29. شکار کا بیان
شکاری اور کھیت کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے کا حکم
عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا، پھر آپ نے فرمایا : انہیں کتوں سے کیا مطلب ؟ پھر آپ نے انہیں شکاری کتے رکھنے کی اجازت دے دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٧ (٢٨٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٧ (٧٤) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٣ (٦٧) ، المیاہ ٧ (٣٣٧، ٣٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٥٦) ، سنن الدارمی/الصید ٢ (٢٠٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کتوں سے کیا مطلب یعنی کتا پالنا بےفائدہ ہے بلکہ وہ نجس جانور ہے، اندیشہ ہے کہ برتن یا کپڑے کو گندہ کر دے، لیکن کتوں کا قتل صحیح مسلم کی حدیث سے منسوخ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کے قتل سے منع کیا، اس کے بعد اور فرمایا : کالے کتے کو مار ڈالو وہ شیطان ہے (انجاح) ۔
شکاری اور کھیت کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے کا حکم
عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کے قتل کا حکم دیا، پھر فرمایا : لوگوں کو کتوں سے کیا مطلب ہے ؟ پھر آپ نے کھیت اور باغ کی رکھوالی کرنے والے کتوں کی اجازت دے دی۔ بندار کہتے ہیں : عین سے مراد مدینہ کے باغات ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے : ثم رخص في كلب الصيد والغنم اس لئے ابن ماجہ کا لفظ تصحیف ہے، صواب الغنم ہے۔ (ملاحظہ ہو : حیاۃ الحیوان للدمیری) ۔ جو کتے کھیت اور باغ کی حفاظت کے لئے پالے جاتے ہیں ان کا پالنا جائز ہے، دوسری روایت میں ریوڑ یعنی جانوروں کی حفاظت کے لئے بھی پالنا آیا ہے، شریعت سے صرف تین ہی کتوں کا جواز ثابت ہے، ایک شکاری کتا، دوسرے باغ یا کھیت کی حفاظت کا، تیسرے ریوڑ کا، اور اس پر قیاس کر کے دوسری ضرورتوں کے لیے کتوں کو بھی پالا جاسکتا ہے، جیسے جنگل میں چور سے حفاظت کے لئے، اور آج کل جاسوسی کے لیے، امید ہے کہ یہ بھی جائز ہو، لیکن بلاضرورت کتا پالنا ہماری شریعت میں جائز نہیں، بلکہ اس سے اجر اور ثواب میں نقصان پڑتا ہے، جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ فرشتے اس مکان میں نہیں جاتے جہاں مورت ہو، یا کتا یعنی رحمت کے فرشتے۔
شکاری اور کھیت کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے کا حکم
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو قتل کردینے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٧ (٣٣٢٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٠) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ٩ (٤٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصید ١٧ (١٤٨٧) ، موطا امام مالک/لإستئذان ٥ (١٤) ، مسند احمد (٢/٢٢، ٢٣، ١١٣، ١٣٢، ١٤٦) ، سنن الدارمی/الصید ٣ (٢٠٥٠) (صحیح )
شکاری اور کھیت کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے کا حکم
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلند آواز سے کتوں کے قتل کا حکم فرماتے ہوئے سنا : اور کتے قتل کئیے جاتے تھے بجز شکاری اور ریوڑ کے کتوں کے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصید ٩ (٤٢٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٠٢) (صحیح )
کتا پالنے سے ممانعت، الا یہ کہ شکار، کھیت یا ریوڑ کی حفاظت کے لئے ہو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کتا پالے گا اس کے عمل میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہوگا، سوائے کھیت یا ریوڑ کے کتے کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحرث ٣ (٢٣٢٣) ، بدء الخلق ١٧ (٣٣٢٤) ، سنن ابی داود/الصید ١ (٢٨٤٤) ، سنن الترمذی/الصید ١٧ (١٤٩٠) ، سنن النسائی/الصید ١٤ (٤٢٩٤) ، مسند احمد (٢/٢٦٧، ٣٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں روزانہ دو قیراط کی کمی کا ذکر ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے شاید کتوں کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جس میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے، اور دوسری وہ ہے جس میں دو قیراط کی کمی ہوتی ہے، بعض لوگوں نے اختلاف مقامات کا اعتبار کیا ہے، اور کہا کہ اگر بےضرورت مکہ یا مدینہ میں کتا پالے تو دو قیراط کی کمی ہوگی اور اس کے علاوہ دیگر شہروں میں ایک قیراط کی کمی ہوگی کیونکہ مکہ اور مدینہ کا افضل اور اعلی مقام ہے، وہاں کتا پالنا زیادہ غیر مناسب ہے۔
کتا پالنے سے ممانعت، الا یہ کہ شکار، کھیت یا ریوڑ کی حفاظت کے لئے ہو
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر کتے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق نہ ہوتے، تو میں یقیناً ان کے قتل کا حکم دیتا، پھر بھی خالص کالے کتے کو قتل کر ڈالو، اور جن لوگوں نے جانوروں کی حفاظت یا شکاری یا کھیتی کے علاوہ دوسرے کتے پال رکھے ہیں، ان کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہوجاتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصید ا (٢٨٤٥ مختصراً ) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣ (١٤٨٦ مختصراً ) سنن النسائی/الصید ١٠ (٤٣٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٥، ٨٦، ٥/٥٤، ٥٦، ٥٧، سنن الدارمی/الصید ٢ (٢٠٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام نووی فرماتے ہیں کہ کاٹنے والے کتوں کو قتل کردینے پر اجماع ہے، امام الحرمین کہتے ہیں کہ پہلے رسول اللہ ﷺ نے سب کتوں کے مارنے کا حکم دیا، پھر یہ منسوخ ہوگیا، اور کالا سیاہ اسی حکم پر باقی رہا، بعد اس کے یہ ٹھہرا کہ جب تک وہ نقصان نہ پہنچائے کسی قسم کا کتا نہ مارا جائے یہاں تک کالا بھجنگ بھی، اور ثواب کم ہونے کا سبب یہ ہوگا کہ فرشتے اس کے گھر میں نہیں جاسکتے جس کے پاس کتا ہوتا ہے، اور بعضوں نے کہا کہ اس وجہ سے کہ لوگوں کو اس کے بھونکنے اور حملہ کرنے سے ایذا ہوتی ہے اور یہ جو فرمایا : اگر مخلوق نہ ہوتی مخلوقات میں سے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کتا بھی کائنات کی مخلوقات میں سے ایک ایسی مخلوق ہے جس ختم کرنا ممکن نہیں، اس لئے قتل کا حکم دینا بےکار ہے، کتنے ہی قتل کرو لیکن جب تک دنیا باقی ہے، دنیا میں کتے ضرور باقی رہیں گے، آپ دیکھئے کہ سانپ، بچھو، شیر اور بھیڑئیے، لوگ سیکڑوں اور ہزاروں سال سے جہاں پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں، مگر کیا یہ حیوانات دنیا سے مٹ گئے ؟ ہرگز نہیں۔
کتا پالنے سے ممانعت، الا یہ کہ شکار، کھیت یا ریوڑ کی حفاظت کے لئے ہو
