28. قربانی کا بیان
رسول اللہ کی قربانیوں کا ذکر
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو چتکبرے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کرتے، (ذبح کے وقت) بسم الله اور الله أكبر کہتے تھے، اور میں نے آپ کو اپنا پاؤں جانور کے پٹھوں پر رکھ کر اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأضاحي ٩ (٥٥٥٨) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٣ (١٩٦٦) ، سنن النسائی/الضحایا ٢٧ (٤٤٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٢ (١٤٩٤) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١١٥، ١٧٠، ١٧٨، ١٨٣، ١٨٩، ٢١١، ٢١٤، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٥٨، ٢٦٧، ٢٧٢، ٢٧٩، ٢٨١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١ (١٩٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: أضاحی: اضحیہ کی جمع ہے اور ضحایا جمع ہے ضحی ۃ کی اور اضحی جمع ہے اضحا ۃ کی، اسی لئے دوسری عید (عید قربان) کو عیدالاضحی کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ کی قربانیوں کا ذکر
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی، اور جس وقت ان کا منہ قبلے کی طرف کیا تو فرمایا : إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا أول المسلمين اللهم منک ولک عن محمد وأمته میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہان کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم ہے اور سب سے پہلے میں اس کے تابعداروں میں سے ہوں، اے اللہ ! یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے، اور تیرے ہی واسطے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول فرما ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ٤ (٢٧٩٥) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٢٢ (١٥٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣١٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٦، ٣٦٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١ (١٩٨٩) (حسن) (ملاحظہ ہو : ابو داود : ٢٧٩٥، تعلیق، صحیح أبی داود : ٢٤٩١/٨ /١٤٢) ۔ وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ نے دو مینڈھوں کو ذبح کیا ورنہ ایک مینڈھا یا ایک بکری سارے گھروالوں کی طرف سے کافی ہے جیسا کہ آگے آئے گا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک مینڈھا اپنے گھر والوں کی طرف سے ذبح کیا، اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے، اب اور لوگ جو قربانی کریں ان کو صرف ایک مینڈھا ذبح کرنا کافی ہے، اور جس قدر عمدہ، اور موٹا تازہ ہو اتنا ہی افضل اور بہتر ہے۔
رسول اللہ کی قربانیوں کا ذکر
ام المؤمنین عائشہ اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے، موٹے سینگ دار، چتکبرے، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے، ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے، جو اللہ کی توحید اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، اور دوسرا محمد اور آل محمد ﷺ کی طرف سے ذبح فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٦٨، ١٧٧٣١، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢٠) (صحیح )
قربانی کرنا واجب ہے یا نہیں ؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٣٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢١، ٦/٢٢٠) (حسن) (سند میں عبد اللہ بن عیاش ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر حسن ہے )
قربانی کرنا واجب ہے یا نہیں ؟
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا : کیا قربانی واجب ہے ؟ تو جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کی ہے، اور آپ کے بعد مسلمانوں نے کی ہے، اور یہ سنت جاری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الاضاحي ١١ (١٥٠٦) (ضعیف) (سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، جن کی روایت غیر شامیوں سے ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ١٤٧٥ ) اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی کے ہم مثل منقول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١١ (١٥٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٧١ )
قربانی کرنا واجب ہے یا نہیں ؟
مخنف بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا : لوگو ! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ١ ؎ اور ایک عتیرہ ہے ، تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے ؟ یہ وہی ہے جسے لوگ رجبیہ کہتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١ (٢٧٨٨) ، سنن الترمذی/الأضاحي ١٩ (١٥١٨) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة (٤٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٥، ٥/٧٦) (حسن) (سند میں ابو رملہ مجہول راوی ہے، لیکن شاہد کی تقویت سے حسن ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٢٦٤ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک قربانی پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوگی۔ ٢ ؎: عتیرہ: وہ بکری ہے جور جب میں ذبح کی جاتی تھی، ابوداود کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ ٣ ؎: رجب کی قربانی پہلے شروع اسلام میں واجب تھی پھر منسوخ ہوگئی، دوسری حدیث میں ہے کہ عتیرہ کی قربانی کوئی چیز نہیں ہے، اب صرف عید کی قربانی ہے، اس حدیث سے بھی عیدالاضحی میں قربانی کا وجوب نکلتا ہے، اور قائلین وجوب اس آیت سے بھی دلیل لیتے ہیں فصل لربک وانحر (سورة الکوثر : 2) کیونکہ امر وجوب کے لئے ہے، مخالف کہتے ہیں کہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ نحر (ذبح) اللہ کے لئے کر یعنی اللہ کے سوا اور کسی کے لئے نحر (ذبح) نہ کر جیسے مشرکین بت پوجنے والے بتوں کے نام پر نحر (ذبح) کیا کرتے تھے، اس سے منع کیا، اس سے عید کی قربانی کا وجوب نہیں معلوم ہوا، ایک اور جندب کی حدیث ہے جو آگے آئے گی، وہ بھی وجوب کی دلیل ہے، اور عدم وجوب والے جابر (رض) کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں، اس میں رسول اکرم ﷺ نے قربانی پہلے کی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی، ایک مینڈھے کی (احمد، ابوداود، ترمذی) لیکن یہ عدم وجوب پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ مراد اس میں وہ لوگ ہیں جن کو قربانی کی قدرت نہیں ان پر وجوب کا کوئی قائل نہیں۔
قربانی کا ثواب
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالوں سمیت (جوں کا توں) آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام پیدا کرلیتا ہے، پس اپنے دل کو قربانی سے خوش کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١ (١٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٩) (ضعیف) (سند میں ابوالمثنیٰ ضعیف راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس سے اجر و ثواب کی امید کرو۔
قربانی کا ثواب
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے والد ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے ، لوگوں نے عرض کیا : تو ہم کو اس میں کیا ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی لوگوں نے عرض کیا : اور بھیڑ میں اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : بھیڑ میں (بھی) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٨٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٤ ؍ أ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٨) (ضعیف جدا) (سند میں ابوداود النخعی متروک الحدیث بلکہ متہم بالوضع راوی ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ١٤٧٦ )
