34. آداب کا بیان۔

【1】

والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔

ابن سلامہ سلمی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے باپ کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے مولیٰ ١ ؎ کے ساتھ جس کا وہ والی ہو اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ اس کو اس سے تکلیف ہی کیوں نہ پہنچی ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١١) (ضعیف) (سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی اور عبیداللہ بن علی دونوں ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: عربی میں مولیٰ کا لفظ آزاد کردہ غلام یا دوست یا رشتے دار یا حلیف سبھی معنوں میں مستعمل ہے، یہاں کوئی بھی معنی مراد لے سکتے ہیں۔ ٢ ؎: اگرچہ اس سے تکلیف پہنچے لیکن اس کے عوض میں تکلیف نہ دے جواں مردی یہی ہے کہ برائی کے بدلے نیکی کرے، اور جو اپنے سے رشتہ توڑے اس سے رشتہ جوڑے جیسے دوسری حدیث میں ہے۔

【2】

والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری ماں ، پھر پوچھا : اس کے بعد کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری ماں ، پھر پوچھا اس کے بعد کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا باپ ، پھر پوچھا : اس کے بعد کون حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر جو ان کے بعد تمہارے زیادہ قریبی رشتے دار ہوں، پھر اس کے بعد جو قریبی ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٢ (٥٩٧١ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١ (٢٥٤٨) ، مسند احمد (٢/٣٩١) (صحیح )

【3】

والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی بھی اولاد اپنے باپ کا حق ادا نہیں کرسکتی مگر اسی صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو غلامی کی حالت میں پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٦ (١٥١٠) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٨ (١٩٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٣) (صحیح )

【4】

والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہوتا ہے، اور ہر اوقیہ آسمان و زمین کے درمیان پائی جانے والی چیزوں سے بہتر ہے ۔ اور رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے : آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہوگیا (حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا) اس کو جواب دیا جائے گا : تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨١٥، ومصباح الزجاجة : ١٢٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٣، ٥٠٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٢ (٣٥٠٧) (ضعیف) (سند میں عاصم بن بھدلة ضعیف ہیں، اور ابوہریرہ (رض) کے قول سے معروف ہے )

【5】

والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔

مقدام بن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کی وصیت کرتا ہے یہ جملہ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ تم کو اپنے باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے، پھر جو تمہارے زیادہ قریب ہوں، پھر ان کے بعد جو قریب ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣١، ١٣٢) (صحیح )

【6】

والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔

ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہی دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٣) (ضعیف) (سند میں علی بن یزید ضعیف راوی ہیں )

【7】

والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک۔

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو ضائع کر دو ، یا اس کی حفاظت کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٣ (١٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٦، ١٩٧، ٦/٤٤٥، ٤٤٨، ٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: درمیان میں جو دروازہ ہوتا ہے اس میں سے مکان میں جلدی پہنچ جاتے ہیں، تو والدین کو جنت میں جانے کا قریب اور آسان راستہ قرار دیا اگر آدمی اپنے والدین کو خوش رکھے جو کچھ مشکل نہیں تو آسانی سے جنت مل سکتی ہے۔

【8】

ان لوگو سے تعلقات اور حسن سلوک جاری رکھو جن سے تمہارے والد صاحب کے تعلقات تھے۔

ابواسید مالک بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے، اتنے میں قبیلہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میرے والدین کی نیکیوں میں سے کوئی نیکی ایسی باقی ہے کہ ان کی وفات کے بعد میں ان کے لیے کرسکوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا، اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا، اور ان رشتوں کو جوڑنا جن کا تعلق انہیں کی وجہ سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٢٩ (٥١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٧، ٤٩٨) (ضعیف) (سند میں عبد الرحمن بن سلیمان لین (ضعیف) ، اور علی بن عبید مجہول ہیں )

【9】

والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ کچھ اعرابی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا : کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، تو ان اعرابیوں (خانہ بدوشوں) نے کہا : لیکن ہم تو اللہ کی قسم ! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١٥ (٢٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ١٧ (٥٩٩٣) ، مسند احمد (٦/٧٠) (صحیح )

【10】

والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔

یعلیٰ عامری (رض) کہتے ہیں کہ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں دوڑتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کے پاس آے تو آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیا، اور فرمایا : یقیناً اولاد بزدلی اور بخیلی کا سبب ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آدمی اولاد کی محبت میں مال خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے، اور اولاد کے لئے مال چھوڑ جانا چاہتا ہے، اور جہاد سے سستی کرتا ہے۔

【11】

والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔

سراقہ بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتادوں ؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو ، جو تمہارے پاس آگئی ہو ١ ؎، اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢١، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٥) (ضعیف) (علی بن رباح کا سماع سراقہ (رض) سے نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شوہر کی موت یا طلاق کی وجہ سے۔

【12】

والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔

احنف کے چچا صعصعہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المؤمنین عائشہ (رض) کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں کو دی، اور تیسری کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان تقسیم کردی، عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٠ (١٤١٨) ، الأدب ١٨ (٥٩٩٥) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٦ (٢٦٢٩) ، سنن الترمذی/البر والصلة ١٣ (١٩١٥) ، مسند احمد (٦/٣٣، ١٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اپنے بیٹوں کو پالنے، ان کو کھلانے پلانے اور اپنے کو بھوکے رہنے سے، وہ جنت کی حقدار ہوگئی، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب شوہر مرجاتا ہے، اور عورت صاحب اولاد ہوتی ہے تو بیچاری عمر بھر محنت مزدوری کرتی ہے، اور جو ملتا ہے وہ اپنی اولاد کو کھلاتی ہے، اور وہ خود اکثر بھوکی رہتی ہے۔

【13】

والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٢١، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٤) (صحیح )

【14】

والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک (اچھا برتاؤ) کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨١، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٥، ٣٦٣) (حسن) (سند میں ابو سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٣٨٢ )

【15】

والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور انہیں بہترین ادب سکھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٧٩) (ضعیف جداً ) (سند میں حارث بن نعمان منکر الحدیث اور سعید بن عمارہ ضعیف ہے )

【16】

پڑوس کا حق۔

ابوشریح خزاعی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام اور اس کی خاطرداری کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣١ (٦٠١٩) ، الرقاق ٢٣ (٦٤٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٩ (٤٨) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٥ (٣٧٤٨) ، سنن الترمذی/البر الصلة ٤٣ (١٩٦٧، ١٩٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ١٠ (٢٢) ، مسند احمد (٤/٣١، ٦/٣٨٤، ٣٨٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١١ (٢٠٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صرف اچھی بات کہنے یا خاموش رہنے کی اس عمدہ نصیحت نبوی پر عمل کے سلسلے میں اکثر لوگ کوتاہی کا شکار ہیں، لوگوں کے جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں، آدمی کو چاہیے کہ اگر اچھی بات ہو تو منہ سے نکالے، اور بری بات جیسے جھوٹ، غیبت، بہتان، فضول اور بیکار باتوں سے ہمیشہ بچتا رہے، عقلاء کے نزدیک کثرت کلام بہت معیوب ہے، تمام حکیموں اور داناوں کا اس پر اتقاق ہے کہ آدمی کی عقل مندی اس کے بات کرنے سے معلوم ہوجاتی ہے، لہذا ضروری ہے کہ خوب سوچ سمجھ کر بولے کہ اس کی بات سے کوئی نقصان تو پیدا نہ ہوگا، پھر یہ سوچے کہ اس بات میں کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں، اس کے بعد اگر اس بات میں فائدہ ہو تو منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے، اگر خاموشی سے تھک جائے تو ذکر الہٰی یا تلاوت قرآن کرے، یا دینی علوم کو حاصل کرے۔

【17】

پڑوس کا حق۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے جبرائیل (علیہ السلام) برابر پڑوس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٢٨ (٦٠١٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٢ (٢٦٢٤) ، سنن ابی داود/الأدب ١٣٢ (٥١٥١) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٢٨ (١٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩١، ١٢٥، ٢٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پڑوس کا حق بہت ہے، اگرچہ کافر ہو لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک ضروری ہے، اگر وہ کوئی چیز عاریتاً مانگے تو اس کو دے، اگر بھوکا ہو تو اپنے کھانے میں سے اس کو کھلائے، اگر اس کو قرض کی ضرورت ہو تو دے، بہر حال خوشی اور مصیبت دونوں میں اس کا شریک رہے، اور اس کی ہمدردی کرتا رہے اس میں دین اور دنیا دونوں کے فائدے ہیں۔

【18】

پڑوس کا حق۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل برابر پڑوسی کے بارے میں وصیت و تلقین کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ ہمسایہ کو وارث بنادیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٥٢، ومصباح الزجاجة : ١٢٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٩، ٣٠٥، ٤٤٥، ٥١٤) (صحیح )

【19】

مہمان کا حق۔

ابوشریح خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اور ایک رات کی ہے، مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری (ضیافت) تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : (٣٦٧٢) (صحیح )

【20】

مہمان کا حق۔

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، اور ہم ان کے پاس اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا : جب تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لیے ان چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو، اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لیے مناسب ہو ان سے وصول کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٨ (٢٤٦١) ، الأدب ٨٥ (٦١٣٧) ، صحیح مسلم/اللقطة ٣ (١٧٢٧) ، سنن الترمذی/السیر ٣٢ (١٥٨٩) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٥ (٣٧٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کے عوض میں بقدر مہمانی کے میزبان سے نقد وصول کرسکتا ہے، اور یہ واجب مہمانی پہلی رات میں ہے کیونکہ رات میں مسافر کو نہ کھانا مل سکتا ہے نہ بازار معلوم ہوتا ہے، تو صاحب خانہ پر اس کے کھانے پینے کا انتظام کردینا واجب ہے، بعض علماء کے نزدیک یہ وجوب اب بھی باقی ہے، جمہور کہتے ہیں کہ وجوب منسوخ ہوگیا، لیکن سنت ہونا اب بھی باقی ہے، تو ایک دن رات مہمانی کرنا سنت مؤکدہ ہے، یعنی ضروری ہے اور تین دن مستحب ہے، اور تین دن بعد پھر مہمانی نہیں، اب مہمان کو چاہیے کہ وہاں سے چلا جائے یا اپنے کھانے پینے کا انتظام خود کرے، اور میزبان پر بوجھ نہ بنے۔

【21】

مہمان کا حق۔

مقدام ابوکریمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر کسی کے یہاں رات کو کوئی مہمان آئے تو اس رات اس مہمان کی ضیافت کرنی واجب ہے، اور اگر وہ صبح تک میزبان کے مکان پر رہے تو یہ مہمان نوازی میزبان کے اوپر مہمان کا ایک قرض ہے، اب مہمان کی مرضی ہے چاہے اپنا قرض وصول کرے، چاہے چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٥ (٣٧٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٨) (صحیح )

【22】

یتیم کا حق۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میں دو کمزوروں ایک یتیم اور ایک عورت کا حق مارنے کو حرام قرار دیتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٤٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: بیوہ اور یتیم دونوں کا مال کھا جانا اور اس میں الٹ پھیر کرنا سخت گناہ ہے، اگرچہ اور کسی کا مال کھا جانا حرام اور گناہ ہے، مگر ان دونوں کا مال ناجائز طور پر کھانا نہایت سخت گناہ ہے، اس لئے کہ یہ دونوں ناتواں اور کمزور ہیں، روزی کمانے کی ان میں قدرت نہیں ہے، تو ان کو اور دینا چاہیے نہ کہ انہی کا مال لے لینا، بہت بدبخت ہیں وہ لوگ جو یتیم اور بیوہ کا مال ناحق کھا لیں۔

【23】

یتیم کا حق۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم (پرورش پاتا) ہو، اور اس کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہو، اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٠٩، ومصباح الزجاجة : ٢٨٢) (ضعیف) (سند میں یحییٰ بن سلیمان لین الحدیث ہیں )

【24】

یتیم کا حق۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے تین یتیموں کی پرورش کی تو وہ ایسا ہی ہے جیسے وہ رات میں تہجد پڑھتا رہا، دن میں روزے رکھتا رہا، اور صبح و شام تلوار لے کر جہاد کرتا رہا، میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح بھائی بھائی ہو کر رہیں گے جیسے یہ دونوں بہنیں ہیں، اور آپ ﷺ نے درمیانی اور شہادت کی انگلی کو ملایا (اور دکھایا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٨٣) (ضعیف) (سند میں اسماعیل بن ابراہیم مجہول اور حماد کلبی ضعیف راوی ہے )

【25】

رستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا۔

ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس سے میں فائدہ اٹھاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٩٤، ومصباح الزجاجة : ١٢٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٣٦ (٢٦١٨) ، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢٢، ٤٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسے کانٹا اور کوڑا کرکٹ وغیرہ، اگر راستہ میں گڑھا ہو تو اس کو برابر کر دے یا اس پر روک لگا دے تاکہ کوئی آدمی اندھیرے میں اس میں گر نہ جائے، مفید عام کاموں کے ثواب میں یہ حدیث اصل ہے جیسے سڑک کا بنانا، سڑک پر روشنی کرنا، سرائے بنانا، کنواں بنانا، یہ سب اعمال اس قسم کے ہیں۔

【26】

رستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : راستے میں ایک درخت کی شاخ (ٹہنی) پڑی ہوئی تھی جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، ایک شخص نے اسے ہٹا دیا (تاکہ مسافروں اور گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو) اسی وجہ سے وہ جنت میں داخل کردیا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٢ (٦٥٢) ، المظالم ٢٨ (٢٤٧٢) ، صحیح مسلم/البر الصلة ٣٦ (١٩١٤) ، الإمارة ٥١ (١٩١٤) ، سنن ابی داود/الأدب ١٧٢ (٥٢٤٥) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٣٨ (١٩٥٨) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٢ (٦) ، مسند احمد (٢/٤٩٥) (صحیح )