سفیان بن ابی زہیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص کتا پالے اور وہ اس کے کھیت یا ریوڑ کے کام نہ آتا ہو تو اس کے عمل (ثواب) سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے ، لوگوں نے سفیان (رض) سے پوچھا : آپ نے خود اسے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں قسم ہے اس مسجد کے رب کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٣ (٢٣٢٣) ، بدء الخلق ١٧ (٣٣٢٥) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٦) ، سنن النسائی/الصید ١٢ (٤٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٧٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الإستئذان ٥ (١٢) ، مسند احمد (٥/٢١٩، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/الصید ٢ (٢٠٤٨) (صحیح )
کتے کے شکار کا بیان
ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اہل کتاب (یہود و نصاری) کے ملک میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں ؟ اور ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہے، میں اپنی کمان اور سدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں، اور ان کتوں سے بھی جو سدھائے ہوئے نہیں ہوتے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہی یہ بات جو تم نے ذکر کی کہ ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں تو تم ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، اِلا یہ کہ کوئی چارہ نہ ہو، اگر اس کے علاوہ تم کوئی چارہ نہ پاؤ تو پھر انہیں دھو ڈالو، اور ان میں کھاؤ، رہا شکار کا معاملہ جو تم نے ذکر کیا تو جو شکار تم اپنے کمان سے کرو اس پر اللہ کا نام لے کر شکار کرو اور کھاؤ، اور جو شکار سدھائے ہوئے کتے سے کرو تو کتا چھوڑتے وقت اللہ کا نام لو اور کھاؤ، اور جو شکار ایسے کتے کے ذریعہ کیا گیا ہو جو سدھایا ہوا نہ ہو تو اگر تم اسے ذبح کرسکو تو کھاؤ (ورنہ نہیں) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٤ (٥٤٧٨) ، ١٠ (٥٤٨٨) ، ١٤ (٥٤٩٦) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٣٠) ، سنن ابی داود/الصید ٢ (٢٨٥٥) ، سنن الترمذی/والسیر ١١ (١٥٦٠) ، سنن النسائی/الصید ٤ (٤٢٧١) ، (تحفة الأشرف : ١١٨٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٣، ١٩٤، ١٩٥) ، سنن الدارمی/السیر ٥٦ (٢٥٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اہل حدیث کے نزدیک جو جانور ہتھیار سے شکار کیا جائے (جیسے تیر تلوار، برچھا، بھالا، بندوق وغیرہ سے) یا ان جانوروں کے ذریعہ سے جو زخمی کرتے ہیں (جیسے کتا، چیتا، بازہجری، عقاب وغیرہ) تو حلال ہے، اگرچہ شکار کا جانور ذبح کرنے سے پہلے مرجائے، بشرطیکہ مسلمان شکار کرے، اور جانور یا ہتھیار کو شکار پر چلاتے وقت بسم اللہ کہے، یہی جمہور علماء اور فقہا کی رائے ہے۔
کتے کے شکار کا بیان
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کتوں سے شکار کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم سدھائے ہوئے کتوں کو بسم الله کہہ کر چھوڑو، تو ان کے اس شکار کو کھاؤ جو وہ تمہارے لیے روکے رکھیں، چاہے انہیں قتل کردیا ہو، سوائے اس کے کہ کتے نے اس میں سے کھالیا ہو، اگر کتے نے کھالیا تو مت کھاؤ، اس لیے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کتے نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو، اور اگر اس سدھائے ہوئے کتوں کے ساتھ دوسرے کتے بھی شریک ہوگئے ہوں تو بھی مت کھاؤ ١ ؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن منذر کو کہتے سنا کہ میں نے اٹھاون حج کیے ہیں اور ان میں سے اکثر پیدل چل کر۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضو ٣٣ (١٧٥) ، البیوع ٣ (٢٠٥٤) ، الصید ١ (٥٤٧٥) ، ٢ (٥٤٧٦) ، ٣ (٥٤٧٧) ، ٧ (٥٤٨٣) ، ٩ (٥٤٨٤) ، ١٠ (٥٤٨٥) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن ابی داود/الصید ٢ (٢٨٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصید ١ (١٤٥٦) ، سنن النسائی/الصید ٢ (٤٢٦٩) ، مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٧، ٢٥٨، ٣٧٧، ٣٧٩، ٣٨٠) ، سنن الدارمی/الصید ١ (٢٠٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : ( ١ ) سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے، ( ٢ ) کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو، ( ٣ ) اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بغیر بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے، یہی جمہور علماء کا قول ہے، ( ٤ ) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم الله کہا گیا ہو، ( ٥ ) معلّم کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو، اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا، اور یہ شکار حلال نہ ہوگا، ( ٦ ) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے، تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں۔
مجوسی کے کتے کا شکار
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے یعنی مجوسیوں کے کتے، یا ان کے پرندوں کے شکار (کھانے) سے منع کردیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧١، ومصباح الزجاجة : ١١٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصید ٢ (١٤٦٦) (ضعیف الإسناد) (سند میں حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ترمذی میں، وطائر ھم کا لفظ نہیں ہے نیز ترمذی نے اسے ضعیف کہا ہے )
مجوسی کے کتے کا شکار
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خالص سیاہ کتے کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ شیطان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٠ (٥١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١١ (٧٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٧ (٣٣٨) ، سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٩، ١٥١، ١٥٥، ١٥٨، ١٦٠، ١٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٨ (١٤٥٤) (صحیح )
تیار کمان سے شکار
ابوثعلبہ خشنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس چیز کو کھاؤ جو تمہاری کمان شکار کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٦٧) (صحیح )
تیار کمان سے شکار
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم تیر انداز لوگ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تیر مارو اور وہ (شکار کے جسم میں) گھس جائے، تو جس کے اندر تیر پیوست ہوجائے اسے کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد ابن ماجة بھذا السیاق (تحفة الأشراف : ٩٨٦٨، ومصباح الزجاجة : ١١٠٤) ، قد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٣ (٢٠٥٤) ، الذبائح ٣ (٥٤٧٧) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن ابی داود/الصید ٢ (٢٨٤٧) ، سنن الترمذی/الصید ١ (١٤٦٥) ، ٣ (١٤٦٧) ، سنن النسائی/الصید ٣ (٤٢٧٠) ، مسند احمد (٤، ٢٥٦، ٢٥٨، ٣٨٠) ، سنن الدارمی/الصید ١ (٢٠٤٦) (صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے حدیث صحیح ہے )
شکار رات بھر غائب رہے
