27. حج کا بیان
حج کیلئے سفر کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، وہ تمہارے سونے، اور کھانے پینے (کی سہولتوں) میں رکاوٹ بنتا ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی جب اپنے سفر کی ضرورت پوری کرلے، تو جلد سے جلد اپنے گھر لوٹ آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ١٩ (١٨٠٤) ، الجہاد ١٣٦ (٣٠٠١) ، الأطعمة ٣٠ (٥٤٢٩) ، صحیح مسلم/الإمارة ٥٥ (١٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستئذان ١٥ (٣٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٤٤٥) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٠ (٢٧١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت سفر میں رہنا اور تکلیفیں اٹھانا صحیح نہیں ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر گرچہ حج یا جہاد کے لیے ہو تب بھی کام پورا ہونے کے بعد جلدی گھر لوٹنا بہتر ہے، اس میں خود اس شخص کو بھی آرام ہے اور اس کے گھر والوں کو بھی جو جدائی سے پریشان رہتے ہیں، اور مدت دراز تک شوہر کا اپنی بیوی سے علاحدہ رہنا بھی مناسب نہیں ہے، حاجت بشری اور خواہش انسانی ساتھ لگی ہوئی ہے مبادا گناہ میں گرفتاری ہو، اللہ بچائے۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔
حج کیلئے سفر کرنا۔
عبداللہ بن عباس، فضل رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں یا ان میں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص حج کا قصد کرے تو اسے جلدی سے انجام دے لے، اس لیے کہ کبھی آدمی بیمار پڑجاتا ہے یا کبھی کوئی چیز گم ہوجاتی ہے، (جیسے سواری وغیرہ) یا کبھی کوئی ضرورت پیش آجاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٧، ومصباح الزجاجة : ١٠١٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/المناسک ٦ (١٧٣٢) ، مسند احمد (١/٢٢٥، ٣٢٣، ٣٥٥) ، سنن الدارمی/الحج ١ (١٨٢٥) (حسن) (سند میں اسماعیل بن خلیفہ ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٩٩٠ ) وضاحت : ١ ؎: تاخیر کی صورت میں اس قسم کے حالات سے دو چار ہوسکتا ہے، اور آدمی ایک فرض کا تارک ہوسکتا ہے۔
فرضیت حج۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ : ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا اللہ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہوں (سورۃ آل عمران : ٩٧ ) نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال فرض ہے ١ ؎؟ آپ ﷺ خاموش رہے، لوگوں نے پھر سوال کیا : کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، اور اگر میں، ہاں، کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہوجاتا ، اس پر آیت کریمہ : يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لکم تسؤكم اے ایمان والو ! تم ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہارے لیے بار خاطر ہوں گی (سورۃ المائدہ : ١٠١ ) نازل ہوئی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥ (٨١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠١١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١٣) (ضعیف) (سند میں عبدالاعلی ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث نزول آیت کے علاوہ صحیح و ثابت ہے، ملاحظہ ہو : آگے حدیث نمبر ٢٨٨٥ ) وضاحت : ١ ؎: حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے جو ٥ ھ یا ٦ ھ میں فرض ہوا، بعض لوگوں کے نزدیک ٩ ھ یا ١٠ ھ میں فرض ہوا ہے زادالمعاد میں حافظ ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔ ٢ ؎: بلا ضرورت سوال کرنا منع ہے، کیونکہ سوال سے ہر چیز کھول کر بیان کی جاتی ہے اور جو سوال نہ ہو تو مجمل رہتی ہے اور مجمل میں بڑی گنجائش رہتی ہے، اسی حج کی آیت میں دیکھیں کہ اس میں تفصیل نہیں تھی کہ ہر سال حج فرض ہے یا زندگی میں ایک بار، پس اگر زندگی میں ایک بار بھی حج کرلیا تو آیت پر عمل ہوگیا، اور یہ کافی تھا پوچھنے کی حاجت نہ تھی، لیکن صحابہ کرام (رض) نے پوچھا، اگر رسول اکرم ﷺ ہاں فرما دیتے تو ہر سال حج فرض ہوجاتا اور امت کو بڑی تکلیف ہوتی خصوصاً دور دراز ملک والوں کو وہ ہر سال حج کے لیے کیونکر جاسکتے ہیں، مگر آپ ﷺ نے اپنی امت پر رحم فرمایا، اور خاموش رہے جب انہوں نے پھر سوال کیا تو انکار میں جواب دیا یعنی ہر سال فرض نہیں، اور آئندہ کے لیے ان کو بلاضرورت سوال کرنے سے منع فرمایا۔
فرضیت حج۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال واجب ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : اگر میں ہاں کہہ دوں تو وہ (ہر سال) واجب ہوجائے گا، اور اگر (ہر سال) واجب ہوگیا تو تم اسے انجام نہ دے سکو گے، اور اگر انجام نہ دے سکے تو تمہیں عذاب دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٧، ومصباح الزجاجة : ١٠١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٧) (صحیح )
فرضیت حج۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا اور کہا : اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال فرض ہے، یا صرف ایک بار ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، صرف ایک مرتبہ فرض ہے، البتہ جو (مزید کی) استطاعت رکھتا ہو تو وہ اسے بطور نفل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ١ (١٧٢١) ، سنن النسائی/الحج ١ (٢٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٦، ومصباح الزجاجة : ١٠١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٥، ٢٩٠، ٣٠١، ٣٠٣، ٣٢٣، ٣٢٥، ٣٥٢، ٣٧٠، ٣٧١) ، سنن الدارمی/الحج ٤ (١٨٢٩) (صحیح )
حج اور عمرہ کی فضیلت۔
عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حج اور عمرہ کو یکے بعد دیگرے ادا کرو، اس لیے کہ انہیں باربار کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے ہی دور کردیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٧٧، ومصباح الزجاجة : ١٠١٨) (صحیح) (سند میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن اصل حدیث ابن مسعود (رض) وغیرہ سے ثابت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٢٠٠ ) اس سند سے بھی عمر بن خطاب (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
حج اور عمرہ کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک جتنے گناہ ہوں ان سب کا کفارہ یہ عمرہ ہوتا ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ اور نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ١ (١٧٧٣) ، صحیح مسلم/الحج ٧٩ (١٣٤٩) ، سنن النسائی/الحج ٥ (٢٦٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٩٠ (٩٣٣) ، موطا امام مالک/الحج ٢١ (٦٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٦، ٤٦١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/الحج ٧ (١٨٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حج مبرور : حج مقبول کو کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ حج مبرور وہ حج ہے جس میں حج کے تمام شرائط اور آداب کی پابندی کی گئی ہو، اور بعضوں نے کہا کہ حج مبرور کی نشانی یہ ہے کہ اس کے بعد حاجی کا حال بدل جائے یعنی توجہ الی اللہ اور عبادت میں مصروف رہے، اور جن گناہوں کو حج سے پہلے کیا کرتا تھا ان سے باز رہے۔ واللہ اعلم۔
حج اور عمرہ کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا، اور نہ (ایام حج میں) جماع کیا، اور نہ گناہ کے کام کئے، تو وہ اس طرح واپس آئے گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٨ (٢٦) ، الحج ٤ (١٥١٩ و ١٥٢١) ، المحصر ٩ (١٨١٩) ، ١٠ (١٨٢٠) ، صحیح مسلم/الحج ٧٨ (١٣٥٠) ، سنن الترمذی/الحج ٢ (٨١١) ، سنن النسائی/الحج ٤ (٢٦٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٤٨، ٤١٠، ٤٨٤، ٤٩٤) ، سنن الدارمی/الحج ٧ (١٨٣٦) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٤٢ )
کجاوہ پر سوار ہو کر حج کرنا۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک پرانے کجاوے پر سوار ہو کر ایک ایسی چادر میں حج کیا جس کی قیمت چار درہم کے برابر رہی ہوگی، یا اتنی بھی نہیں، پھر فرمایا : اے اللہ ! یہ ایسا حج ہے جس میں نہ ریا کاری ہے اور نہ شہرت ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٢، ومصباح الزجاجة : ١٠١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٣ (١٥١٧) ، عن ثمامة بن عبد اللہ بن أنس قال : حج أنس علی رحل ولم یکن شحیحاً وحدث أن رسول اللہ ﷺ حج علی رحل وکانت زاعلتہ (صحیح) (الربیع بن صبیح و یزید بن ابان دونوں ضعیف ہیں، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٦١٧ ، و مختصر الشمائل : ٢٨٨ ، فتح الباری : ٣؍ ٣٨٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی خالص تیری رضا مندی اور ثواب کے لیے حج کرتا ہوں، نہ نمائش اور فخر و مباہات کے لیے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج میں زیادہ زیب و زینت کرنا اور زیادہ عمدہ سواری یا عمدہ لباس رکھنا خلاف سنت ہے، حج میں بندہ اپنے مالک کے حضور میں جاتا ہے تو جس قدر عاجزی کے ساتھ جائے پھٹے پرانے حال سے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ مالک کی رحمت جوش میں آئے، اور یہی وجہ ہے کہ حج میں سلے ہوئے کپڑے پہننے سے اور خوشبو لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
کجاوہ پر سوار ہو کر حج کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہمارا گزر ایک وادی سے ہوا، آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کون سی وادی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : وادی ازرق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : گویا میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپ ﷺ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بالوں کی لمبائی کا تذکرہ کیا (جو راوی داود کو یاد نہیں رہا) اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے ہوئے بلند آواز سے، لبیک کہتے ہوئے، اللہ سے فریاد کرتے ہوئے اس وادی سے گزرے ۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک وادی میں پہنچے تو آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کون سی وادی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : هرشى أو لفت کی وادی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : گویا میں یونس (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں جو بالوں کا جبہ پہنے ہوئے، سرخ اونٹنی پر سوار ہیں، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے پتوں کی رسی کی ہے، اور وہ اس وادی سے لبیک کہتے ہوئے گزر رہے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٧٤ (١٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٣٠ (١٥٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: هرشى أو لفت دونوں ٹیلوں کے نام ہیں۔ ٢ ؎: احتمال ہے کہ عالم ارواح میں موسیٰ اور یونس (علیہما السلام) آپ ﷺ کے سامنے اس وقت اسی طرح سے گزرے ہوں، یا یہ واقعہ ان کے زمانہ کا ہے، اللہ تبارک وتعالی نے آپ ﷺ کو پھر دکھلا دیا، یا یہ تشبیہ ہے کمال علم اور یقین کی جیسے اس بات کو دیکھ رہے ہیں۔
حاجی کی دعا کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حجاج اور معتمرین (حج اور عمرہ کرنے والے) اللہ کے وفد (مہمان) ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے، اور اگر وہ اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو وہ انہیں معاف کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٨٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٠) (ضعیف) (سند میں صالح بن عبد اللہ منکر الحدیث راوی ہے )
حاجی کی دعا کی فضیلت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٠٦، ومصباح الزجاجة : ١٠٢١) (حسن )
حاجی کی دعا کی فضیلت۔
عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اجازت عطا فرمائی، اور ان سے فرمایا : اے میرے بھائی ! ہمیں بھی دعاؤں میں شریک رکھنا، اور ہمیں نہ بھولنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٨) ، سنن الترمذی/الدعوات ١١٠ (٣٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٢) ، وقد أٰخرجہ : مسند احمد (/٢٩) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف راوی ہیں )
حاجی کی دعا کی فضیلت۔
صفوان بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ان کی زوجیت میں ابوالدرداء (رض) کی صاحبزادی تھیں، وہ ان کے پاس گئے، وہاں ام الدرداء یعنی ساس کو پایا، ابو الدرداء کو نہیں، ام الدرداء نے ان سے پوچھا : کیا تمہارا امسال حج کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں، تو انہوں نے کہا : ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کرنا، اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے : آدمی کی وہ دعا جو وہ اپنے بھائی کے لیے اس کے غائبانے میں کرتا ہے قبول کی جاتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ ہوتا ہے، جو اس کی دعا پر آمین کہتا ہے، جب وہ اس کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے تو وہ آمین کہتا ہے، اور کہتا ہے : تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو ۔ صفوان (رض) کہتے ہیں کہ پھر میں بازار کی طرف چلا گیا، تو میری ملاقات ابو الدرداء (رض) سے ہوئی تو انہوں نے بھی مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٣ (٢٧٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٣٩) (صحیح )
کونسی چیز حج واجب کردیتی ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس کھڑا ہوا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سی چیز حج کو واجب کردیتی ہے، ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : زاد سفر اور سواری (کا انتظام) اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! حاجی کیسا ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پراگندہ سر اور خوشبو سے عاری ایک دوسرا شخص اٹھا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! حج کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عج اور ثج۔ وکیع کہتے ہیں کہ عج کا مطلب ہے لبیک پکارنا، اور ثج کا مطلب ہے خون بہانا یعنی قربانی کرنا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٤ (٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٤٠) (ضعیف جدا) (ابراہیم بن یزید مکی متروک الحدیث راوی ہے، لیکن العج و الثج کا جملہ دوسری حدیث سے ثابت ہے، جو ٢٩٢٤ نمبر پر آئے گا، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٩٨٨ )
کونسی چیز حج واجب کردیتی ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے فرمان : من استطاع إليه سبيلا کا مطلب زاد سفر اور سواری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٥٢، ٦١٦٣، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٢) (ضعیف جدا) (سوید بن سعید متکلم فیہ اور عمر بن عطاء ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٩٨٨ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قرآن میں جو آیا ہے کہ جو حج کے راہ کی طاقت رکھے اس سے مراد یہ ہے کہ کھانا اور سواری کا خرچ اس کے پاس ہوجائے تو حج فرض ہوگیا۔
عورت کا بغیر ولی کے حج کرنا۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت تین یا اس سے زیادہ دنوں کا سفر باپ یا بھائی یا بیٹے یا شوہر یا کسی محرم کے بغیر نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٤ (١٣٤٠) ، سنن ابی داود/الحج ٢ (١٧٢٦) ، سنن الترمذی/الرضاع ١٥ (١١٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٠٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزء الصید ٢٦ (١٨٦٤ مختصراً ) ، مسند احمد (٣/ ٥٤) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٦ (٢٧٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محرم : شوہر یا وہ شخص جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو مثلاً باپ دادا، نانا، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں، بھتیجا، داماد وغیرہ یا رضاعت سے ثابت ہونے والے رشتہ دار۔ محرم سے مراد وہ شخص ہے جس سے نکاح حرام ہو، تو دیور یا جیٹھ کے ساتھ عورت کا سفر کرنا جائز نہیں، اسی طرح بہنوئی، چچا زاد یا خالہ زاد یا ماموں زاد بھائی کے ساتھ کیونکہ یہ لوگ محرم نہیں ہیں، محرم سے مراد وہ شخص ہے جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو۔ اور اس حدیث میں تین دن کی قید اتفاقی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تین دن سے کم سفر غیر محرم کے ساتھ جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ایک دن کا ذکر ہے۔ اور اہل حدیث کے نزدیک سفر کی کوئی حد مقرر نہیں جس کو لوگ عرف عام میں سفر کہیں وہ عورت کو بغیر محرم کے جائز نہیں، البتہ جس کو سفر نہ کہیں وہاں عورت بغیر محرم کے جاسکتی ہے جیسے شہر میں ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں، یا نزدیک کے گاؤں میں جس کی مسافت ایک دن کی راہ سے بھی کم ہو۔
عورت کا بغیر ولی کے حج کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، یہ درست نہیں ہے کہ وہ ایک دن کی مسافت کا سفر کرے، اور اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٤ (١٠٨٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧٤ (١٣٣٩) ، سنن ابی داود/الحج ٢ (١٧٢٣) ، سنن الترمذی/الرضاع ١٥ (١٦٦٩) ، موطا امام مالک/الإستئتذان ١٤ (٣٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٣٤٠، ٣٤٧، ٤٢٣، ٤٣٧، ٤٤٥، ٤٩٣) (صحیح )
عورت کا بغیر ولی کے حج کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں جانے کے لیے درج کرلیا گیا ہے، اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے، تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : جاؤ اس کے ساتھ حج کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٤ (١٣٤١) ، الجہاد ١٨١ (٣٠٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٦ (٣٠٦١) ، مسند احمد (١/٣٤٦) (صحیح )
حج کرناعورتوں کیلئے جہاد ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، لیکن ان پر ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں ہے اور وہ حج اور عمرہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤ (١٥٢٠) ، الجہاد ٦٢ (٢٧٨٤، ٢٨٧٦) سنن النسائی/الحج ٤ (٢٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧١، ٧٦، ٧٩ ١٦٥) (صحیح )
حج کرناعورتوں کیلئے جہاد ہے۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حج ہر ناتواں اور ضعیف کا جہاد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢١١، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ٤ (٢٦٢٩) ، مسند احمد (٢/٢١، ٦/٢٩٤، ٣٠٣، ٣١٤) (حسن) (ابوجعفر الباقر کا سماع ام سلمہ (رض) سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد و متابعات سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٥١٩ ) ۔
میت کی جانب سے حج کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو لبیک عن شبرمہ حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے کہتے ہوئے سنا، تو آپ ﷺ نے پوچھا : شبرمہ کون ہے ؟ اس نے بتایا : وہ میرا رشتہ دار ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم نے کبھی حج کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس حج کو اپنی طرف سے کرلو، پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٢٦ (١٨١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج دوسرے کی طرف سے نائب ہو کر کرنا جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سے پہلے خود اپنا فریضہ حج ادا کرچکا ہو۔
میت کی جانب سے حج کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور بولا : کیا میں اپنے والد کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اپنے والد کی طرف سے حج کرو، اگر تم ان کی نیکی نہ بڑھا سکے تو ان کی برائی میں اضافہ مت کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٥، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٤) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی باپ کے بڑے احسانات ہیں، آدمی کو چاہیے کہ اپنے والد کی طرف سے خیر خیرات اور اچھے کام کرے، جیسے صدقہ اور حج وغیرہ، اگر یہ نہ ہو سکے تو اتنا ضروری ہے کہ والد کے ساتھ برائی نہ کرے، وہ برائی یہ ہے دوسرے لوگوں سے لڑ کر والد کو گالیاں دلوائے یا برا کہلوائے یا ان کے والد کو برا کہہ کر، جیسے دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا : اپنے والد کو کون گالی دے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس طرح سے کہ دوسرے کے والد کو گالی دے وہ اس کے والد کو گالی دے ۔
میت کی جانب سے حج کرنا۔
مقام فرع کے ایک شخص ابوالغوث بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے ایسے حج کی ادائیگی کے بارے میں سوال کیا جو ان کے والد پر فرض تھا، اور وہ بغیر حج کیے مرگئے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے والد کی جانب سے حج کرو ، نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : اسی طرح کا معاملہ نذر مانے ہوئے صیام کا بھی ہے کہ ان کی قضاء اس کی طرف سے کی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں عثمان بن عطاء خراسانی ضعیف ہیں، بلکہ بعضوں کے نزدیک متروک، حدیث کے پہلے جملہ کے لئے آگے کی حدیث ( ٢٩٠٦ ) دیکھیں )
زندہ کی طرف سے حج کرنا جب اس میں ہمت نہ رہے۔
ابورزین عقیلی (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کرنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ عمرہ کرنے کی، اور نہ سواری پر سوار ہونے کی (فرمائیے ! ان کے متعلق کیا حکم ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٦ (١٨١٠) ، سنن النسائی/الحج ٢ (٢٦٢٢) ، ١٠ (٢٦٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٨٧ (٩٣٠) ، مسند احمد (٤/١٠، ١١، ١٢) (صحیح )
زندہ کی طرف سے حج کرنا جب اس میں ہمت نہ رہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ بہت ناتواں اور ضعیف ہوگئے ہیں، اور اللہ کا بندوں پر عائد کردہ فرض حج ان پر لازم ہوگیا ہے، وہ اس کو ادا کرنے کی قوت نہیں رکھتے، اگر میں ان کی طرف سے حج ادا کروں تو کیا یہ ان کے لیے کافی ہوگا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١ (١٥١٣) ، جزاء الصید ٢٣ (١٨٥٤) ، ٢٤ (١٨٥٥) ، المغازي ٧٧ (٤٣٩٩) ، الاستئذان ٢ (٦٢٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧١ (١٣٣٤) ، سنن ابی داود/الحج ٢٦ (١٨٠٩) ، سنن الترمذی/الحج ٨٥ (٩٢٨) ، سنن النسائی/الحج ٨ (٢٦٣٤) ، ٩ (٢٦٣٦) ، موطا امام مالک/الحج ٣٠ (٩٧) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٥١، ٣٢٩، ٣٤٦، ٣٥٩) ، سنن الدارمی/الحج ٢٣ (١٨٧٣) (حسن الإسناد )
زندہ کی طرف سے حج کرنا جب اس میں ہمت نہ رہے۔
حصین بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد پر حج فرض ہوگیا ہے لیکن وہ حج کرنے کی سکت نہیں رکھتے، مگر اس طرح کہ انہیں کجاوے کے ساتھ رسی سے باندھ دیا جائے ؟ یہ سن کر آپ ﷺ کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا : تم اپنے والد کی طرف سے حج کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤١٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٦) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن کریب منکر الحدیث ہیں، لیکن صحیح و ثابت احادیث ہی ہمارے لئے کافی ہیں )
زندہ کی طرف سے حج کرنا جب اس میں ہمت نہ رہے۔
عبداللہ بن عباس اپنے بھائی فضل رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ وہ یوم النحر کی صبح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے آپ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کے بندوں پر عائد کیے ہوئے فریضہ حج نے میرے والد کو بڑھاپے میں پایا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی سکت نہیں رکھتے، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرلوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اس لیے کہ اگر تمہارے باپ پر کوئی قرض ہوتا تو تم اسے چکاتیں نا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٣ (١٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٧١ (١٣٣٥) ، سنن الترمذی/الحج ٨٥ (٩٢٨) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٩ (٥٣٩١) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٢، ٣١٣، ٣٥٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٣ (١٨٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب والد نے قرض کی ادائیگی کے لیے مال نہ چھوڑا ہو، تو باپ کا قرض ادا کرنا بیٹے پر لازم نہیں ہے، لیکن اکثر نیک اور صالح اولاد اپنی کمائی سے ماں باپ کا قرض ادا کردیتے ہیں، ایسا ہی آپ ﷺ نے اس عورت سے بھی پوچھا کہ تم اپنے والد کا قرض ادا کرتی یا نہیں ؟ جب اس نے کہا کہ میں ادا کرتی تو آپ ﷺ نے فرمایا : حج بھی اس کی طرف سے ادا کر دو ، وہ اللہ کا قرض ہے ۔
نابالغ کا حج کرنا۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو حج کے دوران نبی اکرم ﷺ کے سامنے پیش کرتے ہوئے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس کا بھی حج ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : ہاں اور اجر و ثواب تمہارے لیے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٨٣ (٩٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نابالغ لڑکے کا حج صحیح ہے، چونکہ اس کا ولی اس کی جانب سے کم عمری کی وجہ سے حج کے ارکان ادا کرتا ہے اس لیے وہ ثواب کا مستحق ہوگا، البتہ یہ حج اس بچے سے حج کی فرضیت کو ساقط نہیں کرے گا، بلوغت کے بعد استطاعت کی صورت میں اسے حج کے فریضے کی ادائیگی کرنی ہوگی، اور بچپن کا حج نفل قرار پائے گا۔
حیض ونفاس والی عورت حج کا احرام باندھ سکتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس (رض) کو مقام شجرہ میں نفاس آگیا، رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ وہ اسماء سے کہیں کہ وہ غسل کر کے تلبیہ پکاریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٦ (١٢٠٩) ، سنن ابی داود/الحج ١٠ (١٧٤٣) ، سنن النسائی/الحیض ٢٤ (٢١٥) ، الحج ٥٧ (٢٧٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٠٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤١ (١٢٧، ١٢٨) ، سنن الدارمی/المناسک ١١ (١٨٤٥) ، ٣٤ (١٨٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شجرہ : ذوالحلیفہ میں ایک درخت تھا جس کی مناسبت سے اس جگہ کا نام شجرہ پڑگیا۔ اس وقت عوام میں یہ مقام بئر علی کے نام سے مشہور ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب انہیں حیض آیا تو نبی کریم ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ ہر ایک کام کرو جو حاجی کرتے ہیں، فقط بیت اللہ (خانہ کعبہ) کا طواف نہ کرو جب تک کہ غسل نہ کرلو ۔
حیض ونفاس والی عورت حج کا احرام باندھ سکتی ہے۔
ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے لیے نکلے، ان کے ساتھ (ان کی بیوی) اسماء بنت عمیس (رض) تھیں، ان سے مقام شجرہ (ذوالحلیفہ) میں محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی، ابوبکر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ کو اس کی اطلاع دی، رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسماء سے کہیں کہ وہ غسل کریں، پھر تلبیہ پکاریں اور احرام باندھیں، اور وہ تمام کام انجام دیں، جو دوسرے لوگ کریں البتہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٢٦ (٢٦٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٦١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: طواف ایک ایسی عبادت ہے جس میں طہارت شرط ہے، اسی وجہ سے رسول اکرم ﷺ نے اسماء (رض) کو طواف سے روک دیا۔
حیض ونفاس والی عورت حج کا احرام باندھ سکتی ہے۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس (رض) کو محمد بن ابی بکر کی (ولادت کی) وجہ سے نفاس (کا خون) آیا، انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو کہلا بھیجا، تو آپ ﷺ نے انہیں غسل کرنے، اور کپڑے کا لنگوٹ کس کر احرام باندھ لینے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٦ (١٢١٠) ، سنن ابی داود/الحج ١٠ (١٧٤٣) ، سنن النسائی/الحیض ٢٤ (٢١٥) ، الحج ٥٧ (٢٧٦٢، ٢٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤١ (١٢٧، ١٢٨) ، سنن الدارمی/المناسک ١١ (١٨٤٥) (صحیح )
آفاقی کی میقات کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اہل مدینہ ذو الحلیفہ سے تلبیہ پکاریں اور احرام باندھیں، اہل شام جحفہ سے، اور اہل نجد قرن سے، عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رہیں یہ تینوں (میقاتیں) تو انہیں میں نے (براہ راست) رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، اور مجھے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اہل یمن یلملم سے تلبیہ پکاریں، (اور احرام باندھیں) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥٣ (١٣٣) ، الحج ٥ (١٥٢٢) ، ٨ (١٥٢٥، ١٠ (١٥٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٢ (١١٨٢) ، سنن ابی داود/الحج ٩ (١٧٣٧) ، سنن النسائی/الحج ١٧ (٢٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٨ (٢٢) ، مسند احمد (٢/٤٨، ٥٥، ٦٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٥ (١٨٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر کو احرام باندھنا اور تلبیہ پکارنا ضروری ہوتا ہے، البتہ حاجی یا معتمر مکہ میں یا میقات کے اندر رہ رہا ہو تو اس کے لیے گھر سے نکلتے وقت احرام باندھ لینا ہی کافی ہے میقات پر جانا ضروری نہیں۔ اور یلملم ایک پہاڑی ہے جو مکہ سے دو منزل پر ہے، برصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) سے بحری جہاز سے آنے والے لوگ اس کے محاذا ۃ سے احرام باندھتے اور تلبیہ پکارتے ہیں۔
آفاقی کی میقات کا بیان۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا : اہل مدینہ کے تلبیہ پکارنے (اور احرام باندھنے) کا مقام ذو الحلیفہ ہے، اہل شام کا جحفہ، اہل یمن کا یلملم اور اہل نجد کا قرن ہے، اور مشرق سے آنے والوں کے احرام کا مقام ذات عرق ہے، پھر آپ ﷺ نے اپنا رخ آسمان کی طرف کیا اور فرمایا : اے اللہ ! ان کے دل ایمان کی طرف لگا دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٧) ، وقد أخر جہ : صحیح مسلم/الحج ٢ (١١٨٣) ، مسند احمد (٢/١٨١، ٣/٣٣٣، ٣٣٦) (صحیح) (اس سند میں ابراہیم الہجری ضعیف ہے، لیکن متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤؍ ١٧٦ ، تراجع الألبانی : رقم : ٥٢٦ ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کے وقت میں مشرق کی طرف کفر کا غلبہ تھا، اس وجہ سے وہاں کے لوگوں کے لیے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے مشرق والوں کو مسلمان کردیا، کروڑوں مسلمان ہندوستان میں گزرے جو مکہ سے مشرق کی جانب ہے، بعض کہتے ہیں کہ دوسری حدیث میں ہے کہ مشرق سے فتنہ نمودار ہوگا، اس لیے آپ ﷺ نے ان لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا کی۔
احرام کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنا پاؤں رکاب میں رکھتے اور اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوجاتی، تو آپ ذو الحلیفہ کی مسجد کے پاس سے لبیک پکارتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠٣٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٢ (١٥١٤) ، ٢٨ (١٥٥٢) ، ٢٩ (١٥٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٧) ، سنن النسائی/الحج ٥٦ (٢٧٥٩) ، موطا امام مالک/الحج ٨ (٢٣) ، مسند احمد (٢/١٧، ١٨، ٢٩، ٣٦، ٣٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٢ (١٩٧٠) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤ ؍ ٢٩٥ ) وضاحت : ١ ؎: تلبیہ پکارنے کے سلسلے میں صحیح اور درست بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ذی الحلیفہ میں نماز ظہر کے بعد تلبیہ پکارا، اور اونٹنی پر سوار ہوئے تو دوبارہ تلبیہ پکارا، اسی طرح جب آپ مقام بیدا میں پہنچے تو وہاں بھی تلبیہ پکارا، آپ کے ساتھ حج کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت تھی ہر صحابی ہر جگہ موجود نہیں رہا، اس لیے جس نے جیسا سنا روایت کردیا لیکن دوسرے کی نفی نہیں کی۔
احرام کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں مقام شجرہ (ذو الحلیفہ) میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کے پاؤں کے پاس تھا، جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی تو آپ نے کہا : لبيك بعمرة وحجة معا میں عمرہ و حج دونوں کی ایک ساتھ نیت کرتے ہوئے حاضر ہوں ، یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨٣، ٢٢٥) (صحیح الإسناد )
تلبیہ کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے تلبیہ رسول اللہ ﷺ سے سیکھا، آپ فرماتے تھے : لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك حاضر ہوں، اے اللہ ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد و ثنا، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، تیرا (ان میں) کوئی شریک نہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اس میں یہ اضافہ کرتے : لبيك لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل حاضر ہوں، اے اللہ ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، نیک بختی حاصل کرتا ہوں، خیر (بھلائی) تیرے ہاتھ میں ہے، تیری ہی طرف تمام رغبت اور عمل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٨٧٣، ٨٠١٣، ١٨١٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٢٦ (١٥٤٩) ، اللباس ٦٩ (٥٩٥١) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٤) ، سنن ابی داود/الحج ٢٧ (١٨١٢) ، سنن الترمذی/الحج ١٣ (٨٢٥) ، سنن النسائی/الحج ٥٤ (٢٧٥٠) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٢٨) ، حم ٢/٣، ٢٨، ٣٤، ٤١، ٤٣، ٤٧، ٤٨، ٥٣، ٧٦، ٧٧، ٧٩، ١٣١، سنن الدارمی/المناسک ١٣ (١٨٤٩) (صحیح )
تلبیہ کا بیان۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ یہ تھا : لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك حاضر ہوں اے اللہ ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، حمد وثناء، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، ان میں کوئی شریک نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٧ (١٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٤) (صحیح )
تلبیہ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے تلبیہ میں یوں کہا : لبيك إله الحق لبيك حاضر ہوں، اے معبود برحق، حاضر ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ١٣٩٤١، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ٥٤ (٢٧٥٣) ، مسند احمد (٢/٣٤١، ٣٥٢، ٤٧٦) (صحیح )
تلبیہ کا بیان۔
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہتا ہے، تو اس کے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے درخت، پتھر اور ڈھیلے سبھی تلبیہ کہتے ہیں، دونوں جانب کی زمین کے آخری سروں تک ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٤ (٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٣٥) (صحیح )
لبیک پکار کر کہنا۔
سائب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ سے کہوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پکاریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٧ (١٨١٤) ، سنن الترمذی/الحج ١٥ (٨٢٩) ، سنن النسائی/الحج ٥٥ (٢٧٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ١٠ (٣٤) ، مسند احمد (٤/٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/المناسک ١٤ (١٨٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم مردوں کے لیے ہے، عورت بھی تلبیہ پکارے گی لیکن دھیمی آواز سے، حدیث کے مطابق طریقہ یہ ہے کہ حاجی غسل کرے، پھر خوشبو لگائے اور احرام کی چادریں اوڑھے، اور لبیک پکار کر کہے، اگر صرف حج کی نیت ہو تو لبیک بحج ۃ کہے، اور اگر عمرے کی نیت ہو تو لبیک عمر ۃ کہے، اگر دونوں کی ایک ساتھ نیت ہو یعنی حج قران کی تو یوں کہے لبیک بحج ۃ وعمر ۃ ۔
لبیک پکار کر کہنا۔
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل آئے اور بولے : اے محمد ! اپنے صحابہ سے کہو کہ وہ تلبیہ باآواز بلند پکاریں، اس لیے کہ یہ حج کا شعار ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٠، و مصباح الزجاجة : ١٠٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے لبیک پکارنے کا وجوب نکلتا ہے، شعار کے لفظ سے واجب ہونا ضروری نہیں، بہت سی چیزیں سنت ہیں، پر شعائر میں سے ہیں جیسے اذان وغیرہ۔
لبیک پکار کر کہنا۔
ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : سب سے بہتر عمل کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عج اور ثج ، یعنی باآواز بلند تلبیہ پکارنا، اور خون بہانا (یعنی قربانی کرنا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٤ (٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المناسک ٨ (١٨٣٨) (صحیح )
جو شخص محرم ہو۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : محرم (احرام باندھنے والا) جو چاشت کے وقت سے سورج ڈوبنے تک سارے دن اللہ کے لیے (دھوپ میں) لبیک کہتا رہے، تو سورج اس کے گناہوں کو ساتھ لے کر ڈوبے گا، اور وہ ایسا (بےگناہ) ہوجائے گا گویا اس کی ماں نے جنم دیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٦٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٧٣) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبید اللہ اور عاصم بن عمر بن حفص ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٠١٨ ) ۔
احرام سے قبل خوشبوکا استعمال۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو احرام کے وقت احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی، اور احرام کھولنے کے وقت بھی طواف افاضہ کرنے سے پہلے۔ سفیان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ عائشہ (رض) نے کہا : خوشبو میں نے اپنے انہی دونوں ہاتھوں سے لگائی۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٨ (١٥٣٩) ، ١٤٣ (١٧٥٤) ، اللباس ٧٣ (٥٩٢٢) ، ٧٤ (٥٩٢٣) ، ٧٩ (٥٩٢٨) ، ٨١ (٥٩٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٨٥) ، وحدیث محمد بن رمح تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٥١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٨٩) ، سنن ابی داود/الحج ١١ (١٧٤٥) ، سنن الترمذی/الحج ٧٧ (٩١٧) ، سنن النسائی/الحج ٤١ (٢٦٨٧) ، موطا امام مالک/الحج ٧ (١٧) ، مسند احمد (٦/٩٨، ١٠٦، ١٣٠، ١٦٢، ١٨١، ١٨٦، ١٩٢، ٢٠٠، ٢٠٧، ٢٠٩، ٢١٤، ٢١٦، ٢٣٧، ٢٣٨، ٢٤٤، ٢٤٥، ٢٥٨) ، سنن الدارمی/المناسک ١٠ (١٨٤٤) (صحیح )
احرام سے قبل خوشبوکا استعمال۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، اور آپ لبیک کہہ رہے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠٩، ٢٠٧) (صحیح )
احرام سے قبل خوشبوکا استعمال۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ گویا میں تین دن بعد تک خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، اور آپ احرام کی حالت میں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٤١ (٢٦٩٥) ، ٤٢ (٦٢٩٦، ٢٧٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ١٤ (٢٦٧) ، الحج ١٨ (١٥٣٩) ، اللباس ٧٠ (٥٩١٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٩٠) ، بدون ذکر بعد ثلاثة ، مسند احمد (٦/٢٠٠، ٢٠٧، ٢٠٩، ٢١٤، ٢١٦، ٢٣٧، ٢٣٨، ٢٤٤، ٢٤٥، ٢٥٨) (صحیح )
محرم کون سالباس پہن سکتا ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : محرم کون سے کپڑے پہنے ؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا : قمیص، عمامے (پگڑیاں) ، پاجامے، ٹوپیاں، اور موزے نہ پہنے، البتہ اگر جوتے میسر نہ ہوں تو موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرلے، اور کوئی ایسا لباس بھی نہ پہنے جس میں زعفران یا ورس لگی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥٣ (١٣٤) ، الصلاة ٩ (٣٦٦) ، الحج ٢١ (١٥٤٢) ، جزاء الصید ١٣ (١٨٣٨) ، ١٥ (١٨٤٢) ، اللباس ٨ (٥٧٩٤) ، ١٣ (٥٨٠٣) ، ١٥ (٥٨٠٦) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٧) ، سنن ابی داود/المناسک ٣٢ (١٨٢٤) ، سنن الترمذی/الحج ١٨ (٨٣٣) ، سنن النسائی/الحج ٣٠ (٢٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٥) ، موطا امام مالک/الحج ٤ (٩) ، مسند احمد (٢/٤، ٨، ٢٢، ٢٩، ٣٢، ٣٤، ٤١، ٥٤، ٥٦، ٥٨، ٦٣، ٦٥، ١٧٧، ١١٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٩ (١٨٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام احمد کے نزدیک موزوں کا کاٹنا ضروری نہیں، دیگر ائمہ کے نزدیک کاٹنا ضروری ہے، دلیل ان کی یہی حدیث ہے، اور امام احمد کی دلیل ابن عباس (رض) کی وہ حدیث ہے جس میں کاٹنے کا ذکر نہیں ہے، جب کہ وہ میدان عرفات کے موقع کی حدیث ہے، یعنی ابن عمر (رض) کی اس حدیث کی ناسخ ہے، اور ورس اور زعفران سے منع اس لیے کیا گیا کہ اس میں خوشبو ہوتی ہے، یہی حکم ہر اس رنگ کا ہے جس میں خوشبو ہو۔
محرم کون سالباس پہن سکتا ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کو ورس (خوشبودار گھاس) اور زعفران سے رنگا کپڑا پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٧ (٥٨٥٢) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٦) ، (أنظر ما قبلہ) (صحیح )
محرم کو تہبند نہ ملے تو پائجامہ پہن لے اور جوتا نہ ملے تو موزہ پہن لے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا (ہشام نے اپنی روایت میں منبر پر کا اضافہ کیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : جسے تہ بند میسر نہ ہو تو وہ پاجامہ پہن لے، اور جسے جوتے نہ مل سکیں وہ موزے پہن لے ، ہشام اپنی روایت میں کہتے ہیں : وہ پاجامے پہنے جب تہ بند نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٥ (١٨٤١) ، ١٦ (١٨٤٣) ، اللباس ١٤ (٥٨٠٤) ، ٣٧ (٥٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٨) ، سنن ابی داود/المناسک ٣٢ (١٨٢٩) ، سنن الترمذی/الحج ١٩ (٨٣٤) ، سنن النسائی/الحج ٣٢ (٢٦٧٢، ٢٦٧٣) ، ٣٧ (٢٦٨٠) ، الزینة من المجتبیٰ ٤٦ (٥٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٨، ٢٧٩، ٣٣٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٩ (١٨٤٠) (صحیح )
محرم کو تہبند نہ ملے تو پائجامہ پہن لے اور جوتا نہ ملے تو موزہ پہن لے۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو جوتے نہ پائے تو وہ موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث نافع تقدم تخریجہ، (٢٩٢٩) ، وحدیث عبد اللہ بن دینار تقدم تخریجہ، (٢٩٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣٠) (صحیح )
احرام میں ان امور سے بچنا چاہئے۔
اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج کے لیے) نکلے، جب مقام عرج میں پہنچے تو ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، رسول اللہ ﷺ بیٹھے اور ام المؤمنین عائشہ (رض) آپ کے پاس بیٹھ گئیں، اور میں (اپنے والد) ابوبکر (رض) کے پاس، اس سفر میں میرا اور ابوبکر (رض) کا سامان اٹھانے والا اونٹ ایک تھا جو ابوبکر کے غلام کے ساتھ تھا، اتنے میں غلام آیا، اس کے ساتھ اونٹ نہیں تھا تو انہوں نے اس سے پوچھا : تمہارا اونٹ کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا : کل رات کہیں غائب ہوگیا، ابوبکر (رض) نے اس سے کہا : تمہارے ساتھ ایک ہی اونٹ تھا، اور وہ بھی تم نے گم کردیا، پھر وہ اسے مارنے لگے اور رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : دیکھو اس محرم کو کیا کر رہا ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٣٠ (١٧٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧١٥) (حسن) (سند میں محمد اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٥٩٥ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مار پیٹ، لڑائی جھگڑا احرام کی حالت میں یہ باتیں منع ہیں۔
محرم سردھوسکتا ہے۔
عبداللہ بن حنین (رض) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کے درمیان مقام ابواء میں اختلاف ہوا تو عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : محرم اپنا سر دھو سکتا ہے، اور مسور (رض) نے کہا : نہیں دھو سکتا، چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) نے مجھے ابوایوب انصاری (رض) کے پاس بھیجا، تاکہ میں ان سے اس سلسلے میں معلوم کروں، میں نے انہیں کنویں کے کنارے دو لکڑیوں کے درمیان ایک کپڑے کی آڑ لیے ہوئے نہاتے پایا، میں نے سلام عرض کیا، تو انہوں نے پوچھا : کون ہے ؟ میں نے کہا : میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے عبداللہ بن عباس (رض) نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے معلوم کروں کہ حالت احرام میں رسول اللہ ﷺ اپنے سر کو کیسے دھوتے تھے، ابوایوب (رض) نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے جھکایا یہاں تک کہ مجھے ان کا سر دکھائی دینے لگا، پھر ایک شخص سے جو پانی ڈال رہا تھا، کہا : پانی ڈالو، تو اس نے آپ کے سر پر پانی ڈالا، پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے سر کو ملا، اور دونوں ہاتھ سر کے آگے سے لے گئے، اور پیچھے سے لائے، پھر بولے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٤ (١٨٤٠) ، صحیح مسلم/الحج ١٣ (١٢٠٥) ، سنن ابی داود/الحج ٣٨ (١٨٤٠) ، سنن النسائی/الحج ٢٧ (٢٦٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٢ (٤) ، مسند احمد (٥/٤١٦، ٤١٨، ٤٢١) ، سنن الدارمی/المناسک ٦ (١٨٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حالت احرام میں سر کا دھونا صرف پانی سے جائز ہے کسی بھی ایسی چیز سے پرہیز ضروری ہے جس سے جوؤں کے مرنے کا خوف ہو اسی طرح سر دھوتے وقت اتنا زور سے سے نہ رگڑیں کہ بال گریں۔
احرام والی عورت اپنے چہرہ کے سامنے کپڑالٹکائے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں تھے، جب ہمیں کوئی سوار ملتا تو ہم اپنا کپڑا اپنے سروں کے اوپر سے لٹکا لیتے، اور جب سوار آگے بڑھ جاتا تو ہم اسے اٹھا لیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٣٤ (١٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠) (حسن) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں، لیکن اسماء (رض) سے یہ ثابت ہے، اس لیے اس سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٤٣٣ ) وضاحت : ١ ؎: احرام کی حالت میں عورتوں کو اپنے چہرے پر نقاب لگانا منع ہے، مگر حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ اس وقت ایسا ہوتا تھا جو چہرے پر باندھا جاتا تھا، برصغیر ہند و پاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادر کے آنچل کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرنے کے وقت چہرے پر لٹکا لیا کرتی تھیں، (دیکھئے حدیث رقم ١٨٣٣ ) اس لیے اس نقاب کو بوقت ضرورت عورتیں چہرے پر لٹکا سکتی ہیں۔ اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔
حج میں شرط لگانا۔
ابوبکر بن عبداللہ بن زبیر اپنی جدّہ (دادی یا نانی) سے روایت کرتے ہیں (راوی کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ وہ اسماء بنت ابی بکر ہیں یا سعدیٰ بنت عوف) کہ رسول اللہ ﷺ ضباعہ بنت عبدالمطلب (رض) کے پاس گئے اور فرمایا : پھوپھی جان ! حج کرنے میں آپ کے لیے کون سی چیز رکاوٹ ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : میں ایک بیمار عورت ہوں اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں پہنچ نہیں سکوں گی، آپ ﷺ نے فرمایا : آپ احرام باندھ لیں اور شرط کرلیں کہ جس جگہ بہ سبب بیماری آگے نہیں جا سکوں گی، وہیں حلال ہوجاؤں گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٩) (صحیح) (سند میں ابوبکر بن عبد اللہ مستور ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤ / ١٨٧ )
حج میں شرط لگانا۔
ضباعہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، میں اس وقت بیمار تھی، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا امسال آپ کا ارادہ حج کرنے کا نہیں ہے ؟ میں نے جواب دیا : اللہ کے رسول ! میں بیمار ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : حج کرو اور یوں (نیت میں) کہو : اے اللہ جہاں تو مجھے روک دے گا میں وہیں حلال ہوجاؤں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٠) (صحیح )
حج میں شرط لگانا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں : میں ایک بھاری بھر کم عورت ہوں، اور میں حج کا ارادہ بھی رکھتی ہوں، تو میں تلبیہ کیسے پکاروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم تلبیہ پکارو اور (اللہ سے) شرط کرلو کہ جہاں تو مجھے روکے گا، میں وہیں حلال ہوجاؤں گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٥ (١٢٠٨) ، سنن النسائی/الحج ٦٠ (٢٧٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥٤، ٦٢١٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٢٢ (١٧٧٦) ، سنن الترمذی/الحج ٩٧ (٩٤١) ، مسند احمد (١/٣٣٧، ٣٥٢) ، سنن الدارمی/المناسک ١٥ (١٨٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ مرض احصار (رکاوٹ) کا سبب بن سکتا ہے۔
حرم میں داخل ہونا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) حرم میں پیدل اور ننگے پاؤں داخل ہوتے تھے، اور بیت اللہ کا طواف کرتے تھے، اور حج کے سارے ارکان ننگے پاؤں اور پیدل چل کر ادا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٥) (ضعیف) (سند میں مبارک بن حسان منکر الحدیث ہیں )
مکہ میں دخول۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنية العليا بلند گھاٹی سے داخل ہوتے، اور جب نکلتے تو ثنية السفلى نشیبی گھاٹی سے نکلتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨١١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٤٠ (١٥٧٦) ، ٤١ (١٥٧٧) ، صحیح مسلم/الحج ٣٧ (١٢٥٧) ، سنن ابی داود/الحج ٤٥ (١٨٦٦) ، سنن النسائی/الحج ١٠٥ (٢٨٦٨) ، مسند احمد (٢/١٤، ١٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨١ (١٩٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ثنية العليا اور ثنية السفلى یہ دونوں مکہ کی دو گھاٹیاں ہیں۔
علی بن محمد، عمری، نافع، حضرت ابن عمر
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں دن میں داخل ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٣١ (٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٩ (٤٨٤) ، الحج ١٤٨ (١٥٧٣) ، ١٤٩ (١٥٧٤) ، صحیح مسلم/الحج ٣٨ (١٢٥٩) ، سنن النسائی/الحج ١٠٣ (٢٨٦٥) ، مسند احمد (٢/٥٩، ٧٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٠ (١٩٦٨) (صحیح )
علی بن محمد، عمری، نافع، حضرت ابن عمر
اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کل (مکہ میں) کہاں اتریں گے ؟ یہ بات آپ کے حج کے دوران کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر باقی چھوڑا ہے ؟ ١ ؎ پھر فرمایا : ہم کل خیف بنی کنانہ یعنی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی، اور وہ یہ تھی کہ بنی کنانہ نے قریش سے عہد کیا تھا کہ وہ بنی ہاشم سے نہ تو شادی بیاہ کریں گے اور نہ ان سے تجارتی لین دین ٢ ؎۔ زہری کہتے ہیں کہ خیف وادی کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٤ (١٥٨٨) ، الجہاد ١٨٠ (٣٠٥٨) ، مناقب الأنصار ٣٩ (٤٢٨٢) ، المغازي ٤٨ (٤٢٨٢) ، التوحید ٣١ (٧٤٧٩) ، صحیح مسلم/الحج ٨٠ (١٣٥١) ، سنن ابی داود/الفرائض ١٠ (٢٩٠٩، ١٠ ٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٥ (٢١٠٧) ، موطا امام مالک/الفرائض ١٣ (١٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٧، سنن الدارمی/الفرائض ٢٩ (٣٠٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ابوطالب کی ساری جائداد اور مکان عقیل نے بیچ کھائی، ایک مکان بھی باقی نہ رکھا کہ ہم اس میں اتریں جب علی اور جعفر (رض) اور ابوطالب کے بیٹے مسلمان ہوگئے اور انہوں نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی تو عقیل اور طالب دو بھائی جو ابھی تک کافر تھے مکہ میں رہ گئے، اور ابوطالب کی کل جائداد انہوں نے لے لی، اور جعفر (رض) کو اس میں سے کچھ حصہ نہ ملا کیونکہ وہ دونوں مسلمان ہوگئے اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ٢ ؎: یہ جگہ سیرت کی کتابوں میں شعب أبی طالب سے مشہور ہے، جہاں پر ابو طالب بنی ہاشم اور بنی مطلب کو لے کر چھپ گئے تھے، اور رسول اکرم ﷺ کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا، اور قریش کے کافروں نے عہد نامہ لکھا تھا کہ ہم بنی ہاشم اور بنی مطلب سے نہ شادی بیاہ کریں گے نہ اور کوئی معاملہ، اور اس کا قصہ طویل ہے اور سیرت کی کتابوں میں بالتفصیل مذکور ہے۔
حجر اسود کا استلام۔
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے اصیلع یعنی عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے : میں تجھے چوم رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ ﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤١ (١٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٥٠ (١٥٩٧) ، ٥٧ (١٦٠٥) ، ٦٠ (١٦١٠) ، سنن ابی داود/الحج ٤٧ (١٨٧٣) ، سنن الترمذی/الحج ٣٧ (٨٦٠) ، سنن النسائی/الحج ١٤٧ (٢٩٤٠) ، موطا امام مالک/الحج ٣٦ (١١٥) ، مسند احمد (١/٢١، ٢٦، ٣٤، ٣٥، ٣٩، ٤٦، ٥١، ٥٣، ٥٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٢ (١٩٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اصیلع: اصلع کی تصغیر ہے جس کے سر کے اگلے حصے کے بال جھڑ گئے ہوں اس کو اصلع کہتے ہیں۔ ٢ ؎: کیونکہ پتھر کا چومنا اسلامی شریعت میں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کفار کی مشابہت ہے، کیونکہ وہ بتوں تصویروں اور پتھروں کو چومتے ہیں، اور رسول اکرم ﷺ کے فعل کے سبب سے حجر اسود کا چومنا خاص کیا گیا ہے، عمر (رض) نے یہ کہا کہ اگر میں نے رسول اکرم ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تم کو نہ چومتا، تو پھر دوسری قبروں اور مزاروں کا چومنا کیوں کر جائز ہوگا، عمر (رض) نے یہ اس لیے فرمایا کہ جاہلیت اور شرک کا زمانہ قریب گزرا تھا، ایسا نہ ہو کہ بعض کچے مسلمان حجر اسود کے چومنے سے دھوکہ کھائیں، اور حجر اسود کو یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ قدرت یا اختیار ہے جیسے مشرک بتوں کے بارے میں خیال کرتے تھے، آپ نے بیان کردیا کہ حجر اسود ایک پتھر ہے اس میں کچھ اختیار اور قدرت نہیں اور اس کا چومنا محض رسول اکرم ﷺ کی اقتدار اور پیروی کے لئے ہے۔
