4. نماز کا بیان

【1】

نماز کے اوقات کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے نماز کے اوقات کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے فرمایا : آنے والے دو دن ہمارے ساتھ نماز پڑھو، چناچہ (پہلے دن) جب سورج ڈھل گیا تو آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، پھر ان کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی ١ ؎، پھر ان کو حکم دیا، انہوں نے نماز عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند، صاف اور چمکدار تھا ٢ ؎، پھر جب سورج ڈوب گیا تو ان کو حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت کہی، پھر جب شفق ٣ ؎ غائب ہوگئی تو انہیں حکم دیا، انہوں نے عشاء کی اقامت کہی، پھر جب صبح صادق طلوع ہوئی تو انہیں حکم دیا، تو انہوں نے فجر کی اقامت کہی، جب دوسرا دن ہوا تو آپ نے ان کو حکم دیا، تو انہوں نے ظہر کی اذان دی، اور ٹھنڈا کیا اس کو اور خوب ٹھنڈا کیا (یعنی تاخیر کی) ، پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سورج بلند تھا، پہلے روز کے مقابلے میں دیر کی، پھر مغرب کی نماز شفق کے غائب ہونے سے پہلے پڑھائی، اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے کے بعد پڑھائی اور فجر کی نماز اجالے میں پڑھائی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ ، اس آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری نماز کا وقت ان اوقات کے درمیان ہے جو تم نے دیکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسا جد ٣١ (٦١٣) ، سنن الترمذی/الصلا ة ١ (١٥٢) ، سنن النسائی/المو اقیت ١٢ (٥٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پہلے روز سورج ڈھلتے ہی ظہر کی اذان دلوائی اور آپ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ ظہر کا اول وقت زوال یعنی سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے۔ ٢ ؎: یعنی ابھی اس میں زردی نہیں آئی تھی ٣ ؎: شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے، اور عشاء سے ذرا پہلے تک برقرار رہتی ہے۔

【2】

نماز کے اوقات کا بیان

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے گدوں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ کے امیر تھے، اور ان کے ساتھ عروہ بن زبیر بھی تھے، عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں کچھ دیر کردی تو ان سے عروہ نے کہا : سنیے ! جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی امامت فرمائی، تو ان سے عمر بن عبدالعزیز نے کہا : عروہ ! جو کچھ کہہ رہے ہو سوچ سمجھ کر کہو ؟ اس پر عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد ابی مسعود (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے، اور انہوں نے میری امامت کی تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔۔۔ وہ اپنی انگلیوں سے پانچوں نمازوں کو شمار کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢ (٥٢١) ، بدء الخلق ٦ (٣٢٢١) ، المغازي ١٢ (٤٠٠٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢ (٣٩٤) ، سنن النسائی/المواقیت ١ (٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (١) ، مسند احمد (٤/١٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو عروہ نے حدیث کی سند بیان کر کے عمر بن عبدالعزیز کی تسلی کردی، اور دوسری روایت میں ہے کہ عروہ نے ایک اور حدیث بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کی جو آگے مذکور ہوگی، عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات مقرر ہیں اور جبرائیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے نبی اکرم ﷺ کو ان کی تعلیم دی تھی اور آپ ﷺ اپنے اوقات میں نماز ادا فرماتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ اس روز سے عمر بن عبدالعزیز نے کبھی نماز میں دیر نہیں کی، اس سے عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات کی تحدید کے لئے جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے، اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو عملی طور پر سکھایا، اس لئے اس سلسلہ میں کوتاہی مناسب نہیں۔

【3】

نماز فجر کا وقت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس لوٹتیں، لیکن انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا، یعنی رات کے آخری حصہ کی تاریکی کے سبب ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٥) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٤ (٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٣ (٣٧٢) ، المواقیت ٢٧ (٥٧٨) ، الأذان ١٦٣ (٧٦٧) ، ١٦٥ (٨٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٨ (٤٢٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢ (١٥٣) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٤) ، مسند احمد (٦/٣٣، ٣٦، ١٧٩، ٢٤٨، ٢٥٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠ (١٢٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنی چاہیے، اور یہی نبی ﷺ کا دائمی طریقہ تھا۔