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں شکار کرتا ہوں اور شکار مجھ سے پوری رات غائب رہتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم اس شکار میں اپنے تیر کے علاوہ کسی اور کا تیر نہ پاؤ تو اسے کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الذبائح ٨ (٥٤٨٤) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن ابی داود/الصید ٢ (٢٨٤٩، ٢٨٥٠) ، سنن الترمذی/الصید ٣ (١٤٦٩) ، سنن النسائی/الصید ١ (٤٢٦٨) ، ٦ (٤٢٧٣) ، ٨ (٤٢٧٩) ، ١٨ (٤٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٢) (صحیح )
معراض (بے پر اور بے پیکان کے تیر) کے شکار کا بیان
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ہتھیار کی چوڑان سے شکار کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو تیر کی نوک سے مرے اسے کھاؤ، اور جو اس کے عرض (چوڑان) سے مرے وہ مردار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ١ (٥٤٧٥) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن الترمذی/الصید ٧ (١٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٣٧٩، سنن الدارمی/الصید ١ (٢٠٤٥) (صحیح )
معراض (بے پر اور بے پیکان کے تیر) کے شکار کا بیان
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ہتھیار کی چوڑان سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جس شکار میں تیر پیوست ہوا ہو صرف اسی کو کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٣ (٥٤٧٧) ، التوحید ١٣ (٧٣٩٧) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن الترمذی/الصید ا (١٤٦٥) ، سنن النسائی/الصید ٣ (٤٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٨، ٣٧٧، ٣٨٠) (صحیح )
جانور کی زندگی میں ہی اس کا جو حصہ کاٹ لیا جائے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ لیا جائے تو کاٹا گیا حصہ مردار کے حکم میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٣٧، ومصباح الزجاجة : ١١٠٥) (صحیح )
جانور کی زندگی میں ہی اس کا جو حصہ کاٹ لیا جائے
تمیم داری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اخیر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اونٹوں کی کوہان اور بکریوں کی دمیں کاٹیں گے، آ گاہ رہو ! زندہ جانور کا جو حصہ کاٹ لیا جائے وہ مردار کے (حکم میں) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٠، ومصباح الزجاجة : ١١٠٦) (ضعیف جدا) (سند میں ابوبکر الہذلی سخت ضعیف، اور شہر بن حوشب متکلم فیہ راوی ہیں )
مچھلی اور ٹڈی کا شکار
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارے لیے دو مردار : مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٣٨، ومصباح الزجاجة : ١١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٧) (صحیح) (عبدالرحمن ضعیف راوی ہیں، لیکن ان کے اخوان اسامہ و عبداللہ نے ان کی متابعت کی ہے، اس لئے حدیث صحیح ہے )
مچھلی اور ٹڈی کا شکار
سلمان فارسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ٹڈی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ٹڈی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا لشکر ہے، نہ تو میں اسے کھاتا ہوں، اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٥ (٣٨١٣، ٣٨١٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٥) (ضعیف) (حدیث کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف ہے، اور اصل یہ ہے کہ یہ مرسل ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٥٣٣ )
مچھلی اور ٹڈی کا شکار
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بیویاں ٹڈیوں کو پلیٹوں میں رکھ کر بطور ہدیہ بھیجتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٤، ومصباح الزجاجة : ١١٠٨) (ضعیف) (سند میں ابوسعید البقال ضعیف ہیں )
مچھلی اور ٹڈی کا شکار
جابر اور انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ ٹڈیوں کے لیے بد دعا کرتے تو فرماتے : اے اللہ ! بڑی ٹڈیوں کو ہلاک کر دے، چھوٹی ٹڈیوں کو مار ڈال، ان کے انڈے خراب کر دے، اور ان کی اصل (جڑ) کو کاٹ ڈال اور ان کے منہ کو ہماری روزیوں اور غلوں سے پکڑ لے (انہیں ان تک پہنچنے نہ دے) ، بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کیسے اللہ کی ایک فوج کی اصل اور جڑ کاٹنے کے لیے بد دعا فرما رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ٹڈی دریا کی مچھلی کی چھینک ہے ۔ ہاشم کہتے ہیں کہ زیاد (راوی حدیث) نے کہا : تو مجھ سے ایسے شخص نے بیان کیا جس نے مچھلی اسے (ٹڈی کو) چھینکتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٥١، ٢٥٨٥) ، ومصباح الزجاجة : ١١٠٩، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٢٣ (١٨٢٣) (موضوع) (سند میں موسیٰ بن محمد ضعیف اور منکر احادیث والے ہیں، ابن الجوز ی نے حدیث کو الموضوعات میں داخل کیا ہے، اور موسیٰ کو متہم قرار دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١١٢ )
مچھلی اور ٹڈی کا شکار
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے نکلے، تو ہمارے سامنے ٹڈیوں کا ایک گروہ آیا، یا ایک قسم کی ٹڈیاں آئیں، تو ہم انہیں اپنے کوڑوں اور جوتوں سے مارنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہیں کھاؤ یہ دریا کا شکار ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٤٢ (١٨٥٤) ، سنن الترمذی/الحج ٢٧ (٨٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٦، ٣٦٤، ٣٧٤، ٤٠٧) (ضعیف) (سند میں ابوالمہزم متروک راوی ہیں )
جن جانوروں کو مارنا منع ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لٹورا (ایک چھوٹا سا پرندہ) ، مینڈک، چیونٹی اور ہُد ہُد کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٤، ومصباح الزجاجة : ١١١٠) (صحیح) (ابراہیم بن الفضل ضعیف ہیں، لیکن حدیث آگے کی ابن عباس (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے )
جن جانوروں کو مارنا منع ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار جانوروں : چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد اور لٹورا کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٦٤ (٥٢٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٢، ٣٤٧) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٦ (٢١٤٢) (صحیح )
جن جانوروں کو مارنا منع ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انبیاء میں سے ایک نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا، تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر جلا دینے کا حکم دیا، تو وہ جلا دیئے گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی نازل کی کہ آپ نے ایک چیونٹی کے کاٹنے کی وجہ سے امتوں (مخلوقات) میں سے ایک امت (مخلوق) کو تباہ کردیا، جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی تھی ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٥٣ (٣٠١٩) ، بدء الخلق ١٦ (٣٣١٩) ، صحیح مسلم/السلام ٣٩ (٢٢٤١) ، سنن ابی داود/الأدب ١٧٦ (٥٢٦٦) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ٣٨ (٤٣٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣١٩، ١٥٣٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠٣) (صحیح )
