35. دعاؤں کا بیان

【1】

دعا کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک (غصہ) ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢ (٣٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٣، ٤٧٧) (صحیح) (تراجع الألباني : رقم : ١١٣ ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے مالک سے مانگے، نہ مانگنے سے غرور و تکبر اور بےنیازی ظاہر ہوتی ہے، آدمی کو چاہیے کہ اپنی ہر ضرورت کو اپنے مالک سے مانگے اور جب کوئی تکلیف ہو تو اپنے مالک سے دعا کرے، ہم تو اس کے در کے بھیک مانگنے والے ہیں، رات دن اس سے مانگا ہی کرتے ہیں، اور ذرا سا صدمہ ہوتا ہے تو ہم سے صبر نہیں ہوسکتا اپنے مالک سے اسی وقت دعا کرنے لگتے ہیں ہم تو ہر وقت اس کے محتاج ہیں، اور اس کے در دولت کے فقیر ہیں۔

【2】

دعا کی فضیلت۔

نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :وقال ربکم ادعوني أستجب لكم اور تمہارے رب نے کہا : دعا کرو (مجھے پکارو) میں تمہاری دعا قبول کروں گا (سورة الغافر : 60) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٣ ١٦ (٢٩٦٩) ، الدعوات ١ (٣٣٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧١، ٢٧٦، ٢٧٧) (صحیح )

【3】

دعا کی فضیلت۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ لائق قدر کوئی چیز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١ (٣٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٢) (حسن )

【4】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی دعا میں یہ پڑھا کرتے تھے : رب أعني ولا تعن علي وانصرني ولا تنصر علي وامکر لي ولا تمکر علي واهدني ويسر الهدى لي وانصرني على من بغى علي رب اجعلني لک شکارا لک ذکارا لک رهابا لک مطيعا إليك مخبتا إليك أواها منيبا رب تقبل توبتي واغسل حوبتي وأجب دعوتي واهد قلبي وسدد لساني وثبت حجتي واسلل سخيمة قلبي اے میرے رب ! میری مدد فرما، اور میرے مخالف کی مدد مت کر، اور میری تائید فرما، اور میرے مخالف کی تائید مت کر، اور میرے لیے تدبیر فرما، میرے خلاف کسی کی سازش کامیاب نہ ہونے دے، اور مجھے ہدایت فرما، اور ہدایت کو میرے لیے آسان کر دے، اور اس شخص کے مقابلہ میں میری مدد فرما جو مجھ پر ظلم کرے، اے اللہ ! مجھے اپنا شکر گزار اور ذکر کرنے والا، ڈرنے والا، اور اپنا مطیع فرماں بردار، رونے اور گڑگڑانے والا، رجوع کرنے والا بندہ بنا لے، اے اللہ میری توبہ قبول فرما، میرے گناہ دھو دے، میری دعا قبول فرما، میرے دل کو صحیح راستے پر لگا، میری زبان کو مضبوط اور درست کر دے، میری دلیل و حجت کو مضبوط فرما، اور میرے دل سے بغض و عناد ختم کر دے ۔ ابوالحسن طنافسی کہتے ہیں کہ میں نے وکیع سے کہا : کیا میں یہ دعا قنوت وتر میں پڑھ لیا کروں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں پڑھ لیا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٠ (١٥١٠، ١٥١١) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٠٣ (٣٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٧) (صحیح )

【5】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ فاطمہ (رض) نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک خادم طلب کرنے کے لیے آئیں، تو آپ نے ان سے فرمایا : میرے پاس تو خادم نہیں ہے جو میں تجھے دوں ، (یہ سن کر) وہ واپس چلی گئیں، اس کے بعد آپ خود ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : جو چیز تم نے طلب کی تھی وہ تمہیں زیادہ پسند ہے یا اس سے بہتر چیز تمہیں بتاؤں ؟ علی (رض) نے فاطمہ (رض) سے کہا : تم کہو کہ نہیں، بلکہ مجھے وہ چیز زیادہ پسند ہے جو خادم سے بہتر ہو، چناچہ فاطمہ (رض) نے یہی کہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہ کہا کرو اللهم رب السموات السبع ورب العرش العظيم ربنا ورب کل شيء منزل التوراة والإنجيل والقرآن العظيم أنت الأول فليس قبلک شيء وأنت الآخر فليس بعدک شيء وأنت الظاهر فليس فوقک شيء وأنت الباطن فليس دونک شيء اقض عنا الدين وأغننا من الفقر اے اللہ ! ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کے رب ! اور ہمارے رب اور ہر چیز کے رب، تورات، انجیل اور قرآن عظیم کو نازل کرنے والے ! تو ہی اول ہے تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، تو ہی آخر ہے، تیرے بعد کوئی چیز نہیں ہوگی، تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں، تو ہی باطن ہے تیرے ورے کوئی چیز نہیں، ہم سے ہمارا قرض ادا کر دے، اور محتاجی دور کر کے ہمیں غنی کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکروالدعاء ١٧ (٢٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١٠٧ (٥٠٥١) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٩ (٣٤٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٤) (صحیح )

【6】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا بیان۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے : اللهم إني أسألک الهدى والتقى والعفاف والغنى اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور دل کی مالدرای چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکروالدعاء ١٨ (٢٧٢١) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣٧ (٣٤٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٣٤، ٤٤٣) (صحیح )

【7】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے : اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وزدني علما والحمد لله على كل حال وأعوذ بالله من عذاب النار اے اللہ ! مجھے اس علم سے فائدہ پہنچا جو تو نے مجھے سکھایا، اور مجھے وہ علم سکھا جو میرے لیے نفع بخش ہو، اور میرے علم میں زیادتی عطا فرما، اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ہے، میں جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٢٩ (٣٥٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٥٦) (صحیح) (آخری فقرہ والحمد للہ ...... کے علاوہ حدیث صحیح ہے، اور یہ مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٢٥١ ، سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【8】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا بیان۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے : اللهم ثبت قلبي على دينك اے اللہ ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ ، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ہم پر خوف کرتے ہیں (ہمارے حال سے کہ ہم پھر گمراہ ہوجائیں گے) ، حالانکہ ہم تو آپ پر ایمان لا چکے، اور ان تعلیمات کی تصدیق کرچکے ہیں جو آپ لے کر آئے، آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک لوگوں کے دل رحمن کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہیں، انہیں وہ الٹتا پلٹتا ہے ، اور اعمش نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٣، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/القد ر ٧ (٢١٤٠) (صحیح) (سند میں یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اور اعمش حدیث کے بڑے امام اور بڑے حافظ تھے، مجسمہ اور مشبہہ میں سے نہ تھے، بلکہ سچے اہل سنت میں سے تھے جو جمہیہ اور معتزلہ کی طرح اللہ کی انگلیوں کی تاویل نہیں کرتے تھے، اور انگلی سے انگلی ہی مراد لیتے ہیں، لیکن رب نہ خود کسی مخلوق کے مشابہ ہے، نہ اس کی کوئی چیز جیسے آنکھ اور ساق (پنڈلی) اور انگلی کے اور اگر کوئی ہم سے سوال کرے کہ اللہ کی انگلی کیسی ہے تو ہم کہیں گے اس کی ذات کیسی ہے اگر اس کا جواب وہ دے تو ہم بھی اس کے سوال کا جواب دیں گے، دوسری روایت میں ابن عباس (رض) سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی چھنگلیا طور پہاڑ پر رکھ دی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی انگلیاں ہیں، اور مجازی معنی مراد نہیں ہے۔

