32. طب کا بیان

【1】

اللہ نے جو بیماری بھی اتاری اس کا علاج بھی نازل فرمایا

اسامہ بن شریک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اعرابیوں کو نبی اکرم ﷺ سے سوال کرتے دیکھا کہ کیا فلاں معاملے میں ہم پر گناہ ہے ؟ کیا فلاں معاملے میں ہم پر گناہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے بندو ! ان میں سے کسی میں بھی اللہ تعالیٰ نے گناہ نہیں رکھا سوائے اس کے کہ کوئی اپنے بھائی کی عزت سے کچھ بھی کھیلے، تو دراصل یہی گناہ ہے ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر ہم دوا علاج نہ کریں تو اس میں بھی گناہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے بندو ! دوا علاج کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا مرض نہیں بنایا جس کی شفاء اس کے ساتھ نہ بنائی ہو سوائے بڑھاپے کے ، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بندے کو جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں ان میں سے سب بہتر چیز کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حسن اخلاق ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطب ١ (٣٨٥٥) ، سنن الترمذی/الطب ٢ (٢٠٣٨) ، مسند احمد (٤/٢٧٨) (صحیح )

【2】

اللہ نے جو بیماری بھی اتاری اس کا علاج بھی نازل فرمایا

ابوخزامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا : بتائیے ان دواؤں کے بارے میں جن سے ہم علاج کرتے ہیں، ان منتروں کے بارے میں جن سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، اور ان بچاؤ کی چیزوں کے بارے میں جن سے ہم بچاؤ کرتے ہیں، کیا یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو کچھ بدل سکتی ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں شامل ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٢١ (٢٠٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢١) (ضعیف) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٤٥ ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، کیا عمدہ جواب دیا کہ سوال کرنے والے کو اب کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہی، مطلب آپ ﷺ کے جواب کا یہ ہے کہ سپر یا ڈھال رکھنا یا دوا یا علاج کرنا تقدیر الہی کے خلاف نہیں ہے، جو فعل دنیا میں واقع ہو وہی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں تھا، پس انسان کے لیے ضروری ہے کہ تدبیر اور علاج میں کوتاہی نہ کرے، ہوگا تو وہی جو تقدیر میں ہے، اسی طرح جو کوئی علاج نہ کرے، تو سمجھنا چاہیے کہ اس کی تقدیر میں یہی ہے، غرض اللہ تعالیٰ کی تقدیر بندے کو معلوم نہیں ہوسکتی جب کوئی فعل بندے سے ظاہر ہوجاتا ہے اس وقت تقدیر معلوم ہوتی ہے، حدیث میں وتقى نتقيها سے پرہیز مراد ہے جو بعض بیماریوں میں بعض کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور اس حدیث میں یہی معنی زیادہ مناسب ہے۔

【3】

اللہ نے جو بیماری بھی اتاری اس کا علاج بھی نازل فرمایا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣٣٣، ومصباح الزجاجة : ١١٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٧، ٤١٣، ٤٤٣، ٤٤٦، ٤٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ بیماری اور علاج دونوں اللہ کی طرف سے اترتے ہیں۔

【4】

اللہ نے جو بیماری بھی اتاری اس کا علاج بھی نازل فرمایا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ١ (٥٦٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم میں جابر (رض) سے مروی ہے کہ ہر بیماری کی دوا ہے پھر جب وہ دوا جسم میں پہنچتی ہے تو بیمار اللہ تعالیٰ کے حکم سے اچھا ہوجاتا ہے، یہ کہنا کہ دوا کی تاثیر سے صحت ہوئی شرک ہے، اور اگر یہ سمجھ کر دوا کھائے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ موثر ہوتی ہے تو شرک نہیں ہے، اسی طرح ہر چیز کے بارے میں اعتقاد رکھنا چاہیے کہ اس کا نفع اور نقصان اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، اور جو کوئی نفع و نقصان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھ کر کہے کہ فلاں چیز سے نفع ہوا یعنی اللہ کے حکم سے تو وہ شرک نہ ہوگا، اور جب اس چیز کو مستقل نفع بخش سمجھے گا تو وہ شرک ہوجائے گا، مشرکین یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بعض اپنے مقبول بندوں کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں، اب وہ جس کو چاہیں اپنے اختیار سے نفع پہنچاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہر معاملہ میں نہیں لیتے یہ اعتقاد شرک ہے۔

【5】

بیمار کی طبیعت کسی چیز کو چاہے تو (حتی المقدور) مہیا کردینی چاہیے

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کی عیادت فرمائی، اور اس سے پوچھا : تمہارا کیا کھانے کا جی چاہتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ گیہوں کی روٹی، آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اپنے بھائی کے پاس بھیجے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مریض کسی چیز کی خواہش کرے تو وہ اسے کھلائے ۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ١٤٣٩، (تحفة الأشراف : ٦٢٢٤، ومصباح الزجاجة : ١١٩٢) (ضعیف) (سند میں صفوان بن ھبیرہ لین الحدیث راوی ہیں )

【6】

بیمار کی طبیعت کسی چیز کو چاہے تو (حتی المقدور) مہیا کردینی چاہیے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اور اس سے پوچھا : کیا تمہارا جی کسی چیز کی خواہش رکھتا ہے ؟ جواب دیا : میرا جی کیک (کھانے کو) چاہتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے، پھر صحابہ نے اس کے لیے کیک منگوایا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٤٠ (مصباح الزجاجة : ١١٩٣) (ضعیف) (سند میں یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں )

【7】

پرہیز کا بیان

ام المنذر بنت قیس انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، آپ کے ساتھ علی بن ابی طالب (رض) بھی تھے، وہ اس وقت ایک بیماری کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے، ہمارے پاس کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے، نبی اکرم ﷺ اس میں سے کھا رہے تھے، تو علی (رض) نے بھی اس میں سے کھانے کے لیے لیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : علی ٹھہرو ! تم بیماری سے کمزور ہوگئے ہو، ام منذر (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے لیے چقندر اور جو پکائے، تو آپ نے فرمایا : علی ! اس میں سے کھاؤ، یہ تمہارے لیے مفید ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٢ (٣٨٥٦) ، سنن الترمذی/الطب ١ (٢٠٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٣، ٣٦٤) (حسن) (سند میں فلیح بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٥٩ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پرہیز کرنا چاہیے، ایک دوسرے حدیث میں پرہیز و احتیاط کو ہر علاج کا راز بتایا گیا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پرہیزی سے اللہ کے حکم سے دوا کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ بدپرہیزی دواؤں کی تاثیر کو معطل کر کے جسم میں دوسری خرابیاں پیدا کردیتی ہے۔

【8】

پرہیز کا بیان

صہیب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : قریب آؤ اور کھاؤ، میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے ، میں نے عرض کیا : میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول اللہ ﷺ مسکرا دیے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٤، ومصباح الزجاجة : ١١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦١) (حسن )

【9】

مریض کو کھانے پر مجبور نہ کرو

عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے مریضوں کو کھانے اور پینے پر مجبور نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتا اور پلاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٤ (٢٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤٣، ومصباح الزجاجة : ١١٩٥) (حسن) (سند میں بکر بن یونس ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٢٧ ) وضاحت : ١ ؎: کھانے پینے کا مقصد یہی ہے کہ روح کا تعلق جسم سے باقی رہے، اور آدمی کو تسلی اور سکون حاصل ہو، چونکہ اللہ تعالیٰ سب کا محافظ اور سب کا رازق ہے، اس لیے وہ بیماروں کی دوسری طرح خبر گیری کرتا ہے کہ ان کو غذا کی ضرورت نہیں پڑتی، بس جب وہ اپنی خوشی سے کھانا چاہیں ان کو کھلاؤ زبردستی مت کرو، اور جو غذا زبردستی سے کھائی جائے، اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے۔

【10】

ہریرہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں کو جب بخار آتا تو آپ حریرہ کھانے کا حکم دیتے، اور فرماتے : یہ غمگین کے دل کو سنبھالتا ہے، اور بیمار کے دل سے اسی طرح رنج و غم دور کردیتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی عورت اپنے چہرے سے میل کو پانی سے دور کردیتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٣ (٢٠٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢) (ضعیف) (سند میں ام محمد بن سائب ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : حسا یعنی حریرہ آٹا، پانی، گھی یا تیل وغیرہ سے بنایا جاتا ہے، اس میں کبھی میٹھا بھی ڈالتے ہیں، اور کبھی شہد اور کبھی آٹے کے بدلے میں آٹے کا چھان ڈالتے ہیں، اس کو تلبینہ کہتے ہیں، اردو میں حریرہ مشہور ہے۔

【11】

ہریرہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم ایک ایسی چیز کو لازماً کھاؤ جس کو دل نہیں چاہتا، لیکن وہ نفع بخش ہے یعنی حریرہ چناچہ جب آپ ﷺ کے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو ہانڈی برابر چولھے پر چڑھی رہتی یعنی حریرہ تیار رہتا یہاں تک کہ دو میں سے کوئی ایک بات ہوتی یعنی یا تو وہ شفاء یاب ہوجاتا یا انتقال کرجاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨٧، ومصباح الزجاجة : ١١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٩، ١٣٨، ١٥٢، ٢٤٢) (ضعیف) (سند میں ام کلثم غیر معروف راوی ہیں )

【12】

کلونجی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : کلونجی میں ہر مرض کا علاج ہے، سوائے سام کے، اور سام موت ہے، اور کالا دانہ شونیز یعنی کلونجی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٧ (٥٦٨٨) ، صحیح مسلم/السلام ٢٩ (٢٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢١٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطب ٥ (٢٠٤١) ، مسند احمد (٢/٤٢٣، ٦/١٤٦) (صحیح )

【13】

کلونجی کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اس کالے دانے کا استعمال پابندی سے کرو اس لیے کہ اس میں سوائے موت کے ہر مرض کا علاج ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٧٢، ومصباح الزجاجة : ١١٩٧) (صحیح )

【14】

کلونجی کا بیان

خالد بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ہم سفر پر نکلے، ہمارے ساتھ غالب بن ابجر بھی تھے، وہ راستے میں بیمار پڑگئے، پھر ہم مدینہ آئے، ابھی وہ بیمار ہی تھے، تو ان کی عیادت کے لیے ابن ابی عتیق آئے، اور ہم سے کہا : تم اس کالے دانے کا استعمال اپنے اوپر لازم کرلو، تم اس کے پانچ یا سات دانے لو، انہیں پیس لو پھر زیتون کے تیل میں ملا کر چند قطرے ان کی ناک میں ڈالو، اس نتھنے میں بھی اور اس نتھنے میں بھی، اس لیے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کالے دانے یعنی کلونجی میں ہر مرض کا علاج ہے، سوائے اس کے کہ وہ سام ہو ، میں نے عرض کیا کہ سام کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : موت ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٧ (٥٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٨) (صحیح )

【15】

شہد کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ہر ماہ تین روز صبح کے وقت شہد چاٹ لیا کرے، وہ کسی بڑی آفت بیماری سے دو چار نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٨٨، ومصباح الزجاجة : ١١٩٨) (ضعیف) (سند میں عبد الحمید اور ابوہریرہ (رض) کے مابین انقطاع ہے، عبد الحمید مجہول بھی ہیں، اور سند میں زبیر ہاشمی بھی لین الحدیث ہیں )

【16】

شہد کا بیان۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شہد ہدیہ میں آیا تو آپ نے تھوڑا تھوڑا ہم سب کے درمیان تقسیم فرمایا، مجھے اپنا حصہ ملا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں مزید لے سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٢٨، ومصباح الزجاجة : ١١٩٩) (ضعیف) (سند میں ابوحمزہ، عمر بن سہل ضعیف ہیں، اور حسن بصری کا جابر (رض) سے سماع نہیں ہے )

【17】

شہد کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم دو شفاوؤں یعنی شہد اور قرآن کو لازم پکڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٢٠٠) (ضعیف) (سند میں زید بن الحباب ہیں، جو سفیان ثوری کی احادیث میں غلطیاں کرتے ہیں، اور عبداللہ بن مسعود (رض) سے یہ موقوفاً ثابت ہے )

