26. جہاد کا بیان
اللہ کے راستے میں لڑنے کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں نکلے، اور اسے اس کی راہ میں صرف جہاد اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نے نکالا ہو، (تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں، یا اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس منزل تک لوٹا دوں جہاں سے وہ گیا تھا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مجھے مسلمانوں کے مشقت میں پڑجانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کسی بھی سریہ (لشکر) کا جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے ساتھ نہ چھوڑتا، لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ سب کی سواری کا انتظام کرسکوں، نہ لوگوں کے پاس اتنی فراخی ہے کہ وہ ہر جہاد میں میرے ساتھ رہیں، اور نہ ہی انہیں یہ پسند ہے کہ میں چلا جاؤں، اور وہ نہ جاسکیں، پیچھے رہ جائیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کروں، اور قتل کردیا جاؤں، پھر جہاد کروں، اور قتل کردیا جاؤں، پھر جہاد کروں، اور قتل کردیا جاؤں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٦ (٣٦ مطولاً ) ، الجہاد ٢ ٢٧٨٧) ، فرض الخمس ٨ (٣١٢٣) ، التوحید ٢٨ (٧٤٥٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، سنن النسائی/الجہاد ١٤ (٣١٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٠١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجہاد ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٣١، ٣٨٤، ٣٩٩، ٤٢٤، ٤٩٤) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢ (٢٤٣٦) (صحیح )
اللہ کے راستے میں لڑنے کی فضیلت۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص کا اللہ تعالیٰ ضامن ہے، یا تو اسے اپنی رحمت و مغفرت میں ڈھانپ لے، یا ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اسے (گھر) واپس کرے، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال نہ تھکنے والے صائم تہجد گزار کی ہے یہاں تک کہ وہ مجاہد گھر لوٹ آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٢٤، ومصباح الزجاجة : ٩٧٣) (صحیح) (سند میں عطیہ العوفی ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث ابوہریرہ (رض) سے متفق علیہ وارد ہے، ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب : ١٣٠٤ و ١٣٢٠ )
راہِ اللہ میں ایک صبح اور ایک شام کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام (کا وقت گزارنا) دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٧ (١٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥ (٢٧٩٢) ، مسند احمد (٢/٥٣٢، ٥٣٣) (صحیح )
راہِ اللہ میں ایک صبح اور ایک شام کی فضیلت۔
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام (کا وقت گزارنا) دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥ (٢٧٩٤) ، ٧٣ (٢٨٩٢) ، الرقاق ٢ (٦٤١٥) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٠ (١٨٨١) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٧ (١٦٤٨) ، ٢٦ (١٦٦٤) ، سنن النسائی/الجہاد ١١ (٣١٢٠) ، مسند احمد (٣/٤٣٣، ٥/٣٣٥، ٣٣٧، ٣٣٩) ، سنن الدارمی/الجہاد ٩ (٢٤٤٣) (صحیح )
راہِ اللہ میں ایک صبح اور ایک شام کی فضیلت۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام (کا وقت گزارنا) دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥ (٢٧٩٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٠ (١٨٨٠) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٧ (١٦٥١) (صحیح )
راہِ اللہ میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرنا۔
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص اللہ کی راہ کے کسی مجاہد کو ساز و سامان سے لیس کر دے یہاں تک کہ اسے مزید کسی چیز کی ضرورت نہ رہ جائے تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مجاہد کو، یہاں تک کہ وہ مرجائے یا اپنے گھر لوٹ آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٠٥، ومصباح الزجاجة : ٩٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠، ٥٣) (ضعیف) (سند میں ولید بن أبو ولید ضعیف ہے، اور عثمان بن عبد اللہ کی عمر (رض) سے رو ایت مرسل و منقطع ہے )
راہِ اللہ میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرنا۔
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مجاہد فی سبیل اللہ کو ساز و سامان سے لیس کر دے، اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس مجاہد کو ملے گا، بغیر اس کے کہ اس کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٦ (١٦٢٩ ١٦٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣٨ (٢٨٤٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢١ (٢٥٠٩) ، سنن النسائی/الجہاد ٤٤ (٣١٨٢) ، مسند احمد (٤/١١٥، ١١٦، ١١٧، ٥/١٩٢، ١٩٣) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢٧ (٢٤٦٣) (صحیح )
راہ اللہ میں خرچ کرنے کی فضیلت۔
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہترین دینار جسے آدمی خرچ کرتا ہے وہ دینار ہے جسے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار ہے جسے وہ اپنے جہاد فی سبیل اللہ کے گھوڑے پر خرچ کرتا ہے، نیز وہ دینار ہے جسے وہ اپنے مجاہد ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٢ (٩٩٤) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٤٢ (١٩٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٥/ (٢٧٩، ٢٨٤) (صحیح )
راہ اللہ میں خرچ کرنے کی فضیلت۔
علی بن ابی طالب، ابوالدرداء، ابوہریرہ، ابوامامہ باہلی، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمرو بن العاص، جابر بن عبداللہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں) خرچ بھیجے، اور اپنے گھر بیٹھا رہے تو اس کے لیے ہر درہم کے بدلے سات سو درہم ہیں، اور جو شخص فی سبیل اللہ (اللہ کے راستے میں) بذات خود جہاد کرنے نکلے، اور خرچ کرے، تو اسے ہر درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کا ثواب ملے گا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : والله يضاعف لمن يشاء اور اللہ تعالیٰ جیسے چاہے دو گنا کر دے (سورۃ البقرہ : ٢٦١ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٢٧، ٨٦١٧، ١٠٠٦٨، ١٠٧٩٤، ١٠٩٢٩، ١٢٢٦١، ومصباح الزجاجة : ٩٧٥) (ضعیف) (سند میں خلیل بن عبداللہ مجہول راوی ہے )
جہاد چھوڑنے کی سخت وعید۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نہ غزوہ کرے، نہ کسی غازی کے لیے سامان جہاد کا انتظام کرے، اور نہ ہی کسی غازی کی غیر موجودگی میں اس کے گھربار کی بھلائی کے ساتھ نگہبانی کرے، تو اللہ تعالیٰ قیامت آنے سے قبل اسے کسی مصیبت میں مبتلا کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٨ (٢٥٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الجہاد ٢٦ (٢٤٦٢) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٨٠ )
جہاد چھوڑنے کی سخت وعید۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس پر جہاد فی سبیل اللہ کا کوئی نشان نہ ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس میں نقصان ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٦ (١٦٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٠، ٢١٤) (ضعیف) (سند میں ابو رافع ضعیف راوی ہیں )
جو (معقول) عذر کی وجہ سے جہاد نہ کرسکا۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے لوٹے، اور مدینہ کے نزدیک پہنچے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جس راہ پر تم چلے اور جس وادی سے بھی تم گزرے وہ تمہارے ہمراہ رہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : مدینہ میں رہ کر بھی وہ ہمارے ساتھ رہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، مدینہ میں رہ کر بھی، عذر نے انہیں روک رکھا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣٥ (٢٨٣٩) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٨ (١٩١١) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢٠ (٢٥٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً بیماری وغیرہ تو ایسے شخص کو جہاد کا ثواب ملے گا جب اس کی نیت جہاد کی ہو، لیکن عذر کی وجہ سے مجبور ہو کر رک جائے۔
جو (معقول) عذر کی وجہ سے جہاد نہ کرسکا۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم جس وادی سے بھی گزرے، یا جس راہ پر چلے ثواب میں ہر جگہ وہ تمہارے شریک رہے، انہیں عذر نے روک رکھا تھا ۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : ایسا ہی کچھ احمد بن سنان نے کہا میں نے اسے لفظ بلفظ لکھ لیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٨ (١٩١١) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٠) (صحیح )
راہِ اللہ میں مورچہ میں رہنے کی فضیلت
عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان (رض) نے لوگوں میں خطبہ دیا اور فرمایا : لوگو ! میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے جو میں نے تم سے صرف اس لیے نہیں بیان کی کہ میں تمہارا اور تمہارے ساتھ رہنے کا بہت حریص ہوں ١ ؎، اب اس پر عمل کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس نے اللہ کے راستے میں ایک رات بھی سرحد پر پڑاؤ ڈالا، تو اسے ہزار راتوں کے صیام و قیام کے مثل ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٨١٦، ومصباح الزجاجة : ٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٦١، ٦٤) (ضعیف جدا) (عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں، ترمذی اور نسائی کے یہاں یہ روایت صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا کے بغیر موجود ہے ) وضاحت : ١ ؎: کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حدیث سنتے ہی تم جہاد کے لئے نکل جاؤ اور میں اکیلا رہ جاؤں۔
راہِ اللہ میں مورچہ میں رہنے کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں رباط (سرحد پر پڑاؤ ڈالے ہوئے) مرجائے، تو جو وہ نیک عمل کرتا تھا اس کا ثواب اس کے لیے جاری رہے گا، جنت میں سے اس کا رزق مقرر ہوگا، قبر کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ہر ڈر اور گھبراہٹ سے محفوظ اٹھائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٧، ومصباح الزجاجة : ٩٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠٤) (صحیح )
راہِ اللہ میں مورچہ میں رہنے کی فضیلت
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ثواب کی نیت سے مسلمانوں کے ناکے پر (جہاں سے دشمن کے حملہ آور ہونے کا ڈر ہو) اللہ کی راہ میں سرحد پر ایک دن پڑاؤ کی حفاظت کا ثواب غیر رمضان میں سو سال کے روزوں، اور ان کے قیام اللیل صیام سے بڑھ کر ہے، اور اللہ کے راستے میں مسلمانوں کے ناکے پر ثواب کی نیت سے رمضان میں ایک دن کی سرحد کی نگرانی کا ثواب ہزار سال کے نماز سے بڑھ کر ہے، پھر اگر اللہ تعالیٰ نے اسے صحیح سالم گھر لوٹا دیا تو ایک ہزار سال تک اس کی برائیاں نہیں لکھی جائیں گی، نیکیاں لکھی جائیں گی، اور قیامت تک رباط کا ثواب جاری رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٥، ومصباح الزجاجة : ٩٧٩) (موضوع) (سند میں عمر بن صبح ہے، جو وضع حدیث کرتا تھا، نیز محمد بن یعلی ضعیف راوی ہے، اور مکحول کی أبی بن کعب (رض) سے ملاقات نہیں ہے )
راہِ اللہ میں چوکیدار اور اللہ اکبر کہنے کی فضیلت۔
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ لشکر کے پہرہ دار پر رحم فرمائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤٥، ومصباح الزجاجة : ٩٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الجہاد ١١ (٢٤٤٥) (ضعیف) (سند میں صالح بن محمد بن زائدہ ضعیف راوی ہے )
راہِ اللہ میں چوکیدار اور اللہ اکبر کہنے کی فضیلت۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوے سنا : اللہ کی راہ میں ایک رات پہرہ دینا، کسی آدمی کے اپنے گھر میں رہ کر ایک ہزار سال کے صوم و صلاۃ سے بڑھ کر ہے، سال تین سو ساٹھ دن کا ہوتا ہے، جس کا ہر دن ہزار سال کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٠، ومصباح الزجاجة : ٩٨١) (موضوع) (سند میں سعید بن خالد الطویل ہے، جو وضع حدیث کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٢٣٤ ، اس موضوع پر صحیح حدیث کے لئے ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٨٦٦ )
راہِ اللہ میں چوکیدار اور اللہ اکبر کہنے کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا : میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے، اور ہر اونچی زمین پر اللہ اکبر کہنے کی وصیت کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٤٦ (٣٤٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٦) ، وقد أخرجہ : ٢/٣٢٥، ٣٣١، ٤٤٣، ٤٧٦) (حسن )
جب لڑائی کا عام حکم ہو تو لڑنے کیلئے جانا۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہوگئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ١ ؎، اور ابوطلحہ (رض) کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ ﷺ فرما رہے تھے : لوگو ! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے ، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے گھوڑے کے متعلق فرمایا : ہم نے اسے سمندر پایا، یا واقعی یہ تو سمندر ہے ۔ حماد کہتے ہیں : مجھ سے ثابت نے یا کسی اور نے بیان کیا کہ وہ گھوڑا ابوطلحہ (رض) کا تھا، جو سست رفتار تھا لیکن اس دن کے بعد سے وہ کبھی کسی گھوڑے سے پیچھے نہیں رہا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الجہاد ٤٢ (٢٨٢٠) ، ٥٤ (٢٨٦٦) ، ٨٢ (٢٩٠٨) ، الأدب ٣٩ (٦٠٣٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ١١ (٢٣٠٧) ، سنن الترمذی/الجہاد ١٤ (١٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣/١٤٧، ١٦٣، ١٨٥، ٢٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب امام یا حاکم جہاد کے لئے نکلنے کا اعلان عام کر دے تو ہر ایک مسلمان جس کو کوئی عذر نہ ہو، کا جہاد کے لیے نکلنا واجب ہے۔ ٢ ؎: یہ برکت تھی آپ ﷺ کے فرمانے کی، آپ ﷺ کی زبان سے جو نکلا حق تعالیٰ ویسا ہی کردیا ایک سست رفتار اور خراب گھوڑا دم بھر میں عمدہ گھوڑوں سے زیادہ تیز اور چالاک ہوگیا۔
جب لڑائی کا عام حکم ہو تو لڑنے کیلئے جانا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل کھڑے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤١٨، ومصباح الزجاجة : ٩٨٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٤ (١٨٣٤) ، الجہاد ١ (٢٧٨٣) ، ٢٧ (٢٨٢٥) ، ١٩٤ (٣٠٧٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٠ (١٣٥٣) ، سنن الترمذی/السیر ٣٣ (١٥٩٠) ، سنن النسائی/البیعة ١٥ (٤١٧٥) ، مسند احمد (١/٢٢٦، ٢٦٦، ٣١٦، ٣٥٥) ، سنن الدارمی/السیر ٦٩ (٢٥٥٤) (صحیح )