【4】

نماز فجر کا وقت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کریمہ : وقرآن الفجر إن قرآن الفجر کان مشهودا (سورة الإسراء : 78) کی تفسیر میں فرمایا : اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر رہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد اللہ بن مسعود تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣١٣٥) ، وحدیث أبي ہریرة أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٤٧ (٢١٥) ، التفسیر ١٨ (٣١٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣١ (٦٤٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو رات اور دن دونوں کے فرشتے فجر اور عصر کے وقت، جمع ہوجاتے ہیں اور یہ مضمون دوسری حدیث میں مزید صراحت سے آیا ہے۔

【5】

نماز فجر کا وقت

مغیث بن سمی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کے ساتھ صبح کی نماز غلس (آخر رات کی تاریکی) میں پڑھی، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں عبداللہ بن عمر (رض) کی طرف متوجہ ہوا، اور ان سے کہا : یہ کیسی نماز ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ وہ نماز ہے جو ہم رسول اللہ ﷺ ، اور ابوبکرو عمر (رض) کے ساتھ پڑھتے تھے، لیکن جب عمر (رض) کو نیزہ مار کر زخمی کردیا گیا تو عثمان (رض) نے اسے اسفار (اجالے) میں پڑھنا شروع کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٦١، ومصباح الزجاجة : ٢٥٣) (صحیح) (نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ١ / ٢٧٩ ) وضاحت : ١ ؎: عثمان (رض) کو اسفار (اجالے) میں فجر پڑھتے دیکھ کر بعض تابعین کو یہ گمان پیدا ہوگیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ یہی تھا کہ وہ اسفار میں فجر کی نماز پڑھا کرتے جیسے ابراہیم نخعی سے منقول ہے حالانکہ اسفار میں پڑھنے کا باعث جان کا ڈر تھا ورنہ اصلی وقت اس نماز کا وہی تھا جو ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ منہ اندھیرے نبی اکرم ﷺ اور شیخین (ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما) ایسا ہی کرتے رہے۔

【6】

نماز فجر کا وقت

رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صبح کو اچھی طرح روشن کرلیا کرو، اس میں تم کو زیادہ ثواب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨ (٤٢٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣ (١٥٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٦ (٥٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٢) وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٠، ٤٦٥، ٤/١٤٠، ١٤٢، ٥/٤٢٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١ (١٢٥٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اتنا اجالا ہوجانے دو کہ طلوع فجر میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے، یا یہ حکم ان چاندنی راتوں میں ہے جن میں طلوع فجر واضح نہیں ہوتا، شاہ ولی اللہ دہلوی (حجۃ اللہ البالغہ) میں لکھتے ہیں کہ یہ خطاب ان لوگوں کو ہے جنہیں جماعت میں کم لوگوں کی حاضری کا خدشہ ہو، یا ایسی بڑی مسجدوں کے لوگوں کو ہے جس میں کمزور اور بچے سبھی جمع ہوتے ہوں، یا اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ فجر کی نماز خوب لمبی پڑھو، تاکہ ختم ہوتے ہوتے خوب اجالا ہوجائے، جیسا کہ ابوبرزہ (رض) کی روایت میں ہے کہ آپ فجر کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو آدمی اپنے ہم نشیں کو پہنچان لیتا اس طرح اس میں اور غلس والی روایتوں میں کوئی تضاد و تعارض نہیں رہ جاتا ہے۔

【7】

نماز فجر کا وقت

جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ظہر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٦١٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤ (٨٠٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٠ (٩٨١) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠٦) (صحیح )

【8】

نماز فجر کا وقت

ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ دوپہر کی نماز جس کو تم ظہر کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١) ، ١٣ (٥٤٧) ، ٢٣ (٥٦٨) ، ٣٨ (٥٩٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤ (٣٩٨) ، سنن النسائی/المواقیت ١ (٤٩٦) ، ١٦ (٥٢٦) ، ٢٠ (٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٤ (١٥٥) ، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٨) (صحیح )

【9】

نماز فجر کا وقت

خباب (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے ریت کی گرمی (زمین کی تپش) کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کو نظر انداز کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٦١٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٢ (٤٩٨) مسند احمد (٥/١٠٨، ١١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نماز کی تاخیر گوارا نہ کی، اور ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی اجازت نہیں دی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