【18】

کھنبی اور عجوہ کھجور کا بیان۔

ابو سعید خدری اور جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھمبی منّ میں سے ہے، اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج، اور عجوہ (کھجور) جنت کا میوہ ہے اور اس میں پاگل پن اور دیوانگی کا علاج ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٨١، ٢٢٨٢، ٤٠٧٤، ٤٠٧٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨) (صحیح) (شفاء من السم کے لفظ سے صحیح ہے، من الجنة کے لفظ سے منکر ہے، ملاحظہ ہو : سنن ابن ماجہ ب تحقیق مشہور حسن، نیز ملا حظہ ہو : آگے والی حدیث ٣٤٥٥ ) وضاحت : ١ ؎ : كَمْأَةُ: جمع ہے، اس کی واحد كمئٌ ہے، ابن اثیر نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ معروف چیز ہے، لیکن اردو زبان میں اس کا ترجمہ کھمبی، ککرمتا سے کیا جاتا ہے، صاحب فیروز اللغات لکھتے ہیں : یہ ایک قسم کی سفید نباتات جو اکثر برسات میں ازخود پیدا ہوجاتی ہے، اور اسے تل کر کھاتے ہیں، سانپ کی چھتری، جمع : کھمبیاں، کھمبیوں (١١٢١) ، مصباح اللغات میں كمئٌ کا ترجمہ یہ ہے : سانپ کی چھتری اور اس کو شحم الأرض کہتے ہیں، جمع : أكمؤٌ و كَمْأَةُ (٧٥٠-٧٥١) لسان العرب میں كمء کی تعریف یوں ہے : یہ ایسی نبات ہے جو زمین کو پھاڑ کر ویسے ہی نکلتی ہے جیسے کہ فُطر یعنی زمین سے اگنے والی نبات اور مزید فرمایا : یہ بھی کہا گیا ہے کہ كمء مٹ میلی اور کالی سرخی مائل چیز اور سفید فَقْعَه ہے، اور اس کے بعد یہی حدیث ذکر فرمائی۔ اور فُطر نامی نبات کو مشروم بھی کہتے ہیں، ملاحظہ ہو : قاموس الغذاء والتداوی بالنبات لاحمدقدامہ : صفحہ ٤٨٩ حدیث میں وارد كمء سے مراد وہ پھل ہے جو زمین کے اندر آلو کی شکل میں اور اسی کی طرح پیدا ہوتا ہے، اور اس کو سعودی عرب میں فَقْعَه کہتے ہیں، جاڑے میں بارش کے بعد یہ پیدا ہوتا ہے، صحراء کے لوگ اس کی جائے پیدائش سے واقف ہوتے ہیں، اور اسے زمین سے نکال کرلے آتے ہیں، یہ بازار میں بھی بھاری قیمت سے فروخت ہوتا ہے، جس کی قیمت تین سو ریال فی کلو تک پہنچ جاتی ہے، یہ آلو کی شکل کا ہوتا ہے، اس کی لذت پکا کر کھانے میں بالکل گوشت کی طرح ہوتی ہے، اس لیے اس کو زمین کے اندر اگنے والا مَن کہا جائے تو بیجانہ ہوگا، حدیث میں اس کو مَن میں شمار کیا گیا ہے، اور اس کے عرق کو آنکھ کا علاج بتایا گیا ہے، اور اس کا ذکر عجوہ کھجور کے ساتھ آیا ہے، صحیح یہی ہے کہ کمئَہ سے مراد سعودی عرب میں مشہور فَقْعَه نامی پھل ہے، جو آلو کے ہم شکل اور اسی کی طرح زمین میں پیدا ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی تعریف یوں کی ہے : کمئہ ایسی نبات ہے جو تنا (ڈنٹھل) اور پتوں کے بغیر ہوتی ہے، اور یہ زمین میں بغیر بوئے پائی جاتی ہے، اور یہ عرب علاقوں میں بہت پائی جاتی ہے اور مصر و شام میں بھی پائی جاتی ہے، حافظ ابن حجرنے جو تفصیلی بتائی ہے اس کے مطابق بھی یہ وہی فَقْعَه ہے جس کی تشریح اوپر گزری۔ (ملاحظہ ہو : فتح الباری حدیث نمبر : ٥٧٠٨) حکیم مظفر حسین اعوان نے کھمبی کی تعریف یوں کی ہے : اردو : کھمب، ہندی : کھم، سندھی : کھنبہی، انگریزی : مشروم : یہ بغیر تنا اور بغیر پتوں کے خود رو پودا ہے جو گرمی کے موسم میں بارش کے بعد پیدا ہوتا ہے، اس میں جوہر ارضی زیادہ اور جوہر مائی کم ہوتا ہے، لیکن جب یہ خشک ہوجاتی ہے تو اس کی مائیت زائل ہوجاتی ہے، اور صرف ارضیت کے باقی رہنے سے غلظت بڑھ جاتی ہے ... قابض و نفاخ ہے، بلغم اور سودا پیدا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امراض سوداوی اور بلغمی میں مضر ہے ... کھمب کا بڑا وصف صرف یہ ہے کہ یہ بہت لذیذ ہوتی ہے اس لیے لوگ اسے پکا کر کھاتے ہیں (کتاب المفردات : صفحہ ٣٨٦) احمد قدامہ نے لفظ كَمْأَةُ کے تحت جو تفاصیل ذکر کی ہیں وہ سابقہ خود رو زیر زمین آلو کی مانند پھل کی ہے، مولف نے آنکھ کے علاج سے متعلق طبی فوائد کا بھی ذکر کیا ہے، اور جدید تحقیقات کی روشنی میں اس کے اندر پائی جانے والی چیزوں کی تفصیلی بتائی ہے، اور آخر میں لکھا ہے کہ زمین میں اگنے والی ساری خود رو نباتات میں قوت باہ کو زیادہ کرنے میں یہ سب سے فائق ہے، اس میں کاربن، اکسیجن اور ہیڈروجن کے ساتھ ساتھ نائٹروجین کی بھی ایک مقدار پائی جاتی ہے، اس لیے یہ اپنی ترکیب میں گوشت کی مانند ہے، اور پکانے کے بعد اس کا مزہ بکری کے گردے کی طرح ہوتا ہے۔ (قاموس الغذاء : ٦٠٢-٦٠٤) ، نیز ملاحظہ ہو : المعجم الوسیط : مادہ الکمأ۔ ککرمتا جسے سانپ کی چھتری بھی کہتے ہیں اور کھمبی سے بھی یہ جانا جاتا ہے، جس کی تفصیل اوپر گزری یہ ایک دوسرا خود رو چھوٹا پودا ہے جو برصغیر کے مرطوب علاقوں میں گرمی کے موسم میں بارش کے بعد اگتا ہے، خاص کر ان علاقوں میں جہاں سرکنڈا ( جسے سینٹھا، نرسل، نرکل اور نئے بھی کہتے ہیں) ہوتا ہے، اور یہ زمین پر خود بخود اگتا ہے، اس کا تعلق حدیث میں وارد کھمبی سے نہیں ہے واللہ اعلم۔ ٢ ؎: عجوہ کھجور سے دیوانگی اور پاگل پن کے علاج کا لفظ حدیث میں صحیح نہیں ہے، صحیح حدیث میں زہر کا علاج آیا ہے۔ (ملاحظہ ہو : حدیث نمبر ٣٤٥٥) ۔ ابو سعید خدری (رض) سے اس سند سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٠٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٠٢) (صحیح )

【19】

کھنبی اور عجوہ کھجور کا بیان۔

سعید بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کھمبی من میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا، اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٢٠ (٥٧٠٨) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢٨ (٢٠٤٩) ، سنن الترمذی/الطب ٢٢ (٢٠٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨٧، ١٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کھمبی اس من کے ہم مثل ہے جو بلا محنت و مشقت آسمان سے بنی اسرائیل کے لیے نازل ہوتا تھا، کھمبی ایک چھوٹا سا پودا ہے جو زمین سے نکلتا ہے۔

【20】

کھنبی اور عجوہ کھجور کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس گفتگو کر رہے تھے کہ کھمبی کا ذکر آگیا، تو لوگوں نے کہا : وہ تو زمین کی چیچک ہے، یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : کھمبی منّ میں سے ہے، اور عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے، اور اس میں زہر سے شفاء ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٢٢ (٢٠٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠١، ٣٠٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٤٢١، ٤٨٨، ٤٩٠، ٥١١) ، سنن الدارمی/الرقاق ١١٥ (٢٨٨٢) (صحیح )

【21】

کھنبی اور عجوہ کھجور کا بیان۔

رافع بن عمرو مزنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : عجوہ کھجور اور صخرہ یعنی بیت المقدس کا پتھر جنت کی چیزیں ہیں ۔ عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں : لفظ صخرہ میں نے ان کے منہ سے سن کر یاد کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٦، ٥/٣١، ٦٥) (ضعیف) (مشعمل نے کبھی الصخرة کہا اور کبھی الشجرہ اس اضطراب کی وجہ سے یہ ضعیف ہے )

【22】

سنا اور سنوت کا بیان۔

ابو ابی بن ام حرام (رض) (وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھ چکے ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : تمسنا اور سنوت ١ ؎ کا استعمال لازم کرلو، اس لیے کہ سام کے سوا ان میں ہر مرض کے لیے شفاء ہے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! سام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : موت ۔ عمرو کہتے ہیں کہ ابن ابی عبلہ نے کہا : سنوت: سویے کو کہتے ہیں، بعض دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ وہ شہد ہے جو گھی کی مشکوں میں ہوتا ہے، شاعر کا یہ شعر اسی معنی میں وارد ہے۔ هم السمن بالسنوت لا ألس فيهم وهم يمنعون جارهم أن يقردا وہ لوگ ملے ہوئے گھی اور شہد کی طرح ہیں ان میں خیانت نہیں، اور وہ لوگ تو اپنے پڑوسی کو بھی دھوکا دینے سے منع کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سنا: ایک مسہل (دست لانے والی) دو ا کا نام ہے، اور سنوت: سویا یا بعض لوگوں کے بقول شہد کو کہتے ہیں۔

【23】

نماز شفاء ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار دوپہر کو چلے، میں بھی چلا، تو میں نے نماز پڑھی پھر بیٹھ گیا، اتنے میں نبی اکرم ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا : اشکمت درد کیا پیٹ میں درد ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : اٹھو اور نماز پڑھو، اس لیے کہ نماز میں شفاء ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٥١، ومصباح الزجاجة : ١٢٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٠، ٤٠٣) (ضعیف) (سند میں ذوّاد بن علبہ اور لیث بن ابی سلیم دونوں ضعیف ہیں ) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فارسی میں فرمایا اشکمت درد کیا تیرے پیٹ میں درد ہے ؟ امام ابن ماجہ (رح) نے فرمایا : ایک آدمی نے یہ حدیث اپنے خاندان والوں کو سنائی تو انہوں نے (قاضی سے) اس کی شکایت کردی۔ (حدیث کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ ہے) ۔

【24】

ناپاک اور خبیث دوا سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ناپاک (یا حرام) دوا سے منع فرمایا، یعنی زہر سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ١٠ (٣٨٧٠) ، سنن الترمذی/الطب ٧ (٢٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٥، ٤٤٦، ٤٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ حرام سے دوا مت کرو، اور زہر سب حرام ہے اس مقدار میں جس سے مرنے کا اندیشہ ہو، بیہقی نے کہا : اگر یہ دونوں حدیثیں صحیح ہوں، تو مراد خبیث حرام سے مسکر ہے، یعنی جس چیز میں نشہ ہو۔

【25】

ناپاک اور خبیث دوا سے ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو مار ڈالا، تو وہ اسے جہنم میں بھی پیتا رہے گا جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٧ (١٧٥) ، سنن الترمذی/الطب ٧ (٢٠٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطب ٥٦ (٥٧٧٨) ، سنن ابی داود/الطب ١١ (٣٨٧٢) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٨ (١٩٧٦) ، مسند احمد (٢/٢٥٤، ٤٧٨، ٤٨٨) ، سنن الدارمی/الدیات ١٠ (٢٤٠٧) (صحیح )

