23. دیت کا بیان

【1】

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی سخت وعید

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٨ (٦٥٣٣) ، الدیات ١ (٦٨٦٤) ، صحیح مسلم/القسامة ٨ (١٦٧٨) ، سنن الترمذی/الدیات ٨ (١٣٩٦، ١٣٩٧) ، سنن النسائی/تحریم الدم ٢ (٣٩٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤١، ٤٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور جس نے کسی کو ظلم سے قتل کیا ہوگا، اس کو سزا دی جائے گی۔

【2】

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی سخت وعید

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی کوئی شخص ناحق قتل کیا جاتا ہے، تو آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) پر بھی اس کے گناہ کا ایک حصہ ہوتا ہے، اس لیے کہ اس نے سب سے پہلے قتل کی رسم نکالی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الانبیاء ١ (٣٣٣٥) ، الدیات ٢ (٦٨٦٧) ، الاعتصام ١٥ (٧٣٢١) ، صحیح مسلم/القسامة ٧ (١٦٧٧) ، سنن الترمذی/العلم ١٤ (٢٦٧٣) ، سنن النسائی/تحریم الدم ١ (٣٩٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٣، ٤٣٠، ٤٣٣) (صحیح )

【3】

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی سخت وعید

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/تحریم الدم ٢ (٣٩٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٨ (٦٥٣٣) ، الدیات ا (٦٨٦٤) ، صحیح مسلم/القسامة ٨ (١٦٧٨) ، سنن الترمذی/الدیات ٨ (١٣٩٦، ١٣٩٧) ، مسند احمد (٢/٨٧٣) (صحیح )

【4】

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی سخت وعید

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ وہ نہ تو شرک کرتا ہو اور نہ ہی اس نے خون ناحق کیا ہو تو وہ جنت میں جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٧، ومصباح الزجاجة : ٩٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٨، ١٥٢) (صحیح )

【5】

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی سخت وعید

براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی مومن کا ناحق قتل ساری دنیا کے زوال اور تباہی سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧، ومصباح الزجاجة : ٩٢٨) (صحیح )

【6】

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی سخت وعید

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مومن کے قتل میں آدھی بات کہہ کر بھی مددگار ہوا ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی پیشانی پر آيس من رحمة الله اللہ کی رحمت سے مایوس بندہ لکھا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣١٤، ومصباح الزجاجة : ٩٢٩) (ضعیف جدا) (سند میں یزید بن زیاد منکر الحدیث اور متروک الحدیث ہے )

【7】

کیا مومن کو قتل کرنے ولاے کی توبہ قبول ہوگی۔

سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیا، پھر توبہ کرلی، ایمان لے آیا، اور نیک عمل کیا، پھر ہدایت پائی ؟ تو آپ نے جواب دیا : افسوس وہ کیسے ہدایت پاسکتا ہے ؟ میں نے تمہارے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے : قیامت کے دن قاتل اور مقتول اس حال میں آئیں گے کہ مقتول قاتل کے سر سے لٹکا ہوگا، اور کہہ رہا ہوگا ، اے میرے رب ! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ اللہ کی قسم ! اس نے تمہارے نبی پر اس (قتل ناحق کی آیت) کو نازل کرنے کے بعد منسوخ نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/تحریم الدم ٢ (٤٠٠٤) ، القسامة ٤٨ (٤٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٠، ٣٦٤٢٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مراد اس آیت سے ہے : ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزآؤه جهنم خالدا فيها وغضب الله عليه ولعنه وأعد له عذابا عظيما (سورة النساء :93) یعنی جس شخص نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے، اس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایک دوسری آیت جو بظاہر اس کے معارض ہے : إن الله لا يغفر أن يشرک به ويغفر ما دون ذلک لمن يشاء ومن يشرک بالله فقد افترى إثما عظيما (سورة النساء :48) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والے شخص کو معاف نہیں کرے گا، اور جس کے لئے چاہے اس کے علاوہ گناہ کو معاف کرسکتا ہے ، دونوں آیتیں بظاہر متعارض ہیں، علماء نے تطبیق کی صورت یوں نکالی ہے کہ پہلی آیت کو اس صورت پر محمول کریں گے جب قتل کرنے والا مومن کے قتل کو مباح بھی سمجھتا ہو، تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، اور وہ جہنمی ہوگا، ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ آیت میں خلود سے مراد زیادہ عرصہ تک ٹھہرنا ہے ایک نہ ایک دن اسے ضرور جہنم سے نجات ملے گی، یہ بھی جواب دیا جاسکتا ہے کہ آیت میں زجرو توبیخ مراد ہے۔

【8】

کیا مومن کو قتل کرنے ولاے کی توبہ قبول ہوگی۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سنی ہے، وہ بات میرے کان نے سنی، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا کہ ایک آدمی تھا جس نے ننانوے خون (ناحق) کئے تھے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے روئے زمین پر سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا، تو اسے ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا، وہ اس کے پاس آیا، اور کہا : میں ننانوے آدمیوں کو (ناحق) قتل کرچکا ہوں، کیا اب میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا : (واہ) ننانوے آدمیوں کے (قتل کے) بعد بھی (توبہ کی امید رکھتا ہے) ؟ اس شخص نے تلوار کھینچی اور اسے بھی قتل کردیا، اور سو پورے کر دئیے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اور روئے زمین پر سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا، اسے جب ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا تو وہ وہاں گیا، اور اس سے کہا : میں سو خون (ناحق) کرچکا ہوں، کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اس نے جواب دیا : تم پر افسوس ہے ! بھلا تمہیں توبہ سے کون روک سکتا ہے ؟ تم اس ناپاک اور خراب بستی سے (جہاں تم نے اتنے بھاری گناہ کئے) نکل جاؤ ١ ؎، اور فلاں نیک اور اچھی بستی میں جاؤ، وہاں اپنے رب کی عبادت کرنا، وہ جب نیک بستی میں جانے کے ارادے سے نکلا، تو اسے راستے ہی میں موت آگئی، پھر رحمت و عذاب کے فرشتے اس کے بارے میں جھگڑنے لگے، ابلیس نے کہا کہ میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، اس نے ایک پل بھی میری نافرمانی نہیں کی، تو رحمت کے فرشتوں نے کہا : وہ توبہ کر کے نکلا تھا (لہٰذا وہ رحمت کا مستحق ہوا) ۔ راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ مجھ سے حمید طویل نے حدیث بیان کی، وہ بکر بن عبداللہ سے اور وہ ابورافع (رض) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : (جب فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا تو) اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ (ان کے فیصلے کے لیے) بھیجا، دونوں قسم کے فرشتے اس کے پاس فیصلہ کے لیے آئے، تو اس نے کہا : دیکھو دونوں بستیوں میں سے وہ کس سے زیادہ قریب ہے ؟ (فاصلہ ناپ لو) جس سے زیادہ قریب ہو وہیں کے لوگوں میں اسے شامل کر دو ۔ راوی حدیث قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے حسن بصری نے حدیث بیان کی، اس میں انہوں نے کہا : جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو وہ گھسٹ کر نیک بستی سے قریب اور ناپاک بستی سے دور ہوگیا، آخر فرشتوں نے اسے نیک بستی والوں میں شامل کردیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي رافع تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٠٥) ، وحدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ صحیح البخاری/احادیث الانبیاء ٥٤ (٣٤٧٠) ، صحیح مسلم/التوبة ٨ (٦٧٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٠، ٧٢) (صحیح) (حسن کے قول لما حضره الموت ...... کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: ایسی بستی جس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں، فتح الباری میں ہے کہ یہ کافروں کی بستی تھی۔ ٢ ؎: سبحان اللہ ! اگر مالک کے رحم و کرم کو سامنے رکھا جائے تو امید ایسی بندھ جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی گناہ گار کو عذاب نہ ہوگا، اور اگر اس کے غضب اور عدل اور قہر کی طرف خیال کیا جائے، تو اپنے اعمال کا حال دیکھ کر ایسا خوف طاری ہوتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ، ایمان اسی کا نام ہے کہ مومن خوف (ڈر) اور رجاء (امید) کے درمیان رہے، اگر خوف ایسا غالب ہوا کہ امید بالکل جاتی رہے تب بھی آدمی گمراہ ہوگیا، اور اگر امید ایسی غالب ہوئی کہ خوف جاتا رہا جب بھی اہل ہدایت اور اہل سنت سے باہر ہوگیا، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گناہ (خواہ کسی قدر ہوں) پر آدمی کو توبہ کا خیال نہ چھوڑنا چاہیے اور گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، وہ ارحم الراحمین بندہ نواز ہے اور اس کا ارشاد ہے : رحمتى سبقت غضبى یعنی میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی اور نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں : مغفرتک أرجى عندي من عملي یعنی اے رب اپنے عمل سے زیادہ مجھے تیری مغفرت کی امید ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان قاتل کی توبہ قبول ہوسکتی ہے، گو اس میں شک نہیں کہ مومن کا قتل بہت بڑا گناہ ہے اور مومن قاتل کی جزا یہی ہے کہ اس پر عذاب الٰہی اترے دنیا یا آخرت یا دونوں میں، مگر اس حدیث اور ایسی حدیثوں کی وجہ سے جن سے امید کو ترقی ہوتی ہے یہ کوئی نہ سمجھے کہ گناہ ضرور بخش دیا جائے گا، پھر گناہ سے بچنا کیا ضروری ہے کیونکہ گناہ پر عذاب تو وعدہ الٰہی سے معلوم ہوچکا ہے اب مغفرت وہ مالک کے اختیار میں ہے بندے کو ہرگز معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس کی توبہ قبول ہوئی یا نہیں، اور اس کی مغفرت ہوگی یا نہیں، پس ایسے موہوم خیال پر گناہ کا ارتکاب کر بیٹھنا اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت پر تکیہ کرلینا بڑی حماقت اور نادانی ہے، ہر وقت گناہ سے بچتا رہے خصوصاً حقوق العباد سے، اور اگر بدقسمتی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو دل و جان سے اس سے توبہ کرے، اور اپنے مالک کے سامنے گڑگڑائے روئے، اور عہد کرے کہ پھر ایسا گناہ نہ کروں گا تو کیا عجب ہے کہ مالک اس کا گناہ بخش دے وہ غفور اور رحیم ہے۔ اس سند سے بھی ہمام نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔

【9】

جس کا کوئی عزیز قتل کردیا جائے تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔

ابوشریح خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کا خون کردیا جائے، یا اس کو زخمی کردیا جائے، اسے (یا اس کے وارث کو) تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے، اگر وہ چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کا ہاتھ پکڑ لو، تین باتیں یہ ہیں : یا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرے، یا معاف کر دے، یا خون بہا (دیت) لے لے، پھر ان تین باتوں میں سے کسی ایک کو کرنے کے بعد اگر بدلہ لینے کی بات کرے، تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے، وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١) ، سنن الدارمی/الدیات ١ (٢٣٩٦) (ضعیف) (اس سند میں ابن أبی العوجاء ضعیف ہے )

【10】

جس کا کوئی عزیز قتل کردیا جائے تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے، یا تو وہ قاتل کو قصاص میں قتل کر دے، یا فدیہ لے لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١١٢) ، اللقطة ٧ (٢٤٣٤) ، الدیات ٨ (٦٨٨٠) ، صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٥) ، سنن ابی داود/الدیات ٤ (٤٥٠٥) ، سنن الترمذی/الدیات ١٣ (١٤٠٥) ، سنن النسائی/القسامة ٢٤ (٤٧٨٩، ٤٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک تیسری بات یہ ہے کہ معاف کر دے، اور امام بخاری (رح) نے عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کی کہ نبی اسرائیل میں قصاص تھا لیکن دیت نہ تھی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : كتب عليكم القصاص في القتلى (سورة البقرة : 178) مسلمانوں قتل میں تمہارے اوپر قصاص فرض کیا گیا ہے اور قصاص کے بارے میں فرمایا : ولکم في القصاص حياة (سورة البقرة : 179) تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے غرض ان آیات و احادیث سے قصاص ثابت ہے اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔

【11】

کسی نے عمدا قتل کیا پھر مقتول کے ورثہ دیت پر راضی ہوگئے۔

زید بن ضمیرہ کہتے ہیں کہ میرے والد اور چچا دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، ان دونوں کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر پڑھی پھر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، تو قبیلہ خندف کے سردار اقرع بن حابس (رض) آپ ﷺ کے پاس گئے، وہ محکلم بن جثامہ سے قصاص لینے کو روک رہے تھے، عیینہ بن حصن (رض) اٹھے، وہ عامر بن اضبط اشجعی کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے ١ ؎، بالآخر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا تم دیت (خون بہا) قبول کرتے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا، پھر بنی لیث کا مکیتل نامی شخص کھڑا ہوا، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی ! اسلام کے شروع زمانے میں یہ قتل میں ان بکریوں کے مشابہ سمجھتا تھا جو پانی پینے آتی ہیں، پھر جب آگے والی بکریوں کو تیر مارا جاتا ہے تو پیچھے والی اپنے آپ بھاگ جاتی ہیں، ٢ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : تم پچاس اونٹ (دیت کے) ابھی لے لو، اور بقیہ پچاس مدینہ لوٹنے پر لے لینا، لہٰذا انہوں نے دیت قبول کرلی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٥٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١١٢، ٦/١٠) (ضعیف) (سند میں زید بن ضمیرہ مقبول ہیں، لیکن متابعت نہ ہونے سے سند ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎: محلم بن جثامہ نے قبیلہ اشجع کے عامر بن اضبط کو مار ڈالا تھا، تو اقرع (رض) کہتے تھے کہ محلم سے قصاص نہ لیا جائے اور عیینہ (رض) قصاص پر زور دیتے تھے۔ ٢ ؎: اس تشبیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر (بشرط صحت حدیث) آپ ﷺ اس مقدمہ کا بندوبست نہ کرتے تو اس سے بہت بڑا دوسرا فساد اٹھ کھڑا ہوتا، مسلمان آپس میں لڑنے لگتے تو اس کا بندوبست ایسا ہوا جیسے بکریوں کا گلہ پانی پینے کو چلا لیکن آگے کی بکریوں کو مار کر وہاں سے ہٹا دیا گیا تو پیچھے کی بھی بکریاں بھاگ گئیں، اگر نہ مارتا تو پھر سب چلی آتیں، اسی طرح اگر آپ اس مقدمہ کا بندوبست نہ کرتے تو دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہوجاتے اور فساد عظیم ہوتا۔

【12】

کسی نے عمدا قتل کیا پھر مقتول کے ورثہ دیت پر راضی ہوگئے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قصداً کسی کو قتل کردیا، تو قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالہ کردیا جائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کردیں، اور چاہیں تو دیت لے لیں، دیت (خوں بہا) میں تیس حقہ، تیس جذعہ اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں، قتل عمد کی دیت یہی ہے، اور باہمی صلح سے جو بھی طے پائے وہ مقتول کے ورثاء کو ملے گا، اور سخت دیت یہی ہے۔ ١ ؎ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ١٨ (٤٥٤١) ، سنن الترمذی/الدیات ١ (١٣٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٨، ١٨٢، ١٨٣، ١٨٤، ١٨٥، ١٨٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: حقہ یعنی وہ اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں داخل ہوگئی ہو۔ جذعہ: یعنی وہ اونٹنی جو چار سال پورے کر کے پانچویں میں داخل ہوگئی ہو۔

【13】

شبہ عمد میں دیت مغلظہ ہے

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمداً و قصداً قتل کے مشابہ یعنی غلطی سے قتل کیا جانے والا وہ ہے جو کوڑے یا ڈنڈے سے مرجائے، اس میں سو اونٹ دیت (خون بہا) کے ہیں جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٢٧ (٤٧٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٩١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الدیات ١٩ (٤٥٤٧، ٤٥٤٨) ، مسند احمد (١/١٦٤، ١٦٦) ، سنن الدارمی/الدیات ٢٢ (٢٤٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اصل دیت سو اونٹ، یا سو گائے، یا دو ہزار بکریاں، یا ہزار دینار یا بارہ ہزار درہم، یا دو سو جوڑے کپڑے ہیں، لیکن بعض جرائم میں یہ دیت سخت کی جاتی ہے، اسی کو دیت مغلظہ کہتے ہیں، وہ یہ کہ مثلاً سو اونٹوں میں چالیس حاملہ اونٹیاں ہوں۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ١٩ (٤٥٤٧) ، سنن النسائی/القسامة ٢٧ (٤٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٩)

【14】

شبہ عمد میں دیت مغلظہ ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کعبہ کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوئے، اللہ کی تعریف کی، اس کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور کفار کے گروہوں کو اس نے اکیلے ہی شکست دے دی، آگاہ رہو ! غلطی سے قتل ہونے والا وہ ہے جو کوڑے اور لاٹھی سے مارا جائے، اس میں (دیت کے) سو اونٹ لازم ہیں، جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں ان کے پیٹ میں بچے ہوں، خبردار ! زمانہ جاہلیت کی ہر رسم اور اس میں جو بھی خون ہوا ہو سب میرے ان پیروں کے تلے ہیں ١ ؎ سوائے بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانے کے، سن لو ! میں نے ان دونوں چیزوں کو انہیں کے پاس رہنے دیا ہے جن کے پاس وہ پہلے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ١٩ (٤٥٤٩) ، سنن النسائی/القسامة ٢٧ (٤٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٢) (حسن) (ابن جدعان ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٧ /٢٥٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی لغو ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ ٢ ؎: چناچہ کعبہ کی کلید برداری بنی شیبہ کے پاس اور حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمے داری بنی عباس کے پاس حسب سابق رہے گی۔

