30. کھانوں کے ابواب

【1】

کھانا کھلانے کی فضیلت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سانپ فاسق ہے، بچھو فاسق ہے، چوہا فاسق ہے اور کوا فاسق ہے ۔ قاسم سے پوچھا گیا : کیا کوا کھایا جاتا ہے ؟ کہا : رسول اللہ ﷺ کے فاسق کہنے کے بعد اسے کون کھائے گا ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٨، ومصباح الزجاجة : ١١١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٠٩، ٢٣٨) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٨٢٥ )

【2】

کھانا کھلانے کی فضیلت

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٤ (٣٤٨٠) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٩ (١٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٩٤) (ضعیف) (سند میں عمر بن زید ضعیف ہیں، اسی لئے ترمذی نے حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہا ہے، سنن ابن ماجہ کے دارالمعارف کے نسخہ میں البانی صاحب نے ضعیف کہا ہے، اور الإرواء : کا حوالہ دیا ہے، ( ٢٤٨٧ ) ، اور سنن أبی داود کے دارالمعارف کے نسخہ میں صحیح کہا ہے، اور احادیث البیوع کا حوالہ دیا ہے، جب کہ ارواء الغلیل میں حدیث کی تخریج کے بعد ضعیف کا حکم لگایا ہے )

【3】

کھانا کھلانے کی فضیلت

عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف تیزی سے بڑھے، اور کہا گیا کہ اللہ کے رسول آگئے، اللہ کے رسول آگئے، اللہ کے رسول آگئے، یہ تین بار کہا، چناچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ پہنچا تاکہ (آپ کو) دیکھوں، جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا، اس وقت سب سے پہلی بات جو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنی وہ یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز ادا کرو، (ایسا کرنے سے) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : أنظرحدیث رقم : ١٣٣٤، (تحفة الأشراف : ٥٣٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب یہ سارے اچھے کام کرو گے تو ضرور تم کو جنت ملے گی، سبحان اللہ کیا عمدہ نصیحتیں ہیں، اور یہ سب اصولی ہیں، سعادت و نیک بختی اور خوش اخلاقی کے ناتے جوڑنا، یعنی اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا، امام نووی کہتے ہیں کہ ابتداً سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر جماعت کو سلام کرے تو بعضوں کا جواب دینا کافی ہوگا، اور افضل یہ ہے کہ جماعت میں ہر ایک ا بتداء سلام کرے، اور ہر ایک جواب ضروری دے اور کم درجہ یہ ہے کہ السلام علیکم کہے اور کامل یہ ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے، اور السلام علیکم تو اتنی آواز سے کہنا کہ مخاطب سنے، اسی طرح سلام کا فوری جواب دینا ضروری ہے، جب کوئی شخص غائب کی طرف سے سلام پہنچائے اور بہتر ہے کہ یوں کہے علیک وعلیہ السلام، السلام علیکم الف ولام کے ساتھ افضل ہے، سلام علیکم بغیر الف اور لام کے بھی درست ہے، اور قرآن شریف میں ہے : سلام عليكم طبتم فادخلوها خالدين (سورة الزمر : 73) ۔

【4】

ایک شخص کا کھانا دو کے لئے کافی ہوجاتا ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، اور بھائی بھائی ہوجاؤ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٦٧٠، ومصباح الزجاجة : ١١١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥٦) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٥٨٧ )

【5】

ایک شخص کا کھانا دو کے لئے کافی ہوجاتا ہے

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا اسلام بہتر ہے ١ ؎؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کھانا کھلانا، ہر شخص کو سلام کرنا، چاہے اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٦ (١٢) ، ٢٠ (٢٨) ، الاستئذان ٩ (٦٢٣٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٤ (٣٩) ، سنن ابی داود/الأدب ١٤٢ (٥١٩٤) ، سنن النسائی/الإیمان ١٢ (٥٠٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسلام میں کون سا عمل بہتر ہے۔

【6】

مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٣٣ (٢٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٢١ (١٨٢٠) ، مسند احمد (٢/٤٠٧، ٣/٣٠١، ٣٠٥، ٣٨٢) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٤، ٢٠٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب ایک آدمی پیٹ بھر کھاتا ہو، تو وہ دو آدمیوں کو کافی ہوجائے گا، اس پر گزارہ کرسکتے ہیں گو خوب آسودہ نہ ہوں، بعضوں نے کہا : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کھانے کی قلت ہو، اور مسلمان بھوکے ہوں، تو ہر ایک آدمی کو مستحب ہے کہ اپنے کھانے میں ایک اور بھائی کو شریک کرے، اس صورت میں دونوں زندہ رہ سکتے ہیں اور کم کھانے میں فائدہ بھی ہے کہ آدمی چست چالاک رہتا ہے اور صحت عمدہ رہتی ہے، بعضوں نے کہا : مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کے کھانے میں دو بھائی مسلمان شریک ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھائیں گے، تو وہ کھانا دونوں کو کفایت کر جائے گا، اور برکت ہوگی، واللہ اعلم۔

【7】

مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے، دو کا کھانا تین اور چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا پانچ اور چھ کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٣٥، ومصباح الزجاجة : ١١١٨) (ضعیف جدا) (سند میں عمرو بن دینار ہیں، جنہوں نے سالم سے منکر احادیث روایت کی ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٥٦١ )

【8】

مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٢ (٥٣٧٦، ٥٣٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الأشربة ٣٤ (٢٠٦٢، ٢٠٦٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢٠ (١٨١٨، ١٨١٩) ، موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ٦ (٩) ، مسند احمد (٢/٢١، ٤٣، ٧٤، ١٤٥، ٢٥٧، ٤١٥، ٤٣٥، ٤٣٧، ٤٥٥، ٣/٣٣٣، ٣٤٦، ٣٥٧، ٣٩٢، ٤/٣٣٦، ٥/٣٧٠، ٦/٣٣٥، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٣ (٢٠٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر کئی طرح کا کھانا کھاتا ہے، سود کا، رشوت کا، غبن کا، چوری کا، ڈاکہ کا، بددیانتی کا، ملاوٹ کا، اور مومن صرف حلال کا کھانا کھاتا ہے۔ حدیث کا مقصود یہ ہے کہ کافر بہت کھاتا ہے اور مومن کم کھاتا ہے نیز یہ بات بطور اکثر کے ہے یہ مطلب نہیں کہ بہت کھانے والے کافر ہی ہوتے ہیں بعض مسلمان بھی بہت کھاتے ہیں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کی تمام تر حرص پیٹ ہوتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت ہوا کرتی ہے پس مومن کی شان ہے کہ وہ کھانا کم کھاتا ہے اور زیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔

【9】

کھانے میں عیب نکالنا منع ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے، اور مومن صرف ایک آنت میں کھاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٣٤ (٢٠٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٢ (٥٣٩٤، ٥٣٩٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢٠ (١٨١٨) ، مسند احمد (٢/٢١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٣ (٢٠٨٤) (صحیح )

【10】

کھانے سے قبل ہاتھ دھونا (اور کلی کرنا)

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو یہ پسند کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گھر میں خیر و برکت زیادہ کرے، اسے چاہیئے کہ وضو کرے جب دوپہر کا کھانا آجائے، اور جب اسے اٹھا کر واپس لے جایا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٥، ومصباح الزجاجة : ١١١٩) (ضعیف) (سند میں جبارہ بن المغلس اور کثیر بن سلیم دونوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١١٧ )

【11】

کھانے سے قبل ہاتھ دھونا (اور کلی کرنا)

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء سے نکلے تو کھانا لایا گیا، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں آپ کے لیے وضو کا پانی نہ لاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں نماز ادا کرنا چاہتا ہوں ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٢٩، ومصباح الزجاجة : ١١٢٠) (حسن صحیح) (سند میں صاعد بن عبید مقبول ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: جو وضو ضروری ہو، معلوم ہوا کہ کھانے سے پہلے وضو ضروری نہیں صرف ہاتھ دھونا ہی کافی ہے۔

【12】

تکیہ لگا کر کھانا

ابوحجیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٣ (٥٣٩٨، ٥٣٩٩) ، سنن ابی داود/الأطعمة ١٧ (٣٧٦٩) ، سنن الترمذی/الاطعمة ٢٨ (١٨٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٨، ٣٠٩) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣١ (٢١١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تکیہ لگا کر کھانا تکبر اور گھمنڈ کی نشانی ہے، اس وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے اس سے پرہیز کیا، اور بعضوں نے کہا : عجمیوں کی نشانی ہے جو تکلف میں پھنسے ہوئے ہیں، اور آپ عرب میں پیدا ہوئے تھے بےتکلفی کو پسند کرتے تھے۔

【13】

تکیہ لگا کر کھانا

عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک بکری ہدیہ کے طور پر بھیجی، آپ ﷺ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے کھانے لگے، اس پر ایک اعرابی (دیہاتی) نے کہا : بیٹھنے کا یہ کون سا انداز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مہربان و شفیق بندہ بنایا ہے، ناکہ مغرور اور عناد رکھنے والا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٠٢، ومصباح الزجاجة : ١١٢١) ، وقد أخرج بعضہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٨ (٣٧٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دونوں زانو کھڑے کر کے بیٹھنا عاجزی اور انکساری کی علامت ہے، آپ ﷺ نے اسی طرح بیٹھ کر کھانا پسند فرمایا۔

【14】

کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے چھ صحابہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) آیا، اور اس نے اسے دو لقموں میں کھالیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : سنو، اگر یہ شخص بسم الله کہہ لیتا، تو یہی کھانا تم سب کے لیے کافی ہوتا، لہٰذا تم میں سے جب کوئی کھانا کھائے تو چاہیئے کہ وہ (بسم الله ) کہے، اگر وہ شروع میں (بسم الله ) کہنا بھول جائے تو یوں کہے : بسم الله في أوله وآخره ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٦٧، ومصباح الزجاجة : ١١٢٢) ، وقد أخر جہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٦ (٣٧٦٧) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٤٧ (١٨٥٨) ، مسند احمد (٦/١٤٣، ٢٠٧، ٢٤٦، ٢٦٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١ (٢٠٦٣) (صحیح) (عبد بن عبید بن عمیر اور ام المؤمنین عائشہ (رض) کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن حدیث امیہ بن مخشی اور ابن مسعود (رض) کے شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ١٩٦٥ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہوں شروع اور اخیر دونوں میں۔

