33. لباس کا بیان
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لباس کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ان بیل بوٹوں نے غافل کردیا، اسے ابوجہم کو کے پاس لے کر جاؤ اور مجھے ان کی انبجانی چادر لا کر دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٤ (٣٧٣) ، الأذان ٩٣ (٧٥٢) ، اللباس ١٩ (٥٨١٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٥ (٥٥٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٦٧ (٩١٤) ، اللباس ١١ (٤٠٥٢) ، سنن النسائی/القبلة ٢٠ (٧٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٨ (٦٧) ، مسند احمد (٦/٣٧، ٤٦، ١٧٧، ١٩٩، ٢٠٨) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لباس کا بیان۔
ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا جو یمن میں تیار کیا جاتا ہے، اور ان چادروں میں سے ایک چادر جنہیں ملبدہ (موٹا ارزاں کمبل) کہا جاتا ہے، نکالا اور قسم کھا کر مجھے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں میں وفات پائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٥ (٣١٠٨) ، اللباس ١٩ (٥٨١٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٦ (٢٠٨٠) ، سنن الترمذی/اللباس ١٠ (١٧٣٣) ، سنن ابی داود/اللباس ٨ (٤٠٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢، ١٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، جب رسول اکرم ﷺ نے ایک کمبل اور ایک تہبند پر اکتفا کی، تو ہر مومن کے سامنے لباس میں یہ اسوہ رسول رہنا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ دنیا داروں کی خوشامد کرنے سے اور بیہودہ دوڑنے پھرنے سے ہمیشہ پرہیز رکھے، اور قناعت کو اپنا شعار گردانے اور سوال اور حاجت لے کر دوسروں کے سامنے جانے کی ذلت و خواری سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لباس کا بیان۔
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس میں آپ نے گرہ لگا رکھی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٠) (ضعیف الإسناد) (خالد بن معدان نے نہ عبادہ (رض) سے ملاقات کی اور نہ ان سے سنا، نیز احوص بن حکیم ضعیف راوی ہے )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لباس کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، آپ کے جسم پر موٹے کنارے والی نجرانی چادر تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١٩ (٣١٤٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٤ (١٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٣) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لباس کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کو برا بھلا کہا ہو یا آپ کا کپڑا تہ کیا جاتا رہا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤١٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٤١) (ضعیف) (عبداللہ بن لہیعہ صدوق راوی ہیں، لیکن ان کی کتابوں کے جلنے کے بعد اختلاط کا شکار ہوگئے تھے اس لئے یہ سند ضعیف ہے )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لباس کا بیان۔
سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بردہ (چادر) لے کر آئی (ابوحازم نے پوچھا بردہ کیا چیز ہے ؟ ان کے شیخ نے کہا : بردہ شملہ ہے جسے اوڑھا جاتا ہے) اور کہا : اللہ کے رسول ! اسے میں نے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں آپ کو پہناؤں، رسول اللہ ﷺ نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ اسے پہن کر کے ہمارے درمیان نکل کر آئے، یہی آپ کا تہبند تھا، پھر فلاں کا بیٹا فلاں آیا (اس شخص کا نام حدیث بیان کرنے کے دن سہل نے لیا تھا لیکن ابوحازم اسے بھول گئے) اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ چادر کتنی اچھی ہے، یہ آپ مجھے پہنا دیجئیے، فرمایا : ٹھیک ہے ، پھر جب آپ اندر گئے تو اسے (اتار کر) تہ کیا، اور اس کے پاس بھجوا دی، لوگوں نے اس سے کہا : اللہ کی قسم ! تم نے اچھا نہیں کیا، نبی اکرم ﷺ کو اس نے اس لیے پہنائی تھی کہ آپ کو اس کی حاجت تھی، پھر بھی تم نے اسے آپ سے مانگ لیا، حالانکہ تمہیں معلوم تھا کہ آپ کسی سائل کو نامراد واپس نہیں کرتے تو اس شخص نے جواب دیا : اللہ کی قسم ! میں نے آپ سے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا ہے بلکہ اس لیے مانگا ہے کہ وہ میرا کفن ہو، سہل کہتے ہیں : جب وہ مرے تو یہی چادر ان کا کفن تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٨ (١٢٧٧) ، البیوع ٣١ (٢٠٩٣) ، اللباس ١٨ (٥٨١٠) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٤٣ (٥٣٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں اس شخص کا نام عبدالرحمن بن عوف مذکور ہے جو بزرگ صحابی اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لباس کا بیان۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اون کا (سادہ اور موٹا) لباس پہنا ہے، مرمت شدہ جوتا پہنا ہے اور انتہائی موٹا کپڑا زیب تن فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٢) (ضعیف) (نوح بن ذکوان ضعیف ہے، اور بقیہ مدلس اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
نیا کپڑا پہننے کی دعا۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے نیا کپڑا پہنا تو یہ دعا پڑھی : الحمد لله الذي کساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي یعنی : اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں، اور اپنی زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں ، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا کہ جو شخص نیا کپڑا پہنے اور یہ دعا پڑھے : الحمد لله الذي کساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي یعنی اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں ، پھر وہ اس کپڑے کو جو اس نے اتارا، یا جو پرانا ہوگیا صدقہ کر دے، تو وہ اللہ کی حفظ و امان اور حمایت میں رہے گا، زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی یہ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٠٨ (٣٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٤) (ضعیف) (سند میں ا بو العلاء مجہول راوی ہیں )
نیا کپڑا پہننے کی دعا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمر (رض) کو ایک سفید قمیص پہنے دیکھا تو پوچھا : تمہارا یہ کپڑا دھویا ہوا ہے یا نیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں، یہ دھویا ہوا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : البس جديدا وعش حميدا ومت شهيدا نیا لباس، قابل تعریف زندگی، اور شہادت کی موت نصیب ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٩٥٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٨) (صحیح )
ممنوع لباس۔
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا ہے، ایک اشتمال صماء ١ ؎ سے، دوسرے ایک کپڑے میں احتباء ٢ ؎ سے کہ اس کی شرمگاہ پر کچھ نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اشتمال صماء: ایک کپڑا سارے بدن پر لیپٹ لے، اور کپڑے کے دونوں کنارے اپنے دائیں کندھے پر ڈال لے، اور اس کا داہنا پہلو کھلا رہے۔ ٢ ؎: احتباء: ایک کپڑا اوڑھ کے لوٹ مار کر اس طرح سے بیٹھے کہ شرم گاہ کھلی رہے یا شرم گاہ پر کوئی کپڑا نہ رہے۔
ممنوع لباس۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا : اشتمال صماء سے اور ایک کپڑے میں احتباء سے، کہ شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٦٥) (صحیح )
ممنوع لباس۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا : اشتمال صماء سے، اور ایک کپڑے میں احتباء سے، کہ تم اپنی شرمگاہ کو آسمان کی طرف کھولے رہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٤) (صحیح )
بالوں کا کپڑا پہننا۔
ابوبردہ اپنے والد ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے کہا : میرے بیٹے ! کاش تم ہم کو اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، جب ہم پر آسمان سے بارش ہوتی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بو بھیڑ کی بو جیسی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٦ (٤٠٣٣) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٣٨ (٢٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٧، ٤١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ بالوں کے کپڑے جب بھیگ جاتے ہیں ان میں سے ایسی ہی بو پھوٹ نکلتی ہے۔