【27】

رستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری امت کے اچھے اور برے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے، تو میں نے ان میں سب سے بہتر عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے، اور سب سے برا عمل مسجد میں تھوکنے، اور اس پر مٹی نہ ڈالنے کو پایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٥٣) ، مسند احمد (٥/١٧٨) (صحیح )

【28】

پانی کے صدقہ کی فضیلت۔

سعد بن عبادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پانی پلانا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤١ (١٦٧٩، ١٦٨٠) ، سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٥، ٦/٧) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٤١٣ ) وضاحت : ١ ؎: جہاں پر لوگوں کو پانی کی حاجت ہو، وہاں سبیل لگانا، یا کنواں یا حوض بنادینا، اسی طرح جہاں جس چیز کی ضرورت ہو، وہاں اسی کا صدقہ افضل ہوگا، حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو راحت پہنچانے سے زیادہ ثواب کسی چیز میں نہیں، یہاں تک کہ جانوروں کو راحت پہنچانے میں بڑا اجر ہے۔

【29】

پانی کے صدقہ کی فضیلت۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کی صف بندی ہوگی (ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ اہل جنت کی صف بندی ہوگی) پھر ایک جہنمی ایک جنتی کے پاس گزرے گا اور اس سے کہے گا : اے فلاں ! تمہیں یاد نہیں کہ ایک دن تم نے پانی مانگا تھا اور میں نے تم کو ایک گھونٹ پانی پلایا تھا ؟ (وہ کہے گا : ہاں، یاد ہے) وہ جنتی اس بات پر اس کی سفارش کرے گا، پھر دوسرا جہنمی ادھر سے گزرے گا، اور اہل جنت میں سے ایک شخص سے کہے گا : تمہیں یاد نہیں کہ میں نے ایک دن تمہیں طہارت و وضو کے لیے پانی دیا تھا ؟ تو وہ بھی اس کی سفارش کرے گا۔ ابن نمیر نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ وہ شخص کہے گا : اے فلاں ! تمہیں یاد نہیں کہ تم نے مجھے فلاں اور فلاں کام کے لیے بھیجا تھا، اور میں نے اسے پورا کیا تھا ؟ تو وہ اس بات پر اس کی سفارش کرے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٧، ومصباح الزجاجة : ١٢٨٦) (ضعیف) (سند میں یزید بن أبان الرقاشی، ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٩٣ -٥١٨٦ )

【30】

پانی کے صدقہ کی فضیلت۔

سراقہ بن جعشم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے گمشدہ اونٹوں کے متعلق پوچھا کہ وہ میرے حوض پر آتے ہیں جس کو میں نے اپنے اونٹوں کے لیے تیار کیا ہے، اگر میں ان اونٹوں کو پانی پینے دوں تو کیا اس کا بھی اجر مجھے ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! ہر کلیجہ والے جانور کے جس کو پیاس لگتی ہے، پانی پلانے میں ثواب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٥) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢١٥٢ )

【31】

نرمی اور مہربانی۔

جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نرمی (کی خصلت) سے محروم کردیا جاتا ہے، وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٢٣ (١٥٩٢) ، سنن ابی داود/الأدب ١١ (٤٨٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٢، ٣٦٦) (صحیح )

【32】

نرمی اور مہربانی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ مہربان ہے، اور مہربانی اور نرمی کرنے کو پسند فرماتا ہے، اور نرمی پر وہ ثواب دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٩١، ومصباح الزجاجة : ١٢٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نرمی یہ ہے کہ اپنے نوکروں، خادموں، بال بچوں اور دوستوں سے آہستگی اور لطف و مہربانی کے ساتھ گفتگو کرے، ان پر غصہ نہ ہو جیسے نبی اکرم ﷺ کا حال تھا کہ انس (رض) نے آپ کی دس برس خدمت کی لیکن آپ ﷺ نے کبھی نہ ان کو سخت لفظ کہا، نہ گھورا، نہ جھڑکا۔

【33】

نرمی اور مہربانی۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ نرمی کرنے والا ہے اور سارے کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٣٥ (٦٠٢٤) ، الاستئذان ٢٠ (٦٢٥٤) ، الدعوات ٥٧ (٦٣٩١) ، صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٥) ، البر والصلة ٢٣ (٢٥٩٣) ، سنن الترمذی/الاستئذان ١٢ (٢٧٠١) ، مسند احمد (٦/٨٥) ، سنن الدارمی/الرقاق ٧٥ (٢٨٣٦) (صحیح )

【34】

غلاموں باندیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (حقیقت میں لونڈی اور غلام) تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، اس لیے جو تم کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ، اور جو تم پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ، اور انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان کی قوت و طاقت سے باہر ہو، اور اگر کبھی ایسا کام ان پر ڈالو تو تم بھی اس میں شریک رہ کر ان کی مدد کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٢ (٣٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ١٠ (١٦٦١) ، سنن ابی داود/الأدب ١٣٣ (٥١٥٨) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٢٩ (١٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٨، ١٦١، ١٧٣) (صحیح )

【35】

غلاموں باندیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بدخلق شخص جو اپنے غلام اور لونڈی کے ساتھ بدخلقی سے پیش آتا ہو، جنت میں داخل نہ ہوگا ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ نے ہمیں نہیں بتایا کہ اس امت کے اکثر افراد غلام اور یتیم ہوں گے ؟ ١ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ لیکن تم ان کی ایسی ہی عزت و تکریم کرو جیسی اپنی اولاد کی کرتے ہو، اور ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو ، پھر لوگوں نے عرض کیا : ہمارے لیے دنیا میں کون سی چیز نفع بخش ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : گھوڑا جسے تم جہاد کے لیے باندھ کر رکھتے ہو، پھر اس پر اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہو (اس کی جگہ) تمہارا غلام تمہارے لیے کافی ہے، اور جب نماز پڑھے تو وہ تمہارا بھائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦١٨) ، ومصباح الزجاجة : ١٢٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٢٩ (١٩٤٦ مختصراً ) ، مسند احمد (١/١٢) (ضعیف) (سند میں فرقد السبخي ضعیف ہے )

【36】

سلام کو رواج دینا (پھیلانا)

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم مومن نہ بن جاؤ، اور اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے ہو جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگو تو تم میں باہمی محبت پیدا ہوجائے (وہ یہ کہ) آپس میں سلام کو عام کرو اور پھیلاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي معاویة تقد م تخریجہ في السنة برقم : (٦٨) ، حدیث عبداللہ بن نمیر تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٢/٣٩١، ٤٩٥) (صحیح )

【37】

سلام کو رواج دینا (پھیلانا)

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سلام کو عام کریں اور پھیلائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٢٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپس میں جب ایک دوسرے سے ملو تو السلام علیکم کہو خواہ اس سے تعارف ہو یا نہ ہو، تعارف کا سب سے پہلا ذریعہ سلام ہے، اور محبت کی کنجی ہے، اور ہر مسلمان کو ضروری ہے کہ جب دوسرے مسلمان سے ملے تو اس کے سلام کا منتظر نہ رہے بلکہ خود پہلے سلام کرے خواہ وہ ادنی ہو یا اعلی یا ہمسر، کمال ایمان کا یہی تعارف ہے۔

【38】

سلام کو رواج دینا (پھیلانا)

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رحمن کی عبادت کرو، اور سلام کو عام کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤٥ (١٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٠، ١٩٦) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣٩ (٢١٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عمار (رض) نے کہا کہ جس نے تین باتیں کیں اس نے ایمان اکٹھا کرلیا : ایک تو اپنے نفس سے انصاف، دوسرے ہر شخص کو سلام کرنا، تیسرے تنگی کے وقت خرچ کرنا۔ (صحیح بخاری تعلیقاً )

【39】

سلام کا جواب دینا۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ اس وقت مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آ کر سلام کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وعلیک السلام (اور تم پر بھی سلامتی ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : (١٠٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨٣) (صحیح )

【40】

سلام کا جواب دینا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) تمہیں سلام کہتے ہیں (یہ سن کر) انہوں نے جواب میں کہا : وعليه السلام ورحمة الله (اور ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢١٧) ، فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٦٨) ، الأدب ١١١ (٦٢٠١) ، الإستئذان ١٦ (٦٢٤٩) ، ١٩ (٦٢٥٣) ، صحیح مسلم/فضائل ١٣ (٢٤٤٧) ، سنن الترمذی/الإستئذان ٥ (٢٦٩٣) ، سنن ابی داود/الآدب ١٦٦ (٥٢٣٢) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٣ (٣٤٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٦، ١٥٠، ٢٠٨، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٠ (٢٦٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں غائبانہ سلام کے جواب دینے کے طریقے کا بیان ہے کہ جواب میں وعلیکم کے بجائے علیہ السلام ضمیر غائب کے ساتھ کہا جائے، یہاں اس حدیث سے ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر صدیق (رض) کی عظمت شان بھی معلوم ہوئی کہ سیدالملائ کہ جبریل (علیہ السلام) نے ان کو سلام پیش کیا۔

【41】

ذمی کافروں کو سلام کا جواب کیسے دیں ؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم (جواب میں صرف) وعليكم کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإستئذان ٢٢ (٦٢٥٨) ، استتابة المرتدین ٤ (٦٩٢٦) ، صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٣) ، سنن ابی داود/الأدب ١٤٩ (٥٢٠٧) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٥٨ (٣٣٠١) ، مسند احمد (٣/١٤٠، ١٤٤، ١٩٢، ٢١٤، ٢٤٣، ٢٦٢، ٢٨٩) (صحیح )

【42】

ذمی کافروں کو سلام کا جواب کیسے دیں ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس کچھ یہودی آئے، اور کہا : السام عليك يا أبا القاسم اے ابوالقاسم تم پر موت ہو ، تو آپ نے (جواب میں صرف) فرمایا : وعليكم اور تم پر بھی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٨ (٢٩٣٥) ، والأدب ٣٥ (٦٠٢٤) ، الاستئذان ٢٢ (٦٢٥٦) ، الدعوات ٥٧ (٦٣٩١) ، الاستتابة المرتدین ٤ (٦٩٢٧) ، سنن الترمذی/الاستئذان ١٢ (٢٧١) ، مسند احمد (٦/٢٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابو القاسم، رسول اللہ ﷺ کی کنیت ہے۔ ٢ ؎: یہ ان یہودیوں کی شرارت تھی کہ سلام کے بدلے سام کا لفظ استعمال کیا، سام کہتے ہیں موت کو تو السام علیک کے معنی یہ ہوئے کہ تم مرو، اور ہلاک ہو، جو بدعا ہے، آپ ﷺ نے جواب میں صرف وعلیک فرمایا، یعنی تم ہی مرو، جب کوئی کافر سلام کرے، تو جواب میں صرف وعلیک کہے۔

【43】

ذمی کافروں کو سلام کا جواب کیسے دیں ؟

ابوعبدالرحمٰن جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں کل سوار ہو کر یہودیوں کے پاس جاؤں گا، تو تم خود انہیں پہلے سلام نہ کرنا، اور جب وہ تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں وعليكم کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٦٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٣) (صحیح) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اگر انہوں نے سلام کا لفظ ادا کیا تو وعلیکم کا مطلب یہ ہوگا کہ تم پر بھی سلام اور اگر شرارت سے سام کا لفظ کہا تو سام یعنی موت ہی ان پر لوٹے گی۔

【44】

بچوں اور عورتوں کو سلام کرنا۔

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، (اس وقت) ہم بچے تھے تو آپ نے ہمیں سلام کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٥ (٦٢٤٧) ، صحیح مسلم/السلام ٧ (٢١٦٨) ، سنن ابی داود/الأدب ١٤٧ (٥٢٠٢) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٨ (٢٦٩٦) ، مسند احمد (٣/١٦٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٨ (٢٦٧٨) (صحیح )

【45】

بچوں اور عورتوں کو سلام کرنا۔

اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم عورتوں کے پاس گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٤٨ (٥٢٠٤) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٩ (٢٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٦) ، وقد أخرجہ : (حم ٦/٤٥٢، ٤٥٧، سنن الدارمی/الإستئذان ٩ (٢٦٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجنبی عورت کو سلام کرنا جائز ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کئی عورتیں ہوں، ہاں اگر عورت اکیلی ہو اور اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو تو فتنے کے خدشے کی وجہ سے سلام نہ کرنا بہتر ہے۔

【46】

مصافحہ۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا (ملاقات کے وقت) ہم ایک دوسرے سے جھک کر ملیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، پھر ہم نے عرض کیا : کیا ہم ایک دوسرے سے معانقہ کریں (گلے ملیں) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ مصافحہ کیا کرو (ہاتھ سے ہاتھ ملاؤ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإستئذان ٣١ (٢٧٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٨) (حسن) (سند میں حنظلہ ضعیف ہے، لیکن معانقہ کے جملہ کے بغیر یہ دوسری سند سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة : ١٦٠ )

【47】

مصافحہ۔

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور مصافحہ کرتے (ہاتھ ملاتے) ہیں، تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کردی جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٥٣ (٥٢١٢) ، سنن الترمذی/الإستئذان ٣١ (٢٧٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٩، ٣٠٣) (صحیح) (نیز ملاحظہ ہو : الصحیحة : ٥٢٥ - ٥٢٦ ) وضاحت : ١ ؎: ملاقات کے وقت صحیح اسلامی طریقہ سلام کرنا اور آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا اور ہاتھ ملانا ہے، آج کل غیر اسلامی تہذیب اور رسم و رواج سے متاثر ہو کر مسلمان ملاقات کے وقت صحیح طریقے کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے سامنے جھکتے ہیں، جو سراسر غیر اسلامی طریقہ ہے، اسلام میں قدم بوسی، فرشی سلام اور پاؤں چھونا اور کسی کے سامنے رکوع سجود ہونا ممنوع ہے، اور یہ سب کام تقلید و تشبہ کے جذبہ سے کیے جائیں تو ان کی برائی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