【15】

کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا

عمر بن ابی سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ جب میں کھانے جا رہا تھا تو مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کا نام لو، ، یعنی بسم الله کہہ کر کھانا شروع کرو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤٧ (١٨٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢ (٥٣٧٦) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٣ (٢٠٢٢) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٠ (٣٧٧٧) ، موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ١٠ (٣٢) ، مسند احمد (٤/٢٧) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١ (٢٠٦٢) (صحیح )

【16】

دائیں ہاتھ سے کھانا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں ہر شخص کو چاہیئے کہ وہ دائیں ہاتھ سے کھائے، دائیں ہاتھ سے پیئے، دائیں ہاتھ سے لے، دائیں ہاتھ سے دے، اس لیے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے، بائیں ہاتھ سے پیتا ہے، بائیں ہاتھ سے دیتا ہے اور بائیں ہاتھ سے لیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٢٠، ومصباح الزجاجة : ١١٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٩) (صحیح )

【17】

دائیں ہاتھ سے کھانا

عمر بن ابی سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور نبی اکرم ﷺ کے زیر تربیت تھا، میرا ہاتھ پلیٹ میں چاروں طرف چل رہا تھا ١ ؎، تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : لڑکے ! بسم الله کہو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور اپنے قریب سے کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢ (٥٣٧٦) ، صحیح مسلم/الإشربة ١٣ (٢٠٢٢) ، سنن النسائی/الیوم و اللیلة (٢٧٨، ٢٧٩، ٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ١٠ (٣٢) ، مسند احمد (٤/ ٢٦) ، سنن الدارمی/الأطمة ١ (٢٠٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میں ہر طرف سے اٹھا اٹھا کر کھا رہا تھا۔

【18】

دائیں ہاتھ سے کھانا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بائیں ہاتھ سے مت کھاؤ، اس لیے کہ بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٣ (٢٠١٩) ، اللباس ٢٠ (٢٠٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٤ (٤١٣٧) ، موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ٤ (٥) ، مسند احمد (٣/٣٣٤، ٣٤٩) (صحیح )

【19】

کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنے ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ وہ چاٹ لے یا کسی اور کو چٹا دے، سفیان (ابن عیینہ) کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن قیس کو عمرو بن دینار سے سوال کرتے سنا کہ عطا کی حدیث : تم میں سے کوئی اپنا ہاتھ نہ صاف کرے یہاں تک کہ وہ اسے چاٹ لے یا کسی اور کو چٹا دے کے بارے میں بتاؤ، وہ کس سے مروی ہے ؟ عمرو بن دینار نے کہا : ابن عباس (رض) سے مروی ہے، انہوں نے کہا : ہمیں یہ حدیث جابر (رض) سے روایت کی گئی ہے، عمرو بن دینار نے کہا : ہم نے یہ حدیث عطاء سے اور عطاء نے ابن عباس (رض) سے یاد کی ہے، اور یہ بات جابر (رض) کے ہمارے پاس آنے سے پہلے کی ہے جب کہ عطاء کی ملاقات جابر (رض) سے اس سال ہوئی جب وہ مکہ میں قیام پزیر ہوئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث جابر تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤٦٧) ، وحدیث ابن عباس أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٢ (٥٤٥٦) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٨ (٢٠٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٥٢ (٣٨٤٧) ، مسند احمد (١/٢٩٣، ٣٤٦، ٣٧٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٦ (٢٠٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اپنی بیوی یا بچہ یا لونڈی یا غلام کو، امام نووی کہتے ہیں کہ کھانے کی سنت میں سے یہ ہے کہ انگلیاں چاٹنا، اور تین انگلیوں سے کھانا، اور انگلیاں نہ چاٹنا کھانا ضائع کرنا ہے، اور شیطان کو دینا ہے، اور تکبر کی نشانی ہے، اسی طرح جو لقمہ دسترخوان پر گرجائے اس کا اٹھا لینا سنت ہے۔

【20】

کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو صاف نہ کرے یہاں تک کہ اسے چاٹ لے، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٨ (٢٠٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٣١، ٣٣٧، ٣٦٥، ٣٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ سنت ہے گو اس زمانہ میں بعض متکبر دنیا دار اس کو تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں، وہ خود بےتہذیب ہیں، جب آدمی پاک صاف ہو، اور ہاتھ دھو کر کھانا کھائے، تو انگلیاں چاٹنے میں کیا قباحت ہے، البتہ ہاتھ نجس ہو اور چمچہ سے کھانا کھائے تو نہ چاٹے، اس سے پہلا ادب یہ بتلایا گیا ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانے یا پینے کا آغاز کیا جائے، دوسرا ادب یہ کہ داہنے ہاتھ سے کھایا جائے، اور تیسرا ادب یہ ہے کہ اپنے سامنے اور اپنے قریب سے کھایا جائے، اس صورت میں ہے کہ جب کھانا کسی بڑے برتن (طباق سینی یا تھالی وغیرہ) میں ہو اور بیک وقت کئی افراد مل کر کھا رہے ہوں، اور کھانا بھی ایک ہی قسم کا ہو اگر مختلف اقسام کی چیزیں ہوں، تو پھر دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی ہاتھ بڑھا کر چیز لینا جائز ہوگا۔

【21】

پیالہ صاف کرنا

ام عاصم بیان کرتی ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کے غلام نبیشہ (رض) آئے، اس وقت ہم ایک بڑے پیالے میں کھانا کھا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : جو شخص کسی بڑے پیالے میں کھاتا ہے پھر چاٹ کر صاف کرتا ہے، اس کے لیے یہ پیالہ استغفار کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ١١ (١٨٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٦) ، سنن الدارمی/الأطمة ٧ (٢٠٧٠) (ضعیف) (سند میں ام عاصم مجہول الحال ہیں )

【22】

پیالہ صاف کرنا

معلی بن راشد ابوالیمان بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میری دادی نے ہذیل کے نبیشہ الخیر نامی شخص سے نقل کیا کہ ایک بار جب ہم اپنے ایک بڑے پیالے میں کھا رہے تھے نبیشہ (رض) ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص کسی پیالے میں کھائے، اور اسے چاٹ کر صاف کرلے تو یہ پیالہ اس کے لیے استغفار کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (ضعیف) (سند میں ام عاصم مجہول الحال ہیں )

【23】

اپنے سامنے سے کھانا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دستر خوان لگایا جائے تو ہر شخص کو اس جانب سے کھانا چاہیئے جو اس سے قریب ہو، وہ اپنے ساتھی کے سامنے سے نہ کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٧، ومصباح الزجاجة : ١١٢٤) (ضعیف جدا) (عبدالاعلی بن اعین نے ابن ابی کثیر سے منکر احادیث روایت کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : المشکاة : ٤٢٥٤ )

【24】

اپنے سامنے سے کھانا

عکراش بن ذویب (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک لگن لایا گیا جس میں بہت سا ثرید اور روغن تھا، ہم سب اس میں سے کھانے لگے، میں اپنا ہاتھ پیالے میں ہر طرف پھرا رہا تھا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عکراش ! ایک جگہ سے کھاؤ، اس لیے کہ یہ پورا ایک ہی کھانا ہے ، پھر ایک طبق لایا گیا جس میں مختلف اقسام کی تازہ کھجوریں تھیں تو رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ طبق میں چاروں طرف گھومنے لگا، آپ ﷺ نے فرمایا : عکراش ! جہاں سے جی چاہے کھاؤ، اس لیے کہ اس میں کئی طرح کی کھجوریں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤١ (١٨٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٦) (ضعیف) (علاء بن فضل ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٠٩٨ )

【25】

ثرید کے درمیان سے کھانا منع ہے۔

عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک پیالا لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے اطراف سے کھاؤ، اور اس کی چوٹی یعنی درمیان کو چھوڑ دو کہ اس میں برکت ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٨ (٣٧٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥١٩٩) (صحیح )

【26】

ثرید کے درمیان سے کھانا منع ہے۔

واثلہ بن اسقع لیثی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ثرید کے اونچے حصہ پر ہاتھ رکھا، اور فرمایا : بسم اللہ کہہ کر اس کے اطراف سے کھاؤ، اور اس کے اونچے حصہ کو چھوڑ دو ، اس لیے کہ برکت اس کے اوپر والے حصے سے ہی آتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٤٣، ومصباح الزجاجة : ١١٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٠) (صحیح )

【27】

ثرید کے درمیان سے کھانا منع ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کھانا رکھ دیا جائے تو اس کے کنارے سے لو، اور درمیان کو چھوڑ دو ، اس لیے کہ برکت اس کے درمیان میں نازل ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٨ (٣٧٧٢) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٢ (١٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٠، ٣٠٠، ٣٤٣، ٣٤٣، ٣٤٥، ٣٦٤) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٦ (٢٠٩٠) (صحیح )

【28】

نوالہ نیچے گر جائے تو؟

معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ دوپہر کا کھانا کھانے کے دوران ایک لقمہ ان سے گرگیا ، تو انہوں نے اسے اٹھایا، اور اس میں لگے کچرے کو صاف کیا، پھر اسے کھالیا (یہ دیکھ کر) عجمی کسان ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کرنے لگے، لوگوں نے کہا : اللہ امیر کا بھلا کرے، آپ کے سامنے یہ کھانا موجود ہوتے ہوئے اس لقمے کو آپ کے اٹھانے پر یہ کسان لوگ آنکھوں سے باہم اشارے کر رہے ہیں، وہ بولے : ان عجمیوں کی (چہ مہ گوئیوں اور اشارے بازیوں کی) وجہ سے میں اس بات کو ترک کرنے والا نہیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، ہم میں سے جب کسی کا لقمہ گر جاتا تو ہم اس سے کہتے کہ وہ اسے اٹھا لے اور اس میں لگی گندگی کو صاف کرلے پھر اسے کھالے، اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے ا ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦٩، ومصباح الزجاجة : ١١٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الأطعمة ٨ (٢٠٧٢) (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا سماع معقل بن یسار سے نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث جابر و انس (رض) سے ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیثیں جن میں شیطان کے کھانے کا ذکر ہے اپنے ظاہری معنوں پر ہیں، اور مجازی معنی مراد نہیں ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو علم اپنے نبی کو دیا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ فرشتوں اور شیاطین کا حال بھی جانتے تھے، اور ان کا پھرنا زمین میں ہے۔

