37. فتنوں کا بیان

【1】

لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے ہاتھ روکنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا إله إلا الله نہ کہہ دیں، جب وہ لا إله إلا الله کا اقرار کرلیں (اور شرک سے تائب ہوجائیں) تو انہوں نے اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا، مگر ان کے حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث حفص بن غیاث أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٦٧) ، وحدیث أبي معاویة أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٠٤ (٢٦٤٠) ، سنن الترمذی/الإیمان ١ (٢٦٠٦) ، سنن النسائی/المحاربة ١ (٣٩٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٩) ، الجہاد ١٠٢ (٢٩٤٦) ، المرتدین ٣ (٦٩٢٤) ، الاعتصام ٢ (٧٢٨٤) ، مسند احمد (٢/٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان کے حق کے بدلے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے اس کلمہ کے اقرار کے بعد کوئی ایسا جرم کیا جو قابل حد ہے تو وہ حد اس پر نافذ ہوگی مثلاً چوری کی تو ہاتھ کاٹا جائے گا، زنا کیا تو سو کوڑوں کی یا رجم کی سزا دی جائے گی، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ ٢ ؎: اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کریں گے یا قابل حد جرم کا ارتکاب کریں گے، لیکن اسلامی عدالت اور حکام کے علم میں ان کا جرم نہیں آسکا اور وہ سزا سے بچ گئے، تو ان کا حساب اللہ کے سپرد ہوگا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔

【2】

لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے ہاتھ روکنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں جب تک وہ لا إله إلا الله کا اقرار نہ کرلیں، جب انہوں نے اس کا اقرار کرلیا، تو اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا، مگر ان کے حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، سنن النسائی/الجہاد ١ (٣٠٩٢) ، تحریم الدم ١ (٣٩٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٩٤) (صحیح )

【3】

لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے ہاتھ روکنا

اوس (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ حکایات و واقعات سنا کر ہمیں نصیحت فرما رہے تھے، کہ اتنے میں ایک شخص حاضر ہوا، اور اس نے آپ کے کان میں کچھ باتیں کیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے لے جا کر قتل کر دو ، جب وہ جانے لگا تو آپ ﷺ نے اسے پھر واپس بلایا، اور پوچھا : کیا تم لا إله إلا الله کہتے ہو ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ جاؤ اسے چھوڑ دو ، کیونکہ مجھے لوگوں سے لڑائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ لا إله إلا الله کہیں، جب انہوں نے لا إله إلا الله کہہ دیا تو اب ان کا خون اور مال مجھ پر حرام ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/تحریم ١ (٣٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٨، ومصباح الزجاجة : ١٣٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨) ، سنن الدارمی/السیر ١٠ (٢٤٩٠) (صحیح )

【4】

لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے ہاتھ روکنا

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نافع بن ازرق اور ان کے اصحاب (و تلامیذ) آئے، اور کہنے لگے : عمران ! آپ ہلاک و برباد ہوگئے ! عمران (رض) نے کہا : میں ہلاک نہیں ہوا، انہوں نے کہا : کیوں نہیں، آپ ضرور ہلاک ہوگئے، تو انہوں نے کہا : آخر کس چیز نے مجھے ہلاک کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وقاتلوهم حتى لا تکون فتنة ويكون الدين كله لله کافروں و مشرکوں سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی شرک) باقی نہ رہے، اور دین پورا کا پورا اللہ کا ہوجائے (سورة الأنفال : 39) ، عمران (رض) نے کہا : ہم نے کفار سے اسی طرح لڑائی کی یہاں تک کہ ہم نے ان کو وطن سے باہر نکال دیا، اور دین پورا کا پورا اللہ کا ہوگیا، اگر تم چاہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، ان لوگوں نے کہا : کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ کہا : ہاں، میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، میں آپ کے ساتھ موجود تھا، اور آپ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکین کے مقابلے کے لیے بھیجا تھا، جب ان کی مڈبھیڑ مشرکوں سے ہوئی، تو انہوں نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی، آخر کار مشرکین نے اپنے کندھے ہماری جانب کر دئیے (یعنی ہار کر بھاگ نکلے) ، میرے ایک رشتہ دار نے مشرکین کا تعاقب کر کے ایک مشرک پر نیزے سے حملہ کیا، جب اس کو پکڑ لیا، (اور کافر نے اپنے آپ کو خطرہ میں دیکھا) تو اس نے أشهد أن لا إله إلا الله کہہ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا، لیکن اس نے اسے برچھی سے مار کر قتل کردیا، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں ہلاک اور برباد ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے کیا کیا ؟ ، ایک بار یا دو بار کہا، اس نے آپ ﷺ سے اپنا وہ واقعہ بتایا جو اس نے کیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے اس کا پیٹ کیوں نہیں پھاڑا کہ جان لیتے اس کے دل میں کیا ہے ؟ ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر میں اس کا پیٹ پھاڑ دیتا تو کیا میں جان لیتا کہ اس کے دل میں کیا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے نہ تو اس کی بات قبول کی، اور نہ تمہیں اس کی دلی حالت معلوم تھی ١ ؎۔ عمران (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس کے متعلق خاموش رہے، پھر وہ کچھ ہی دن زندہ رہ کر مرگیا، ہم نے اسے دفن کیا، لیکن صبح کو اس کی لاش قبر کے باہر پڑی تھی، لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ کسی دشمن نے اس کی لاش نکال پھینکی ہے، خیر پھر ہم نے اس کو دفن کیا، اس کے بعد ہم نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس کی قبر کی حفاظت کریں، لیکن پھر صبح اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی، ہم نے سمجھا کہ شاید غلام سو گئے (اور کسی دشمن نے آ کر پھر اس کی لاش نکال کر باہر پھینک دی) ، آخر ہم نے اس کو دفن کیا، اور رات بھر خود پہرا دیا لیکن پھر اس کی لاش صبح کے وقت قبر کے باہر تھی، پھر ہم نے اس کی لاش ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں ڈال دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٨، ومصباح الزجاجة : ١٣٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٨) (حسن) (سند میں سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، نیز علی بن مسہر کے یہاں نابینا ہونے کے بعد غرائب کی روایت ہے، لیکن اگلے طریق سے یہ حسن ہے بوصیری نے اس کی تحسین کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس لئے جب اس نے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان کہا تو اسے چھوڑ دینا تھا۔ ٢ ؎: نافع بن ازرق وغیرہ نے عمران بن حصین (رض) کو مسلمانوں سے لڑنے کا مشورہ دیا، اور یہ سمجھے کہ آیت میں قتال کا حکم فتنہ کے دفع کرنے کے لئے ہے اور عمران بن حصین (رض) نے اس حکم کو چھوڑ دیا ہے، جب عمران بن حصین (رض) نے یہ جواب دیا کہ آیت میں فتنے سے شرک مراد ہے، اور مشرکین سے ہم ہی لوگوں نے لڑائی کی تھی، اور شرک کو مٹایا تھا، اب تم مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہو جو کلمہ گو ہیں ؟ تمہارا حال وہی ہوگا جو اس شخص کا ہوا کہ زمین نے اس کی لاش قبول نہیں کی، اس کو بار بار دفن کرتے تھے، اور زمین اس کو نکال کر قبر سے باہر پھینک دیتی تھی، مسلمان کو قتل کرنے کی یہی سزا ہے، دوسرے ایک صحابی سے منقول ہے کہ مسلمانوں کے آپسی فتنے میں ان کو بھی لڑنے کے لئے کہا گیا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اس واسطے کفار کے خلاف جنگ کی تھی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کا دین ایک ہوجائے اور تم اس لئے لڑتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو۔ اس سند سے بھی عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک سریہ کے ساتھ روانہ کیا تو ایک مسلمان نے ایک مشرک پر حملہ کیا، پھر راوی نے وہی سابقہ قصہ بیان کیا، اور اتنا اضافہ کیا کہ زمین نے اس کو پھینک دیا، اس کی خبر نبی اکرم ﷺ کو دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : زمین تو اس سے بھی بدتر آدمی کو قبول کرلیتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تمہیں یہ دکھائے کہ لا إله إلا الله کی حرمت کس قدر بڑی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٨) ، ومصباح الزجاجة : ١٣٧٥) (حسن) (آخری عمر میں حفص بن غیاث کے حافظہ میں معمولی تبدیلی آگئی تھی، لیکن سابقہ طریق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، بوصیری نے اس کی تحسین کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: جب کافر نے لا إله إلا الله کہہ دیا تو اس کو چھوڑ دینا چاہیے اس شخص نے اس کلمے کا احترام نہیں کیا تو اس کی سزا اللہ تعالیٰ نے تم کو دکھلا دی تاکہ آئندہ تم کو خیال رہے کہ کسی مسلمان کو مت قتل کرو۔

【5】

اہل ایمان کے خون اور مال کی حرمت

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : آگاہ رہو ! تمام دنوں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ دن ہے، آگاہ رہو ! تمام مہینوں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ مہینہ ہے، آگاہ رہو ! شہروں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ شہر ہے، آگاہ رہو ! تمہاری جان، تمہارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں، آگاہ رہو ! کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام نہیں پہنچا دیا ؟ ، لوگوں نے عرض کیا : ہاں، آپ نے پہنچا دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ تو گواہ رہ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٢٢، ومصباح الزجاجة : ١٣٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨٠، ٣٧١) (صحیح )

【6】

اہل ایمان کے خون اور مال کی حرمت

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا، اور آپ ﷺ یہ فرما رہے تھے : تو کتنا عمدہ ہے، تیری خوشبو کتنی اچھی ہے، تو کتنا بڑے رتبہ والا ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، مومن کی حرمت (یعنی مومن کے جان و مال کی حرمت) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے، اس لیے ہمیں مومن کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٧٧) (حسن) (سند میں نصر بن محمد ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٨٩ )

【7】

اہل ایمان کے خون اور مال کی حرمت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٠ (٢٥٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧٧، ٣١١، ٣٦٠) (صحیح )

【8】

اہل ایمان کے خون اور مال کی حرمت

فضالہ بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان اور مال کا خوف اور ڈر نہ ہو، اور مہاجر وہ ہے جو برائیوں اور گناہوں کو ترک کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٣٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٠، ٢١، ٢٢) (صحیح )

【9】

لوٹ مار کی ممانعت

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو علی الاعلان اور کھلم کھلا طور پر لوٹ مار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٠) (ضعیف) لتدلیس ابن جریج وأبی الزبیر

【10】

لوٹ مار کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب زانی زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا، اور جب شرابی شراب پیتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا، اور جب چور چوری کرتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا، جب لوٹ مار کرنے والا لوگوں کی نظروں کے سامنے لوٹ مار کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٠ (٢٧٧٥) ، الأشربة ١ (٥٥٧٨) ، الحدود ١ (٦٧٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٤ (٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ١٦ (٤٦٨٩) ، سنن الترمذی/الإیمان ١١ (٢٦٢٥) ، سنن النسائی/قطع السارق ١ (٤٨٧٤) ، الأشربة ٤٢ (٥٦٦٢، ٥٦٦٣) ، مسند احمد (٢/٢٤٣، ٣١٧، ٣٧٦، ٣٨٦، ٣٨٩) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٣ (٢٠٣٧) ، الأشربة ١١ (٢١٥٢) (صحیح )

【11】

لوٹ مار کی ممانعت

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوٹ مار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٧٠ (٢٥٨١) ، سنن الترمذی/النکاح ٢٩ (١١٢٣) ، سنن النسائی/النکاح ٦٠ (٣٣٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٩، ٤٤١، ٤٤٣، ٤٤٥) (صحیح )

【12】

لوٹ مار کی ممانعت

ثعلبہ بن حکم (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں دشمن کی کچھ بکریاں ملیں تو ہم نے انہیں لوٹ لیا، اور انہیں ذبح کر کے ہانڈیوں میں چڑھا دیا، پھر نبی اکرم ﷺ کا گزر ان ہانڈیوں کے پاس ہوا، تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ الٹ دی جائیں، چناچہ وہ ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : لوٹ مار حلال نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٧١، ومصباح الزجاجة : ١٣٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم عام ہے ہر ایک لوٹ کو شامل ہے معلوم ہوا دین اسلام میں کوئی لوٹ جائز نہیں، اور تہذیب کے بھی خلاف ہے، لوٹ میں کبھی کسی مسلمان کو ایذا و تکلیف پہنچتی ہے اس لئے بانٹ دینا بہتر ہے۔

【13】

مسلمان سے گالی گلوچ فسق اور اس سے قتال کفر ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٦٩) (تحفة الأشراف : ٩٢٤٣، ٩٢٥١، ٩٢٩٩) (صحیح )

【14】

مسلمان سے گالی گلوچ فسق اور اس سے قتال کفر ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٠٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٠) (حسن صحیح) (سند میں ابوہلال الراسبی اور محمد بن الحسن ہیں، اس لئے یہ حسن ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【15】

مسلمان سے گالی گلوچ فسق اور اس سے قتال کفر ہے

سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق، اور اس سے لڑنا کفر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٢٣، ومصباح الزجاجة : ١٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٨) (صحیح )

【16】

رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان کہ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانا شروع کردو

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا : لوگوں کو خاموش کرو پھر فرمایا : تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٣ (١٢١) ، والمغازي ٧٧ (٤٤٠٥) ، الدیات ٢ (٦٨٦٩) ، الفتن ٨ (٧٠٨٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٩ (٦٥) ، سنن النسائی/تحریم الدم ٢٥ (٤١٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٨، ٣٦٣، ٣٦٦) ، سنن الدارمی/ المناسک ٧٦ (١٩٦٢) (صحیح )

【17】

رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان کہ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانا شروع کردو

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم پر افسوس ہے ! یا (تمہارے لیے خرابی ہو ! ) تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ان کی طرح تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٧٧ (٤٤٠٢، ٤٤٠٣) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٦) ، الحدود ٩ (٦٧٨٥) ، الدیات ٢ (٦٨٦٨) ، الفتن ٨ (٧٠٧٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٩ (٦٦) ، سنن ابی داود/السنة ١٦ (٤٦٨٦) ، سنن النسائی/تحریم الدم ٢٥ (٤١٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٥، ٨٧، ١٠٤) (صحیح )

【18】

رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان کہ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانا شروع کردو

صنابح احمسی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا، اور تمہاری کثرت (تعداد) کی وجہ سے میں دوسری امتوں پر فخر کروں گا، تو تم میرے بعد آپس میں ایک دوسرے کو قتل مت کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٩) (صحیح )

【19】

تمام اہل اسلام اللہ تعالیٰ کے ذمے ( پناہ) میں ہیں

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز فجر پڑھی وہ اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان یعنی پناہ میں ہے، اب تمہیں چاہیئے کہ تم اللہ کے ذمہ و عہد کو نہ توڑو، پھر جو ایسے شخص کو قتل کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے بلا کر جہنم میں اوندھا منہ ڈالے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٩١) ، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠) (صحیح) (سند میں سعد بن ابراہیم اور حابس کے درمیان انقطاع ہے، لیکن طبرانی نے صحیح سند سے روایت کی ہے، اس لئے یہ صحیح ہے )

【20】

تمام اہل اسلام اللہ تعالیٰ کے ذمے ( پناہ) میں ہیں

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز فجر پڑھی وہ اللہ تعالیٰ کی امان (پناہ) میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٨، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠) (ضعیف) (حسن بصری نے سمرہ (رض) سے صرف حدیث عقیقہ سنی ہے، اس لئے اس سند میں انقطاع ہے )

【21】

تمام اہل اسلام اللہ تعالیٰ کے ذمے ( پناہ) میں ہیں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن اللہ عزوجل کے نزدیک اس کے بعض فرشتوں سے زیادہ معزز و محترم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٣٦) ، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٥) (ضعیف) (سند میں ابوالمہزم یزید ین سفیان ضعیف ہے )

【22】

تعصب کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی دعوت دے، اور عصبیت کے سبب غضب ناک ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٣ (١٨٤٨) ، سنن النسائی/تحریم الدم ٢٤ (٤١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٦، ٣٠٦، ٤٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جاہلیت کے زمانے میں ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے نفسانیت اور تعصب کے جذبے سے لڑتا اور فخر و غرور اور تکبر اس کو قتل و قتال پر آمادہ کرتے، اور اپنے قبیلہ کی ناموری اور عزت کے لئے جان دیتا اور جان لیتا، پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کے زمانہ میں جو شرعی سبب کے بغیر لڑائی کرے اس کا حکم بھی جاہلیت کا سا ہے، یعنی اس لڑائی میں کچھ ثواب نہیں بلکہ عذاب ہوگا، اور گمراہی کے جھنڈے کا یہی مطلب ہے کہ نہ شرع کے مطابق امام ہو، نہ شرع کے اصول و ضوابط کے لحاظ سے جہاد ہو، بلکہ یوں اپنی قوم کا فخر قائم رکھنے کے لئے کوئی لڑے اور مارا جائے تو ایسے لڑنے والے کو کچھ ثواب نہیں، سبحان اللہ، دین اسلام سے بڑھ کر اور کوئی دین کیسے اچھا ہوسکتا ہے، ہر آدمی کو اپنی قوم عزیز ہوتی ہے، لیکن اسلام میں یہ حکم ہے کہ اپنے قوم کی مدد بھی وہیں تک کرسکتا ہے، جب تک کہ وہ ظالم نہ ہو، اور انصاف اور شرع کے مطابق کاروائی کرے، لیکن جب قوم ظالم ہو اور انسانوں پر ظلم و زیادتی کرے، تو ایسی قوم سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلے، ایمان کا یہی تقاضا ہے، اور جو لوگ عادل و منصف اور متبع شرع ہوں ان کا ساتھ دے، اور انہی کو اپنی قوم اور جماعت سمجھے۔

【23】

تعصب کرنے کا بیان

فسیلہ نامی ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ ظلم پر قوم کی مدد کرنا عصبیت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١٢١ (٥١١٩) مختصراً (ضعیف) (سند میں عباد بن کثیر اور فسیلہ ضعیف ہیں )

【24】

سواد اعظم (کے ساتھ رہنا )

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہوگی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧١٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٧) (ضعیف جدا) (ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہاں پر سواد اعظم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی مناسب ہے کہ زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہوگی، نبی اکرم ﷺ کی جب بعثت ہوئی تو آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے اقلیت ہی میں تھے، اور وہ حق پر تھے، اور حق ان کے ساتھ تھا، یہی حال تمام انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کا رہا ہے کہ وہ وحی کی ہدایت پر چل کر کے اہل حق ہوئے اور ان کے مقابلے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی، خلاصہ یہ کہ صحابہ تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہی سواد اعظم ہیں، چاہے ان کی جماعت قلیل ہو یا کثیر، قلت اور کثرت سے ان کا حق متاثر نہیں ہوگا، اور اہل حق کا یہ گروہ قلت اور کثرت سے قطع نظر ہمیشہ تاقیامت موجود ہوگا، اور حق پر نہ چلنے والوں کی اقلیت یا اکثریت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، انشاء اللہ العزیز۔ اس ضعیف ترین حدیث کے آخری فقرہ : فعليكم بالسواد الأعظم کو دلیل بنا کر ملت اسلامیہ کے جاہل لوگ اور دین سے کوسوں دور والی اکثریت پر فخر کرنے والوں کو صحیح احادیث کی پرکھ کا ذوق ہی نہیں، اسی لیے وہ بےچارے اس آیت کریمہ : من الذين فرقوا دينهم وکانوا شيعا کل حزب بما لديهم فرحون (سورة الروم :32) کے مصداق ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پھوٹ ڈالی (قرآن و سنت والے اصلی اور فطری دین کو چھوڑ کر اپنے الگ الگ دین بنا لیے اور وہ خود کئی گروہ میں بٹ گئے، اور پھر ہر گروہ اپنے جھوٹے اعتقاد پر خوش ہے، پھولا نہیں سماتا، حقیقت میں یہ لوگ اسی آیت کریمہ کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں، جب کہ قرآن کہہ رہا ہے : وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوک عن سبيل الله إن يتبعون إلا الظن وإن هم إلا يخرصون (سورة الأنعام : 116) اے نبی ! آپ اگر ان لوگوں کے کہنے پر چلیں جن کی دنیا میں اکثریت ہے (سواد اعظم والے) تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے، یہ لوگ صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں، اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں) پھر اس سواد اعظم والی منکر اور سخت ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیحین میں موجود معاویہ (رض) والی حدیث قیامت تک کے لیے کس قدر عظیم سچ ہے کہ جس کا انکار کوئی بھی صاحب عقل و عدل مومن عالم نہیں کرسکتا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لايزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لايضرهم من کذبهم ولا من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك میری امت کا ایک گروہ برابر اور ہمیشہ اللہ کے حکم (قرآن و حدیث) پر قائم رہے گا، کوئی ان کو جھٹلائے اور ان کی مدد سے دور رہے، اور ان کے خلاف کرے، ان کا کچھ نقصان نہ ہوگا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آپہنچے اور وہ اسی (قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے والی) حالت میں ہوں گے (صحیح البخاری، کتاب التوحید حدیث نمبر ٧٤٦٠ ) ، صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں : لاتزال طائفة من أمتي قائمة بأمر الله، لايضرهم من خذلهم أو خالفهم، حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس (کتاب الإمارۃ) یہاں اس روایت میں امت کی جگہ طائفہ کا کلمہ آیا ہے، اور طائفہ امت سے کم کی تعداد ظاہر کرتا ہے (بلکہ دوسری روایات میں عصابہ کا لفظ آیا ہے، جس سے مزید تعداد کی کمی کا پتہ چلتا ہے) یعنی کسی زمانہ میں ان اہل حق، کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی تعداد ایک امت کے برابر ہوگی، کسی دور میں کسی جگہ طائفہ کے برابر اور کسی زمانہ میں عصابہ کے برابر۔ اور یہ کہ وهم ظاهرون على الناس اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے سبحان اللہ، نبی آخر الزماں ﷺ کا فرمان کس قدر حق اور سچ ہے، اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل کہ آج بھی صرف قرآن و سنت پر عمل کرنے والے لوگ جو سلف صالحین اور ائمہ کرام و علمائے امت کے اقرب إلی القرآن والسنہ ہر اجتہاد و رائے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں، معاملہ امت اسلامیہ کے اندر کا ہو یا باہر کا، دین حق پر ہونے کے اعتبار سے یہ اللہ کے صالح بندے ہمیشہ سب پر غالب نظر آتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : یہ گروہ اگر اہل حدیث کا نہیں ہے تو میں نہیں جانتا کہ اور کون ہیں ؟ مندرجہ بالاصحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں : اب اہل بدعت و ضلالت کا وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ، پر نبی اکرم ﷺ کا فرمانا خلاف نہیں ہوسکتا، اب بھی ایک فرقہ مسلمانوں کا باقی ہے جو محمدی کے لقب سے مشہور ہے، اور اہل توحید، اہل حدیث اور موحد یہ سب ان کے نام ہیں، یہ فرقہ قرآن اور حدیث پر قائم ہے، اور باوجود صدہا ہزارہا فتنوں کے یہ فرقہ (گروہ اور جماعت) بدعت و گمراہی سے اب بھی بچا ہوا ہے، اور اس زمانہ میں یہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں۔