کیسے جانور کی قربانی مستحب ہے؟
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے مینڈھے کی قربانی کی جو سینگ دار نر تھا، اس کا منہ اور پیر کالے تھے، اور آنکھیں بھی کالی تھیں (یعنی چتکبرا تھا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ٤ (٢٧٩٦) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٤ (١٤٩٦) ، سنن النسائی/الضحایا ١٣ (٤٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٧) (صحیح )
کیسے جانور کی قربانی مستحب ہے؟
یونس بن میسرہ بن حلبس کہتے ہیں کہ میں صحابی رسول ابوسعید زرقی (رض) کے ساتھ قربانی کے جانور خریدنے گیا، تو آپ نے ایک ایسے مینڈھے کی نشاندہی کی جس کی ٹھوڑی اور کانوں میں کچھ سیاہی تھی، اور وہ جسمانی طور پر نہ زیادہ بلند تھا، نہ ہی زیادہ پست، انہوں نے مجھ سے کہا : میرے لیے اسے خرید لو، شاید انہوں نے اس جانور کو رسول اللہ ﷺ کے مینڈھے کے مشابہ سمجھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٦، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، صحابہ کرام کا اتباع کہ قربانی کا جانور خریدنے میں بھی ویسا ہی جانور ڈھونڈھتے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے کیا تھا۔
کیسے جانور کی قربانی مستحب ہے؟
ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہترین کفن جوڑا (تہبند اور چادر) ہے، اور بہترین قربانی سینگ دار مینڈھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١٨ (١٥١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٦٦) (ضعیف) (سند میں ابوعائذ ضعیف راوی ہے )
اونٹ اور گائے کتنے آدمیوں کی طرف سے کافی ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اتنے میں عید الاضحی آگئی، تو ہم اونٹ میں دس آدمی، اور گائے میں سات آدمی شریک ہوگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٦٦ (٩٠٥) ، الأضاحي ٨ (١٥٠٢) ، سنن النسائی/الضحایا ١٤ (٤٣٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٦١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، لیکن اور علماء کے نزدیک اونٹ میں بھی سات آدمیوں سے زیادہ شریک نہیں ہوسکتے اور ان کی دلیل جابر (رض) کی حدیث ہے جو آگے آتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور جابر (رض) کی ناسخ، اور نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے، جب تک کہ تاریخ معلوم نہ ہو۔
اونٹ اور گائے کتنے آدمیوں کی طرف سے کافی ہے؟
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں اونٹ کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر کیا، اور گائے کو بھی سات آدمیوں کی طرف سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٢ (١٣١٨) ، سنن ابی داود/الضحایا ٧ (٢٨٠٩) ، سنن الترمذی/الحج ٦٦ (٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الضحایا ١٥ (٤٣٩٨) ، موطا امام مالک/الضحایا ٥ (٩) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٥ (١٩٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سات افراد کی طرف سے اونٹ یا گائے ذبح کرنے کا یہ اصول ہدی کے جانوروں کے لیے ہے، قربانی میں ایک اونٹ دس افراد کی طرف سے جائز ہے، جیسا کہ حدیث رقم : ( ٣١٣١ ) سے واضح ہے۔
اونٹ اور گائے کتنے آدمیوں کی طرف سے کافی ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی ان ساری بیویوں کی طرف سے جنہوں نے حجۃ الوداع میں عمرہ کیا تھا، ایک ہی گائے ذبح کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ١٤ (١٧٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک گائے یا اونٹ میں سات آدمیوں کی شرکت ہوسکتی ہے، اس حج میں آپ کے ساتھ ہی سات ازواج مطہرات رہی ہوں گی، یا بخاری و مسلم کے لفظ ضحّی (قربانی کی) سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے بطور ہدی نہیں بلکہ بطور قربانی ذبح کیا، تو پورے گھر والوں کی طرف سے ایک گائے کافی تھی۔
اونٹ اور گائے کتنے آدمیوں کی طرف سے کافی ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اونٹ کم ہوگئے، تو آپ ﷺ نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٧٤، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٦) (صحیح )
اونٹ اور گائے کتنے آدمیوں کی طرف سے کافی ہے؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں آل محمد کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ١٤ (١٧٥٠) ، ٢٣ (١٧٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٤) ، وقد أخرجہ : وقد تقدم بلفظ اتم برقم (٣٠٠٠/٣٠٧٥) ، صحیح البخاری/الحیض ٧ (٢٩٤) ، الحج ٣٣ (١٥٦٠) ، ٨١ (١٦٥١) ، العمرة ٩ (١٧٨٨) ، الأضاحي ٣ (٥٥٤٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، الحیض ١ (٣٤٧) ، موطا امام مالک/الحج ٥٨ (١٧٩) ، مسند احمد (٦/٢٤٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٢ (١٩٤٥) (صحیح )
کتنی بکریاں ایک اونٹ کے برابر ہوتی ہیں ؟
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا کہ میرے ذمہ ایک اونٹ کی (قربانی) ہے، اور میں اس کی استطاعت بھی رکھتا ہوں، لیکن اونٹ دستیاب نہیں کہ میں اسے خرید سکوں، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے سات بکریاں خریدنے اور انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٣، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١١، ٣١٢) (ضعیف) (ابن جریج کی عطاء سے روایت میں ضعف ہے، نیز عطاء نے ابن عباس (رض) سے نہیں سنا )
کتنی بکریاں ایک اونٹ کے برابر ہوتی ہیں ؟
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تہامہ کے ذوالحلیفہ نامی جگہ میں تھے، ہم نے اونٹ اور بکریاں مال غنیمت میں پائیں، پھر لوگوں نے (گوشت کاٹنے میں) عجلت سے کام لیا، اور ہم نے (مال غنیمت) کی تقسیم سے پہلے ہی ہانڈیاں چڑھا دیں، پھر ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، اور ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا، تو وہ الٹ دی گئیں، پھر آپ ﷺ نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر ٹھہرایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٣ (٢٤٨٨) ، ١٦ (٢٥٠٧) ، الجہاد ١٩١ (٣٠٧٥) ، الذبائح ١٥ (٥٤٩٨) ، ١٨ (٥٥٠٣) ، ٢٣ (٥٥٠٩) ، ٣٦ (٥٥٤٣) ، ٣٧ (٥٥٤٤) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٤ (١٩٦٨) ، سنن ابی داود/الاضاحي ١٥ (٢٨٢١) ، سنن الترمذی/الأحکام ٥ (١٤٩١) ١٦ (١٤٩٢) ، السیر ٤٠ (١٦٠٠) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١٧ (٤٣٠٢) ، الضحایا ١٥ (٤٣٩٦) ، ٢٦ (٤٤١٤، ٤٤١٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤٦٤، ٤/١٤٠، ١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے یہ نہیں معلوم ہوا کہ قربانی میں اونٹ دس بکریوں کے برابر ہے یعنی ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں، یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے بلکہ یہ خاص تھا اس موقع سے شاید وہاں کے اونٹ بڑے اور تیار ہوں گے، بکریاں چھوٹی ہوں گی، تو آپ ﷺ نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر رکھا۔
کونسا جانور قربانی کے لئے کافی ہے؟
عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بکریاں عنایت کیں، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لیے تقسیم کردیا، ایک بکری کا بچہ بچ رہا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی قربانی تم کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ١ (٢٣٠٠) ، الشرکة ١٢ (٢٥٠٠) ، الأضاحي ٢ (٥٥٤٧) ، ٧ (٥٥٥٥) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٢ (١٩٦٥) ، سنن الترمذی/الاضاحي ٧ (١٥٠٠) ، سنن النسائی/الضحایا ١٢ (٤٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٩، ١٥٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٤ (١٩٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیہقی کی روایت میں ہے کہ تمہارے بعد پھر کسی کے لیے یہ جائز نہ ہوگا، اس کی سند صحیح ہے، جمہور علماء اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ دانتی بکری جس کے سامنے والے نچلے دو دانت خودبخود اکھڑنے کے بعد گر کر دوبارہ نکل آئے ہوں اس سے کم عمر کی بکری کی قربانی جائز نہیں کیونکہ ابوبردہ (رض) کی صحیحین میں حدیث ہے کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میرے پاس بکری کا ایک جذعہ ہے جس کو میں نے گھر میں پالا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسی کو ذبح کر دو اور تمہارے سوا اور کسی کو یہ کافی نہ ہوگا اور جذعہ وہ ہے جو ایک سال کا ہوگیا ہو، لیکن جمہور علماء اور اہل حدیث کے نزدیک بھیڑ کا جذعہ جائز ہے، یعنی اگر بھیڑ ایک سال کی ہوجائے تو اس کی قربانی جائز ہے، مسند احمد، اور سنن ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً مروی ہے کہ بھیڑ کا جذعہ اچھی قربانی ہے، لیکن بکری کا جذعہ تو وہ بالاتفاق جائز نہیں ہے، یہ امام نووی نے نقل کیا ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ اونٹ، گائے اور بکری کی قربانی دانتے جانوروں کی جائز ہے، اس سے کم عمر والے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔
کونسا جانور قربانی کے لئے کافی ہے؟
ہلال اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بھیڑ کے ایک سالہ بچے کی قربانی جائز ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٨) (ضعیف) (ام محمد بن أبی یحییٰ اور ام بلال دونوں مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٦٥ ) وضاحت : ١ ؎: جذعہ : بھیڑ کا بچہ جو ایک سال کا ہوجائے، ایک قول یہ ہے کہ جذعہ وہ بچہ ہے جو ایک سال سے کم ہو۔
کونسا جانور قربانی کے لئے کافی ہے؟
کلیب کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہوگئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : (قربانی کے لیے) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الاضاحي ٥ (٢٧٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٢١١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الضحایا ١٢ (٤٣٨٩) ، مسند احمد (٥/٣٦٨) (صحیح )
کونسا جانور قربانی کے لئے کافی ہے؟
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صرف مسنہ (دانتا جانور) ذبح کرو، البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٢ (١٩٦٢) ، سنن ابی داود/الأضاحي ٥ (٢٧٩٧) ، سنن النسائی/الضحایا ١٢ (٤٣٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٢، ٣٢٧) (صحیح) (اس سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے اس لئے البانی صاحب نے اس پر کلام کیا ہے، مزید بحث کے، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ٢ /٣٧٤ و سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٦٥ و الإرواء : ٢١٤٥ ، وفتح الباری : ١٠ / ١٥ ) وضاحت : ١ ؎: مسنہ : وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہوگیا ہو، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کر کے تیسرے میں داخل ہوجائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کر کے دوسرے میں داخل ہوجائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہوچکا ہو، اہل لغت اور شارحین حدیث میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، (دیکھئے مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح) ٢ ؎: جمہو کے نزدیک ایک سالہ بھیڑ کی قربانی جائز ہے، اور سلف کے ایک جماعت کے نزدیک جائز نہیں ہے، ابن حزم نے اس کو جائز کہنے والوں کی خوب تردید کی ہے، ابن عمر (رض) کا بھی یہی قول ہے، جمہور نے جابر کی اس حدیث کو فضل و استحباب پر محمول کیا ہے، مگر یہ بہتر ہے کہ مسنہ نہ ملنے کی صورت میں ذبح کرے، ورنہ نہیں علامہ البانی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں فرماتے ہیں کہ ایک سال کی بکری کی قربانی جائز نہیں، اس کے برخلاف ایک سال کی بھیڑ کی قربانی صحیح احادیث کی وجہ سے کافی ہے ( ٦ /٤٦٣) الأختیارات الفقہیۃ للإمام الألبانی ( ١٦٢ ) ۔
کس جانور کی قربانی مکروہ ہے؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے کٹا ہو، یا وہ پھٹا ہو یا اس میں گول سوراخ ہو، یا ناک کان اور ہونٹ میں سے کوئی عضو کٹا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ٦ (٢٨٠٤) ، سنن الترمذی/الاضاحي ٦ (١٤٩٨) ، سنن النسائی/الضحایا ٧ (٤٣٧٧) ، ٨ (٤٣٧٨) ، ٩ (٤٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٠، ١٠٨، ١٢٨، ٩ ١٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٣ (١٩٩٥) (ضعیف) (اس کے راوی ابواسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کے شیخ شریح سے ان کا سماع نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع بھی ہے، اور شریح شبیہ المجہول ہیں )
کس جانور کی قربانی مکروہ ہے؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور) کی آنکھ اور کان غور سے دیکھ لیں (آیا وہ سلامت ہیں یا نہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٩ (١٥٠٣) ، سنن النسائی/الضحایا ١٠ (٤٣٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٥، ١٠٥، ١٢٥، ١٣٢، ١٥٢) (حسن صحیح )
کس جانور کی قربانی مکروہ ہے؟
عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے عرض کیا : مجھ سے قربانی کے ان جانوروں کو بیان کیجئیے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا، یا منع کیا ہے ؟ تو براء بن عازب (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے (جب کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چھوٹا ہے) فرمایا : چار قسم کے جانوروں کی قربانی درست نہیں : ایک کانا جس کا کانا پن واضح ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری عیاں اور ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو، چوتھا ایسا لاغر اور دبلا پتلا جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ١ ؎۔ عبید نے کہا : میں اس جانور کو بھی مکروہ جانتا ہوں جس کے کان میں نقص ہو تو براء (رض) نے کہا : جسے تم ناپسند کرو اسے چھوڑ دو ، لیکن دوسروں پر اسے حرام نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ٦ (٢٨٠٢) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٥ (١٤٩٧) ، سنن النسائی/الضحایا ٤ (٤٣٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الضحایا ١ (١) ، مسند احمد (٤/٢٨٤، ٢٨٩، ٣٠٠، ٣٠١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٣ (١٩٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے کہ جس قربانی میں یہ چاروں عیب ہوں ان کی قربانی جائز نہیں ہے۔