【48】

ایک مرد دوسرے مرد کا ہاتھ چومے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کا ہاتھ چوما۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٠٦ (٢٦٤٧) ، الأدب ١٥٩ (٥٢٢٣) ، سنن الترمذی/الجہاد ٣٦ (١٧١٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣، ٥٨، ٧٠، ٨٦، ٩٩، ١٠٠، ١١٠) (ضعیف) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو : مقدمہ تحقیق ریاض الصالحین للالبانی و نقد نصوص حدیثیہ : ص ١٤ - ١٥ )

【49】

ایک مرد دوسرے مرد کا ہاتھ چومے۔

صفوان بن عسال (رض) سے روایت ہے کہ یہود کے کچھ لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ اور پاؤں چومے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٣٣ (٢٧٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٩) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن سلمہ ہیں، جن کی حدیث کی متابعت نہیں کی جائے گی )

【50】

(داخل ہونے سے قبل) اجازت لینا۔

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے تین مرتبہ عمر (رض) سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، عمر (رض) نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور بلا کر پوچھا کہ آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ویسے ہی تین مرتبہ اجازت طلب کی جیسے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے، اگر ہمیں تین دفعہ میں اجازت دے دی جائے تو اندر چلے جائیں ورنہ لوٹ جائیں، تب انہوں نے کہا : آپ اس حدیث پر گواہ لائیں ورنہ میں آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں گا یعنی سزا دوں گا، تو ابوموسیٰ اشعری (رض) اپنی قوم کی مجلس میں آئے، اور ان کو قسم دی (کہ اگر کسی نے یہ تین مرتبہ اجازت طلب کرنے والی حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے) ان لوگوں نے ابوموسیٰ اشعری (رض) کے ساتھ جا کر گواہی دی تب عمر (رض) نے ان کو چھوڑا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٩ (٢٠٦٢) ، الاستئذان ١٣ (٦٢٤٥) ، صحیح مسلم/الأدب ٧ (٢١٥٣) ، سنن ابی داود/الأدب ١٣٨ (٥١٨٠) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٣ (٢٦٩٠) ، موطا امام مالک/الاستئذان ١ (٣) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١ (٢٦٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : استئندان کیا ہے ؟ ایک یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار بلند آواز سے السلام علیکم کہے، اور پوچھے کہ فلاں شخص یعنی اپنا نام لے کر بتائے کہ اندر داخل ہو یا نہیں ؟ اگر تینوں بار میں گھر والا جواب نہ دے تو لوٹ آئے، لیکن بغیر اجازت کے اندر گھسنا جائز نہیں ہے، اور یہ ضروری اس لئے ہے کہ آدمی اپنے مکان میں کبھی ننگا کھلا ہوتا ہے، کبھی اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اگر بلا اجازت اندر داخل ہونا جائز ہو تو بڑی خرابی ہوگی، اب یہ مسئلہ عام تہذیب اور اخلاق میں داخل ہوگیا ہے کہ کسی شخص کے حجرہ یا مکان میں بغیر اجازت لئے اور بغیر اطلاع دئیے لوگ نہیں گھستے، اور جو کوئی اس کے خلاف کرے اس کو بےادب اور بیوقوف جانتے ہیں۔

【51】

(داخل ہونے سے قبل) اجازت لینا۔

ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سلام تو ہمیں معلوم ہے، لیکن استئذان کیا ہے ؟ (یعنی ہم اجازت کیسے طلب کریں) آپ ﷺ نے فرمایا : استئذان یہ ہے کہ آدمی تسبیح، تکبیر اور تحمید (یعنی سبحان الله، الله أكبر، الحمد لله کہہ کر یا کھنکار کر) سے گھر والوں کو خبردار کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٩٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٢) (ضعیف) (سند میں ابوسورہ منکر الحدیث ہے )

【52】

(داخل ہونے سے قبل) اجازت لینا۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جانے کے لیے میرے دو وقت مقرر تھے : ایک رات میں، ایک دن میں، تو میں جب آتا اور آپ نماز کی حالت میں ہوتے تو آپ میرے لیے کھنکار دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ١٧ (١٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٠) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن نجی اور حارث ضعیف ہیں )

【53】

(داخل ہونے سے قبل) اجازت لینا۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے (مکان کے اندر سے) پوچھا : کون ہو ؟ میں نے عرض کیا : میں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں، میں کیا ؟ (نام لو) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٧ (٦٢٥٠) ، صحیح مسلم/الآداب ٨ (٢١٥٥) ، سنن ابی داود/الأدب ١٣٩ (٥١٨٧) ، سنن الترمذی/الاستئذان ١٨ (٢٧١١) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٢٩٨، ٣٢٠، ٣٦٣) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٢ (٢٦٧٢) (صحیح )

【54】

مرد سے کہنا کہ صبح کیسی کی ؟

جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے صبح کیسے کی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے نہ آج روزہ رکھا، نہ بیمار کی عیادت (مزاج پرسی) کی خیریت سے ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٣) (حسن) (سند میں عبداللہ بن مسلم ضعیف راوی ہے، لیکن ابوہریرہ (رض) کے شاہد اور دوسری احادیث کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الالبانی ١٠٠ و صحیح الأدب المفرد : ٨٧٨ - ١١٣٣ ) وضاحت : ١ ؎: یہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی تقصیر ظاہر کی باوجود اس کے کہ میں نے روزہ نہیں رکھا بیمار پرسی نہیں کی، لیکن مالک کا احسان ہے کہ میری صبح خیریت کے ساتھ اس نے کرائی، سبحان اللہ، رسول اکرم ﷺ باوجود کثرت عبادت، ریاضت، قرب الٰہی اور گناہوں سے پاک اور صاف ہونے کے اپنی تقصیر کا اقرار اور مالک کی نعمتوں کا اظہار کرتے تھے، اور کسی بندے کی کیا مجال ہے جو اپنی عبادت و طاعت اور تقویٰ پر نازاں ہو، یا اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہم کو کھلاتا اور پلاتا ہے، اور خیریت اور عافیت سے ہماری صبح اور شام گزارتا ہے، اے اللہ ! ہم تیرے احسان اور نعمت کا شکر جتنا شکر کریں سب کم ہے۔

【55】

مرد سے کہنا کہ صبح کیسی کی ؟

ابواسید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب عباس بن عبدالمطلب (رض) کے یہاں تشریف لے گئے تو فرمایا : السلام عليكم انہوں نے (جواب میں) وعليك السلام ورحمة الله وبرکاته کہا، آپ ﷺ نے فرمایا : كيف أصبحتم آپ نے صبح کیسے کی ؟ جواب دیا : بخير نحمد الله خیریت سے کی اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، لیکن آپ نے کیسے کی ؟ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : الحمد لله میں نے بھی خیریت کے ساتھ صبح کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١٩٣، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٤) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عثمان مستور راوی ہیں، امام بخاری فرماتے ہیں، مالک بن حمزہ عن أبیہ عن جدہ أن النبی ﷺ دعا للعباس، الحدیث لایتابع علیہ اس کا کوئی متابع نہیں ہے )

【56】

جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اس کا اکرام کرو۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہارے پاس کسی قوم کا کوئی معزز آدمی آئے تو تم اس کا احترام کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٤٠، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٥) (حسن) (سند میں سعید بن مسلمہ ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٢٠٥ )

【57】

چھینکنے والے کو جواب دینا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے دو آدمیوں نے چھینکا تو آپ ﷺ نے ایک کے جواب میں يرحمک الله اللہ تم پر رحم کرے کہا، اور دوسرے کو جواب نہیں دیا، تو عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! آپ کے سامنے دو آدمیوں نے چھینکا، آپ نے ایک کو جواب دیا دوسرے کو نہیں دیا، اس کا سبب کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایک نے (چھینکنے کے بعد) الحمد لله کہا، اور دوسرے نے نہیں کہا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٢٣ (٦٢٢١) ، ١٢٧ (٦٢٢٥) ، صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩١) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠٢ (٥٠٣٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٤ (٢٧٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٠، ١١٧، ١٧٦) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٣١ (٢٧٠٢) (صحیح )

【58】

چھینکنے والے کو جواب دینا۔

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھینکنے والے کو تین مرتبہ جواب دیا جائے، جو اس سے زیادہ چھینکے تو اسے زکام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩٣ مختصرا) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠٠ (٥٠٣٧) ، سنن الترمذی/الأدب ٥ (٢٧٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٦، ٥٠) سنن الدارمی/الاستئذان ٣٢ (٢٧٠٣) (صحیح )

【59】

چھننکنے والے کو جواب دینا۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد لله کہے، اس کے پاس موجود لوگ يرحمک الله کہیں، پھر چھینکنے والا ان کو جواب دے يهديكم الله ويصلح بالکم اللہ تمہیں ہدایت دے، اور تمہاری حالت درست کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١٨، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٣ (٢٧٤١) ، مسند احمد (١/١٢٠، ١٢٢) ، سنن الدارمی/الإستئذان ٣٠ (٢٧٠١) (صحیح) (سند میں محمد بن عبدالرحمن ابن ابی الیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے )

【60】

مرد اپنے ہمنشین کا اعزاز کرے۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی جب کسی شخص سے ملاقات ہوتی اور آپ اس سے بات کرتے تو اس وقت تک منہ نہ پھیرتے جب تک وہ خود نہ پھیر لیتا، اور جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ خود نہ چھوڑ دیتا، اور آپ ﷺ نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٤١، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٤٦ (٢٤٩٠) ، بعضہ وقال : غریب) (ضعیف) (زید العمی ضعیف راوی ہے، لیکن مصافحہ کا جملہ صحیح اور ثابت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٤٢٨٥ )

【61】

جو کسی نشست سے اٹھے پھر واپس آئے تو وہ اس نشست کا زیادہ حقدار ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا جائے، پھر واپس آئے تو وہ اپنی جگہ (پر بیٹھنے) کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٢١، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/السلام ١٢ (٢١٧٩) ، سنن ابی داود/الأدب ٣٠ (٤٨٥٣) ، مسند احمد (٢/٣٤٢، ٥٢٧) ، سنن الدارمی/الإستئذان ٢٥ (٢٦٩٦) (صحیح )

【62】

عذر کرنا۔

جو ذان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول (ٹیکس) وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٧١، ومصباح الزجاجة : ١٢٩٩) (ضعیف) (سند میں جو ذان کو شرف صحبت حاصل نہیں، بلکہ مجہول ہیں ) اس سند سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٧١) ، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٠) (ضعیف) (جوذان صحابی نہیں، بلکہ مجہول روای ہیں )

【63】

مزاح کرنا۔

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ابوبکر (رض) نبی اکرم ﷺ کی وفات سے ایک سال پہلے بصریٰ تجارت کے لیے گئے، ان کے ساتھ نعیمان اور سویبط بن حرملہ (رضی اللہ عنہما) بھی تھے، یہ دونوں بدری صحابی ہیں، نعیمان (رض) کھانے پینے کی چیزوں پر متعین تھے، سویبط (رض) ایک پر مذاق آدمی تھے، انہوں نے نعیمان (رض) سے کہا : مجھے کھانا کھلاؤ، نعیمان (رض) نے کہا : ابوبکر (رض) کو آنے دیجئیے، سویبط (رض) نے کہا : میں تمہیں غصہ دلا کر پریشان کروں گا، پھر وہ لوگ ایک قوم کے پاس سے گزرے تو سویبط (رض) نے اس قوم کے لوگوں سے کہا : تم مجھ سے میرے ایک غلام کو خریدو گے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، سویبط (رض) کہنے لگے : وہ ایک باتونی غلام ہے وہ یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں، تم اس کی باتوں میں آ کر اسے چھوڑ نہ دینا، ورنہ میرا غلام خراب ہوجائے گا، انہوں نے جواب دیا : وہ غلام ہم تم سے خرید لیں گے، الغرض ان لوگوں نے دس اونٹنیوں کے عوض وہ غلام خرید لیا، پھر وہ لوگ نعیمان (رض) کے پاس آئے، اور ان کی گردن میں عمامہ باندھا یا رسی ڈالی تو نعیمان (رض) نے کہا : اس نے (یعنی سویبط نے) تم سے مذاق کیا ہے، میں تو آزاد ہوں، غلام نہیں ہوں، لوگوں نے کہا : یہ تمہاری عادت ہے، وہ پہلے ہی بتاچکا ہے (کہ تم باتونی ہو) ، الغرض وہ انہیں پکڑ کرلے گئے، اتنے میں ابوبکر (رض) تشریف لائے، تو لوگوں نے انہیں اس واقعے کی اطلاع دی، وہ اس قوم کے پاس گئے اور ان کے اونٹ دے کر نعیمان کو چھڑا لائے، پھر جب یہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس (مدینہ) آئے تو آپ اور آپ کے صحابہ سال بھر اس واقعے پر ہنستے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١٦) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف ہیں، اور اس کے دوسرے طریق میں نعیمان، سویبط کی جگہ ہے، اور سوبیط، نعیمان کی جگہ پر اور یہ بھی ضعیف ہے )