【25】

ہونے والے فتنوں کا ذکر

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن بہت لمبی نماز پڑھائی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے (یا لوگوں نے) عرض کیا : اللہ کے رسول ! آج تو آپ نے نماز بہت لمبی پڑھائی، آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، آج میں نے رغبت اور خوف والی نماز ادا کی، میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین باتیں طلب کیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو عطا فرما دیں اور ایک قبول نہ فرمائی، میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کیا تھا کہ میری امت پر اغیار میں سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے دیا، دوسری چیز میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کی تھی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی مجھے دیا، تیسری یہ دعا کی تھی کہ میری امت آپس میں جنگ و جدال نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہ فرمائی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٤٠) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٤٠٦ )

【26】

ہونے والے فتنوں کا ذکر

رسول اللہ ﷺ کے غلام ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا، پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی بھی) مجھے دئیے گئے ١ ؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) حکومت وہاں تک ہوگی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا : پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس میں ایک کو دوسرے سے نہ لڑا، تو مجھ سے کہا گیا کہ میں جب کوئی حکم نافذ کردیتا ہوں تو وہ واپس نہیں ہوسکتا، بیشک میں تمہاری امت کو قحط سے ہلاک نہ کروں گا، اور میں زمین کے تمام کناروں سے سارے مخالفین کو (ایک وقت میں) ان پر جمع نہ کروں گا جب تک کہ وہ خود آپس میں اختلاف و لڑائی اور ایک دوسرے کو مٹانے اور قتل نہ کرنے لگیں، لیکن جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف گمراہ سربراہوں کا ہے، عنقریب میری امت کے بعض قبائل بتوں کی پرستش کریں گے، اور عنقریب میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے مل جائیں گے، اور قیامت کے قریب تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہوگا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اور ہمیشہ ان کی مدد ہوتی رہے گی، اور جو کوئی ان کا مخالف ہوگا وہ ان کو کوئی ضرور نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے ٢ ؎۔ ابوالحسن ابن القطان کہتے ہیں : جب ابوعبداللہ (یعنی امام ابن ماجہ) اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا : یہ حدیث کتنی ہولناک ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٣ (١٩٢٠) ، الفتن ٥ (٢٨٨٩) إلی قولہ : بعضھم بعضاً مع فقرة الطائفة المنصورة، سنن ابی داود/الفتن ١ (٤٢٥٢) ، سنن الترمذی/الفتن ١٤ (٢١٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٨، ٢٨٤) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٢ (٢٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے روم و ایران کے خزانے مراد ہیں۔ ٢ ؎: یعنی قیامت قائم ہو، اس حدیث میں آپ ﷺ کا کھلا معجزہ ہے، آپ نے فرمایا : مجھ کو زمین کے پورب اور پچھم دکھلائے گئے اور ایسا ہی ہوا کہ اسلام پورب یعنی ترکستان اور تاتار کی ولایت سے لے کر پچھم یعنی اندلس اور بربر تک جا پہنچا لیکن اتری اور دکھنی علاقوں میں اسلام کا رواج نہیں ہوا۔

【27】

ہونے والے فتنوں کا ذکر

ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا مبارک چہرہ سرخ تھا، اور آپ فرما رہے تھے : لا إله إلا الله عرب کے لیے تباہی ہے اس فتنے سے جو قریب آگیا ہے، آج یاجوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا ہے، آپ ﷺ نے ہاتھ کی انگلیوں سے دس کی گرہ بنائی ١ ؎، زینب (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے ؟ حالانکہ ہم میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، جب معصیت (برائی) عام ہوجائے گی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٦ (٣٣٤٦) ، صحیح مسلم/الفتن ١ (٢٨٨٠) ، سنن الترمذی/الفتن ٢٣ (٢١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٢٨، ٤٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دس کی گرہ یہ ہے کہ شہادت کی انگلی کے سرے کو انگوٹھے کے پہلے موڑپر رکھ کردائرہ بنایا جائے۔ ٢ ؎: تو نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی عذاب آئے گا، یاجوج اور ماجوج دو قومیں ہیں، جو قیامت کے قریب نکلیں گی۔

【28】

ہونے والے فتنوں کا ذکر

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب کئی فتنے ظاہر ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہوگا، اور شام کو کافر ہوجائے گا مگر جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعہ زندہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩١٦، ومصباح الزجاجة : ١٣٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٥٠) (ضعیف جداً ) (سند میں علی بن یزید منکر الحدیث اور متروک ہے، علم کے جملہ کے بغیر اصل متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٦٩٦ )

【29】

ہونے والے فتنوں کا ذکر

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم عمر (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد ہے ؟ حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : مجھ کو یاد ہے، عمر (رض) نے کہا : تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے : وہ (حدیث) کیسے ہے ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر (رض) نے کہا : میری یہ مراد نہیں ہے، بلکہ میری مراد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موج کی طرح امنڈ آئے گا، انہوں نے کہا : امیر المؤمنین ! آپ کو اس فتنے سے کیا سروکار، آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ ہے، تو انہوں نے پوچھا : کیا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا، حذیفہ (رض) نے کہا : نہیں ؛ بلکہ وہ توڑ دیا جائے گا تو عمر (رض) نے کہا : تو پھر وہ کبھی بند ہونے کے قابل نہ رہے گا ١ ؎۔ ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے حذیفہ (رض) سے کہا : کیا عمر (رض) جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے ؟ جواب دیا : ہاں، وہ ایسے ہی جانتے تھے جیسے یہ جانتے ہیں کہ کل سے پہلے رات ہے، میں نے ان سے ایک ایسی حدیث بیان کی تھی جس میں کوئی دھوکا جھوٹ اور مغالطہٰ نہ تھا، پھر ہمیں خوف محسوس ہوا کہ ہم حذیفہ (رض) سے یہ سوال کریں کہ اس دروازے سے کون شخص مراد ہے ؟ پھر ہم نے مسروق سے کہا : تم ان سے پوچھو، انہوں نے پوچھا تو حذیفہ (رض) نے کہا : وہ دروازہ خود عمر (رض) ہیں (جن کی ذات تمام بلاؤں اور فتنوں کی روک تھی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٤ (٥٢٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٥ (١٤٤) ، سنن الترمذی/الفتن ٧١ (٢٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حذیفہ (رض) کا مطلب یہ تھا کہ عمر (رض) شہید کردیئے جائیں گے اور آپ کی شہادت سے فتنوں کا دروازہ ایسا کھلے گا کہ قیامت تک بند نہیں ہوگا، بلاشبہ ایسا ہی ہوا آپ کی رحلت کے بعد طرح طرح کے فتنے رونما ہوئے۔

【30】

ہونے والے فتنوں کا ذکر

عبدالرحمٰن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کے پاس پہنچا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع تھے، تو میں نے ان کو کہتے سنا : اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، آپ نے ایک جگہ قیام کیا، تو ہم میں سے کوئی خیمہ لگا رہا تھا، کوئی تیر چلا رہا تھا، اور کوئی اپنے جانور چرانے لے گیا، اتنے میں ایک منادی نے آواز لگائی کہ لوگو ! نماز کے لیے جمع ہوجاؤ، تو ہم نماز کے لیے جمع ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا، اور فرمایا : مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں ان پر ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی ان باتوں کی طرف رہنمائی کریں جن کو وہ ان کے لیے بہتر جانتے ہوں، اور انہیں ان چیزوں سے ڈرائیں جن کو وہ ان کے لیے بری جانتے ہوں، اور تمہاری اس امت کی سلامتی اس کے شروع حصے میں ہے، اور اس کے اخیر حصے کو بلا و مصیبت لاحق ہوگی، اور ایسے امور ہوں گے جن کو تم برا جانو گے، پھر ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک کے سامنے دوسرا ہلکا محسوس ہوگا، مومن کہے گا : اس فتنے میں میری تباہی ہے، پھر وہ فتنہ ختم ہوجائے گا، اور دوسرا فتنہ آئے گا، مومن کہے گا : اس میں میری تباہی ہے پھر وہ بھی ختم ہوجائے گا، تو جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے تو وہ کوشش کرے کہ اس کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ کریں، اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے، اور اس کو اپنی قسم کا ہاتھ دے کر دل سے سچا عہد کرے تو اب جہاں تک ہو سکے اس کی اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا امام آ کر اس سے لڑنے جھگڑنے لگے (اور اپنے سے بیعت کرنے کو کہے) تو اس دوسرے امام کی گردن مار دے ۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے (یہ سن کر) اپنا سر لوگوں میں سے نکال کر کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں : کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی جانب اشارہ کر کے کہا : میرے کانوں نے اسے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٠ (١٨٤٤) ، سنن ابی داود/الفتن ١ (٤٢٤٨) ، سنن النسائی/البیعة ٢٥ (٤١٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦١، ١٩١، ١٩٣) (صحیح )

【31】

فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہوگا جو عنقریب آنے والا ہے ؟ جس میں لوگ چھانے جائیں گے (اچھے لوگ سب مرجائیں گے) اور خراب لوگ باقی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے) ، ان کے عہد و پیمان اور امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کر کے اس طرح ہوجائیں گے ، پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کردکھائیں، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھوڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات و مسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٧ (٤٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٨ (٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو امر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔ یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اور بری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت، ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔

【32】

فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جس وقت لوگوں پر موت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہوگی ١ ؎، میں نے عرض کیا : جو اللہ اور اس کا رسول میرے لیے پسند فرمائیں (یا یوں کہا : اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : اس وقت تم صبر سے کام لینا ، پھر فرمایا : اس وقت تم کیا کرو گے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتیٰ کہ تم اپنی مسجد میں آؤ گے، پھر تم میں اپنے بستر تک جانے کی قوت نہ ہوگی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہوگی، میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، یا کہا (اللہ اور اس کا رسول جو میرے لیے پسند کرے) آپ ﷺ نے فرمایا : (اس وقت) تم اپنے اوپر پاک دامنی کو لازم کرلینا ، پھر فرمایا : تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں) لوگوں کا قتل عام ہوگا، حتیٰ کہ مدینہ میں ایک پتھریلا مقام حجارة الزيت ٢ ؎ خون میں ڈوب جائے گا ، میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول جو میرے لیے پسند فرمائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو (یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہوجانا) ابوذر (رض) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی تلوار لے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں ؟ ، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم ایسا کرو گے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہوجاؤ گے، تمہیں چاہیئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھر ہی میں پڑے رہو ٣ ؎ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آجائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہوجانا) وہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہارا دونوں کا گناہ اپنے سر لے گا، اور وہ جہنمی ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ١١٩٤٧، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الفتن ٢ (٤٢٦١) ، بدون ذکر الجوع و العفة، مسند احمد (٥/١٤٩، ١٦٣) (صحیح) (ملا حظہ ہو : الإرواء : ٢٤٥١ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک قبر کی جگہ کے لیے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبر کھودنے کے لیے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہوجائیں گے کہ ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔ ٢ ؎: حجارة الزيت مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ٣ ؎: یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔

【33】

فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیان کیا : قیامت سے پہلے ہرج ہوگا ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول !ہرج کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : قتل ، کچھ مسلمانوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم تو اب بھی سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : مشرکین کا قتل مراد نہیں بلکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، اپنے چچا زاد بھائی اور قرابت داروں کو بھی قتل کرے گا ، تو کچھ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس وقت ہم لوگ عقل و ہوش میں ہوں گے کہ نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں سلب کرلی جائیں گی، اور ان کی جگہ ایسے کم تر لوگ لے لیں گے جن کے پاس عقلیں نہیں ہوں گی ۔ پھر ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا : قسم اللہ کی ! میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ زمانہ مجھے اور تم کو پالے، اللہ کی قسم ! اگر ایسا زمانہ مجھ پر اور تم پر آگیا تو ہمارے اور تمہارے لیے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہوگا، جیسا کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں وصیت کی ہے، سوائے اس کے کہ ہم اس سے ویسے ہی نکلیں جیسے داخل ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٣٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩١، ٣٩٢، ٤٠٦، ٤١٤) (صحیح) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٦٨٢ )

【34】

فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔

عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طالب (رض) یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے، اور کہا : ابو مسلم ! ان لوگوں (شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی باندی کو بلایا، اور اسے تلوار لانے کو کہا : وہ تلوار لے کر آئی، ابو مسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی، پھر ابو مسلم نے کہا : میرے خلیل اور تمہارے چچا زاد بھائی (محمد ﷺ ) نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے کہ جب مسلمانوں میں جنگ اور فتنہ برپا ہوجائے تو میں ایک لکڑی کی تلوار بنا لوں ، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے ہمراہ نکلوں، انہوں نے کہا : مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے اور نہ تمہاری تلوار کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٣٣ (٢٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٩، ٦/٣٩٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور ان کو لڑائی سے معاف کردیا، نبی اکرم ﷺ کا یہ حکم کہ لکڑی کی تلوار بنا لو، اس صورت میں ہے جب مسلمانوں میں فتنہ ہو اور حق و صواب معلوم نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خاموش رہے کسی جماعت کے ساتھ نہ ہو۔

【35】

فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے قریب ایسے فتنے ہوں گے جیسے اندھیری رات کے حصے، ان میں آدمی صبح کو مومن ہوگا، تو شام کو کافر ہوگا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر ہوگا، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، اور ان فتنوں میں تم اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا، کمان کے تانت کاٹ ڈالنا، اپنی تلواریں پتھر پر مار کر کند کرلینا، اور اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس جائے تو آدم کے دونوں بیٹوں میں سے نیک بیٹے کی طرح ہوجا نا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفتن ٢ (٤٢٥٩) ، سنن الترمذی/الفتن ٣٣ (٢٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٨، ٤١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جنہوں نے اپنے بھائی قابیل سے کہا : تو مجھے اگر مارے گا تب بھی تجھے نہیں ماروں گا، مطلب آپ کا یہ ہے کہ ان فتنوں میں لڑنا اور مسلمانوں کو مارنا گویا فتنہ کی تائید کرنا ہے، پس گھر میں خاموشی سے بیٹھے رہنا مناسب ہے، اور جس قدر کوئی زیادہ حرکت کرے گا اتنا ہی وہ برا ہے۔

【36】

فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا۔

ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ میں محمد بن مسلمہ (رض) کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہت جلد ایک فتنہ ہوگا، فرقہ بندی ہوگی اور اختلاف ہوگا، جب یہ زمانہ آئے تو تم اپنی تلوار لے کر احد پہاڑ پر آنا، اور اس پر اسے مارنا کہ وہ ٹوٹ جائے، اور پھر اپنے گھر بیٹھ جانا یہاں تک کہ کوئی خطاکار ہاتھ تمہیں قتل کر دے، یا موت آجائے جو تمہارا کام تمام کر دے ۔ محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا : یہ فتنہ آگیا ہے، اور میں نے وہی کیا جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماحہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٣، ٤/٢٢٦) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٣٨٠ )

【37】

جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٣) (صحیح) (سند میں مبارک بن سحیم متروک راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، کما سیاتی )

【38】

جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں، تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے (قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گا) مگر مقتول کا کیا گناہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/تحریم الدم ٢٥ (٤١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٤، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠١، ٤٠٣، ٤١٠، ٤١٨) (صحیح )

【39】

جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں۔

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن (٧٠٨٣ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الفتن ٤ (٢٨٨٨) ، سنن النسائی/تحریم الدم ٢٥ (٤١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ صورت اس وقت ہے جب دونوں ایک ساتھ ہتھیار لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے اٹھیں گے لیکن اگر کوئی شخص ہتھیار لے کر قتل کرنے آئے تو اپنی حفاظت صحیح ہے اور اگر مدافعت میں حملہ کرنے والا مارا جائے تو وہی جہنم میں جائے گا مدافعت کرنے والے کا کوئی قصور نہیں۔

【40】

جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں۔

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برباد اور خراب مقام اس شخص کا ہوگا جس نے اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کے لیے برباد کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٩١، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٥) (ضعیف) (سند میں سوید اور شہر بن حوشب مختلف فیہ راوی ہیں، اور عبدالحکم بن ذکوان مجہول، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٩١٥ )

【41】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک فتنہ ایسا ہوگا جو سارے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اس میں قتل ہونے والے سب جہنمی ہوں گے، اس فتنہ میں زبان تلوار کی کاٹ سے زیادہ موثر ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفتن والملاحم ٣ (٤٢٦٥) ، سنن الترمذی/الفتن ١٦ (٢١٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١١، ٢١٢) (ضعیف) (سند میں لیث بن أبی سلیم اور زیاد ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ایسا نہ ہو زبان سے ناحق بات نکلے اور مفت گنہگار ہو یا فتنے میں شریک سمجھا جائے یا اس کی بات سے فتنہ کو بڑھاوا ملے۔

【42】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم فتنوں سے بچے رہنا کیونکہ اس میں زبان ہلانا تلوار چلانے کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٧٩، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٧) (ضعیف جدا) (سند میں محمد بن الحارث متروک، اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، نیز عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ کا کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے )

【43】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

علقمہ بن وقاص (رض) کہتے ہیں کہ ان کے سامنے سے ایک معزز شخص کا گزر ہوا، تو انہوں نے اس سے عرض کیا : آپ کا مجھ سے (دہرا رشتہ ہے) ایک تو قرابت کا، دوسرے مسلمان ہونے کا، میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ ان امراء کے پاس آتے جاتے اور ان سے حسب منشا باتیں کرتے ہیں، میں نے صحابی رسول بلال بن حارث مزنی (رض) کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بات کا اثر کیا ہوگا، لیکن اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے حق میں قیامت تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہوتی ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا اثر ہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے حق میں اپنی ناراضگی اس دن تک کے لیے لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا ۔ علقمہ (رض) نے کہا : دیکھو افسوس ہے تم پر ! تم کیا کہتے اور کیا بولتے ہو، بلال بن حارث (رض) کی حدیث نے بعض باتوں کے کہنے سے مجھے روک دیا ہے، خاموش ہوجاتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٢٨، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٨) ، وقد أخر جہ : سنن الترمذی/الزہد ١٢ (٢٣١٩) ، موطا امام مالک/الکلام ٢ (٥) ، مسند احمد (٣/٤٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علقمہ (رض) کا مقصد یہ تھا کہ بات کہنے میں احتیاط اور غور لازم ہے، یہ نہیں کہ جو منہ میں آیا کہہ دیا، غیر محتاط لوگوں کی زبان سے اکثر ایسی بات نکل جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوتی ہے، پس وہ ایک بات کی وجہ سے جہنمی ہوجاتا ہے۔

【44】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے، اور وہ اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتا، حالانکہ اس بات کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٥، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٢٣ (٦٤٧٨) ، صحیح مسلم/الزہد والرقاق ٦ (٢٩٨٨) ، سنن الترمذی/الزہد ١٠ (٢٣١٤) ، موطا امام مالک/الکلام ٢ (٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٥٣٣) (صحیح) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، کمافی التخریج )

【45】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٤٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٣١ (٦٠١٨) ، ٨٥ (٦١٣٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٩ (٤٧) ، سنن ابی داود/الأدب ١٣٢ (٥١٥٤) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٠ (٢٥٠٠) ، مسند احمد (٢/٢٦٧، ٢٦٩، ٤٣٣، ٤٦٣) (صحیح )

【46】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں، آپ ﷺ نے فرمایا : کہو : اللہ میرا رب (معبود برحق) ہے اور پھر اس پر قائم رہو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو ہم پر کس بات کا زیادہ ڈر ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا : اس کا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١٣ (٣٨) ، سنن الترمذی/الزہد ٦٠ (٢٤١٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٣، ٤/٣٨٤) ، سنن الدارمی/الرقاق ٤ (٢٧٥٣) (صحیح )