【29】

نوالہ نیچے گر جائے تو؟

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے ہاتھ سے لقمہ گرجائے، تو اسے چاہیئے کہ اس پر جو گندگی لگ گئی ہے اسے پونچھ لے اور اسے کھالے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٨ (٢٠٣٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١١ (١٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٥) (صحیح )

【30】

ثرید باقی کھانوں سے افضل ہے

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مردوں میں بہت سے لوگ کامل ہوئے لیکن عورتوں میں سوائے مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے کوئی کامل نہیں ہوئی، اور عائشہ (رض) کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی باقی تمام کھانوں پر ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٣٢ (٣٤١١) ، ٤٦ (٣٤٣٣) ، فضائل الصحابة ٣٠ (٤٧٦٩) ، الأطعمة ٢٥ (٥٤١٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٢ (٢٤٣١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣١ (١٨٣٤) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٣ (٣٣٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٤، ٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ثرید بلا دقت بن جاتا ہے، اور اس کے ساتھ جلدی ہضم ہونے والا، خوش ذائقہ، مقوی، اور بےحد نفع بخش ہے، ایسے ہی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے مسلمانوں کو بہت فوائد حاصل ہوئے، اور سیکڑوں مسئلے معلوم ہوئے۔

【31】

ثرید باقی کھانوں سے افضل ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں پر عائشہ (رض) کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسے ثرید کی باقی تمام کھانوں پر ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٧٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٦) ، سنن الترمذی/المناقب ٦٢ (٣٨٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٦، ٢٦٤) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٩ (٢١١٣) (صحیح )

【32】

کھانے کے بعد ہاتھ پونچھنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہمیں کھانا کم ہی میسر ہوتا تھا، اور جب ہمیں کھانا میسر ہوجاتا تو ہمارے پاس رومال اور تو لیے نہیں ہوتے تھے، سوائے اپنی ہتھیلیوں، بازوؤں اور پاؤں کے، پھر ہم نماز پڑھتے، اور دوبارہ وضو نہیں کرتے۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے، یہ صرف محمد بن سلمہ سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٣ (٥٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٥١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧٥ (١٩١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٩ (٨٠) (صحیح) (ابن ماجہ کے سند کی البانی صاحب نے تضعیف کی ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابن ماجہ، و سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٦٧٥ ، اور ابن حجر نے محمد بن ابی یحییٰ کی تعیین فرمائی ہے کہ وہ ابن فلیح ہیں، اور ان فلیح کی کنیت ابو یحییٰ ہے، کیونکہ دونوں روایتوں کا سیاق ایک ہی ہے، فتح الباری ٩ /٥٧٩ )

【33】

کھانے کے بعد کی دعا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کھالیتے تو یہ دعا پڑھتے : الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمين یعنی حمد وثناء ہے اس اللہ کی جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور مسلمان بنایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٥٧ (٣٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٥٣ (٣٨٥٠) ، مسند احمد (٣/٣٢، ٩٨) (ضعیف) (سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز مولی ابو سعید مبہم ہیں ملاحظہ ہو : المشکاة : ٤٣٠٤ ) وضاحت : ١ ؎: یہ بڑی نعمت ہے کہ دین حق کی توفیق بخشی، اگر دنیا بہت ہو اور دین تباہ ہو تو بڑی مصیبت کی بات ہے، چند روز میں یہاں سے جانا ہے، ساری دنیا پڑی رہ جائے گی ہم چل دیں گے، ہمارے ساتھ جو جائے گا، وہ ہمارا دین ہے، یا اللہ ! تو اپنے فضل سے سچے دین پر ہمیشہ قائم رکھ اور خاتمہ بالخیر فرما، آمین یارب العالمین۔

【34】

کھانے کے بعد کی دعا

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ جب کھانا یا جو کچھ سامنے ہوتا اٹھا لیا جاتا تو نبی اکرم ﷺ فرماتے : الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا غير مكفي ولا مودع ولا مستغنى عنه ربنا اللہ تعالیٰ کی بہت بہت حمد وثناء ہے، وہ نہایت پاکیزہ اور برکت والا ہے، وہ سب کو کافی ہے اس کے لیے کوئی کافی نہیں، اسے نہ چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی بےنیاز ہوسکتا ہے، اے ہمارے رب ! (ہماری دعا سن لے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٤ (٥٤٥٨) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٥٣ (٣٨٤٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٥٧ (٣٤٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٢، ٢٥٦، ٢٦١، ٢٦٧) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣ (٢٠٦٦) (صحیح )

【35】

کھانے کے بعد کی دعا

معاذ بن انس جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص کھانا کھا کر یہ دعا پڑھے : الحمد لله الذي أطعمني هذا ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة غفر له ما تقدم من ذنبه حمد وثناء اور تعریف ہے اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کھلایا، اور بغیر میری کسی طاقت اور زور کے اسے مجھے عطا کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١ (٤٠٢٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ٥٦ (٣٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٩) (حسن )

【36】

مل کر کھانا

وحشی بن حرب حبشی (رض) سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : شاید الگ الگ متفرق ہو کر کھاتے ہو ، لوگوں نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : کھانا مل جل کر ایک ساتھ کھاؤ، اور اللہ کا نام لیا کرو، تو اس میں تمہارے لیے برکت ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٥ (٣٧٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠١) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٩٧) ۔ وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا اجتماعی کھانا شکم سیری اور حصول برکت کا سبب ہے اور اس سے گریز بےبرکتی کا باعث ہے۔

【37】

مل کر کھانا

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سب مل کر کھانا کھاؤ، اور الگ الگ ہو کر مت کھاؤ، اس لیے کہ برکت سب کے ساتھ مل کر کھانے میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٣٥، ومصباح الزجاجة : ١١٢٧) (ضعیف جدا) (عمرو بن دینار قہرمان آل الزبیر نے سالم سے منکر احادیث روایت کی ہے، اس لئے حدیث ضعیف ہے، لیکن پہلا جملہ کلوا جميعا ولا تفرقوا ثابت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٦٩١ ، تراجع الألبانی : رقم : ٣٦١ )

【38】

کھانے میں پھونک مارنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھانے پینے کی چیزوں میں نہ پھونک مارتے تھے، اور نہ ہی برتن کے اندر سانس لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأشربة ٢٠ (٣٧٢٨) ، سنن الترمذی/الأشربة ١٥ (١٨٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١٤٩) ، وقد أخرجہ : حم ١/٢٢٠، ٣٠٩ ھ ٣٥٧) ، سنن الدارمی/الأشربة ٢٧ (٢١٨٠) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی سئی الحفظ ہیں، جنہوں نے حدیث کو فعل رسول بنادیا، جب کہ یہ قول رسول سے ثابت ہے کہ آپ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے، جب کہ مؤلف کے یہاں : ( ٣٤٢٩ ) نمبر پر آ رہا ہے )

【39】

جب خادم کھانا (تیار کرکے) لائے تو کچھ کھانا اسے بھی دینا چاہیے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لے کر آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ خادم کو اپنے ساتھ بیٹھائے اور اس کے ساتھ کھائے، اور اگر اپنے ساتھ کھلانا پسند نہ کرے تو اسے چاہیئے کہ وہ کھانے میں سے اسے بھی دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٥ (٥٤٦٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٠ (١٦٦٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٤٤ (١٨٥٣) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٥١ (٣٨٤٦) ، مسند احمد (٢/٣١٦) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣٣ (٢١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ مروت اور احسان ہے اگرچہ اس خادم کے لئے کھانا مقرر نہ ہو، نقد ہو یا اس کا کھانا الگ ہو خادم سے عام مراد ہے لونڈی ہو یا غلام مزدور یا نوکر یا خدمت کرنے والا وغیرہ، سبحان اللہ، اسلام کے اور مسلمانوں کے مثل کس شریعت اور کس قوم میں اخلاق ہیں کہ مالک اور غلام دونوں ایک ساتھ مل کر کھائیں، اور دونوں ایک سا کپڑا پہنیں اگرچہ اب بعض مغرور متکبر مسلمان ان پر عمل نہ کرتے ہوں۔

【40】

جب خادم کھانا (تیار کرکے) لائے تو کچھ کھانا اسے بھی دینا چاہیے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کا غلام جب اس کے سامنے کھانا پیش کرے جس کو تیار کرنے میں اس نے اس کی طرف سے تکلیف اور گرمی برداشت کی ہے، تو اسے چاہیئے کہ اسے بھی بلائے تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ کھائے، اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کو چاہیئے کہ ایک لقمہ لے کر اس کے ہاتھ پر رکھ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العتق ١٨ (٢٥٥٧) ، صحیح مسلم/الأیمان ١٠ (١٦٦٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٤٤ (١٨٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٥) (صحیح )

【41】

جب خادم کھانا (تیار کرکے) لائے تو کچھ کھانا اسے بھی دینا چاہیے۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا غلام کھانا لے کر آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ غلام کو اپنے ساتھ بٹھائے، یا یہ کہ اس میں سے اسے بھی دے، اس لیے کہ وہی تو ہے جس نے اس کی گرمی اور اس کے دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٩٤، ومصباح الزجاجة : ١١٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤٦) (حسن صحیح) (سند میں ابراہیم بن مسلم الہجری ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٠٤ - ١٠٤٣ )

【42】

خوان اور دستر کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خوان (میز) پر کبھی نہیں کھایا، اور نہ سکرجہ (چھوٹی طشتری) ١ ؎ میں کھایا۔ قتادہ نے انس (رض) سے پوچھا : پھر آپ ﷺ کس چیز پر کھاتے تھے ؟ انس (رض) نے کہا : دستر خوان پر۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٨ (٥٣٨٦) ، ٢٣ (٥٤١٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١ (١٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سکرجہ (چھوٹی طشتری) میں چٹنی اور کھٹائی وغیرہ رکھی جاتی ہے جس سے کھانے کی خواہش بڑھتی ہے یہ عیش پسندوں کا طریقہ ہے آپ کو یہ چیز پسند نہیں تھی۔

【43】

خوان اور دستر کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کو دستر خوان پر کھاتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٨ (٥٣٨٥) ، الرقاق ١٦ (٦٤٥٠) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١ (١٨٨٨) ، الزہد ٣٨ (٢٣٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٠) (صحیح )

【44】

کھانا اٹھائے جانے سے قبل اٹھنا اور لوگوں کے فارغ ہونے سے قبل ہاتھ روک لینا منع ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ لوگ کھانا اٹھائے جانے سے پہلے اٹھ جائیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦٨، ومصباح الزجاجة : ١١٢٩) (ضعیف جدا) (سند میں ولید بن مسلم مدلس اور مکحول ضعیف اور منیر بن زبیر کثیر الارسال راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٩٤ )