【26】

مسہل دوا۔

اسماء بنت عمیس (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا : تم مسہل کس چیز کا لیتی تھی ؟ میں نے عرض کیا : شبرم سے، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تو بہت گرم ہے ، پھر میں سنا کا مسہل لینے لگی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی چیز موت سے نجات دے سکتی تو وہ سنا ہوتی، سنا ہر قسم کی جان لیوا امراض سے شفاء دیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٣٠ (٢٠٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٩) (ضعیف) (زرعہ بن عبد الرحمن مجہول اور مولی معمر مبہم راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ایک گرم اور سخت قسم کا چنے کے برابر دانہ ہوتا ہے۔

【27】

گلے پڑنے یا گھنڈی پڑنے کا علاج اور دبانے کی ممانعت۔

ام قیس بنت محصن (رض) کہتی ہیں کہ میں اپنے بچے کو لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور اس سے پہلے میں نے عذرہ ١ ؎ (ورم حلق) کی شکایت سے اس کا حلق دبایا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا : آخر کیوں تم لوگ اپنے بچوں کے حلق دباتی ہو ؟ تم یہ عود ہندی اپنے لیے لازم کرلو، اس لیے کہ اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے، اگر عذرہ ١ ؎ (ورم حلق) کی شکایت ہو تو اس کو ناک ٹپکایا جائے، اور اگر ذات الجنب ٢ ؎ (نمونیہ) کی شکایت ہو تو اسے منہ سے پلایا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ١٠ (٥٦٩٢) ، ٢١ (٥٧١٣) ، ٢٣ (٥٧١٥) ، ٢٦ (٥٧١٨) ، صحیح مسلم/السلام ٢٨ (٢٢١٤) ، سنن ابی داود/الطب ١٣ (٣٨٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥٥، ٣٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عذرہ: ایک ورم ہے حلق میں بچوں کو اکثر ہوجاتا ہے، عورتیں دبا کر انگلی سے اس کا علاج کرتی ہیں۔ ٢ ؎: ذات الجنب: ایک بیماری ہے جسے نمونیہ کہا جاتا ہے۔ اس سند سے بھی ام قیس (رض) سے اسی طرح روایت مرفوعاً وارد ہے، یونس کہتے ہیں : أعلقت کے معنی ہیں غمزت یعنی میں نے دبایا۔

【28】

عرق النساء کا علاج۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : عرق النسا ١ ؎ کا علاج یہ ہے کہ جنگلی بکری کی (چربی) کی چکتی لی جائے اور اسے پگھلایا جائے، پھر اس کے تین حصے کئے جائیں، اور ہر حصے کو روزانہ نہار منہ پیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٩، ومصباح الزجاجة : ١٢٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عرق النسا ایک قسم کا درد ہے جو پیر کی ایک رگ میں ہوتا ہے۔

【29】

زخم کا علاج۔

سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ احد کے دن زخمی ہوگئے، آپ کے سامنے کا ایک دانت ٹوٹ گیا، اور خود ٹوٹ کر آپ کے سر میں گھس گیا تو فاطمہ (رض) آپ کا خون دھو رہی تھیں اور علی (رض) ڈھال سے پانی لا لا کر ڈال رہے تھے، جب فاطمہ (رض) نے دیکھا کہ پانی کی وجہ سے خون بجائے رکنے کے بڑھتا ہی جاتا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا، جب وہ راکھ ہوگیا تو اسے زخم میں بھر دیا، اور اس طرح خون رک گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٣ (٢٤٣) ، الجہاد ٨٥ (٢٩١١) ، الطب/٢٧ (٥٧٢٢) ، صحیح مسلم/الجہاد ٣٧ (١٧٩٠) ، سنن الترمذی/الطب ٣٤ (٢٠٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٠٦) (صحیح )

【30】

زخم کا علاج۔

سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ غزوہ احد کے دن کس نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کو زخمی کیا تھا ؟ اور کون آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے زخموں کو دھو رہا تھا، اور ان کا علاج کر رہا تھا ؟ کون تھا جو ڈھال میں پانی بھر کر لا رہا تھا ؟ اور کس چیز کے ذریعے آپ کے زخم کا علاج کیا گیا، یہاں تک کہ خون تھما، ڈھال میں پانی بھر کر لانے والے علی (رض) تھے، زخموں کا علاج کرنے والی فاطمہ (رض) تھیں، جب خون نہیں رکا تو انہوں نے پرانی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا، اور اس کی راکھ زخم پر لگا دی، اس طرح زخم سے خون کا بہنا بند ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٣) (صحیح) (سند میں عبدالمہیمن ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: مشہور یہ ہے کہ عبد اللہ بن قمیہ نے آپ ﷺ کو زخمی کیا، اور بعضوں نے کہا کہ چار ملعون کافروں (یعنی عبداللہ بن قمیہ اور عتبہ بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن شہاب زہری، اور ابی بن خلف) نے آپ ﷺ کے قتل کا عہد کیا تھا، امام نووی تہذیب الأسماء واللغات میں کہتے ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص وہی ہے جس نے رسول اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی کیا، اور احد کے دن آپ کا دانت توڑا میں نہیں جانتا کہ وہ مسلمان ہوا ہو، اور نہ آگے اس کو صحابہ میں ذکر کیا، اور بعضوں نے کہا وہ کافر مرا۔

【31】

جو طب سے ناوافق ہو اور علاج کرے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص علاج کرنے لگے حالانکہ اس سے پہلے اس کے طبیب ہونے کا کسی کو علم نہیں تھا، تو وہ ضامن (ذمہ دار) ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٢٥ (٤٥٨٦) ، سنن النسائی/القسامة ٣٤ (٤٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٦) (حسن) (سند میں ابن جریج مدلس راوی ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: اگر جان جاتی رہی تو اس کو آدھی دیت دینی ہوگی، اور جو کوئی عضو بیکار ہوجائے اس کی بھی دیت دینا ہوگی۔

【32】

ذات الجنب کی دوا۔

زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذات الجنب کے علاج کے لیے یہ نسخہ بتایا کہ ورس اور قسط (عود ہندی) کو زیتون کے تیل میں ملا کر منہ میں ڈال دیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٢٨ (٢٠٧٨، ٢٠٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٩، ٣٧٢) ، (ضعیف) (عبدالرحمن بن میمون اور ان کے والد میمون دونوں ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ذات الجنب: یعنی الوہ ایک ورم ہے جو پسلی میں ہوتا ہے، اور یہ مرض بہت سخت ہے جس سے اکثر موت ہوجاتی ہے۔ ورس: ایک زرد رنگ کی خوشبو دار گھاس، ان تینوں دواؤں کو ملا کر منہ میں ایک طرف ڈال دئیے جائیں، لدود اس دوا کو کہتے ہیں، جو بیمار کے منہ میں لگائی جائے تاکہ پیٹ میں چلی جائے۔

【33】

ذات الجنب کی دوا۔

ام قیس بنت محصن (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے عود ہندی کا استعمال لازمی ہے کست کا اس لیے کہ اس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے، ان میں ایک ذات الجنب بھی ہے ۔ ابن سمعان کے الفاظ اس حدیث میں یہ ہیں : فإن فيه شفاء من سبعة أدواء منها ذات الجنب اس میں سات امراض کا علاج ہے، ان میں سے ایک مرض ذات الجنب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٢١ (٥٧١٣) ، صحیح مسلم/السلام ٢٨ (٢٢١٤) ، سنن ابی داود/الطب ١٣ (٣٨٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥٥، ٣٥٦) (صحیح )

【34】

بخار کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بخار کا ذکر آیا تو ایک شخص نے بخار کو گالی دی (برا بھلا کہا) ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے گالی نہ دو (برا بھلا نہ کہو) اس لیے کہ اس سے گناہ اس طرح ختم ہوجاتے ہیں جیسے آگ سے لوہے کا کچرا صاف ہوجاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٠٨) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٩٤ )

【35】

بخار کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بخار کے ایک مریض کی عیادت کی، آپ کے ساتھ ابوہریرہ (رض) بھی تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خوش ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ میری آگ ہے، میں اسے اپنے مومن بندے پر اس دنیا میں اس لیے مسلط کرتا ہوں تاکہ وہ آخرت کی آگ کا بدل بن جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٩، ومصباح الزجاجة : ١٢٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٠) (صحیح )

【36】

بخار دوزخ کی بھاپ سے ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کرلیا کرو۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطب ٢٨ (٥٧٢٥) ، وبدء الخلق ١٠ (٣٢٦٣) ، سنن الترمذی/الطب ٢٥ (٢٠٧٤) ، مسند احمد (٦/٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خود حدیث دلالت کرتی ہے کہ یہاں وہ بخار مراد ہے جو گرمی سے ہو، کیونکہ پانی سے وہی ٹھنڈا ہوگا، اور جو بخار سردی سے ہوگا اس میں تو آگ سے گرم کرنا مفید ہوگا، اور بخار جہنم کی آگ سے ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ گرمی اور سردی دونوں جہنم کی سانس سے ہوتی ہیں، گرمی تو اس حصہ جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہیں جو گرم انگار ہے، اور سردی اس حصے کی بھاپ سے ہے جو زمہریر ہے، اور بخار ہمیشہ یا گرمی کی وجہ سے ہوتا ہے یا سردی سے پس یہ کہنا بالکل صحیح ہوا کہ بخار جہنم کی بھاپ سے ہے کیونکہ سبب کا ایک سبب ہوتا ہے، اور علت کی علت خود علت ہوتی ہے۔

【37】

بخار دوزخ کی بھاپ سے ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کرلیا کرو۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بخار کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطب ٢٨ (٥٧٢٣) ، بدء الخلق ١٠ (٣٢٦٤) ، موطا امام مالک/العین ٦ (١٦) (صحیح )

【38】

بخار دوزخ کی بھاپ سے ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کرلیا کرو۔

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ، پھر آپ ﷺ عمار کے ایک لڑکے کے پاس تشریف لے گئے (وہ بیمار تھا) اور یوں دعا فرمائی : اكشف الباس رب الناس إله الناس لوگوں کے رب، لوگوں کے معبود ! (اے اللہ) تو اس بیماری کو دور فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ بدء الخلق ١٠ (٣٢٦٢) ، صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢١٢) ، سنن الترمذی/الطب ٢٥ (٢٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤/١٤١) ، سنن الدارمی/الرقاق ٥٥ (٢٨١١) (صحیح )

【39】

بخار دوزخ کی بھاپ سے ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کرلیا کرو۔

اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ ان کے پاس بخار کی مریضہ ایک عورت لائی جاتی تھی، تو وہ پانی منگواتیں، پھر اسے اس کے گریبان میں ڈالتیں، اور کہتیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسے پانی سے ٹھنڈا کرو نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ جہنم کی بھاپ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٢٨ (٥٧٢٤) ، صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢١١) ، سنن الترمذی/الطب ٢٥ (٢٠٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٤) وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العین ٦ (١٥) ، مسند احمد (٦/٣٤٦) (صحیح )

【40】

بخار دوزخ کی بھاپ سے ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کرلیا کرو۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بخار جہنم کی بھٹیوں میں سے ایک بھٹی ہے لہٰذا اسے ٹھنڈے پانی سے دور کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦١، ومصباح الزجاجة : ١٢١٠) (صحیح )

【41】

پچھنے لگانے کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں سے کسی میں خیر ہے تو پچھنے میں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٣ (٣٨٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥١١) ، وقد أخرجہ، مسند احمد (٢/٢٤٢، ٤٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پچھنا لگوانے کے کافی فوائد ہیں، بالخصوص جب بدن میں خون کی کثرت ہو تو یہ نہایت مفید ہوتا ہے، اور بعض امراض میں اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فوراً آرام ہوجاتا ہے۔

【42】

پچھنے لگانے کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معراج کی رات میرا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ہوا اس نے یہی کہا : محمد ( ﷺ ) ! آپ پچھنے کو لازم کرلیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ١٢ (٢٠٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٨) ، وقد أخرجہ : (١/٣٥٤) (صحیح) (سند میں عباد بن منصور صدوق اور مدلس ہیں، اور آخری عمر میں حافظہ میں تبدیلی پیدا ہوگئی تھی، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : حدیث ٣٤٧٩ ، وحدیث ابن عمر فی مسند البزار و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٢٦٣ )