【47】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، ایک دن میں صبح کو آپ سے قریب ہوا، اور ہم چل رہے تھے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے، اور جہنم سے دور رکھے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے، اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان کر دے، تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو ، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے نہ بتاؤں ؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسے ہی مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدھی رات میں آدمی کا نماز (تہجد) ادا کرنا ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت :تتجافى جنوبهم عن المضاجع (سورة السجدة : 16) تلاوت فرمائی یہاں تک کہ جزاء بما کانوا يعملون تک پہنچے، پھر فرمایا : کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں ؟ وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے ، پھر فرمایا : کیا ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں ضرور بتائیے، تو آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا : اسے اپنے قابو میں رکھو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! کیا ہم جو بولتے ہیں اس پر بھی ہماری پکڑ ہوگی ؟ ، آپ ﷺ نے فرمایا : معاذ ! تیری ماں تجھ پر روئے ! لوگ اپنی زبانوں کی کارستانیوں کی وجہ سے ہی اوندھے منہ جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ٧ (٢٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٣١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣١) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ٢٤٦ )

【48】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انسان کی ہر بات کا اس پر وبال ہوگا، اور کسی بات سے فائدہ نہ ہوگا سوائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ٦٢ (٢٤١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٧) (ضعیف) (سند میں ام صالح مجہول الحال ہیں )

【49】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے سوال کیا گیا کہ ہم امراء (حکمرانوں) کے پاس جاتے ہیں، تو وہاں کچھ اور باتیں کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو کچھ اور باتیں کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اس کو نفاق سمجھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٠٩٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ الأحکام ٢٧ (٧١٧٨) ، مسند احمد (٢/١٥) (صحیح )

【50】

فتنہ میں زبان روکے رکھنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جس بات کا تعلق اس سے نہ ہو اسے وہ چھوڑ دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ١١ (٢٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی ٹوہ اور جستجو میں نہ لگے، جو چیز حرام یا مکروہ ہو اس کا چھوڑنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، خواہ اس کا اسلام عمدہ ہو یا نہ ہو لیکن عمدہ اور اچھا مسلمان وہ ہے جو بیکار اور غیر مفید بات کو بھی چھوڑ دے، اگرچہ وہ حرام یا مکروہ نہ ہو یعنی مباح بات ہو لیکن اس کے کرنے میں آخرت کا فائدہ نہ ہو۔

【51】

گوشہ نشینی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے اچھی زندگی والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے اس کی پشت پر اڑ رہا ہو، اور جہاں دشمن کی آواز سنے یا مقابلے کا وقت آئے تو فوراً مقابلہ کے لیے اس جانب رخ کرتا ہو، اور موت یا قتل کی جگہیں تلاش کرتا پھرتا ہو اور وہ آدمی ہے جو اپنی بکریوں کو لے کر تنہا کسی پہاڑ کی چوٹی پر رہتا ہو، یا کسی وادی میں جا بسے، نماز قائم کرتا ہو، زکاۃ دیتا ہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتا ہو حتیٰ کہ اس حالت میں اسے موت آجائے کہ وہ لوگوں کا خیرخواہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٤ (١٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٣) (صحیح )

【52】

گوشہ نشینی۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : لوگوں میں سب سے بہتر اور اچھا کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ آدمی جو اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو ، اس نے پوچھا : پھر کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر وہ آدمی جو کسی گھاٹی میں تنہا اللہ کی عبادت کرتا ہو، اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٢ (٢٧٨٦) ، الرقاق ٣٤ (٦٤٩٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٤ (١٨٨٨) ، سنن ابی داود/الجہاد ٥ (٢٤٨٥) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٤ (١٦٦٠) ، سنن النسائی/الجہاد ٧ (٣١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦، ٣٧، ٥٦، ٨٨) (صحیح )

【53】

گوشہ نشینی۔

حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے ، میں نے عرض کیا : اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کرو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آجائے ا ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٠٦) ، صحیح مسلم/الإمارة ١٣ (١٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے یعنی جنگل میں جا کر عزلت اور گوشہ نشینی اختیار کرنا اور مرنے تک ایک درخت کی جڑ چوسنے پر قناعت کرنا، اور ان سب فرقوں سے الگ رہنا ایسے فتنہ کے زمانے میں جب نہ تو کوئی مسلمانوں کا امام ہو نہ جماعت ہو بہتر اور باعث نجات ہے۔

【54】

گوشہ نشینی۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چوٹیوں یا بارش کے مقامات میں چلا جائے گا، وہ اپنا دین فتنوں سے بچاتا پھر رہا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٢ (١٩) ، بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٠) ، المناقب ٢٥ (٣٦٠٠) ، الرقاق ٣٤ (٤٦٩٥) ، سنن ابی داود/الفتن ١٤ (٤٢٦٧) ، سنن النسائی/الإیمان ٣٠ (٥٠٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستئذان ٦ (١٦) مسند احمد (٣/٦، ٣٠، ٤٣، ٥٧) (صحیح )

【55】

گوشہ نشینی۔

حذیفہ بن الیمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ ان کے دروازوں پر جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، لہٰذا اس وقت تمہارے لیے کسی درخت کی جڑ چبا کر جان دے دینا بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ تم ان بلانے والوں میں سے کسی کی پیروی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ٣٣٧٢) (صحیح )

【56】

گوشہ نشینی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٨٣ (٦١٣٣) ، صحیح مسلم/الزہد ١٢ (٢٩٩٨) ، سنن ابی داود/الأدب ٣٤ (٤٨٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٠٥) ، وقد أخرجہ : حم ٢/ (٣٧٩) سنن الدارمی/الرقاق ٦٥ (٢٨٢٣) (صحیح )

【57】

گوشہ نشینی۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٨١١، ومصباح الزجاجة : ١٣٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوعزہ حجمی نامی شاعر مسلمانوں کی ہجو کرتا تھا، بدر کے موقع پر قیدی ہوا اور آئندہ ہجو نہ کرنے کا عہدکر کے اس نے آزادی حاصل کرلی، مکہ مکرمہ جا کر اس نے دوبارہ مسلمانوں کے خلاف شاعری شروع کردی پھر وہ غزوہ احد میں دوبارہ قید ہوا، اور اپنی تنگدستی کا بہانہ بنا کر دوبارہ آزادی طلب کی تو اس موقع پر آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔

【58】

مشتبہ امور سے رک جانا۔

شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر (رض) کو منبر پر یہ کہتے سنا، اور انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑگیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑجائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے، خبردار ! ، ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں، آگاہ رہو ! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب تک وہ صحیح رہتا ہے تو پورا جسم صحیح رہتا ہے، اور جب وہ بگڑ جاتا ہے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، آگاہ رہو ! ، وہ دل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٩ (٥٢) ، البیوع ٢ (٢٠٥١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٠ (١٥٩٩) ، سنن ابی داود/البیوع ٣ (٣٣٢٩، ٣٣٣٠) ، سنن الترمذی/البیوع ١ (١٢٠٥) ، سنن النسائی/البیوع ٢ (٤٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧٥) ، سنن الدارمی/البیوع ١ (٢٥٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بڑی اہم بات ہے جس پر اسلام کے اکثر احکام کا دارومدار ہے، مشتبہ کاموں سے ہمیشہ بچے رہنا ہی تقویٰ اور صلاح کا طریقہ ہے، عمر (رض) نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے سود کا بیان کھول کر نہیں کیا تو سود سے بچو اور جس چیز میں سود کا شک ہو اس سے بچو اور دوسری حدیث میں ہے کہ جس کام میں تم کو شک ہو اس کو چھوڑ دو تاکہ تم شک میں نہ پڑو، اور آپ نے سودہ (رض) کو عبد بن زمعہ سے پردہ کا حکم دیا حالانکہ اس کا نسب زمعہ سے ثابت کیا کیونکہ اس میں عتبہ کے نطفہ ہونے کا شبہ تھا اور عقبہ بن حارث نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے دولہا اور دلہن دونوں کو دودھ پلایا ہے حالانکہ وہ دونوں اس کو نہیں جانتے تھے نہ ان کے گھر والے پھر اس کا ذکر آپ ﷺ سے کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا کیا علاج ہے کہ ایسا کہا گیا یعنی گو کامل شہادت سے دودھ پلانا ثابت نہیں ہوا مگر کہا تو گیا تو شبہ ہوا غرض عقبہ (رض) کو عورت چھوڑ دینے کا اشارہ کیا۔

【59】

مشتبہ امور سے رک جانا۔

معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فتنوں (کے ایام) میں عبادت کرنا ایسے ہی ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٦ (٢٩٤٨) ، سنن الترمذی/الفتن ٣١ (٢٢٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥، ٢٧، ٣٧) (صحیح )

【60】

ابتداء میں اسلام بیگانہ تھا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب پھر اجنبی ہوجائے گا، تو ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٦٥ (١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٧) (صحیح )

【61】

ابتداء میں اسلام بیگانہ تھا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، اور عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٠١) (حسن صحیح) (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【62】

ابتداء میں اسلام بیگانہ تھا۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے، آپ سے سوال کیا گیا : غرباء کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ ہیں جو اپنے قبیلے سے نکال دئیے گئے ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ١٣ (٢٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٥١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٨) ، سنن الدارمی/الرقاق ٤٢ (٢٧٩٧) (صحیح) قال قيل ومن الغرباء قال النزاع من القبائل کا ٹکڑا یعنی غرباء کی تعریف ضعیف ہے، تراجع الألبانی : رقم : ١٧٥ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مسافر، پردیسی جن کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہو، شروع میں اسلام ایسے ہی لوگوں نے اختیار کیا تھا جیسے بلال، صہیب، سلمان، مقداد، ابوذر رضی اللہ عنہم وغیرہ اور قریشی مہاجر بھی اجنبی ہوگئے تھے اس لئے کہ قریش نے ان کو مکہ سے نکال دیا تھا، تو وہ مدینہ میں اجنبی تھے۔

【63】

فتنوں سے سلامتی کی امید کس کے متعلق کی جاسکتی ہے۔

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مسجد نبوی کی جانب گئے، تو وہاں معاذ بن جبل (رض) کو دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ کی قبر کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں، انہوں نے معاذ (رض) سے رونے کا سبب پوچھا، تو معاذ (رض) نے کہا : مجھے ایک ایسی بات رلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی، میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا : معمولی ریاکاری بھی شرک ہے، بیشک جس نے اللہ کے کسی دوست سے دشمنی کی، تو اس نے اللہ سے اعلان جنگ کیا، اللہ تعالیٰ ان نیک، گم نام متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اگر غائب ہوجائیں تو کوئی انہیں تلاش نہیں کرتا، اور اگر وہ حاضر ہوجائیں تو لوگ انہیں کھانے کے لیے نہیں بلاتے، اور نہ انہیں پہچانتے ہیں، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، ایسے لوگ ہر گرد آلود تاریک فتنے سے نکل جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٠٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٢) (ضعیف) (سند میں عیسیٰ بن عبد الرحمن ضعیف و متروک راوی ہیں )

【64】

فتنوں سے سلامتی کی امید کس کے متعلق کی جاسکتی ہے۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کے مانند ہے، جن میں سے ایک بھی سواری کے لائق نہیں پاؤ گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣٥ (٦٤٩٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٦٠ (٢٥٤٧) ، سنن الترمذی/الأمثال ٧ (٢٨٧٢) ، مسند احمد (٢/٧٠، ١٢٣، ١٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سواری میں استعمال ہونے والا جانور نرم مزاج اور سیدھا ہوتا ہے، لیکن عملاً کمیاب، ایسے سیکڑوں آدمیوں میں سے کوئی کوئی ہوتا ہے، جو دوستی اور تعلقات کو استوار کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اکثر لوگوں میں مختلف انداز کی کمیاں پائی جاتی ہیں، کامل و مکمل اور بھر پور شخصیت والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں، امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب الرقاق کے باب رفع الامانہ میں اسی لئے ذکر کیا ہے کہ اخیر امت میں لوگ اس باب میں بھی کمیاب ہوں گے۔

【65】

امتوں کا فرقوں میں بٹ جانا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود اکہتر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ١ (٤٥٩٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ١٨ (٢٦٤٠) ، مسند احمد (٢/٣٣٢) (حسن صحیح) (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے )

【66】

امتوں کا فرقوں میں بٹ جانا۔

عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود اکہتر ( ٧١ ) فرقوں میں بٹ گئے جن میں سے ایک جنت میں جائے گا اور ستر ( ٧٠ ) جہنم میں، نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے جن میں سے اکہتر ( ٧١ ) جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! میری امت تہتر ( ٧٣ ) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا، اور بہتر ( ٧٢ ) فر قے جہنم میں ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! وہ کون ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : الجماعة۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠٨، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٣) (صحیح) (عباد بن یوسف کندی مقبول راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اہل سنت والجماعت جنہوں نے حدیث اور قرآن کو نہیں چھوڑا اس وجہ سے اہل سنت ہوئے، اور جماعت المسلمین کے ساتھ رہے تھے۔

【67】

امتوں کا فرقوں میں بٹ جانا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سوائے ایک کے سب جہنمی ہوں گے، اور وہ الجماعة ہے، (وہ جماعت جو میری اور میرے صحابہ کی روش اور طریقے پر ہو) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣١٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس نے مسلمانوں کی جماعت اور امام وقت کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہر زمانہ میں امام اور خلیفہ وقت کے ساتھ رہے، یہ مضمون اہل سنت والجماعت کے علاوہ کسی اور فرقہ اور جماعت پر صادق نہیں آتا، اس لیے معلوم ہوا کہ اہل سنت والجماعت ہی ناجی جماعت ہے۔

【68】

امتوں کا فرقوں میں بٹ جانا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے اگر وہ ہاتھ پھیلانے کے مقدار چلے ہوں گے ١ ؎، تو تم بھی وہی مقدار چلو گے، اور اگر وہ ایک ہاتھ چلے ہوں گے تو تم بھی ایک ہاتھ چلو گے، اور اگر وہ ایک بالشت چلے ہوں گے تو تم بھی ایک بالشت چلو گے، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا وہ یہود اور نصاریٰ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تب اور کون ہوسکتے ہیں ؟ ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥١٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاعتصام ١٤ (٧٣١٩) ، مسند احمد (٢/٤٥٠، ٥٢٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قدم بہ قد م، باع: کہتے ہیں دونوں ہاتھ کی لمبائی کو، ذراع: ایک ہاتھ اور شبر ایک بالشت۔ ٢ ؎: یہود اور نصاریٰ نے یہ کیا تھا کہ تورات اور انجیل کو چھوڑ کر اپنے مولویوں اور درویشوں کی پیروی میں غرق ہوگئے تھے، اور اسی کو دین و ایمان جانتے تھے، مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا کہ قرآن و حدیث کا پڑھنا پڑھانا اور ان پر عمل کرنا اور کرانا بالکل چھوڑ دیا، اور قرآن و حدیث کی جگہ دوسرے ملاؤں کی کتابیں ایسی رائج اور مشہور ہوگئیں کہ بکثرت مسلمان انہی کتابوں پر چلنے لگے الا ماشاء اللہ، ایک طائفہ قلیلہ اہل حدیث کا (شکر اللہ سعیم) کہ ہر زمانہ میں وہ قرآن و حدیث پر قائم رہا۔ ، فاسد آراء اور باطل قیاس کی طرف انہوں نے کبھی التفات نہیں کیا، جاہل و بےدین اور بدعت و شرک میں مبتلا سادہ لوح مسلمانوں نے اس گروہ سے دشمنی کی، اعداء اسلام نے بھی دشمنی میں کوئی کسر نہیں باقی رکھی، لیکن ان سب کی دشمنی اور عداوت سے ان اہل حق کو کبھی نقصان نہ ہوسکا، اور یہ فرقہ حقہ قیامت تک اپنے دلائل حقہ کے ساتھ غالب اور قائم رہے گا، اس کے دلائل وبراہین کا کسی کے پاس جواب نہیں ہوگا۔

【69】

مال کا فتنہ۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا : اللہ کی قسم، لوگو ! مجھے تمہارے متعلق کسی بات کا خوف نہیں، ہاں صرف اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیاوی مال و دولت سے نوازے گا ، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا خیر (مال و دولت) سے شر پیدا ہوتا ہے ؟ یہ سن کر آپ ﷺ خاموش ہوگئے، پھر قدرے سکوت کے بعد فرمایا : تم نے کیسے کہا تھا ؟ میں نے عرض کیا : کیا خیر (یعنی مال و دولت کی زیادتی) سے شر پیدا ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : خیر سے تو خیر ہی پیدا ہوتا ہے، اور کیا وہ مال خیر ہے ؟ ہر وہ سبزہ جسے موسم بہار اگاتا ہے، جانور کا پیٹ پھلا کر بدہضمی سے مار ڈالتا ہے، یا مرنے کے قریب کردیتا ہے، مگر اس جانور کو جو گھاس کھائے یہاں تک کہ جب پیٹ پھول کر اس کے دونوں پہلو تن جائیں تو دھوپ میں چل پھر کر، پاخانہ پیشاب کرے، اور جگالی کر کے ہضم کرلے، اور واپس آ کر پھر کھائے، تو اسی طرح جو شخص مال کو جائز طریقے سے حاصل کرے گا، تو اس کے مال میں برکت ہوگی، اور جو اسے ناجائز طور پر حاصل کرے گا، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کھاتا رہے اور آسودہ نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤١ (١٠٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٨ (٩٢١) ، الزکاة ٤٧ (١٤٦٥) ، الجہاد ٣٧ (٢٨٤٢) ، الرقاق ٧ (٦٤٢٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٨١ (٢٥٨٢) ، مسند احمد (٣/٧، ٩١) (صحیح )

【70】

مال کا فتنہ۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم پر فارس اور روم کے خزانے کھول دئیے جائیں گے، تو اس وقت تم کون لوگ ہو گے (تم کیا کہو گے) ؟ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے عرض کیا : ہم وہی کہیں گے (اور کریں گے) جو اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہو گے ؟ تم مال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش کرو گے، اور ایک دوسرے سے حسد کرو گے، پھر ایک دوسرے سے منہ موڑو گے، اور ایک دوسرے سے بغض و نفرت رکھو گے یا ایسا ہی کچھ آپ ﷺ نے پھر فرمایا : اس کے بعد مسکین مہاجرین کے پاس جاؤ گے، پھر ان کا بوجھ ان ہی پر رکھو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٤٨) (صحیح )

【71】

مال کا فتنہ۔

عمرو بن عوف (رض) جو بنو عامر بن لوی کے حلیف تھے اور جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بحرین کا جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، آپ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی، اور ان پر علاء بن حضرمی (رض) کو امیر مقرر کیا تھا، ابوعبیدہ (ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ) بحرین سے مال لے کر آئے، اور جب انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو سب نماز فجر میں آئے، اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب آپ نماز پڑھ کر لوٹے، تو راستے میں یہ لوگ آپ کے سامنے آگئے، آپ انہیں دیکھ کر مسکرائے، پھر فرمایا : میں سمجھتا ہوں کہ تم لوگوں نے یہ سنا کہ ابوعبیدہ بحرین سے کچھ مال لائے ہیں ، انہوں نے عرض کیا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم لوگ خوش ہوجاؤ، اور امید رکھو اس چیز کی جو تم کو خوش کر دے گی، اللہ کی قسم ! میں تم پر فقر اور مفلسی سے نہیں ڈرتا، لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا تم پر اسی طرح کشادہ نہ کردی جائے جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر کردی گئی تھی، تو تم بھی اسی طرح سبقت کرنے لگو جیسے ان لوگوں نے کی تھی، پھر تم بھی اسی طرح ہلاک ہوجاؤ جس طرح وہ ہلاک ہوگئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ١ (٣١٥٨) ، صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٦١) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٢٨ (٢٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٧، ٣٢٧) (صحیح )

【72】

عورتوں کا فتنہ۔

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ اور مضر کوئی فتنہ نہیں پاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٦ (٥٠٩٦) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٦ (٢٧٤١) ، سنن الترمذی/الأدب ٣١ (٢٧٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ٢٠٠، ٢١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عورتوں کی وجہ سے اکثر خرابی پیدا ہوگی یعنی لوگ ان کی وجہ سے بہت سارے کام خلاف شرع کریں گے۔

【73】

عورتوں کا فتنہ۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر صبح دو فرشتے یہ پکارتے ہیں : مردوں کے لیے عورتوں کی وجہ سے بربادی ہے، اور عورتوں کے لیے مردوں کی وجہ سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٨٨، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٦) (ضعیف جدا) (سند میں خارجہ بن مصعب متروک و کذاب راوی ہے )

【74】

عورتوں کا فتنہ۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کھڑے ہوئے، تو اس خطبہ میں یہ بھی فرمایا : دنیا ہری بھری اور میٹھی ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنانے والا ہے، تو وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ سنو ! تم دنیا سے بھی بچاؤ کرو، اور عورتوں سے بھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٢٦ (٢١٩١) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٦ (٢٧٤٢) دون قیامہ خطیباً (صحیح) (سند میں علی بن زید ضعیف ہے لیکن شواہد و متابعات کی بناء پر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: ان دونوں چیزوں سے بقدر ضرورت ہی دلچسپی رکھو، نیز اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کے موافق مسلمانوں کو بہت دنیا دی اور مشرق اور مغرب کا ان کو حکمراں بنایا، اور مدت دراز تک ان کی حکومت قائم رہی، جب انہوں نے بھی اگلے لوگوں کی طرح بےاعتدالی، ظلم اور کجروی اختیار کی تو پھر ان سے چھین لی، آج کل نصاریٰ کی بہار ہے، ان کو تمام دنیا کی حکومت اور دولت مل رہی ہے اب دیکھنا ہے کہ ان کی میعاد کب تک ہے۔