بالوں کا کپڑا پہننا۔
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اون کا بنا ہوا تنگ آستین والا رومی جبہ پہنے ہمارے پاس تشریف لائے، اور اسی میں ہمیں نماز پڑھائی، اس کے علاوہ آپ پر کوئی اور لباس نہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٦، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٥) (ضعیف) (احوص بن حکم ضعیف راوی ہیں، اور خالد بن معدان کی نہ تو عبادہ (رض) سے ملاقات ہے، اور نہ سماع )
بالوں کا کپڑا پہننا۔
سلمان فارسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا، پھر اون والے جبہ کو جو آپ پہنے ہوئے تھے الٹ دیا، اور اس سے اپنا چہرہ پونچھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٩، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٦) (حسن) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤٦٨ )
بالوں کا کپڑا پہننا۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بکریوں کے کانوں میں داغتے دیکھا، اور میں نے آپ کو چادر کا تہبند پہنے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الذبائح ٣٥ (٥٥٤٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٠ (٢١١٩) ، سنن ابی داود/الجہاد ٥٧ (٢٥٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٩، ١٧١، ٢٥٤، ٢٥٩) (ضعیف) (ابن ماجہ کی روایت میں ان کے شیخ سوید بن سعید ضعیف ہے، اس لئے آخری ٹکڑا ورأيته متزرا بکساء تک ضعیف ہے دوسرے کسی طریق میں یہ ٹکڑا نہیں ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٢٣٠٩ )
سفید کپڑے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے بہترین کپڑے سفید کپڑے ہیں، لہٰذا انہیں کو پہنو اور اپنے مردوں کو انہیں میں کفناؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١٦ (٤٠٦١) ، الجنائر ١٨ (٩٩٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٨ (٩٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣١، ٢٤٧، ٢٧٤، ٣٢٨، ٣٥٥، ٣٦٣) (صحیح )
سفید کپڑے۔
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفید کپڑے پہنو کہ یہ زیادہ پاکیزہ اور عمدہ لباس ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٤٦ (٢٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجنائز ٣٨ (١٨٩٧) ، الزینة من المجتبیٰ ٤٤ (٥٣٤٣) ، مسند احمد (٥/١٠، ١٢، ١٣، ١٧، ١٨، ١٩، ٢١) (صحیح )
سفید کپڑے۔
ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر لباس جس کو پہن کر تم اپنی قبروں اور مسجدوں میں اللہ کی زیارت کرتے ہو، سفید لباس ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٣٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٧) (موضوع) (سند میں مروان متروک راوی ہے، ساجی وغیرہ نے اس پر وضع حدیث کا الزام لگایا ہے، اور شریح بن عبید کا ابو الدرداء (رض) سے سماع نہیں ہے )
تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکانا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے کپڑے فخر و غرور سے گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے دن نہیں دیکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٩ (٢٠٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٥، ٧٩٥٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٦٤) ، اللباس ١ (٥٧٨٣) ، ٢ (٥٧٨٤) ، ٥ (٥٧٩١) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٨ (٤٠٨٥) ، سنن الترمذی/اللباس ٨ (١٧٣٠) ، ٩ (١٧٣١) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٥٠ (٥٣٣٧) ، موطا امام مالک/اللباس ٥ (٩) ، مسند احمد (٢/٥، ١٠، ٣٢، ٤٢، ٤٤، ٤٦، ٥٥، ٥٦، ٦٠، ٦٥، ٦٧، ٦٩، ٧٤، ٨١) (صحیح )
تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکانا۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے غرور و تکبر سے اپنا تہبند گھسیٹا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے روز نہیں دیکھے گا ۔ عطیہ کہتے ہیں کہ مقام بلاط میں میری ملاقات ابن عمر (رض) سے ہوئی تو میں نے ان سے ابوسعید (رض) کی یہ حدیث بیان کی جو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی، تو ابن عمر (رض) نے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کر کے کہا : اسے میرے کانوں نے بھی سنا ہے، اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢١٠، ٧٣٣٩، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/اللباس ٣٠ (٤٠٩٣) ، موطا امام مالک/اللباس ٥ (١٢) ، مسند احمد (٣/٥، ٣١، ٤٤، ٥٢، ٩٧) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن باب کی احادیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکانا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ان کے پاس سے قریش کا ایک جوان اپنی چادر لٹکائے ہوئے گزرا، آپ نے اس سے کہا : میرے بھتیجے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس نے غرور و تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٥ (٥٧٨٨) ، صحیح مسلم/اللباس ١٠ (٢٠٨٨) ، موطا امام مالک/اللباس ٥ (١٠) ، مسند احمد (٢/٥٠٣) (حسن صحیح )
پائجامہ کہاں تک رکھنا چاہئے ؟
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری پنڈلی کے نیچے کا پٹھا پکڑا اور فرمایا : تہبند کا مقام یہ ہے، اگر تم اتنا نہ کرسکو تو اس سے تھوڑا نیچے رکھو، اور اگر اتنا بھی نہ رکھ سکو تو اور نیچے رکھو، لیکن اگر اتنا بھی نہ کرسکو تو تمہیں ٹخنوں سے نیچے تہبند رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٤١ (١٧٨٣) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٤٨ (٥٣٣١) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٩٦، ٣٩٨، ٤٠٠، ٤٠١) (صحیح ) اس سند سے بھی حذیفہ (رض) سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
پائجامہ کہاں تک رکھنا چاہئے ؟
عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) سے کہا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے تہبند کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ فرمایا : ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : مومن کا تہبند اس کی آدھی پنڈلی تک ہوتا ہے، اور اگر وہ اس کے اور ٹخنوں کے درمیان کسی بھی جگہ تک رکھے تو بھی کوئی حرج نہیں، لیکن جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ حصہ جہنم میں ہوگا، اور آپ ﷺ نے تین بار فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنا تہبند تکبر کی وجہ سے گھسیٹے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٣٠ (٤٠٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤١٣٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/اللباس ٥ (١٢) ، مسند احمد (٣/٥، ٣١، ٤٤، ٥٢، ٩٧) (صحیح )
پائجامہ کہاں تک رکھنا چاہئے ؟
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفیان بن سہل ! (ٹخنہ کے نیچے) تہبند نہ لٹکاؤ کہ اللہ تعالیٰ تہبند لٹکانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٦، ٢٥٠، ٢٥٠، ٢٥٣) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٣٩١ )
قمیص پہننا۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کرتے (قمیص) سے بڑھ کر کوئی لباس محبوب اور پسندیدہ نہ تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٣ (٤٠٢٥، ٤٠٢٦) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٨ (١٧٦٣، ١٧٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٠٦، ٣١٧، ٣١٨، ٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سلے ہوئے کپڑوں میں، اور کپڑے کی جنس تو دوسری روایت میں ہے کہ سب سے زیادہ پسند آپ ﷺ کو حبرہ تھا یعنی دھاری دار کپڑا جس میں سرخ دہاریاں ہوتی ہیں، اور اس زمانہ میں یہ کپڑا روئی کے سب کپڑوں میں عمدہ تھا۔