【9】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا بیان۔

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا : تم یہ دعا پڑھا کرو اللهم إني ظلمت نفسي ظلما کثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندک وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم اے اللہ ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کا بخشنے والا صرف تو ہی ہے، تو اپنی عنایت سے میرے گناہ بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو غفور و رحیم (بخشنے والا مہربان) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٩ (٨٣٤) ، الدعوات ١٧ (٦٣٢٦) ، التوحید ٩ (٧٣٨٧، ٧٣٨٨) ، صحیح مسلم/الدعاء ١٣ (٢٧٠٥) ، سنن الترمذی/الدعوات ٩٧ (٣٥٣١) ، سنن النسائی/السہو ٥٩ (١٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٣) (صحیح )

【10】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا بیان۔

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصا (چھڑی) پر ٹیک لگائے ہمارے پاس باہر تشریف لائے، جب ہم نے آپ کو دیکھا تو ہم کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم ایسے کھڑے نہ ہوا کرو جیسے فارس کے لوگ اپنے بڑوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا فرماتے، آپ ﷺ نے دعا فرمائی : اللهم اغفر لنا وارحمنا وارض عنا وتقبل منا وأدخلنا الجنة ونجنا من النار وأصلح لنا شأننا کله اے اللہ ! ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، اور ہم سے راضی ہوجا، ہماری عبادت قبول فرما، ہمیں جنت میں داخل فرما، اور جہنم سے بچا، اور ہمارے سارے کام درست فرما دے ، ابوامامہ (رض) فرماتے ہیں : تو گویا ہماری خواہش ہوئی کہ آپ اور کچھ دعا فرمائیں : تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں نے تمہارے لیے جامع دعا نہیں کردی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٦٥ (٥٢٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٣، ٢٥٦) (ضعیف) (ابو مرزوق لین الحدیث ہیں، اور سند میں کافی اضطراب ہے، لیکن فعل فارس سے ممانعت صحیح مسلم میں جابر (رض) سے ثابت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٤٦ )

【11】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا بیان۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اللهم إني أعوذ بک من الأربع من علم لا ينفع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعا لا يسمع اے اللہ ! میں چار باتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں : اس علم سے جو فائدہ نہ دے، اس دل سے جو اللہ کے سامنے نرم نہ ہو، اس نفس سے جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٤٨) ، سنن النسائی/الاستعاذة ١٧ (٥٤٦٩) ، ٥٥ (٥٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٠، ٣٦٥، ٤٥١) (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ٢٥٠) (صحیح )

【12】

ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پناہ مانگی۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کلمات کے ذریعہ دعا کیا کرتے تھے : اللهم إني أعوذ بک من فتنة النار و عذاب النار ومن فتنة القبر و عذاب القبر ومن شر فتنة الغنى وشر فتنة الفقر ومن شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد ونق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس وباعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم إني أعوذ بک من الکسل والهرم والمأثم والمغرم اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے، اور قبر کے فتنہ اور اس کے عذاب سے، اور مالداری و فقیری کے فتنے کی برائی سے، اور مسیح الدجال کے فتنے کی برائی سے، اے اللہ ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو ڈال، اور میرے دل کو گناہوں سے پاک و صاف کر دے، جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک و صاف کیا ہے، اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری کر دے جس طرح تو نے پورب اور پچھم کے درمیان دوری کی ہے، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سستی، بڑھاپے، گناہ اور قرض سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ : صحیح مسلم/الدعوات ١٤ (٥٨٩) ، تحفة الأشرف : ١٦٩٨٨، وحدیث علی بن محمد قد أخرجہ : صحیح البخاری/ الدعوات ٣٩ (٦٢٧٥) ، صحیح مسلم/الذکر ١٤ (٥٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥٣ (٥٨٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧٧ (٣٤٩٥) ، سنن النسائی/الاستعاذة ١٦ (٥٤٦٨) ، مسند احمد (٦/٥٧، ٢٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس بڑھاپے سے پناہ مانگی جس میں آدمی معذور اور بےعقل ہوجاتا ہے، اور مالداری کے فتنے یہ ہیں : بخل، حرص، زکاۃ نہ دینا، سود کھانا، اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجانا، مستحقوں کی خبر گیری نہ کرنا وغیرہ وغیرہ، فقیری کا فتنہ یہ ہے کہ مال کے لالچ میں دین کو کھو بیٹھنا، کفار اور فساق کی صحبت اختیار کرنا۔

【13】

ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پناہ مانگی۔

فروہ بن نوفل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ کون سی دعا کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : آپ کہتے تھے : اللهم إني أعوذ بک من شر ما عملت ومن شر ما لم أعمل اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ان کاموں کی برائی سے جو میں نے کئے اور ان کاموں کی برائی سے جو میں نے نہیں کئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الدعاء ١٨ (٢٧١٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٥٠) ، سنن النسائی/السہو ٦٣ (١٣٠٨) ، الاستعاذة ٥٧ (٥٥٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ١٠٠، ١٣٩، ٢١٣، ٣٥٧) (صحیح )

【14】

ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پناہ مانگی۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جیسے قرآن کی سورت سکھاتے اسی طرح یہ دعا بھی ہمیں سکھاتے تھے : اللهم إني أعوذ بک من عذاب جهنم وأعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٣٤٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٤٢) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧٠ (٣٤٩٤) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٥ (٢٠٦٥) ، موطا امام مالک/القرآن ٨ (٣٣) ، مسند احمد (١/٢٤٢، ٢٥٨، ٢٩٨، ٣١١) (حسن صحیح )

【15】

ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پناہ مانگی۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو بستر پر موجود نہ پایا تو میں آپ کو ڈھونڈھنے لگی (مکان میں اندھیرا تھا) تو میرا ہاتھ آپ کے قدموں کے تلووں پر جا پڑا، دونوں پاؤں کھڑے تھے اور آپ (حالت سجدہ میں) یہ دعا کر رہے تھے : اللهم إني أعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک اے اللہ ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، اور تیری عافیت کی تیری سزا سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیرے عذاب سے، میں تیری تعریف کما حقہ نہیں کرسکتا، تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٢ (٨٧٩) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢٠ (١٦٩) ، التطبیق ٤٧ (١١٠١) ، ٧١ (١١٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن 8 (13) ، مسند احمد (٦/٥٨، ٢٠١) (صحیح )

【16】

ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پناہ مانگی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ سے فقیری، مال کی کمی، ذلت، ظلم کرنے اور ظلم کئے جانے سے پناہ مانگو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستعاذة ١٤ (٥٤٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٥) (ضعیف) (سند میں محمد بن مصعب صدوق لیکن کثیر الغلط راوی ہیں، اور اسحاق بن عبد اللہ بن أبی فروہ متروک، لیکن فعل رسول ﷺ سے ایسا ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٤٤٥ و صحیح ابی داود : ١٣٨١ )

【17】

ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پناہ مانگی۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ سے اس علم کا سوال کرو جو فائدہ پہنچائے، اور اس علم سے پناہ مانگو جو فائدہ نہ پہنچائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٠٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٥) (حسن )

【18】

ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پناہ مانگی۔

عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بزدلی، بخیلی، ارذل عمر (انتہائی بڑھاپا) ، قبر کے عذاب اور دل کے فتنہ سے پناہ مانگتے تھے۔ وکیع نے کہا : دل کا فتنہ یہ ہے کہ آدمی برے اعتقاد پر مرجائے، اور اللہ تعالیٰ سے اس کے بارے میں توبہ و استغفار نہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٣٩) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٢ (٥٤٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٥٤) (ضعیف) (اس حدیث پر حکم ضعیف أبی داود میں ہے، لیکن یہ حدیث صحیح اور ضعیف ابن ماجہ میں آئی ہی نہیں ہے، اور اسی لئے سنن أبی داود کے دارالمعارف کے نسخہ میں ( ١٥٣٩ ) ، نمبر پر بیاض ہے، محققین مسند أحمد نے اس کو صحیح کہا ہے : ١٤٥ و ٣٨٨ )