【75】

عورتوں کا فتنہ۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں قبیلہ مزینہ کی ایک عورت مسجد میں بنی ٹھنی اتراتی ہوئی داخل ہوئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! اپنی عورتوں کو زیب و زینت کا لباس پہن کر اور ناز و ادا کے ساتھ مسجد میں آنے سے منع کرو، کیونکہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اس وقت آئی تھی جبکہ ان کی عورتوں نے لباس فاخرہ پہننے شروع کئے، اور مسجدوں میں ناز و ادا کے ساتھ داخل ہونے لگیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٧) (ضعیف) (موسیٰ بن عبیدہ ضعیف اور داود بن مدرک مجہول الحال راوی ہے )

【76】

عورتوں کا فتنہ۔

ابورہم کے عبید نامی غلام کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) کا سامنا ایک ایسی عورت سے ہوا جو خوشبو لگائے مسجد جا رہی تھی، تو انہوں نے کہا : اللہ کی بندی ! کہاں جا رہی ہو ؟ اس نے جواب دیا : مسجد، ابوہریرہ (رض) نے کہا : کیا تم نے اسی کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں، انہوں نے کہا : بیشک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو عورت خوشبو لگا کر مسجد جائے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ غسل کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ٧ (٤١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٦، ٢٩٧، ٣٦٥، ٤٤٤، ٤٦١) (حسن صحیح )

【77】

عورتوں کا فتنہ۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ و خیرات کرو، کثرت سے استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں تم عورتوں کو زیادہ دیکھا ہے ، ان میں سے ایک سمجھ دار عورت نے سوال کیا : اللہ کے رسول ہمارے جہنم میں زیادہ ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لعنت و ملامت زیادہ کرتی ہو، اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، میں نے باوجود اس کے کہ تم ناقص العقل اور ناقص الدین ہو، تم سے زیادہ مرد کی عقل کو مغلوب اور پسپا کردینے والا کسی کو نہیں دیکھا ، اس عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہماری عقل اور دین کا نقصان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری عقل کی کمی (و نقصان) تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے، اور دین کی کمی یہ ہے کہ تم کئی دن ایسے گزارتی ہو کہ اس میں نہ نماز پڑھ سکتی ہو، اور نہ رمضان کے روزے رکھ سکتی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٤ (٧٩) ، سنن ابی داود/السنة ١٦ (٤٦٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٦) (صحیح )

【78】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : تم بھلی بات کا حکم دو ، اور بری بات سے منع کرو، اس سے پہلے کہ تم دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٤٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥٩) (حسن) (سند میں عمر بن عثمان مستور، اور عاصم بن عمر مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، نیز ابن حبان نے تصحیح کی ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی : رقم : ٣٨٣ )

【79】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد فرمایا : لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو : يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم اے ایمان والو ! اپنے آپ کی فکر کرو، اور تمہیں دوسرے شخص کی گمراہی ضرر نہ دے گی، جب تم ہدایت پر ہو (سورة المائدة : 105) ۔ اور بیشک ہم نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب لوگ کوئی بری بات دیکھیں اور اس کو دفع نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عام عذاب نازل کر دے ۔ ابواسامہ نے دوسری بار کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٧ (٤٣٣٨) ، سنن الترمذی/الفتن ٨ (٢١٦٨) ، تفسیر القرآن سورة المائدة ١٨ (٣٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٦١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢، ٥، ٧، ٩) (صحیح )

【80】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

ابوعبیدہ (عامر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل میں جب خرابیاں پیدا ہوئیں، تو ان کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنے بھائی کو گناہ کرتے دیکھتا تو اسے روکتا، لیکن دوسرے دن پھر اس کے ساتھ کھاتا پیتا اور مل جل کر رہتا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مردہ کردیا، اور آپس کی محبت ختم کردی، اور ان ہی لوگوں کے بارے میں قرآن اترا، چناچہ آپ ﷺ نے لعن الذين کفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم کی تلاوت کی یہاں تک کہ آپ ولو کانوا يؤمنون بالله والنبي وما أنزل إليه ما اتخذوهم أولياء ولکن كثيرا منهم فاسقون (سورۃ المائدہ : ٧٨ -٨١) تک پہنچے۔ (جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم (علیہم السلام) کی زبانی لعنت کی گئی، کیونکہ وہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کرتے تھے، وہ جس برائی کے خود مرتکب ہوتے اس سے لوگوں کو بھی نہیں روکتے تھے، بہت ہی برا کرتے تھے، تو ان میں سے اکثر کو دیکھ رہا ہے کہ وہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں یہ وطیرہ انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی برا اختیار کیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اللہ ان پر سخت ناراض ہے، اور آخرت میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیش کے عذاب میں رہیں گے، اور اگر یہ اللہ پر اور نبی پر اور جو اس کی طرف اترا ہے اس پر ایمان لاتے تو ان کافروں کو دوست نہ بناتے، لیکن بہت سے ان میں فاسق (بدکار اور بےراہ) ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر آپ بیٹھ گئے اور فرمایا : تم اس وقت تک عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے جب تک کہ تم ظالم کو ظلم کرتے دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے انصاف کرنے پر مجبور نہ کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٧ (٤٣٣٦، ٤٣٣٧) ، سنن الترمذی/التفسیر ٦ (٣٠٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٣٩١) (ضعیف) (سند میں ابوعبیدہ کثیر الغلط راوی ہیں، اور حدیث کو مرسل روایت کیا ہے، یعنی اپنے اور رسول اکرم ﷺ کے مابین کا واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، اس لئے ارسال کی وجہ سے بھی یہ حدیث ضعیف ہے ) اس سند سے عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انطر ماقبلة، تحفة الأشراف : ٩٦١٤) (ضعیف )

【81】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو جو باتیں کہیں، ان میں یہ بات بھی تھی : آگاہ رہو ! کسی شخص کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے، جب وہ حق کو جانتا ہو ، یہ حدیث بیان کر کے ابو سعید خدری (رض) رونے لگے اور فرمایا : اللہ کی قسم ! ہم نے بہت سی باتیں (خلاف شرع) دیکھیں، لیکن ہم ڈر اور ہیبت کا شکار ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٢٦ (٢١٩١) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧، ١٩، ٦١، ٧٠) (صحیح )

【82】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ جانے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے کوئی اپنے آپ کو کیسے حقیر جانتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص کوئی بات ہوتے دیکھے اور اس کے بارے میں اسے اللہ کا حکم معلوم ہو لیکن نہ کہے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے فرمائے گا : تجھے فلاں بات کہنے سے کس نے منع کیا تھا ؟ وہ جواب دے گا : لوگوں کے خوف نے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تیرے لیے زیادہ درست بات یہ تھی کہ تو مجھ سے ڈرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٣، ومصباح الزجاجة : ١٤٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠، ٤٧، ٧٣) (ضعیف) (سند میں اعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )

【83】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس قوم میں گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے، اور ان میں ایسے زور آور لوگ ہوں جو انہیں روک سکتے ہوں لیکن وہ نہ روکیں، تو اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گرفتار کرلیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦١، ٣٦٣، ٣٦٤، ٣٦٦) (حسن )

【84】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب سمندر کے مہاجرین (یعنی مہاجرین حبشہ) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ مجھ سے وہ عجیب باتیں کیوں نہیں بیان کرتے جو تم نے ملک حبشہ میں دیکھی ہیں ؟ ، ان میں سے ایک نوجوان نے عرض کیا : کیوں نہیں، اللہ کے رسول ! اسی دوران کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے، ان راہباؤں میں سے ایک بوڑھی راہبہ ہمارے سامنے سر پر پانی کا مٹکا لیے ہوئے ایک حبشی نوجوان کے قریب سے ہو کر گزری، تو اس حبشی نوجوان نے اپنا ایک ہاتھ اس بڑھیا کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ کر اس کو دھکا دیا جس کے باعث وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی، اور اس کا مٹکا ٹوٹ گیا، جب وہ اٹھی تو اس حبشی نوجوان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگی : غدار ! (دھوکا باز) عنقریب تجھے پتہ چل جائے گا جب اللہ تعالیٰ کرسی رکھے ہوگا، اور اگلے پچھلے سارے لوگوں کو جمع کرے گا، اور ہاتھ پاؤں ہر اس کام کی گواہی دیں گے جو انہوں نے کیے ہیں، تو کل اس کے پاس تجھے اپنا اور میرا فیصلہ معلوم ہوجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ یہ واقعہ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے : اس بڑھیا نے سچ کہا، اس بڑھیا نے سچ کہا، اللہ تعالیٰ اس امت کو گناہوں سے کیسے پاک فرمائے گا، جس میں کمزور کا بدلہ طاقتور سے نہ لیا جاسکے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٧٧٩، ومصباح الزجاجة : ١٤١٠) (حسن) (سند کو بوصیری نے حسن کہا ہے )

【85】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر جہاد، ظالم حکمران کے سامنے حق و انصاف کی بات کہنی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٧ (٤٣٤٤) ، سنن الترمذی/الفتن ١٣ (٢١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٣٤) (صحیح )

【86】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ جمرہ اولیٰ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا جہاد سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ خاموش رہے، پھر جب آپ ﷺ نے دوسرے جمرہ کی رمی کی تو اس نے پھر آپ سے یہی سوال کیا، آپ ﷺ خاموش رہے، پھر جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، تو سوار ہونے کے لیے آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا اور فرمایا : سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ ، اس نے عرض کیا : میں حاضر ہوں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : (سب سے بہتر جہاد) ظالم حکمران کے سامنے حق و انصاف کی بات کہنی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٨، ومصباح الزجاجة : ١٤١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥١، ٢٥٦) (حسن صحیح) (یہ اسناد حسن ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے )

【87】

نیک کام کروانا اور براکام چھڑوانا۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز عید سے پہلے خطبہ شروع کردیا، تو ایک شخص نے کہا : مروان ! آپ نے سنت کے خلاف کیا، ایک تو آپ نے اس دن منبر نکالا حالانکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا، پھر آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا، حالانکہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا، ابو سعید خدری (رض) نے کہا : اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کردیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : تم میں سے جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے، تو اگر اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اس کو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے معمولی درجہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٠ (٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٨ (١١٤٠) ، الملاحم ١٧ (٤٣٤٠) ، سنن الترمذی/الفتن ١١ (٢١٧٢) ، سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ ١٧ (٥٠١١، ٥٠١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩، ١٠، ٤٩، ٥٢، ٥٤، ٩٢) (صحیح )

【88】

اللہ تعالیٰ کا ارشاد اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔ کی تفسیر۔

ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں ابوثعلبہ خشنی (رض) کے پاس آیا، اور میں نے ان سے پوچھا کہ اس آیت کریمہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے پوچھا : کون سی آیت ؟ میں نے عرض کیا : يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم اے ایمان والو ! اپنے آپ کی فکر کرو، جب تم ہدایت یاب ہو گے تو دوسروں کی گمراہی تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گی (سورة المائدة : 105) انہوں نے کہا : تم نے ایک جان کار شخص سے اس کے متعلق سوال کیا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا : تو آپ ﷺ نے فرمایا : بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم دو ، اور بری باتوں سے روکو یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ بخیل کی اطاعت کی جاتی ہے، خواہشات کے پیچھے چلا جاتا ہے، اور دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے، ہر صاحب رائے اپنی رائے اور عقل پر نازاں ہے اور تمہیں ایسے کام ہوتے نظر آئیں جنہیں روکنے کی تم میں طاقت نہ ہو تو ایسے وقت میں تم خاص اپنے آپ سے کام رکھو۔ تمہارے پیچھے ایسے دن بھی آئیں گے کہ ان میں صبر کرنا مشکل ہوجائے گا، اور اس وقت دین پر صبر کرنا اتنا مشکل ہوجائے گا جتنا کہ انگارے کو ہاتھ میں پکڑنا، اس زمانہ میں عمل کرنے والے کو اتنا ثواب ملے گا، جتنا اس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کو ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٧ (٤٣٤١) ، سنن الترمذی/التفسیر ٦ (٣٠٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨١) (ضعیف) (سند میں عمرو بن جاریہ، اور ابو امیہ شعبانی دونوں ضعیف ہیں، لیکن أيام الصبر کا فقرہ ثابت ہے )

【89】

اللہ تعالیٰ کا ارشاد اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔ کی تفسیر۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو کس وقت ترک کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس وقت جب تم میں وہ باتیں ظاہر ہوجائیں جو گذشتہ امتوں میں ظاہر ہوئی تھیں ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم سے گذشتہ امتوں میں کون سی باتیں ظاہر ہوئی تھیں ؟ ، آپ ﷺ نے فرمایا : حکومت تمہارے کم عمروں میں چلی جائے گی، اور تمہارے بڑے آدمیوں میں فحش کاری آجائے گی، اور علم تمہارے ذلیل لوگوں میں چلا جائے ۔ زید کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے اس قول : والعلم في رذالتکم کا مطلب یہ ہے کہ علم (دین) فاسقوں میں چلا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٤، ومصباح الزجاجة : ١٤١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨٧) (ضعیف) (سند ضعیف ہے اس لئے کہ مکحول مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )

【90】

اللہ تعالیٰ کا ارشاد اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔ کی تفسیر۔

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو رسوا و ذلیل کرے ، لوگوں نے عرض کیا : اپنے آپ کو کیسے رسوا و ذلیل کرے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایسی مصیبت کا سامنا کرے گا، جس کی اس میں طاقت نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٦٧ (٢٢٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٠٥) (حسن) (سند میں علی بن زید جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن طبرانی میں ابن عمر (رض) کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٦١٣ )

【91】

اللہ تعالیٰ کا ارشاد اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔ کی تفسیر۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندے سے سوال کرے گا یہاں تک کہ وہ پو چھے گا کہ تم نے جب خلاف شرع کام ہوتے دیکھا تو اسے منع کیوں نہ کیا ؟ تو جب اس سے کوئی جواب نہ بن سکے گا تو اللہ تعالیٰ خود اس کو جواب سکھائے گا اور وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں نے تیرے رحم کی امید رکھی، اور لوگوں کا خوف کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٩٥، ومصباح الزجاجة : ١٤١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٧، ٢٩، ٧٧) (صحیح )

【92】

سزاؤں کا بیان

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے، لیکن اسے پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا، اس کے بعد آپ ﷺ نے آیت : وكذلك أخذ ربک إذا أخذ القرى وهي ظالمة تمہارے رب کی پکڑ ایسی ہی ہے جب وہ کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے (سورة الهود : 102) ، کی تلاوت کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ١٢ (٤٦٨٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٨٣) ، سنن الترمذی/التفسیر ١٢ (٣١١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٧) (صحیح )

【93】

سزاؤں کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : مہاجرین کی جماعت ! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں) پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٣٢، ومصباح الزجاجة : ١٤١٤) (حسن) (سند میں خالد بن یزید ابن أبی مالک الفقیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حسن ہے، حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، اور یہ کہ یہ قابل عمل ہے )

【94】

سزاؤں کا بیان

ابو مالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے، اور اس کا نام کچھ اور رکھیں گے، ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے، اور گانے والی عورتیں گائیں گی، تو اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا، اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأشربة ٦ (٣٦٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٢) (صحیح )

【95】

سزاؤں کا بیان

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کریمہ : يلعنهم الله ويلعنهم اللاعنون یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں (سورة البقرة : 159) ، کی تفسیر میں فرمایا : اللاعنون سے زمین کے چوپائے مراد ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٠، ومصباح الزجاجة : ١٤١٥) (ضعیف) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف راوی ہیں )

【96】

سزاؤں کا بیان

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے، اور تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق سے محروم ہوجاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٣، ومصباح الزجاجة : ١٤١٦) (حسن) (یہ حدیث حسن ہے، آخری فقرہ : وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يصيبه ضعیف ہے، ضعف کا سبب عبداللہ بن أبی الجعد کا تفرد ہے، وہ مقبول عند المتابعہ ہیں، اور متابعت نہ ہونے کی وجہ سے یہ فقرہ ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎: چاہے جتنا کوشش اور محنت کرے، لیکن اس کو فراغت اور مالداری حاصل نہیں ہوتی، کبھی اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی اولاد پر بھی کئی پشت تک اثر رہتا ہے، اللہ بچائے، بعضوں نے کہا : عمر بڑھنے سے یہی مراد ہے کہ اچھی شہرت ہوجاتی ہے گویا وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہے، یا روزی بڑھنا کیونکہ عمر پیدا ہوتے ہی معین ہوجاتی ہے، گھٹ بڑھ نہیں سکتی۔

【97】

مصیبت پر صبر کرنا۔

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے زیادہ مصیبت اور آزمائش کا شکار کون ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت اور پختہ ہے تو آزمائش بھی سخت ہوگی، اور اگر دین میں نرم اور ڈھیلا ہے تو مصیبت بھی اسی انداز سے نرم ہوگی، مصیبتوں سے بندے کے گناہوں کا کفارہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بندہ روے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ٥٦ (٢٣٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٢، ١٧٣، ١٨٠، ١٨٥) ، سنن الدارمی/الرقاق ٦٧ (٢٨٢٥) (حسن صحیح )

【98】

مصیبت پر صبر کرنا۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو بخار آ رہا تھا، میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو آپ کے بخار کی گرمی مجھے اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اوپر سے محسوس ہوئی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو بہت ہی سخت بخار ہے ! آپ ﷺ نے فرمایا : ہمارا یہی حال ہے ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی (سخت) آتی ہے، اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کن لوگوں پر زیادہ سخت مصیبت آتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء پر ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! پھر کن پر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر نیک لوگوں پر، بعض نیک لوگ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دئیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک چوغہ کے سوا جسے وہ اپنے اوپر لپیٹتے رہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا، اور بعض آزمائش سے اس قدر خوش ہوتے ہیں جتنا تم میں سے کوئی مال و دولت ملنے پر خوش ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٤١٧) (صحیح )

【99】

مصیبت پر صبر کرنا۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپ ﷺ انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے ایک نبی کی حکایت بیان کر رہے تھے جن کو ان کی قوم نے مارا پیٹا تھا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے : اے میرے رب ! میری قوم کی مغفرت فرما، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٧) ، صحیح مسلم/الجہاد ٣٦ (١٧٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٥٦، ٤٥٧، ٣٨٠، ٤٢٧، ٤٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خود آپ ﷺ نے جنگ احد میں جب کافروں کے ہاتھ سے پتھر کھائے، چہرہ مبارک زخمی ہوا، دانت شہید ہوا، خون بہہ رہا تھا، لوگوں نے عرض کیا کہ اب تو کافروں کے لئے بددعا فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ میری قوم کو ہدایت دے، یہ دین کو نہیں جانتے ہیں ۔

【100】

مصیبت پر صبر کرنا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے حقدار ہیں ١ ؎ جب انہوں نے کہا : اے میرے رب تو مجھ کو دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ تو اللہ نے فرمایا : کیا تجھے یقین نہیں ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں (لیکن یہ سوال اس لیے ہے) کہ میرے دل کو اطمینان حاصل ہوجائے، اور اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) پر رحم کرے، وہ زور آور شخص کی پناہ ڈھونڈھتے تھے، اگر میں اتنے دنوں تک قید میں رہا ہوتا جتنے عرصہ یوسف (علیہ السلام) رہے، تو جس وقت بلانے والا آیا تھا میں اسی وقت اس کے ساتھ ہو لیتا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١١ (٣٣٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٩ (١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٥، ١٥٣١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مفہوم یہ ہے کہ اگر ہم کو شک نہیں ہوا تو بھلا ابراہیم (علیہ السلام) کو کیوں کر شک ہوسکتا ہے، انہوں نے تو عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے یہ سوال کیا تھا کہ مردے کو زندہ کرنا انہیں دکھا دیا جائے۔ ٢ ؎: یہ تعریف ہے یوسف (علیہ السلام) کے صبر اور استقلال کی، اتنی لمبی قید پر بھی انہوں نے رہائی کے لئے جلدی نہیں کی۔

【101】

مصیبت پر صبر کرنا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب رسول اللہ ﷺ کے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک دانت ٹوٹ گیا، اور سر زخمی ہوگیا، تو خون آپ کے چہرہ مبارک پر بہنے لگا، آپ ﷺ خون کو اپنے چہرہ سے پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے : وہ قوم کیسے کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا ہو، حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ليس لک من الأمر شيء اے نبی ! آپ کو اس معاملے میں کچھ اختیار نہیں ہے (سورة آل عمران : 128) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشراف : ٧٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجہاد ٣٦ (١٧٩١) ، سنن الترمذی/التفسیر ٤ (٣٠٠٣) ، مسند احمد (٣/١١٣) (صحیح )