【15】

قتل خطا کی دیت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دیت کے بارہ ہزار درہم مقرر کئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ١٨ (٤٥٤٦) ، سنن النسائی/القسامة ٢٩ (٤٨٠٧) ، سنن الترمذی/الدیات ٢ (١٣٨٨، ١٣٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الدیات ١١ (٤٨٠٨) (ضعیف) (اس سند میں اضطراب ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٢٤٥ )

【16】

قتل خطا کی دیت

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص غلطی سے مارا جائے اس کا خون بہا تیس اونٹنیاں ہیں، جو ایک سال پورے کر کے دوسرے میں لگ گئی ہوں، اور تیس اونٹنیاں جو دو سال پورے کر کے تیسرے میں لگ گئی ہوں، اور تیس اونٹنیاں وہ جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں لگ گئی ہوں، اور دو دو سال کے دس اونٹ ہیں جو تیسرے سال میں داخل ہوگئے ہوں ، اور آپ ﷺ نے گاؤں والوں پر دیت (خون بہا) کی قیمت چار سو دینار لگائی یا اتنی ہی قیمت کی چاندی، یہ قیمت وقت کے حساب سے بدلتی رہتی، اونٹ مہنگے ہوتے تو دیت بھی زیادہ ہوتی اور جب سستے ہوتے تو دیت بھی کم ہوجاتی، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دیت کی قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینار تک پہنچ گئی، اور چاندی کے حساب سے آٹھ ہزار درہم ہوتے تھے، آپ ﷺ نے یہ بھی فیصلہ فرمایا : گائے والوں سے دو سو گائیں اور بکری والوں سے دو ہزار بکریاں (دیت میں) لی جائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٤ (٤٥٠٦) ، سنن النسائی/القسامة ٢٧ (٤٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٣، ٢١٧، ٢٢٤) (حسن )

【17】

قتل خطا کی دیت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قتل (غلطی سے قتل) کی دیت بیس اونٹنیاں تین تین سال کی جو چوتھے میں لگی ہوں، بیس اونٹنیاں چار چار سال کی جو پانچویں میں لگ گئی ہوں، بیس اونٹنیاں ایک ایک سال کی جو دوسرے سال میں لگ گئی ہوں، بیس اونٹنیاں دو دو سال کی جو تیسرے سال میں لگ گئی ہوں، اور بیس اونٹ ہیں جو ایک ایک سال کے ہوں اور دوسرے سال میں لگ گئے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ١٨ (٤٥٤٥) ، سنن الترمذی/الدیات ١ (١٣٨٦) ، سنن النسائی/القسامة ٢٨ (٤٨٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩١٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٤، ٤٥٠) ، سنن الدارمی/الدیات ١٣ (٢٤١٢) (ضعیف) (سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس راوی ہیں، اور زید بن جبیر متکلم فیہ راوی ہیں )

【18】

قتل خطا کی دیت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دیت بارہ ہزار درہم مقرر فرمائی، اور فرمان الٰہی وما نقموا إلا أن أغناهم الله ورسوله من فضله (سورۃ التوبہ : ٧٤ ) کفار اسی بات سے غصہ ہوئے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنی مہربانی سے انہیں مالدار کردیا کا یہی مطلب ہے کہ دیت لینے سے ان (مسلمانوں) کو مالدار کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر رقم : (٢٦٢٩) (ضعیف )

【19】

دیت قاتل کے کنبہ والوں پر اور قاتل پرواجب ہوگی اور اگر کسی کنبہ نہ ہو تو بیت المال سے ادا کی جائے گی۔

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا : دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) کے ذمہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القسامة ١١ (١٦٨٢) ، سنن ابی داود/الدیات ٢١ (٤٥٦٨) ، سنن الترمذی/الدیات ١٥ (١٤١١) ، سنن النسائی/القسامة، ٣٣ (٤٨٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الدیات ٢٥ (٦٩١٠) ، الاعتصام ١٣ (٧٣١٧) ، مسند احمد (٤/٢٢٤، ٢٤٥، ٢٤٦، ٢٤٩) ، سنن الدارمی/الدیات ٢٠ (٢٤٢٥) (صحیح )

【20】

دیت قاتل کے کنبہ والوں پر اور قاتل پرواجب ہوگی اور اگر کسی کنبہ نہ ہو تو بیت المال سے ادا کی جائے گی۔

مقدام شامی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث میں ہوں، اس کی طرف سے دیت بھی ادا کروں گا اور اس کا ترکہ بھی لوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، وہ اس کی دیت بھی ادا کرے گا، اور ترکہ بھی پائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ٨ (٢٨٩٩، ٢٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣١، ١٣٣) (صحیح )

【21】

مقتول کے ورثہ کو قصاص ودیت لینے میں رکاوٹ بننا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اندھا دھند فساد (بلوہ) میں یا تعصب کی وجہ سے پتھر، کوڑے یا ڈنڈے سے مار دیا جائے، تو قاتل پر قتل خطا کی دیت لازم ہوگی، اور اگر قصداً مارا جائے، تو اس میں قصاص ہے، جو شخص قصاص یا دیت میں حائل ہو تو اس پر لعنت اللہ کی ہے، اس کے فرشتوں کی، اور سب لوگوں کی، اس کا نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ١٧ (٤٥٣٩ مرسلاً ) ، ٢٨ (٤٥٩١) ، سنن النسائی/القسامة ٢٦ (٤٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہی حکم ہے ہر اس شخص کا جو انصاف اور شرع کی بات سے روکے اور اس میں خلل ڈالے، وہ ملعون ہے، اس کا نماز روزہ سب بےفائدہ ہے، اور اندھا دھند فساد کا مطلب یہ ہے کہ اس کا قاتل معلوم نہ ہو یا قتل کی کوئی وجہ نہ ہو یا کوئی اپنے لوگوں کی طرفداری کرتا ہو تو اس میں مارا جائے، یہ عصبیت ہے، تعصب بھی اسی سے نکلا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہتھیار سے عمداً نہ مارا جائے بلکہ چھوٹے پتھر یا چھڑی یا کوڑے سے مارا جائے تو اس میں دیت ہوگی قصاص نہ ہوگا جیسے اوپر گزرا۔

【22】

جن چیزوں میں قصاص نہیں

جاریہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کی کلائی پر تلوار ماری جس سے وہ کٹ گئی، لیکن جوڑ پر سے نہیں، پھر زخمی شخص نے رسول اللہ ﷺ سے فریاد کی، تو آپ ﷺ نے اس کے لیے دیت (خون بہا) دینے کا حکم فرمایا، وہ بولا : اللہ کے رسول ! میں قصاص لینا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : دیت لے لو، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اس میں برکت دے، اور اس کے لیے قصاص کا فیصلہ نہیں فرمایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٠، ومصباح الزجاجة : ٩٣٠) (ضعیف) (سند میں دھثم بن قرّان الیمامی متروک ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإ رواء : ٢٢٣٥ )

【23】

جن چیزوں میں قصاص نہیں

عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو زخم دماغ یا پیٹ تک پہنچ جائے، یا ہڈی ٹوٹ کر اپنی جگہ سے ہٹ جائے، تو اس میں قصاص نہ ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٣٩، ومصباح الزجاجة : ٩٣١) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ( ٣٩٠ ) وضاحت : ١ ؎: جن زخموں کی دیت میں برابری ہو سکے ان میں قصاص کا حکم دیا جائے گا، مثلاً کوئی عضو جوڑ سے کاٹ ڈالے تو کاٹنے والے کا بھی وہی عضو جوڑ پر سے کاٹا جائے گا، اور جن زخموں میں برابری نہ ہو سکے تو ان میں قصاص کا حکم نہ ہوگا بلکہ دیت دلائی جائے گی۔

【24】

(مجروح راضی ہو تو) زخمی کرنے والا قصاص کے بدلہ فدیہ دے سکتا ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوجہم بن حذیفہ (رض) کو مصدق (عامل صدقہ) بنا کر بھیجا، زکاۃ کے سلسلے میں ان کا ایک شخص سے جھگڑا ہوگیا، ابوجہم (رض) نے اسے مارا تو اس کا سر پھٹ گیا، وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور قصاص کا مطالبہ کرنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا تم اتنا اتنا مال لے لو ، وہ راضی نہیں ہوئے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا اتنا اتنا مال (اور) لے لو ، تو وہ راضی ہوگئے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں، اور تم لوگوں کی رضا مندی کی خبر سناؤں ؟ کہنے لگے : ٹھیک ہے، پھر نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا : یہ لیث کے لوگ میرے پاس آئے اور قصاص لینا چاہتے تھے، میں نے ان سے اتنا اتنا مال لینے کی پیشکش کی اور پوچھا : کیا وہ اس پر راضی ہیں ؟ کہنے لگے : نہیں، (ان کے اس رویہ پر) مہاجرین نے ان کو مارنے پیٹنے کا ارادہ کیا، آپ ﷺ نے انہیں باز رہنے کو کہا، تو وہ رک گئے، پھر آپ ﷺ نے ان کو بلایا اور کچھ اضافہ کردیا، اور پوچھا : کیا اب راضی ہیں ؟ انہوں نے اقرار کیا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا : کیا میں خطبہ دوں اور لوگوں کو تمہاری رضا مندی کی اطلاع دے دوں ؟ جواب دیا : ٹھیک ہے، آپ ﷺ نے خطبہ دیا، اور پھر کہا : تم راضی ہو ؟ جواب دیا : جی ہاں ١ ؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا کہ معمر اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہیں، میں نہیں جانتا کہ ان کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ١٣ (٤٥٣٤) ، سنن النسائی/القسامة ٢٠ (٤٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ خطبہ میں ان کی رضا مندی کی بات اس لئے کہتے تھے تاکہ لوگ گواہ ہوجائیں اور پھر وہ اپنے اقرار سے مکر نہ سکیں چونکہ آپ کو ان کی صداقت پر بھروسہ نہ تھا، اور ایسا ہوا بھی، پہلی بار راضی ہو کر گئے، مگر خطبہ کے وقت کہنے لگے کہ ہم راضی نہیں ہیں۔