【45】

کھانا اٹھائے جانے سے قبل اٹھنا اور لوگوں کے فارغ ہونے سے قبل ہاتھ روک لینا منع ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دستر خوان لگا دیا جائے تو کوئی شخص اس کے اٹھائے جانے سے پہلے نہ اٹھے، اور نہ ہی اپنا ہاتھ کھینچے گرچہ وہ آسودہ ہوچکا ہو جب تک کہ دوسرے لوگ بھی کھانے سے فارغ نہ ہوجائیں، (اور اگر ایسا کرنا ضروری ہو) تو عذر پیش کر دے، اس لیے کہ آدمی اپنے ساتھی سے شرماتا ہے تو اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ابھی اس کو کھانے کی حاجت ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٧، ومصباح الزجاجة : ١١٣٠) (ضعیف جدا) (سند میں عبدالاعلی ہیں جنہوں نے ابن أبی کثیر سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٣٨ )

【46】

جس کے ہاتھ میں چکناہٹ ہو اور وہ اسی حالت میں رات گزار دے۔

رسول اللہ ﷺ کی بیٹی فاطمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! وہ شخص خود اپنے ہی کو ملامت کرے جو رات اس طرح گزارے کہ اس کے ہاتھ میں چکنائی کی بو ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٢، ومصباح الزجاجة : ١١٣١) (حسن) (سند میں جبارہ ضعیف ہے، لیکن ابوہریرہ (رض) کی آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )

【47】

جس کے ہاتھ میں چکناہٹ ہو اور وہ اسی حالت میں رات گزار دے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص جب اس حالت میں سوئے کہ اس کے ہاتھ میں چکنائی کی بو ہو، اور اس نے اپنا ہاتھ نہ دھویا ہو، پھر اسے کسی چیز نے نقصان پہنچایا تو وہ خود اپنے ہی کو ملامت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٥٤ (٣٨٥٢) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٤٨ (١٨٦٠) ، مسند احمد (٢/ ٢٦٣، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٧ (٢١٠٧) (صحیح )

【48】

کسی کے سامنے کھانا پیش کیا جائے تو؟

اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کھانا لایا گیا تو آپ ﷺ نے ہم سے کھانے کو کہا، ہم نے عرض کیا : ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ بھوک اور غلط بیانی کو اکٹھا نہ کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : آداب الزفاف : ٩٢، المشکاة : ٣٢٥٦ ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ کوئی کھانے کو کہے تو بھوک رکھ کر یوں کہتے ہیں : مجھے خواہش نہیں ہے، آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا، اگر بھوک ہے تو کھانا کھا لینا چاہیے ورنہ غلط بیانی میں بھوکا رہے، اور عذاب میں مبتلا ہو۔

【49】

کسی کے سامنے کھانا پیش کیا جائے تو؟

انس بن مالک (رض) (جو قبیلہ بنی عبدالاشہل کے ایک شخص ہیں) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : آؤ کھانا کھاؤ، ، میں نے عرض کیا : میں روزے سے ہوں، تو ہائے افسوس کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں سے کیوں نہیں کھالیا۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : (١٦٦٧) (حسن صحیح )

【50】

مسجد میں کھانا

عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجد میں روٹی اور گوشت کھایا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٣٨، ومصباح الزجاجة : ١١٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسجد کے اندر کھانے میں کچھ حرج نہیں خصوصاً مسافروں کے لئے اور جن لوگوں کے گھر نہیں ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ مسجد کو آلودہ، اور گندہ، اور غلیظ نہ کریں۔

【51】

کھڑے کھڑے کھانا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چلتے پھرتے کھاتے تھے، اور کھڑے کھڑے پیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأشربة ١١ (١٨٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠٨، ١٢، ٢٤، ٢٩) ، سنن الدارمی/ الأشربة ٢٣ (٢١٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھڑے رہ کر یا چلتے چلتے کھانا پینا درست ہے بعضوں نے اس کو مکروہ کہا ہے، اور زمزم کے پانی کو خاص کیا ہے کہ اس کا کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے، باقی سب پانیوں کو بیٹھ کر پینا بہتر ہے، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پینے سے منع کیا ہے، البانی صاحب سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ( ٢٨٩ ؍ ١) میں فرماتے ہیں کہ اس باب میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے، (یعنی کھڑے ہو کر نہ پینا زیادہ بہتر ہے) اور کھڑے ہو کر پینے والے سے جو آپ نے قے کرنے کے لیے کہا تو یہ مستحب ہے، لیکن ابن حزم نے ان کی مخالفت کی اور کھڑے ہو کر پینے کو حرام کہا، شاید کہ یہی مذہب صحت سے زیادہ قریب ہے، کھڑے ہو کر پینے والی احادیث کے بارے میں اس بات کا امکان ہے کہ ان کو عذر پر محمول کیا جائے، جیسے جگہ کا تنگ ہونا یا مشک کا لٹکا ہوا ہونا بعض احادیث میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے، واللہ اعلم۔ (ملاحظہ ہو : الأختیارات الفقہیۃ للأمام الألبانی ٤٧٧ )

【52】

کدو کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کدو پسند فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٠ (٢٠٩٢) ، الأطعمة ٤ (٥٣٧٩) ، ٢٥ (٥٤٢٠) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢١ (٢٠٤١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٤٢ (١٨٥٠) ، موطا امام مالک/النکاح ٢١ (٥١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٩ (٢٠٩٥) (صحیح )

【53】

کدو کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ ام سلیم (رض) نے میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک ٹوکرا بھیجا، جس میں تازہ کھجور تھے، میں نے آپ کو نہیں پایا، آپ ﷺ اپنے ایک غلام کے پاس قریب میں تشریف لے گئے تھے، اس نے آپ کو دعوت دی تھی، اور آپ کے لیے کھانا تیار کیا تھا، آپ کھا رہے تھے کہ میں بھی جا پہنچا تو آپ نے مجھے بھی اپنے ساتھ کھانے کے لیے بلایا، (غلام نے) گوشت اور کدو کا ثرید تیار کیا تھا، میں دیکھ رہا تھا کہ آپ ﷺ کو کدو بہت اچھا لگ رہا ہے، تو میں اس کو اکٹھا کر کے آپ ﷺ کی طرف بڑھانے لگا، پھر جب ہم اس میں سے کھاچکے، تو آپ اپنے گھر واپس تشریف لائے، میں نے (تازہ کھجور کا) ٹوکرا آپ کے سامنے رکھ دیا، آپ ﷺ کھانے لگے اور آپ تقسیم بھی کرتے جاتے تھے، یہاں تک کہ اسے بالکل ختم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٥٩، ومصباح الزجاجة : ١١٣٤) (صحیح )

【54】

کدو کا بیان

جابر (جابر بن طارق) (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آپ کے گھر گیا، آپ کے پاس یہ کدو رکھا ہوا تھا تو میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ قرع یعنی کدو ہے، ہم اس سے اپنے کھانے زیادہ کرتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢١١، ومصباح الزجاجة : ١١٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٣، ١٧٧، ٢٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سالن بڑھاتے ہیں۔

【55】

گوشت (کھانے) کا بیان

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اہل دنیا اور اہل جنت کے کھانوں کا سردار گوشت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٧٥، ومصباح الزجاجة : ١١٣٦) (ضعیف جدا) (سلیمان جزری منکر الحدیث ہیں، اس حدیث کو ابن الجوزی نے الموضوعات میں ذکر کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٧٢٤ )

【56】

گوشت (کھانے) کا بیان

ابوالدرد ١ ء (رض) کہتے ہیں کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو گوشت کی دعوت دی گئی ہو اور اسے آپ نے قبول نہ کیا ہو، اور نہ ہی ایسا ہوا کہ آپ کو گوشت کا ہدیہ بھیجا گیا ہو اور آپ نے اسے قبول نہ فرمایا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٧٦) (ضعیف جدا) (سلیمان بن عطاء منکر الحدیث راوی ہے )

【57】

جانور کے کونسے حصے کا گوشت عمدہ ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک دن گوشت آیا، تو آپ کو دست کا گوشت پیش کیا گیا، اس لیے کہ وہ آپ کو بہت پسند تھا تو آپ نے اس میں سے دانت سے نوچ کر کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن سورة ١٧ (٤٧١٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٤ (١٩٤) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣٤ (١٨٣٧) ، القیامة ١٠ (٢٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣١، ٤٣٥) (صحیح )

【58】

جانور کے کونسے حصے کا گوشت عمدہ ہے

عبداللہ بن جعفر (رض) نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے جنہوں نے لوگوں کے لیے ایک اونٹ ذبح کر رکھا تھا بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت فرماتے سنا ہے جب لوگ آپ کے لیے گوشت ڈال رہے تھے : سب سے عمدہ اور لذیذ پٹھے کا گوشت ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٢٧، ومصباح الزجاجة : ١١٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٤، ٢٠٥) (ضعیف) (محمد بن عبد اللہ کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٨١٣ )

【59】

بھنا ہوا گوشت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھنی ہوئی بکری دیکھی ہو یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٧ (٦٤٥٧) ، الأطعمة ٢٦ (٥٣٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٨، ١٣٤، ٢٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سمیط وہ بکری جس کو بال نکال کر کھال سمیت بھونا گیا ہو، یہ امیروں کا کھانا ہے، اور دوسرے لوگ کھال نکال کر گوشت بھونتے ہیں، اور مطلب اس کا یہ ہے کہ مکمل بھنی ہوئی بکری آپ ﷺ نے نہیں دیکھی۔

【60】

بھنا ہوا گوشت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے بچا ہوا بھنا گوشت نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی آپ کے ساتھ کبھی دری (چٹائی) لے جائی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٦، ومصباح الزجاجة : ١١٣٨) (ضعیف) (جبارہ اور کثیر بن سلیم دونوں ضعیف ہیں )

【61】

بھنا ہوا گوشت

عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بھنا ہوا گوشت کھایا، پھر ہم نے اپنے ہاتھ کنکریوں سے پونچھ لیے، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور ہم نے (پھر سے) وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٣٢، ومصباح الزجاجة : ١١٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩١) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف راوی ہیں، فمسحنا أيدينا بالحصباء کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح أبی دادو : ١٨٧ ) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٣٠٠ )