【19】

جامع دعائیں۔

طارق (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا (اس وقت کہ جب) ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں جب اپنے رب سے سوال کروں تو کیا کہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہ کہو : اللهم اغفر لي وارحمني وعافني وارزقني اے اللہ ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، اور مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما ، اور آپ نے انگوٹھے کے علاوہ چاروں انگلیاں جمع کر کے فرمایا : یہ چاروں کلمات تمہارے لیے دین اور دنیا دونوں کو اکٹھا کردیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکروالدعاء ١٠ (٢٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٢، ٤/٣٥٣، ٣٥٦، ٣٨٢، ٦/٣٩٤) (صحیح )

【20】

جامع دعائیں۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یہ دعا سکھائی : اللهم إني أسألک من الخير كله عاجله وآجله ما علمت منه وما لم أعلم وأعوذ بک من الشر کله عاجله وآجله ما علمت منه وما لم أعلم اللهم إني أسألک من خير ما سألک عبدک ونبيك وأعوذ بک من شر ما عاذ به عبدک ونبيك اللهم إني أسألک الجنة وما قرب إليها من قول أو عمل وأعوذ بک من النار وما قرب إليها من قول أو عمل وأسألك أن تجعل کل قضاء قضيته لي خيرا اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی ساری بھلائی کی دعا مانگتا ہوں جو مجھ کو معلوم ہے اور جو نہیں معلوم، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے جو مجھ کو معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں، اے اللہ ! میں تجھ سے اس بھلائی کا طالب ہوں جو تیرے بندے اور تیرے نبی نے طلب کی ہے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس برائی سے جس سے تیرے بندے اور تیرے نبی نے پناہ چاہی ہے، اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور اس قول و عمل کا بھی جو جنت سے قریب کر دے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم سے اور اس قول و عمل سے جو جہنم سے قریب کر دے، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ہر وہ حکم جس کا تو نے میرے لیے فیصلہ کیا ہے بہتر کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٤، ١٤٧) (صحیح) (سند میں ام کلثوم کے بارے میں بوصیری نے کلام کیا ہے، جب کہ مسلم نے ان سے روایت کی ہے، اور حدیث کی تصحیح ابن حبان، حاکم، ذہبی اور البانی نے کی ہے، نیز شواہد بھی ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٥٤٢ )

【21】

جامع دعائیں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے پوچھا : تم نماز میں کیا کہتے ہو ؟ اس نے کہا : میں تشہد (التحیات) پڑھتا ہوں، پھر اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے اس کی پناہ مانگتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم میں آپ کی اور معاذ کی گنگناہٹ اچھی طرح سمجھ نہیں پاتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ہم بھی تقریباً ویسے ہی گنگناتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٦٣، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ ﷺ کی اور معاذ (رض) کی گنگناہٹ میں نہیں سمجھتا آواز تو سنتا ہوں لیکن معلوم نہیں ہوتا کہ آپ اور معاذ (رض) کیا دعا مانگتے ہیں۔ ٢ ؎: یعنی مقصود ہماری دعاؤں کا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت نصیب کرے اور جہنم سے بچائے۔ آمین۔

【22】

عفو (درگزر) اور عافیت (تندرستی) کی دعا مانگنا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! کون سی دعا سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کیا کرو ، پھر وہ شخص دوسرے دن حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سی دعا سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کیا کرو ، پھر وہ تیسرے دن بھی حاضر خدمت ہوا، اور عرض کیا : اللہ کے نبی ! کون سی دعا سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفو و عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ جب تمہیں دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت عطا ہوگئی تو تم کامیاب ہوگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٨٥ (٣٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٧) (ضعیف) (سند میں سلمہ بن وردان ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بیشک عافیت میں عام بلاؤں، بیماریوں اور تکالیف سے حفاظت ہوگی، اور معافی میں گناہوں کی بخشش، اب اور کیا چاہتے ہو، یہ دو لفظ ہزاروں لفظوں کو شامل ہیں۔

【23】

عفو (درگزر) اور عافیت (تندرستی) کی دعا مانگنا۔

1 اوسط بن اسماعیل بجلی سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی، تو انہوں نے ابوبکر (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پچھلے سال میری اس جگہ پر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تھے، پھر ابوبکر (رض) نے روتے ہوئے کہا : آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے لیے سچائی کو لازم کرلو کیونکہ سچائی نیکی کی ساتھی ہے، اور یہ دونوں جنت میں ہوں گی، اور تم جھوٹ سے پرہیز کرو کیونکہ جھوٹ برائی کا ساتھی ہے، اور یہ دونوں جہنم میں ہوں گی، اور تم اللہ تعالیٰ سے تندرستی اور عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد صحت و تندرستی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے، تم آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض نہ کرو، قطع رحمی اور ترک تعلقات سے بچو، اور ایک دوسرے سے منہ موڑ کر پیٹھ نہ پھیرو بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٨٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٠٦ (٣٥٥٨) ، مسند احمد (١/٣، ٥، ٧، ٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تمام مسلمانوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آؤ، اور کسی مسلمان کو مت ستاؤ۔

【24】

عفو (درگزر) اور عافیت (تندرستی) کی دعا مانگنا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر مجھے شب قدر مل جائے تو کیا دعا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دعا کرو اللهم إنک عفو تحب العفو فاعف عني اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور معافی و درگزر کو پسند کرتا ہے تو تو مجھ کو معاف فرما دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٨٥ (٣٥١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٧١، ١٨٢، ١٨٣، ٢٠٨) (صحیح )

【25】

عفو (درگزر) اور عافیت (تندرستی) کی دعا مانگنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ جو بھی دعا مانگتا ہے وہ اس دعا سے زیادہ بہتر نہیں ہوسکتی : (وہ دعا یہ ہے) اللهم إني أسألک المعافاة في الدنيا والآخرة اے اللہ میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٤٩) (صحیح )

【26】

جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اپنے آپ سے ابتداء کرے (پہلے اپنے لئے مانگے )

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ ہم پر اور عاد کے بھائی (ہود علیہ السلام) پر رحم فرمائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٩٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٠) (ضعیف) (سند میں زید بن الحباب ہیں، جو سفیان سے احادیث کی روایت میں غلطیاں کرتے ہیں، نیز ابو اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : ٤٨٢٩ ) وضاحت : ١ ؎: ہود (علیہ السلام) قوم عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔

【27】

دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلدی نہ کرے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ جلدی نہ کرے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! جلدی کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ یوں کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی لیکن اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہ کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٢٢ (٦٣٤٠) ، صحیح مسلم/الذکروالدعاء ٢٥ (٢٧٣٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٨٤) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٢ (٣٣٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٢٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٨ (٢٩) ، مسند احمد (٢/٣٩٦، ٤٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسا کہنا مالک کی جناب میں بےادبی ہے، اور مالک کا اختیار ہے جب وہ مناسب سمجھتا ہے اس وقت دعا قبول کرتا ہے، کبھی جلدی، کبھی دیر میں اور کبھی دنیا میں قبول نہیں کرتا، جب بندے کا فائدہ دعا قبول نہ ہونے میں ہوتا ہے تو آخرت کے لئے اس دعا کو اٹھا رکھتا ہے، غرض مالک کی حکمتیں اور اس کے بھید زیادہ وہی جانتا ہے، اور کسی حال میں بندے کو اپنے مالک سے مایوس نہ ہونا چاہیے، کیونکہ سوا اس کے در کے اور کونسا در ہے ؟ اور وہ اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ رحیم وکریم ہے، پس بہتر یہی ہے کہ بندہ سب کام اللہ کی رضا پر چھوڑ دے اور ظاہر میں شرعی احکام کے مطابق دعا کرتا رہے، لیکن اگر دعا قبول نہ ہو تو بھی دل خوش رہے، اور یہ سمجھے کہ اس میں ضرور کوئی حکمت ہوگی، اور ہمارا کچھ فائدہ ہوگا۔