【25】

جنین (پیٹ کے بچہ) کی دیت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنین (پیٹ کے بچے کی دیت) میں ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ فرمایا، تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا وہ بولا : کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ پیا ہو نہ کھایا ہو، نہ چیخا ہو نہ چلایا ہو، ایسے کی دیت کو تو لغو مانا جائے گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ تو شاعروں جیسی بات کرتا ہے ؟ پیٹ کے بچہ میں ایک غلام یا لونڈی (دیت) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطب ٤٦ (٥٧٥٨) ، الفرائض ١١ (٥٧٥٩) ، الدیات ٢٥ (٦٩٠٩) ، ٢٦ (٦٩١٠) ، صحیح مسلم/القسامة ١١ (١٦٨١) ، سنن ابی داود/الدیات ٢١ (٤٥٧٦) ، سنن الترمذی/الدیات ١٥ (١٤١٠) ، الفرائض ١٩ (٢١١١) ، سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٨٢٢) ، موطا امام مالک/العقول ٧ (٥) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٤، ٤٩٨، ٥٣٩) ، سنن الدارمی/الدیات ٢٠ (٢٤٢٥) (صحیح )

【26】

جنین (پیٹ کے بچہ) کی دیت

مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے لوگوں سے پیٹ سے گر جانے والے بچے کے بارے میں مشورہ لیا، تو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، آپ ﷺ نے اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا تو عمر (رض) نے کہا : اپنی اس بات کے لیے گواہ لاؤ، تو محمد بن مسلمہ (رض) نے ان کے ساتھ گواہی دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القسامة ٢ (١٦٨٩) ، سنن ابی داود/الدیات ٢١ (٤٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٣، ١١٥٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٣) ، سنن الدارمی/المقدمة ٥٤ (٦٦٨) ، الدیات ٢٠ (٢٤٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عمر (رض) نے مزید توثیق کے لئے گواہ طلب کیا تھا ورنہ مغیرہ بن شعبہ (رض) سچے صحابی رسول تھے، اور خبر واحد حجت ہے جب وہ ثقہ ہو۔

【27】

جنین (پیٹ کے بچہ) کی دیت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے جنین (پیٹ کے بچے) کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان تلاش کیا، تو حمل بن مالک (رض) نے کھڑے ہو کر کہا : میری دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا جس سے وہ اور اس کے پیٹ میں جو بچہ تھا دونوں مرگئے، پھر آپ ﷺ نے جنین (پیٹ کے بچہ) میں ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا، اور عورت کو عورت کے قصاص میں قتل کا فیصلہ فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٢١ (٤٥٧٢) ، سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٨٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٤، ٤/٧٩، سنن الدارمی/الدیات ٢١ (٢٤٢٧) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ جرم دو تھے ایک عورت کا قتل، دوسرا بچہ کا، ہر ایک کی سزا الگ الگ دلائی۔

【28】

دیت میں بھی میراث جاری ہوتی ہے

سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ عمر (رض) کہتے تھے کہ دیت (خون بہا) قاتل کے خاندان والوں کے ذمہ ہے، اور عورت کو اپنے شوہر کی دیت میں سے کچھ نہیں ملے گا، یہاں تک کہ ضحاک بن سفیان نے ان کو لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اشیم ضبابی (رض) کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت میں سے ترکہ دلایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفرائض ١٨ (٢٩٢٧) ، سنن الترمذی/الدیات ١٩ (١٤١٥) ، الفرائض ١٨ (٢١١٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٧٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العقول ١٧ (١٠) ، مسند احمد (٣/٤٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پہلے عمر (رض) کی رائے حدیث کے خلاف تھی، جب حدیث پہنچی تو اسی وقت اپنی رائے سے رجوع کرلیا، یہی حال تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور تمام علمائے صالحین کا تھا، لیکن اس زمانہ میں بعض نام کے مسلمان ایسے نکلے ہیں کہ اگر ایک حدیث نہیں دس صحیح حدیثیں بھی ان کو پہنچاؤ تب بھی قیاس اور رائے کی تقلید نہیں چھوڑتے۔

【29】

دیت میں بھی میراث جاری ہوتی ہے

عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حمل بن مالک ہذلی لحیانی (رض) کو ان کی بیوی کی دیت میں سے میراث دلائی جس کو ان کی دوسری بیوی نے قتل کردیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٤، ومصباح الزجاجة : ٩٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧٩) (صحیح) (اسحاق بن یحییٰ مجہول ہے، اور عبادہ (رض) سے ان کی ملاقات بھی نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【30】

کافر کی دیت

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا : دونوں اہل کتاب کی دیت مسلمان کی دیت کے مقابلہ میں آدھی ہے، اور دونوں اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٣٨، ومصباح الزجاجة : ٩٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدیات ١٧ (١٤١٣) ، سنن النسائی/القسامة ٣١ (٤٨١٠) (حسن) (نیز ملاحظہ ہو : الإ رواء : ٢٢٥١ ) وضاحت : ١ ؎: سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار تھی اور آٹھ ہزار درہم، اور اہل کتاب کی دیت مسلمانوں کے نصف تھی، جب عمر (رض) کا زمانہ آیا تو انہوں نے مسلمان کی دیت کو بڑھا دیا اور کافر کی دیت وہی رہنے دی۔

【31】

قاتل (مقتول کا) کا وارث نہیں بنے گا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قاتل وارث نہیں ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٧ (٢١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٨٦) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٧٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس کے جرم کی سزا ہے، اکثر لوگ اپنے مورث کو ترکہ پر قبضہ کرنے کے لیے مار ڈالتے ہیں، تو شریعت نے قاتل کو ترکہ ہی سے محروم کردیا تاکہ کوئی ایسا جرم نہ کرے۔

【32】

قاتل (مقتول کا) کا وارث نہیں بنے گا

عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی مدلج کے ابوقتادہ نامی شخص نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا جس پر عمر (رض) نے اس سے دیت کے سو اونٹ لیے : تیس حقے، تیس جذعے، اور چالیس حاملہ اونٹنیاں، پھر فرمایا : مقتول کا بھائی کہاں ہے ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : قاتل کے لیے کوئی میراث نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٥٤، ومصباح الزجاجة : ٩٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٩) ، موطا امام مالک/العقول ١٧ (١٠) (صحیح) (شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: حقہ: ایسی اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے میں لگ جائے۔ جذعہ: ایسی اونٹنی جو چار سال پورے کر کے پانچویں میں لگ جائے۔ مقتول کا بھائی کہاں ہے ؟ یعنی مقتول کے بھائی کو سارا مال دلا دیا۔

【33】

عورت کی دیت اس کے عصبہ پر ہوگی اور اس کی میراث اس کی اولاد کے لئے ہوگی۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت پر واجب دیت کو اس کے عصبہ (باپ کے رشتہ دار) ادا کریں گے، لیکن اس عورت کی میراث سے انہیں وہی حصہ ملے گا جو ورثاء سے بچ جائے گا، اگر عورت قتل کردی جائے، تو اس کی دیت اس کے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی، اور وہی اس کے قاتل کو قتل کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٨٧١٥، )، وقد أخرجہ : سنن النسائی/القسامة ٣٠ (٤٨٠٩) (حسن )

【34】

عورت کی دیت اس کے عصبہ پر ہوگی اور اس کی میراث اس کی اولاد کے لئے ہوگی۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبہ (باپ کے رشتہ داروں) پر ٹھہرائی تو مقتولہ کے عصبہ نے کہا : اس کی میراث کے حقدار ہم ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میراث اس کے شوہر اور اس کے لڑکے کو ملے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٢١ (٤٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٧) (صحیح )