قمیص کی لمبائی کی حد۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسبال: تہبند، کرتے (قمیص) اور عمامہ (پگڑی) میں ہوتا ہے جو اسے محض تکبر اور غرور کے سبب گھسیٹے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے روز نہیں دیکھے گا ١ ؎۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ یہ کتنی غریب روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٣٠ (٤٠٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تہبند لٹکانا سخت گناہ ہے اور اس میں بڑی وعید آئی ہے، ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تہبندلٹکانے والوں کو نماز اور وضو دونوں کے دہرانے کا حکم دیا، اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم تشدد اور تہدید کے طور پر تھا کیونکہ وضو ٹوٹنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، بہرحال تہبند لٹکا کے نماز پڑھنا بڑی خرابی کی بات ہے کہ اس میں نماز صحیح نہ ہونے کا اندیشہ ہے، جو غرور اور کبر کی وجہ سے ایسا کرے تو وہ مزید دھمکی کا مستحق ہے کہ اس نے دو کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا۔ اور جس کی تہبند خود بخود کبھی ٹخنوں کے نیچے ہوجاتی ہے جیسا کہ ابوبکر (رض) کے بارے میں وارد ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو اور ٹخنے سے نیچے لٹکانا کچھ تہبند سے خاص نہیں ہے بلکہ ہر ایک کپڑے میں مقدار سنت یا مقدار ضرورت سے اور ٹخنوں تک بڑھانے کی رخصت ہے، اس سے نیچے پہننا حرام ہے، اسی طرح عمامہ کا شملہ نصف پشت سے زیادہ لٹکانا بدعت و حرام ہے، اور اسراف ہے۔
قمیص کی آستین کی حد۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایسی قمیص پہنتے جس کی آستین چھوٹی اور لمبائی بھی کم ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٢٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٠) (ضعیف) (سند میں مسلم بن کیسان کوفی ضعیف راوی ہے )
گھنڈیاں کھلی رکھنا۔
قرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے بیعت کی، اس وقت آپ کے کرتے کی گھنڈیاں کھلی ہوئی تھیں، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) اور ان کے بیٹے کو خواہ سردی ہو یا گرمی ہمیشہ اپنی گھنڈیاں (بٹن) کھولے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٢٦ (٤٠٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٤، ٤/١٩، ٥/٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوٹی چھوٹی سنتوں میں بھی رسول اکرم ﷺ کی پیروی کا کتنا خیال تھا کہ جس حال میں اور جس وضع میں آپ ﷺ کو دیکھا ساری عمر وہی وضع اور روش اختیار کی، آفریں ان کے جذبہ و محبت اور اتباع پر، اور کمال ایمان یہی ہے کہ عبادات اور عادات میں آپ ﷺ کی پیروی کی جائے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے کرتہ کا گریبان بیچ میں رہتا۔
پائجامہ پہننا۔
سوید بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو آپ نے ہم سے پاجامے کا مول بھاؤ (سودا) کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧ (٣٣٣٦، ٣٣٣٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٦ (١٣٠٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥٢ (٤٥٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٧ (٢٦٢٧) (صحیح) (یہ مکر رہے، ملاحظہ ہو : ٢٢٢٠ ) وضاحت : ١ ؎: اس سے یہ معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ نے پاجامہ پسند کیا، مگر پاجامے کا پہننا آپ سے ثابت نہیں ہے۔
عورت آنچل کتنالمبا رکھے ؟
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا : عورت اپنے کپڑے کا دامن کتنا لٹکا سکتی ہے ؟ فرمایا : ایک بالشت میں نے عرض کیا : اتنے میں تو پاؤں کھل جائے گا، تو فرمایا : ایک ہاتھ، اس سے زیادہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٠ (٤١١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٩ (١٧٣١) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٥١ (٥٣٥٢) ، موطا امام مالک/اللباس ٦ (١٣) ، مسند احمد (٦/٢٩٣، ٢٩٦، ٣٠٩، ٣١٥) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٦ (٢٦٨٦) (صحیح )
عورت آنچل کتنالمبا رکھے ؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو کپڑوں کے دامن ایک ہاتھ لٹکانے کی اجازت تھی، چناچہ جب وہ ہمارے پاس آتیں تو ہم ان کے لیے لکڑی سے ایک ہاتھ کا ناپ بنا کردیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٠ (٤١١٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٦١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٩ (١٧٣١) ، مسند احمد (٢/١٨، ٩٠) (منکر) (سند میں زید العمی ضعیف ہیں، اور فكن يأتينا فنذرع لهن کا لفظ منکر ہے، پہلا ٹکڑا صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٨٦٤ )
عورت آنچل کتنالمبا رکھے ؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فاطمہ یا ام سلمہ (رض) سے فرمایا : اپنے کپڑے کا دامن ایک ہاتھ کا رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٣، ٤١٦) (صحیح) (سند میں ابو المہزم ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے )
عورت آنچل کتنالمبا رکھے ؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عورتوں کے دامن کے سلسلے میں فرمایا : ایک بالشت کا ہو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ اتنے میں تو پنڈلی کھل جائے گی ؟ فرمایا : تو پھر ایک ہاتھ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٥، ١٢٣) (صحیح) (سند میں ابو المہزم متروک ہے، لیکن حدیث نمبر ( ٣٥٨١ ) میں ابن عمر (رض) کے شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
سیاہ عمامہ۔
عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر خطبہ دیتے دیکھا، آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٩) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٤ (٤٠٧٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ١٦ (١٠٨) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٥٦ (٥٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٧) ، سنن الدارمی/ المناسک ٨٨ (١٩٨٢) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ١١١٤ )
سیاہ عمامہ۔
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ میں (فتح کے دن) داخل ہوئے، تو آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ٢٨٢٢ (صحیح )
سیاہ عمامہ۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے، آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٣) (صحیح) (اس سند میں موسیٰ بن عبیدة ربذی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے )
عمامہ (شملہ) دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹکانا۔
عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں، اور آپ کے سر پر کالی پگڑی ہے جس کے دونوں کناروں کو آپ اپنے دونوں شانوں کے درمیان لٹکائے ہوئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : (١١٠٤، ٣٥٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان حدیثوں سے سیاہ عمامہ (کالی پگڑی) کا مسنون ہونا نکلتا ہے، دوسری روایتوں میں سفید بھی منقول ہے۔
ریشم پہننے کی ممانعت۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی نے دنیا میں ریشمی کپڑا پہنا، وہ آخرت میں نہیں پہن سکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (١٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٢٥ (٥٨٣٢) ، مسند احمد (٣/١٠١) (صحیح )
ریشم پہننے کی ممانعت۔
براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (مردوں کے لیے) دیباج، حریر اور استبرق (موٹا ریشمی کپڑا) پہننے سے منع کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢ (١٢٣٩) ، النکاح ٧١ (٥١٧٥) ، الأشربة ٢٨ (٥٦٣٥) ، المرضی ٤ (٥٦٥٠) ، اللباس ٣٦ (٥٨٣٨) ، ٤٥ (٥٨٦٣) ، الأدب ١٢٤ (٦٢٢٢) ، الاستئذان ٨ (٦٢٣٥) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٦) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٥ (٢٨٠٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٣ (١٩٤١) ، الزینة من المجتبیٰ ٣٧ (٥٣١١) ، (تحفة الأشراف : ١٩١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٤، ٢٨٧، ٢٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ تینوں ریشمی کپڑے ہیں۔
ریشم پہننے کی ممانعت۔
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (مردوں کے لیے) ریشم اور سونا پہننے سے منع کیا، اور فرمایا : یہ ان (کافروں) کے لیے دنیا میں ہے اور ہمارے لیے آخرت میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٩ (٥٤٢٦) ، الأشربة ٢٧ (٥٦٣٢) ، ٢٨ (٥٦٣٣) ، اللباس ٢٥ (٥٨٣١) ، ٢٧ (٥٨٣٧) ، صحیح مسلم/اللباس ١ (٢٠٦٧) ، سنن ابی داود/الأشربة ١٧ (٣٧٢٣) ، سنن الترمذی/الأشربة ١٠ (١٨٧٨) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٣٣ (٥٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٥، ٣٩٠، ٣٩٦، ٣٩٨، ٤٠٠، ٤٠٨) ، سنن الدارمی/الأشربة ٢٥ (٢١٧٦) (صحیح )
