آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ سعد کا یہ کہنا بظاہر غیرت کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے مگر مجھ کو اس سے زیادہ غیرت ہے، اور اللہ تعالیٰ کو مجھ سے بھی زیادہ غیرت ہے، اس پر بھی اللہ نے جو شریعت کا حکم اتارا اسی پر چلنا بہتر ہے۔
مرد اپنی بیوی کے ساتھ اجنبی مرد کو پائے
سلمہ بن محبق (رض) کہتے ہیں کہ جب حدود کی آیت نازل ہوئی تو سعد بن عبادہ (رض) سے جو ایک غیرت مند شخص تھے، پوچھا گیا : اگر آپ اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائیں تو اس وقت آپ کیا کریں گے ؟ جواب دیا : میں تلوار سے ان دونوں کی گردن اڑا دوں گا، کیا میں چار گواہ ملنے کا انتظار کروں گا ؟ اس وقت تک تو وہ اپنی ضرورت پوری کر کے چلا جائے گا، اور پھر میں لوگوں سے کہتا پھروں کہ فلاں شخص کو میں نے ایسا اور ایسا کرتے دیکھا ہے، اور وہ مجھے حد قذف لگا دیں، اور میری گواہی قبول نہ کریں، پھر سعد (رض) کی اس بات کا تذکرہ نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا، تو آپ نے فرمایا : (غلط حالت میں) تلوار سے دونوں کو قتل کردینا ہی سب سے بڑی گواہی ہے ، پھر فرمایا : نہیں میں اس کی اجازت نہیں دیتا، مجھے اندیشہ ہے کہ اس طرح غیرت مندوں کے ساتھ متوالے بھی ایسا کرنے لگیں گے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوزرعہ کو کہتے سنا ہے کہ یہ علی بن محمد طنافسی کی حدیث ہے، اور مجھے اس میں کا کچھ حصہ یاد نہیں رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٦٢، ومصباح الزجاجة : ٩٢١) (ضعیف) (قبیصہ بن حریث ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٩١ ٤٠ ) وضاحت : ١ ؎: عورت کے ساتھ غیر مرد کو برے کام میں دیکھنے پر نبی اکرم ﷺ نے اس کے قتل کی اجازت نہ دی، پس اگر کوئی قتل کرے تو وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا، لیکن اگر اپنے بیان میں سچا ہوگا تو آخرت میں اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔
والد کے انتقال کے بعد اس کی اہلیہ سے شادی کرنا
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میرے ماموں کا گزر میرے پاس سے ہوا (راوی حدیث ہشیم نے ان کے ماموں کا نام حارث بن عمرو بتایا) نبی اکرم ﷺ نے ان کو ایک جھنڈا باندھ دیا تھا، میں نے ان سے پوچھا : کہاں کا قصد ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے پاس روانہ کیا ہے جس نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی (یعنی اپنی سوتیلی ماں) سے شادی کرلی ہے، اور آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢٧ (٤٤٥٦، ٤٤٥٧) ، سنن الترمذی/الاحکام ٢٥ (١٣٦٢) ، سنن النسائی/النکاح ٥٨ (٣٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٩٠، ٢٩٢، ٢٩٥، ٢٩٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٣ (٢٢٨٥) (صحیح )
والد کے انتقال کے بعد اس کی اہلیہ سے شادی کرنا
قرہ بن ایاس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایسے شخص کے پاس بھیجا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کرلی تھی، تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں اور اس کا سارا مال لے لوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٨٢، ومصباح الزجاجة : ٩٢٢) (حسن صحیح) (سند میں خالد بن أبی کریمہ صدوق ہیں، لیکن حدیث کی روایت میں خطا اور ارسال کرتے ہیں، لیکن حدیث براء بن عازب (رض) کے شاہد کی وجہ سے صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی شریعت میں مالی تعزیر درست ہے، اوپر سرقہ کے باب میں گزر چکا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس سے دوگنی قیمت لی جائے گی ، اور بعضوں نے کہا کہ یہ شخص مرتد ہوگیا تھا تو آپ ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا، اس لئے کہ حد زنا میں مال ضبط نہیں ہوتا۔
باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا اور اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی کو اپنا آقا بتانا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے کو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے، یا (کوئی غلام یا لونڈی) اپنے مالک کے بجائے کسی اور کو مالک بنائے تو اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی اس پر لعنت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٤٠، ومصباح الزجاجة : ٩٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٩، ٣١٧، ٣٢٨) (صحیح) (سند میں محمد بن أبی الضیف مستور ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے )
باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا اور اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی کو اپنا آقا بتانا۔
سعد اور ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا، اور میرے دل نے یاد رکھا کہ محمد ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کی طرف منسوب کرے، جب کہ وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا والد نہیں ہے، تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٦ ٤٣٢٦) ، صحیح مسلم/الایمان ٢٧ (٦٣) ، سنن ابی داود/الأدب ١١٩ (٥١١٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٩، ١٧٤، ١٧٩، ٥/٣٨، ٤٦) ، سنن الدارمی/السیر ٨٣ (٢٥٧٢) ، الفرائض ٢ (٢٩٠٢) (صحیح )
باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا اور اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی کو اپنا آقا بتانا۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنا والد کسی اور کو بتائے، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے محسوس ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٢٢، ومصباح الزجاجة : ٩٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧١، ٩٤) (ضعیف) (سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق ضعیف ہیں، اور سبعین عاماً کے لفظ سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : ٣٦٠ )
کسی مرد کی قبیلہ سے نفی کرنا
اشعث بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ میں قبیلہ کندہ کے وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، وہ لوگ مجھے سب سے بہتر سمجھتے تھے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ لوگ ہم میں سے نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہم نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں، نہ ہم اپنی ماں پر تہمت لگاتے ہیں، اور نہ اپنے والد سے علیحدہ ہوتے ہیں ۔ راوی کہتے ہیں : اشعث بن قیس (رض) کہا کرتے تھے کہ میرے پاس اگر کوئی ایسا شخص آئے جو کسی قریشی کے نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے ہونے کا انکار کرے، تو میں اسے حد قذف لگاؤں گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفربہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١، ومصباح الزجاجة : ٩٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧٤، ٥/٢١١، ٢١٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قریش نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں۔
ہیجڑوں کا بیان
صفوان بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ عمرو بن مرہ نے آ کر کہا : اللہ کے رسول ! اللہ نے میرے مقدر میں بدنصیبی لکھ دی ہے، اور میرے لیے سوائے اپنی ہتھیلی سے دف بجا کر روزی کمانے کا کوئی اور راستہ نہیں، لہٰذا آپ مجھے ایسا گانا گانے کی اجازت دیجئیے جس میں فحش اور بےحیائی کی باتیں نہ ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نہ تو تمہیں اس کی اجازت دوں گا، نہ تمہاری عزت کروں گا، اور نہ تمہاری آنکھ ہی ٹھنڈی کروں گا، اے اللہ کے دشمن ! تم نے جھوٹ کہا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں پاکیزہ حلال روزی عطا کی تھی، لیکن تم نے اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی روزی کو چھوڑ کر اس کی حرام کی ہوئی روزی کو منتخب کیا، اگر میں نے تم کو اس سے پہلے منع کیا ہوتا تو (آج اجازت طلب کرنے پر) تجھے سزا دیتا، اور ضرور دیتا، میرے پاس سے اٹھو، اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو، سنو ! اگر تم نے اب منع کرنے کے بعد ایسا کیا تو میں تمہاری سخت پٹائی کروں گا، تمہارے سر کو مثلہ کر کے منڈوا دوں گا، تمہیں تمہارے اہل و عیال سے الگ کر دوں گا، اور اہل مدینہ کے نوجوانوں کے لیے تمہارے مال و اسباب کو لوٹنا حلال کر دوں گا ۔ یہ سن کر عمرو اٹھا، اس کی ایسی ذلت و رسوائی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہی اسے جانتا ہے، جب وہ چلا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ لوگ گنہگار ہیں، ان میں سے جو بلا توبہ کیے مرگیا، اللہ اسے قیامت کے روز اسی حالت میں اٹھائے گا جس حالت میں وہ دنیا میں مخنث اور عریاں تھا، اور وہ کپڑے کے کنارے سے بھی اپنا ستر نہیں چھپا سکے گا، جب جب کھڑا ہوگا گرپڑے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٠، ومصباح الزجاجة : ٩٢٦) (موضوع) (بشر بن نمیر بصری ارکان کذب میں سے ہے )
ہیجڑوں کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے، تو ایک مخنث کو عبداللہ بن ابی امیہ سے یہ کہتے سنا کہ اگر اللہ تعالیٰ کل طائف فتح کرا دے، تو میں تمہیں ایسی عورت کے بارے میں بتاؤں گا جو آگے کی طرف مڑتی ہے تو چار سلوٹیں پڑجاتی ہیں، اور پیچھے کی جانب مڑتی ہے تو آٹھ سلوٹیں ہوجاتی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ان (مخنثوں) کو اپنے گھروں سے نکال دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٦ (٤٣٢٤) ، صحیح مسلم/السلام ١٣ (٢١٨٠) ، سنن ابی داود/الأدب ٦١ (٤٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١٨) (ہذا الحدیث وقد مضی برقم : (١٩٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پہلے اس مخنث کو ام سلمہ (رض) نے یہ سمجھ کر اجازت دی ہوگی کہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کو عورتوں کا خیال نہیں ہوتا جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ عورتوں کی خوبیوں اور خرابیوں کو سمجھتا ہے تو اس کے نکالنے کا حکم دیا، اس مخنث کا نام ہیت تھا، بعضوں نے کہا یہ مدینہ سے بھی نکال دیا گیا تھا، شہر کے باہر رہا کرتا تھا، عمر (رض) نے اپنی خلافت میں سنا کہ وہ بہت بوڑھا ہوگیا ہے، اور روٹیوں کا محتاج ہے تو ہفتہ میں ایک بار اس کو شہر میں آنے کی اجازت دی کہ بھیک مانگ کر واپس چلا جایا کرے۔