【64】

مزاح کرنا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں سے (یعنی بچوں سے) میل جول رکھتے تھے، یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے : يا أبا عمير ما فعل النغير اے ابوعمیر ! تمہارا وہ نغیر (پرندہ) کیا ہوا ؟ وکیع نے کہا نغیر سے مراد وہ پرندہ ہے جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٨١ (٦١٢٩) ، صحیح مسلم/الآداب ٥ (٢١٥٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٢ (٦٥٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣١ (٣٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩، ١٧١، ١٩٠، ٢١٢، ٢٧٠) (صحیح )

【65】

سفید بال اکھیڑنا۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفید بال اکھیڑنے سے منع فرمایا، اور فرمایا کہ وہ مومن کا نور ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٥٩ (٢٨٢١) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الترجل ١٧ (٤٢٠٢) ، سنن النسائی/الزینة ١٣ (٥٠٧١) ، مسند احمد (٢/٢٠٦، ٢٠٧، ٢١٢) (حسن صحیح )

【66】

کچھ سایہ اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا۔

بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دھوپ اور سایہ کے درمیان میں بیٹھنے سے منع کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٨٨، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس طرح بیٹھنے سے کہ بدن کا ایک حصہ دھوپ میں رہے، اور ایک حصے پر سایہ، اس لئے کہ یہ امر طبی طور پر مضر ہے اور بیماری پیدا کرتا ہے، اور یہ ممانعت بھی تنزیہی ہے، نہ کہ تحریمی۔

【67】

اوندھے منہ لیٹنے سی ممانعت۔

طخفہ غفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے مسجد میں پیٹ کے بل (اوندھے منہ) سویا ہوا پایا، آپ ﷺ نے اپنے پاؤں سے مجھے ہلا کر فرمایا : تم اس طرح کیوں سو رہے ہو ؟ یہ سونا اللہ کو ناپسند ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٠٣ (٥٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٩) (صحیح) (ملاحظہ ہو : المشکاة : ٤٧١٨ - ٤٧١٩ - ٤٧٣١ ) وضاحت : پیٹ کے بل لیٹنا ممنوع ہے۔

【68】

اوندھے منہ لیٹنے سی ممانعت۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے اس حال میں کہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا، تو آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیر سے ہلا کر فرمایا : جنيدب! (یہ ابوذر کا نام ہے) سونے کا یہ انداز تو جہنمیوں کا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٣) (صحیح) (سند میں محمد بن نعیم میں کلام ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: پیٹ کے بل سونے میں جہنمیوں کی مشابہت ہے، قرآن میں ہے : يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر (سورة القمر : 48) یعنی اوندھے منہ جہنم میں کھینچے جائیں گے، یہ بھی ایک ممانعت کی وجہ ہے۔

【69】

اوندھے منہ لیٹنے سی ممانعت۔

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس ہوا جو اوندھے منہ مسجد میں سو رہا تھا، آپ ﷺ نے اس کو پیر سے ہلا کر فرمایا : اٹھ کر بیٹھو، اس طرح سونا جہنمیوں کا سونا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٣، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٤) (ضعیف) (سند میں یعقوب، سلمہ اور ولید سب ضعیف ہیں )

【70】

علم نجوم سیکھنا کیسا ہے۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے علم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا، اس نے سحر (جادو) کا ایک حصہ حاصل کرلیا، اب جتنا زیادہ حاصل کرے گا گویا اتنا ہی زیادہ جادو حاصل کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ٢٢ (٣٩٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٧، ٣١١) (حسن )

【71】

ہوا کو برا کہنے کی ممانعت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہوا کو برا نہ کہو، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میں سے ہے، وہ رحمت بھی لاتی ہے اور عذاب بھی لاتی ہے، البتہ اللہ تعالیٰ سے اس کی بھلائی کا سوال کرو اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٣ (٥٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٢٦٧، ٤٠٩، ٤٣٦، ٥١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس معنی سے کہ انسان اور حیوان کی زندگی ہوا پر موقوف ہے، ان حیوانوں کی جو ہوائی ہیں اور بعض حیوان مائی ہیں، ان کی زندگی پانی پر موقوف ہے، اب بعض امتوں پر جو ہوا سے عذاب ہوا یہ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ ہر ایک رحمت کی چیز جب اعتدال سے زیادہ ہو تو عذاب ہوجاتی ہے جیسے پانی وہ بھی رحمت ہے لیکن نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لئے اور فرعون اور اس کی قوم کے لئے عذاب تھا۔ اور ابھی ماضی قریب میں سونامی کی لہروں سے جو تباہی دنیا نے دیکھی اس سے ہم سب کو عبرت ہونی چاہیے۔

【72】

کونسے نام اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ؟

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ١ (٢١٣٢) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٦ (٢٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤) ، سنن الدارمی/ الاستئذان ٦٠ (٢٣٣٧) (صحیح ) وضاحت : ان ناموں کے پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اللہ کی عبودیت کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دوسرے ناموں کے ساتھ بھی عبد یا عبید لگا کر نام رکھا جاسکتا ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ناموں پر نام رکھنا بھی درست ہے۔

【73】

ناپسندیدہ نام

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ رباح (نفع) ، نجیح (کامیاب) ، افلح (کامیاب) ، نافع (فائدہ دینے والا) اور یسار (آسانی) ، نام رکھنے سے منع کر دوں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٦٥ (٢٨٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٢٣، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٥) (صحیح ) وضاحت : ایک حدیث میں اس ممانعت کی یہ حکمت بیان کی گئی ہے کیونکہ تو کہے گا : کیا وہ یہاں موجود ہے ؟ وہ نہیں ہوگا تو (جواب دینے والا) کہے گا نہیں۔ (صحیح مسلم) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پوچھے کہ گھر میں نافع ہے اور جواب میں کہا جائے کہ موجود نہیں۔ گویا آپ نے یہ کہا کہ گھر میں فائدہ دینے والا کوئی شخص موجود نہیں، سب نکمے ہیں۔ اگرچہ متکلم کا مقصد یہ نہیں ہوگا، تاہم ظاہری طور پر ایک نامناسب بات بنتی ہے، لہذا ایسے نام رکھنا مکروہ ہے لیکن حرام نہیں۔

【74】

ناپسندیدہ نام

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اپنے غلاموں کے چار نام رکھنے سے منع فرمایا ہے : افلح، نافع، رباح اور یسار ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأداب ٢ (٢١٣٦) ، سنن ابی داود/الأدب ٧٠ (٤٩٥٨، ٤٩٥٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٥ (٢٨٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٦١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧، ١٠، ١٢، ٢١) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦١ (٢٧٣٨) (صحیح )

【75】

ناپسندیدہ نام

مسروق کہتے ہیں کہ میری ملاقات عمر بن خطاب (رض) سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ میں نے عرض کیا : میں مسروق بن اجدع ہوں، (یہ سن کر) عمر (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اجدع ایک شیطان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٧٠ (٤٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١) (ضعیف) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں )

【76】

نام بدلنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں زینب کا نام بّرہ تھا (یعنی نیک بخت اور صالحہ) لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ اپنی تعریف آپ کرتی ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام بدل کر زینب رکھ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٠٨ (٦١٩٢) ، صحیح مسلم/الآداب ٣ (٢١٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٠، ٤٥٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦٢ (٢٧٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ام المؤمنین جویریہ (رض) کا نام بھی پہلے برّہ تھا تو آپ ﷺ نے ان کا نام بدل کر جویریہ رکھا، یہ رسول اکر م ﷺ کی سنت ہے اور ہر شخص کو لازم ہے کہ اگر والدین یا خاندان والوں نے جہالت سے بچپن میں کوئی برا نام رکھ دیا ہو تو جب بڑا ہو اور عقل آئے تو وہ نام بدل ڈالے۔

【77】

نام بدلنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا (یعنی گنہگار، نافرمان) تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٣ (٢١٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ٧٠ (٤٩٥٢) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٦ (٢٨٣٨) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦٢ (٢٧٣٩) (صحیح )

【78】

نام بدلنا۔

عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرا نام اس وقت عبداللہ بن سلام نہ تھا، آپ ﷺ نے ہی میرا نام عبداللہ بن سلام رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥، ٥/٨٣، ٤٥١) (منکر) (سند میں ابن اخی عبد اللہ بن سلام مبہم راوی ہیں )

【79】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم مبارک اور کنیت دونوں کا بیک وقت اختیار کرنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١١٠) ، والأدب ١٠٦ (٦١٨٨) ، صحیح مسلم/الآداب ١ (٢١٣٤) ، سنن ابی داود/الأدب ٧٤ (٤٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٨، ٢٦٠ ٢٧٠، ٣٩٢، ٥١٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٨ (٢٧٣٥) (صحیح )

【80】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم مبارک اور کنیت دونوں کا بیک وقت اختیار کرنا۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٧ (٣١١٤) ، صحیح مسلم/الآداب ١ (٢١٣٣) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٨ (٢٨٤٢) (صحیح )

【81】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم مبارک اور کنیت دونوں کا بیک وقت اختیار کرنا۔

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مقبرہ بقیع میں تھے کہ ایک شخص نے دوسرے کو آواز دی : اے ابوالقاسم ! آپ ﷺ اس کی جانب متوجہ ہوئے، تو اس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو مخاطب نہیں کیا، تب آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٩ (٢١٢٠) ، المناقب ٢٠ (٣٥٣٧) ، صحیح مسلم/الآداب ١ (٢١٣١) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٨ (٢٨٤١) (صحیح )

【82】

اولاد ہونے سے قبل ہی مرد کا کنیت اختیار کرنا۔

حمزہ بن صہیب سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے صہیب (رض) سے کہا کہ تم اپنی کنیت ابویحییٰ کیوں رکھتے ہو ؟ حالانکہ تمہیں کوئی اولاد نہیں ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میری کنیت ابویحییٰ رکھی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٦) (حسن) (سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل منکر الحدیث ہے، لیکن عمر (رض) کے ابوداود کے شاہد سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٣ ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ اولاد ہونے سے پہلے بھی آدمی کنیت رکھ سکتا ہے۔

【83】

اولاد ہونے سے قبل ہی مرد کا کنیت اختیار کرنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کی کنیت رکھی، صرف میں ہی باقی ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ام عبداللہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨١٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ٧٨ (٤٩٧٠) (صحیح )

【84】

اولاد ہونے سے قبل ہی مرد کا کنیت اختیار کرنا۔

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، تو میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، آپ اسے ابوعمیر کہہ کر پکارتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : أنظرحدیث رقم : ٣٧٢٠، (تحفة الأشراف : ١٦٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: انہوں نے ہی نغیر نامی چڑیا پا لی ہوئی تھی آپ ﷺ دل لگی کے طور پر اس سے پوچھا کرتے اسے ابو عمیر نغیر چڑیا تمہاری کہاں ہے۔

【85】

القابات کا بیان۔

ابوجبیرہ بن ضحاک (رض) کہتے ہیں کہ ولا تنابزوا بالألقاب ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اللہ ﷺ جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو، تین تین نام تھے، بسا اوقات نبی اکرم ﷺ انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے، تو آپ سے عرض کیا جاتا : اللہ کے رسول ! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : ولا تنابزوا بالألقاب کسی کو برے القاب سے نہ پکارو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٧١ (٤٩٦٢) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤٩ (٣٢٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦٩، ٢٦٠، ٥/٣٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی برے القاب جن سے آدمی ناخوش ہو، اس سے مت پکارو کیونکہ یہ اپنے مسلمان بھائی کو ایذا دینا ہے، بعضوں نے کہا یہ آیت صفیہ (رض) کے بارے میں اتری، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! لوگ مجھ کو کہتے ہیں : اے یہودیہ، یہودیوں کی بیٹی، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے یہ کیوں نہیں کہا : میرے باپ ہاروں (علیہ السلام) ہیں، اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام، اور میرے شوہر محمد ﷺ ہیں، اللہ کی رحمت اترے ان پر اور سلام ہو سب پر۔

【86】

خوشامد کا بیان۔

مقداد بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١٤ (٣٠٠٢) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠ (٤٨٠٤) ، سنن الترمذی/الزہد ٥٤ (٢٣٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٥) (صحیح )

【87】

خوشامد کا بیان۔

معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم آپس میں ایک دوسرے کی منہ پر مدح و تعریف کرنے سے بچو، کیونکہ اس طرح تعریف کرنا گویا ذبح کرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٤١، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٢، ٩٣، ٩٨، ٩٩) (حسن) (سند میں معبد الجہنی ضعیف ہے، صحیحین میں ابوبکرہ (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے کہ جب کسی کی منہ پر تعریف اور خوشامد کی جائے گی تو احتمال ہے کہ آدمی میں غرور تکبر پیدا ہوجائے، اور اپنے عیب کو ہنر سمجھے اور دوسرے مسلم بھائی کو حقیر جانے۔

【88】

خوشامد کا بیان۔

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا : افسوس ! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی ، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا : تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ١٦ (٢٦٦٢) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٢) ، صحیح مسلم/الزہد ١٤ (٣٠٠٠) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠ (٤٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١، ٤٦، ٤٧، ٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ حقیقت میں اللہ کے نزدیک یہ کیسا ہے ؟ میرے نزدیک تو اچھا ہے، حدیثوں کا یہی مطلب ہے کہ منہ پر کسی کی تعریف نہ کرے، یہ بھی اس وقت جب اس شخص کے غرور میں پڑجانے کا اندیشہ ہو، ورنہ صحیحین کی کئی حدیثوں سے منہ پر تعریف کرنے کا جواز نکلتا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے احد پہاڑ سے فرمایا : تھم جا، تیرے اوپر کوئی نہیں ہے مگر نبی اور صدیق اور شہید اور اس وقت ابوبکر (رض) اور عمر (رض) حاضر تھے، اور بعضوں نے کہا : کراہت اس وقت ہے جب مدح میں مبالغہ کرے اور جھوٹ کہے، اور بعضوں نے کہا اس وقت مکروہ ہے جب اس سے دنیاوی کام نکالنا منظور ہو، اور یہ تعریف غرض کے ساتھ ہو، واللہ اعلم۔