【10】

نماز فجر کا وقت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے ریت کی گرمی (زمین کی تپش) کی شکایت کی، تو آپ نے اسے نظر انداز کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٤٥، ومصباح الزجاجة : ٢٥٤) (صحیح) (اس سند میں مالک الطائی غیر معروف ہیں، اور معاویہ بن ہشام صدوق ہیں، وہم کا شکار ہوجاتے ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس کا مطلب یہ ہوا کہ زوال (سورج ڈھلنے) کے بعد تھوڑی سی دیر کریں نہ کہ ایک مثل کے بعد پڑھیں، ایک مثل کے بعد تو ظہر کا وقت ہی نہیں رہتا، اور ٹھنڈک سے یہ مراد ہے کہ دوپہر کی دھوپ میں ذرا نرمی آجائے بالکل ٹھنڈک تو شام تک بھی نہیں ہوتی۔

【11】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنا ( یعنی ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا)۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب گرمی سخت ہوجائے تو نماز ٹھنڈی کرلو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تقرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الموا قیت ٩ (٥٣٣) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٥) ، سنن ابی داود/الصلا ة ٤ (٤٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥ (١٥٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٥ (٥٠١) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٧ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٣٨، ٢٥٦، ٢٦٦، ٣٤٨، ٣٧٧، ٣٩٣، ٤٠٠، ٤١١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/الرقاق ١١٩ (٢٨٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ظہر کو جلدی نہ پڑھنے اور باقی نماز کو اول وقت میں پڑھنے کی افضلیت کے سلسلہ میں جو روایتیں آئی ہیں، وہ باہم معارض نہیں ہیں کیونکہ اول وقت میں پڑھنے والی روایتیں عام یا مطلق ہیں، اور ظہر کو ٹھنڈا کر کے ادا کرنے والی روایت مخصوص اور مقید ہے، اور عام و خاص میں کوئی تعارض نہیں ہوتا، نہ ہی مطلق و مقید میں کوئی تعارض ہوتا ہے، رہی خباب (رض) والی روایت جو صحیح مسلم میں آئی ہے، اور جس کے الفاظ یہ ہیں : شکونا إلى النبي صلى الله عليه وسلم حرالرمضائ فلم يشكنا ہم نے رسول اللہ ﷺ سے دھوپ کی تیزی کی شکایت کی لیکن آپ نے ہماری شکایت نہ مانی تو ابراد سے قدر زائد کے مطالبہ پر محمول کی جائے گی، کیونکہ ابراد یہ ہے کہ ظہر کی نماز کو اس قدر مؤخر کیا جائے کہ دیواروں کا اتنا سایہ ہوجائے جس میں چل کر لوگ مسجد آسکیں، اور گرمی کی شدت کم ہوجائے، اور ابراد سے زائد تاخیر یہ ہے کہ رمضاء کی گرمی زائل ہوجائے، اور یہ کبھی کبھی خروج وقت کو مستلزم ہوسکتا ہے، اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کے اس مطالبہ کو قبول نہیں کیا، نیز بہت سے علماء نے اس حدیث کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ جب شدت کی گرمی ہو تو ظہر میں دیر کرنا مستحب ہے، اور اس حدیث کی شرح میں مولانا وحید الزماں حیدر آبادی فرماتے ہیں : حدیث کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جب گرمی کی شدت ہو تو اس کو نماز سے ٹھنڈا کرو، اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے، اور جہنم کی بھاپ بجھانے کے لئے نماز سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے، اور اس مطلب پر یہ تعلیل صحیح ہوجائے گی، اور یہ حدیث اگلے باب کی حدیثوں کے خلاف نہ رہے گی۔