【102】

مصیبت پر صبر کرنا۔

انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اس وقت آپ غمگین بیٹھے ہوئے تھے، اور لہولہان تھے، اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے آپ کو خشت زنی کر کے لہولہان کردیا تھا، انہوں نے کہا : آپ کو کیا ہوگیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے ، جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا : آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو کوئی نشانی دکھاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں دکھائیے ، پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے وادی کے پیچھے ایک درخت کی طرف دیکھا، اور کہا : آپ اس درخت کو بلائیے، تو آپ ﷺ نے اسے آواز دی، وہ آ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا، پھر انہوں نے کہا : آپ اس سے کہیے کہ وہ واپس جائے، آپ ﷺ نے اسے واپس جانے کو کہا، تو وہ اپنی جگہ چلا گیا، (یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے لیے یہ نشانی (معجزہ) ہی کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف (٩٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٤١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٣) ، سنن الدارمی/المقدمة ٤ (٢٣) (صحیح )

【103】

مصیبت پر صبر کرنا۔

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمام مسلمانوں کی تعداد شمار کر کے مجھے بتاؤ ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ ہم پر (اب بھی دشمن کی طرف سے) خطرہ محسوس کرتے ہیں، جب کہ اب ہماری تعداد چھ اور سات سو کے درمیان ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ نہیں جانتے شاید کہ تم آزمائے جاؤ ۔ حذیفہ (رض) کہتے ہیں : تو واقعی ہم آزمائے گئے، یہاں تک کہ ہم میں سے اگر کوئی نماز بھی پڑھتا تو چھپ کر پڑھتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٨١ (٣٠٦٠، ٣٠٦١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٧ (١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٤) (صحیح )

【104】

مصیبت پر صبر کرنا۔

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کی رات ایک خوشبو محسوس کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل ! یہ کیسی خوشبو ہے ؟ ، انہوں نے کہا : یہ اس عورت کی قبر کی خوشبو ہے جو فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتی تھی، اور اس کے دونوں بیٹوں اور شوہر کے قبر کی خوشبو ہے، (جنہیں ایمان لانے کی وجہ سے فرعون نے قتل کردیا تھا) اور ان کے قصے کی ابتداء اس طرح ہے کہ خضر بنی اسرائیل کے شریف لوگوں میں تھے، ان کا گزر ایک (راہب) درویش کے عبادت خانے سے ہوتا تو وہ عابد راہب اوپر سے ان کو جھانکتا، اور ان کو اسلام کی تعلیم دیتا، آخر کار جب خضر جوان ہوئے تو ان کے والد نے ایک عورت سے ان کا نکاح کردیا، خضر نے اس عورت کو اسلام کی تعلیم دی، اور اس سے عہد لے لیا کہ اس بات سے کسی کو باخبر مت کرنا، خضر عورتوں کے قریب نہیں جاتے تھے، آخر انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی، اس کے بعد ان کے والد نے ان کا نکاح دوسری عورت سے کردیا، خضر نے اس سے بھی نہ بتانے کا عہد لے کر اسے دین کی تعلیم دی، لیکن ان میں سے ایک عورت نے اس راز کو چھپالیا، اور دوسری نے ظاہر کردیا (کہ یہ دین کی تعلیم اسے خضر نے سکھائی ہے، فرعون نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا یہ سنتے ہی) وہ فرار ہو کر سمندر کے ایک جزیرہ میں چھپ گئے، وہاں دو شخص لکڑیاں چننے کے لیے آئے، اور ان دونوں نے خضر کو دیکھا، ان میں سے بھی ایک نے تو ان کا حال پوشیدہ رکھا، اور دوسرے نے ظاہر کردیا اور کہا : میں نے خضر کو فلاں جزیرے میں دیکھا ہے، لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے ساتھ اور کسی شخص نے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا : فلاں شخص نے بھی دیکھا ہے، جب اس شخص سے سوال کیا گیا تو اس نے چھپایا، اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ جو جھوٹ بولے، اسے قتل کردیا جائے، الغرض اس شخص نے اس عورت سے نکاح کرلیا، جس نے اپنا دین چھپایا تھا، (اور خضر کا نام نہیں بتایا تھا) ، اسی دوران کہ یہ عورت فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کر رہی تھی، اتنے میں اس کے ہاتھ سے کنگھی گر پڑی اور اس کی زبان سے بےاختیار نکل گیا کہ فرعون تباہ و برباد ہو (اپنی بےدینی کی وجہ سے) بیٹی نے یہ کلمہ اس کی زبان سے سن کر اسے اپنے باپ کو بتادیا، اور اس عورت کے دو بیٹے تھے، اور ایک شوہر تھا، فرعون نے ان سبھوں کو بلا بھیجا، اور عورت اور اس کے شوہر کو دین اسلام چھوڑ کر اپنے دین میں آنے کے لیے پھسلایا، ان دونوں نے انکار کیا، تو اس نے کہا : میں تم دونوں کو قتل کر دوں گا، ان دونوں نے جواب دیا : اگر تم ہمیں قتل کرنا چاہتے ہو تو ہم پر اتنا احسان کرنا کہ ہمیں ایک ہی قبر میں دفن کردینا، چناچہ فرعون نے ایسا ہی کیا، جب نبی اکرم ﷺ نے اسراء کی رات میں خوشبو محسوس کی، تو آپ ﷺ نے جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ انہیں لوگوں کی قبر ہے (جس سے یہ خوشبو آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٠) (ضعیف) (یہ سند ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں )

【105】

مصیبت پر صبر کرنا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا ثواب ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے، پھر جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے، اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہوجاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ٥٦ (٢٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٩) (حسن )

【106】

مصیبت پر صبر کرنا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ مومن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے، تو اس کا ثواب اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٥ (٢٥٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلکہ عزلت اور تنہائی میں بسر کرتا ہے، یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو میل جول کو تنہائی اور گوشہ نشینی سے بہتر جانتے ہیں، بشرطیکہ میل جول کے آداب اور تقاضے کے مطابق زندگی گزارتا ہو، یعنی جمعہ، جماعت، عیدین اور جنازے میں حاضر ہو اور بیمار کی عیادت کرے اور لوگوں کو ایذا نہ دے۔

【107】

مصیبت پر صبر کرنا۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا ذائقہ پائے گا، (بندار کی روایت میں ہے کہ وہ ایمان کی حلاوت (مٹھاس) پائے گا) ایک وہ شخص جو کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہو، دوسرے وہ جسے اللہ اور اس کا رسول دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، تیسرے وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دی، اس کے بعد اسے آگ میں ڈالا جانا تو پسند ہو، لیکن کفر کی طرف پلٹ جانا پسند نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٩ (١٦) ، ١٤ (٢١) ، الأدب ٤٢ (٦٠٤١) ، الإکراہ ١ (٦٩٤١) ، صحیح مسلم/الایمان ١٥ (٤٣) ، سنن النسائی/الایمان ٣ (٤٩٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الإیمان ١٠ (٢٦٢٤) ، مسند احمد (٣/١٠٣، ١١٤، ١٧٢، ١٧٤، ٢٣٠، ٢٤٨، ٢٧٥، ٢٨٨) (صحیح )

【108】

مصیبت پر صبر کرنا۔

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھ کو وصیت کی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا اگرچہ تم ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاؤ، اور جلا دئیے جاؤ، اور فرض نماز کو جان بوجھ کر مت چھوڑنا، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر اسے چھوڑا تو اس پر سے اللہ کی پناہ اٹھ گئی، اور تم شراب مت پینا، کیونکہ شراب تمام برائیوں کی کنجی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٨٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٢١) (حسن) (آخری جملہ اس سند سے کتاب الأشربہ میں گزرا ہے )

【109】

زمانہ کی سختی۔

معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : دنیا میں فتنوں اور مصیبتوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٥٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٤) (صحیح )

【110】

زمانہ کی سختی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانہ میں رويبضة بات کرے گا، آپ ﷺ سے سوال کیا گیا : رويبضة کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٥٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩١) (صحیح) (سند میں ابن قدامہ ضعیف، اور اسحاق بن أبی الفرات مجہول ہیں، لیکن مسند احمد ٢ / ٣٣٨ کے طریق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، اور انس (رض) کی حدیث مسند احمد ٣ /٢٢٠، سے تقویت پاکر صحیح ہے )

【111】

زمانہ کی سختی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک آدمی قبر پر جا کر نہ لوٹے، اور یہ تمنا نہ کرے کہ کاش ! اس قبر والے کی جگہ میں دفن ہوتا، اس کا سبب دین و ایمان نہیں ہوگا، بلکہ وہ دنیا کی بلا اور فتنے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٨ (١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٢ (٧١١٥) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٣) (صحیح )

【112】

زمانہ کی سختی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ایسے چن لیے جاؤ گے جیسے عمدہ کھجوریں ردی کھجوروں میں سے چنی جاتی ہیں، تمہارے نیک لوگ گزر جائیں گے، اور برے لوگ باقی رہ جائیں گے، تو اگر تم سے ہو سکے تو تم بھی مرجانا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٧٨، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٤) (صحیح) (سند میں ابو حمید مجہول راوی ہیں، لیکن اصل حدیث رویفع بن ثابت کے شاہد سے تقویت پاکر صحیح ہے، جس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے، آخری جملہ فموتوا إن استطعتم ضعیف ہے، اس لئے کہ اس کا شاہد نہیں ہے )

【113】

زمانہ کی سختی۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دن بہ دن معاملہ سخت ہوتا چلا جائے گا، اور دنیا تباہی کی طرف بڑھتی جائے گی، اور لوگ بخیل ہوتے جائیں گے، اور قیامت بدترین لوگوں پر ہی قائم ہوگی، اور مہدی عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٤١، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٥) (ضعیف جدا) (سند میں محمد بن خالد الجندی ضعیف راوی ہیں، اور حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن ولا تقوم الساعة إلا على شرار الناس کا جملہ دوسری حدیث سے ثابت ہے )

【114】

علامات قیامت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اور قیامت دونوں اس طرح بھیجے گئے ہیں ، آپ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر بتایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣٩ (٦٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی امت محمدیہ کے بعد قیامت تک اور کوئی امت حقہ نہ ہوگی اور اسلام ہی کے خاتمہ پر دنیا کا بھی خاتمہ ہے، اس حدیث سے یہ مقصد نہیں ہے کہ مجھ میں اور قیامت میں فاصلہ نہیں ہے جیسا کہ بعضوں نے خیال کیا اور اپنے خیال کی بناء پر یہ اعتراض کیا کہ آپ ﷺ کو وفات کئے ہوئے چودہ سو برس سے زیادہ گزرے لیکن ابھی تک قیامت نہیں ہوئی اور نہ اس کی کوئی بڑی نشانی ظاہر ہوئی۔

【115】

علامات قیامت

حذیفہ بن اسید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہماری طرف اپنے کمرے سے جھانکا، ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہوجائیں گی قیامت قائم نہ ہوگی، جن میں سے دجال، دھواں اور سورج کا پچھم سے نکلنا بھی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٣ (٢٩٠١) ، سنن ابی داود/الملاحم ١٢ (٤٣١١) ، سنن الترمذی/الفتن ٢١ (٢١٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦، ٧) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، اور بہ تمام و کمال : ٤٠٥٥ نمبر پر آرہی ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں صرف تین ہی نشانیاں بیان ہوئی ہیں، یہ حدیث مختصر ہے، پوری روایت حذیفہ (رض) کی ہے جسے مولف دو باب کے بعد بیان کریں گے، اس میں دس نشانیاں مذکور ہیں۔

【116】

علامات قیامت

عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ غزوہ تبوک میں چمڑے کے ایک خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں خیمے کے صحن میں بیٹھ گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عوف ! اندر آجاؤ ، میں نے عرض کیا : پورے طور سے، اللہ کے رسول ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں پورے طور سے ، پھر آپ نے فرمایا : عوف ! قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی، انہیں یاد رکھنا، ان میں سے ایک میری موت ہے ، میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کہو ایک، دوسری بیت المقدس کی فتح ہے، تیسری ایک بیماری ہے جو تم میں ظاہر ہوگی اس کے ذریعہ اللہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو شہید کر دے گا، اور اس کے ذریعہ تمہارے اعمال کو پاک کرے گا، چوتھی تم میں مال کی کثرت ہوگی حتیٰ کہ آدمی کو سو دینار ملیں گے تو وہ اس سے بھی راضی نہ ہوگا، پانچویں تمہارے درمیان ایک فتنہ برپا ہوگا جس سے کوئی گھر باقی نہ رہے گا جس میں وہ نہ پہنچا ہو، چھٹی تمہارے اور اہل روم کے درمیان ایک صلح ہوگی، لیکن پھر وہ لوگ تم سے دغا کریں گے، اور تمہارے مقابلہ کے لیے اسی جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ١٥ (٣١٧٦) ، سنن ابی داود/الأدب ٩٢ (٥٠٠٠، ٥٠٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢) (صحیح )

【117】

علامات قیامت

حذیفہ بن الیمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم اپنے امام کو قتل کرو گے، اور اپنی تلواریں لے کر باہم لڑو گے، اور تمہارے بدترین لوگ تمہاری دنیا کے مالک بن جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٩ (٢١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٩) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن عبدالرحمن انصاری اور عبدالعزیز دراوردی میں کلام ہے )

【118】

علامات قیامت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز لوگوں کے پاس باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قیامت کب قائم ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتاتا ہوں، جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے، تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب ننگے پاؤں، ننگے بدن لوگ لوگوں کے سردار بن جائیں، تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریاں چرانے والے عالی شان عمارتوں پر فخر کرنے لگ جائیں، تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں ہے، اور قیامت کا علم ان پانچ باتوں میں سے ہے جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام اللہ ہی کو معلوم ہے کہ قیامت کب ہوگی، وہی بارش نازل کرتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے (سورة لقمان : 34) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٨ (٥٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ١ (٩) ، سنن النسائی/الإیمان ٦ (٤٩٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٦) (صحیح) (یہ حدیث نمبر ( ٦٥ ) کا ایک ٹکڑا ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو قیامت کا وقت معلوم ہے، وہی پانی برساتا ہے، وہی جانتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے اور کسی آدمی کو معلوم نہیں کل وہ کیا کرے گا اور کہاں مرے گا، بس یہ باتیں غیب مطلق ہیں ان کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے، اور جو کوئی دعوے کرے کہ کسی نبی یا ولی کو علم غیب ہے وہ تو کافر ہے، قرآن کی بہت ساری آیتوں میں صاف صاف یہ مضمون ہے کہ اے محمد ( ﷺ ) کہئے : میں غیب نہیں جانتا۔

【119】

علامات قیامت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ کیا میں تم سے وہ حدیث نہ بیان کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، اور میرے بعد تم سے وہ حدیث کوئی بیان کرنے والا نہیں ہوگا، میں نے اسے آپ ہی سے سنا ہے کہ قیامت کی نشانیاں یہ ہیں کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، زنا عام ہوجائے گا، شراب پی جانے لگے گی، مرد کم ہوجائیں گے، عورتیں زیادہ ہوں گی حتیٰ کہ پچاس عورتوں کا قيم (سرپرست و کفیل) ایک مرد ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢١ (٨١) ، صحیح مسلم/العلم ٥ (٢٦٧١) ، سنن الترمذی/الفتن ٣٤ (٢٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩٨، ١٨٦، ٢٠٢، ٢٧٣، ٢٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اس وقت لڑائیاں بہت ہوں گی ان لڑائیوں میں مرد مارے جائیں گے اور عورتیں بکثرت باقی رہ جائیں گی۔

【120】

علامات قیامت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ نہ ظاہر ہوجائیں، اور لوگ اس پر باہم جنگ کرنے لگیں، حتیٰ کہ دس آدمیوں میں سے نو قتل ہوجائیں گے، اور ایک باقی رہ جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩٨، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٤ (٧١١٩) ، صحیح مسلم/الفتن ٨ (٢٨٩٤) ، سنن ابی داود/الملاحم ١٣ (٤٣١٣) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ٢٦ (٢٥٦٩) ، مسند احمد (٢/٢٦١، ٣٣٢، ٣٦٠) (حسن صحیح) (من کل عشرة تسعة کا لفظ ضعیف اور شاذ ہے،من کل مئة تسعة وتسعون کا لفظ محفوظ ہے) ۔ وضاحت : ١ ؎ : دوسری روایت میں ہے کہ ہر سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے اور ہر شخص کہے گا کہ شاید میں بچ رہوں اور سونے کے اس پہاڑ کو لوں اور لڑے گا، صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ جب یہ خزانہ نمودار ہو تو جو وہاں موجود ہو اس میں سے کچھ نہ لے، واضح رہے کہ اس خزانے کے حصول کے لیے بہت قتل و غارت ہوگی، ہر شخص یہی چاہے گا کہ یہ خزانہ اسی کو ملے۔

【121】

علامات قیامت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک مال کی خوب فراوانی نہ ہوجائے، اور فتنہ عام نہ ہوجائے هرج کثرت سے ہونے لگے، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! هرج کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا : قتل، قتل، قتل ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٢٤ (٨٣) ، الفتن ٢٥ (٧١٢١) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٨ (١٥٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٣، ٤١٧) (صحیح )

【122】

قرآن اور علم کا اٹھ جانا۔

زیاد بن لبید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کسی بات کا ذکر کیا اور فرمایا : یہ اس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اسی طرح قیامت تک سلسلہ چلتا رہے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : زیاد ! تمہاری ماں تم پر روئے، میں تو تمہیں مدینہ کا سب سے سمجھدار آدمی سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل نہیں پڑھتے ؟ لیکن ان میں سے کسی بات پر بھی یہ لوگ عمل نہیں کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٥٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٠، ٢١٩) (صحیح) (سند میں سالم بن أبی الجعد اور زیاد بن لبید کے مابین انقطاع ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : (اقتضاء العلم العمل : ١٨٩ /٨٩ والعلم لابی خیثمة : ١٢١ /٥٢، و المشکاة : ٢٤٥ - ٢٧٧ ) وضاحت : ١ ؎ : بلکہ اپنے پادریوں اور مولویوں کے تابع ہیں ان کی رائے پر چلتے ہیں، یا عقلی قانون بناتے ہیں، اس پر چلتے ہیں، کتاب الٰہی کوئی نہیں پوچھتا، مقلدین حضرات جو احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ائمہ کے اقوال سے چمٹے ہوئے ہیں، وہ اس حدیث پر غور فرمائیں۔

【123】

قرآن اور علم کا اٹھ جانا۔

حذیفہ بن الیمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام ایسا ہی پرانا ہوجائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار پرانے ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ جاننے والے بھی باقی نہ رہیں گے کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے ؟ اور کتاب اللہ ایک رات میں ایسی غائب ہوجائے گی کہ اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہ جائے گی ١ ؎، اور لوگوں کے چند گروہ ان میں سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں باقی رہ جائیں گے، کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو یہ کلمہ لا إله إلا الله کہتے ہوئے پایا، تو ہم بھی اسے کہا کرتے ہیں ٢ ؎۔ صلہ نے حذیفہ (رض) سے کہا : جب انہیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے تو انہیں فقط یہ کلمہ لا إله إلا الله کیا فائدہ پہنچائے گا ؟ تو حذیفہ (رض) نے ان سے منہ پھیرلیا، پھر انہوں نے تین بار یہ بات ان پر دہرائی لیکن وہ ہر بار ان سے منہ پھیر لیتے، پھر تیسری مرتبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے صلہ ! یہ کلمہ ان کو جہنم سے نجات دے گا، اس طرح تین بار کہا ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٣٢١، ومصباح الزجاجة : ١٤٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کے حروف غائب ہوجائیں گے اور حافظ تو پہلے ہی چلے جائیں گے۔ ٢ ؎: باقی دین کی اور کوئی بات انہیں معلوم نہ ہوگی۔ ٣ ؎: کیونکہ وہ لوگ دین کی اور باتوں کے منکر نہ ہوں گے صرف اسے ناواقف ہوں گے اور ناواقف آدمی کو نجات کے لئے صرف توحید کافی ہے۔

【124】

قرآن اور علم کا اٹھ جانا۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے قریب کچھ دن ایسے ہوں گے جن میں علم اٹھ جائے گا، جہالت بڑھ جائے گی، اور هرج زیادہ ہوگا ، هرج: قتل کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٥ (٧٠٦٢، ٧٠٦٣) ، صحیح مسلم/العلم ١٤ (٢٦٧٢) ، سنن الترمذی/الفتن ١٣ (٢٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٠٠، ٩٢٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٠٢، ٤٠٥، ٤٥٠، ٤/٣٩٢، ٤٠٥) (صحیح )

【125】

قرآن اور علم کا اٹھ جانا۔

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے بعد ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت چھا جائے گی، علم اٹھ جائے گا، اور هرج زیادہ ہوگا ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! هرج کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : قتل ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )

【126】

قرآن اور علم کا اٹھ جانا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمانہ ایک دوسرے سے قریب ہوجائے گا، ١ ؎ علم گھٹ جائے گا، (لوگوں کے دلوں میں) بخیلی ڈال دی جائے گی، فتنے ظاہر ہوں گے، اور هرج زیادہ ہوگا ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! هرج کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : قتل ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٥ (٧٠٦١) ، صحیح مسلم/العلم ٧٢ (١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی عیش و عشرت یا بےبرکتی کی وجہ سے زمانہ جلدی گزر جائے گا، یا عمریں چھوٹی ہوں گی۔