【43】

پچھنے لگانے کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پچھنا لگانے والا بہت بہتر شخص ہے کہ وہ خون نکال دیتا ہے، کمر کو ہلکا اور نگاہ کو تیز کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ١٢ (٢٠٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥٣) (ضعیف) (سند میں عباد بن منصور صدوق اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز آخری عمر میں حافظہ میں تبدیلی آگئی تھی، ترمذی نے حدیث کی تحسین کی ہے، اور حاکم نے تصحیح، اور ان کی موافقت ذہبی نے ایک جگہ ( ٤؍٢١٢ ) کی ہے، اور دوسری جگہ نہیں ( ٤؍٤١٠ ) ، البانی صاحب نے اس کو ذہبی کا وہم بتایا ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٠٣٦ )

【44】

پچھنے لگانے کا بیان۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس رات معراج ہوئی میرا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر ہوا اس نے کہا : محمد ( ﷺ ) ! اپنی امت کو پچھنا لگانے کا حکم دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٨، ومصباح الزجاجة : ١٢١١) (صحیح) (سند میں جبارہ اور کثیر بن سلیم ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : حدیث : ٣٤٧٨ )

【45】

پچھنے لگانے کا بیان۔

جابر (رض) سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پچھنا لگانے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم ﷺ نے ابوطیبہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں پچھنا لگائے، جابر (رض) کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابوطیبہ یا تو ام سلمہ (رض) کے رضاعی بھائی تھے یا پھر نابالغ لڑکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢٠٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٣٥ (٤١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ورنہ اجنبی مرد کو آپ پچھنے لگانے کا کیسے حکم دیتے، اگرچہ ضرورت کے وقت بیماری کے مقام کو طبیب کا دیکھنا جائز ہے بیماری کے مقام کی طرف۔

【46】

پچھنے لگانے کی جگہ۔

عبداللہ بن بحینہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام کی حالت میں مقام لحی جمل میں اپنے سر کے بیچ میں پچھنا لگوایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٦) ، الطب ١٤ (٥٦٩٨) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٣) ، سنن النسائی/الحج ٩٥ (٢٨٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٠ (١٨٦١) (صحیح )

【47】

پچھنے لگانے کی جگہ۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) گردن کی دونوں رگوں اور دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ پر پچھنا لگانے کا حکم لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٢١٢) (ضعیف جدا) (سند میں سوید بن سعید، سعد الاسکاف دونوں ضعیف ہیں، اور اصبغ بن نباتہ متروک ہے )

【48】

پچھنے لگانے کی جگہ۔

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے گردن کی رگوں اور مونڈھے کے درمیان کی جگہ پچھنا لگوایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٤ (٣٨٦٠) ، سنن الترمذی/الطب ١٢ (٢٠٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٧) (صحیح )

【49】

پچھنے لگانے کی جگہ۔

ابوکبشہ انماری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر پر اور دونوں کندھوں کے درمیان پچھنا لگواتے اور فرماتے تھے : جو ان مقامات سے خون بہا دے، تو اگر وہ کسی بیماری کا کسی چیز سے علاج نہ کرے تو اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٤ (٣٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٣) (ضعیف) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٨٦٧، تراجع الألبانی : رقم : ١٩٤) ۔

【50】

پچھنے لگانے کی جگہ۔

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک بار اپنے گھوڑے سے کھجور کے درخت کی پیڑی پر گرپڑے، اس سے آپ کے پیر میں موچ آگئی۔ وکیع کہتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے صرف درد کی وجہ سے وہاں پر پچھنا لگوایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣١٠، ومصباح الزجاجة : ١٢١٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٢) ، الطب ٥ (٣٨٦٣) ، سنن النسائی/الحج ٩٣ (٢٨٥١) ، مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣٥٧، ٣٦٣، ٣٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وثء: عربی میں اس درد کو کہتے جو کسی عضو میں عضو ٹوٹنے کے بغیر پیدا ہو۔

【51】

پچھنے کن دنوں میں لگائے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص پچھنا لگوانا چاہے تو (ہجری) مہینے کی سترہویں، انیسویں یا اکیسویں تاریخ کو لگوائے، اور (کسی ایسے دن نہ لگوائے) جب اس کا خون جوش میں ہو کہ یہ اس کے لیے موجب ہلاکت بن جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٨، ومصباح الزجاجة : ١٢١٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطب ١٢ (٢٠٥١) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٨٥ ) وضاحت : ١ ؎ : ابوداود نے کبشہ سے روایت کی کہ ان کے باپ منگل کے دن پچھنا لگوانے کو منع کرتے تھے اور کہتے تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منگل کے دن ایک ساعت ایسی ہے جس میں خون بند نہیں ہوتا، اور منگل کا دن خون کا دن ہے، اور آگے ابن عمر (رض) کی حدیث میں آتا ہے کہ پیر اور منگل کے دن پچھنے لگواؤ، پس دونوں میں تعارض ہوگیا، اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ ابن عمر (رض) کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو مہینے کی سترھویں تاریخ کو پڑے کیونکہ طبرانی میں معقل بن یسار (رض) سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے منگل کے دن سترھویں تاریخ کو پچھنے لگوائے، وہ اس کے لئے سال بھر تک دوا ہوں گے، اور کبشہ کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو سترہویں تاریخ کے سوا اور کسی تاریخ میں پڑے اور سنن ابی داود میں ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً مروی ہے جس نے پچھنے لگوائے سترھویں، یا انیسویں، یا اکیسویں کو وہ ہر بیماری سے شفا پائیں گے۔

【52】

پچھنے کن دنوں میں لگائے؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے غلام) نافع سے کہا : نافع ! میرے خون میں جوش ہے، لہٰذا کسی پچھنا لگانے والے کو میرے لیے تلاش کرو، اور اگر ہو سکے تو کسی نرم مزاج کو لاؤ، زیادہ بوڑھا اور کم سن بچہ نہ ہو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : پچھنا نہار منہ لگانا بہتر ہے، اس میں شفاء اور برکت ہے، اس سے عقل بڑھتی ہے اور قوت حافظہ تیز ہوتی ہے، تو جمعرات کو پچھنا لگواؤ، اللہ برکت دے گا، البتہ بدھ، جمعہ، سنیچر اور اتوار کو پچھنا لگوانے سے بچو، اور ان دنوں کا قصد نہ کرو، پھر سوموار (دوشنبہ) اور منگل کے دن پچھنا لگواؤ، اس لیے کہ منگل وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کو بیماری سے نجات دی، اور بدھ کے دن آپ کو اس بیماری میں مبتلا کیا تھا، چناچہ جذام (کوڑھ) اور برص (سفید داغ) کی بیماریاں (عام طور سے) بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں پیدا ہوتی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٢١، ومصباح الزجاجة : ١٢١٥) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٤٧٤ )

【53】

پچھنے کن دنوں میں لگائے؟

نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے کہا : نافع ! میرا خون جوش میں ہے، لہٰذا کوئی پچھنا لگانے والا لاؤ، جو جوان ہو، ناکہ بوڑھا یا بچہ، نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : نہار منہ پچھنا لگانا بہتر ہے، اس سے عقل بڑھتی ہے، حافظہ تیز ہوتا ہے، اور یہ حافظ کے حافظے کو بڑھاتی ہے، لہٰذا جو شخص پچھنا لگائے تو اللہ کا نام لے کر جمعرات کے دن لگائے، جمعہ، ہفتہ (سنیچر) اور اتوار کو پچھنا لگانے سے بچو، پیر (دوشنبہ) اور منگل کو لگاؤ پھر چہار شنبہ (بدھ) سے بھی بچو، اس لیے کہ یہی وہ دن ہے جس میں ایوب (علیہ السلام) بیماری سے دوچار ہوئے، اور جذام و برص کی بیماریاں بھی بدھ کے دن یا بدھ کی رات ہی کو نمودار ہوتی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٦٦٧، ومصباح الزجاجة : ١٢١٦) (حسن) (سند میں عثمان و عبداللہ بن عصمہ اور سعید بن میمون مجہول ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٦٦ )

【54】

داغ دے کر علاج کرنا۔

مغیرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے (آگ یا لوہا سے بدن) داغنے یا منتر (جھاڑ پھونک) سے علاج کیا، وہ توکل سے بری ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ١٤ (٢٠٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٩، ٢٥١، ٢٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ دم (جھاڑ پھونک) ممنوع ہے جس میں شرکیہ الفاظ یا ایسے الفاظ ہوں جو معنی و مفہوم کے لحاظ سے واضح نہ ہوں۔

【55】

داغ دے کر علاج کرنا۔

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (آگ یا لوہے سے جسم) داغنے سے منع فرمایا، لیکن میں نے داغ لگایا، تو نہ میں کامیاب ہوا، اور نہ ہی میری بیماری دور ہوئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٠٩، ١٠٨١٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطب ٧ (٣٨٦٥) ، سنن الترمذی/الطب ١٠ (٢٠٤٩) ، مسند احمد (٤/٤٢٧، ٤٤٤، ٤٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نہی کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ پر محمول ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے خود سعد بن معاذ اور اسعد بن زرارہ (رض) کو اپنے ہاتھ سے داغا، اگر حرام ہوتا تو ایسا نہ کرتے، کراہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ آگ کا عذاب ہے جو اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے، یہ عمل نہ کرنا اولیٰ و افضل ہے۔

【56】

داغ دے کر علاج کرنا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ شفاء تین چیزوں میں ہے : گھونٹ بھر شہد پینے میں، پچھنا لگانے میں اور انگار سے ہلکا سا داغ دینے میں، اور میں اپنی امت کو داغ دینے سے منع کرتا ہوں، یہ حدیث ابن عباس (رض) نے مرفوع روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٣ (٥٦٨٠، ٥٦٨١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٠٩) (صحیح )

【57】

داغ لینے کا جواز۔

محمد بن عبدالرحمٰن بن اسعد بن زرارہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا یحییٰ بن اسعد بن زرارہ سے سنا، اور ان کا کہنا ہے کہ اپنوں میں ان جیسا متقی و پرہیزگار مجھے کوئی نہیں ملا لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ سعد بن زرارہ ١ ؎ (جو محمد بن عبدالرحمٰن کے نانا تھے) کو ایک بار حلق کا درد ہوا، اس درد کو ذُبحہ کہا جاتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں ابوامامہ (یعنی ! اسعد رضی اللہ عنہ) کے علاج میں اخیر تک کوشش کرتا رہوں گا تاکہ کوئی عذر نہ رہے ، چناچہ آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ سے داغ دیا، پھر ان کا انتقال ہوگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہود بری موت مریں، اب ان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ محمد ( ﷺ ) نے اپنے ساتھی کو موت سے کیوں نہ بچا لیا، حالانکہ نہ میں اس کی جان کا مالک تھا، اور نہ اپنی جان کا ذرا بھی مالک ہوں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٢١، ومصباح الزجاجة : ١٢١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العین ٥ (١٣) (حسن) دون قولہ : لأبلغن وضاحت : ١ ؎: اسعد بن زرارہ یا سعد بن زرارہ اس کے لئے دیکھئے : تحفۃ الاشراف والاصابہ۔ ٢ ؎: اسعد بن زرارہ انصار کے سردار تھے، بڑے مومن کامل تھے، آپ ﷺ نے جہاں تک ہوسکا ان کا علاج کیا، لیکن موت میں کسی کا زرو نہیں چلتا، رسول اکرم ﷺ کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ کسی کی موت آئے اور وہ روک دیں، لیکن یہودیوں کو جو شروع سے بےایمان تھے، یہ کہنے کا موقع ملا کہ اگر یہ سچے رسول ہوتے تو اپنے ساتھی سے موت کو دور کردیتے، آپ ﷺ نے ان کا رد کیا، اور فرمایا : رسول کو اس سے کیا علاقہ ؟ مجھ کو خود اپنی جان پر اختیار نہیں ہے، تو بھلا دوسرے کی جان پر کیا ہوگا، اور افسوس ہے کہ یہودی اتنا نہ سمجھے کہ اگلے تمام انبیاء و رسل جب ان کی موت آئی فوت ہوگئے بلکہ ہارون (علیہ السلام) جو موسیٰ کے بھائی تھے، موسیٰ کی زندگی میں فوت ہوئے اور موسیٰ (علیہ السلام) ان کو نہ بچا سکے، بھلا امر الٰہی کو کوئی روک سکتا ہے، ولی ہوں یا نبی، اللہ تعالیٰ کے سامنے سب عاجز بندے اور غلام ہیں۔