ریشم پہننے کی ممانعت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے ریشم کا ایک سرخ جوڑا دیکھا تو کہا : اللہ کے رسول ! اگر آپ اس جوڑے کو وفود سے ملنے کے لیے اور جمعہ کے دن پہننے کے لیے خرید لیتے تو اچھا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٧ (٨٨٦) ، العیدین ١ (٩٤٨) الھبة ٢٧ (٢٦١٢) ، ٢٩ (٢٦١٩) ، الجہاد ١٧٧ (٣٠٥٤) ، اللباس ٣٠ (٥٨٤١) ، الأدب ٩ (٥٩٨١) ، ٦٦ (٦٠٨١) ، صحیح مسلم/اللباس ١ (٢٠٦٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢١٩ (١٠٧٦) ، اللباس ١٠ (٤٠٤٠) ، سنن النسائی/الجمعة ١١ (١٣٨٣) ، العیدین ٤ (١٥٦١) ، الزینة في المجتبیٰ ٢٩ (٥٢٩٧) ، ٣١ (٥٣٠١) ، موطا امام مالک/اللباس ٨ (١٨) ، مسند احمد (٢/٢٠، ٣٩، ٤٩) (صحیح )
جس کو ریشم پہننے کی اجازت ہے۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زبیر بن عوام اور عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کو اس تکلیف کی وجہ سے جو انہیں کھجلی کی وجہ سے تھی، ریشم کے کرتے پہننے کی اجازت دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩١ (٢٩١٩) ، اللباس ٢٩ (٥٨٣٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٣ (٢٠٧٦) ، سنن ابی داود/اللباس ١٣ (٤٠٥٦) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٣٨ (٥٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٢ (١٧٢٢) ، مسند احمد (٣/١٢٧، ١٨٠، ٢١٥، ٢٥٥، ٢٧٣) (صحیح )
ریشم کی گوٹ لگانا جائز ہے۔
عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ خالص ریشمی کپڑے (حریر و دیباج) کے استعمال سے منع فرماتے تھے سوائے اس کے جو اس قدر ریشمی ہوتا، پھر انہوں نے اپنی ایک انگلی، پھر دوسری پھر تیسری پھر چوتھی انگلی سے اشارہ کیا ١ ؎ پھر کہا : رسول اللہ ﷺ ہمیں اس سے منع کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٨٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی چار انگل ریشم اگر کسی کپڑے میں ہو تو کوئی حرج نہیں۔
ریشم کی گوٹ لگانا جائز ہے۔
اسماء (رض) کے غلام ابوعمر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے ایک عمامہ خریدا جس میں گوٹے بنے تھے، پھر قینچی منگا کر انہیں کتر دیا ١ ؎، میں اسماء (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا : تعجب ہے عبداللہ پر، (ایک اپنی خادمہ کو پکار کر کہا :) اے لڑکی ! رسول اللہ ﷺ کا جبہ لے آ، چناچہ وہ ایک ایسا جبہ لے کر آئی جس کی دونوں آستینوں، گریبان اور کلیوں کے دامن پر ریشمی گوٹے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٩) ، سنن ابی داود/اللباس ١٢ (٤٠٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٨، ٣٥٣، ٣٥٤، ٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شاید ابن عمر (رض) اس رخصت کی خبر نہ ہوگی، اور شاید ان کے عمامہ کا حاشیہ چار انگل سے زیادہ ہوگا، اس لئے انہوں نے کاٹ ڈالا۔
عورتوں کے لئے ریشم اور سونا پہننا۔
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ میں ریشم اور دائیں ہاتھ میں سونا لیا، اور دونوں کو ہاتھ میں اٹھائے فرمایا : یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام، اور عورتوں کے لیے حلال ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١٤ (٤٠٥٧) ، سنن النسائی/الزینة ٤٠ (٥١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٦، ١١٥) (صحیح )
عورتوں کے لئے ریشم اور سونا پہننا۔
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی (جوڑا) تحفہ میں آیا جس کے تانے یا بانے میں ریشم ملا ہوا تھا، آپ نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس کا کیا کروں ؟ کیا میں اسے پہنوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ اسے فاطماؤں کی اوڑھنیاں بنادو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٠٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٠ (٥٨٤٠) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٧١) ، سنن ابی داود/اللباس ١٠ (٤٠٤٣) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٣٠ (٥٣٠٠) ، مسند احمد (١/٩٠، ١٣٠، ١٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک فاطمہ بنت اسد علی (رض) کی ماں، دوسری فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہ، تیسری سیدۃ النسا، فاطمہ (رض) صاحبزادی رسول اللہ ﷺ ۔
عورتوں کے لئے ریشم اور سونا پہننا۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس گھر سے نکل کر آئے، آپ کے ایک ہاتھ میں ریشم کا کپڑا، اور دوسرے میں سونا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام، اور عورتوں کے لیے حلال ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٧٩، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٤) (صحیح) (سند میں افریقی اور ابن رافع ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث (نمبر ٣٥٩٥ ) سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
عورتوں کے لئے ریشم اور سونا پہننا۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادی زینب (رض) کو سرخ دھاری دار ریشمی کرتا پہنے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٣٠ (٥٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٠) (شاذ) (حدیث میں زینب کا ذکر شاذ ہے، محفوظ حدیث میں ام کلثوم کا ذکر ہے )
مردوں کا سرخ لباس پہننا۔
براء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت بال جھاڑے اور سنوارے ہوئے سرخ جوڑے میں ملبوس کسی کو نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٦٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥١) ، اللباس ٣٥ (٥٨٤٨) ، ٦٨ (٥٩٠١) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٥ (٢٣٣٧) ، سنن ابی داود/اللباس ٢١ (٤٠٧٢) ، الترجل ٩ (٤١٨٥) ، سنن الترمذی/اللباس ٤ (١٧٢٤) ، الأدب ٤٧ (٢٨١١) ، المناقب ٨ (٣٦٣٥) ، الشمائل ١ (٦٢) ، ٣ (٦٤) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٥ (٥٢٣٤) ، مسند احمد (٤/٢٨١، ٢٩٥) (صحیح )
مردوں کا سرخ لباس پہننا۔
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ دیتے دیکھا، اتنے میں حسن اور حسین (رض) دونوں لال قمیص پہنے ہوئے آگئے کبھی گرتے تھے کبھی اٹھتے تھے، نبی اکرم ﷺ (منبر سے) اترے، دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا، اور فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کا قول سچ ہے : إنما أموالکم وأولادکم فتنة بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں ، میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کرسکا، پھر آپ ﷺ نے خطبہ شروع کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٣ (١١٠٩) ، سنن الترمذی/المناقب ٣١ (٣٧٧٤) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٠ (١٤١٤) ، العیدین ٢٧ (١٥٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ خطبہ کے درمیان بات کرنا اور بچوں کا اٹھا لینا اور کسی کام کے لئے منبر پر سے اترنا اور تھوڑی دیر کے لئے خطبہ روک دینا جائز ہے، دوسرے حسن و حسین (رض) کی فضیلت و منقبت، تیسرے یہ کہ نبی اکرم ﷺ کی ان دونوں سے غایت درجہ محبت اور قلبی لگاؤ، چوتھے چیز لال رنگ کا جواز کیونکہ یہ دونوں صاحبزادے لال رنگ کی قمیص پہنے ہوئے تھے، اگر یہ ناجائز ہوتا تو آپ ﷺ اس سے منع فرماتے یا اسے اتارنے کا حکم دیتے۔
کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مردوں کے لئے صحیح نہیں۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مفدم سے منع کیا ہے، یزید کہتے ہیں کہ میں نے حسن سے پوچھا : مفدم کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : جو کپڑا کسم میں رنگنے سے خوب پیلا ہوجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٩١، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہلکا سرخ رنگ کسم کا بھی جائز ہے۔
کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مردوں کے لئے صحیح نہیں۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے پیلے رنگ کے کپڑے پہننے سے روکا، میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں منع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤١ (٤٧٩) ، اللباس ٤ (٢٠٧٨) ، سنن ابی داود/اللباس ١١ (٤٠٤٤، ٤٠٤٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٠ (٢٦٤) ، اللباس ٥ (١٧٢٥) ، ١٣ (١٧٣٧) ، سنن النسائی/التطبیق ٧ (١٠٤٤، ١٠٤٥) ، ٦١ (١١١٩) ، الزینة من المجتبیٰ ٢٣ (٥١٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٦ (٢٨) ، مسند احمد (١/٨٠، ٨١، ٩٢، ١٠٤، ١٠٥، ١١٤، ١١٩، ١٢١، ١٢٣، ١٢٦، ١٢٧، ١٣٢، ١٣٣، ١٣٤، ١٣٧، ١٣٨، ١٤٦) (صحیح )
کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مردوں کے لئے صحیح نہیں۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ہم اذاخر ١ ؎ کے موڑ سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آئے، آپ میری طرف متوجہ ہوئے، میں باریک چادر پہنے ہوئے تھا جو کسم کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی، تو آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ میں آپ کی اس ناگواری کو بھانپ گیا، چناچہ میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا، وہ اس وقت اپنا تنور گرم کر رہے تھے، میں نے اسے اس میں ڈال دیا، دوسری صبح میں آپ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : عبداللہ ! چادر کیا ہوئی ؟ میں نے آپ کو ساری بات بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اپنی کسی گھر والی کو کیوں نہیں پہنا دی ؟ اس لیے کہ اسے پہننے میں عورتوں کے لیے کوئی مضائقہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٢٠ (٤٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٨١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٤، ١٩٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اذاخر : مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے۔
مردوں کے لئے زرد لباس۔
قیس بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، تو ہم نے آپ کے لیے پانی رکھا تاکہ آپ اس سے ٹھنڈے ہوں، آپ نے اس سے غسل فرمایا، پھر میں آپ کے پاس ایک پیلی چادر لے کر آیا، (اس کو آپ نے پہنا) تو میں نے آپ کے پیٹ کی سلوٹوں پر ورس کا نشان دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٩٥) (ضعیف) (سند میں محمد بن شر حبیل مجہول، اور محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ایک پیلا، خوشبودار پودا ہے جو یمن میں پایا جاتا ہے۔
جو چاہو پہنو بشرطیکہ اسراف یا تکبر نہ ہو۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ پیو، صدقہ و خیرات کرو، اور پہنو ہر وہ لباس جس میں اسراف و تکبر (فضول خرچی اور گھمنڈ) کی ملاوٹ نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٧٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ١ (تعلیقا) سنن النسائی/الزکاة ٦٦ (٢٥٦٠) ، مسند احمد (٢/١٨١، ١٨٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: ضرورت سے زیادہ مال خرچ کرنے کو اسراف کہتے ہیں، جو حرا م ہے، قرآن میں ہے : ولا تسرفوا إنه لا يحب المسرفين (سورة الأعراف : 31) اسراف نہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا دوسری جگہ ہے : إن المبذرين کانوا إخوان الشياطين وکان الشيطان لربه کفورا (سورة الإسراء : 27) بےجا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور خلاف شرع کام میں ایک پیسہ بھی صرف کرنا اسراف میں داخل ہے جیسے پتنگ بازی، کبوتر بازی اور آتش بازی وغیرہ وغیرہ
شہرت کی خاطر کپڑے پہننا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے شہرت کا لباس پہنا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٥ (٤٠٢٩، ٤٠٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٢، ١٣٩) (حسن )
شہرت کی خاطر کپڑے پہننا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں آگ بھڑکائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن )
شہرت کی خاطر کپڑے پہننا۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے شہرت کی خاطر لباس پہنا، اللہ تعالیٰ اس سے منہ پھیر لے گا یہاں تک کہ اسے اس جگہ رکھے گا جہاں اسے رکھنا ہے (یعنی جہنم میں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١١٩١٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٨) (ضعیف) (سند میں وکیع بن محرز کے پاس عجیب و غریب احادیث ہیں، اور عباس بن یزید مختلف فیہ راوی ہیں، لیکن سابقہ احادیث میں جیسا گزرا متن حدیث ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٦٥٠ )
مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پہننا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ہر وہ کھال جسے دباغت دے دی گئی ہو پاک ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٤١ (٤١٢٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٧ (١٧٢٨) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٣ (٤٢٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصید ٦ (١٧) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٣٧، ٢٧٠، ٢٧٩، ٢٨٠، ٣٤٣، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٠ (٢٠٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو حلال جانور ہیں ان کی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے۔
مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پہننا۔
ام المؤمنین میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کی ایک لونڈی کو صدقہ کی ایک بکری ملی تھی جو مری پڑی تھی، نبی اکرم ﷺ کا گزر اس بکری کے پاس ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں نے اس کی کھال کیوں نہیں اتار لی کہ اسے دباغت دے کر کام میں لے آتے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو مردار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : صرف اس کا کھانا حرام ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٧ (١٧٢٧) ، سنن ابی داود/اللباس ٤١ (١٤٢٠) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٣ (٤٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦١ (١٤٩٢) ، البیوع ١٠١ (٢٢٢١) ، موطا امام مالک/الصید ٦ (١٦) ، مسند احمد (٦/٣٢٩، ٢٣٦) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٠ (٢٠٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مرے ہوئے ماکول اللحم جانور کا گوشت کھانا حرام ہے، لیکن اس کے چمڑے سے دباغت کے بعد ہر طرح کا فائدہ اٹھانا جائز ہے، وہ بیچ کر ہو یا ذاتی استعمال میں لا کر۔
مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پہننا۔
سلمان (رض) کہتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے کسی ایک کے پاس ایک بکری تھی جو مرگئی، رسول اللہ ﷺ کا اس پر گزر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر لوگ اس کی کھال کو کام میں لے آتے تو اس کے مالکوں کو کوئی نقصان نہ ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٥٩) (صحیح) (سند میں لیث بن ابی سلیم اور شہر بن حوشب دونوں ضعیف راوی ہیں )
مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پہننا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا : جب مردہ جانوروں کی کھال کو دباغت دے دی جائے، تو لوگ ا سے فائدہ اٹھائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤١ (٤١٢٤) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٥ (٤٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصید ٦ (١٨) ، مسند احمد (٦/٧٣، ١٠٤، ١٤٨، ١٥٣) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٠ (٢٠٣٠) (صحیح لغیرہ) (نیز ملاحظہ ہو : صحیح موارد الظمآن : ١٢٢ وغایة المرام : ٢٦ )
بعض کا قول کہ مردار کی کھال اور پٹھے نفع نہیں اٹھایا جاسکتا۔
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ کا مکتوب آیا کہ مردار کی کھال اور پٹھوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٢ (٤١٢٧، ٤١٢٨) ، سنن الترمذی/اللباس ٧ (١٧٢٩) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٤ (٤٢٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٠، ٣١١) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٤٧٠ ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں إِهَاب کا لفظ آیا ہے، اور نضر بن شمیل کہتے ہیں کہ إِهَاب اسی کھال کو کہا جاتا جس کی دباغت نہ ہوئی ہو، اور جس کی دباغت ہوجائے اسے إِهَاب نہیں کہتے، بلکہ اسے شن یا قربہ کہا جاتا ہے، لہذا اس حدیث میں إِهَاب یعنی بغیر دباغت والے چمڑے کا ذکر ہے، اس إِهَاب یعنی کچے چمڑے سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں، لیکن دوسری صحیح حدیثوں میں مشروط طریقے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، وہ یہ کہ حلال مردہ جانوروں کے چمڑے کو پہلے دباغت دے دیں، پھر اس سے فائدہ اٹھائیں لفظ إِهَاب کی وضاحت کے بعد حدیث میں کسی طرح کا نہ کوئی تعارض ہے اور نہ ہی اشکال۔