【28】

کوئی شخص یوں نہ کہے کہ اے اللہ اگر آپ چاہیں تو مجھے بخش دیں۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے یقینی طور پر سوال کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی زور زبردستی کرنے والا نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٣١ (٧٤٧٧) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٣ (٢٦٧٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٨٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧٨ (٣٤٩٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٨ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٢٤٣، ٤٥٧، ٤٨٦) (صحیح )

【29】

اسم اعظم

اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ان دو آیات میں ہے وإلهكم إله واحد لا إله إلا هو الرحمن الرحيم تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے (سورۃ البقرہ : ١٦٣ ) اور سورة آل عمران کے شروع میں : الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم الم، اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو حی و قیوم (زندہ اور سب کا نگہبان) ہے ۔ (سورۃ آل عمران : ١ -٢) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٦) ، سنن الترمذی/الدعوات ٦٥ (٣٤٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦١) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ١٤ (٣٤٣٢) (حسن) (سند میں عبید اللہ القداح ضعیف ہیں، نیز شہر بن حوشب میں بھی کلام ہے، ترمذی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، اس کی شاہد ابوامامہ کی حدیث ( ٣٨٥٦؍ أ) ہے، جس سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہوئی، ملاحظہ ہو : ا لصحیحہ : ٧٤٦ ، و صحیح ابی داود : ٥؍ ٢٣٤ )

【30】

اسم اعظم

قاسم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم جس کے ذریعہ اگر دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے تین سورتوں میں ہے : سورة البقرہ، سورة آل عمران اور سورة طہٰ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٢١، ومصباح الزجاجة : ١٣٥١) (حسن) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٤٦ ) وضاحت : ١ ؎: سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں بھی یہی ہے : الله لا إله إلا هو الحي القيوم (سورة آل عمران : 2) اور سورة طہ میں ہے : الله لا إله إلا هو له الأسماء الحسنى (سورة طہ : 8) بعضوں نے کہا : الله لا إله إلا هو الحي القيوم یہی اسم اعظم ہے، بعضوں نے کہا صرف الحي القيوم ہے۔ اس سند سے ابوامامہ سے بھی اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٢١، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٢) (حسن) (غیلان بن انس مقبول ہیں، لیکن ابو یعلی میں عبداللہ بن العلاء نے ان کی متابعت کی ہے، نیز أسماء بنت یزید کی حدیث شاہد ہے، جو ترمذی اور ابوداود میں ہے )

【31】

اسم اعظم

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو یہ کہتے سنا : اللهم إني أسألک بأنك أنت الله الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له کفوا أحد اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو ہی اکیلا اللہ ہے، بےنیاز ہے، جس نے نہ جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے جس کے ذریعہ اگر سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، اور دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٣، ١٤٩٤) ، سنن الترمذی/الدعوات ٦٤ (٣٤٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٩٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (0.635 ٥/٣٤٩، ٣٥٠، ٣٦٠) (صحیح )

【32】

اسم اعظم

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو یہ دعا کرتے سنا، اللهم إني أسألک بأن لک الحمد لا إله إلا أنت وحدک لا شريك لک المنان بديع السموات والأرض ذو الجلال والإکرام اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تیرے ہی لیے حمد ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں، تو بہت احسان کرنے والا ہے، آسمانوں اور زمین کو بغیر مثال کے پیدا کرنے والا ہے، جلال اور عظمت والا ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ سوال کیا جائے تو وہ عطا کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ دعا مانگی جائے تو وہ قبول کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوت ١١٠ (٣٥٤٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٥) ، سنن النسائی/السہو ٥٨ (١٣٠١) ، مسند احمد (٣/١٢٠، ١٥٨، ٢٤٥) (حسن صحیح )

【33】

اسم اعظم

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہے : اللهم إني أسألک باسمک الطاهر الطيب المبارک الأحب إليك الذي إذا دعيت به أجبت وإذا سئلت به أعطيت وإذا استرحمت به رحمت وإذا استفرجت به فرجت اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے اس پاکیزہ، مبارک اچھے نام کے واسطہ سے دعا کرتا ہوں جو تجھے زیادہ پسند ہے کہ جب اس کے ذریعہ تجھ سے دعا کی جاتی ہے، تو تو قبول فرماتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ تجھ سے سوال کیا جاتا ہے تو تو عطا کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ تجھ سے رحم طلب کی جائے تو تو رحم فرماتا ہے، اور جب مصیبت کو دور کرنے کی دعا کی جاتی ہے تو مصیبت اور تنگی کو دور کرتا ہے ، اور ایک روز آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! کیا تم جانتی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا وہ نام بتایا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو وہ اسے قبول کرے گا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بھی وہ نام بتا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! یہ تمہارے لیے مناسب نہیں ، میں یہ سن کر علیحدہ ہوگئی اور کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی، پھر میں نے اٹھ کر آپ کے سر مبارک کو چوما، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! تمہارے لیے مناسب نہیں کہ میں تمہیں بتاؤں، اور تمہارے لیے اس اسم اعظم کے واسطہ سے دنیا کی کوئی چیز طلب کرنی مناسب نہیں، یہ سن کر میں اٹھی، وضو کیا، پھر میں نے دو رکعت نماز پڑھی، اس کے بعد میں نے یہ دعا مانگی : اللهم إني أدعوک الله وأدعوک الرحمن وأدعوک البر الرحيم وأدعوک بأسمائك الحسنى كلها ما علمت منها وما لم أعلم أن تغفر لي وترحمني اے اللہ ! میں تجھ اللہ سے دعا کرتی ہوں، میں تجھ رحمن سے دعا کرتی ہوں، اور میں تجھ محسن و مہربان سے دعا کرتی ہوں اور میں تجھ سے تیرے تمام اسماء حسنیٰ سے دعا کرتی ہوں، جو مجھے معلوم ہوں یا نہ معلوم ہوں، یہ کہ تو مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما ، یہ سن کر آپ ﷺ ہنسے اور فرمایا : اسم اعظم انہی اسماء میں ہے جس کے ذریعہ تم نے دعا مانگی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٧٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٤) (ضعیف) (سند میں ابوشیبہ مجہول راوی ہیں )

【34】

اللہ عزوجل کے اسماء کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نناوے نام ہیں ایک کم سو، جو انہیں یاد (حفظ) کرے ١ ؎ تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٦٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشروط ١٨ (٢٧٣٦) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢ (٢٦٧٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ٨٣ (٣٥٠٦) ، مسند احمد (٢/٤٥٨، ٤٩٩، ٥٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان ناموں کی پوری پوری معرفت حاصل ہو، اور ان میں پائے جانے والے معانی و مفاہیم کے جو تقاضے ہیں ان کے مطابق زندگی گزارے، تو انشاء اللہ وہ جنت کا مستحق ہوگا۔