【58】

داغ لینے کا جواز۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ابی بن کعب (رض) ایک بار بیمار پڑے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس ایک طبیب بھیجا، اس نے ان کے ہاتھ کی رگ پر داغ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢٠٧) ، سنن ابی داود/الطب ٦ (٣٨٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٣، ٣٠٤، ٣١٥، ٣٧١) (صحیح )

【59】

داغ لینے کا جواز۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد بن معاذ (رض) کے ہاتھ والی رگ میں دو مرتبہ داغا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٦٢، ومصباح الزجاجة : ١٢١٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢٠٨) ، سنن ابی داود/الطب ٧ (٣٨٦٦) ، سنن الترمذی/السیر ٢٩ (١٥٨٢) ، مسند احمد (٣/٣٦٣) ، سنن الدارمی/السیر ٦٦ (٢٥٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رسول اکرم ﷺ سے علاج و معالجہ کے لئے اعضاء بدن کو داغنے کے سلسلہ میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو بظاہر باہم متعارض نظر آتی ہیں، جس کی وجہ سے اس مسئلہ میں علماء کے مابین اختلافات ہیں۔ ١ ۔ بعض احادیث سے اعضاء جسم کو داغنا ثابت ہے جیسے سعد بن معاذ (رض) کے زخم کو داغنے کا واقعہ۔ ٢ ۔ بعض میں اس سلسلہ میں آپ کی ناپسندیدگی کا ذکر ہے۔ ٣ ۔ بعض میں اس کے چھوڑ دینے کی تعریف کی گئی ہے۔ ٤ ۔ بعض احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ واضح رہے کہ جن احادیث میں اعضاء جسم کو داغنے سے علاج اور شفاء کی بات آئی ہے اس سے اس کے جواز و مشروعیت کا ثبوت ملتا ہے، اور رسول اکرم ﷺ کے اس کو ناپسند کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام ممنوع ہے، بلکہ اس کا معاملہ ضب کے ناپسند ہونے کی طرح ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اسے نہ کھایا، لیکن یہ آپ ﷺ کے دسترخوان پر کھائی گئی، اور آپ نے اس پر سکوت اختیار کیا، اور اس کی حلت کا اقرار فرمایا، اور آپ کے ضب نہ کھانے کا تعلق آپ کی ذاتی ناپسندیدگی سے ہے جس کا ضب کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کے ترک کردینے پر پسندیدگی سے پتہ چلتا ہے کہ اعضاء جسم کو داغ کر علاج نہ کرنا زیادہ بہتر بات ہے۔ اور ممانعت کی احادیث کراہت کے قبیل سے ہیں، یا ایسی صورت سے ممانعت کی بات ہے جس کی ضرورت و حاجت نہ ہو، بلکہ بیماری کے لاحق ہونے کے خوف کی بنا پر ہو۔ اس تفصیل سے پتہ چلا کہ اعضاء جسم کے داغنے کے ذریعہ علاج بلا کراہت دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، ایک یہ کہ اس علاج کے علاوہ اور کوئی صورت علاج کی باقی نہ ہو، بلکہ متعین طور پر اس علاج ہی کی تشخیص کی گئی ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اعضاء جسم کا داغنا شفا اور علاج کا مستقل سبب نہیں ہے، بلکہ اس کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہے جو شفا دینے والا ہے، جب دوسری صورتیں علاج کی موجود ہوں تو آگ سے داغنے کا علاج مکروہ ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ علمائے دین نے اعضاء جسم کو داغ کر اس سے علاج کے جواز کی بات کہی ہے کہ یہ بھی علاج و معالجہ کا ایک مجرب طریقہ ہے، بعض علماء نے اس اعتقاد سے صحت مند آدمی کو داغنے سے منع کیا ہے کہ وہ اس کے بعد دوبارہ بیمار نہ ہو، تو ایسی صورت حرام اور ممنوع ہے، اور دوسری علاج کی صورتیں جن میں زخم کے فساد کا علاج یا اعضاء جسم کے کٹنے کے بعد اس کے علاج کا مسئلہ ہو جائز ہے۔ یہ واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں (اور آج بھی لوگوں میں یہ رواج ہے) لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ صحت مند آدمی کو اس واسطے داغتے تھے کہ وہ اس کے بعد بیمار نہ ہو، اگر یہ صورت ہو تو احادیث نہی اس طرح کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں، اسلام نے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ ہی شافی و کافی ہے۔ إذا مرضت فهو يشفين اوپر کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہوا کہ اعضاء جسم کے داغنے کا طریقہ علاج مختلف صورتوں میں مختلف احکام رکھتا ہے، نہ تو ہمیشہ اس کا ترک صحیح ہے، اور نہ اس علاج کا ہمیشہ اختیار کرنا ہی صحیح ہے، کبھی کراہت کے ساتھ یہ جائز ہے، کبھی یہ علاج مکروہ ہے، اور کبھی یہ حرمت کے دائرہ میں آجاتا ہے، جواز کی صورت اس کی ضرورت کے پیش نظر ہے، بایں طور کہ علاج کی دوسری صورت باقی نہ ہو بلکہ متعین طور پر کسی بیماری میں یہی علاج موثر ہو جیسے تیزی سے جسم سے خون کے نکلنے میں داغنے کے علاوہ کوئی اس کو روکنے کی ترکیب نہ ہو، ورنہ بیمار کے مرجانے کا خدشہ ہو، اس صورت میں اس علاج کو اپنانا ضروری ہے، چناچہ نبی اکرم ﷺ نے سعد بن معاذ (رض) کے جسم سے خون نہ رکنے کی صورت میں ان کی ہلاکت کے خوف سے ان کے جسم کو داغا۔ یہ واضح رہے کہ اس علاج میں یہ اعتقاد بھی ہونا چاہیے کہ یہ ایک سبب علاج ہے، اصل شافی اللہ تعالیٰ ہے۔ کراہت کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ دوسرے علاج کی موجودگی میں یہ علاج کیا جائے، اس لئے کہ اس علاج میں مریض کو سخت درد بلکہ اصل مرض سے زیادہ سخت درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراہت کی ایک صورت یہ ہے کہ بیماری آنے سے پہلے حفظان صحت کے لئے یہ طریقہ علاج اپنایا جائے، اس لئے کہ اس میں اللہ پر توکل و اعتماد میں کمی اور کمزوری آجاتی ہے، اور مرض کے واقع ہونے سے پہلے ہی داغنے کے درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف اس خدشہ سے کہ ایسا مستقبل میں ممکن ہے، آگ کا عذاب اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اس لئے اس صورت میں اس پر حرمت کا اطلاق بھی ہوسکتا ہے، داغنے کے علاج میں شفا ڈھونڈھنے میں غلو اور مبالغہ کی صورت میں آدمی حقیقی مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو بھول جاتا ہے، اور دنیاوی اسباب کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، اور یہ معلوم ہے کہ اسباب کی طرف توجہ و التفات توحید میں شرک ہے۔ امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ صحیح احادیث میں علاج کا حکم ہے، جو توکل کے منافی نہیں ہے، جیسے بھوک، پیاس، سردی اور گرمی کو اس کے اضداد کے ذریعہ دور کیا جائے، بلکہ توحید کی حقیقت کا اتمام اسی وقت ہوگا جب آدمی اللہ تعالیٰ کی شریعت میں اور سنن کونیہ (کائناتی نظام) میں نتائج تک پہنچنے کے لئے جو اسباب فراہم کئے ہیں ان کو استعمال کرے، اور ان شرعی اور کونی اسباب کو معطل کردینا دراصل نفس توکل میں قدح ہے۔ اور ایسے ہی امر الٰہی اور حکمت ربانی کا قادح اور اس میں کمزوری پیدا کرنے والا ہے کیونکہ ان اسباب کو معطل کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ ان کا ترک توکل کے باب میں زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔ پس ان اسباب کا ترک عاجزی ہے، جو اس توکل کے منافی ہے جس کی حقیقت ہی یہ ہے کہ بندہ کا دل اللہ تعالیٰ پر اپنے دینی اور دنیاوی فوائد کے حصول میں اور دینی و دنیاوی نقصانات سے دور رہنے میں اعتماد کرے۔ اس اعتماد و توکل کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، ورنہ آدمی حکمت الٰہی اور شریعت کے اوامر کو معطل کرنے والا ہوگا، لہذا آدمی اپنی عاجزی کو توکل نہ بنائے، اور نہ ہی توکل کو عاجزی کا عنوان دے۔ (زاد المعاد : ٤ ؍١٥ ) (حررہ الفریوائی )

【60】

اثمد کا سرمہ لگانا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنے اوپر اثمد ٢ ؎ کو لازم کرلو، اس لیے کہ وہ بینائی تیز کرتا ہے اور بال اگاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٧١، ومصباح الزجاجة : ١٢١٩) (صحیح) (سند میں عثمان بن عبدالملک لین الحدیث ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، جب کہ باب کی احادیث میں ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٢٤ ) وضاحت : ١ ؎: ثرمد : ایک پتھر ہے جو اصفہان (ایران) میں پایا جاتا ہے۔ اس سے تیار کردہ سرمہ بہترین اور مفید ہوتا ہے۔

【61】

اثمد کا سرمہ لگانا۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : سوتے وقت اثمد کا سرمہ ضرور لگاؤ، کیونکہ اس سے نظر (نگاہ) تیز ہوتی ہے اور بال اگتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٠٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٠) (صحیح) (سند اسماعیل بن مسلم ضعیف راوی ہے، لیکن متابعت کثیرہ کی وجہ سے حدیث صحیح ہے کما تقدم )

【62】

اثمد کا سرمہ لگانا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر سرمہ اثمد کا ہے، وہ نظر (بینائی) تیز کرتا، اور بالوں کو اگاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الجنائز ١٨ (٩٩٤) ، الشمائل ٥١، سنن ابی داود/الطب ١٤ (٣٨٧٨) ، سنن النسائی/الزینة ٢٨ (٥١١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣١، ٢٤٧، ٢٧٤، ٣٢٨، ٣٥٥، ٦٣ ٣) (صحیح )

【63】

طاق مرتبہ سرمہ لگانا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص سرمہ لگائے تو طاق لگائے، اگر ایسا کرے گا تو بہتر ہوگا، اور اگر نہ کیا تو حرج کی بات نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢٣ (٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٣٧١، سنن الدارمی/الطہارة ٥ (٦٨٩) (ضعیف) (حصین حمیری اور ابوسعد الخیر دونوں مجہول ہیں )

【64】

طاق مرتبہ سرمہ لگانا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی، آپ اس میں سے ہر آنکھ میں تین بار سرمہ لگاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٢٣ (١٧٥٧) ، الطب ٩ (٢٠٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٥٤) (ضعیف) (سند میں عباد بن منصور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )

【65】

شراب سے علاج کرنا منع ہے۔

طارق بن سوید حضرمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے ملک میں انگور ہیں، کیا ہم انہیں نچوڑ کر پی لیا کریں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، میں نے دوبارہ عرض کیا کہ ہم اس سے مریض کا علاج کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دوا نہیں بلکہ خود بیماری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ١١ (٣٨٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١١، ٥/٢٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیماری کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ ہے کہ ہر گناہ بیماری ہے، دوسرے یہ کہ شراب سے بیماری پیدا ہوتی ہے شفا نہیں ہوتی، دونوں سچ ہیں، شراب سے مسلمان کو سوائے ضرر کے کبھی فائدہ حاصل نہ ہوگا، اور بادی النظر میں جو کسی کو شراب پینے سے پہلے پہل کچھ فائدہ نظر آتا ہے، یہ فائدہ نہیں بلکہ مقدمہ ہے اس بڑے نقصان کا جو آگے چل کر پیدا ہوگا، اب تمام اطباء اتفاق کرتے جاتے ہیں کہ شراب میں نقصان ہی نقصان ہے، فائدہ موہوم ہے، اور ابوہریرہ (رض) کی حدیث اوپر گزری کہ رسول اکرم ﷺ نے خبیث دوا سے منع کیا۔