بعض کا قول کہ مردار کی کھال اور پٹھے نفع نہیں اٹھایا جاسکتا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی جوتیوں کے دو تسمے تھے، جو آگے سے دہرے ہوتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ چپل پہنتے تھے اور تسموں سے مراد یہ کہ ہر جوتی میں سامنے دو دو حلقے چمڑے کے تھے ایک میں انگوٹھا اور بیچ کی انگلی ڈالتے، اور دوسرے میں باقی انگلیاں۔
بعض کا قول کہ مردار کی کھال اور پٹھے نفع نہیں اٹھایا جاسکتا۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی جوتیوں کے دو تسمے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٥ (١٠٧) ، اللباس ٤١ (٥٨٥٧) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٤ (٤١٣٤) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٣ (١٧٧٢) ، الشمائل ١٠ (٧١) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٦٢ (٥٣٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٢، ٢٠٣، ٢٤٥، ٢٦٩) (صحیح )
جوتے پہننا اور اتارنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں پیر سے شروع کرے، اور اتارے تو پہلے بائیں پیر سے اتارے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٠٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٩ (٥٨٥٤) ، صحیح مسلم/اللباس ١٩ (٢٠٩٧) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٤ (٤١٣٩) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٧ (١٧٧٩) ، موطا امام مالک/اللباس ٧ (١٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٦٥، ٢٨٣، ٤٣٠) (صحیح )
ایک جوتا پہن کر چلنے کی ممانعت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی بھی شخص ایک جوتا یا ایک موزہ پہن کر نہ چلے، یا تو دونوں جوتے اور موزے اتار دے یا پھر دونوں جوتے اور موزے پہن لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٠ (٥٨٥٥) ، صحیح مسلم/اللباس ١٩ (٢٠٩٧) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٤ (٤١٣٦) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٤ (١٧٧٤) ، موطا امام مالک/اللباس ٧ (١٤) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٣، ٣١٤، ٤٢٤، ٤٤٣، ٤٧٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم ادب کے طور پر ہے اگر کوئی عذر ہو مثلا ایک پاؤں میں پھوڑا یا درد ہو تو جوتا اس میں نہ پہنا جائے، تو بہتر یہ ہے کہ دوسرے پاؤں کا جوتا بھی اتار کر چلے۔
کھڑے کھڑے جوتا پہننا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفةالأشراف : ١٢٥٤٦) (صحیح )
کھڑے کھڑے جوتا پہننا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے کھڑے جوتا پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٢) (صحیح )
سیاہ موزے۔
بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نجاشی (اصحمہ بن بحر) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دو کالے اور چمڑے کے سادہ موزے تحفہ میں بھیجے تو آپ ﷺ نے انہیں پہنا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٥٤٩) (حسن )
مہندی کا خضاب۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے، تو تم ان کی مخالفت کرو (یعنی خضاب لگاؤ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٠ (٣٤٦٢) ، اللباس ٦٧ (٥٨٩٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٥ (٢١٠٣) ، سنن ابی داود/الترجل ١٨ (٤٢٠٣) ، سنن النسائی/الزینة ١٤ (٥٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨٠، ١٥١٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٢٠ (١٧٥٢) ، مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٦٠، ٣٠٩، ٤٠١) (صحیح ) وضاحت : بالکل سیاہ رنگ سے اجتناب کیا جائے۔
مہندی کا خضاب۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بالوں کی سفیدی بدلنے کے لیے سب سے بہترین چیز مہندی اور کتم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١٨ (٤٢٠٥) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٠ (١٧٥٣) ، سنن النسائی/الزینة ١٦ (٥٠٨١، ٥٠٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٧، ١٨٨٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٧، ١٥٠، ١٥٤، ١٥٦، ١٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : كَتَمُ: ایک پودا ہے جس کی جڑ سے خضاب بنایا جاتا ہے، نیز اس کو جوش دے کر روشنائی تیار کی جاتی ہے۔
مہندی کا خضاب۔
عثمان بن موہب کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ایک بال نکال کر مجھے دکھایا، جو مہندی اور کتم سے رنگا ہوا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٦ (٥٨٩٦، ٥٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٦، ٣١٩، ٣٢٢) (صحیح )
سیاہ خضاب کا بیان۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ابوقحافہ (رض) کو نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا، اس وقت ان کے بال سفید گھاس کی طرح تھے، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہیں ان کی کسی عورت کے پاس لے جاؤ کہ وہ انہیں بدل دے (یعنی خضاب لگا دے) ، لیکن کالے خضاب سے انہیں بچاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٤ (٢١٠٢) ، سنن ابی داود/الترجل ١٨ (٤٢٠٤) ، سنن النسائی/الزینة ١٥ (٥٠٧٩) ، الزینة من المجتبیٰ ١٠ (٥٢٤٤) ، مسند احمد (٣/، ٣٢٢، ٣٣٨) (صحیح) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، کمافی التخریج ) وضاحت : ١ ؎: خضاب لگانے کا مقصد یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہے، اہل کتاب کی مخالفت رسول اکرم ﷺ خود کرتے تھے، اور اس کا حکم بھی دیتے تھے، البتہ اس حدیث کی روشنی میں کالے خضاب سے بچنا چاہیے۔
سیاہ خضاب کا بیان۔
صہیب الخیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو خضاب تم لگاتے ہو ان میں بہترین کالا خضاب ہے، اس سے عورتیں تمہاری طرف زیادہ راغب ہوتی ہیں، اور تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہاری ہیبت زیادہ بیٹھتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٤) (ضعیف) (عمر بن خطاب بن زکریا راسبی اور دفاع سدوسی دونوں ضعیف راوی ہیں )
زردخضاب۔
عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا : میں آپ کو اپنی داڑھی ورس سے زرد (پیلی) کرتے دیکھتا ہوں ؟ ، ابن عمر (رض) نے کہا : میں اس لیے زرد (پیلی) کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی داڑھی زرد (پیلی) کرتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الوضوء ٣٠ (١٦٦) ، اللباس ٣٧ (٥٨٥١) ، صحیح مسلم/الحج ٥ (١١٨٧) ، سنن ابی داود/المناسک ٢١ (١٧٧٢) ، اللباس ١٨ (٤٠٦٤) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ١١ (٥٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٣١٦) (صحیح )
زردخضاب۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس ہوا جس نے مہندی کا خضاب لگا رکھا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کتنا اچھا ہے ، پھر آپ ایک دوسرے شخص کے پاس سے گزرے جس نے مہندی اور کتم (وسمہ) کا خضاب لگایا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اس سے اچھا ہے ! پھر آپ کا گزر ایک دوسرے کے پاس ہوا جس نے زرد خضاب لگا رکھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ان سب سے اچھا اور بہتر ہے ۔ ابن طاؤس کہتے ہیں کہ اسی لیے طاؤس بالوں کو زرد خضاب کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١٩ (٤٢١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٢٠) (ضعیف) (سند میں حمید بن وہب لین الحدیث راوی ہیں )
خضاب ترک کرنا۔
ابوحجیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے یہ بال یعنی داڑھی بچہ سفید دیکھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٤٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٩ (٢٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٦٠ (٢٨٢٦) ، مسند احمد (٤/٣٠٨، ٣٠٩) (صحیح ) وضاحت : ان کا اشارہ نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کے درمیان کے بالوں کی طرف تھا۔
خضاب ترک کرنا۔