【35】

اللہ عزوجل کے اسماء کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ایک کم سو، چونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اس لیے طاق کو پسند کرتا ہے جو انہیں یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا، اور وہ ننانوے نام یہ ہیں : الله اسم ذات سب ناموں سے اشرف اور اعلیٰ ، الواحد اکیلا، ایکتا ، الصمد بےنیاز ، الأول پہلا ، الآخر پچھلا ، الظاهر ظاہر ، الباطن باطن ، الخالق پیدا کرنے والا ، البارئ بنانے والا ، المصور صورت بنانے والا ، الملک بادشاہ ، الحق سچا ، السلام سلامتی دینے والا ، المؤمن یقین والا ، المهيمن نگہبان ، العزيز غالب ، الجبار تسلط والا ، المتکبر بڑائی والا ، الرحمن بہت رحم کرنے والا ،الرحيم مہربان ، اللطيف بندوں پر شفقت کرنے والا ، الخبير خبر رکھنے والا ، السميع سننے والا ، البصير دیکھنے والا ،العليم جاننے والا ، العظيم بزرگی والا ، البار بھلائی والا ، المتعال برتر ، الجليل بزرگ ، الجميل خوبصورت ،الحي زندہ ، القيوم قائم رہنے اور قائم رکھنے والا ، القادر قدرت والا ، القاهر قہر والا ، العلي اونچا ، الحکيم حکمت والا ، القريب نزدیک ، المجيب قبول کرنے والا ، الغني تونگر بےنیاز ، الوهاب بہت دینے والا ، الودود بہت چاہنے والا ، الشکور قدر کرنے والا ، الماجد بزرگی والا ، الواجد پانے والا ، الوالي مالک مختار، حکومت کرنے والا ، الراشد خیر والا ، العفو بہت معاف کرنے والا ، الغفور بہت بخشنے والا ، الحليم بردبار ، الكريم کرم والا ، التواب توبہ قبول کرنے والا ، الرب پالنے والا ، المجيد بزرگی والا ، الولي مددگار و محافظ ، الشهيد نگراں، حاضر ، المبين ظاہر کرنے والا ،البرهان دلیل ، الرء وف شفقت والا ، الرحيم مہربان ، المبدئ پہلے پہل پیدا کرنے والا ، المعيد دوبارہ پیدا کرنے والا ،الباعث زندہ کر کے اٹھانے والا ، الوارث وارث ، القوي (قوی) زور آور ، الشديد سخت ، الضار نقصان پہنچانے والا ،النافع نفع دینے والا ، الباقي قائم ، الواقي بچانے والا ، الخافض پست کرنے والا ، الرافع اونچا کرنے والا ، القابض روکنے والا ، الباسط چھوڑ دینے والا، پھیلانے والا ، المعز عزت دینے والا ، المذل ذلت دینے والا ، المقسط منصف ،الرزاق روزی دینے والا ، ذو القوة طاقت والا ، المتين مضبوط ، القائم ہمیشہ رہنے والا ، الدائم ہمیشگی والا ، الحافظ بچانے والا ، الوکيل کارساز ، الفاطر پیدا کرنے والا ، السامع سننے والا ، المعطي دینے والا ، المحيي زندہ کرنے والا ، المميت مارنے والا ، المانع روکنے والا ، الجامع جمع کرنے والا ، الهادي (رہبری ہادی) راہ بنانے والا ، الکافي کفایت کرنے والا ، الأبد ہمیشہ برقرار ، العالم (عالم) جاننے والا ، الصادق سچا ، النور روشن، ظاہر ، المنير روشن کرنے والا ،التام مکمل ، القديم ہمیشہ رہنے والا ، الوتر طاق ، الأحد اکیلا ، الصمد بےنیاز ، الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له کفوا أحد جس نے نہ جنا ہے نہ وہ جنا گیا ہے، اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے ۔ زہیر کہتے ہیں : ہمیں بہت سے اہل علم سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ان ناموں کی ابتداء اس قول سے کی جاتی ہے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد بيده الخير وهو على كل شيء قدير لا إله إلا الله له الأسماء الحسنى اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اسی کے لیے ہر طرح کی تعریف ہے، اسی کے ہاتھ میں خیر ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اسی کے لیے اچھے نام ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٥) (ضعیف) (سند میں عبدالملک بن محمد لین الحدیث ہیں، اور اسماء حسنیٰ کے اس سیاق سے حدیث ضعیف ہے )

【36】

والد اور مظلوم کی دعا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین دعائیں ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں : مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، والد (اور والدہ) کی دعا اپنی اولاد کے حق میں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٤ (١٥٣٦) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٧ (١٩٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٨، ٣٤٨، ٤٧٨، ٥١٧، ٥٢٣) (حسن )

【37】

والد اور مظلوم کی دعا۔

ام حکیم بنت وداع خزاعیہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : والد (اور والدہ) کی دعا حجاب الٰہی (مقام قبولیت) تک پہنچتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣١٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٦) (ضعیف) (سند میں حبابہ، ام حفص، اور صفیہ سب مجہول ہیں )

【38】

دعا میں حد سے بڑھنا منع ہے۔

ابونعامہ (قیس بن عبایہ) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل (رض) نے اپنے بیٹے کو یہ دعا مانگتے سنا : اللهم إني أسألک القصر الأبيض عن يمين الجنة إذا دخلتها اللہ ! جب میں جنت میں جاؤں تو مجھے جنت کی دائیں جانب سفید محل عطا فرما ، تو انہوں نے کہا : میرے بیٹے ! اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : عنقریب کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دعا میں حد سے آگے بڑھ جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٥ (٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٦، ١٨٧، ٥/٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے کراہت نکلی ان پر تکلف اور مسجع اور مقفی دعاؤں کی جو متاخرین نے ایجاد کیں ہیں، اور جاہل ان کے الفاظ پر فریفتہ ہوجاتے ہیں، عمدہ دعائیں وہی ہیں جو رسول اکرم ﷺ سے ثابت ہیں، آپ مختصر اور جامع دعائیں پسند فرماتے تھے۔

【39】

دعا میں ہاتھ اٹھانا۔

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارا رب حی (بڑا باحیاء، شرمیلا) اور کریم ہے، اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو وہ انہیں خالی یا نامراد لوٹا دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٨٨) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٠٥ (٣٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی صالح مومن کی دعا خالی نہیں جاتی، یا تو دنیا ہی میں قبول کرلی جاتی ہے، یا پھر آخرت میں اسے اس کا بہتر بدلہ ملے گا۔

【40】

دعا میں ہاتھ اٹھانا۔

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنے ہاتھ کی اندرونی ہتھیلیوں سے دعا کیا کرو، ان کی پشت اپنی طرف کر کے دعا نہ کرو، پھر جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے منہ پر پھیرو ۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : نمبر : ١١٨١) (ضعیف) (ملاحظہ ہو : الإرواء : ٤٣٤ )

【41】

صبح و شام کی دعا۔

ابوعیاش زرقی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت یہ دعا پڑھے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد و ثنا، وہی ہر چیز پر قادر ہے تو اسے اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے، اور اس کے دس گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں، اور اس کے دس درجے بڑھا دئیے جاتے ہیں، اور وہ شام تک شیطان سے محفوظ رہتا ہے، اور اگر شام کے وقت یہ پڑھے تو وہ صبح تک ایسے ہی رہتا ہے تو ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابوعیاش آپ سے ایسی اور ایسی حدیث بیان کرتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابوعیاش سچ کہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٠ (٥٠٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٦، ٤٢٠) (صحیح )