【62】

دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت

ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا، آپ نے اس سے گفتگو کی تو (خوف کی وجہ سے) اس کے مونڈھے کانپنے لگے، آپ ﷺ نے اس سے کہا : ڈرو نہیں، اطمینان رکھو، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی ١ ؎۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : صرف اسماعیل نے اسے موصول بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٦، ومصباح الزجاجة : ١١٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قدید: ایسے گوشت کو کہتے ہیں جسے نمک لگا کر دھوپ میں سکھایا گیا ہو۔

【63】

دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم لوگ قربانی کے گوشت میں سے پائے اکٹھا کر کے رکھ دیتے پھر رسول اللہ ﷺ پندرہ روز کے بعد انہیں کھایا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٧ (٥٤٢٣) ، سنن الترمذی/الأضاحي ١٤ (١٥١١) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٨، ١٣٦) ، (حدیث مکرر ہے، دیکھے : ٣١٥٩) (صحیح )

【64】

کلیجی اور تلی کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کر دئیے گئے ہیں : رہے دونوں مردار تو وہ مچھلی اور ٹڈی ہے، اور رہے دونوں خون : تو وہ جگر (کلیجی) اور تلی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٣٨، ومصباح الزجاجة : ١١٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٧) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہے، سلیمان بن بلال نے ان کی متابعت کی ہے لیکن عمر (رض) پر موقوف کیا ہے، اور وہ حکما مرفوع ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١١١٨ ) وضاحت : ١ ؎: یہ دونوں بھی خون ہیں گو جمے ہوئے سہی۔

【65】

نمک کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے سالنوں کا سردار نمک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨، ومصباح الزجاجة : ١١٤٢) (ضعیف) (عیسیٰ بن ابی عیسیٰ متروک ہے )

【66】

سرکہ بطور سالن

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سرکہ کیا ہی عمدہ سالن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٣٠ (٢٠٥١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣٥ (١٨٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الأطعمة ١٨ (٢٠٩٣) (صحیح )

【67】

سرکہ بطور سالن

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سرکہ کیا ہی عمدہ سالن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٤٠ (٣٨٢٠) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣٥ (١٨٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الأشربة الأطعمة ٣٠ (٢٠٥٢) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ٢٠ (٣٨٢٧) ، مسند احمد (٣/٣٠٤، ٣٧١، ٣٨٩، ٣٩٠، سنن الدارمی/الأطعمة ١٨ (٢٠٩٢) (صحیح )

【68】

سرکہ بطور سالن

ام سعد (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آئے، میں انہیں کے پاس تھی، آپ نے سوال کیا : کیا کچھ کھانے کو ہے ؟ عائشہ (رض) نے جواب دیا : ہمارے پاس روٹی، کھجور اور سرکہ ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سرکہ کیا ہی عمدہ سالن ہے، اے اللہ ! سر کے میں برکت عطا فرما، اس لیے کہ مجھ سے پہلے انبیاء کا سالن یہی تھا، اور ایسا گھر کبھی فقر کا شکار نہیں ہوا جس میں سرکہ موجود ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٢١، ومصباح الزجاجة : ١١٤٣) (موضوع) (عنبسہ بن عبدالرحمن اور محمد بن زاذان کی وجہ سے یہ موضوع ہے، لیکن پہلا جملہ ثابت ہے، جیسا کہ اوپر گذرا، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٢٢٠ )

【69】

روغن زیتون کا بیان

عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زیتون کا تیل بطور سالن استعمال کرو، اور اس کو اپنے سر اور بدن میں لگاؤ اس لیے کہ یہ مبارک درخت سے نکلتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤٣ (١٨٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٩٢) ، وقد أخرخہ : مسند احمد (٣/٤٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو شجرہ مبارکہ فرمایا ہے۔

【70】

روغن زیتون کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زیتون کا تیل بطور سالن استعمال کرو، اور اس کو سر اور بدن میں لگاؤ، اس لیے کہ یہ بابرکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٣٨، ومصباح الزجاجة : ١١٤٤) (ضعیف جدا) (عبد اللہ بن سعید متروک ہیں، اور حدیث کا معنی ثابت ہے، کماتقدم )

【71】

دودھ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب دودھ آتا تو فرماتے : ایک برکت ہے یا دو برکتیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨١، ومصباح الزجاجة : ١١٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٥) (ضعیف) (جعفر بن برد اور ام سالم الراسبیہ دونوں ضعیف ہیں )

【72】

دودھ کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کو اللہ تعالیٰ کھانا کھلائے اسے چاہیئے کہ وہ یوں کہے : اللهم بارک لنا فيه وارزقنا خيرا منه اے اللہ ! تو ہمارے لیے اس میں برکت عطا کر اور ہمیں اس سے بہتر روزی مزید عطا فرما اور جسے اللہ تعالیٰ دودھ پلائے تو چاہیئے کہ وہ یوں کہے اللهم بارک لنا فيه وزدنا منه اے اللہ ! تو ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما اور مزید عطا کر کیونکہ سوائے دودھ کے کوئی چیز مجھے نہیں معلوم جو کھانے اور پینے دونوں کے لیے کافی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأشربة ٢١ (٣٧٣٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٥٥ (٣٤٥١) (حسن )

【73】

میٹھی چیزوں کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حلوا (شیرینی) اور شہد پسند فرماتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٨ (٥٢٦٧) ، الأطعمة ٣٢ (٥٤٣١) ، الأشربة ١٠ (٥٥٩٩) ، ١٥ (٥٦١٤) ، الطب ٤ (٥٦٨٢) ، الحیل ١٢ (٦٩٧٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ٣ (١٤٧٤) ، سنن ابی داود/الأشربة ١١ (٣٧١٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢٩ (١٨٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٩) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣٤ (٢١١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فطری طور پر میٹھا انسان کو پسند ہے، اور شہد میٹھا بھی ہے اور اس کے ساتھ مفید بھی، قرآن مجید میں ہے : فيه شفاء للناس (سورة النحل : 69) شہد میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔

【74】

ککڑی اور تر کھجور ملا کر کھانا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں میری ماں میرے موٹا ہونے کا علاج کرتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ وہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کرسکیں، لیکن کوئی تدبیر بن نہیں پڑی، یہاں تک کہ میں نے ککڑی کھجور کے ساتھ ملا کر کھائی، تو میں اچھی طرح موٹی ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ ککڑی کھجور کے ساتھ بدن کو موٹا کرتی ہے، اور مزیدار بھی ہے۔

【75】

ککڑی اور تر کھجور ملا کر کھانا

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تر کھجور کے ساتھ ککڑی کھاتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٣٩ (٥٤٤٠) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢٣ (٢٠٤٣) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٤٥ (٣٨٣٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣٧ (١٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٣) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٤ (٢١٠٢) (صحیح )

【76】

ککڑی اور تر کھجور ملا کر کھانا

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تر کھجور تربوز کے ساتھ ملا کر کھایا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٧٩٢، ومصباح الزجاجة : ١١٤٦) (صحیح) (سند میں یعقوب بن ولید ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٥٧ - ٩٨ مختصر الشمائل المحدیہ : ١٧٠ )

【77】

کھجور کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس گھر میں کھجور نہ ہو وہ گھر والے بھوکے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٢٦ (٢٠٤٦) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٤٢ (٣٨٣١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٧ (١٨١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الأطعمة ٢٦ (٢١٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد اہل مدینہ اور وہ لوگ ہیں جن کی خوراک کھجور ہو، اس سے مقصود کھجور کی اہمیت بتانا ہے، کیونکہ کھجور ہی عرب کی غالب غذا ہے ہر شخص کے گھر میں رہتی ہے۔

【78】

کھجور کا بیان

سلمیٰ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس گھر میں کھجور نہ ہو وہ اس گھر کی طرح ہے جس میں کھانا ہی نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٥، ومصباح الزجاجة : ١١٤٧) (حسن) (عبیداللہ متکلم فیہ اور ہشام بن سعد ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٧٧٦ )

【79】

جب موسم کا پہلا پھل آئے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب موسم کا پہلا پھل آتا تو فرماتے : اللهم بارک لنا في مدينتنا وفي ثمارنا وفي مدنا وفي صاعنا بركة مع بركة یعنی اے اللہ ! ہمارے شہر میں، ہمارے پھلوں میں، ہمارے مد میں، اور ہمارے صاع میں، ہمیں برکت عطا فرما، پھر آپ اپنے سامنے موجود بچوں میں سب سے چھوٹے بچے کو وہ پھل عنایت فرما دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٥ (١٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٥٤ (٣٤٥٤) ، موطا امام مالک/الجامع ١ (٢) ، مسند احمد (١/١١٦، ١٦٩، ١٨٣، ٢/١٢٤، ١٢٦، ٣٣٠، ٣/٣٥، ٤٧) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣٢ (٢١١٦) (صحیح )

【80】

جب موسم کا پہلا پھل آئے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچی کھجور اور خشک کھجور کو ملا کر کھاؤ، اور پرانی کو نئی کے ساتھ ملا کر کھاؤ، اس لیے کہ شیطان کو غصہ آتا ہے اور کہتا ہے : آدم کا بیٹا زندہ ہے یہاں تک کہ اس نے پرانی اور نئی دونوں چیزیں کھا لیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٣٤، ومصباح الزجاجة : ١١٤٨) (موضوع) (یحییٰ بن محمد بن قیس کی احادیث ٹھیک ہیں، صرف چار احادیث صحیح نہیں ہیں، ایک یہ حدیث بھی ان موضوع احادیث میں سے ہے، اس حدیث کو ابن جوزی نے موضوعات میں شامل کیا ہے، نیز ملاحظہ : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٣١ )

【81】

دو دو، تین تین کھجوریں ملا کر کھانا منع ہے

جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی دو دو کھجوریں ملا کر کھائے، یہاں تک کہ وہ اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٤ (٢٤٥٥) ، الشرکة ٤ (٢٤٨٩) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢٥ (٢٠٤٥) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٤٤ (٣٨٣٤) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٦ (١٨١٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧، ٤٤، ٣٦، ٦٠، ٧٤، ٨١، ١٠٣، ١٣١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٥ (٢١٠٣) (صحیح )

【82】

دو دو، تین تین کھجوریں ملا کر کھانا منع ہے

ابوبکر (رض) کے غلام سعد (رض) (جو نبی اکرم ﷺ کے خادم تھے، اور آپ کو ان کی گفتگو اچھی لگتی تھی) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا، یعنی کھجوروں کو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٥٢، ومصباح الزجاجة : ١١٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩٩) (صحیح )

【83】

اچھی کھجور ڈھونڈ کر کھانا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ کے پاس پرانی کھجوریں لائی گئیں، تو آپ اس میں سے اچھی کھجوریں چھانٹنے لگے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٤٣ (٣٨٣٢، ٣٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٢١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس میں سے اچھی اچھی کھجوریں نکال کر کھاتے تھے، ابوداود کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ ﷺ اس میں سے کیڑے سسریاں نکالتے تھے، دوسری روایت میں کھجور چھانٹنے سے منع فرمایا، اور یہ محمول ہے اس حالت پر جب نئی کھجور ہو تو اس وقت چھانٹنے کی ضرورت نہیں۔

【84】

کھجور مکھن کے ساتھ کھانا

بسر سلمی کے دو بیٹے (رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم نے آپ کے نیچے اپنی ایک چادر بچھائی جسے ہم نے پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رکھا تھا، آپ اس پر بیٹھ گئے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھر میں آپ پر وحی نازل فرمائی، ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں مکھن اور کھجور پیش کیے، آپ ﷺ مکھن پسند فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٩، ومصباح الزجاجة : ١١٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٤٥ (٣٨٣٧) (صحیح )

【85】

میدہ کا بیان

ابوحازم کہتے ہیں کہ میں نے سہل بن سعد (رض) سے پوچھا : کیا آپ نے میدہ دیکھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی وفات تک میدہ نہیں دیکھا تھا، تو میں نے پوچھا : کیا لوگوں کے پاس رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چھلنیاں نہ تھیں ؟ انہوں نے جواب دیا : میں نے کوئی چھلنی نہیں دیکھی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی، میں نے عرض کیا : آخر کیسے آپ لوگ بلا چھنا جو کھاتے تھے ؟ فرمایا : ہاں ! ہم اسے پھونک لیتے تو اس میں اڑنے کے لائق چیز اڑ جاتی اور جو باقی رہ جاتا اسے ہم گوندھ لیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٧٣١، ومصباح الزجاجة : ١١٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٢ (٥٤١٠) ، سنن الترمذی/الزہد ٣٨ (٢٣٦٤) ، مسند احمد (٥/٣٣٢، ٦/٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور گوندھ کر روٹی پکا لیتے، غرض رسول اکرم ﷺ کے وقت میں آٹا چھاننے کی اور میدہ کھانے کی رسم نہ تھی، یہ بعد کے زمانے کی ایجاد ہے، اور اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے، آٹا جب چھانا جائے، اور اس کا بھوسی بالکل نکل جائے، تو وہ ثقیل اور دیر ہضم ہوجاتا ہے، اور پیٹ میں سدہ اور قبض پیدا کرتا ہے، آخر یہ چھاننے والے لوگ اتنا غور نہیں کرتے کہ رب العالمین نے جو حکیم الحکماء ہے گیہوں میں بھوسی بیکار نہیں پیدا فرمائی، پس بہتر یہی ہے کہ بےچھنا ہوا آٹا کھائے، اور اگر چھانے بھی تو تھوڑی سی موٹی بھوسی نکال ڈالے لیکن میدہ کھانا بالکل خطرناک اور باعث امراض شدیدہ ہے۔

【86】

میدہ کا بیان

ام ایمن (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے آٹا چھانا، اور نبی اکرم ﷺ کے لیے اس کی روٹی بنائی، آپ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : یہ وہ کھانا ہے جو ہم اپنے علاقہ میں بناتے ہیں، میں نے چاہا کہ اس سے آپ کے لیے بھی روٹی تیار کروں، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے (چھان کر نکالی گئی بھوسی) اس میں ڈال دو ، پھر اسے گوندھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٣، ومصباح الزجاجة : ١١٥٢) (حسن )

【87】

میدہ کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میدہ کی روٹی ایک آنکھ سے بھی نہیں دیکھی، یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧) (ضعیف) (سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں )

【88】

باریک چپاتیوں کا بیان

عطا کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے اپنی قوم کی زیارت کی یعنی راوی کا خیال ہے کہ ینانامی بستی میں تشریف لے گئے، وہ لوگ آپ کی خدمت میں پہلی بار کی پکی ہوئی چپاتیوں میں سے کچھ باریک چپاتیاں لے کر آئے، تو وہ رو پڑے اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے یہ روٹی اپنی آنکھ سے کبھی نہیں دیکھی (چہ جائے کہ کھاتے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٠٥، ومصباح الزجاجة : ١١٥٣) (ضعیف) (ابن عطاء یہ عثمان بن عطاء ہیں اور ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے باریک روٹی نہیں دیکھی یعنی چپاتی کیونکہ یہ روٹی موٹے آٹے کی نہیں پک سکتی بلکہ اکثر میدے کی پکاتے ہیں، بلکہ آپ ہمیشہ موٹی روٹی وہ بھی اکثر جو کی کھایا کرتے، اور بےچھنے آٹے کی وہ بھی روز پیٹ بھر کر نہ ملتی تھی، ایک دن کھایا، تو ایک دن فاقہ سبحان اللہ ہمارے رسول ﷺ کا تو یہ حال تھا، اور ہم روز کیسے کیسے عمدہ کھانے خوش ذائقہ اور نئی ترکیب کے جن کو اگلے لوگوں نے نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا کھاتے ہیں، اور وہ بھی ناکوں ناک پیٹ بھر کر وہ بھی اسی طرح سے کہ حلال حرام کا کچھ خیال نہیں، مشتبہ کا تو کیا ذکر ہے۔

【89】

باریک چپاتیوں کا بیان

قتادہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انس بن مالک (رض) کے پاس آتے تھے (اسحاق کی روایت میں یہ اضافہ ہے : اس وقت ان کا نان بائی کھڑا ہوتا تھا، اور دارمی نے اس اضافے کے ساتھ روایت کی ہے کہ ان کا دستر خوان لگا ہوتا تھا یعنی تازہ روٹیوں کا کوئی اہتمام نہ ہوتا) ، ایک دن انس بن مالک (رض) نے کہا : کھاؤ، مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنی آنکھ سے باریک چپاتی دیکھی بھی ہو، یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے، اور نہ ہی آپ نے کبھی مسلّم بھنی بکری دیکھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٦ (٥٣٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٨، ١٣٤، ٢٥٠) (صحیح )

【90】

فالودہ کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم نے فالوذج کا نام اس وقت سنا جب جبرائیل (علیہ السلام) نبی اکرم ﷺ کے پاس تشریف لائے، اور عرض کیا : تمہاری امت ملکوں کو فتح کرے گی، اور اس پر دنیا کے مال و متاع کا ایسا فیضان ہوگا کہ وہ لوگ فالوذج کھائیں گے، نبی اکرم ﷺ نے سوال کیا : فالوذج کیا ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا : لوگ گھی اور شہد ایک ساتھ ملائیں گے، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٧٥، ومصباح الزجاجة : ١١٥٤) (موضوع) (سند منکر اور متن موضوع ہے، عبدالوہاب سلمی کے یہاں عجائب وغرائب ہیں، نیز محمد بن طلحہ ضعیف، اور عثمان بن یحییٰ مجہول ہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں درج کیا ہے )

【91】

گھی میں چپڑی ہوئی روٹی

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا : میری خواہش ہے کہ اگر ہمارے پاس گھی میں چپڑی ہوئی گیہوں کی سفید روٹی ہوتی، تو ہم اسے کھاتے، ابن عمر (رض) نے کہا کہ یہ بات انصار میں ایک شخص نے سن لی، تو اس نے یہ روٹی تیار کی، اور اسے لے کر آپ کے پاس آیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا : یہ گھی کس چیز میں تھا ؟ اس نے جواب دیا : گوہ کی کھال کی کپی میں، ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اسے کھانے سے انکار کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٨ (٣٨١٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٥١) (ضعیف) (سند میں حسین بن واقد وہم و خطا والے راوی ہیں )

【92】

گھی میں چپڑی ہوئی روٹی

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ (میری والدہ) ام سلیم (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے لیے روٹی تیار کی، اور اس میں تھوڑا سا گھی بھی لگا دیا، پھر کہا : جاؤ نبی اکرم ﷺ کو بلا لاؤ، میں نے آپ کے پاس آ کر عرض کیا کہ میری ماں آپ کو دعوت دے رہی ہیں تو آپ کھڑے ہوئے اور اپنے پاس موجود سارے لوگوں سے کہا کہ اٹھو، چلو ، یہ دیکھ کر میں ان سب سے آگے نکل کر ماں کے پاس پہنچا، اور انہیں اس کی خبر دی (کہ نبی اکرم ﷺ بہت سارے لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں) اتنے میں آپ ﷺ آپہنچے، اور فرمایا : جو تم نے پکایا ہے، لاؤ، میری ماں نے عرض کیا کہ میں نے تو صرف آپ کے لیے بنایا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : لاؤ تو سہی ، پھر فرمایا : اے انس ! میرے پاس لوگوں میں سے دس دس آدمی اندر لے کر آؤ، انس (رض) کہتے ہیں کہ میں دس دس آدمی آپ کے پاس داخل کرتا رہا، سب نے سیر ہو کر کھایا، اور وہ سب اسّی کی تعداد میں تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٦ (٥٣٨١) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢٠ (٢٠٤٠) ، سنن الترمذی/المناقب ٦ (٣٦٣٠) ، موطا امام مالک/صفة النبی صفة ١٠ (١٩) ، مسند احمد (١/١٥٩، ١٩٨، ٣/١١، ١٤٧، ١٦٣، ٢١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ ! کھانا ایک آدمی کا اور اسی ٨٠ آدمیوں کو کافی ہوگیا، اس حدیث میں آپ ﷺ کے ایک بڑے معجزہ کا ذکر ہے، اور اس قسم کے کئی بار اور کئی موقعوں پر آپ ﷺ سے معجزے صادر ہوئے ہیں، عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ایسا ہی معجزہ انجیل میں مذکور ہے، اور یہ کچھ عقل کے خلاف نہیں ہے، ایک تھوڑی سی چیز کا بہت ہوجانا ممکن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے سامنے نہایت سہل ہے، وہ اگر چاہے تو دم بھر میں رتی کو پہاڑ کے برابر کر دے، اور پہاڑ کو رتی کے برابر، اور جن لوگوں کے عقل میں فتور ہے، وہ ایسی باتوں میں شک و شبہ کرتے ہیں، ان کو اب تک ممکن اور محال کی تمیز نہیں ہے، اور جو امور ممکن ہیں ان کو وہ نادانی سے محال سمجھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہر مسلمان کو بچائے۔

【93】

گندم کی روٹی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، نبی اکرم ﷺ نے مسلسل تین روز تک کبھی گیہوں کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٦) ، سنن الترمذی/الزہد ٣٨ (٢٣٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١ (٥٣٧٤) ، مسند احمد (٢/٤٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی برابر تین دن تک کبھی گیہوں کی روٹی آپ ﷺ کو نہیں ملی، اس طرح کہ پیٹ بھر کر کھائے ہوں، ہر روز بلکہ کبھی ایک دن گیہوں کی روٹی کھائی، تو دوسرے دن جو کی ملی، اور کبھی پیٹ بھر کر نہیں ملی، غرض ساری عمر تکلیف اور فقر و فاقہ ہی میں کٹی، سبحان اللہ ! شہنشاہی میں فقیری یہی ہے۔

【94】

گندم کی روٹی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ محمد ﷺ کے گھر والوں نے جب سے وہ مدینہ آئے ہیں، کبھی بھی تین دن مسلسل گیہوں کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی، یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٣ (٥٤١٦) ، ٢٧ (٥٤٢٣) ، الأضاحي ١٦ (٥٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٠) ، سنن الترمذی/الأضاحي ١٤ (١٥١٠) ، سنن النسائی/الضحایا ٣٦ (٤٤٣٧) ، مسند احمد (٦/١٠٢، ٢٠٩، ٢٧٧) (صحیح )

【95】

جو کی روٹی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ وفات پا گئے، اور حال یہ تھا کہ میرے گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہ تھی جسے کوئی جگر والا کھاتا، سوائے تھوڑے سے جو کے جو میری الماری میں پڑے تھے، میں انہیں میں سے کھاتی رہی یہاں تک کہ وہ ایک مدت دراز تک چلتے رہے، پھر میں نے انہیں تولا تو وہ ختم ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٣ (٣٠٩٧) ، الرقاق ١٦ (٦٤٥٤) ، صحیح مسلم/الزہد (٢٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠٨، ٢٧٧) (صحیح )

【96】

جو کی روٹی

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ محمد ﷺ کے اہل و عیال نے کبھی بھی جو کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٠) ، سنن الترمذی/الزہد ٣٨ (٢٣٥٧) ، الشمائل (١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٨، ٤٣٤، ٤/٤٤٢، ٦/١٢٨، ١٥٦، ١٨٧، ٢٥٥، ٢٧٧) (صحیح )

【97】

جو کی روٹی

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسلسل کئی راتیں بھوکے گزارتے، اور ان کے اہل و عیال کو رات کا کھانا میسر نہیں ہوتا، اور اکثر ان کے کھانے میں جو کی روٹی ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ٣٨ (٢٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الرقاق (٢٩٧٠) (حسن )

【98】

جو کی روٹی

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اون کا لباس اور پیوند لگا جوتا پہن لیتے تھے اور فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے موٹا کھایا اور موٹا پہنا۔ حسن بصری سے پوچھا گیا کہ موٹا کھانے سے کیا مراد ہے ؟ جواب دیا : جو کی موٹی روٹی جو پانی کے گھونٹ کے بغیر حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢، ومصباح الزجاجة : ١١٥٥) (ضعیف) (نوح بن ذکوان ضعیف راوی ہیں )

【99】

میانہ روی سے کھانا اور سیر ہو کر کھانے کی کراہت

مقدام بن معد یکرب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرا، آدمی کے لیے کافی ہے کہ وہ اتنے لقمے کھائے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں، لیکن اگر آدمی پر اس کا نفس غالب آجائے، تو پھر ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے، اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزہد ٤٧ (٢٣٨٠) ، مسند احمد (٤/١٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ خواہش نفس کی اتباع سے دور ہیں وہ تہائی پیٹ سے بھی کم کھاتے ہیں، اور تہائی پیٹ سے زیادہ کھانا سنت کے خلاف ہے۔

【100】

میانہ روی سے کھانا اور سیر ہو کر کھانے کی کراہت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ڈکار لی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی ڈکار کو ہم سے روکو، اس لیے کہ قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ بھوکا وہ رہے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ سیر ہو کر کھا تا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القیامة ٣٧ (٢٤٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٦٣) (حسن) (سند میں عبدالعزیز بن عبد اللہ منکر الحدیث، اور یحییٰ البکاء ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث شاہد کی وجہ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٤٣ ) وضاحت : ١ ؎: جو آدمی کھاتا ہے اس کو اگر کھانا نہ ملے تو اس کو بڑی تکلیف ہوتی ہے، بہ نسبت اس کے جو کم کھاتا ہے جو بھوک پر صبر کرسکتا ہے، قیامت کا دن بہت لمبا ہوگا، اور دن بھر کھانا نہ ملنے سے زیادہ کھانے والے بہت پریشان ہوں گے، بعضوں نے کہا : جو لوگ بہت کھاتے ہیں ان کی آخری خواہش کھانا اور پینا ہوتی ہے، اور موت سے یہ خواہشیں ختم ہوجاتی ہیں، تو ان کو بہت ناگوار ہوگا، اور جو لوگ کم کھاتے ہیں، ان کو کھانے کی خواہش نہیں ہوتی، بلکہ زندگی کی بقاء اور عبادت کے لئے اپنی ضروریات اور بھوک پیاس پر قابو پالیتے ہیں، ان کی خواہش عبادت اور تصفیہ قلب کی ہوتی ہے، اور وہ موت کے بعد قائم رہے گی، اس لئے وہ راحت اور عیش میں رہیں گے۔

【101】

میانہ روی سے کھانا اور سیر ہو کر کھانے کی کراہت

عطیہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ سلمان فارسی (رض) کو کھانا کھانے پر مجبور کیا گیا تو میں نے ان کو کہتے سنا : میرے لیے کافی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : دنیا میں سب سے زیادہ شکم سیر ہو کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٦، ومصباح الزجاجة : ١١٥٦) (حسن) (سند میں سعید بن محمد الوراق ضعیف ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٤٣ )

【102】

ہر وہ چیز جس کو جی چاہے کھالینا اسراف میں داخل ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ اسراف ہے کہ تم ہر اس چیز کو کھاؤ جس کی تمہیں رغبت اور خواہش ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٣، ومصباح الزجاجة : ١١٥٧) (موضوع) (نوح بن ذکوان باطل احادیث روایت کرتا تھا، ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں داخل کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٤١ )

【103】

کھانا پھینکنے سے ممانعت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ گھر میں داخل ہوئے تو روٹی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، آپ نے اسے اٹھایا، صاف کیا پھر اسے کھالیا، اور فرمایا : عائشہ ! احترام کے قابل چیز (یعنی اللہ کے رزق کی) عزت کرو، اس لیے کہ جب کبھی کسی قوم سے اللہ کا رزق پھر گیا، تو ان کی طرف واپس نہیں آیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٨٤، ومصباح الزجاجة : ١١٥٨) (ضعیف) (ولید بن محمد الموقری ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإواء : ١٩٦١ )

【104】

بھوک سے پناہ مانگنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : اللهم إني أعوذ بک من الجوع فإنه بئس الضجيع وأعوذ بک من الخيانة فإنها بئست البطانة اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کہ وہ بدترین ساتھی ہے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کہ وہ بری خفیہ خصلت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٩٦، ومصباح الزجاجة : ١١٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٤٧) ، سنن النسائی/الاستعاذة ١٩ (٥٤٧١) (حسن) (لیث بن ابی سلیم ضعیف اور کعب مجہول ر ١ وی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٣٨٣ )

【105】

رات کا کھانا چھوڑ دینا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شام کا کھانا مت ترک کرو اگرچہ اس کی مقدار ایک مشت کھجور ہو، اس لیے کہ شام کا کھانا نہ کھانے سے بڑھاپا آتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٥٢، ومصباح الزجاجة : ١١٦٠) (ضعیف جداً ) (ابراہیم بن عبدالسلام ضعیف اور متہم بالوضع راوی ہے، نیز ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١١٦ )

【106】

دعوت و ضیافت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس طرح چھری اونٹ کے کوہان کی طرف تیزی سے جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بھلائی اس گھر میں آتی ہے جس میں مہمان کثرت سے آتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٧، ومصباح الزجاجة : ١١٦١) (ضعیف) (جبارہ اور کثیر دونوں ضعیف ہیں )

【107】

دعوت و ضیافت

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس طرح چھری اونٹ کے کوہان کی طرف چلتی ہے اس سے بھی تیزی سے بھلائی اس گھر میں آتی ہے جس میں (مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے) کھانا پینا ہوتا رہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٩١، ومصباح الزجاجة : ١١٦٢) (ضعیف) (جبارہ ضعیف اور عبدالرحمن بن نہشل متروک ہے )

【108】

دعوت و ضیافت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ بات سنت میں سے ہے کہ آدمی اپنے مہمان کے ساتھ (اسے رخصت کرتے وقت) گھر کے دروازے تک نکل کر آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٨٩، ومصباح الزجاجة : ١١٦٣) (موضوع) (علی بن عروہ متروک راوی ہے، حدیث وضع کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٥٨ )

【109】

اگر مہمان کوئی خلاف شرع بات دیکھے تو واپس لوٹ جائے

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کھانا تیار کیا، اور رسول اللہ ﷺ کو مدعو کیا، آپ تشریف لائے تو آپ کی نظر گھر میں تصویروں پر پڑی، تو آپ واپس لوٹ گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٥٧ (٥٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ جس دعوت میں خلاف شرع باتیں ہوں جیسے ناچ گانا، اور بےحیائی بےپردگی وغیرہ وغیرہ یا شراب نوشی، یا دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال تو اس میں شریک ہونا ضروری نہیں، اور جب وہاں جا کر یہ باتیں دیکھے تو لوٹ آئے اور کھانا نہ کھائے، اور اگر عالم دین اور پیشوا ہو اور اس بات کو دور نہ کرسکے تو لوٹ آئے کیونکہ وہاں بیٹھنے میں دین کی بےحرمتی اور اہانت ہے، اور دوسرے لوگوں کو گناہ کرنے کی جرأت بڑھے گی، یہ جب کہ دعوت میں جانے سے پہلے ان باتوں کی خبر نہ ہو، اگر پہلے سے یہ معلوم ہو کہ وہاں خلاف شرع کوئی بات ہے تو دعوت قبول کرنا اس پر ضروری نہیں۔