حمید کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) سے سوال کیا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ نے خضاب لگایا ہے ؟ کہا : میں نے آپ کی داڑھی میں سفید بال دیکھے ہی نہیں سوائے ان سترہ یا بیس بالوں کے جو آپ کی داڑھی کے سامنے والے حصے میں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٣، ٧٦١، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٤٧) ، اللباس ٦٦ (٥٨٩٤) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٩ (٢٣٤١) ، سنن الترمذی/المناقب ٤ (٣٦٢٣) ، موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ١ (١) ، مسند احمد (١/١٠٨، ١٧٨، ١٨٨، ٢٠١) (صحیح )
خضاب ترک کرنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا بڑھاپا تقریباً ً بیس بال کا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٩١٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ کے تقریباً بیس بال سفید تھے۔
جوڑے اور چوٹیاں بنانا۔
ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں (فتح کے روز) داخل ہوئے، تو آپ کے سر میں چار چوٹیاں تھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١٢ (٤١٩١) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٩ (١٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤١، ٤٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ممکن ہے کہ گرد و غبار سے بچنے کے لئے آپ نے بالوں کو گوندھ کر چوٹیاں بنا لی ہوں۔
جوڑے اور چوٹیاں بنانا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکائے رکھتے تھے، اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے تو آپ ﷺ بھی اپنی پیشانی پر بال لٹکائے رکھتے، پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٨) ، مناقب الأنصار ٥٢ (٣٩٤٤) ، اللباس ٧٠ (٥٩١٧) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٤ (٢٣٣٦) ، سنن ابی داود/الترجل ١٠ (٤١٨٨) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣ (٢٩) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٧ (٥٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٦، ٢٦١، ٢٨٧، ٣٢٠) (صحیح )
جوڑے اور چوٹیاں بنانا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سر پر چندیا کے پچھلے حصے میں مانگ نکالتی تھی اور سامنے کے بال پیشانی پر لٹکتے چھوڑ دیتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٧٧ ألف) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الترجل ١٠ (٤١٨٩) ، مسند احمد (٦/٩٠، ٢٧٥) (حسن )
جوڑے اور چوٹیاں بنانا۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال دونوں کانوں اور مونڈھوں کے درمیان سیدھے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٨ (٦٩٠٥، ٦٠٩٠٦) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٦ (٢٣٣٨) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣ (٢٦) ، سنن النسائی/الزینة ٦ (٥٠٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسی واسطے سر کے بال دونوں کانوں سے لے کر مونڈوں تک رکھ سکتا ہے اور مونڈوں سے زیادہ لٹکانا مرد کے لئے بعضوں نے مکروہ رکھا ہے۔
جوڑے اور چوٹیاں بنانا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال مونڈھوں سے اوپر اور کانوں سے نیچے ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ٩ (٤١٨٧) ، سنن الترمذی/اللباس ٢١ (١٧٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠٨، ١١٨) (حسن صحیح )
زیادہ (لمبے) بال رکھنا مکروہ ہے۔
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میرے بال لمبے ہیں تو فرمایا : منحوس ہے منحوس ، یہ سن کر میں چلا آیا، اور میں نے بالوں کو چھوٹا کیا، پھر جب نبی اکرم ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا : میں نے تم کو نہیں کہا تھا، ویسے یہ بال زیادہ اچھے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١١ (٤١٩٠) ، سنن النسائی/الزینة ٦ (٥٠٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٢) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: بال زیادہ لمبا رکھنے سے ایک تو عورت سے مشابہت ہوتی ہے، دوسرے ان کے دھونے اور کنگھی کرنے میں تکلیف ہوتی ہے، اس لئے آپ نے لمبے بالوں کو مکروہ اور منحوس جانا۔
کہیں سے بال کترنا اور کہیں سے چھوڑنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قزع سے منع فرمایا۔ راوی نے کہا : قزع کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : بچے کے سر کے بال ایک جگہ کے کاٹ دئیے جائیں، اور دوسری جگہ کے چھوڑ دئیے جائیں، اسے قزع کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٢ (٥٩٢٠) ، صحیح مسلم/اللباس ٣١ (٢١٢٠) ، سنن ابی داود/الترجل ١٤ (٤١٩٣) ، سنن النسائی/الزینة ٥ (٥٠٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤، ٣٩، ٥٥، ٦٧، ٨٢، ٨٣، ١٠١، ١٠٦، ١١٨، ١٣٧، ١٤٣، ١٥٤) (صحیح )
کہیں سے بال کترنا اور کہیں سے چھوڑنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قزع سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٧، ٨٣، ١١٨، ١٥٤) (صحیح )
انگشتری کا نقش۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی، پھر اس میں محمد رسول الله نقش کرایا، اور فرمایا : میری انگوٹھی کا یہ نقش کوئی اور نہ کرائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٢٠٩١) ، سنن ابی داود/الخاتم ١ (٤٢١٩) ، سنن الترمذی/الشمائل ١١ (٩٥) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبيٰ ٢٦ (٥٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٩٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٦ (٥٨٦٦) ، مسند احمد (٢/٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ انگوٹھی آپ کی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی پھر ابوبکر (رض) کے پاس پھر عمر (رض) کے پاس، پھر عثمان (رض) کے پاس ان کی اخیر خلافت میں اریس کے کنوئیں میں گرگئی، ہرچند تلاش کی گئی مگر نہ ملی۔
انگشتری کا نقش۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی، اور فرمایا : ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں نقش کرایا ہے، لہٰذا اب اس طرح کوئی اور نقش نہ کرائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٧ (٥٨٦٦) ، ٥٠ (٥٨٧٢) ، ٥٢ (٥٨٧٥) ، ٥٤ (٥٨٧٧) ، صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٢٠٩٢) ، ١٣ (٢٠٩٢) ، سنن ابی داود/الخاتم ١ (٤٢١٤) ، سنن الترمذی/اللباس ١٤ (١٧٣٩) ، الشمائل ١١ (٩٢) ، سنن النسائی/الزینة ٤٥ (٥٢٠٤) ، الزینة من المجتبی ٢٤ (٥٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦١، ١٧٠، ١٨١، ١٩٨، ٢٠٩، ٢٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ آپ کی علامت تھی آپ خطوط پر اس کو ثبت فرماتے، اب بھی اس طرح کا انگوٹھی پر نقش کرانا منع ہے، اور بعضوں نے کہا مکروہ نہیں کیونکہ التباس کا ڈر اب باقی نہیں ہے، اور ہم کہتے ہیں کہ ممانعت عام اور شامل ہے ہمیشہ ہمیش کے لیے۔
انگشتری کا نقش۔
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ایک حبشی نگینہ تھا، اور اس میں محمد رسول الله کا نقش تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٧ (٥٨٦٨) ، صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٢٠١٢) ، سنن ابی داود/الخاتم ١ (٤٢١٦) ، سنن الترمذی/اللباس ١٤ (١٧٣٩) ، سنن النسائی/الزینة ٤٥ (٥١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٠٩، ٢٢٥) (صحیح )
(مردوں کیلئے) سونے کی انگشتری۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٠٢ (صحیح )
(مردوں کیلئے) سونے کی انگشتری۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی (پہننے) سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٠١ (تحفة الأشراف : ٦٦٩١) (صحیح )
(مردوں کیلئے) سونے کی انگشتری۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نجاشی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک چھلا بطور ہدیہ بھیجا، اس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی، انگوٹھی میں حبشی نگینہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسے لکڑی سے چھوا، آپ اس سے اعراض کر رہے تھے، یا پھر اپنی ایک انگلی سے چھوا، اور اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص کو بلا کر فرمایا : بیٹی ! اسے تم پہن لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ٨ (٤٢٣٥) (تحفة الأشراف : ١٦١٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠١، ١١٩) (حسن )