حجر اسود کا استلام۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ پتھر قیامت کے دن آئے گا اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھ رہا ہوگا، ایک زبان ہوگی جس سے وہ بول رہا ہوگا، اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں جس نے حق کے ساتھ اسے چھوا ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١١٣ (٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٧، ٢٦٦، ٢٩١، ٣٠٧، ٣٧١) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٦ (١٨٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایمان کے ساتھ، اس سے وہ مشرک نکل گئے جنہوں نے شرک کی حالت میں حجر اسود کو چوما ان کے لیے اس کا چومنا کچھ مفید نہ ہوگا اس لیے کہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عبادت نفع بخش اور مفید نہیں ہوتی۔
حجر اسود کا استلام۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود کی طرف رخ کیا، پھر اپنے دونوں ہونٹ اس پر رکھ دئیے، اور دیر تک روتے رہے، پھر ایک طرف نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب (رض) بھی رو رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : عمر ! اس جگہ آنسو بہائے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٤١، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٦) (ضعیف جدا) (سند میں محمد بن عون خراسانی ضعیف الحدیث و منکر الحدیث ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١١١١ )
حجر اسود کا استلام۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٠ (١٢٦٨) ، سنن النسائی/الحج ١٥٧ (٢٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٥٩ (١٦١١) ، سنن ابی داود/الحج ٤٨ (١٨٧٤) ، مسند احمد (٢/٨٦، ١١٤، ١١٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٥ (١٨٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: طواف کرنے والے کو اختیار ہے کہ تین باتوں میں سے جو ممکن ہو سکے کرے ہر ایک کافی ہے، حجر اسود کا چومنا، یا اس پر ہاتھ رکھ کر ہاتھ کو چومنا، یا لکڑی اور چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرنا، اور اگر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے چومنا یا چھونا مشکل ہو تو صرف ہاتھ سے اشارہ کرنا ہی کافی ہے، اور ہر صورت میں لوگوں کو ایذاء دینا اور دھکیلنا منع ہے جیسے کہ اس زمانے میں قوی اور طاقتور لوگ کرتے ہیں، یا عورتوں کے درمیان گھسنا۔
حجراسود کا استلام چھڑی سے کرنا
صفیہ بنت شیبہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب فتح مکہ کے سال اطمینان ہوا تو آپ نے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ حجر اسود کا استلام ایک لکڑی سے کر رہے تھے جو آپ کے ہاتھ میں تھی، پھر کعبہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اس میں لکڑی کی بنی ہوئی کبوتر کی مورت ہے، آپ ﷺ نے اسے توڑ دیا، پھر کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور اسے پھینک دیا، اس وقت میں آپ کو دیکھ رہی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٤٩ (١٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠٩) (حسن) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٦٤١ )
حجراسود کا استلام چھڑی سے کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، اور آپ ایک چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٨ (١٦٠٧) ، ٦١ (١٦١٢) ، ٦٢ (١٦١٣) ، ٧٤ (١٦٣٢) ، الطلاق ٢٤ (٥٢٩٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٢) ، سنن النسائی/المساجد ٢١ (٧١٤) ، الحج ١٥٩ (٢٩٥٧) ، ١٦٠ (٢٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٤٩ (١٨٧٧) ، سنن الترمذی/الحج ٤٠ (٨٦٥) ، مسند احمد (١/٢١٤، ٢٣٧، ٢٤٨، ٣٠٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٦ (١٨٨١) (صحیح )
حجراسود کا استلام چھڑی سے کرنا
ابوطفیل عامر بن واثلہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو سواری پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، آپ حجر اسود کا استلام چھڑی سے کر رہے تھے، اور چھڑی کا بوسہ لے رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٥) ، سنن ابی داود/الحج ٤٩ (١٨٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٥٤) (صحیح )
بیت اللہ کے گرد طواف میں رمل کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت اللہ کا پہلا طواف (طواف قدوم) کرتے تو تین چکروں میں رمل کرتے (یعنی طواف میں قریب قریب قدم رکھ کے تیز چلتے) اور چار چکروں میں عام چال چلتے اور یہ چکر حجر اسود پر شروع کر کے حجر اسود پر ہی ختم کرتے، ابن عمر (رض) بھی ایسا ہی کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٩٧، ٨١١٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٦٣ (١٦١٦) ، صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٢) ، سنن ابی داود/الحج ٥١ (١٨٩١) ، سنن النسائی/الحج ١٥٠ (٢٩٤٣) ، موطا امام مالک/الحج ٣٤ (٨٠) ، مسند احمد (٣/١٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٧ (١٨٨٣، ١٨٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رمل : ذرا دوڑ کر مونڈ ہے ہلاتے ہوئے چلنے کو رمل کہتے ہیں جیسے بہادر اور زور آور سپاہی چلتے ہیں، یہ طواف کے ابتدائی تین پھیروں میں کرتے ہیں، اور اس کا سبب صحیحین کی روایت میں مذکور ہے کہ جب رسول اکرم ﷺ کے اصحاب مکہ میں آئے تو مشرکین نے کہا کہ یہ لوگ مدینہ کے بخار سے کمزور ہوگئے ہیں، آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین پھیروں میں رمل کرنے کا حکم دیا تاکہ مشرکین کو یہ معلوم کرائیں کہ مسلمان ناتوان اور کمزور نہیں ہوئے بلکہ طاقتور ہیں، پھر یہ سنت اسلام کی ترقی کے بعد بھی قائم رہی اور قیامت تک قائم رہے گی، پس رمل کی مشروعیت اصل میں مشرکوں کو ڈرانے کے لیے ہوئی۔
بیت اللہ کے گرد طواف میں رمل کرنا۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حجر اسود سے شروع کر کے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار میں عام چال چلے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٦٦٣) ، سنن الترمذی/الحج ٣٣ (٨٥٦) ، سنن النسائی/الحج ١٥٤ (٢٩٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٥١ (١٨٩١) ، مسند احمد (٣/٣٢٠، ٣٤٠، ٣٩٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٧ (١٨٨٢) (صحیح )
بیت اللہ کے گرد طواف میں رمل کرنا۔
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کو کہتے سنا کہ اب دونوں رمل (ایک طواف کا، دوسرا سعی کا) کی کیا ضرورت ہے ؟ اب تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مضبوط کردیا، اور کفر اور اہل کفر کا خاتمہ کردیا ہے، لیکن قسم اللہ کی ! ہم تو کوئی ایسی بات چھوڑنے والے نہیں جس پر ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں عمل کیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٥١ (١٨٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت کے جس حکم کی علت و حکمت سمجھ میں نہ آئے اس کو ویسے ہی چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ اللہ کے رسول کی ہو بہو تابعداری کی جائے۔
بیت اللہ کے گرد طواف میں رمل کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جب صلح حدیبیہ کے بعد دوسرے سال عمرہ کی غرض سے مکہ میں داخل ہونا چاہا، تو اپنے صحابہ سے فرمایا : کل تم کو تمہاری قوم کے لوگ دیکھیں گے لہٰذا چاہیئے کہ وہ تمہیں توانا اور مضبوط دیکھیں، چناچہ جب یہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا استلام کیا، اور رمل کیا، نبی اکرم ﷺ بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ رکن یمانی کے پاس پہنچے، تو وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، وہاں سے رکن یمانی تک پھر رمل کیا، اور پھر وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، اس طرح آپ ﷺ نے تین بار کیا، پھر چار مرتبہ عام چال چلے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٥١ (١٨٩٠) ، سنن الترمذی/الحج ٣٩ (٨٦٣) ، سنن النسائی/الحج ١٧٦ (٢٩٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٨٠ (١٦٤٩) ، المغازي ٤٣ (٤٢٥٧) ، صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٦) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٥٥، ٣٠٦، ٣١٠، ٣١١، ٣٧٣) (صحیح )
اضطباع کا بیان۔
یعلیٰ بن امیہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اضطباع کر کے طواف کیا، قبیصہ کے الفاظ اس طرح ہیں : وعليه برد اور آپ کے جسم پر چادر تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٥٠ (١٨٨٣) ، سنن الترمذی/الحج ٣٦ (٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٢، ٢٢٣، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٨ (١٨٨٥) (حسن ) وضاحت : اضطباع : اس کی شکل یہ ہے کہ محرم چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے گزار کر بائیں کندھے پر ڈال دے اور دایاں کندھا کھلا رکھے۔
حطیم کو طواف میں شامل کرنا (یعنی حطیم سے باہر طواف کرنا)۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے میں نے پوچھا : پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا میں نے کہا : اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی کفر سے قریب نہ گزرا ہوتا اور (اسلام سے) ان کے دلوں کے متنفر ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں سوچتا کہ میں اس کو بدل دوں، جو حصہ رہ گیا ہے اس کو اس میں داخل کر دوں، اور اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٢ (١٥٨٤) ، أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٦٨) ، تفسیر البقرة ١٠ (٤٤٨٤) ، صحیح مسلم/الحج ٦٩ (١٣٣٣) ، سنن النسائی/الحج ١٢٨ (٢٩١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٣٣ (١٠٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٤ (١٩١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حطیم کعبے کا ایک طرف چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیے اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے تو طواف درست نہ ہوگا۔ اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں یعنی نیچا کر دوں کہ جس کا جی چاہے بغیر سیڑھی کے اندر چلا جائے دوسری روایت میں ہے کہ میں اس کے دو دروازے کرتا ایک پورب ایک پچھم، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض کام مصلحت کے ہوتے ہیں، لیکن اس میں فتنہ کا خوف ہو تو اس کو ترک کرنا جائز ہے، رسول اکرم ﷺ اور خلفاء کے عہد میں کعبہ ایسا ہی رہا اور جیسا آپ چاہتے تھے ویسا بنانے کی فرصت نہیں ہوئی، عبداللہ بن زبیر (رض) نے اپنے عہد میں کعبہ کو اسی طرح بنایا جیسا رسول اکرم ﷺ نے بنانا چاہا تھا، لیکن حجاج نے جب عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کیا تو ضد سے پھر کعبہ کو توڑ کر ویسا ہی کردیا جیسا جاہلیت کے زمانے میں تھا، خیر پھر اس کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے اپنی خلافت میں امام مالک سے سوال کیا کہ اگر آپ کہیں تو میں کعبہ کو پھر توڑ کر جیسا ابن زبیر (رض) نے بنایا تھا، ویسا ہی کر دوں ؟ تو انہوں نے کہا کہ اب کعبہ کو ہاتھ نہ لگائیں ورنہ اس کی وقعت لوگوں کے دلوں سے جاتی رہے گی۔
طواف کی فضیلت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو کوئی بیت اللہ کا طواف کرے، اور دو رکعتیں پڑھے تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کے مانند ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٣١، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١١١ (٩٥٩) ، سنن النسائی/الحج ١٣٤ (٢٩٢٢) ، مسند احمد (٢/٣، ١١، ٩٥) (صحیح )
طواف کی فضیلت۔
حمید بن ابی سو یہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ہشام کو عطاء بن ابی رباح سے رکن یمانی کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا، اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، تو عطاء نے کہا : مجھ سے ابوہریرہ (رض) نے حدیث بیان کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رکن یمانی پر ستر فرشتے متعین ہیں جو کوئی اللهم إني أسألک العفو والعافية في الدنيا والآخرة ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں مغفرت اور عافیت طلب کرتا ہوں، اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا کہتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں، پھر جب عطاء حجر اسود کے پاس پہنچے تو ابن ہشام نے کہا : ابو محمد ! اس حجر اسود کے بارے میں آپ کو کیا بات پہنچی ہے ؟ عطاء نے کہا : مجھ سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو اس کو چھوتا ہے وہ گویا رحمن کا ہاتھ چھو رہا ہے ۔ ابن ہشام نے ان سے کہا : ابو محمد ! طواف یعنی اس کے متعلق آپ کو کیا معلوم ہے ؟ عطاء نے کہا : مجھ سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے اور سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولاقوة إلا بالله کے علاوہ کوئی بات نہ کرے، تو اس کی دس برائیاں مٹا دی جائیں گی، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کے دس درجے بڑھا دئیے جائیں گے، اور جو طواف کرے اور بات کرے تو اس کے پاؤں رحمت میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، جیسے پانی میں داخل ہونے والے کے پاؤں پانی میں ڈوبے رہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٧٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٣٨) (ضعیف) (سند میں حمید مجہول، اور اسماعیل بن عیاش غیر شامی رواة سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ٢٥٩٠ )
طواف کے بعد دوگانہ ادا کرنا۔
مطلب بن ابی وداعہ سہمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ اپنے ساتوں پھیروں سے فارغ ہوئے حجر اسود کے بالمقابل آ کر کھڑے ہوئے، پھر مطاف کے کنارے میں دو رکعتیں پڑھیں اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے بیچ میں کوئی آڑ نہ تھی۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : یہ (بغیر سترہ کے نماز پڑھنا) مکہ کے ساتھ خاص ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٨٩ (٢٠١٦) ، سنن النسائی/القبلة ٩ (٧٥٩) ، الحج ١٦٢ (٢٩٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٩) (ضعیف) (سند میں کثیر بن مطلب مجہول راوی ہیں، نیز سند میں بھی اختلاف ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٩٢٨ )
طواف کے بعد دوگانہ ادا کرنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آ کر بیت اللہ کا سات بار طواف کیا، پھر طواف کی دونوں رکعتیں پڑھیں۔ وکیع کہتے ہیں : یعنی مقام ابراہیم کے پاس، پھر آپ ﷺ صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٤ (١٦٩١) ، صحیح مسلم/الحج ٢٨ (١٢٣٤) ، سنن النسائی/الحج ١٤٢ (٢٩٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٨٠٥) ، موطا امام مالک/الحج ٣٧ (١١٦) ، مسند احمد (٢/١٥، ٨٥، ١٥٢، ٣/٣٠٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٤ (١٩٧٢) (صحیح )
طواف کے بعد دوگانہ ادا کرنا۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کے پاس آئے، عمر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ہمارے باپ ابراہیم کی جگہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى مقام ابراھیم کو نماز کی جگہ بناؤ، ولید کہتے ہیں کہ میں نے مالک سے کہا : کیا اس کو اسی طرح (بکسر خاء) صیغہ امر کے ساتھ پڑھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحروف ١ (٣٩٦٩) ، سنن الترمذی/الحج ٣٨ (٨٥٦) ، سنن النسائی/الحج ١٦٣ (٢٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ١٥ (١٢٦٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٤ (١٨٩٢) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ١٠٠٨ ) وضاحت : ١ ؎: یہی قراءت مشہور ہے، اور بعضوں نے واتخَذوا خاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، یہ صیغہ ماضی یعنی انہوں نے مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنایا۔
بیمار سوار ہو کر طواف کرسکتا ہے۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ بیمار ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں لوگوں کے پیچھے سوار ہو کر طواف کرنے کا حکم دیا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا، آپ ﷺ سورة والطور وکتاب مسطور کی قرات فرما رہے تھے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : یہ ابوبکر بن ابی شیبہ کی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٨ (٤٦٤) ، الحج ٦٤ (١٦١٩) ، ٧١ (١٦٢٦) ، ٧٤ (١٦٣٣) ، تفسیرالطور ١ (٤٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٦) ، سنن ابی داود/الحج ٤٩ (١٨٨٢) ، سنن النسائی/الحج ١٣٨ (٢٩٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤٠ (١٢٣) ، مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیماری اور کمزوری کی حالت میں سوار ہو کر طواف کرنا درست ہے، آج کل بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے سواری پر طواف کرنا بڑا مشکل بلکہ ناممکن ہے، اس لیے اس کی جگہ پر مخصوص لوگ حجاج کو چارپائی پر بٹھا کر طواف کراتے ہیں۔
ملتزم کا بیان۔
شعیب کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے دادا) عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کے ساتھ طواف کیا، جب ہم سات پھیروں سے فارغ ہوئے، تو ہم نے کعبہ کے پیچھے طواف کی دو رکعتیں ادا کیں، میں نے کہا : کیا ہم جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ نہ چاہیں ؟ انہوں نے کہا : میں جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، شعیب کہتے ہیں : پھر عبداللہ بن عمرو (رض) نے چل کر حجر اسود کا استلام کیا، پھر حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے ہوئے، اور اپنا سینہ، دونوں ہاتھ اور چہرے کو اس سے چمٹا دیا، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٥٥ (١٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٧٦) (حسن) (سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں، لیکن متابعت اور شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢١٣٨ )
حائضہ طواف کے علاوہ باقی مناسک حج ادا کرے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج کرنا تھا، جب ہم مقام سرف میں تھے یا سرف کے قریب پہنچے تو مجھے حیض آگیا، رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے، میں رو رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ؟ کیا حیض آگیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں پر لکھ دیا ہے، تم حج کے سارے اعمال ادا کرو، البتہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ١ (٢٩٤) ، الأضاحي ٣ (٥٥٤٨) ، ١٠ (٥٥٥٩) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٧٨) ، سنن النسائی/الحج ٥٨ (٢٧٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٨٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٧٤ (٢٢٣) ، مسند احمد (٣/٣٩٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٢ (١٩٤٥) (صحیح )
حج مفرد کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٧٧) ، سنن الترمذی/الحج ١٠ (٨٢٠) ، سنن النسائی/الحج ٤٨ (٢٧١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ١١ (٣٧) ، مسند احمد (٦/٢٤٣) ، سنن الدارمی/المناسک ١٦ (١٨٥٣) (صحیح )
حج مفرد کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٢) ، المغازي ٧٨ (٤٤٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/المناسک ٢٣ (١٧٧٩، ١٧٨٠) ، سنن النسائی/المناسک ٤٨ (٢٧١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦، ١٠٤، ١٠٧، ٢٤٣) (صحیح )
حج مفرد کا بیان۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٣٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٤٠) (صحیح) (ام المومنین عائشہ (رض) سے اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حج قران کیا، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٣٧١ )
حج مفرد کا بیان۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اور ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم نے حج افراد کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٦٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٤١) (ضعیف الإسناد) (سند میں قاسم بن عبد اللہ متروک راوی ہے )
حج اور عمرہ میں قرآن کرنا۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے، میں نے آپ کو حج اور عمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٤ (١٢٥١) ، سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٧٩٥) ، سنن النسائی/الحج ٤٩ (٢٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١١ (٨٢١) ، مسند احمد (٣/٩٩، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٨ (١٩٦٥) (صحیح )
حج اور عمرہ میں قرآن کرنا۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لبيك بعمرة وحجة حاضر ہوں عمرہ اور حج کے ساتھ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ نے عمرہ اور حج کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا۔
حج اور عمرہ میں قرآن کرنا۔
صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نصرانی تھا، پھر اسلام لے آیا اور حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا، سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان نے مجھے قادسیہ میں عمرہ اور حج دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارتے ہوئے سنا، تو دونوں نے کہا : یہ تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ نادان ہے، ان دونوں کے اس کہنے نے گویا میرے اوپر کوئی پہاڑ لاد دیا، میں عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا، اور ان سے اس کا ذکر کیا، وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ملامت کی، پھر میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم نے نبی اکرم ﷺ کی سنت کو پایا، تم نے نبی اکرم ﷺ کی سنت کو پایا ١ ؎۔ ہشام اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ شقیق کہتے ہیں : میں اور مسروق دونوں صبی بن معبد کے پاس اس حدیث کے متعلق پوچھنے باربار گئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٧٩٨، ١٧٩٩) ، سنن النسائی/الحج ٤٩ (٢٧٢٠، ٢٧٧١، ٢٧٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤، ٢٥، ٣٤، ٣٧، ٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عمر (رض) کا یہ فرمانا اس بنا پر تھا کہ سلمان اور زید (رض) حج قران کو مکروہ سمجھ رہے تھے جب کہ وہ سنت رسول ہے۔ صبی بن معبد نے کہا : مجھے نصرانیت سے اسلام قبول کیے ہوئے تھوڑی ہی مدت گزری تھی، میں نے عبادت کو بجا لانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، میں نے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا، پھر انہوں نے یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے جیسے اوپر گزری۔
حج اور عمرہ میں قرآن کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے ابوطلحہ (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کو ملایا یعنی قران کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٠٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨، ٢٩) (صحیح) (سند میں حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٥٧٥ ، ١٥٧٦ )
حج قران کرنے والے کا طواف۔
جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ جب مکہ آئے تو انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤٧٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٤٣) (صحیح) (سند میں میں لیث بن أبی سلیم ضعیف اور مدلس ہیں، لیکن آگے کی حدیثوں سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہاں طواف سے مراد سعی ہے، متمتع پر صفا ومروہ کی دو سعی واجب ہیں جب کہ قارن کے لیے صرف ایک سعی کافی ہے خواہ طواف قدوم (زیارت) کے بعد کرے یہی مسئلہ مفرد حاجی کے لیے بھی ہے، واضح رہے کہ بعض حدیثوں میں سعی کے لیے بھی طواف کا لفظ وارد ہوا ہے۔
حج قران کرنے والے کا طواف۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حج اور عمرہ کے لیے ایک ہی طواف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨٧) (صحیح )
حج قران کرنے والے کا طواف۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ حج قران کا احرام باندھ کر آئے، اور خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی اور کہا : اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨١١٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٤٤) (صحیح )
حج قران کرنے والے کا طواف۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تو ان دونوں کے لیے اسے ایک ہی سعی کافی ہے، اور وہ احرام نہ کھولے جب تک حج کو پورا نہ کرلے، اور اس وقت ان دونوں سے ایک ساتھ احرام کھولے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٠٢ (٩٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٧) ، سنن الدارمی/النسک ٢٩ (١٨٨٦) (صحیح )
حج تمتع کا بیان۔
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی عقیق ١ ؎ میں فرماتے سنا : میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا : اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو : یہ عمرہ ہے حج میں (یہ الفاظ دحیم کے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٦ (١٥٣٤) ، سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٨٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤) صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عقیق : مسجد نبوی سے چار میل (تقریباً ساڑھے چھ کلو) کی دوری پر ایک وادی ہے اور اب شہر کا ایک حصہ ہے۔ یہ جملہ وقل : عمرة في حجة احادیث میں تین طرح سے وارد ہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے قال : عمرة في حجة ماضی کے صیغے کے ساتھ ہے اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں وقل : عمرة في حجة امر کے صیغے کے ساتھ ہے اور بخاری کی روایت میں وقل : عمرة و حجة ہے عمرة اور حجة کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ۔
حج تمتع کا بیان۔
سراقہ بن جعشم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس وادی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : آگاہ رہو، عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨١٥، ومصباح الزجاجة : ١٠٤٥) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨٠٨) ، مسند احمد (٤/١٧٥) (صحیح )
حج تمتع کا بیان۔
مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین (رض) نے کہا : میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آج کے بعد فائدہ پہنچائے، جان لو کہ آپ ﷺ کے گھر والوں میں سے ایک جماعت نے ذی الحجہ کے دس دنوں میں عمرہ کیا، اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو منع نہیں کیا، اور نہ قرآن مجید میں اس کا نسخ اترا، اس کے بعد ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٣٦ (١٥٧١) ، تفسیر البقرة ٣٣ (٤٥١٨) ، سنن النسائی/الحج ٤٩ (٢٧٢٨) ، مسند احمد (٤/٤٢٧، ٤٢٨، ٤٢٩، ٤٣٤، ٤٣٦، ٤٣٨) ، سنن الدارمی/النسک ١٨ (١٨٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور سنن ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر (رض) سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ درست ہے، اس شخص نے کہا : آپ کے والد تو اس سے منع کرتے تھے، انہوں نے کہا : اگر میرے والد ایک بات سے منع کریں اور رسول اکرم ﷺ نے اس کو کیا ہو تو میرے والد کی پیروی کی جائے گی، یا رسول اللہ ﷺ کی ؟ اس شخص نے کہا : رسول اللہ ﷺ کی، ابن عمر (رض) نے کہا : پس رسول اللہ ﷺ نے تو تمتع کیا۔
حج تمتع کا بیان۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ وہ حج تمتع کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا : آپ اپنے بعض فتوؤں سے دستبردار ہوجائیں کیونکہ آپ کے بعد امیر المؤمنین نے حج کے مسئلہ میں جو نئے احکام دئیے ہیں وہ آپ کو معلوم نہیں، ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں عمر (رض) سے ملا، اور ان سے پوچھا، تو آپ نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے ایسا کیا ہے، لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے عورتوں کے ساتھ رات گزاریں پھر حج کو جائیں، اور ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٢ (١٢٢١) ، سنن النسائی/الحج ٥٠ (٢٧٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٩) ، سنن الدارمی/النسک ١٨ (١٨٥٦) (صحیح )
حج کا احرام فسخ کرنا۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا) ، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ١ ؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کردیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہوجائیں، ہم نے عرض کیا : اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تم میں سب سے زیادہ نیک اور سچا ہوں ٢ ؎، اگر میرے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں بھی (عمرہ کر کے) حلال ہوجاتا (یعنی احرام کھول ڈالتا اور حج کو عمرہ میں تبدیل کردیتا) ۔ سراقہ بن مالک (رض) نے اس وقت عرض کیا : حج میں یہ تمتع ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٢٣ (١٧٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٦) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حج افراد کا احرام باندھا۔ ٢ ؎: یعنی جو کہہ رہا ہوں کسی پس و پیش کے بغیر انجام دو ، میری کوئی بات تقویٰ و پرہیز گاری کے منافی نہیں ہوسکتی۔ ٣ ؎: ہر ایک شخص کے لیے قیامت تک تمتع کرنا جائز ہے، اس حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی احرام باندھے لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہ ہو تو وہ مکہ میں جا کر حج کی نیت فسخ کرسکتا ہے، اور عمرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے، پھر یوم الترویہ یعنی ذی الحجہ کی ٨ تاریخ کو حج کے لئے نیا احرام باندھے، اور اس تاریخ (آٹھ) تک سب کام کرسکتا ہے جو احرام کی حالت میں جائز نہ تھے، امام ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کو فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کا فتوی ٰ دیا، پھر فتویٰ دیا کہ یہ امر مستحب ہے ضرور اس کام کو کرنا چاہیے، اور یہ حکم کسی دوسرے حکم سے منسوخ نہیں ہوا، اور دین اللہ تعالیٰ کا ہے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ حج کو فسخ کر ڈالنا اور عمرہ کردینا اگر کوئی ان احادیث کی رو سے واجب کہے تو اس کا قول قوی ہوگا، بہ نسبت اس شخص کے قول کے جو اس سے منع کرتا ہے ... الی آخرہ۔
حج کا احرام فسخ کرنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ پہنچے یا اس سے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو جن لوگوں کے پاس ہدی (قربانی) کا جانور نہیں تھا احرام کھول دینے کا حکم دیا، تو سارے لوگوں نے احرام کھول دیا، سوائے ان لوگوں کے جن کے پاس ہدی (قربانی) کے جانور تھے، پھر جب نحر کا دن (ذی الحجہ کا دسواں دن) ہوا تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، لوگوں نے کہا : یہ گائے رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے ذبح کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦١) ، ١١٥ (١٧٠٩) ، ١٢٤ (١٧٢٠) ، الجہاد ١٠٥ (٢٩٥٢) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن النسائی/الحج ١٦ (٢٦٥١) ، ٧٧ (٢٨٠٥، ٢٨٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٨١) ، موطا امام مالک/الحج ٥٨ (١٧٩) ، مسند احمد (٦/١٢٢، ٢٦٦، ٢٧٣) (صحیح )
حج کا احرام فسخ کرنا۔
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام باندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے حج کو عمرہ کر دو ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کرلیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو ، لوگوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ ﷺ غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آئے، انہوں نے آپ کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھے تو بولیں : کس نے آپ کو ناراض کیا ہے ؟ اللہ اسے ناراض کرے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں کیوں کر غصہ نہ کروں جب کہ میں ایک کام کا حکم دیتا ہوں اور میری بات نہیں مانی جاتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٠٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٤٦) ، وقد أخرجہ : (٤/٢٨٦) (ضعیف) (ابو بکر بن عیاش بڑھاپے کی وجہ سے سئی الحفظ (حافظہ کے کمزور) ہوگئے تھے، اور ابو اسحاق اختلاط کا شکار تھے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٧٥٣ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو سن کر اس پر عمل کرنے میں صرف اس خیال سے دیر کرے کہ یہ حدیث اس کے ملک کے رسم و رواج کے خلاف ہے، یا اس کے ملک یا قوم کے یا مذہب کے عالموں اور درویشوں یا اگلے بزرگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، تو وہ رسول اللہ ﷺ کو غصہ دلاتا اور آپ کو ناراض کرتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے رسول کو غصہ دلائے اور اس کو ناراض کرے اس کا ٹھکانا کہیں نہیں ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے : مومن کا کام یہ ہے کہ اس کو سنتے ہی جان و دل سے قبول کرے، اور فوراً اس پر عمل کرے ، اگرچہ تمام جہاں کے مولوی، ملا، درویش، پیر، مرشد، عالم اور مجتہد اس کے خلاف ہوں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر عمل کرنے میں دل نہایت خوش اور ہشاش بشاش ہو اور ذرا بھی کدورت اور تنگی نہ ہو بلکہ اپنے کو بڑا خوش قسمت سمجھے کہ اس کو حدیث رسول پر عمل کرنے کی توفیق ہوئی۔ اگر ایسا نہ کرے یعنی عمل ہی نہ کرے یا عمل تو کرے مگر ذرا لیت ولعل یا اداسی کے ساتھ اس خیال سے کہ درویش اور مولوی اس کے خلاف ہیں، آخر ان لوگوں کا بھی کچھ درجہ اور مقام ہے، اور کچھ سمجھ کر ہی ان لوگوں نے حدیث کے خلاف کیا ہوگا ؟ تو جان لینا چاہیے کہ اللہ کے رسول ﷺ ان سے ناراض ہیں، اور ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں جس سے آپ ﷺ ہی ناراض ہوگئے اور بالفرض سارے زمانے کے مولوی یا درویش ہم سے خوش بھی ہوئے تو ہم ان کی خوشی کو کیا کریں گے، وہ خوش ہوں یا ناخوش ہوں ہمارے آقا، ہمارے مولیٰ ہمارے رسول ہم سے خوش رہیں تو ہمارا بیڑا پار ہے، یا اللہ مرتے ہی ہمیں ہمارے رسول اور آل و اصحاب رسول سے ملا دے، ہم دنیا میں بھی ان ہی کے پیرو تھے، عالم برزخ اور آخرت میں بھی ان ہی کی جوتیوں کے پاس رہنا چاہتے ہیں، نہ دنیا میں ہم کو کسی سے مطلب تھا، نہ عقبیٰ (آخرت) میں ہمیں کسی اور کا ساتھ چاہیے۔ اگر جنت میں جانے کا ارادہ ہے تو محمد ﷺ کی غلامی کا پٹہ گردن میں پہن لو۔ مسلک سنت پہ سالک تو چلا چل بےڈھرک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک۔
حج کا احرام فسخ کرنا۔
اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھ کر نکلے تو آپ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) ہو، وہ اپنے احرام پر قائم رہے، اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول کر حلال ہوجائے اور میرے ساتھ ہدی کا جانور نہیں تھا چناچہ میں نے احرام کھول دیا، اور زبیر (رض) کے ساتھ ہدی کا جانور تھا تو انہوں نے احرام نہیں کھولا، میں نے اپنا کپڑا پہن لیا، اور زبیر (رض) کے پاس آئی تو انہوں نے کہا : میرے پاس سے چلی جاؤ، میں نے کہا : کیا آپ ڈرتے ہیں کہ میں آپ پر کود پڑوں گی ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٩ (١٢٣٦) ، سنن النسائی/الحج ١٨٦ (٢٩٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥١) (صحیح )
ان لوگوں کا بیان جن کاموئقف ہے کہ حج کا فسخ کرناخاص تھا۔
بلال بن حارث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! حج کو فسخ کر کے عمرہ کرلینا صرف ہمیں لوگوں کے لیے خاص ہے یا سارے لوگوں کے لیے عام ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نہیں) بلکہ صرف ہمیں لوگوں کے لیے خاص ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٥ (١٨٠٨) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٧ (١٨٩٧) (ضعیف) (حارث لین الحدیث ہیں، اور ان کی یہ روایت صحیح روایات کے خلاف ہے، اس لیے منکر ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٥٨٦ )
ان لوگوں کا بیان جن کاموئقف ہے کہ حج کا فسخ کرناخاص تھا۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ حج تمتع اصحاب محمد ﷺ کے لیے خاص تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٤) ، موقوفاً ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨١١، ٢٨١٢، ٢٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٥) (صحیح) (موقوف صحیح ہے، لیکن سابقہ حج کو فسخ کر کے عمرہ میں بدل (دینے والی احادیث کے خلاف ہے )
صفامروہ کی سعی۔
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا : صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرنے میں اپنے اوپر میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا، آپ نے کہا : اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے : إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں، اور جو حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر گناہ نہیں، ان دونوں کی سعی کرنے میں اگر بات ویسی ہوتی جو تم کہتے ہو تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا : فلا جناح عليه أن يطوف بهما اگر سعی نہ کرے تو (اس پر گناہ نہیں ہے) بات یہ ہے کہ یہ آیت انصار کے کچھ لوگوں کے بارے میں اتری ہے، وہ جب لبیک پکارتے تو منات (جو عربوں کا مشہور بت تھا) کے نام سے پکارتے، ان (کے اپنے اعتقاد کے مطابق ان کے) کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حلال نہ تھا تو جب وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے لیے آئے تو انہوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : إن الصفا والمروة صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، ان کے درمیان سعی کرنا گناہ نہیں (جیسا کہ تم اسلام سے پہلے سمجھتے تھے) اور قسم ہے کہ جس نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کی، اللہ تعالیٰ نے اس کا حج پورا نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ١٦٨٢٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٧٩ (١٦٤٣) ، العمرة ١٠ (١٧٩٠) ، تفسیر البقرة ٢١ (٤٤٩٥) ، تفسیر النجم ٣ (٤٨٦١) ، صحیح مسلم/الحج ٤٣ (١٢٧٧) ، سنن ابی داود/الحج ٥٦ (١٩٠١) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٦٩) ، سنن النسائی/الحج ١٦٨ (٢٩٧٠) ، موطا امام مالک/الحج ٤٢ (١٢٩) ، مسند احمد (٣/١٤٤، ١٦٢، ٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو سعی واجب ہے اور ارکان حج میں سے ہے، مالک، احمد، اسحاق، ابو ثور اور اہل حدیث وغیرہ کا یہی قول ہے۔
صفامروہ کی سعی۔
شیبہ کی ام ولد (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے دیکھا، آپ فرما رہے تھے : ابطح کو دوڑ ہی کر طے کیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٧٧ (٢٩٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠٤، ٤٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ام ولد : ایسی لونڈی جس نے اپنے مالک کے بچہ کو جنا ہو۔ ابطح : صفا اور مروہ کے درمیان ایک مقام ہے، اب وہاں دو ہرے نشان بنا دئیے گئے ہیں، وہاں دوڑ کر سعی کرنی چاہیے یہ ہاجرہ (علیہا السلام) کی سنت ہے، وہ پانی کی تلاش میں یہاں سات بار دوڑی تھیں۔
صفامروہ کی سعی۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ اگر میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوڑتے ہوئے دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے آپ کو ایسا بھی چلتے دیکھا ہے، اور میں بہت بوڑھا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٥٦ (١٩٠٤) ، سنن الترمذی/الحج ٣٩ (٨٦٤) ، سنن النسائی/الحج ١٧٤ (٢٩٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٣٤ (١٣٠) ، مسند احمد (٢/٥٣، ٦٠، ٦١، ١٢٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٥ (١٨٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عمر (رض) کے قول کا یہ مطلب ہے کہ دوڑنا اور معمولی چال سے چلنا دونوں طرح سنت ہے، اور اگر چلنا سنت بھی ہو تب بھی چلنے میں میرے لیے حرج نہیں، اس لیے کہ میں ناتواں بوڑھا ہوں۔
عمرہ کا بیان۔
طلحہ بن عبیداللہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : حج جہاد ہے، اور عمرہ نفل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٩٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٤٧) (ضعیف) (عمر بن قیس اور حسن بن یحییٰ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٠٠ )
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، بیان، جابر، شعبی، حضرت وہب بن خنبش
عبداللہ بن ابی او فی (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا ہم آپ کے ساتھ تھے، آپ نے طواف کیا، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، آپ نے نماز پڑھی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، اور ہم مکہ والوں سے آپ کو آڑ میں کیے رہتے تھے کہ وہ آپ کو کوئی اذیت نہ پہنچا دیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٣ (١٦٠٠) ، سنن ابی داود/الحج ٥٦ (١٩٠٢) ، (تحفة الأشراف (٥١٥٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٣٢) ، مسند احمد (٤/ ٣٥٣، ٣٥٥، ٣٨١) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٧ (١٩٦٣) (صحیح )
رمضان میں عمرہ کی فضیلت
وہب بن خنبش (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان میں عمرہ، (ثواب میں) حج کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٩٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٨، ٣/٣٥٣، ٤/١٧٧، ١٨٦) (صحیح )
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، بیان، جابر، شعبی، حضرت وہب بن خنبش
ہرم بن خنبش (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان میں عمرہ (کا ثواب) حج کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٢٨، مصباح الزجاجة : ١٠٤٩) ، وقدأخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٧، ١٨٦) (صحیح) (پہلی سند سے صحیح ہے، دوسری سند میں دادو بن یزید ضعیف راوی ہے )
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، بیان، جابر، شعبی، حضرت وہب بن خنبش
ابومعقل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٩٥ (٩٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٨٠ (١٩٨٨) ، مسند احمد (٦/٤٠٥، ٤٠٦) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨٦٩ )
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، بیان، جابر، شعبی، حضرت وہب بن خنبش
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان میں عمرہ (کا ثواب) حج کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمرة ٤ (١٧٨٢) ، جزاء الصید ٢٦ (١٨٦٣) ، صحیح مسلم/الحج ٣٦ (١٢٥٦) ، سنن النسائی/الصیام ٤ (٢١١٢) ، مسند احمد (١/٢٢٩، ٣٠٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٠ (١٩٠١، ١٩٠٢) (صحیح )
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، بیان، جابر، شعبی، حضرت وہب بن خنبش
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رمضان میں عمرہ (کا ثواب) حج کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٦ (١٨٦٠ تعلیقاً ) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٨، ٣٥٢، ٣٦١، ٣٩٧) (صحیح )
ذی قعدہ میں عمرہ۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنے عمرے کیے ہیں، ماہ ذی قعدہ ہی میں کیے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٥٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٠) ، و قد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٧ (٨١٦) ، مسند احمد (١/٢٤٦) (صحیح) (اس سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٧٣٩ )
ذی قعدہ میں عمرہ۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنے عمرے کیے ہیں ماہ ذی قعدہ ہی میں کیے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ٣ (١٧٧٥) ، المغازي ٤٤ (٤٢٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٣٥ (١٢٥٥) ، سنن ابی داود/المناسک ٨٠ (١٩٩٢) (تحفة الأشراف : ١٧٥٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢٨، ٧٠، ١٢٩، ١٣٩، ١٤٣، ١٥٥) (صحیح )
رجب میں عمرہ۔
عروہ کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کس مہینہ میں عمرہ کیا ؟ تو انہوں نے کہا : رجب میں، اس پر ام المؤمنین عائشہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی رجب میں عمرہ نہیں کیا، اور آپ کا کوئی عمرہ ایسا نہیں جس میں وہ یعنی ابن عمر (رض) آپ کے ساتھ نہ رہے ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ابن عمر أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٣٥ (١٢٥٥) ، سنن الترمذی/الحج ٩٣ (٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢١) ، حدیث عائشہ أخرجہ : سنن الترمذی/ الحج ٩٣ (٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمرة ٣ (١٧٧٧) ، سنن ابی داود/الحج ٨٠ (١٩٩٤) ، مسند احمد (١/٢٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ بھول گئے ہیں اور غلطی سے رجب کہہ دیا ہے۔
تنعیم سے عمرے کا احرام باندھنا۔
عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ (رض) کو اپنے ساتھ سوار کر کے لے جائیں، اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرائیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ٦ (١٧٨٤) ، الجہاد ١٢٥ (٢٩٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٢) ، سنن الترمذی/الحج ٩١ (٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٨١ (١٩٩٥) ، مسند احمد (١/١٩٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٤١ (١٩٠٤) (صحیح ) وضاحت : تنعیم : مسجد الحرام سے تین میل ( ٥ کلومیٹر) کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، جہاں پر اس وقت مسجد عائشہ کے نام سے مسجد تعمیر ہے۔ ٢ ؎: محرم سے مراد شوہر ہے یا وہ شخص جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو مثلاً باپ دادا، نانا، بیٹا، بھائی چچا ماموں، بھتیجا، داماد وغیرہ یا رضاعت سے ثابت ہونے والے رشتہ دار، عمرے کا احرام حرم سے نکل کر باندھنا چاہیے، یہ مقام بہ نسبت اور مقاموں کے قریب ہے، اس لئے آپ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو وہیں سے عمرہ کرانے کا حکم دیا۔
تنعیم سے عمرے کا احرام باندھنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مدینہ سے) اس حال میں نکلے کہ ہم ذی الحجہ کے چاند کا استقبال کرنے والے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو عمرہ کا تلبیہ پکارنا چاہے، پکارے، اور اگر میں ہدی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا تلبیہ پکارتا ، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، اور کچھ ایسے جنہوں نے حج کا، اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آئے، اور اتفاق ایسا ہوا کہ عرفہ کا دن آگیا، اور میں حیض سے تھی، عمرہ سے ابھی حلال نہیں ہوئی تھی، میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا عمرہ چھوڑ دو ، اور اپنا سر کھول لو، اور بالوں میں کنگھا کرلو، اور نئے سرے سے حج کا تلبیہ پکارو ، چناچہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر جب محصب کی رات (بارہویں ذی الحجہ کی رات) ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج پورا کرا دیا، تو آپ ﷺ نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بھیجا، وہ مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھا کر تنعیم لے گئے، اور وہاں سے میں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا (اور آ کر اس عمرے کے قضاء کی جو حیض کی وجہ سے چھوٹ گیا تھا) اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرا دیا، ہم پر نہ هدي (قربانی) لازم ہوئی، نہ صدقہ دینا پڑا، اور نہ روزے رکھنے پڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ٥ (١٧٨٣) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ هدي حج تمتع کرنے والے پر واجب ہوتی ہے، اور عائشہ (رض) کا حج حج افراد تھا کیونکہ حیض آجانے کی وجہ سے انہیں عمرہ چھوڑ دینا پڑا تھا۔
بیت المقدس سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی فضیلت۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بیت المقدس سے عمرہ کا تلبیہ پکارا اس کو بخش دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٩ (١٧٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٩) (ضعیف) (سند میں ام حکیم کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، جو مجاہیل کی توثیق کرتے ہیں، اور یہ مشہور نہیں ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢١١ )
بیت المقدس سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی فضیلت۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بیت المقدس سے عمرہ کا تلبیہ پکارا یہ اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ ہوگا ، تو میں بیت المقدس سے عمرہ کے لیے نکلی۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (ضعیف )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنے عمرے کئے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کیے : عمرہ حدیبیہ، عمرہ قضاء جو دوسرے سال کیا، تیسرا عمرہ جعرانہ سے، اور چوتھا جو حج کے ساتھ کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٨٠ (١٩٩٣) ، سنن الترمذی/الحج ٧ (٨١٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٦، ٣٢١) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٩ (١٩٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رسول اکرم ﷺ نے پوری زندگی میں ایک حج اور تین عمرے ادا کئے، اس لیے کہ حدیبیہ کا عمرہ پورا نہیں ہوا تھا، چناچہ دوسرے سال آپ نے اسی عمرے کی قضا کی تھی۔
منی کی طرف نکلنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھیں، پھر نویں (ذی الحجہ) کی صبح کو عرفات تشریف لے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٠ (٨٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨١) (صحیح )
منی کی طرف نکلنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ پانچ وقت کی نماز منیٰ میں پڑھتے تھے، پھر انہیں بتاتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٥١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٦٤ (١٩٥) (حسن) (سند میں عبداللہ بن عمر ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ ابن عباس (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: آٹھویں ذی الحجہ کی ظہر، عصر مغرب اور عشاء اور نویں ذی الحجہ کی فجر۔
منی میں اترنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم آپ کے لیے منیٰ میں گھر نہ بنادیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، منیٰ اس کی جائے قیام ہے جو پہلے پہنچ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٨٩ (٢٠١٩) ، سنن الترمذی/الحج ٥١ (٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨٧ٕ ٢٠٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٧ (١٩٨٠) (ضعیف) (ام یوسف مسیکہ مجہول العین ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ٣٤٥ )
منی میں اترنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم منیٰ میں آپ کے لیے ایک گھر نہ بنادیں جو آپ کو سایہ دے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، منیٰ اس کی جائے قیام ہے جو پہلے پہنچ جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎: یعنی منیٰ کا میدان حاجیوں کے لئے وقف ہے، وہ کسی کی خاص ملکیت نہیں ہے، اگر کوئی وہاں پہلے پہنچے اور کسی جگہ اتر جائے، تو دوسرا اس کو اٹھا نہیں سکتا چونکہ گھر بنانے میں ایک جگہ پر اپنا قبضہ اور حق جما لینا ہے، اس لیے آپ نے اس سے منع فرمایا۔
علی الصبح منی سے عرفات جانے کا بیان۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ اس دن ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کے لیے چلے، تو ہم میں سے کچھ لوگ اللہ اکبر کہتے تھے اور کچھ لوگ لبیک پکارتے تھے، تو اس نے نہ اس پر عیب لگایا اور نہ اس نے اس پر، اور بسا اوقات انہوں نے یوں کہا : نہ انہوں نے ان لوگوں پر عیب لگایا، اور نہ ان لوگوں نے ان پر۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ١٢ (٩٧٠) ، الحج ٨٦ (١٦٥٩) ، صحیح مسلم/الحج ٤٦ (١٢٨٥) سنن النسائی/الحج ١٩٢ (٣٠٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٢٨ (١٨١٦) ، موطا امام مالک/الحج ١٣ (٤٣) ، مسند احمد (٣/١١٠، ٢٤٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٨ (١٩١٩) (صحیح )
عرفات میں کہاں اترے ؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عرفات کی وادی نمرہ میں ٹھہرتے، راوی کہتے ہیں : جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کیا، تو ابن عمر (رض) کے پاس یہ پوچھنے کے لیے آدمی بھیجا کہ نبی اکرم ﷺ آج کے دن کس وقت (نماز اور خطبہ کے لیے) نکلتے تھے ؟ انہوں نے کہا : جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، حجاج نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ دیکھتا رہے کہ ابن عمر (رض) کب نکلتے ہیں ؟ جب ابن عمر (رض) نے چلنے کا ارادہ کیا، تو پوچھا : کیا سورج ڈھل گیا ؟ لوگوں نے کہا : ابھی نہیں ڈھلا ہے، تو وہ بیٹھ گئے، پھر پوچھا : کیا اب ڈھل گیا ؟ لوگوں نے کہا : ابھی نہیں ڈھلا ہے، پھر آپ بیٹھ گئے، پھر آپ نے کہا : کیا اب ڈھل گیا ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، تو جب لوگوں نے کہا : ہاں، تو وہ چلے۔ وکیع نے ارتحل کا معنی راح (چلے) بتایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٦١ (١٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٨٧ (١٦٦٠) ، موطا امام مالک/الحج ٦٤ (١٩٥) ، مسند احمد (٢/٢٥) (حسن )
موقوف عرفات۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات میں وقوف کیا، اور فرمایا : یہ جگہ اور سارا عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٦٤ (١٩٣٥، ١٩٣٦) ، سنن الترمذی/الحج ٥٤ (٨٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٩) (صحیح )