کس جانور کی قربانی مکروہ ہے؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ ٹوٹے اور کن کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ٦ (٢٨٠٥) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٩ (١٥٠٤) ، سنن النسائی/الضحایا ١١ (٤٣٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٣، ١٠١، ١٠٩، ١٢٧، ١٢٩، ١٥٠) (ضعیف) (جری بن کلیب کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١١٤٩ ) وضاحت : ١ ؎: لیکن منڈا یعنی جس جانور کی سینگ اگی نہ ہو اس کی قربانی جائز ہے، اسی طرح اگر کان آدھا سے کم کٹا ہو تو امام ابوحنیفہ نے اس کو جائز کہا ہے، لیکن حدیث مطلق ہے، اور حدیث کی اتباع بہتر ہے، اور احمد، ابوداود، حاکم اور بخاری نے تاریخ میں تخریج کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے منع کیا مصفرہ (جس کا کان کاٹا گیا ہو) سے اور مستاصلہ (جس کی سینگ ٹوٹی ہو) سے اور بخقاء سے (جس کی آنکھ میں نقش ہو) اور مشعیہ سے (جو اور بکریوں کے ساتھ چل نہ سکے کمزوری اور لاغری سے) اور کسیرہ سے (جس کی ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہو) ۔
صحیح سالم جانور قربانی کے لئے خریدا پھر خریدار کے پاس آنے کے بعد جانور میں کوئی عیب پیدا ہوگیا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے قربانی کے لیے ایک مینڈھا خریدا، پھر بھیڑئیے نے اس کے سرین یا کان کو زخمی کردیا، ہم نے نبی اکرم ﷺ سے (اس سلسلے میں) سوال کیا، تو آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسی کی قربانی کریں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢، ٨٦) (ضعیف جدا) (سند میں جابر بن یزید الجعفی کذاب، اور اس کے شیخ محمد بن قرظہ الانصاری غیر معروف راوی ہیں )
ایک گھرانے کی طرف سے ایک بکری کی قربانی
عطا بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے، تو معاملہ ایسا ہوگیا جو تم دیکھ رہے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١٠ (١٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨١) (صحیح )
ایک گھرانے کی طرف سے ایک بکری کی قربانی
ابوسریحہ کہتے ہیں کہ سنت کا طریقہ معلوم ہوجانے کے بعد بھی ہمارے اہل نے ہمیں زیادتی پر مجبور کیا، حال یہ تھا کہ ایک گھر والے ایک یا دو بکریوں کی قربانی کرتے تھے، اور اب (اگر ہم ایسا کرتے ہیں) تو ہمارے ہمسائے ہمیں بخیل کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠١، ومصباح الزجاجة : ١٠٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو ان کے طعنہ کے ڈر سے خلاف سنت بہت سی بکریاں قربانی کرنا پڑتی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص بندے کسی کے طعن و تشنیع سے نہیں ڈرتے، اور سنت کے موافق فی گھر ایک بکری ذبح کرتے ہیں۔
جس کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن بال اور ناخن نہ کتروائے
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے اور تم میں کا کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو اسے اپنے بال اور اپنی کھال سے کچھ نہیں چھونا چاہیئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأضاحي ٣ (١٩٧٧) ، سنن ابی داود/الأضاحي ٣ (٢٧٩١) ، سنن الترمذی/الضحایا ٢٤ (١٥٢٣) ، سنن النسائی/الضحایا (٤٣٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٩، ٣٠١، ٣١١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢ (١٩٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بال اور ناخن وغیرہ کچھ نہیں کاٹنا چاہیے۔
جس کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن بال اور ناخن نہ کتروائے
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھے، اور قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن کے قریب نہ پھٹکے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس میں سے کچھ بھی نہ کاٹے۔
نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرنا ممنوع ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے قربانی کے دن قربانی کرلی یعنی نماز عید سے پہلے تو نبی اکرم ﷺ نے اسے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٢٣ (٩٥٤) ، الأضاحي ٤ (٥٥٤٩) ، ٧ (٥٥٥٤) ، ٩ (٥٥٥٨) ، صحیح مسلم/الأضاحي ١ (١٩٦٢) ، سنن الترمذی/الأضاحي ٢ (١٤٩٤) ، سنن النسائی/الضحایا ١٣ (٤٣٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٣، ١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام ابن القیم فرماتے ہیں : اس باب میں صریح احادیث وارد ہیں کہ نماز عید سے پہلے ذبح کیا ہوا جانور کافی نہ ہوگا، خواہ نماز کا وقت آگیا ہو، یا نہ آگیا ہو، اور یہی اللہ تعالیٰ کا دین ہے جس کو ہم اختیار کرتے ہیں، اور اس کے خلاف باطل ہے، امام کی نماز عیدگاہ میں ہو یا مسجد میں اگر امام نہ ہو، تو ہر شخص اپنی نماز کے بعد ذبح کرے۔
نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرنا ممنوع ہے
جندب بجلی (رض) کہتے ہیں کہ میں عید الاضحی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا، کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز عید سے پہلے ذبح کیا ہو وہ دوبارہ قربانی کرے، اور جس نے نہ ذبح کیا ہو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٢٣ (٩٨٥) ، الصید ١٧ (٥٠٠) ، الأضاحي ١٢ (٥٥٦٢) ، الأیمان ١٥ (٦٦٧٤) ، التوحید ١٣ (٧٤٠٠) ، صحیح مسلم/الأضاحي ١ (١٩٦٠) ، سنن النسائی/الأضاحي ٣ (٤٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٣١٢، ٣١٣) (صحیح )
نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرنا ممنوع ہے
عویمر بن اشقر (رض) کہتے کہ انہوں نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی، پھر نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی قربانی دوبارہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢١، ومصباح الزجاجة : ١٠٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الضحایا ٣ (٥) ، مسند احمد (٣/٤٥٤، ٤/٣٤١) (صحیح) (سند میں عباد بن تمیم اور عویمر بن اشقر کے مابین انقطاع ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرنا ممنوع ہے
ابوزید انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر انصار کے گھروں میں سے ایک گھر سے ہوا، تو آپ نے وہاں گوشت بھوننے کی خوشبو پائی، آپ ﷺ نے فرمایا : کس شخص نے ذبح کیا ہے ؟ ہم میں سے ایک شخص آپ کی طرف نکلا، اور آ کر اس نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! میں نے نماز عید سے پہلے ذبح کرلیا، تاکہ گھر والوں اور پڑوسیوں کو کھلا سکوں، آپ ﷺ نے اسے دوبارہ قربانی کا حکم دیا، اس شخص نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، میرے پاس ایک جذعہ یا بھیڑ کے بچہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اسی کو ذبح کرلو اور تمہارے بعد کسی کے لیے جذعہ کافی نہیں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٩٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٧، ٣٤٠، ٣٤١) (صحیح )
اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا آپ اپنا پاؤں اس کے پٹھے پر رکھے ہوئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : (٣١٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بہتر ہے کہ قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرے، عورت بھی اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرسکتی ہے، ابوموسیٰ اشعری (رض) نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کہ اپنی قربانیاں اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔
اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا
مؤذن رسول سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی زریق کے راستے میں گلی کے کنارے اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ایک چھری سے ذبح کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٣٣، ومصباح الزجاجة : ١٠٩٣) (ضعیف) (عبدالرحمن بن سعد اور ان کے والد دونوں ضعیف ہیں )