【12】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنا ( یعنی ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا)۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب گرمی سخت ہوجائے تو ظہر کو ٹھنڈا کرلیا کرو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤ (٤٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥ (١٥٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٥ (٥٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جہنم جاڑے کے دنوں میں اندر کی طرف سانس لیتی ہے اور گرمی کے دنوں میں سانس کو باہر نکالتی ہے جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے، بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ گرمی کا تعلق سورج نکلنے سے ہے لیکن یہ علت صحیح نہیں ہے، کیونکہ اونچے مقام پر گرمی نہیں ہوتی جب کہ سورج اس سے قریب ہوتا ہے، اور اصل وجہ گرمی اور جاڑے کی یہ ہے کہ زمین گرم ہو کر اپنی سانس یعنی بخارات باہر نکالتی ہے، اس سے گرمی معلوم ہوتی ہے اور کوئی مانع اس سے نہیں ہے کہ جہنم کا ایک ٹکڑا زمین کے اندر ہو، اور جیالوجی (علم الارض) سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے اندر ہزار فٹ پر ایسی حرارت ہے کہ اگر وہاں حیوان پہنچیں تو فوراً مرجائیں، اور اس سے بھی زیادہ نیچے ایسی گرمی ہے کہ لوہا، تانبہ اور شیشہ پگھلا ہوا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو جہنم سے بچائے، آمین، نیز جمہور نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ بطور تشبیہ و تقریب کہا گیا ہے یعنی یہ گویا جہنم کی آگ کی طرح ہے، اس لئے اس کی ضرر رسانیوں سے بچو، اور احتیاط کرو، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ مغرب جلدی پڑھتے تھے، بعض روایتوں میں شفق ڈوبنے تک مغرب کو مؤخر کرنے کا جو ذکر ملتا ہے وہ بیان جواز کے لئے ہے۔

【13】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنا ( یعنی ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا)۔

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٩ (٥٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٢، ٥٣، ٥٩) (صحیح )

【14】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنا ( یعنی ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا)۔

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز دوپہر میں پڑھتے تھے، تو آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا : نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٢٦، ومصباح الزجاجة : ٢٥٥) ، و قد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٢٥٠) (صحیح )

【15】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنا ( یعنی ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا)۔

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٠٤٤، ومصباح الزجاجة : ٢٥٦) (صحیح )

【16】

نماز عصر کا وقت

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج اونچا اور زندہ ہوتا تھا، چناچہ (نماز پڑھ کر) کوئی شخص عوالی ١ ؎ میں جاتا تو سورج بلند ہی ہوتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٤ (٦٢١) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٥ (٤٠٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٧ (٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٣ (٥٥٠) ، الاعتصام ١٦ (٧٣٢٩) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (١١) ، مسند احمد (٣/٢٢٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥ (١٢٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدینہ کے جنوب مغرب میں جو بستیاں تھیں انہیں عوالی کہا جاتا تھا، ان میں سے بعض مدینہ سے دو میل بعض تین میل اور بعض آٹھ میل کی دوری پر تھیں۔

【17】

نماز عصر کا وقت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی اور دھوپ میرے کمرے میں باقی رہی، ابھی تک سایہ دیواروں پر چڑھا نہیں تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١ (٥٢٢) ، ١٣ (٥٤٦) ، الخمس ٤ (٣١٠٣) ، صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤٠٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦ (١٥٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٨ (٥٠٦) ، موطا امام مالک/ وقوت الصلاة ١ (٢) ، مسند احمد ٦/٣٧، ٨٥، ١٩٩، ٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سائے کا کمرہ کے اندر ہونا دلالت کرتا ہے کہ عصر کا وقت ہوتے ہی نماز پڑھ لی گئی تھی، اگر دیر کی جاتی تو سایہ کمرے میں نہ رہتا بلکہ دیواروں پر چڑھ جاتا۔

【18】

نماز عصر کی نگہداشت

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خندق کے دن فرمایا : اللہ ان کافروں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے، جیسے کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز وسطیٰ (عصر کی نماز) کی ادائیگی سے باز رکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٠٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ الجہاد ٩٨ (٢٩٣١) ، المغازي ٢٩ (٤١١١) ، تفسیرالبقرہ (٤٥٣٣) ، الدعوات ٥ (٦٣٩٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٧) ، ٣٦ (٦٢٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤٠٩) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٨٤) ، سنن النسائی/الصلاة ١٥ (٤٧٤) ، حم ١/٨١، ٨٢، ١١٣، ١٢٢، ١٢٦، ١٣٥، ١٣٧، ١٤٤، ١٤٦، ١٥٠، ١٥١، ١٥٢، ١٥٣، ١٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٨ (١٢٦٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو معلوم ہوا کہ عصر کی نماز بھی نماز ہے، اور قرآن شریف میں ہر فریضہ نماز پر محافظت کرنے کا حکم دیا خصوصاً نماز وسطی پر، تو عصر کی محافظت کی زیادہ تاکید نکلی، اور نماز وسطی میں علماء کا اختلاف ہے، لیکن احادیث صحیحہ سے یہی ثابت ہے کہ وہ عصر کی نماز ہے، اور یہی مختار ہے، واللہ اعلم۔