جب لڑائی کا عام حکم ہو تو لڑنے کیلئے جانا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ کا غبار، اور جہنم کا دھواں، دونوں کسی مسلمان کے پیٹ میں اکٹھا نہ ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٨ (١٦٣٣) ، الزہد ٨ (٢٣١١) ، سنن النسائی/الجہاد ٨ (٣١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس نے جہاد میں گرد و غبار کھایا ہے وہ ضرور جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا۔
جب لڑائی کا عام حکم ہو تو لڑنے کیلئے جانا۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ایک شام بھی اللہ کی راہ میں چلا، تو جتنا غبار اس پر پڑا قیامت کے دن اس کے لیے اتنی ہی مشک ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣، ومصباح الزجاجة : ٩٨٣) (حسن )
بحری جنگ کی فضیلت۔
انس بن مالک (رض) اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان (رض) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز میرے قریب سوئے، پھر آپ ﷺ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اس سمندر کے اوپر اس طرح سوار ہو رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں ، ام حرام (رض) نے کہا : اللہ سے آپ دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی ان ہی لوگوں میں سے کر دے، انس (رض) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرما دی، پھر آپ ﷺ دوبارہ سو گئے، پھر ویسے ہی ہوا، آپ اٹھے تو ہنستے ہوئے، اور ام حرام (رض) نے وہی پوچھا جو پہلی بار پوچھا تھا، اور آپ ﷺ نے انہیں وہی جواب دیا جو پہلی بار دیا تھا، اس بار بھی انہوں نے عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے کر دے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم پہلے لوگوں میں سے ہو ۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت (رض) کے ہمراہ جہاد کے لیے نکلیں، یہ پہلا موقع تھا کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) کے ساتھ مسلمان بحری جہاد پر گئے تھے چناچہ جب لوگ جہاد سے لوٹ رہے تھے تو شام میں رکے، ام حرام (رض) کی سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا، جس نے انہیں گرا دیا، اور وہ فوت ہوگئیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣ (٢٧٨٨) ، ٨ (٢٧٩٩) ، ٦٣ (٢٨٧٧) ، ٧٥ (٢٨٩٤) ، ٩٣ (٢٩٢٤) ، الاستئذان ٤١ (٦٢٨٢) ، التعبیر ١٢ (٧٠٠١) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٩ (١٩١٢) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٠ (٢٤٩٠، ٢٤٩٢) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٥ (١٦٤٥) ، سنن النسائی/الجہاد ٤٠ (٣١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجہاد ١٨ (٣٩) ، مسند احمد (٣/٢٦٤، ٦/٣٦١، ٤٢٣، ٤٣٥) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢٩ (٢٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کے کئی معجزے مذکور ہیں : ایک تو اس بات کی پیش گوئی کہ اسلام کی ترقی ہوگی، دوسرے مسلمان سمندر میں جا کر جہاد کریں گے، تیسرے ام حرام (رض) بھی ان مسلمانوں کے ساتھ ہوں گی اور اس وقت تک زندہ رہیں گی، چوتھے پھر ام حرام (رض) کا انتقال ہوجائے گا اور دوسرے لشکر میں شریک نہیں ہو سکیں گی، یہ سب باتیں جو آپ ﷺ نے فرمائی تھیں پوری ہوئیں، اور یہ آپ ﷺ کی نبوت کی کھلی دلیلیں ہیں جو شخص نبی نہ ہو وہ ایسی صحیح پیشین گوئیاں نہیں کرسکتا، سب قوموں سے پہلے عرب کے مسلمانوں نے ہی سمندر میں بڑے بڑے سفر شروع کئے اور علم جہاز رانی میں وہ ساری قوموں کے استاد بن گئے، مگر افسوس ہے کہ گردش زمانہ سے اب یہ حال ہوگیا کہ عرب تمام علوم میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے ہیں، اور جو لوگ جاہل اور کم علم تھے یعنی یورپ کے لوگ وہ تمام جہاں کے لوگوں سے دنیاوی علوم و فنون میں سبقت لے گئے ہیں : وتلک الأيام نداولها بين الناس (سورة آل عمران : 140) اب بھی اگر مسلمانوں کی ترقی منظور ہے تو عربوں میں علوم اور فنون پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ان کو تمام جنگی علوم و فنون کی تعلیم دینا چاہیے، جب عرب پھر علوم میں ماہر ہوجائیں گے تو دنیا کی تمام اقوام کو ہلاکر رکھ دیں گے، یہ شرف اللہ تعالیٰ نے صرف عربوں ہی کو دیا ہے۔ واضح رہے کہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ (رض) انس بن مالک کی خالہ ہیں، ان کی شادی عبادہ بن صامت (رض) سے ہوئی تھی جن کے ساتھ وہ اس جہاد میں شریک ہوئیں اور سمندر کا سفر کیا بعد میں ایک جانور کی سواری سے گر کر انتقال ہوا اور قبرص میں دفن ہوئیں، یہ جنگ عثمان (رض) کے عہد میں معاویہ (رض) کی قیادت میں سن ٢٧ ہجری میں واقع ہوئی، ابوذر اور ابوالدرداء وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جنگ میں شریک تھے، معاویہ (رض) کی اہلیہ فاختہ بنت قرظہ (رض) بھی اس جنگ میں شریک تھیں۔
بحری جنگ کی فضیلت۔
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک بحری (سمندری) جہاد دس بری جہادوں کے برابر ہے، اور سمندر میں جس کا سر چکرائے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے خون میں لوٹ رہا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٠١، ومصباح الزجاجة : ٩٨٤) (ضعیف) (سند میں معاویہ بن یحییٰ اور ان کے شیخ لیث بن ابی سلیم دونوں ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٢٣٠ )
بحری جنگ کی فضیلت۔
ابواسامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : سمندر کا شہید خشکی کے دو شہیدوں کے برابر ہے، سمندر میں جس کا سر چکرائے وہ خشکی میں اپنے خون میں لوٹنے والے کی مانند ہے، اور ایک موج سے دوسری موج تک جانے والا اللہ کی اطاعت میں پوری دنیا کا سفر کرنے والے کی طرح ہے، اللہ تعالیٰ نے روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت (عزرائیل) کو مقرر کیا ہے، لیکن سمندر کے شہید کی جان اللہ تعالیٰ خود قبض کرتا ہے، خشکی میں شہید ہونے والے کے قرض کے علاوہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، لیکن سمندر کے شہید کے قرض سمیت سارے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٧٢، ومصباح الزجاجة : ٩٨٥) (ضعیف جدا) (سند میں عفیر بن معدان شامی سخت ضعیف روای ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١١٥ )
دیلم کا تذکرہ اور قزوین کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر دنیا کی عمر کا صرف ایک دن باقی رہا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ میرے خاندان کے ایک فرد کی حکومت قائم ہو، اور پھر وہ دیلم پہاڑ اور شہر قسطنطنیہ پر قابض ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٤١، ومصباح الزجاجة : ٩٨٦) (ضعیف) (سند میں قیس بن الربیع ضعیف راوی ہے )
دیلم کا تذکرہ اور قزوین کی فضیلت۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب تم ملکوں کو فتح کرو گے اور عنقریب تم ایک ایسا شہر فتح کرو گے جسے قزوین کہا جاتا ہے جو اس میں چالیس دن یا چالیس رات سرحد کی نگرانی کرے گا، اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک ستون ہوگا، جس پر سبز زمرد لگا ہوگا، پھر اس ستون پر سرخ یا قوت کا قبہ ہوگا جس کے ستر ہزار سونے کے چوکھٹے (دروازے) ہوں گے، اور ہر چوکھٹے پر بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے ایک بیوی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٦، ومصباح الزجاجة : ٩٨٧) (موضوع) (سند میں یزید بن ابان، ربیع بن صبیح اور داود بن المحبر ضعیف راوی ہیں، یزید وضع حدیث کرتا تھا، ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور یزید بن ابان کو اس سلسلے میں متہم کیا ہے، اور ابن ماجہ پر اس حدیث کی تخریج پر اظہار تعجب کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٨١ )
مرد کا جہاد کرنا حالانکہ اس کے والدین زندہ ہوں۔
معاویہ بن جاہمہ سلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا : میں اللہ کی رضا اور دار آخرت کی بھلائی کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کرنا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : افسوس، کیا تمہاری ماں زندہ ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : واپس جاؤ، اور اپنی ماں کی خدمت کرو پھر میں دوسری جانب سے آیا، اور میں نے عرض کیا : میں اللہ کی رضا جوئی اور دار آخرت کی خاطر آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ میں نے پھر کہا : ہاں ! اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے پاس واپس چلے جاؤ اور اس کی خدمت کرو ، پھر میں آپ ﷺ کے سامنے سے آیا اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اللہ کی رضا اور دار آخرت کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : افسوس، کیا تمہاری ماں زندہ ہے ؟ میں نے جواب دیا : ہاں ! اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : افسوس ! اس کے پیر کے پاس رہو، وہیں جنت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد ٦ (٣١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٩) (حسن صحیح ) اس سند سے بھی معاویہ بن جاھمہ (رض) نے اسی جیسی حدیث ذکر کی ہے۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : یہ جاھمہ بن عباس بن مرداس سلمی ہیں، جو رسول اللہ ﷺ سے جنگ حنین کے موقعہ پر (مال غنیمت کی تقسیم کے وقت) ناراض ہوگئے تھے۔
مرد کا جہاد کرنا حالانکہ اس کے والدین زندہ ہوں۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا : میں آپ کے ساتھ جہاد کے ارادے سے آیا ہوں، جس سے میرا مقصد رضائے الٰہی اور آخرت کا ثواب ہے، لیکن میں اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے پاس واپس لوٹ جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٣٣ (٢٥٢٨) ، سنن النسائی/الجہاد ٥ (٣١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٣٨ (٣٠٠٤) ، صحیح مسلم/البر ١ (٢٥٤٩) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢ (١٦٧١) ، مسند احمد (٢/١٦٥، ١٩٤، ١٩٨، ٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ماں کا حق اس حدیث سے معلوم کرنا چاہیے کہ اس کے پاؤں کے پاس جنت ہے، ماں کی خدمت کو آپ ﷺ نے جہاد پر مقدم رکھا، ماں باپ جہاد کی اجازت دیں تو آدمی جہاد کرسکتا ہے ورنہ جب تک وہ زندہ ہیں ان کی خدمت کو جہاد پر مقدم رکھے، ان کے مرنے کے بعد پھر اختیار ہے، ماں کا حق اتنا بڑا ہے کہ جہاد جیسا فریضہ اور اسلام کا رکن بغیر اس کی اجازت کے ناجائز ہے۔ جلیل القدر محترم بزرگ اویس قرنی (رح) اپنی بوڑھی ماں کی خدمت میں مصروف رہے اور نبی کریم ﷺ کی زیارت کے لئے نہ آسکے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وفات پائی۔ جو لوگ اپنے ماں باپ کو ستاتے، ان کو ناراض کرتے ہیں وہ ان حدیثوں پر غور کریں، اگر ماں باپ ناراض رہیں گے تو جنت کا ملنا دشوار ہے، جو اپنے ماں باپ کو ناراض کرتا ہے، ایسے شخص کی دنیاوی زندگی بھی بڑی خراب گزرتی ہے، یہ امر تجربہ اور مشاہدہ سے معلوم ہے۔
قتال کی نیت۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بہادری کی شہرت کے لیے لڑتا ہے، اور جو خاندانی عزت کی خاطر لڑتا ہے، اور جس کا مقصد ریا و نمود ہوتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے کلمے کی بلندی کے مقصد سے جو لڑتا ہے وہی مجاہد فی سبیل اللہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٥ (١٢٣) ، الجہاد ١٥ (٢٨١٠) ، الخمس ١٠ (٣١٢٦) ، التوحید ٢٨ (٧٤٥٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٢ (١٩٠٤) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢٦ (٢٥١٧، ٢٥١٨) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٦ (١٦٤٦) ، سنن النسائی/الجہاد ٢١ (٣١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٢، ٣٩٧، ٤٠٥، ٤١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بہادری کے اظہار کے لیے اور خاندانی شہرت و جاہ کے لیے یا ریاکاری اور دکھاوے کے لیے یا دنیا اور مال و ملک کے لئے جس میں کوئی دینی مصلحت نہ ہو لڑنا جہاد نہیں ہے، اسلام کے بول بالا کے لیے اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے اللہ کو راضی کرنے کے لیے جو جہاد ہوگا وہ اسلامی جہاد ہوگا، اور وہی اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوگا، اگلے لوگوں میں اگر کبھی جہاد کے دوران اللہ کے سوا کسی اور کا خیال بھی آجاتا تو لڑائی چھوڑ دیتے تھے۔
قتال کی نیت۔
ابوعقبہ (رض) جو کہ اہل فارس کے غلام تھے کہتے ہیں کہ میں جنگ احد میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حاضر تھا، میں نے ایک مشرک پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ لے میرا یہ وار، میں فارسی جوان ہوں، اس کی خبر جب نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ لے میرا یہ وار اور میں انصاری نوجوان ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٢١ (٥١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٥) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن أبی عقبہ ضعیف اور محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
قتال کی نیت۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوے سنا : لشکر کی جو ٹکڑی اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور مال غنیمت پالے، تو سمجھو اس نے ثواب کا دو تہائی حصہ تو دنیا ہی میں حاصل کرلیا، لیکن اگر مال غنیمت نہیں ملتا تو ان کے لیے پورا ثواب ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٤ (١٩٠٦) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٣ (٢٤٩٧) ، سنن النسائی/الجہاد ١٥ (٣١٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٩) (صحیح )
راہِ اللہ میں (قتال کیلئے) گھوڑے پالنا۔
عروہ بارقی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑوں کی پیشانی پر قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٣ (٢٨٥٠) ، ٤٤ (٢٨٥٢) ، الخمس ٨ (٣١١٩) ، المناقب ٢٨ (٣٦٤٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٦ (١٨٧٣) ، سنن الترمذی/الجہاد ١٩ (١٦٩٤) ، سنن النسائی/الخیل ٦ (٣٦٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٥) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٤ (٢٤٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جو گھوڑا جہاد کی نیت سے رکھا جائے، اس کا کھلانا پلانا چرانا سب اجر ہی اجر ہے، اور ہر ایک میں گھوڑے کے مالک کو ثواب ہے۔
راہِ اللہ میں (قتال کیلئے) گھوڑے پالنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٦ (١٨٧١) ، سنن النسائی/الخیل ٦ (٣٦٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٣ (٢٨٤٩) ، المناقب ٢٨ (٣٦٤٤) ، موطا امام مالک/الجہاد ١٩ (٤٤) ، مسند احمد (٢/٤٩، ٥٧، ١٠١، ١١٢) (صحیح )