قربانی کی کھالوں کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے اونٹ کے سبھی اجزاء، اس کے گوشت، اس کی کھالوں اور جھولوں سمیت سبھی کچھ مساکین کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : (٣٠٩٩) (صحیح )
قربانیوں کا گوشت کھانا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے ہر اونٹ کا ایک ٹکڑا منگایا، پھر ان سب ٹکڑوں کو ایک ہانڈی میں پکانے کا حکم دیا، تو وہ ایک ہانڈی میں رکھ کر پکایا گیا، پھر سبھی لوگوں نے اس کا گوشت کھایا، اور اس کا شوربہ پیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٩، ومصباح الزجاجة : ١٠٩٤) (صحیح )
قربانیوں کا گوشت جمع کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی محتاجی اور فقر کی وجہ سے قربانی کے گوشت کی ذخیرہ اندوزی سے منع فرما دیا تھا، پھر آپ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٧ (٥٤٢٣) ، ٣٧ (٥٤٣٨) ، الأضاحي ١٦ (٦٦٨٧) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٥ (١٩٧١) ، سنن الترمذی/الأضاحي ١٤ (١٥١١) ، سنن النسائی/الضحایا ٣٦ (٤٤٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٥) وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأضاحي ١٠ (٢٨١٢) ، موطا امام مالک/الضحایا ٤ (٦٧) ، مسند احمد (٦/١٠٢، ٢٠٩) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٦ (١٦١٦٥) (صحیح )
قربانیوں کا گوشت جمع کرنا
نبیشہ (نبیشہ بن عبداللہ الہذلی) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع کیا تھا، لیکن اب اسے کھاؤ اور ذخیرہ اندوزی کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ١٠ (٢٨١٣) ، ٢٠ (٢٨٣٠) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ١ (٤٢٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٥، ٧٦) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٦ (٢٠٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جتنے دن چاہو اسے کھاؤ اور محفوظ کر کے رکھو، اس لئے کہ اب فقر و فاقہ کے دن گئے، لوگ خوشحال ہوگئے، اس لئے اب اس کو تین دن میں کھانا اور تقسیم کرنا غیر ضروری ہوگیا۔
عیدگاہ میں ذبح کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید گاہ میں ذبح کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ٩ (٢٨١١) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العید ین ٢٢ (٩٨٢) ، الاضاحي ٦ (٥٥٥٢) ، سنن الترمذی/الضحایا ٩ (١٥٠٨) ، سنن النسائی/العیدین ٢٩ (١٥٩٠) ، الأضاحي ٢ (٤٣٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠٨، ١٥٢) (صحیح )
عقیقہ کا بیان
ام کرز (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٣٥، ٢٨٣٦) ، سنن النسائی/العقیقة ٣ (٤٢٢٢، ٤٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١٧ (١٥١٦) ، مسند احمد (٦/٣٨١، ٤٢٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو جانور نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، اور نومولود کے بالوں کو بھی عقیقہ کہا جاتا ہے، جو جانور کے ذبح کے وقت اتارے جاتے ہیں۔
عقیقہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا : ہم لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی طرف سے ایک بکری کا عقیقہ کریں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١٦ (١٥١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ٨٢، ١٥٨، ٢٥١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠٠٩) (صحیح )
عقیقہ کا بیان
سلمان بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : لڑکے کا عقیقہ ہے تو تم اس کی طرف سے خون بہاؤ، اور اس سے گندگی کو دور کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٢ (٧١ ٥٤) ، سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٣٩) ، سنن الترمذی/الضحایا ١٧ (١٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/العقیقة ١ (٤٢١٩) ، مسند احمد (٤/١٧، ١٨، ٢١٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١٠) (صحیح )
عقیقہ کا بیان
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر لڑکا اپنے عقیقہ میں گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے، اس کا سر مونڈا جائے، اور نام رکھا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٢٣ (١٥٢٢) ، سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٣٧، ٢٨٣٨) ، سنن النسائی/العقیقة ٤ (٤٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العقیقة ٢ (٥٤٧٢) ، مسند احمد (٥/٧، ٨، ١٢، ١٧، ١٨، ٢٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١٢) (صحیح )
عقیقہ کا بیان
یزید بن عبدالمزنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لڑکے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے، اور اس کے سر میں عقیقہ کے جانور کا خون نہ لگایا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٣٢) (صحیح) (یزید بن عبد المزنی مجہول ہے، لیکن عائشہ وبریدہ (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤/ ٣٨٨ / ٣٩٩ ) وضاحت : ١ ؎: جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا، سنن ابی داود کی روایت رقم ( ٢٨٣٧ ) جس میں عقیقہ کا خون بچے کے سر پر لگانے کا ذکر ہے یہ روایت منسوخ ہے۔
فرعہ اور عتیرہ کا بیان
نبیشہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو آواز دی اور کہا : اللہ کے رسول ! ہم زمانہ جاہلیت میں ماہ رجب میں عتیرہ کرتے تھے، اب آپ اس سلسلے میں ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس مہینے میں چاہو اللہ کے لیے قربانی کرو، اللہ تعالیٰ کے لیے نیک عمل کرو، اور (غریبوں کو) کھانا کھلاؤ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں فرع کرتے تھے، اب آپ اس سلسلے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر سائمہ (چرنے والے جانور) میں فرع ہے جس کو تمہارا جانور جنے یہاں تک کہ جب وہ بوجھ لادنے کے لائق (یعنی جوان) ہوجائے تو اسے ذبح کرو، اور اس کا گوشت (میرا خیال ہے انہوں نے کہا) مسافروں پر صدقہ کر دے تو یہ بہتر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١٠ (٢٨١٣) ، ٢٠ (٢٨٣٠) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ١ (٤٢٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٥، ٧٦) ، سنن الدارمی/الأضي ٦ (٢٠٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عتیرہ رجب کی قربانی ہے، اور فرع جاہلیت میں جو مروج تھا وہ اونٹنی کا پہلونٹا بچہ ہوتا تھا، جس کو مشرک بتوں کے لئے ذبح کرتے تھے اور بعضوں نے کہا کہ جب سو اونٹ کسی کے پاس پورے ہوجاتے تو وہ ایک بچہ ذبج کرتا، اس کو فرع کہتے ہیں، اسلام میں یہ لغو ہوگیا، اور آپ ﷺ نے فرمایا : بچہ کاٹنے سے تو یہ بہتر ہے کہ اس کو جوان ہونے دے، جب مضبوط اور تیار ہوجائے تو اس کو اس وقت ذبح کر کے مسافروں کو کھلا دیا جائے ، بعضوں نے کہا : فرع اور عتیرہ اب بھی مستحب ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا چاہیے، اور اس حدیث سے فرع کا جواز نکلتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ جب وہ جوان ہوجائے، تو اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دے تاکہ جہاد میں اس پر سواری یا بوجھ لایا جائے۔