موقوف عرفات۔
یزید بن شیبان (رض) کہتے ہیں کہ ہم عرفات میں ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے، جس کو ہم موقف (ٹھہرنے کی جگہ) سے دور سمجھ رہے تھے، اتنے میں ہمارے پاس ابن مربع آئے اور کہنے لگے : میں تمہارے پاس رسول اللہ ﷺ کا قاصد بن کر آیا ہوں، آپ فرما رہے ہیں : تم لوگ اپنی اپنی جگہوں پر رہو، کیونکہ تم آج ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٦٢ (١٩١٩) ، سنن الترمذی/الحج ٥٣ (٨٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ اس روز عرفات میں کہیں بھی ٹھہرنے سے سنت ادا ہوجائے گی، گرچہ رسول اللہ ﷺ کے ٹھہرنے کی جگہ سے دور ہی کیوں نہ ہو، نیز ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان جگہوں پر ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ ہی سے بطور وراثت وقوف چلا آ رہا ہے، لہذا تم سب کا وہاں وقوف (یعنی مجھ سے دور) صحیح ہے اور وارث ہونے کے ہم معنی ہے۔
موقوف عرفات۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پورا عرفات جائے وقوف ہے، اور بطن عرفہ سے اٹھ جاؤ یعنی وہاں نہ ٹھہرو، اور پورا (مزدلفہ) ٹھہرنے کی جگہ ہے، اور بطن محسر سے اٹھ جاؤ یعنی وہاں نہ ٹھہرو، اور پورا منٰی منحر (مذبح) ہے، سوائے جمرہ عقبہ کے پیچھے کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٦٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/المناسک ٦٥ (١٩٣٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٠ (١٩٢١) (صحیح) (سند میں قاسم بن+عبداللہ العمری متروک راوی ہے، اس لئے إلا ما وراء العقبة کے لفظ کے ساتھ یہ صحیح نہیں ہے، اصل حدیث کثرت طرق اور شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٦٦٥ - ٦٩٢ ١ - ١٦٩٣ ) وضاحت : ١ ؎: بطن عرفہ سے اٹھ جاؤ : اس لئے کہ وہ میدان عرفات کی حد سے باہر ہے۔ بطن محسر سے اٹھ جاؤ : اس لئے کہ وہاں منیٰ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔
عرفات کی دعاء کا بیان۔
عباس بن مرداس سلمی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کی مغفرت کی دعا کی، تو آپ ﷺ کو جواب ملا کہ میں نے انہیں بخش دیا، سوائے ان کے جو ظالم ہوں، اس لیے کہ میں اس سے مظلوم کا بدلہ ضرور لوں گا، آپ ﷺ نے فرمایا : اے رب ! اگر تو چاہے تو مظلوم کو جنت دے اور ظالم کو بخش دے ، لیکن اس شام کو آپ کو جواب نہیں ملا، پھر جب آپ ﷺ نے مزدلفہ میں صبح کی تو پھر یہی دعا مانگی، آپ کی درخواست قبول کرلی گئی، تو آپ ﷺ ہنسے یا مسکرائے، پھر آپ سے ابوبکرو عمر (رض) نے عرض کیا : ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ ایسا وقت ہے کہ آپ اس میں ہنستے نہیں تھے تو آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ اللہ آپ کو ہنساتا ہی رہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے دشمن ابلیس کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی ہے، اور میری امت کو بخش دیا ہے، تو وہ مٹی لے کر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور کہنے لگا : ہائے خرابی، ہائے تباہی ! جب میں نے اس کا یہ تڑپنا دیکھا تو مجھے ہنسی آگئی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٤٠، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١٦٨ (٥٢٣٤) ، مسند احمد (٤/١٤) (ضعیف) (عبد اللہ بن کنانہ مجہول ہیں، اور ان کی حدیث صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٢٦٠٣ )
عرفات کی دعاء کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جتنا عرفہ کے دن اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں، اللہ تعالیٰ قریب ہوجاتا ہے، اور ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور فرماتا ہے : میرے ان بندوں نے کیا چا ہا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٩ (١٣٤٨) ، سنن النسائی/الحج ١٩٤ (٣٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کس چیز کی خواہش اور طلب میں اس قدر لوگ اس میدان میں جمع ہیں ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : تیری مغفرت چاہتے ہیں، اور تیرے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے میں نے ان کو بخش دیا۔
ایسا شخص جو عرفات میں اتاریخ کو طلوع فجر سے قبل آجائے۔
عبدالرحمن بن یعمر دیلی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، آپ عرفات میں وقوف فرما تھے، اہل نجد میں سے کچھ لوگوں آپ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! حج کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : حج عرفات میں وقوف ہے، جو مزدلفہ کی رات فجر سے پہلے عرفات میں آجائے اس کا حج پورا ہوگیا، اور منیٰ کے تین دن ہیں (گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ) ، جو جلدی کرے اور دو دن کے بعد بارہ ذی الحجہ ہی کو چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو تیسرے دن بھی رکا رہے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ، پھر آپ ﷺ نے ایک شخص کو اپنے پیچھے سوار کرلیا، وہ ان باتوں کا اعلان کر رہا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٩ (١٩٤٩) ، سنن الترمذی/الحج ٥٧ (٨٨٩، ٨٩٠) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٣ (٣٠١٩) ، ٢١١ (٣٠٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٩، ٣١٠، ٣٣٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٤ (١٩٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی دسویں ذی الحجہ کے طلوع فجر سے پہلے ایک گھڑی کے لئے بھی عرفات کا وقوف پالے تو اس کا حج ہوگیا۔ عبدالرحمن بن یعمر دیلی (رض) کہتے ہیں کہ میں عرفات میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اتنے میں اہل نجد کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے، پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث بیان کی۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ میں تو ثوری کی کوئی حدیث اس سے بہتر نہیں سمجھتا۔
ایسا شخص جو عرفات میں اتاریخ کو طلوع فجر سے قبل آجائے۔
عروہ بن مضرس طائی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں حج کیا، تو اس وقت پہنچے جب لوگ مزدلفہ میں تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنی اونٹنی کو لاغر کردیا اور اپنے آپ کو تھکا ڈالا، اور قسم اللہ کی ! میں نے کوئی ایسا ٹیلہ نہیں چھوڑا، جس پر نہ ٹھہرا ہوں، تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص ہمارے ساتھ نماز میں حاضر رہا ہو، اور عرفات میں ٹھہر کر دن یا رات میں لوٹے، تو اس نے اپنا میل کچیل دور کرلیا، اور اس کا حج پورا ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٩ (١٩٥٠) ، سنن الترمذی/الحج ٥٧ (٨٩١) ، سنن النسائی/الحج ٢١١ (٣٠٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥، ٢٦١، ٢٦٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٤ (١٩٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حالت احرام میں پراگندہ رہنے کی مدت اس نے پوری کرلی، اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کرسکتا ہے۔
عرفات سے (واپس) لوٹنا۔
اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا : عرفات سے لوٹتے وقت رسول اللہ ﷺ کیسے چلتے تھے ؟ کہا : آپ ﷺ عنق کی چال (تیز چال) چلتے، اور جب خالی جگہ پاتے تو نص کرتے یعنی دوڑتے۔ وکیع کہتے ہیں کہ عنق سے زیادہ تیز چال کو نص کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٣ (١٦٦٦) ، الجہاد ١٣٦ (٢٩٩٩) ، المغازي ٧٧ (٤٤١٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٠، ١٢٨٦) ، سنن ابی داود/الحج ٦٤ (١٩٢٣) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٥ (٣٠٢٦) ، ٢١٤ (٣٠٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٥٧ (١٧٦) ، مسند احمد (٥/٢٠٥، ٢١٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥١ (١٩٢٢) (صحیح )
عرفات سے (واپس) لوٹنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : قریش کہتے تھے کہ ہم بیت اللہ کے رہنے والے ہیں، حرم کے باہر نہیں جاتے ١ ؎، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ : ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس پھر تم بھی وہیں سے لوٹو جہاں سے اور لوگ لوٹتے ہیں (یعنی عرفات سے) اتاری۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٢٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی وجہ سے وہ عرفات میں وقوف نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ حل میں واقع ہے، یعنی حرم سے باہر۔
اگر کچھ کام ہو تو عرفات ومزدلفہ کے درمیان اترسکتا ہے۔
اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات سے لوٹا، جب آپ اس گھاٹی پر آئے جہاں امراء اترتے ہیں، تو آپ نے اتر کر پیشاب کیا، پھر وضو کیا، تو میں نے عرض کیا : نماز (پڑھ لی جائے) ، آپ ﷺ نے فرمایا : نماز تمہارے آگے (پڑھی جائے گی) پھر جب مزدلفہ میں پہنچے تو اذان دی، اقامت کہی، اور مغرب پڑھی، پھر کسی نے اپنا کجاوہ بھی نہیں کھولا کہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور عشاء پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٦٤ (١٩٢١) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٠ (٦١٠) ، الحج ٢٠٦ (٣٠٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥ (١٣٩) ، الحج ٩٥ (١٦٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٠) ، موطا امام مالک/الحج ٦٥ (١٩٧) ، مسند احمد (٥/٢٠٠، ٢٠٢، ٢٠٨، ٢١٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥١ (١٩٢٢) (صحیح )
مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین۔ (یعنی مغرب وعشاء اکٹھا کرنا)
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب اور عشاء مزدلفہ میں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٦ (١٦٧٤) ، المغازي ٧٦ (٤٤١٤) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٤٨ (٦٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٦٥ (١٩٨) ، مسند احمد (٥/٤١٨، ٤١٩، ٤٢٠، ٤٢١) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٢ (١٩٢٥) (صحیح )
مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین۔ (یعنی مغرب وعشاء اکٹھا کرنا)
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مغرب مزدلفہ میں پڑھی، پھر جب ہم نے اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اقامت کہہ کر عشاء پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٩٦ (١٦٧٤) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٦) ، سنن ابی داود/المناسک ٦٥ (١٩٢٦) ، موطا امام مالک/الحج ٦٥ (١٩٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٢ (٦٧٧٠) (صحیح )
مزدلفہ میں قیام کرنا۔
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ حج کیا، تو جب ہم نے مزدلفہ سے لوٹنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا : مشرکین کہا کرتے تھے : اے کوہ ثبیر ! روشن ہوجا، تاکہ ہم جلد چلے جائیں، اور جب تک سورج نکل نہیں آتا تھا وہ نہیں لوٹتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے خلاف کیا، آپ سورج نکلنے سے پہلے ہی مزدلفہ سے چل پڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٠ (١٦٨٤) ، مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٨) ، سنن ابی داود/الحج ٦٥ (١٩٣٨) ، سنن الترمذی/الحج ٦٠ (٨٩٦) ، سنن النسائی/الحج ٢١٣ (٣٠٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤، ٢٩، ٣٩، ٤٢، ٥٠، ٥٢) سنن الدارمی/المناسک ٥٥ (١٩٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب عرفات سے نویں تاریخ کو لوٹ کر چلے تو راستہ میں مغرب نہ پڑھے بلکہ مغرب اور عشاء دونوں ملا کر عشاء کے وقت میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مزدلفہ میں آ کر پڑھے، پھر رات مزدلفہ ہی میں گزارے اور صبح ہوتے ہی نماز فجر پڑھ کر سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہوجائے گا، مزدلفہ میں رات کو رہنا سنت ہے، اور جو لوگ مزدلفہ میں رات بسر نہیں کرتے وہ بدعت کا کام کرتے ہیں، جس سے حاکم کو منع کرنا چاہیے اور جو کوئی رات کو مزدلفہ میں نہ رہے اس پر ایک دم لازم ہوگا، ابن خزیمہ اور ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مزدلفہ میں رات کو رہنا رکن ہے، اس صورت میں اس کے ترک سے ان کا حج باطل ہوجائے گا، اور اس کمی کو دم سے نہ دور کیا جاسکے گا، اور رات کو رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ میں ٹھہرے اگرچہ ایک گھڑی ہی سہی، اگر اس سے پہلے چل دے گا تو اس پر دم لازم ہوگا، لیکن فجر ہونے سے پہلے سے پھر وہاں لوٹ آئے تو دم ساقط ہوجائے گا، بہرحال رات کی نصف ثانی میں تھوڑی دیر فجر تک مزدلفہ میں ٹھہرنا ضروری ہے، (الروضۃ الندیۃ) ۔
مزدلفہ میں قیام کرنا۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حجۃ الوداع میں مزدلفہ سے اطمینان کے ساتھ لوٹے، اور لوگوں کو بھی اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا، اور حکم دیا کہ وہ ایسی کنکریاں ماریں جو دونوں انگلیوں کے درمیان آسکیں، اور وادی محسر، میں آپ نے سواری کو تیز چلایا اور فرمایا : میری امت کے لوگ حج کے احکام سیکھ لیں، کیونکہ مجھے نہیں معلوم شاید اس سال کے بعد میں ان سے نہ مل سکوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٦ (١٩٤٤) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٤ (٣٠٢٤) ، ٢١٥ (٣٠٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٤٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٥ (٨٨٦) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٣٢، ٣٦٧، ٣٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وادی محسر : منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پر عذاب آیا تھا، جو یمن سے کعبہ کو ڈھانے اور اس کی بےحرمتی کے لیے آئے تھے۔
مزدلفہ میں قیام کرنا۔
بلال بن رباح (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مزدلفہ کی صبح کو ان سے فرمایا : بلال ! لوگوں کو خاموش کرو ، پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تم پر بہت فضل کیا، تمہارے اس مزدلفہ میں تم میں گنہگار کو نیکوکار کے بدلے بخش دیا، اور نیکوکار کو وہ دیا جو اس نے مانگا، اب اللہ کا نام لے کر لوٹ چلو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٥) (صحیح) (اس سند میں ابوسلمہ الحمصی مجہول ہیں، لیکن انس، عبادہ اور عباس بن مرداس رضی اللہ عنہم کے شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٦٢٤ )
جو شخص کنکریاں مارنے کیلئے مزدلفہ سے منی کو پہلے چل پڑے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ سے عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہم چھوٹے بچوں کو ہماری اپنی گدھیوں پر پہلے ہی روانہ کردیا، آپ ہماری رانوں پر آہستہ سے مارتے تھے، اور فرماتے تھے : میرے بچو ! سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ مارنا ١ ؎۔ سفیان نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے : میں نہیں سمجھتا کہ سورج نکلنے سے پہلے کوئی کنکریاں مارتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٦ (١٩٤٠) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٢ (٣٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٨ (٨٩٣) ، مسند احمد (١/٢٣٤، ٣١١، ٣٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ کو کنکری مارتے ہیں اور اس دن سورج نکلتے ہی کنکریاں ماری جاتی ہیں، البتہ گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو تینوں جمرات کو سورج ڈھلنے کے بعد سات سات کنکریاں مارتے ہیں، ان دونوں میں سورج ڈھلنے سے پہلے کنکری مارنا صحیح نہیں ہے۔
جو شخص کنکریاں مارنے کیلئے مزدلفہ سے منی کو پہلے چل پڑے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر والوں میں جن کمزور لوگوں کو پہلے بھیج دیا تھا ان میں میں بھی تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩٣) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٨ (٣٠٣٦) ، ٢١٤ (٣٠٥١) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢١، ٢٧٢) (صحیح )
جو شخص کنکریاں مارنے کیلئے مزدلفہ سے منی کو پہلے چل پڑے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ سودہ بنت زمعہ (رض) ایک بھاری بھر کم عورت تھیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مزدلفہ سے لوگوں کی روانگی سے پہلے جانے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٨ (١٦٨٠) ، صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ٢٠٩ (٣٠٤٠) ، ٢١٤ (٣٠٥٢) ، مسند احمد (٦/٣٠، ٩٤، ٩٩، ١٣٣، ١٦٤، ٢١٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٣ (١٩٢٨) (صحیح )
کتنی بڑی کنکریاں مارنی چاہیے۔
سلیمان بن عمرو بن احوص کی والدہ (ام جندب الازدیہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کے پاس ایک خچر پر سوار دیکھا، آپ فرما رہے تھے : لوگو ! جب جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارو تو ایسی ہوں جو دونوں انگلیوں کے درمیان آجائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٧٨ (١٩٦٦، ١٩٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠٣، ٥/٢٧٠، ٣٧٩، ٦/٣٧٩) (حسن) (اس سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے )
کتنی بڑی کنکریاں مارنی چاہیے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمرہ عقبہ کی صبح کو فرمایا، اس وقت آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے : میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، چناچہ میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آجائیں، آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلاتے تھے اور فرماتے تھے : انہیں جیسی کنکریاں مارو ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہلاک کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٢١٧ (٣٠٥٩) ، ٢١٩ (٣٠٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٣٤٧، ٥/١٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غلو : کسی کام کو حد سے زیادہ بڑھا دینے اور اس میں ضرورت سے زیادہ سختی کرنے کو غلو کہتے ہیں، مثلاً کنکریاں مارنے کا حکم ہے تو چھوٹی کنکریاں کافی ہیں، اب غلو یہ ہے کہ بڑی بڑی کنکریاں مارے یا پتھر پھینکے اور اس کو زیادہ ثواب کا کام سمجھے، دین کے ہر کام میں غلو کرنا منع ہے اور یہ حماقت کی دلیل ہے، یہ بھی غلو ہے کہ مثلاً کسی نے مستحب یا سنت کو ترک کیا تو اس کو برا کہے اور گالیاں دے، اگر کوئی سنت کو ترک کرے تو صرف نرمی سے اس کو حدیث سنا دینا کافی ہے، اگر لوگ فرض کو ترک کریں تو سختی سے اس کو حکم کرنا چاہیے، لیکن اس زمانہ میں یہ حال ہوگیا ہے کہ فرض ترک کرنے والوں کو کوئی برا نہیں کہتا ہے، لوگ تارکین صلاۃ، شرابیوں اور سود خوروں سے دوستی رکھتے ہیں، لیکن اذان میں کوئی انگوٹھے نہ چومے یا مولود میں قیام نہ کرے تو اس کے دشمن ہوجاتے ہیں، یہ بھی ایک انتہائی درجے کا غلو ہے، اور ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مسلمان تباہ ہوگئے، اور جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا۔
جمرئہ عقبہ پر کہاں سے کنکریاں مارنا چاہیے ؟
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود (رض) جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے نچلے حصے میں گئے، کعبہ کی طرف رخ کیا، اور جمرہ عقبہ کو اپنے دائیں ابرو پر کیا، پھر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے جاتے تھے پھر کہا : قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، یہیں سے اس ذات نے کنکری ماری ہے جس پر سورة البقرہ نازل کی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٥ (١٧٤٧) ، ١٣٨ (١٧٥٠) ، صحیح مسلم/الحج ٥٠ (١٢٩٦) ، سنن ابی داود/الحج ٧٨ (١٩٧٤) ، سنن الترمذی/الحج ٦٤ (٩٠١) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٦ (٣٠٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١٥، ٤٢٧، ٤٣٠، ٤٣٢، ٤٣٦، ٤٥٦، ٤٥٨) (صحیح )
جمرئہ عقبہ پر کہاں سے کنکریاں مارنا چاہیے ؟
سلیمان بن عمرو بن احوص کی ماں ام جندب (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یوم النحر کو جمرہ عقبہ کے پاس دیکھا، آپ وادی کے نشیب میں تشریف لے گئے، اور جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے پھر لوٹ آئے۔ اس سند سے بھی (سلیمان بن عمرو بن احوص کی والدہ ام جندب رضی اللہ عنہا) سے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٢٨، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٢) (حسن )
جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد اس کے پاس نہ ٹھہرے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، اور اس کے پاس رکے نہیں، اور بتایا کہ نبی اکرم ﷺ نے بھی ایسے ہی کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٠ (١٧٥١) ، ١٤٢ (١٧٥٢، ١٧٥٣) ، سنن النسائی/الحج ٢٣٠ (٣٠٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٦١ (١٩٤٤) (صحیح )
جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد اس کے پاس نہ ٹھہرے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب جمرہ عقبہ کی رمی کرلی تو چلے گئے، رکے نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٦) (صحیح) (سند میں سوید بن سعید متکلم فیہ ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
سوار ہو کر کنکریاں مارنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر جمرہ کو کنکریاں ماریں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٦٣ (٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢) (صحیح )
سوار ہو کر کنکریاں مارنا۔
قدامہ بن عبداللہ عامری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے یوم النحر کو جمرہ کو اپنی سرخ اور سفید اونٹنی پر سوار ہو کر کنکریاں ماریں، اس وقت آپ نہ کسی کو مارتے، اور نہ ہٹاتے تھے، اور نہ یہی کہتے تھے کہ ہٹو ! ہٹو !۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٦٥ (٩٠٣) ، سنن النسائی/المناسک ٢٢٠ (٣٠٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣/٤١٢، ٤١٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٠ (١٩٤٢) (صحیح )
بوجہ عذر کنکریاں مارنے میں تاخیر کرنا۔
عاصم بن عدی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اونٹ کے چرواہوں کو اجازت دی کہ وہ ایک دن رمی کریں، اور ایک دن کی رمی چھوڑ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٧٨ (١٩٧٥ و ١٩٧٦) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٨ (٩٥٤، ٩٥٥) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٥ (٣٠٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٧٢ (٢١٨) ، مسند احمد (٥/٤٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٨ (١٩٣٨) (صحیح )
بوجہ عذر کنکریاں مارنے میں تاخیر کرنا۔
عاصم بن عدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کے چرواہوں کو رخصت دی کہ وہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو رمی کرلیں، پھر یوم النحر کے بعد کے دو دنوں کی رمی ایک ساتھ جمع کرلیں، خواہ گیارہویں، بارہویں دونوں کی رمی بارہویں کو کریں، یا گیارہویں کو بارہویں کی بھی رمی کرلیں ١ ؎۔ مالک بن انس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا : پہلے دن رمی کریں پھر جس دن کوچ کرنے لگیں اس دن کرلیں۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ اونٹ چرانے کے لیے منیٰ سے دور چلے جاتے ہیں، ان کو روزی روٹی کے لیے منیٰ میں آنا دشوار ہے، اس لیے دونوں کی رمی ایک دن آ کر کرسکتے ہیں، مثلاً یوم النحر کو رمی کر کے چلے جائیں پھر ١١ ذی الحجہ کو نہ کریں، ١٢ کو آ کر دونوں دن کی رمی ایک بار لیں۔
بچوں کی طرف سے رمی کرنا۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا، ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے تھے، ہم نے بچوں کی طرف سے لبیک پکارا، اور ان کی طرف سے رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٨٤ (٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٤) (ضعیف) (أ شعث بن سوار ضعیف ہیں )
حاجی تلبیہ کہنا کب موقوف کرے۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جمرہ عقبہ کی رمی تک لبیک پکارا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ٢١٦ (٣٠٥٨) ، مسند احمد (١/٢١٠، ٢١٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٠ (١٩٤٣) ، وراجع الحدیث الآتي (صحیح )
حاجی تلبیہ کہنا کب موقوف کرے۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ فضل بن عباس (رض) نے کہا : میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ پیچھے سوار تھا، تو میں برابر آپ کا تلبیہ سنتا رہا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، جب آپ نے اس کی رمی کرلی تو لبیک کہنا ترک کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٢١٦ (٣٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٢٢ (١٥٤٣) ، ٩٣ (١٦٦٩) ، ١٠١ (١٦٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨٠) (صحیح )
جب مرد جمرہ عقبہ کی رمی کرچکے تو جو باتیں حلال ہوجاتی ہیں۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب تم رمی جمار کر چکتے ہو تو ہر چیز سوائے بیوی کے حلال ہوجاتی ہے، اس پر ایک شخص نے کہا : ابن عباس ! اور خوشبو ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو اپنے سر میں مشک ملتے ہوئے دیکھا، کیا وہ خوشبو ہے یا نہیں ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٢٣١ (٣٠٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی سے فراغت کے بعد پہلی حلت حاصل ہوجاتی ہے یعنی محرم کے لیے خوشبو لگانے، احرام کھولنے اور سلے کپڑے پہننے وغیرہ کی اجازت ہوجاتی ہے، وہ صرف بیوی سے صحبت نہیں کرے یہاں تک کہ وہ طواف افاضہ سے فارغ ہوجائے۔ طواف کے بعد یوم النحر کو جب رمی سے فارغ ہو تو اگر قربانی اس پر واجب ہو تو قربانی کرے، پھر سر منڈوائے یا بال کترواے، اور غسل کرے، اور کپڑے بدلے اور خوشبو لگائے، اور مکہ میں جا کر بیت اللہ کا طواف کرے اس طواف کو طواف افاضہ اور طواف صدر اور طواف زیارہ کہتے ہیں، اور یہ حج کا ایک بڑا رکن ہے اور فرض ہے، پھر منیٰ میں لوٹ آئے اور ظہر منیٰ میں آ کر پڑھے، ایسا ہی حدیث میں وارد ہے، اور اب سب چیزیں حلال ہوگئیں یہاں تک کہ عورتوں سے صحبت کرنا بھی، اور مستحب ہے کہ یہ طواف، رمی، نحر اور حلق کے بعد کیا جائے اگر کسی نے اس طواف کو یوم النحر کو ادا نہ کیا تو ١١ ، یا ١٢ ذی الحجہ کو کرلے اس پر دم نہ ہوگا، لیکن جب تک یہ طواف نہ کرے گا حج پورا نہ ہوگا، اور عورتیں حلال نہ ہوں گی۔