انگشتری پہننے میں نگینہ ہتھیلی کی طرف کی رکھنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی انگوٹھی کے نگینے کو ہتھیلی کی جانب رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١١ (٢٠٩٢) ، سنن ابی داود/الخاتم ١ (٤٢١٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٩٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٥ (٥٨٦٥) ، ٤٦ (٥٨٦٦) ، ٤٧ (٥٨٦٧) ، ٥٣ (٥٨٦٧) ، الأیمان ٦ (٦٦٥١) ، الاعتصام ٤ (٧٢٩٨) ، سنن الترمذی/اللباس ١٦ (١٧٤١) ، الشمائل ١٢ (٨٤) ، سنن النسائی/الزینة ٤٥ (٥١٩٩) ، مسند احمد (٢/١٨، ٦٨، ٩٦، ١٢٧) (صحیح )
انگشتری پہننے میں نگینہ ہتھیلی کی طرف کی رکھنا۔
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی پہنی، اس میں حبشی نگینہ تھا، آپ اپنے نگینے کو اپنی ہتھیلی کے اندر کی جانب رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٤١، (صحیح )
دائیں ہاتھ میں انگشتری پہننا۔
عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٢١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ١٦ (١٧٤٤) ، الشمائل ١٣ (٩٨) ، سنن النسائی/الزینة ٤٦ (٥٢٠٧) ، مسند احمد (١/٢٠٤، ٢٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور صحیح مسلم میں ہے کہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں یعنی سب سے چھوٹی انگلی میں پہنتے تھے۔
انگوٹھے میں انگشتری پہننا۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے منع فرمایا کہ میں اس میں اور اس میں انگوٹھی پہنوں، یعنی چھنگلی اور انگوٹھے میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٢٨ (٥٨٣٨ تعلیقاً ) صحیح مسلم/اللباس ١٦ (٢٠٨٧) ، سنن ابی داود/الخاتم ٤ (٤٢٢٥) ، سنن الترمذی/اللباس ٤٤ (١٧٨٦) ، سنن النسائی/الزینة ٥٠ (٥٢١٤) ، الزینة من المجتبيٰ ٥٢ (٥٢٨٨، ٥٢٨٩) (تحفة الأشراف : ١٠٣١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٨، ١٣٤، ١٣٨) (شاذ) (يَعني الخنصر والإبهام کا لفظ منکر ہے، محفوظ و ثابت لفظ یہ ہے : في هذه وفي هذه ۔ شک عاصم قال : فأوما إلي الوسطى والتي اس میں یا اس میں، عاصم کو شک ہے، پھر درمیان انگلی کی طرف اشارہ کیا، اور جو اس سے ملی ہوئی ہے ) وضاحت : ١ ؎: تخریج حدیث سے ظاہر ہوا کہ اصل حدیث : درمیانی انگلی اور اس سے ملی انگلی میں پہننے سے متعلق ہے۔
گھر میں تصاویر (رکھنے سے ممانعت)
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس گھر میں فرشتے نہیں داخل ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٢٥) ، ١٧ (٣٣٢٢) ، المغازي ١٢ (٤٠٠٢) ، اللباس ٨٨ (٥٩٤٩) ، ٩٢ (٥٩٥٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٨ (٤١٥٣) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٤ (٢٨٠٤) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١١ (٤٢٨٧) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ٥٧ (٥٣٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٧٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستئذان ٣ (٦) ، مسند احمد (٤/٢٨، ٢٩، ٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ کتے جو کھیت اور جائداد کی رکھوالی، یا شکار کے لئے ہوں اس ممانعت کے حکم سے مستثنیٰ ہیں، اور تصویر سے بےجان چیزوں کی تصویریں مستثنیٰ ہیں۔
گھر میں تصاویر (رکھنے سے ممانعت)
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٩٠ (٢٢٧) ، اللباس ٤٨ (٤١٥٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦٨ (٢٦٢) ، الصید ١١ (٤٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٣، ١٠٤) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٣٤ (٢٧٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی رحمت کے فرشتے جو مسلمان اور سچے مومنوں کے پاس شوق اور محبت کی وجہ سے آتے ہیں وہ اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں کتا یا مورت ہو، مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کو ان چیزوں سے نفرت ہے اور اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ جہاں کتا یا مورت ہو وہاں فرشتہ مطلق داخل ہی نہیں ہوتا، اگرچہ اس کو حکم دے دیا گیا ہو، ورنہ لازم آتا ہے جس کوٹھری میں کتا یا تصویر ہو وہاں کوئی نہ مرے کیونکہ موت کا فرشتہ اس کوٹھری کے اندر نہ آسکے گا، واضح رہے یہ فرشتوں کے شوق و محبت سے اور اللہ کی رحمت لے کر گھر میں داخل ہونے کی بات ہے ورنہ جب ان کو حکم الہی ہوتا ہے تو کتا اور مورت کیا پاخانہ اور غلاظت خانہ میں بھی جا کر روح قبض کرلیتے ہیں۔
گھر میں تصاویر (رکھنے سے ممانعت)
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ایسے وقت میں آنے کا وعدہ کیا جس میں وہ آیا کرتے تھے، لیکن آنے میں دیر کی تو نبی اکرم ﷺ باہر نکلے، دیکھا تو جبرائیل (علیہ السلام) دروازے پر کھڑے ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : آپ کو اندر آنے سے کس چیز نے باز رکھا ؟ فرمایا : گھر میں کتا ہے، اور ہم لوگ ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتے اور تصویریں ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦١، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٢) (صحیح )
گھر میں تصاویر (رکھنے سے ممانعت)
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ کو بتایا کہ اس کا شوہر کسی جنگ میں گیا ہوا ہے، اور اپنے گھر میں کھجور کے درخت کی تصویر بنانے کی اجازت طلب کی، تو آپ ﷺ نے اسے منع فرما دیا یا روک دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٧٣) (ضعیف) (سند میں عفیر بن معدان ضعیف راوی ہیں )
تصاویر پامال جگہ میں ہوں۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے اپنے روشن دان پر پردہ ڈالا یعنی اندر سے، پردے میں تصویریں تھیں، جب نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، تو آپ نے اسے پھاڑ ڈالا، میں نے اس سے دو تکیے بنا لیے پھر میں نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ ان میں سے ایک تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٢ (٢٤٧٩، ٢٤٧٦) ، اللباس ٩١ (٥٩٥٤، ٥٩٥٥) ، الأدب ٧٥ (٦١٠٩) ، (بدون ذکرالصلاة في المواضع الثلاثة) صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٧) ، سنن النسائی/القبلة ١٢ (٧٦٢) ، الزینة من المجتبیٰ ٥٧ (٥٣٥٦) ، مسند احمد (٦/١٧٤) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٣٣ (٢٧٠٤) (حسن صحیح) (سند میں اسامہ بن زید ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق سے صحیح ہے، کمافی التخریج ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے نقشی تصویر کی بھی حرمت نکلتی ہے، اور بعضوں نے کہا آپ کا یہ فعل حرمت کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ آپ ﷺ نے نبوت کے خاندان میں دنیا کی زیب و زینت اور آرائستگی کو برا سمجھا۔
سرخ زین پوش (کی ممانعت )
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے اور گدے استعمال کرنے سے منع فرمایا یعنی سرخ ریشمی گدے زین پوش۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١١ (٤٠٥١) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٥ (٢٨٠٨) ، سنن النسائی/الزینة ٤٣ (٥١٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٣، ١٠٤، ١٢٧، ١٣٢، ١٣٣، ١٣٧) (صحیح )
چیتوں کی کھال پر سواری۔
ابوریحانہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ چیتوں کی کھال پر سواری کرنے سے منع فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١١ (٤٠٤٩) ، سنن النسائی/الزینة ٢٠ (٥٠٩٤) ، ٢٧ (٥١١٣، ٥١١٤، ٥١١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٤) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٢٠ (٢٦٩٠) (حسن صحیح) (بعد کی حدیث معاویہ (رض) سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
چیتوں کی کھال پر سواری۔
معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چیتوں کی کھال پر سواری کرنے سے منع فرماتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٣ (٤١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٣، ٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ زینت اور فخر کی چیز ہے، اور اس لئے بھی کہ یہ غیر مسلموں کا لباس ہے۔