فرعہ اور عتیرہ کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہ فرعہ ہے اور نہ عتیرہ (یعنی واجب اور ضروری نہیں ہے) ، ہشام کہتے ہیں :فرعہ: جانور کے پہلوٹے بچے کو کہتے ہیں، ١ ؎ اور عتیرہ : وہ بکری ہے جسے گھر والے رجب میں ذبح کرتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٤ (٥٤٧٤) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٦ (١٩٧٦) ، سنن ابی داود/الأضاحي ٢٠ (٢٨٣١) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة (٤٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١٥ (١٥١٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٤، ٢٨٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٨ (٢٠٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جاہلیت میں اونٹنی کے پہلوٹے بچے کو لوگ اپنے معبودوں کے نام پر ذبح کردیا کرتے تھے اسے فرعہ کہتے تھے۔ ٢ ؎: اسے رجبیہ بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ جانور جسے رجب کے مہینے میں ایک خاص نیت و ارادہ سے ذبح کیا جائے۔
فرعہ اور عتیرہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہ فرعہ (واجب) ہے اور نہ عتیرہ ۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : یہ حدیث محمد بن ابی عمر عدنی کے تفردات میں سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٤٨، ومصباح الزجاجة : ١٠٩٦) (صحیح )
ذبح اچھی طرح اور عمدگی سے کرنا
شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے ہر چیز میں احسان (رحم اور انصاف) کو فرض قرار دیا ہے، پس جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو (تاکہ مخلوق کو تکلیف نہ ہو) اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور چاہیئے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کرلے، اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ١١ (١٩٥٥) ، سنن ابی داود/الأضاحي ١٢ (٢٨١٥) ، سنن الترمذی/الدیات ١٤ (١٤٠٩) ، سنن النسائی/الضحایا ٢١ (٤٤١٠) ، ٢٦ (٤٤١٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٣، ١٢٤، ١٢٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٠ (٢٠١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ذبح کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر جائے، یہاں تک کہ جانور ٹھنڈا ہوجائے، اس وقت کھال اتارے اور کاٹے۔
ذبح اچھی طرح اور عمدگی سے کرنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو ایک بکری کا کان پکڑے اسے گھسیٹ رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا کان چھوڑ دو ، اور اس کی گردن کی طرف پکڑ لو (تاکہ اسے تکلیف نہ ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٣، ومصباح الزجاجة : ١٠٩٧) (ضعیف جدا) (سند میں موسیٰ بن محمد منکر الحدیث راوی ہے )
ذبح اچھی طرح اور عمدگی سے کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چھری کو تیز کرنے، اور اسے جانوروں سے چھپانے کا حکم دیا، اور فرمایا : جب تم میں سے کوئی ذبح کرے تو اچھی طرح ذبح کرے تاکہ اس کی جان جلد نکل جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٩٠٥، ومصباح الزجاجة : ١٠٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠٨) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ اور قرة ضعیف راوی ہیں، تراجع الألبانی : رقم : ٨ ) اس سند سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٠٣٦، ومصباح الزجاجة : ١٠٩٩ )
ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وہ آیت کریمہ : إن الشياطين ليوحون إلى أوليائهم (سورة الأنعام : 121) کی تفسیر میں کہتے ہیں : ان کی وحی یہ تھی کہ جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام لیا جائے اس کو مت کھاؤ، اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے کھاؤ، تو اللہ عزوجل نے فرمایا : ولا تأکلوا مما لم يذكر اسم الله عليه جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ١٣ (٢٨١٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١١١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الضحایا ٤٠ (٤٤٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان سے گوشت لے لینا جائز ہے، اگرچہ یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا تھا یا نہیں کیونکہ مسلمان کی ظاہری حالت امید دلاتی ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا نام ضرور لیا ہوگا، البتہ مشرک سے گوشت لینا جائز نہیں جب تک اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لے کہ اس کو مسلمان نے ذبح کیا ہے، اگر دیکھے نہیں لیکن مشرک یہ کہے کہ اس کو مسلمان نے ذبح کیا ہے تو اس کا لینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مردار ہے منخنقہ وغیرہ ورنہ ہرگز جائز نہ ہوگا۔
ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت (بیچنے کے لیے) لاتے ہیں، اور ہمیں نہیں معلوم کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں ؟ ! آپ ﷺ نے فرمایا : تم بسم اللہ کہہ کر کھاؤ اور وہ لوگ (ابھی) نو مسلم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٥ (٢٠٥٧) ، الصید ٢١ (٥٥٠٧) ، التوحید ١٣ (٧٣٩٨) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٥ (١٩٧١) ، سنن ابی داود/الأضاحي ١٩ (٢٨٢٩) ، سنن النسائی/الضحایا ٣٨ (٤٤٤١) ، موطا امام مالک/الذبائح ١ (١) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٤ (٢٠١٩) (صحیح )
کس چیز سے ذبح کیا جائے ؟
محمد بن صیفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک تیز دھار والے پتھر سے دو خرگوش ذبح کئے، پھر انہیں لے کر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے مجھے ان کے کھانے کی اجازت دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١٧ (٢٨٢٢) ، سنن النسائی/الصید ٢٥ (٤٣١٨) ، الضحایا ١٩ (٤٤٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢، ٧٦، ٨٠) (صحیح )
کس چیز سے ذبح کیا جائے ؟
زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ بھیڑئیے نے ایک بکری میں دانت گاڑ دیئے، تو لوگوں نے اس بکری کو پتھر سے ذبح کر ڈالا، رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الضحایا ١٧ (٤٤٠٥) ، ٢٣ (٤٤١٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٤) (صحیح) (سند میں حاضر بن مہاجر کو ابو حاتم نے مجہول کہا ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
کس چیز سے ذبح کیا جائے ؟
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم شکار کرتے ہیں اور ہمیں ذبح کرنے کے لیے تیز پتھر اور دھار دار لکڑی کے سوا کچھ نہیں ملتا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جس چیز سے چاہو خون بہاؤ، اور اس پر اللہ کا نام لے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١٥ (٢٨٢٤) ، سنن النسائی/الذبائح ٢٠ (٤٣٠٩) ، الضحایا ١٨ (٤٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٨) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٤٣٥ )
کس چیز سے ذبح کیا جائے ؟