【89】

جس سے مشورہ طلب جائے وہ بمنزلہ امانت دار ہے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے (لہٰذا وہ ایمانداری سے مشورہ دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٢٣ (٥١٢٨) ، سنن الترمذی/الأدب ٥٧ (٨٨٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٩) (صحیح )

【90】

جس سے مشورہ طلب جائے وہ بمنزلہ امانت دار ہے۔

ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے (لہٰذا وہ دیانتداری سے مشورہ دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٨٨، ومصباح الزجاجة : ١٣٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٤) ، سنن الدارمی/السیر ١٣ (٢٤٩٣) (صحیح )

【91】

جس سے مشورہ طلب جائے وہ بمنزلہ امانت دار ہے۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے مشورہ طلب کرے، تو اسے مشورہ دینا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣٩) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں )

【92】

حمام میں جانا۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے عجم کے ممالک فتح ہوں گے، تو وہاں تم کچھ ایسے گھر پاؤ گے جنہیں حمامات (عمومی غسل خانے) کہا جاتا ہوگا، تو مرد ان میں بغیر تہہ بند کے داخل نہ ہوں، اور عورتوں کو اس میں جانے سے روکو، سوائے اس عورت کے جو بیمار ہو، یا نفاس والی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحمام ١ (٤٠١١) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٧٧) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن زیاد اور عبد الرحمن بن رافع دونوں ضعیف ہیں )

【93】

حمام میں جانا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (پہلے) مردوں اور عورتوں دونوں کو حمام میں جانے سے منع کیا تھا، پھر مردوں کو تہبند پہن کر جانے کی اجازت دی، اور عورتوں کو اجازت نہیں دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٩٨، ومصباح الزجاجة : ١٣١٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحمام ١ (٤٠٠٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٣ (٢٨٠٢) ، ولم یذکرا : ولم يرخص للنساء مسند احمد (٦/١٣٢، ١٣٩، ١٧٩) (ضعیف) (ابوعذرہ مجہول راوی ہیں، ترمذی نے حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہا ہے )

【94】

حمام میں جانا۔

ابوملیح ہذلی سے روایت ہے کہ حمص کی کچھ عورتوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا کہ شاید تم ان عورتوں میں سے ہو جو حمام میں جاتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس عورت نے اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ اپنے کپڑے اتارے تو اس نے اس پردہ کو پھاڑ ڈالا جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحمام ١ (٤٠١٠) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٣ (٢٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ١٧٣، ١٩٨، سنن الدارمی/الاستئذان ٢٣ (٢٦٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حمص : جو ملک شام میں ایک مشہور شہر کا نام ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے پاک عورتوں کو تقویٰ پرہیز گاری اور عصمت کا جو پردہ اڑھایا ہے، وہ ایسا کرنے سے پھٹ جاتا ہے۔

【95】

بال صفا پاؤ ڈر استعمال کرنا۔

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بال صاف کرنے کا پاؤڈر لگاتے تو پہلے آپ اپنی شرمگاہ پر ملتے، پھر باقی بدن پر آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ملتیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٤٦، ومصباح الزجاجة : ١٣١١) (ضعیف) (سند میں حبیب بن أبی ثابت اور ام سلمہ (رض) کے مابین انقطاع ہے، اس لئے کہ حبیب نے ام سلمہ (رض) سے سنا نہیں ہے )

【96】

بال صفا پاؤ ڈر استعمال کرنا۔

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی شرمگاہ پر اپنے ہاتھ سے خود بال صاف کرنے کا پاؤڈر لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨١٤٧، ومصباح الزجاجة : ١٣١٢) (ضعیف) (حبیب بن أبی ثابت اور ام سلمہ (رض) کے درمیان انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے )

【97】

وعظ کہنا اور قصے بیان کرنا۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو وعظ و نصیحت وہی کرتا ہے جو حاکم ہو، یا وہ شخص جو حاکم کی جانب سے مقرر ہو، یا جو ریا کار ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٧، ومصباح الزجاجة : ١٣١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٨، ١٨٣) ، سنن الدارمی/الرقاق ٦٣ (٢٨٢١) (صحیح) (اس حدیث کی سند میں عبد اللہ بن عامر الاسلمی ضعیف ہیں، لیکن دوسری سند سے تقو یت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اور ریاکار وہ ہے جو لوگوں میں اپنی ناموری اور شہرت کے لئے وعظ کہتا ہے، اور لوگوں کو بری بات سے منع کرتا ہے، اور خود سب سے زیادہ برے کاموں میں پھنسا رہتا ہے۔

【98】

وعظ کہنا اور قصے بیان کرنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں یہ قصہ گوئی نہ رسول ﷺ کے زمانہ میں تھی، اور نہ ابوبکرو عمر (رض) کے زمانہ میں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٣٨، ومصباح الزجاجة : ١٣١٤) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمرالعمری ضعیف ہیں )

【99】

شعر کا بیان۔

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک کچھ شعر حکمت و دانائی پر مبنی ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٩٠ (٦١٤٥) ، سنن ابی داود/الأدب ٩٥ (٥٠٠٩، ٥٠١٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ١٢٥، ١٢٦) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦٨ (٢٧٤٦) (صحیح )

【100】

شعر کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے : بعض اشعار میں حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٩٥ (٥٠١١) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٩ (٢٨٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٩، ٢٧٣، ٣٠٣، ٣٠٩، ٣١٣، ٣٢٧، ٣٣٢) (حسن صحیح )

【101】

شعر کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے وہ لبید (شاعر) کا یہ شعر ہے ألا کل شيء ما خلا الله باطل سن لو ! اللہ کے علاوہ ساری چیزیں فانی ہیں اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٤١) ، صحیح مسلم/الشعر (٢٢٥٦) ، سنن الترمذی/الأدب ٧٠ (٢٨٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٨، ٣٩١، ٣٩٣، ٤٤٤، ٤٥٨، ٤٧٠، ٤٨٠) (صحیح )

【102】

شعر کا بیان۔

شرید ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے امیہ بن ابی صلت کے سو اشعار پڑھے، آپ ہر شعر کے بعد فرماتے جاتے : اور پڑھو ، اور آپ ﷺ نے فرمایا : قریب تھا کہ وہ مسلمان ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الشعر (٢٢٥٥) ، سنن الترمذی/الشمائل (٢٤٩) ، سنن النسائی/الیوم و للیلة (٩٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٨، ٣٨٩) (صحیح )

【103】

ناپسندیدہ اشعار۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیماری کے سبب آدمی کے پیٹ کا مواد سے بھر جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرا ہو ١ ؎۔ حفص نے یریہ کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٩٢ (٦١٥٥) ، صحیح مسلم/الشعر (٢٢٥٧) ، سنن الترمذی/الأدب ٧١ (٢٨٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٦٤، ١٢٤٦٨، ١٢٥٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٨، ٣٥٥، ٣٩١، ٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایسے اشعار سے جس میں کفر، فسق یا مبالغہ و کذب کے مضامین ہوں۔

【104】

ناپسندیدہ اشعار۔

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کے پیٹ کا بیماری کے سبب پیپ (مواد) سے بھر جانا زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الشعر (٢٢٥٨) ، سنن الترمذی/الأدب ٧١ (٢٨٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٩١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٧، ١٨١) (صحیح )

【105】

ناپسندیدہ اشعار۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بڑا بہتان لگانے والا وہ شخص ہے جو کسی ایک شخص کی ہجو و مذمت کرے، اور وہ اس کی ساری قوم کی ہجو و مذمت کرے، اور وہ شخص جو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کو باپ بنائے، اور اپنی ماں کو زنا کا مرتکب قرار دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٩، ومصباح الزجاجة : ١٣١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب باپ کو چھوڑ کر اپنے کو دوسرے کا بیٹا قرار دیا تو گویا اس نے اپنی ماں پر زنا کی تہمت لگائی۔

【106】

چوسر کھیلنا۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نرد (چوسر) کھیلا، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٦٤ (٤٩٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الرؤیا ٢ (٦) ، مسند احمد (٤/٣٩٤، ٣٩٧، ٤٠٠) (حسن )

【107】

چوسر کھیلنا۔

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے چوسر کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون میں ڈبویا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الشعر ١ (٢٢٦٠) ، سنن ابی داود/الأدب ٦٤ (٤٩٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٧، ٣٦١) (صحیح )

【108】

کبوتر بازی۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو ایک پرندہ کے پیچھے لگا ہوا تھا، یعنی اسے اڑا رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : شیطان ہے، جو شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٢، ومصباح الزجاجة : ١٣١٦) (صحیح) (اس سند میں شریک ضعیف الحفظ ہیں، لیکن اگلی حدیث میں حماد بن سلمہ کی متابعت سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اڑانے والا اس لئے شیطان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے غافل اور بےپرواہ ہے، اور پرندہ اس لئے شیطان ہے کہ وہ اڑانے والے کی غفلت کا سبب بنا ہے۔ پرندوں کو کسی جائز مقصد کے لیے پالنا جائز ہے، تاہم اگر محض تفریح کے لیے ہوں اور وقت کے ضیاع کا باعث ہوں تو ان سے بچنا چاہیے۔ ہر وہ مشغلہ جس کو جائز حد سے زیادہ اہمیت دی جائے اور اس پر وقت اور مال ضائع کیا جائے وہ ممنوع ہے۔ کبوتر بازی کی طرح پتنگ بازی بھی فضول اور خطرناک مشغلہ ہے اس سے بھی اجتناب ضروری ہے۔

【109】

کبوتر بازی۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے لگا ہوا دیکھا، تو فرمایا : شیطان شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٦٥ (٤٩٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٥) (حسن صحیح )

【110】

کبوتر بازی۔

عثمان بن عفان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے لگا ہوا دیکھ کر فرمایا : شیطان شیطانہ کے پیچھے لگا ہوا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨٦، ومصباح الزجاجة : ١٣١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٥) (صحیح) (سند میں حسن بصری اور عثمان بن عفان (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【111】

کبوتر بازی۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے لگا ہوا دیکھ کر فرمایا : شیطان شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧١٧، ومصباح الزجاجة : ١٣١٨) (حسن) (سند میں ابوسعد الساعدی مجہول اور رواد بن جراح ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے یہ حسن ہے )

【112】

تنہائی کی کراہت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کسی کو تنہائی کی برائی اور خرابی معلوم ہوجاتی، تو وہ کبھی رات میں تنہا نہ چلتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٣٥ (٢٩٩٨) ، سنن الترمذی/الجہاد ٤ (١٦٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣، ٢٤، ٦٠، ٨٦، ١١٢، ١٢٠) ، سنن الدارمی/الاسئذان ٤٧ (٢٧٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غزوہ خندق کے موقع پر زبیر (رض) کو رسول اللہ ﷺ نے جاسوسی کے لیے تنہا بھیجا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ کسی جنگی ضرورت کے پیش نظر اکیلے سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

【113】

سوتے وقت آگ بجھا دینا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم سونے لگو تو اپنے گھروں میں (جلتی ہوئی) آگ مت چھوڑو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤٩ (٦٢٩٣) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢١ (٢٠١٥) ، سنن ابی داود/الأدب ١٧٣ (٥٢٤٦) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٥ (١٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧، ٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ آگ چراغ کی شکل میں ہو یا سردیوں میں گرمی حاصل کرنے کی انگیٹھیاں، اور ہیٹر یا گیس کے سلنڈر ہوں تجربات و مشاہدات سے واضح ہے کہ ان کو جلتا ہوا چھوڑ کر سونا نہایت خطرناک ہے۔

【114】

سوتے وقت آگ بجھا دینا۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ کا ایک گھر لوگوں سمیت جل گیا جب نبی اکرم ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک آگ تمہاری دشمن ہے، لہٰذا جب تم سونے لگو، تو آگ بجھا دیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤٩ (٦٢٩٤) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٢ (٢٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٩) (صحیح )

【115】

سوتے وقت آگ بجھا دینا۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بہت سی باتوں کا حکم دیا، اور بہت سی باتوں سے منع فرمایا : (ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ) آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (سوتے وقت) چراغ بجھا دیا کریں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤٩ (٦٢٩٥) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٢ (٢٠١٣) ، سنن ابی داود/الأشربة ٢٢ (٣٧٣١) (صحیح )

【116】

راستہ میں پڑ اؤ ڈالنے کی ممانعت۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نہ راستہ کے درمیان قیام کرو، اور نہ وہاں قضائے حاجت کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٦٣ (٢٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ آنے جانے والوں کو اس سے تکلیف ہوگی، دین اسلام نے کوئی بات نہیں چھوڑی یہاں تک صفائی کا انتظام بھی اس میں موجود ہے۔

【117】

ایک جانور پر تین کی سواری۔

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر سے تشریف لاتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے، ایک بار میں نے اور حسن یا حسین (رض) نے آپ ﷺ کا استقبال کیا، تو آپ نے ہم دونوں میں سے ایک کو اپنے آگے، اور دوسرے کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١١ (٢٤٢٨) ، سنن ابی داود/الجہاد ٦٠ (٢٥٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٣) ، سنن الدارمی/الاسئذان ٣٦ (٢٧٠٧) (صحیح )

【118】

لکھ کر مٹی سے خشک کرنا۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم خط لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈال دیا کرو، اس سے تمہاری مراد پوری ہوگی کیونکہ مٹی مبارک چیز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٠١، ومصباح الزجاجة : ١٣١٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٢٠ (٢٧١٣) (ضعیف) (سند میں بقیہ ضعیف و مدلس اور ابوحمد الدمشقی مجہول ہیں )