راہِ اللہ میں (قتال کیلئے) گھوڑے پالنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گھوڑوں کی پیشانی میں بھلائی ہے یا فرمایا : گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر اور بھلائی بندھی ہوئی ہے، گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک شخص کے لیے وہ اجر و ثواب ہیں، ایک کے لیے ستر (پردہ) ہیں، اور ایک کے واسطے عذاب ہیں، (پھر آپ نے تفصیل بیان کی) اس شخص کے لیے تو باعث اجر و ثواب ہیں جو انہیں اللہ کی راہ میں جہاد کی غرض سے رکھے، اور انہیں تیار کرے، چناچہ ان کے پیٹ میں جو چیز بھی جائے گی وہ اس شخص کے لیے نیکی شمار ہوگی، اگر وہ انہیں گھاس والی زمین میں بھی چرائے گا تو جو وہ کھائیں گے اس کا ثواب اسے ملے گا، اگر وہ انہیں بہتی نہر سے پانی پلائے گا تو پیٹ میں جانے والے ہر قطرے کے بدلے اسے ثواب ملے گا، حتیٰ کہ آپ نے ان کے پیشاب اور لید (گوبر) میں بھی ثواب بتایا، اگر وہ ایک یا دو میل دوڑیں تو بھی ہر قدم کے بدلے جسے وہ اٹھائیں گے ثواب ملے گا، اور جس شخص کے لیے گھوڑے ستر (پردہ) ہیں وہ ہے جو انہیں عزت اور زینت کی غرض سے رکھتا ہے، لیکن ان کی پیٹھ اور پیٹ کے حق سے تنگی اور آسانی کسی حال میں غافل نہیں رہتا، لیکن جس شخص کے حق میں یہ گھوڑے گناہ ہیں وہ شخص ہے جو غرور، تکبر، فخر اور ریا و نمود کی خاطر انہیں رکھتا ہے، تو یہی وہ گھوڑے ہیں جو اس کے حق میں گناہ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٦ (٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشرب المساقاة ١٢ (٢٣٧١) ، الجہاد ٤٨ (٢٨٦٠) ، المناقب ٢٨ (٣٦٤٦) ، تفسیر سورة الزلزلة ١ (٤٩٦٢) ، الاعتصام ٢٤ (٧٣٥٦) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٠ (١٦٣٦) ، سنن النسائی/الخیل (٣٥٩٢) ، موطا امام مالک/الجہاد ١ (٣) ، مسند احمد (٢/٢٦٢، ٢٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سواری کا حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اس کو ضرورت کی وجہ سے مانگے تو اسے دے یا کوئی پریشان مسلمان راہ میں ملے تو اس کو سوار کرلے، اور بعضوں نے کہا : ان کی زکاۃ ادا کرے، لیکن جمہور علماء کے نزدیک گھوڑوں میں زکاۃ نہیں ہے اور پیٹ کا حق یہ ہے کہ ان کے پانی چارے کی خبر اچھی طرح رکھے اگر ہمیشہ ممکن نہ ہو تو کبھی کبھی خود اس کی دیکھ بھال کرے۔
راہِ اللہ میں (قتال کیلئے) گھوڑے پالنا۔
ابوقتادہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کالا گھوڑا جس کی پیشانی، ہاتھ، پیر، ناک اور اوپر کا ہونٹ سفید ہوں، اور دایاں ہاتھ باقی جسم کی طرح ہو، سب سے عمدہ ہے، اگر وہ کالا نہ ہو تو انہیں صفات والا سرخ سیاہی مائل گھوڑا عمدہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجہاد ٢٠ (١٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٠٠) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٥ (٢٤٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کمیت ہو سفید پیشانی یا کمیت سفید ہاتھ پاؤں یا کمیت سفید لب اور بینی یا کمیت صرف جس کا دایاں ہاتھ سفید ہو، یہ سب عمدہ قسمیں ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشکی رنگ گھوڑوں کے سب رنگوں میں عمدہ ہے، اور حقیقت میں اس رنگ والا گھوڑا نہایت مضبوط اور محنتی ہوتا ہے۔
راہِ اللہ میں (قتال کیلئے) گھوڑے پالنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایسے گھوڑے کو ناپسند فرماتے تھے جس کے تین پیر سفید اور ایک پیر کا رنگ باقی جسم کا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٧ (١٨٧٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ٤٦ (٢٥٤٧) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢١ (١٦٩٨) ، سنن النسائی/الخیل ٤ (٣٥٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦، ٤٦١، ٤٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شکال: وہ یہ ہے کہ تین پاؤں سفید ہوں ایک سارے بدن کے رنگ پر ہو، اس کو ارجل بھی کہتے ہیں، اب تک گھوڑے والے ایسے رنگ کو مکروہ اور نامبارک سمجھتے ہیں، مگر عوام میں یہ مشہور ہے کہ اگر پیشانی پر بھی سفیدی ہو تو شکال ضرر نہیں کرتا، لیکن حدیث مطلق ہے اور بعضوں نے کہا کہ شکال یہ ہے کہ داہنا ہاتھ سفید ہو تو بایاں پاؤں سفید ہو یا بایاں ہاتھ سفید نہ ہو تو داہنا پاؤں سفید ہو واللہ اعلم
راہِ اللہ میں (قتال کیلئے) گھوڑے پالنا۔
تمیم داری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کی غرض سے گھوڑا باندھا، پھر دانہ چارہ اپنے ہاتھ سے کھلایا، تو اس کے لیے ہر دانے کے بدلے ایک نیکی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥٩، ومصباح الزجاجة : ٩٨٨) (صحیح) (سند میں محمد بن عقبہ بیٹے، باپ اور دادا سب مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے )
اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں قتال کرنا۔
معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوے سنا : جو مسلمان شخص اللہ کے راستے میں اونٹنی کا دودھ دوھنے کے درمیانی وقفہ کے برابر لڑا، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٤٢ (٢٥٤١) ، سنن النسائی/الجہاد ٢٥ (٣١٤٣) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٩ (١٦٥٤) ، ٢١ (١٩٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٥، ٢٤٣، ٢٤٤، سنن الدارمی/الجہاد ٥ (٢٤٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اونٹنی کا دددھ دوھنے کے درمیانی وقفہ سے مراد یا تو وہ ٹھہرنا ہے جو ایک وقت سے دوسرے وقت تک ہوتا ہے مثلاً صبح کو دودھ دوہ کر پھر شام کو دوہتے ہیں تو صبح سے شام تک لڑے یہ مطلب ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ ٹھہرنا مراد ہے جو دودھ دوہنے میں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں تاکہ اور دودھ تھن میں اتر آئے، پھر دوہتے ہیں یہ چار پانچ منٹ ہوتے ہیں، تو مطلب یہ ہوگا کہ جو کوئی اتنی دیر تک بھی اللہ کی راہ میں کافروں سے لڑا تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ سبحان اللہ جہاد کی فضیلت کا کیا کہنا۔
اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں قتال کرنا۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک لڑائی میں حاضر ہوا، تو عبداللہ بن رواحہ (رض) نے کہا : اے میرے نفس ! میرا خیال ہے کہ تجھے جنت میں جانا ناپسند ہے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تجھے جنت میں خوشی یا ناخوشی سے جانا ہی پڑے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٥٦، ومصباح الزجاجة : ٩٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ کی راہ میں شہید ہوگا اور شہادت جنت میں جانے کا سبب بنے گی، مگر نفس کو ناپسند ہے اس لئے کہ دنیا کی لذتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے، عبداللہ بن رواحہ (رض) نے جیسے قسم کھائی تھی ویسا ہی ہوا وہ جنگ موتہ میں شہید ہوئے جہاں جعفر بن ابی طالب اور زید بن حارثہ (رض) بھی شہید ہوئے اور اوپر ایک حدیث میں گزرا کہ اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو سچا کرے، عبد اللہ بن رواحہ بھی ایسے ہی بندوں میں تھے، (رض) وارضاہ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں قتال کرنا۔
عمرو بن عبسہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور میں نے آپ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس میں مجاہد کا خون بہا دیا جائے، اور جس کے گھوڑے کو بھی زخمی کردیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٧، ومصباح الزجاجة : ٩٩٠) ، وقد أخرحہ : مسند احمد (٤/١١٤) (صحیح) (سند میں محمد بن ذکوان اور شہر بن حوشب ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی پوری شہادت ہو خود بھی مارا جائے، اور گھوڑا بھی، یا اللہ تو ہمیں بھی راہ حق، اور خدمت دین میں شہادت نصیب فرما، اور موت کی تکالیف سے اور ہر ایک بیماری اور درد کے صدمہ سے بچا۔ آمین۔
اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں قتال کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخمی ہونے والا شخص (اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہو رہا ہے) قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا زخم بالکل اسی دن کی طرح تازہ ہوگا جس دن وہ زخمی ہوا تھا، رنگ تو خون ہی کا ہوگا، لیکن خوشبو مشک کی سی ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٧٤، ومصباح الزجاجة : ٩٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠ (٢٨٠٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢١ (١٦٥٦) ، موطا امام مالک/الجہاد ١٤ (٢٩) ، مسند احمد (٢/٣٩١، ٣٩٨، ٣٩٩، ٤٠٠، ٥١٢، ٥٢، ٥٣١، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٥ (٢٤٥٠) (حسن صحیح )
اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں قتال کرنا۔
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (کفار کے) گروہوں پر بد دعا کی، اور یوں فرمایا : اے اللہ ! کتاب کے نازل فرمانے والے، جلد حساب لینے والے، گروہوں کو شکست دے، اے اللہ ! انہیں شکست دے، اور جھنجوڑ کر رکھ دے (کہ وہ پریشان و بےقرار ہو کر بھاگ کھڑے ہوں) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٨ (٢٩٣٣) ، صحیح مسلم/الجہاد ٧ (١٧٤٢) ، سنن الترمذی/الجہاد ٨ (١٦٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٥١٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٥، ٣٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب جنگ میں کافروں کی فوجیں بہت ہوں تو یہی دعا پڑھنی چاہیے، نبی اکرم ﷺ نے یہ دعا جنگ احزاب میں کی تھی، یعنی غزوہ خندق میں جب کفار و مشرکین کے گروہ دس ہزار کی تعداد میں مدینہ منورہ پر چڑھ آئے تھے اور مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا تھا۔
اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں قتال کرنا۔
سہل بن حنیف (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے شہادت کا طالب ہو، اللہ تعالیٰ اسے شہیدوں کے مرتبے پر پہنچا دے گا، گرچہ وہ اپنے بستر ہی پر فوت ہوا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٦ (١٩٠٩) ، سنن ابی داود/الصلا ة ٣٦١ (١٥٢٠) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٩ (١٦٥٣) ، سنن النسائی/الجہاد ٣٦ (٣١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٥) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٦ (٢٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اس کی نیت شہادت کی تھی اور نی ۃ المومن خیر من عملہ مشہور ہے۔
اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے شہیدوں کا ذکر آیا، تو آپ نے فرمایا : زمین شہید کا خون خشک بھی نہیں کر پاتی کہ اس کی دونوں بیویاں ان دائیوں کی طرح اس پر جھپٹتی ہیں، جنہوں نے غیر آباد مقام میں اپنے بچے کھو دئیے ہوں، ہر بیوی کے ہاتھ میں ایسا جوڑا ہوتا ہے جو دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٠٠، ومصباح الزجاجة : ٩٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٧، ٤٢٧) (ضعیف جدا) (ہلال بن أبی زینب مجہول اور شہر بن حوشب ضعیف ہیں، شعبہ نے شہر سے روایت ترک کردی تھی )
اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت
مقدام بن معد یکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے یہاں شہید کے لیے چھ بھلائیاں ہیں : ١ ۔ خون کی پہلی ہی پھوار پر اس کی مغفرت ہوجاتی ہے، اور جنت میں اس کو اپنا ٹھکانا نظر آجاتا ہے ٢ ۔ عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے، ٣ ۔ حشر کی بڑی گھبراہٹ سے مامون و بےخوف رہے گا، ٤ ۔ ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے، ٥ ۔ حورعین سے نکاح کردیا جاتا ہے، ٦ ۔ اس کے اعزہ و اقرباء میں سے ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٥ (١٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣١) (صحیح )
اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ جب جنگ احد میں (ان کے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام (رض) قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جابر ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے جو فرمایا ہے کیا میں تمہیں وہ نہ بتاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ! ضرور بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردہ کے پیچھے سے لیکن تمہارے والد سے آمنے سامنے بات کی، اور کہا : اے میرے بندے ! مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کرو، میں تجھے عطا کروں گا، انہوں نے کہا : اے میرے رب ! تو مجھے دوبارہ زندہ کر دے کہ میں دوبارہ تیرے راستے میں مارا جاؤں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس بات کا پہلے ہی فیصلہ ہوچکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا نہیں جائے گا، انہوں نے کہا : اے میرے رب ! میرے پسماندگان کو (میرا حال) پہنچا دے، تو یہ آیت نازل ہوئی : ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا (سورۃ آل عمران : ١٦٩ ) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں تم مردہ مت سمجھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٥٧ (ألف) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن (٣٠١٠) ، تقدم برقم : ١٩٠ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس سے بدھ مت والوں اور ہندؤں کا مذہب باطل ہوتا ہے، ان کے نزدیک سب آدمی اپنے اپنے اعمال کے موافق سزا اور جزا پا کر پھر دنیا میں جنم لیتے ہیں، مگر جو پرم ہنس یعنی کامل فقیر اللہ کی ذات میں غرق ہوجاتا ہے اس کا جنم نہیں ہوتا۔
اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون کے بارے میں (رسول اللہ ﷺ سے) سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہیں، پھر شام کو عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، ایک بار کیا ہوا کہ روحیں اسی حال میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا پھر فرمانے لگا : تمہیں جو چاہیئے مانگو، روحوں نے کہا : ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چلتی پھرتی ہیں، اس سے بڑھ کر کیا مانگیں ؟ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے خلاصی نہیں تو کہنے لگیں : ہمارا سوال یہ ہے کہ تو ہماری روحوں کو دنیاوی جسموں میں لوٹا دے کہ ہم پھر تیرے راستے میں قتل کئے جائیں، اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگ رہی ہیں تو چھوڑ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٣ (١٨٨٧) سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤ (٣٠١١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الجہاد ١٩ (٢٤٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل کئے جائیں ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ اپنے مالک کے پاس زندہ ہیں، ان کو روزی ملتی ہے، اس آیت سے شہیدوں کی زندگی اور ان کی روزی ثابت ہوئی، اور دوسری آیتوں اور حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت میں بدن سے روح کے نکلنے کا نام موت ہے، نہ یہ کہ روح کا فنا ہوجانا پس جب روح باقی ہے اور فنا نہیں ہوئی، تو زندگی بھی باقی ہے، البتہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ دنیا کی سی زندگی ہے، بلکہ شاید دنیاوی زندگی سے زیادہ قوی اور طاقتور ہو، اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب سب لوگ زندہ ہیں تو پھر شہداء کی کیا خصوصیت ہے ؟ حالانکہ اس آیت سے ان کی خصوصیت نکلتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ شہداء کی خصوصیت اور ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں اور اللہ کے پاس معظم و مکرم بھی، ان کو جنت کے پھل روز کھانے کو ملتے ہیں، یہ سب باتیں اوروں کے لئے نہ ہوں گی، مگر دوسری حدیث میں ہے کہ مومنوں کی روحیں چڑیوں کے لباس میں جنت میں چلتی پھرتی ہیں، اس میں سارے مومن داخل ہوگئے، اور ایک حدیث میں ہے کہ قبر میں جنت کی طرف ایک راستہ مومن کے لئے کھول دیا جائے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک مومن کی روح وہیں رہے گی، غرض روح کے مسکن کے باب میں علماء کے بہت اقوال ہیں جن کو امام ابن القیم (رح) نے تفصیل سے حادی الأرواح إلی بلاد الأفراح میں ذکر کیا ہے، اور سب سے زیادہ راجح قول یہی ہے کہ مومنوں کی روحیں جنت میں ہیں، اور کافروں کی جہنم میں، واللہ اعلم۔
اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمہیں چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٦ (١٦٦٨) ، سنن النسائی/الجہاد ٣٥ (٣١٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٧) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٧ (٢٤٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بہت ہلکا اور خفیف صدمہ ہوتا ہے جس کا احساس نہیں ہوتا اور یہ ہلکا صدمہ بھی مرتے ہی جاتا رہتا ہے، پھر تو طرح طرح کے عیش اور آرام نصیب ہوتے ہیں، یہاں تک کہ دوبارہ مارے جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، یا اللہ ! تو اپنے فضل و کرم سے موت کو ہم پر آسان کر دے کہ چیونٹی کے کاٹنے کی طرح بھی معلوم نہ ہو۔
درجات شہادت کا بیان۔
جابر بن عتیک (رض) سے روایت ہے کہ وہ بیمار ہوئے تو نبی اکرم ﷺ بیمار پرسی (عیادت) کے لیے تشریف لائے، ان کے اہل خانہ میں سے کسی نے کہا : ہمیں تو یہ امید تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں شہادت کی موت مریں گے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تب تو میری امت کے شہداء کی تعداد بہت کم ہے ! (نہیں ایسی بات نہیں بلکہ) اللہ کے راستے میں قتل ہونا شہادت ہے، مرض طاعون میں مرجانا شہادت ہے، عورت کا زچگی (جننے کی حالت) میں مرجانا شہادت ہے، ڈوب کر یا جل کر مرجانا شہادت ہے، نیز پسلی کے ورم میں مرجانا شہادت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ١٥ (٣١١١) ، سنن النسائی/الجنائز ١٤ (١٨٤٧) ، الجہاد ٣٩ (٣١٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١٧٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٢ (٣٦) ، مسند احمد (٥/٤٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ ان سب کو شہیدوں کا ثواب اور درجہ ملے گا گرچہ ان کے احکام شہید کے سے نہیں ہیں، اس لئے ان کو غسل دیا جائے گا، ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اس پر بھی بڑا شہید وہی ہے جو اللہ کی راہ یعنی جہاد میں مارا جائے۔
درجات شہادت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : تم شہید کسے سمجھتے ہو ؟ لوگوں نے جواب دیا : اللہ کے راستے میں مارا جانا (شہادت ہے) فرمایا : تب تو میری امت میں بہت کم شہید ہوں گے ! (پھر آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ایسی بات نہیں بلکہ) جو اللہ کے راستے میں مارا جائے وہ شہید ہے، جو اللہ کے راستے میں مرجائے وہ بھی شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے، طاعون کے مرض میں مرنے والا شہید ہے ۔ سہیل کہتے ہیں : مجھے عبیداللہ بن مقسم نے خبر دی وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، اس میں یہ لفظ زیادہ ہے : اور ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٢ (٦٥٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥١ (١٩١٤) (صحیح )
ہتھیار باندھنا۔
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن اس حال میں مکہ داخل ہوئے کہ آپ کے سر پر خود تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٨ (١٨٤٦) ، الجہاد ١٦٠ (٣٠٤٤) ، المغازي ٤٨ (٤٢٨٦) ، اللباس ١٧ (٥٨٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٧) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٢٧ (٢٦٨٥) ، سنن الترمذی/الجہاد ١٨ (١٦٩٣) ، الشمائل ١٦ (١٠٦) ، سنن النسائی/الحج ١٠٧ (٢٨٧٠، ٢٨٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٨١ (٢٤٧) ، مسند احمد (٣/١٠٩، ١٦٤، ١٨٠، ١٨٦، ٢٢٤، ٢٣٢، ٢٤٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٨ (١٩٨١) ، السیر ٢٠ (٢٥٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خود لوہے کی ٹوپی کو کہتے ہیں جسے تلوار وغیرہ سے بچاؤ کے لیے سر پر پہنا جاتا ہے۔
ہتھیار باندھنا۔
سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ احد کے موقعہ پر اوپر نیچے دو زرہیں پہنیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٠٥، ومصباح الزجاجة : ٩٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ٧٥ (٢٥٩٠) ، مسند احمد (٣/٤٤٩) (صحیح )
ہتھیار باندھنا۔
سلیمان بن حبیب کہتے ہیں کہ ہم ابوامامہ (رض) کے پاس گئے، تو وہ ہماری تلواروں میں چاندی کا کچھ زیور دیکھ کر غصہ ہوگئے، اور کہنے لگے : لوگوں (صحابہ کرام) نے بہت ساری فتوحات کیں، لیکن ان کی تلواروں کا زیور سونا چاندی نہ تھا، بلکہ سیسہ، لوہا اور علابی تھا۔ ابوالحسن قطان کہتے ہیں : علابی : اونٹ کا پٹھا (چمڑا) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٨٣ (٢٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٧٤) (صحیح )
ہتھیار باندھنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ بدر کے دن اپنی ذوالفقار نامی تلوار (علی (رض) کو) انعام میں دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ١٢ (١٥١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٦١، ٢٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ انعام بطور نفل تھا اور نفل اس انعام کو کہتے ہیں جو کسی مجاہد کو اس کی کارکردگی اور بہادری کے صلہ میں حصہ سے زیادہ دیا جاتا ہے، یہ تلوار پہلے عاص بن امیہ کی تھی جو بدر کے دن کام آیا، پھر یہ رسول اکرم ﷺ کے پاس آئی، آپ نے اسے علی (رض) کو دے دیا، اور ان کے پاس یہ تلوار ان کے فوت ہونے تک رہی۔
ہتھیار باندھنا۔
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ (رض) جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کے لیے جاتے تو اپنے ساتھ برچھا لے جاتے، اور لوٹتے وقت اسے پھینک دیتے، انہیں دینے کے لیے کوئی اسے اٹھا لاتا، اس پر علی (رض) نے کہا : آپ کی یہ حرکت میں رسول اللہ ﷺ کو ضرور بتاؤں گا، تو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہا : ایسا نہ کریں، کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو گمشدہ چیز اٹھائی نہیں جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بن ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٢، ومصباح الزجاجة : ٩٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤٨) (ضعیف الإسناد) (ابواسحاق مدلس اور مختلط ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ابو خلیل عبد اللہ بن أبی الخلیل مقبول عند المتابعہ ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں ہے، تو وہ لین الحدیث ہوئے، امام بخاری نے فرمایا کہ ان کی متابعت نہیں کی جائے گی )
ہتھیار باندھنا۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک ہاتھوں میں ایک عربی کمان تھی، اور ایک شخص کے ہاتھ میں آپ نے فارسی کمان دیکھی تو فرمایا : یہ کیا ہے ؟ اسے پھینک دو ، اور اس طرح کی رکھو، اور نیزے رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان دونوں کے ذریعہ سے دین کو ترقی دے گا، اور تمہیں دوسرے ملکوں کو فتح کرنے پر قادر بنا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٦، ومصباح الزجاجة : ٩٩٥) (ضعیف الاسناد) (عبداللہ بن بشر الحبرانی ضعیف راوی ہیں )
راہ اللہ میں تیراندازی۔
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک تیر کے سبب اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا : ثواب کی نیت سے اس کے بنانے والے کو، چلانے والے کو، اور ترکش سے نکال نکال کردینے والے کو ، نیز آپ ﷺ نے فرمایا : تیر اندازی کرو، اور سواری کا فن سیکھو، میرے نزدیک تیر اندازی سیکھنا سواری کا فن سیکھنے سے بہتر ہے، مسلمان آدمی کا ہر کھیل باطل ہے سوائے تیر اندازی، گھوڑے کے سدھانے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، کیونکہ یہ تینوں کھیل سچے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١١ (١٦٣٧، ١٦٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٨، سنن الدارمی/الجہاد ١٤ (٢٤٤٩) (ضعیف) (وكل ما يلهو به کا لفظ صحیح ہے، اور آخری جملہ فإنهن من الحق ثابت نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو : الصحیحة : ٣١٥ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ کھیل بےکار اور لغو نہیں ہیں، پہلے دونوں کھیلوں میں آدمی جہاد کے لئے مستعد اور تیار ہوتا ہے اور اخیر کے کھیل میں اپنی بیوی سے الفت ہوتی ہے، اولاد کی امید ہوتی ہے جو انسان کی نسل قائم رکھنے اور بڑھانے کے لئے ضروری ہے۔
راہ اللہ میں تیراندازی۔
عمرو بن عبسہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو دشمن کو تیر مارے، اور اس کا تیر دشمن تک پہنچے، ٹھیک لگے یا چوک جائے، تو اس کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١١ (١٦٣٨) (صحیح )
راہ اللہ میں تیراندازی۔
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر آیت کریمہ : وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة (سورۃ الانفال : ٦٠ ) دشمن کے لیے طاقت بھر تیاری کرو کو پڑھتے ہوئے سنا : (اس کے بعد آپ ﷺ فرما رہے تھے :) آگاہ رہو ! طاقت کا مطلب تیر اندازی ہی ہے یہ جملہ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٢ (١٩١٧) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢٤ (٢٥١٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٩ (٣٠٨٣) ، مسند احمد (٤/١٥٧) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٤ (٢٤٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جنگجو کفار و مشرکین اور اعداء اسلام کے مقابلہ کے لئے ہمیشہ اپنی طاقت کو بڑھاتے رہو، اور ہر وقت جنگ کے لئے مستعد رہو گو جنگ نہ ہو، اس لئے کہ معلوم نہیں دشمن کس وقت حملہ کر بیٹھے، ایسا نہ ہو کہ دشمن تمہاری طاقت کم ہونے کے وقت غفلت میں حملہ کر بیٹھے اور تم پر غالب ہوجائے، افسوس ہے کہ مسلمانوں نے قرآن شریف کو مدت سے بالائے طاق رکھ دیا، ہزاروں میں سے ایک بھی مسلمان ایسا نظر نہیں آتا جو قرآن کو اس پر عمل کرنے کے لئے سمجھ کر پڑھے۔
راہ اللہ میں تیراندازی۔
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا، تو اس نے میری نافرمانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ٢٤ (٢٥١٣) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١١ (١٦٣٧) ، سنن النسائی/الجہاد ٢٦ (٣١٤٨) ، الخیل ٨ (٣٦٠٨) ، مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٦، ١٤٨، ١٥٤، سنن الدارمی/الجہاد ١٤ (٢٤٤٩) (ضعیف) (فقد عصانی کے لفظ سے ضعیف ہے، اور فلیس منّا کے لفظ سے صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ہتھیار چلانے کا علم سیکھے تو کبھی کبھی اس کی مشق کرتا رہے چھوڑ نہ دے تاکہ ضرورت کے وقت کام آئے اب تیر کے عوض بندوق اور توپ ہے۔
راہ اللہ میں تیراندازی۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو تیر اندازی کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسماعیل کی اولاد ! تیر اندازی کرو، تمہارے والد (اسماعیل) بڑے تیر انداز تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢٨، ومصباح الزجاجة : ٩٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسماعیل (علیہ السلام) کو ان کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) فاران کے میدان یعنی مکہ کی چٹیل زمین میں چھوڑ کر چلے آئے تھے وہ وہیں بڑے ہوئے، اور ان کو شکار کا بہت شوق تھا، اور بڑے تیر انداز اور بہادر تھے، تو نبی کریم ﷺ نے عربوں کو بھی تیر اندازی کی اس طرح سے ترغیب دی کہ یہ تمہارا آبائی پیشہ ہے اس کو خوب بڑھاؤ۔
علموں اور جھنڈوں کا بیان۔
حارث بن حسان (رض) کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو نبی اکرم ﷺ کو منبر پر کھڑے دیکھا، اور بلال (رض) آپ کے سامنے گلے میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، پھر اچانک ایک کالا بڑا جھنڈا دکھائی دیا، میں نے کہا : یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عمرو بن العاص (رض) ہیں جو ایک غزوہ سے واپس آئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٥١ (٢) (٣٢٧٣، ٣٢٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨٢) (حسن )
علموں اور جھنڈوں کا بیان۔
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا جھنڈا سفید تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٧٦ (٢٥٩٢) ، سنن الترمذی/الجہاد ٩ (١٦٧٩) ، سنن النسائی/الحج ١٠٦ (٢٨٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٨٩) (حسن )
علموں اور جھنڈوں کا بیان۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا بڑا جھنڈا کالا اور چھوٹا جھنڈا سفید تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجہاد ١٠ (١٦٨١) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٤٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں رایہ اور لواء کا لفظ ہے، رایہ یعنی بڑا جھنڈا کالا تھا، اور لواء چھوٹا جھنڈا سفید تھا، اس سے معلوم ہوا کہ امام کو لشکروں کو ترتیب دینا اور جھنڈے اور نشان بنانا مستحب ہے۔
جنگ میں دیباج وحریر (ریشمی لباس) پہننا۔
اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ریشم کی گھنڈیاں لگا ہوا جبہ نکالا اور کہنے لگیں : دشمن سے مقابلہ کے وقت نبی اکرم ﷺ اسے پہنتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس و الزینة ٢ (٢٠٦٩) ، سنن ابی داود/اللباس ١٢ (٤٠٥٤) ، سنن النسائی/الکبری الزینة (٩٦١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٧، ٣٤٨، ٣٥٣) ، الأدب المفرد (٣٤٨) (صحیح) (اس کی سند میں حجاج بن ارطاہ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، کما فی التخریج ) وضاحت : ١ ؎: اکثر اہل علم کے نزدیک لڑائی میں ریشمی کپڑا پہننا جائز ہے کیونکہ تلوار ریشم کو مشکل سے کاٹتی ہے، حریر اور دیباج میں یہ فرق ہے کہ دیباج خالص ریشم ہوتا ہے اور حریر میں ریشم ملا ہوتا ہے۔