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ غزوات میں ہوتے ہیں اور ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو خون بہا دے اور جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٣ (٢٤٨٨) ، ١٦ (٢٥٠٧) ، الجہاد ١٩١ (٣٠٧٥) ، الذبائح ١٥ (٥٤٩٨) ، ١٨ (٥٥٠٣) ، ٢٠ (٥٥٠٦) ، ٢٣ (٥٥٠٩) ، ٣٦ (٥٥٤٣) ، ٣٧ (٥٥٤٤) ، صحیح مسلم/الاضاحی ٤ (١٩٦٨) ، سنن ابی داود/الأضاحي ١٥ (٢٨٢١) ، سنن الترمذی/الصید ١٩ (١٤٩٢) ، سنن النسائی/الذبائح ١٧ (٤٣٠٢) ، الضحایا ١٥ (٤٣٩٦) ، ٢٦ (٤٤١٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤٦٤، ٤/١٤٠، ١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دانت اور ناخن کے سوا ہر دھار دار اور تیز چیز سے ذبح کرنا جائز ہے، اور تلوار، چھری، نیزے، تیر کے پھل، دھاردار پتھر اور لکڑی، کانچ، تانبے اور ٹین وغیرہ سے غرض جو چیز تیز ہو کر خون بہا دے اس سے ذبح کرنا جائز، اور ذبیحہ حلال ہے، اور شافعی کہتے ہیں کہ ذبح میں حلقوم (گلے کی وہ نالی جس سے کھانا پانی نیچے اترتا ہے) ، اور مری (مڑکنی ہڈی گلے سے معدہ تک کی نلی) کا کٹ جانا شرط ہے اور دونوں رگوں کا بھی کاٹ ڈالنا مستحب ہے، امام احمد سے بھی اصح روایت یہی ہے، اور لیث بن سعد، ابو ثور، داود ظاہری اور ابن منذر نے کہا ہے کہ ان سب کا کٹنا شرط ہے، اور ابوحنیفہ نے کہا : اگر ان چاروں میں تین بھی کٹ جائیں تو درست ہے، اور مالک نے کہا کہ حلقوم اور دونوں (ودج) رگوں کا کٹنا ضروری ہے، مری کا کٹنا شرط نہیں، ابن منذر نے کہا : علماء کا اجماع ہے اس پر کہ جب حلقوم اور مری، اور مری اور دونوں رگیں کٹ جائیں، اور خون بہہ جائے، تو ذبح ہوگیا، امام نووی نے اہلحدیث کے مذہب میں اوداج کا کٹنا ضروری قرار دیا ہے۔
کھال اتارنا
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک لڑکے کے پاس سے ہوا جو بکری کی کھال اتار رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : الگ ہوجاؤ میں تمہیں بتاتا ہوں ، پھر آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک گوشت اور کھال کے بیچ داخل فرمایا یہاں تک کہ آپ کا ہاتھ بغل تک پہنچ کر چھپ گیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے لڑکے ! اس طرح سے کھال اتارو ، پھر آپ وہاں سے چلے، اور لوگوں کو نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧٣ (١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیوں کہ بکری نجس نہیں ہے۔
دودھ والے جانور کو ذبح کرنے کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کے پاس تشریف لائے تو اس نے آپ کی ضیافت کے لیے جانور ذبح کرنے کے واسطے چھری سنبھالی تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : دودھ والی سے اپنے آپ کو بچانا یعنی اسے ذبح نہ کرنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الأشربة ٢٠ (٢٠٣٨) ، سنن الترمذی/الزہد ٣٩ (٢٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دودھ والے جانور کا بلا عذر ذبح کرنا مکروہ ہے، اس لئے کہ دودھ سے بہتوں کو بہت دنوں تک فائدہ ہوسکتا ہے، اور گوشت کھا لینے میں یہ فائدہ جاتا رہے گا۔
دودھ والے جانور کو ذبح کرنے کی ممانعت
ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے اور عمر (رض) سے فرمایا : تم دونوں ہمیں واقفی کے پاس لے چلو، تو ہم لوگ چاندنی رات میں چلے یہاں تک کہ باغ میں پہنچے تو اس نے ہمیں مرحبا و خوش آمدید کہا، پھر چھری سنبھالی اور بکریوں میں گھوما آپ ﷺ نے فرمایا : دودھ والی یا فرمایا : تھن والی بکری سے اپنے آپ کو بچانا یعنی اسے ذبح نہ کرنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٢٧، ومصباح الزجاجة : ١١٠٠) (ضعیف جدا) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک راوی ہے )
عورت کا ذبیحہ
کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ایک بکری کو پتھر سے ذبح کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٤ (٢٣٠٤) ، الذبائح ١٨ (٥٥٠١، ٥٥٠٢) ، ١٩ (٥٥٠٤، ٥٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧٦، ٣/٤٥٤، ٦/٣٨٦) (صحیح )
بد کے ہوئے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک اونٹ سرکش ہوگیا، ایک شخص نے اس کو تیر مارا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ان میں کچھ وحشی ہوتے ہیں ، میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جنگلی جانوروں کی طرح تو جو ان میں سے تمہارے قابو میں نہ آسکے، اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بسم اللہ کہہ کر تیر، برچھی وغیرہ سے مار دو ، اگر وہ مرجائے تو حلال ہوگا یہ اضطراری ذبح ہے، اس کا حکم مثل ذبح کے ہے، جب ذبح پر قدرت نہ ہو، اب تیر کے قائم مقام بندوق اور توپ ہے، اگر بندوق بسم اللہ کہہ کر چلائے، اور جانور ذبح کرنے سے پہلے مرجائے تو وہ حلال ہے، یہی قول محققین کا ہے۔
بد کے ہوئے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ
ابوالعشراء کے والد کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا صرف حلق اور کوڑی کے بیچ ہی میں (ذبح) کرنا ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اس کی ران میں کونچ دو تو بھی کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ١٦ (٢٨٢٥) ، سنن الترمذی/الصید ١٣ (١٤٨١) ، سنن النسائی/الضحایا ٢٤ (٤٤١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٢ (٢٠١٥) (ضعیف) (ابو العشراء اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٥٣٥ )
چوپایوں کو باندھ کر نشانہ لگانا اور مثلہ کرنا منع ہے۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٤، ومصباح الزجاجة : ١١٠١) (ضعیف جدا) (موسیٰ بن محمد بن ابراہیم ضعیف راوی ہے، لیکن مثلہ سے ممانعت کی حدیث صحیح ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٢٣٠ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کا کوئی عضو کاٹنے سے مثلا ناک، کان اور ہاتھ پاؤں وغیرہ کیونکہ اس میں جانور کی تعذیب ہے، اور وہ حرام ہے۔
چوپایوں کو باندھ کر نشانہ لگانا اور مثلہ کرنا منع ہے۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کو باندھ کر نشانہ لگانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٥ (٥٥١٣) ، صحیح مسلم/الصید ١٢ (١٩٥٦) ، سنن ابی داود/الأضاحي ١٢ (٢٨١٦) ، سنن النسائی/الضحایا ٤٠ (٤٤٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٧، ١٧١، ١٩١) (صحیح )
چوپایوں کو باندھ کر نشانہ لگانا اور مثلہ کرنا منع ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسی چیز کو جس میں روح (جان) ہو اسے (مشق کے لیے تیروں وغیرہ کا) نشانہ نہ بناؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصید ٩ (١٤٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٦١١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصید ١٢ (١٩٥٧) ، سنن النسائی/الضحایا ٤٠ (٤٤٤٨) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٧٣، ٢٨٠، ٢٨٥، ٢٩٧، ٣٤٠، ٣٤٥) (صحیح )
چوپایوں کو باندھ کر نشانہ لگانا اور مثلہ کرنا منع ہے۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی جانور کو باندھ کر تیر مارنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ١٢ (١٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٨، ٣٣٩، ٥/٤٢٢، ٤٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب جانور کو باندھ کر اس طرح سے مارنا منع ہوا تو انسان کو اس طرح سے مارنا بطریق اولیٰ حرام ہوگا۔
نجاست کھانے ولاے جانور کے گوشت سے ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جلالہ (گندگی اور نجاست کھانے والے جانور) کے گوشت اور اس کے دودھ سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٥٢ (٣٧٨٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢٤ (١٨٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٩، ٢٢٦، ٢٤١، ٢٥٣، ٣٢١) (صحیح )
گھوڑوں کے گوشت کا بیان
اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا ذبح کیا، اور اس کا گوشت کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٤ (٥٥١٠ و ٥٥١١) ، ٢٧ (٥٥١٩) ، صحیح مسلم/الصید ٦ (١٩٤٢) ، سنن النسائی/الضحایا ٢٢ (٤٤١١) ، ٣٢ (٤٤٢٥، ٤٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٣) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٢ (٢٠٣٥) (صحیح )