【19】

نماز عصر کی نگہداشت

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی نماز عصر فوت ہوجائے، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب سب لٹ گئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٦) ، سنن النسائی/الصلاة ١٧ (٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٩) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٤ (٥٥٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤١٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦ (١٦٠) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٥ (٢١) ، مسند احمد (٢/٨، ١٣، ٢٧، ٤٨، ٥٤، ٦٤، ٧٥، ٧٦، ١٠٢، ١٣٤، ١٤٥، ١٤٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٧ (١٢٦٧) (صحیح )

【20】

نماز عصر کی نگہداشت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ مشرکوں نے نبی اکرم ﷺ کو عصر کی نماز سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں نے ہمیں عصر کی نماز سے روکے رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٦ (٦٢٨) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن سورة البقرة ٣ (٢٩٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٤٩) وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٢، ٤٠٣، ٤٥٦) (صحیح )

【21】

نماز مغرب کا وقت

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مغرب کی نماز پڑھتے، پھر ہم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ کر واپس ہوتا، اور وہ اپنے تیر گرنے کے مقام کو دیکھ لیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٨ (٥٥٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٨ (٦٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٧٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلا ة ٦ (٤١٦) ، سنن النسائی/المواقیت ١٣ (٥٢١) ، مسند احمد (٣/٣٧٠، ٤/١٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سورج ڈوبتے ہی نماز پڑھ لیا کرتے تھے، بلاوجہ احتیاط کے نام پر تاخیر نہیں کرتے تھے، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

【22】

نماز مغرب کا وقت

سلمہ بن الاکوع (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مغرب اس وقت پڑھتے تھے جب سورج غروب ہوجاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٨ (٥٦١) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٨ (٦٣٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦ (٤١٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨ (١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ١٥، ٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦ (١٢٤٥) (صحیح )

【23】

نماز مغرب کا وقت

عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت ہمیشہ فطرت (دین اسلام) پر رہے گی، جب تک وہ مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ تارے گھنے ہوجائیں ۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا : اس حدیث کے بارے میں اہل بغداد نے اختلاف کیا، چناچہ میں اور ابوبکر الاعین عوام بن عباد بن عوام کے پاس گئے، تو انہوں نے اپنے والد کا اصل نسخہ نکالا تو اس میں یہ حدیث موجود تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٥، ومصباح الزجاجة : ٢٥٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦ (٤١٨) مسند احمد (٤/١٤٧، ٥/٤١٧، ٤٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧ (١٢٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شرح السنہ میں ہے کہ اہل علم (صحابہ اور تابعین) نے اختیار کیا ہے کہ مغرب کی نماز جلدی پڑھی جائے، اور جس حدیث میں نبی اکرم ﷺ سے مغرب کی تاخیر منقول ہے وہ بیان جواز کے لئے ہے۔

【24】

نماز عشاء کا وقت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا، تو میں انہیں عشاء کی نماز میں دیر کرنے کا حکم دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٢٥ (٤٦) ، سنن النسائی/المواقیت ١٩ (٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠ (١٦٧) ، مسند احمد (٢/٢٤٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩ (١٢٥٠) (صحیح )

【25】

نماز عشاء کا وقت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا، تو میں عشاء کی نماز تہائی یا آدھی رات تک مؤخر کرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠ (١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٠، ٤٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ راوی کا شک ہے اور دوسری حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عشاء کی تاخیر تہائی رات تک بہتر ہے، گو دوسری روایات کے مطابق عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے۔

【26】

نماز عشاء کا وقت

حمید کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) سے پوچھا گیا : کیا نبی اکرم ﷺ نے انگوٹھی بنوائی تھی ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، ایک رات آپ نے عشاء کی نماز آدھی رات کے قریب مؤخر کی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمایا : اور لوگ نماز پڑھ کر سو گئے، اور تم لوگ برابر نماز ہی میں رہے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے ، انس (رض) کہتے ہیں : گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الموا قیت ٢٠ (٥٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الموا قیت ٢٥ (٥٧٢) ، اللباس ٤٨ (٥٨٦٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٠) ، حم ٣/١٨٢، ١٨٩، ٢٠٠، ٢٦٧) (صحیح ) اس سند سے بھی اوپر والی حدیث کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ سند مشہور حسن سلمان کے نسخہ میں موجود نہیں ہے، بلکہ یہ علی بن حسن عبدالحمید کے نسخہ میں صفحہ نمبر ٣٣٣ پر موجود ہے )