جب مرد جمرہ عقبہ کی رمی کرچکے تو جو باتیں حلال ہوجاتی ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو احرام باندھتے وقت، اور احرام کھولتے وقت خوشبو لگائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٨ (١٥٣٩) ، ١٤٣ (١٧٥٤) ، اللباس ٧٣ (٥٩٢٢٠) ، ٧٤ (٥٩٢٣) ، ٧٩ (٥٩٢٨) ، ٨١ (٥٩٣٠) ، سنن ابی داود/الحج ١١ (١٧٤٥) ، سنن الترمذی/الحج ٧٧ (٩١٧) ، سنن النسائی/الحج ٤١ (٢٦٨٥) ، موطا امام مالک/الحج ٧ (١٧) ، مسند احمد (٦/٩٨، ١٠٦، ١٣، ١٦٢، ١٨١، ١٨٦، ١٩٢، ٢٠٠، ٢٠٧، ٢٠٩، ٢١٤، ٢١٦، ٢٣٧، ٢٣٨، ٢٤٤، ٢٤٥، ٢٥٨) ، سنن الدارمی/المناسک ١٠ (١٨٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حلق یعنی سر منڈانا اور تقصیر یعنی بال کترانا دونوں جائز ہیں، لیکن حلق افضل ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تین بار حلق کرانے والوں کے لیے دعا کی، حج میں حلق ا فضل ہے، حلق اور تقصیر حج اور عمرہ کا ایک رکن ہے۔
سر منڈانے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! سر منڈانے والوں کو بخش دے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اور بال کتروانے والوں کو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! سر منڈانے والوں کو بخش دے ، آپ نے یہ تین بار فرمایا : تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اور بال کتروانے والوں کو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اور بال کتروانے والوں کو بھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٢٧ (١٧٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٥٥ (١٣٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ سر منڈانا کتروانے سے افضل ہے کیونکہ سر منڈوانے والوں کے لیے آپ ﷺ نے تین بار دعا کی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار اور وہ بھی آخر میں۔
سر منڈانے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے ، لوگوں نے عرض کیا : اور بال کٹوانے والوں پر ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے ، لوگوں نے عرض کیا : اور بال کٹوانے والوں پر ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے ، لوگوں نے عرض کیا : اور بال کٹوانے والوں پر ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اور بال کٹوانے والوں پر بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٥ (١٣٠١) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٤٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٧ (١٧٢٧) ، سنن ابی داود/الحج ٧٩ (١٩٧٩) ، سنن الترمذی/الحج ٧٤ (٩١٣) ، موطا امام مالک/الحج ٦٠ (١٨٤) ، مسند احمد (٢/٣٤، ١٥١) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٤ (١٩٤٧) (صحیح )
سر منڈانے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول ! آپ نے بال منڈوانے والوں کے لیے تین بار دعا فرمائی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار، اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : انہوں نے شک نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤١٠، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٥٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ جس حکم کو اللہ تعالیٰ نے پہلی بار بیان کیا اسی پر عمل کیا، قرآن شریف میں ہے : محلقين رؤوسکم ومقصرين (سورة الفتح : 27) تو پہلے حلق کو ذکر فرمایا۔
سر کی تلبید کرنا (بال جمانا)
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا بات ہے لوگوں نے اپنے عمرے سے احرام کھول دیا، اور آپ نے نہیں کھولا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنے سر کی تلبید ١ ؎ کی تھی، اور ہدی (کے جانور) کو قلادہ پہنایا تھا ٢ ؎ اس لیے جب تک میں قربانی نہ کرلوں حلال نہیں ہوسکتا ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٦) ، ١٠٧ (١٦٩٧) ، ١٢٦ (١٧٢٥) ، المغازي ٧٧ (٤٣٩٨) ، اللباس ٦٩ (٥٩١٦) ، صحیح مسلم/الحج ٢٥ (١٢٢٩) ، سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٨٠٦) ، سنن النسائی/الحج ٤٠ (٢٦٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٥٨ (١٨٠) ، مسند احمد (٦/٢٨٣، ٢٨٤، ٢٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تلبید کہتے ہیں بالوں کو گوند وغیرہ سے جما لینا تاکہ پریشان نہ ہوں، اور احرام کے وقت گرد و غبار سے سر محفوظ رہے۔ ٢ ؎: ہدی کے جانور کو قلادہ پہنانے کو تقلید کہتے ہیں، تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ ٣ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تلبید جائز ہی نہیں بلکہ مسنون ہے۔
سر کی تلبید کرنا (بال جمانا)
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لبیک پکارتے ہوئے سنا، اس حال میں کہ آپ سر کی تلبید کیے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٩ (١٥٤٠) ، اللباس ٦٩ (٥٩١٥) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٤) ، سنن ابی داود/الحج ١٢ (١٧٤٧) ، سنن النسائی/الحج ٤٠ (٢٦٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢١، ١٣١) (صحیح )
ذبح کا بیان۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پورا منیٰ قربانی کی جگہ ہے، اور مکہ کی سب گلیاں راستے، قربانی کی جگہیں ہیں، پورا عرفات اور پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٦٥ (١٩٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٠ (١٩٢١) (حسن صحیح )
مناسک حج میں تقدیم وتاخیر۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جب بھی اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے حج کے کسی عمل کو دوسرے پر مقدم کردیا، تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے یہی اشارہ کیا کہ کوئی حرج نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٤ (٨٤) ، الحج ١٢٥ (١٧٢٣) ، ١٣٠ (١٧٣٥) ، الأیمان ١٥ (٦٦٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٥٧ (١٣٠٧) ، سنن ابی داود/الحج ٧٩ (١٩٨٣) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٤ (٣٠٦٩) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٦٩، ٢٩١، ٣٠٠، ٣١١، ٣٢٨) (صحیح )
مناسک حج میں تقدیم وتاخیر۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ منیٰ کے دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا جاتا تو آپ ﷺ فرماتے : کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں ، ایک شخص نے آ کر کہا : میں نے قربانی سے پہلے حلق کرلیا، آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی بات نہیں ، دوسرا بولا : میں نے رمی شام کو کی، آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی بات نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٢٥ (١٧٢٣) ، ١٣٠ (١٧٣٥) ، سنن ابی داود/المناسک ٧٩ (١٩٨٣) ، سنن النسائی/مناسک الحج ٢٢٤ (٣٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٦، ٢٥٨، ٢٦٩، ٢٩١، ٣٠٠، ٣١١، ٣٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمرہ کبری کو کنکری مارنا، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارت) (یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے مگر باب کی روشنی میں رمی، ذبح حلق اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہوگا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگا۔
مناسک حج میں تقدیم وتاخیر۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے سر منڈانے سے پہلے قربانی کرلی، یا قربانی سے پہلے سر منڈا لیا، آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٣ (٨٣) ، الحج ١٣١ (١٧٣٦، ١٧٣٧) ، صحیح مسلم/الحج ٥٧ (١٣٠٦) ، سنن ابی داود/الحج ٨٨ (٢٠١٤) ، سنن الترمذی/الحج ٧٦ (٩١٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٠٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٨١ (٢٤٢) ، مسند احمد (٢/١٥٩، ١٦٠، ١٩٢، ٢٠٢، ٢١٠، ٢١٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٥ (١٩٤٨) (صحیح )
مناسک حج میں تقدیم وتاخیر۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں لوگوں (کو حج کے احکام بتانے) کے لیے بیٹھے، تو ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ، پھر دوسرا شخص آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ، آپ سے اس دن جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا جسے کسی چیز سے پہلے کرلیا گیا ہو تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا : کوئی حرج نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٩٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیحین میں ابن عمر (رض) سے روایت کہ نبی اکرم ﷺ جمرہ کے پاس کھڑے تھے، ایک شخص نے آ کر کہا : میں نے رمی سے پہلے بال منڈا دیے، آپ ﷺ نے فرمایا : رمی کرلو کچھ حرج نہیں ، دوسرے نے کہا : میں نے رمی سے پہلے ذبح کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : رمی کرلو کچھ نہیں ہے ، تیسرے نے کہا : میں نے رمی سے پہلے طواف افاضہ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : رمی کرلو کچھ حرج نہیں ہے ، غرض جس چیز کے متعلق اس دن سوال ہوا آپ ﷺ نے فرمایا : اب کرلو کچھ حرج نہیں اور اہل حدیث کا عمل انہی حدیثوں پر ہے، ان اعمال کی اگر تقدیم و تاخیر سہو سے ہوجائے تو کچھ نقصان نہیں، نہ دم لازم آئے گا۔
ایام تشریق میں رمی جمعرات۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے دیکھا کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی چاشت کے وقت کی، اور اس کے بعد جو رمی کی (یعنی ١١ ، ١٢ اور ١٣ ذی الحجہ) کو تو وہ زوال (سورج ڈھلنے) کے بعد کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٣ (١٢٩٩) ، سنن ابی داود/الحج ٧٨ (١٩٧١) ، سنن الترمذی/الحج ٥٩ (٨٩٤) ، سنن النسائی/الحج ٢٢١ (٣٠٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٢، ٣١٩، ٤٠٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٨ (١٩٣٧) (صحیح )
ایام تشریق میں رمی جمعرات۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (دسویں ذی الحجہ کے بعد والے دنوں میں) رمی جمار سورج ڈھلنے کے بعد اس حساب سے کرتے تھے کہ جب آپ اپنی رمی سے فارغ ہوتے، تو ظہر پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٦٢ (٨٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٨، ٢٩٠، ٣٢٨) (ضعیف الإسناد جدّاً ) (سند میں جبارہ ضعیف اور ابراہیم بن عثمان متروک الحدیث راوی ہے )
یوم نحر کو خطبہ۔
عمرو بن احوص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا : لوگو ! سنو، کون سا دن زیادہ تقدیس کا ہے ؟ آپ نے تین بار یہ فرمایا، لوگوں نے کہا : حج اکبر ١ ؎ کا دن، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی، اور تمہارے اس مہینے کی، اور تمہارے اس شہر کی حرمت ہے، جو کوئی جرم کرے گا، تو اس کا مواخذہ اسی سے ہوگا، باپ کے جرم کا مواخذہ بیٹے سے، اور بیٹے کے جرم کا مواخذہ باپ سے نہ ہوگا، سن لو ! شیطان اس بات سے ناامید ہوگیا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی، لیکن عنقریب بعض کاموں میں جن کو تم معمولی جانتے ہو، اس کی اطاعت ہوگی، وہ اسی سے خوش رہے گا، سن لو ! جاہلیت کے سارے خون معاف کر دئیے گئے (اب اس کا مطالبہ و مواخذہ نہ ہوگا) اور میں حارث بن عبدالمطلب کا خون سب سے پہلے زمانہ جاہلیت کے خون میں معاف کرتا ہوں، (جو قبیلہ بنی لیث میں دودھ پیا کرتے تھے اور قبیلہ ہذیل نے انہیں شیر خوارگی کی حالت میں قتل کردیا تھا) سن لو ! جاہلیت کے تمام سود معاف کر دئیے گئے، تم صرف اپنا اصل مال لے لو، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم ہو، آگاہ رہو، اے میری امت کے لوگو ! کیا میں نے اللہ کا حکم تمہیں پہنچا دیا ہے ؟ آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا، لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں، آپ نے پہنچا دیا، آپ نے فرمایا : اے اللہ ! تو گواہ رہ ، اور اسے آپ نے تین بار دہرایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٥ (٣٣٣٤) ، سنن الترمذی/الفتن ٢ (٢١٥٩) ، تفسیر القرآن ١٠ (١) (٣٠٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٦، ٤٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہر حج کو حج اکبر کہتے ہیں، اور عمرہ کو حج اصغر، رہی بات عوام الناس کی جو ان کے درمیان مشہور ہے کہ حج اکبر اس حج کو کہتے ہیں، جس میں عرفہ کا دن جمعہ کے دن آئے اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔
یوم نحر کو خطبہ۔
جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں مسجد خیف میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات سنے، اور اسے لوگوں کو پہنچائے، کیونکہ بہت سے فقہ کی بات سننے والے خود فقیہ نہیں ہوتے، اور بعض ایسے ہیں جو فقہ کی بات سن کر ایسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں، تین باتیں ایسی ہیں جن میں کسی مومن کا دل خیانت نہیں کرتا، ایک اللہ کے لیے عمل خالص کرنے میں، دوسرے مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی کرنے میں، اور تیسرے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنے میں، اس لیے کہ ان کی دعا انہیں چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١٩٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٠) (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ٢٣١) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبدالسلام ضعیف ہیں، لیکن متن صحیح ہے، بلکہ حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو : دراستہ حدیث نضر اللہ ٠٠٠ للشیخ عبد المحسن العباد ) وضاحت : ١ ؎: شیطان کا مکر جماعت پر نہیں چلتا، اور جو جماعت سے الگ رہتا ہے شیطان اسے اچک لیتا ہے۔
یوم نحر کو خطبہ۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اور اس وقت آپ عرفات میں اپنی کنکٹی اونٹنی پر سوار تھے : کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے، اور کون سا مہینہ ہے، اور کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : یہ حرمت والا شہر، حرمت والا مہینہ، اور حرمت والا دن ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : سنو ! تمہارے مال اور تمہارے خون بھی ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ مہینہ تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس دن میں، سنو ! میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا، اور تمہاری کثرت کے سبب دوسری امتوں پر فخر کروں گا، تو تم مجھے رو سیاہ مت کرنا، سنو ! کچھ لوگوں کو میں (عذاب کے فرشتوں یا جہنم سے) نجات دلاؤں گا، اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں گے (فرشتے مجھ سے چھین کر انہیں جہنم میں لے جائیں گے) ، میں کہوں گا : یا رب ! یہ میرے صحابہ ہیں وہ فرمائے گا : آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد بدعتیں ایجاد کی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ کی وفات کے بعد اسلام سے پھرگئے، مسلمانوں کو مارا، اور اصحاب سے مراد یہ ہے کہ میری امت کے لوگ ہیں۔
یوم نحر کو خطبہ۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس سال حج کیا دسویں ذی الحجہ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : آج کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : یہ یوم النحر ہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : یہ اللہ کا حرمت والا شہر ہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کون سا مہینہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : یہ اللہ کا حرمت والا مہینہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ حج اکبر کا دن ہے، اور تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت و آبرو اسی طرح تم پر حرام ہیں جیسے اس شہر کی حرمت اس مہینے اور اس دن میں ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں نے (اللہ کے احکام تم کو) پہنچا دئیے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں، (آپ نے پہنچا دئیے) پھر آپ ﷺ یہ فرمانے لگے : اے اللہ ! تو گواہ رہ ، اس کے بعد لوگوں کو رخصت کیا، تو لوگوں نے کہا : یہ حجۃ الوداع یعنی الوداعی حج ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٢ (١٧٤٢ تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/المناسک ٦٧ (١٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٥١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ کا آخری حج ہے، اس کے بعد آپ ہمیں جدائی کا داغ دے جائیں گے، نیز اس حج کے تھوڑے دنوں کے بعد آپ کی وفات ہوئی اس واسطے اس کو حجۃ الوداع کہتے ہیں۔
بیت اللہ کی زیارت۔
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے طواف زیارت میں رات تک تاخیر فرمائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ابن عباس أخرجہ : صحیح البخاری/ الحج ١٢٩ (١٧٣٢ تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/المناسک ٨٢ (٢٠٠٠) ، سنن الترمذی/الحج ٨٠ (٩٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٥٢، ١٧٥٩٤) ، حدیث عائشہ تقدم تخریجہ في حدیث ابن عباس، وحدیث طاوس تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٨٤٥، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٨) (شاذ) (اس حدیث کی سند میں ابو الزبیر مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ترمذی اور منذری نے اس حدیث کی تحسین کی ہے، اور ابن القیم نے اس کو وہم کہا ہے، اور البانی صاحب نے شاذ کا حکم لگایا ہے، اس لیے کہ صحیح ترین احادیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے طواف زیارہ (افاضہ) زوال کے بعد کیا تھا، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤ / ٣٦٤ - ٣٦٥ و ضعیف أبی داود : ٣٤٢ ) وضاحت : ١ ؎: دسویں تاریخ کے طواف کو طواف زیارت یا طواف افاضہ کہتے ہیں۔
بیت اللہ کی زیارت۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے طواف افاضہ کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا ١ ؎۔ عطا کہتے ہیں کہ طواف افاضہ میں رمل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٨٣ (٢٠٠١) ، (تحفة الأشراف : ٥٩١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رمل طواف قدوم میں ہے۔
زمزم پینا۔
محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا، تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو ؟ اس نے کہا : زمزم کے پاس سے، پوچھا : تم نے اس سے پیا جیسا پینا چاہیئے، اس نے پوچھا : کیسے پینا چاہیئے ؟ کہا : جب تم زمزم کا پانی پیو تو کعبہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو اور اللہ کا نام لو، اور تین سانس میں پیو، اور خوب آسودہ ہو کر پیو، پھر جب فارغ ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہمارے اور منافقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ سیر ہو کر زمزم کا پانی نہیں پیتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٤٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٣) (ضعیف) (سند میں اختلاف کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١١٢٥ )
زمزم پینا۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : زمزم کا پانی اس مقصد اور فائدے کے لیے ہے جس کے لیے وہ پیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٧، ٣٧٢) (صحیح) (اس سند میں عبداللہ بن مؤمل ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١١٢٣ ) وضاحت : ١ ؎: اگر آدمی زمزم کا پانی شفا کے لیے پئے تو شفا حاصل ہوگی، اگر پیٹ بھرنے کے لئے تو کھانے کی احتیاج نہ ہوگی، اگر پیاس بجھانے کے لیے پئے تو پیاس دور ہوجائے گی، بہرحال جس نیت سے پئے گا وہی فائدہ اللہ چاہے تو حاصل ہوگا، خواہ دنیا کا فائدہ ہو یا آخرت کا، صحیح کہا اور بہت سے ائمہ دین نے زمزم کو مختلف اغراض سے پیا ہے اور جو غرض تھی، وہ حاصل ہوئی۔
کعبہ کے اندر جانا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن کعبہ کے اندر تشریف لے گئے، آپ کے ساتھ بلال اور عثمان بن شیبہ (رض) بھی تھے، پھر ان لوگوں نے اندر سے دروازہ بند کرلیا، جب وہ لوگ باہر نکلے تو میں نے بلال (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی ؟ تو انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک کے سامنے ہی نماز پڑھی، جب دونوں ستو نوں کے درمیان تشریف لے گئے، پھر میں نے اپنے آپ پر اس بات پر ملامت کی کہ میں نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنی رکعتیں پڑھیں ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٠ (٣٩٧) ، ٨١ (٤٨٦) ، ٩٦ (٥٠٤) ، التھجد ٢٥ (١١٦٧) ، الحج ٥١ (١٥٩٨) ، الجہاد ١٢٧ (٢٦٨٨) ، المغازي ٤٩ (٤٢٨٩) ، ٧٧ (٤٤٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٢٩) ، سنن ابی داود/الحج ٩٣ (٢٠٢٣) ، سنن الترمذی/الحج ٤٦ (٨٧٤) ، سنن النسائی/المساجد ٥ (٦٩٣) ، القبلة ٦ (٧٥٠) ، الحج ١٢٦ (٢٩٠٨) ، ١٢٧ (٢٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٣٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٦٣ (١٩٣) ، مسند احمد (٢/٣٣، ٥٥، ١١٣، ١٢٠، ١٣٨، ٦/١٢، ١٣، ١٤، ١٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٣ (١٩٠٨) (صحیح )
کعبہ کے اندر جانا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے نکلے، آپ بہت خوش اور ہشاش بشاش تھے، پھر میرے پاس واپس آئے تو آپ غمگین تھے، یہ دیکھا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا بات ہے، ابھی میرے پاس سے آپ نکلے تو آپ بہت خوش تھے، اور واپس آئے ہیں تو غمگین ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں کعبہ کے اندر گیا، پھر میرے جی میں آیا کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا، میں ڈرتا ہوں کہ اپنے بعد میں اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈال دوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٩٥ (٢٠٢٩) ، سنن الترمذی/الحج ٤٥ (٨٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٧) (ضعیف) (سند میں اسماعیل بن عبدالملک منکر راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٣٤٦ )
منی کی راتیں مکہ گزارنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی، کیونکہ زمزم کے پلانے کا کام ان کے سپرد تھا، تو آپ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٣ (١٧٤٥) ، صحیح مسلم/الحج ٦٠ (١٣١٥) ، سنن ابی داود/المناسک ٧٥ (١٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٩١ (١٩٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عذر کی وجہ سے اجازت خاص طور پر تھی ورنہ ہر شخص کو منیٰ کی دنوں میں یہ ضروری ہے کہ رات منیٰ میں بسر کرے۔
منی کی راتیں مکہ گزارنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (منیٰ کے دنوں میں) کسی کو مکہ میں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی سوائے عباس کے، کیونکہ حاجیوں کو پانی پلانے کا کام ان کے سپرد تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٥) (ضعیف الإسناد) (سند میں اسماعیل بن مسلم ضعیف راوی ہے )
محصب میں اترنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ابطح میں اترنا سنت نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ صرف اس لیے اترے تھے کہ وہاں سے مدینہ کے لیے روانگی میں آسانی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٨٨) ، و باقی الإسناد وتفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٩٥، ١٧٢٣٣، ١٧٢٨٦، ١٧٣٠٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٧ (١٧٦٥) ، سنن ابی داود/المناسک ٨٧ (٢٠٠٨) ، سنن الترمذی/الحج ٨٢ (٩٢٣) (صحیح )
محصب میں اترنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ روانگی کی رات بطحاء کی طرف سے (مدینہ کے لیے) رات ہی کو چل پڑے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٦٠، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٨) (صحیح )
محصب میں اترنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکرو عمر اور عثمان (رض) عنہم ابطح میں اترا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٨ (١٧٦٨) مختصراً ، صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١٠) ، سنن الترمذی/الحج ٨١ (٩٢١) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٩) (صحیح )
طواف رخصت۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ لوگ ہر طرف کو جا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٧ (١٣٢٧) ، سنن ابی داود/المناسک ٨٤ (٢٠٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٤ (١٧٥٥) ، مسند احمد (١/٢٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٥ (١٩٧٤) (صحیح )
طواف رخصت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی کوچ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام خانہ کعبہ کا طواف ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٠٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٧) (صحیح) (سند میں ابراہیم بن یزید الخوزی المکی منکر الحدیث راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے )
حائضہ طواف وداع سے قبل واپس ہوسکتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہوگئیں، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا وہ ہمیں روک لے گی ؟ میں نے کہا : وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں اس کے بعد حائضہ ہوئی ہیں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو پھر چلو روانہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبيبکر بن أبيشیبة تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٥٠) ، وحدیث أبي سلمة أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٧ (٣٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٦٧ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٨) وحدیث عروة أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٦٧ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/المناسک ٨٥ (٢٠٠٣) ، سنن الترمذی/الحیض ٩٩ (٣٩١) ، سنن النسائی/الحیض ٢٣ (٣٩١) ، موطا امام مالک/الحج ٧٥ (٢٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٨، ٣٩، ٨٢، ٩٩، ١٢٢، ١٦٤، ١٧٥، ١٩٣، ٢٠٢، ٢٠٧، ٢١٣، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٣ (١٩٥٨) (صحیح )
حائضہ طواف وداع سے قبل واپس ہوسکتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ (رض) کا ذکر کیا تو ہم نے کہا : انہیں حیض آگیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : عقرى حلقى! میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ سے ہمیں رکنا پڑے گا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ دسویں کو طواف افاضہ کرچکی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تب تو پھر ہمیں رکنے کی ضرورت نہیں، اس سے کہو کہ وہ روانہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٥١ (١٧٧١) ، صحیح مسلم/١٧ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢٤، سنن الدارمی/المناسک ٧٣ (١٩٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب حائضہ طواف افاضہ کرچکی ہو تو طواف وداع اس پر لازم نہیں ہے، اور ہم نے عمر (رض) اور ابن عمر رضی اللہ عنہما، اور زید بن ثابت (رض) سے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے طواف وداع کے لیے حائضہ کو ٹھہرنے کا حکم کیا ہے گویا انہوں نے اس کو طواف افاضہ کی طرح واجب سمجھا۔
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا مفصل ذکر۔