【35】

دانت کا قصاص

انس (رض) کہتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر (رض) نے ایک لڑکی کے سامنے کا دانت توڑ ڈالا، تو ربیع کے لوگوں نے معافی مانگی، لیکن لڑکی کی جانب کے لوگ معافی پر راضی نہیں ہوئے، پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی، تو انہوں نے دیت لینے سے بھی انکار کردیا، اور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ ﷺ نے قصاص کا حکم دیا، تو انس بن نضر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا ؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ایسا نہیں ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا : اے انس ! اللہ کی کتاب قصاص کا حکم دیتی ہے ، پھر لوگ معافی پر راضی ہوگئے، اور اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشرف : ٦٤٦، ٧٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلح ٨ (٢٧٠٣) ، تفسیر البقرة ٢٣ (٤٤٩٩) ، المائدة ٦ (٤٦١١) ، الدیات ١٩ (٦٨٩٤) ، صحیح مسلم/القسامة ٥ (١٦٧٥) ، سنن ابی داود/الدیات ٣٢ (٤٥٩٥) ، سنن النسائی/القسامة ١٢ (٤٧٥٩) ، مسند احمد (٣/١٢٨، ١٦٧، ٢٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ربیع بنت نضر کے سگے بھائی اور انس بن مالک کے چچا ہیں رضی اللہ عنہم۔

【36】

دانتوں کی دیت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دیت کے معاملہ میں) سب دانت برابر ہیں، سامنے کے دانت اور داڑھ برابر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٢٠ (٤٥٥٩) ، سنن الترمذی/الدیات ٤ (١٣٩١) ، (تحفة الأشراف : ٦١٩٣) (صحیح )

【37】

دانتوں کی دیت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دانت کی دیت میں پانچ اونٹ کا فیصلہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٧٤، ومصباح الزجاجة : ٩٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدیات ٤ (١٣٩١) (صحیح )

【38】

انگلیوں کی دیت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دیت میں) یہ اور یہ یعنی چھنگلیا (سب سے چھوٹی انگلی) اور انگوٹھا سب برابر ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٢٠ (٦٨٩٥) ، سنن ابی داود/الدیات ٢٠ (٤٥٥٨) ، سنن الترمذی/الدیات ٤ (١٣٩٢) ، سنن النسائی/القسامة ٣٨ (٤٨٥١) ، (تحفة الأشراف : ٦١٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٩) ، سنن الدارمی/الدیات ١٥ (٢٤١٥) (صحیح )

【39】

انگلیوں کی دیت

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دیت میں) انگلیاں سب برابر ہیں، ہر ایک میں دس دس اونٹ دینے ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الدیات ٢٠ (٤٥٥٦) ، سنن النسائی/القسامة ٣٨ (٤٨٤٧) ، مسند احمد (٢/٢٠٧) ، سنن الدارمی/الدیات ١٥ (٢٤١٤) (حسن )

【40】

انگلیوں کی دیت

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (دیت کے معاملہ میں) سب انگلیاں برابر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٢٠ (٤٥٥٦، ٤٥٥٧) ، سنن النسائی/القسامة ٣٨ (٤٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٠) (صحیح )

【41】

ایسازخم جس سے ہڈی دکھائی دینے لگے لیکن ٹوٹے نہیں۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہڈی ظاہر کردینے والے زخم میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الدیات ٢٠ (٤٥٦٦) ، سنن الترمذی/الدیات ٣ (١٣٩٠) ، سنن النسائی/القسامة ٤٠ (٤٨٦١) ، مسند احمد (٢/١٧٧٩، ١٨٩، ٢٠٧، ٢١٢) ، سنن الدارمی/الدیات ١٦ (٢٤١٧) (حسن صحیح )

【42】

ایک شخص نے دوسرے کو کاٹا دوسرے نے اپنا ہاتھ اس کے دانتوں سے کھینچا تو اس کے دانت ٹوٹ گئے۔

یعلیٰ بن امیہ اور سلمہ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں نکلے، ہمارے ساتھ ہمارا ایک ساتھی تھا، وہ اور ایک دوسرا شخص دونوں آپس میں لڑ پڑے، جب کہ ہم لوگ راستے میں تھے، ان میں سے ایک نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا اور جب اس نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے کے دانت گرگئے، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اپنے دانت کی دیت مانگنے لگا، آپ ﷺ نے فرمایا : (عجیب ماجرا ہے) تم میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی کے ہاتھ کو اونٹ کی طرح چبانا چاہتا ہے اور پھر دیت مانگتا ہے، اس کی کوئی دیت نہیں، پھر آپ ﷺ نے اس کو باطل قرار دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ١٥ (٤٧٧٤، ٤٧٧٥، ٤٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٣٥، ٤٥٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٩ (١٨٤٧) ، الإجارة ٥ (٢٢٦٥) ، الجہاد ١٢٠ (٢٩٧٣) ، المغازي ٧٨ (٤٤١٧) ، الدیات ١٨ (٦٨٩٣) ، صحیح مسلم/القسامة ٤ (١٦٧٣) ، سنن ابی داود/الدیات ٢٤ (٤٥٨٤) ، مسند احمد (٤/٢٢٢، ٢٢٣، ٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ اس کا دانت اسی کے قصور سے گرا نہ وہ کاٹتا نہ دوسرا شخص اپنا ہاتھ کھینچتا، اور جب اس نے کاٹا تو وہ بےچارہ کیا کرتا آخر ہاتھ چھڑانا ضروری تھا۔

【43】

ایک شخص نے دوسرے کو کاٹا دوسرے نے اپنا ہاتھ اس کے دانتوں سے کھینچا تو اس کے دانت ٹوٹ گئے۔

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کاٹا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا سامنے کا دانت گرگیا ، مقدمہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا، تو آپ ﷺ نے اس کو باطل قرار دیا، اور فرمایا : تم میں سے ایک (دوسرے کے ہاتھ کو) ایسے چباتا ہے جیسے اونٹ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ١٨ (٦٨٩٢) ، صحیح مسلم/القسامة ٤ (١٦٧٣) ، سنن الترمذی/الدیات ٢٠ (١٤١٦) ، سنن النسائی/القسامة ١٤ (٤٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٧، ٤٣٨، ٤٣٠، ٤٣٥) ، سنن الدارمی/الدیات ١٨ (٢٤٢١) (صحیح )

【44】

کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔

ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) سے عرض کیا تمہارے پاس کوئی ایسا علم ہے جو دیگر لوگوں کے پاس نہ ہو ؟ وہ بولے : نہیں، اللہ کی قسم ! ہمارے پاس وہی ہے جو لوگوں کے پاس ہے، ہاں مگر قرآن کی سمجھ جس کی اللہ تعالیٰ کسی کو توفیق بخشتا ہے یا وہ جو اس صحیفے میں ہے اس (صحیفے) میں ان دیتوں کا بیان ہے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں، اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ١ ؎ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٠ (١١١) ، الجہاد ١٧١ (٣٠٤٧) ، الدیات ٢٤ (٦٩٠٣) ، سنن الترمذی/الدیات ١٦ (١٤١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الدیات ١١ (٤٥٣٠) ، سنن النسائی/القسامة ٥ (٤٧٣٨) ، مسند احمد (١/٧٩، ١٢٢) ، سنن الدارمی/الدیات ٥ (٢٤٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام بخاری کی روایت میں ہے کہ ابو جحیفہ (رض) نے کہا : کیا آپ کے پاس کوئی ایسی وحی ہے جو قرآن مجید میں نہ ہو ؟ یعنی موجودہ قرآن میں جو سب لوگوں کے پاس ہے، اس سے شیعوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن پورا نہیں ہے اس میں سے چند سورتیں غائب ہیں، اور پورا قرآن نبی کریم ﷺ کے بعد علی مرتضی (رض) کے پاس تھا، پھر ہر ایک امام کے پاس آتا رہا یہاں تک کہ امام مہدی کے پاس آیا اور وہ غائب ہیں، جب ظاہر ہوں گے تو دنیا میں پورا قرآن پھیلے گا، معاذ اللہ یہ سب اکاذیب اور خرافات ہیں، حدیث میں علی (رض) نے قسم کھا کر بتادیا کہ ہمارے پاس وہی علم ہے جو اور لوگوں کے پاس ہے۔

【45】

کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ١٧ (١٤١٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٣٩ ألف) (حسن صحیح )

【46】

کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ١ ؎، اور نہ وہ (کافر) جس کی حفاظت کا ذمہ لیا گیا ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٠، ومصباح الزجاجة : ٩٣٧) (وستأتي بقیتہ برقم : ٢٦٨٣) (صحیح) (سند میں حنش حسین بن قیس ابو علی الرحبی ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہاں کافر سے مراد حربی کافر ہے، اور اہل علم کا اجماع ہے کہ مسلمان کافر حربی کے بدلے نہ مارا جائے گا۔ ٢ ؎: جس غیر مسلم کی حفاظت کا عہد کیا جائے اس کا قتل بھی ناجائز ہے، اس لیے کہ دین اسلام میں عہدشکنی کسی حال میں جائز نہیں ہے۔

【47】

والد کو اولاد کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باپ بیٹے کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٩ (١٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الدیات ٦ (٢٤٠٢) (صحیح )