【42】

صبح و شام کی دعا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب صبح کرو تو یہ کہا کرو، اللهم بك أصبحنا وبک أمسينا وبک نحيى وبک نموت وإذا أمسيتم فقولوا اللهم بك أمسينا وبک أصبحنا وبک نحيى وبک نموت وإليك المصير اے اللہ ہم نے تیرے ہی نام پر صبح کی، اور تیرے ہی نام پر شام کی، اور تیرے ہی نام پر ہم جیتے ہیں، اور تیرے ہی نام پر مریں گے ، اور شام کرو تو یہ کہا کرو، اللهم بك أمسينا وبک أصبحنا وبک نحيى وبک نموت وإليك المصير اے اللہ ! ہم نے تیرے ہی نام پر شام کی، اور تیرے ہی نام پر صبح کی، اور تیرے ہی نام پر جیتے ہیں، تیرے ہی نام پر مریں گے، اور تیری ہی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٠ (٥٠٦٨) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٣ (٣٣٩١) ، مسند احمد (٢/٣٥٤، ٥٢٢) (صحیح )

【43】

صبح و شام کی دعا۔

عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو کوئی بندہ ہر دن صبح اور شام تین بار یہ کہے : بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شيء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم اس اللہ کے نام سے جس کے نام لینے سے زمین اور آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے، وہ سمیع وعلیم (یعنی سننے اور جاننے والا ہے) تو اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ راوی کہتے ہیں : ابان کچھ فالج سے متاثر ہوگئے تو وہ شخص انہیں دیکھنے لگا، ابان نے اس سے کہا : مجھے کیا دیکھتے ہو ؟ سنو ! حدیث ویسے ہی ہے جیسے میں نے تم سے بیان کی، لیکن میں اس دن یہ دعا نہیں پڑھ سکا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر مجھ پر نافذ کر دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٠ (٥٠٨٨، ٥٠٨٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٣ (٣٣٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٦٢، ٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اب یہ اعتراض نہ ہونا چاہیے کہ پھر اس دعا کے پڑھنے سے کیا حاصل، کیونکہ بندے کو یہ علم کہاں ہے کہ قضا مبرم (قطعی) ہے یا معلق، اور احتمال ہے کہ قضائے معلق ہو اس دعا کے پڑھنے پر یعنی اگر یہ دعا پڑھ لے گا تو اس صدمے سے محفوظ رہے گا اور جب دعا پڑھ لے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ تقدیر میں اس آفت کا ٹل جانا دعا کی برکت سے تھا، اور اگر نہ پڑھے اور آفت آجائے تو معلوم ہوا کہ ہماری تقدیر میں یہ مصیبت آنی ضرور لکھی تھی، اب ہم دعا کیسے پڑھ سکتے تھے کیونکہ تقدیر سے بچنا محال ہے۔

【44】

صبح و شام کی دعا۔

خادم رسول ابوسلام (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی مسلمان یا کوئی آدمی یا کوئی بندہ (یہ راوی کا شک ہے کہ کون سا کلمہ ارشاد فرمایا) صبح و شام یہ کہتا ہے : رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد ﷺ کے نبی ہونے سے راضی و خوش ہیں) تو اللہ تعالیٰ پر اس کا یہ حق بن گیا کہ وہ قیامت کے دن اسے خوش کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٠، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٠ (٥٠٧٢) ، مسند احمد (٤/٣٣٧، ٥/٣٦٧) (ضعیف) (سند میں سابق بن ناجیہ مجہول العین اور ابو سلام مجہول ہیں، اور سند میں اضطراب ہے، بعض روایات میں ابوسلام نے خادم النبی ﷺ سے روایت کی ہے، اور یہ مبہم ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٥٠٢٠ )

【45】

صبح و شام کی دعا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح و شام ان دعاؤں کو نہیں چھوڑتے تھے : اللهم إني أسألک العفو والعافية في الدنيا والآخرة اللهم إني أسألک العفو والعافية في ديني ودنياي وأهلي ومالي اللهم استر عوراتي وآمن روعاتي واحفظني من بين يدي ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي وأعوذ بك أن أغتال من تحتي اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین و دنیا اور اپنے اہل و مال میں معافی اور عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ ! میرے عیوب چھپا دے، میرے دل کو مامون کر دے، اور میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں، اور اوپر سے میری حفاظت فرما، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں نیچے سے ہلاک کئے جانے سے ۔ وکیع کہتے ہیں :أغتال من تحتي کے معنی دھنسا دئیے جانے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٠ (٥٠٧٤) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٥٩ (٥٥٣١) ، عمل الیوم واللیلة ١٨١ (٥٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٧٣) وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥) (صحیح )

【46】

صبح و شام کی دعا۔

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدک وأنا على عهدک ووعدک ما استطعت أعوذ بک من شر ما صنعت أبوء بنعمتک وأبوء بذنبي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت اے اللہ ! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، تو نے ہی مجھے پیدا کیا، میں تیرا ہی بندہ ہوں، اپنی طاقت بھر میں تیرے عہد و وعدہ پر قائم ہوں، اپنے کئے ہوئے کے شر سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں، مجھے تیرے احسانات اور اپنے گناہوں کا اعتراف ہے، میری بخشش فرما، بلاشبہ تو ہی گناہوں کو بخشنے والا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی شخص دن اور رات میں یہ دعا پڑھے، اور اسی دن یا اسی رات اس شخص کا انتقال ہوجائے، تو انشاء اللہ وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٠ (٥٠٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٦) (صحیح )

【47】

سونے کے لئے بستر پر آئے تو کیا دعا مانگے ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے : اللهم رب السموات ورب الأرض ورب کل شيء فالق الحب والنوى منزل التوراة والإنجيل والقرآن العظيم أعوذ بک من شر کل دابة أنت آخذ بناصيتها أنت الأول فليس قبلک شيء وأنت الآخر فليس بعدک شيء وأنت الظاهر فليس فوقک شيء وأنت الباطن فليس دونک شيء اقض عني الدين وأغنني من الفقر اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے رب ! ہر چیز کے رب ! دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر پودا نکالنے والے ! توراۃ، انجیل اور قرآن عظیم کو نازل کرنے والے ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں زمین پر رینگنے والی ہر مخلوق کے شر و فساد سے، جس کی پیشانی تیرے ہاتھوں میں ہے، تو ہی سب سے پہلے ہے، تجھ سے پہلے کوئی نہیں تھا، اور تو ہی سب سے آخر ہے تیرے بعد کوئی نہیں، اور تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی نہیں، اور تو ہی باطن ہے تجھ سے ورے کوئی چیز نہیں، میرا قرض ادا کرا دے اور فقر و مسکنت سے مجھے آزاد کرا دے آسودہ حال بنا دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٣٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٣) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠٧ (٥٠٥١) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٩ (٣٤٠٠) ، مسند احمد (٢/٣٨١) (صحیح )

【48】

سونے کے لئے بستر پر آئے تو کیا دعا مانگے ؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو اپنے تہبند کا داخلی کنارہ کھینچ کر اس سے اپنا بستر جھاڑے، اس لیے کہ اسے نہیں پتہ کہ (جانے کے بعد) بستر پر کون سی چیز پڑی ہے، پھر داہنی کروٹ لیٹے اور کہے : رب بک وضعت جنبي وبك أرفعه فإن أمسکت نفسي فارحمها وإن أرسلتها فاحفظها بما حفظت به عبادک الصالحين میرے رب ! میں نے تیرا نام لے کر اپنا پہلو رکھا ہے، اور تیرے ہی نام پر اس کو اٹھاؤں گا، پھر اگر تو میری جان کو روک لے (یعنی اب میں نہ جاگوں اور مرجاؤں) تو اس پر رحم فرما، اور اگر تو چھوڑ دے (اور میں جاگوں) تو اس کی حفاظت فرما ان چیزوں کے ذریعہ جن سے تو نے اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٣ (٦٣٢٠ تعلیقاً ) ، التوحید ١٣ (٧٣٩٣ تعلیقاً ) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الذکروالدعاء ١٧ (٢٧١٤) ، مسند احمد (٢/٢٨٣، ٤٣٢، ٢٩٥) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥١ (٢٧٢٦) (صحیح )