چھوٹی کنکری مارنے کی ممانعت
اس سند سے بھی ابن شہاب نے سابقہ طریق سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے، اس میں قَرَصَتْه کی بجائے قَرَصَتْ کا لفظ وارد ہے۔
چھوٹی کنکری مارنے کی ممانعت
سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل (رض) کے ایک رشتہ دار نے کنکری ماری، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے کنکری مارنے سے منع فرمایا ہے، اور فرمایا ہے : نہ اس (کنکری مارنے) سے شکار ہوتا ہے، اور نہ یہ دشمن کو زخمی کرتی ہے، ہاں البتہ اس سے دانت ٹوٹ جاتا ہے، اور آنکھ پھوٹ جاتی ہے ، اس شخص نے پھر کنکری ماری تو عبداللہ بن مغفل (رض) نے کہا : میں تم سے حدیث بیان کر رہا ہوں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، اور تم پھر وہی کام کر رہے ہو، اب میں تم سے کبھی بھی بات چیت نہیں کروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الذبائح ٥ (٥٤٧٩) ، الأدب ١٢٢ (٦٢٢٠) ، صحیح مسلم/الصید ٥٤ (١٩٥٤) ، سنن ابی داود/الأدب ١٦٨ (٥٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٤، ٥/٥٤) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤٠ (٤٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ عبداللہ بن مغفل (رض) نے غصہ سے کہا، معلوم ہوا کہ جو کوئی حدیث کو سن کر یا جان کر بھی اس کے خلاف پر اصرار کرے اس سے ترک تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے، اور ابن عمر (رض) نے حدیث کے خلاف ایک بات کہنے پر اپنے بیٹے کی سرزنش کی، اور ساری عمر اس سے بات نہ کرنے کی بات کہی۔
گرگٹ (اور چھپکلی) کو مار ڈالنا
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کنکری مارنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے : اس سے نہ تو شکار مرتا ہے، اور نہ ہی یہ دشمن کو زخمی کرتی ہے، ہاں البتہ اس سے آنکھ پھوٹ جاتی ہے، اور دانت ٹوٹ جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التفسیر ٥ (٤٨٤١) ، الأدب ١٢٢ (٦٢٢٠) ، صحیح مسلم/الصید ١٠ (١٩٥٤) ، سنن ابی داود/الأدب ١٧٨ (٥٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٨١٩) ، مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٤٦، ٥٤، ٥٥، ٥٦، ٥٧) (صحیح )
گرگٹ (اور چھپکلی) کو مار ڈالنا
ام شریک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلیوں کے مارنے کا حکم دیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٧) ، أحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٥٩) ، صحیح مسلم/السلام ٣٨ (٢٢٣٧) ، سنن النسائی/الحج ١١٥ (٢٨٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٢١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٢٧ (٢٠٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہرچند یہ جانور کسی کو کاٹتے نہیں نہ ایذا دیتے ہیں، لیکن ان سے دل کو نفرت پیدا ہوتی ہے، اور بعضوں نے کہا : یہ زہریلی ہوتی ہیں، بعضوں نے کہا : وہ عرب کے ملک میں اونٹنی کا تھن پکڑ کر دودھ چوس لیتی ہے۔
گرگٹ (اور چھپکلی) کو مار ڈالنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص چھپکلی ایک ہی وار میں مار ڈالے تو اس کے لیے اتنی اور اتنی نیکیاں ہیں، اور جس نے دوسرے وار میں ماری تو اس کے لیے اتنی اور اتنی (پہلے سے کم) نیکیاں ہیں، اور جس نے تیسرے وار میں ماری تو اس کے لیے اتنی اور اتنی (دوسرے سے کم) ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفةالأشراف : ١٢٧٣١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/السلام ٣٨ (٢٢٤٠) ، سنن ابی داود/الأدب ١٧٥ (٥٢٦٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ١ (١٤٨٢) ، مسند احمد (٢/٣٥٥) (صحیح )
گرگٹ (اور چھپکلی) کو مار ڈالنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو فویسقہ چھوٹا فاسق (یعنی موذی) کہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٣١) ، بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٦) ، صحیح مسلم/السلام ٣٨ (٢٢٤٠) ، سنن النسائی/الحج ١١٥ (٢٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٧، ١٥٥، ٢٧١، ٢٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فویسقہ اس کی تحقیر اور تذلیل کے لئے کہا ہے۔
ہر دانت والا درندہ حرام ہے
فاکہ بن مغیرہ کی لونڈی سائبہ کہتی ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آئیں تو انہوں نے آپ کے گھر ایک برچھا رکھا ہوا دیکھا، تو عرض کیا : ام المؤمنین ! آپ اس برچھے سے کیا کرتی ہیں ؟ کہا : ہم اس سے ان چھپکلیوں کو مارتے ہیں، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو روئے زمین کے تمام جانوروں نے آگ بجھائی سوائے چھپکلی کے کہ یہ اسے (مزید) پھونک مارتی تھی، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٣، ومصباح الزجاجة : ١١١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٣، ١٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھپکلی کا قتل مذہبی عداوت کی وجہ سے ہے، چونکہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دشمن تھی، تو سارے مسلمانوں کو اس کا دشمن ہونا چاہیے، اور بعضوں نے کہا : شیطان چھپکلی کی شکل بن کر آگ پھونکتا تھا، اس لئے آپ ﷺ نے اس شکل کو برا جانا، اور اس کے ہلاک کرنے کا حکم دیا، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دشمن کے برے کام کرنے سے کبھی اس کی ساری قوم مطعون ہوجاتی ہے، اور وہ مکروہ سمجھی جاتی ہے۔
ہر دانت والا درندہ حرام ہے
ابوثعلبہ خشنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ زہری کہتے ہیں کہ شام جانے سے پہلے میں نے یہ حدیث نہیں سنی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٩ (٥٥٣٠) ، الطب ٥٧ (٥٧٨٠) ، صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٢) ، سنن ابی داود/الاطعمة ٣٣ (٣٨٠٢) ، سنن الترمذی/الصید ١١ (١٤٧٧) ، سنن النسائی/الصید ٢٨ (٤٣٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصید ٤ (١٣) ، مسند احمد (٤/١٩٣، ١٩٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٨ (٢٠٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ناب اس دانت کو کہتے ہیں جو رباعیہ کے پیچھے ہوتا ہے، اور رباعیہ ثنایا کے ساتھ ہوتے ہیں، ناب کو ہم کچلی (نوک دار اور کتا دانت) کہتے ہیں، کچلیوں والے جانور سے مراد وہ درندہ ہے جس کی کچلیاں ہوں جو شکار کرنے میں قوت کا باعث بنیں مثلاً شیر، بھیڑیا، چیتا اور تندوا وغیرہ۔
ہر دانت والا درندہ حرام ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے کا کھانا حرام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصید ٢٨ (٤٣٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصید ٤ (١٤) ، صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٣) ، سنن الترمذی/الصید ٣ (١٤٦٧) ، مسند احمد (٢/٤١٨) (صحیح )
بھیڑیئے اور لومڑی کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے اور پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرما دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٣ (٣٨٠٥) ، سنن النسائی/الصید ٣٣ (٤٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٤) ، مسند احمد (١/٢٤٤) ، سنن الدارمی/الأضاحی ١٨ (٢٠٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پنجہ والے پرندے سے مراد وہ پرندے ہیں جو پنجہ سے شکار کرتے ہیں، جیسے باز بحری، شکرہ، عقاب، چیل، گدھ وغیرہ، اور الو بھی پنجہ سے شکار کرتا ہے پس وہ اس قاعدے کے موافق حرام ہوگا، لیکن افسوس ہے کہ بعض فقہا حنفیہ کو اس کی خبر نہیں ہوئی، اور انہوں نے اپنی کتابوں میں الو کو حلال لکھا ہے، چناچہ فتاویٰ عالم گیری میں ہے کہ الو کھایا جائے گا، روضہ ندیہ میں ہے کہ کبوتر بھی پنجہ رکھتا ہے لیکن وہ حلال ہے، اسی طرح چڑیا کیونکہ وہ پاک اور نفیس ہیں۔
بجو کا حکم
خزیمہ بن جزء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کی خدمت میں زمین کے کیڑوں کے متعلق سوال کرنے آیا ہوں، آپ لومڑی کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : لومڑی کون کھاتا ہے ؟ پھر میں نے عرض کیا : آپ بھیڑئیے کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کہیں کوئی آدمی جس میں خیر ہو بھیڑیا کھاتا ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٣٣، ومصباح الزجاجة : ١١١٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤ (١٧٩٢) ، مقتصراً علی الجملة الأخیرة) (ضعیف) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز عبد الکریم ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث تو ضعیف ہے لیکن لومڑی شکار کرتی ہے، تو وہ دانت والے درندوں میں سے ہے۔
بجو کا حکم
عبدالرحمٰن بن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے ضبع (لکڑبگھا) ١ ؎ کے متعلق سوال کیا، کیا وہ شکار ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں نے عرض کیا : کیا میں اسے کھاؤں ؟ کہا : ہاں، پھر میں نے عرض کیا : کیا آپ نے (اس سلسلے میں) رسول اللہ ﷺ سے کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٢ (٣٨٠١) ، سنن الترمذی/الحج ٢٨ (٨٥١) ، الأطعمة ٤ (١٧٩٢) ، سنن النسائی/الحج ٨٩ (٢٨٣٩) ، الصید ٢٧ (٤٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣١٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٩٠ (١٩٨٤) (صحیح ) وضاحت : ضبع: ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سر بڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع اضبع ہے (المعجم الوسیط : ٥٣٣ -٥٣٤) ہندو پاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو مضبعہ یا مجفرہ کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکار کرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے ضبع کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں : فارسی زبان میں اسے کفتار اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ ضبع سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑبگڑکھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور ضبع سے مراد لکڑبگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں ضبع کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحید الزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں : ” اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہوگا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے “ سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی ضبع کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے : کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے : شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک) لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر (رض) کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر ٤ /١٥٢) ، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑبگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربک غفور رحيم (سورة الأنعام : 145) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑبگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو : الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : ٥ /١٣٣-١٣٤ )
گوہ کا بیان
خزیمہ بن جزء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ لکڑبگھا کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : لکڑبگھا کون کھاتا ہے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤ (١٧٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٣٣) (ضعیف) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز عبد الکریم بن ابی المخارق ضعیف راوی ہیں )
گوہ کا بیان
ثابت بن یزید انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، لوگوں نے ضب (گوہ) پکڑے اور انہیں بھونا، اور اس میں سے کھایا، میں نے بھی ایک گوہ پکڑی اور اسے بھون کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کیا، آپ ﷺ نے ایک لکڑی لی، اور اس کے ذریعہ اس کی انگلیاں شمار کرنے لگے اور فرمایا : بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ ہو کر زمین میں کا ایک جانور بن گیا، اور میں نہیں جانتا شاید وہ یہی ہو ، میں نے عرض کیا : لوگ اسے بھون کر کھا بھی گئے، پھر آپ ﷺ نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی (اس کے کھانے سے) منع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٢٨ (٣٧٩٥) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ٢٦ (٤٣٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٠) ، سنن الدارمی/الصید ٨ (٢٠٥٩) (صحیح )
گوہ کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ضب (گوہ) کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے اسے ناپسند فرمایا، اور وہ عام چرواہوں کا کھانا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ متعدد بہت سارے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے، اور وہ اگر میرے پاس ہوتی تو اسے میں ضرور کھاتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٣، ومصباح الزجاجة : ١١١٣) (ضعیف) (سند میں قتادہ اور سلیمان بن قیس کے درمیان انقطاع ہے )
گوہ کا بیان
امام ابن ماجہ (رح) نے ایک دوسری سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی یہ روایت بھی نبی کریم ﷺ سے بیان کی ہے۔