【119】

تین آدمی ہوں تو وہ (آپس میں) سرگوشی نہ کریں۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم تین آدمی ساتھ رہو تو تم میں سے دو آدمی تیسرے کو اکیلا چھوڑ کر باہم کانا پھوسی اور سرگوشی نہ کریں، کیونکہ یہ اسے رنج و غم میں مبتلا کر دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١٥ (٢١٨٤) ، سنن ابی داود/الأدب ٢٩ (٤٨٥١) ، سنن الترمذی/الأدب ٥٩ (٢٨٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤٧ (٦٢٩٠، ٦٢٩١) ، مسند احمد (١/٣٧٥، ٤٢٥، ٤٣٠، ٤٤٠، ٤٦٢، ٤٦٤، ٤٦٥، سنن الدارمی/الاستئذان ٢٨ (٢٦٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سرگوشی اور کان میں بات کرنا اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسرے آدمی کو رنج ہوگا، اور اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوگا کہ معلوم نہیں چپکے چپکے یہ کیا صلاح و مشورہ کرتے ہیں، البتہ اگر مجلس میں تین سے زائد آدمی ہوں تو دو آدمی باہم سرگوشی کرسکتے ہیں۔

【120】

تین آدمی ہوں تو وہ (آپس میں) سرگوشی نہ کریں۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ اگر تین آدمی موجود ہوں تو تیسرے کو اکیلا چھوڑ کر دو آدمی باہم سرگوشی کریں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤٥ (٦٢٨٨) ، صحیح مسلم/السلام ١٥ (٢١٨٤) ، سنن ابی داود/الأدب ٢٩ (٤٨٥١) ، موطا امام مالک/الکلام ٦ (١٤) ، مسند احمد (١/٤٢٥، ٤٦٢، ٤٦٤) (صحیح )

【121】

جس کے پاس تیر ہو تو اسے پیکان سے پکڑے۔

سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا : کیا آپ نے جابر بن عبداللہ (رض) کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ایک شخص مسجد میں تیر لے کر گزرا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کی پیکان (نوک و پھل) تھام لو ، انہوں نے کہا : ہاں (سنا ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٦ (٤٥١) ، الفتن ٧ (٧٠٧٣) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٤ (٢٦١٤) ، سنن ابی داود/الجہاد ٧٢ (٢٥٨٦) ، سنن النسائی/المساجد ٢٦ (٧١٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٨، ٣٥٠) ، سنن الدارمی/المقدمة ٥٣ (٦٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم اس لیے ہے کہ کسی کو اس کی نوک نہ لگے کہ وہ زخمی ہوجائے۔

【122】

جس کے پاس تیر ہو تو اسے پیکان سے پکڑے۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص ہماری مسجد یا بازار میں سے ہو کر گزرے، اور اس کے ساتھ تیر ہو تو اس کی پیکان اپنی ہتھیلی سے پکڑے رہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کو اس کی نوک لگ جائے، (اور وہ زخمی ہو) ، یا چاہیئے کہ وہ تیر کی پیکان اپنی مٹھی میں دبائے رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٧ (٤٥٢) ، الفتن ٧ (٧٠٧٥) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٤ (٢٦١٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ٧٢ (٢٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩١، ٣٩٢، ٣٩٧، ٤١٠، ٤١٣) (صحیح )

【123】

قرآن کا ثواب۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قرآن کے پڑھنے میں ماہر ہو، وہ معزز اور نیک سفراء (فرشتوں) کے ساتھ ہوگا، اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہو اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہو تو اس کو دو گنا ثواب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٧٩ (٤٩٣٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٨ (٧٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٩ (١٤٥٤) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٣ (٢٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٨، ٩٤، ٩٨، ١١٠، ١٧٠، ١٩٢، ٢٣٩، ٢٦٦) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ١١ (٣٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک تلاوت کا، دوسرے محنت کرنے کا۔

【124】

قرآن کا ثواب۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن والے (قرآن کی تلاوت کرنے والے سے، یا حافظ قرآن سے) سے جب وہ جنت میں داخل ہوگا کہا جائے گا : پڑھتا جا اور اوپر چڑھتا جا، تو وہ پڑھتا اور چڑھتا چلا جائے گا، وہ ہر آیت کے بدلے ایک درجہ ترقی کرتا چلا جائے گا، یہاں تک کہ جو اسے یاد ہوگا وہ سب پڑھ جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠) (صحیح) (سند میں عطیہ العوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٢٤٠، صحیح أبی داود : ١٣١٧ )

【125】

قرآن کا ثواب۔

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن قرآن ایک تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا، اور حافظ قرآن سے کہے گا کہ میں نے ہی تجھے رات کو جگائے رکھا، اور دن کو پیاسا رکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٣٢١) ، وقد أخرجہ : حم (٥/٣٤٨، ٣٥٢، ٣٦١) ، سنن الدارمی/فضائل القران ١٥ (٣٤٣٤) (حسن) (سند میں بشیر بن مہاجر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٨٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو قرآن پڑھتا یا قرآن سنتا تھا پس سننے والوں کو بھی ایسا ہی کہے گا۔

【126】

قرآن کا ثواب۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر جائے تو اسے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیاں گھر پر بندھی ہوئی ملیں ؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں (کیوں نہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں تین آیتیں پڑھتا ہے، تو یہ اس کے لیے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیوں سے افضل ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤١ (٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٦، ٤٦٦، ٤٩٦) سنن الدارمی/فضائل القرآن ١ (٣٣٥٧) (صحیح )

【127】

قرآن کا ثواب۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جب تک مالک اسے باندھ کر دیکھ بھال کرتا رہے گا تب تک وہ قبضہ میں رکھے گا، اور جب اس کی رسی کھول دے گا تو وہ بھاگ جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣٢ (٧٨٩) ، سنن الترمذی/القراء ات ١٠٠ (٢٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٣ (٥٠٣١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٧ (٩٤٣) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (٦) ، مسند احمد (٢/١٧، ٢٣، ٣٠، ٦٤، ١١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے حافظ قرآن کو چاہیے کہ وہ پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہے، کیونکہ اگر وہ اسے پڑھنا ترک کر دے گا، تو بھول جائے گا پھر اس کی ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔

【128】

قرآن کا ثواب۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، آدھا میرے لیے ہے، اور آدھا میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم پڑھو ! ، جب بندہ الحمد لله رب العالمين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : حمدني عبدي ولعبدي ما سأل میرے بندے نے میری حمد ثنا بیان کی، اور بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور جب بندہ الرحمن الرحيم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : أثنى علي عبدي ولعبدي ما سأل میرے بندے نے میری تعریف کی، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر جب بندہ مالک يوم الدين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :مجدني عبدي فهذا لي وهذه الآية بيني وبين عبدي نصفين میرے بندے نے میری عظمت بیان کی تو یہ میرے لیے ہے، اور یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، یعنی پھر جب بندہ إياک نعبد وإياک نستعين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فهذه بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل وآخر السورة لعبدي یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور سورت کی اخیر آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، پھر جب بندہ اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے : فهذا لعبدي ولعبدي ما سأل یہ میرے بندہ کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٦ (٨٢١) ، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ٢ (١) (٢٩٥٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٣ (٩١٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣٩) مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٢٩٠، ٤٥٧، ٤٧٨) (صحیح )

【129】

قرآن کا ثواب۔

ابوسعید بن معلّیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کیا میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں وہ سورت نہ سکھاؤں جو قرآن مجید میں سب سے عظیم سورت ہے، پھر آپ ﷺ جب مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ سورت الحمد لله رب العالمين ہے جو سبع مثانی ہے، اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے عطا کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة ١ (٤٤٧٤) ، تفسیرالأنفال ٣ (٤٦٤٧) ، و تفسیر الحجر ٣ (٤٧٠٣) ، فضائل القرآن ٩ (٥٠٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٠ (١٤٥٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٦ (٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٧ (٣٧) ، مسند احمد (٣/٤٥٠، ٤/٢١١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٢ (١٥٣٣) ، فضائل القرآن ١٢ (٣٤١٦) (صحیح )

【130】

قرآن کا ثواب۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن میں ایک سورت ہے جس میں تیس آیتیں ہیں وہ اپنے پڑھنے والے کے لیے (اللہ تعالیٰ سے) سفارش کرے گی، حتیٰ کہ اس کی مغفرت کردی جائے گی، اور وہ سورة تبارک الذي بيده الملک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٧ (١٤٠٠) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ٩ (٢٨٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٣ (٣٤٥٣) (صحیح )

【131】

قرآن کا ثواب۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : قل هو الله أحد (یعنی سورة الاخلاص) (ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١١ (٢٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ المسافرین ٤٥ (٨١٢) (صحیح )

【132】

قرآن کا ثواب۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قل هو الله أحد (یعنی سورة الاخلاص) (ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١١ (٢٨٩٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٤ (٣٤٧٥) (صحیح )

【133】

قرآن کا ثواب۔

ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الله أحد الواحد الصمد (یعنی سورة الاخلاص ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠١، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ کلمات ثواب میں تہائی قرآن کے برابر ہیں بعض نسخوں میں یوں ہے : قل ھو الله أحد الصمد تہائی قرآن کے برابر ہے۔

【134】

یاد الہی کی فضیلت۔

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل ہو، اور تمہارے مالک کو سب سے زیادہ محبوب ہو، اور تمہارے درجات کو بلند کرتا ہو، اور تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ تم ان کی گردنیں مارو، اور وہ تمہاری گردنیں ماریں بہتر ہو ؟ ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ اللہ کا ذکر ہے ۔ اور معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے والا انسان کا کوئی عمل ذکر الٰہی سے بڑھ کر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٦ (٣٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٤) ، مسند احمد (٥/١٩٥، ٦/٤٤٧) (صحیح )

【135】

یاد الہی کی فضیلت۔

ابوہریرہ اور ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ وہ دونوں گواہی دیتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو لوگ مجلس میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتے ہیں، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، اور (اللہ کی) رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور سکینت ان پر نازل ہونے لگتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں سے ان کا ذکر کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکروالدعاء ١١ (٢٧٠٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧ (٣٣٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٤، ١٢١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣/٣٣، ٤٩، ٩٢، ٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے زور سے اللہ کی یاد شروع کی یعنی بہت چلا کر تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اس کو نہیں پکارتے جو بہرہ ہے، یا غائب ہے، اپنے اوپر آسانی کرو، دوسری روایت میں ہے کہ وہ تم سے زیادہ قریب ہے تمہارے پالان کی آگے کی لکڑی یا تمہارے اونٹ کی گردن سے بھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ اور ہر چیز کو سنتا، اور دیکھتا ہے، پس چلانے کی ضرورت نہیں اگرچہ اس کی ذات مقدس عرش معلی پر ہے مگر اس کا سمع اور بصر ہر جگہ ہے۔

【136】

یاد الہی کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں، جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور اس کے ہونٹ میرے ذکر کی وجہ سے حرکت میں ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٤٣ تعلیقا، مسند احمد (٢/٥٤٠) (صحیح) (سند میں محمد بن مصعب قرقسانی صدوق اور کثیر الغلط راوی ہیں، ابن حبان کے یہاں ایوب بن سوید نے ان کی متابعت کی ہے، بوصیری نے سند کو حسن کہا ہے، اور البانی نے شاہد کی بناء پر صحیح کہا ہے )

【137】

یاد الہی کی فضیلت۔

عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و قواعد مجھ پر بہت ہوگئے ہیں ١ ؎، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئیے جس پر میں مضبوطی سے جم جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٤ (٣٣٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٥١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٨، ١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسلام میں نیک اعمال کے طریقے بہت زیادہ ہیں۔

【138】

یاد الہی کی فضیلت۔

اغر ابومسلم سے روایت ہے اور انہوں نے شہادت دی کہ ابوہریرہ اور ابوسعید (رض) دونوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بندہ لا إله إلا الله والله أكبر یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے، کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں ہی سب سے بڑا ہوں، اور جب بندہ لا إله إلا الله وحده یعنی صرف تنہا اللہ ہی عبادت کے لائق ہے، کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، میں ہی اکیلا معبود برحق ہوں، اور جب بندہ لا إله إلا الله لا شريك له کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میرا کوئی شریک اور ساجھی نہیں، اور جب بندہ لا إله إلا الله له الملک وله الحمد یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اسی کی بادشاہت اور ہر قسم کی تعریف ہے، کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، بادشاہت اور تعریف (یعنی ملک اور حمد) میرے ہی لیے ہے، اور جب بندہ لا إله إلا الله ولا حول ولا قوة إلا بالله یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور اس کے علاوہ کسی میں کوئی طاقت و قوت نہیں، کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میرے علاوہ کسی میں کوئی قوت و طاقت نہیں ١ ؎۔ ابواسحاق کہتے ہیں : پھر اغر نے ایک بات کہی جسے میں نہ سمجھ سکا، میں نے ابوجعفر سے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مرتے وقت ان کلمات کے کہنے کی توفیق بخشی تو اسے جہنم کی آگ نہ چھوئے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٣٧ (٣٤٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٦، ١٢١٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں کلمہ تمجید کے علیحدہ علیحدہ کلمات مذکور ہیں، پورا کلمہ یوں ہے جو ہر نماز کے بعد پڑھنا مسنون ہے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له الملک وله الحمد و هو على كل شيئ قدير لاإله إلا الله والله أکبرلا حول ولا قوة إلا باللهالعلى العظيم۔