【49】

سونے کے لئے بستر پر آئے تو کیا دعا مانگے ؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونک مارتے، اور معوذتین : قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس پڑھتے، اور انہیں اپنے جسم پر پھیر لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٢ (٦٣١٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢١ (٣٤٠٢) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠٧ (٥٠٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١٦، ١٥٤) (صحیح )

【50】

سونے کے لئے بستر پر آئے تو کیا دعا مانگے ؟

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا : جب تم سونے لگو یا اپنے بستر پر جاؤ تو یہ دعا پڑھا کرو : اللهم أسلمت وجهي إليك وألجأت ظهري إليك وفوضت أمري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك آمنت بکتابک الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت اے اللہ ! میں نے اپنا چہرہ (یعنی نفس) تجھ کو سونپ دیا، اپنی پیٹھ تیرے سہارے پر لگا دی، اور اپنا کام تیرے سپرد کردیا، امیدی ناامیدی کے ساتھ تیری ذات پر بھروسہ کیا، سوائے تیرے سوا کہیں اور کوئی جائے پناہ اور جائے نجات نہیں، میں تیری کتاب پر جسے تو نے نازل کیا، اور تیرے نبی پر جسے تو نے بھیجا ایمان لایا، پھر اگر تمہارا اس رات انتقال ہوگیا تو دین اسلام پر مرو گے، اور اگر تم نے صبح کی تو تم خیر کثیر کے ساتھ صبح کرو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٥٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٥ (٢٤٧) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٦ (٣٣٩٤) ، مسند احمد (٤/ ٢٨٩، ٢٩٨، ٣٠٣) ، سنن الدارمی/ الاستئذان ٥١ (٢٧٢٥) (صحیح )

【51】

سونے کے لئے بستر پر آئے تو کیا دعا مانگے ؟

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار مبارک کے نیچے رکھتے، پھر (یہ دعا) پڑھتے : اللهم قني عذابک يوم تبعث (أو تجمع) عبادک اے اللہ ! مجھ کو تو اپنے اس دن کے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا یا جمع کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٤، ٤٠٠، ٤١٤، ٤٤٣) (صحیح )

【52】

رات میں بیدار ہو تو کیا پڑھے ؟

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو رات میں بیدار ہو اور آنکھ کھلتے ہی یہ دعا پڑھے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شيء قدير سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد و ثنا ہے، وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اللہ ہی سب سے بڑا ہے، طاقت و قوت اللہ بلندو برتر کی توفیق ہی سے ہے پھر یہ دعا پڑھے : رب اغفر لي اے رب مجھ کو بخش دے ، تو وہ بخش دیا جائے گا، ولید کہتے ہیں : یا یوں کہا : اگر وہ دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی، اور اگر اٹھ کر وضو کرے، پھر نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢١ (١١٥٤) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠٨ (٥٠٦٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٦ (٣٤١٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٧٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الاستئذان ٥٣ (٢٧٢٩) (صحیح )

【53】

رات میں بیدار ہو تو کیا پڑھے ؟

ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) خبر دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دروازے کے پاس رات گزارتے تھے اور رات کو بڑی دیر تک آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنتے : سبحان الله رب العالمين پھر فرماتے : سبحان الله وبحمده ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٢ (١٣٢٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧ (٣٤١٦) ، سنن النسائی/التطبیق ٧٩ (١١٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٩، ٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رات کو جب نیند سے بیدار ہو تو جہاں تک ہو سکے کلمہ پڑھ کر دعا کرے، اور استغفار پڑھے، اور تسبیح یا تہلیل میں مشغول رہے، تو اس کو قیام اللیل کا ثواب مل جائے گا، لیکن افضل یہ ہے کہ بستر سے اٹھے اور وضو کر کے تہجد پڑھے، اگر کسی سے تہجد ادا نہ ہو سکے تو کم سے کم یہ ضروری ہے کہ بچھونے پر ہی رہ کر یہ کلمہ جتنی بار ہو سکے پڑھے اور استغفار کرے، اور دعا کرے، قیام اللیل اس قدر بھی ادا ہوجائے گا، اور جان لینا چاہیے کہ سلف صالحین نے قیام اللیل کبھی ترک نہیں کیا، اور وہ ضروری ہے اگرچہ تھوڑا سا ہی ہو یعنی ایک بار یہ کلمہ پڑھ کر دعا کرلے جیسا اس حدیث میں ہے۔

【54】

رات میں بیدار ہو تو کیا پڑھے ؟

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے : الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم کو (نیند کی صورت میں) موت طاری کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا، اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٧ (٦٣١٢) ، التوحید ١٣ (٧٣٩٤) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠٧ (٥٠٤٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٨ (٣٤١٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٤، ٣٨٥، ٣٨٧، ٣٩٧، ٣٩٩، ٤٠٧) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٣ (٢٧٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیے۔

【55】

رات میں بیدار ہو تو کیا پڑھے ؟

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی بندہ رات کو باوضو سوئے، اور پھر رات میں اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کسی چیز کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٠٥ (٥٠٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ٢٣٤، ٢٣٥، ٢٤٤) (صحیح )

【56】

سختی اور مصیبت کے وقت کی دعا۔

اسماء بنت عمیس (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ کلمات سکھائے کہ میں سخت تکلیف کے وقت پڑھا کروں، (وہ کلمات یہ ہیں) الله الله ربي لا أشرک به شيئا اللہ، اللہ ہی میرا رب ہے میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦١ (١٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦) (صحیح )

【57】

سختی اور مصیبت کے وقت کی دعا۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سخت تکلیف کے وقت یہ (دعا) پڑھتے تھے : لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش الکريم اللہ حلیم (برد بار) و کریم (کرم والے) کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، پاکی بیان کرتا ہوں عرش عظیم کے رب اللہ کی، پاکی بیان کرتا ہوں ساتوں آسمان اور عرش کریم کے رب اللہ کی ۔ وکیع کی ایک روایت میں ہے کہ ہر فقرے کے شروع میں ایک ایک بار لا إله إلا الله ہے۔ ١ ؎ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٢٧ (٦٤٥، ٦٣٤٦) ، صحیح مسلم/الذکروالدعاء ٢١ (٢٧٣٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٤٠، (٣٤٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٨، ٢٥٤، ٢٥٨، ٢٥٩، ٢٦٨، ٢٨٠، ٢٨٤، ٣٣٩، ٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی لا إله إلا الله الحليم الكريم لا إله إلا الله سبحان الله رب العرش العظيم لا إله إلا الله سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش الکريم غرض یہ دعا سختی اور مصیبت کے وقت مفید اور مجرب ہے جیسے کوئی ڈر لاحق ہو یا آگ لگ جائے یا پانی میں ڈوبنے لگے یا کسی اور مصیبت میں پھنس جائے۔

【58】

کوئی شخص گھر سے نکلے تو یہ دعا مانگے۔

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے : اللهم إني أعوذ بك أن أضل أو أزل أو أظلم أو أظلم أو أجهل أو يجهل علي اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں راہ بھٹک جاؤں یا پھسل جاؤں، یا کسی پر ظلم کروں، یا کوئی مجھ پر ظلم کرے، یا میں جہالت کروں، یا کوئی مجھ سے جہالت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٢ (٥٠٩٤) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣٥ (٣٤٢٧) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٢٩ (٥٤٨٨) ، ٦٤ (٥٥٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠٦، ٣١٨، ٣٢٢) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ١٣٦ )