جنگ میں دیباج وحریر (ریشمی لباس) پہننا۔
عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ حریر اور دیباج (ریشمی کپڑوں کے استعمال) سے منع کرتے تھے مگر جو اتنا ہو، پھر انہوں نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا، پھر دوسری سے پھر تیسری سے پھر چوتھی سے، اور فرمایا : رسول اللہ ﷺ اس سے ہمیں منع فرمایا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٢٥ (٥٨٢٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٩) ، سنن ابی داود/اللباس ١٠ (٤٠٤٢) ، سنن النسائی/الزینة ٣٨ (٥٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٥، ٣٦، ٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی چار انگل تک اجازت ہے۔
جنگ میں عمامہ پہننا۔
عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں : گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ کے سر پر سیاہ عمامہ (کالی پگڑی) ہے جس کے دونوں کنارے آپ اپنے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکائے ہوئے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/اللباس ٢٤ (٤٠٧٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ١٦ (١٠٨، ١٠٩) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٥٦ (٥٣٤٨) ، مسند احمد (٤/٣٠٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٨ (١٩٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عمامہ باندھنا سنت ہے اور کئی حدیثوں میں اس کی فضیلت آئی ہے، اور عمامہ میں شملہ لٹکانا بہتر ہے لیکن ہمیشہ نہیں، نبی کریم ﷺ نے کبھی شملہ لٹکایا ہے کبھی نہیں، اور بہتر یہ ہے کہ شملہ پیٹھ کی طرف لٹکائے اور کبھی داہنے ہاتھ کی طرف، لیکن بائیں ہاتھ کی طرف لٹکانا سنت کے خلاف ہے اور شملہ کی مقدار چار انگل سے لے کر ایک ہاتھ تک ہے اور آدھی پیٹھ سے زیادہ لٹکانا اسراف اور فضول خرچی اور خلاف سنت ہے، اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کالے رنگ کا عمامہ باندھنا مسنون ہے۔
جنگ میں عمامہ پہننا۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٨) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٤ (٤٠٧٦) ، سنن الترمذی/اللباس ١١ (١٧٣٥) ، سنن النسائی/الحج ١٠٧ (٢٨٧٢) ، والزینة من المجتبیٰ ٥٥ (٥٣٤٦، ٥٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٣، ٣٨٧) (صحیح )
جنگ میں خرید وفروخت۔
خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے والد سے اس شخص کے بارے میں سوال کرتے دیکھا، جو جہاد کرنے جائے اور وہاں خریدو فروخت کرے اور تجارت کرے، تو میرے والد نے اسے جواب دیا : ہم جنگ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے آپ ہمیں خریدو فروخت کرتے دیکھتے لیکن منع نہ فرماتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٧١٣، ومصباح الزجاجة : ٩٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٠) (ضعیف جدا) (علی بن عروہ البارقی متروک اور سنید بن داود ضعیف راوی ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎: پس معلوم ہوا کہ جہاد کے سفر میں خریدو فروخت اور تجارتی لین دین منع نہیں ہے۔
غازیوں کو الوداع کہنا اور رخصت کرنا۔
معاذ بن انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص کو صبح یا شام رخصت کروں، اور اسے سواری پر بٹھاؤں، یہ میرے نزدیک دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٦، ومصباح الزجاجة : ٩٩٨) (ضعیف) (ابن لہیعہ اور زبان بن فائد دونوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١١٨٩ )
غازیوں کو الوداع کہنا اور رخصت کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رخصت کیا تو یہ دعا فرمائی : أستودعک الله الذي لا تضيع ودائعه میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں جس کی امانتیں ضائع نہیں ہوتیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٦، ومصباح الزجاجة : ٩٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٨، ٤٠٣) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٦ و ٢٥٤٧ )
غازیوں کو الوداع کہنا اور رخصت کرنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو جانے والے کے لیے اس طرح دعا کرتے، أستودع الله دينک وأمانتک وخواتيم عملک میں تیرے دین، تیری امانت، اور تیرے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٢٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ٨٠ (٢٦٠٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٤٤ (٣٤٣٨) (صحیح) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٦ )
سرایا۔
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اکثم بن جون خزاعی (رض) سے فرمایا : اکثم ! اپنی قوم کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ہمراہ جہاد کرو، تمہارے اخلاق اچھے ہوجائیں گے، اور تمہارے ساتھیوں میں تمہاری عزت ہوگی، اکثم ! چار ساتھی بہتر ہیں، بہترین دستہ چار سو سپاہیوں کا ہے، اور بہترین لشکر چار ہزار کا ہے، نیز بارہ ہزار کا لشکر کبھی کم تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٧١، ومصباح الزجاجة : ١٠٠١) (ضعیف جداً ) (عبدالملک بن محمد الصنعانی لین الحدیث اور ابو سلمہ العاملی متروک ہے، بلکہ ابو حاتم نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے، آخری فقرہ : خير الرفقاء دوسرے طریق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٩٨٦ )
سرایا۔
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم برابر گفتگو کرتے رہتے تھے کہ غزوہ بدر میں صحابہ کی تعداد تین سو دس سے کچھ اوپر تھی، اور یہی تعداد طالوت کے ان ساتھیوں کی بھی تھی جنہوں نے ان کے ساتھ نہر پار کی (یاد رہے کہ) ان کے ساتھ صرف اسی شخص نے نہر پار کی تھی جو ایمان والا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٦ (٣٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٥١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/السیر ٣٨ (١٥٩٨) (صحیح )
سرایا۔
نبی اکرم ﷺ کے صحابی ابوالورد (رض) کہتے ہیں کہ اس فوجی دستے میں شرکت سے بچو جس کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو وہ بھاگ کھڑا ہو، اور اگر مال غنیمت حاصل ہو تو اس میں خیانت کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٢) (ضعیف الإسناد) (سند میں لہیعہ بن عقبہ ضعیف راوی ہے )
مشرکوں کی دیگوں میں کھانا۔
ہلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نصاریٰ کے کھانے کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کسی کھانے سے متعلق تمہارے دل میں وسوسہ نہ آنا چاہیئے، ورنہ یہ نصاریٰ کی مشابہت ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٢٤ (٣٧٨٤) ، سنن الترمذی/السیر ١٦ (١٥٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٤) ، وقد مسند احمد (٥/٢٢٦) (حسن) (سند میں قبیصہ بن ہلب مجہول العین ہیں، ان سے صرف سماک نے روایت کی ہے، لیکن حدیث کے شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : جلباب المرأة المسلة : ١٨٢ ) وضاحت : ١ ؎: وہ اپنے مذہب والوں کے سوا دوسرے لوگوں کا کھانا نہیں کھاتے، یہ حال نصاریٰ کا شاید نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوگا اب تو نصاریٰ ہر مذہب والے کا کھانا یہاں تک کہ مشرکین کا بھی کھالیتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کا پکایا ہوا کھانا مسلمان کو کھانا جائز ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے : وطعام الذين أوتوا الکتاب حل لكم (سورة المائدة : 5) اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور نبی کریم ﷺ نے یہود کا کھانا خیبر میں کھایا، لیکن یہ شرط ہے کہ اس کھانے میں شراب اور سور نہ ہو، اور نہ وہ جانور ہو جو مردار ہو مثلاً گلا گھونٹا ہوا یا اللہ کے سوا اور کسی کے نام پر ذبح کیا ہوا، ورنہ وہ کھانا بالاجماع حرام ہوگا۔
مشرکوں کی دیگوں میں کھانا۔
ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو میں نے سوال کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم مشرکین کی ہانڈیوں میں کھانا پکا سکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں نہ پکاؤ میں نے کہا : اگر اس کی ضرورت پیش آجائے اور ہمارے لیے کوئی چارہ کار ہی نہ ہو ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تب تم انہیں اچھی طرح دھو لو، پھر پکاؤ اور کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٦٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٣) (صحیح) (سند میں ابو فروہ یزید بن سنان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد و متابعات کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٣٧ - ٣٢٠٧، نیز یہ حدیث آگے آرہی ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے برتنوں میں نجاستوں کا استعمال کرتے ہیں جیسے مردار کھانے والے اور شراب پینے والے، اگرچہ مسلمان ہی ہوں تو ان کے برتنوں کا استعمال بغیر دھوئے جائز نہیں، اور جو کھانا ان کے برتنوں میں پکا ہو اس کا بھی کھانا درست نہیں ہے۔
شرک کرنے والوں سے جنگ میں مدد لینا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے ۔ علی بن محمد نے اپنی روایت میں عبداللہ بن یزید یا زید کہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٥١ (١٨١٧) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٥٣ (٢٧٣٢) ، سنن الترمذی/السیر ١٠ (١٥٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٧، ١٤٨) ، سنن الدارمی/السیر ٥٤ (٢٥٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کافر و مشرک سے جہاد میں بلاضرورت مدد لینا جائز نہیں، صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مشرک نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ جہاد کا قصد کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوٹ جاؤ، میں مشرک سے مدد نہیں چاہتا، جب وہ اسلام لایا تو اس سے مدد لی۔
لڑائی میں دشمن کو مغالطہ میں ڈالنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنگ دھوکہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٦١، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٤) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح، بلکہ متواتر ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٢٣٧٠ ) وضاحت : ١ ؎: جنگ میں دھوکہ دھڑی جس طرح سے بھی ہو سکے مثلاً کافروں میں نااتفاقی ڈلوا دینا، ان کے سامنے سے بھاگنا تاکہ وہ پیچھا کریں پھر ان کو ہلاکت و بربادی کے مقام پر لے جانا، اسی طرح اور سب مکر و حیلہ درست اور جائز ہے، لیکن عہد کر کے اس کا توڑنا جائز نہیں (نووی) ۔
لڑائی میں دشمن کو مغالطہ میں ڈالنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنگ دھوکہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٢١٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٥) (صحیح) (سند میں مطربن میمون ضعیف راوی ہیں، لیکن اصل حدیث متواتر ہے، کما تقدم )
لڑائی میں مقابلہ کیلئے دعوت دینا اور سامان کا بیان۔
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر (رض) کو قسم کھا کر کہتے سنا کہ آیت کریمہ : هذان خصمان اختصموا في ربهم (سورۃ الحج : ١٩ ) یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں اپنے رب کے بارے میں انہوں نے جھگڑا کیا سے إن الله يفعل ما يريد (سورۃ الحج : ٢٤ ) تک، ان چھ لوگوں کے بارے میں اتری جو بدر کے دن باہم لڑے، حمزہ بن عبدالمطلب، علی بن ابی طالب (رض) مسلمانوں کی طرف سے، اور عبیدہ بن حارث، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کافروں کی طرف سے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨ (٣٩٦٦، ٣٩٦٨) ، تفسیر سورة الحج ٣ (٤٧٤٣) ، صحیح مسلم/التفسیر ٧ (٣٠٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٧٤) (صحیح )
لڑائی میں مقابلہ کیلئے دعوت دینا اور سامان کا بیان۔
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو مقابلہ کے لیے للکارا، اور اسے قتل کر ڈالا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے چھینا ہوا سامان بطور انعام مجھے ہی دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٢٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٦) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٧٣ (٣٠٥١) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٣ (١٧٥٤) ، مسند احمد (٤/٤٥، ٤٦) ، سنن الدارمی/السیر ١٥ (٢٤٩٥) (صحیح )
لڑائی میں مقابلہ کیلئے دعوت دینا اور سامان کا بیان۔
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ حنین کے موقعہ پر ان کے ہاتھ سے قتل کیے گئے شخص کا سامان انہیں کو دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٧ (٢١٠٠) ، فرض الخمس ١٨ (٣١٤٢) ، المغازي ١٨ (٤٣٢١، ٤٣٢٢) ، الاحکام ٢١ (٧١٧٠) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٣ (١٧٥١) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٤٧ (٢٧١٧) ، سنن الترمذی/السیر ١٣ (١٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٣٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجہاد ١٠ (١٨) ، مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٦) ، سنن الدارمی/السیر ٤٤ (٢٥٢٨) (صحیح )
لڑائی میں مقابلہ کیلئے دعوت دینا اور سامان کا بیان۔
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (کسی کافر) کو قتل کرے، تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کے کپڑے ہتھیار سواری وغیرہ، امام کو اختیار ہے جب چاہے جنگ میں لوگوں کو رغبت دلانے کے لئے یہ کہہ دے کہ جو کوئی کسی کو مارے اس کا سامان وہی لے، یا کسی خاص ٹکڑی سے کہے تم کو مال غنیمت میں سے اس قدر زیادہ ملے گا۔
رات کو حملہ کرنا (شب خون مارنا) اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا حکم۔
صعب بن جثامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ مشرکین کی آبادی پر شبخون مارتے (رات میں حملہ کرتے) وقت عورتیں اور بچے بھی قتل ہوجائیں گے، تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بھی انہیں میں سے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٤٦ (٣٠١٢) ، صحیح مسلم/الجہاد ٩ (١٧٨٥) ، سنن الترمذی/السیر ١٩ (١٥٧٠) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٢١ (٢٦٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨، ٧١، ٧٢، ٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ آمادئہ جنگ اور دشمنی پر اصرار کرنے والے اور اسلام کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگانے والوں پر رات کے حملہ کا مسئلہ ہے، جن تک اسلام کی دعوت سالہا سال تک اچھی طرح سے پہنچانے کا انتظام کیا گیا، اب آخری حربہ کے طور پر ان کے قلع قمع کا ہر دروازہ کھلا ہوا ہے، اور ان کے ساتھ رہنے والی آبادی میں موجود بچوں اور عورتوں کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو یہ بدرجہ مجبوری ہے اس لئے کوئی حرج نہیں ہے۔