【127】

امانت (ایمانداری) کا اٹھ جانا۔

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ١ ؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ ﷺ نے ہم سے یہ بیان فرمایا : امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی) ، (طنافسی نے کہا : یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ٢ ؎، پھر آپ ﷺ نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا تو) امانت کا اثر ایک نقطے کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر جب دوسری بار سوئے گا تو امانت اس کے دل سے چھین لی جائے گی، تو اس کا اثر (اس کے دل میں) کھال موٹا ٢ ؎ ہونے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تم انگارے کو پاؤں پر لڑھکا دو تو کھال پھول کر آبلے کی طرح دکھائی دے گی، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا ، پھر حذیفہ (رض) نے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور انہیں اپنی پنڈلی پر لڑھکا لیا، اور فرمانے لگے : پھر لوگ صبح کو ایک دوسرے سے خریدو فروخت کریں گے، لیکن ان میں سے کوئی بھی امانت دار نہ ہوگا، یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں فلاں امانت دار شخص ہے، اور یہاں تک آدمی کو کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند، کتنا توانا اور کتنا ذہین و چالاک ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا، اور مجھ پر ایک زمانہ ایسا گزرا کہ مجھے پروا نہ تھی کہ میں تم میں سے کس سے معاملہ کروں، یعنی مجھے کسی کی ضمانت کی حاجت نہ تھی، اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا اسلام اسے مجھ پر زیادتی کرنے سے روکتا، اور اگر وہ یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا گماشتہ بھی انصاف سے کام لیتا (یعنی ان کے عامل اور عہدہ دار بھی ایماندار اور منصف ہوتے) اور اب آج کے دن مجھے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ میں اس سے معاملہ کروں سوائے فلاں فلاں کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣٥ (٦٤٩٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٤ (١٤٣) ، سنن الترمذی/الفتن ١٧ (٢١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٣، ٣٨٤، ٤٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کا ظہور ہوگیا۔ ٢ ؎: جس سے ایمانداری اور بڑھ گئی، مطلب یہ ہے کہ ایمانداری کی صفت بعض دلوں میں فطری طور پر ہوتی ہے اور کتاب و سنت حاصل کرنے سے اور بڑھ جاتی ہے۔ ٣ ؎ : جیسے پھوڑا اچھا ہوجاتا ہے، لیکن جلد کی سختی ذرا سی رہ جاتی ہے، اور یہ درجہ اول سے بھی کم ہے، اول میں تو ایک نقطہ کے برابر امانت رہ گئی تھی یہاں اتنی بھی نہ رہی صرف نشان رہ گیا۔

【128】

امانت (ایمانداری) کا اٹھ جانا۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے شرم و حیاء کو نکال لیتا ہے، پھر جب حیاء اٹھ جاتی ہے تو اللہ کے قہر میں گرفتار ہوجاتا ہے، اور اس حالت میں اس کے دل سے امانت بھی چھین لی جاتی ہے، اور جب اس کے دل سے امانت چھین لی جاتی ہے تو وہ چوری اور خیانت شروع کردیتا ہے، اور جب چوری اور خیانت شروع کردیتا ہے تو اس کے دل سے رحمت چھین لی جاتی ہے، اور جب اس سے رحمت چھین لی جاتی ہے تو تم اسے ملعون و مردود پاؤ گے، اور جب تم ملعون و مردود دیکھو تو سمجھ لو کہ اسلام کا قلادہ اس کی گردن سے نکل چکا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٢، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٠) (موضوع) (سند میں سعید بن سنان متروک راوی ہے، اور دارقطنی وغیرہ نے وضع حدیث کا اتہام لگایا ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٠٤٤ )

【129】

قیامت کی نشانیاں۔

حذیفہ بن اسید ابو سریحہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن) اپنے کمرے سے جھانکا، اور ہم آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہوں : سورج کا پچھم سے نکلنا، دجال، دھواں، دابۃ الارض (چوپایا) ، یاجوج ماجوج، عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول، تین بار زمین کا خسف (دھنسنا) : ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اور ایک جزیرۃ العرب میں، ایک آگ عدن کے، ایک گاؤں أبین کے کنویں سے ظاہر ہوگی جو لوگوں کو محشر کی جانب ہانک کرلے جائے گی، جہاں یہ لوگ رات گزاریں گے تو وہیں وہ آگ ان کے ساتھ رات گزارے گی، اور جب یہ قیلولہ کریں گے تو وہ آگ بھی ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : أنظرحدیث (رقم : ٤٠٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ آگ ساری دنیا میں پھیل جائے گی اور اس سے کافروں کی سانس رک جائے گی، اور مسلمانوں کو زکام کی حالت پیدا ہوجائے گی، اور یہ نشانی ابھی ظاہر نہیں ہوئی، قیامت کے قریب ہوگی، ابن مسعود (رض) نے کہا : یہ نشانی ظاہر ہوگئی اور آیت میں اسی کا ذکر ہے : يوم تأتي السماء بدخان مبين (سورة الدخان : 10) اور یہ دھواں قریش پر آیا تھا، ان پر قحط پڑا تھا اور آسمان میں دھواں سا معلوم ہوتا تھا۔

【130】

قیامت کی نشانیاں۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے تم نیک اعمال میں جلدی کرو : سورج کا مغرب سے نکلنا، دھواں، دابۃ الارض (چوپایا) ، دجال، ہر شخص کی خاص آفت (یعنی موت) ، عام آفت (جیسے وبا وغیرہ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٣١) (حسن صحیح) (سنان بن سعیدیہ سعد بن سنان کندی مصری ہیں صدوق ہیں، اس لئے یہ سند حسن ہے لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٧٥٩ )

【131】

قیامت کی نشانیاں۔

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (قیامت کی) نشانیاں دو سو سال کے بعد ظاہر ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٢) (موضوع) (سند میں عون بن عمارہ ضعیف، اور عبداللہ بن المثنیٰ صدوق اور کثیر الغلط ہیں، ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں داخل کیا ہے، ان کی سند میں محمد بن یونس کدیمی نے عون سے روایت کی ہے، جن پر اس حدیث کے وضع کا اتہام لگایا گیا ہے )

【132】

قیامت کی نشانیاں۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت پا نچ طبقات پر مشتمل ہوگی : چالیس سال نیکو کاروں اور متقیوں کے ہوں گے، پھر ان کے بعد ایک سو سال تک صلہ رحمی کرنے والے اور رشتے ناطے کا خیال رکھنے والے ہوں گے، پھر ان کے بعد ایک سو ساٹھ سال تک وہ لوگ ہوں گے جو رشتہ ناطہٰ توڑیں گے، اور ایک دوسرے کی طرف سے منہ موڑیں گے، پھر اس کے بعد قتل ہی قتل ہوگا، لہٰذا تم ایسے زمانے سے نجات مانگو، نجات مانگو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٣) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف راوی ہیں ) اس سند سے بھی انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے پانچ طبقے ہوں گے، اور ہر طبقہ چالیس برس کا ہوگا، میرا اور میرے صحابہ کا طبقہ تو اہل علم اور اہل ایمان کا ہے، اور دوسرا طبقہ چالیس سے لے کر اسی تک اہل بر اور اہل تقویٰ کا طبقہ ہے ، پھر راوی نے سابقہ حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٤) (ضعیف) (سند میں ابومعن، مسور، اور خازم العنزی سب مجہول ہیں، ابو حاتم نے حدیث کو باطل قرار دیا ہے )

【133】

زمین کا دھنسنا۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت سے پہلے مسخ، (صورتوں کی تبدیلی ہونا) زمین کا دھنسنا، اور آسمان سے پتھروں کی بارش ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣٢٣، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٥) (صحیح) (سند میں سیار ابو الحکم اور طارق بن شہاب کے مابین انقطاع ہے لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٨٧ )

【134】

زمین کا دھنسنا۔

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : میری امت کے اخیر میں زمین کا دھنسنا، صورتوں کا مسخ ہونا، اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٧٠٢، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٦) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٤؍ ٣٩٤ )

【135】

زمین کا دھنسنا۔

نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا : فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے، انہوں نے کہا : مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس نے دین میں بدعت نکالی ہے، اگر اس نے ایسا کیا ہو تو اسے میرا سلام نہ کہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : میری امت میں (یا اس امت میں) مسخ (صورتوں کی تبدیلی) ، اور زمین کا دھنسنا آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہوگا ، اور یہ قدریہ میں ہوگا جو تقدیر کے منکر ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ٧ (٤٦١٣) ، سنن الترمذی/القدر ١٦ (٢١٥٢) ، تحفة الأشراف : ٧٦٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠٨، ١٣٦) (حسن) (سند میں ابو صخر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: جو تقدیر کے منکر ہیں، ان کا نام تقدیر کے انکار کی وجہ سے قدریہ پڑا۔

【136】

زمین کا دھنسنا۔

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں زمین کا دھنسنا، صورتوں کا مسخ ہونا، اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، ، (تحفة الأشراف : ٨٩٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٣) (صحیح) (سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ابن معین نے کہا کہ ابو الزبیر کا سماع ابن عمرو (رض) سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٤؍٣٩٤ )

【137】

بیداء کا لشکر۔

عبداللہ بن صفوان (رض) کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین حفصہ (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ایک لشکر اس بیت اللہ کا قصد کرے گا تاکہ اہل مکہ سے لڑائی کرے، لیکن جب وہ لشکر مقام بیداء میں پہنچے گا تو اس کے درمیانی حصہ کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، اور دھنستے وقت جو لوگ آگے ہوں گے وہ پیچھے والوں کو آواز دیں گے لیکن آواز دیتے دیتے سب دھنس جائیں گے، ایک قاصد کے علاوہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا جو لوگوں کو جا کر خبر دے گا ۔ (عبداللہ بن صفوان (رض) کہتے ہیں) جب حجاج (حجاج بن یوسف ثقفی) کا لشکر آیا (اور عبداللہ بن زبیر (رض) سے لڑنے کے لیے مکہ کی طرف بڑھا) تو ہم سمجھے شاید وہ یہی لشکر ہوگا، ایک شخص نے (یہ سن کر) کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ام المؤمنین حفصہ (رض) پر جھوٹ نہیں باندھا، اور ام المؤمنین حفصہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ پر جھوٹ نہیں باندھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المناسک ١١٢ (٢٨٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الفتن ٢ (٢٨٨٣) ، مسند احمد (٦/٢٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حجاج بن یوسف کا لشکر اگرچہ وہ لشکر نہیں ہے کہ جس کا حدیث میں ذکر ہوا مگر وہ قیامت سے پہلے پہلے مکہ پر حملہ آور ضرور ہوگا، پھر ان کا ایک حصہ زمین میں دھنسایا بھی ضرور جائے گا اور وہ دجال کا لشکر ہوگا۔

【138】

بیداء کا لشکر۔

ام المؤمنین صفیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ اللہ کے اس گھر پر حملہ کرنے سے باز نہ آئیں گے حتیٰ کہ ایک لشکر لڑنے کے لیے آئے گا، جب وہ لوگ مقام بیداء یا بیداء کی سر زمین میں پہنچیں گے، تو اول سے لے کر اخیر تک تمام زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے، اور ان کے درمیان والے بھی نہیں بچیں گے ۔ میں نے عرض کیا : اگر ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی اس لشکر میں شامل کیا گیا ہو ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں اپنی اپنی نیت کے موافق اٹھائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٣١ (٢١٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٦، ٣٣٧) (صحیح) (سند میں مسلم بن صفوان مجہول راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【139】

بیداء کا لشکر۔

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس لشکر کا ذکر فرمایا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! شاید ان میں کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی لایا گیا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ١٠ (٢١٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٩) (صحیح )

【140】

دابة الارض کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین سے دابة ظاہر ہوگا، اس کے ساتھ سلیمان بن داود (علیہما السلام) کی انگوٹھی اور موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کا عصا ہوگا، اس عصا (چھڑی) سے وہ مومن کا چہرہ روشن کر دے گا، اور انگوٹھی سے کافر کی ناک پر نشان لگائے گا، حتیٰ کہ جب ایک محلہ کے لوگ جمع ہوں گے تو یہ کہے گا : اے مومن ! اور وہ کہے گا : اے کافر ! ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٢٨ (٣١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٤٥، ٤٩١، ٤٩٦) (ضعیف) (سند میں علی بن زید ضعیف اور اوس بن خالد مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مومن اور کافر نشان کی وجہ سے معلوم ہوجائیں گے تو ہر ایک شخص مومن کو ایمان کا نشان دیکھ کر مومن کے لقب سے پکارے گا اور کافر کو کفر کا نشان دیکھ کر کافر کہہ کر پکارے گا، غرض اس وقت ایمان اور کفر چھپا نہ رہے گا۔ (امام ابن ماجہ کے شاگرد) ابوالحسن قطان نے (اپنی عالی سند سے بھی) اس سے ملتی جلتی حدیث بیان کی ہے۔ اور اس میں ایک مرتبہ فرمایا : تو یہ کہے گا : اے مومن ! اور یہ (کہے گا) اے کافر !

【141】

دابة الارض کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مجھے مکہ کے قریب ایک جگہ صحراء میں لے گئے، تو وہ ایک خشک زمین تھی جس کے اردگرد ریت تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : جانور (داب ۃ الارض ) یہاں سے نکلے گا، میں نے وہ جگہ دیکھی، وہ ایک بالشت میں سے انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان کی دوری کے برابر تھی ۔ ابن بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کئی سال کے بعد حج کیا تو بریدہ (رض) (یعنی میرے والد) نے ہمیں داب ۃ الارض کا عصا دکھایا جو میرے عصا کے بقدر لمبا اور موٹا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٧٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٧) (ضعیف جدّاً ) (سند میں خالد بن عبید متروک راوی ہیں )

【142】

آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک سورج پچھم سے نہ نکلے گا، جب سورج کو پچھم سے نکلتے دیکھیں گے تو روئے زمین کے سب لوگ ایمان لے آئیں گے، لیکن یہ ایسا وقت ہوگا کہ اس وقت جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتے تھے، ان کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٧ (٤٦٣٥) ، الرقاق ٤٠ (٦٥٠٦) ، الفتن ٢٥ (٧١٢١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٢ (١٥٧) ، سنن ابی داود/الملاحم ١٢ (٤٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/التفسیر ٧ (٣٠٧٢) ، مسند احمد (٢/٢٣١، ٣١٣، ٣٥٠، ٣٧٢، ٥٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اللہ کی قدرت کی کھلی کھلی نشانی ظاہر ہوجائے گی اور ایسی حالت میں تو سب مومن ہوجاتے ہیں، جیسے قیامت میں جنت، جہنم اور حشر کو دیکھ کر سب ایمان لائیں گے، ایمان جو قبول ہے وہ یہی ہے کہ غیب پر ایمان لائے، بہر حال پچھم سے جب تک سورج نہ نکلے اس وقت تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے، پھر بند ہوجائے گا۔

【143】

آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کی پہلی نشانی سورج کا پچھم سے نکلنا، اور چاشت کے وقت لوگوں پر دابہ (چوپایہ) کا ظاہر ہونا ہے ۔ عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے نکلے، تو دوسرا اس سے قریب ہوگا، میرا یہی خیال ہے کہ پہلے سورج پچھم سے نکلے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٣ (٢٩٤١) ، سنن ابی داود/الملاحم ١٢ (٤٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٤، ٢٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان نشانیوں میں جو قانون قدرت کے خلاف ہیں کیونکہ پہلی نشانی مہدی (علیہ السلام) کا ظہور ہے، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمان سے اتر کر زمین پر آنا، پھر دجال کا نکلنا، پھر یاجوج ماجوج کا نکلنا، اور دابۃ الارض میں اختلاف ہے کہ سورج کے نکلنے سے پہلے نکلے گا یا بعد میں نکلے گا، عبداللہ بن عمرو (رض) کا یہی خیال تھا کہ وہ سورج نکلنے کے بعد نکلے گا، جب کہ اوروں نے کہا کہ اس سے پہلے نکلے گا، بہرحال آسمانی نشانیوں میں سورج کا نکلنا آخری نشانی ہے، اور ارضی نشانیوں میں دابۃ الارض کا نکلنا پہلی، اور بعض نے کہا کہ پہلی قیامت کی نشانی دجال کا نکلنا ہے، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کا اترنا، پھر یاجوج اور ماجوج کا نکلنا، پھر دابۃ الارض کا، پھر سورج کا پچھم سے نکلنا، کیونکہ سورج نکلنے پر ایمان کا دروازہ بند ہوجائے گا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں بہت سے کافر دین اسلام کو قبول کریں گے یہاں تک کہ ساری دنیا میں ایک ہی دین ہوجائے گا۔ والحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات۔

【144】

آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا۔

صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مغرب (یعنی سورج کے ڈوبنے کی سمت) میں ایک کھلا دروازہ ہے، اس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے، یہ دروازہ توبہ کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا، جب تک سورج ادھر سے نہ نکلے، اور جب سورج ادھر سے نکلے گا تو اس وقت کسی شخص کا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو یا ایمان لا کر کوئی نیکی نہ کما لی ہو، اس کا ایمان لانا کسی کام نہ آئے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٩٩ (٣٥٣٥، ٣٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٩، ٢٤٠، ٢٤١) (حسن )

【145】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دجال بائیں آنکھ کا کانا، اور بہت بالوں والا ہوگا، اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوگی، لیکن اس کی جہنم جنت اور اس کی جنت جہنم ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (٢٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٣، ٣٩٧) (صحیح )

【146】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی : دجال مشرق (پورب) کے ایک ملک سے ظاہر ہوگا، جس کو خراسان کہا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے گویا تہ بہ تہ ڈھال ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٥٧ (٢٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٦١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤، ٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ ان کے چہرے گول، چپٹے اور گوشت سے پر ہوں گے۔

【147】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے دجال کے بارے میں جتنے سوالات میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے، (ابن نمیر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں أشد سؤالا مني یعنی مجھ سے زیادہ سوال اور کسی نے نہیں کئے ، آخر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم اس کے بارے میں کیا پوچھتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پانی ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٧ (٧١٢٢) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٢ (٢٩٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٦، ٢٤٨، ٢٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ تعالیٰ پر یہ بات دجال سے زیادہ آسان ہے، یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کردیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، صحیحین کی روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹی کا پہاڑ ہوگا اور پانی کی نہریں ہوں گی، تب آپ نے یہ فرمایا : اور ممکن ہے کہ حدیث کا ترجمہ یوں کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ پر یہ بات آسان ہے دجال سے زیادہ یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کردیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ دجال ذلیل ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے کہ ان چیزوں کے ذریعے سے اس کی تصدیق کی جائے کیونکہ اس کی پیشانی اور آنکھ پر اس کے جھوٹے ہونے کی نشانی ظاہر ہوگی، واللہ اعلم۔

【148】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ ﷺ نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا : اللہ کی قسم ! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے مجھے اتنی مسرت ہوئی کہ خوشی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کرسکا، میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظاہر کر دوں) ، سنو ! تمیم داری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ (ایک سمندری سفر میں) ہوا ان کو ایک جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے، انہیں وہاں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی، جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے کہا : میں جساسہ (دجال کی جاسوس) ہوں، ان لوگوں نے کہا : تو ہمیں کچھ بتا، اس نے کہا : (نہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی) ، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہوجاؤ، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہشمند ہے کہ تم اسے خبر بتاؤ اور وہ تمہیں بتائے، کہا : ٹھیک ہے، یہ سن کر وہ لوگ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا (رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے، اور اپنا دکھ درد سنانے کے لیے بےچین ہے) تو اس نے ان لوگوں سے پوچھا : تم کہاں سے آئے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : شام سے، اس نے پوچھا : عرب کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو ؟ اس نے پوچھا : اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا) جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا ؟ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا، تو آج ان میں اجتماعیت ہے، ان کا معبود ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پوچھا : زغر (شام میں ایک گاؤں) کے چشمے کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے، لوگ اس سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، اور پینے کے لیے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں، پھر اس نے پوچھا : (عمان اور بیسان (ملک شام کے دو شہر کے درمیان) کھجور کے درختوں کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : ہر سال وہ اپنا پھل کھلا رہے ہیں، اس نے پوچھا : طبریہ کے نالے کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : اس کے دونوں کناروں پر پانی خوب زور و شور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں) پھر کہا : اگر میں اس قید سے چھوٹا تو میں اپنے پاؤں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگاؤں گا، کوئی گوشہ مجھ سے باقی نہ رہے گا سوائے طیبہ (مدینہ) کے، وہاں میرے جانے کی کوئی سبیل نہ ہوگی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ) ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مدینہ کے ہر تنگ و کشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوار لیے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٥ (٤٣٢٦، ٤٣٢٧) ، سنن الترمذی/الفتن ٦٦ (٢٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٧٣، ٣٧٤، ٤١١، ٤١٢، ٤١٥، ٤١٦، ٤١٨) (صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث صحیح ہے، صرف وہ جملے ضعیف ہیں، جو اس طرح گھیر دئے گئے ہیں، صحیح مسلم کتاب الفتن ٢٤؍ ٢٩٤٢ میں یہ حدیث ہلالین میں محصور جملوں کے علاوہ آئی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔ وضاحت : ١ ؎: اور دجال کو وہاں آنے سے روکے گا، دوسری روایت میں ہے کہ دجال احد پہاڑ تک آئے گا، پھر ملائکہ اس کا رخ پھیر دیں گے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ زنجیر میں جکڑے اس شخص نے کہا : مجھ سے امیوں (یعنی ان پڑھوں) کے نبی کا حال بیان کرو، ہم نے کہا : وہ مکہ سے نکل کر مدینہ گئے ہیں، اس نے کہا : کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے ؟ ہم نے کہا : ہاں، لڑے، اس نے کہا : پھر نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا ؟ ہم نے اسے بتلایا کہ وہ اپنے گرد و پیش عربوں پر غالب آگئے ہیں اور انہوں نے اس رسول ( ﷺ ) کی اطاعت اختیار کرلی ہے، اس نے پوچھا کیا یہ بات ہوچکی ہے ؟ ہم نے کہا : ہاں، یہ بات ہوچکی، اس نے کہا : سن لو ! یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اس کے رسول کے تابعدار ہوں، البتہ میں تم سے اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اور وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے خروج کی اجازت (اللہ کی طرف سے) دے دی جائے گی، البتہ اس میں یہ ہے کہ مکہ اور طیبہ (مدینہ) کو چھوڑ کر میں کوئی ایسی بستی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب میں ان دونوں میں کہیں سے جانا چاہوں گا تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لے کر مجھے اس سے روکے گا، اور وہاں ہر راستے پر چوکیدار فرشتے ہیں، یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر ماری، اور فرمایا : طیبہ یہی ہے، یعنی مدینہ اور میں نے تم سے دجال کا حال نہیں بیان کیا تھا کہ وہ مدینہ میں نہ آئے گا ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے بیان کیا تھا پھر آپ نے فرمایا : شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، نہیں، بلکہ مشرق کی طرف اور ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن : باب : قصۃ الجساسۃ )