【27】

نماز عشاء کا وقت

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی، پھر آدھی رات تک (حجرہ سے) باہر نہ آئے، پھر نکلے اور لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور فرمایا : اور لوگ نماز پڑھ کر سو گئے، اور تم برابر نماز ہی میں رہے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے، اگر مجھے کمزوروں اور بیماروں کا خیال نہ ہوتا تو میں اس نماز کو آدھی رات تک مؤخر کرنا پسند کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧ (٤٢٢) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٠ (٥٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٣١٤) (صحیح)

【28】

ابر میں نماز جلدی پڑھنا

بریدہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بادل کے ایام میں نماز جلدی پڑھ لیا کرو، کیونکہ جس کی نماز عصر فوت ہوگئی، اس کا عمل برباد ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦١) (ضعیف) (سند میں یحییٰ بن ابی کثیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن من فاتته صلاة العصر حبط عمله کا جملہ صحیح بخاری میں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس دن کے اعمال کا پورا ثواب اس کو نہیں ملے گا کیونکہ عصر کی نماز ہی ان اعمال میں ایک بڑا عمل تھا، اسی کو اس نے برباد کردیا، یا اس دن کے کل اعمال لغو اور بیکار ہوجائیں گے، اور اس کو مطلق ثواب نہیں ملے گا، یا عمل سے مراد وہ عمل ہے جس میں وہ مصروف رہا، اور اس کی وجہ سے نماز قضا کی، مطلب یہ ہے کہ اس عمل میں برکت، اور منفعت نہ ہوگی، بلکہ نحوست پیدا ہوگی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بادل کے دن نماز میں جلدی کرنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور خبر نہ ہو، بعضوں نے کہا کہ بادل کے دن عصر اور عشاء میں جلدی کرے، واللہ اعلم۔

【29】

نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو نماز سے غافل ہوجائے، یا سو جائے تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب یاد آجائے تو پڑھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٥٢ (٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الموا قیت ٣٧ (٥٩٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٤٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧ (١٧٨) ، مسند احمد (٣/١٠٠، ٢٤٣، ٢٦٦، ٢٦٩، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٦ (١٢٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے وہی اس کا وقت ہے یعنی جس وقت جاگ کر اٹھے یا جب نماز یاد آجائے اسی وقت پڑھ لے، اگرچہ اس وقت سورج نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو یا ٹھیک دوپہر کا وقت ہو، یا فجر یا عصر کے بعد یاد آئے، کیونکہ یہ حدیث عام ہے، اور اس سے ان احادیث کی تخصیص ہوگئی جس میں ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، یہی قول امام احمد کا ہے، اور بعضوں نے کہا نماز پڑھے جب تک سورج نہ نکلے یا ڈوب نہ جائے، اور یہ قول حنفیہ کا ہے، کیونکہ بخاری نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جب سورج کا کنارہ نکلے تو نماز میں دیر کرو، یہاں تک کہ سورج اونچا ہوجائے، اور جب سورج کا کنارہ غائب ہوجائے، تو نماز میں دیر کرو یہاں تک کہ بالکل غائب ہوجائے ۔

【30】

نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے، تو جب یاد آئے پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٤٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧ (١٧٨) ، سنن النسائی/المواقیت ٥١ (٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٠، ٢٤٣، ٢٦٧، ٢٦٩، ٢٨٢) (صحیح )

【31】

نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔

ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب نیند آنے لگی تو رات کے آخری حصہ میں آرام کے لیے اتر گئے، اور بلال (رض) سے کہا : آج رات ہماری نگرانی کرو ، چناچہ بلال (رض) کو جتنی توفیق ہوئی اتنی دیر نماز پڑھتے رہے، اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سوتے رہے، جب فجر کا وقت قریب ہوا تو بلال (رض) نے مشرق کی جانب منہ کر کے اپنی سواری پر ٹیک لگا لی، اسی ٹیک لگانے کی حالت میں ان کی آنکھ لگ گئی، نہ تو وہ جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اور کوئی، یہاں تک کہ انہیں دھوپ لگی تو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے، اور گھبرا کر فرمایا : بلال !، بلال (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جس نے آپ کی جان کو روکے رکھا اسی نے میری جان کو روک لیا ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : آگے چلو ، صحابہ کرام اپنی سواریوں کو لے کر کچھ آگے بڑھے، پھر رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی، آپ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا : جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : أقم الصلاة لذكري نماز اس وقت قائم کرو جب یاد آجائے (سورة : طه : ١٤ ) ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن شہاب اس کو لذكري کے بجائے للذکرى پڑھتے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/ التفسیر طہ ٢١ (٣١٦٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٣ (٦٢٠) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٦ (٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میں بھی نیند کی گرفت میں آگیا اور مجھ پر نیند بھی طاری ہوگئی۔ ٢ ؎: مشہور قراءت أقم الصلاة لذكري (طہٰ : ١٤ ) ہی ہے، مذکورہ جگہ سے سواریوں کو ہانک لے جانے اور کچھ دور پر جا کر نماز پڑھنے کی تأویل میں علماء کے مختلف اقوال ہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا اس وجہ سے کیا تھا تاکہ سورج اوپر چڑھ آئے اور وہ وقت ختم ہوجائے جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ان کے نزدیک چھوٹی ہوئی نماز بھی ان اوقات میں پڑھنی جائز نہیں، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ چھوٹی ہوئی نماز کی قضا ہر وقت جائز ہے، ممنوع اوقات میں نماز ادا کرنے کی ممانعت نوافل کے ساتھ خاص ہے، مالک، اوزاعی، شافعی اور احمد بن حنبل وغیرہم ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے، ان لوگوں کے نزدیک اس کی صحیح تاویل یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایسی جگہ نماز پڑھنا نہیں چاہتے تھے جہاں لوگوں کو غفلت و نسیان لاحق ہوا ہو، ابوداؤد کی ایک روایت میں تحولوا عن مکانکم الذي أصابتکم فيه الغفلة اس جگہ سے ہٹ جاؤ جہاں پر تم غفلت کا شکار ہوگئے تھے فرما کر نبی اکرم ﷺ نے خود اس کی وجہ بیان فرما دی ہے۔

【32】

نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔

ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ لوگوں نے نیند کی وجہ سے اپنی کوتاہی کا ذکر چھیڑا تو انہوں نے کہا : لوگ سو گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نیند میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی بیداری کی حالت میں ہے، لہٰذا جب کوئی شخص نماز بھول جائے یا اس سے سو جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اور اگلے روز اس کے وقت میں پڑھ لے ١ ؎۔ عبداللہ بن رباح کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے عمران بن حصین (رض) نے سنا تو کہا : نوجوان ! ذرا غور کرو، تم کیسے حدیث بیان کر رہے ہو ؟ اس حدیث کے وقت میں خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا، وہ کہتے ہیں کہ عمران بن حصین (رض) نے اس میں سے کسی بھی بات کا انکار نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦ (١٧٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٣ (٦١٨) ، مسند احمد (٥/٣٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب یاد آئے یا سونے کے بعد جاگتے ہی اسی وقت نماز پڑھ لے، اور دوسرے دن کوشش کرے کہ نماز کو وقت ہی پر پڑھے، نماز سے سستی کی عادت نہ ڈالے، اگرچہ ظاہر لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ جاگنے کے بعد پڑھے، اور دوسرے دن اس کے وقت میں بھی پڑھے، لیکن اس کا کوئی قائل نہیں کہ نماز دو بار پڑھی جائے، نیز جو معنی ہم نے بتایا ہے اس کی تائید سنن دار قطنی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔

【33】

عذر اور مجبوری میں نماز کا وقت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے سورج کے ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے عصر کی نماز پا لی، اور جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر کی نماز پا لی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٨ (٥٧٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : (١٢٢٠٦، ١٣٦٣٦، ١٤٢١٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤١٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣ (١٨٦) ، سنن النسائی/المواقیت ١٠ (٥١٨) ، ٢٨ (٥٥١) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٥) ، مسند احمد (٢/٢٥٤، ٢٦٠، ٢٨٢، ٣٤٨، ٣٩٩، ٤٦٢، ٤٧٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوگیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضا نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہوگی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی وہ کہتے ہیں کہ اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہوگیا، اور وہ نماز اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی یا کافر اسلام لے آیا کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہوگئی، لیکن ابوداود کی حدیث رقم ( ٥١٧ ) سے جس میں فليتم صلاته کے الفاظ آئے ہیں اس تاویل کی نفی ہو رہی ہے۔

【34】

عذر اور مجبوری میں نماز کا وقت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے فجر کی نماز پا لی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے عصر کی نماز پا لی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٧ (٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٨) (صحیح )

【35】

عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا منع ہے۔

ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے، اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١) ، ١٣ (٥٤٧) ، ٢٣ (٥٦٨) ، ٣٨ (٥٩٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١ (١٦٨) ، ٢٠ (٥٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣ (٣٩٨) ، الأدب ٢٧ (٤٨٤٩) ، سنن النسائی/المواقیت ١ (٤٩٦) ، ١٦ (٥٢٦) ، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٩ (١٤٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو، اور نماز کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں، نیز بات چیت سے مراد لایعنی بات چیت ہے جس سے دنیا اور آخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔

【36】

عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا منع ہے۔

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء سے پہلے نہ سوئے، اور نہ اس کے بعد (بلا ضرورت) بات چیت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٧، ومصباح الزجاجة : ٢٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیکار اور غیر ضروری باتیں عشاء کے بعد کرنی مکروہ ہے، اور کراہت کی علت یہ ہے کہ شاید رات زیادہ گزر جائے اور تہجد کے لئے آنکھ نہ کھلے، یا فجر کی نماز اول وقت اور باجماعت ادا نہ ہو سکے، اور یہ وجہ بھی ہے کہ سوتے میں گویا آدمی مرجاتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ خاتمہ عبادت پر ہو، نہ دنیا کی باتوں پر، اگر دین یا دنیا کی ضروری باتیں ہوں تو ان کا کرنا جائز ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عشاء کے بعد مسلمانوں کے کاموں کے متعلق ابوبکر و عمر (رض) سے باتیں کیں۔

【37】

عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا منع ہے۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء کے بعد بات چیت پر ہماری مذمت فرمائی یعنی اس پر ہمیں جھڑکا اور ڈانٹا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٨٦ ومصباح الزجاجة : ٧٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩، ٤١٠) (صحیح) (ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٤٣٥ ) وضاحت : ١ ؎: مشہور حسن کے نسخہ میں زجرنا عنه ہے۔

【38】

نماز عشاء کو عتمہ کہنے سے ممانعت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اعراب (دیہاتی لوگ) تمہاری نماز کے نام میں تم پر غالب نہ آجائیں، اس لیے کہ (کتاب اللہ میں) اس کا نام عشاء ہے، اور یہ لوگ اس وقت اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے اسے عتمہ کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٤) ، سنن ابی داود/الأدب ٨٦ (٤٩٨٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٢ (٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠، ١٩، ٤٩، ١٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عرب کے لوگ سورج ڈوبنے کے بعد جب اندھیرا ہوجاتا تو اپنے جانوروں کا دودھ دوہتے تھے، تاکہ مانگنے والے محتاج دیکھ نہ سکیں اور ان کو دودھ نہ دینا پڑے، پھر وہی لوگ عشاء کی نماز کو عتمہ کہنے لگے، کیونکہ اس کا وقت یہی تھا، نبی اکرم ﷺ نے اس نام کو مکروہ جانا، کیونکہ محتاجوں کو نہ دینا، اور صدقے کے ڈر سے مال کو چھپانا، بخل اور ایک بری صفت ہے، اور نماز ایک عمدہ عبادت ہے، لہذا اس کا یہ نام بالکل غیر موزوں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی اس نماز کو عشاء کہا ہے نہ کہ عتمہ، پس وہی نام بہتر ہے اس پر بھی علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے، یعنی اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ عتمہ کا لفظ نہ استعمال کیا جائے، اور اس کو اصطلاحی نام عشاء سے پکارا جائے، بعض حدیثوں میں خود عتمہ کا لفظ عشاء کی نماز کے لئے آیا ہے۔

【39】

نماز عشاء کو عتمہ کہنے سے ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اعراب (بدوی) تمہاری نماز کے نام کے سلسلے میں تم پر غالب نہ آجائیں ، ابن حرملہ نے یہ اضافہ کیا ہے : اس کا نام عشاء ہے، اور یہ اعرابی اسے اس وقت اپنی اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے عتمه کہتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٥، ومصباح الزجاجة : ٧٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٣، ٤٣٨) (حسن صحیح )