【48】

والد کو اولاد کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : باپ کو بیٹے کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٩ (١٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢، ٤٩) (صحیح) (سند میں حجاج بن أرطاة ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، ا لإ رواء : ٢٢١٤ )

【49】

کیا آزاد کو غلام کے بدلے قتل کرنا درست ہے۔

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے غلام کو قتل کیا ہم اسے قتل کریں گے، اور جس نے اس کی ناک کاٹی ہم اس کی ناک کاٹیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٧ (٤٥١٥، ٤٥١٦، ٤٥١٧) ، سنن الترمذی/الدیات ١٨ (١٤١٤) ، سنن النسائی/القسامة ٦ (٤٧٤٠) ، ٧ (٤٧٤٣) ، ١٢ (٤٧٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٦، ومصباح الزجاجة : ٩٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠، ١١، ١٢) ، سنن الدارمی/الدیات ٧ (٢٤٠٣) (ضعیف) (حسن بصری نے سمرہ (رض) سے یہ حدیث نہیں سنی ہے )

【50】

کیا آزاد کو غلام کے بدلے قتل کرنا درست ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو جان بوجھ کر قتل کردیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو سو کوڑے مارے، ایک سال کے لیے جلا وطن کیا، اور مسلمانوں کے حصوں میں سے اس کا حصہ ختم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٦٣، ١٠٠٢٢، ومصباح الزجاجة : ٩٣٨) (ضعیف جدا) (سند میں اسحاق بن عبد اللہ متروک راوی ہے، اور اسماعیل بن عیاش غیر شامیوں سے روایت میں ضعیف ہیں )

【51】

قاتل سے اسی طرح قصاص لیا جائے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک عورت کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل ڈالا، تو رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٥ (٢٧٤٦) ، الطلاق ٢٤ (تعلیقاً ) ، الدیات ٤ (٦٨٧٦) ، ٥ (٦٨٧٧) ، ١٢ (٦٨٨٤) ، صحیح مسلم/الحدود ٣ (١٦٧٢) ، سنن ابی داود/الدیات ١٠ (٤٥٢٧ مختصراً ) ، سنن الترمذی/الدیات ٦ (١٣٩٤) ، سنن النسائی/المحاربة ٧ (٤٠٤٩) ، (تحفة الأشرا ف : ١٣٩١) ، القسامة ٨ (٤٧٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٣، ١٨٣، ٢٠٣، ٢٦٧) ، سنن الدارمی/الدیات ٤ (٢٤٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بڑے پتھر سے اگر کوئی مارے جس سے آدمی مرجاتا ہے تو اس میں قصاص واجب ہوتا ہے اس لیے کہ وہ قتل عمد ہے، اس میں قصاص واجب ہوگا۔

【52】

قاتل سے اسی طرح قصاص لیا جائے

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر مار ڈالا تو آپ ﷺ نے لڑکی سے (اس کی موت سے پہلے) پوچھا : کیا تجھے فلاں نے مارا ہے ؟ لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا : نہیں، پھر آپ ﷺ نے دوسرے کے متعلق پوچھا : (کیا فلاں نے مارا ہے ؟ ) دوبارہ بھی اس نے سر کے اشارے سے کہا : نہیں، پھر آپ ﷺ نے تیسرے کے متعلق پوچھا : تو اس نے سر کے اشارے سے کہا : ہاں، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس یہودی کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کر قتل کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٤ (٥٢٩٥) ، تعلیقاً ، الدیات ٤ (٦٨٧٧) ، ٥ (٦٨٧٩) ، صحیح مسلم/الحدود ٣ (١٦٧٢) ، سنن ابی داود/الدیات ١٠ (٤٥٢٩) ، سنن النسائی/القسامة ٨ (٤٧٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧١، ٢٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس وجہ سے کہ یہودی نے جرم کا اقرار کیا جب پکڑا گیا۔

【53】

قصاص صرف تلوار سے لیا جائے

نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قصاص صرف تلوار سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٤٦، ومصباح الزجاجة : ٩٤٠) (ضعیف جدا) (سند میں جابر الجعفی ضعیف ہے، بلکہ کذاب ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإروا : ٧ /٢٨٧ )

【54】

قصاص صرف تلوار سے لیا جائے

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قصاص صرف تلوار سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشر اف : ١١٦٦٩، ومصباح الزجاجة : ٩٣٩) (ضعیف) (سند میں مبارک بن فضالہ اور حسن بصری مدلس ہیں، اور دونوں نے روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز حسن بصری نے ابوبکرة (رض) سے یہ حدیث نہیں سنی، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٢٢٩ )

【55】

کوئی بھی دوسرے پر جرم نہیں کرتا (یعنی کسی کے جرم کا مواخذہ دوسرے سے نہ ہوگا)

عمرو بن احوص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : خبردار ! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا، (یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہوگا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفتن ٢ (٢١٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کی شرح میں ابن الأثیر فرماتے ہیں : جنایہ: گناہ اور جرم انسان کے اس کام کا نام ہے جس پر دنیا یا آخرت میں وہ عذاب یا قصاص کا مستحق ہوتا ہے، یعنی کسی رشتہ دار یا دوسرے آدمی کو غیر کے گناہ اور جرم پر نہیں پکڑا جائے گا، تو جب کوئی جرم کرے گا تو اس پر دوسرے کو سزا نہ دی جائے گی، جیسا کہ ارشاد ہے : لا تزر وازرة وزر أخرى (سورة الأنعام : 164) کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا یعنی اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا، اور جس نے اچھا یا برا جو کچھ کیا ہوگا، اس کے مطابق جزا و سزا دے گا، نیکی کا اچھا بدلہ اور برے کاموں پر سزا دے گا، اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔

【56】

کوئی بھی دوسرے پر جرم نہیں کرتا (یعنی کسی کے جرم کا مواخذہ دوسرے سے نہ ہوگا)

طارق محاربی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپ ﷺ فرما رہے تھے خبردار ! کوئی ماں اپنے بچے کے جرم میں نہیں پکڑی جائے گی، خبردار ! کوئی ماں اپنے بچے کے جرم میں نہیں پکڑی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٩٠، ومصباح الزجاجة : ٩٤١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/القسامة ٣٥ (٤٨٣٧) (صحیح )

【57】

کوئی بھی دوسرے پر جرم نہیں کرتا (یعنی کسی کے جرم کا مواخذہ دوسرے سے نہ ہوگا)

خشخاش عنبری (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میرے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : تیری اس کے جرم پر اور اس کی تیرے جرم پر گرفت نہیں ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٣٤، ومصباح الزجاجة : ٩٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٥، ٥/٨١) (صحیح )

【58】

کوئی بھی دوسرے پر جرم نہیں کرتا (یعنی کسی کے جرم کا مواخذہ دوسرے سے نہ ہوگا)

اسامہ بن شریک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے جرم کا ذمہ دار نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ١٣٠، ومصباح الزجاجة : ٩٤٣) (حسن صحیح )

【59】

ان چیزوں کا بیان جن میں قصاص ہے نہ دیت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بےزبان (جانور) کا زخم بےقیمت اور بیکار ہے، کان اور کنویں میں گر کر مرجائے تو وہ بھی بیکار ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٦ (١٤٩٩) ، المساقاة ٣ (٢٣٥٥) ، الدیات ٢٨ (٦٩١٢) ، ٢٩ (٦٩١٣) ، صحیح مسلم/الحدود ١١ (١٧١٠) ، سنن ابی داود/الخراج ٤٠ (٣٠٨٥) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٧ (١٣٧٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٨ (٢٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٧١٣١٢٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العقول ١٨ (١٢) ، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٩ ٢٢، ٢٥٤، ٢٧٤، ٢٨٥، ٣١٩، ٣٨٢، ٣٨٦، ٤٠٦، ٤١١، ٤١٤، ٤٥٤، ٤٥٦، ٤٦٧، ٤٧٥، ٤٨٢، ٤٩٢، ٤٩٥، ٤٩٩، ٥٠١، ٥٠٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٠ (١٧١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جانور، کان اور کنواں کے مالک سے دیت نہیں لی جائے گی، یہ جب ہے کہ کوئی اپنی زمین میں کنواں کھودے یا مباح زمین میں راستہ میں کنواں کھودے اور کوئی اس میں گرپڑے یا دوسرے کی زمین میں کھودے تو کھودنے والا پکڑا جائے گا۔

【60】

ان چیزوں کا بیان جن میں قصاص ہے نہ دیت

عمرو بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بےزبان (جانور) کا زخم بیکار ہے، اور کان میں گر کر مرجائے تو وہ بھی بیکار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ١٠٧٨١، ومصباح الزجاجة : ٩٤٤) (صحیح) (کثیر بن عبد اللہ ضعیف راوی ہے، لیکن ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )

【61】

ان چیزوں کا بیان جن میں قصاص ہے نہ دیت

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا : کان بیکار ہے اور کنواں بیکار و رائیگاں ہے، اور عجماء چوپائے وغیرہ حیوانات کو کہتے ہیں، اور جبار ایسے نقصان کو کہتے ہیں جس میں جرمانہ اور تاوان نہیں ہوتا، کنواں بیکار و رائیگاں ہے، اور بےزبان (جانور) کا زخم بیکار و رائیگاں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٥٠٦٣، ومصباح الزجاجة : ٩٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٢٦، ٣٢٧) (صحیح) (سند میں اسحاق بن یحییٰ اور عبادہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس میں تاوان اور جرمانہ نہیں ہے۔

【62】

ان چیزوں کا بیان جن میں قصاص ہے نہ دیت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ بیکار ہے، اور کنواں بیکار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٣١ (٤٥٩٤) ، (تحفة الأ شراف : ١٤٦٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی نقصان کی صورت میں ان کا مالک ذمہ دار نہ ہوگا۔

【63】

قسامت کا بیان

سہل بن ابی حثمہ (رض) اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ (رض) دونوں محتاجی کی وجہ سے جو ان کو لاحق تھی (روزگار کی تلاش میں) اس یہودی بستی خیبر کی طرف نکلے، محیصہ (رض) کو خبر ملی کہ عبداللہ بن سہل (رض) قتل کر دئیے گئے ہیں، اور انہیں خیبر کے ایک گڑھے یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، وہ یہودیوں کے پاس گئے، اور کہا : اللہ کی قسم، تم لوگوں نے ہی ان (عبداللہ بن سہل) کو قتل کیا ہے، وہ قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم نے ان کا قتل نہیں کیا ہے، اس کے بعد محیصہ (رض) خیبر سے واپس اپنی قوم کے پاس پہنچے، اور ان سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ، اور عبدالرحمٰن بن سہل (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور محیصہ (رض) جو کہ خیبر میں تھے بات کرنے بڑھے تو آپ ﷺ نے محیصہ (رض) سے فرمایا : بڑے کا لحاظ کرو آپ ﷺ کی مراد عمر میں بڑے سے تھی چناچہ حویصہ (رض) نے گفتگو کی، اور اس کے بعد محیصہ (رض) نے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا : یا تو یہود تمہارے آدمی کی دیت ادا کریں ورنہ اس کو اعلان جنگ سمجھیں اور یہود کو یہ بات لکھ کر بھیج دی، انہوں نے بھی جواب لکھ بھیجا کہ اللہ کی قسم، ہم نے ان کو قتل نہیں کیا ہے، تو آپ ﷺ نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہم سے کہا : تم قسم کھا کر اپنے ساتھی کی دیت کے مستحق ہوسکتے ہو ، انہوں نے انکار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : پھر یہود قسم کھا کر بری ہوجائیں گے وہ کہنے لگے : وہ تو مسلمان نہیں ہیں، (کیا ان کی قسم کا اعتبار کیا جائے گا) آخر کار رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے عبداللہ بن سہل (رض) کی دیت ادا کی، اور ان کے لیے سو اونٹنیاں بھیجیں جنہیں ان کے گھر میں داخل کردیا گیا۔ سہل (رض) کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک لال اونٹنی نے مجھے لات ماری۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٧ (٢٧٠٢) ، الجزیة ١٢ (٣١٧٣) ، الأدب ٨٩ (٦١٤٣) ، الدیات ٢٢ (٦٨٩٨) ، الأحکام ٣٨ (٧١٩٢) ، صحیح مسلم/القسامة ١ (١٦٦٩) ، سنن ابی داود/الدیات ٨ (٤٥٢٠) ، ٩ (٤٥٢٣) ، سنن الترمذی/الدیات ٢٣ (١٤٤٢) ، سنن النسائی/القسامة ٣ (٤٧١٤) ، (تحفة الأ شراف : ٤٦٤٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القسامة ١ (١) ، مسند احمد (٤/٢، ٣) ، سنن الدارمی/الدیات ٢ (٢٣٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب قاتل کا پتہ نہ لگے تو مقتول کی دیت بیت المال سے دی جائے گی، اور مسلم نے ایک صحابی سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قسامت کی دیت کو باقی رکھا اسی طریقہ پر جیسے جاہلیت کے زمانہ میں رائج تھی، اور جاہلیت میں یہی طریقہ تھا کہ مقتول کے اولیاء مدعی علیہم میں سے لوگوں کو چنتے، پھر ان کو اختیار دیتے، چاہیں وہ قسم کھا لیں چاہیں دیت ادا کریں، جیسے اس قسامت میں ہوا جو بنی ہاشم میں ہوئی، علماء نے قسامت کی کیفیت میں اختلاف کیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جب قاتل ایک معین جماعت میں سے ہو تو اس میں سے مقتول کا ولی قاتل کی جماعت سے لوگوں کو چن کر پچاس قسمیں کھلوائے، اگر وہ حلف اٹھا لیں تو بری ہوں گئے ورنہ ان کو دیت دینی ہوگی۔ (ملاحظہ ہو : الروضۃ الندیہ ٣ /٣٨٨) ۔

【64】

قسامت کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ و محیصہ (رض) اور سہل کے دونوں بیٹے عبداللہ و عبدالرحمٰن (رض) خیبر کی جانب تلاش رزق میں نکلے، عبداللہ پر ظلم ہوا، اور انہیں قتل کردیا گیا، اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : قسم کھاؤ اور (دیت کے) مستحق ہوجاؤ وہ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! جب ہم وہاں حاضر ہی نہیں تھے تو قسم کیوں کر کھائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو یہود (قسم کھا کر) تم سے بری ہوجائیں گے وہ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! تب تو وہ ہمیں مار ہی ڈالیں گے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کردی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٨٦٧٨، ومصباح الزجاجة : ٩٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/القسامة ٢ (٤٧١٨) (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے) ۔ لیکن شاہد کی بنا پر صحیح ہے

【65】

جو اپنے غلام کا کوئی عضو کاٹے تو وہ غلام آزاد ہوجائے گا۔

سلمہ بن روح بن زنباع (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، انہوں نے اپنے غلام کو خصی کردیا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے غلام کو مثلہ (ناک کان یا کوئی عضو کاٹ دینا) کئے جانے کی بناء پر آزاد کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٣٦٥٠، ومصباح الزجاجة : ٩٤٧) (حسن) (سند میں اسحاق بن عبد اللہ ضعیف ہے، اور سلمہ بن روح مجہول، لیکن عبداللہ بن عمرو (رض) کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر اور دوسرے شواہد سے حسن ہے )

【66】

جو اپنے غلام کا کوئی عضو کاٹے تو وہ غلام آزاد ہوجائے گا۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس چیختا ہوا آیا، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا بات ہے ؟ وہ بولا : میرے مالک نے مجھے اپنی ایک لونڈی کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھ لیا، تو میرے اعضاء تناسل ہی کاٹ ڈالے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس آدمی کو میرے پاس لاؤ جب اسے ڈھونڈا گیا تو وہ نہیں مل سکا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جاؤ تم آزاد ہو، غلام بولا : اللہ کے رسول ! میری مدد کون کرے گا ؟ یعنی اگر میرا مالک مجھے پھر غلام بنا لے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایسی صورت میں ہر مومن یا مسلمان پر تمہاری مدد لازم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٧ (٤٥١٩) ، (تحفة الأ شراف : ٨٧١٦) ، و قد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٢، ٢٢٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: ان دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو سخت ایذا دے مثلاً اس کا کوئی عضو کاٹے یا اس کا بدن جلائے تو حاکم اس کو آزاد کرسکتا ہے، اور اس کے مالک کو جو سزا مناسب سمجھے وہ دے سکتا ہے۔

【67】

سب لوگوں میں عمدہ طریقہ سے قتل کرنے والے اہل ایمان ہیں۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قتل کے مسئلہ میں اہل ایمان سب سے زیادہ پاکیزہ اور بہتر ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٤١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٢٠ (٢٦٦٦) ، مسند احمد (١/٣٩٣) (ضعیف) (ہشیم بن بشیر اور شباک دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز سند میں اضطراب ہے ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٢٣٢ ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ وہ ناحق اور بےجا قتل نہیں کرتے، اور وہ انسان ہی نہیں بلکہ جانور کو بھی بری طرح تکلیف دے کر نہیں مارتے، اور وہ تیز چھری سے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں۔

【68】

سب لوگوں میں عمدہ طریقہ سے قتل کرنے والے اہل ایمان ہیں۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قتل کے مسئلہ میں اہل ایمان سب سے پاکیزہ لوگ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ١٢٠ (٢٦٦٦) ، (تحفة الأ شراف : ٩٤٧٦) (ضعیف) (ہنی بن نویرہ مقبول عند المتابعہ ہیں، اور سند میں اضطراب ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٢٣٢ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ بےجا قتل نہیں کرتے۔