【149】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

نواس بن سمعان کلابی (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر خوف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا : تم لوگوں کا کیا حال ہے ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے جو صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ استعمال کیا تو اس سے ہمیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ انہی کھجوروں کے درختوں میں چھپا ہوا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے تم لوگوں پر دجال کے علاوہ اوروں کا زیادہ ڈر ہے، اگر دجال میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں تم سب کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر انسان اس کا مقابلہ خود کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے (یعنی ہر مسلمان کا میرے بعد ذمہ دار ہے) دیکھو دجال جوان ہوگا، اس کے بال بہت گھنگریالے ہوں گے، اس کی ایک آنکھ اٹھی ہوئی اونچی ہوگی گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ سمجھتا ہوں، لہٰذا تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اسے چاہیئے کہ اس پر سورة الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، دیکھو ! دجال کا ظہور عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہوگا، وہ روئے زمین پر دائیں بائیں فساد پھیلاتا پھرے گا، اللہ کے بندو ! ایمان پر ثابت قدم رہنا ۔ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چالیس دن تک، ایک دن ایک سال کے برابر، دوسرا دن ایک مہینہ کے اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا، اور باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے ۔ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس دن میں جو ایک سال کا ہوگا ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (نہیں بلکہ) تم اسی ایک دن کا اندازہ کر کے نماز پڑھ لینا ۔ ہم نے عرض کیا : زمین میں اس کے چلنے کی رفتار آخر کتنی تیز ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو، وہ ایک قوم کے پاس آ کر انہیں اپنی الوہیت کی طرف بلائے گا، تو وہ قبول کرلیں گے، اور اس پر ایمان لے آئیں گے، پھر وہ آسمان کو بارش کا حکم دے گا، تو وہ برسے گا، پھر زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی، اور جب اس قوم کے جانور شام کو چر کر واپس آیا کریں گے تو ان کے کوہان پہلے سے اونچے، تھن زیادہ دودھ والے، اور کوکھیں بھری ہوں گی، پہلو بھرے بھرے ہوں گے، پھر وہ ایک دوسری قوم کے پاس جائے گا، اور ان کو اپنی طرف دعوت دے گا، تو وہ اس کی بات نہ مانیں گے، آخر یہ دجال وہاں سے واپس ہوگا، تو صبح کو وہ قوم قحط میں مبتلا ہوگی، اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا، پھر دجال ایک ویران جگہ سے گزرے گا، اور اس سے کہے گا : تو اپنے خزانے نکال، وہاں کے خزانے نکل کر اس طرح اس کے ساتھ ہوجائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں یعسوب (مکھیوں کے بادشاہ) کے پیچھے چلتی ہیں، پھر وہ ایک ہٹے کٹے نوجوان کو بلائے گا، اور تلوار کے ذریعہ اسے ایک ہی وار میں قتل کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا، ان دونوں ٹکڑوں میں اتنی دوری کر دے گا جتنی دوری پر تیر جاتا ہے، پھر اس کو بلائے گا تو وہ شخص زندہ ہو کر روشن چہرہ لیے ہنستا ہوا چلا آئے گا، الغرض دجال اور دنیا والے اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجے گا، وہ دمشق کے سفید مشرقی مینار کے پاس دو زرد ہلکے کپڑے پہنے ہوئے اتریں گے، جو زعفران اور ورس سے رنگے ہوئے ہوں گے، اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپکیں گے، اور جب سر اٹھائیں گے تو اس سے پانی کے قطرے موتی کی طرح گریں گے، ان کی سانس میں یہ اثر ہوگا کہ جس کافر کو لگ جائے گی وہ مرجائے گا، اور ان کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر کام کرے گی۔ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) چلیں گے یہاں تک کہ اس (دجال) کو باب لد کے پاس پکڑ لیں گے، وہاں اسے قتل کریں گے، پھر دجال کے قتل کے بعد اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچا رکھا ہوگا، ان کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر انہیں تسلی دیں گے، اور ان سے جنت میں ان کے درجات بیان کریں گے، یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرے گا : اے عیسیٰ ! میں نے اپنے کچھ ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں، تو میرے بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو بھیجے گا، اور وہ لوگ ویسے ہی ہوں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : من کل حدب ينسلون یہ لوگ ہر ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے (سورة الأنبياء : 96) ان میں کے آگے والے طبریہ کے چشمے پر گزریں گے، تو اس کا سارا پانی پی لیں گے، پھر جب ان کے پچھلے لوگ گزریں گے تو وہ کہیں گے : کسی زمانہ میں اس تالاب کے اندر پانی تھا، اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی طور پہاڑ پر حاضر رہیں گے ١ ؎، ان مسلمانوں کے لیے اس وقت بیل کا سر تمہارے آج کے سو دینار سے بہتر ہوگا، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے، چناچہ اللہ یاجوج و ماجوج کی گردن میں ایک ایسا پھوڑا نکالے گا، جس میں کیڑے ہوں گے، اس کی وجہ سے (دوسرے دن) صبح کو سب ایسے مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے، اور اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی طور پہاڑ سے نیچے اتریں گے اور ایک بالشت کے برابر جگہ نہ پائیں گے، جو ان کی بدبو، خون اور پیپ سے خالی ہو، عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردن کی مانند پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا وہاں پھینک دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ (سخت) بارش نازل کرے گا جس سے کوئی پختہ یا غیر پختہ مکان چھوٹنے نہیں پائے گا، یہ بارش ان سب کو دھو ڈالے گی، اور زمین کو آئینہ کی طرح بالکل صاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا کہ تو اپنے پھل اگا، اور اپنی برکت ظاہر کر، تو اس وقت ایک انار کو ایک جماعت کھا کر آسودہ ہوگی، اور اس انار کے چھلکوں سے سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اللہ تعالیٰ اتنی برکت دے گا کہ ایک اونٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کو کافی ہوگا، اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلہ کے لوگوں کو کافی ہوگی، اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک چھوٹے قبیلے کو کافی ہوگی، لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے تلے اثر کرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرے گی، اور ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے جو جھگڑالو ہوں گے، اور گدھوں کی طرح لڑتے جھگڑتے یا اعلانیہ جماع کرتے رہیں گے، تو انہی (شریر) لوگوں پر قیامت قائم ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (٢١٣٧) ، سنن ابی داود/الملاحم ١٤ (٤٣٢١) ، سنن الترمذی/الفتن ٥٩ (٢٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨١، ١٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اردن پہاڑ جہاں سے عیسیٰ (علیہ السلام) غائب ہو کر آسمان پر چڑھ گئے تھے، اور دوسرا شخص آپ کی صورت بن کر گیا تو یہودیوں نے اس کو سولی پر چڑھا دیا، یہ مضمون اگرچہ انجیل کے چار مشہور نسخوں میں ہے، لیکن نصاریٰ نے ان میں تحریف کی ہے اور برنباس کی انجیل میں مضمون اسی طرح موجود ہے جیسے قرآن شریف میں ہے، اور اس میں رسول اکرم ﷺ کے پیدا ہونے کی بشارت بھی صاف طور سے موجود ہے، اور آپ کا نام مبارک بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول محمد ﷺ آئیں گے تو میرے اوپر سے یہ اتہام رفع ہوگا کہ میں سولی دیا گیا، حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایک سفید منارہ ٧٤١ میں وہاں پایا گیا اور یہ آپ کی نبوت کی ایک بڑی نشانی ہے، اور رسول اکرم ﷺ نے ایسی بہت ساری باتوں کی پیش گوئی کی ہے جو آپ کے عہد میں نہ تھیں من جملہ ان میں سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے کہ جب عثمان (رض) نے قرآن جمع کیا کہ میرے ساتھ وہ لوگ بہت محبت کریں گے جو میرے بعد میرے اوپر ایمان لائیں گے، اور جو کچھ ورق (یعنی مصحف) میں ہوگا اس پر عمل کریں گے، ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ پہلے میں نے ورق کو نہیں سمجھا تھا، جب عثمان (رض) نے مصحف لکھوائے تو میں نے ورق کا معنی سمجھا، عثمان (رض) نے ابوہریرہ (رض) کو اس حدیث کے بیان کرنے پر دس ہزار درہم دیئے، اور بعض حدیثوں میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بیت المقدس میں اتریں گے اور بعض میں ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں لیکن بیت المقدس کی روایت بہت مشہور ہے، اور اردن اس سارے محلہ کا نام ہے جہاں پر بیت المقدس ہے، اور اگر وہاں اب سفید مینار نہیں ہے تو آئندہ بن جائے گا اور جس نے صحیح حدیث کا انکار کیا وہ جاہل اور گمراہ ہے۔

【150】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

نواس بن سمعان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ مسلمان یاجوج و ماجوج کے تیر، کمان، اور ڈھال کو سات سال تک جلائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ماقبلہ (صحیح )

【151】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، آپ کے خطبے کا اکثر حصہ دجال والی وہ حدیث تھی جو آپ نے ہم سے بیان کی، اور ہم کو اس سے ڈرایا، آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس میں یہ بات بھی تھی کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پیدا کیا ہے اس وقت سے دجال کے فتنے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو (فتنہ) دجال سے نہ ڈرایا ہو، میں چونکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کے اخیر میں ہوں، اور تم بھی آخری امت ہو اس لیے دجال یقینی طور پر تم ہی لوگوں میں ظاہر ہوگا، اگر وہ میری زندگی میں ظاہر ہوگیا تو میں ہر مسلمان کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر وہ میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر شخص خود اپنا بچاؤ کرے گا، اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے، (یعنی اللہ میرے بعد ہر مسلمان کا محافظ ہوگا) ، سنو ! دجال شام و عراق کے درمیانی راستے سے نکلے گا اور اپنے دائیں بائیں ہر طرف فساد پھیلائے گا، اے اللہ کے بندو ! (اس وقت) ایمان پر ثابت قدم رہنا، میں تمہیں اس کی ایک ایسی صفت بتاتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائی، پہلے تو وہ نبوت کا دعویٰ کرے گا، اور کہے گا : میں نبی ہوں ، حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، پھر دوسری بار کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ، حالانکہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے، وہ کانا ہوگا، اور تمہارا رب کانا نہیں ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے، اور دجال کی پیشانی پر لفظ کافر لکھا ہوگا، جسے ہر مومن خواہ پڑھا لکھا ہو یا جاہل پڑھ لے گا۔ اور اس کا ایک فتنہ یہ ہوگا کہ اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوگی، لیکن حقیقت میں اس کی جہنم جنت ہوگی، اور جنت جہنم ہوگی، تو جو اس کی جہنم میں ڈالا جائے، اسے چاہیئے کہ وہ اللہ سے فریاد کرے، اور سورة الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے تو وہ جہنم اس پر ایسی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی جیسے ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ اور اس دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک گنوار دیہاتی سے کہے گا : اگر میں تیرے والدین کو زندہ کر دوں تو کیا تو مجھے رب تسلیم کرے گا ؟ وہ کہے گا : ہاں، پھر دو شیطان اس کے باپ اور اس کی ماں کی شکل میں آئیں گے اور اس سے کہیں گے : اے میرے بیٹے ! تو اس کی اطاعت کر، یہ تیرا رب ہے۔ ایک فتنہ اس کا یہ ہوگا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کردیا جائے گا، پھر اسے قتل کر دے گا، اور اسے آرے سے چیر دے گا یہاں تک کہ اس کے دو ٹکڑے کر کے ڈال دے گا، پھر کہے گا : تم میرے اس بندے کو دیکھو، میں اس بندے کو اب زندہ کرتا ہوں، پھر وہ کہے گا : میرے علاوہ اس کا کوئی اور رب ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے زندہ کرے گا، اور دجال خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہے گا : میرا رب تو اللہ ہے، اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے، اللہ کی قسم ! اب تو مجھے تیرے دجال ہونے کا مزید یقین ہوگیا ۔ ابوالحسن طنافسی کہتے ہیں کہ ہم سے محاربی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبیداللہ بن ولید وصافی نے بیان کیا، انہوں نے عطیہ سے روایت کی، عطیہ نے ابو سعید خدری سے، ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں سے اس شخص کا درجہ جنت میں بہت اونچا ہوگا ۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص سوائے عمر بن خطاب (رض) کے کوئی نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ وہ اپنی راہ گزر گئے۔ محاربی کہتے ہیں کہ اب ہم پھر ابوامامہ (رض) کی حدیث جو ابورافع نے روایت کی ہے بیان کرتے ہیں کہ دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے اور زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا، چناچہ بارش نازل ہوگی، اور غلہ اگے گا، اور اس کا فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گزرے گا، وہ لوگ اس کو جھوٹا کہیں گے، تو ان کا کوئی چوپایہ باقی نہ رہے گا، بلکہ سب ہلاک ہوجائیں گے۔ اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گزرے گا، وہ لوگ اس کی تصدیق کریں گے، پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ برسے گا، اور زمین کو غلہ و اناج اگانے کا حکم دے گا تو وہ غلہ اگائے گی، یہاں تک کہ اس دن شام کو چرنے والے ان کے جانور پہلے سے خوب موٹے بھاری ہو کر لوٹیں گے، کوکھیں بھری ہوئی، اور تھن دودھ سے لبریز ہوں گے، مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر زمین کا کوئی خطہٰ ایسا نہ ہوگا جہاں دجال نہ جائے، اور اس پر غالب نہ آئے، مکہ اور مدینہ کا کوئی دروازہ ایسا نہ ہوگا جہاں فرشتے ننگی تلواروں کے ساتھ اس سے نہ ملیں، یہاں تک کہ دجال ایک چھوٹی سرخ پہاڑی کے پاس اترے گا، جہاں کھاری زمین ختم ہوئی ہے، اس وقت مدینہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا، جس کی وجہ سے مدینہ میں جتنے مرد اور عورتیں منافق ہوں گے وہ اس کے پاس چلے جائیں گے اور مدینہ میل کو ایسے نکال پھینکے گا جیسے بھٹی لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے، اور اس دن کا نام یوم الخلاص (چھٹکارے کا دن، یوم نجات) ہوگا ۔ ام شریک بنت ابی العسکر نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! اس دن عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس روز عرب بہت کم ہوں گے اور ان میں سے اکثر بیت المقدس میں ایک صالح امام کے ماتحت ہوں گے، ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہوگا، کہ اتنے میں عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) صبح کے وقت نازل ہوں گے، تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آنا چاہے گا تاکہ عیسیٰ (علیہ السلام) آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھا سکیں، لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ کر فرمائیں گے کہ تم ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھاؤ اس لیے کہ تمہارے ہی لیے تکبیر کہی گئی ہے، خیر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا، جب وہ نماز سے فارغ ہوگا تو عیسیٰ (علیہ السلام) (قلعہ والوں سے) فرمائیں گے کہ دروازہ کھولو، تو دروازہ کھول دیا جائے گا، اس (دروازے) کے پیچھے دجال ہوگا، اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے، ہر یہودی کے پاس سونا چاندی سے مرصع و مزین تلوار اور سبز چادر ہوگی، جب یہ دجال عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھے گا، تو اس طرح گھلے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے، اور وہ انہیں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوگا، عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے کہیں گے : تجھے میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھانی ہے تو اس سے بچ نہ سکے گا، آخر کار وہ اسے لد کے مشرقی دروازے کے پاس پکڑ لیں گے، اور اسے قتل کردیں گے، پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو شکست دے گا، اور یہودی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جس چیز کی بھی آڑ میں چھپے گا، خواہ وہ درخت ہو یا پتھر، دیوار ہو یا جانور، اس چیز کو اللہ تعالیٰ بولنے کی طاقت دے گا، اور ہر چیز کہے گی : اے اللہ کے مسلمان بندے ! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، اسے آ کر قتل کر دے، سوائے ایک درخت کے جس کو غرقد کہتے ہیں، یہ یہودیوں کے درختوں میں سے ایک درخت ہے یہ نہیں بولے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دجال چالیس سال تک رہے گا، جن میں سے ایک سال چھ مہینہ کے برابر ہوگا، اور ایک سال ایک مہینہ کے برابر ہوگا، اور ایک مہینہ جمعہ (ایک ہفتہ) کے برابر اور دجال کے باقی دن ایسے گزر جائیں گے جیسے چنگاری اڑ جاتی ہے، اگر تم میں سے کوئی مدینہ کے ایک دروازے پر صبح کے وقت ہوگا، تو اسے دوسرے دروازے پر پہنچتے پہنچتے شام ہوجائے گی ، آپ ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اتنے چھوٹے دنوں میں ہم نماز کس طرح پڑھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس طرح تم ان بڑے دنوں میں اندازہ کر کے پڑھتے ہو اسی طرح ان (چھوٹے) دنوں میں بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عیسیٰ (علیہ السلام) میری امت میں ایک عادل حاکم اور منصف امام ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے، اور صدقہ و زکاۃ لینا چھوڑ دیں گے، تو یہ بکریوں اور گھوڑوں پر وصول نہیں کیا جائے گا، لوگوں کے دلوں سے کینہ اور بغض اٹھ جائے گا، اور ہر قسم کے زہریلے جانور کا زہر جاتا رہے گا، حتیٰ کہ اگر بچہ سانپ کے منہ میں ہاتھ ڈالے گا تو وہ اسے نقصان نہ پہنچائے گا، اور بچی شیر کو بھگائے گی تو وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، بھیڑیا بکریوں میں اس طرح رہے گا جس طرح محافظ کتا بکریوں میں رہتا ہے، زمین صلح اور انصاف سے ایسے بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے، اور (سب لوگوں کا) کلمہ ایک ہوجائے گا، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے گی، لڑائی اپنے سامان رکھ دے گی (یعنی دنیا سے لڑائی اٹھ جائے گی) قریش کی سلطنت جاتی رہے گی، اور زمین چاندی کی طشتری کی طرح ہوگی، اپنے پھل اور ہریالی ایسے اگائے گی جس طرح آدم کے عہد میں اگایا کرتی تھی، یہاں تک کہ انگور کے ایک خوشے پر ایک جماعت جمع ہوجائے گی تو سب آسودہ ہوجائیں گے، اور ایک انار پر ایک جماعت جمع ہوجائے گی تو سب آسودہ ہوجائیں گے، اور بیل اتنے اتنے داموں میں ہوں گے، اور گھوڑے چند درہموں میں ملیں گے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! گھوڑے کیوں سستے ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : لڑائی کے لیے گھوڑوں پر سواری نہیں ہوگی ، پھر آپ سے عرض کیا گیا : بیل کیوں مہنگا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ساری زمین میں کھیتی ہوگی اور دجال کے ظہور سے پہلے تین سال تک سخت قحط ہوگا، ان تینوں سالوں میں لوگ بھوک سے سخت تکلیف اٹھائیں گے، پہلے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو تہائی بارش روکنے اور زمین کو تہائی پیداوار روکنے کا حکم دے گا، پھر دوسرے سال آسمان کو دو تہائی بارش روکنے اور زمین کو دو تہائی پیداوار روکنے کا حکم دے گا، اور تیسرے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو یہ حکم دے گا کہ بارش بالکل روک لے پس ایک قطرہ بھی بارش نہ ہوگی، اور زمین کو یہ حکم دے گا کہ وہ اپنے سارے پودے روک لے تو وہ اپنی تمام پیداوار روک لے گی، نہ کوئی گھاس اگے گی، نہ کوئی سبزی، بالآخر کھر والے جانور (گائے بکری وغیرہ چوپائے) سب ہلاک ہوجائیں گے، کوئی باقی نہ بچے گا مگر جسے اللہ بچا لے ، عرض کیا گیا : پھر اس وقت لوگ کس طرح زندہ رہیں گے ؟ آپ نے فرمایا : تہلیل (لا إله إلا الله ) تکبیر (الله أكبر ) تسبیح (سبحان الله ) اور تحمید (الحمد لله ) کا کہنا، ان کے لیے غذا کا کام دے گا۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں : میں نے ابوالحسن طنافسی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبدالرحمٰن محاربی سے سنا وہ کہتے تھے : یہ حدیث تو اس لائق ہے کہ مکتب کے استادوں کو دے دی جائے تاکہ وہ مکتب میں بچوں کو یہ حدیث پڑھائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٤ (٤٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٩٦) (ضعیف) (سند میں اسماعیل بن رافع ضعیف راوی ہیں، اور عبد الرحمن محاربی مدلس، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس حدیث کے مخالف نہیں ہے کہ دجال چالیس دن رہے گا کیونکہ وہ لمبے چالیس دنوں کا ذکر ہے اور یہ چالیس برس اس کے سوا ہیں جن میں دن معمولی مقدار سے چھوٹے ہوں گے اور بعضوں نے کہا کہ دجال کے زمانہ میں کبھی دن چھوٹا ہوگا کبھی بڑا۔ ٢ ؎: کیونکہ اس میں دجال کا پورا حال مذکور ہے، اور بچوں کو اس کا یاد رکھنا ضروری ہے تاکہ دجال کی اچھی طرح پہچان رکھیں اور اس کے فتنے میں گرفتار نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو دجال کے فتنے سے بچائے، رسول اکرم ﷺ ہر نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے۔