【139】

یاد الہی کی فضیلت۔

سعدیٰ مریہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد عمر (رض) طلحہ (رض) کے پاس گزرے، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم کو رنجیدہ پاتا ہوں ؟ کیا تمہیں اپنے چچا زاد بھائی (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کی خلافت گراں گزری ہے ؟ ، انہوں نے کہا : نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میں ایک بات جانتا ہوں اگر کوئی اسے موت کے وقت کہے گا تو وہ اس کے نامہ اعمال کا نور ہوگا، اور موت کے وقت اس کے بدن اور روح دونوں اس سے راحت پائیں گے ، لیکن میں یہ کلمہ آپ سے دریافت نہ کرسکا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی، عمر (رض) نے کہا کہ میں اس کلمہ کو جانتا ہوں، یہ وہی کلمہ ہے جو آپ ﷺ نے اپنے چچا (ابوطالب) سے مرتے وقت پڑھنے کے لیے کہا تھا، اور اگر آپ کو اس سے بہتر اور باعث نجات کسی کلمہ کا علم ہوتا تو وہی پڑھنے کے لیے فرماتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢١، ١٠٦٧٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ نبی اکرم ﷺ کو اپنے چچا سے جو الفت و محبت تھی، اور جس طرح آپ انہیں آخری وقت میں قیامت کے دن کے عذاب سے بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، اور کلمہ لا إله إلا الله کہنے کا حکم دیتے رہے، اس سے بہتر کوئی دوسرا کلمہ نہیں ہوسکتا جسے مرتے وقت کوئی اپنی زبان سے ادا کرے۔

【140】

یاد الہی کی فضیلت۔

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی موت اس گواہی پر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور یہ گواہی سچے دل سے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٣١، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وعدوں سے متعلق بہت ساری احادیث آئی ہیں : ١ ۔ بعض ایسی احادیث ہیں جس میں کسی نیکی کے کرنے پر جنت کی بشارت ہے۔ ٢ ۔ اور بعض میں کسی کام کے کرنے پر جنت کے حرام ہونے کی وعید اور دھمکی ہے۔ اور وعید سے متعلق بھی متعدد احادیث آئی ہیں : ١ ۔ بعض احادیث میں بعض کبیرہ گناہوں پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ ٢ ۔ بعض کبائر کے مرتکب سے ایمان کی نفی آئی ہے۔ ٣ ۔ بعض احادیث میں ان کبائر کے مرتکب سے نبی اکرم ﷺ نے اپنی براءت کا اظہار فرمایا ہے۔ ٤ ۔ بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ٥ ۔ بعض میں بعض کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر جہنم کی دھمکی ہے۔ ٦ ۔ بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کو لعنت سنائی گئی ہے، یعنی رحمت سے دوری کی دھمکی۔ وعید کی یہ ساری احادیث ایسے مسلمان کے بارے میں ہیں، جس کے پاس اصل ایمان و توحید کی دولت موجود ہے، لیکن اس سے بعض کبیرہ گناہ سرزد ہوئے ہیں، اور وعدوں سے متعلق ساری احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان جنت میں داخل ہوگا، اور جہنم سے نجات پائے گا، اس لئے وہ لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ کی شہادت دینے والا ہے، اور فی الجملہ مسلمان ہے۔ اور وعید کی احادیث میں گناہ کبیرہ کے ارتکاب کرنے والے کو جہنم کے عذاب اور جنت سے محرومی کی دھمکی سنائی گئی ہے، اور بعض میں اس سے ایمان کی نفی ہے، بعض میں رسول اکرم ﷺ نے اس سے اپنی براءت کا اعلان فرمایا ہے، بلکہ بعض میں اس پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ وعدہ اور وعید سے متعلق مسئلہ کو اہل علم نے عقیدے کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ابتداء ہی میں ان احادیث کے سمجھنے میں اور اس سے مستفاد مسائل عقیدہ میں امت اسلامیہ اختلافات کا شکار ہوئی۔ اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ نصوص متواترہ کا مفاد ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد اپنے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی سزا میں داخل جہنم ہوں گے، پھر سزا بھگتنے کے بعد اصل توحید و ایمان کی برکت سے وہاں سے نکل کر داخل جنت ہوں گے، جیسا کہ شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ علماء کا اس مسئلہ میں ایک مسلک یہ ہے کہ وعدوں سے متعلق احادیث کا ظاہری معنی ہی مراد ہے، اور کلمہ توحید و رسالت کے شروط اور تقاضوں کے پورے ہونے اور اس راہ کے موانع (رکاوٹوں) کے دور ہونے کے بعد ان وعدوں کا متحقق ہونا ضروری ولابدی ہے، اس لئے ان نصوص کو اسی طرح بیان کیا جائے گا، مثلاً حدیث میں ہے کہ جس شخص نے لا الہ إلا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوا، اور جہنم کو اللہ نے اس پر حرام کردیا، یا جس نے ایسا کیا جنت میں داخل ہوا وغیرہ وغیرہ، تو جنت کا یہ دخول اس صورت میں ہوگا جب کلمہ توحید کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہوں گے، اور دخول جنت کی راہ کے موانع (رکاوٹیں) دور کی ہوں گی، ان احادیث میں صرف یہ ہے کہ یہ جنت میں جانے یا جہنم سے نجات کا سبب ہیں، اور سبب کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کے ہونے سے مسبب (نتیجہ) کا برآمد ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ وعدہ کے پورا ہونے کے لئے شروط و قیود کا پایا جانا، اور موانع (رکاوٹوں) کا دور ہونا ضروری ہے۔ لیکن ان احادیث کو کسی خاص آدمی پر چسپاں کر کے اس کو جنت یا جہنم کا مستحق قرار دینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس مخصوص بندے نے کیا اس کلمہ کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہیں ؟ جس سے وہ جنت کا مستحق ہے، اور دخول جنت سے مانع چیزوں کو دور کردیا ہے یا نہیں ؟۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہی مسلک ہے، امام بخاری نے ابو ذر (رض) کی حدیث : ما من عبد قال : لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة کے بارے میں فرمایا : هذا عند الموت أو قبله، إذا تاب، وندم وقال : لا إله إلا الله غفر له یہ موت کے وقت یا موت سے پہلے جب بندہ نے توبہ کی، نادم ہوا، اور لا إله إلا الله کہا، تو اس کو بخش دیا جائے گا چناچہ توبہ و ندامت، اور کلمہ لا إله إلا الله پر موت سے جنت میں داخلہ کی شروط اور شہادت میں قدح کرنے والی رکاوٹوں کی نفی ہوگئی، اور بندہ جنت میں چلا گیا۔ علامہ سلیمان بن عبداللہ تیسیرالعزیز الحمید ( ٧٢ ) میں فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اس کلمہ توحید کو اس کے معنی کی معرفت و سمجھ کے ساتھ کہا، اور ظاہر و باطن میں اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ یہ احادیث مطلق ہیں، دوسری احادیث میں ان کی قیود و شروط آئی ہیں، اس لئے قید و شرط پر ان مطلق احادیث کو پیش کرنا ضروری ہے۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے دونوں جوتوں کو لے کر جاؤ، اور اس باغ کے پرے جو لا الہ إلا اللہ کہنے، اور اس پر دل سے یقین رکھنے والا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو ۔ جابر (رض) کی حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کئے بغیر مرگیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ معاذ (رض) کی حدیث ہے کہ جس نے خلوص دل سے لا إلہ الا اللہ کی گواہی دی، یا یقین قلب کے ساتھ گواہی دی وہ جہنم میں نہیں جائے گا، یا جنت میں جائے گا، نیز فرمایا : وہ جنت میں داخل ہوگا، اور اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ۔ امام ابن رجب فرماتے ہیں : اس کی وضاحت یہ ہے کہ بندہ کا لا إله إلا الله کہنا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ غیر اللہ کے معبود ہونے کی نفی کرے، اور إلــه ایسی قابل اطاعت (مطاع) ذات ہے کہ اس کی اہمیت کے سامنے، اس کی جلالت شان کے آگے، اس سے محبت کرکے، اس سے ڈر کر، اس سے امید کر کے، اس پر توکل کر کے، اس سے سوال کر کے، اور اس کو پکار کر اس کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی، یہ ساری چیزیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں، تو جس نے ان الٰہی خصوصیات و امتیازات میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس کے لا إله إلا الله کے کہنے کے اخلاص میں یہ قدح وطعن کی بات ہوئی، اور اس کی توحید میں نقص آیا، اور اس میں اسی مقدار میں مخلوق کی عبودیت متحقق ہوئی، اور یہ سب شرک کی شاخیں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وعدہ سے متعلق احادیث کو اس کے ظاہر پر رکھا جائے، اور اس کو ویسے ہی بیان کیا جائے، اور اس کو کسی مخصوص آدمی پر منطبق (چسپاں) نہیں کیا جائے گا، اور اس وعدے یعنی دخول جنت کے وجود کے تحقق کے لئے ایسی شروط و قیود ہیں جن کا وجود ضروری ہے، اور اس کی تنفیذ کی راہ میں جو موانع اور رکاوٹیں حائل ہوں ان کا دور ہونا ضروری ہے۔ بعض علماء نے ان احادیث کو اس کے عام اور ظاہری معنی میں نہیں لیا ہے بلکہ وہ اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں، مثلاً کلمہ گو مسلمان (لا إله إلا الله کے قائل) پر جہنم کے حرام ہونے کا مطلب ان کے نزدیک اس کا ہمیشہ ہمیش اور ابد الآباد تک جہنم میں نہ رہنا ہے، بلکہ اس میں داخل ہونے کے بعد وہ اس سے باہر نکلے گا، یا یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ کفار و منافقین کے جہنم کے ٹھکانوں میں داخل نہ کیا جائے گا، جب کہ بہت سے گنہگار موحد (مسلمان) جہنم کے اوپری طبقہ میں اپنے گناہوں کی پاداش میں داخل ہوں گے، اور اہل شفاعت کی شفاعت اور ارحم الراحمین کی رحمت سے وہ اس سے باہر نکل کر جنت میں جائیں گے، امام ابن قتیبہ اور قاضی عیاض انہی مذکورہ معانی کے اعتبار سے لا إله إلا الله کے قائلین کے جنت میں داخل ہونے کے استحقاق کی احادیث کے معنی و مراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ آخری انجام و عاقبت کے اعتبار سے عذاب پانے کے بعد وہ جنت میں جائیں گے۔ بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامرو نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہوگئی ہیں، اور واجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی )

【141】

یاد الہی کی فضیلت۔

ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لا إله إلا الله سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، اور یہ کلمہ کوئی گناہ باقی نہیں چھوڑتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٣، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٦) (ضعیف) (زکریا بن منظور ضعیف راوی ہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب کافر لا إله إلا الله کہہ کر مسلمان ہوجائے تو اس سے زمانہ کفر کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

【142】

یاد الہی کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایک دن میں سو بار لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شيء قدير یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہت اور تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، کہا تو اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے، اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اس کی سو برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور وہ پورے دن رات تک شیطان سے بچا رہتا ہے، اور کسی کا عمل اس کے عمل سے افضل نہ ہوگا مگر جو کوئی اسی کلمہ کو سو بار سے زیادہ کہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٩٣) ، الدعوات ٦٥ (٦٤٠٣) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩١) ، سنن الترمذی/الدعوات ٦٠ (٣٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٠) ، مسند احمد (٢/٣٠٢، ٣٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے زیادہ ثواب ہوگا اسی طرح جو کوئی اور زیادہ کہے اس کو اور زیادہ ثواب ہوگا۔

【143】

یاد الہی کی فضیلت۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز صبح (فجر) کے بعد لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد بيده الخير وهو على كل شيء قدير کہے تو اسے اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٣٨) (ضعیف) (سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، عشرمرات کے لفظ سے اس طرح کی دعا ثابت ہے، کمافی صحیح الترغیب و الترھیب : ٤٧٢ - ٤٧٥ )

【144】

اللہ کی حمد وثناء کرنے والوں کی فضیلت۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : سب سے بہترین ذکر لا إله إلا الله اور سب سے بہترین دعا الحمد لله ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٩ (٣٣٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٨٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ جو کوئی اللہ کی حمد کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اور زیادہ دے گا، پس اس کی سب مرادیں خود بخود پوری ہوں گی الگ الگ مانگنے کی کیا حاجت ہے۔

【145】

اللہ کی حمد وثناء کرنے والوں کی فضیلت۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا : يا رب لک الحمد کما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانک اے میرے رب ! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے ، تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا : اے ہمارے رب ! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے جسے ہم نہیں جانتے کیسے لکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے نے کیا کہا ؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا : تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے يا رب لک الحمد کما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانک تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ دو جس طرح میرے بندے نے کہا : یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٧) (ضعیف) (صدقہ اور قدامہ دونوں ضعیف ہیں )

【146】

اللہ کی حمد وثناء کرنے والوں کی فضیلت۔

وائل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، ایک شخص نے (سمع الله لمن حمده کے بعد) الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه کہا، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کلمہ کس نے کہا ؟ اس شخص نے عرض کیا : میں نے یہ کلمہ کہا اور اس سے میری نیت خیر کی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کلمہ کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے، اور اس کلمے کو عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز نہیں روک سکی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٦، ٣١٨، ٣١٩) (ضعیف) (ابو سحاق سبیعی مدلس و مختلط راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبد الجبار بن وائل ثقہ راوی ہیں، لیکن اپنے والد سے ان کی روایت مرسل ہے، یہ حدیث ابن عمر اور انس (رض) سے ثابت ہے، لیکن فما نهنهها شيء دون العرش ثابت نہیں )