رات کو حملہ کرنا (شب خون مارنا) اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا حکم۔
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہم نے ابوبکر (رض) کے ہمراہ قبیلہ ہوازن سے جہاد کیا، چناچہ ہم بنی فزارہ کے چشمہ کے پاس آئے اور ہم نے وہیں پر پڑاؤ ڈالا، جب صبح کا وقت ہوا، تو ہم نے ان پر حملہ کردیا، پھر ہم چشمہ والوں کے پاس آئے ان پر بھی شبخون مارا، اور ان کے نو یا سات گھروں کے لوگوں کو قتل کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٣٤ (٢٥٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجہاد ١٤ (١٧٥٥) ، مسند احمد (٥/٣٧٧) (حسن )
رات کو حملہ کرنا (شب خون مارنا) اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا حکم۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے راستے میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کردیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٠١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٤٧ (٣٠١٤) ، صحیح مسلم/الجہاد ٨ (١٧٤٤) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٢١ (٢٦٦٨) ، سنن الترمذی/الجہاد ١٩ (١٥٦٩) ، موطا امام مالک/الجہاد ٣ (٩) ، مسند احمد (٢/١٢٢، ١٢٣) ، سنن الدارمی/السیر ٢٥ (٢٥٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسے بچے، عورتیں یا بوڑھے جو شریک جنگ نہ ہوں، اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ بھی شریک جنگ ہیں، تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
رات کو حملہ کرنا (شب خون مارنا) اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا حکم۔
حنظلہ الکاتب (رض) کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ (جنگ) میں شریک تھے، ہمارا گزر ایک مقتول عورت کے پاس سے ہوا، وہاں لوگ اکٹھے ہوگئے تھے، (آپ کو دیکھ کر) لوگوں نے آپ کے لیے جگہ خالی کردی تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو لڑنے والوں میں نہ تھی (پھر اسے کیوں مار ڈالا گیا) اس کے بعد ایک شخص سے کہا : خالد بن ولید کے پاس جاؤ، اور ان سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ عورتوں، بچوں، مزدوروں اور خادموں کو ہرگز قتل نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٢١ (٢٦٦٩) ، مسند احمد (٤/١٧٨) (حسن صحیح ) اس سند سے رباح بن ربیع سے بھی اسی طرح مروی ہے، ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں : سفیان ثوری اس میں غلطی کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٢١ (٢٦٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٨٨، ٤/١٧٨، ٣٤٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سفیان نے ابوالزناد سے اور انہوں نے مرقع بن عبداللہ سے اور مرقع نے حنظلہ سے روایت کی ہے، جب کہ اس کی دوسری سند میں مغیرہ بن شعبہ سے اور مرقع نے اپنے دادا رباح بن الربیع سے روایت کی ہے۔
دشمن کے علاقہ میں آگ لگانا۔
اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ابنیٰ نامی بستی کی جانب بھیجا اور فرمایا : ابنیٰ میں صبح کے وقت جاؤ، اور اسے آگ لگا دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٩١ (٢٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٠٥، ٢٠٩) (ضعیف) (صالح بن أبی الاخضر ضعیف ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎ اُبنی : فلسطین میں عسقلان اور رملہ کے درمیان ایک مقام ہے، صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو ایک لشکر میں بھیجا، تو فرمایا : اگر تم فلاں فلاں دو شخصوں کو پاؤ تو آگ سے جلا دینا ، پھر جب ہم نکلنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم کو حکم دیا تھا فلانے فلانے کو جلانے کا، لیکن آگ سے اللہ ہی عذاب کرتا ہے تم اگر ان کو پاؤ تو قتل کر ڈالنا، لیکن درختوں کا اور بتوں کا اور سامان کا جلانا تو جائز ہے، اور کئی احادیث سے اس کی اجازت ثابت ہے جب اس میں مصلحت ہو۔
دشمن کے علاقہ میں آگ لگانا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا : ما قطعتم من لينة أو ترکتموها قائمة یعنی تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے (سورۃ الحشر : ٥ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث والمزارعة ٤ (٢٣٥٦) ، الجہاد ١٥٤ (٣٠٢٠) ، المغازي ١٤ (٤٠٣١) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٠ (١٧٤٦) ، سنن ابی داود/الجہاد ٩١ (٢٦١٥) ، سنن الترمذی/التفسیر ٥٩ (٣٣٠٢، السیر ٤ (١٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢٣، ١٤٠) ، سنن الدارمی/السیر ٢٣ (٢٥٠٣) (صحیح )
دشمن کے علاقہ میں آگ لگانا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور انہیں کاٹ دیا، اسی سے متعلق ایک شاعر کہتا ہے : فهان على سراة بني لؤي حريق بالبويرة مستطير بنی لؤی کے سرداروں کے لیے آسان ہوا، بویرہ میں آگ لگانا جو ہر طرف پھیلتی جا رہی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٠٦٠) (صحیح )
قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑانا۔
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہم نے ابوبکر (رض) کے ساتھ قبیلہ ہوازن سے جنگ کی، تو ابوبکر (رض) نے قبیلہ بنی فزارہ سے حاصل کی ہوئی ایک لونڈی مجھے بطور نفل (انعام) دی، وہ عرب کے خوبصورت ترین لوگوں میں سے تھی، اور پوستین پہنے ہوئی تھی، میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا تھا کہ مدینہ آیا، بازار میں میری ملاقات نبی اکرم ﷺ سے ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی شان، تمہارا باپ بھی کیا خوب آدمی تھا ! یہ لونڈی مجھے دے دو ، میں نے وہ آپ کو ہبہ کردی، چناچہ آپ ﷺ نے وہ لونڈی ان مسلمانوں کے عوض فدیہ میں دے دی جو مکہ میں تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المغازي ١٤ (١٧٥٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٣٤ (٢٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ و ٤٧، ٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ امام کسی کو کوئی چیز دے کر پھر اس کو واپس لے لے تو بھی جائز ہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو، آپ ﷺ نے صفیہ (رض) کو پہلے دحیہ (رض) کو دیا تھا پھر ان سے واپس لے لیا۔
جومال دشمن اپنے علاقہ میں محفوظ کرلے پھر مسلمان کو دشمن پر غلبہ حاصل ہوجائے۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ان کا ایک گھوڑا چلا گیا، اور اسے دشمن نے پکڑ لیا، پھر مسلمان ان پر غالب آگئے، تو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں وہ انہیں لوٹایا گیا، ان کا ایک غلام بھی بھاگ گیا، اور روم (کے نصاریٰ ) سے جا ملا، پھر مسلمان ان پر غالب آگئے، تو خالد بن ولید (رض) نے اسے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ان کو واپس کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٨٧ (٣٠٦٧ تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٣٥ (٢٦٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اونٹنی عضباء کو کافر لے گئے، پھر ایک عورت اس پر چڑھ کر مسلمانوں کے پاس آگئی، تو اس اونٹنی کے نحر کرنے کی اس نے نذر کی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو نذر گناہ کی ہو، یا اپنی ملکیت میں نہ ہو وہ پوری نہ کی جائے ، علماء کا یہی قول ہے کہ کافر غلبہ سے مسلمانوں کے کسی چیز کے مالک نہ ہوں گے اور جب وہ چیز پھر ہاتھ آئے تو اس کا مالک لے لے گا۔
مالِ غنیمت میں خیانت۔
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ اشبحع کے ایک شخص کا خیبر میں انتقال ہوگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز (جنازہ) پڑھ لو، لوگوں کو اس پر تعجب ہوا اور ان کے چہروں کے رنگ اڑ گئے، آپ ﷺ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا : تمہارے ساتھی نے اللہ کے راستے میں (حاصل شدہ مال غنیمت میں) خیانت کی ہے ۔ زید (رض) کہتے ہیں : پھر لوگوں نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہود کے مونگوں میں سے کچھ مونگے جو کہ دو درہم کے برابر تھے اس کے سامان میں موجود تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٤٣ (٢٧١٠) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٦ (١٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٦٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجہاد ١٣ (٢٣) ، مسند احمد (٤/١١٤، ٥/١٩٢) (ضعیف) (ابوعمرہ مجہول العین راوی ہے )
مالِ غنیمت میں خیانت۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامان کی نگہبانی پر کر کرہ نامی ایک شخص تھا، اس کا انتقال ہوگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ جہنم میں ہے ، لوگ اس کا سامان دیکھنے لگے تو اس میں ایک کملی یا عباء ملی جو اس نے مال غنیمت میں سے چرا لی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٩٠ (٣٠٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٠) (صحیح )
مالِ غنیمت میں خیانت۔
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جنگ حنین کے دن مال غنیمت کے ایک اونٹ کے پہلو میں نماز پڑھائی، نماز کے بعد آپ ﷺ نے اونٹ میں سے کوئی چیز لی جیسے اونٹ کا بال اور اسے اپنی انگلیوں سے پکڑا پھر فرمایا : لوگو ! یہ بھی تمہارے مال غنیمت کا حصہ ہے، لہٰذا دھاگہ سوئی نیز اس سے چھوٹی اور بڑی چیز بھی جمع کر دو کیونکہ مال غنیمت میں خیانت (چوری) کرنے والے کے لیے قیامت کے دن باعث عار (ندامت) و شنار (عیب) اور باعث نار (عذاب) ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٢١، ومصباح الزجاجة : ١٠٠٩) (حسن صحیح) (سند میں عیسیٰ بن سنان لین الحدیث راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قیامت کے دن اس کی چوری ظاہر کی جائے گی تو لوگوں میں رسوائی ہوگی، عذاب الگ ہوگا اور جس قدر ذرہ سی چیز ہو اس کی چوری جب کھلے گی تو اور زیادہ رسوائی ہے، اس لئے مومن کو چاہیے کہ غنیمت کا کل مال حاکم کے سامنے پیش کر دے ایک سوئی یا دھاگہ بھی اپنے پاس نہ رکھ چھوڑے۔
انعام دینا۔
حبیب بن مسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ جو اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے) نکال لینے کے بعد مال غنیمت کا ایک تہائی بطور نفل ہبہ اور عطیہ دیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٥٨ (٢٧٤٨، ٢٧٤٩، ٢٧٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٩، ١٦٠) ، سنن الدارمی/السیر ٤٣ (٢٥٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا ہے، اور باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کئے جائیں، اور امام کو اختیار ہے کہ باقی ان چارحصوں ٤ /٥ میں جسے جتنا چاہے، عطیہ دے۔
انعام دینا۔
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ شروع لڑائی میں ملنے والے مال غنیمت کا چوتھا حصہ بطور ہبہ دیتے، اور لوٹتے وقت تہائی حصہ دیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ١٢ (١٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٩، ٣٢٢، ٣٢٣) ، سنن الدارمی/السیر ٤٢ (٢٥٢٥) (صحیح) (سابقہ حدیث کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں عبد الرحمن بن الحارث اور سلمان بن موسیٰ کی وجہ سے ضعف ہے ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ لوٹتے وقت پھر لڑائی کرنا دشوار ہوتا ہے اس لئے اس میں زیادہ عطیہ مقرر کیا۔
انعام دینا۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد مال غنیمت سے ہبہ اور عطیہ کا سلسلہ ختم ہوگیا، اب طاقتور مسلمان کمزور مسلمانوں کو مال لوٹائیں گے ١ ؎۔ حبیب بن مسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے شروع لڑائی میں ملنے والے کو مال غنیمت کا چوتھائی حصہ بطور ہبہ اور عطیہ دیا، اور لوٹتے وقت تہائی حصہ دیا ٢ ؎۔ تو عمرو بن شعیب نے سلیمان بن موسیٰ سے کہا کہ میں تمہیں اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما) سے روایت کر رہا ہوں اور تم مجھ سے مکحول کے حوالے سے بیان کر رہے ہو ؟ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد اللہ بن عمرو تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٥، ومصباح الزجاجة : ١٠١٠) ، وحدیث حبیب بن مسلمة تقدم تخریجہ، (٢٨٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی طاقتور لوگوں کے ذریعہ حاصل شدہ مال میں کمزوروں کا بھی حصہ ہوگا۔ ٢ ؎: یعنی مال غنیمت میں سب مسلمان برابر کے شریک ہوں گے اور برابر حصہ پائیں گے۔
مال غنیمت کی تقسیم۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جنگ خیبر میں گھوڑ سوار کے لیے تین حصے متعین فرمائے، دو حصے گھوڑے کے، اور ایک حصہ آدمی کا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٥٤ (٢٧٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٨١١١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥١ (٢٨٦٣) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٧ (١٧٦٢) ، سنن الترمذی/السیر ٦ (١٥٥٤) ، مسند احمد (٢/٢، ٦٢) ، سنن الدارمی/السیر ٣٣ (٢٥١٥) (صحیح )
غلام اور عورتیں جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں۔
محمد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے آبی اللحم (وکیع کہتے ہیں کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے) کے غلام عمیر (رض) سے سنا : وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے مالک کے ہمراہ خیبر کے دن جہاد کیا، چونکہ میں غلام تھا لہٰذا مجھے مال غنیمت میں حصہ نہیں ملا، صرف ردی چیزوں میں سے ایک تلوار ملی، جب اسے میں لٹکا کر چلتا تو (وہ اتنی لمبی تھی) کہ وہ گھسٹتی رہتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٥٢ (٢٧٣٠) ، سنن الترمذی/السیر ٩ (١٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٥/٢٢٣) ، سنن الدارمی/السیر ٣٥ (٢٥١٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس وجہ سے کہ تلوار لمبی ہوگی یا ان کا قد چھوٹا ہوگا لیکن امام جو مناسب سمجھے انعام کے طور پر ان کو دے، صحیح مسلم میں عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا : غلام اور عورت کا کوئی حصہ معین تھا، جب وہ لوگوں کے ساتھ حاضر ہوں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان دونوں کا کوئی حصہ متعین نہ تھا مگر یہ کہ مال غنیمت میں سے کچھ ان کو دیا جائے، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی اکرم ﷺ جہاد میں عورتوں کو رکھتے تھے، وہ دو زخمیوں کا علاج کرتیں اور مال غنیمت میں سے کچھ انعام ان کو دیا جاتا لیکن ان کا حصہ مقرر نہیں کیا گیا۔
غلام اور عورتیں جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں۔