【110】

اگر مہمان کوئی خلاف شرع بات دیکھے تو واپس لوٹ جائے

سفینہ ابو عبدالرحمٰن (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے علی بن ابی طالب (رض) کی ضیافت کی اور آپ کے لیے کھانا تیار کیا، فاطمہ (رض) نے کہا : کاش ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کو بلا لیتے تو آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناول فرماتے، چناچہ لوگوں نے آپ کو بھی مدعو کیا، آپ ﷺ تشریف لائے، آپ نے اپنے ہاتھ دروازے کے دونوں بازو پر رکھے، تو آپ کی نظر گھر کے ایک گوشے میں ایک باریک منقش پردے پر پڑی، آپ لوٹ آئے، فاطمہ (رض) نے علی (رض) سے کہا : جائیے اور پوچھئے : اللہ کے رسول ! آپ کیوں واپس آگئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ میرے لیے مناسب نہیں کہ میں ایسے گھر میں قدم رکھوں جس میں آرائش و تزئیین کی گئی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٨ (٣٧٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٠، ٢٢١، ٢٢٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں مزوق کا لفظ آیا ہے یعنی آرائش و تزیین، بعضوں نے کہا کہ مزوق کے معنی یہ ہیں کہ سونا چڑھا ہوا، یعنی جس گھر کی چھت یا دیوار پر طلائی نقرئی کام ہو یا قیمتی پردے لٹکے ہوں۔

【111】

گھی اور گوشت ملا کر کھانا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ان کے پاس عمر (رض) تشریف لائے اور وہ اس وقت دستر خوان پر تھے، انہوں نے عمر (رض) کے لیے مجلس کے درمیان میں جگہ بنائی، عمر (رض) نے بسم اللہ کہا، پھر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا، اور ایک لقمہ لیا، پھر دوسرا لقمہ لیا، پھر کہا : مجھے اس میں چکنائی کا ذائقہ مل رہا ہے، اور یہ چکنائی گوشت کی چربی نہیں ہے، عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : اے امیر المؤمنین ! میں فربہ گوشت کی تلاش میں بازار نکلا تاکہ اسے خریدوں، لیکن میں نے اسے مہنگا پایا تو ایک درہم میں دبلا گوشت خرید لیا، اور ایک درہم کا گھی خرید کر اس میں ملا دیا، اس سے میرا مقصد یہ تھا کہ ایک ایک ہڈی میرے تمام گھر والوں کے حصے میں آجائے، اس پر عمر (رض) نے کہا : جب کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ دونوں چیزیں بیک وقت اکٹھا ہوئیں تو آپ ﷺ نے ان میں سے ایک کھالی، اور دوسری صدقہ کردی۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : امیر المؤمنین ! اب تو اسے کھا لیجئیے پھر جب کبھی میرے پاس یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہوں گی میں بھی ایسا ہی کروں گا، عمر (رض) بولے : میں اسے کھانے والا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٩، ومصباح الزجاجة : ١١٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٠، ٢٢١، ٢٢٢) (ضعیف) (یونس بن أبی یعفور ضعیف راوی ہے )

【112】

جب گوشت پکائیں تو شوربہ زیادہ رکھیں

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم سالن پکاؤ تو اس میں شوربا بڑھا لو، اور اس میں سے ایک ایک چمچہ پڑوسیوں کو بھجوا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر ٤٢ (٢٦٢٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣٠ (١٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٦١، ١٧١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣٧ (٢١٢٤) (صحیح )

【113】

لہسن، پیاز اور گندنا کھانا

معدان بن أبی طلحہ یعمری (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) جمعہ کے دن خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا : لوگو ! تم دو ایسے پودے کھاتے ہو جو میرے نزدیک خبیث ہیں : ایک لہسن، دوسرا پیاز، میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں دیکھا کہ جس شخص کے منہ سے ان کی بو آتی اس کا ہاتھ پکڑ کر بقیع تک لے جا کر چھوڑا جاتا، تو جس کو لہسن، پیاز کھانا ہی ہو وہ انہیں پکا کر ان کی بو مار دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٥، ٤٩، ٢٦، ٢٧، ٤٨، ٤/١٩، ٢٦، ٢٧، ٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کچا نہ کھائے چونکہ کچے میں بو ہوتی ہے، پکانے سے بو کم ہوجاتی ہے، یا بالکل ختم ہوجاتی ہے، گرچہ پیاز اور لہسن حرام نہیں ہے مگر رسول اکرم ﷺ ان کو برا جانتے تھے، اور نہیں کھاتے تھے اس وجہ سے کہ آپ ﷺ پر وحی آتی، اور فرشتوں کو اس کی بونا گوار ہوتی، اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ کچا نہ کھائیں اگر کچا کھائیں تو ان کو کھا کر مسجد میں نہ جائیں تاکہ دوسرے مسلمانوں کو تکلیف نہ ہو۔

【114】

لہسن، پیاز اور گندنا کھانا

ام ایوب (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا، اس میں کچھ سبزیاں (پیاز اور لہسن) پڑی تھیں، آپ نے اسے نہیں کھایا، اور فرمایا : مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں (اس کی بو سے) اپنے ساتھی (جبرائیل علیہ السلام) کو تکلیف پہنچاؤں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ١٤ (١٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٣، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢١ (٢٠٩٨) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٥٠٤ ) . وضاحت : ١ ؎: فتح الباری میں ہے کہ پیاز اور لہسن اور گندنا حلال ہیں، لیکن جو کوئی ان کو کھائے اس کو مسجد میں جانا مکروہ ہے، اور فقہاء نے مولی کو بھی ان کی مثل سمجھا ہے، اور جس ترکاری میں بری بو ہو وہ اس کی مثل ہے، اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ کراہت تنزیہی ہے۔ اور بیڑی سگریٹ، سگار وغیرہ کے پینے والوں یا تمباکو کھانے والوں کے منہ بھی عموما ً بدبو کرتے ہیں، جس سے لوگوں کو مسجد اور مسجد سے باہر اذیت اور تکلیف ہوتی ہے، اس لیے اس سے بھی احتیاط ضروری ہے۔

【115】

لہسن، پیاز اور گندنا کھانا

جابر (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کو ان کی جانب سے گندنے کی بو محسوس ہوئی تو فرمایا : کیا میں نے تمہیں اس پودے کو کھانے سے نہیں روکا تھا ؟ یقیناً فرشتوں کے لیے وہ چیزیں باعث اذیت ہوتی ہیں، جو انسان کے لیے باعث اذیت ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٠ (٨٥٤، ٨٥٥) ، الأطعمة ٤٩ (٥٤٥٢) ، الاعتصام ٢٤ (٧٣٥٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦٤) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٤١ (٣٨٢٢) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٣ (١٨٠٦) ، سنن النسائی/المساجد ١٦ (٧٠٨) ، مسند احمد (٣/٣٧٤، ٣٨٧) (صحیح )

【116】

لہسن، پیاز اور گندنا کھانا

دخین حجری سے روایت ہے کہا انہوں نے عقبہ بن عامر جہنی (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا : پیاز مت کھاؤ، ، پھر ایک لفظ آہستہ سے کہا : کچی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٢٥، ومصباح الزجاجة : ١١٦٥) (صحیح) (سند میں عثمان اور مغیرہ دونوں مجہول ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، آخری جملہ ثم قال کلمة خفية : النيئ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٣٨٩ )

【117】

دہی اور گھی کا استعمال

سلمان فارسی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٦ (١٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٦) (حسن) (سند میں ہارون ضعیف ہے، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی : رقم : ٤٢٨ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حلال ہے اس کے کھانے میں کچھ مواخذہ نہیں، کیونکہ حلال سیکڑوں چیزیں ہیں، ان سب کا بیان کرنا دشوار تھا، اس لئے جو چیزیں حرام تھیں ان کو قرآن اور حدیث میں بیان کردیا گیا، اسی طرح وہ چیزیں جو حلال تھیں لیکن مشرکین جہالت سے ان کو حرام سمجھتے تھے، انہیں بھی بیان کردیا گیا۔

【118】

پھل کھانے کا بیان

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس طائف سے انگور ہدیہ میں آئے، آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا : یہ خوشہ لو اور اپنی ماں کو پہنچا دو ، میں نے وہ خوشہ ماں تک پہنچانے سے پہلے ہی کھالیا، جب چند روز ہوگئے تو آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا : خوشے کا کیا ہوا ؟ کیا تم نے اسے اپنی ماں کو دیا ؟ میں نے عرض کیا : نہیں، تو آپ ﷺ نے میرا نام (محبت و مزاح سے) دغا باز رکھ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣٣، ومصباح الزجاجة : ١١٦٦) (ضعیف) (اس کی سند میں عبدالرحمن بن عرق مقبول راوی ہیں، جن کا کوئی متابع نہیں اس لئے وہ لین الحدیث ہیں، اور اس کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے )

【119】

پھل کھانے کا بیان

طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کے ہاتھ میں بہی (سفرجل) ١ ؎ تھا، آپ نے مجھ سے فرمایا : طلحہ ! اسے لے لو، یہ دل کے لیے راحت بخش ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٠٤، ومصباح الزجاجة : ١١٦٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں نقیب بن حاجب، ابو سعید اور عبدالملک سب مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بہی اور سیب دونوں دل کے لئے مقوی اور دل کی دھڑکن دور کرنے میں مفید ہیں، اگرچہ حدیث ضعیف ہے، مگر یہ دونوں گرم مزاج والوں کے لئے مفید ہیں۔

【120】

اوندھے ہو کر کھانا منع ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اوندھے منہ لیٹ کر کھائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١٩ (٣٧٧٤) ، مسند احمد (٣/٤٣٠، ٥/٤٢٦) (حسن) (حدیث شواہد کی بنا پر حسن ہے، سند میں جعفر بن برقان ہیں جو زہری کی احادیث میں خاص کر وہم کا شکار تھے۔ ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٣٩٤ ) وضاحت : ١ ؎: اوندھے ہو کر سونا بھی منع ہے کیونکہ جہنمیوں کی مشابہت ہے وہ اوندھے منہ جہنم میں گھسیٹ کر ڈالے جائیں گے جیسے قرآن میں ہے۔