【147】

اللہ کی حمد وثناء کرنے والوں کی فضیلت۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی اچھی بات دیکھتے تو فرماتے : الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی مہربانی سے تمام نیک کام پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں ، اور جب کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے تو فرماتے : الحمد لله على كل حال ہر حال میں اللہ کا شکر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٦٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٢٩) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٩٦ ) (سند میں الو لید بن مسلم ثقہ لیکن کثیر التدلیس والتسویہ راوی ہیں، لیکن ابوہریرہ (رض) کی اگلی حدیث سے یہ حسن ہے، بوصیری نے اسناد کی تصحیح کی ہے )

【148】

اللہ کی حمد وثناء کرنے والوں کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے : الحمد لله على كل حال رب أعوذ بک من حال أهل النار ہر حال میں اللہ کا شکر ہے میرے رب ! میں جہنمیوں کے حال سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٠) (ضعیف) (موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہیں، اور محمد بن ثابت مجہول )

【149】

اللہ کی حمد وثناء کرنے والوں کی فضیلت۔

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے، اور وہ الحمدللہ کہتا ہے تو اس نے جو دیا وہ اس چیز سے افضل ہے جو اس نے لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٣١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا الحمد للہ کہنا یہ اس نعمت سے افضل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو دی، تو گویا بندے نے نعمت لی، اور اس سے افضل شئے اللہ تعالیٰ کی نزدیک اس کی عنایت ہے ورنہ اس کی نعمت کے سامنے ہمیں زبان سے ایک لفظ نکالنے کی کیا حقیقت ہے، اگر ہم لاکھوں برس تک الحمد للہ کہا کریں تو بھی اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہ ہو سکے گا۔

【150】

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو کلمے زبان پر بہت ہلکے ہیں ١ ؎، اور میزان میں بہت بھاری ہیں، اور رحمن کو بہت پسند ہیں (وہ دو کلمے یہ ہیں) سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم اللہ (ہر عیب و نقص سے) پاک ہے اور ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، عظیم (عظمت والا) اللہ (ہر عیب و نقص) سے پاک ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٦٥ (٦٤٠٦) ، التوحید ٥٧ (٧٥٦٣) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩٤) ، سنن الترمذی/الدعوات ٦٠ (٣٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بہت مختصر کلمے ہیں اور ان کا پڑھنا بھی سہل ہے، آدمی کو چاہیے کہ ہر وقت ان کلموں کو پڑھے۔

【151】

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک دن درخت لگا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا : ابوہریرہ ! تم کیا لگا رہے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ میں درخت لگا رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس سے بہتر درخت نہ بتاؤں ؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ آپ ضرور بتلائیے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : تم سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر کہا کرو، تو ہر ایک کلمہ کے بدلے تمہارے لیے جنت میں ایک درخت لگایا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں چار کلمے ہیں تو ایک بار کہنے سے جنت میں چار درخت لگائے جائیں گے، اسی طرح دو بار کہنے سے آٹھ درخت، امید ہے کہ ہر ایک مومن ان کلموں کو لاکھوں بار پڑھا ہو، اور جنت کے اندر اس کی زمین میں لاکھوں درخت لگائے گئے ہوں۔

【152】

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت۔

جویریہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح (فجر) کے وقت یا صبح کے بعد ان کے پاس سے گزرے، اور وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہی تھیں، پھر آپ ﷺ اس وقت لوٹے جب دن چڑھ آیا، یا انہوں نے کہا : دوپہر ہوگئی اور وہ اسی حال میں تھیں (یعنی ذکر میں مشغول تھیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں جب سے تمہارے پاس سے اٹھا ہوں یہ چار کلمے تین مرتبہ پڑھے ہیں، یہ چاروں کلمے (ثواب میں) زیادہ اور وزن میں بھاری ہیں، اس ذکر سے جو تم نے کئے ہیں، (وہ چار کلمے یہ ہیں) سبحان الله عدد خلقه سبحان الله رضا نفسه سبحان الله زنة عرشه سبحان الله مداد کلماته میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں، اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اس کی مرضی کے مطابق، اس کے عرش کے وزن، اور لامحدود کلمے کے برابر اس کی حمد وثناء بیان کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکروالدعاء ١٩ (٢٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٩ (١٥٠٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٠٤ (٣٥٥٥) ، سنن النسائی/االسہو ٩٤ (١٣٥٣) ، مسند احمد (٦/٣٢٥، ٤٢٩) (صحیح )

【153】

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت۔

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا جلال جو تم ذکر کرتے ہو وہ تسبیح (سبحان الله ) ، تہلیل، لا إله إلا الله، اور تحمید، الحمد لله ہے، یہ کلمے عرش کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں، ان میں شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز ہوتی ہے، اپنے کہنے والے کا ذکر کرتے ہیں (اللہ کے سامنے) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے لیے ایک ایسا شخص ہو جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا برابر ذکر کرتا رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٨، ٢٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سبحان اللہ، ان کلمات کی کیا فضیلت ہے، گویا یہ اپنے کہنے والے کے لئے شاہد اور مذکر ہیں، اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کا استواء عرش کے اوپر ہونا ثابت ہے۔

【154】

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت۔

ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی عمل بتلائیے، میں بوڑھی اور ضعیف ہوگئی ہوں، میرا بدن بھاری ہوگیا ہے ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : سو بار اللہ اکبر، سو بار الحمدللہ، سو بار سبحان اللہ کہو، یہ ان سو گھوڑوں سے بہتر ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں مع زین و لگام کے کس دیئے جائیں، اور سو جانور قربان کرنے، اور سو غلام آزاد کرنے سے بہتر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٣، ١٨٠١٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٤) (حسن) (سند میں زکریا بن منظور ضعیف اور محمد بن عقبہ مستور ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اب محنت والی عبادت مجھ سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔

【155】

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت۔

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چار کلمے تمام کلمات سے بہتر ہیں اور جس سے بھی تم شروع کرو تمہیں کوئی نقصان نہیں، وہ یہ ہیں سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر اللہ کی ذات پاک ہے، ہر سم کی حمد وثناء اللہ ہی کو سزاوار ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ بہت بڑا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٢ (٢١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١١، ٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چاہے پہلے سبحان اللہ کہے، چاہے الحمد للہ چاہے اللہ اکبر چاہے : لا إله إلا الله اگر اس کے بعد یہ بھی ملائے ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم تو اور زیادہ ثواب ہے۔

【156】

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سو بار سبحان الله وبحمده کہے تو اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے، اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٦٠ (٣٤٦٦، ٣٤٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الدعوات ٦٥ (٦٤٠٥) ، مسند احمد (٢/٣٠٢، ٣٧٥، ٥١٥) (صحیح )

【157】

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت۔

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر کہنے کو اپنے اوپر لازم کرلو، کیونکہ یہ کلمے گناہوں کو ایسے جھاڑ دیتے ہیں جیسے درخت اپنے (پرانے) پتے جھاڑ دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٧٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤٠) (ضعیف) (سند میں عمر بن راشد کی ابن أبی کثیر سے روایت میں اضطراب ہے )

【158】

اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : ہم شمار کرتے رہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ مجلس میں رب اغفر لي وتب علي إنك أنت التواب الغفور اے میرے رب ! مجھے بخش دے، میری توبہ قبول فرما لے، تو ہی توبہ قبول فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے سو بار کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦١ (١٥١٦) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣٩ (٣٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١) (صحیح )

【159】

اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تو ہر روز اللہ تعالیٰ سے سو بار استغفار اور توبہ کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥١٠٠، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨٢) (حسن صحیح )

【160】

اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تو ہر روز اللہ تعالیٰ سے ستر بار استغفار اور توبہ کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٠، ٥/٣٩٧) (صحیح )

【161】

اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا۔

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں پر زبان درازی کرتا تھا، لیکن اپنے گھر والوں کے سوا کسی اور سے زبان درازی نہ کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : تم استغفار کیوں نہیں کیا کرتے، تم ہر روز ستر بار استغفار کیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٧٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٩٤، ٣٩٦، ٣٩٧، ٤٠٢) ، سنن الدارمی/الرقاق ١٥ (٢٧٦٥) (ضعیف) (سند میں ابوالمغیرہ حذیفہ (رض) سے روایت میں مضطرب الحدیث ہیں )

【162】

اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا۔

عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مبارکبادی ہے اس شخص کے لیے جو اپنے صحیفہ (نامہ اعمال) میں کثرت سے استغفار پائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٠٠، ومصباح الزجاجة : ١٣٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٩، ١٤٥، ١٨٨، ٢٣٩) (صحیح )

【163】

اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے استغفار کو لازم کرلیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا، اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا، اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦١ (١٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٨) (ضعیف) (سند میں حکم بن مصعب مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کے گناہ بخش دوں گا، اس حدیث میں موحد مسلمانوں کے لیے بڑی امید ہے کہ توحید کی برکت سے اللہ چاہے گا تو ان کے گناہوں کو چاہے وہ کتنے ہی زیادہ ہوں بخش دے گا، لیکن کسی کو اس مغفرت پر تکیہ نہ کرنا چاہیے، اس لئے کہ انجام حال معلوم نہیں، اور اللہ رب العزت کی جیسی رحمت وسیع ہے ویسے ہی اس کا عذاب بھی سخت ہے، پس ہمیشہ گناہوں سے ڈرتا اور بچتا رہے، توبہ اور استغفار کرتا رہے، اور شرک سے بچنے اور دور رہنے کا بڑا خیال رکھے کیونکہ شرک کے ساتھ بخشے جانے کی توقع نہیں ہے۔

【164】

اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے : اللهم اجعلني من الذين إذا أحسنوا استبشروا وإذا أساء وا استغفروا اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اور جب برا کام کرتے ہیں تو اس سے استغفار کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٩، ١٤٥، ١٨٨، ٢٣٩) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں )

【165】

نیکی کی فضیلت۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جو شخص ایک نیکی کرے گا اس کو اسی طرح دس نیکیوں کا ثواب ملے گا، اور میں اس پر زیادہ بھی کرسکتا ہوں، اور جو شخص ایک برائی کرے گا اس کو ایک ہی برائی کا بدلہ ملے گا، یا میں بخش دوں گا، اور جو شخص مجھ سے (عبادت و طاعت کے ذریعہ) ایک بالشت قریب ہوگا، تو میں اس سے ایک ہاتھ نزدیک ہوں گا، اور جو شخص مجھ سے ایک ہاتھ نزدیک ہوگا تو میں اس سے ایک باع یعنی دونوں ہاتھ قریب ہوگا، اور جو شخص میرے پاس (معمولی چال سے) چل کر آئے گا، تو میں اس کے پاس دوڑ کر آؤں گا، اور جو شخص مجھ سے زمین بھر گناہوں کے ساتھ ملے گا، اس حال میں کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں اس کے گناہوں کے برابر بخشش لے کر اس سے ملوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٦ (٢٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٧، ١٤٨، ١٥٣، ١٥٥، ١٦٩، ١٨٠، سنن الدارمی/الرقاق ٧٢ (٢٨٣٠) (صحیح )

【166】

نیکی کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اگر وہ میرا دل میں ذکر کرتا ہے تو میں بھی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١ (٢٦٧٥) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٣٢ (٣٦٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ١٥ (٧٤٠٥) ، مسند احمد (٢/٢٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں لفظ نفس کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔

【167】

نیکی کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا ہر عمل دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سوائے روزے کے کیونکہ وہ میرے لیے ہے میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٢٥ (١١٥١) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٥ (٧٦٤) ، سنن النسائی/الصیام ٢٣ (٢٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٠، ١٢٥٢٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢ (١٨٩٤) ، ٩ (١٩٠٤) ، اللباس ٧٨ (٥٩٢٧) ، التوحید ٣٥ (٧٥٠١) ، ٥٠ (٧٥٣٧) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥١) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٥٢، ٢٥٧، ٢٦٦، ٢٧٣، ٢٩٣، ٣٥٢، ٣١٣، ٤٤٣، ٤٤٥، ٤٧٥، ٤٧٧، ٤٨٠، ٥٠١، ٥١٠) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٠ (١٨١٢) (صحیح )

【168】

لاحول ولاقوة الا باللہ کی فضیلت۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے لا حول ولا قوة إلا بالله گناہوں سے دوری اور عبادات و طاعت کی قوت صرف اللہ رب العزت کی طرف سے ہے پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا : عبداللہ بن قیس ! کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتلاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک حزانہ ہے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : تم لا حول ولا قوة إلا بالله کہا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢٠٥) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء، والتوبة، و الاستغفار ١٣ (٢٧٠٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦١ (١٥٢٦، ١٥٢٧، ١٥٢٨) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣ (٣٣٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٤، ٣٩٩، ٤٠٠، ٤٠٢، ٤٠٧، ٤١٧، ٤١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن قیس یہ ابوموسیٰ اشعری (رض) کا نام ہے۔

【169】

لاحول ولاقوة الا باللہ کی فضیلت۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، ضرور بتائیے، اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کلمہ لا حول ولا قوة إلا بالله ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٦٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٥، ١٥٠، ١٥٢، ١٥٢، ١٥٧، ١٧٩) (صحیح )

【170】

لاحول ولاقوة الا باللہ کی فضیلت۔

حازم بن حرملہ (رض) کہتے ہیں کہ میں (ایک روز) نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ نے مجھ سے فرمایا : اے حازم ! تم لا حول ولا قوة إلا بالله کثرت سے پڑھا کرو، کیونکہ یہ کلمہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٥، ١٥٠، ١٥٢) (صحیح) (سند میں ابوزینب مجہول راوی ہیں، اور خالد بن سعید مقبول عند المتابعہ، لیکن حدیث سابقہ شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے )