38. زہد کا بیان
دنیا سے بے رغبتی کا بیان
ابوذر غفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا میں زہد آدمی کے حلال کو حرام کرلینے، اور مال کو ضائع کرنے میں نہیں ہے، بلکہ دنیا میں زہد (دنیا سے بےرغبتی) یہ ہے کہ جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے، اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور دنیا میں جو مصیبت تم پر آئے تو تم اس پر خوش ہو بہ نسبت اس کے کہ مصیبت نہ آئے، اور آخرت کے لیے اٹھا رکھی جائے ۔ ہشام کہتے ہیں : کہ ابوادریس خولانی کہتے تھے کہ حدیثوں میں یہ حدیث ایسی ہے جیسے سونے میں کندن۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ٢٩ (٢٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣٥) (ضعیف جدا) (سند میں عمرو بن واقد متروک ہے )
دنیا سے بے رغبتی کا بیان
ابوخلاد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو دنیا کی طرف سے بےرغبت ہے، اور کم گو بھی تو اس سے قربت اختیار کرو، کیونکہ وہ حکمت و دانائی کی بات بتائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٥١) (ضعیف) (سند میں ابوفروہ یزید بن سنان جزری ضعیف ہیں )
دنیا سے بے رغبتی کا بیان
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے، اور لوگ بھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا سے بےرغبتی رکھو، اللہ تم کو محبوب رکھے گا، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بےنیاز ہوجاؤ، تو لوگ تم سے محبت کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٢) (صحیح) (سند میں خالد بن عمرو کو ابن معین نے جھوٹ سے متہم کیا ہے، اور صالح جزرہ وغیرہ نے اس کی طرف وضع حدیث کی نسبت کی ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٩٤٤ )
دنیا سے بے رغبتی کا بیان
سمرہ بن سہم کہتے ہیں کہ میں ابوہاشم بن عتبہ (رض) کے پاس گیا، وہ برچھی لگنے سے زخمی ہوگئے تھے، معاویہ (رض) ان کی عیادت کو آئے تو ابوہاشم (رض) رونے لگے، معاویہ (رض) نے کہا : ماموں جان ! آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ کیا درد کی شدت سے رو رہے ہیں یا دنیا کی کسی اور وجہ سے ؟ دنیا کا تو بہترین حصہ گزر چکا ہے، ابوہاشم (رض) نے کہا : میں ان میں سے کسی بھی وجہ سے نہیں رو رہا، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک نصیحت کی تھی، کاش ! میں اس پر عمل کئے ہوتا ! آپ ﷺ نے فرمایا تھا : شاید تم ایسا زمانہ پاؤ، جب لوگوں کے درمیان مال تقسیم کیا جائے، تو تمہارے لیے اس میں سے ایک خادم اور راہ جہاد کے لیے ایک سواری کافی ہے، لیکن میں نے مال پایا، اور جمع کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ١٩ (٢٣٢٧) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ (٥٣٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٧٨) ، وقد أخرجہ : (حم ٥/٢٩٠) (حسن) (سند میں سمرہ بن سہم مجہول ہیں، لیکن شواہد سے تقو یت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٥١٨٥ و صحیح الترغیب ) وضاحت : ١ ؎: تو اس پر روتا ہوں کہ آپ ﷺ کی نصیحت پر عمل نہ کرسکا، دوسری روایت میں ہے کہ دنیا میں سے تم کو ایک خادم، ایک سواری اور ایک گھر کافی ہے، اس سے زیادہ جمع کر کے رکھنا ضروری نہیں، دوسرے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دے دے، خود کھائے، دوسروں کو کھلائے، رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے، یتیموں بیواؤں کی پرورش کرے، مفید عام کاموں میں صرف کرے جیسے مدارس و مساجد بنانے میں، یتیم خانہ اور مسافر خانہ کی تعمیر میں، کنویں اور سڑک کی تعمیر میں، دینی اور اسلامی کتابیں چھاپنے، اور تقسیم کرنے میں، مگر ہزاروں لاکھوں میں کوئی ایسا بندہ ہوتا ہے جو دنیا کو بالکل جمع نہیں کرتا۔
دنیا سے بے رغبتی کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ سلمان فارسی (رض) بیمار ہوئے تو سعد بن ابی وقاص (رض) ان کی عیادت کے لیے آئے اور ان کو روتا ہوا پایا، سعد (رض) نے ان سے کہا : میرے بھائی آپ کس لیے رو رہے ہیں ؟ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض نہیں اٹھایا ؟ کیا ایسا نہیں ہے ؟ کیا ایسا نہیں ہے ؟ سلمان (رض) نے کہا : میں ان دونوں میں سے کسی بھی وجہ سے نہیں رو رہا، نہ تو دنیا کی حرص کی وجہ سے اور نہ اس وجہ سے کہ آخرت کو ناپسند کرتا ہوں، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک نصیحت کی تھی، جہاں تک میرا خیال ہے میں نے اس سلسلے میں زیادتی کی ہے، سعد (رض) نے پوچھا : وہ کیا نصیحت تھی ؟ سلمان (رض) نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا : تم میں سے کسی کے لیے بھی دنیا میں اتنا ہی کافی ہے جتنا کہ مسافر کا توشہ، لیکن میں نے اس سلسلے میں زیادتی کی ہے، اے سعد ! جب آپ فیصلہ کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، جب کچھ تقسیم کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، اور جب کسی کام کا قصد کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر کرنا۔ ثابت (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ مجھے پتہ چلا کہ سلمان (رض) نے بیس سے چند زائد درہم کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا، وہ بھی اپنے خرچ میں سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٣) (صحیح) (ملاحظہ ہو : الصحیحة : ١٧١٥ )
دنیا کی فکر کرنا کیسا ہے ؟۔
ابان بن عثمان بن عفان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) مروان کے پاس سے ٹھیک دوپہر کے وقت نکلے، میں نے کہا : اس وقت مروان نے ان کو ضرور کچھ پوچھنے کے لیے بلایا ہوگا، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : مروان نے ہم سے کچھ ایسی چیزوں کے متعلق پوچھا جو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھیں، میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا : جس کو دنیا کی فکر لگی ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات کو پراگندہ کر دے گا، اور محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کر دے گا، جب اس کو دنیا سے صرف وہی ملے گا جو اس کے حصے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کا مقصود آخرت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو ٹھیک کر دے گا، اس کے دل کو بےنیازی عطا کرے گا، اور دنیا اس کے پاس ناک رگڑتی ہوئی آئے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٤) (صحیح )
دنیا کی فکر کرنا کیسا ہے ؟۔
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ میں نے تمہارے محترم نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے اپنے سارے غموں کو آخرت کا غم بنا لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے غم کے لیے کافی ہے، اور جو دنیاوی معاملات کے غموں اور پریشانیوں میں الجھا رہا، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٥) (حسن) (سند میں نہشل متروک راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حسن ہے )
دنیا کی فکر کرنا کیسا ہے ؟۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم ! تو میری عبادت کے لیے یک سو ہوجا تو میں تیرا سینہ بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کر دوں گا، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیتوں سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٣٠ (٢٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٨١) ، وقد أخرجہ : (حم ٢/٣٥٨) (صحیح )
دنیا کی مثال۔
مستورد (رض) (جو بنی فہر کے ایک فرد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے، اور پھر دیکھے کہ کتنا پانی اس کی انگلی میں واپس آتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ١٥ (٢٥٥٨) ، سنن الترمذی/الزہد ١٨ (٢٣٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٥٥) ، وقد أخرجہ : (حم ٤/٢٢٨، ٢٢٩، ٢٣٠) (صحیح )
دنیا کی مثال۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک چٹائی پر لیٹے تو آپ کے بدن مبارک پر اس کا نشان پڑگیا، میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ کے رسول ! اگر آپ ہمیں حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے اس پر کچھ بچھا دیتے، آپ اس تکلیف سے بچ جاتے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تو دنیا میں ایسے ہی ہوں جیسے کوئی مسافر درخت کے سائے میں آرام کرے، پھر اس کو چھوڑ کر وہاں سے چل دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ٤٤ (٢٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٤٣) ، وقد أخرجہ : (حم ١/٣٩١، ٤٤١) (صحیح )
دنیا کی مثال۔
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ذو الحلیفہ میں تھے کہ وہاں ایک مردہ بکری اپنے پاؤں اٹھائے ہوئے پڑی تھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دیکھو کیا تم یہ جانتے ہو کہ یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک ذلیل و بےوقعت ہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جتنی یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک بےقیمت ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ بےوقعت ہے، اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ اس سے کافر کو ایک قطرہ بھی نہ چکھاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٧٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٦) ، وقد أخرجہ : (حم ١/٣٩١، ٤٤١) (صحیح) (سند میں زکریا بن منظور ضعیف ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٦٨٦ - ٩٤٣- ٣٤٨٢ )
دنیا کی مثال۔
مستورد بن شداد (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک قافلے میں تھا کہ آپ بکری کے ایک پڑے ہوئے مردہ بچے کے پاس آئے، اور فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ اپنے مالک کے نزدیک حقیر و بےوقعت ہے ؟ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اس کی بےوقعتی ہی کی وجہ سے اس کو یہاں ڈالا گیا ہے، یا اسی طرح کی کوئی بات کہی گئی، آپ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل و حقیر ہے جتنی یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک حقیر و بےوقعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ١٣ (٢٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٥٨) ، وقد أخرجہ : (حم ٤/٢٢٩، ٢٣٠) (صحیح )
دنیا کی مثال۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کی یاد کے، اور اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، یا عالم کے یا متعلم کے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزھد ١٤ (٢٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٢) (حسن )
دنیا کی مثال۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا مومن کا جیل اور کافر کی جنت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزہد (٢٩٥٦) ، سنن الترمذی/الزھد ١٦ (٢٣٢٤) ، مسند احمد (٢/٣٢٣، ٣٨٩، ٤٨٥) (صحیح )
دنیا کی مثال۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے جسم کا بعض حصہ (کندھا) تھاما اور فرمایا : عبداللہ ! دنیا میں ایسے رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر، اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزھد ١٥ (٢٣٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣ (٦٤١٨) ، من طریق محمد بن عبد الرحمن الطفاوی عن الأعمش عن مجاہد بن جبر ابن عمر، مسند احمد (٢/٢٤، ١٣٢) (صحیح) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف راوی ہیں، اسے لئے وعد نفسک من أهل القبور کا جملہ ضعیف ہے، لیکن بقیہ حدیث صحیح ہے، کمافی التخریج )
جس کو لوگ کم حیثیت جانیں۔
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تم کو جنت کے بادشاہوں کے بارے میں نہ بتادوں ؟ میں نے کہا : جی ہاں، بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : کمزور و ناتواں شخص دو پرانے کپڑے پہنے ہو جس کو کوئی اہمیت نہ دی جائے، اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھالے تو وہ اس کی قسم ضرور پوری کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٧) (ضعیف) (سند میں سوید بن عبد العزیز ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٤١ )
جس کو لوگ کم حیثیت جانیں۔
حارثہ بن وہب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اہل جنت کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ہر وہ کمزور اور بےحال شخص جس کو لوگ کمزور سمجھیں، کیا میں تمہیں اہل جہنم کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ہر وہ سخت مزاج، پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھنے، اور تکبر کرنے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن (سورةن والقلم) ١ (٤٩١٨) ، الأیمان النذور ٩ (٦٦٥٧) ، صحیح مسلم/الجنة ١٣ (٢٨٥٣) ، سنن الترمذی/صفة جہنم ١٣ (٢٦٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٦) (صحیح )
جس کو لوگ کم حیثیت جانیں۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے زیادہ قابل رشک میرے نزدیک وہ مومن ہے، جو مال و دولت آل و اولاد سے ہلکا پھلکا ہو، جس کو نماز میں راحت ملتی ہو، لوگوں میں گم نام ہو، اور لوگ اس کی پرواہ نہ کرتے ہوں، اس کا رزق بس گزر بسر کے لیے کافی ہو، وہ اس پر صبر کرے، اس کی موت جلدی آجائے، اس کی میراث کم ہو، اور اس پر رونے والے کم ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزہد ٣٥، (٢٣٤٧) ، مسند احمد (٥/٢٥٢، ٢٥٥) (ضعیف) (ایوب بن سلیمان اور صدقہ بن عبد اللہ ضعیف ہیں، تراجع الألبانی : رقم : ٣٦٤ )
جس کو لوگ کم حیثیت جانیں۔
ابوامامہ حارثی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے ایمان کا ایک حصہ ہے، سادگی بےجا تکلف کے معنی میں ہے، یعنی زیب و زینت و آرائش سے گریز کرنا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١ (٤١٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥) (صحیح )
جس کو لوگ کم حیثیت جانیں۔
اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : کیا میں تم کو یہ نہ بتادوں کہ تم میں بہترین لوگ کون ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : ضرور، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٣، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥٩) (صحیح) (سند میں سوید و شہر بن حوشب ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٦٤٦ )
فقیر کی فضیلت۔
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ لوگوں نے کہا : جو آپ کی رائے ہے وہی ہماری رائے ہے، ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ شریف لوگوں میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں یہ نکاح کا پیغام بھیجے تو اسے قبول کیا جائے، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے، اگر کوئی بات کہے تو اس کی بات سنی جائے، نبی اکرم ﷺ خاموش رہے، پھر ایک دوسرا شخص گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا : اللہ کی قسم ! یہ تو مسلمانوں کے فقراء میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیغام دے تو اس کا پیغام قبول نہ کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے، اور اگر کچھ کہے تو اس کی بات نہ سنی جائے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ اس پہلے جیسے زمین بھر آدمیوں سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٥ (٥٠٩١) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٢٠) (صحیح )
فقیر کی فضیلت۔
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ اپنے مومن، فقیر (محتاج) ، سوال سے بچنے والے اور اہل و عیال والے بندے کو محبوب رکھتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٥٩) (ضعیف) (حماد و موسیٰ بن عبیدہ دونوں ضعیف ہیں، اور قاسم بن مہران مجہول، بالخصوص قاسم کا عمران (رض) سے سماع ثابت نہیں ہے )
فقیروں کا مرتبہ۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومنوں میں سے محتاج اور غریب لوگ مالداروں سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، آخرت کا آدھا دن (دنیا کے) پانچ سو سال کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥١٠١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزہد ٣٧ (٢٣٥٤) (حسن صحیح )
فقیروں کا مرتبہ۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فقیر مہاجرین، مالدار مہاجرین سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف : ٤٢٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزھد ٣٧ (٢٣٥١) (حسن) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف و مضطرب الحدیث راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، تراجع الألبانی رقم : ٤٩٠ )
فقیروں کا مرتبہ۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ فقیر مہاجرین نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی شکایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالداروں کو ان پر فضیلت دی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اے فقراء کی جماعت ! کیا میں تم کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں کہ غریب مومن، مالدار مومن سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، (پانچ سو سال پہلے) پھر موسیٰ بن عبیدہ نے یہ آیت تلاوت کی : وإن يوما عند ربک كألف سنة مما تعدون اور بیشک ایک دن تیرے رب کے نزدیک ایک ہزار سال کے برابر ہے جسے تم شمار کرتے ہو (سورۃ الحج : ١٤٧ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٥٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٠) (ضعیف) (موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں )
فقیروں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب (رض) مسکینوں سے محبت کرتے تھے، ان کے ساتھ بیٹھتے، اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے، اور وہ لوگ بھی ان سے باتیں کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ابوالمساکین رکھی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٣) (ضعیف جدا) (سند میں اسماعیل بن ابراہیم ضعیف ہیں، ابراہیم المخزومی متروک) ۔ یہ حدیث اس سند سے گرچہ ضعیف ہے، لیکن جعفر (رض) کے بارے میں ابوہریرہ (رض) کا قول صحیح بخاری میں ہے کہ جعفر مسکینوں اور فقیروں کے حق میں بہت اچھے تھے، وہ ہمیں اپنے گھر میں موجود کھانا کھلاتے تھے، حتی کہ کپّی نکال کر ہمارے پاس لاتے، جس میں کچھ نہ ہوتا، تو ہم اس کو پھاڑ کر چاٹ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری/الأطعمة ٣٢ ( ٥٤٣٢ ) ۔
فقیروں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ مسکینوں اور فقیروں سے محبت کرو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی دعا میں کہتے ہوئے سنا ہے : اللهم أحيني مسكينا وأمتني مسكينا واحشرني في زمرة المساکين اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، مسکین بنا کر فوت کر، اور میرا حشر مسکینوں کے زمرے میں کر ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٤٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٦١) (صحیح) (سند میں یزید بن سنان ضعیف، اور ابو المبارک مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٠٨ و الإرواء : ٨٦١ )
فقیروں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت۔
خباب (رض) سے روایت ہے وہ ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي سے فتکون من الظالمين اور ان لوگوں کو اپنے پاس سے مت نکال جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں ... (سورة الأنعام : 52) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس تمیمی اور عیینہ بن حصن فزاری (رض) آئے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو صہیب، بلال، عمار، اور خباب رضی اللہ عنہم جیسے کمزور حال مسلمانوں کے ساتھ بیٹھا ہوا پایا، جب انہوں نے ان لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کے چاروں طرف دیکھا تو ان کو حقیر جانا، اور آپ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے تنہائی میں ملے، اور کہنے لگے : ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ایک الگ مجلس مقرر کریں تاکہ عرب کو ہماری بزرگی اور بڑائی معلوم ہو، آپ کے پاس عرب کے وفود آتے رہتے ہیں، اگر وہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا دیکھ لیں گے تو یہ ہمارے لیے باعث شرم ہے، جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ ان مسکینوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کیجئیے، جب ہم چلے جائیں تو آپ چاہیں تو پھر ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں اس سلسلے میں ایک تحریر لکھ دیجئیے، آپ ﷺ نے ایک کاغذ منگوایا اور علی (رض) کو لکھنے کے لیے بلایا، ہم ایک طرف بیٹھے تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر نازل ہوئے : ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ما عليك من حسابهم من شيء وما من حسابک عليهم من شيء فتطردهم فتکون من الظالمين اور ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کریں جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں، ان کے حساب کی کوئی ذمے داری تمہارے اوپر نہیں ہے اور نہ تمہارے حساب کی کوئی ذمے داری ان پر ہے (اگر تم ایسا کرو گے) تو تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے) پھر اللہ تعالیٰ نے اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن (رض) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : وكذلک فتنا بعضهم ببعض ليقولوا أهؤلاء من الله عليهم من بيننا أليس الله بأعلم بالشاکرين اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعے آزمایا تاکہ وہ کہیں : کیا اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے انہیں پر احسان کیا ہے، کیا اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو نہیں جانتا، (سورۃ الأنعام : ٥٣ ) پھر فرمایا : وإذا جاءک الذين يؤمنون بآياتنا فقل سلام عليكم كتب ربکم على نفسه الرحمة جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہو : تم پر سلامتی ہو، تمہارے رب نے اپنے اوپر رحم کو واجب کرلیا ہے (سورة الأنعام : 54) ۔ خباب (رض) کہتے ہیں کہ (اس آیت کے نزول کے بعد) ہم آپ ﷺ سے قریب ہوگئے یہاں تک کہ ہم نے اپنا گھٹنا، آپ کے گھٹنے پر رکھ دیا اور آپ ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، اور جب اٹھنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے، اور ہم کو چھوڑ دیتے (اس سلسلے میں) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : واصبر نفسک مع الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ولا تعد عيناک عنهم روکے رکھو اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو یاد کرتے ہیں صبح اور شام، اور اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں، اور اپنی نگاہیں ان کی طرف سے مت پھیرو (سورة الكهف : 28) ۔ یعنی مالداروں کے ساتھ مت بیٹھو، تم دنیا کی زندگی کی زینت چاہتے ہو، مت کہا مانو ان لوگوں کا جن کے دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دئیے) اس سے مراد اقرع و عیینہ ہیں واتبع هواه وکان أمره فرطا انہوں نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور ان کا معاملہ تباہ ہوگیا (سورة الكهف : 28) ، یہاں فرطا کا معنی بیان کرتے ہوئے خباب (رض) کہتے ہیں : هلاكا اقرع اور عیینہ میں سے ہر ایک کا معاملہ تباہ ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دو آدمیوں کی مثال اور دنیوی زندگی کی مثال بیان فرمائی، خباب (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھتے تو جب آپ کے کھڑے ہونے کا وقت آتا تو پہلے ہم اٹھتے تب آپ اٹھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٢، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٢) (صحیح )
فقیروں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت۔
سعد (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت ولا تطرد ہم چھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی : میرے، ابن مسعود، صہیب، عمار، مقداد اور بلال رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں، قریش کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے، آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکال دیجئیے، تو نبی اکرم ﷺ کے دل میں وہ بات داخل ہوگئی جو اللہ تعالیٰ کی مشیت میں تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه اور ان لوگوں کو مت نکالئے جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں (سورۃ الأنعام : ٥٢ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥ (٢٤١٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٦٥) (صحیح )
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تباہی ہے زیادہ مال والوں کے لیے سوائے اس کے جو مال اپنے اس طرف، اس طرف، اس طرف اور اس طرف خرچ کرے، دائیں، بائیں، اور اپنے آگے اور پیچھے چاروں طرف خرچ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٤٢، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٣) ، وقد أخرجہ : (حم ٣/٣١، ٥٢) (حسن) (سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن ابن ابی لیلیٰ دونوں ضعیف ہیں، شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٤١٢ )
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زیادہ مال والے لوگ قیامت کے دن سب سے کمتر درجہ والے ہوں گے، مگر جو مال کو اس طرح اور اس طرح کرے اور اسے حلال طریقے سے کمائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١١٩٧٨، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٣ (٦٤٤٣) ، مسند احمد (٥/١٥٢، ١٥٧) (حسن صحیح) وكسبه من طيب کا جملہ شاذ ہے، تراجع الألبانی : رقم : ١٦٩ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کثرت سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے۔
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زیادہ مال والے ہی سب سے نیچے درجے والے ہوں گے مگر جو اس طرح کرے، اس طرح کرے اور اس طرح کرے، (یعنی کثرت سے صدقہ و خیرات کرے) تین بار اشارہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤١٥٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٠، ٤٢٨) (حسن صحیح )
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن آئے تو میرے پاس اس میں سے کچھ باقی رہے، سوائے اس کے جو میں قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٤٣، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستقراض ٣ (٢٣٨٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٨ (٩٩١) ، مسند احمد (٢/٤١٩، ٤٥٤، ٥٠٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: باقی سب فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دوں، مال کا جوڑ رکھنا آپ ﷺ کو نہایت ناپسند تھا چناچہ دوسری روایت میں ہے کہ ایک دن آپ ﷺ عصر پڑھتے ہی لوگوں کی گردنوں پر سے پھاندتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے پاس تشریف لے گئے، جب آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کچھ مال میرے پاس بھول کر رہ گیا تھا، وہ یاد آیا تو میں نے اس کے تقسیم کردینے کے لیے اس قدر جلدی کی، نبی اکرم ﷺ کی نبوت پر سخاوت بھی عمدہ دلیل ہے کیونکہ غیر نبی میں ایسے سارے عمدہ اخلاق ہرگز جمع نہیں ہوسکتے۔
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
عمرو بن غیلان ثقفی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! جو مجھ پر ایمان لائے، میری تصدیق کرے، اور اس بات پر یقین رکھے کہ جو کچھ میں لایا ہوں وہی حق ہے، اور وہ تیری جانب سے ہے تو اس کے مال اور اولاد میں کمی کر، اپنی ملاقات کو اس کے لیے محبوب بنا دے، اس کی موت میں جلدی کر، اور جو مجھ پر ایمان نہ لائے، میری تصدیق نہ کرے، اور نہ اس بات پر یقین رکھے کہ جو میں لے کر آیا ہوں وہی حق ہے، تیری جانب سے اترا ہے، تو اس کے مال اور اولاد میں اضافہ کر دے، اور اس کی عمر لمبی کر ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٧) (ضعیف) (سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ عمرو بن غیلان کی صحبت ثابت نہیں ہے )
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
نقادہ اسدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک شخص کے پاس اونٹنی مانگنے کے لیے بھیجا، لیکن اس نے انکار کردیا، آپ ﷺ نے مجھے ایک دوسرے شخص کے پاس بھیجا تو اس نے ایک اونٹنی بھیج دی، جب رسول اللہ ﷺ نے اس کو دیکھا تو فرمایا : اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے اور جس نے اس کو بھیجا ہے اس میں بھی برکت عطا کرے ۔ نقادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : یہ بھی دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی برکت دے جو اسے لے آیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں جو اسے لایا ہے اس کو بھی برکت دے ، پھر آپ ﷺ نے حکم دیا تو اس کا دودھ دوہا گیا، اس نے بہت دودھ دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! (پہلے اونٹنی نہ دینے والا شخص) کا مال زیادہ کر دے، اور جس نے اونٹنی بھیجی ہے اس کو رزق یومیہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٠٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٧) (ضعیف) (سند میں براء سلیطی مجہول ہیں )
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہلاک ہوا دینار و درہم کا بندہ اور چادر اور شال کا بندہ، اگر اس کو یہ چیزیں دے دی جائیں تو خوش رہے، اور اگر نہ دی جائیں تو (اپنا عہد) پورا نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٧٠ (٢٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٤٨) (صحیح )
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہلاک ہوا دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور شال کا بندہ، وہ ہلاک ہو اور (جہنم میں) اوندھے منہ گرے، اگر اس کو کوئی کانٹا چبھ جائے تو کبھی نہ نکلے ۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٢٢) (صحیح )
قناعت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالداری دنیاوی ساز و سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل مالداری تو دل کی بےنیازی اور آسودگی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤٠ (١٠٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٥ (٦٤٤٦) ، سنن الترمذی/الزھد ٤٠ (٢٣٧٣) ، مسند احمد (٢/٢٤٣، ٢٦١، ٣١٥، ٤٣٨، ٤٤٣، ٥٣٩) (صحیح )
قناعت کا بیان۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کامیاب ہوگیا وہ شخص جس کو اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی، اور ضرورت کے مطابق روزی ملی، اور اس نے اس پر قناعت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤٣ (١٠٥٤) ، سنن الترمذی/الزھد ٣٥ (٢٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٨، ١٧٢) (صحیح )
قناعت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا اے اللہ ! آل محمد کو بہ قدر ضرورت روزی دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٧ (٦٤٦٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٣ (١٠٥٥) ، سنن الترمذی/الزھد ٣٨ (٢٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٢، ٤٤٦، ٤٨١) (صحیح )
قناعت کا بیان۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن کوئی مالدار یا فقیر ایسا نہ ہوگا جو یہ تمنا نہ کرے کہ اس کو دنیا میں بہ قدر ضرورت روزی ملی ہوتی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٧، ١٦٧) (ضعیف جدا) (سند میں نفیع متروک راوی ہے، ابن معین نے اس کی تکذیب کی ہے )
قناعت کا بیان۔
عبیداللہ بن محصن انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کا جسم صحیح سلامت ہو، اس کی جان امن و امان میں ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لیے دنیا اکٹھی ہوگئی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الز ھد ٣٤ (٢٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٩) (حسن) (سند میں سلمہ بن عبید اللہ مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣١٨ )
قناعت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح امید ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے ۔ ابومعاویہ نے فوقکم کی جگہ عليكم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزھد (٢٩٦٣) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٨ (٥٢١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٤، ٤٨١) (صحیح )
قناعت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٠ (٢٥٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٨٤، ٥٣٩) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کی زندگی کے متعلق بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم آل محمد ﷺ مہینہ ایسے گزارتے تھے کہ ہمارے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، سوائے کھجور اور پانی کے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ابن نمیر نے نمکث شهرا کے بجائے نلبث شهرا کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ٢٨ (٢٩٧٢) ، (تحفةالأشراف : ١٦٨٢٣، ١٦٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الھبة ١ (٢٥٦٧) ، الرقاق ١٦ (٦٤٥٨) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٣٤ (٢٤٧١) ، مسند احمد (٦/١٨٢، ٣٣٧) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کی زندگی کے متعلق بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ کبھی کبھی آل محمد ﷺ پر پورا مہینہ ایسا گزر جاتا تھا کہ ان کے گھروں میں سے کسی گھر میں دھواں نہ دیکھا جاتا تھا، ابوسلمہ نے پوچھا : پھر وہ کیا کھاتے تھے ؟ کہا : دو کالی چیزیں یعنی کھجور اور پانی، البتہ ہمارے کچھ انصاری پڑوسی تھے، جو صحیح معنوں میں پڑوسی تھے، ان کی کچھ پالتو بکریاں تھیں، وہ آپ کو ان کا دودھ بھیج دیا کرتے تھے۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے نو گھر تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٣، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨٢، ٤٣٧) (حسن صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کی زندگی کے متعلق بیان۔
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دن میں بھوک سے کروٹیں بدلتے رہتے تھے، آپ کو خراب اور ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے اپنا پیٹ بھر لیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزھد (٢٩٧٨) ، سنن الترمذی/الزھد ٣٩ (٢٣٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤، ٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نو بیبیوں میں سے سب کا یہی حال تھا کہ ایک ایک مہینے تک ان کے یہاں چولہا ٹھنڈا رہتا، کھجور پانی پر گزر بسر کرتے، کبھی پڑوسی دودھ بھیجتے تو آپ ﷺ دودھ پی لیتے، اللہ اللہ جو بادشاہ ہو تمام دنیا کا اور سارے زمانے کے دنیا دار بادشاہ اور رئیس اس کے غلام کے غلام ہوں وہ اس طرح سے گزارا کرے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کی زندگی کے متعلق بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو باربار فرماتے سنا ہے : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! آل محمد کے پاس کسی دن ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور نہیں ہوتا، اور ان دنوں آپ ﷺ کی نو بیویاں تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٨، ومصباح الزجاجة : ١٤٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ١٤ (٢٠٦٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٧ (١٢١٥) ، مسند احمد (٣/١٣٣، ١٨٠، ٢٠٨، ٢١١، ٢٣٢) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کی زندگی کے متعلق بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ سے زیادہ نہیں رہا، یا آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ نہیں رہا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٤٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٢) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے، ابو عبیدہ نے اپنے والد عبد اللہ بن مسعود (رض) سے سنا نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٤٠٤ )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کی زندگی کے متعلق بیان۔
سلیمان بن صرد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، اور ہم تین دن تک ٹھہرے رہے مگر ہمیں کھانا نہ ملا جو ہم آپ کو کھلاتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٣) (ضعیف) (سند میں عبدالاکرم ضعیف راوی ہے، اور ان کے والد تابعی مبہم ہیں )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کی زندگی کے متعلق بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس تازہ گرم کھانا لایا گیا، آپ ﷺ نے اسے کھایا، جب فارغ ہوئے تو فرمایا : الحمدللہ میرے پیٹ میں اتنے اور اتنے دن سے گرم تازہ کھانا نہیں گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٤٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٤) (ضعیف) (سند میں سوید ضعیف راوی ہے، اور اعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کا نیند کے لئے بستر کیسا تھا ؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا بچھونا چمڑے کا تھا، اور اس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي خالد أخرجہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٥ (٤١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٥١) ، وحدیث عبد اللہ بن نمیر أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ١٧ (٢٠٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٦ (٦٤٥٦) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٧ (١٧٦١) ، صفة القیامة ٣٢ (٢٤٦٩) ، مسند احمد (٦/٤٨، ٥٦، ٧٣، ١٠٨، ٢٠٧) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کا نیند کے لئے بستر کیسا تھا ؟
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ علی اور فاطمہ (رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، وہ دونوں اپنی خمیل (سفید اونی چادر کو کہتے ہیں) اوڑھے ہوئے تھے، نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کو یہ چادر تھی، اذخر کی گھاس بھرا ایک تکیہ اور پانی رکھنے کی ایک مشک شادی کے وقت دی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النکاح ٨١ (٣٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٤، ٩٣، ١٠٨) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کا نیند کے لئے بستر کیسا تھا ؟
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک تہہ بند پہنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ کوئی چیز آپ کے جسم پر نہیں ہے، چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے تھے، اور میں نے دیکھا کہ ایک صاع کے بقدر تھوڑا سا جو تھا، کمرہ کے ایک کونے میں ببول کے پتے تھے، اور ایک مشک لٹک رہی تھی، میری آنکھیں بھر آئیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ابن خطاب : تم کیوں رو رہے ہو ؟ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میں کیوں نہ روؤں، اس چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے ہیں، یہ آپ کا اثاثہ (پونجی) ہے جس میں بس یہ یہ چیزیں نظر آرہی ہیں، اور وہ قیصر و کسریٰ پھلوں اور نہروں میں آرام سے رہ رہے ہیں، آپ تو اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے برگزیدہ ہیں، اور یہ آپ کی سارا اثاثہ (پونجی) ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابن خطاب ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ہمارے لیے یہ سب کچھ آخرت میں ہو، اور ان کے لیے دنیا میں ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: راضی ہوں، یہ سن کر عمر (رض) کو تسلی اور تشفی ہوگئی۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کا نیند کے لئے بستر کیسا تھا ؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی (فاطمہ) میرے پاس رخصت کی گئیں تو رخصتی کی رات ہمارا بستر صرف بھیڑ کی ایک کھال تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٥) (ضعیف) (سند میں حارث اعور اور مجالد دونوں ضعیف ہیں )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی زندگی کیسے گزری ؟۔
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صدقہ و خیرات کا حکم دیتے تو ہم میں سے ایک شخص حمالی کرنے جاتا، یہاں تک کہ ایک مد کما کر لاتا، (اور صدقہ کردیتا) اور آج ان میں سے ایک کے پاس ایک لاکھ نقد موجود ہے، ابو وائل شقیق کہتے ہیں : گویا کہ وہ اپنی ہی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٩ (١٤١٥، ١٤١٦) ، الإجارة ١٣ (٢٢٧٣) ، تفسیر التوبة ١١ (٤٦٦٨، ٤٦٦٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢١ (١٠١٨) ، سنن النسائی/الزکاة ٤٩ (٢٥٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٣) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی زندگی کیسے گزری ؟۔
خالد بن عمیر کہتے ہیں کہ عتبہ بن غزوان (رض) نے ہمیں منبر پر خطبہ سنایا اور کہا : میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب میں ان سات آدمیوں میں سے ایک تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوا کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ (اس کے پتے کھانے سے) ہمارے مسوڑھے زخمی ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ٢٩٦٧) ، سنن الترمذی/صفة جہنم ٢ (٢٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٤، ٥/٦١) (صحیح )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی زندگی کیسے گزری ؟۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کو بھوک لگی اور وہ سات آدمی تھے پھر نبی اکرم ﷺ نے مجھے سات کھجوریں دیں، ہر ایک کے لیے ایک ایک کھجور تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٣ (٥٤١١) ، سنن الترمذی/صفة جہنم ٣٤ (٢٤٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٨، ٣٥٣، ٤١٥) (صحیح) (حدیث میں لکل إنسان تمرة کا لفظ شاذ ہے، اس لئے کہ صحیح حدیث میں فأعطاني لکل إنسان سبع تمرات آیا ہے کمافی صحیح البخاری ) وضاحت : ١ ؎: صحیح بخاری میں ہے کہ سب کو سات سات کھجوریں دیں۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی زندگی کیسے گزری ؟۔
زبیر بن عوام (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت : ثم لتسألن يومئذ عن النعيم پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا (سورة اتکاثر : 8) نازل ہوئی، تو انہوں نے کہا : کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟ یہاں تو صرف دو کالی چیزیں : پانی اور کھجور ہی میسر ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : عنقریب نعمتیں حاصل ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٨٨ (٣٣٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٣) (حسن )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی زندگی کیسے گزری ؟۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم تین سو آدمیوں کو روانہ کیا، ہم نے اپنے توشے اپنی گردنوں پر لاد رکھے تھے، ہمارا توشہ ختم ہوگیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کو ایک کھجور ملتی، کسی نے پوچھا : ابوعبداللہ ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہوگا ؟ جواب دیا : جب وہ بھی ختم ہوگئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، ہم سمندر تک آئے، آخر ہمیں ایک مچھلی ملی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ١ (٢٤٨٣) ، الجہاد ١٢٤ (٢٩٨٣) ، المغازي ٦٥ (٤٣٦٠) ، الصید ١٢ (١٩٤٩٣) ، صحیح مسلم/الصید ٤ (١٩٣٥) ، سنن النسائی/الصید ٣٥ (٤٣٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/القیامة ٣٤ (٢٤٧٥) ، موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ ١٠ (٢٤) ، سنن الدارمی/الصید ٦ (٢٠٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور موٹے تازے ہوگئے، مچھلی اتنی بڑی تھی کہ اس کی پیٹھ کی دونوں ہڈیوں میں سے اونٹ نکل جاتا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب مدینہ لوٹ کر آئے تو رسول اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ نے تم کو کھانا بھیجا تھا ۔
عمارت تعمیر کرنا؟
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزرے اس وقت ہم اپنی ایک جھونپڑی درست کر رہے تھے، آپ ﷺ نے سوال کیا : یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : یہ ہماری جھونپڑی ہے، ہم اس کو درست کر رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے خیال میں موت اس سے بھی جلد آسکتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٦٩ (٥٢٣٥، ٥٢٣٦) ، سنن الترمذی/الزہد ٢٥ (٢٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦١) (صحیح )
عمارت تعمیر کرنا؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کے دروازے پر بنے گنبد پر سے گزرے، تو سوال کیا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ گول گھر ہے، اس کو فلاں نے بنایا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مال اس طرح خرچ ہوگا، وہ اپنے مالک کے لیے روز قیامت وبال ہوگا، انصاری کو اس کی خبر پہنچی، تو اس نے اس گھر کو ڈھا دیا، جب دوبارہ نبی اکرم ﷺ وہاں سے گزرے، تو دیکھا کہ وہاں وہ بنگلہ نہیں ہے، تو اس کے بارے میں سوال فرمایا تو بتایا گیا کہ جب اس کو آپ کی کہی ہوئی بات کی خبر پہنچی، تو اس نے اسے ڈھا دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے، اللہ اس پر رحم کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١٦٩ (٥٢٣٧) مطولاً (صحیح) (سند میں عیسیٰ بن عبد الاعلی مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٨٣٠ ، سنن ابی داود : میں يرحمه الله کا لفظ نہیں ہے اس کی جگہ پر یہ الفاظ ہیں : كل بناء وبال على صاحبه إلا مالاً یعنی إلا ما لا بد منه )
عمارت تعمیر کرنا؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دیکھا کہ میں نے ایک گھر بنایا جو مجھے بارش اور دھوپ سے بچائے، اور اللہ کی مخلوق نے میری اس میں (گھر بنانے میں) کوئی مدد نہیں کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٥٣ (٦٣٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٧٦) (صحیح )
عمارت تعمیر کرنا؟
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ ہم خباب (رض) کی عیادت کے لیے آئے، تو آپ کہنے لگے کہ میرا مرض طویل ہوگیا ہے، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ تم موت کی تمنا نہ کرو تو میں ضرور اس کی آرزو کرتا، اور آپ ﷺ نے فرمایا : بندے کو ہر خرچ میں ثواب ملتا ہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے ، یا فرمایا : عمارت میں خرچ کرنے کا ثواب نہیں ملتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣ (٩٧٠) ، صفة القیامة ٤٠ (٢٨٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٠، ١١١، ٦/٣٩٥) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١ ٢٨٣ )
توکل اور یقین کا بیان۔
عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسے ہی توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزھد ٣٣ (٢٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠، ٥٢) (صحیح )
توکل اور یقین کا بیان۔
ابنائے خالد حبہ اور سواء (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے، آپ کچھ مرمت کا کام کر رہے تھے تو ہم نے اس میں آپ کی مدد کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم روزی کی طرف سے مایوس نہ ہونا جب تک تمہارے سر ہلتے رہیں، بیشک انسان کی ماں اس کو لال جنتی ہے، اس پر کھال نہیں ہوتی پھر اللہ تعالیٰ اس کو رزق دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٢، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٩) (ضعیف) (سلام بن شرحبیل لین الحدیث ہیں )
توکل اور یقین کا بیان۔
عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن آدم کے دل میں دنیا کی ہر چیز کی خواہش ہوتی ہے، جس نے اپنا دل تمام خواہشات کے پیچھے لگا دیا، تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پروا نہیں کہ وہ اس کو کس وادی میں ہلاک کرے، اور جس نے اللہ پر بھروسہ کرلیا تو ہر طرح کی خواہش کی فکر اس سے جاتی رہے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤١، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٨) (ضعیف) (سند میں صالح بن زریق مجہول ہیں، اور ان کی حدیث منکر ہے، قالہ الذہبی، اور سعید بن عبدالرحمن ضعیف ہیں )
توکل اور یقین کا بیان۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان (حسن ظن) رکھتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ١٩ (٢٨٧٧) ، سنن ابی داود/الجنائز ١٧ (٣١١٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٣، ٣٢٥، ٣٣٠، ٣٣٤، ٣٩٠) (صحیح )
توکل اور یقین کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور و ناتواں مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں بھلائی ہے، تم اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں فائدہ پہنچائے، اور عاجز نہ بنو، اگر مغلوب ہوجاؤ تو کہو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے، جو اس نے چاہا کیا، اور لفظ اگر مگر سے گریز کرو، کیونکہ اگر مگر شیطان کے کام کا دروازہ کھولتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٢) ، قد أخرجہ : صحیح مسلم/القدر ٨ (٢٦٦٤) ، مسند احمد (٢/٣٦٦، ٣٧٠) (صحیح )
توکل اور یقین کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/العلم ١٩ (٣٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٤٠) (ضعیف جدا) (سند میں ابراہیم بن الفضل ضعیف اور منکر الحدیث راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بہ نسبت کافر کے مسلمان کو حکمت حاصل کرنے کا زیادہ شوق ہونا چاہیے، افسوس ہے کہ ایک مدت دراز سے مسلمانوں کو حکمت کا شوق جاتا رہا نہ دنیا کی حکمت سیکھتے ہیں نہ دین کی، اور کفار حکمت یعنی دنیاوی علوم اور سائنس وغیرہ سیکھ کر ان پر غالب ہوگئے۔
توکل اور یقین کا بیان۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں : صحت و تندرستی اور فرصت و فراغت (کے ایام) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١ (٦٤١٢) ، سنن الترمذی/الزہد ١ تعلیقا (٢٣٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٨، ٢٤٤) ، سنن الدارمی/الرقاق ٢ (٢٧٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کی قدر نہیں کرتے اور یوں ہی ضائع کرتے ہیں۔ اور جب دونوں نعمتیں اللہ تعالیٰ دے تو جلدی خوب عبادت کرلے، علم حاصل کرے، ایسا نہ ہو کہ یہ وقت گزر جائے اور فکر اور بیماری میں گرفتار ہو پھر کچھ نہ ہو سکے گا۔
توکل اور یقین کا بیان۔
ابوایوب (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آ کر کہا : اللہ کے رسول ! مجھے کچھ بتائیے، اور مختصر نصیحت کیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو ایسی نماز پڑھو گویا کہ دنیا سے جا رہے ہو، اور کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالو جس کے لیے آئندہ عذر کرنا پڑے، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے پوری طرح مایوس ہو جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٧٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١٢) (حسن) (سند میں عثمان بن جبیر مقبول عند المتابعہ ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٤٠٠ )
توکل اور یقین کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مجلس میں بیٹھ کر حکمت کی باتیں سنے، پھر اپنے ساتھی سے صرف بری بات بیان کرے، تو اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کسی چرواہے کے پاس جائے، اور کہے : اے چرواہے ! مجھے اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ذبح کرنے کے لیے دو ، چرواہا کہے : جاؤ اور ان میں سب سے اچھی بکری کا کان پکڑ کرلے جاؤ، تو وہ جائے اور بکریوں کی نگرانی کرنے والے کتے کا کان پکڑ کرلے جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٣، ٤٠٥، ٥٠٨) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف اور اوس بن خالد مجہول راوی ہیں ) اس سند سے بھی حماد نے اسی طرح روایت کی ہے، اس میں بأذن خيرها کے بجائے بأذن خيرها شاة کا لفظ ہے۔
تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص جنت میں نہیں داخل ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر و غرور ہوگا اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث (رقم : ٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو معلوم ہوا کہ اگر رائی کے دانے کے برابر بھی آدمی میں ایمان ہوگا تو وہ تکبر و غرور نہ کرے گا اور جب وہ غرور کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ذرہ برابر بھی اس میں ایمان نہیں ہے، اور اس کا جنت میں جانا مشکل ہے، اس لیے آدمی کو اس سے ممکن طور پر دور رہنا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ سے اس سے چھٹکارا پانے کی دعا کرنی چاہیے، تاکہ آدمی صاف دل اور متواضع طبیعت کے ساتھ دنیا سے جائے، اور ایمان اور عمل صالح کی برکت سے اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور جنت اس کا آخری ٹھکانہ ہو۔
تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بڑائی (کبریائی) میری چادر ہے، اور عظمت میرا تہہ بند، جو ان دونوں میں سے کسی ایک کے لیے بھی مجھ سے جھگڑے، (یعنی ان میں سے کسی ایک کا بھی دعویٰ کرے) میں اس کو جہنم میں ڈال دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٢٩ (٤٠٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البروالصلة ٣٨ (٢٦٢٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٨، ٣٧٦، ٤١٤ ھ ٤٢٧، ٤٤٢) (صحیح )
تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے، اور عظمت میرا تہہ بند ہے، جو ان دونوں میں سے ایک کے لیے بھی مجھ سے جھگڑا کرے گا، میں اس کو آگ میں ڈال دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٥٧٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٨١) (صحیح) (سند میں عطاء بن السائب ہیں، آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، کما تقدم، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٥٤١ )
تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان۔
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے ایک درجہ تواضع کیا، تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا، اور جو اللہ تعالیٰ پر ایک درجہ تکبر اختیار کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے کر دے گا، یہاں تک کہ اس کو تمام لوگوں سے نیچے درجہ میں کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٦٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧٦) (ضعیف) (سند میں دراج ہیں، جو ابو الہیثم سے روایت حدیث میں ضعیف ہیں، لیکن پہلا جملہ صحیح مسلم میں آیا ہے، لفظ درجة کے بغیر، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣٢٨ )
تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ اگر اہل مدینہ میں سے کوئی ایک باندی رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑتی تو آپ ﷺ اس سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے، یہاں تک کہ وہ آپ کو اپنی ضرورت کے لیے جہاں چاہتی لے جاتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧٤، ٢١٥) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ آپ کے تواضع کا حال تھا کہ ایک لونڈی کے ساتھ تشریف لے جاتے، اور اس کا کام کردیتے حالانکہ تمام مخلوقات میں آپ افضل اور اعلیٰ تھے، اور بڑے بڑے دنیا کے بادشاہ درجہ میں آپ کے غلام کے غلام سے بھی کم تھے۔
تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مریض کی عیادت کرتے، جنازے کے پیچھے جاتے، غلام کی دعوت قبول کرلیتے، گدھے کی سواری کرتے، جس دن بنو قریظہ اور بنو نضیر کا واقعہ ہوا، آپ گدھے پر سوار تھے، خیبر کے دن بھی ایک ایسے گدھے پر سوار تھے جس کی رسی کھجور کی چھال کی تھی، اور آپ کے نیچے کھجور کی چھال کا زین تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣٢ (١٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨) (ضعیف) (سند میں مسلم الاعور ضعیف ہیں )
تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان۔
عیاض بن حمار (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع و فروتنی اختیار کرو، یہاں تک کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٤٨ (٤٨٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنةوصفة نعیمہا ١٦ (٢٨٦٥) (صحیح )
شرم کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے، اور جب آپ کو کوئی چیز ناگوار لگتی تو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوجاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٦٢، ٣٥٦٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ١٦ (٢٣٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٧١، ٧٩، ٨٨، ٩١، ٩٢) (صحیح )
شرم کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٤) (حسن) (سند میں معاویہ بن یحییٰ صدفی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٩٤٠ )
شرم کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے، اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٥١، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٥) (حسن) (صالح بن حسان متروک اور سعید الوراق ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٩٤٠ )
شرم کا بیان
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گزشتہ کلام نبوت میں سے جو باتیں لوگوں کو ملی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں حیاء نہ ہو تو جو چاہے کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٤ (٣٤٨٣) ، سنن ابی داود/الأدب ٧ (٤٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢١، ١٢٢، ٥/٢٧٣) (صحیح )
شرم کا بیان
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حیاء ایمان سے ہے، اور ایمان کا بدلہ جنت ہے، اور فحش گوئی جفا (ظلم و زیادتی) ہے اور جفا (ظلم زیادتی) کا بدلہ جہنم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٦) (صحیح) (سند میں حسن بصری ہیں، جن کا سماع ابو بکرة (رض) سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٤٩٥ )
شرم کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بےحیائی جس چیز میں بھی ہو اس کو عیب دار بنا دے گی، اور حیاء جس چیز میں ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البروالصلة ٤٧ (١٩٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٥) (صحیح )
حلم اور بردباری کا بیان۔
معاذ بن انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے غصے پر قابو پا لیا اس حال میں کہ وہ اس کے کر گزرنے پر قادر تھا، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا، اور اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے اپنے لیے چن لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٣ (٤٧٧٧) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٧٤ (٢٠٢١) ، وصفة القیامة ٤٨ (٢٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٨، ٤٤٠) (حسن )
حلم اور بردباری کا بیان۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس قبیلہ عبدالقیس کے وفود آئے ہیں، اور کوئی اس وقت نظر نہیں آ رہا تھا، ہم اسی حال میں تھے کہ وہ آپہنچے، اترے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آگئے، اشج عصری (رض) باقی رہ گئے، وہ بعد میں آئے، ایک مقام پر اترے، اپنی اونٹنی کو بٹھایا، اپنے کپڑے ایک طرف رکھے پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اشج ! تم میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے : ایک تو حلم و بردباری، دوسری طمانینت و سہولت، اشج (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ صفات میری خلقت میں ہے یا نئی پیدا ہوئی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، یہ پیدائشی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦٥، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٧) (ضعیف جدا) (سند میں عمارہ بن جو ین متروک ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ حلم اور وقار انسان میں فطری ہوتا ہے، اسی طرح غصہ اور جلد بازی بھی پیدائشی فطری ہوتے ہیں، لیکن اگر آدمی محنت کرے اور نفس پر بار ڈالے تو بری صفات اور برے اخلاق دور ہوسکتے ہیں، یا کم ہوسکتے ہیں، محققین علماء کا یہی قول ہے، اور اگر برے اخلاق کا علاج ممکن نہ ہوتا تو تعلیم اخلاق، محنت و ریاضت اور مجاہدہ کا کچھ فائدہ ہی نہ ہوتا، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ فطری عیوب بہت مشکل سے جاتے ہیں، یا کم ہوتے ہیں۔
حلم اور بردباری کا بیان۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اشج عصری (رض) سے فرمایا : تم میں دو خصلتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں : ایک حلم اور دوسری حیاء ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٣١، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البروالصلة ٦٦ (٢٠١١) (صحیح) (سند میں عباس بن فضل انصاری متروک ہے، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی بناء پر صحیح ہے، لیکن لفظ الاناة کے ساتھ )
حلم اور بردباری کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی گھونٹ پینے کا ثواب اللہ تعالیٰ کے یہاں اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے غصہ کا گھونٹ پینے کا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٩٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢٨) (صحیح )
غم اور رونے کا بیان۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، اور سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے، بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ چرچرائے، اس میں چار انگل کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور سجدے میں رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم ! اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ، اور تم بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہوتے، اور تم میدانوں کی طرف نکل جاتے اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے ، اللہ کی قسم ! میری تمنا ہے کہ میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٨٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزھد ٩ (٢٣١٢) ، مسند احمد (٣/١٧٣) (حسن) (واللہ لوددت کے بغیر حدیث حسن ہے، یہ ابوذر (رض) کا قول ہے، جیسا کہ مسند احمد میں بصراحت آیا ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٢٢ )
غم اور رونے کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٥ (٤٢٦) ، مسند احمد (٣/١٠٢، ١٢٦، ١٥٤، ١٩٣، ٢١٠، ٢١٧، ٢٤٠، ٢٤٥، ٢٥١، ٢٦٨، ٢٩٠) ، سنن الدارمی/الرقاق ٢٦ (٢٧٧٨) (صحیح )
غم اور رونے کا بیان۔
عامر بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ان کے والد عبداللہ بن زبیر (رض) نے ان سے بیان کیا کہ ان کے اسلام اور اس آیت ولا يکونوا کالذين أوتوا الکتاب من قبل فطال عليهم الأمد فقست قلوبهم وكثير منهم فاسقون اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب عطا کی گئی، ان پر مدت طویل ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں (سورة الحديد : 16) کے نزول کے درمیان جس میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا ہے صرف چار سال کا وقفہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان لوگوں کی طرح نہ ہو جن کو اگلے زمانہ میں کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر مدت دراز گزری تو ان کے دل سخت ہوگئے ان میں بہت سے لوگ فاسق ہیں۔
غم اور رونے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زیادہ نہ ہنسا کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٤٩١) (صحیح )
غم اور رونے کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو ، تو میں نے آپ کے سامنے سورة نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت فكيف إذا جئنا من کل أمة بشهيد وجئنا بک على هؤلاء شهيدا تو اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور پھر ہم تم کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے (سورة النساء : 41) پر پہنچا تو میں نے آپ ﷺ کی طرف دیکھا آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ٥ (٣٠٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٩ (٤٥٨٢) ، فضائل القرآن ٣٢ (٥٠٤٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٠ (٨٠٠) ، سنن ابی داود/العلم ١٣ (٣٦٦٨) ، مسند احمد (١/٣٠٨، ٤٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اپنی امت کے برے اعمال کا خیال کر کے اور اس پر کہ مجھے ان پر گواہی دینی پڑے گی، اے مسلمانو ! رسول اکرم ﷺ سے شرم کرو اور کوشش کرو کہ رسول اکرم ﷺ تمہارے نیک اعمال کے گواہ ہوں، اور برے اعمال کر کے آپ کو رنج مت دو ، اور ضد نفسانیت اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دو ، جو طریقہ حق ہے یعنی اتباع قرآن اور حدیث اس کو اختیار کرو تمہارے نبی تم سے راضی رہیں گے۔
غم اور رونے کا بیان۔
براء (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک جنازے میں تھے، آپ قبر کے کنارے بیٹھ گئے، اور رونے لگے یہاں تک کہ مٹی گیلی ہوگئی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : میرے بھائیو ! اس جیسی کے لیے تیاری کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩١٢، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٩٤) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٥٢٧ ) وضاحت : ١ ؎: تم اس طرح ایک دن تنگ و تاریک قبر میں ڈالے جاؤ گے، نہ کوئی یار ہوگا، نہ مددگار، نئی راہ اور راہ بتانے والا کوئی نہیں، نہ رفیق صرف اپنے نیک اعمال رفیق ہوں گے، باقی سب چھٹ جائیں گے، مال متاع آل و اولاد، وغیرہ سب یہیں رہ جائیں گے، اور مرنے کے بعد تم کو مٹی میں دبا کے لوٹ کر عیش کریں گے، جب یہ حال ہے تو تم ان کی محبت میں اللہ تعالیٰ کو مت بھولو، نیک اعمال کو ہرگز نہ چھوڑو، اس کو اپنا محبوب اور رفیق سمجھو، جو رشتہ داروں، دوستوں اور بیوی بچوں سے ہزار درجہ بہتر ہے، وہ تمہارا ساتھ کبھی نہ چھوڑے گا، جب نبی اکرم ﷺ دیکھ کر اتنا روئے کہ زمین تر ہوگئی حالانکہ آپ کو اپنی نجات کا یقین تھا، تو ہم اگر آنسوؤں کی ندی بہا دیں بلکہ ساری عمر رویا کریں تو زیبا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ وہاں ہمارا کیا حال ہوگا۔ اللهم اغفر لنا وارحمنا، آمين۔
غم اور رونے کا بیان۔
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم رویا کرو، اگر رونا نہ آئے تو تکلف کر کے رؤو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٠، و مصباح الزجاجة :) (ضعیف) (سند میں ابو رافع اور عبد الرحمن بن سائب دونوں ضعیف ہیں )
غم اور رونے کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس مومن کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے آنسو بہہ نکلیں، خواہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، پھر وہ اس کے رخساروں پر بہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم پر حرام کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣٤٤، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٣) (ضعیف) (سند میں حماد بن ابی حمید الزرقی ضعیف راوی ہیں )
عمل کے قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! والذين يؤتون ما آتوا وقلوبهم وجلة (سورة الومنون : 60) سے کیا وہ لوگ مراد ہیں جو زنا کرتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور شراب پیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں : ابوبکر کی بیٹی یا آپ ﷺ نے فرمایا : صدیق کی بیٹی ! اس سے مراد وہ شخص ہے جو روزے رکھتا ہے، صدقہ دیتا ہے، اور نماز پڑھتا ہے، اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کا یہ عمل قبول نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٢٤ (٣١٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥٩، ٢٠٥) (حسن )
عمل کے قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنا۔
معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اعمال برتن کی طرح ہیں، جب اس میں نیچے اچھا ہوگا تو اوپر بھی اچھا ہوگا، اور جب نیچے خراب ہوگا تو اوپر بھی خراب ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٤٥٨، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٤) (صحیح) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٣٤ ) وضاحت : ١ ؎: پس جو اعمال خلوص اور صدق دل سے کئے جائیں ان کی تاثیر آدمی پر پڑتی ہے، اور لوگ خواہ مخواہ ایسے شخص کو اچھا سمجھتے ہیں، لیکن جو اعمال ریا کی نیت سے کئے جائیں اس کے کرنے والے پر نور نہیں ہوتا، اور تامل سے اس کا خبیث باطن عاقل آدمی کو ظاہر ہوتا ہے۔
عمل کے قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک جب بندہ سب کے سامنے نماز پڑھتا ہے تو اچھی طرح پڑھتا ہے، اور تنہائی میں نماز پڑھتا ہے تو بھی اچھی طرح پڑھتا ہے، (ایسے ہی بندے کے متعلق) اللہ عزوجل فرماتا ہے : یہ حقیقت میں میرا بندہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٣٦، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٣٧) (ضعیف) (سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
عمل کے قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میانہ روی اختیار کرو، اور سیدھے راستے پر رہو، کیونکہ تم میں سے کسی کو بھی اس کا عمل نجات دلانے والا نہیں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اور مجھے بھی نہیں ! مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت وفضل سے مجھے ڈھانپ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩٣، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٦) (صحیح) (سند میں شریک بن عبداللہ القاضی متفق علیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٦٠٢ ) وضاحت : ١ ؎: قاربوا اور سددوا دونوں کے معنی قریب ہی کے ہیں، یعنی عبادت میں اعتدال کرو اور میانہ روی پر مضبوطی سے رہو، جہاں تک خوشی سے ہو سکے عبادت کرو، جب دل اکتا جائے تو عبادت بند کر دو ، بعضوں نے کہا : قاربوا کا یہ معنی ہے کہ عبادت سے اللہ تعالیٰ کی قربت چاہو، بعضوں نے کہا : کثرت عبادت سے قرب حاصل کرو لیکن صحیح وہی ترجمہ ہے جو اوپر لکھا گیا اور وہی مناسب ہے اس عبادت کے، کسی کو اس کے اعمال نجات نہیں دیں گے، اس حدیث سے فخر اور تکبر کی جڑ کٹ گئی، اگر کوئی عابد اور زہد ہو تو بھی اپنی عبادت پر گھمنڈ نہ کرے، اور گناہگاروں کو ذلیل نہ سمجھے اس لئے کہ نجات فضل اور رحمت الہی پر موقوف ہے، لیکن اس میں شک نہیں کہ اعمال صالحہ اللہ کے فضل و احسان اور اس کی رحمت و رأفت کا قرینہ ہیں، اور ان سے نجات کی امید قوی ہوئی ہے باقی اختیار مالک کو ہے اللہم اغفرلنا وارحمنا۔
ریا اور شہرت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : میں تمام شرکاء کے شرک سے مستغنی اور بےنیاز ہوں، جس نے کوئی عمل کیا، اور اس میں میرے علاوہ کسی اور کو شریک کیا، تو میں اس سے بری ہوں، اور وہ اسی کے لیے ہے جس کو اس نے شریک کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٧، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزھد ٥ (٢٩٨٥) (صحیح )
ریا اور شہرت کا بیان۔
سعد بن ابی فضالہ انصاری (رض) (صحابی تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اگلوں اور پچھلوں کو جمع کرے گا، اس دن جس میں کوئی شک نہیں ہے، تو ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے کوئی کام اللہ تعالیٰ کے لیے کیا، اور اس میں کسی کو شریک کیا، تو وہ اپنا بدلہ شرکاء سے طلب کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام شریکوں کی شرکت سے بےنیاز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ١٩ (٣١٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٥، ٣/٤٦٦) (حسن) (سند میں زیاد بن میناء ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : المشکاة : ٥٣١٨ )
ریا اور شہرت کا بیان۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس نکل کر آئے، ہم مسیح دجال کا تذکرہ کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تم کو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جو میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے ؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ پوشیدہ شرک ہے جو یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے، تو اپنی نماز کو صرف اس وجہ سے خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٢٩، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠) (حسن) (سند میں کیثر بن زید اور ربیح بن عبد الرحمن میں ضعف ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور جب کوئی شخص نہ ہو تو جلدی جلدی پڑھ لے، معاذ اللہ، ریا کتنی بری بلا ہے اس کو شرک فرمایا جسے بخشا نہ جائے گا، ایسے ہی ریا کا عمل کبھی قبول نہ ہوگا : فمن کان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا ولا يشرک بعبادة ربه أحدا (سورة الكهف : 110) اس آیت میں شرک سے ریا ہی مراد ہے اور عمل صالح وہی ہے جو خالص اللہ کی رضامندی کے لئے ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اللہ کی رضا حاصل ک r نے کے لیے ہر طرح کے اعمال شرک سے بچتے ہوئے سنت صحیحہ کے مطابق زندگی گزارے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو قبول فرمائے۔
ریا اور شہرت کا بیان۔
شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک سب سے زیادہ خطرناک چیز جس کا مجھ کو اپنی امت کے بارے میں ڈر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج، چاند یا بتوں کی پوجا کریں گے، بلکہ وہ غیر اللہ کے لیے عمل کریں گے، اور دوسری چیز مخفی شہوت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٢١، ومصباح الزجاجة : ١٤٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٣، ١٢٤) (ضعیف) (سند میں عامر بن عبد اللہ مجہول ہیں، اور الحسن بن ذکوان مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: مخفی شہوت یہ ہے کہ آدمی ظاہر میں تو یہ کہے کہ اسے عورتوں کا بالکل خیال نہیں ہے، اور جب تنہائی میں عورت مل جائے تو اس سے حرام کا ارتکاب کرے، اور بعض نے کہا کہ شہوت خفیہ ہر اس گناہ کو شامل ہے جس کی دل میں آرزو ہو۔
ریا اور شہرت کا بیان۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں میں شہرت و ناموری کے لیے کوئی نیک کام کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ذلیل و رسوا کرے گا، اور جس نے ریاکاری کی تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا کر دکھائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٤١، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠) (صحیح) (سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد کی حدیث جندب سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
ریا اور شہرت کا بیان۔
جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ریاکاری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری لوگوں کے سامنے نمایاں اور ظاہر کرے گا، اور جو شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو رسوا اور ذلیل کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣٤ (٦٤٩٩) ، صحیح مسلم/الزھد ٥ (٢٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٣) (صحیح )
حسد کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں : ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، اور پھر اس کو راہ حق میں لٹا دینے کی توفیق دی، دوسرا وہ جس کو علم و حکمت عطا کی تو وہ اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١٥ (٧٣) ، الزکاة ٥ (١٤٠٩) ، الأحکام ٣ (١٧٤١) ، الاعتصام بالکتاب ١٣ (٧٣١٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٧ (٨١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٥، ٤٣٢) (صحیح )
حسد کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں : ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا، تو وہ اسے دن رات پڑھتا ہے، دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، تو وہ اسے دن رات (نیک کاموں میں) خرچ کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٤٥ (٧٥٢٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٧ (٨١٥) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٢٤ (١٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦، ٨٨، ١٥٢) (صحیح )
حسد کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو، اور صدقہ و خیرات گناہوں کو اسی طرح بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو، نماز مومن کا نور ہے اور روزہ آگ سے ڈھال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٤٢، ومصباح الزجاجة : ١٥٠١) (ضعیف) (سند میں عیسیٰ الحناط ضعیف ہیں، لیکن والصيام جنة من النار کا جملہ متعدد احادیث میں ثابت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٩٠١ - ١٩٠٢ )
بغاوت اور سرکشی کا بیان۔
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کے کرنے پر آخرت کے عذاب کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے تیار کر رکھا ہے دنیا میں بھی سزا دینی زیادہ لائق ہو سوائے بغاوت اور قطع رحمی کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٥١ (٤٩٠٢) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٧ (٢٥١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦، ٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی امام برحق کی اطاعت نہ کرنا اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے مستعد ہونا، اور بعضوں نے کہا بغی سے یہاں ظلم مراد ہے یعنی لوگوں کو ستانا اور ان کی حق تلفی کرنا۔
بغاوت اور سرکشی کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے جلدی جن نیکیوں کا ثواب ملتا ہے وہ نیکی اور صلہ رحمی ہے، اور سب سے جلدی جن برائیوں پر عذاب آتا ہے وہ بغاوت و سرکشی اور قطع رحمی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٢، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٢) (ضعیف جدا) (سند میں صالح بن موسیٰ متروک راوی ہے، اور اسے ہی سوید میں کلام ہے )
بغاوت اور سرکشی کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شر سے آدمی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلم بھائی کی تحقیر کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البروالصلة ١٠ (٢٥٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ٤٠ (٣٨٨٢) ، سنن الترمذی/البروالصلة ١٨ (١٩٢٧) ، مسند احمد (٢/٢٧٧، ٣١١، ٣٦٠) (صحیح )
بغاوت اور سرکشی کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو، اور تم ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٣، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٣) (صحیح )
تقوی اور پرہیزگاری کا بیان۔
عطیہ سعدی (رض) جو (نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے تھے) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ متقیوں کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو جس میں کوئی مضائقہ نہ ہو، اس چیز سے بچنے کے لیے نہ چھوڑ دے جس میں برائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ١٩ (٢٤٥١) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٢) (ضعیف) (ترمذی نے اس کی تحسین فرمائی ہے، اور حافظ نے صحیح الاسناد کہا ہے، سند میں عبداللہ بن یزید مجہول راوی ہیں، جن کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، اور ان کی مجہول کی توثیق کو علماء نے قبول نہیں کیا ہے، اس لئے یہ سند ضعیف ہے )
تقوی اور پرہیزگاری کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر صاف دل، زبان کا سچا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : زبان کے سچے کو تو ہم سمجھتے ہیں، صاف دل کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پرہیزگار صاف دل جس میں کوئی گناہ نہ ہو، نہ بغاوت، نہ کینہ اور نہ حسد ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣٩، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٤) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٥٧٠ )
تقوی اور پرہیزگاری کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوہریرہ ! ورع و تقویٰ والے بن جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہوجاؤ گے، قانع بن جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہوجاؤ گے، اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، مومن ہوجاؤ گے، پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرو، مسلمان ہوجاؤ گے، اور کم ہنسا کرو، کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کردیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٥، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزہد ٢ (٢٣٠٥) (صحیح )
تقوی اور پرہیزگاری کا بیان۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تدبیر جیسی کوئی عقل نہیں ہے، اور (حرام سے) رک جانے جیسی کوئی پرہیزگاری نہیں ہے، اور اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی عالیٰ نسبی (حسب و نسب والا ہونا) نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣٧، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٦) (ضعیف) (سند میں قاسم بن محمد اور ماضی بن محمد دونوں راوی ضعیف ہیں )
تقوی اور پرہیزگاری کا بیان۔
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عالیٰ نسبی (اچھے حسب و نسب والا ہونا) مال ہے، اور کرم (جود و سخا اور فیاضی) تقویٰ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤٩ (٣٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠) (صحیح)
تقوی اور پرہیزگاری کا بیان۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں، (راوی عثمان بن ابی شیبہ نے کلمہ کی جگہ آیت کہا) اگر تمام لوگ اس کو اختیار کرلیں تو وہ ان کے لیے کافی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اللہ کے رسول ! کون سی آیت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ومن يتق الله يجعل له مخرجا اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نجات کا راستہ نکال دے گا (سورۃ الطلاق : ٢ - ٣) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٧٨، سنن الدارمی/الرقاق ١٧ (٢٧٦٧) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے، کیونکہ ابوالسلیل کی ملاقات ابوذر (رض) سے نہیں ہے )
لوگوں کی تعریف کرنا۔
ابوزہیر ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نباوہ یا بناوہ (طائف کے قریب ایک مقام ہے) میں خطبہ دیا، اور فرمایا : تم جلد ہی جنت والوں کو جہنم والوں سے تمیز کرلو گے ، لوگوں نے سوال کیا : کیسے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھی تعریف اور بری تعریف کرنے سے تم ایک دوسرے کے اوپر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٣، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٦، ٤٦٦) ، سنن الدارمی/الرقاق ١٧ (٢٧٦٧) (حسن )
لوگوں کی تعریف کرنا۔
کلثوم خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب میں اچھا کام کروں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میں نے اچھا کام کیا، اور جب برا کروں تو کیسے سمجھوں کہ میں نے برا کام کیا ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : جب تمہارے پڑوسی کہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے اچھا کیا ہے، اور جب وہ کہیں کہ تم نے برا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے برا کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٦، ومصباح الزجاجة : ١٥٠٩) (صحیح) (سند میں کلثوم بن علقمہ الخزاعی ثقہ ہیں، اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو شرف صحبت رسول حاصل ہے، آنے والی ابن مسعود (رض) کی حدیث جس کی تصحیح حاکم ابن حبان نے کی ہے، اور نسائی کے یہاں ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحة : ١٣٢٧ )
لوگوں کی تعریف کرنا۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : جب میں کوئی اچھا کام کروں تو کیسے سمجھوں کہ میں نے اچھا کام کیا ہے ؟ اور جب برا کام کروں تو کیسے جانوں کہ میں نے برا کام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنے پڑوسیوں کو کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے، تو سمجھ لو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے، اور جب تمہارے پڑوسی کہیں کہ تم نے برا کام کیا ہے، تو سمجھ لو کہ تم نے برا کام کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٣١٠، ومصباح الزجاجة : ١٥١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٢) (صحیح )
لوگوں کی تعریف کرنا۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنتی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی اچھی تعریف سے بھر دے، اور وہ اسے سنتا ہو، اور جہنمی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی بری تعریف سے بھر دے، اور وہ اسے سنتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٦٨، ومصباح الزجاجة : ١٥١١) (حسن صحیح )
لوگوں کی تعریف کرنا۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : ایک شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام کرتا ہے تو کیا اس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو مومن کے لیے نقد (جلد ملنے والی) خوشخبری (بشارت) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البروالصلة ٥١ (٢٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٦، ١٦٨) (صحیح )
لوگوں کی تعریف کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کوئی عمل کرتا ہوں، لوگوں کو اس کی خبر ہوتی ہے، تو وہ میری تعریف کرتے ہیں، تو مجھے اچھا لگتا ہے، (اس کے بارے میں فرمائیے) آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے دو اجر ہیں : پوشیدہ عمل کرنے کا اجر اور اعلانیہ کرنے کا اجر ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ٤٩ (٢٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣١١) (ضعیف) (سند میں حبیب بن ابی ثابت مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور سعید صدوق راوی ہیں، لیکن صاحب أوہام ہیں )
نیت کے بیان میں۔
عمر بن خطاب (رض) نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے، تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہی ہوگی، اور جس کی ہجرت کسی دنیاوی مفاد کے لیے یا کسی عورت سے شادی کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ١ (١) ، الإیمان ٤١ (٥٤) ، العتق ٦ (٢٥٢٩) ، مناقب الأنصار ٤٥ (٣٨٩٨) ، النکاح ٥ (٥٠٧٠) ، الأیمان والنذور ٢٣ (٦٦٨٩) ، الحیل ١ (٦٩٥٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٥ (٩٠٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ١١ (٢٢٠١) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٦ (١٦٤٧) ، سنن النسائی/الطہارة ٦٠ (٧٥) ، الطلاق ٢٤ (٣٤٦٧) ، الأیمان والنذور ١٩ (٣٨٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥، ٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رسول اکرم ﷺ کی طرف ہجرت کرنے کا اس کو ثواب حاصل نہ ہوگا، یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے، اور فقہائے نے اس سے سیکڑوں مسائل نکالے ہیں، اور یہ حدیث ایک بڑی اصل ہے دین کے اصول میں سے۔
نیت کے بیان میں۔
ابوکبشہ انماری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس امت کی مثال چار لوگوں جیسی ہے : ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال اور علم عطا کیا، تو وہ اپنے علم کے مطابق اپنے مال میں تصرف کرتا ہے، اور اس کو حق کے راستے میں خرچ کرتا ہے، ایک وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا اور مال نہ دیا، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسے یہ کرتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو یہ دونوں اجر میں برابر ہیں، اور ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا لیکن علم نہیں، دیا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، ناحق خرچ کرتا ہے، اور ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ نے نہ علم دیا اور نہ مال، تو وہ کہتا ہے : کاش میرے پاس اس آدمی کے جیسا مال ہوتا تو میں اس (تیسرے) شخص کی طرح کرتا یعنی ناحق خرچ کرتا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزہد ١٧ (٢٣٢٥) ، مسند احمد (٤/٢٣٠) (صحیح ) ان دونوں سندوں سے بھی ابوکبشہ (رض) سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
نیت کے بیان میں۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ اپنی نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٣٣، ومصباح الزجاجة : ١٥١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٢) (صحیح) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن جابر (رض) کی آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اگرچہ بری اور فاسق جماعت کے ساتھ اس پر بھی دنیا کا عذاب آجائے لیکن آخرت میں ہر شخص اپنی نیت پر اٹھے گا جیسے اوپر ایک طویل حدیث میں گزرا۔
نیت کے بیان میں۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ اپنی اپنی نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ١٩ (٢٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٠٦) (صحیح )
انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک چوکور لکیر کھینچی، اور اس کے بیچ میں ایک لکیر کھینچی، اور اس بیچ والی لکیر کے دونوں طرف بہت سی لکیریں کھینچیں، ایک لکیر چوکور لکیر سے باہر کھینچی اور فرمایا : کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ درمیانی لکیر انسان ہے، اور اس کے چاروں طرف جو لکیریں ہیں وہ عوارض (بیماریاں) ہیں، جو اس کو ہر طرف سے ڈستی یا نوچتی اور کاٹتی رہتی ہیں، اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری میں مبتلا ہوجاتا ہے، چوکور لکیر اس کی عمر ہے، جس نے احاطہٰ کر رکھا ہے اور باہر والی لکیر اس کی آرزو ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤ (٦٤١٧) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٢٢ (٢٤٥٤) ، (تحفة الأشراف ٩٢٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٥) ، سنن الدارمی/الرقاق ٢٠ (٢٧٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آدمی اپنی عمر سے زیادہ آرزو کرتا ہے، اور ایسے بندوبست کرتا اور ایسی عمارت بناتا ہے جن کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کی عمر گزر جاتی ہے۔
انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ ابن آدم (انسان) ہے اور یہ اس کی موت ہے، اس کی گردن کے پاس، پھر اپنا ہاتھ آگے پھیلا کر فرمایا : اور یہاں تک اس کی آرزوئیں اور خواہشات بڑھی ہوئی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٢٢ (٢٣٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤ (٦٤١٨) ، مسند احمد (٣/١٢٣، ١٣٥، ١٤٢، ٢٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلے آپ نے قد آدم تک اشارہ کیا کہ یہ آدمی ہے پھر ذرا کم کر کے بتلایا کہ یہ اس کی عمر ہے پھر اس سے بڑھا کر بتلایا کہ یہ آرزو ہے، یعنی اس کی عمر سے بہت بڑھی ہوئی ہے۔
انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کی محبت میں جوان ہوتا ہے : زندگی کی محبت اور مال کی زیادتی کی محبت میں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٨، ومصباح الزجاجة : ١٥١٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥ (٦٤٢١) ، سنن الترمذی/الزھد ٢٨ (٢٣٣٨) ، مسند احمد (٢/٣٥٨، ٣٩٤، ٤٤٣، ٤٤٧) (صحیح )
انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن آدم (انسان) بوڑھا ہوجاتا ہے، اور اس کی دو خواہشیں جوان ہوجاتی ہیں : مال کی ہوس، اور عمر کی زیادتی کی تمنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٨ (١٠٤٧) ، سنن الترمذی/الزھد ٢٨ (٢٣٣٩) ، (تحفة لأشراف : ١٤٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥ (٦٤٢١) ، مسند احمد (٣/١١٥، ١١٩، ١٦٩، ١٩٢، ٢٥٦، ٢٧٦) (صحیح )
انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر ابن آدم (انسان) کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ یہ تمنا کرے گا کہ ایک تیسری وادی اور ہو، مٹی کے علاوہ اس کے نفس کو کوئی چیز نہیں بھر سکتی، اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اس کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٤٩، ومصباح الزجاجة : ١٥١٤) (صحیح )
انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سال سے ستر کے درمیان ہوگی، اور بہت کم لوگ اس سے آگے بڑھیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزھد ٢٣ (٢٣٣١) ، الدعوات ١٠٢ (٣٥٥٠) ، (تحغة الأشراف : ١٥٠٣٧) (حسن صحیح )
نیک کام کو ہمیشہ کرنا۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ قسم ہے اس (اللہ) کی جو آپ ﷺ کو (دنیا سے) لے گیا ! آپ جب فوت ہوئے تو آپ زیادہ نماز (تہجد) بیٹھ کر ادا فرماتے تھے۔ اور آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ عمل وہ نیک عمل تھا جس پر بندہ ہمیشگی کرے اگرچہ تھوڑا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٢٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو کام ہمیشہ کیا جائے گرچہ وہ روزانہ تھوڑا ہی ہو وہی بہت ہوجاتا ہے، اور جو بہت کیا جائے لیکن ہمیشہ نہ کیا جائے وہ تھوڑا ہی رہتا ہے۔
نیک کام کو ہمیشہ کرنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی، نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے، اور پوچھا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا : یہ فلاں عورت ہے، یہ سوتی نہیں ہے (نماز پڑھتی رہتی ہے) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ٹھہرو ! تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے کی تمہیں طاقت ہو، اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ ۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ ﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو آدمی ہمیشہ پابندی سے کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣٢ (٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٢١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٣ (٤٣) ، التہجد ١٨ (١١٥١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤٣) ، الإیمان ٢٩ (٥٠٣٨) ،، موطا امام مالک/قصرالصلاة ٢٤ (٩٠) مسند احمد (٦/٥١) (صحیح )
نیک کام کو ہمیشہ کرنا۔
حنظلہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اور ہم نے جنت اور جہنم کا ذکر اس طرح کیا گویا ہم اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہے ہیں، پھر میں اپنے اہل و عیال کے پاس چلا گیا، اور ان کے ساتھ ہنسا کھیلا، پھر مجھے وہ کیفیت یاد آئی جو نبی اکرم ﷺ کے پاس تھی، میں گھر سے نکلا، راستے میں مجھے ابوبکر (رض) مل گئے، میں نے کہا : میں منافق ہوگیا، میں منافق ہوگیا، ابوبکر (رض) نے کہا : یہی ہمارا بھی حال ہے، حنظلہ (رض) گئے اور نبی اکرم ﷺ کے سامنے اس کیفیت کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے حنظلہ ! اگر (اہل و عیال کے ساتھ) تمہاری وہی کیفیت رہے جیسی میرے پاس ہوتی ہے تو فرشتے تمہارے بستروں (یا راستوں) میں تم سے مصافحہ کریں، حنظلہ ! یہ ایک گھڑی ہے، وہ ایک گھڑی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/التوبة ٣ (٢٧٥٠) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٢٠ (٢٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧٨ ا، ٣٤٦) (صحیح )
نیک کام کو ہمیشہ کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم خود کو اتنے ہی کام کا مکلف کرو جتنے کی تم میں طاقت ہو، کیونکہ بہترین عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے، خواہ وہ کم ہی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤٢، ومصباح الزجاجة : ١٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٠) (صحیح) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، اور ولید بن مسلم تدلیس التسویہ کرتے ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے )
نیک کام کو ہمیشہ کرنا۔
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو ایک چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا، آپ مکہ کے ایک جانب گئے، اور کچھ دیر ٹھہرے، پھر واپس آئے، تو اس شخص کو اسی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ ﷺ کھڑے ہوئے، اپنے دونوں ہاتھوں کو ملایا، پھر فرمایا : لوگو ! تم میانہ روی اختیار کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے (ثواب دینے سے) یہاں تک کہ تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧٠، ومصباح الزجاجة : ١٥١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنت کی متابعت بہتر ہے، یعنی اسی قدر نماز اور روزہ اور وظائف پر مداومت کرنا جس قدر رسول اکرم ﷺ سے ثابت اور منقول ہے، اور اس میں شک نہیں کہ سنت کی پیروی ہر حال میں بہتر اور باعث برکت اور نور ہے، اور بہتر طریقہ وہی ہے جو وظاف و اوراد اور نوافل میں رسول اکرم ﷺ سے منقول ہے، انہی وظائف واوراد پر قناعت کرے اور اہل و عیال اور دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی مشغول رہے جیسے رسول اکرم ﷺ کرتے تھے۔
گناہوں کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم سے ان گناہوں کا بھی مواخذہ کیا جائے گا، جو ہم نے (زمانہ) جاہلیت میں کئے تھے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے عہد اسلام میں نیک کام کئے (دل سے اسلام لے آیا) اس سے جاہلیت کے کاموں پر مواخذہ نہیں کیا جائے گا، اور جس نے اسلام لا کر بھی برے کام کئے، (کفر پر قائم رہا ہے) تو اس سے اول و آخر دونوں برے اعمال پر مواخذہ کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/استتابة المرتدین ١ (٦٩٢١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥٣ (١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٩، ٤٢٩، ٤٣١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ١ (١) (صحیح )
گناہوں کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : حقیر و معمولی گناہوں سے بچو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا بھی مواخذہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٥، ومصباح الزجاجة : ١٥١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٠، ١٥١) ، سنن الدارمی/الرقاق ١٧ (٢٧٦٨) (صحیح )
گناہوں کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ (داغ) لگ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرے، باز آجائے اور مغفرت طلب کرے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے، اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو پھر وہ دھبہ بھی بڑھتا جاتا ہے، یہ وہی زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے : كلا بل ران على قلوبهم ما کانوا يکسبون ہرگز نہیں بلکہ ان کے برے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ پکڑ لیا ہے جو وہ کرتے ہیں (سورة المطففين : 14) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٧٤ (٣٣٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٧) (حسن )
گناہوں کا بیان۔
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا ، ثوبان (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہوجائیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں، اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٥، ومصباح الزجاجة : ١٥١٨) (صحیح )
گناہوں کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سے کام لوگوں کو زیادہ تر جنت میں داخل کریں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تقویٰ (اللہ تعالیٰ کا خوف) اور حسن خلق (اچھے اخلاق) ، اور پوچھا گیا : کون سے کام زیادہ تر آدمی کو جہنم میں لے جائیں گے ؟ فرمایا : دو کھوکھلی چیزیں : منہ اور شرمگاہ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر ٦٢ (٢٠٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩١، ٣٩٢، ٤٤٢) (حسن )
توبہ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کہ تم اپنی گمشدہ چیز پانے سے خوش ہوتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٩٩ (٣٥٣٨) (صحیح )
توبہ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم گناہ کرو یہاں تک کہ تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تم توبہ کرو تو (اللہ تعالیٰ ) ضرور تمہاری توبہ قبول کرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٣٠، ومصباح الزجاجة : ١٥١٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ بندہ کے گناہ چاہے وہ جتنے زیادہ ہوں، ان کی مغفرت کے لئے کی جانے والی توبہ کو اللہ تعالیٰ ضرور قبول کرے گا، بشرطیکہ یہ توبہ خلوص دل سے ہو، اس حدیث سے یہ قطعاً نہ سمجھا جائے کہ گناہ کثرت سے کئے جائیں اور پھر توبہ کرلی جائے، کیونکہ حدیث میں توبہ کی اہمیت بتائی گئی ہے، نہ کہ بکثرت گناہ کرنے کی۔
توبہ کا بیان۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے ایسے ہی خوش ہوتا ہے جیسے کسی آدمی کی سواری چٹیل میدان میں کھو جائے، وہ اس کو تلاش کرے یہاں تک کہ جب وہ تھک جائے تو کپڑے سے اپنا منہ ڈھانک کر لیٹ جائے، اسی حالت میں اچانک وہ اپنی سواری کے قدموں کی چاپ وہاں سے آتی سنے جہاں اسے کھویا تھا، وہ اپنے چہرے سے اپنا کپڑا اٹھائے تو دیکھے کہ اس کی سواری موجود ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٣١، ومصباح الزجاجة : ١٥٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨٣) (منکر) (سند میں سفیان بن وکیع متروک اور عطیہ العوفی ضعیف ہیں، ثقہ راویوں کی روایات اس کے برخلاف ہے )
توبہ کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٠، ومصباح الزجاجة : ١٥٢١) (حسن) (سند میں ابوعبیدہ کا سماع اپنے والد سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٦١٥ - ٦١٦ )
توبہ کا بیان۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سارے بنی آدم (انسان) گناہ گار ہیں اور بہترین گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٤٩ (٢٤٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٨، سنن الدارمی/الرقاق ١٨ (٢٧٦٩) (حسن )
توبہ کا بیان۔
عبداللہ بن معقل مزنی کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس گیا تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ندامت (شرمندگی) توبہ ہے ، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ آپ نے نبی اکرم ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ندامت توبہ ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفةالأشراف : ٩٣٥١، ومصباح الزجاجة : ١٥٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٦، ٤٢٢، ٤٢٣، ٤٣٣) (صحیح )
توبہ کا بیان۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ (عزوجل) اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا رہتا ہے جب تک اس کی جان حلق میں نہ آجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٧٤، ٨٦١٥، ومصباح الزجاجة : ١٥٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٩٩ (٣٥٣٧) ، مسند احمد (٢/١٣٢، ١٥٣) (حسن) (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: مزی کہتے ہیں کہ ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمرو آیا ہے، جو وہم ہے، صحیح عبداللہ بن عمر بن الخطاب ہے) ۔
توبہ کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر بتایا کہ اس نے ایک عورت کا بوسہ لیا ہے، وہ اس کا کفارہ پوچھنے لگا، آپ ﷺ نے اس سے کچھ نہیں کہا تو اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلک ذكرى للذاکرين نماز قائم کرو دن کے دونوں حصوں (صبح و شام) میں اور رات کے ایک حصے میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں، یہ ذکر کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت ہے (سورۃ ہود : ١١٤ ) ، اس شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہ (خاص) میرے لیے ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ میری امت میں سے ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس پر عمل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٤ (٥٢٦) ، تفسیر القرآن ٦ (٤٦٨٧) ، صحیح مسلم/التوبة ٧ (٢٧٦٣) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ١٢ (٣١١٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٥، ٤٣٠) (صحیح )
توبہ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک آدمی نے اپنے اوپر بہت زیادتی کی تھی، (یعنی گناہوں کا ارتکاب کیا تھا) جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا ڈالنا، پھر مجھے پیس کر سمندر کی ہوا میں اڑا دینا، اللہ کی قسم ! اگر میرا رب میرے اوپر قادر ہوگا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو کسی کو نہ دیا ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے زمین سے کہا کہ جو تو نے لیا ہے اسے حاضر کر، اتنے میں وہ کھڑا ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا : تجھے اس کام پر کس نے آمادہ کیا تھا ؟ اس نے کہا : تیرے ڈر اور خوف نے اے رب ! تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی وجہ سے معاف کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٤ (٣٤٨١) ، التوحید ٣٥ (٧٥٠٨) ، صحیح مسلم/التوبة ٤ (٢٧٥٦) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٧ (٢٠٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٩) (صحیح )
توبہ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک عورت اس بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی جس کو اس نے باندھ رکھا تھا، وہ نہ اس کو کھانا دیتی تھی، اور نہ چھوڑتی ہی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے یہاں تک کہ وہ مرگئی ۔ زہری کہتے ہیں : (ان دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ) کوئی آدمی نہ اپنے عمل پر بھروسہ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٤٠ (٢٢٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١٧، ١٢٢٨٧) (صحیح )
توبہ کا بیان۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو ! تم سب گناہ گار ہو سوائے اس کے جس کو میں بچائے رکھوں، تو تم مجھ سے مغفرت طلب کرو، میں تمہیں معاف کر دوں گا، اور تم میں سے جو جانتا ہے کہ میں مغفرت کی قدرت رکھتا ہوں اور وہ میری قدرت کی وجہ سے معافی چاہتا ہے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں، تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جس کو میں غنی (مالدار) کر دوں، تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں روزی دوں گا، اور اگر تمہارے زندہ و مردہ، اول و آخر اور خشک و تر سب جمع ہوجائیں، اور میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار شخص کی طرح ہوجائیں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہ ہوگا، اور اگر یہ سب مل کر میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت کی طرح ہوجائیں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہ ہوگی، اور اگر تمہارے زندہ و مردہ، اول و آخر اور خشک و تر سب جمع ہوجائیں، اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی آرزوئیں پہنچیں، تو میری سلطنت میں کوئی فرق واقع نہ ہوگا، مگر اس قدر جیسے تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے پر سے گزرے اور اس میں ایک سوئی ڈبو کر نکال لے، یہ اس وجہ سے ہے کہ میں سخی ہوں، بزرگ ہوں، میرا دینا صرف کہہ دینا ہے، میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو کہتا ہوں ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٤٨ (٢٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٦٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٥ (٢٥٧٧) ، مسند احمد (٥/١٥٤، ١٧٧) (ضعیف) (سند شہر بن حوشب کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن صحیح مسلم میں حدیث کے اکثر جملے ثابت ہیں )
موت کا بیان اور اسکے واسطے تیار رہنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزھد ٤ (٢٣٠٧) ، سنن النسائی/الجنائز ٣ (١٨٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٠، ١٥٠٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: موت کی یاد سے دنیا کی بےثباتی ذہن میں جمتے ہی آخرت کا خیال پیدا ہوتا ہے، یہی فائدہ قبروں کی زیارت کا بھی ہے، نبی اکرم ﷺ نے موت کو لذتوں کو مٹانے والی کہا یعنی موت کی یاد آدمی کے دل و دماغ کو دنیا کی لذتوں سے دور کردیتے ہیں، یا موت کے آتے ہی آدمی کا تعلق دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے خود بخود ختم ہوجاتا ہے، امام قرطبی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ بڑا مختصر جملہ ہے، جو تذکیر و نصیحت میں بلیغ اور جامع ہے، کیونکہ جس نے صحیح معنوں میں موت کو یاد کیا تو اس سے اس پر دنیاوی لذت کر کری ہوجاتی ہے، اور مستقبل میں اس کی تمنا اور آرزو کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، اور جن نعمتوں کے بارے میں وہ سوچتا تھا، اس میں بڑی کمی آجاتی ہے، لیکن غافل دل اور ٹھہری ہوئی طبیعتیں لمبے چوڑے وعظ و نصیحت اور تفنن کلام کی محتاج ہوتی ہیں، ورنہ حدیث رسول : لذتوں کو ختم کردینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو، اور آیت کریمہ : كل نفس ذائقة الموت ہر نفس کو موت کا مزا چکنا ہے (سورة الأنبياء : 35) ہی سامع کے لیے کافی ہے، اور دیکھنے والے کو مشغول کردینے والی ہے، نیز کہتے ہیں : موت کی یاد کے نتیجے میں اس دار فانی سے بےرغبتی کا شعور و احساس پیدا ہوتا ہے، اور ہر لحظہ باقی رہنے والی آخرت کی طرف توجہ ہوجاتی ہے، تو انسان دو حالات میں گھر کر رہ جاتا ہے، ایک تنگی اور وسعت کی حالت اور دوسری نعمت و ابتلاء کی حالت تو تنگی اور ابتلاء کی صورت میں موت کی یاد سے یہ صورت حال اس کے لیے آسان ہوجاتی ہے کہ یہ حالت ہمیشہ برقرار رہنے والی نہیں ہے، بلکہ موت اس سے زیادہ سخت ہے، اور نعمت اور وسعت کی حالت میں موت کی یاد اس کو دنیاوی نعمتوں اور وسعتوں سے دھوکہ کھانے اور اس سے سکون حاصل کرنے سے روک دیتی ہے، اور موت انسان کو ان چیزوں سے دور کردیتی ہے، موت کی کوئی معلوم عمر نہیں ہے، اور نہ اس کا زمانہ ہی معلوم ہے اور نہ اس کی بیماری ہی معلوم ہے، تو آدمی کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ ملاحظہ ہو : التذکرۃ بأحوال الموتیٰ وأمورالآخرۃ (الفریوائی )
موت کا بیان اور اسکے واسطے تیار رہنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ کے پاس ایک انصاری شخص آیا، اس نے آپ کو سلام کیا، پھر کہنے لگا : اللہ کے رسول ! مومنوں میں سے کون سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والا ہے ، اس نے کہا : ان میں سب سے عقلمند کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو ان میں موت کو سب سے زیادہ یاد کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے سب سے اچھی تیاری کرے، وہی عقلمند ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٣٣، ومصباح الزجاجة : ١٥٢٤) (حسن) (سند میں فروہ بن قیس اور نافع بن عبد اللہ مجہول ہیں، لیکن حدیث دوسرے شواہد سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٣٨٤ )
موت کا بیان اور اسکے واسطے تیار رہنا۔
ابو یعلیٰ شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں پر لگا دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٢٥ (٢٤٥٩) ، تحفة الأشراف : (٤٨٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٤) (ضعیف) (سند میں بقیہ مدلس اور ابن ابی مریم ضعیف ہیں )
موت کا بیان اور اسکے واسطے تیار رہنا۔
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک نوجوان کے پاس آئے جو مرض الموت میں تھا، آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو ؟ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی رحمت کی امید کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس بندے کے دل میں ایسے وقت میں یہ دونوں کیفیتیں جمع ہوجائیں، اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز دے گا جس کی وہ امید کرتا ہے، اور جس چیز سے ڈرتا ہے، اس سے محفوظ رکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ١١ (٩٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٢) (حسن) (سند میں سیار بن حاتم ضعیف ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٠٥١ )
موت کا بیان اور اسکے واسطے تیار رہنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں : نکل اے پاک جان ! جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، نکل، تو لائق تعریف ہے، اور خوش ہوجا، اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناراض نہیں ہے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل پڑتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کرلے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے : خوش آمدید ! پاک جان جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، تو داخل ہوجا، تو نیک ہے اور خوش ہوجا اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے، اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناخوش نہیں، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس کے اوپر اللہ عزوجل ہے، اور جب کوئی برا شخص ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے : نکل اے ناپاک نفس، جو ایک ناپاک بدن میں تھی، نکل تو بری حالت میں ہے، خوش ہوجا گرم پانی اور پیپ سے، اور اس جیسی دوسری چیزوں سے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل جاتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کرلے جایا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ جواب ملتا ہے : یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے : ناپاک روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، جو کہ ناپاک بدن میں تھی، لوٹ جا اپنی بری حالت میں، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اس کو آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہ قبر میں آجاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٨٧، ومصباح الزجاجة : ١٥٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کا آسمان کے اوپر بلندی میں ہونا ثابت ہے، فاسد عقائد والے اس کا انکار کرتے ہیں، اور اہل حدیث اور اہل حق کو مشبہہ اور مجسمہ کہتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے آسمان کے اوپر بلندی میں ہونے کے عقیدے پر کتاب و سنت کے بیشمار دلائل ہیں، اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین اور ائمہ دین کا اس پر اتفاق ہے، اور یہ چیز انسان کی فطرت میں ہے کہ اپنے خالق ومالک کو پکارتے ہی اس کے ہاتھ اوپر اٹھ جاتے ہیں، اور نگاہیں اوپر دیکھنے لگتی ہیں۔
موت کا بیان اور اسکے واسطے تیار رہنا۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی موت کسی زمین میں لکھی ہوتی ہے تو ضرورت اس کو وہاں لے جاتی ہے، جب وہ اپنے آخری نقش قدم کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض کرلیتا ہے، زمین قیامت کے دن کہے گی : اے رب ! یہ تیری امانت ہے جو تو نے میرے سپرد کی تھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٤١، ومصباح الزجاجة : ٩٥٤١) (صحیح )
موت کا بیان اور اسکے واسطے تیار رہنا۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند کرتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہے ، آپ سے عرض کیا گیا : اللہ تعالیٰ سے ملنے کو برا جاننا یہ ہے کہ موت کو برا جانے، اور ہم میں سے ہر شخص موت کو برا جانتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ یہ موت کے وقت کا ذکر ہے، جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے، تو وہ اس سے ملنا پسند کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے، اور جب اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے نہیں ملنا چاہتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤١ (٦٥٠٧، ٦٥٠٨ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الذکروالدعاء (٢٦٨٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٨ (١٠٦٧) ، سنن النسائی/الجنائز ١٠ (١٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤، ٥٥، ٢٠٧، ٢١٨، ٢٣٦) (صحیح )
موت کا بیان اور اسکے واسطے تیار رہنا۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پیش آئے موت کی تمنا نہ کرے، اگر موت کی خواہش کی ضرورت پڑ ہی جائے تو یوں کہے : اے اللہ ! مجھے زندہ رکھ جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے اگر مرنا میرے لیے بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ١٣ (٣١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المرضی ١٩ (٥٦٧٢) ، الدعوات ٣٠ (٦٣٥١) ، صحیح مسلم/الذکر ٤ (٢٦٨٠) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣ (٩٧١) ، سنن النسائی/الجنائز ٢ (١٨٢٢) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١٠٤، ١٦٣، ١٧١، ١٩٥، ٢٠٨، ٢٤٧، ٢٨١) (صحیح )
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر الزمر ٤ (٤٨١٤) ، تفسیر النبأ ١ (٤٩٣٥) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٨ (٢٩٥٥) ، سنن ابی داود/السنة ٢٤ (٤٧٤٣) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٧ (٢٠٧٩) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٨) ، مسند احمد (٢/٣١٥، ٣٢٢، ٤٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : ليس من الإنسان شئ إلا يبلى إلا عظما واحدا انسان کی ہر چیز ایک ہڈی کے علاوہ بوسیدہ ہوجائے گی اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں : إن في الإنسان عظما لا تأكله الأرض أبدا فيه يركب يوم القيامة، قالوا : أي عظم هو قال : عظم الذنب انسان میں ایک ایسی ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی، قیامت کے دن اسی میں دوبارہ اس کی تخلیق ہوگی، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول وہ کونسی ہڈی ہے ؟ تو آپ نے کہا : وہ دم کی ہڈی ہے مستدرک علی الصحیحین اور مسند ابی یعلی میں ابوسعید خدری (رض) کی حدیث میں ہے : قيل : يارسول الله ! ما عجب الذنب ؟ قال : مثل حبة خردل کہا گیا : اللہ کے رسول ! دم کی ہڈی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : رائی کے دانے کے برابر ۔ عجب: ع کے فتحہ اور ج کے سکون کے ساتھ اور اس کو عجم بھی کہتے ہیں، ریڑھ کی ہڈی کی جڑ میں یہ ایک باریک ہڈی ہوتی ہے، یہ دم کی ہڈی کا سرا ہے، یہ چاروں طرف سے ریڑھ کی باریک والی ہڈی کا سرا ہے، ابن ابی الدنیا، ابوداود اور حاکم کے یہاں ابوسعید خدری (رض) کی مرفوع حدیث میں ہے کہ یہ رائی کے دانے کے مثل ہے، علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ ابن عقیل نے کہا : اللہ رب العزت کا اس میں کوئی راز ہے، جس کا علم صرف اسی کو ہے، اس لیے کہ جو ذات عدم سے وجود بخشے وہ کسی ایسی چیز کی محتاج نہیں ہے جس کو وہ نئی خلقت کی بنیاد بنائے، اس بات کا احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے لیے نشانی بنایا ہے کہ وہ ہر انسان کو اس کے جوہر کے ساتھ زندہ کرے، اور فرشتوں کو اس کا علم صرف اسی طریقے سے ہوگا کہ ہر شخص کی ہڈی باقی اور موجود ہو، تاکہ وہ اس بات کو جانے کہ روحوں کو ان کے اعیان میں ان اجزاء کے ذریعے سے لوٹایا جائے، اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ويبلى كل شئ من الإنسان انسان کی ہرچیز بوسیدہ ہوجائے گی تو اس میں احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اس کا فنا ہوجانا ہے یعنی اس کے اجزاء کلی طور پر ختم ہوجائیں گے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد اس کا پگھلنا اور تحلیل ہونا ہے، تو معہود صورت ختم ہوجائے گی اور وہ مٹی کی شکل میں ہوجائے گی، پھر اس کی دوبارہ ترکیب میں اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے، بعض شراح حدیث کے خیال میں اس سے مراد اس کے بقا کا طویل ہونا ہے، نہ یہ کہ اصل میں وہ ہڈی فنا نہیں ہوگی، اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ ہڈی انسان کی تخلیق کی بنیاد ہے، جو سب سے زیادہ سخت ہے، جیسے دیوار کی بنیاد اور جب زیادہ سخت ہوگی تو اس کو زیادہ بقائے دوام حاصل ہوگا، اور یہ قابل رد ہے اس لیے کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے، اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، اور علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے، اس سے مراد خصوصیت سے انبیاء ہیں، اس لیے کہ زمین ان کے جسم کو نہ کھائے گی، ابن عبدالبر نے ان کے ساتھ شہداء کو رکھا، اور قرطبی نے ثواب کے خواہاں موذن کو، قاضی عیاض کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ ہر آدمی کو مٹی کھالے گی اور بہت سے اجسام جیسے انبیاء ہیں کو مٹی نہیں کھائے گی۔ حدیث میں إلا عجب ذنبه ہے یعنی انسان کے جسم میں اس کے دم کی ہڈی ہی بچے گی جمہور اس کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دم کی ہڈی نہ بوسیدہ ہوگی، اور نہ اس سے مٹی کھائے گی، مزنی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ إلا یہاں واو عطف کے معنی میں ہے، یعنی دم کی ہڈی بھی پرانی ہوجائے گی، اور اس معنی کو فراء اور اخفش نے ثابت کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ واو إلا کے معنی میں آتا ہے، مزنی کی اس شاذ اور منفرد رائے کی تردید حدیث میں وارد وہ صراحت ہے جو ہمام کی روایت میں ہے کہ زمین اس کو کبھی بھی نہ کھائے گی، اور اعرج کی روایت میں ہے : منہ خلق اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی میں سب سے پہلے اسی کی پیدائش ہوئی، اور اس کی معارض سلمان (رض) کی حدیث : إن أول ما خلق من آدم رأسه نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں میں توفیق و تطبیق اس طرح سے ہوگی کہ یہ آدم (علیہ السلام) کے حق میں ہے، اور دم کی ہڈی کی تخلیق اولاد آدم میں پہلے ہے، یا سلمان (رض) کے قول کا مقصد یہ ہو کہ آدم میں روح پھونکی گئی نہ کہ ان کے جسم کی تخلیق ہوئی۔ (ملاحظہ ہو : فتح الباری ٨ /٥٥٢-٥٥٣، حدیث نمبر ٤٨١٤ )
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان۔
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان (رض) جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہوجاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں ، اور کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے کبھی قبر سے زیادہ ہولناک کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزھد ٥ (٢٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٦٣) (حسن )
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مرنے والا قبر میں جاتا ہے، نیک آدمی تو اپنی قبر میں بیٹھ جاتا ہے، نہ کوئی خوف ہوتا ہے نہ دل پریشان ہوتا ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو کس دین پر تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : میں اسلام پر تھا، پھر پوچھا جاتا ہے کہ یہ شخص کون ہیں ؟ وہ کہتا ہے : یہ محمد اللہ کے رسول ہیں، یہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ جواب دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھلا کون دیکھ سکتا ہے ؟ پھر اس کے لیے ایک کھڑکی جہنم کی جانب کھولی جاتی ہے، وہ اس کی شدت اشتعال کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے : دیکھ، اللہ تعالیٰ نے تجھ کو اس سے بچا لیا ہے، پھر ایک دوسرا دریچہ جنت کی طرف کھولا جاتا ہے، وہ اس کی تازگی اور لطافت کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا ٹھکانا ہے، اور اس سے کہا جاتا ہے کہ تو یقین پر تھا، یقین پر ہی مرا، اور یقین پر ہی اٹھے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور برا آدمی اپنی قبر میں پریشان اور گھبرایا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ تو کس دین پر تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا، پھر پوچھا جاتا ہے کہ یہ شخص کون ہیں ؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تو میں نے بھی وہی کہا، اس کے لیے جنت کا ایک دریچہ کھولا جاتا ہے، وہ اس کی لطافت و تازگی کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ دیکھ ! اس سے اللہ تعالیٰ نے تجھے محروم کیا، پھر جہنم کا دریچہ کھولا جاتا ہے، وہ اس کی شدت اور ہولناکی کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا ٹھکانا ہے، تو شک پر تھا، شک پر ہی مرا اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٨٧، ومصباح الزجاجة : ١٥٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٠، ٣٦٤، ٦/١٣٩) (صحیح )
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان۔
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ آیت : يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت عذاب قبر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس (مردے) سے پوچھا جائے گا کہ تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہے گا کہ میرا رب اللہ ہے، اور میرے نبی محمد ﷺ ہیں، یہی مراد ہے اس آیت : يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول پر ثابت رکھتا ہے دنیوی زندگی میں بھی آخرت میں بھی (سورة ابراهيم : 72) سے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٦ (١٣٦٩) ، التفسیرسورة ابراہیم ٢ (٤٦٩٩) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧١) ، سنن ابی داود/السنة ٢٧ (٤٧٥٠ سنن الترمذی/تفسیرالقران سورة ٕابراہیم ١٥ (٣١٢٠) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٤ (٢٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٢، ٢٩١) (صحیح )
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مرجاتا ہے، تو اس کے سامنے اس کا ٹھکانا صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت میں سے تھا تو اہل جنت کا ٹھکانا، اور اگر جہنمی تھا تو جہنمیوں کا ٹھکانا، اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٩ (١٣٧٩) ، بدء الخلق ٨ (٣٢٤٠) ، الرقاق ٤٢ (٦٥١٥) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٦٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٧٠ (١٠٧٢) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٦ (٢٠٧٢) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٧) ، مسند احمد (٢/١٦، ٥١، ١١٣، ١٢٣) (صحیح )
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان۔
کعب (رض) کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درخت میں لٹکتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں لوٹ جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٣ (١٦٤١) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٧ (٢٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٩) ، مسند احمد (٣/٤٥٥، ٤٥٦، ٤٦٠) (صحیح )
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب مردہ قبر میں جاتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ سورج ڈوبنے کا وقت قریب ہے، وہ بیٹھتا ہے اپنی دونوں آنکھوں کو ملتے ہوئے، اور کہتا ہے : مجھے نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٤، ومصباح الزجاجة : ١٥٢٨) (حسن )
حشر کا بیان۔
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : بیشک صور والے دونوں فرشتے اپنے ہاتھوں میں صور ١ ؎ لیے برابر دیکھتے رہتے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٩٣، ومصباح الزجاجة : ١٥٢٩) (منکر) (سند میں حجاج بن ارطاہ وعطیہ العوفی ضعیف ہیں، اور حجاج نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اس لئے یہ لفظ منکر ہے، محفوظ حدیث صاحب القرن ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٠٧٩ ) وضاحت : ١ ؎: صور کی جمع اصوار یعنی نرسنگا، اور بگل۔
حشر کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا : اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام لوگوں سے برگزیدہ بنایا، یہ سن کر ایک انصاری نے اس کو ایک طمانچہ مارا، اور کہا : تم ایسا کہتے ہو جب کہ اللہ کے رسول ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں ؟ آپ ﷺ کے سامنے جب اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون اور صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان والے سب بیہوش ہوجائیں گے، سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تب وہ سب کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے (سورۃ الزمر : ٦٨ ) ، میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا، تو دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا، یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کردیا ہے، اور جس نے یہ کہا : میں یونس بن متی سے بہتر ہوں تو اس نے غلط کہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٧٦، ومصباح الزجاجة : ١٥٣١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الفضائل ٤٢ (٢٣٧٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یونس (علیہ السلام) سے غلطی ہوئی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا تھا، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شان بڑی ہے اور نبوت اور رسالت کا مرتبہ سب کو حاصل ہے لہذا اپنی رائے سے ایک کو دوسرے پر فضیلت مت دو ، بعضوں نے کہا کہ یہ حدیث پہلے کی ہے، جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ تمام انبیاء کے سردار ہیں اور انجیل مقدس میں مذکور ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ اس جہاں کا سردار آتا ہے، یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر اس طرح فضیلت مت دو کہ دوسرے نبی کی تحقیر یا توہین نکلے کیونکہ کسی نبی کی تحقیر یا توہین کفر ہے۔
حشر کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے سنا : جبار (اللہ) آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا، (آپ نے مٹھی بند کی پھر اس کو بند کرنے اور کھولنے لگے) پھر فرمائے گا : میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں دوسرے جبار ؟ کہاں ہیں دوسرے متکبر ؟ یہ کہہ کر رسول اللہ ﷺ دائیں اور بائیں جھک رہے تھے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ منبر کچھ نیچے سے ہل رہا تھا، حتیٰ کہ میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو لے کر گر نہ پڑے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صفة القیامة نحوہ (٢٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧٢، ٨٧) (صحیح )
حشر کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! لوگ قیامت کے دن کیسے اٹھائے جائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ننگے پاؤں، ننگے بدن ، میں نے کہا : عورتیں بھی اسی طرح ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عورتیں بھی ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! پھر شرم نہیں آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! معاملہ اتنا سخت ہوگا کہ (کوئی) ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٥ (٦٥٢٧) ، صحیح مسلم/الجنة ١٤ (٢٨٥٩) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٨ (٢٠٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٣، ٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اپنی جان بچانے کی فکر ہوگی ایسے وقت میں بدنظری کیسی۔
حشر کا بیان۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دو بار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے اور تیسری بار میں اعمال نامے ہاتھوں میں اڑ رہے ہوں گے، تو کوئی اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور کوئی بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٦، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٤) (ضعیف) (حسن بصری کا سماع ابوموسیٰ سے ثابت نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے سند ضعیف ہے )
حشر کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے : يوم يقوم الناس لرب العالمين جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (سورۃ المطففین : ٦ ) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : لوگ اس طرح کھڑے ہوں گے کہ نصف کان تک اپنے پسینے میں غرق ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٨٣ (٤٩٣٨) ، الرقاق ٤٧ (٦٥٣١) ، صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ١٥ (٢٨٦٢) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٢ (٢٤٢٢) ، التفسیر ٧٤ (٣٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣، ٣١، ٣٣) (صحیح )
حشر کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے يوم تبدل الأرض غير الأرض والسموات جس دن زمین اور آسمان بدل دئیے جائیں گے (سورة إبراهيم : 48) سے متعلق پوچھا کہ لوگ اس وقت کہاں ہوں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : پل صراط پر ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صفة القیامة ٢ (٢٧٩١) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ١٥ (٣١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٦/٣٥) ، سنن الدارمی/الرقاق ٨٨ (٢٨٥١) (صحیح )
حشر کا بیان۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پل صراط جہنم کے دونوں کناروں پر رکھا جائے گا، اس پر سعدان کے کانٹوں کی طرح کانٹے ہوں گے، پھر لوگ اس پر سے گزرنا شروع کریں گے، تو بعض لوگ صحیح سلامت گزر جائیں گے، بعض کے کچھ اعضاء کٹ کر جہنم میں گرپڑیں گے، پھر نجات پائیں گے، بعض اسی پر اٹکے رہیں گے، اور بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٦٨، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨١ (٢٨٣) ، مسند احمد (٢/٢٩٣، ٣/١١، ١٧) (صحیح )
حشر کا بیان۔
ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے امید ہے جو لوگ بدر و حدیبیہ کی جنگوں میں شریک تھے، ان میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا، إ ن شاء اللہ اگر اللہ نے چاہا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے : وإن منکم إلا واردها کان على ربک حتما مقضيا تم میں سے ہر ایک کو اس میں وارد ہونا ہے، یہ تیرے رب کا حتمی فیصلہ ہے (سورة مريم : 71) ؟ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا : ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں اوندھے منہ چھوڑ دیں گے (سورة مريم : 72۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٠، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٦/٢٨٥) (صحیح) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٤٠٥ )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میرے پاس آؤ گے اس حال میں کہ وضو کی وجہ سے تمہارے ہاتھ پاؤں اور پیشانیاں روشن ہوں گی، یہ میری امت کا نشان ہوگا، اور کسی امت کا یہ نشان نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٢ (٢٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٩٩) (صحیح )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک خیمے میں تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس پر راضی اور خوش ہو گے کہ تمہاری تعداد جنت والوں کے چوتھائی ہو ، ہم نے کہا : کیوں نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم خوش ہو گے کہ تمہاری تعداد جنت والوں کے ایک تہائی ہو ، ہم نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تمہاری تعداد تمام اہل جنت کا نصف ہوگی، ایسا اس لیے ہے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی جائے گا، اور مشرکین کے مقابلے میں تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کالے بیل کی جلد پر سفید بال یا سرخ بیل کی جلد پر کالا بال ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٥ (٦٥٢٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٩٥ (٢٢١) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ١٣ (٢٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٨٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصرالصلاة ٢٤ (٨٨) ، مسند احمد (١/٣٨٦، ٤٣٧، ٤٤٥) (صحیح )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے دن) ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ دو ہی آدمی ہوں گے، اور ایک نبی آئے گا اس کے ساتھ تین آدمی ہوں گے، اور کسی نبی کے ساتھ زیادہ لوگ ہوں گے، کسی کے ساتھ کم، اس نبی سے پوچھا جائے گا : کیا تم نے اپنی قوم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تھا ؟ وہ کہے گا : جی ہاں پھر اس کی قوم بلائی جائے گی اور پوچھا جائے گا : کیا اس نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے : نہیں نبی سے پوچھا جائے گا : تمہارا گواہ کون ہے ؟ وہ کہے گا : محمد اور ان کی امت، پھر محمد کی امت بلائی جائے گی اور کہا جائے گا : کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہے گی : جی ہاں اس سے پوچھا جائے گا : تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟ جواب دے گی کہ ہمارے نبی نے ہم کو یہ بتایا کہ رسولوں نے پیغام پہنچا دیا ہے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہی اللہ تعالیٰ کے قول : وكذلک جعلناکم أمة وسطا لتکونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم گواہ رہو لوگوں پر اور رسول گواہ رہیں تمہارے اوپر (سورة البقرة : 143) کا مطلب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٣ (٣٣٣٩) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٣ (٢٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩، ٣٢، ٥٨) (صحیح )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
رفاعہ جہنی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، کوئی بندہ ایسا نہیں ہے، جو ایمان لائے، پھر اس پر جما رہے مگر وہ اس کی وجہ سے جنت میں داخل کیا جائے گا، اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس میں داخل نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم اور تمہاری اولاد میں جو لوگ نیک ہوئے جنت کے مکانات میں ٹھکانا نہ بنالیں، اور مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٦١١، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦) (صحیح )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میرے رب (سبحانہ و تعالیٰ ) نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا، نہ ان کا حساب ہوگا، اور نہ ان پر کوئی عذاب، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے، اور ان کے سوا میرے رب عزوجل کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ١٢ (٢٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٨) (صحیح )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
معاویہ بن حیدۃ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم قیامت کے دن ستر امتوں کا تکملہ ہوں گے، اور ہم ان سب سے آخری اور بہتر امت ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤ (٣٠٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤٤٧٤، ٥/٣، ٥) ، سنن الدارمی/الرقاق ٤٧ (٢٨٠٢) (حسن )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
معاویہ بن حیدۃ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تمہیں لے کر ستر امتیں پوری ہوئیں، اور تم ان میں سب سے بہتر ہو، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت والوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، ان میں سے اسی صفیں اس امت کے لوگوں کی ہوں گی، اور چالیس صفیں اور امتوں میں سے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة الجنة ١٣ (٢٥٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٧، ٣٥٥، ٣٦١) سنن الدارمی/الرقاق ١١١ (٢٨٧٧) (صحیح )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم آخری امت ہیں اور سب سے پہلے حساب کے لیے بلائے جائیں گے، کہا جائے گا : امت اور اس کے نبی کہاں ہیں ؟ تو ہم اول بھی ہیں اور آخر بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٠، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦) (صحیح )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مخلوق کو جمع کرے گا، تو محمد ﷺ کی امت کو سجدے کا حکم دے گا، وہ بڑی دیر تک اس کو سجدہ کرتے رہیں گے، پھر حکم ہوگا اپنے سروں کو اٹھاؤ ہم نے تمہاری تعداد کے مطابق تمہارے فدئیے جہنم سے کر دئیے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف : ٩١١١، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٦) (ضعیف جدا) (جبارہ بن المغلس ضعیف اور عبد الاعلی بن ابی المساور متروک راوی ہیں )
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا حال۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک یہ امت امت مرحومہ ہے (یعنی اس پر رحمت نازل کی گئی ہے) ، اس کا عذاب اسی کے ہاتھوں میں ہے، جب قیامت کا دن ہوگا تو ہر مسلمان کے حوالے ایک مشرک کیا جائے گا، اور کہا جائے گا : یہ تیرا فدیہ ہے جہنم سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٩، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٧) (صحیح) (سند میں جبارہ و کثیر ضعیف ہیں لیکن صحیح مسلم میں ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت کو تمام مخلوقات کے درمیان تقسیم کردیا ہے، اسی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے وحشی جانور اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں محفوظ کر رکھی ہیں، ان کے ذریعے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/التوبة ٤ (٢٧٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٨٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ١٩ (٦٠٠٠) ، الرقاق ١٩ (٦٤٦٩) سنن الترمذی/الدعوات ١٠٠ (٣٥٤١) ، مسند احمد (٢/٤٣٤) ، سنن الدارمی/الرقاق ٦٩ (٢٨٢٧) (صحیح )
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سو رحمتیں پیدا کیں، زمین میں ان سو رحمتوں میں سے ایک رحمت بھیجی، اسی کی وجہ سے ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے، اور چرند و پرند جانور بھی ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اور ننانوے رحمتوں کو اس نے قیامت کے دن کے لیے اٹھا رکھا ہے، جب قیامت کا دن ہوگا، تو اللہ تعالیٰ ان رحمتوں کو پورا کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٠٢٤، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٥) (صحیح )
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ عزوجل نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر یہ لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث (رقم : ١٨٩) (صحیح )
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس گزرے اور میں ایک گدھے پر سوار تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جب وہ ایسا کریں تو وہ ان کو عذاب نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٦ (٢٨٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٠ (٣٠) ، سنن ابی داود/الجہاد ٥٣ (٢٥٥٩) ، سنن الترمذی/الإیمان ١٨ (٢٦٤٣) ، مسند احمد (٥/٢٢٨، ٢٣٠، ٢٣٤) (صحیح )
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے کہ آپ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو پوچھا : تم کون لوگ ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم مسلمان ہیں، ان میں ایک عورت تنور میں ایندھن جھوک رہی تھی، اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا، جب تنور کی آگ بھڑک اٹھی وہ اپنے بیٹے کو لے کر ہٹ گئی، اس نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں عورت نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا اللہ سارے رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں وہ بولی : کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم نہیں کرے گا جتنا ماں اپنے بچے پر کرتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ اس نے کہا : ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی، آپ ﷺ نے سر جھکا دیا، اور روتے رہے پھر اپنا سر اٹھایا، اور فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں کو عذاب دے گا جو بہت سرکش و شریر ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہوتے ہیں اور لا إله إلا الله کہنے سے انکار کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٣٩، ومصباح الزجاجة : ١٥٣٩) (موضوع) (سند میں اسماعیل بن یحییٰ متہم بالکذب ہے، اور عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف )
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم میں کوئی نہیں جائے گا سوائے بدبخت کے لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! بدبخت کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے کبھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کی، اور کوئی گناہ نہ چھوڑا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٧٤، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٩) (ضعیف) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں )
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت : هو أهل التقوى وأهل المغفرة یعنی اللہ ہی سے ڈرنا چاہیئے اور وہی گناہ بخشنے کا اہل ہے (سورۃ المدثر : ٥٦ ) تلاوت فرمائی، اور فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے میں اس کے لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، اور میرے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنایا جائے، تو جو میرے ساتھ کوئی دوسرا معبود بنانے سے بچے تو میں ہی اس کا اہل ہوں کہ اس کو بخش دوں دوسری سند اس سند سے بھی انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت : هو أهل التقوى وأهل المغفرة کے بارے میں کہ تمہارے رب نے فرمایا : میں ہی اس بات کا اہل ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کیا جائے، اور جو میرے ساتھ شریک کرنے سے بچے میں اہل ہوں اس بات کا کہ اسے بخش دوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٧٠ (٣٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٢، ٢٤٣) ، سنن الدارمی/الرقاق ١٦ (٢٧٦٦) (ضعیف) (سند میں سہیل بن عبد اللہ ضعیف ہیں )
روز قیامت رحمت الہی کی امید۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے میری امت کے ایک شخص کی پکار ہوگی، اور اس کے ننانوے دفتر پھیلا دئیے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہوگا، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا : کیا تم اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو ؟ وہ کہے گا : نہیں، اے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میرے محافظ کاتبوں نے تم پر ظلم کیا ہے ؟ پھر فرمائے گا : کیا تمہارے پاس کوئی نیکی بھی ہے ؟ وہ آدمی ڈر جائے گا، اور کہے گا : نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : نہیں، ہمارے پاس کئی نیکیاں ہیں، اور آج کے دن تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله لکھا ہوگا، وہ کہے گا : اے میرے رب ! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، وہ سارے دفتر ہلکے پڑجائیں گے اور پرچہ بھاری ہوگا ١ ؎۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں :بطاقہ پرچے کو کہتے ہیں، اہل مصر رقعہ کو بطاقہ کہتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الایمان ١٧ (٢٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٣، ٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث حدیث بطاقہ کے نام سے مشہور ہے، اور اس میں گنہگار مسلمانوں کے لئے بڑی امید ہے، شرط یہ ہے کہ ان کا خاتمہ ایمان پر ہو۔
حوض کا ذکر۔
ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرا ایک حوض ہے، کعبہ سے لے کر بیت المقدس تک، دودھ جیسا سفید ہے، اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہیں، اور قیامت کے دن میرے پیروکار اور متبعین تمام انبیاء کے پیروکاروں اور متبعین سے زیادہ ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٩٩، ومصباح الزجاجة : ١٥٤١) (صحیح) (سند میں عطیہ العوفی ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٣٩٤٩ ، تراجع الألبانی : رقم : ٤٨٩ )
حوض کا ذکر۔
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا حوض ایلہ سے عدن تک کے فاصلے سے بھی زیادہ بڑا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں اس حوض سے کچھ لوگوں کو ایسے ہی دھتکاروں اور بھگاؤں گا جیسے کوئی آدمی اجنبی اونٹ کو اپنے حوض سے دھتکارتا اور بھگاتا ہے ، سوال کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، تم میرے پاس اس حالت میں آؤ گے کہ تمہارے ہاتھ اور منہ وضو کے نشان سے روشن ہوں گے، اور یہ نشان تمہارے علاوہ اور کسی کا نہیں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٢ (٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٣، ٤٠٦) (صحیح )
حوض کا ذکر۔
ابوسلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے مجھ کو بلا بھیجا، میں ان کے پاس ڈاک کے گھوڑے پر بیٹھ کر آیا، جب میں پہنچا تو انہوں نے کہا : اے ابو سلام ! ہم نے آپ کو زحمت دی کہ آپ کو تیز سواری سے آنا پڑا، میں نے کہا : بیشک، اللہ کی قسم ! اے امیر المؤمنین ! (ہاں واقعی تکلیف ہوئی ہے) ، انہوں نے کہا، اللہ کی قسم، میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا، لیکن مجھے پتا چلا کہ آپ ثوبان (رض) (رسول اللہ ﷺ کے غلام) سے حوض کوثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ یہ حدیث براہ راست آپ سے سن لوں، تو میں نے کہا کہ مجھ سے ثوبان (رض) نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے ایلہ تک کا فاصلہ، دودھ سے زیادہ سفید، اور شہد سے زیادہ میٹھا، اس کی پیالیاں آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں، جو شخص اس میں سے ایک گھونٹ پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا، اور سب سے پہلے جو لوگ میرے پاس آئیں گے (پانی پینے) وہ میلے کچیلے کپڑوں اور پراگندہ بالوں والے فقراء مہاجرین ہوں گے، جو ناز و نعم میں پلی عورتوں سے نکاح نہیں کرسکتے اور نہ ان کے لیے دروازے کھولے جاتے ۔ ابو سلام کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھی تر ہوگئی، پھر بولے : میں نے تو ناز و نعم والی عورتوں سے نکاح بھی کیا، اور میرے لیے دروازے بھی کھلے، اب میں جو کپڑا پہنوں گا، اس کو ہرگز نہ دھووں گا، جب تک وہ میلا نہ ہوجائے، اور اپنے سر میں تیل نہ ڈالوں گا جب تک کہ وہ پراگندہ نہ ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ١٥ (٢٤٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٥) (صحیح) (عباس بن سالم اور ابو سلام کے مابین انقطاع کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث دوسرے طریق سے ثابت ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٠٨٢ ، السنة لابن ابی عاصم : ٧٠٧ - ٧٠٨ )
حوض کا ذکر۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے حوض کے دونوں کناروں کا فاصلہ اتنا ہے جتنا صنعاء اور مدینہ میں یا مدینہ و عمان میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١٠ (٢٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥٣ (٦٥٩١) ، مسند احمد (٣/١٣٣، ٢١٦، ٢١٩) (صحیح )
حوض کا ذکر۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حوض کوثر پر چاندی اور سونے کے جگ آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٩ (٢٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٣٨) (صحیح )
حوض کا ذکر۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قبرستان میں آئے، اور قبر والوں کو سلام کرتے ہوئے فرمایا : السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله تعالى بکم لاحقون اے مومن قوم کے گھر والو ! آپ پر سلامتی ہو، انشاء اللہ ہم آپ لوگوں سے جلد ہی ملنے والے ہیں ، پھر فرمایا : میری آرزو ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ فرمایا : تم سب میرے اصحاب ہو، میرے بھائی وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے، اور میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کی امت میں سے جو لوگ ابھی نہیں آئے ہیں آپ ان کو کیسے پہچانیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا وہ آدمی جس کے گھوڑے سفید پیشانی، اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں خالص کالے گھوڑوں کے بیچ میں ان کو نہیں پہچانے گا ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : کیوں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے اخوان قیامت کے دن وضو کے نشانات سے (اسی طرح) سفید پیشانی، اور سفید ہاتھ پاؤں ہو کر آئیں گے ، پھر فرمایا : میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا کچھ لوگ میرے حوض سے بھولے بھٹکے اونٹ کی طرح ہانک دئیے جائیں گے، میں انہیں پکاروں گا کہ ادھر آؤ، تو کہا جائے گا کہ انہوں نے تمہارے بعد دین کو بدل دیا، اور وہ الٹے پاؤں لوٹ جائیں گے، میں کہوں گا : خبردار ! دور ہٹو، دور ہٹو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٠، ٣٧٥) (صحیح )
شفاعت کا ذکر۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کی (اپنی امت کے سلسلے میں) ایک دعا ہوتی ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے، تو ہر نبی نے جلدی سے دنیا ہی میں اپنی دعا پوری کرلی، اور میں نے اپنی دعا کو چھپا کر اپنی امت کی شفاعت کے لیے رکھ چھوڑا ہے، تو میری شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہوگی جو اس حال میں مرا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا رہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٦ (١٩٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٣١ (٣٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥١٢) ، وقدأخرجہ : صحیح البخاری/الدعوات ١ (٦٣٠٤) ، مسند احمد (٢/٢٧٥) ، موطا امام مالک/القرآن ٨ (٢٦) ، سنن الدارمی/الرقاق ٨٥ (٢٨٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی عقیدہ توحید پر موت ہو، اگر شرک میں مبتلا رہ کر مرا تو نبی اکرم ﷺ کی شفاعت سے محروم رہے گا، دوسری روایت میں ہے کہ میری شفاعت میری امت میں سے ان لوگوں کے لئے ہوگی جنہوں نے کبیرہ گناہ کئے ہیں۔
شفاعت کا ذکر۔
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور یہ فخریہ نہیں کہتا، قیامت کے دن زمین سب سے پہلے میرے لیے پھٹے گی، اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا، میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہوگی، اور میں فخریہ نہیں کہتا، حمد کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہاتھ میں ہوگا، اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ١٨ (٣١٤٨) ، المناقب ١ (٣٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢) (صحیح )
شفاعت کا ذکر۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم والے جن کا ٹھکانا جہنم ہی ہے، وہ اس میں نہ مریں گے نہ جئیں گے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو ان کے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی آگ پکڑ لے گی، اور ان کو مار ڈالے گی یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ ہوجائیں گے، تو ان کی شفاعت کا حکم ہوگا، پھر وہ گروہ در گروہ لائے جائیں گے اور جنت کی نہروں پر پھیلائے جائیں گے، کہا جائے گا : اے جنتیو ! ان پر پانی ڈالو تو وہ نالی میں دانے کے اگنے کی طرح اگیں گے ، راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا : گویا رسول اللہ ﷺ بادیہ (دیہات) میں بھی رہ چکے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٢ (١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥، ١١، ٢٠، ٧٨) ، سنن الدارمی/الرقاق ٩٦ (٢٨٥٩) (صحیح )
شفاعت کا ذکر۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت قیامت کے دن میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ١١ (٢٤٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٨) (صحیح )
شفاعت کا ذکر۔
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے اختیار دیا گیا کہ شفاعت اور آدھی امت کے جنت میں داخل ہونے میں سے ایک چیز چن لوں، تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا، کیونکہ وہ عام ہوگی اور کافی ہوگی، کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ شفاعت متقیوں کے لیے ہے ؟ نہیں، بلکہ یہ ایسے گناہگاروں کے لیے ہے جو غلطی کرنے والے اور گناہوں سے آلودہ ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٩، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٢) (ضعیف) (سند میں اضطراب کی وجہ سے یہ سیاق ضعیف ہے، اول حدیث خيرت بين الشفاعة دوسرے طریق سے صحیح ہے لیکن لأنها أعم الخ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٥٨٥ و السنة لابن أبی عاصم : ٨٩١ )
شفاعت کا ذکر۔
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن قیامت کے دن جمع ہوں گے اور ان کے دلوں میں ڈال دیا جائے گا، یا وہ سوچنے لگیں گے، (یہ شک راوی حدیث سعید کو ہوا ہے) ، تو وہ کہیں گے : اگر ہم کسی کی سفارش اپنے رب کے پاس لے جاتے تو وہ ہمیں اس حالت سے راحت دے دیتا، وہ سب آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، اور کہیں گے : آپ آدم ہیں، سارے انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور اپنے فرشتوں سے آپ کا سجدہ کرایا، تو آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئیے کہ وہ ہمیں اس جگہ سے نجات دیدے، آپ فرمائیں گے : میں اس قابل نہیں ہوں ۔ آپ اپنے کئے ہوئے گناہ کو یاد کر کے اس کا شکوہ ان لوگوں کے سامنے کریں گے، اور اس بات سے شرمندہ ہوں گے، پھر فرمائیں گے : لیکن تم سب نوح کے پاس جاؤ اس لیے کہ وہ پہلے رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کے پاس بھیجا، وہ سب نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، تو آپ ان سے کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اللہ کے حضور جاؤں، اور آپ اپنے اس سوال کو یاد کر کے شرمندہ ہوں گے جو آپ نے اپنے رب سے اس چیز کے بارے میں کیا تھا جس کا آپ کو علم نہیں تھا ۔ پھر کہیں گے کہ لیکن تم سب ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جاؤ، وہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، تو آپ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، لیکن تم سب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، وہ ایسے بندے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کی، اور ان کو تورات عطا کی، وہ سب ان کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں (وہ اپنا وہ قتل یاد کریں گے جو ان سے بغیر کسی خون کے مقابل ہوگیا تھا) ، لیکن تم سب عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، جو اللہ کے بندے، اس کے رسول، اور اس کا کلمہ و روح ہیں، وہ سب ان کے پاس آئیں گے، تو وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، لیکن تم سب محمد ﷺ کے پاس جاؤ، جو اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر وہ میرے پاس آئیں گے تو میں چلوں گا (حسن کی روایت کے مطابق مومنوں کی دونوں صفوں کے درمیان چلوں گا) میں اپنے رب سے اجازت مانگوں گا، تو مجھے اجازت دے دی جائے گی، جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا، تو سجدے میں گر پڑوں گا، میں اس کے آگے سجدے میں اس وقت تک رہوں گا جب تک وہ اس حالت میں مجھے چھوڑے رکھے گا، پھر حکم ہوگا : اے محمد ! سر اٹھاؤ، اور کہو، تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، میں اس کی حمد بیان کروں گا جس طرح وہ مجھے سکھائے گا، پھر میں شفاعت کروں گا، میرے لیے حد مقرر کردی جائے گی، اللہ تعالیٰ ان سب کو جنت میں داخل کر دے گا، پھر میں دوبارہ لوٹوں گا، جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا، تو سجدے میں گر پڑوں گا، میں اس کے آگے سجدے میں اس وقت تک رہوں گا، جب تک وہ اس حالت میں مجھے چھوڑے رکھے گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد ! سر اٹھاؤ، تم کہو، تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو دیا جائے گا، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہوگی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اس کی تعریف کروں گا، جس طرح وہ مجھے سکھائے گا، پھر میں شفاعت کروں گا، تو میرے لیے حد مقرر کردی جائے گی، اور وہ ان کو جنت میں داخل کر دے گا، پھر میں تیسری بار لوٹوں گا، جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا، میں اس کے آگے سجدے میں اس وقت تک رہوں گا، جب تک وہ اس حالت میں مجھے چھوڑے رکھے گا، پھر حکم ہوگا کہ اے محمد ! سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہوگی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اس کے سکھائے ہوئے طریقے سے اس کی حمد کروں گا، پھر میں شفاعت کروں گا، میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی، پھر ان کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دے گا، پھر میں چوتھی بار لوٹوں گا، اور کہوں گا : اے میرے رب ! اب تو کوئی باقی نہیں ہے، سوائے اس کے جس کو قرآن نے روکا ہے یعنی جو قرآن کی تعلیمات کی رو سے جہنم کے لائق ہے
شفاعت کا ذکر۔
، قتادہ کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم سے وہ شخص بھی نکل آئے گا جس نے لا إله إلا الله کہا، اور اس کے دل میں جو کے برابر بھی نیکی ہوگی، اور وہ شخص بھی نکلے گا جس نے لا إله إلا الله کہا، اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر نیکی ہوگی، اور وہ شخص بھی نکلے گا جس نے لا إله إلا الله کہا، اور اس کے دل میں ذرہ برابر نیکی ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ١ (٤٤٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٤ (١٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٧١، ١١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٦، ٢٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور رسول اکرم ﷺ کی شفاعت سے بڑی امید ہے کہ کوئی موحد بھی جس کے دل میں رتی برابر ایمان ہو ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا۔ عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن تین طرح کے لوگ شفاعت کرسکیں گے : انبیاء، علماء پھر شہداء ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨٠، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٣) (موضوع) (سند میں عنبسہ وضع حدیث میں متہم ہے، اور علاق مجہول، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٩٧٨ )
شفاعت کا ذکر۔
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب مقرر ہوں گا، اور ان کی سفارش کرنے والا ہوں گا، میں بغیر کسی فخر کے یہ بات کہہ رہا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ١ (٣٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣٧، ١٣٨) (حسن )
شفاعت کا ذکر۔
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہنم میں سے ایک گروہ میری شفاعت کی وجہ سے باہر آئے گا، ان کا نام جہنمی ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥١ (٦٥٦٦) ، سنن ابی داود/السنة ٢٣ (٤٧٤٠) ، سنن الترمذی/صفة جہنم ١٠ (٢٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٤) (صحیح )
شفاعت کا ذکر۔
عبداللہ بن ابی الجدعا (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میری امت کے ایک شخص کی شفاعت کے نتیجہ میں بنو تمیم سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ کے علاوہ (یعنی وہ شخص آپ کے علاوہ کوئی ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، میرے علاوہ، ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی الجدعا (رض) سے کہا : یہ بات آپ نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں نے آپ ہی سے سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ١٢ (٢٤٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٩، ٤٧٠، ٥/٣٦٦) سنن الدارمی/الرقاق ٨٧ (٢٨٥٠) (صحیح )
شفاعت کا ذکر۔
عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ آج رات میرے رب نے مجھے کس بات کا اختیار دیا ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا شفاعت کروں تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا ، ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں بھی شفاعت والوں میں بنائے، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ شفاعت ہر مسلمان کو شامل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ١٣ (٢٤٤١) (صحیح )
دوزخ کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک تمہاری یہ آگ جہنم کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، اور اگر یہ دو مرتبہ پانی سے نہ بجھائی جاتی تو تم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے، اور یہ آگ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہے کہ دوبارہ اس کو جہنم میں نہ ڈالا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٧، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٤) (ضعیف جدا) (سند میں نفیع ابوداود متروک راوی ہے، لیکن صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث ثابت ہے، آخری ٹکڑا وإنها لتدعو الله عز وجل أن لا يعيدها فيها ثابت نہیں ہے )
دوزخ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی اور کہا : اے میرے رب ! میرے بعض حصہ نے بعض حصے کو کھالیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دو سانسیں عطا کیں : ایک سانس سردی میں، دوسری گرمی میں، تو سردی کی جو شدت تم پاتے ہو وہ اسی کی سخت سردی کی وجہ سے ہے، اور جو تم گرمی کی شدت پاتے ہو یہ اس کی گرم ہوا سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ٩ (٥٣٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤ (٤٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧ (١٥٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٤ (٥٠١) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٧ (٢٩) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٣٨، ٢٥٦، ٢٦٦، ٢٤٨، ٣٧٧، ٣٩٣، ٤٠٠، ٤١١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤ (١٢٤٣) ، الرقاق ١١٩ (٢٨٨٨) (صحیح )
دوزخ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہنم ہزار برس تک بھڑکائی گئی تو اس کی آگ سفید ہوگئی، پھر ہزار برس بھڑکائی گئی تو وہ سرخ ہوگئی، پھر ہزار برس بھڑکائی گئی تو وہ سیاہ ہوگئی، اب وہ تاریک رات کی طرح سیاہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة جہنم (٢٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٠٧) (ضعیف) (سند میں شریک ضعیف راوی ہیں )
دوزخ کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن کافروں میں سے وہ شخص لایا جائے گا، جس نے دنیا میں بہت عیش کیا ہوگا، اور کہا جائے گا : اس کو جہنم میں ایک غوطہٰ دو ، اس کو ایک غوطہٰ جہنم میں دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے فلاں ! کیا تم نے کبھی راحت بھی دیکھی ہے ؟ وہ کہے گا : نہیں، میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور مومنوں میں سے ایک ایسے مومن کو لایا جائے گا، جو سخت تکلیف اور مصیبت میں رہا ہوگا، اس کو جنت کا ایک غوطہٰ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا : کیا تم نے کبھی کوئی تکلیف یا پریشانی دیکھی ؟ وہ کہے گا : مجھے کبھی بھی کوئی مصیبت یا تکلیف نہیں پہنچی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤١) (صحیح )
دوزخ کا بیان۔
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کافر جہنم میں اتنا بھاری بھر کم ہوگا کہ اس کا دانت احد پہاڑ سے بڑا ہوجائے گا، اور اس کا باقی بدن دانت سے اتنا ہی بڑا ہوگا جتنا تمہارا بدن دانت سے بڑا ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٢٤٠، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٥) (ضعیف) (عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن پہلا ٹکڑا ثابت ہے، وفضيلة جسده الخ ثابت نہیں ہے )
دوزخ کا بیان۔
عبداللہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں ایک رات ابوبردہ (رض) کے پاس تھا، تو ہمارے پاس حارث بن اقیش (رض) آئے، اس رات حارث نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں ایسا شخص بھی ہوگا جس کی شفاعت سے مضر قبیلے سے زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے، اور میری امت میں سے ایسا شخص ہوگا جو جہنم کے لیے اتنا بڑا ہوجائے گا کہ وہ جہنم کا ایک کونہ ہوجائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٧٣، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٢) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن قیس مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا إن من أمتي من يدخل الجنة بشفاعته أكثر من مضر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٨٢٣ و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢١٧٨ )
دوزخ کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنمیوں پر رونا آزاد چھوڑ دیا جائے گا، وہ روئیں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہوجائیں گے، پھر وہ خون روئیں گے یہاں تک کہ ان کے چہروں پر گڑھے بن جائیں گے، اگر ان میں کشتیاں چھوڑ دی جائیں تو وہ تیرنے لگیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٠، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٧) (ضعیف) (سند میں یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں، لیکن مختصرا یہ حدیث مستدرک الحاکم میں عبد اللہ بن قیس سے ثابت ہے، ثم يبكون الدم حتى يصير في وجوههم كهيئة ( ٤ /٦٠٥) کا لفظ ثابت نہیں ہے )
دوزخ کا بیان۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت : يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو (آل عمران : ١٠٢ ) تلاوت کی اور فرمایا : زقوم (تھوہڑ) کا ایک قطرہ (جہنمیوں کی خوراک) زمین پر ٹپک جائے، تو ساری دنیا والوں کی زندگی تباہ کر دے، تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کے پاس اس کے سوا کوئی کھانا نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة جہنم ٤ (٢٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠١، ٣٣٨) (ضعیف) (سلیمان الأعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٧٨٢ و ضعیف الترغیب و الترھیب : ٢١٥٩ )
دوزخ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جہنم کی آگ ابن آدم کے سارے بدن کو کھائے گی سوائے سجدوں کے نشان کے، اللہ تعالیٰ نے آگ پر یہ حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٩ (٨٠٦) ، الرقاق ٥٢ (٦٥٧٣) ، التوحید ٢٦ (٧٤٣٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨١ (١٨٢) ، مسند احمد (٢/٢٧٦، ٢٩٣، ٥٣٤، ٣/٩٤) (صحیح )
دوزخ کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا، اور پل صراط پر کھڑا کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا : اے جنت والو ! تو وہ خوف زدہ اور ڈرے ہوئے اوپر چڑھیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو ان کے مقام سے نکال دیا جائے، پھر پکارا جائے گا : اے جہنم والو ! تو وہ خوش خوش اوپر آئیں گے کہ وہ اپنے مقام سے نکالے جا رہے ہیں، پھر کہا جائے گا : کیا تم اس کو جانتے ہو ؟ وہ کہیں گے : ہاں، یہ موت ہے، فرمایا : پھر حکم ہوگا تو وہ پل صراط پر ذبح کردی جائے گی، پھر دونوں گروہوں سے کہا جائے گا : اب دونوں گروہ اپنے اپنے مقام میں ہمیشہ رہیں گے، اور موت کبھی نہیں آئے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٠٢، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥٠ (٦٥٤٥) ، مسند احمد (٢/٢٦١، ٣٧٧، ٥١٣) ، سنن الدارمی/الرقاق ٩٠ (٢٨٥٣) (حسن صحیح )
جنت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمت تیار کر رکھی ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی آدمی کے دل میں اس کا خیال آیا۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ ان نعمتوں کے علاوہ جو تم کو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور بھی نعمتیں ہیں، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو : فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما کانوا يعملون کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ اس کے لیے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے، یہ بدلہ ہے اس کے نیک اعمال کا (سورۃ السجدۃ : ١٧ ) ۔ ابوہریرہ (رض) اس کو قرآت أعين (یعنی جمع کا صیغہ) پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٨ (٣٢٤٤) ، صحیح مسلم/الجنة (٢٨٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٣٣ (٣١٩٧) (صحیح )
جنت کا بیان۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک بالشت کی جگہ زمین یا زمین پر موجود تمام چیزوں میں یعنی دنيا وما فيها سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤١٩٢، ومصباح الزجاجة : ١٥٤٩) (ضعیف) (سند میں حجاج اور عطیہ العوفی ضعیف ہیں )
جنت کا بیان۔
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنيا وما فيها سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ٤٦٧٤، ومصباح الزجاجة : ١٥٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٧٣ (٢٨٩٢) ، بدء الخلق ٨ (٣٢٥٠) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٧ (١٦٤٨) (صحیح) (سند میں زکریا ضعیف ہیں لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، کما فی التخریج )
جنت کا بیان۔
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جنت کے سو درجے ہیں، ہر درجے کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے کے برابر ہے، اور اس کا سب سے اونچا درجہ فردوس ہے، اور سب سے عمدہ بھی فردوس ہے اور عرش بھی فردوس پر ہے، اسی میں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں، تو جب تم اللہ تعالیٰ سے مانگو تو فردوس مانگو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/صفة الجنة ٤ (٢٥٣٠) ، مسند احمد (٥/٢٣٢، ٢٤٠) (صحیح )
جنت کا بیان۔
اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا : کیا کوئی جنت کے لیے کمر نہیں باندھتا ؟ اس لیے کہ جنت جیسی کوئی اور چیز نہیں ہے، رب کعبہ کی قسم، وہ چمکتا ہوا نور ہے، خوشبودار پھول ہے جو جھوم رہا ہے، مضبوط محل ہے، بہتی نہر ہے، وہاں بہت سارے پکے ہوئے میوے اور تیار پھل ہیں، خوبصورت اور خوش اخلاق بیویاں ہیں، کپڑوں کے بہت سارے جوڑے ہیں، ہمیشگی کا مقام ہے، جہاں سدا بہار اور تازگی ہے، اونچا، محفوظ اور روشن محل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم اس کے لیے کمر باندھتے ہیں، تو آپ نے فرمایا : کہو، انشاء اللہ ، پھر جہاد کا ذکر کیا، اور اس کی رغبت دلائی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٨، ومصباح الزجاجة : ١٥٥١) (ضعیف) (سند میں ضحاک معافری لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں )
جنت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگی، پھر جو لوگ ان کے بعد آئیں گے آسمان میں سب سے زیادہ روشن تارے کی طرح چمکتے ہوں گے، نہ وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، نہ وہ ناک صاف کریں گے نہ تھوکیں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ مشک کا ہوگا، ان کی انگیٹھیاں عود کی ہوں گی، ان کی بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی، سارے جنتیوں کی عادت ایک شخص جیسی ہوگی، سب اپنے والد آدم (علیہ السلام) کی شکل و صورت پر ہوں گے، ساٹھ ہاتھ کے لمبے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٨ (٣٣٢٧) ، صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ٦ (٢٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/صفة الجنة ٧ (٢٥٣٧) (صحیح ) اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے عمارہ کی حدیث کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ٦ (٢٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣١، ٢٥٣) (صحیح )
جنت کا بیان۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوثر جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اور اس کی پانی بہنے کی نالی یا قوت و موتی پر ہوگی، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے، اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٨٩ (٣٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١٢) (صحیح )
جنت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک درخت ہے، اس کے سائے میں سوار سو برس تک چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہوگا، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو : وظل ممدود جنت میں دراز اور لمبا سایہ ہے (سورة الواقعة : 3) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٥٦ (٤٨٨١) ، صحیح مسلم/الجنة ١ (٢٨٢٦) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ١ (٢٥٢٣) ، سنن الدارمی/الرقاق ١١٤ (٢٨٨٠) (صحیح )
جنت کا بیان۔
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ وہ ابوہریرہ (رض) سے ملے تو انہوں نے کہا : میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تمہیں جنت کے بازار میں ملا دے، سعید بن مسیب نے کہا : کیا وہاں بازار بھی ہوگا ؟ فرمایا : ہاں، مجھے رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے مراتب اعمال کے مطابق ان کو جگہ ملے گی، پھر ان کو دنیا کے دنوں میں سے جمعہ کے دن کے برابر اجازت دی جائے گی، وہ اللہ عزوجل کی زیارت کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے لیے اپنا عرش ظاہر کرے گا، اور ان کے سامنے جنت کے باغات میں سے ایک باغ میں جلوہ افروز ہوگا، ان کے لیے منبر رکھے جائیں گے، نور کے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زبرجد کے منبر، سونے اور چاندی کے منبر اور ان میں سے کم تر درجے والا (حالانکہ ان میں کم تر کوئی نہ ہوگا) مشک و کافور کے ٹیلوں پر بیٹھے گا، اور ان کو یہ خیال نہ ہوگا کہ کرسیوں والے ان سے زیادہ اچھی جگہ بیٹھے ہیں ۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ فرمایا : ہاں، کیا تم سورج اور چودھویں کے چاند کو دیکھنے میں جھگڑتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں، فرمایا : اسی طرح تم اپنے رب عزوجل کو دیکھنے میں جھگڑا نہیں کرو گے اور اس مجلس میں کوئی شخص نہیں بچے گا مگر اللہ تعالیٰ ہر شخص سے گفتگو کرے گا، یہاں تک کہ وہ ان میں سے ایک شخص سے کہے گا : اے فلاں ! کیا تمہیں یاد نہیں کہ ایک دن تم نے ایسا ایسا کیا تھا ؟ (اس کو دنیا کی بعض غلطیاں یاد دلائے گا) تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! کیا تم نے مجھے معاف نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیوں نہیں، میری وسیع مغفرت ہی کی وجہ سے تو اس درجے کو پہنچا ہے، وہ سب اسی حالت میں ہوں گے کہ ان کو اوپر سے ایک بادل ڈھانپ لے گا، اور ایسی خوشبو برسائے گا جو انہوں نے کبھی نہ سونگھی ہوگی، پھر فرمائے گا : اب اٹھو اور جو کچھ تمہاری مہمان نوازی کے لیے میں نے تیار کیا ہے اس میں سے جو چاہو لے لو، فرمایا : پھر ہم ایک بازار میں آئیں گے جس کو فرشتوں نے گھیر رکھا ہوگا، اس میں وہ چیزیں ہوں گی جن کے مثل نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، اور نہ دلوں نے سوچا، (فرمایا) ہم جو چاہیں گے ہمارے لیے پیش کردیا جائے گا، اس میں کسی چیز کی خریدو فروخت نہ ہوگی، اس بازار میں اہل جنت ایک دوسرے سے ملیں گے، ایک اونچے مرتبے والا شخص آگے بڑھے گا اور اپنے سے نیچے درجے والے سے ملے گا (حالانکہ ان میں کوئی کم درجے کا نہ ہوگا) وہ اس کے لباس کو دیکھ کر مرعوب ہوگا، لیکن یہ دوسرا شخص اپنی گفتگو پوری نہ کر پائے گا کہ اس پر اس سے بہتر لباس آجائے گا، ایسا اس لیے ہے کہ جنت میں کسی کو کسی چیز کا غم نہ رہے ۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں : پھر ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے، تو ہماری بیویاں ہم سے ملیں گی، اور خوش آمدید کہیں گی، اور کہیں گی کہ تم آگئے اور تمہاری خوبصورتی اور خوشبو اس سے کہیں عمدہ ہے جس میں تم ہمیں چھوڑ کر گئے تھے، تو ہم کہیں گے : آج ہم اپنے رب کے پاس بیٹھے، اور یہ ضروری تھا کہ ہم اسی حال میں لوٹتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة الجنة ١٥ (٢٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٩١) (ضعیف) (سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١٧٢٢ )
جنت کا بیان۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بھی جنت میں جائے گا اللہ تعالیٰ بہتر ( ٧٢ ) بیویوں سے اس کی شادی کر دے گا، دو بڑی آنکھوں والی حوریں اور ستر ( ٧٠ ) اہل جہنم کی میراث میں سے ہوں گی، ان میں سے ہر ایک کی شرمگاہ خوب شہوت والی ہوگی، اور اس کا ذکر ایسا ہوگا جس میں کبھی کجی نہیں ہوگی ، ہشام بن خالد نے کہا : اہل جہنم کی میراث سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ جہنم میں جائیں گے اہل جنت ان کی بیویوں کے وارث ہوجائیں گے مثلا ً فرعون کی بیوی کے وارث جنتی ہوں گے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٥٩، ومصباح الزجاجة : ١٥٥٢) (ضعیف جدا) (سند میں خالد بن یزید ضعیف ہیں )
جنت کا بیان۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن جب جنت میں اولاد کی خواہش کرے گا، تو حمل اور وضع حمل اس کی خواہش کے موافق سب ایک گھڑی میں ہوجائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة الجنة ٢٣ (٢٥٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨٠٠٩) ، سنن الدارمی/الرقاق ١١٠ (٢٨٧٦) (صحیح )
جنت کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں جانتا ہوں اس کو جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا، اور جنت میں سب سے آخر میں داخل ہوگا، وہ شخص جہنم سے گھسٹتا ہوا نکلے گا، اس سے کہا جائے گا : جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ وہ جنت تک آئے گا تو اس کو لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے، وہ لوٹ جائے گا اس پر کہے گا : اے میرے رب ! میں نے اس کو بھری ہوئی پایا، اللہ فرمائے گا : جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ، وہ جنت تک آئے گا تو اس کو بھری ہوئی سمجھ کر پھر واپس چلا جائے گا، لوٹ کر کہے گا : اے میرے رب ! وہ تو بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ، تمہارے لیے دنیا اور اس کے مثل دس دنیاؤں کی جگہ (جنت میں) ہے، وہ کہے گا : کیا تو مجھ سے مذاق کر رہا ہے حالانکہ تو بادشاہ ہے ؟ ، یہ حدیث بیان کرتے ہوئے میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اتنا ہنسے کہ آپ کے اخیر کے دانت ظاہر ہوگئے، (یعنی کھل کھلا کر ہنس پڑے) کہا جاتا ہے کہ یہ شخص جنتیوں میں سب سے کم درجے والا ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٥١ (٦٥٧١) ، التوحید ٣٦ (٧٥١١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٣ (١٨٦) ، سنن الترمذی/صفة جھنم ١٠ (٢٥٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٠، ٣٧٦، ٣٧٨، ٤٦٠) (صحیح )
جنت کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تین بار جنت مانگی تو جنت نے کہا : اے اللہ ! اسے جنت میں داخل فرما، اور جس نے تین بار جہنم سے پناہ مانگی تو جہنم نے کہا : اے اللہ ! اس کو جہنم سے پناہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة الجنة ٢٧ (٢٥٧٢) ، سنن النسائی/ الاستعاذة ٥٥ (٥٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣) (صحیح )
جنت کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کے دو ٹھکانے ہیں : ایک ٹھکانا جنت میں اور ایک ٹھکانا جہنم میں، جب وہ مرتا ہے اور جہنم میں چلا جاتا ہے تو جنت والے اس کے حصے کو لاوارث سمجھ کرلے لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے قول : أولئك هم الوارثون یہی لوگ وارث ہوں گے (سورة المومنون : 1) کا یہی مطلب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٤٥، ومصباح الزجاجة : ١٥٥٣) (صحیح )