【69】

تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے خون برابر ہیں، اور وہ اپنے مخالفوں کے لیے ایک ہاتھ کی طرح ہیں، ان میں سے ادنی شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہوگی، اور (لشکر میں) سب سے دور والا شخص بھی مال غنیمت کا مستحق ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٦٠٢٩، ومصباح الزجاجة : ٩٤٨) وقد مضی تمامہ برقم : (٢٦٦٠) (صحیح) (سند میں حنش (حسین بن قیس) ضعیف ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٣٤٧٥ ) وضاحت : ١ ؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً ایک لشکر لڑائی کے لئے نکلا کچھ آگے کچھ پیچھے اب آگے والوں کو کچھ مال ملا تو پیچھے والے بھی گو ان سے دور ہوں اس میں شریک ہوں گے، اس لئے کہ وہ ان کی مدد کے لئے آ رہے تھے تو گویا انہی کے ساتھ تھے۔

【70】

تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔

معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان اپنے علاوہ (دوسرے مذہب) والوں کے مقابلہ میں ایک ہاتھ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے خون برابر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ١١٤٧٠، ومصباح الزجاجة : ٩٤٩) (صحیح) (عبدالسلام بن أبی الجنوب ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے )

【71】

تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کا ہاتھ اپنے علاوہ دوسری قوم والوں پر ہے (یعنی ان سب سے لڑیں، آپس میں نہ لڑیں) ان کے خون اور ان کے مال برابر ہیں، مسلمانوں کا ادنی شخص کسی کو پناہ دے سکتا ہے اور لشکر میں دور والا شخص بھی مال غنیمت کا مستحق ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٨٧٣٩، ومصباح الزجاجة : ٩٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٥٩ (٢٧٥١) ، مسند احمد (٢/٢٠٥، ٢١٥، ٢١٦) (حسن صحیح) (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، کماتقدم )

【72】

ذمی کو قتل کرنا

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی ذمی کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ٥ (٣١٦٦) ، الدیات ٢٠ (٦٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٩١٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/القسامة ١٠ (٤٧٥٣) ، مسند احمد (٢/١٨٦) (صحیح )

【73】

ذمی کو قتل کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا : جس نے کسی ایسے ذمی کو قتل کردیا جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پناہ دے رکھی ہو، تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ١١ (١٤٠٣) ، (تحفة الأ شراف : ١٤١٤٠) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : (٤٥١ )

【74】

کسی مرد کو جان کی امان دیدی پھر قتل بھی کردیا جائے۔

رفاعہ بن شداد قتبانی کہتے ہیں کہ اگر وہ حدیث نہ ہوتی جو میں نے عمرو بن حمق خزاعی (رض) سے سنی ہے تو میں مختار ثقفی کے سر اور جسم کے درمیان چلتا، میں نے عمرو بن حمق خزاعی (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی کو جان کی امان دی، پھر اس کو قتل کردیا تو قیامت کے دن دغا بازی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٣٠، ومصباح الزجاجة : ٩٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٣، ٢٢٤، ٤٣٦، ٤٣٧) (صحیح )

【75】

کسی مرد کو جان کی امان دیدی پھر قتل بھی کردیا جائے۔

رفاعہ کہتے ہیں کہ میں مختار ثقفی کے پاس اس کے محل میں گیا، تو اس نے کہا : جبرائیل ابھی ابھی میرے پاس سے گئے ہیں ١ ؎، اس وقت اس کی گردن اڑا دینے سے صرف اس حدیث نے مجھے باز رکھا جو میں نے سلیمان بن صرد (رض) سے سنی تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص تم سے جان کی امان میں ہو تو اسے قتل نہ کرو، تو اسی بات نے مجھے اس کو قتل کرنے سے روکا ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث رفاعة تقدم تخریجہ بمثل الحدیث السابق (٢٦٨٨) ، وحدیث سلیمان بن صرد، تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٠ (الف) ، ومصباح الزجاجة : ٩٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٤) (ضعیف) (سند میں ابولیلیٰ اور أبوعکاشہ مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٢٠٠ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ رسالت کا دعوی کر رہا تھا۔

【76】

قاتل کو معاف کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قتل کردیا تو اس کا مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا، چناچہ آپ ﷺ نے قاتل کو مقتول کے ولی کے حوالے کردیا، قاتل نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم، میرا اس کو قتل کرنے کا قطعاً ارادہ نہیں تھا، آپ ﷺ نے ولی سے کہا : اگر یہ اپنی بات میں سچا ہے، اور تم نے اس کو قتل کردیا تو تم جہنم میں جاؤ گے تو مقتول کے ولی نے اس کو چھوڑ دیا، قاتل پٹے سے بندھا ہوا تھا، وہ پٹا گھسیٹتا ہوا نکلا، اور اس کا نام ہی پٹے والا پڑگیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٤٩٨) ، سنن الترمذی/الدیات ١٣ (١٤٠٧) ، سنن النسائی/القسامة ٣ (٤٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٧) (صحیح )

【77】

قاتل کو معاف کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے ولی کے قاتل کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے معاف کر دو ، اس نے انکار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : دیت لے لو اس نے انکار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اسے قتل کر دو اور تم بھی اسی کی طرح ہو جاؤ ١ ؎ چناچہ اس سے مل کر کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جاؤ تم اس کو قتل کر دو تم بھی اس کے مثل ہو جاؤ تو اس نے اسے چھوڑ دیا، قاتل کو اپنے گھر والوں کی طرف اپنا پٹا گھسیٹتے ہوئے جاتے دیکھا گیا، گویا کہ مقتول کے وارث نے اسے باندھ رکھا تھا ١ ؎۔ ابوعمیر اپنی حدیث میں کہتے ہیں : ابن شوذب نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے یہ قول نقل کیا ہے، نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی کے لئے اقتله فإنک مثله کہنا درست نہیں۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : یہ اہل رملہ کی حدیث ہے، ان کے علاوہ کسی اور نے یہ روایت نہیں کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣ (٤٧٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علماء نے حدیث کے اس ٹکڑے کی توضیح یوں کی ہے کہ قاتل قتل کی وجہ سے خیر سے محروم ہوا، تم بھی اس کو قصاصاً قتل کر کے خیر سے محروم ہوجاؤ گے، کیونکہ اس کو قتل کرنے سے مقتول زندہ نہیں ہوگا، ایسی صورت میں اس پر رحم کرنا ہی بہتر ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ اس نے قتل کی نیت سے اسے نہیں مارا تھا، اس لئے دیانۃ اس پر قصاص لازم نہیں تھا، اگرچہ قضاءاً لازم تھا، اور بعض کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس آدمی کو عمل کرنا چاہیے، گرچہ آپ کا فرمان بطور سفارش تھا، نہ کہ بطور حکم، اگر وہ آپ کے اس ارشاد کے خلاف کرتا تو اپنے آپ کو محرومی اور بدنصیبی کا مستحق بنا لیتا۔

【78】

قصاص معاف کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کے پاس قصاص کا کوئی مقدمہ آتا تو آپ اس کو معاف کردینے کا حکم دیتے (یعنی سفارش کرتے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٤٩٧) ، سنن النسائی/القسامة ٢٣ (٤٧٨٧، ٤٧٨٨) ، (تحفة الأ شراف : ١٠٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٣، ٢٥٢) (صحیح )

【79】

قصاص معاف کرنا

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : کوئی بھی شخص جس کے جسم کو صدمہ پہنچے پھر وہ ثواب کی نیت سے معاف کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیتا ہے، یہ میرے کانوں نے سنا اور دل نے یاد رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٥ (١٣٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤٨) (ضعیف) (سند میں ابوالسفر سعید بن أحمد ابوالدرداء سے سنا نہیں ہے، اس لئے یہ انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، ترمذی نے حدیث پر غریب کا حکم لگایا ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٤٨٢ )

【80】

حاملہ پر قصاص لازم آتا ہے۔

معاذ بن جبل، عبیدہ بن جراح، عبادہ بن صامت اور شداد بن اوس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت جب جان بوجھ کر قتل کا ارتکاب کرے اور وہ حاملہ ہو، تو اس وقت تک قتل نہیں کی جائے گی جب تک وہ بچہ کو جن نہ دے، اور کسی کو اس کا کفیل نہ بنا دے، اور اگر اس نے زنا کا ارتکاب کیا تو اس وقت تک رجم نہیں کی جائے گی جب تک وہ زچگی (بچہ کی ولادت) سے فارغ نہ ہوجائے، اور کسی کو اپنے بچے کا کفیل نہ بنا دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف : ٤٨٢٤، ٥٠٤٨، ٥١٠٣، ١١٣٤١، ومصباح الزجاجة : ٩٥٣) (ضعیف) (عبد الرحمن بن انعم افریقی، اور عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٢٢٥ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بچے کے پلنے کی صورت پیدا نہ ہوجائے مثلاً اور کوئی اس کا رشتہ دار بچے کی پرورش اپنے ذمہ لے لے، یا کوئی اور شخص یا بچہ اس لائق ہوجائے کہ آپ کھانے پینے لگے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کا کچھ قصور نہیں ہے، پھر اگر حاملہ عورت کو ماریں یا سنگسار کریں تو بچے کا مفت خون ہوگا۔