ام عطیہ انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سات غزوات میں شرکت کی تھی، مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے ڈیروں میں رہتی، ان کے لیے کھانا بناتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور بیماروں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٤٨ (١٨١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٤ (٣٢٤) ، الحج ٨١ (١٦٥٢) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٠ (٢٤٦٦) (صحیح )
حاکم کی طرف سے وصیت۔
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک فوجی دستے میں بھیجا تو فرمایا : اللہ کے نام پر، اللہ کے راستے میں جاؤ، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے اس سے لڑو، لیکن مثلہ نہ کرنا، (ناک کان مت کاٹنا) عہد شکنی نہ کرنا، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا، اور بچے کو قتل نہ کرنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٠١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے : اور نہ عورت کو نہ شیخ فانی کو قتل کرنا یعنی ایسے بوڑھے کو جو لڑائی کے قابل نہ رہا ہو۔
حاکم کی طرف سے وصیت۔
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی فوجی دستے پر کسی شخص کو امیر متعین فرماتے تو اسے ذاتی طور پر اللہ سے ڈرتے رہنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتے، اور فرماتے : اللہ کے راستے میں اللہ کا نام لے کر لڑنا، جو اللہ کے ساتھ کفر کرے اس سے لڑنا، اور بدعہدی نہ کرنا، (مال غنیمت میں) خیانت نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا، اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا، جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو انہیں تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دینا، ان میں سے جس بات پر وہ راضی ہوجائیں اسے قبول کرنا، اور ان سے جنگ سے رک جانا (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ قبول کرلیں تو ان کا اسلام قبول کرنا، اور ان کے قتل سے باز رہنا، پھر انہیں گھربار چھوڑ کر مہاجرین کے ساتھ رہنے کی دعوت دینا، اور انہیں بتانا کہ اگر وہ ایسا گریں گے تو انہیں مہاجرین جیسے حقوق حاصل ہوں گے، اور جرم و سزا کا جو قانون مہاجرین کے لیے ہے وہی ان کے لیے بھی ہوگا، اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو انہیں بتانا کہ ان کا حکم اعرابی (دیہاتی) مسلمانوں جیسا ہوگا، اللہ تعالیٰ کے جو احکام مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں ان پر بھی جاری ہوں گے، لیکن مال غنیمت میں اور اس مال میں جو کافروں سے جنگ کے بغیر ہاتھ آجائے، ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا، مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اگر وہ اسلام میں داخل ہونے سے انکار کریں، تو ان سے جزیہ دینے کا مطالبہ کرنا، اگر وہ جزیہ دیں تو ان سے قبول کرنا، اور ان سے اپنا ہاتھ روک لینا، اور اگر وہ انکار کریں تو (کامیابی کے لیے) اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا، اور ان سے جنگ کرنا، اگر تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرلو اور قلعہ والے تم سے اللہ اور نبی کا عہد کرانا چاہیں تو اللہ اور نبی کا عہد مت دینا، بلکہ اپنا، اپنے باپ کا، اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دینا، کیونکہ تم اپنا اور اپنے باپ کا ذمہ اللہ اور رسول کے ذمہ کے مقابلے میں آسانی سے توڑ سکتے ہو، اگر تم نے کسی قلعے کا محاصرہ کرلیا، اور وہ اللہ کے حکم پر اترنا چاہیں تو انہیں اللہ کے حکم پہ مت اتارنا، بلکہ اپنے حکم پہ اتارنا کیونکہ تمہیں کیا معلوم کہ ان کے بارے میں تم اللہ کے حکم پر چل رہے ہو یا نہیں ١ ؎۔ علقمہ کہتے ہیں : میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے بیان کی، انہوں نے کہا : مجھ سے مسلم بن ہیضم نے بیان کی، مسلم نے نعمان بن مقرن (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٢ (١٧٣١) ، سنن ابی داود/الجہاد ٩٠ (٢٦١٢، ٢٦١٣) ، سنن الترمذی/السیر ٤٨ (١٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/السیر ٥ (٢٤٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام نووی کہتے ہیں : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ فئی اور غنیمت میں دیہات کے مسلمانوں کا حصہ نہیں جو اسلام لانے کے بعد اپنے ہی وطن میں رہے، بشرطیکہ وہ جہاد میں شریک نہ ہوں، دوسرے یہ کہ ہر ایک کافر سے جزیہ لینا جائز ہے عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی۔
امیر کی اطاعت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری بات مانی اس نے اللہ کی بات مانی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، (اسی طرح) جس نے امام کی بات مانی اس نے میری بات مانی، اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣) (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ امام کی اطاعت فرض ہے اور اس کی نافرمانی رسول کی نافرمانی ہے مگر یہ جب تک ہے کہ امام کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، اگر مسئلہ اختلافی ہو اور امام ایک قول پر چلنے کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرنی چاہیے، لیکن جو بات صریح اور بالاتفاق شریعت کے خلاف ہو اس میں اطاعت نہ کرنی چاہیے، دوسری حدیث میں ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔
امیر کی اطاعت۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو اور اطاعت کرو، گرچہ تم پر حبشی غلام ہی امیر (حاکم) کیوں نہ بنادیا جائے، جس کا سر منقی (کشمش) کی طرح ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٤ (٦٩٣) ، مسند احمد (٣/١١٤، ١٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حبشی چھوٹے سر والا امامت کبری (خلافت) کے لائق ہے کیونکہ امامت کبری کے لئے قریشی ہونا شرط ہے، بلکہ حدیث کا یہ مطلب ہے کہ امام کے حکم سے اگر کسی لشکر یا ٹکڑی کا سردار معمولی حیثیت کا بھی بنادیا جائے تو بھی امام کے حکم کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کے بنائے ہوئے امیر اور سردار کی اطاعت پر اعتراض اور اس کی مخالفت نہ کرنا چاہیے، اور بعضوں نے کہا : یہ مبالغہ کے طور پر فرمایا ہے، یعنی اگر بالفرض حبشی بھی تمہارا امام ہو تو اس کی اطاعت بھی لازم ہے، اور اس حدیث میں امام اور حاکم کی اطاعت کی بھرپور ترغیب ہے۔
امیر کی اطاعت۔
ام الحصین (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اگر تم پر کوئی نک کٹا حبشی غلام امیر (حاکم) بنادیا جائے تو بھی اس کی بات سنو اور مانو، جب تک کہ وہ اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق تمہاری سربراہی کرتا رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥١ (١٢٩٨) ، الإمارة ٨ (١٨٣٨) ، سنن النسائی/البیعة ٢٦ (٤١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦٩، ٥/٣٨١، ٦/٤٠٢، ٤٠٣) (صحیح )
امیر کی اطاعت۔
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ وہ مقام ربذہ میں پہنچے تو نماز کے لیے تکبیر کہی جا چکی تھی، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غلام لوگوں کی امامت کر رہا ہے، اس سے کہا گیا : یہ ابوذر (رض) ہیں، یہ سن کر وہ پیچھے ہٹنے لگا تو ابوذر (رض) نے فرمایا : میرے خلیل (جگری دوست) محمد ﷺ نے مجھے یہ وصیت کی کہ امام گرچہ اعضاء کٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو میں اس کی بات سنوں اور مانوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥٠) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت سے اتفاق کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اگر کسی مستحب یا مسنون امر کی وجہ سے اتفاق ختم ہوجانے کا اندیشہ ہو تو جب تک یہ اندیشہ باقی رہے، اس امر مستحب یا مسنون سے باز رہ سکتے ہیں، لیکن جہاں تک ہو سکے حکمت عملی سے لوگوں کو سمجھا دینا چاہیے کہ یہ فعل مستحب اور سنت رسول ہے، اور اس کے لئے فتنہ و فساد کرنا صریح غیر ایمانی بات ہے۔
اللہ کی نا فرمانی کرکے کسی کی اطاعت درست نہیں۔
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علقمہ بن مجزر (رض) کو ایک لشکر کا سردار بنا کر بھیجا، میں بھی اس لشکر میں تھا، جب وہ لشکر کے آخری پڑاؤ پر پہنچے یا درمیان راستے ہی میں تھے تو لشکر کی ایک جماعت نے (آگے جانے کی) اجازت مانگی، علقمہ (رض) نے اجازت دے دی، اور عبداللہ بن حذافہ بن قیس سہمی (رض) کو ان پر امیر مقرر کردیا، میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کے ساتھ غزوہ کیا، ابھی وہ راستہ ہی میں تھے کہ ان لوگوں نے تاپنے یا کچھ پکانے کے لیے آگ جلائی، تو عبداللہ بن حذافہ (رض) (جن کے مزاج میں خوش طبعی پائی جاتی تھی) نے کہا : کیا تم پر میری بات سننا اور اطاعت کرنا واجب نہیں ؟ لوگوں نے جواب دیا : کیوں نہیں ؟ کہا : میں کسی کام کے کرنے کا تمہیں حکم دوں تو تم حکم بجا لاؤ گے ؟ لوگوں نے جواب دیا : ہاں، کہا : میں لازمی حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں چھلانگ لگا دو ، کچھ لوگ کھڑے ہوگئے اور کودنے کے لیے کمر کس لی، عبداللہ بن حذافہ (رض) کو جب یہ گمان ہوا کہ واقعی یہ تو کود ہی جائیں گے، تو بولے : ٹھہرو، میں تم سے یونہی مذاق کر رہا تھا ١ ؎۔ جب ہم لوگ واپس مدینہ آئے، لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کو سارا ماجرا سنایا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حکام میں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات نہ ما نو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦٦، ومصباح الزجاجة : ١٠١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس واقعہ سے پتہ چلا کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات ہرگز مت مانو اگرچہ وہ امام ہو یا حاکم یا خلیفہ یا بادشاہ یا رئیس یا سردار، اللہ کی اطاعت سب پر مقدم ہے، پھر جب خلاف شریعت باتوں میں امام کی اطاعت منع ہوئی تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کسی مجتہد یا عالم کی اطاعت کیوں کر جائز ہوگی، اس حدیث سے تقلید کی جڑ کٹ گئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بادشاہ یا امام شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی بات نہ ماننی چاہیے بلکہ اس کو شریعت کی اطاعت کے لئے مجبور کرنا چاہیے، اگر شریعت کی اطاعت قبول نہ کرے تو اگر قدرت اور طاقت ہو تو اس کو فوراً معزول کر کے دوسرے کسی پرہیزگار دین دار کو اپنا امام یا بادشاہ بنانا چاہیے، یہی اسلام کا شیوہ ہے اور یہی حکم الٰہی ہے۔
اللہ کی نا فرمانی کرکے کسی کی اطاعت درست نہیں۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان آدمی پر (امیر اور حاکم کی) بات ماننا لازم ہے، چاہے وہ اسے پسند ہو یا ناپسند، ہاں اگر اللہ اور رسول کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو اس کو سننا ماننا نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد اللہ بن رجاء المکی تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٧) ، وحدیث اللیث بن سعد أخرجہ : صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٩) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢٩ (١٧٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٨٨) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠٨ (٢٩٥٥) ، الأحکام ٤ (٧١٤٤) ، سنن ابی داود/الجہاد ٩٦ (٢٦٢٦) ، سنن النسائی/البیعة ٣٤ (٤٢١١) ، مسند احمد (٢/١٧، ٤٢) (صحیح )
اللہ کی نا فرمانی کرکے کسی کی اطاعت درست نہیں۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ زمانہ قریب ہے کہ میرے بعد تمہارے معاملات کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو سنت کو مٹائیں گے، بدعت پر عمل پیرا ہوں گے، اور نماز کی وقت پر ادائیگی میں تاخیر کریں گے ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر میں ان کا زمانہ پاؤں تو کیا کروں ؟ فرمایا : اے ام عبد کے بیٹے ! مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں ؟ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی بات نہیں مانی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٠١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٩، ٥/٣٢٥، ٣٢٩) (صحیح) (صحیح أبی داود : ٤٥٨، و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢/ ١٣٩ )
بیعت کا بیان
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ ﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢ (٧٠٥٦) ، الأحکام ٤٣ (٧١٩٩، ٧٢٠٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٧٠٩) ، سنن النسائی/البیعة ١ (٤١٥٤، ٤١٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجہاد ١ (٥) ، مسند احمد (٤/٣١٤، ٣١٨، ٣١٩، ٣٢١، ٣٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جس بات میں اللہ کی خوشی ہو یعنی ثواب اور عبادت کے کام میں کسی کی بدگوئی سے ہم کو ڈر نہ ہو، یہ مومنین کاملین کی شان ہے کہ وہ سنت پر چلنے میں کسی سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی جاہلوں اور اہل بدعت کے غلط پروپگنڈہ سے متاثر ہوتے ہیں، جاہل اور بدعتی حدیث سے محبت رکھنے اور ان پر عمل کرنے والوں کو برے القاب اور خطابات سے پکارتے اور انہیں طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب یہ محبان رسول نماز میں زور سے آمین، رفع یدین اور امام کے پیچھے سورة فاتحہ کی قرأت کرتے ہیں، تو جاہل مقلد اور بدعتی ان کو لا مذہب کہتے ہیں اور جب شرک کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، اور غیر اللہ کے پکارنے یا ماسوا اللہ کی عبادت کرنے یا مدد مانگنے سے خود رکتے ہیں اور دوسروں کو روکتے ہیں، تو یہ لوگ انہیں وہابی کے نام سے بدنام کرتے ہیں، اور جب یہ محبان رسول، اللہ تعالیٰ کی صفات جیسے استواء علی العرش، ضحک، (ہنسنا) نزول (آسمان دنیا پر اترنا) وغیرہ وغیرہ ثابت کرتے ہیں تو یہ انہیں مشبہہ کہتے ہیں، اور جب ید (ہاتھ) ، وجہ (چہرہ) ، عین (آنکھ) ، قدم، صوت (آواز) جیسی صفات کا اثبات کرتے ہیں تو وہ انہیں مجسمہ کا لقب دیتے ہیں، لیکن ان سب تہمتوں سے حق پرستوں کو کوئی ڈر نہیں، اور وہ جاہلوں اور بدعتیوں کی عیب جوئی، اور گالی گلوج اور غلط پروپگنڈے سے ڈرتے اور گھبراتے نہیں بلکہ بلا کھٹکے احادیث صحیحہ پر عمل کرتے ہیں، اس حدیث میں آپ ﷺ نے صبر و ثبات پر اور شرع کی اطاعت اور حاکم کی اطاعت پر بیعت لی۔
بیعت کا بیان
عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے ؟ ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (بیعت کرنے کے بعد) ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم آپ سے بیعت تو کرچکے لیکن یہ کس بات پر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کرو، حکم سنو اور مانو ، پھر ایک بات چپکے سے فرمائی : لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو ، راوی کا بیان ہے کہ (اس بات کا ان لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ) میں نے ان میں سے بعض کو دیکھا کہ اس کا کوڑا بھی گر جاتا تو کسی سے یہ نہ کہتا کہ کوڑا اٹھا کر مجھے دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٣) ، سنن ابی داود/الزکاة ٢٧ (١٦٤٢) ، سنن النسائی/الصلاة ٥ (٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بات عادت میں داخل ہے کہ جب آدمی گھوڑے یا کسی دوسری سواری پر ہو اور اس کا کوڑا گرپڑے تو کسی سے بھی کہتا ہے کہ بھائی ذرا میرا کوڑا اٹھا دو ، اور ہر ایک راہ چلتا یہ کام کردیتا ہے، بلکہ اگر کوئی نہ کرے تو لوگ اس کو برا کہیں گے، مگر ان لوگوں نے جن کو آپ ﷺ نے بیعت میں یہ فرمایا تھا کہ کسی سے کچھ مت مانگنا، اتنا کام بھی اپنا کسی اور سے کرانا گوارا نہ کیا، یہ بہت بڑا مرتبہ ہے کہ آدمی سوا اپنے مالک کے کسی سے درخواست نہ کرے، نہ کسی سے کچھ مانگے اور چونکہ یہ کام بہت مشکل تھا اور ہر ایک شخص اس کو نہیں کرسکتا تھا، لہذا آپ ﷺ نے آہستہ سے اس کو فرمایا۔
بیعت کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، تو آپ نے فرمایا : جہاں تک تم سے ہو سکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩، ١٧٢، ١٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، آپ ﷺ ماں باپ سے زیادہ اپنی امت پر مہربان تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : جہاں تک تم سے ہو سکے تاکہ وہ لوگ جھوٹے نہ ہوں جب کسی ایسی بات کا ان کو حکم دیا جائے جو ان کی طاقت سے خارج ہو۔
بیعت کا بیان۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرم ﷺ سے ہجرت پر بیعت کرلی، اور آپ ﷺ کو اس کے غلام ہونے کا معلوم ہی نہ ہوا، چناچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ غلام مجھے بیچ دو ، آپ ﷺ نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٣ (١٦٠٢) ، سنن ابی داود/البیوع ١٧ (٣٣٥٨ مختصرا) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٢ (١٢٣٩) ، السیر ٣٦ (١٥٩٦) ، سنن النسائی/البیعة ٢١ (٤١٨٩) ، البیوع ٦٤ (٤٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٩، ٣٧٢) (صحیح )
بیعت پوری کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : ایک وہ آدمی جس کے پاس چٹیل میدان میں فالتو پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے، دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے، پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کرلیا، حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا، تیسرا وہ آدمی جس نے کسی امام کے ہاتھ پر بیعت کی، اور مقصد محض دنیاوی فائدہ تھا، چناچہ اگر اس نے اسے کچھ دیا تو بیعت کو پورا کیا، اور اگر نہیں دیا تو پورا نہیں کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٢٢ (٢٦٧٢) ، الأحکام ٤٨ (٧٢١٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٨) ، البیوع ٦٢ (١٥٦٦) ، سنن الترمذی/السیر ٣٥ (١٥٩٥) ، سنن النسائی/البیوع ٦ (٤٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٣، ٤٨٠) ، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ٢٢٠٧) (صحیح )
بیعت پوری کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل کی حکومت ان کے انبیاء چلایا کرتے تھے، ایک نبی چلا جاتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا، لیکن میرے بعد تم میں کوئی نبی ہونے والا نہیں ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! پھر کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے ، لوگوں نے کہا : پھر کیسے کریں گے ؟ فرمایا : پہلے کی بیعت پوری کرو، پھر اس کے بعد والے کی، اور اپنا حق ادا کرو، اللہ تعالیٰ ان سے ان کے حق کے بارے میں سوال کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٠ (٣٤٥٥) ، صحیح مسلم/الإمارة ١٠ (١٨٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٧) (صحیح )
بیعت پوری کرنا۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ہر دغا باز کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا کہ یہ فلاں شخص کی دغا بازی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة والموادعة ٢٢ (٣١٨٦) ، صحیح مسلم/الجہاد ٤ (١٧٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١١، ٤١٧، ٤٤١) ، سنن الدارمی/البیوع ١١ (٢٥٨٤) (صحیح متواتر )
بیعت پوری کرنا۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار ! قیامت کے دن ہر دغا باز کے لیے اس کی دغا بازی کے بقدر ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٨، ومصباح الزجاجة : ١٠١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجہاد ٤ (١٧٣٨) ، سنن الترمذی/الفتن ٢٦ (٢١٩١) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے )
عورتوں کی بیعت کا بیان۔
امیمہ بنت رقیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں کچھ عورتوں کے ہمراہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیعت کرنے آئی، تو آپ نے ہم سے فرمایا : (امام کی بات سنو اور مانو) جہاں تک تمہارے اندر طاقت و قوت ہو، میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٣٧ (١٠٩٧) ، سنن النسائی/البیعة ١٨ (٤١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیعة ١ (٢) مسند احمد (٥/٣٢٣، ٦/٣٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب نبی معصوم ﷺ نے غیر عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تو پیروں اور مرشدوں کے لیے کیونکر جائز ہوگا کہ وہ غیر عورتوں سے ہاتھ ملائیں یا محرم کی طرح بےحجاب ہو کر ان سے خلوت کریں، اور جو کوئی پیر اس زمانہ میں ایسی حرکت کرتا ہے، تو یقین جان لیں کہ وہ شیطان کا مرید ہے۔
عورتوں کی بیعت کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ مومن عورتیں نبی اکرم ﷺ کے پاس ہجرت کر کے آتیں تو اللہ تعالیٰ کے فرمان : يا أيها النبي إذا جاءک المؤمنات يبايعنك (سورة الممتحنة : 12) اے نبی ! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی، زناکاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی، اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی، جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی، تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے کی رو سے ان کا امتحان لیا جاتا، عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ مومن عورتوں میں سے جو اس آیت کے مطابق اقرار کرتی وہ امتحان میں پوری اتر جاتی، عورتیں اپنی زبان سے جب اس کا اقرار کرلیتیں تو رسول اللہ ﷺ فرماتے : جاؤ میں نے تم سے بیعت لے لی ہے اللہ کی قسم، رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ ہرگز کسی عورت کے ہاتھ سے کبھی نہیں لگا، جب آپ ﷺ ان عورتوں سے بیعت لیتے تو صرف زبان سے اتنا کہتے : میں نے تم سے بیعت لے لی عائشہ (رض) فرماتی ہیں : اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے صرف وہی عہد لیا جس کا حکم آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا، رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہتھیلی نے کبھی کسی (نامحرم) عورت کی ہتھیلی کو مس نہ کیا، آپ ان سے عہد لیتے وقت یہ فرماتے : میں نے تم سے بیعت لے لی صرف زبانی یہ کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٠ (٥٢٨٨ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢١ (١٨٦٦) ، سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ٦٠ (٢) (٣٣٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٧) (صحیح )
گھوڑ دوڑ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کیا، اور اسے جیتنے کا یقین نہیں تو یہ جوا نہیں ہے، لیکن جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کیا، اور اسے جیتنے کا یقین ہے تو یہ جوا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٤٩ (٢٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٠٥) (ضعیف) (سفیان بن حسین کی زہری سے روایت میں ضعف ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٥٠٩ )
گھوڑ دوڑ کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑوں کو پھرتیلا بنایا، آپ پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کو مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور غیر پھرتیلے گھوڑوں کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک دوڑاتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٥ (١٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤١ (١٢٠) ، الجہاد ٥٦ (٢٨٦٨) ، ٥٧ (٢٨٦٩) ، ٥٨ (٢٨٧٠) ، الاعتصام ١٦ (٧٣٣٦) ، سنن ابی داود/الجہاد ٦٧ (٢٥٧٥) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢٢ (١٦٩٩) ، سنن النسائی/الخیل ١٢ (٣٦١٤) ، موطا امام مالک/ الجہاد ١٩ (٤٥) ، مسند احمد (٢/٥، ٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٦ (٢٤٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تضمیر (پھرتیلا بنانا) یہ ہے کہ گھوڑے کو پہلے خوب کھلایا جائے یہاں تک کہ موٹا ہوجائے، پھر اس کا چارہ آہستہ آہستہ کم کردیا جائے، اور اسے ایک کوٹھری میں بند کر کے اس پر جھول ڈال دی جائے تاکہ گرم ہو اور اسے خوب پسینہ آجائے، ایسا کرنے سے گھوڑا سبک اور تیز رفتار ہوجاتا ہے۔
گھوڑ دوڑ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسابقت (آگے بڑھنے) کی شرط گھوڑے اور اونٹ کے علاوہ کسی میں جائز نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الخیل ١٣ (٣٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٧٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ٦٧ (٢٥٧٤) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢٢ (١٧٠٠) ، مسند احمد (٢/٢٥٦، ٣٥٨، ٤٢٥، ٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ترمذی اور ابوداود کی روایت میں أو نصل (یا تیر میں) زیادہ ہے، مطلب یہ ہے کہ ان تینوں میں آگے بڑھنے کی شرط لگانا اور جیتنے پر مال لینا جائز ہے، تیر میں یہ شرط ہے کہ کس کا دور جاتا ہے، علامہ طیبی کہتے ہیں کہ گدھے اور خچر بھی گھوڑے کی طرح ہیں، ان میں بھی شرط درست ہوگی، لیکن حدیث میں یہ تین چیزیں مذکور ہیں : نصل یعنی تیر، خف یعنی اونٹ، حافر یعنی گھوڑا، ایک شخص نے حدیث میں اپنی طرف سے یہ بڑھا دیا أو جناح یعنی پرندہ اڑانے میں شرط لگانا درست ہے جیسے کبوتر باز کیا کرتے ہیں اور یہ لفظ اس وقت روایت کیا جب ایک عباسی خلیفہ کبوتر بازی کر رہا تھا، یہ شخص خلیفہ کے پاس گیا اور اس کا دل خوش کرنے اور کبوتر بازی کو جائز کرنے کی خاطر حدیث میں یہ لفظ اپنی طرف سے بڑھا دیا اور اللہ کا خوف بالکل نہ کیا، اللہ تعالیٰ ائمہ حدیث کو جزائے خیر دے اگر وہ محنت کر کے صحیح حدیثوں کو جھوٹی اور ضعیف حدیثوں سے الگ نہ کرتے تو دین برباد ہوجاتا، حدیث سے یہ اہتمام اس امت سے خاص ہے، اگلی امتوں والے کتاب الہی کی بھی اچھی طرح حفاظت نہ کرسکے حدیث کا کیا ذکر ذلک فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم (سورة الجمعة : 4) ۔
دشمن کے علاقوں میں قرآن لے جانے سے ممانعت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دشمن کی سر زمین میں قرآن لے کر جانے کی ممانعت اس خطرے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں اسے دشمن پا نہ لیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٢٩ (٢٩٩٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٤ (١٨٦٩) ، سنن ابی داود/الجہاد ٨٨ (٢٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجہاد ٢ (٧) ، مسند احمد (٢/٦، ٧، ١٠، ٥٥، ٦٣، ٧٦، ١٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور اس کو ضائع کردیں یا اس کی اہانت اور بےحرمتی کریں، ممکن ہے کہ یہ ممانعت نبی کریم ﷺ کے عہد سے خاص ہو جب مصحف کے نسخے بہت کم تھے، اور اکثر ایسا تھا کہ مصحف کی بعض آیتیں یا بعض سورتیں خاص خاص لوگوں کے پاس تھیں اور پورا مصحف کسی کے پاس نہ تھا تو آپ ﷺ کو یہ ڈر ہوا کہ کہیں یہ مصحف تلف ہوجائیں اور قرآن کا کوئی جزء مسلمانوں سے بالکل اٹھ جائے، لیکن اس زمانہ میں جب قرآن مجید کے لاکھوں نسخے چھپے موجود ہیں اور قرآن کے ہزاروں بلکہ لاکھوں حفاظ موجود ہیں، یہ اندیشہ بالکل نہیں رہا، جب کہ قرآن کریم کی اہانت اور بےحرمتی کا اندیشہ اب بھی باقی ہے، سبحان اللہ، اگلی امتوں میں سے کسی بھی امت میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا تھا جو پوری تورات یا انجیل کا حافظ ہو، اب مسلمانوں میں ہر بستی میں سینکڑوں حافظ موجود ہیں، یہ فضیلت بھی اللہ تعالیٰ نے اسی امت کو دی ہے۔
دشمن کے علاقوں میں قرآن لے جانے سے ممانعت۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دشمن کی سر زمین میں قرآن لے کر جانے سے منع فرماتے تھے، کیونکہ یہ خطرہ ہے کہ کہیں دشمن اسے پا نہ لیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٤ (١٨٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی بےحرمتی کر بیٹھیں۔
خمس کی تقسیم۔
جبیر بن مطعم (رض) کا بیان ہے کہ وہ اور عثمان بن عفان (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور خیبر کے خمس مال میں سے جو حصہ آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا تھا اس کے بارے میں گفتگو کرنے لگے، چناچہ انہوں نے کہا : آپ نے ہمارے بھائی بنی ہاشم اور بنی مطلب کو تو دے دیا، جب کہ ہماری اور بنی مطلب کی قرابت بنی ہاشم سے یکساں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١٧ (٣١٤٠) ، المناقب ٢ (٣٥٠٢) ، المغازي ٣٩ (٤٢٢٩) ، سنن ابی داود/الخراج ٢٠ ٢٩٧٨، ٢٩٨٩) ، سنن النسائی/قسم الفئی ١ (٤١٤١) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨١، ٨٣، ٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبد مناف کے چار بیٹے تھے : ہاشم، مطلب، نوفل اور عبد شمس، جبیر نوفل کی اولاد میں سے تھے اور عثمان عبد شمس کی اولاد میں سے، تو نبی کریم ﷺ نے ذوی القربی کا حصہ ہاشم اور مطلب کو دیا، اس وقت ان دونوں نے اعتراض کیا کہ بنی ہاشم کی فضیلت کا تو ہمیں انکار نہیں کیونکہ آپ ﷺ بنی ہاشم کی اولاد میں سے ہیں، لیکن بنی مطلب کو ہمارے اوپر ترجیح کی کوئی وجہ نہیں، ہماری اور ان کی قرابت آپ ﷺ سے یکساں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : سچ یہی ہے لیکن بنی مطلب ہمیشہ یہاں تک کہ جاہلیت کے زمانہ میں بھی بنی ہاشم کے ساتھ رہے تو وہ اور بنی ہاشم ایک ہی ہیں، برخلاف بنی امیہ کے یعنی عبدشمس کی اولاد کے کیونکہ امیہ عبد شمس کا بیٹا تھا جس کی اولاد میں عثمان اور معاویہ اور تمام بنی امیہ تھے کہ ان میں اور بنی ہاشم میں کبھی اتفاق نہیں رہا، اور جب قریش نے قسم کھائی تھی کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے نہ شادی بیاہ کریں گے، نہ میل جول رکھیں گے جب تک وہ نبی کریم ﷺ کو ہمارے حوالہ نہ کردیں، اس وقت بھی بنی مطلب اور بنی ہاشم ساتھ ہی رہے، پس اس لحاظ سے آپ ﷺ نے ذوی القربی کا حصہ دونوں کو دلایا۔