【66】

قرآن سے علاج ( کر کے شفاء حاصل) کرنا۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہترین دوا قرآن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٥٦، ومصباح الزجاجة : ١٢٢١) (ضعیف) (سند میں حارث اعور ضعیف راوی ہیں )

【67】

مہندی کا استعمال۔

رسول اللہ ﷺ کی لونڈی سلمیٰ ام رافع (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی زخم لگتا، یا کانٹا چبھتا تو آپ اس پر مہندی لگاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٣ (٣٨٥٨) ، سنن الترمذی/الطب ١٣ (٢٠٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦٢) (حسن) (سند میں عبیداللہ لین الحدیث ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث حسن ہے )

【68】

اونٹوں کے پیشاب کا بیان۔

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی، اور بیمار ہوگئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم ہمارے اونٹوں کے پاس جا کر ان کے دودھ اور پیشاب پیتے (تو اچھا ہوتا) ، تو انہوں نے ایسا ہی کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٧ (٢٣٧) ، الزکاة ٦٨ (١٥٠١) ، الجہاد ١٥٢ (٣٠١٨) ، المغازي ٣٧ (٤١٩٢، ٤١٩٣) ، الطب ٥ (٥٦٨٥) ، ٦ (٥٦٨٦) ، ٢٩ (٥٧٢٧) ، الحدود ١ (٦٨٠٢) ، ٢ (٦٨٠٣) ، ٣ (٦٨٠٤) ، ٤ (٦٨٠٥) ، الدیات ٢٢ (٦٨٩٩) ، صحیح مسلم/القسامة ٢ (١٦٧١) ، سنن الترمذی/الحدود ٣ (٤٣٦٤) ، الأطعمة ٣٨ (١٨٤٥) ، الطب ٦ (٢٠٤٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩١ (٣٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦١، ١٦٣، ١٧٠، ٢٣٣) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٥٧٨ ) وضاحت : ١ ؎: اونٹ کے پیشاب سے علاج کو آپ ﷺ نے مباح قرار دیا، لہذا ونٹ کے پیشاب کو شراب پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ شراب کے حرام ہونے اور اونٹ کے پیشاب کے مباح ہونے کے سلسلہ میں احادیث الگ الگ وارد ہیں۔

【69】

برتن میں مکھی گرجائے تو کیا کریں ؟

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مکھی کے ایک پر میں زہر اور دوسرے میں شفاء ہے، اگر وہ کھانے میں گرجائے تو اسے اس میں پوری طرح ڈبو دو ، اس لیے کہ وہ زہر والا پر آگے رکھتی ہے (اور وہی کھانے میں ڈالتی ہے) اور شفاء والا پیچھے رکھتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الفرع والعتیرة ١٠ (٤٢٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٤، ٦٧) (صحیح )

【70】

برتن میں مکھی گرجائے تو کیا کریں ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تمہارے پینے کی چیز میں مکھی گرجائے تو اسے اس میں پوری طرح ڈبو دو ، پھر نکال کر پھینک دو ، اس لیے کہ اس کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفاء ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٧ (٣٣٢٠) ، الطب ٥٨ (٥٧٨٢) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٤٩ (٣٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٤٦، ٤٤٣) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٢ (٢٠٨١) (صحیح )

【71】

نظر کا بیان۔

عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نظر کا لگنا حقیقت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٤، ٢٩٤، ٢/٢٢٢، ٢٨٩، ٣١٩، ٣/٤٤٧) (صحیح متواتر )

【72】

نظر کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نظر کا لگنا حقیقت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطب ٣٦ (٥٧٤٠) ، صحیح مسلم/السلام ١٦ (٢١٨٧) ، سنن ابی داود/الطب ١٥ (٣٨٧٩) ، مسند احمد (٢/٣١٩) (صحیح )

【73】

نظر کا بیان۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی پناہ طلب کرو، اس لیے کہ نظر بد حق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٤) (صحیح) (سند میں ابو واقد ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر صحیح ہے، اور اصل حدیث متواتر ہے )

【74】

نظر کا بیان۔

ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ عامر بن ربیعہ (رض) کا گزر سہل بن حنیف (رض) (ابوامامہ کے باپ) کے پاس ہوا، سہل (رض) اس وقت نہا رہے تھے، عامر نے کہا : میں نے آج کے جیسا پہلے نہیں دیکھا، اور نہ پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی کا بدن ایسا دیکھا، سہل (رض) یہ سن کر تھوڑی ہی دیر میں چکرا کر گرپڑے، تو انہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، اور عرض کیا گیا کہ سہل کی خبر لیجئیے جو چکرا کر گرپڑے ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : تم لوگوں کا گمان کس پر ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ عامر بن ربیعہ پر، آپ ﷺ نے فرمایا : کس بنیاد پر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے ، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے جو اس کے دل کو بھا جائے تو اسے اس کے لیے برکت کی دعا کرنی چاہیئے، پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا، اور عامر کو حکم دیا کہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک، اور اپنے دونوں گھٹنے اور تہبند کے اندر کا حصہ دھویا، اور آپ ﷺ نے انہیں سہل (رض) پر وہی پانی ڈالنے کا حکم دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ معمر کی روایت میں جو انہوں نے زہری سے روایت کی ہے اس طرح ہے : آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ برتن کو ان کے پیچھے سے ان پر انڈیل دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العین ١ (١) مسند احمد (٣/٤٨٦) (صحیح )

【75】

نظر کا دم کرنا۔

عبید بن رفاعہ زرقی کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : اللہ کے رسول ! جعفر کے بیٹوں کو نظر بد لگ جاتی ہے، کیا میں ان کے لیے دم کرسکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اگر کوئی چیز لکھی ہوئی تقدیر پر سبقت لے جاتی تو نظر بد لے جاتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ١٧ (٢٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مقصد یہ ہے کہ نظر بد کا اثر نقصان دہ اور تکلیف پہنچانے والا ہوتا ہے، حتی کہ تقدیر کے خلاف اگر کوئی چیز پیش آسکتی ہے اور وہ نقصان پہنچا سکتی ہے تو وہ نظر بد ہے، جس سے بچنے کے لئے نبی اکرم ﷺ معوذتین قُل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس پڑھتے جو ہر بلا اور ہر بدنظری سے بچنے کے لئے مجرب ہیں، لبید بن عاصم یہودی نے جب رسول اکرم ﷺ پر جادو کردیا تھا تو آپ ﷺ کے کہنے پر وہ گرہ دار بال بھی ایک اندھے کنویں سے منگوایا گیا، ایک ایک آیت ان سورتوں کی آپ ﷺ پڑھتے جاتے تھے، اور ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی، یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں، اور لبید یہودی کا سحر باطل ہوا۔

【76】

نظر کا دم کرنا۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جنوں کی نظر بد سے، پھر آدمیوں کی نظر بد سے پناہ مانگتے تھے، پھر جب معوذتین (سورۃ الفلق اور سورة الناس) نازل ہوئیں، تو آپ ﷺ نے ان کو پڑھنا شروع کیا، اور باقی تمام چیزیں چھوڑ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ١٦ (٢٠٥٨) ، سنن النسائی/الإستعاذة ٣٦ (٥٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٢٧) (صحیح )

【77】

نظر کا دم کرنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں نظر بد لگ جانے پر دم کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٣٥ (٥٧٣٨) ، صحیح مسلم/السلام ٢١ (٢١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٣، ١٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام شوکانی الدرر البہیۃ میں کہتے ہیں کہ جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں، نواب صدیق حسن الرروضۃ الندیۃ میں فرماتے ہیں کہ دم کرنے (جھاڑ پھونک) میں کچھ حرج نہیں اور شرعی قواعد اس سے مانع نہیں ہیں، بشرطیکہ اس میں شرک نہ ہوں، اور بالخصوص جب وہ قرآن یا حدیث سے ہو یا ان دونوں کے مشابہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور گڑگڑانے والی دعائیں تو یہ جائز ہے، اور جن احادیث میں دم (جھاڑ پھونک) تعویذ اور تِوَلہ (یعنی وہ منتر جو عورت کو اس کے شوہر کے نزدیک پسندیدہ بنا دے، اور جو جادو وغیرہ کے ذریعے سے کیا جاتا ہے) سے ممانعت ہے، وہ شرک کے مضامین پر محمول ہیں یا اسباب پر زیادہ بھروسہ کرنا، اس طرح سے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجائے، اور شاہ ولی اللہ دہلوی المسوی شرح الموطأ میں فرماتے ہیں کہ جھاڑ پھونک کے بارے میں احادیث کا اختلاف ہے، ان میں جمع و تطبیق کی صورت یہ ہوگی کہ ان کو مختلف احوال پر محمول کیا جائے گا، تو ممنوع جھاڑ پھونک وہ ہے جس میں شرک ہے، یا جس میں بدمعاش شیطانوں کا ذکر ہوتا ہے، یا جو غیرعربی زبان میں ہوتے ہیں اور جن کا معنی معلوم نہیں ہوتا، اور شاید کہ اس میں جادو یا کفر موجود ہو، اور جو دم قرآن یا اللہ کے ذکر پر مشتمل ہو، وہ مستحب ہے۔ (الروضۃ الندیۃ ٣ /١٥٨ )

【78】

وہ دم جن کی اجازت ہے۔

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نظر بد لگنے یا ڈنک لگنے کے سوا کسی صورت میں دم کرنا درست نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٩٤ (٢٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٥) (صحیح )

【79】

وہ دم جن کی اجازت ہے۔

ابوبکر بن محمد سے روایت ہے کہ خالدہ بنت انس ام بنی حزم ساعدیہ (رض) نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور آپ کے سامنے کچھ منتر پیش کیا، تو آپ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٦) (ضعیف) (محمد بن عمارہ قوی نہیں ہیں )

【80】

وہ دم جن کی اجازت ہے۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ انصار کا آل عمرو بن حزم نامی گھرانہ زہریلے ڈنک پر جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے جھاڑ پھونک کرنے سے منع فرمایا تھا، چناچہ ان لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! آپ نے دم کرنے سے روک دیا ہے حالانکہ ہم لوگ زہریلے ڈنک پر جھاڑ پھونک کرتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا جھاڑ پھونک (منتر) مجھے سناؤ، تو انہوں نے آپ ﷺ کو پڑھ کر سنایا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ تو اقرارات ہیں (یعنی ثابت شدہ ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢١ (٢١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣١٥) (صحیح )

【81】

وہ دم جن کی اجازت ہے۔

انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زہریلے ڈنک، نظر بد اور نملہ ١ ؎ پر جھاڑ پھونک کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢١ (٢١٩٦) ، سنن الترمذی/الطب ١٥ (٢٠٥٦، ٢٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ١١٩، ١٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نملہ : ایک بیماری ہے جس کے سبب پسلی میں دانے نکل آتے ہیں، اور زخم پڑجاتے ہیں۔

【82】

سانپ اور بچھو کا دم۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سانپ اور بچھو کے (کاٹے پر) دم (جھاڑ پھونک) کرنے کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢١ (٢١٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطب ٣٧ (٥٧٤١) ، مسند احمد (٦/٣٠) (صحیح )

【83】

سانپ اور بچھو کا دم۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو بچھو نے ڈنک مار دیا تو وہ رات بھر نہیں سو سکا، نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ فلاں شخص کو بچھو نے ڈنک مار دیا ہے، اور وہ رات بھر نہیں سو سکا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ شام کے وقت ہی یہ دعا پڑھ لیتا أعوذ بکلمات الله التامات من شر ما خلق یعنی میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کیا ، تو بچھو کا اسے ڈنک مارنا صبح تک ضرر نہ پہنچاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٦٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطب ١٩ (٣٨٩٩) ، مسند احمد (٢/٣٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پھر صبح کو یہ کہہ لیتا تو شام تک کوئی کیڑا ضررنہ پہنچا سکتا سبحان اللہ کیا عمدہ موثر اور مختصر دعا ہے۔