جعفر الصادق اپنے والد محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس گئے، جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں پوچھا کہ کون لوگ ہیں، یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے پوچھا، میں نے کہا : میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی کھولی پھر اپنی ہتھیلی میری دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھی، میں ان دنوں نوجوان لڑکا تھا، اور کہا : تمہیں خوش آمدید، تم جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے (کچھ باتیں) پوچھیں، وہ نابینا تھے ١ ؎ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، وہ ایک بنی ہوئی چادر جسے جسم پر لپیٹے ہوئے تھے اوڑھ کر کھڑے ہوئے، جب اس کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر ڈالتے تو اس کے دونوں کنارے ان کی جانب واپس آجاتے (کیونکہ چادر چھوٹی تھی) اور ان کی بڑی چادر ان کے پاس ہی میز پر رکھی ہوئی تھی، انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر میں نے ان سے کہا : آپ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے حج کا حال بتائیے، تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو ( ٩ ) کی گرہ بنائی (یعنی خنصر، بنصر اور وسطی کا سرا ہتھیلی سے لگا لیا) اور کہا : رسول اللہ ﷺ نو سال تک (مدینہ میں) ٹھہرے رہے، آپ نے حج نہیں کیا، پھر (ہجرت) کے دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا کہ اس سال آپ حج کو جائیں گے، تو مدینہ میں (اطراف سے) بہت سے لوگ (آپ کے ساتھ حج میں شریک ہونے کے لیے) آگئے، سب کی یہ خواہش تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کریں، اور جو کام آپ کریں وہی وہ بھی کریں، خیر آپ ﷺ نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے، ہم ذو الحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس (رض) کے یہاں محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : غسل کرلو اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام کی نیت کرلو ، پھر رسول اللہ ﷺ نے (ذوالحلیفہ) مسجد میں نماز ادا کی، پھر قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوگئے، یہاں تک کہ جب وہ آپ کو لے کر مقام بیداء میں سیدھی کھڑی ہوئی تو جہاں تک میری نگاہ گئی میں نے آپ کے سامنے سوار اور پاپیادہ لوگوں کو ہی دیکھا، اور دائیں بائیں اور پیچھے بھی ایسے ہی لوگ نظر آ رہے تھے، اور رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تھے ٢ ؎، آپ ﷺ پر قرآن اترتا تھا، آپ اس کے معانی کو سمجھتے تھے، آپ جو کام کرتے تھے ہم بھی وہی کرتے تھے، آپ نے توحید پر مشتمل تلبیہ پکارا لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد وثناء، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، تیرا ان میں کوئی شریک نہیں تو لوگوں نے بھی انہیں الفاظ میں تلبیہ پکارا جن میں آپ پکار رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے کسی الفاظ کی تبدیلی نہیں فرمائی ٣ ؎، آپ یہی تلبیہ پکارتے رہے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، ہم عمرہ جانتے بھی نہ تھے ٤ ؎ (یعنی اس کا سرے سے کوئی خیال ہی نہیں تھا) یہاں تک کہ جب ہم خانہ کعبہ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا، اور طواف میں تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس جا کر کھڑے ہوئے، اور آیت کریمہ : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو پڑھی ٥ ؎، آپ ﷺ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور خانہ کعبہ کے درمیان کیا۔ جعفر کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے تھے : آپ (طواف کی) دونوں رکعتوں میں : قل يا أيها الکافرون، قل هو الله أحد پڑھ رہے تھے ٦ ؎۔ پھر آپ ( ﷺ ) لوٹ کر خانہ کعبہ کے پاس آئے، اور حجر اسود کا استلام کیا، پھر باب صفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب صفا کے قریب ہوئے تو : إن الصفا والمروة من شعائر الله صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں پڑھی اور فرمایا : ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چناچہ آپ ﷺ نے (سعی) صفا سے شروع کی، آپ ﷺ جبل صفا چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آنے لگا تو الله أكبر لا إله إلا الله اور الحمد لله پڑھا، اور فرمایا : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير لا إله إلا الله وحده لا شريك له أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں، ساری بادشاہت اسی کے لیے ہے، اور تمام قسم کی تعریفیں اسی کے لیے سزاوار ہیں، وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا بہت سی جماعتوں کو شکست دی ، پھر آپ ﷺ نے اس کے درمیان دعا فرمائی اور یہ کلمات تین بار دہرائے، پھر آپ (صفا سے) اتر کر مروہ کی طرف چلے، جب آپ ﷺ کے پاؤں وادی کے نشیب میں اترنے لگے تو آپ نے رمل کیا (یعنی مونڈھے ہلاتے ہوئے دوڑ کر چلے) ، پھر جب چڑھائی پر پہنچے تو عام چال چل کر مروہ تک آئے، اور مروہ پر بھی آپ نے ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا، پھر جب آپ کا آخری پھیرا مروہ پر ختم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہوگئی ہوتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں ہدی اپنے ساتھ نہ لاتا، اور حج کو عمرہ میں بدل دیتا، لہٰذا تم میں سے جس آدمی کے ساتھ ہدی (کے جانور) نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اس کو عمرہ میں تبدیل کرلے ، یہ سن کر لوگوں نے احرام کھول دیا، اور بال کتروا لیے سوائے رسول اللہ ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی کے جانور تھے۔ پھر سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) نے کھڑے ہو کر کہا : اللہ کے رسول ! کیا یہ حکم ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ؟ یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں اور دو بار فرمایا : عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہوگیا ہے ، اور فرمایا : صرف اس سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ۔ علی (رض) نبی اکرم ﷺ کے ہدی کے اونٹ (یمن) سے لے کر آئے تو انہوں نے فاطمہ (رض) کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑا پہنے ہوئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، تو اس پر انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا، تو فاطمہ (رض) بولیں : میرے والد نے مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ چناچہ علی (رض) (اپنے ایام خلافت میں) عراق میں فرما رہے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کو فاطمہ (رض) نے کر رکھا تھا، غصہ میں بھرا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس اس چیز کے متعلق پوچھنے کے لیے آیا جو فاطمہ (رض) نے آپ کے متعلق بتائی تھی، اور جس پر میں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، وہ سچ کہتی ہے، ہاں، وہ سچ کہتی ہے ، اور جب تم نے حج کی نیت کی تھی تو تم نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے عرض کیا : میں نے یوں کہا تھا : اے اللہ ! میں وہی تلبیہ پکارتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے پکارا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے ساتھ تو ہدی ہے تو اب تم حلال نہ ہو ۔ جابر (رض) کہتے ہیں : تو قربانی کے وہ اونٹ جو علی (رض) یمن سے لے کر آئے تھے، اور وہ اونٹ جو نبی اکرم ﷺ مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو تھے، پھر سارے لوگ حلال ہوگئے، اور انہوں نے بال کتروا لیے سوائے نبی اکرم ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی کے جانور تھے۔ پھر جب یوم الترویہ (ذی الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو حج کا تلبیہ پکار کر لوگ منیٰ کی طرف چلے۔ رسول اللہ ﷺ بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں، (نوویں ذی الحجہ کو فجر کے بعد) تھوڑی دیر رکے رہے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، اور بال کے خیمے کے متعلق حکم دیا کہ اسے نمرہ میں لگایا جائے، پھر رسول اللہ ﷺ چلے اور قریش کو اس میں شک نہیں تھا کہ آپ مشعر حرام ٧ ؎ یا مزدلفہ کے پاس ٹھہریں گے، جیسا کہ قریش جاہلیت میں کیا کرتے تھے ٨ ؎، لیکن آپ ﷺ اسے پار کر کے عرفات میں جا پہنچے، دیکھا تو خیمہ نمرہ میں لگا ہوا ہے، آپ وہیں اتر پڑے، جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے قصواء (اونٹنی) پر کجاوہ کسے جانے کا حکم دیا، آپ اس پر سوار ہو کر وادی کے نشیب میں آئے، اور خطبہ دیا، اس میں فرمایا : تمہارے خون، تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں، سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے ان دونوں پاؤں کے تلے رکھ کر روند دی گئی، اور جاہلیت کے سارے خون معاف کر دئیے گئے، اور سب سے پہلا خون جس کو میں معاف کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کا خون ہے، وہ بنی سعد میں دودھ پی رہے تھے کہ شیر خوارگی ہی کی حالت میں ہذیل نے انہیں قتل کردیا تھا، اور جاہلیت کے سارے سود بھی معاف کر دئیے گئے اور اپنے سودوں میں سے پہلا سود جس کو میں معاف کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، وہ سب معاف ہے۔ اور عورتوں کے سلسلہ میں تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کے امان اور عہد سے اپنے عقد میں لیا ہے، اور تم نے ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلام سے حلال کیا ہے، لہٰذا تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر اس شخص کو روندنے نہ دیں جن کو تم برا جانتے ہو ٩ ؎، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن ایسی سخت مار نہیں کہ جس سے ہڈی پسلی ٹوٹ جائے، ان کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تم ان کو دستور و عرف کے مطابق روٹی اور کپڑا دو ، میں تم میں وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو گمراہ نہ ہو گے، اور وہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہے، اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو بتاؤ، تم کیا کہو گے ؟ لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا اور ذمہ داری ادا کردی ! اور آپ نے ہماری خیر خواہی کی، یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا پھر آپ اسے لوگوں کی طرف جھکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے : اے اللہ ! گواہ رہ، اے اللہ ! گواہ رہ ، تین بار آپ نے یہ کلمات دہرائے۔ اس کے بعد بلال (رض) نے اذان دی، پھر تکبیر کہی، آپ ﷺ نے ظہر پڑھائی، پھر تکبیر کہی تو عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان آپ نے کوئی اور نماز نہیں پڑھی، پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور اس مقام پر آئے جہاں عرفات میں وقوف کرتے ہیں، اور اپنی اونٹنی کا پیٹ جبل رحمت کی طرف کیا اور جبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ کھڑے ہوئے، اور سورج ڈوبنے تک مسلسل کھڑے رہے یہاں تک کہ تھوڑی زردی بھی جاتی رہی، جب سورج ڈوب گیا تو اسامہ بن زید (رض) کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا، پھر آپ عرفات سے چلے، اور قصواء کی نکیل کو کھینچے رکھا یہاں تک کہ اس کا سر کجاوے کی پچھلی لکڑی سے لگ جایا کرتا تھا، اور اپنے داہنے ہاتھ کے اشارے سے فرما رہے تھے : لوگو ! اطمینان اور آہستگی سے چلو ، جب آپ کسی ریت کے ٹیلے پر آتے تو قصواء کی نکیل تھوڑی ڈھیلی کردیتے یہاں تک کہ وہ چڑھ جاتی، پھر آپ ﷺ مزدلفہ تشریف لائے، اور وہاں ایک اذان اور دو اقامت سے مغرب اور عشاء پڑھی اور ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، پھر آپ ﷺ لیٹے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی، تو آپ نے فجر پڑھی جس وقت صبح پوری طرح واضح ہوگئی، پھر آپ قصواء پر سوار ہوے، اور مشعر حرام (مزدلفہ میں ایک پہاڑ ہے) کے پاس آئے، اور اس پر چڑھے اور اللہ کی تحمید، تکبیر اور تہلیل کرتے رہے، اور وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہوگئی، پھر وہاں سے سورج نکلنے سے پہلے آپ ﷺ چل پڑے، اور سواری پر فضل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، وہ بہت بہترین بال والے گورے اور خوبصورت شخص تھے، جب آپ ﷺ چلے اور اونٹوں پر سوار عورتیں گزرنے لگیں، تو فضل انہیں دیکھنے لگے، آپ ﷺ نے دوسری طرف سے اپنے ہاتھ کا آڑ کرلیا تو فضل اپنا چہرہ پھیر کر دوسری طرف سے انہیں دیکھنے لگے، یہاں تک کہ آپ وادی محسر میں آئے، وہاں آپ نے سواری کو ذرا تیز کیا، پھر آپ اس کے درمیان والے راستہ پر سے چلے جو تمہیں جمرہ عقبہ کی جانب نکالتا ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے، (یعنی جمرہ عقبہ پر) اور سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر آپ تکبیر کہتے تھے، اور کنکریاں ایسی تھی جو دونوں انگلیوں کے سروں کے درمیان آسکیں، وادی کے نشیب سے آپ نے کنکریاں ماریں، پھر آپ نحر کے مقام پر آئے، اور ٦٣ اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر (ذبح) کیے، اور پھر علی (رض) کو دیا، اور باقی اونٹوں کا نحر انہوں نے کیا، انہیں بھی آپ نے اپنی ہدی میں شریک کرلیا، پھر آپ ﷺ نے سارے اونٹوں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لانے کے لیے کہا، چناچہ لا کر اسے ایک ہانڈی میں رکھ کر پکایا گیا، پھر دونوں نے وہ گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا، پھر وہاں سے لوٹ کر آپ ﷺ خانہ کعبہ کے پاس آئے، اور مکہ میں نماز پڑھی ١٠ ؎، پھر خاندان بنی عبدالمطلب میں آئے، دیکھا تو یہ لوگ حاجیوں کو زمزم کا پانی پلا رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : عبدالمطلب کے بیٹو ! نکالو اور پلاؤ ١ ١ ؎، اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تمہارے اس پلانے کے کام میں لوگ تم پر غالب آجائیں گے تو تمہارے ساتھ میں بھی نکالتا پھر لوگوں نے آپ ﷺ کو بھی ایک ڈول دیا آپ نے بھی اس میں سے پیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٩ (١٢١٨) بلفظ : ابدا وھوالصواب، سنن ابی داود/الحج ٥٧ (١٩٠٥، ١٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ٤٦ (٢٧١٣) ، ٥١ (٢٧٤١) ، ٥٢ (٢٧٤٤) ، ٧٣ (٢٨٠٠) ، مسند احمد (٣/٣٢٠، ٣٣١، ٣٣٣، ٣٤٠، ٣٧٣، ٣٨٨، ٣٩٤، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/المناسک ١١ (١٨٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بڑھاپے کی وجہ سے آنکھ کی روشنی ختم ہوچکی تھی۔ ٢ ؎: بعض لوگوں نے یہ تعداد ٩٠ ہزار لکھی ہے اور بعض نے ایک لاکھ تیس ہزار کہا ہے۔ ٣ ؎: زمانہ جاہلیت میں تلبیہ لبيك اللهم لبيك لا شريك لك کے بعد إلا شريكاً لک تملکه بڑھا کر کہا جانا تھا۔ ٤ ؎: یعنی عمرہ کا ارادہ بالکل نہیں تھا یا عمرہ کو حج کے مہینوں میں جائز ہی نہیں سمجھتے تھے۔ ٥ ؎ : اور مقام ابراہیم کو مصلی بنا لو (سورۃ البقرہ : ١٢٥ ) ٦ ؎ : پہلی رکعت میں قل يا أيها الکافرون پڑھی اور دوسری رکعت میں قل هو الله أحد ۔ ٧ ؎ : مشعر حرام مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے اسے قزح بھی کہتے ہیں۔ ٨ ؎ : زمانہ جاہلیت میں قریش مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے، عرفات نہیں جاتے تھے، اور باقی لوگ عرفات جاتے تھے، ان کا خیال تھا کہ نبی اکرم ﷺ بھی قریش کی اتباع کریں گے لیکن آپ وہاں نہیں ٹھہرے اور عرفات چل دیئے۔ ٩ ؎ : یعنی بغیر تمہاری اجازت کے کسی کو اپنے گھر میں آنے نہ دیں اور اس سے میل جول نہ رکھیں۔ ١٠ ؎ : یہی راجح قول ہے اس کے برخلاف ایک روایت آتی ہے جس میں ظہر منیٰ میں پڑھنے کا ذکر ہے، علماء نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زوال سے پہلے طواف افاضہ کیا پھر مکہ میں اول وقت میں نماز پڑھی پھر منیٰ واپس آئے تو وہاں صحابہ کرام کے ساتھ ظہر پڑھی اور بعد والی نماز آپ کی نفل ہوگئی۔ ١ ١ ؎: کیونکہ میں بھی عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں، آپ کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں بھی پانی نکالنے میں لگ جاؤں تو لوگ اس کو بھی حج کا ایک رکن سمجھ لیں گے، اور اس کے لیے بھیڑ لگا دیں گے، اور ہر شخص پانی نکالنا چاہے گا، اور بھیڑ بھاڑ کے ڈر سے تم اس خدمت سے علاحدہ ہوجاؤ گے، کیونکہ تم لوگوں سے لڑ نہیں سکو گے، اور وہ تم پر غالب آجائیں گے۔
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا مفصل ذکر۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے لیے تین صورتوں میں نکلے، ہم میں تین قسم کے لوگ تھے، کچھ لوگوں نے آپ کے ساتھ حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ پکارا، اور کچھ لوگوں نے حج افراد کا، اور کچھ لوگوں نے صرف عمرہ کا، جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا تھا (یعنی قران کیا تھا) وہ حج کے سارے مناسک پورے کرلینے کے بعد حلال ہوئے، اور جس نے حج افراد کا تلبیہ پکارا تھا اس کا بھی یہی حال رہا، وہ بھی اس وقت تک حلال نہیں ہوا جب تک حج کے سارے مناسک پورے نہ کرلیے، اور جس نے صرف عمرہ کا تلبیہ پکارا تھا وہ خانہ کعبہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کر کے حلال ہوگیا، یہاں تک کہ (یوم الترویہ کو) نئے سرے سے حج کا احرام باندھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٨٤) ، وقد أخرجہ : (٦/١٤١) (حسن )
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا مفصل ذکر۔
سفیان ثوری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین حج کئے ١ ؎، دو حج ہجرت سے پہلے، اور ایک حج ہجرت کے بعد مدینہ سے آ کر کیا، اس حج کے ساتھ آپ نے عمرہ کو بھی ملایا (یعنی قران کیا) اس حج میں نبی اکرم ﷺ اپنے ساتھ جو اونٹ لے کر آئے تھے، اور جو علی (رض) (یمن سے) لے کر آئے تھے سب ملا کر کل سو اونٹ تھے، جن میں سے ایک اونٹ ابوجہل کا بھی تھا، اس کی ناک میں چاندی کا ایک چھلہ تھا، ان میں سے ٦٣ اونٹوں کو نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے نحر کیا، اور جو باقی رہ گئے انہیں علی (رض) نے نحر کیا، سفیان سے پوچھا گیا کہ یہ حدیث کس نے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا : جعفر صادق نے اپنے والد سے، انہوں نے جابر (رض) سے اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے، حکم نے مقسم سے اور مقسم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث جابر أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٦ (٨١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٦) ، وحدیث ابن عباس تفرد بہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف : ٦٤٨٥، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مقصد عمرہ ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ نے حج ایک بار ہی ادا کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔
جو شخص حج سے رک جائے بیماری یا عذر کی وجہ سے (احرام کے بعد)
حجاج بن عمرو انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جس حاجی کی ہڈی ٹوٹ جائے، یا لنگڑا ہوجائے، تو وہ حلال ہوجائے (احرام کھول ڈالے) اب اس پر دوسرا حج ہے ١ ؎۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بیان کی تو ان دونوں نے کہا : حجاج نے سچ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٤٤ (١٨٦٢، ١٨٦٣) ، سنن الترمذی/الحج ٩٦ (٩٤٠) ، سنن النسائی/الحج ١٠٢ (٢٨٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٤، ٦٢٤١، ١٤٢٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٧ (١٩٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج و عمرہ کی نیت سے گھر سے نکلنے والے کو اگر اچانک کوئی مرض لاحق ہوجائے تو وہ وہیں پر حلال ہوجائے گا لیکن اگر یہ حج فرض ہو تو آئندہ سال اس کو حج کرنا ہوگا۔
جو شخص حج سے رک جائے بیماری یا عذر کی وجہ سے (احرام کے بعد)
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے غلام عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن عمرو (رض) سے محرم کے رک جانے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی، یا بیمار ہوگیا، یا لنگڑا ہوگیا تو وہ حلال ہوگیا اور اس پر آئندہ سال حج ہے ١ ؎۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بیان کی تو انہوں نے کہا : حجاج نے سچ کہا۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث ہشام صاحب دستوائی کی کتاب میں ملی، تو اسے لے کر میں معمر کے پاس آیا، تو انہوں نے یہ حدیث مجھے پڑھ کر سنائی یا میں نے انہیں پڑھ کر سنائی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٤، ٦٢٤١، ١٤٢٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث کا سماع دونوں طرح سے جائز ہے کہ استاد پڑھے، اور شاگرد سنے یا شاگرد پڑھے اور استاد سنے۔
احصار کا فدیہ۔
عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں مسجد میں کعب بن عجرہ (رض) کے پاس بیٹھا تو میں نے ان سے آیت کریمہ : ففدية من صيام أو صدقة أو نسك (سورۃ البقرہ : ١٩٦ ) کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے، میرے سر میں تکلیف تھی تو مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ جوئیں (میرے سر میں اتنی کثرت سے تھیں کہ) میرے منہ پر گر رہی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اس قدر تکلیف ہوگی، کیا ایک بکری تمہیں مل سکتی ہے ؟ میں نے عرض کیا : نہیں، تب یہ آیت اتری : ففدية من صيام أو صدقة أو نسك یعنی فدیہ ہے صوم کا یا صدقہ کا یا قربانی کا ، تو صوم تین دن کا ہے، اور صدقہ چھ مسکینوں کو کھانا دینا ہے، ہر مسکین کو آدھا صاع، اور قربانی ایک بکری کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر ٥ (١٨١٤) ، ٦ (١٨١٥) ، ٧ (١٨١٦) ، ٨ (١٨١٧) ، المغازي ٣٥ (٤١٥٩) ، تفسیر البقرة ٣٢ (٤٥١٧) ، المرضیٰ ١٦ (٥٦٦٥) ، الطب ١٦ (٥٧٠٣) ، الکفارات ١ (٦٨٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٠ (١٢٠١) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٧ (٩٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٤٣ (١٨٥٦) ، سنن النسائی/الحج ٩٦ (٢٨٥٤) ، موطا امام مالک/الحج ٧٨ (٢٣٧) ، مسند احمد (٤/٢٤٢، ٢٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محرم جب کوئی غلطی کر بیٹھے تو ان تینوں کفارات میں سے جو ادا کرسکے کرے۔
احصار کا فدیہ۔
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں جس وقت جوؤں نے مجھے پریشان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنا سر منڈوا ڈالوں، اور تین دن روزے رکھوں، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤں، آپ ﷺ جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١١٨) (حسن )
محرم کیلئے پچھنے لگوانا۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے، اور آپ احرام کی حالت میں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، الطب ١٢ (٥٦٩٥) ، ١٥ (٥٧٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، سنن ابی داود/الحج ٣٦ (١٨٣٥) ، سنن الترمذی/الحج ٢٢ (٨٣٩) ، سنن النسائی/الحج ٩٢ (٢٨٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٢، ٢٣٦، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٦٠، ٢٨٣، ٢٨٦، ٢٩٢، ٣٠٦، ٣١٥، ٣٣٣، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٧٢، ٤، ٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٠ (١٨٦٠) (صحیح )
محرم کیلئے پچھنے لگوانا۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے احرام کی حالت میں ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو ہوا تھا، پچھنے لگوائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٧٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٧، ٣٦٣) (صحیح) (سند میں محمد بن أبی الضیف ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث دوسرے طرق سے صحیح ہے )
محرم کون ساتیل لگاسکتا ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ احرام کی حالت میں اپنے سر میں زیتون کا تیل لگاتے تھے جو مقتت (خوشبودار) نہ ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١١٤ (٩٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥، ٢٩، ٥٩، ٧٢، ١٢٦، ١٤٥) (ضعیف) (سند میں فرقد سبخی ضعیف اور کثیر الخطا راوی ہے، اس وجہ سے ترمذی نے حدیث پر غریب کا حکم لگایا ہے، یعنی ضعیف ہے، لیکن صحیح بخاری میں یہ ابن عمر (رض) سے موقوفاً مروی ہے : الحج ١٨ ( ١٥٣٧ )
محرم کا انتقال ہوجائے۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ احرام کی حالت میں ایک شخص کی اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کو پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو ، اور اس کے دونوں کپڑوں ہی میں اسے کفنا دو ، اس کا منہ اور سر نہ ڈھانپو کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٩ (١٢٦٥) ، ٢١ (١٢٦٧) ، جزاء الصید ٢٠ (١٨٤٩) ، ٢١ (١٨٥٠) ، صحیح مسلم/الحج ١٤ (١٢٠٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٨٤ (٣٢٣٨، ٣٢٣٩) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٥ (٩٥١) ، سنن النسائی/الجنائز ٤١ (١٩٠٥) ، الحج ٤٧ (٢٧١٤) ، ٩٧ (٢٨٥٦) ، ١٠١ (٢٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٦٦، ٢٨٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٥ (١٨٩٤) (صحیح ) اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی کے مثل مروی ہے مگر اس میں أوقصته کے بجائے أعقصته راحلته ہے اور اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو خوشبو نہ لگاؤ کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢١ (١٢٦٧) ، جزاء الصید ٢١ (١٨٥١) ، صحیح مسلم/الحج ١٤ (١٢٠٦) ، سنن النسائی/المناسک ٤٧ (٢٧١٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٨٦، ٣٢٨) (صحیح )
محرم شکار کرے تو اس کی سزا۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کے شکار کئے ہوئے بجو کے کفارہ میں ایک مینڈھا متعین فرمایا، اور اسے شکار قرار دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٢ (٣٨٠١) ، سنن الترمذی/الحج ٢٨ (٨٥١) ، الاطعمة ٤ (١٧٩٢) ، سنن النسائی/الحج ٨٩ (٢٨٣٩) ، الصید ٢٧ (٤٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣١٨، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٩٠ (١٩٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محرم کو خشکی کا شکار کرنا جائز نہیں ہے۔
محرم شکار کرے تو اس کی سزا۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شتر مرغ کے انڈوں کے بارے میں جو محرم کو ملیں، فرمایا : اسے اس کی قیمت دینی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٣٥، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٠) (ضعیف) (سند میں ابوالمہزم ضعیف، اور علی بن عبدالعزیز مجہول ہے )
جن جانوروں کو مارسکتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ موذی جانور ہیں جنہیں حرم اور حرم سے باہر دونوں جگہوں میں قتل کیا جائے گا : سانپ، چتکبرا کوا، چوہیا، کاٹنے والا کتا، اور چیل ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٨) ، سنن النسائی/الحج ٨٣ (٢٨٣٢) ، ١١٣ (٢٨٨٤) ، ١١٤ (٢٨٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٢٩) ، بدأ الخلق ١٦ (٣٣١٤) ، سنن الترمذی/الحج ٢١ (٨٣٧) ، مسند احمد (٦/٢٣، ٨٧، ٩٧، ١١٢، ١٦٤، ٢٠٣، ٢٥٩، ٢٦١) ، سنن الدارمی/المناسک ١٩ (١٨٥٨) (صحیح )