【152】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نازل نہ ہوں، وہ آ کر صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو معاف کردیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہوگا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٠٢ (٢٢٢٢) ، المظالم ٣١ (٢٤٧٦) ، أحادیث الأنبیاء ٤٩ (٣٤٤٨، ٣٤٤٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧١ (١٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الملاحم ١٤ (٤٣٢٤) ، سنن الترمذی/الفتن ٥٤ (٢٢٣٣) ، مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٧٢) (صحیح )

【153】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے، پھر وہ باہر آئیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :وهم من کل حدب ينسلون یہ لوگ ہر اونچی زمین سے دوڑتے آئیں گے (سورة الأنبياء : 96) پھر ساری زمین میں پھیل جائیں گے، اور مسلمان ان سے علاحدہ رہیں گے، یہاں تک کہ جو مسلمان باقی رہیں گے وہ اپنے شہروں اور قلعوں میں اپنے مویشیوں کو لے کر پناہ گزیں ہوجائیں گے، یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج نہر سے گزریں گے، اس کا سارا پانی پی کر ختم کردیں گے، اس میں کچھ بھی نہ چھوڑیں گے، جب ان کے پیچھے آنے والوں کا وہاں پر گزر ہوگا تو ان میں کا کوئی یہ کہے گا کہ کسی زمانہ میں یہاں پانی تھا، اور وہ زمین پر غالب آجائیں گے، تو ان میں سے کوئی یہ کہے گا : ان اہل زمین سے تو ہم فارغ ہوگئے، اب ہم آسمان والوں سے لڑیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک اپنا نیزہ آسمان کی طرف پھینکے گا، وہ خون میں رنگا ہوا لوٹ کر گرے گا، پس وہ کہیں گے : ہم نے آسمان والوں کو بھی قتل کردیا، خیر یہ لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ چند جانور بھیجے گا، جو ٹڈی کے کیڑوں کی طرح ہوں گے، جو ان کی گردنوں میں گھس جائیں گے، یہ سب کے سب ٹڈیوں کی طرح مرجائیں گے، ان میں سے ایک پر ایک پڑا ہوگا، اور جب مسلمان اس دن صبح کو اٹھیں گے، اور ان کی آہٹ نہیں سنیں گے تو کہیں گے : کوئی ایسا ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کے انہیں دیکھ کر آئے کہ یاجوج ماجوج کیا ہوئے ؟ چناچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص (قلعہ سے) ان کا حال جاننے کے لیے نیچے اترے گا، اور دل میں خیال کرے گا کہ وہ مجھ کو ضرور مار ڈالیں گے، خیر وہ انہیں مردہ پائے گا، تو مسلمانوں کو پکار کر کہے گا : سنو ! خوش ہوجاؤ ! تمہارا دشمن ہلاک ہوگیا، یہ سن کر لوگ نکلیں گے اور اپنے جانور چرنے کے لیے آزاد چھوڑیں گے، اور ان کے گوشت کے سوا کوئی چیز انہیں کھانے کے لیے نہ ملے گی، اس وجہ سے ان کا گوشت کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہوں گے، جس طرح کبھی گھاس کھا کر موٹے ہوئے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٩٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧٧) (حسن صحیح )

【154】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یاجوج و ماجوج ہر روز (اپنی دیوار) کھودتے ہیں یہاں تک کہ جب قریب ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی ان کو دکھائی دے تو جو شخص ان کا سردار ہوتا ہے وہ کہتا ہے : اب لوٹ چلو (باقی) کل کھودیں گے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ویسی ہی مضبوط کردیتا ہے جیسی وہ پہلے تھی، یہاں تک کہ جب ان کی مدت پوری ہوجائے گی، اور اللہ تعالیٰ کو ان کا خروج منظور ہوگا، تو وہ (عادت کے مطابق) دیوار کھودیں گے جب کھودتے کھودتے قریب ہوگا کہ سورج کی روشنی دیکھیں تو اس وقت ان کا سردار کہے گا کہ اب لوٹ چلو، انشاء اللہ کل کھودیں گے، اور انشاء اللہ کا لفظ کہیں گے، چناچہ (اس دن) وہ لوٹ جائیں گے، اور دیوار اسی حال پر رہے گی، جیسے وہ چھوڑ گئے تھے، پھر وہ صبح آ کر اسے کھودیں گے اور اسے کھود کر باہر نکلیں گے، اور سارا پانی پی کر ختم کردیں گے، اور لوگ (اس وقت) بھاگ کر اپنے قلعوں میں محصور ہوجائیں گے، یہ لوگ (زمین پر پھیل کر) آسمان کی جانب اپنے تیر ماریں گے، تو ان کے تیر خون میں لت پت ان کے پاس لوٹیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو تو مغلوب کیا، اور آسمان والوں پر بھی غالب ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں (گردنوں) میں کیڑے پیدا فرمائے گا جو انہیں مار ڈالیں گے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! زمین کے جانور ان کا گوشت اور چربی کھا کر خوب موٹے ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/التفسیر ١٩ (٣١٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥١٠، ٥١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حالانکہ گائے بیل بکری اونٹ وغیرہ چوپائے گوشت نہیں کھاتے مگر چارہ نہ ہونے کی وجہ سے یاجوج کا گوشت کھائیں گے اور کھا کر خوب موٹے ہوجائیں گے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یاجوج قیامت تک اس سد (باندھ) سے رکے رہیں گے، جب ان کے چھوٹنے کا وقت آئے گا تو سد (باندھ) ٹوٹ جائے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یاجوج و ماجوج محض صحرائی اور وحشی ہوں گے جب تو تیر و کمان ان کا ہتھیار ہوگا، اور جہالت کی وجہ سے آسمان پر تیر ماریں گے وہ یہ نہیں جانیں گے کہ آسمان زمین سے اتنی دور ہے کہ برسوں تک بھی اگر تیر ان کا چلا جائے تو وہاں تک مشکل سے پہنچے گا۔

【155】

فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ اسراء (معراج) کی رات رسول اللہ ﷺ نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) سے ملاقات کی، تو سب نے آپس میں قیامت کا ذکر کیا، پھر سب نے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) سے قیامت کے متعلق پوچھا، لیکن انہیں قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا، تو انہیں بھی قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : قیامت کے آ دھمکنے سے کچھ پہلے (دنیا میں جانے کا) مجھ سے وعدہ لیا گیا ہے، لیکن قیامت کے آنے کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے (کہ وہ کب قائم ہوگی) ، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) نے دجال کے ظہور کا تذکرہ کیا، اور فرمایا : میں (زمین پر) اتر کر اسے قتل کروں گا، پھر لوگ اپنے اپنے شہروں (ملکوں) کو لوٹ جائیں گے، اتنے میں یاجوج و ماجوج ان کے سامنے آئیں گے، اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے، وہ جس پانی سے گزریں گے اسے پی جائیں گے، اور جس چیز کے پاس سے گزریں گے، اسے تباہ و برباد کردیں گے، پھر لوگ اللہ سے دعا کرنے کی درخواست کریں گے، میں اللہ سے دعا کروں گا کہ انہیں مار ڈالے (چنانچہ وہ سب مرجائیں گے) ان کی لاشوں کی بو سے تمام زمین بدبودار ہوجائے گی، لوگ پھر مجھ سے دعا کے لیے کہیں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کروں گا، تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا جو ان کی لاشیں اٹھا کر سمندر میں بہا لے جائے گی، اس کے بعد پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے، اور زمین چمڑے کی طرح کھینچ کر دراز کردی جائے گی، پھر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ باتیں ظاہر ہوں تو قیامت لوگوں سے ایسی قریب ہوگی جس طرح حاملہ عورت کے حمل کا زمانہ پورا ہوگیا ہو، اور وہ اس انتظار میں ہو کہ کب ولادت کا وقت آئے گا، اور اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہ ہو۔ عوام (عوام بن حوشب) کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی تصدیق اللہ کی کتاب میں موجود ہے : حتى إذا فتحت يأجوج ومأجوج وهم من کل حدب ينسلون یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے، تو پھر وہ ہر ایک ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے (سورة الأنبياء : 96) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٩٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٥) (ضعیف) (مؤثر بن عفازہ مقبول عند المتابعہ ہیں، متابعت کی نہ ہونے وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں )

【156】

حضرت مہدی کی تشریف آوری۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند نوجوان آئے، جب نبی اکرم ﷺ نے انہیں دیکھا، تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں، اور آپ کا رنگ بدل گیا، میں نے عرض کیا : ہم آپ کے چہرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور دیکھتے ہیں جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے (یعنی آپ کے رنج سے ہمیشہ صدمہ ہوتا ہے) ، آپ ﷺ نے فرمایا : ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لیے اللہ نے دنیا کے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیت مصیبت، سختی، اخراج اور جلا وطنی میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر (خزانہ) طلب کریں گے، لوگ انہیں نہ دیں گے تو وہ لوگوں سے جنگ کریں گے، اور (اللہ کی طرف سے) ان کی مدد ہوگی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جائے گا، (یعنی لوگ ان کی حکومت پر راضی ہوجائیں گے اور خزانہ سونپ دیں گے) ، یہ لوگ اس وقت اپنے لیے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خزانہ اور حکومت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانہ کو پائے وہ ان لوگوں کے ساتھ (لشکر میں) شریک ہو، اگرچہ اسے گھٹنوں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٦٢، ومصباح الزجاجة : ١٤٤١) (ضعیف) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں )

【157】

حضرت مہدی کی تشریف آوری۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری امت میں مہدی ہوں گے، اگر وہ دنیا میں کم رہے تو بھی سات برس تک ضرور رہیں گے، ورنہ نو برس رہیں گے، ان کے زمانہ میں میری امت اس قدر خوش حال ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہوگی، زمین کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنا سارا پھل اگا دے گی، اس میں سے کچھ بھی اٹھا نہ رکھے گی، اور ان کے زمانے میں مال کا ڈھیر لگا ہوگا، تو ایک شخص کھڑا ہوگا اور کہے گا : اے مہدی ! مجھے کچھ دیں، وہ جواب دیں گے : لے لو (اس ڈھیر میں سے جتنا جی چاہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٥٣ (٢٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/المھدي ١ (٤٢٨٥) ، مسند احمد (٣/٢١، ٢٦) (حسن) (سند میں زید ا لعمی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: مہدی کے معنی لغت میں ہدایت پایا ہوا کے ہیں، اور اسی سے ہیں مہدی آخرالزمان، زرکشی کہتے ہیں کہ یہ وہ مہدی ہیں، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ پائیں گے اور ان کے ساتھ نماز پڑھیں گے، اور قسطنطنیہ کو نصاریٰ سے چھین لیں گے اور عرب و عجم کے مالک ہوجائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور مسجد حرام میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت کی جائے گی۔

【158】

حضرت مہدی کی تشریف آوری۔

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے ایک خزانے کے پاس تین آدمی باہم لڑائی کریں گے، ان میں سے ہر ایک خلیفہ کا بیٹا ہوگا، لیکن ان میں سے کسی کو بھی وہ خزانہ میسر نہ ہوگا، پھر مشرق کی طرف سے کالے جھنڈے نمودار ہوں گے، اور وہ تم کو ایسا قتل کریں گے کہ اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہوگا، پھر آپ ﷺ نے کچھ اور بھی بیان فرمایا جسے میں یاد نہ رکھ سکا، اس کے بعد آپ نے فرمایا : لہٰذا جب تم اسے ظاہر ہوتے دیکھو تو جا کر اس سے بیعت کرو اگرچہ گھٹنوں کے بل برف پر گھسٹ کر جانا پڑے کیونکہ وہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢١١١، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٢) (ضعیف) (سند میں ابوقلابہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے لیکن حدیث کا معنی ابن ماجہ کی ابن مسعود (رض) سے مروی حدیث میں ہے، اس حدیث میں فإنه خليفة الله المهدي کا لفظ صحیح نہیں ہے، جس کی روایت میں ابن ماجہ یہاں منفرد ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٨٥ )

【159】

حضرت مہدی کی تشریف آوری۔

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوگا، اور اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں ان کو صالح بنا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٤) (حسن) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣٧ )

【160】

حضرت مہدی کی تشریف آوری۔

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ہم ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس تھے، ہم نے مہدی کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المھدي ١ (٤٢٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٣) (صحیح )

【161】

حضرت مہدی کی تشریف آوری۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ہم عبدالمطلب کی اولاد ہیں، اور اہل جنت کے سردار ہیں، یعنی : میں، حمزہ، علی، جعفر، حسن، حسین اور مہدی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٤) (موضوع) (علی بن زیاد ضعیف اور سعد بن عبد الحمید صدوق ہیں، لیکن ان کے یہاں غلط احادیث ہیں، اور عکرمہ بن عمار صدوق ہیں غلطی کرتے ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٦٨٨ )

【162】

حضرت مہدی کی تشریف آوری۔

عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ لوگ مشرق (پورب) کی جانب سے نکلیں گے جو مہدی کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٥) (ضعیف) (سند میں عمرو بن جابر الحضرمی اور ابن لہیعہ ضعیف ہیں )

【163】

بڑی بڑی لڑائیاں

حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا، خالد بن معدان کی طرف مڑے، اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا، خالد نے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا کہ جبیر نے مجھ سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ذی مخمر (رض) کے پاس چلو، جو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے، چناچہ میں ان دونوں کے ہمراہ چلا، ان سے صلح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : عنقریب ہی روم والے تم سے ایک پر امن صلح کریں گے، اور تمہارے ساتھ مل کر دشمن سے لڑیں گے، پھر تم فتح حاصل کرو گے، اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آئے گا، اور تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنگ سے لوٹو گے یہاں تک کہ تم ایک تروتازہ اور سرسبز مقام پر جہاں ٹیلے وغیرہ ہوں گے، اترو گے، وہاں صلیب والوں یعنی رومیوں میں سے ایک شخص صلیب بلند کرے گا، اور کہے گا : صلیب غالب آگئی، مسلمانوں میں سے ایک شخص غصے میں آئے گا، اور اس کے پاس جا کر صلیب توڑ دے گا، اس وقت رومی عہد توڑ دیں گے، اور سب جنگ کے لیے جمع ہوجائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٦٨ (٢٧٦٧) ، والملاحم ٢ (٤٢٩٣) (صحیح ) اس سند سے بھی حسان بن عطیہ سے اسی طرح مروی ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے : وہ (نصاریٰ مسلمانوں سے) لڑنے کے لیے اکٹھے ہوجائیں گے، اس وقت اسی جھنڈوں کی سر کردگی میں آئیں گے، اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٧ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نصاریٰ کی شان و شوکت اور سلطنت قیامت تک باقی رہے گی یعنی مہدی (علیہ السلام) کے وقت تک، دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ اکثر لوگ دنیا کے نصاریٰ ہوں گے، یہ حدیث بڑی دلیل ہے آپ کی نبوت کی کیونکہ یہ پیشین گوئی آپ کی بالکل سچی نکلی، کئی سو برس سے نصاریٰ کا برابر عروج ہو رہا ہے، اور ہر ایک ملک میں ان کا مذہب پھیلتا جاتا ہے، دنیا کے چاروں حصوں میں یا ان کی حکومت قائم ہوگئی ہے، یا ان کے زیر اثر سلطنتیں قائم ہیں، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے قریب مسلمانوں کا بادشاہ نصاریٰ کی ایک قوم کے ساتھ مل کر تیسری سلطنت سے لڑے گا اور فتح پائے گا، پھر صلیب پر تکرار ہو کر سب نصاریٰ مل جائیں گے اور متفق ہو کر مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے۔

【164】

بڑی بڑی لڑائیاں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بڑی بڑی جنگیں ہونے لگیں گی، تو اللہ تعالیٰ موالی (جن کو عربوں نے آزاد کیا ہے) میں سے ایک لشکر اٹھائے گا، جو عربوں سے زیادہ اچھے سوار ہوں گے اور ان سے بہتر ہتھیار رکھتے ہوں گے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دین کی مدد فرمائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٨، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٨) (حسن )

【165】

بڑی بڑی لڑائیاں

جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نافع بن عتبہ بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم عنقریب جزیرہ عرب والوں سے جنگ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس پر فتح دے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، ان پر بھی اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا، پھر تم دجال سے جنگ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس پر فتح دے گا ۔ جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب تک روم فتح نہ ہوگا، دجال کا ظہور نہ ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٢ (٢٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٧٨، ٤/٣٤٧) (صحیح )

【166】

بڑی بڑی لڑائیاں

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنگ عظیم، قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کا خروج تینوں چیزیں سات مہینے کے اندر ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ٤ (٤٢٩٥) ، سنن الترمذی/الفتن ٥٨ (٢٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٤) (ضعیف) (سند میں ابوبکر ضعیف اور ولید بن سفیان ضعیف ہیں )

【167】

بڑی بڑی لڑائیاں

عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنگ عظیم اور فتح مدینہ (قسطنطنیہ) کے درمیان چھ سال کا وقفہ ہے، اور دجال کا ظہور ساتویں سال میں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ٤ (٤٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٩) (ضعیف) (سند میں سوید بن سعید اور بقیہ میں ضعف ہے )

【168】

بڑی بڑی لڑائیاں

عمرو بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک مسلمانوں کا نزدیک ترین مورچہ مقام بولاء میں نہ ہو ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے علی ! اے علی ! اے علی ! انہوں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں (فرمائیے) ، آپ ﷺ نے فرمایا : تم بہت جلد بنی اصفر (اہل روم) سے جنگ کرو گے اور ان سے وہ مسلمان بھی لڑیں گے جو تمہارے بعد پیدا ہوں گے، یہاں تک کہ جو لوگ اسلام کی رونق ہوں گے (یعنی اہل حجاز) وہ بھی ان سے جنگ کے لیے نکلیں گے، اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کریں گے، بلکہ تسبیح و تکبیر کے ذریعہ قسطنطنیہ فتح کرلیں گے، اور انہیں (وہاں) اس قدر مال غنیمت حاصل ہوگا کہ اتنا کبھی حاصل نہ ہوا تھا، یہاں تک کہ وہ ڈھا لیں بھربھر کر تقسیم کریں گے، اور ایک آنے والا آ کر کہے گا : مسیح (دجال) تمہارے ملک میں ظاہر ہوگیا ہے، سن لو ! یہ خبر جھوٹی ہوگی، تو مال لینے والا بھی شرمندہ ہوگا، اور نہ لینے والا بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٤٩) (موضوع) (سند میں کثیر بن عبد اللہ ہیں، جن کے بارے میں ابن حبان کہتے ہیں کہ اپنے والد کے حوالہ سے انہوں نے اپنے دادا سے ایک موضوع نسخہ روایت کیا ہے، جس کا تذکرہ کتابوں میں حلال نہیں ہے، اور نہ اس کی روایت جائز ہے، الا یہ کہ تعجب و استغراب کے نقطئہ نظر سے ہو )

【169】

بڑی بڑی لڑائیاں

عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے اور بنی اصفر (رومیوں) کے درمیان صلح ہوگی، پھر وہ تم سے عہد شکنی کریں گے، اور تمہارے مقابلے کے لیے اسی جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے، اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ١٥ (٣١٧٦) ، سنن ابی داود/الأدب ٩٢ (٥٠٠٠، ٥٠٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٨) (صحیح )

【170】

ترک کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کرو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے، قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کرو گے جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٥ (٢٩٢٩) ، صحیح مسلم/الفتن ١٨ (٢٩١٢) ، سنن ابی داود/الملاحم ٩ (٤٣٠٤) ، سنن الترمذی/الفتن ٤٠ (٢٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٧١، ٣٩٨) (صحیح )

【171】

ترک کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کی آنکھیں چھوٹی اور ناکیں چپٹی ہوں گی اور ان کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے، اور قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٧) (صحیح )

【172】

ترک کا بیان

عمرو بن تغلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے چہرے چوڑے ہوں گے، گویا وہ چپٹی ڈھال ہیں، اور قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جو بالوں کے جوتے پہنتے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٥ (٢٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٠) (صحیح )

【173】

ترک کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کرو گے جن کی آنکھیں چھوٹی اور چہرے چوڑے ہوں گے، گویا کہ ان کی آنکھیں ٹڈی کی آنکھیں ہیں، اور ان کے چہرے چپٹی ڈھالیں ہیں، وہ بالوں کے جوتے پہنتے ہوں گے اور چمڑے کی ڈھالیں بنائیں گے اور کھجور کے درختوں کی جڑوں سے اپنے گھوڑے باندھیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٢٣، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١) (حسن صحیح )