گھوڑوں کے گوشت کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے خیبر کے زمانہ میں گھوڑے اور نیل گائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٦ (١٩٤١) ، سنن النسائی/الذبائح ٢٩ (٤٣٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٨١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢١٩) ، الصید ٢٧ (٥٥٢٠) ، ٢٨ (٥٥٢٤) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٦ (٣٧٨٨) ، ٣٤ (٣٨٠٨) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٥ (١٧٩٣) ، مسند احمد (٣/٣٢٢، ٣٥٦، ٣٦١، ٣٦٢، ٣٨٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٢ (٢٠٣٦) (صحیح )
پالتو گدھوں کا گوشت
ابواسحاق شیبانی (سلیمان بن فیروز) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے پالتو گدھوں کے گوشت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ہم خیبر کے دن بھوک سے دوچار ہوئے، ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، لوگوں کو شہر کے باہر سے کچھ گدھے ملے تو ہم نے انہیں ذبح کیا، ہماری ہانڈیاں جوش مار رہی تھیں کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے منادی نے آواز لگائی : لوگو ! ہانڈیاں الٹ دو ، اور گدھوں کے گوشت میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ، تو ہم نے ہانڈیاں الٹ دیں۔ ابواسحاق (سلیمانی بن فیروز الشیبانی الکوفی) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے پوچھا : نبی اکرم ﷺ نے گدھا واقعی حرام قرار دے دیا ہے ؟ تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے اس کو بالکل ہی حرام قرار دے دیا ہے کیونکہ وہ گندگی کھاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢٢٠) ، الصید ٢٨ (١٩٣٧) ، صحیح مسلم/الصید ٥ (٤٣٧) ، سنن النسائی/الصید ٣١ (٤٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٥١٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمہور علماء اور اہلحدیث کا یہ قول ہے کہ پالتو گدھا حرام ہے، اور اس کی حرمت میں براء بن عازب، اور ابن عمر اور ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہم کی احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہیں، البتہ جنگلی گدھا یعنی نیل گائے بالاتفاق حلال ہے، اور رسول اکرم ﷺ کو ہدیہ دیا گیا اور آپ نے اس میں سے کھایا (الروضۃ الندیۃ) ۔ امام مالک اور علماء کی ایک جماعت کے نزدیک پالتو گدھا حلال ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ انہوں نے غنیمت کا مال تقسیم ہونے سے پہلے کھانا چاہا، اور وہ منع ہے جیسے اوپر گزرا اور ان کی دلیل ابوداود میں موجود غالب بن ابجر (رض) کی یہ حدیث ہے کہ اپنے گھر والوں کو موٹے گدھوں میں سے کھلاؤ، میں نے ان کو نجاست کھانے کی وجہ سے حرام کیا تھا، لیکن یہ روایت ضعیف اور مضطرب الاسناد ہے، یہ حلت کی دلیل نہیں بن سکتی خصوصاً جب کہ صریح احادیث میں ممانعت آئی ہے۔
پالتو گدھوں کا گوشت
مقدام بن معدیکرب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی چیزوں کو حرام قرار دیا، حتیٰ کہ انہوں نے (ان حرام چیزوں میں) پالتو گدھے کا بھی ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٥٤، ومصباح الزجاجة : ١١٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٩، ١٣٢) (صحیح )
پالتو گدھوں کا گوشت
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں پالتو گدھے کا گوشت پھینک دینے کا حکم دیا، خواہ وہ کچا ہو یا پکا ہوا ہو، پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کے کھانے کا حکم ہمیں نہیں دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢٢٦) ، الصید ٢٨ (٥٥٢٥، ٥٥٢٦) ، صحیح مسلم/الصید ٥ (١٩٣٨) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ٣١ (٤٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٩٧) (صحیح )
پالتو گدھوں کا گوشت
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی لڑائی لڑی، پھر شام ہوگئی اور لوگوں نے آگ جلائی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا پکا رہے ہو ؟ لوگوں نے کہا : پالتو گدھے کا گوشت (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا : جو کچھ ہانڈی میں ہے اسے بہا دو ، اور ہانڈیاں توڑ دو تو لوگوں میں سے ایک نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ایسا نہ کریں کہ جو ہانڈی میں ہے اسے بہا دیں اور ہانڈی کو دھل (دھو) ڈالیں ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایسا ہی کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٢ (٢٤٧٧) ، صحیح مسلم/الجہاد ٤٣ (١٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٨، ٥٠) (صحیح )
پالتو گدھوں کا گوشت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے منادی نے آواز لگائی : اللہ اور اس کے رسول تمہیں پالتو گدھے کے گوشت سے منع کرتے ہیں، کیونکہ وہ ناپاک ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٣٠ (٢٩٩١) ، المغازي ٣٨ (٤١٩٨) ، الذبائح ٢٨ (٥٥٢٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٥ (٦٩) ، الصیدوالذبائح ٣١ (٤٣٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصید ٦ (١٩٤١) ، مسند احمد (٣/١١١، ١٢١، ١٦٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢١ (٢٠٣٤) (صحیح )
خچر کے گوشت کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے، میں نے کہا : اور خچروں کا ؟ کہا : نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصید ٢٩ (٤٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٠) (صحیح الإسناد )
خچر کے گوشت کا بیان
خالد بن ولید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے، خچر اور گدھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٢٦ (٣٧٩٠) ، سنن النسائی/الذبائح ٣٠ (٤٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٩، ٩٠) (ضعیف) (بقیہ اور صالح بن یحییٰ اور یحییٰ بن المقدام سب ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: سنن ترمذی میں جابر (رض) سے روایت ہے کہ خیبر کے دن رسول اکرم ﷺ نے گھریلو گدھے اور خچر کے گوشت سے منع فرمایا، معلوم ہوا کہ خچر کا گوشت حرام ہے (ملاحظہ ہو : تحفۃ الاحوذی : ج ٢ ص ٣٤٦ ) ۔
پیٹ کے بچہ کو ذبح، اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے جنین (ماں کے پیٹ کے بچے) کے متعلق سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اگر چاہو تو کھاؤ، کیونکہ اس کی ماں کے ذبح کرنے سے وہ بھی ذبح ہوجاتا ہے ١ ؎۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : میں نے کو سج اسحاق بن منصور کو لوگوں کے قول الذکاة لا يقضى بها مذمة کے سلسلے میں کہتے سنا : مذم ۃ ذال کے کسرے سے ہو تو ذمام سے مشتق ہے اور ذال کے فتحہ کے ساتھ ہو تو ذمّ سے مشتق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأضاحي ١٨ (٢٨٢٧) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢ (١٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١، ٣٩، ٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ جنین جب ماں کے ذبح کئے جانے کے بعد مردہ برآمد ہوا ہو تو ایسے جنین کا کھانا حلال ہے، اسے دوبارہ ذبح کرنے کی ضرورت نہیں یہی مذہب اہل حدیث اور جمہور علماء کا ہے، لیکن امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ اسے دوبارہ ذبح کیا جائے گا مگر یہ حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہے۔