جن جانوروں کو مارسکتا ہے۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ قسم کے جانور ہیں جنہیں احرام کی حالت میں مارنے میں گناہ نہیں : بچھو، کوا، چیل، چوہیا اور کاٹ کھانے والا کتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٢٦) ، بدء الخلق ١٦ (٣٣١٥) ، سنن ابی داود/الحج ٤٠ (١٨٤٦) ، سنن النسائی/الحج ٨٨ (٢٨٣٨) ، موطا امام مالک/الحج ٢٨ (٨٨) ، حم ٢/٨، ٣٢، ٣٧، ٤٨، ٥٠، ٥٢، ٥٤، ٥٧، ٦٥، ٧٧، سنن الدارمی/المناسک ١٩ (١٨٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علماء نے اس پر اور موذی جانوروں کو قیاس کیا ہے، جیسے چھچھوندر اور کاٹنے والے زہریلے کیڑے، اور پھاڑنے والے درندے جیسے شیر یا بھیڑیا یا ریچھ وغیرہ۔
جن جانوروں کو مارسکتا ہے۔
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : محرم سانپ، بچھو، حملہ آور درندے، کاٹ کھانے والے کتے، اور فسادی چوہیا کو قتل کرسکتا ہے ، ابو سعید خدری (رض) سے پوچھا گیا : اسے فسادی کیوں کہا گیا ؟ کہا : اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ اس کی وجہ سے جاگتے رہے، وہ بتی لے گئی تھی تاکہ گھر میں آگ لگا دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٣٣، ومصباح الزجاجة : ١٠٧١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/المناسک ٤٠ (١٨٤٨) ، سنن الترمذی/الحج ٢١ (٨٣٨) ، مسند احمد (٣/٣، ٤٢، ٧٩) (ضعیف) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہے )
جو شکار محرم کے لئے منع ہے۔
صعب بن جثامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس گزرے، میں ابواء یا ودان میں تھا، میں نے آپ کو ہدیہ میں ایک نیل گائے دی، آپ نے اسے لوٹا دیا، پھر جب آپ نے میرے چہرہ پر ناگواری دیکھی تو فرمایا : ہم یہ تمہیں نہیں لوٹاتے، لیکن ہم احرام باندھے ہوئے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٦ (١٨٢٥) ، الھبة ٦ (٢٥٧٣) ، ١٧ (٢٥٩٦) ، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٣) ، سنن الترمذی/الحج ٢٦ (٨٤٩) ، سنن النسائی/الحج ٧٩ (٢٨٢١) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٢٥ (٨٣) ، مسند احمد (٤/٣٧، ٣٨، ٧١، ٧٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محرم کے لیے خود بھی خشکی کا شکار کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح وہ جانور بھی جائز نہیں جو اس کے لیے شکار کیا جائے، اور اسی طرح محرم کو شکار زندہ جانور لا کردیا جائے تو بھی اس کا کھانا جائز نہیں، اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے نیل گائے کو واپس کردیا، اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ جس شکار کو حلال ذبح کرے اس کا بھی کھانا محرم کے لیے جائز نہیں، ثوری اور مالک یہی مذہب ہے لیکن امام ابوحنیفہ اور امام احمد کا قول ہے کہ اس کا کھانا جائز ہے اگر محرم کے لیے ذبح نہ ہوا ہو، اور نہ محرم نے اس کے شکار میں مدد کی ہو جیسے آگے آئے گا۔
جو شکار محرم کے لئے منع ہے۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس شکار کا گوشت لایا گیا، اور آپ احرام کی حالت میں تھے تو آپ نے اسے نہیں کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٩ (ألف) ، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٥) (صحیح) (سند میں عبدالکریم بن أبی المخارق ضعیف راوی ہے، لیکن یہ دوسرے طریق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٦٢١ )
اگر محرم کے لئے شکار نہ کیا گیا ہو تو اس کا کھانا درست ہے۔
طلحہ بن عبیداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں ایک نیل گائے دی، اور حکم دیا کہ اسے اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیں، اور وہ سب محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٠٦، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٣) (ضعیف) (سند میں علت ہے، اور متن میں غلطی، صحیح روایت نسائی کی ہے، ملاحظہ ہو : سنن النسائی : ٢٢١٨ )
اگر محرم کے لئے شکار نہ کیا گیا ہو تو اس کا کھانا درست ہے۔
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں حدیبیہ کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلا، آپ کے صحابہ نے احرام باندھ لیا، اور میں بغیر احرام کے تھا، میں نے ایک نیل گائے دیکھی تو اس پر حملہ کر کے اس کا شکار کرلیا، پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، اور عرض کیا کہ میں بغیر احرام کے تھا، اور میں نے اس کا شکار آپ ہی کے لیے کیا ہے، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ سے کہا کہ وہ اسے کھا لیں، اور جب میں نے آپ کو یہ بتایا کہ یہ شکار میں نے آپ کے لیے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے نہیں کھایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢ (١٨٢١) ، ٥ (١٨٢٤) ، الھبة ٣ (٢٥٧٠) ، الجہاد ٤٦ (٢٨٥٤) ، ٨٨ (٢٩١٤) ، الأطعمة ١٩ (٤١٤٩) ، الذبائح ١٠ (٥٤٩٠) ، ١١ (٥٤٩١) ، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٦) کلاھما دون قولہ : ولم یأکل منہ فإنہ عندھما أنہ أکل منہ، سنن النسائی/الحج ٧٨ (٢٨١٨) ، ٨٠ (٢٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٤١ (١٨٥٢) ، سنن الترمذی/الحج ٢٥ (٨٤٧) ، موطا امام مالک/الحج ٢٤ (٧٦) ، مسند احمد (٥/٣٠٠، ٣٠٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ جس جانور کا شکار محرم کے لیے کیا جائے اس کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں جیسے اوپر گذرا اور صحیحین کی روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس نیل گائے میں سے کھایا جس کو ابوقتادہ (رض) نے شکار کیا تھا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اور شاید وہ دوسرا واقعہ ہوگا۔
قربانیوں کی گردن میں ہار ڈالنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہدی کا جانور مدینہ سے بھیجتے تھے، میں آپ کے ہدی کے جانوروں کے لیے قلادہ ١ ؎ (پٹہ) بٹتی تھی، پھر آپ ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے تھے جن سے محرم پرہیز کرتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٦٩٦) ، ١١١ (١٧٠١) ، الوکالة ١٤ (٢٣١٧) ، الأضاحي ١٥ (٥٥٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن ابی داود/الحج ١٧ (١٧٥٨) ، سنن النسائی/الحج ٦٢ (٢٧٧٤) ، ٦٨ (٢٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٢، ١٧٩٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٦٩ (٨٠٨) ، موطا امام مالک/الحج ١٥ (٥١) ، مسند احمد (٦/٣٥، ٣٦، ٧٨، ٨٢، ٨٥، ٩١، ١٠٢، ١٢٧، ١٧٤، ١٨٠، ١٨٥، ١٩٠، ١٩١، ٢٠٠، ٢٠٨، ٢١٣، ٢١٦، ٢١٨، ٢٢٥، ٢٣٦، ٢٥٣، ١٢٧، ١٧٤، ١٨٠، ١٨٥، ١٩٠، ١٩١، ٢٠٠، ٢٠٨، ٢١٣، ٢١٦، ٢١٨، ٢٢٥، ٢٣٦، ٢٥٣، ٢٦٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٧ (١٩٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ یا اور کوئی چیز لٹکانے کو تقلید کہتے ہیں، تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ جانور ہدی کا ہے، اس کا فائدہ یہ تھا کہ عرب ایسے جانور کو لوٹتے نہیں تھے۔ ٢ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقیم کے لیے بھی ہدی کا جانور بھیجنا درست ہے، اور صرف ہدی بھیج دینے سے وہ محرم نہیں ہوگا، اور نہ اس پر کوئی چیز حرام ہوگی جو محرم پر ہوتی ہے، جب تک کہ وہ احرام کی نیت کر کے احرام پہن کر خود حج کو نہ جائے۔
قربانیوں کی گردن میں ہار ڈالنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی ہدی ١ ؎ کے لیے قلادہ (پٹہ) بٹتی تھی، آپ وہ قلادہ اپنی ہدی والے جانور کے گلے میں ڈالتے، پھر اس کو روانہ فرما دیتے، اور آپ ﷺ مدینہ ہی میں مقیم رہتے، اور جن باتوں سے محرم پرہیز کرتا ہے ان میں سے کسی بات سے آپ پرہیز نہیں کرتے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہدی اس جانور کو کہتے ہیں جو حج تمتع یا حج قران میں مکہ میں ذبح کیا جاتا ہے، نیز اس جانورکو بھی ہدی کہتے ہیں جس کو غیر حاجی حج کے موقع سے مکہ میں ذبح کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ ٢ ؎: کیونکہ ہدی بھیج دینے سے آدمی محرم نہیں ہوتا، امام نودی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ ہدی کا حرم میں بھیجنا مستحب ہے، اگر خود نہ جائے تو کسی اور کے ہاتھ بھیج دے، جمہور کا یہی قول ہے کہ اگر ہدی کسی اور کے ہاتھ بھیج دے تو بھیجنے والے پر احرام کا حکم جاری نہ ہوگا، البتہ اگر اپنے ساتھ ہدی لے کر جائے تو محرم ہوجائے گا۔
بکری کے گلے میں ہار ڈالنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار بیت اللہ کی طرف ہدی کے لیے بکریاں بھیجیں، تو آپ نے ان کے گلے میں بھی قلادہ (پٹہ) ڈال کر بھیجا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٧٠١) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن النسائی/الحج ٦٩ (٢٧٨٩) ، سنن ابی داود/المناسک ١٥ (١٧٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٤) ، وقدأخرجہ : مسند احمد (٦/٤١، ٤٢، ٢٠٨) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٠٩٤) (صحیح )
ہدی کے جانور کا اشعار۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدی کے اونٹ کے داہنے کوہان میں اشعار کیا، اور اس سے خون صاف کیا، علی بن محمد نے اپنی روایت میں کہا کہ اشعار ذو الحلیفہ میں کیا، اور دو جوتیاں اس کے گلے میں لٹکائیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٢ (١٢٤٣) ، سنن ابی داود/الحج ١٥ (١٧٥٢) ، سنن الترمذی/الحج ٦٧ (٩٠٦) ، سنن النسائی/الحج ٦٤ (٢٧٧٢) ، ٦٧ (٢٧٨١) ، ٧٠ (٢٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٢٣ (١٥٤٩) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٥٤، ٢٨٠، ٣٣٩، ٣٤٤، ٣٤٧، ٣٧٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٨ (١٩٥٣) (صحیح ) وضاحت : ہدی کے اونٹ کے داہنے کوہان کو چیر کر اس سے خون نکالنے اور اسے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے، یہ بھی ہدی کے جانور کی علامت اور پہچان ہے۔ اشعار مسنون ہے اس کا انکار صرف امام ابوحنیفہ (رح) نے کیا ہے وہ کہتے ہیں : یہ مثلہ ہے جو جائز نہیں لیکن صحیح یہ ہے کہ مثلہ ناک، کان وغیرہ کاٹنے کو کہتے ہیں، اشعار فصد یا حجامت کی طرح ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
ہدی کے جانور کا اشعار۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہدی کو قلادہ پہنایا، اس کا اشعار کیا، اور اسے (مکہ) بھجوایا، اور ان باتوں سے پرہیز نہیں کیا جن سے محرم پرہیز کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ١٠٦ (١٦٩٦) ، ١٠٨ (١٦٩٩) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن ابی داود/المناسک ١٧ (١٧٥٧) ، سنن النسائی/الحج ٦٢ (٢٧٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٣٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ١٥ (٥١) ، مسند احمد (٦/٢٥، ٣٦، ٧٨، ٨٥، ١٩١، ١٠٢، ١٢٧، ١٧٤، ١٨٠، ١٨٥، ١٩١، ٢٠٠) (صحیح )
جو شخص قربانی کے جانوروں پر جھول ڈالے۔
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے ہدی کے اونٹوں کی نگرانی کا حکم دیا، اور کہا کہ میں ان کی جھولیں اور ان کی کھالیں (غریبوں اور محتاجوں میں) بانٹ دوں، اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں، آپ نے فرمایا : ہم اسے اجرت اپنے پاس سے دیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١١٣ (١٧٠٧) ، ١٢٠ (١٧١٦) ، ١٢١ (١٧١٧) ، صحیح مسلم/الحج ٦١ (١٣١٧) ، سنن ابی داود/الحج ٢٠ (١٧٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩، ١٢٣، ١٣٢، ١٤٣، ١٥٤، ١٥٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٩ (١٩٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قربانی کی کھال اور جھول اللہ کی راہ میں بانٹ دینا چاہیے، اور بعضوں نے کہا کہ اگر قربانی کرنے والا کھال کو اپنے گھر کے کام میں استعمال کرے جیسے بچھانے یا ڈول وغیرہ کے لیے تو بھی جائز ہے، لیکن قصاب کی اجرت میں کھال دینا کسی طرح جائز نہیں، مقصد یہ ہے کہ قربانی کے جانور کا ہر ایک جزء اللہ ہی کے واسطے رہے، اجرت میں دینا گویا اس کو بیچنا ہے۔
ہدی میں نر اور مادہ دونوں درست ہیں۔
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہدی کے جانوروں میں ابوجہل کا ایک اونٹ بھیجا جو (جنگ میں بطور غنیمت آپ کو ملا تھا) جس کی ناک میں چاندی کا ایک چھلا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٤، ٢٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں جمل (اونٹ) کا لفظ ہے جو نر اونٹ کو کہتے ہیں۔
ہدی میں نر اور مادہ دونوں درست ہیں۔
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے ہدی کے اونٹوں میں ایک نر اونٹ بھی تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٠، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٤) (صحیح) (سند میں موسیٰ بن عبیدہ الربذی ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ قربانی میں اکثر اونٹیناں بھیجتے تھے اس لیے کہ اونٹنی کی قدر عربوں میں زیادہ ہے اور اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ کے واسطے قربانی میں اسی کو زیادہ ثواب ہے۔
ہدی میقات میں لے جانا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ہدی قدید سے خریدی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٦٨ (٩٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٩٧) (ضعیف) (اس کی سند ضعیف ہے، اور ابن عمر (رض) کے قول سے محفوظ و ثابت ہے، اور صحیح وثابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی ہدی کا جانور ذوالحلیفہ سے ساتھ لیا تھا ) وضاحت : ١ ؎: قدید : مکہ اور مدینہ کے درمیان ذوالحلیفہ سے آگے ایک مقام کا نام ہے۔
ہدی پر سوار کرنا۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ہدی کا اونٹ ہانک کرلے جا رہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے کہا : یہ ہدی کا اونٹ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : سوار ہوجاؤ، تمہارا برا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٣ (١٦٨٩) ، ١١٢ (١٧٠٦) ، الوصایا ١٢ (٢٧٥٥) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٠) ، صحیح مسلم/الحج ٦٥ (١٣٢٢) ، سنن ابی داود/الحج ١٨ (١٧٦٠) ، سنن النسائی/الحج ٧٤ (٢٨٠١) ، موطا امام مالک/الحج ٤٥ (١٣٩) ، مسند احمد (٢/٢٥٤، ٢٧٨، ٣١٢، ٤٦٤، ٤٧٤، ٤٧٨، ٤٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ مخاطب کرنے کا ایک اسلوب ہے، بددعا مقصود نہیں اور سواری کا حکم اس لیے دیا کہ سوار ہونے میں اونٹ کو تکلیف نہیں ہوتی، امام احمد اور اصحاب حدیث کا یہی قول ہے کہ بلا عذر بھی ہدی کے اونٹ پر سوار ہونا جائز ہے، اور شافعی کے نزدیک ضرورت کے وقت جائز ہے، اس سے مقصد یہ تھا کہ مشرکوں کے اعتقاد کا رد کیا جائے جو ہدی کے جانوروں پر سواری کو برا جانتے تھے، اور بحیرہ اور سائبہ کی تعظیم کرتے تھے۔
ہدی پر سوار کرنا۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے سے کوئی شخص ایک اونٹ لے کر گزرا تو آپ نے فرمایا : اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے کہا : یہ ہدی کا اونٹ ہے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا : اس پر سوار ہو جاؤ۔ انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا وہ اس پر نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ سوار تھا، اس کی گردن میں ایک جوتی لٹک رہی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٣ (١٦٩٠) ، الوصایا ١٢ (٢٧٥٥) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٦٥ (١٣٢٢) ، سنن ابی داود/الحج ١٨ (١٧٦٠) ، سنن النسائی/الحج ٧٤ (٢٨٠١) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١٧٠، ١٧٣، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٩ (١٩٥٤) (صحیح )
اگر ہدی کا جانور ہلاک ہونے لگے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ذویب خزاعی (رض) کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے ساتھ ہدی کے اونٹ بھیجتے تو فرماتے : اگر ان میں سے کوئی تھک کر مرنے کے قریب پہنچ جائے، اور تمہیں اس کے مرجانے کا ڈر ہو، تو اس کو نحر (ذبح) کر ڈالو، پھر اس کے گلے کی جوتی اس کے خون میں ڈبو کر اس کے پٹھے پر مار لگا دو ، اور اس میں سے نہ تم کچھ کھاؤ، اور نہ تمہارے ساتھ والے کچھ کھائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٦ (١٣٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ یہ نشان لگا کر اس جانور کو راستہ ہی میں چھوڑ دیا جائے تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے، اور جو محتاج ہو وہ اس میں سے کھائے، آپ ﷺ نے ذویب اور اس کے ساتھیوں کو اس خیال سے کھانے سے منع فرمایا کہ لوگ تہمت نہ لگائیں کہ اپنے کھانے کی غرض سے اچھے تندرست جانور کو ذبح کر ڈالا، نیز اس سے معلوم ہوا کہ جو ہدی راستہ میں لاچار اور عاجز ہوجائے اس کو اسی طرح ذبح کر کے یہی نشان لگا کر چھوڑ دینا چاہیے، اور صاحب ہدی اور مالداروں کے لیے اس میں سے کھانا جائز نہیں، اور جو ہدی حرم تک پہنچ جائے وہاں نحر کی جائے اس میں سے صاحب ہدی اور مالدار بھی کھا سکتے ہیں، جیسے اوپر حدیث میں گزرا، اور رسول اکرم ﷺ اور علی (رض) نے ہدی کے جانوروں کا گوشت کھایا۔
اگر ہدی کا جانور ہلاک ہونے لگے۔
ناجیہ خزاعی (رض) (جو نبی اکرم ﷺ کے ہدی کے اونٹ لے جایا کرتے تھے) کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہدی کا جو اونٹ تھک کر مرنے کے قریب ہوجائے اسے میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو نحر (ذبح) کر ڈالو، اور اس کی جوتی اسی کے خون میں ڈبو کر اس کے پٹھے میں مار لگا دو ، پھر اس کو چھوڑ دو کہ لوگ اسے کھائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ١٩ (١٧٦٢) ، سنن الترمذی/الحج ٧١ (٩١٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤٧ (١٤٨) ، مسند احمد (٤/٣٣٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٦ (١٩٥٠) (صحیح )
مکہ کے گھروں کے کرایہ کا حکم۔
علقمہ بن نضلہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم کے انتقال کے وقت تک مکہ کے گھروں کو صرف سوائب کہا جاتا تھا ١ ؎ جو ضرورت مند ہوتا ان میں رہتا، اور جس کو حاجت نہ ہوتی، وہ دوسروں کو اس میں رہنے کے لیے دے دیتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٥) (ضعیف) (علقمہ بن نضلہ کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بےکرایہ والے گھر اور وقف شدہ مکان۔
مکہ کی فضیلت
عبداللہ بن عدی بن حمراء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنی اونٹنی پر حزورہ (مکہ میں ایک مقام) میں کھڑے فرما رہے تھے : قسم اللہ کی ! بلاشبہ تو اللہ کی ساری زمین سے بہتر ہے، اور اللہ کی زمین میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، قسم اللہ کی ! اگر میں تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٦٩ (٣٩٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٥) ، سنن الدارمی/السیر ٦٧ (٢٥٥٢) (صحیح )
مکہ کی فضیلت
صفیہ بنت شیبہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فتح مکہ کے سال خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! اللہ نے مکہ کو اسی دن حرام قرار دے دیا جس دن اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، نہ وہاں کا درخت کاٹا جائے گا، نہ وہاں کا شکار بدکایا جائے گا، اور نہ وہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے گی، البتہ اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے ، اس پر عباس (رض) نے کہا : اذخر (نامی گھاس) کا اکھیڑنا جائز فرما دیجئیے کیونکہ وہ گھروں اور قبروں کے کام آتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا اذخر اکھاڑنا جائز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٦ (١٣٤٩ تعلیقاً ) (حسن) (ابان بن صالح ضعیف ہیں، لیکن شاہد کی تقویت سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤ /٢٤٩ )
مکہ کی فضیلت
عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی (رض) کہتے ہیں کہ یہ امت برابر خیر اور بھلائی میں رہے گی جب تک وہ اس حرمت والے شہر کی اس طرح تعظیم کرتی رہے گی جیسا کہ اس کی تعظیم کا حق ہے، پھر جب لوگ اس کی تعظیم کو چھوڑ دیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٢، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٧) (ضعیف) (یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے )
مدینہ منورہ کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان مدینہ میں اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنی بل میں سما جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦ (١٨٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٥ (١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٦، ٤٢٢، ٤٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس طرح آخری زمانہ میں اسلام بھی سب ملکوں سے ہوتا ہوا مدینہ میں آ کر دم لے گا، سابق میں مدینہ ہی سے اسلام ساری دنیا میں پھیلا اخیر زمانہ میں سمٹ کر پھر مدینہ ہی میں آجائے گا۔
مدینہ منورہ کی فضیلت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو مدینہ میں مر سکے تو وہ ایسا ہی کرے، کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کے لیے گواہی دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٦٨ (٣٩١٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧٤، ١٠٤) (صحیح )
مدینہ منورہ کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ابراہیم تیرے خلیل (گہرے دوست) اور تیرے نبی ہیں، اور تو نے مکہ کو بزبان ابراہیم حرام ٹھہرایا ہے، اے اللہ ! میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور میں مدینہ کو اس کی دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان کی جگہ کو حرام ٹھہراتا ہوں ١ ؎۔ ابومروان کہتے ہیں : لابتيها کے معنی مدینہ کے دونوں طرف کی کالی پتھریلی زمینیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٠، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٨٥ (١٣٧٢) ، سنن الترمذی/الدعوات ٥٤ (٣٤٥٤) ، موطا امام مالک/الجامع ١ (٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو دونوں طرف مدینہ کے کناروں پر ہیں، اور اس وقت حرہ شرقیہ اور حرہ غربیہ کے نام سے دو بڑے آباد محلے ہیں، ایک جماعت علماء اور اہل حدیث کا یہ مذہب ہے کہ مدینہ کا حرم بھی حرمت میں مکہ کے حرم کی طرح ہے، اور وہاں کا درخت بھی اکھیڑنا منع ہے، اسی طرح وہاں کے شکار کا ستانا اور حنفیہ اور جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ مدینہ کا حرم احکام میں مکہ کے حرم کی طرح نہیں ہے، اور اس حدیث سے صرف اس کی تعظیم مراد ہے، یعنی وہ ہلاک اور تباہ ہوجائے گا۔
مدینہ منورہ کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ والوں کو جو کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح گھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٨٩ (١٣٨٦) ، مسند احمد (٢/٢٧٩، ٣٠٩، ٣٥٧) (صحیح )
مدینہ منورہ کی فضیلت۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہم اس سے، اور وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ پر قائم ہے، اور عیر (یہ بھی ایک پہاڑ ہے) جہنم کے باغات میں سے ایک باغ پر قائم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٧٩) (ضعیف) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور ان کے شیخ عبداللہ بن مکنف مجہول ہیں، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے، جب کہ صحیح بخاری میں دوسری سند سے انس (رض) سے مروی ہے، ( ٢٨٨٩ - ٣٣٦٧) ، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٨٢٠ )
کعبہ میں مدفون مال۔
ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرے ساتھ کچھ درہم خانہ کعبہ کے لیے ہدیہ بھیجے، میں خانہ کعبہ کے اندر آیا، اور شیبہ (خانہ کعبہ کے کلید بردار) کو جو ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے انہیں وہ درہم دے دئیے، انہوں نے پوچھا : کیا یہ تمہارے ہیں ؟ میں نے کہا : نہیں، اگر میرے ہوتے تو میں انہیں آپ کے پاس نہ لاتا، (فقیروں اور مسکینوں کو دے دیتا) انہوں نے کہا : اگر تم ایسا کہتے ہو تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ عمر (رض) اسی جگہ بیٹھے جہاں تم بیٹھے ہو، پھر انہوں نے فرمایا : میں باہر نہیں نکلوں گا جب تک کہ کعبہ کا مال مسلمان محتاجوں میں تقسیم نہ کر دوں، میں نے ان سے کہا : آپ ایسا نہیں کرسکتے، انہوں نے کہا : میں ضرور کروں گا، پھر آپ نے پوچھا : تم نے کیوں کہا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا ؟ ، میں نے کہا : اس وجہ سے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس مال کی جگہ دیکھی ہے اور ابوبکر (رض) نے بھی، اور وہ دونوں آپ سے زیادہ اس کے ضرورت مند تھے، اس کے باوجود انہوں نے اس کو نہیں سرکایا، یہ سن کر وہ جیسے تھے اسی حالت میں اٹھے اور باہر نکل گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٨ (١٥٩٤) ، الاعتصام ٢ (٧٢٧٥) ، سنن ابی داود/المناسک ٩٦ (٢٠٣١) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٠) (صحیح )
مکہ میں ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مکہ میں ماہ رمضان پائے پھر روزے رکھے، اور قیام کرے جتنا اس سے ہو سکے، تو اللہ اس کے لیے دوسرے شہروں کے ایک لاکھ رمضان کے مہینہ کا ثواب لکھے گا، اور ہر دن کے بدلہ ایک غلام آزاد کرنے، اور ہر رات کے بدلے ایک غلام آزاد کرنے کا، اور ہر دن کے بدلے ایک گھوڑے کا جو اللہ کی راہ (جہاد) میں سواری کے لیے دیا گیا ہو، ہر دن اور ہر رات کے بدلے ایک ایک نیکی لکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٠٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٠) (موضوع) (سند میں عبدالرحیم متروک اور ان کے والد ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٣٧ )
بارش میں طواف کرنا۔
داود بن عجلان کہتے ہیں کہ ہم نے ابوعقال (ہلال بن زید) کے ساتھ بارش میں طواف کیا، جب ہم طواف کرچکے تو مقام ابراہیم کے پیچھے آئے، تو انہوں نے کہا : میں نے انس بن مالک (رض) کے ساتھ بارش میں طواف کیا، جب ہم طواف کرچکے تو مقام ابراہیم پر آئے اور وہاں دو رکعتیں پڑھیں، انس (رض) نے ہم سے کہا : اب نئے سرے سے اپنے عمل کا حساب سمجھو کیونکہ تمہارے گناہ بخش دئیے گئے، ایسے ہی رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا تھا، اور ہم نے آپ کے ساتھ بارش میں طواف کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٨١) (ضعیف جدا) (سند میں داود بن عجلان اور ان کے شیخ أبو عقال ہلال بن زید سخت ضعیف ہیں، اس حدیث کو ابن الجوزی نے موضوعات میں داخل کیا ہے )
پیدل حج کرنا۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے مدینہ سے مکہ پیدل چل کر حج کیا، اور آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے تہ بند اپنی کمر میں باندھ لو ، اور آپ ایسی چال چلے جس میں دوڑ ملی ہوئی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٢) (ضعیف) (سند میں حمران بن اعین الکوفی ضعیف ہیں، آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٧٣٤ ) وضاحت : ١ ؎: کسی حدیث میں یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺ حج میں کہیں دوڑ کر چلے ہوں سوائے دو مقاموں کے ایک تو طواف قدوم کے پہلے تین پھیروں میں، دوسرے صفا اور مروہ میں دو نشانوں کے درمیان۔