【84】

سانپ اور بچھو کا دم۔

عمرو بن حزم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس سانپ کے ڈسے ہوئے کو پیش کیا، تو آپ ﷺ نے اس پر دم (جھاڑ پھونک) کرنے کی اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٢٩، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٨) (ضعیف) (سند میں ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم اور ان کے دادا کے مابین انقطاع ہے )

【85】

جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسروں کو کئے اور جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئے گئے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مریض کے پاس آتے تو آپ اس کے لیے دعا فرماتے، اور کہتے : أذهب الباس رب الناس واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما اے لوگوں کے رب ! تو بیماری دور فرما، اور صحت عطا کر، تو ہی صحت عطا کرنے والا ہے، شفاء اور صحت وہی ہے جو تو عطا کرے، تو ایسی شفاء عطا کر کہ پھر کوئی بیماری باقی نہ رہ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٤ (٤٤٣٧) ، المرضی ١٩ (٥٦٧٥) ، صحیح مسلم/السلام ١٩ (٢١٩١) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧٧ (٣٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٥ (٤٦) (صحیح )

【86】

جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسروں کو کئے اور جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئے گئے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی انگلی میں تھوک لگا کر بیمار کے لیے یوں کہتے : بسم الله بتربة أرضنا بريقة بعضنا ليشفى سقيمنا بإذن ربنا اللہ کے نام سے، ہماری زمین کی مٹی سے، ہم میں سے بعض کے لعاب سے ملی ہوئی ہے تاکہ ہمارا مریض ہمارے رب کے حکم سے شفاء پا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٣٨ (٥٧٤٥، ٥٧٤٦) ، صحیح مسلم/السلام ٢١ (٢١٩٤) ، سنن ابی داود/الطب ١٩ (٣٨٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دم کو پڑھتے وقت آپ ﷺ کلمہ شہادت کی انگلی پر تھوکتے اور اس کو مٹی سے لگا کر بیمار کے بدن پر یا بیماری کے مقام پر ملتے، اور یہ دم پڑھتے۔

【87】

جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسروں کو کئے اور جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئے گئے۔

عثمان بن ابی العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، مجھے ایسا درد تھا کہ لگ رہا تھا وہ مجھے ہلاک کر دے گا، تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اپنا دایاں ہاتھ اس پر رکھ کر أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد وأحاذر اللہ کے نام سے میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اس تکلیف کے شر سے جو میں محسوس کرتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں سات مرتبہ پڑھو ، میں نے یہ دعا پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء عطا کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢٤ (٢٢٠٢) ، سنن ابی داود/الطب ١٩ (٣٨٩١) ، سنن الترمذی/الطب ٢٩ (٢٠٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العین ٤ (٩) ، مسند احمد (٤/٢١، ٢١٧) (صحیح )

【88】

جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسروں کو کئے اور جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئے گئے۔

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اے محمد ! کیا آپ بیمار ہوگئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے عرض کیا : ہاں ، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : بسم الله أرقيك من کل شيء يؤذيك من شر کل نفس أو عين أو حاسد الله يشفيك بسم الله أرقيك اللہ کے نام سے میں آپ پر دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت پہنچائے، ہر جاندار، نظر بند، اور حاسد کے شر سے، اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء دے، میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١٦ (٢١٨٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤ (٩٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨، ٥٦، ٥٨، ٧٥) (صحیح )

【89】

جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسروں کو کئے اور جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئے گئے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، تو آپ نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تم پر وہ دم نہ کروں جو میرے پاس جبرائیل لے کر آئے ؟ ، میں نے عرض کیا : ضرور یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ ﷺ نے تین بار یہ پڑھا : بسم الله أرقيك والله يشفيك من کل داء فيك من شر النفاثات في العقد ومن شر حاسد إذا حسد اللہ کے نام سے میں تم پر دم کرتا ہوں، اللہ ہی تمہیں شفاء دے گا، تمہارے ہر مرض سے، گرہوں پر پھونکنے والیوں کے شر سے، اور حاسد کے حسد سے جب وہ حسد کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٠١، ومصباح الزجاجة : ١٢٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٦) (ضعیف) (عاصم بن عبید اللہ ضعیف ہیں )

【90】

جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسروں کو کئے اور جو دم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئے گئے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) پر دم فرماتے تو کہتے : أعوذ بکلمات الله التامة من کل شيطان وهامة ومن کل عين لامة میں اللہ کے مکمل کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے (سانپ، بچھو وغیرہ) اور ہر نظر بد والی آ نکھ سے ، اور فرماتے : ہمارے والد ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی کے ذریعہ اسماعیل و اسحاق (علیہما السلام) پر دم فرماتے تھے یا کہا : اسماعیل اور یعقوب (علیہما السلام) پر ۔ یہ حدیث وکیع کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ١٠ (٣٣٧١) ، سنن ابی داود/السنة ٢٢ (٤٧٣٧) ، سنن الترمذی/الطب ١٨ (٢٠٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٦، ٢٧٠) (صحیح )

【91】

بخار کا تعویذ۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ بخار اور ہر طرح کے درد کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھاتے کہ اس طرح کہیں : بسم الله الكبير أعوذ بالله العظيم من شر عرق نعار ومن شر حر النار یعنی اللہ عظیم کے نام سے، جوش مارنے والی رگ کے شر سے، اور جہنم کی گرمی کے شر سے میں اللہ عظیم کی پناہ مانگتا ہوں ۔ ابوعامر کہتے ہیں کہ میں اس میں لوگوں کے برخلاف یعّار کہتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطب ٢٦ (٢٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣٠٠١) (ضعیف) (ابراہیم اشہلی ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اور لوگ نعارنون سے کہتے ہیں یعنی جوش مارنے والا، اور یعار کے معنی بدخلق، سخت اور سرکش کے ہیں۔ اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے اس میں یعار ہے (نعار نہیں) ۔

【92】

بخار کا تعویذ۔

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے، آپ ﷺ کو بخار تھا، تو انہوں نے کہا : بسم الله أرقيك من کل شيء يؤذيك من حسد حاسد ومن کل عين الله يشفيك یعنی اللہ کے نام سے میں آپ پر دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت دے، حاسد کے حسد سے، اور ہر نظر بد سے، اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء عطا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨١، ومصباح الزجاجة : ١٢٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٢٣) (حسن )

【93】

دم کرکے پھونکنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دعا پڑھ کر (منتر) کو پھونکا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دعا پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لیتے تھے، یا دوسرے پر پڑھ کر پھونکتے تھے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک جائز ہے، بشرطیکہ وہ کتاب و سنت سے ثابت دعاؤوں کے ذریعے ہو۔

【94】

دم کرکے پھونکنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بیمار پڑے تو اپنے اوپر معوذات پڑھتے اور پھونک لیتے، لیکن جب آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا تو میں آپ ﷺ کے اوپر پڑھتی اور برکت کی امید سے آپ ہی کا ہاتھ آپ پر پھیرتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فصل القرآن ١٤ (٥٠١٦) ، صحیح مسلم/السلام ٢٠ (٢١٩٢) ، سنن ابی داود/الطب ١٩ (٣٩٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العین ٤ (١٠) ، مسند احمد (٦/١٠٤، ١٨١، ٢٥٦، ٢٦٣) (صحیح )

【95】

تعویز لٹکانا۔

زینب زوجہ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک بڑھیا آیا کرتی تھیں، وہ حمرہ ١ ؎ کا دم کرتی تھیں، ہمارے پاس بڑے پایوں کی ایک چارپائی تھی، اور عبداللہ بن مسعود (رض) کا معمول تھا کہ جب گھر آتے تو کھنکھارتے اور آواز دیتے، ایک دن وہ گھر کے اندر آئے جب اس بڑھیا نے ان کی آواز سنی تو ان سے پردہ کرلیا، عبداللہ بن مسعود (رض) آ کر میری ایک جانب بیٹھ گئے اور مجھے چھوا تو ان کا ہاتھ ایک گنڈے سے جا لگا، پوچھا : یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : یہ سرخ بادے (حمرہ ) کے لیے دم کیا ہوا گنڈا ہے، یہ سن کر انہوں نے اسے کھینچا اور کاٹ کر پھینک دیا اور کہا : عبداللہ کے گھرانے کو شرک کی حاجت نہیں ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : دم، تعویذ، گنڈے اور ٹونا شرک ہیں ١ ؎، ایک دن میں باہر نکلی تو مجھ پر فلاں شخص کی نظر پڑگئی، تو میری اس آنکھ سے جو اس سے قریب تر تھی آنسو بہہ نکلے، جب میں اس پر دم کرتی تو اس کے آنسو رک جاتے، اور جب میں دم کرنا چھوڑ دیتی تو آنسو بہنے لگتے، انہوں نے کہا : یہی تو شیطان ہے، جب تم اس کی اطاعت کرتی ہو تو وہ تم کو چھوڑ دیتا ہے، اور جب تم اس کی نافرمانی کرتی ہو تو وہ تمہاری آنکھ میں اپنی انگلی چبھو دیتا ہے، لیکن اگر تم وہ عمل کرتیں جو رسول اللہ ﷺ نے ایسے موقع پر کیا تو تمہارے حق میں بہتر ہوتا، اور تم ٹھیک ہوجاتیں، تم اپنی آنکھ میں پانی کے چھینٹے مارا کرو، اور یہ دعا پڑھا کرو : أذهب الباس رب الناس اشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما اے لوگوں کے رب، مصیبت دور فرما، شفاء عطا کر، تو ہی شفاء عطا کرنے والا ہے، تیری شفاء کے سوا اور کوئی شفاء ہے بھی نہیں، ایسی شفاء دے کہ کوئی بیماری باقی رہ نہ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٤٣، مصباح الزجاجة : ١٢٣١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطب ١٧ (٣٨٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨١) (ضعیف) (تراجع الألبانی : رقم : ١٤٢ ) وضاحت : ١ ؎: حمر ۃ : ایک بیماری جس میں جسم پر سرخ دانے نکل آتے ہیں۔

【96】

تعویز لٹکانا۔

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا ہے، پوچھا : یہ کیسا کڑا ہے، اس نے جواب دیا : یہ واہنہ ١ ؎ کی بیماری سے بچنے کے لیے ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اتارو، اس لیے کہ یہ تمہارے اندر مزید وہن (کمزوری) پیدا کر دے گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٠٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٤٥ (ضعیف) (مبارک بن فضالہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں، روایت عنعنہ سے کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: واہنہ: وہ ریاحی درد ہے جو بازو وغیرہ میں ہوتا ہے جس سے کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ ٢ ؎: تعویذ گنڈا، جادو منتر اور اسی طرح کا ہر وہ عمل جو کتاب اللہ اور سنت رسول سے ثابت نہ ہو حرام و ناجائز ہے۔

【97】

آسیب کا بیان۔

ام جندب (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یوم النحر کو بطن وادی میں جمرہ عقبہ کی رمی کرتے دیکھا، پھر آپ ﷺ لوٹے تو آپ کے پیچھے پیچھے قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی، اس کے ساتھ ایک بچہ تھا جس پر آسیب تھا، وہ بولتا نہیں تھا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ میرا بیٹا ہے اور یہی میرے گھر والوں میں باقی رہ گیا ہے، اور اس پر ایک بلا (آسیب) ہے کہ یہ بول نہیں پاتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تھوڑا سا پانی لاؤ، پانی لایا گیا، تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور اس میں کلی کی، پھر وہ پانی اسے دے دیا، اور فرمایا : اس میں سے تھوڑا سا اسے پلا دو ، اور تھوڑا سا اس کے اوپر ڈال دو ، اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے شفاء طلب کرو ، ام جندب (رض) کہتی ہیں کہ میں اس عورت سے ملی اور اس سے کہا کہ اگر تم اس میں سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دیتیں، (تو اچھا ہوتا) تو اس نے جواب دیا کہ یہ تو صرف اس بیمار بچے کے لیے ہے، ام جندب (رض) کہتی ہیں کہ میں اس عورت سے سال بھر بعد ملی اور اس بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہوگیا ہے، اور اسے ایسی عقل آگئی جو عام لوگوں کی عقل سے بڑھ کر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠٣١) (ضعیف) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہے )

【98】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین دوا قرآن مجید ہے

【99】

دو دھاری والاسانپ مار ڈالنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو دھاری سانپ کو مار ڈالنے کا حکم دیا، اس لیے کہ وہ آنکھ کی بینائی کو زائل کرنے اور عورتوں کے حمل کو گرا دیتا ہے، یہ ایک خبیث سانپ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٧ (٢٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس کو عربی میں ذي الطفيتين کہتے ہیں، وہ ایک خبیث زہریلا سانپ ہے اس کی پیٹھ پر دو سفید لکیریں ہوتی ہیں۔

【100】

دو دھاری والا سانپ مار ڈالنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سانپوں کو مار ڈالو، دو دھاری اور دم کٹے سانپ کو ضرور مارو، اس لیے کہ یہ دونوں آنکھ کی بینائی زائل کردیتے اور حمل کو گرا دیتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٤ (٣٢٩٧ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/السلام ٣٧ (٢٢٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١٧٤ (٥٢٥٢) ، موطا امام مالک/الإستئذان ١٢ (٣٧) ، مسند احمد (٣/٤٣٠، ٤٥٢، ٤٥٣) (حسن صحیح )

【101】

نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بدفال لیناناپسندیدہ ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو نیک فال (اچھے شگون) اچھی لگتی تھی، اور فال بد (برے شگون) کو ناپسند فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطب ٤٣ (٥٧٥٤) ، ٤٤ (٥٧٥٥) ، صحیح مسلم/السلام ٣٣ (٢٢٢٠) (صحیح )

【102】

نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بدفال لینا ناپسندیدہ ہے۔

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چھوت چھات اور بدشگونی کوئی چیز نہیں، اور میں فال نیک کو پسند کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٤٥ (٥٧٧٦) ، صحیح مسلم/السلام ٣٤ (٢٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطب ٢٤ (٣٩١٦) ، سنن الترمذی/السیر ٤٧ (١٦١٥) ، مسند احمد (٣/١١٨، ١٥٤، ١٣٠، ١٧٨، ٢٥١، ١٧٣، ٢٧٥) (صحیح )

【103】

نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بدفال لینا ناپسندیدہ ہے۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بدشگونی شرک ہے ١ ؎ اور ہم میں سے جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے یہ خیال دور کر دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٢٤ (٣٩١٠) ، سنن الترمذی/السیر ٤٧ (١٦١٤) ، تحفة الأشراف (٩٢٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٣٨، ٤٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ کے اوپر بھروسہ کرنے سے یہ وہم جاتا رہے گا، انسان کو چاہیے کہ اگر ایسا وہم کبھی دل میں آئے، تو اس کو بیان نہ کرے، اور منھ سے نہ نکالے، اور اللہ پر بھروسہ کرے، جو وہ چاہے وہ ہوگا، امام بخاری نے کہا : سلیمان بن حرب کہتے تھے کہ میرے نزدیک یہ قول : ومامنا ۔۔۔ اخیر تک ابن مسعود (رض) کا قول ہے، بلکہ اکثر حفاظ نے اس کو عبد اللہ بن مسعود (رض) کا کلام کہا ہے۔

【104】

نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بدفال لینا ناپسندیدہ ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھوت چھات ١ ؎ اور بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے، اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦١٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٢٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٩، ٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چھوت چھات یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، رسول اکرم ﷺ نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اسی طرح صفر کے مہینے کو عوام اب تک منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اکرم ﷺ بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں، یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔

【105】

نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بدفال لینا ناپسندیدہ ہے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھوت چھات، بدشگونی اور الو دیکھنے کی کوئی حقیقت نہیں، ایک شخص آپ ﷺ کی جانب اٹھ کر بولا : اللہ کے رسول ! ایک اونٹ کو جب کھجلی ہوتی ہے تو دوسرے اونٹ کو بھی اس کی وجہ سے کھجلی ہوجاتی ہے ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : یہی تو تقدیر ہے، آخر پہلے اونٹ کو کس نے کھجلی والا بنایا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ کہ امراض متعدی بھی ہوتے ہیں۔ ٢ ؎: اور جو ڈاکٹر یا حکیم ہمارے زمانے میں بعض بیماری میں عدوی بتلاتے ہیں، ان سے جب یہ اعتراض کرو کہ بھلا اگر عدوی صحیح ہوتا تو جس گھر میں ایک شخص کو ہیضہ ہو تو چاہیے کہ اس گھر کے بلکہ اس محلہ کے سب لوگ مرجائیں، تو اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ بعض مزاجوں میں اس بیماری کے قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے تو ان کو بیماری لگ جاتی ہے، بعض مزاجوں میں یہ مادہ نہیں ہوتا تو ان کو باوجود قرب کے بیماری نہیں لگتی، ہم یوں کہتے ہیں کہ مادے کا مزاج میں پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ ، تو پھر سب امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوئے اسی کی مرضی اور تقدیر سے پھر عدوی کا قائل ہونا کیا ضروری ہے ؟۔

【106】

نیک فال لیناپسند یدہ ہے اور بدفال لیناناپسندیدہ ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ جانے دیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/السلام ٣٣ (٢٢٢١، ٢٢٢٣) ، سنن ابی داود/الطب ٢٤ (٣٩١١) ، مسند احمد (٢/٤٣٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیماری متعدی ہوتی ہے، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے تندرست اور غیر مریض جانوروں کو مریض اونٹوں کے قریب لے جانے سے منع کیا، بلکہ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا سابقہ تقدیر اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے، تو جانوروں کا مالک تعدی کے ناحیہ سے فتنہ اور شک میں مبتلا ہوسکتا ہے، اس وجہ سے آپ نے دور رکھنے کا حکم دیا۔

【107】

جذام۔

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جذامی شخص کا ہاتھ پکڑا، اور اپنے ساتھ اس کے ہاتھ کو پیالے میں داخل کردیا، پھر اس سے کہا : کھاؤ، میں اللہ پر اعتماد اور اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٢٤ (٣٩٢٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٩ (١٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٠١٠) (ضعیف) (سند میں مفضل بن فضالہ ضعیف راوی ہیں )

【108】

جذام۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جذامیوں (کوڑھیوں) کی طرف لگاتار مت دیکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٧٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٣، ٢٩٩) (حسن صحیح )

【109】

جذام۔

شرید بن سوید ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ وفد ثقیف میں ایک جذامی شخص تھا، نبی اکرم ﷺ نے اسے کہلا بھیجا : تم لوٹ جاؤ ہم نے تمہاری بیعت لے لی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٦ (٢٢٣١) ، سنن النسائی/البیعة ١٩ (٤١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٩، ٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ زیادہ دیکھنے سے دل میں وسوسہ اور اندیشہ پیدا ہوگا، اگر کبھی ایسے مصیبت زدہ پر نظر پڑجائے تو یوں کہے : الحمد لله الذى عافانى مما ابتلاک به وفضلنى على كثير ممن خلق تفضيلا۔

【110】

جادو۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو بنی زریق کے یہودیوں میں سے لبید بن اعصم نامی ایک یہودی نے جادو کردیا، تو آپ کو ایسا لگتا کہ آپ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے تھے، یہی صورت حال تھی کہ ایک دن یا ایک رات آپ ﷺ نے دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی اور پھر دعا فرمائی، پھر کہا : عائشہ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتادی جو میں نے اس سے پوچھی تھی، میرے پاس دو شخص آئے، ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائتانے بیٹھ گیا، سرہانے والے نے پائتانے والے سے کہا، یا پائتانے والے نے سرہانے والے سے کہا : اس شخص کو کیا بیماری ہے ؟ دوسرے نے کہا : اس پر جادو کیا گیا ہے، اس نے سوال کیا : کس نے جادو کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا : لبید بن اعصم نے، اس نے پوچھا : کس چیز میں جادو کیا ہے ؟ جواب دیا : کنگھی میں اور ان بالوں میں جو کنگھی کرتے وقت گرتے ہیں، اور نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں، پہلے نے پوچھا : یہ چیزیں کہاں ہیں ؟ دوسرے نے جواب دیا : ذی اروان کے کنوئیں میں ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے چند صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر تشریف لائے، پھر واپس آئے تو فرمایا : اے عائشہ ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اس کا پانی مہندی کے پانی کی طرح (رنگین) تھا، اور وہاں کے کھجور کے درخت گویا شیطانوں کے سر تھے ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا آپ نے اسے جلایا نہیں ؟ فرمایا : نہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے تندرست کردیا ہے، اب میں نے ناپسند کیا کہ میں لوگوں پر اس کے شر کو پھیلاؤں ، پھر آپ ﷺ نے حکم دیا تو وہ سب چیزیں دفن کردی گئیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١٧ (٢١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجزیة ١٤ (٣١٧٥) ، الطب ٥٠ (٥٧٦٦) ، مسند احمد (٦/٥٧) (صحیح )

【111】

جادو۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : اللہ کے رسول ! آپ کو ہر سال اس زہریلی بکری کی وجہ سے جو آپ نے کھائی تھی، تکلیف ہوتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے اس کی وجہ سے کچھ بھی ہوا وہ میرے مقدر میں اسی وقت لکھ دیا گیا تھا جب آدم مٹی کے پتلے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٤٣، ٨٥٣٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٣٧) (ضعیف) (سند میں ابوبکر عنسی مجہول الحال راوی ہیں )

【112】

گھبراہٹ اور نیند اچاٹ ہونے کے وقت کی دعا۔

خولہ بنت حکیم (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی مقام پر اترے تو وہ اس وقت یہ دعا پڑھے : أعوذ بکلمات الله التامة من شر ما خلق۔ لم يضره في ذلک المنزل شيء حتى يرتحل منه میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کے تمام کلمات کی ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کیا تو اس مقام پر کوئی چیز اسے ضرر نہیں پہنچا سکتی یہاں تک کہ وہ وہاں سے روانہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٦ (٢٧٠٨) ، سنن الترمذی/الدعوات ٤١ (٣٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٣٣٧، ٣٧٨، ٤٠٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٨ (٢٧٢٢) (صحیح )

【113】

گھبراہٹ اور نیند اچاٹ ہونے کے وقت کی دعا۔

عثمان بن ابی العاص (رض) کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا : کیا ابن ابی العاص ہو ؟ ، میں نے کہا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! آپ نے سوال کیا : تم یہاں کیوں آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا : اخرج عدو الله اللہ کے دشمن ! نکل جا ؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا : اپنے کام پر جاؤ عثمان (رض) بیان کرتے ہیں : قسم سے ! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٦٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٣٨) (صحیح )

【114】

گھبراہٹ اور نیند اچاٹ ہونے کے وقت کی دعا۔

ابولیلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک اعرابی نے آ کر کہا : میرا ایک بیمار بھائی ہے، آپ ﷺ نے سوال کیا : تمہارے بھائی کو کیا بیماری ہے ؟ وہ بولا : اسے آسیب ہوگیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اسے لے کر آؤ، ابولیلیٰ کہتے ہیں کہ وہ (اعرابی) گیا اور اسے لے آیا، آپ ﷺ نے اسے اپنے سامنے بیٹھایا، میں نے آپ کو سنا کہ آپ نے اسے دم کیا، سورة فاتحہ، سورة البقرہ کی ابتدائی چار آیات اور درمیان کی دو آیتیں، اور وإلهكم إله واحد والی آیت، آیت الکرسی، پھر سورة البقرہ کی آخری تین آیات، آل عمران کی آیت (جو میرے خیال میں) شهد الله أنه لا إله إلا هو ہے، سورة الاعراف کی آیت إن ربکم الله الذي خلق، سورة مومنون کی آیت ومن يدع مع الله إلها آخر لا برهان له به، سورة الجن کی آیت وأنه تعالى جد ربنا ما اتخذ صاحبة ولا ولدا اور سورة الصافات کے شروع کی دس آیات، اور سورة الحشر کی آخری تین آیات، سورة قل هو الله أحد اور معوذتین کے ذریعے، تو اعرابی شفایاب ہو کر کھڑا ہوگیا، اور ایسا لگ رہا تھا کہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٣٩) (منکر) (سند میں ابو جناب الکلبی کثرت تدلیس کی وجہ سے ضعیف راوی ہیں )