【59】

کوئی شخص گھر سے نکلے تو یہ دعا مانگے۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے : بسم الله لا حول ولا قوة إلا بالله التکلان على الله اللہ کے نام سے (میں نکل رہا ہوں) گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت، اللہ تعالیٰ کی مدد اور قوت کے بغیر ممکن نہیں، اللہ ہی پر بھروسہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٥٩) (ضعیف) (عبد اللہ بن حسین بن عطاء ضعیف ہیں )

【60】

کوئی شخص گھر سے نکلے تو یہ دعا مانگے۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنے گھر یا اپنے مکان کے دروازے سے باہر نکلتا ہے، تو اس کے ساتھ دو فرشتے مقرر ہوتے ہیں، جب وہ بسم الله کہتا ہے تو وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : تو نے سیدھی راہ اختیار کی، اور جب وہ آدمی لا حول ولا قوة إلا بالله کہتا ہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں کہ اب تو ہر آفت سے محفوظ ہے اور جب آدمی توکلت على الله کہتا ہے، تو وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں کہ اب تجھے کسی اور کی مدد کی حاجت نہیں، اس کے بعد اس شخص کے دونوں شیطان جو اس کے ساتھ رہتے ہیں وہ اس سے ملتے ہیں تو یہ فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ اب تم اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو جس نے سیدھا راستہ اختیار کیا، تمام آفات و مصائب سے محفوظ ہوگیا، اور اللہ کی مدد کے علاوہ دوسرے کی مدد سے بےنیاز ہوگیا اور ہر ایک آفت و مصیبت سے بچا لیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٦٠) (ضعیف) (ہارون بن ہارون ضعیف ہیں )

【61】

گھر داخل ہوتے وقت کی دعا۔

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جب آدمی گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرتا (یعنی بسم اللہ کہتا) ہے، تو شیطان اپنے لشکر سے کہتا ہے کہ آج یہاں نہ تمہاری رات گزر سکتی ہے (یعنی نہ سونے کی جگہ تم کو مل سکتی ہے) اور نہ تمہیں کھانا مل سکتا ہے، اور جب آدمی گھر میں بغیر اللہ کا ذکر کئے (یعنی بغیر بسم اللہ کہے) داخل ہوتا ہے، تو شیطان (اپنے لشکر سے) کہتا ہے کہ تم نے سونے کی جگہ پا لی، اگر آدمی کھانے کے وقت بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے کھانے اور سونے دونوں کی جگہ پا لی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٣ (٢٠١٨) ، سنن ابی داود/الأطعمة ١٦ (٣٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٦، ٣٨٣) (صحیح )

【62】

سفر کرتے وقت کی دعا

عبداللہ بن سرجس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے تو یہ دعا پڑھتے : (اور عبدالرحیم کی روایت میں ہے کہ آپ پناہ مانگتے تھے) :اللهم إني أعوذ بک من وعثاء السفر وکآبة المنقلب والحور بعد الکور ودعوة المظلوم وسوء المنظر في الأهل والمال اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی صعوبتوں اور مشقتوں سے، واپسی کے غم سے، ترقی کے بعد تنزلی سے، اور مظلوم کی بد دعا سے اور اہل و عیال کے سلسلے میں برا منظر دیکھنے سے ۔ اور ابومعاویہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ سفر سے لوٹتے وقت بھی یہی دعا پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المناسک ٧٥ (١٣٤٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ٤٢ (٣٤٣٩) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٤١ (٥٥٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٢، ٨٣) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٢ (٢٧١٤) (صحیح )

【63】

بادوباراں کا منظر دیکھتے وقت یہ دعا پڑھے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب آسمان کے کسی کنارے سے اٹھتے بادل کو دیکھتے تو جس کام میں مشغول ہوتے اسے چھوڑ دیتے، یہاں تک کہ اگر نماز میں (بھی) ہوتے تو بادل کی طرف چہرہ مبارک کرتے، اور یہ دعا ما نگتے : اللهم إنا نعوذ بک من شر ما أرسل به اے اللہ ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس چیز کے شر سے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے پھر اگر بارش شروع ہوجاتی تو فرماتے : اللهم سيبا نافعا اے اللہ جاری اور فائدہ دینے والا پانی عنایت فرما ، دو یا تین مرتبہ یہی الفاظ دہراتے اور اگر اللہ تعالیٰ بادل ہٹا دیتا اور بارش نہ ہوتی تو آپ ﷺ اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١١٣ (٥٠٩٩) ، سنن النسائی/الاستسقاء ١٥ (١٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٥ (٣٢٠٦) ، تفسیر سورةالأحقاف ٢ (٤٨٢٩) ، الأدب ٦٨ (٥٠٩٩) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ٣ (٨٩٩) ، سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ٤٦ (٣٢٥٧) ، مسند احمد (٦/١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگلی امتوں پر بادل کی شکل میں اللہ کا عذاب آیا تھا، اس لیے نبی اکرم ﷺ جب بادل دیکھتے تو عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے۔

【64】

بادوباراں کا منظر دیکھتے وقت یہ دعا پڑھے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش کو دیکھتے تو فرماتے : اللهم اجعله صيبا هنيئا اے اللہ ! تو اس کو جاری اور بابرکت بنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ٢٣ (١٠٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٠، ١١٩، ١٢٩) (صحیح )

【65】

بادوباراں کا منظر دیکھتے وقت یہ دعا پڑھے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بادل کو دیکھتے تو (تردد و پریشانی کی وجہ سے) آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل جاتا، کبھی اندر تشریف لے جاتے کبھی باہر، کبھی آگے جاتے کبھی پیچھے، پھر جب بارش ہونے لگتی تو آپ کی یہ کیفیت ختم ہوجاتی، عائشہ (رض) نے آپ ﷺ سے آپ کی اس کیفیت کا ذکر کیا جسے انہوں نے دیکھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے عائشہ تجھے کیا معلوم ؟ ہوسکتا ہے یہ وہی ہو جسے دیکھ کر قوم ہود نے کہا تھا : فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا بل هو ما استعجلتم به تو جب ان لوگوں نے بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے : یہ بادل ہے جو ہم پر پانی برسائے گا، (نہیں اس میں پانی نہیں تھا) بلکہ وہ چیز (یعنی عذاب) ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے (سورۃ الاحقاف : ٢٤ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الاستسقاء ٣ (٨٩٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٤٢ (٣٤٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٤٠) (صحیح )

【66】

مصیبت زدہ کو دیکھے تو یہ دعا پڑھے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص اچانک کسی کو بلایا مصیبت میں مبتلا دیکھے تو یہ دعا پڑھے : الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاک به وفضلني على كثير ممن خلق تفضيلا تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے عافیت دی اس چیز سے جس میں تجھ کو مبتلا کیا، اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت بخشی ، تو وہ اس بلا اور مصیبت سے محفوظ رہے گا، چاہے کوئی بھی بلا اور مصیبت ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٣٨ (٣٤٣١) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٨٧، ١٠٥٢٨) (حسن) (خارجہ بن مصعب متروک الحدیث اور ابو یحییٰ عمرو بن دینار ضعیف ہیں، اصل حدیث متابعات و شواہد کی بناء پر حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٦٠٢ ، ٢٧٣٧ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہر قسم کی بلاؤں سے لیکن اگر یہ بلا دینی ہو جیسے کسی کو فسق اور فجور میں دیکھے تو یہ دعا پڑھے تاکہ اس شخص کو نصیحت ہو اور اگر دنیوی بلا ہو، جیسے کوڑھ، جذام وغیرہ تو آہستہ سے پڑھے کہ وہ شخص نہ سنے، اور اس کے دل کو رنج نہ ہو۔