گوہ کا بیان
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھ کر لوٹے تو اہل صفہ میں سے ایک شخص نے آپ کو آواز دی، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے ملک میں ضب (گوہ) بہت ہوتی ہے، آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ کوئی امت ہے جو مسخ کردی گئی ہے پھر آپ ﷺ نے نہ اس کے کھانے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید والذبائح ٧ (١٩٥١) ، (تحفة الأشراف : ٤٣١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥، ١٩، ٦٦) (صحیح )
خرگوش کا بیان
خالد بن ولید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ ﷺ نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ١ ؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد (رض) نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ضب (گوہ) حرام ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں ، (یہ سن کر) خالد (رض) نے ضب (گوہ) کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو کھایا، اور رسول اللہ ﷺ انہیں دیکھ رہے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٠ (٥٣٩١) ، ١٤ (٥٤٠٠) ، الذبائح ٣٣ (٥٥٣٧) ، صحیح مسلم/الذبائح ٧ (١٩٤٦) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٨ (٣٧٩٤) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ٢٦ (٤٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الإستئذان ٤ (١٠) ، مسند احمد (٤/٨٨، ٨٩) ، سنن الدارمی/الصید ٨ (٢٠٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں یونس نے زہری سے مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کسی کھانے کو اپنے ہاتھ میں لیتے یہاں تک کہ آپ کو اس کے بارے میں بتادیا جاتا، اسحاق بن راہویہ اور بیہقی نے شعب الإیمان میں عمر (رض) سے یہ نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آپ کو ہدیہ دینے کے لیے ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا اور آپ ہدیہ کا کھانا اس وقت تک نہ کھاتے تھے جب تک کہ صاحب ہدیہ کو اس کے کھانے کا حکم نہ دیتے، جب وہ کھا لیتا تو آپ بھی کھاتے، ایسا اس واسطے کرتے تھے کہ خیبر میں آپ کے پاس (مسموم) بھنی بکری یہودی عورت نے پیش کی تھی (اور اس سے آپ متاثر ہوگئے تھے تو بعد میں احتیاطی تدبیر کے طور پر ہدیہ دینے والے سے کھانے کی ابتداء کراتے تاکہ کسی سازش کا خطرہ نہ رہ جائے) (حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے) ٢ ؎: صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل ہے کہ خالد بن ولید نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے گھر گئے، اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ میمونہ (رض) نے ہی نبی اکرم ﷺ کو یہ بتایا تھا کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، اور صحیح بخاری کے کتاب الأطعمہ میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ضب (گوہ) نہ کھا کر پنیر کھائی اور دودھ پیا۔ اس حدیث میں آپ کے گھن اور کراہت کا سبب یہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں ضب (گوہ) نہیں پائی جاتی تھی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ ضب (گوہ) کا گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا، حافظ ابن حجر حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حدیث میں وارد بأرض قومي کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قوم سے مراد قریش ہیں، تو ضب (گوہ) کے نہ پائے جانے کا معاملہ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ سے متعلق ہوگا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حجاز کے دوسرے علاقے میں ضب (گوہ) موجود ہی نہ ہو صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ مدینہ میں ایک دلہا نے ہمیں دعوت ولیمہ دی اور ہمارے سامنے تیرہ ضب (گوہ) پیش کیے تو کسی نے کھایا اور کسی نے نہیں کھایا، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علاقہ حجاز میں ضب (گوہ) بکثرت پائی جاتی ہے، اس حدیث میں صرف خالد (رض) کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ضب (گوہ) کا گوشت کھایا، صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے لوگوں سے کہا کہ تم ضب (گوہ) کا گوشت کھاؤ تو فضل بن عباس، خالد اور مذکورہ عورت نے کھایا، شعبی نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا : ضب (گوہ) کھاؤ اور کھلاؤ، اس لیے کہ یہ حلال ہے یا فرمایا کوئی حرج نہیں، لیکن یہ میری خوراک نہیں ، ان تصریحات سے پتہ چلا نبی اکرم ﷺ نے ضب (گوہ) کا گوشت صرف اس واسطے نہ کھایا کہ آپ کو اس کے کھانے کی سابقہ عادت نہ تھی۔ (الفریوائی )
خرگوش کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں حرام نہیں کرتا یعنی ضب (گوہ) کو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصید ٣٣ اتم منہ (٥٥٣٦) ، صحیح مسلم/الصید ٧ اتم منہ (١٩٤٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣ (١٧٩٠) ، موطا امام مالک/الإستئذان ٤ (١١) ، مسند احمد (٢/٩، ١٠، ٣٣، ٤١، ٤٦، ٦٠، ٦٢، ٧٤، ١١٥) ، سنن الدارمی/الصید ٨ (٢٠٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ١ ۔ جمہورعلماء کے نزدیک ضب (گوہ) کا گوشت کھانا حلال ہے، ابن ماجہ نے اس باب میں کئی احادیث کا ذکر کیا ہے، جس سے اس کی حلت واضح ہے، ضب (گوہ) امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے دسترخوان پر رکھی گئی، ساتھ میں دودھ اور پنیر بھی تھا، دسترخوان پر نبی اکرم ﷺ بھی تشریف فرما تھے، یہودی عورت کے گوشت میں زہر ملا دینے اور اس سے رسول اللہ ﷺ کے متاثر ہوجانے کے بعد آپ دسترخوان پر موجود چیزوں کے بارے میں سوال کرتے تھے، اور احتیاط کے نقطہ نظر سے یہ بڑی اچھی بات تھی، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کو یہ بات معلوم تھی، یہ بھی واضح رہے کہ آپ بہت نفاست پسند تھے، جبریل (علیہ السلام) قرآن لے کر آتے تو ان سے ملاقات کے سلسلے میں بھی ہر طرح کی صفائی ستھرائی اور نظافت مطلوب تھی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علاقہ حجاز میں آپ کے عہد میں ضب (گوہ) نہ پائی جاتی تھی یا کم پائی جاتی تھی، یا مکہ میں بالخصوص قبیلہ قریش میں ضب (گوہ) کھانے کا رواج نہ تھا، علاقہ میں نہ ہونے کی وجہ سے یا کم پائے جانے کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ عام طور پر بدؤں اور دیہاتیوں کی غذا تھی تو جب نبی اکرم ﷺ کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، تو آپ نے اس کے نہ کھانے کا یہ عذر کیا کہ اس سے طبیعت کو گھن آتی ہے، جی نہیں بھرتا کہ اس سے پہلے کبھی اس کے کھانے کا تجربہ نہیں ہوا اور دودھ اور پنیر پر اکتفا کیا، ضب (گوہ) کے دسترخوان پر ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ امہات المؤمنین کے یہاں اور دوسرے صحابہ کے یہاں بلاکراہت کھانا جائز تھا اور آپ کے دسترخوان پر خالد بن ولید نے اسے مزے لے کر کھایا بھی، اس طرح سے آپ نے اس پر صاد کیا اس کو تقریری سنت کہتے ہیں، اگر ضب (گوہ) حرام ہوتی یا اس کی کراہت کا علم ہوتا تو آپ کی موجودگی میں اس دسترخوان پر اسے کوئی نہ کھاتا اس لیے اس واقعہ سے ضب (گوہ) کی حرمت لازم نہیں آتی۔ شافعی، مالک، احمد اور اکثر فقہاء اور اہل حدیث کے یہاں یہ حلال ہے، اور اس کی حلت کے ثبوت میں بہت سی احادیث وارد ہیں، حرمت کی کوئی دلیل قوی نہیں ہے، سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ضب (گوہ) کھانے سے منع کیا، اس کی سند ضعیف ہے۔ ابن ماجہ نے اوپر ٣٢٤٢ نمبر کی حدیث ذکر فرمائی ہے، بخاری میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں : الضب لست آكله ولا أحرمه ( ٥٥٣٦ ) (ضب۔ گوہ۔ نہ میں کھاتا ہوں نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں) ۔ صحیح مسلم میں یہ تفصیل ہے کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے ضب (گوہ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے سابقہ جواب دیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ سوال و جواب منبر رسول پر ہوا، نیز ابن عباس (رض) کی حدیث جو اوپر ( ٣٢٤١ ) نمبر پر گزری سے بھی ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : اس حدیث سے ضب (گوہ) کا گوشت کھانا جائز ہے، قاضی عیاض نے ایک جماعت سے اس کی حرمت نقل کی ہے، اور حنفیہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل ہے، نووی اس نقل کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میرے خیال میں کسی سے بھی (اس کے حرام یا مکروہ ہونے) کا قول صحیح اور ثابت نہیں ہے، اور اگر صحیح بھی ہو تو جواز و حلت کے نصوص سے اور پہلے لوگوں کے اجماع سے یہ رائے مرجوح ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : ابن المنذر نے علی (رض) سے اس کا مکروہ ہونا نقل کیا ہے تو علی (رض) کی مخالفت کی صورت میں یہ کون سا اجماع ہوا ؟۔ نیز امام ترمذی نے بعض اہل علم سے اس کی کراہت نقل کی ہے۔ امام طحاوی معانی الأثار میں کہتے ہیں : ایک جماعت نے ضب (گوہ) کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے، ان میں ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد بن الحسن ہیں، نیز فرمایا : محمد بن الحسن نے عائشہ (رض) کی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ضب (گوہ) ہدیہ میں آئی، تو آپ نے اسے نہ کھایا، ایک سائل کھڑا ہوا، عائشہ (رض) نے اسے ضب (گوہ) کو دینا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا جو چیز تم نہیں کھا رہی ہو وہ سائل کو دو گی ۔ طحاوی کہتے ہیں : اس حدیث میں کراہت کی دلیل اس احتمال کی وجہ سے نہیں ہے کہ عائشہ (رض) نے ضب (گوہ) کے گوشت سے گھن کی ہو تو اللہ کے رسول نے یہ سوچا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صرف بہترین کھانا ہی پیش کیا جائے، جیسا کہ ردی کھجور دینے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ عبدالرحمن بن حسنہ (رض) سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بھوک کا شکار ہوئے، اور صحابہ کرام کو کچھ ضب (گوہ) ملیں تو انہوں نے اسے پکایا، ابھی یہ ہانڈیوں پر ابل ہی رہی تھیں کہ اس کا علم نبی اکرم ﷺ کو ہوا تو آپ نے اسے انڈیل دینے کا حکم دیا، اس میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل کی ایک قوم مسخ کر کے زمین پر رینگنے والی مخلوق بنادی گئی تھی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ضب (گوہ) وہی مسخ شدہ مخلوق نہ ہو، اس لیے اسے انڈیل دو (اس حدیث کو احمد نے مسند میں روایت کیا ہے، اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے، اور طحاوی نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : اس کی سند شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے صرف ایک راوی ضحاک سے بخاری و مسلم نے روایت نہیں کی ہے، طحاوی نے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ کو خبر دی گئی کہ لوگوں نے ضب (گوہ) کو بھونا اور اسے کھایا تو نہ تو آپ نے کھایا اور نہ اس کے کھانے سے منع کیا۔ مذکورہ بالا احادیث سے ہر طرح سے ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت جائز ہے، اس بارے میں نصوص صریح ہیں، تو جن احادیث میں ضب (گوہ) کے گوشت کھانے کی ممانعت وارد ہے، اس کے درمیان اور حلال ثابت کرنے والی احادیث کے درمیان توفیق و تطبیق یوں دی جائے گی کہ نبی اکرم ﷺ نے پہلے جب پکی ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا تھا تو وہ اس خیال کی بنا پر تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ جانور ہی تو نہیں ہے، پھر بعد میں توقف فرمایا تو نہ تو اس کے کھانے کا حکم دیا اور نہ اس کے کھانے سے روکا، اور جب آپ کو اس بات کا علم ہوگیا کہ مسخ شدہ اقوام کی نسل نہیں باقی رہتی تو آپ نے کھانے کی اجازت دے دی، پھر اس کے بعد آپ ضب (گوہ) سے گھن کرنے کی وجہ سے نہ اسے کھاتے تھے نہ اسے حرام قرار دیتے تھے، اور جب وہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئی تو اس سے اس کا مباح ہونا ثابت ہوگیا، کراہت ان آدمیوں کے حق میں ہے جو اس سے گھن کرتے ہوں تو یہ ان کے حق میں کراہت تنزیہی ہوگی، یعنی نہ کھانا ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے، اور جن لوگوں کو ضب (گوہ) سے گھن نہیں آتی ان کے لیے احادیث سے ضب (گوہ) کا کھانا جائز اور مباح ٹھہرا، اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ گوہ مطلقاً مکروہ ہے۔ امام طحاوی ضب (گوہ) سے متعلق احادیث و آثار کی روایت کے بعد فرماتے ہیں : ان آثار سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ضب (گوہ) کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور میں بھی اس کا قائل ہوں، اوپر عائشہ (رض) کی حدیث جس میں یہ ہے کہ انہوں نے ہدیہ میں آئی ضب (گوہ) کو سائل کو دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے کہا کہ جو چیز تم نہیں کھاتی کیا تم اسے سائل کو دو گی ! اس کے بارے میں امام طحاوی کہتے ہیں کہ اس سے محمد بن حسن نے اپنے اصحاب کے لیے دلیل پکڑی ہے، محمد بن حسن کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس چیز کو اللہ کے رسول نے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مکروہ سمجھا، امام طحاوی اس پر تعاقب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قصہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ آیت کریمہ : ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه (سورة البقرة :267) کے قبیل سے ہو، پھر خراب کھجور کو صدقہ میں دینے کی کراہت سے متعلق احادیث ذکر کیں اور براء بن عازب (رض) کی یہ حدیث نقل کی کہ لوگ اپنی سب سے خراب کھجوروں کو صدقہ میں دینا پسند کرتے تھے تو آیت کریمہ : أنفقوا من طيبات ما کسبتم (سورة البقرة :267) نازل ہوئی، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے یہ ناپسند کیا کہ عائشہ ضب (گوہ) کو صدقہ میں دیں اس لیے نہیں کہ وہ حرام ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طحاوی نے محمد بن حسن کے نزدیک کراہت کو تحریمی سمجھا، جب کہ معروف یہ ہے کہ حنفیہ کی اکثریت کراہت تنزیہی کی قائل ہے، بعض لوگوں کا میلان تحریم کی طرف ہے، ان کی تعلیل یہ ہے کہ احادیث مختلف ہیں، اور پہلے کون ہے اور بعد میں کون ؟ اس کا جاننا مشکل ہے، اس لیے ہم نے تحریم کو راجح قرار دیا ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : تحریم کے قائل کا یہ دعویٰ کہ پہلے کون ہے اور بعد میں کون ؟ یہ جاننا مشکل ہے، سابقہ احادیث کی بنا پر ممنوع ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : فتح الباری شرح صحیح البخاری، حدیث نمبر ٥٥٣٧ ) ، (نیز : المحلی لإبن حزم ٦ /١١٢، مسألہ نمبر ١٠٣٢ ، و الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ٥ /١٤٢، توضیح الأحکام للبسام) (حررہ الفریوائی )
خرگوش کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ مرالظہران سے گزرے، تو ہم نے ایک خرگوش کو چھیڑا (اس کو اس کی پناہ گاہ سے نکالا) ، لوگ اس پر دوڑے اور تھک گئے، پھر میں نے بھی دوڑ لگائی یہاں تک کہ میں نے اسے پا لیا، اور اسے لے کر ابوطلحہ (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے اس کو ذبح کیا، اور اس کی پٹھ اور دم گزا نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجی تو آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٥ (٢٥٧٢) ، الصید ١٠ (٥٤٨٩) ، ٣٢ (٥٥٣٥) ، صحیح مسلم/الصید ٩ (١٩٥٣) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٧ (٣٧٩١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢ (١٧٩٠) ، سنن النسائی/الصید ٢٥ (٤٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ١٧١، ٢٩١) ، سنن الدارمی/الصید ٧ (٢٠٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مرالظہران مکہ کے قریب ایک وادی کا نام ہے۔ جمہور اہل سنت خرگوش کے گوشت کی حلّت کے قائل ہیں، روافض اسے حرام کہتے ہیں لیکن حدیث صحیح سے اس کی حلت ثابت ہے۔
جو مچھلی مر کر سطح آب پر آجائے؟
محمد بن صفوان (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے دو خرگوش لٹکائے ہوئے گزرے، اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے یہ دونوں خرگوش ملے، اور مجھے کوئی لوہا نہیں ملا، جس سے میں انہیں ذبح کرتا، اس لیے میں نے ایک (تیز) پتھر سے انہیں ذبح کردیا، کیا میں انہیں کھاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١٥ (٢٨٢٢) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ٢٥ (٤٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧١) ، سنن الدارمی/الصید ٧ (٢٠٥٧) (صحیح )
جو مچھلی مر کر سطح آب پر آجائے؟
خزیمہ بن جزء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا کہ آپ سے زمین کے کیڑوں کے متعلق سوال کروں، آپ ضب (گوہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہ تو میں اسے کھاتا ہوں، اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں میں نے عرض کیا : میں تو صرف ان چیزوں کو کھاؤں گا جسے آپ نے حرام نہیں کیا ہے، اور آپ (ضب) کیوں نہیں کھاتے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : قوموں میں ایک گروہ گم ہوگیا تھا اور میں نے اس کی خلقت کچھ ایسی دیکھی کہ مجھے شک ہوا (یعنی شاید یہ ضب۔ گوہ۔ وہی گمشدہ گروہ ہو) میں نے عرض کیا : آپ خرگوش کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی حرام قرار دیتا ہوں ، میں نے عرض کیا : میں تو ان چیزوں میں سے کھاؤں گا جسے آپ حرام نہ کریں، اور آپ خرگوش کھانا کیوں نہیں پسند کرتے ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے خبر دی گئی ہے کہ اسے حیض آتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٣٣، ومصباح الزجاجة : ١١١٤) (ضعیف) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبدالکریم ضعیف ہیں )
کوے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے ۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوعبیدہ الجواد سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا : یہ آدھا علم ہے اس لیے کہ دنیا بحر و بر یعنی خشکی اور تری کا نام ہے، تو آپ نے سمندر کے متعلق مسئلہ بتادیا، اور خشکی (کا مسئلہ) باقی رہ گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤١ (٨٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٢ (٦٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٧ (٥٩) ، الصید ٣٥ (٤٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٣ (١٢) ، مسند احمد (٢/٣٧، ٣٦١، ٣٧٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٢ (٧٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحابہ کی ایک جماعت، تابعین، مالک، شافعی اور اہل حدیث کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے اور ابوحنیفہ کے نزدیک ناجائز، ان کی دلیل آگے آتی ہے، امام نووی کہتے ہیں : سمندر کے سب مردے حلال ہیں، خواہ خود بخود مرجائیں یا شکار سے مریں، اور مچھلی کی حلت پر اجماع ہے لیکن طافی مچھلی (یعنی جو مر کر خود بخود پانی پر تیر آئے) میں اختلاف ہے، اصحاب شافعیہ کے نزدیک مینڈک حرام ہے، اور باقی سمندر کے جانوروں میں تین قول ہیں : ایک یہ کہ سمندر کے کل جانور حلال ہیں، دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں ہے، تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں، ان کی شبیہ سمندر میں بھی حلال ہے جیسے سمندری گھوڑے، سمندری بکری، سمندری ہرن اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں، ان کے شبیہ سمندر میں بھی حرام ہے جیسے سمندری کتا، سمندری سور۔ واللہ اعلم۔
کوے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس جانور کو سمندر نے کنارے پر ڈال دیا ہو یا پانی کم ہوجانے سے وہ مرجائے تو اسے کھاؤ، اور جو سمندر میں مر کر اوپر آجائے اسے مت کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٦ (٣٨١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٧) (ضعیف) (سند میں یحییٰ بن سلیم طائفی ضعیف راوی ہیں )
بلی کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ کوّا کون کھائے گا ؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو فاسق کہا، اللہ کی قسم وہ پاک چیزوں میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٦، ومصباح الزجاجة : ١١١٥) (صحیح) (شریک القاضی سئی الحفظ ہیں، لیکن دوسرے طریق سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٨٢٥ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی طیبات میں سے جو حلال ہے بلکہ یہ خبائث میں سے ہے اس سے کوے کی حرمت ثابت ہوئی۔